ایمان والو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم اُن سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو، دراں حالیکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے، وہ اُس کا انکار کر چکے ہیں۔ وہ خدا کے رسول کو اور تمھیں محض اِس لیے وطن سے نکال دیتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو۔ تم اُنھیں رازدارانہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہوئے اگر میری راہ میں جہاد کے لیے اور میری رضا کی طلب میں نکلتے ہو، دراں حالیکہ میں جانتا ہوں جو تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو (تو سوچو کہ کیا کرتے ہو)۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تم میں سے جو یہ کرتے ہیں، وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔
یہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن روے سخن اُنھی مسلمانوں کی طرف ہے جو ہجرت کرکے مدینہ آگئے تھے، مگر اپنی طبعی کمزوریوں اور مصلحت پرستی کے باعث مشرکین مکہ سے اپنے سابق خاندانی اور عزیزانہ تعلقات ختم نہیں کر سکے تھے۔ قرآن نے اِسے ایمان کے منافی قرار دیا اور فرمایا کہ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہو تو یہ تعلقات اب ختم کر دو، اِس لیے کہ یہ لوگ صرف منکر نہیں ہیں، بلکہ اِس سے آگے بڑھ کر میرے اور تمھارے دشمن بن چکے ہیں اور تمھارے خلاف برسر جنگ ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’تُلْقُوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...(یہ) اُسی طرح کا اسلوب بیان ہے، جس طرح ’وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ‘* ہے۔ اِس طرح کے کام نامہ و پیام اور وسائل و وسائط سے انجام پاتے ہیں، اِس وجہ سے تعبیر مطلب کے لیے یہ اسلوب نہایت موزوں ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۸/ ۳۲۴)
یہ حال کا صیغہ اِس لیے اختیار فرمایا ہے کہ صورت حال بالکل نگاہوں کے سامنے آجائے۔ چنانچہ حال یہاں تصویر حال کا فائدہ دے رہا ہے۔
یعنی جو تمھارا رب ہے، تم نے اُسی کا حق پہچانا ہے، لیکن تمھاری یہ حق شناسی تمھارے ساتھ اُن کی دشمنی کا باعث بن گئی ہے۔
اِس جملے میں ’اِنْ کُنْتُمْ‘ کا جواب محذوف ہے۔ یہ آگے ’وَمَنْ یَّفْعَلْہُ‘ سے واضح ہو جاتا ہے جو اِسی پر عطف کیا گیا ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ خدا کی رضا کے لیے اور اُس کی راہ میں جہاد کی غرض سے نکلنا ہے تو خدا کے اِن دشمنوں سے موالات کی خواہش دلوں میں لیے ہوئے اور اِن سے نامہ و پیام کرتے ہوئے نہیں نکل سکتے۔ یہ موقع موالات کا نہیں، دشمنی کے اظہار کا ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد اور اُس کی رضا طلبی اوراللہ و رسول کے دشمنوں کے ساتھ دوستی دو بالکل متضاد چیزیں ہیں، اِس لیے یک سو ہو جاؤ اور اُن کے ساتھ دوستی کے خیالات ذہن سے نکال دو۔ تمھارا رویہ یہی رہا تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کا راستہ چھوڑ کر شیطان کے راستے پر چل پڑے ہو۔
_____
* البقرہ ۲: ۱۹۵۔ ’’اور اپنے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اگر میری راہ جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا جوئی کی خاطر ( وطن جھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ مت اپنے رب، اللہ پر ایمان لاؤ۔ تم چپھا کر ان کو دوستانہ پیغام بھجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقینا راہ راست سے بھٹک گیا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز ہی میں اس واقعہ کی تفصیلات بیان کردی جائیں جس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تاکہ آگے کا مضمون سمجھنے میں آسانی ہو۔ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے اور ابن عباس، مجاہد، قتادہ، غزوہ بن زبیر وغیرہ حضرات کی متفقہ روایت بھی یہی ہے کہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا تھا جب مشرکین مکہ کے نام حضرت حاطب ابی بُلْتَعہ کا خط پکڑا گیا تھا۔
قصہ یہ ہے کہ جب قریش کے لوگوں نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کردیں، مگر چند مخصوص صحابہ کے سوا کسی کو یہ نہ بتایا کہ آپ کس مہم پر جانا چاہتے ہیں۔ اتفاق سے اسی زمانے میں مکہ معظمہ سے ایک عورت آئی جو پہلے بنی عبدالمطلب کی لونڈی تھی اور پھر آزاد ہو کر گانے بجانے کا کام کرتی تھی۔ اس نے آ کر حضور سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور کچھ مالی مدد مانگی۔ آپ نے بنی عبدالمطلب اور بنی المطلب سے اپیل کر کے اس کی حاجت پوری کردی۔ جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعہ اس سے ملے اور اس کو چپکے سے ایک خط بعض سرداران مکہ کے نام دیا اور دس دینار روپے دیے تاکہ وہ راز فاش نہ کرے اور چھپا کر یہ خط ان لوگوں تک پہنچا دے۔ ابھی وہ مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پر مطلع فرما دیا۔ آپ نے فوراً حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود (رضی اللہ عنہم) کو اس کے پیچھے بھیجا اور حکم دیا کہ تیزی سے جاؤ، روضہ خاخ کے مقام پر (مدینہ سے 12 میل بجانب مکہ) تم کو ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہے۔ جس طرح بھی ہو اس سے وہ خط حاصل کرو۔ اگر وہ دے دے تو اسے چھوڑ دینا۔ نہ دے تو اس کو قتل کردینا۔ یہ حضرات جب اس مقام پر پہنچے تو عورت وہاں موجود تھی۔ انہوں نے اس سے خط مانگا۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ انہوں نے تلاشی لی۔ مگر کوئی خط نہ ملا۔ آخر کو انہوں نے کہا خط ہمارے حوالے کر ورنہ ہم برہنہ کر کے تیری تلاشی لیں گے۔ جب اس نے دیکھا کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکال کر انہیں دے دیا اور یہ اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آئے۔ کھول کر پڑھا گیا تو اس میں قریش کے لوگوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر چڑھائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ (مختلف روایات میں خط کے الفاظ مختلف نقل ہوئے ہیں۔ مگر مدعا سب کا یہی ہے ) ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب سے پوچھا، یہ کیا حرکت ہے ؟ انہوں نے عرض کیا آپ میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں۔ میں نے جو کچھ کیا ہے اس بنا پر نہیں کیا ہے کہ میں کافر و مرتد ہوگیا ہوں اور اسلام کے بعد اب کفر کو پسند کرنے لگا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے اقرباء مکہ میں مقیم ہیں۔ میں قریش کے قبیلہ کا آدمی نہیں ہوں، بلکہ بعض قریشیوں کی سرپرستی میں وہاں آباد ہوا ہوں مہاجرین میں سے دوسرے جن لوگوں کے اہل و عیال مکہ میں ہیں ان کو تو ان کا قبیلہ بچا لے گا۔ مگر میرا کوئی قبیلہ وہاں نہیں ہے جسے کوئی بچانے والا ہو۔ اس لیے میں نے یہ خط اس خیال سے بھیجا تھا کہ قریش والوں پر میرا ایک احسان رہے جس کا لحاظ کر کے وہ میرے بال بچوں کو نہ چھیڑیں۔ (حضرت حاطب کے بیٹے عبدالرحمٰن کی روایت یہ ہے کہ اس وقت حضرت حاطب کے بچے اور بھائی مکہ میں تھے، اور خود حضرت حاطب کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ماں بھی وہیں تھیں ) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاطب کی یہ بات سن کر حاضرین سے فرمایا : قَدْ صدقکم، ” حاطب نے تم سے سچی بات کہی ہے “، یعنی ان کے اس فعل کا اصل محرک یہی تھا، اسلام سے انحراف اور کفر کی حمایت کا جذبہ اس کا محرک نہ تھا۔ حضرت عمر نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں، اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس شخص نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ تمہیں کیا خبر، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کیا۔ ” (اس آخری فقرے کے الفاظ مختلف روایات میں مختلف ہیں۔ کسی میں ہے قد غفرت لکم، میں نے تمہاری مغفرت کردی۔ کسی میں ہے انی غافر لکم، میں تمہیں بخش دینے والا ہوں۔ اور کسی میں ہے ساغفر لکم۔ میں تمہیں بخش دوں گا) ۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رو دیے اور انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ ان کثیر التعداد روایات کا خلاصہ ہے جو متعدد معتبر سندوں سے بخاری، مسلم، احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن جریر طبری، ابن ہشام، ابن حبان اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مستند روایت وہ ہے جو خود حضرت علی کی زبان سے ان کے کاتب (سیکرٹری) عبید اللہ بن ابی رافع نے سنی اور ان سے حضرت علی کے پوتے حسن بن محمد بن حنفیہ نے سن کر بعد میں راویوں تک پہنچائی۔ ان میں سے کسی روایت میں بھی یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حاطب کا یہ عذر قبول کر کے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو اگر تم میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا ۔
کفار مکہ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا اہل مکہ نے اس کی خلاف ورزی کی اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مسلمانوں کو خفیہ طور پر لڑائی کی تیاری کا حکم دے دیا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) ایک مہاجر بدری صحابی تھے جن کی قریش کے ساتھ کوئی رشتے داری نہیں تھی لیکن ان کے بیوی بچے مکے میں ہی تھے انہوں نے سوچا کہ میں قریش مکہ کو آپ کی تیاری کی اطلاع کردوں تاکہ اس احسان کے بدلے وہ میرے بال بچوں کا خیال رکھیں چنانچہ انہوں نے ایک عورت کے ذریعے سے یہ پیغام تحریری طور پر اہل مکہ کی طرف روانہ کردیا جس کی اطلاع بذریعہ وحی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کردی گئی چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی حضرت مقداد اور حضرت زبیر (رض) کو فرمایا کہ جاؤ روضہ خاخ پر ایک عورت ہوگی جو مکہ جا رہی ہوگی اس کے پاس ایک رقعہ ہے وہ لے آؤ چنانچہ وہ حضرات گئے اور اس سے یہ رقعہ لے آئے جو اس نے سر کے بالوں میں چھپارکھا تھا آپ نے حضرت حاطب رضی اللہ سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے یہ کام کفر وارتداد کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دیگر مہاجرین کے رشتے دار مکے میں موجود ہیں جو ان کے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں میرا وہاں کوئی رشتے دار نہیں ہے تو میں نے یہ سوچا کہ میں اہل مکہ کو کچھ اطلاع کردوں تاکہ وہ میرے احسان مند رہیں اور میرے بچوں کی حفاظت کریں آپ نے ان کی سچائی کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہا تاہم اللہ نے تنبیہ کے طور پر یہ آیات نازل فرما دیں تاکہ آئندہ کوئی مومن کسی کافر کے ساتھ اس طرح کا تعلق مودت قائم نہ کرے صحیح بخاری۔
مطلب ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبریں ان تک پہنچا کر ان سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہتے ہو ؟
جب ان کا تمہارے ساتھ اور حق کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو تمہارے لئے کیا یہ مناسب ہے کہ تم ان سے محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرو ؟
یہ جواب شرط، جو محذوف ہے، کا ترجمہ ہے۔
یعنی میرے اور اپنے دشمنوں سے محبت کا تعلق جوڑنا اور انہیں خفیہ نام و پیام بھیجنا، یہ گمراہی کا راستہ ہے، جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔
اگر وہ تم کو پا جائیں تو وہ تمہارے دشمن بن جائیں گے اور تم پر دست درازی بھی کریں گے اور زبان درازی بھی اور چاہیں گے کہ تم کافر ہو جاؤ۔
کفار کے عناد کا حال: یعنی تم تو ان سے دوستی کے خواہش مند ہو لیکن ان کے دلوں میں تمہارے خلاف ایسا عناد بھرا ہوا ہے کہ اگر وہ تم پر کہیں قابو پا گئے تو نہ دست درازی سے باز رہیں گے نہ زبان درازی سے بلکہ ان کی پوری کوشش یہ ہو گی کہ تمہیں مرتد کر کے چھوڑیں۔ یہی بات سورۂ توبہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
’وَإِنْ یَظْہَرُوْا عَلَیْْکُمْ لاَ یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً‘ (التوبہ ۹: ۸)
(اگر وہ تم پر قابو پا گئے تو پھر تمہارے معاملہ میں نہ وہ قرابت کا پاس کریں گے نہ کسی عہد کا)۔
مطلب یہ ہے کہ تمہارے ساتھ ان کی دشمنی من حیث الجماعت ہے اور اس میں وہ اتنے سخت ہیں کہ کسی رشتہ و قرابت یا کسی عہد و پیمان کا لحاظ کرنے والے نہیں ہیں تو ان سے کسی نیکی کی توقع نہ رکھو بلکہ تمہارے لیے بھی صحیح رویہ یہی ہے کہ ان سے موالات کی ہر خواہش سے دست بردار ہو جاؤ۔
(اُن کا رویہ تو یہ ہے کہ) اگر تمھیں پا جائیں تو تمھارے ساتھ دشمنی کریں گے اور تم پر اپنے ہاتھ چلائیں گے اور اپنی زبانیں بھی ، اور یہی چاہیں گے کہ تم بھی کافر ہو جاؤ۔
یعنی تمھارے ساتھ اپنی دشمنی میں ایسے سخت ہیں کہ تم پر قابو پا لیں تو کسی رشتہ و قرابت اور عہد و پیمان کا لحاظ نہ کریں گے اور جو آزار ممکن ہو گا، تمھیں لازماً پہنچائیں گے۔
ان کا رویہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پاجائیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمہیں آزار دیں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ ۔
یہاں تک جو ارشاد ہوا ہے، اور آگے اسی سلسلے میں جو کچھ آ رہا ہے، اگرچہ اس کے نزول کا موقع حضرت حاطب ہی کا واقعہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے تنہا انہی کے مقدمہ پر کلام فرمانے کے بجائے تمام اہل ایمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ درس دیا ہے کہ کفر و اسلام کا جہاں مقابلہ ہو، اور جہاں کچھ لوگ اہل ایمان سے ان کے مسلمان ہونے کی بنا پر دشمنی کر رہے ہوں، وہاں کسی شخص کا کسی غرض اور کسی مصلحت سے بھی کوئی ایسا کام کرنا جس سے اسلام کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو اور کفر و کفار کے مفاد کی خدمت ہوتی ہو، ایمان کے منافی حرکت ہے۔ کوئی شخص اگر اسلام کی بد خواہی کے جذبہ سے بالکل خالی ہو اور بد نیتی سے نہیں بلکہ محض اپنی کسی شدید ترین ذاتی مصلحت کی خاطر ہی یہ کام کرے، پھر بھی یہ فعل کسی مومن کے کرنے کا نہیں ہے، اور جس نے بھی یہ کام کیا وہ راہ راست سے بھٹکا گیا۔
اگر وہ تم پر کہیں قابو پالیں تو وہ تمہارے (کھلے) دشمن ہوجائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور (دل سے) چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ
یعنی تمہارے خلاف ان کے دلوں میں تو اس طرح بغض وعناد ہے اور تم ہو کہ ان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہو۔
تمہارے رشتے ناتے اور تمہارے آل و اولاد قیامت کے دن تمہارے کچھ بھی کام آنے والے نہیں بنیں گے۔ اس دن اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
قیامت میں رشتے کام نہیں آئیں گے: ’ارحام‘ یہاں ’قرابات‘ یعنی رشتے ناتے کے مفہوم میں ہے۔ یہ تنبیہ ہے کہ جو لوگ دینی تقاضوں کے مقابل میں اپنے رشتوں ناتوں کو زیادہ اہمیت دیں گے وہ یاد رکھیں کہ یہ چیزیں قیامت میں کام آنے والی نہیں ہیں۔ اس دن اللہ تعالیٰ اس طرح کے تمام رشتہ داروں کے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ اس دن کی تصویر یوں کھینچی گئی ہے:
وَلَا یَسْأَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا ۵ یُبَصَّرُوْنَہُمْ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ ۵ وَصَاحِبَتِہِ وَأَخِیْہِ ۵ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْویْہِ ۵ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنجِیْہِ (المعارج ۷۰: ۱۰-۱۴)
’’اور اس دن کوئی دوست کسی دوست کا پرسان حال نہیں ہو گا۔ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم کی تمنا یہ ہو گی کاش! اس دن کے عذاب سے وہ اپنے بیٹوں، اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے اس خاندان کو جو اس کی پناہ گاہ رہا ہے اور تمام اہل زمین کو فدیہ میں دے کر اپنے کو بچا لے۔‘‘
یہی حقیقت سورۂ عبس میں یوں واضح فرمائی گئی ہے:
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیْہِ ۵ وَأُمِّہِ وَأَبِیْہِ ۵ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیْہِ (عبس ۸۰: ۳۴-۳۶)
’’اس دن کو یاد رکھو جس دن آدمی اپنے بھائی، اپنے ماں باپ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا۔‘‘
اسی قسم کے مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہی تنبیہ سورۂ توبہ میں یوں فرمائی گئی ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا آبَآءَ کُمْ وَإِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَآءَ إَنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الإِیْمَانِ وَمَن یَتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمْ فَأُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ ۵ قُلْ إِنۡ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُوْا حَتَٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہِ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ (التوبہ ۹: ۲۳-۲۴)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں اور جو تم میں سے ان کو دوست بنائیں گے تو وہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔ کہہ دو، اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، تمہارا وہ مال جو تم نے کمایا، وہ کاروبار جس کی کساد بازاری کا تمہیں اندیشہ اور اور وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں۔ تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ نافرمانوں کو راہ یاب نہیں کرے گا۔‘‘
آیت زیربحث میں ’یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ اس خوب صورتی سے بیچ میں آیا ہے کہ وہ آگے اور پیچھے آنے والے دونوں فعلوں کا ظرف بن گیا ہے۔
’وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘۔ یہ ایک دوسری تنبیہ ہے کہ اس مغالطہ میں نہ رہو کہ جو کچھ تم چھپا کر کرنے کی کوشش کر رہے ہو یہ اللہ سے بھی چھپا رہے گا۔ اللہ سے کوئی چیز بھی چھپی نہیں رہتی۔ تمہارا ہر عمل اس کی نگاہوں میں ہے۔
(اِن سے بچو، اِس لیے کہ) تمھاری یہ قرابتیں اور تمھارے آل و اولاد ہرگز تمھارے کام نہ آئیں گے، قیامت کے دن، اللہ تمھارے درمیان جدائی ڈال دے گا، اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔
یہ لفظ اِس خوبصورتی کے ساتھ بیچ میں آیا ہے کہ آگے اور پیچھے آنے والے دونوں فعلوں کا ظرف بن گیا ہے۔
قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد ۔ اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا، اور و ہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے ۔
یہ اشارہ ہے حضرت حاطب کی طرف انہوں نے اپنی ماں، اپنے بھائی، اور اپنی اولاد کو جنگ کے موقع پر دشمنوں کی ایذا سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے جن کی خاطر اتنے بڑے قصور کا ارتکاب کر ڈالا وہ قیامت کے روز تمہیں بچانے کے لیے نہیں آئیں گے۔ کسی کی یہ ہمت نہیں ہوگی کہ خدا کی عدالت میں آگے بڑھ کر یہ کہے کہ ہمارے باپ یا ہمارے بیٹے یا ہمارے بھائی نے ہماری خاطر یہ گناہ کیا تھا اس لیے اس کے بدلے کی سزا ہمیں دے دی جائے۔ اس وقت ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہوگی، اپنے اعمال ہی کے خمیازے سے بچنے کا سوال ہر شخص کے لیے بلائے جان بن رہا ہوگا، کجا کہ کوئی کسی دوسرے کے حصے کا خمیازہ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار ہو۔ یہی بات ہے جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زیادہ صریح الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا ” اس روز مجرم یہ چاہے گا کہ اپنی اولاد، اپنی بیوی، اپنے بھائی، اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگر فدیے میں دے کر عذاب سے چھوٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے ” (المعارج، آیات 11 ۔ 14) ۔ دوسری جگہ فرمایا ” اس روز آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ہر ایک اپنے ہی حال میں ایسا گرفتار ہوگا جس میں اسے کسی کا ہوش نہ ہوگا ” (عبس، 34 ۔ 37) ۔
یعنی دنیا کے تمام رشتے، تعلقات، اور رابطے وہاں توڑ دیئے جائیں گے۔ جتھوں اور پارٹیوں اور خاندانوں کی شکل میں لوگوں کا محاسبہ نہ ہوگا، بلکہ ایک ایک فرد اپنی ذاتی حیثیت میں پیش ہوگا، اور ہر ایک کو اپنا ہی حساب دینا پڑے گا۔ اس لیے دنیا میں کسی شخص کو بھی کسی قرابت یا دوستی یا جتھہ بندی کی خاطر کوئی ناجائز کام نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اپنے کیے کی سزا اس کو خود ہی بھگتنی ہوگی، اس کی ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شریک نہ ہوگا۔
حضرت حاطب کے اس مقدمہ سے جس کی تفصیل اوپر ہم نے نقل کی ہے، اور ان آیات سے جو اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، حسب ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :
(1) قطع نظر اس سے کہ کرنے والے نے کس نیت سے کیا، بجائے خود یہ فعل صریحاً ایک جاسوسی کا فعل تھا، اور جاسوسی بھی بڑے نازک موقع پر سخت خطرناک نوعیت کی تھی کہ حملے سے پہلے بیخبر دشمن کو خبردار کیا گیا تھا۔ پھر معاملہ شبہ کا بھی نہ تھا بلکہ ملزم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط پکڑ لیا گیا تھا جس کے بعد کسی ثبوت کی حاجت نہ تھی۔ حالات بھی زمانہ امن کے نہیں، زمانہ جنگ کے تھے۔ مگر اس کے باوجود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب کو صفائی کا موقع دیے بغیر نظر بند نہیں کردیا۔ اور صفائی کا موقع بھی ان کا بند کمرے میں نہیں بلکہ کھلی عدالت میں برسر عام دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسے قوانین و قواعد و ضوابط کی کوئی گنجائش نہیں ہے جن کی رو سے کسی حالت میں حکام کو یہ حق پہنچتا ہو کہ کسی شخص کو محض اپنے علم یا شبہ کی بنا پر قید کردیں۔ اور بند کمرے میں خفیہ طریقے پر مقدمہ چلانے کا طریقہ بھی اسلام میں نہیں ہے۔
(2) حضرت حاطب نہ صرف مہاجرین میں سے تھے بلکہ اہل بدر میں شامل تھے جنہیں صحابہ کے اندر بھی ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ مگر اس کے باوجود ان سے اتنا بڑا جرم سرزد ہوگیا، اور اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس شدت کے ساتھ گرفت فرمائی جسے اوپر کی آیات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ احادیث میں بھی ان کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور مفسرین میں سے بھی شاید ہی کوئی ہو جس نے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔ یہ من جملہ ان بہت سے شواہد کے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ بےخطا نہیں تھے، ان سے بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر خطائیں سرزد ہو سکتی تھیں اور عملاً ہوئیں، اور ان کے احترام کی جو تعلیم اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے کم از کم اس کا تقاضا ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان میں سے اگر کوئی غلط کام سرزد ہوا تو اس کا ذکر نہ کیا جائے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اس کا تقاضا یہ ہوتا تو نہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتا اور نہ صحابہ کرام اور تابعین اور محدثین و مفسرین اپنی روایات میں ان کی تفصیلات بیان کرتے۔
(3) حضرت حاطب کے مقدمہ میں حضرت عمر نے جس رائے کا اظہار کیا وہ ان کے فعل کی ظاہری صورت کے لحاظ سے تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ فعل ایسا ہے جو صریحاً اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نوعیت رکھتا ہے، اس لیے حاطب منافق اور واجب القتل ہیں۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس نقطہ نظر کو رد فرما دیا اور اسلامی شریعت کا اصل نقطہ نظر یہ بتایا کہ محض فعل کی ظاہری شکل پر ہی فیصلہ نہیں کردینا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس شخص سے وہ صادر ہوا ہے اس کی پچھلی زندگی اور مجموعی سیرت کیا شہادت دیتی ہے اور قرائن کس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ فعل کی شکل بلاشبہ جاسوسی کی ہے۔ مگر کیا اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ فاعل کا آج تک کا رویہ یہی بتا رہا ہے کہ یہ شخص یہ کام اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نیت سے کرسکتا تھا ؟ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ایمان کی خاطر ہجرت کی۔ کیا خلوص کے بغیر وہ اتنی بڑی قربانی کرسکتا تھا ؟ یا اس کے بارے میں یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے دل میں کفار قریش کی طرف کوئی ادنیٰ سا میلان بھی موجود ہے ؟ وہ اپنے فعل کی صاف صاف وجہ یہ بتا رہا ہے کہ مکہ میں اس کے بال بچوں کو خاندان اور قبیلے کا وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل ہے، اس لیے اس نے ان کو جنگ کے موقع پر کفار کی ایذا رسانی سے بچانے کی خاطر یہ کام کیا ہے۔ حقائق اس کی تائید کرتے ہیں کہ فی الواقع مکہ میں اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ واقعی اس کے بال بچے وہاں موجود ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اس بیان کو جھوٹا سمجھا جائے اور یہ رائے قائم کی جائے کہ اس کے اس فعل کا اصل محرک یہ نہ تھا بلکہ خیانت ہی کا ارادہ اس کے اندر پایا جاتا تھا۔ بلاشبہ ایک مخلص مسلمان کے لیے نیک نیتی سے بھی یہ حرکت جائز نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کو مسلمانوں کے جنگی منصوبوں کی خبر بہم پہنچائے، لیکن مخلص کی غلطی اور منافق کی غداری میں بڑا فرق ہے۔ محض نوعیت فعل کی بنا پر دونوں کی ایک ہی سزا نہیں ہو سکتی۔ یہ تھا اس مقدمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ، اور اللہ تعالیٰ نے سورة ممتحنہ کی ان آیات میں اس کی تائید فرمائی۔ اوپر کی تینوں آیات کو غور سے پڑھیے تو صاف محسوس ہوگا کہ ان میں حضرت حاطب پر عتاب تو ضرور فرمایا گیا ہے، مگر یہ عتاب اس طرز کا ہے جو ایک مومن کے لیے ہوتا ہے نہ کہ وہ جو ایک منافق کے لیے ہوا کرتا ہے۔ مزید برآں ان کے لیے کوئی مالی یا جسمانی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے بلکہ علانیہ سخت زجر و توبیخ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایک خطا کار مومن کی عزت کو بٹّہ لگ جانا اور اس کے اعتماد پر حرف آجانا بھی اس کے لیے ایک بڑی سزا ہے۔
(4) ۔ بدری صحابہ کی فضیلت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ ” تمہیں کیا خبر، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کردیا “۔ اس کے معنی یہ نہ تھے کہ بدری صحابیوں کو سات خون معاف ہیں، اور انہیں کھلی چھٹی ہے کہ دنیا میں جو گناہ اور جو جرم بھی کرنا چاہیں کرتے رہیں، مغفرت کی انکو پیشگی ضمانت حاصل ہے۔ یہ مطلب نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تھا، نہ صحابہ نے کبھی اس ارشاد کا یہ مطلب لیا، نہ کسی بدری صحابی نے یہ بشارت سن کر اپنے آپ کو ہر گناہ کرنے کے لیے آزاد سمجھا، اور نہ اسلامی شریعت میں اس کی بنا پر ایسا کوئی قاعدہ بنایا گیا کہ بدری صحابی سے اگر کوئی جرم سرزد ہو تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے۔ دراصل جس موقع و محل میں یہ بات فرمائی گئی تھی اس پر، اور خود ان الفاظ پر جو آپ نے استعمال فرمائے ہیں، اگر غور کیا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہل بدر نے اللہ اور اس کے دین کے لیے اخلاص اور سرفروشی و جانبازی کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہوں تو یہ بھی اس خدمت اور اللہ کے کرم کو دیکھتے ہوئے کچھ بعید از امکان نہیں ہے، لہٰذا ایک بدری پر خیانت اور منافقت کا شبہ نہ کرو، اور اپنے جرم کا جو سبب وہ خود بیان کر رہا ہے اسے قبول کرلو۔
(5) قرآن مجید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کسی مسلمان کا کفار کے لیے جاسوسی کر بیٹھنا بجائے خود اس بات کا فیصلہ کردینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ مرتد ہوگیا ہے، یا ایمان سے خارج ہے، یا منافق ہے۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لیے اگر کچھ دوسرے قرائن و شواہد موجود ہوں تو بات الگ ہے، ورنہ اپنی جگہ یہ فعل صرف ایک جرم ہے، کفر نہیں ہے۔
(6) ۔ قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلمان کے لیے کفار کی جاسوسی کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے، خواہ اس کی یا اس کے قریب ترین عزیزوں کی جان و مال کو کیسا ہی خطرہ لاحق ہو۔
(7) ۔ حضرت عمر نے جب حضرت حاطب کو جاسوسی کے جرم میں قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو حضور نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ جرم مستوجب قتل نہیں ہے، بلکہ اجازت دینے سے انکار اس بنا پر کیا کہ حاطب کا بدری ہونا ان کے مخلص ہونے کا صریح ثبوت ہے اور ان کا یہ بیان صحیح ہے کہ انہوں نے دشمنوں کی خیر خواہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بال بچوں کو ہلاکت کے خطرے سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔ اس سے فقہاء کے ایک گروہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ مسلمان جاسوس کے لیے عام قانون یہی ہے کہ اسے قتل کیا جائے الّا یہ کہ بہت وزنی وجوہ اسے کم تر سزا دینے یا محض ملامت کر کے چھوڑ دینے کے لیے موجود ہوں۔ مگر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور بعض دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان جاسوس کو تعزیر دی جائے گی مگر اس کا قتل جائز نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اسے جسمانی عقوبت اور طویل قید کی سزا دی جائے گی۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اسے قتل کیا جائے گا۔ لیکن مالکی فقہاء کے اقوال اس مسئلے میں مختلف ہیں۔ اَشہَب کہتے ہیں کہ امام کو اس معاملہ میں وسیع اختیارات حاصل ہیں، جرم اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے اجتہاد سے کوئی سزا دے سکتا ہے۔ ایک قول امام مالک اور ابن القاسم کا بھی یہی ہے۔ ابن الماجشون اور عبدالملک بن حبیب کہتے ہیں کہ اگر مجرم نے جاسوسی کی عادت ہی بنا لی ہو تو اسے قتل کیا جائے۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ جاسوس کی سزا تو قتل ہی ہے مگر وہ اس فعل سے تائب ہوجائے تو اسے معاف کیا جاسکتا ہے۔ سَحنُون کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے یا محض فریب، اس کا علم آخر کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس لیے اسے قتل ہی کیا جانا چاہیے۔ ابن القاسم کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ اور اصبغ کہتے ہیں کہ حربی جاسوس کی سزا قتل ہے، مگر مسلم اور ذمی جاسوس کو قتل کے بجائے عقوبت دی جائے گی، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کی کھلی کھلی مدد کر رہا ہو۔ (احکام القرآن، ابن العربی۔ عمدۃ القاری، فتح الباری ) ۔
(8) حدیث مذکور سے اس امر کا جواز بھی نکلتا ہے کہ تفتیش جرم کے لیے اگر ضرورت پڑے تو ملزم مرد ہی نہیں، عورت کے کپڑے بھی اتارے جاسکتے ہیں۔ حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد (رضی اللہ عنہم) نے اگرچہ اس عورت کو برہنہ نہیں کیا تھا، لیکن انہوں نے اسے دھمکی دی تھی کہ وہ خط حوالے نہ کرے گی تو وہ اسے برہنہ کر کے اس کی تلاشی لیں گے۔ ظاہر ہے اگر یہ فعل جائز نہ ہوتا تو یہ تین جلیل القدر صحابی اس کی دھمکی نہیں دے سکتے تھے۔ اور قیاس یہ کہتا ہے کہ انہوں نے ضرور واپس جاکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی مہم کی روداد سنائی ہوگی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگر اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہوتا تو وہ ضرور منقول ہوتا۔ اسی لیے فقہاء نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (عمدۃ القاری) ۔
تمہاری قرابتیں، رشتہ داریاں، اور اولاد تمہیں قیامت کے دن کام نہ آئیں گی اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔
یعنی جس اولاد کے لئے تم کفار کے ساتھ محبت کا اظہار کر رہے ہو، یہ تمہارے کچھ کام نہ آئے گی، پھر اس کی وجہ سے تم کافروں سے دوستی کرکے کیوں اللہ کو ناراض کرتے ہو۔ قیامت والے دن جو چیز کام آئے گی، وہ تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے، اس کا اہتمام کرو۔
دوسرے معنی ہیں تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ یعنی اہل اطاعت کو جنت میں اور اہل معصیت کو جہنم میں داخل کرے گا، بعض کہتے ہیں آپس میں جدائی کا مطلب کہ ایک دوسرے سے بھا گیں گے۔
تمہارے لیے بہترین نمونہ تو ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ہے جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان سے، جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، بالکل بری ہیں۔ ہم نے تمہارا انکار کیا اور ہمارے اور تمہارے مابین ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بیزاری آشکارا ہو گئی تاآنکہ تم اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ پر ایمان لاؤ۔ مگر ابراہیم کی اپنے باپ سے اتنی بات کہ میں آپ کے لیے مغفرت مانگوں گا اگرچہ میں آپ کے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں رکھتا ۔۔۔ اے ہمارے رب، ہم نے تیرے اوپر بھروسہ کیا اور تیری طرف رجوع ہوئے اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
اسوۂ ابراہیمی کی پیروی کی تلقین: فرمایا کہ اس معاملے میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے تمہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہارے جدّ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین قابل تقلید نمونہ پہلے سے موجود ہے۔ ’قَدْ کَانَتْ‘ کے اسلوب بیان سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ پہلے سے تمہارے سامنے ہے۔ یہ امر واضح رہے کہ اہل عرب کو اس بات پر ناز تھا کہ وہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اولاد ہیں۔ انھیں ان کی ہجرت اور قربانی کی روایات کا بھی علم تھا۔ اگرچہ امتداد زمانہ سے ان پر گرد و غبار کی تہیں بھی جم گئی تھیں اور بدعات نے ان کے بعض پہلوؤں کو مسخ بھی کر دیا تھا تاہم یہ بات نہیں تھی کہ وہ ان سے بالکل ہی ناآشنا ہوں، جیسا کہ بعض مورخین نے گمان کیا ہے۔
’وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ‘ سے یہ بات نکلتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ہجرت فرمائی ہے تو تنہا نہیں ہجرت فرمائی ہے بلکہ ان کی قوم کے کچھ لوگ جو ان پر ایمان لائے تھے، اس ہجرت میں ان کے ہم رکاب تھے۔
حضرت ابراہیمؑ کا اعلان براء ت: ’اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ ..... الاٰیۃ‘۔ یہ اس اعلان براء ت کا حوالہ ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی قوم کے سامنے کیا۔ انھوں نے ڈنکے کی چوٹ ان کو سنایا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان تمام معبودوں سے، جن کو اللہ کے سوا تم پوجتے ہو، بالکل بری ہوئے۔ تمہارے مسلک و مذہب کا ہم نے انکار کیا اور اس اعلان براء ت کے بعد ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت اس وقت تک کے لیے آشکارا ہو گئی جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ۔
’وَبَدَا بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ‘۔ یعنی اب تک تو ہم نے تمہارے ساتھ اس لیے رعایت برتی کہ تمہیں دین کی دعوت پہنچا دیں لیکن اب جب کہ تم پر حجت قائم ہو چکی ہے اور تم اپنی ضلالت پر اڑے ہوئے ہو، ہم تم سے اعلان براء ت کر کے الگ ہو رہے ہیں۔ اب تمہارے ساتھ ہمارا تعلق کھلم کھلا عداوت ہی کا رہے گا الاّآنکہ تم اپنے شرک سے تائب ہو کر توحید کی دعوت قبول کر لو۔
’اِلَّا قَوْلَ إِبْرَاہِیْمَ لِأَبِیْہِ‘۔ عام طور پر ہمارے مفسرین نے سمجھا ہے کہ یہ ’اسوۂ حسنہ‘ سے استثناء ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ اعلان براء ت سے استثناء ہے۔ یعنی اس کھلم کھلا اعلان براء ت میں اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے ساتھ کوئی رعایت برتی تو صرف یہ کہ اپنے باپ سے انھوں نے یہ وعدہ کر لیا کہ میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا اگرچہ میں خدا کی طرف سے آپ کے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ یعنی ہو گا تو وہی جو اللہ تعالیٰ چاہے گا تاہم میں دعا کروں گا۔
اس رعایت کی وجہ، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات میں تصریح ہے، یہ تھی کہ وہ نہایت درد مند اور بردبار تھے، انھوں نے خیال فرمایا کہ اگر وہ اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں تو یہ چیز اس اعلان براء ت کے منافی نہیں ہو گی جو وہ اپنی قوم سے کر رہے ہیں بلکہ یہ اس برّ و احسان کا مقتضیٰ ہے جو ہر بیٹے پر اس کے والدین کا ایک واجبی حق ہے۔ اس وقت تک ان کو یہ اندازہ بھی پورا پورا نہیں تھا کہ دین کے ساتھ باپ کی دشمنی کس درجے کی ہے۔ انھوں نے خیال فرمایا کہ باپ کا سارا غصہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنے زعم کے مطابق اپنے بیٹے کو ایک گمراہی سے بچانا چاہتا ہے لیکن جب ان پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ ان کا باپ اللہ کے دین کا کٹر دشمن ہے تو انھوں نے اس سے کلیۃً اعلان براء ت کر دیا۔
’وَمَا أَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنۡ شَیْءٍ‘۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وعدۂ مغفرت کے ساتھ ہی توحید کی اصل حقیقت بھی واضح فرما دی کہ مجھے جو اختیار حاصل ہے صرف اتنا ہی ہے کہ میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کروں۔ رہا تمہارا بخشا جانا یا نہ بخشا جانا تو یہ کلیۃً اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ اس معاملے میں مجھے کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ کسی کے لیے استغفار اس کے حق میں ایک قسم کی سفارش ہے۔ اس سفارش کے معاملے میں جب حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ جیسے جلیل القدر پیغمبر اپنی اس بے اختیاری کا اظہار فرماتے ہیں تو تابہ دیگراں چہ رسد!
مرحلۂ ہجرت کی دعا: ’رَبَّنَا عَلَیْْکَ تَوَکَّلْنَا وَإِلَیْْکَ أَنَبْنَا وَإِلَیْْکَ الْمَصِیْرُ‘۔ اس دعا کا تعلق اعلان براء ت سے ہے۔ بیچ میں ’اِلَّا قَوْلَ إِبْرَاہِیْمَ‘ کا ٹکڑا جملہ معترضہ کے طور پر آ گیا تھا۔ اس کے ختم ہوتے ہی وہ دعا نقل ہوئی ہے جو اس نازک موقع پر حضرت ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ دوسرے مقامات میں ہم اس حقیقت کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اعلان براء ت کے بعد لازماً پیغمبر اور اس کے ساتھیوں کے لیے ہجرت کا مرحلہ آ جاتا ہے۔ یہ مرحلہ نہایت کٹھن ہوتا ہے۔ اپنی پوری قوم سے ابدی دشمنی اور بیزاری کا اعلان کر کے الگ ہو جانا کوئی سہل بازی نہیں ہے اس وجہ سے ہر رسول نے اپنی ہجرت کے وقت اپنا اور اپنے ساتھیوں کا معاملہ اپنے رب کے حوالے کیا ہے۔ ہجرت کے وقت اسی طرح کی دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمائی اور اسی طرح کی دعا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی منقول ہے۔ یہ دعا اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ بندے کا نیک سے نیک ارادہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے انجام پاتا ہے اس وجہ سے ہر قدم اسی کی مدد کے بھروسے پر اٹھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں وہی سرخ رو ہوتے ہیں جن کے دل ہر وقت اس کی طرف جھکے رہتے ہیں اور جن کے اندر یہ یقین راسخ ہوتا ہے کہ بالآخر ان کو ایک دن اپنے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے۔
(تم سمجھنا چاہو تو) حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم اور اُس کے ساتھیوں میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے، جب اُنھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمھارے اِن معبودوں سے، جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، بالکل بری ہیں۔ ہم تمھارے منکر ہیں اور ہمارے اور تمھارے درمیان (اب)ہمیشہ کے لیے عداوت اور بے زاری ظاہر ہو گئی ہے، یہاں تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان لے آؤ ۔۔۔ اتنی بات کے سوا جو ابراہیم نے اپنے باپ سے کہی تھی کہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا ضرورکروں گا، اگرچہ اللہ کی طرف سے میں آپ کے لیے کسی چیز پر زور نہیں رکھتا ۔۔۔(پھر اُس نے اور اُس کے ساتھیوں نے دعا کی تھی کہ) پروردگار، ہم نے تجھ پر بھروسا کیا ہے اور تیری طرف رجوع ہوئے ہیں اور ہم کو تیرے ہی حضور میں پلٹ کر آنا ہے۔
اصل الفاظ ہیں: ’قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ‘۔ یہ اسلوب بتاتا ہے کہ جو بات سنائی جا رہی ہے ، وہ پہلے سے لوگوں کے سامنے ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اہل عرب کو اِس بات پر ناز تھا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ اُنھیں اُن کی ہجرت اور قربانی کی روایات کابھی علم تھا۔ اگرچہ امتداد زمانہ سے اُن پر گردوغبار کی تہیں بھی جم گئی تھیں اور بدعات نے اُن کے بعض پہلوؤں کو مسخ بھی کر دیا تھا۔ تاہم یہ بات نہیں تھی کہ وہ اُن سے بالکل ہی ناآشنا ہوں۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۳۲۸)
اِس کے بعد ’وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن سے یہ بات نکلتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے ہجرت فرمائی تو اُن کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جو اُن کی قوم میں سے اُن پر ایمان لے آئے تھے۔
یعنی جو کچھ تم مانتے ہو، اُس کے منکر ہیں۔
اتمام حجت کے بعد یہ اعلان براء ت ہر پیغمبر نے اپنی قوم سے کیا ہے۔ اِس کے بعد دعوت و تذکیر کا تعلق اصلاً ختم ہو جاتا ہے اور رسول کے منکرین کو صاف بتا دیاجاتا ہے کہ اُن کے اور رسول کے ساتھیوں کے درمیان موالات اور محبت کا کوئی تعلق اب قائم نہیں رہ سکتا۔ وہ خدا اور خدا کے دین کے دشمن ہیں تو اِدھر سے بھی اُن کے لیے عداوت اور بے زاری کا اعلان ہے، یہاں تک کہ شرک سے توبہ کرکے وہ توحید کی دعوت قبول کر لیں۔
یہ اعلان براء ت سے استثنا ہے۔ یعنی اِس کھلم کھلا اعلان براء ت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اُن کے ساتھ اگر کوئی رعایت برتی تو صرف یہ کہ اپنے باپ سے مغفرت کی دعا کا وعدہ کر لیا۔ اِس رعایت کی وجہ کیا تھی؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اِس رعایت کی وجہ ، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات میں تصریح ہے، یہ تھی کہ وہ نہایت دردمند اور بردبار تھے، اُنھوں نے خیال فرمایا کہ اگر وہ اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں تو یہ چیز اُس اعلان براء ت کے منافی نہیں ہو گی جو وہ اپنی پوری قوم سے کر رہے ہیں، بلکہ یہ اُس برواحسان کا مقتضٰی ہے جو ہر بیٹے پر اُس کے والدین کا ایک واجبی حق ہے۔ اُس وقت تک اُن کو یہ اندازہ بھی پورا پورا نہیں تھا کہ دین کے ساتھ باپ کی دشمنی کس درجے کی ہے۔ اُنھوں نے خیال فرمایا کہ باپ کا سارا غصہ اِس وجہ سے ہے کہ وہ اپنے زعم کے مطابق اپنے بیٹے کو ایک گمراہی سے بچانا چاہتا ہے، لیکن جب اُن پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ اُن کا باپ اللہ کے دین کا کٹر دشمن ہے تو اُنھوں نے اُس سے کلیتاً اعلان براءت کر دیا۔‘‘(تدبر قرآن ۸/ ۳۲۹)
یعنی میرے پاس بھی اِس سے زیادہ کوئی اختیار نہیں ہے کہ آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں۔ اِسے قبول کرنا یا نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ میں اُس میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔
تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ” ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے، ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہوگئی اور پڑگیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ، مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اس سے مستثنی سے) کہ ” میں آپ کے لئے مغفرت کی درخواست ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لئے کچھ حاصل کرلینا میرے بس میں نہیں ہے ۔ ” (اور ابراہیم) و اصحاب ابراہیم کی دعا یہ تھی کہ) ” اے ہمارے رب ” تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کرلیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے۔
یعنی ہم تمہارے کافر ہیں، نہ تمہیں حق پر مانتے ہیں نہ تمہارے دین کو۔ اللہ پر ایمان کا لازمی تقاضا طاغوت سے کفر ہے۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّاغُوْتِ وَیُوْمِنْ باللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الوُثْقیٰ لَا انْفِصَامَ لَھَا۔ ” پس جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے اس نے در حقیقت مضبوط سہارا تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں ہے “۔ (البقرہ، 256)
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی کافر و مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کردیا، مگر ان کی یہ بات تقلید کے قابل نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی۔ اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے۔ سورة توبہ (آیت 113) میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد ہے : مَا کَان للنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبیٰ ۔ ” نبی کا یہ کام نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کو یہ زیبا ہے جو ایمان لائے ہیں کہ مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں “۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیم نے کیا تھا۔ رہا سوال کہ خود حضرت ابراہیم نے یہ کام کیسے کیا ؟ اور کیا وہ اس پر قائم بھی رہے ؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہم کو پوری تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ ، ” آپ کو سلام ہے، میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا ” (مریم، 147 ۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی۔ ایک دعا کا ذکر سورة ابراہیم (آیت 41) میں ہے : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الحِسَابْ ۔ ” اے ہمارے پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اس روز معاف کر دیجیو جب حساب لیا جانا ہے “۔ اور دوسری دعا سورة شعَراء (آیت 86) میں ہے : وَاغْفِرْ لِاَبِیْ اِنَّہ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ ۔ ” میرے باپ کو معاف فرما دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے “۔ لیکن بعد میں جب ان کو یہ احساس ہوگیا کہ اپنے جس باپ کی مغفرت کے لیے وہ دعا کر رہے ہیں وہ تو اللہ کا دشمن تھا، تو انہوں نے اس سے تبری کی اور اس کے ساتھ ہمدردی و محبت کا یہ تعلق بھی توڑ لیا :
وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَا اِیَّاہُ ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ اَنَّہ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّأ مِنْہُ ، اِنَّ اَبْرَھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ (التوبہ 114)
اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھا کہ ایک وعدہ تھا جو اس نے اپنے باپ سے کرلیا تھا۔ پھر جب اس پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن تھا تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ایک رقیق القلب اور نرم خو آدمی تھا۔
ان آیات پر غور کرنے سے یہ اصولی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انبیاء کا صرف وہی عمل قابل تقلید ہے جس پر وہ آخر وقت تک قائم رہے ہوں۔ رہے ان کے وہ اعمال جن کو انہوں نے بعد میں خود چھوڑ دیا ہو، یا جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم نہ رہنے دیا ہو، یا جن کی ممانعت اللہ کی شریعت میں وارد ہوچکی ہو، وہ قابل تقلید نہیں ہیں اور کوئی شخص اس حجت سے ان کے ایسے اعمال کی پیروی نہیں کرسکتا کہ یہ فلاں نبی کا عمل ہے۔
یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو آدمی ذہن میں کھٹک پیدا کرسکتا ہے۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے جس قول کو قابل تقلید نمونہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا ” میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا “۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ ” میرے بس میں کچھ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کو معافی دلوا دوں “۔ ان میں سے پہلی بات کا قابل تقلید نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر دوسری بات میں کیا خرابی ہے کہ اسے بھی نمونہ قابل تقلید ہونے سے مستثنیٰ کردیا گیا ؟ حالانکہ وہ بجائے خود حق بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کا یہ قول استثناء میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ایک کام کا وعدہ کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اس سے زیادہ تیرے لیے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ کچھ کرنا اس کے بس میں ہوتا تو وہ شخص اس کی خاطر وہ بھی کرتا۔ یہ بات اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے ہمدردانہ تعلق کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم کا یہ دوسرا قول بھی استثناء میں شامل کیے جانے کا مستحق تھا، اگرچہ اس کا یہ مضمون بجائے خود برحق تھا کہ اللہ سے کسی کی مغفرت کروا دینا ایک نبی تک کے اختیار سے باہر ہے۔ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس سوال کا یہی جواب دیا ہے۔
مسلمانو ! تمہارے لئے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے،
کفار سے عدم اتحاد کے مسئلے کی وضاحت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مثال دی جا رہی ہے کہ ایسا نمونہ جس کی پیروی کی جائے
یعنی شرک کی وجہ سے ہمارا اور تمہارا کوئی تعلق نہیں، اللہ کے پرستاروں کا بھلا غیر اللہ کے پجاریوں سے کیا تعلق۔
یعنی علیحدگی اور بیزاری اس وقت تک رہے گی جب تک کفر و شرک چھوڑ کر توحید کو نہیں اپنالو گے۔
مطلب یہ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی ایک قابل تقلید نمونہ ہے، البتہ ان کے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس میں ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیئے، کیونکہ ان کا یہ فعل اس وقت ہے جب ان کو اپنے باپ کی بابت علم نہیں تھا، چنانچہ جب ان پر واضح ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اپنے باپ سے بھی اظہار نجات کردیا، جیسا کہ (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ ١١٤۔ ) 9 ۔ التوبہ :114) میں ہے۔
توکل کا مطلب ہے امکانی حد تک ظاہری اسباب و وسائل اختیار کرنے کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کردیا جائے یہ ہے اس لیے توکل کا یہ مفہوم بھی غلط ہوگا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اونٹ کو باہر کھڑا کرکے اندر آگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تو کہا میں اونٹ اللہ کے سپرد کر آیا ہوں آپ نے فرمایا یہ توکل نہیں ہے۔ اعقل وتوکل۔ پہلے اسے کسی چیز سے باندھ پھر اللہ پر بھروسہ کر۔ ترمذی۔ انابت کا مطلب ہے اللہ کی طرف رجوغ کرنا
اے ہمارے رب، ہم کو ان لوگوں کا تختۂ مشق نہ بننے دینا جنھوں نے کفر کیا ہے اور اے ہمارے رب، ہم کو بخش، بے شک تو عزیز و حکیم ہے۔
یہ بھی اسی دعا کا حصہ ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔ ’فِتْنَۃ‘ یہاں ہدف فتنہ کے معنی میں ہے اور اس سے مراد کفار کی وہ اذیتیں ہیں جو مسلمانوں کو وہ پہنچا سکتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تو تیری توحید کی غیرت و حمیت میں ان مشرکوں سے اعلان براء ت و عداوت کر دیا۔ اب ان کی طرف سے جو کچھ پیش آئے ہم اس کے لیے سینہ سپر ہیں۔ لیکن ہمارا بھروسہ تیری مدد پر ہے۔ ان کو اتنی ڈھیل نہ دینا کہ وہ ہم کو اپنے مظالم کا تختۂ مشق بنا لیں۔
’وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا‘۔ اے ہمارے رب ہماری کمزوریوں اور ہمارے گناہوں کو بخش۔ ہمارے گناہ اس بات کا سبب نہ بن جائیں کہ ہمارے دشمن ہمیں کمزور پا کر اپنی ستم رانیوں کا ہدف بنا لیں۔ اس فقرے میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر ہمیں کوئی آزمائش پیش آئی تو وہ ہمارے اپنے ہی اعمال کی پاداش میں پیش آئے گی اور تیرے اختیار میں سب کچھ ہے۔ تو ہمارے گناہوں کو بخش دے تو ہم ان کے وبال سے بچ جائیں گے۔
’إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘۔ یہ کامل تفویض کا کلمہ ہے۔ تو ہر چیز پر غالب ہے۔ جو چاہے کر سکتا ہے۔ کوئی تیرا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ ساتھ ہی تو حکیم بھی ہے۔ تیرا ہر کام حکمت پر مبنی ہوتا ہے اس وجہ سے ہم اپنا معاملہ کلیۃً تیرے حوالے کرتے ہیں۔ تو جو کرے گا اسی میں خیر اور اسی میں حکمت و مصلحت ہے۔
پروردگار، اِن منکروں کو ہم پر نہ آزما اور ہم سے درگذر فرما،اے ہمارے پروردگار۔ بے شک، تو ہی زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔
اصل میں ’لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’فِتْنَۃ‘ ہدف فتنہ کے معنی میں ہے اور اِس سے مراد وہ اذیتیں ہیں جو منکرین حق مسلمانوں کو پہنچا سکتے تھے۔
اِس طرح کی دعا ہجرت و براء ت کے موقع پر ہر پیغمبر نے کی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ دعا اِس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ بندے کا نیک سے نیک ارادہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے انجام پاتا ہے، اِس وجہ سے ہر قدم اُسی کی مدد کے بھروسے پر اٹھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی آزمایشوں میں وہی سرخ رو ہوتے ہیں جن کے دل ہر وقت اُس کی طرف جھکے رہتے ہیں اور جن کے اندر یہ یقین راسخ ہوتا ہے کہ بالآخر اُن کو ایک دن اپنے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۳۳۰)
اے ہمارے رب، ہمیں کافروں کے لیئے فتنہ نہ بنا دے ۔ اور اے ہمارے رب، قصوروں سے درگزر فرما، بیشک تو ہی زبردست اور دانا ہے ”
کافروں کے لیے اہل ایمان کے فتنہ بننے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں جن سے ہر مومن کو خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کافر ان پر غالب آجائیں اور اپنے غلبہ کو اس بات کی دلیل قرار دیں کہ ہم حق پر ہیں اور اہل ایمان برسر باطل، ورنہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ان لوگوں کو خدا کی رضا حاصل ہوتی اور پھر بھی ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوتا۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان پر کافروں کا ظلم و ستم ان کی حد برداشت سے بڑھ جائے اور آخر کار وہ ان سے دب کر اپنے دین و اخلاق کا سودا کرنے پر اتر آئیں۔ یہ چیز دنیا بھر میں مومنوں کی جگ ہنسائی کی موجب ہوگی اور کافروں کو اس سے دین اور اہل دین کی تذلیل کا موقع ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دین حق کی نمائندگی کے مقام بلند پر فائز ہونے کے باوجود اہل ایمان اس اخلاقی فضیلت سے محروم رہیں جو اس مقام کے شایان شان ہے، اور دنیا کو ان کی سیرت و کردار میں بھی وہی عیوب نظر آئیں جو جاہلیت کے معاشرے میں عام طور پر پھیلے ہوئے ہوں۔ اس سے کافروں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ اس دین میں آخر وہ کیا خوبی ہے جو اسے ہمارے کفر پر شرف عطا کرتی ہو ؟ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ 83 ) ۔
اے ہمارے رب ! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک تو ہی غالب، حکمت والا ہے۔
یعنی کافروں کو ہم پر غلبہ وتسلط عطا نہ فرما اس طرح وہ سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں اور یوں ہم ان کے لیے فتنے کا باعث بن جائیں گے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ہاتھوں یا اپنی طرف سے ہمیں کسی سزا سے دو چار نہ کرنا اس طرح بھی ہمارا وجود ان کے لیے فتنہ بن جائے گا وہ کہیں گے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو ان کو یہ تکلیف کیوں پہنچتی ؟
بے شک تمہارے لیے ان لوگوں کے اندر بہترین نمونہ ہے۔ ان کے واسطے جو خدا اور آخرت کے متوقع ہیں۔ اور جو اعراض کریں گے تو یاد رکھیں کہ اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔
ایک برمحل تنبیہ: یہ ’قَدْ کَانَتْ لَکُمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ‘ سے بدل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے اس اعلان براء ت و عداوت میں نمونہ تو بے شک نہایت بہترین ہے لیکن ان کے اس اسوہ کی پیروی کرنا ہر بوالہوس کا کام نہیں ہے۔ اس کا حوصلہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اللہ کی نصرت کی امید بھی رکھتے ہوں اور آخرت کے ظہور کے بھی متوقع ہوں۔ جن کے اندر یہ دونوں باتیں راسخ نہ ہوں وہ یہ بازی نہیں کھیل سکتے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے گھر در، اموال و املاک، وطن اور قوم ہر چیز سے دست بردار ہو کر اٹھ کھڑے ہونا صرف انہی کے لیے ممکن ہے جو اپنے اس اقدام میں ہر قدم پر خدا کی نصرت کے متوقع ہوں اور جن کا اصل بھروسہ اس دنیا کے مال و متاع پر نہیں بلکہ آخرت کے فضل و انعام پر ہو۔ اس آیت سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ ہجرت کی راہ میں اصل زاد راہ کیا ہے اور یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ جن لوگوں سے اس مرحلے میں کمزوریاں صادر ہو رہی تھیں ان کی کمزوریوں کی تہ میں کیا چیز چھپی ہوئی تھی۔
’وَمَنْ یَتَوَلَّ فَإِنَّ اللہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ‘۔ یہ ان لوگوں کو تنبیہ ہے کہ فلاح کا راستہ یہی ہے کہ تم ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے اسوہ کی پیروی کرو ورنہ یاد رکھو کہ جو اس سے اعراض کریں گے اللہ کو ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ سب سے مستغنی اور خود اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔ اس کی خدائی دوسروں کے بل پر نہیں بلکہ خود اس کے اپنے بل پر قائم و دائم ہے۔
اِن لوگوں میںیقیناًتمھارے لیے بہترین نمونہ ہے، (تم میں سے) ہر اُس شخص کے لیے جو خدا اور آخرت کی امید رکھتا ہے۔ ( اِس نمونے کی پیروی کرو) اور (یاد رکھو کہ) جو اعراض کریں گے، (اللہ کو اُن کی کچھ پروا نہیں)، اِس لیے کہ اللہ بے نیاز ہے، وہ اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔
یہ ’قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ‘ سے بدل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...مطلب یہ ہے کہ تمھارے لیے ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کے اِس اعلان براء ت و عداوت میں نمونہ تو بے شک نہایت بہترین ہے، لیکن اُن کے اِس اسوہ کی پیروی کرنا ہر بوالہوس کا کام نہیں ہے۔ اِس کا حوصلہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اللہ کی نصرت کی امید بھی رکھتے ہوں اور آخرت کے ظہور کے بھی متوقع ہوں ۔ جن کے اندر یہ دونوں باتیں راسخ نہ ہوں، وہ یہ بازی نہیں کھیل سکتے۔‘‘ (تدبرقرآن۸/ ۳۳۰)
انہی لوگوں کے طرز عمل میں تمہارے لیئے اور ہر اس شخص کے لیئے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخر کا امیدوار ہو ۔ اس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بےنیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے
یعنی جو اس بات کی توقع رکھتا ہو کہ ایک روز اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے، اور اس چیز کا امیدوار ہو کہ اللہ اسے اپنے فضل سے نوازے اور روز آخر میں اسے سرخروئی نصیب ہو۔
یعنی اللہ کو ایسے ایمان لانے والوں کی کوئی حاجت نہیں ہے جو اس کے دین کو ماننے کا دعویٰ بھی کریں اور پھر اس کے دشمنوں سے دوسری بھی رکھیں۔ وہ بےنیاز ہے۔ اس کی خدائی اس کی محتاج نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے خدا مانیں۔ اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے، اس کا محمود ہونا اس بات پر موقوف نہیں ہے کہ یہ اس کی حمد کریں۔ یہ اگر ایمان لاتے ہیں تو اللہ کے کسی فائدے کے لیے نہیں، اپنے فائدے کے لیے لاتے ہیں۔ اور انہیں ایمان کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا جب تک یہ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی طرح اللہ کے دشمنوں سے محبت اور دوستی کے رشتے توڑ نہ لیں۔
یقیناً تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ (اور عمدہ پیروی ہے خاص کر) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اللہ تعالیٰ بالکل بےنیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔
یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے اور ان کے ساتھی اہل ایمان میں۔ یہ تکرار تاکید کے لئے ہے۔
کیونکہ ایسے ہی لوگ اللہ سے اور عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں، یہی لوگ حالات و واقعات سے عبرت پکڑتے اور نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوے کو اپنانے سے گریز کرے۔
توقع ہے کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم نے دشمنی کی، دوستی پیدا کر دے۔ اللہ قدرت والا اور غفور رّحیم ہے۔
ایک عظیم بشارت: یہ ایک بہت بڑی بشارت ہے کہ آج اگر تم جی کڑا کر کے اپنے ان اقرباء سے اپنی دشمنی کا اعلان کر دو گے تو یہ نہ خیال کرو کہ یہ دشمنی ہمیشہ ہی رہے گی بلکہ امکان اس کا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دشمنی کو محبت سے بدل دے اور جن سے آج تمہیں عداوت کرنی پڑ رہی ہے وہ ایمان و اسلام کی توفیق سے بہرہ مندہ ہو کر تم سے گلے ملیں۔
’وَاللہُ قَدِیْرٌ وَاللہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ‘۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہ چاہے تو جانی دشمنوں کو جگری دوست بنا دے۔ اور اللہ غفور رّحیم ہے۔ وہ لوگوں کو عذاب میں ڈالنے کے بہانے نہیں ڈھونڈتا بلکہ مغفرت و رحمت سے نوازنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ اس کے کٹر سے کٹر دشمنوں سے متعلق بھی یہ گمان نہیں رکھنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ دشمن ہی رہیں گے، کیا عجیب اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کے لیے بھی توفیق خیر کی راہ کھول دے۔
یہاں ’غَفُورٌ رَّحِیْمٌ‘ کی صفت کے حوالے سے بشارت کا یہ پہلو بھی ہے کہ اب تک جو لوگ اللہ کے ان دشمنوں سے خفیہ روابط رکھتے ہیں اس تنبیہ کے بعد اگر وہ چوکنّے ہو گئے اور اپنی روش کی انھوں نے اصلاح کر لی تو اللہ تعالیٰ غفور رّحیم ہے، وہ ان کی ان کمزوریوں کو معاف کر دے گا۔
ہجرت کا ایک نفسیاتی پہلو: اس آیت میں اہل مکہ کے قبول ایمان کی جو بشارت ہے اس کی ایک خاص نفسیاتی وجہ بھی ہے جو یہاں ملحوظ رکھنے کی ہے۔ وہ یہ کہ جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے بہت سے بھائی بہن، عزیز قریب محض دین کی خاطر اپنے گھر در، اپنے اہل و عیال اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان سے جدا ہو رہے ہیں درآنحالیکہ یہ لوگ ہر اعتبار سے ان کے اندر کے بہترین اشخاص تھے تو وہ سونچنے لگ گئے کہ اس دعوت کا مقابلہ ظلم و تعدی سے کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ ہمیں خود اپنے رویے کا جائزہ لینا چاہیے۔ شاید اسی کتاب میں یا اپنے کسی اور مضمون میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمرؓ جیسے عظیم شخص کو جس چیز نے سب سے پہلے اسلام کی طرف مائل کیا وہ کچھ مظلوم مردوں اور عورتوں کی حبشہ کی طرف ہجرت ہے۔ ہجرت کا یہ اثر ہر حساس مرد اور عورت پر پڑنا لازمی تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد قبول اسلام کی رفتار بہت تیز ہو گئی۔ اس عمل کو اپنی فطری رفتار پر قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ مہاجرین میں سے کوئی گروہ اہل مکہ کے آگے اپنی کمزوری کا اظہار نہ کرتا۔ اگر ان کی طرف سے کسی کمزوری کا اظہار ہوتا تو اہل مکہ یہ خیال کرتے کہ مسلمان ہجرت تو کر گئے لیکن اب وہ اپنے اقدام پر پچھتا رہے ہیں اور ہم سے دوستانہ و نیاز مندانہ روابط قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ چیز ان کے اندر بھی اسلام کے احساس کو دبا دیتی اور مکہ میں گھرے ہوئے دوسرے مظلوم مسلمانوں کے حوصلے بھی پست کر دیتی۔ اس وجہ سے قرآن نے اس کمزوری پر شدت سے گرفت کی اور لوگوں کو متنبہ کیا کہ دین کے دشمنوں کے ساتھ روابط نہ بڑھاؤ۔ آج اگر کفر میں لتھڑے ہوئے لوگوں کو سینے سے لگاؤ گے تو یہ تمہارے لیے موجب ہلاکت ہوں گے۔ البتہ اگر ان سے دشمنی پر جمے رہے تو توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مسلمان بنا کر تمہارا دوست بنائے۔ چنانچہ یہ بشارت اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی اور فتح مکہ کے وقت خلق نے ’یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ أَفْوَاجًا‘ (النصر ۱۱۰: ۲) کا منظر اپنی آنکھوں دیکھ لیا۔
(تم ایمان پر قائم رہے تو) بعید نہیں کہ اللہ تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان دوستی پیدا کر دے ، جن سے (آج )تم نے عداوت مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت والا ہے، اور اللہ غفور و رحیم ہے۔
یہ اِس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ایمان پر استقامت بسا اوقات خود ایک ذریعۂ دعوت بن جاتی ہے۔ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص محض دین کی خاطر اپنے بھائی بہن، اعزہ و اقربا، دوست احباب، بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار ہو گیا ہے تو سوچنے لگتے ہیں کہ اِس دعوت میں کیا چیز ہے جو اِس درجہ استقامت کا باعث بن گئی ہے۔ چنانچہ بات کو سننے اور اُس پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں، اور یہی چیز اُن کی دشمنی کو دوستی میں بدل دیتی ہے۔
یعنی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اِس لیے چاہے تو جانی دشمنوں کو جگری دوست بنا دے۔ اِس کے ساتھ غفور و رحیم بھی ہے، لہٰذا ہر وقت منتظر رہتا ہے کہ لوگ آگے بڑھیں تو اُنھیں اپنی مغفرت کے دامن میں سمیٹ لے، اُن کی کمزوریوں کو معاف کرے اور آگے اُن کے لیے توفیق خیر کی راہیں کھول دے۔
بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے ۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور رحیم ہے۔
اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو اپنے کافر رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جو تلقین کی گئی تھی اس پر سچے اہل ایمان اگرچہ بڑے صبر کے ساتھ عمل کر رہے تھے، مگر اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور قریب ترین عزیزوں سے تعلق توڑ لینا کیسا سخت کام ہے اور اس سے اہل ایمان کے دلوں پر کیا کچھ گزر رہی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب تمہارے یہی رشتہ دار مسلمان ہوجائیں گے اور آج کی دشمنی کل پھر محبت میں تبدیل ہوجائے گی۔ جب یہ بات فرمائی گئی تھی اس وقت کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ نتیجہ کیسے رونما ہوگا۔ مگر ان آیات کے نزول پر چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ مکہ فتح ہوگیا، قریش کے لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اور مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ جس چیز کی انہیں امید دلائی گئی تھی وہ کیسے پوری ہوئی۔
کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالیٰ تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے اللہ کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ (بڑا) غفور رحیم ہے۔
یعنی ان کو مسلمان کرکے تمہارا بھائی اور ساتھی بنا دے، جس سے تمہارے مابین عداوت، دوستی اور محبت میں تبدیل ہوجائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، فتح مکہ کے بعد لوگ فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور ان کے مسلمان ہوتے ہی نفرتیں، محبت میں تبدیل ہوگئیں، جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے، وہ دست وبازو بن گئے۔
اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنھوں نے دین کے معاملے میں نہ تم سے جنگ کی ہے اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
ممانعت کے حدود کی تعیین: ’برّ‘ کی تحقیق سورۂ بقرہ کی آیت ۴۴ کی تفسیر کے تحت گزر چکی ہے۔۱ اس کے معنی صلۂ رحم، احسان اور ادائے حقوق کے ہیں۔ ’اقساط‘ کے معنی عدل و انصاف کرنے کے ہیں۔ یعنی جس کا جو حق واجب ہے وہ پورا پورا ادا کیا جائے، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے۔
فرمایا کہ تمہیں یہ حکم جو دیا گیا ہے کہ
’لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَآءَ‘ (۱)
(میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ)
تو اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ تم ان کفار کے ساتھ احسان اور عدل بھی نہ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں نہ تم سے جنگ کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ ممانعت جس چیز کی کی جا رہی ہے وہ، جیسا کہ آگے والی آیت میں تصریح آ رہی ہے، موالات کی ہے نہ کہ عدل و احسان کی اور یہ ممانعت بھی تمام کفار کے حق میں نہیں بلکہ صرف ان کے حق میں ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی اور تم کو جلاوطن کیا۔
’دین‘ کی قید سے مقصود اس حقیقت کو ظاہر کرنا ہے کہ یہاں زیربحث وہ نزاعات نہیں ہیں جو خاندانی و قومی مفادات کے تصادم سے آپس میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں بلکہ صرف وہ جنگ مراد ہے جو محض دین کی مخالفت میں کفار نے برپا کی اور جس سے مقصود ان کا لوگوں کو اللہ واحد کی بندگی سے روکنا تھا۔ دین تمام اہل ایمان کی مشترک متاع ہے اور اسی پر ان کی نجات و فلاح کا انحصار ہے اس وجہ سے کوئی مسلمان دین کے دشمنوں کے ساتھ دوستی رکھتا ہے تو وہ اپنے دعوائے ایمان میں جھوٹا ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب: ’اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ‘۔ یہ انصاف کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوپر جب ’برّ‘ اور ’قسط‘ دو چیزوں کا ذکر آیا ہے تو مناسب تھا کہ یہاں دونوں نیکیوں کے کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی، صرف عدل کرنے والوں ہی کی محبوبیت کا ذکر کیوں آیا؟ میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ صلۂ رحم وغیرہ کے قسم کی نیکیاں نفس پر اتنی بھاری نہیں ہیں جتنی عدل و انصاف کے قسم کی نیکیاں ہیں، بالخصوص جب کہ ان کا تعلق کفار سے ہو۔ کمزوروں کو سہارا دے دینا، محتاجوں کی مدد کر دینا اور اپنے کافر ماں باپ کے ساتھ صلۂ رحم کر دینا زیادہ مشکل کام نہیں ہیں۔ انسانی فطرت کے اندر ان کے لیے نہایت قوی محرکات موجود ہیں لیکن عدل و انصاف کا حق ادا کرنا اور وہ بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں، کوئی سہل بازی نہیں ہے۔ اس وجہ سے قرآن نے ان لوگوں کو اپنی محبوبیت کا خاص مقام بخشا جو یہ بازی کھیلیں گے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ قیام عدل و قسط اس امت کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ جو لوگ دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ یکساں انصاف کریں گے وہی اس امت کے گل سرسبد ہیں اور وہی اللہ کو محبوب ہیں۔ یہ حق ادا کیے بغیر دوسری نیکیاں بالکل بے اثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔
_____
۱ ملاحظہ ہو تدبر قرآن جلد اول، صفحات ۱۴۳-۱۴۴۔
اللہ تمھیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ بے شک، اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اصل میں لفظ ’اَلْبِّر‘ آیا ہے ۔ عربی زبان میں یہ صلۂ رحم، عدل و احسان اور اداے حقوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
یعنی اگر کسی دنیوی معاملے میں تمھارا اُن سے کوئی خاندانی ، قبائلی یا قومی جھگڑا ہے تو وہ الگ بات ہے۔ دین و اخلاق کے عام اصولوں کی روشنی میں تم اُس کے بارے میں جو فیصلہ چاہے، کر سکتے ہو، لیکن دین کا جھگڑا نہیں ہے تو اللہ کسی بات سے نہیں روکتا ۔
اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ بھلائی کرنے والوں کو بھی پسند کرتا ہے، لیکن اِس کے محرکات چونکہ انسانی فطرت میں ہیں، لہٰذا انسان محتاج کی مدد کرنے، کمزور کو سہارا دینے اور اعزہ و اقربا سے صلۂ رحمی کے لیے آسانی کے ساتھ آمادہ ہو جاتا ہے۔ انصاف کا معاملہ، البتہ مشکل ہے۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ انصاف کرنا کوئی آسان بازی نہیں ہے، اِس لیے بطور خاص فرمایا ہے کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا بر تاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
اس مقام پر ایک شخص کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ دشمنی نہ کرنے والے کافروں کے ساتھ نیک برتاؤ تو خیر ٹھیک ہے، مگر کیا انصاف بھی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے ؟ اور کیا دشمن کافروں کے ساتھ بےانصافی کرنی چاہیے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سیاق وسباق میں دراصل انصاف ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تمہارے ساتھ عداوت نہیں برتتا، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ عداوت نہ برتو۔ دشمن اور غیر دشمن کو ایک درجہ میں رکھنا اور دونوں سے ایک ہی سلوک کرنا انصاف نہیں ہے۔ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حق ہے جنہوں نے ایمان لانے کی پاداش میں تم پر ظلم توڑے اور تم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا، اور نکالنے کے بعد بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑا۔ مگر جن لوگوں نے اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں لیا، انصاف یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور رشتے اور برادری کے لحاظ سے ان کے جو حقوق تم پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کرنے میں کمی نہ کرو۔
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایت دی جا رہی ہے جو مسلمانوں سے محض دین السلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے
یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہوجاؤ، یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیار وغیرہ کے ذریعے سے۔
یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صلی امک۔ صحیح مسلم۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
اس میں انصاف کرنے کی ترغیب ہے حتی کہ کافروں کے ساتھ بھی حدیث میں انصاف کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے۔ ان المقسطین عند اللہ علی منبر من نور عن یمین الرحمن عز وجل وکلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم واھلیھم وماولوا۔ صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے جو رحمن کے دائیں جانب ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں جو اپنے فیصلوں میں اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف کا اہتمام کرتے ہیں۔
اللہ بس ان لوگوں سے تم کو موالات کرنے سے روکتا ہے جنھوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے نکالنے میں مدد کی ہے۔ اور جو اس طرح کے لوگوں سے دوستی کریں گے تو وہ اپنے ہی اوپر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔
روکا کن سے اور کس چیز سے گیا ہے؟ یہ صراحت کے ساتھ بتا دیا کہ اللہ تم کو کن لوگوں سے روکتا ہے اور خاص طور پر کس چیز سے روکا ہے۔ فرمایا کہ روک ان لوگوں سے رہا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے یا تمہارے نکالنے میں تمہارے دشمنوں کی مدد کی ہے۔ اور روک جس چیز سے رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان کو اپنا دوست بناؤ۔ دوست بنانے سے مقصود ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ملت کے مفاد سے قطع نظر کر کے کسی معاملے میں اپنا دست تعاون اس غرض سے ان کو پیش کرو کہ وہ تمہاری کوئی ذاتی غرض پوری کرنے کا ذریعہ بنیں۔
اس آیت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس میں جو حضر ہے اس کا زور ’اَنْ تَوَلَّوْہُمْ‘ پر ہے یعنی ممنوع جو چیز ہے وہ ’تَوَلّی‘ یعنی ان کفار کو دوست اور کارساز بنانا ہے نہ کہ ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنا۔
نیکی ایک یک طرفہ عمل ہے۔ اس کا انحصار اس شخص کے رویہ پر نہیں ہوتا جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔ ایک شخص حاجت مند ہے تو ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اس کی مدد کریں، خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان۔ اور ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس سے نہ کسی شکریہ کے طالب ہوں نہ کسی صلہ کے ’لَا نُرِیْدُ مِنۡکُمْ جَزَآءً وَلَا شُکُوْرًا‘ (الدہر ۷۶: ۹)۔ یہاں تک کہ اگر کسی سبب سے اس کے خلاف ہمارے دل میں عداوت بھی ہو جب بھی ہمارے لیے صحیح رویہ یہی ہے کہ ہم اس کے ساتھ نیکی کریں۔ اس طرح کی نیکی کا ہم کو، جیسا کہ قرآن و حدیث میں تصریح ہے، زیادہ ثواب ملے گا۔
رہا عدل و قسط کا معاملہ تو اس کی بنیاد قانون، معاہدے اور معروف پر ہوتی ہے۔ اس میں کافر و مومن یا دوست و دشمن کے امتیاز کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ قانون اور معاہدے کا جو تقاضا ہو گا وہ بہرحال پورا کرنا ہو گا اس سے بحث نہیں کہ معاملہ دوست کا ہے یا دشمن کا۔ آگے کفار قریش کے ساتھ چند نزاعات کا فیصلہ آ رہا ہے اور اس میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح قرآن نے بے لاگ فیصلہ کیا ہے اور اسی بے لاگ فیصلہ پر عمل کرنے کی مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے۔
’وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ فَأُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ‘۔ یعنی اس تنبیہ کے بعد بھی جو مسلمان ان کافروں سے موالات کریں گے وہ یاد رکھیں کہ نہ وہ خدا کا کچھ بگاڑیں گے نہ اسلام کا بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔
اللہ جس بات سے تم کو روکتا ہے، وہ یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے نکالنے میں (دوسروں کی) مدد کی ہے۔ (وہ اِس سے روکتا ہے اور تمھیں متنبہ کرتا ہے کہ) جو اِس طرح کے لوگوں سے دوستی کریں گے، وہی ظالم ہیں۔
آیت میں جوحصر ہے، اُس کا سارا زور اِسی لفظ پر ہے۔ یعنی ممنوع صرف دوستی ہے جو ذاتی مفادات اور خاندانی، قبائلی اور قومی تعصبات کو دین و ملت پر ترجیح دینے کا باعث بن جاتی ہے۔ نیکی اور انصاف ممنوع نہیں ہے۔ اِس کا اہتمام تو ہر حالت میں ہو گا۔ اِس میں دوست، دشمن اور کافر و مومن کے امتیاز کا کوئی سوال نہیں ہے۔ بر و تقویٰ اور قیام بالقسط ایمان کا تقاضا ہے۔ اِسے کوئی بندۂ مومن کسی حال میں بھی پس پشت نہیں ڈال سکتا۔
لفظ ’الظّٰلِمُوْنَ‘ یہاں ’الظّٰلِمُوْنَ لِاَنْفُسِھِمْ‘ کے معنی میں ہے۔ یعنی وہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہوں گے۔
وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں ۔
سابقہ آیات میں کفار سے جس ترک تعلق کی ہدایت کی گئی تھی اس کے متعلق لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ ان کے کافر ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے ان آیات میں یہ سمجھا یا گیا ہے کہ اس کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے، اور ان کافروں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کوئی برائی نہ کی ہو۔ اس کی بہترین تشریح وہ واقعہ ہے جو حضرت اسماء بنت ابی بکر اور ان کی کافر ماں کے درمیان پیش آیا تھا۔ حضرت ابوبکر کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبدالعزّٰی کافرہ تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ حضرت اسماء انہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئی اور کچھ تحفہ تحائف بھی لائیں۔ حضرت اسماء کی اپنی روایت یہ ہے کہ میں نے جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، اپنی ماں سے مل لوں ؟ اور کیا میں ان سے صلہ رحمی بھی کرسکتی ہوں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا اس سے صلہ رحمی کرو (مسند احمد۔ بخاری۔ مسلم) ۔ حضرت اسماء کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیر اس واقعہ کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماء نے ماں سے ملنے سے انکار کردیا تھا۔ بعد میں جب اللہ اور اس کے رسول کی اجازت مل گئی تب وہ ان سے ملیں (مسند احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم ) ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے کافر ماں باپ کی خدمت کرنا اور اپنے کافر بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنا جائز ہے جبکہ وہ دشمن اسلام نہ ہوں۔ اور اسی طرح ذمی مساکین پر صدقات بھی صرف کیے جاسکتے ہیں (احکام القرآن للجصاص۔ روح المعانی) ۔
اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس سے نکال دیا اور دیس سے نکال دینے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ (قطعًا) ظالم ہیں ۔
یعنی ارشاد الٰہی اور امر ربانی سے اعراض کرتے ہوئے۔
کیونکہ انہوں نے ایسے لوگوں سے محبت کی ہے جو محبت کے اہل نہیں تھے، یوں انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا کہ انہیں اللہ کے عذاب کے لئے پیش کردیا۔
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کی تحقیق کرو، یوں اللہ تو ان کے ایمان سے اچھی طرح واقف ہی ہے، پس اگر تم ان کو مومنہ پاؤ تو ان کو کفار کی طرف نہ لوٹاؤ، نہ وہ عورتیں ان کے لیے جائز ہیں اور نہ وہ ان عورتوں کے لیے جائز ہیں۔ اور انھوں نے جو کچھ خرچ کیا ہو وہ ان کو ادا کر دو اور تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم ان سے نکاح کر لو بشرطیکہ ان کے مہر ان کو ادا کرو۔ اور کافرہ عورتوں کی عصمتوں پر قابض نہ رہو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا اس کا مطالبہ کرو اور وہ بھی مطالبہ کریں اس کا جو انھوں نے خرچ کیا ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو وہ تمہارے درمیان کر رہا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
مکہ سے ہجرت کر کے آنے والی عورتوں سے متعلق تحقیق کی ہدایت: مسلمانوں کو ہدایت فرمائی گئی کہ جو مسلمان عورتیں دارالکفر سے ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں ان کو کفار کی طرف واپس کرنے کی ذمہ داری تو، جیسا کہ اوپر تمہیدی بحث میں اشارہ گزرا، تم پر نہیں ہے لیکن ان کے کفر و ایمان کی تحقیق کیے بغیر یوں ہی اپنے گھروں میں ان کو مفت کا مال سمجھ کر ڈال لینا بھی جائز نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ جو عورتیں آئیں ان کے باب میں اچھی طرح تحقیق کر لی جائے کہ فی الواقع ان کی ہجرت اسلام ہی کے لیے ہے یا کوئی اور غرض ان کے اس نقل مکان کا سبب ہوئی ہے۔ اگر تحقیق سے اطمینان ہو جائے کہ ان کی ہجرت اسلام ہی کے لیے ہے تب تو ان کو واپس کرنا جائز نہیں ہے، لیکن یہ اطمینان وہ نہ دلا سکیں تو پھر ان کو روکنا بھی جائز نہیں ہے اس لیے کہ اسلامی معاشرہ طیبوں اور طیبات کا معاشرہ ہے، خبیثوں اور خبیثات کا معاشرہ نہیں ہے۔
اس امتحان و تحقیق کی نوعیت حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت سے واضح ہوتی ہے جو اس طرح نقل ہوئی ہے:
سئل ابن عباس کیف کان امتحان رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) النساء. قال کان یمتحنھن باللّٰہ ما خرجت من بغض الزوج و باللّٰہ ما خرجت رغبۃ عن ارض الی ارض و باللّٰہ ما خرجت التماس دنیا و باللّٰہ ما خرجت الّا حبّا للّٰہ ورسولہ.
’’ابن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی تحقیق کس طرح فرماتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ آپ قسم لیتے تھے کہ خدا کی قسم وہ شوہر سے بیزار ہو کر نہیں نکلی ہیں، خدا کی قسم محض جگہ کی تبدیلی کے شوق میں نہیں نکلی ہیں، خدا کی قسم کوئی اور دنیوی غرض بھی اس نکلنے کا محرک نہیں ہوئی ہے، خدا کی قسم وہ محض اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں نکلی ہیں۔‘‘
’اَللہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِہِنَّ‘۔ یہ ایک جملہ معترضہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم قَسم اور دوسرے قرائن و حالات سے جس حد تک تحقیق کر سکتے ہو کرنے کی کوشش کرو۔ رہی اصل حقیقت تو وہ اللہ کو خوب معلوم ہے۔ اگر کوشش کے باوجود تم صحیح نتیجہ تک نہ پہنچ سکے تو عند اللہ تم معذور ہو اور اگر انھوں نے تم کو دھوکا دیا تو یاد رکھیں کہ اللہ ان کے ایمان و کفر سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
’فَإِنْ عَلِمْتُمُوۡہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوۡہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ‘۔ یعنی میسر ذرائع تحقیق سے اگر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے کہ وہ مومنہ ہیں تو ان کو کفار کے حوالہ نہ کرو، اس لیے کہ نہ وہ کفار کے لیے جائز ہیں اور نہ کفار ان کے لیے جائز ہیں بلکہ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے حرام ہیں۔
منصفانہ فیصلہ: اس حکم سے قرآن نے اس نزاع کا فیصلہ کر دیا جو معاہدۂ حدیبیہ کی دفعہ کے بارے میں پیدا ہو گئی تھی اور غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہ فیصلہ نہایت ہی منصفانہ ہے۔ اگر قرآن کا فیصلہ یہ بھی ہوتا کہ ازروئے معاہدہ کسی عورت کی بھی واپسی کے مسلمان پابند نہیں ہیں تو یہ بھی بے جا نہ ہوتا بلکہ یہ محض الفاظ سے فائدہ اٹھانے والی بات ہوتی۔ قرآن نے صرف الفاظ سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی ایک نہایت محکم عقلی و اخلاقی بنیاد ہے۔ یعنی ان عورتوں کو تو واپس کر دینے کی ہدایت فرمائی جن کی ہجرت اللہ و رسول کے لیے نہیں بلکہ کسی حقیر دنیوی مقصد کے لیے ہو البتہ جن کا مومنہ ہونا ثابت ہو جائے ان کو واپس کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ ایک ایسی اصولی بات ہے جس کا کوئی عاقل انکار نہیں کر سکتا۔ انسان اپنی ایک عقلی و اخلاقی ہستی رکھتا ہے اس وجہ سے یہ اس کے اوپر صریح ظلم ہے کہ اس کو کسی ایسے معاشرے کے ساتھ بندھے رہنے پر مجبور کیا جائے جس کے اندر اس کا یہ اخلاقی و عقلی تشخص محفوظ نہ رہ سکے۔ بالخصوص عورتیں جنس ضعیف ہونے کے سبب سے اور بھی حق دار ہیں کہ ان کا تحفظ کیا جائے۔
’وَاٰتُوۡہُم مَّا أَنفَقُوۡا‘۔ یہ ایک اور منصفانہ بات کی ہدایت فرمائی کہ جو مومنہ روکی گئی ہے اگر وہ کسی کافر کی زوجیت میں رہی ہے تو مسلمانوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے شوہر نے جو مہر اس کو ادا کیا ہے وہ مسلمانوں کی طرف سے اس کو واپس کر دیا جائے۔ اس کے واپس کیے جانے کی عملی شکل یہی ہو گی کہ اس کی واپسی کا ذمہ دار بیت المال ہو گا۔ ’مَآ أَنفَقُوْا‘ کے الفاظ اگرچہ عام ہیں لیکن میاں بیوی کی جدائی کی صورت میں مہر ہی زیربحث آتا ہے اس وجہ سے قرینہ دلیل ہے کہ وہی مراد ہے۔
’وَلَا جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ أَن تَنکِحُوہُنَّ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ‘۔ یعنی ان مراحل کے طے ہو جانے کے بعد اگر کوئی مسلمان ان سے نکاح کرنا چاہے تو وہ بے تکلف کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ مہر ادا کرے۔ یعنی جو مہر سابق شوہر کو دیا گیا ہے اس کے علاوہ عورت کو بھی اس کا مہر دینا ہو گا جو نکاح کرنے والا ادا کرے گا۔
’لَا جُنَاحَ‘ کے الفاظ اس امر کے اظہار کے لیے ہیں کہ جو عورت اس طرح دارالاسلام میں آ کر اسلامی معاشرہ میں شامل ہو گئی اس کے ساتھ نکاح میں یہ چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ وہ دارالکفر میں کسی کے نکاح میں رہی ہے یا اس کے ماں باپ یا دوسرے اولیاء ہیں جن کی اجازت کی ضرورت ہے۔ اب وہ اپنے کافر شوہر اور کافر اقرباء کی جملہ پابندیوں سے آزاد اور اسلامی شریعت کے حدود کے اندر اپنی مرضی کی آپ مالک ہو گی۔
ایک اور فیاضانہ قدم: ’وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ‘۔ ’عِصَم‘ جمع ہے ’عِصْمَۃ‘ کی۔ یہ اسی سلسلہ میں اسلام نے ایک اور قدم بھی نہایت فیاضانہ اور بالکل یک طرفہ اٹھایا کہ مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ تم میں سے جن کی بیویاں دارالکفر میں ہیں اور وہ اپنے کفر پر قائم ہیں ان کی عصمتوں کے مالک نہ بنے رہو بلکہ ان کو اپنے نکاح کی قید سے آزاد کر دو، وہ جس سے چاہیں نکاح کر لیں۔
’وَاسْأَلُوْا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْیَسْأَلُوْا مَا أَنفَقُوْا‘۔ اس اعلان کے بعد گویا معاملہ کی شکل یہ ہوئی کہ جو عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آ گئی ہیں ان کا نکاح ان کے کافر شوہروں کے ساتھ ختم اور جو عورتیں مسلمانوں کے نکاح میں تھیں لیکن وہ دارالکفر ہی میں رہ گئیں اور کفر ہی پر قائم ہیں ان کے نکاح مسلمانوں کے ساتھ کالعدم۔ رہا ان کے مہروں کا معاملہ تو ان کا مبادلہ اجتماعی طور پر کر لیا جائے۔ مسلمانوں نے جو مہر اپنی کافر بیویوں کو دیے وہ کفار مسلمانوں کو واپس کر دیں اور کفار نے جو مہر اپنی ان بیویوں کو دیے جو مسلمان ہو گئیں ان کے مہر مسلمان کفار کو واپس کریں۔
’ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللہِ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘۔ یہ اَخیر میں واضح فرما دیا کہ یہ اس نزاع کا فیصلہ ہے جو عورتوں کی واپسی سے متعلق، معاہدۂ حدیبیہ کی تشریح میں، تمہارے اور قریش کے درمیان ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن نے قریش کے اس مطالبہ کو تو تسلیم نہیں کیا کہ معاہدہ کی رو سے مسلمانوں پر ان عورتوں کی واپسی لازمی ہے جو ہجرت کر کے ان کے پاس جائیں البتہ اس نزاع کا ایک معقول، مبنی بر انصاف اور جامع فیصلہ ایسا کر دیا جس سے اس وقت کی ایک بہت بڑی اجتماعی الجھن بھی دور ہو گئی اور آئندہ ابھرنے والے بعض جھگڑوں کا بھی سدباب ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اس وجہ سے بندوں کو چاہیے کہ اس کے فیصلوں پر اعتماد کریں۔
ایمان والو، (اِسی رویے کا تقاضا ہے کہ) مسلمان عورتیں جب ہجرت کرکے تمھارے پاس آئیں تو اُن کی تحقیق کرو ۔۔۔ اللہ تو اُن کے ایمان سے واقف ہی ہے ۔۔۔ (لیکن تم تحقیق کرو)، پھر اگر معلوم ہو جائے کہ مومنہ ہیں تو اُنھیں اِن کافروں کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ یہ اُن کے لیے جائز ہیں اور نہ یہ کافر اِن عورتوں کے لیے جائز ہیں۔ اِن پر جو کچھ وہ خرچ کر چکے ہیں، وہ اُنھیں ادا کر دو اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اِن سے نکاح کر لو، بشرطیکہ اِن کے مہر اِنھیں ادا کرو۔ اور کافر عورتوں کے ناموس تم خود بھی اپنے قبضے میں نہ رکھو اور جو مہر تم نے اُنھیں دیے تھے، واپس مانگ لو اور جو اُنھوں نے دیے تھے، وہ بھی واپس مانگ لیں۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو وہ تمھارے درمیان کر رہا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
یعنی جس رویے کی تلقین اوپر کی گئی ہے، اُس کا تقاضا ہے۔
یعنی اِس بات کی تحقیق کرو کہ وہ اسلام قبول کرکے اور اسلام ہی کے لیے آئی ہیں یا کوئی اور دنیوی غرض، مثلاً شوہر سے بے زاری یا کسی سے محبت یا محض جگہ کی تبدیلی کا شوق اِس اقدام کا باعث بن گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا اور اُسے کسی تحقیق کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہ اگر جھوٹ بولیں گی تو اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گی، لیکن تمھارے لیے یہی کافی ہے کہ قسم اور دوسرے قرائن و حالات سے جو تحقیق کر سکتے ہو، کر لو۔ اِس کے بعد تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
یعنی اگر تحقیق سے معلوم ہو جائے کہ ایمان و اسلام نہیں، بلکہ کوئی دنیوی غرض اُن کے آنے کا محرک ہوئی ہے تو اُنھیں واپس کر دیا جائے۔ تزکیہ و تطہیر کے اِس مرحلے میں صرف سچے اہل ایمان ہی مدینے کے معاشرے میں قبول کیے جا سکتے ہیں، منکرین کے لیے یہاں کوئی گنجایش نہیں ہے۔
یہ اُسی حکم کی فرع ہے جو اوپر بیان ہوا ہے کہ دین کے دشمنوں سے دوستی کا کوئی تعلق باقی نہیں رہنا چاہیے۔ میاں بیوی کا رشتہ اِسی تعلق سے وجود میں آتا اور اِسی بنا پر قائم رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اِن کافروں سے دوستی کے تمام رشتے منقطع کرنے کی ہدایت فرمائی تو اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر اُن عورتوں کے نکاح بھی ختم کر دیے جو اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہجرت کرکے مدینہ آگئی تھیں۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ حکم اُنھی کافروں سے متعلق ہے جو معاندین ہوں اور دین کے دشمن بن کر اُس کی مخالفت پر اتر آئیں۔
یہ مزید وضاحت ہے کہ جو عورتیں مسلمان ہو کر مدینہ آجائیں، اُن کے نکاح اُن کے سابق شوہروں کے ساتھ آپ سے آپ ختم ہو جائیں گے۔ اُنھیں کسی طلاق کی یا اولیا سے اجازت کی ضرورت نہ ہو گی۔ لہٰذا وہ اگر چاہیں تو اُن کے مہر واپس کرکے بغیر کسی تردد کے تم اُن کے ساتھ نکاح کر سکتے ہو۔
یعنی جو مہر اُن کے سابق شوہروں نے دیا تھا، وہ بھی واپس کیا جائے گا اور نکاح کرنے والا عورت کو بھی اُس کے نکاح کا مہر ادا کرے گا۔
یعنی جو عورتیں تمھارے نکاح میں تھیں، لیکن مکہ ہی میں رہ گئیں اور ابھی تک مسلمان نہیں ہوئیں، اُن کے نکاح بھی تمھارے ساتھ کالعدم ہیں۔ اُن کے عصمتوں کے مالک نہ بنے رہو، بلکہ اُنھیں اپنے نکاح کی قید سے آزاد کر دو۔ رہا اُن کے مہروں کا معاملہ تو اُن کا مبادلہ کر سکتے ہو۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ اِس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور کسی کا کوئی نقصان بھی نہ ہو گا۔
یہ پورا حکم اُس قضیے کا فیصلہ بھی ہے جو معاہدۂ حدیبیہ کی ایک دفعہ کے بارے میں پیدا ہو گیا تھا۔ اِس دفعہ کا مضمون یہ تھا کہ قریش میں سے کوئی شخص مسلمانوں سے جا ملے گا تو اگرچہ وہ اسلام لا چکا ہو، لیکن مسلمان اُس کو واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ اِس کے برخلاف کوئی مسلمان اگر قریش سے آ ملے گا تو وہ اُس کو واپس کرنے کے پابند نہ ہوں گے۔*
مسلمانوں نے مردوں کی حد تک تو اِس دفعہ کو قبول کر لیا، مگر عورتوں کے معاملے میں اِسے صریح تسلیم نہیں کیا اور صاف کہہ دیا کہ شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں۔** اِس چیز نے قریش اور مسلمانوں کے درمیان ایک قضیے کی صورت اختیار کر لی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہ فیصلہ نہایت ہی منصفانہ ہے۔ اگر قرآن کا فیصلہ یہ بھی ہوتا کہ ازروے معاہدہ کسی عورت کی بھی واپسی کے مسلمان پابند نہیں ہیں تو یہ بھی بے جا نہ ہوتا، لیکن یہ محض الفاظ سے فائدہ اٹھانے والی بات ہوتی۔ قرآن نے صرف الفاظ سے فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی ایک نہایت محکم عقلی و اخلاقی بنیاد ہے۔ یعنی اُن عورتوں کو تو واپس کر دینے کی ہدایت فرمائی جن کی ہجرت اللہ و رسول کے لیے نہیں، بلکہ کسی حقیر دنیوی مقصد کے لیے ہو۔ البتہ جن کا مومنہ ہونا ثابت ہو جائے، اُن کو واپس کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ ایک ایسی اصولی بات ہے جس کا کوئی عاقل انکار نہیں کر سکتا۔ انسان اپنی ایک عقلی و اخلاقی ہستی رکھتا ہے، اِس وجہ سے یہ اُس کے اوپر صریح ظلم ہے کہ اُس کو کسی ایسے معاشرے کے ساتھ بندھے رہنے پر مجبور کیا جائے جس کے اندر اُس کا یہ اخلاقی و عقلی تشخص محفوظ نہ رہ سکے۔ بالخصوص عورتیں جنس ضعیف ہونے کے سبب سے اور بھی حق دار ہیں کہ اُن کا تحفظ کیا جائے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۳۴۰)
_____
* بخاری، رقم ۲۵۸۱۔
** احکام القرآن، ابن العربی ۴/ ۲۲۹۔
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑ تال کرلو، اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر تمہیں معلوم ہوجائے کہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو ۔ نہ وہ کفار کے لیئے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیئے حلال۔ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دے تھے وہ انہیں پھر دو ۔ اور ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم ان کے مہر ان کو ادا کردو ۔ اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رو کے رہو۔ جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیئے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں ۔ یہ اللہ کا حکم ہے، ہو تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اول اول تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ بھاگ کر مدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا۔ پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور سب سے پہلے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کر کے مدینے پہنچیں۔ کفار نے معاہدے کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا اور ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لیے مدینے پہنچ گئے۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ مسلمان ہوں اور یہ اطمینان کرلیا جائے کہ واقعی وہ ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں، کوئی اور چیز انہیں نہیں لائی ہے، تو انہیں واپس نہ کیا جائے۔
اس مقام پر احادیث کی روایت بالمعنیٰ سے ایک بڑی پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے جسے حل کرنا ضروری ہے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کے متعلق احادیث میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں وہ اکثر و بیشتر بالمعنیٰ روایات ہیں۔ زیر بحث شرط کے متعلق ان میں سے کسی روایت کے الفاظ یہ ہیں : من جاء منکم لم نردہ علیکم ومن جاء کم منا رددتموہ علینا۔ ” تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو تمہارے پاس جائے گا اسے تم واپس کرو گے “۔ کسی میں یہ الفاظ ہیں، من اتٰی رسول اللہ من اصحابہ بغیر اذن ولیہ ردہ علیہ۔ ” رسول اللہ کے پاس ان کے اصحاب میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا اسے وہ واپس کردیں گے “۔ اور کسی میں ہے من اتٰی محمداً من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیہم۔ ” قریش میں سے جو شخص محمد کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جائے گا اسے وہ قریش کو واپس کردیں گے “۔ ان روایات کا طرز بیان خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان میں معاہدے کی اس شرط کو ان الفاظ میں نقل نہیں کیا گیا ہے جو اصل معاہدے میں لکھے گئے تھے، بلکہ راویوں نے ان کا مفہوم خود اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے۔ لیکن چونکہ بکثرت روایات اسی نوعیت کی ہیں اس لیے عام طور پر مفسرین و محدثین نے اس سے یہی سمجھا کہ معاہدہ عام تھا جس میں عورت مرد سب داخل تھے اور عورتوں کو بھی اس کی رو سے واپس ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آیا کہ مومن عورتیں واپس نہ جائیں تو ان حضرات نے اس کی یہ تاویل کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن عورتوں کی حد تک معاہدہ توڑ دینے کا فیصلہ فرما دیا۔ مگر یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کو اس آسانی کے ساتھ قبول کرلیا جائے۔ اگر معاہدہ فی الواقع بلا تخصیص مرد و زن سب کے لیے عام تھا تو آخر یہ کیسے جائز ہوسکتا تھا کہ ایک فریق اس میں یک طرفہ ترمیم کر دے یا اس کے کسی جز کو بطور خود بدل ڈالے ؟ اور بالفرض ایسا کیا بھی گیا تھا تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قریش کے لوگوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ قریش والے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی ایک ایک بات پر گرفت کرنے کے لیے خار کھائے بیٹھے تھے۔ انہیں اگر یہ بات ہاتھ آجاتی کہ آپ شرائط معاہدہ کی صریح خلاف ورزی کر گزرے ہیں تو وہ زمین و آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ لیکن ہمیں کسی روایت میں اس کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ انہوں نے قرآن کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی چون و چرا کی ہو۔ یہ ایسا سوال تھا جس پر غور کیا جاتا تو معاہدے کے اصل الفاظ کی جستجو کر کے اس پیچیدگی کا حل تلاش کیا جاتا، مگر بہت سے لوگوں نے تو اس کی طرف توجہ نہ کی، اور بعض حضرات (مثلاً قاضی ابوبکر ابن عربی) نے توجہ کی بھی تو انہوں نے قریش کے اعتراض نہ کرنے کی یہ توجیہ تک کرنے میں تامل نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس معاملہ میں قریش کی زبان بند کردی تھی۔ تعجب ہے کہ اس توجیہ پر ان حضرات کا ذہن کیسے مطمئن ہوا۔
اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ کفار قریش کی طرف سے تھی، اور ان کی جانب سے ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے جو الفاظ معاہدے میں لکھوائے تھے وہ یہ تھے : علیٰ ان لا یاتیک منا رجل و ان کان علی دینک الا رددتہ الینا۔ ” اور یہ کہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد بھی آئے، اگرچہ وہ تمہارے دین ہی پر ہو، تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے “۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ میں قوی سند کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ سہیل نے رجل کا لفظ شخص کے معنی میں استعمال کیا ہو، لیکن یہ اس کی ذہنی مراد ہوگی۔ معاہدے میں جو لفظ لکھا گیا تھا وہ رجل ہی تھا جو عربی زبان میں مرد کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسی بنا پر جب ام کلثوم بنت عقبہ کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (امام زہری کی روایت کے مطابق) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ کان الشرط فی الرجال دون النساء۔ ” شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں “۔ (احکام القرآن، ابن عربی۔ تفسیر کبیر، امام رازی) ۔ اس وقت تک خود قریش کے لوگ بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ معاہدے کا اطلاق ہر طرح کے مہاجرین پر ہوتا ہے، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ مگر جب حضور نے ان کو معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تو وہ دم بخود رہ گئے اور انہیں ناچار اس فیصلے کو ماننا پڑا۔
معاہدے کی اس شرط کے لحاظ سے مسلمانوں کو حق تھا کہ جو عورت بھی مکہ چھوڑ کر مدینے آتی، خواہ وہ کسی غرض سے آتی، اسے واپس دینے سے انکار کردیتے۔ لیکن اسلام کی صرف مومن عورتوں کی حفاظت سے دلچسپی تھی، ہر طرح کی بھاگنے والی عورتوں کے لیے مدینہ طیبہ کو پناہ گاہ بنانا مقصود نہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور اپنے مومن ہونے کا اظہار کریں، ان سے پوچھ گچھ کر کے اطمینان کرلو کہ وہ واقعی ایمان لے کر آئی ہیں، اور جب اس کا اطمینان ہوجائے تو انکو واپس نہ کرو۔ چنانچہ اس ارشاد الٰہی پر عمل درآمد کرنے کے لیے جو قاعدہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آتی تھیں ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا وہ اللہ کی توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر نکل کر آئی ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ شوہر سے بگڑ کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہوں ؟ یا ہمارے ہاں کے کسی مرد کی محبت ان کو لے آئی ہو ؟ یا کوئی اور دنیوی غرض ان کے اس فعل کی محرک ہوئی ہو ؟ ان سوالات کا اطمینان بخش جواب جو عورتیں دے دیتی تھیں صرف ان کو روک لیا جاتا تھا، باقی سب کو واپس کردیا جاتا تھا (ابن جریر بحوالہ ابن عباس، قتادہ، مجاہد، عکرمہ، ابن زید) ۔
اس آیت میں قانون شہادت کا بھی ایک اصولی ضابطہ بیان کردیا گیا ہے اور اس کی مزید توضیح اس طریق کار سے ہوگئی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر عمل درآمد کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ آیت میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ہجرت کرنے والی جو عورتیں اپنے آپ کو مومن ہونے کی حیثیت سے پیش کریں ان کے ایمان کی جانچ کرو۔ دوسرے یہ کہ ان کے ایمان کی حقیقت کو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، تمہارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں ایمان لائی ہیں۔ تیسرے یہ کہ جانچ پڑتال سے جب تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں واپس نہ کرو۔ پھر اس حکم کے مطابق ان عورتوں کے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا وہ یہ تھا کہ ان عورتوں کے حلفیہ بیان پر اعتماد کیا جائے اور ضروری جرح کر کے یہ اطمینان کرلیا جائے کہ ان کی ہجرت کا محرک ایمان کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اس سے اول تو یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کو حقیقت کا علم حاصل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف وہ علم کافی ہے جو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ہم ایک شخص کے حلفیہ بیان پر اعتماد کریں گے۔ تاوقتیکہ کوئی صریح قرینہ اس کے کاذب ہونے پر دلالت نہ کر رہا ہو۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی اپنے عقیدے اور ایمان کے متعلق خود جو خبر دے رہا ہو ہم اسے قبول کریں گے اور اس بات کی کھوج میں نہ پڑیں گے کہ فی الواقع اس کا وہی عقیدہ ہے جو وہ بیان کر رہا ہے، الا یہ کہ کوئی صریح علامت ہمارے سامنے ایسی ظاہر ہوجائے جو اس کی تردید کر رہی ہو۔ اور چوتھی بات یہ کہ ایک شخص کے جن ذاتی حالات کو دوسرا کوئی نہیں جان سکتا ان میں اسی کے بیان پر بھروسہ کیا جائے گا، مثلاً طلاق اور عدت کے معاملات میں عورت کے حیض اور طہر کے متعلق اس کا اپنا بیان ہی معتبر ہوگا، خواہ وہ جھوٹ بولے یا سچ۔ انہی قواعد کے مطابق علم حدیث میں بھی ان روایات کو قبول کیا جائے گا جن کے راویوں کا ظاہر حال ان کے راستباز ہونے کی شہادت دے رہا ہو، الا یہ کہ کچھ دوسرے قرائن ایسے موجود ہوں جو کسی روایت کے قبول میں مانع ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ ان کے کافر شوہروں کو ان کے جو مہر واپس کیے جائیں گے وہی ان عورتوں کے مہر شمار نہ ہوں گے، بلکہ جو مسلمان بھی ان میں سے کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے وہ اس کا مہر ادا کرے اور اس سے نکاح کرلے۔
ان آیات میں چار بڑے اہم حکم بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق اسلام کے عائلی قانون سے بھی ہے اور بین الا قوامی قانون سے بھی :
اول یہ کہ جو عورت مسلمان ہوجائے وہ اپنے کافر شوہر کے لیے حلال نہیں رہتی اور نہ کافر شوہر اس کے لیے حلال رہتا ہے۔
دوسرے یہ کہ جو منکوحہ عورت مسلمان ہو کر دار الکفر سے دار الاسلام میں ہجرت کر آئے اس کا نکاح آپ سے آپ ٹوٹ جاتا ہے اور جو مسلمان بھی چاہے اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرسکتا ہے۔
تیسرے یہ کہ جو مرد مسلمان ہوجائے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی بیوی اگر کافر رہے تو وہ اسے اپنے نکاح میں روکے رکھے۔
چوتھے یہ کہ اگر دار الکفر اور دار الاسلام کے درمیان صلح کے تعلقات موجود ہوں تو اسلامی حکومت کو دار الکفر کی حکومت سے یہ معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کفار کی جو منکوحہ عورتیں مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر آئی ہوں ان کے مہر مسلمانوں کی طرف سے واپس دے دیے جائیں، اور مسلمانوں کی منکوحہ کافر عورتیں جو دار الکفر میں رہ گئی ہوں ان کے مہر کفار کی طرف سے واپس مل جائیں۔
ان احکام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ آغاز اسلام میں بکثرت مرد ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا مگر ان کی بیویاں مسلمان نہ ہوئیں۔ اور بہت سی عورتیں ایسی تھیں جو مسلمان ہوگئیں مگر ان کے شوہروں نے اسلام قبول نہ کیا۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک صاحبزادی حضرت زینب کے شوہر ابو العاص غیر مسلم تھے اور کئی سال تک غیر مسلم رہے۔ ابتدائی دور میں ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ مسلمان عورت کے لیے اس کا کافر شوہر اور مسلمان مرد کے لیے اس کی مشرک بیوی حلال نہیں ہے۔ اس لیے ان کے درمیان ازدواجی رشتے برقرار رہے۔ ہجرت کے بعد بھی کئی سال تک یہ صورت حال رہی کہ بہت سی عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر آئیں اور ان کے کافر شوہر دار الکفر میں رہے۔ اور بہت سے مسلمان مرد ہجرت کر کے آگئے اور ان کی کافر بیویاں دار الکفر میں رہ گئیں۔ مگر اس کے باوجود ان کے درمیان رشتہ ازدواج قائم رہا۔ اس سے خاص طور پر عورتوں کے لیے بڑی پیچیدگی پیدا ہو رہی تھی، کیونکہ مرد تو دوسرے نکاح بھی کرسکتے تھے، مگر عورتوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ جب تک سابق شوہروں سے ان کا نکاح فسخ نہ ہوجائے وہ کسی اور شخص سے نکاح کرسکیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب یہ آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے مسلمانوں اور کفار و مشرکین کے درمیان سابق کے ازدواجی رشتوں کو ختم کردیا اور آئندہ کے لیے ان کے بارے میں ایک قطعی اور واضح قانون بنا دیا۔ فقہائے اسلام نے اس قانون کو چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے :
ایک : وہ حالت جس میں زوجین دار الاسلام میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہوجائے اور دوسرا کافر رہے۔
دوسرے : وہ حالت جس میں زوجین دار الکفر میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہوجائے اور دوسرا کافر رہے۔
تیسرے : وہ حالت جس میں زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر کے آجائے اور دوسرا دار الکفر میں کافر رہے۔
چوتھے : وہ حالت جس میں مسلم زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہوجائے۔
ذیل میں ہم ان چاروں حالتوں کے متعلق فقہاء کے مسالک الگ الگ بیان کرتے ہیں :
پہلی صورت میں اگر اسلام شوہر نے قبول کیا ہو اور اس کی بیوی عیسائی یا یہودی ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے تو دونوں کے درمیان نکاح باقی رہے گا، کیونکہ مسلمان مرد کے لیے اہل کتاب بیوی جائز ہے۔ یہ امر تمام فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہے۔
اور اگر اسلام قبول کرنے والے مرد کی بیوی غیر اہل کتاب میں سے ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے، تو حنفیہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، قبول کرلے تو نکاح باقی رہے گا، نہ قبول کرے تو ان کے درمیان تفریق کردی جائے گی۔ اس صورت میں اگر زوجین کے درمیان خلوت ہوچکی ہو تو عورت مہر کی مستحق ہوگی، اور خلوت نہ ہوئی ہو تو اس کو مہر پانے کا حق نہ ہوگا، کیونکہ فرقت اس کے انکار کی وجہ سے واقع ہوئی ہے (المبسوط، ہدایہ، فتح القدیر) ۔ امام شافعی اور احمد کہتے ہیں کہ اگر زوجین کے درمیان خلوت نہ ہوئی ہو تو مرد کے اسلام قبول کرتے ہی عورت اس کے نکاح سے باہر ہوجائے گی، اور اگر خلوت ہوچکی ہو تو عورت تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اس کے نکاح میں رہے گی، اس دوران میں وہ خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کرلے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ تیسری بار ایام سے فارغ ہوتے ہی آپ سے آپ فسخ ہوجائے گا۔ امام شافعی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ذمیوں کو ان کے مذہب سے تعرض نہ کرنے کی جو ضمانت ہماری طرف سے دی گئی ہے اس کی بنا پر یہ درست نہیں ہے کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے۔ لیکن در حقیقت یہ ایک کمزور بات ہے، کیونکہ ایک ذمی عورت کے مذہب سے تعرض تو اس صورت میں ہوگا جبکہ اس کو اسلام قبول کرنے پر مجور کیا جائے۔ اس سے صرف یہ کہنا کوئی بےجا تعرض نہیں ہے کہ تو اسلام قبول کرلے تو اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکے گی ورنہ تجھے اس سے الگ کردیا جائے گا۔ حضرت علی کے زمانے میں اس کی نظیر پیش بھی آ چکی ہے۔ عراق کے ایک مجوسی زمیندار نے اسلام قبول کیا اور اس کی بیوی کافر رہی۔ حضرت علی نے اس کے سامنے اسلام پیش فرمایا۔ اور جب اس نے انکار کیا تب آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی (المبسوط) ۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اگر خلوت نہ ہوچکی ہو تو مرد کے اسلام لاتے ہی اس کی کافر بیوی اس سے فوراً جدا ہوجائے گی اور اگر خلوت ہوچکی ہو تو عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا اور اس کے انکار کی صورت میں جدائی واقع ہوجائے گی (المغنی لابن قدامہ) ۔
اور اگر اسلام عورت نے قبول کیا ہو اور مرد کافر رہے، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب میں سے، تو حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں میں خلوت ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو، ہر صورت میں شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا، قبول کرلے تو عورت اس کے نکاح میں رہے گی، انکار کر دے تو قاضی دونوں میں تفریق کرا دے گا۔ اس دوران میں جب تک مرد اسلام سے انکار نہ کرے، عورت اس کی بیوی تو رہے گی مگر اس کو مقاربت کا حق نہ ہوگا۔ شوہر کے انکار کی صورت میں تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہوگی۔ اگر اس سے پہلے خلوت نہ ہوئی ہو تو عورت نصف مہر پانے کی حق دار ہوگی، اور خلوت ہوچکی ہو تو عورت پورا مہر بھی پائے گی اور عدت کا نفقہ بھی (المبسوط۔ ہدایہ۔ فتح القدیر) ۔ امام شافعی کے نزدیک خلوت نہ ہونے کی صورت میں عورت کے اسلام قبول کرتے ہی نکاح فسخ ہوجائے گا، اور خلوت ہونے کی صورت میں عدت ختم ہونے تک عورت اس مرد کے نکاح میں رہے گی۔ اس مدت کے اندر وہ اسلام قبول کرلے تو نکاح باقی رہے گا ورنہ عدت گزرتے ہی جدائی واقع ہوجائے گی۔ لیکن مرد کے معاملہ میں بھی امام شافعی نے وہی رائے ظاہر کی ہے جو عورت کے معاملہ میں اوپر منقول ہوئی کہ اس کے سامنے اسلام پیش کرنا جائز نہیں ہے، اور یہ مسلک بہت کمزور ہے۔ حضرت عمر کے زمانے میں متعدد واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ عورت نے اسلام قبول کرلیا اور مرد سے اسلام لانے کے لیے کہا گیا اور جب اس نے انکار کردیا تو دونوں کے درمیان تفریق کرا دی گئی۔ مثلاً بنی تغلب کے ایک عیسائی کی بیوی کا معاملہ ان کے سامنے پیش ہوا۔ انہوں نے مرد سے کہا یا تو تو اسلام قبول کرلے ورنہ میں تم دونوں کے درمیان تفریق کر دوں گا۔ اس نے انکار کیا اور آپ نے تفریق کی ڈگری دے دی۔ بہز المَلِک کی ایک نو مسلم زمیندارنی کا مقدمہ ان کے پاس بھیجا گیا۔ اس کے معاملہ میں بھی انہوں نے حکم دیا کہ اس کے شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے، اگر وہ قبول کرلے تو بہتر، ورنہ دونوں میں تفریق کرا دی جائے۔ یہ واقعات صحابہ کرام کے سامنے پیش آئے تھے اور کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے (احکام القرآن للجصاص۔ المبسوط۔ فتح القدیر) امام مالک کی رائے اس معاملے میں یہ ہے کہ اگر خلوت سے پہلے عورت مسلمان ہوجائے تو شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے، وہ قبول کرلے تو بہتر ورنہ فوراً تفریق کرا دی جائے۔ اور اگر خلوت ہوچکی ہو اور اس کے بعد عورت اسلام لائی ہو تو زمانہ عدت ختم ہونے تک انتظار کیا جائے، اس مدت میں شوہر اسلام قبول کرلے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ عدت گزرتے ہی فرقت واقع ہوجائے گی۔ امام احمد کا ایک قول امام شافعی کی تائید میں ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہوجانا بہرحال فوری تفریق کا موجب ہے خواہ خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو (المغنی) ۔
(2) دار الکفر میں اگر عورت مسلمان ہوجائے اور مرد کافر رہے، یا مرد مسلمان ہوجائے اور اس کی بیوی (جو عیسائی یا یہودی نہ ہو بلکہ کسی غیر کتابی مذہب کی ہو) اپنے مذہب پر قائم رہے، تو حنفیہ کے نزدیک خواہ ان کے درمیان خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، تفریق واقع نہ ہوگی جب تک عورت کو تین مرتبہ ایام ماہواری نہ آجائیں، یا اس کے غیر حائضہ ہونے کو صورت میں تین مہینے نہ گزر جائیں۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق بھی مسلمان ہوجائے تو نکاح باقی رہے گا، ورنہ یہ مدت گزرتے ہی فرقت واقع ہوجائے گی۔ امام شافعی اس معاملہ میں بھی خلوت اور عدم خلوت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کی رائے یہ ہے کہ اگر خلوت نہ ہوئی ہو تو زوجین کے درمیان دین کا اختلاف واقع ہوتے ہی فرقت ہوجائے گی، اگر خلوت ہوجانے کے بعد دین کا اختلاف رونما ہوا ہو تو عدت کی مدت ختم ہونے تک ان کا نکاح باقی رہے گا۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق اسلام قبول نہ کرے تو عدت ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح بھی ختم ہوجائے گا (المبسوط، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص) ۔
(3) ۔ جس صورت میں زوجین کے درمیان اختلاف دین کے ساتھ اختلاف دار بھی واقع ہوجائے، یعنی ان میں سے کوئی ایک دار الکفر میں کافر رہے اور دوسرا دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائے، اس کے متعلق حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان نکاح کا تعلق آپ سے آپ ختم ہوجائے گا۔ اگر ہجرت کرنے والی عورت ہو تو اسے فوراً دوسرا نکاح کرلینے کا حق حاصل ہے، اس پر کوئی عدت نہیں ہے، البتہ مقاربت کے لیے اس کے شوہر کو استبراء رحم کی خاطر ایک مرتبہ ایام ماہواری آجانے تک انتظار کرنا ہوگا، اور اگر وہ حاملہ ہو تب بھی نکاح ہوسکتا ہے مگر مقاربت کے لیے وضع حمل تک انتظار کرنا ہوگا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ سے صرف اتنا اختلاف کیا ہے کہ ان کے نزدیک عورت پر عدت لازم ہے، اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے اس کا نکاح نہیں ہوسکتا (المبسوط۔ ہدایہ۔ احکام القرآن للجصاص) ۔ امام شافعی، امام احمد اور امام مالک کہتے ہیں کہ اختلاف دار کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اصل چیز صرف اختلاف دین ہے۔ یہ اختلاف اگر زوجین میں واقع ہوجائے تو احکام وہی ہیں جو دار الاسلام میں زوجین کے درمیان یہ اختلاف واقع ہونے کے احکام ہیں (المغنی) ۔ امام شافعی اپنی مذکورہ بالا رائے کے ساتھ ساتھ ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورت کے معاملہ میں یہ رائے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے کافر شوہر سے لڑ کر اس کے حق زوجیت کو ساقط کرنے کے ارادے سے آئی ہو تو اختلاف دار کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے اس قصد کی بنا پر فوراً فرقت واقع ہوجائے گی (المبسوط و ہدایہ) ۔
لیکن قرآن مجید کی زیر بحث آیت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں صحیح ترین رائے وہی ہے جو امام ابو حنیفہ نے ظاہر فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ہجرت کر کے آنے والی مومن عورتوں ہی کے بارے میں نازل فرمائی ہے، اور انہی کے حق میں یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے ان کافر شوہروں کے لیے حلال نہیں رہیں جنہیں وہ دار الکفر میں چھوڑ آئی ہیں، اور دار الاسلام کے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کرلیں۔ دوسری طرف مہاجر مسلمانوں سے خطاب کر کے یہ فرمایا ہے کہ اپنی ان کافر بیویوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رکھو جو دار الکفر میں رہ گئی ہیں اور کفار سے اپنے وہ مہر واپس مانگ لو جو تم نے ان عورتوں کو دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اختلاف دین ہی کے احکام نہیں ہیں بلکہ ان احکام کو جس چیز نے یہ خاص شکل دے دی ہے وہ اختلاف دار ہے۔ اگر ہجرت کی بنا پر مسلمان عورتوں کے نکاح ان کے کافر شوہروں سے ٹوٹ نہ گئے ہوتے تو مسلمانوں کو ان سے نکاح کرلینے کی اجازت کیسے دی جاسکتی تھی، اور وہ بھی اس طرح کہ اس اجازت میں عدت کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ اسی طرح اگر لَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ کا حکم آجانے کے بعد بھی مسلمان مہاجرین کی کافر بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ گئی ہوتیں تو ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا جاتا کہ انہیں طلاق دے دو۔ مگر یہاں اس کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر اور حضرت طلحہ اور بعض دوسرے مہاجرین نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تھی۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا، اور ان بیویوں کے ساتھ تعلق زوجیت کا انقطاع ان کے طلاق دینے پر موقوف تھا، اور اگر وہ طلاق نہ دیتے تو وہ بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ جاتیں۔
اس کے جواب میں عہد نبوی کے تین واقعات کی نظیریں پیش کی جاتی ہیں جن کو اس امر کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختلاف دار کے باوجود مومن اور کافر زوجین کے درمیان نکاح کا تعلق برقرار رکھا۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے ذرا پہلے ابوسفیان مرالظَّہْران (موجودہ وادی فاطمہ) کے مقام پر لشکر اسلام میں آئے اور یہاں انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ان کی بیوی ہند مکہ میں کافر رہیں۔ پھر فتح مکہ کے بعد ہند نے اسلام قبول کیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تجدید نکاح کے بغیر ہی ان کو سابق نکاح پر برقرار رکھا۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد عکرِمہ بن ابی جہل اور حکیم بن حزام مکہ سے فرار ہوگئے اور ان کے پیچھے دونوں کی بیویاں مسلمان ہوگئیں۔ پھر انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے شوہروں کے لیے امان لے لی اور جا کر ان کو لے آئیں۔ دونوں اصحاب نے حاضر ہو کر اسلام قبول کرلیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بھی سابق نکاحوں کو بر قرار رکھا۔ تیسرا واقعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی صاحبزادی حضرت زینب کا ہے جو ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئیں تھیں اور ان کے شوہر ابو العاص بحالت کفر مکہ ہی میں مقیم رہ گئے تھے۔ ان کے متعلق مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ وہ 8 ھ میں مدینہ آ کر مسلمان ہوئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تجدید نکاح کے بغیر سابق نکاح ہی پر صاحبزادی کو ان کی زوجیت میں رہنے دیا۔ لیکن ان میں سے پہلے دو واقعے تو درحقیقت اختلاف دار کی تعریف ہی میں نہیں آتے، کیونکہ اختلاف دار اس چیز کا نام نہیں ہے ایک شخص عارضی طور پر ایک دار سے دوسرے دار کی طرف چلا گیا یا فرار ہوگیا، بلکہ یہ اختلاف صرف اس صورت میں واقع ہوتا ہے جب کوئی آدمی ایک دار سے منتقل ہو کر دوسرے دار میں آباد ہوجائے اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان موجودہ زمانے کی اصلاح کے مطابق ” قومیت ” (Nationality) کا فرق واقع ہوجائے۔ رہا سیدہ زینب (رض) کا معاملہ تو اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت ابن عباس کی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے، اور دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی ہے جس کو امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ اس دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاحبزادی کو جدید نکاح اور جدید مہر کے ساتھ پھر ابو العاص ہی کی زوجیت میں دے دیا۔ اس اختلاف روایت کی صورت میں اول تو یہ نظیر ان حضرات کے لیے قطعی دلیل نہیں رہتی جو اختلاف دار کی قانونی تاثیر کا انکار کرتے ہیں۔ دوسرے، اگر وہ ابن عباس ہی کی روایت کے صحیح ہونے پر اصرار کریں تو یہ ان کے مسلک کے خلاف پڑتی ہے۔ کیونکہ ان کے مسلک کی رو سے تو جن میاں بیوی کے درمیان اختلاف دین واقع ہوگیا ہو اور وہ باہم خلوت کرچکے ہوں ان کا نکاح عورت کو صرف تین ایام ماہواری آنے تک باقی رہتا ہے، اس دوران میں دوسرا فریق اسلام قبول کرلے تو زوجیت قائم رہتی ہے، ورنہ تیسری بار ایام آتے ہی نکاح آپ سے آپ فسخ ہوجاتا ہے۔ لیکن حضرت زینب کے جس واقعہ سے وہ استدلال کرتے ہیں اس میں زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہوئے کئی سال گزر چکے تھے، حضرت زینب کی ہجرت کے چھ سال بعد ابو العاص ایمان لائے تھے، اور ان کے ایمان لانے سے کم از کم دو سال پہلے قرآن میں وہ حکم نازل ہوچکا تھا جس کی رو سے مسلمان عورت مشرکین پر حرام کردی گئی تھی۔
(4) ۔ چوتھا مسئلہ ارتداد کا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ زوجین ایک ساتھ مرتد ہوجائیں، اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مرتد ہو اور دوسرا مسلمان رہے۔
اگر زوجین ایک ساتھ مرتد ہوجائیں تو شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ خلوت سے پہلے ایسا ہو تو فوراً ، اور خلوت کے بعد ہو تو عدت کی مدت ختم ہوتے ہی دونوں کا وہ نکاح ختم ہوجائے گا جو حالت اسلام میں ہوا تھا۔ اس کے برعکس حنفیہ کہتے ہیں کہ اگرچہ قیاس یہی کہتا ہے کہ ان کا نکاح فسخ ہوجائے، لیکن حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جو فتنہ ارتداد برپا ہوا تھا اس میں ہزارہا آدمی مرتد ہوئے، پھر مسلمان ہوگئے، اور صحابہ کرام نے کسی کو بھی تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا، اس لیے ہم صحابہ کے متفقہ فیصلے کو قبول کرتے ہوئے خلاف قیاس یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ زوجین کے ایک ساتھ مرتد ہونے کی صورت میں ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے (المبسوط، ہدایہ، فتح القدیر، الفقہ علی المذاہب الاربعہ) ۔
اگر شوہر مرتد ہوجائے اور عورت مسلمان رہے تو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک فوراً نکاح ٹوٹ جائے گا، خواہ ان کے درمیان پہلے خلوت ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ لیکن شافعیہ اور حنابلہ اس میں خلوت سے پہلے اور خلوت کے بعد کی حالت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اگر خلوت سے پہلے ایسا ہوا ہو تو فوراً نکاح ہوجائے گا، اور خلوت کے بعد ہوا ہو تو زمانہ عدت تک باقی رہے گا، اس دوران میں وہ شخص مسلمان ہوجائے تو زوجیت بر قرار رہے گی، ورنہ عدت ختم ہوتے ہی اس کے ارتداد کے وقت سے نکاح فسخ شدہ شمار کیا جائے گا، یعنی عورت کو پھر کوئی نئی عدت گزارنی نہ ہوگی۔ چاروں فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خلوت سے پہلے یہ معاملہ پیش آیا ہو تو عورت کو نصف مہر، اور خلوت کے بعد پیش آیا تو پورا مہر پانے کا حق ہوگا۔
اور اگر عورت مرتد ہوگئی ہو تو حنفیہ کا قدیم فتویٰ یہ تھا کہ اس صورت میں بھی نکاح فوراً فسخ ہوجائے گا، لیکن بعد کے دور میں علمائے بلخ و سمرقند نے یہ فتویٰ دیا کہ عورت کے مرتد ہونے سے فوراً فرقت واقع نہیں ہوتی، اور اس سے ان کا مقصد اس امر کی روک تھام کرنا تھا کہ شوہروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے عورتیں کہیں ارتداد کا راستہ اختیار نہ کرنے لگیں۔ مالکیہ کا فتویٰ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر قرائن یہ بتا رہے ہوں کہ عورت نے محض شوہر سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے بطور حیلہ ارتداد اختیار کیا ہے تو فرقت واقع نہ ہوگی۔ شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عورت کے ارتداد کی صورت میں بھی قانون وہی ہے جو مرد کے ارتداد کی صورت میں ہے، یعنی خلوت سے پہلے مرتد ہو تو فوراً نکاح فسخ ہوجائے گا، اور خلوت کے بعد ہو تو زمانہ عدت گزرنے تک نکاح باقی رہے گا، اس دوران میں وہ مسلمان ہوجائے تو زوجیت کا رشتہ برقرار رہے گا۔ ورنہ عدت گزرتے ہی نکاح وقت ارتداد سے فسخ شمار ہوگا۔ مہر کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ خلوت سے پہلے اگر عورت مرتد ہوئی ہے تو اسے کوئی مہر نہ ملے گا، اور اگر خلوت کے بعد اس نے ارتداد اختیار کیا ہو تو وہ پورا مہر پائے گی (المبسوط۔ ہدایہ۔ فتح القدیر۔ المغنی۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ) ۔
اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایماندار معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں اور جو خرچ ان کافروں کا ہوا ہو وہ انہیں ادا کردو ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور کافر عورتوں کے ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو وہ بھی مانگ لیں اور جو کچھ ان کافروں نے خرچ کیا ہو وہ بھی مانگ لیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان کر رہا ہے اللہ تعالیٰ بڑے علم (اور) حکمت والا ہے۔
معاہدہ حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ مکے سے کوئی مسلمانوں کے پاس چلا جائے گا تو اس کو واپس کرنا پڑے گا لیکن اس میں مرد و عورت کی صراحت نہیں تھی بظاہر کوئی احد میں دونوں ہی شامل تھے چنانچہ بعد میں بعض عورتیں مکے سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے پاس چلی گئیں تو کفار نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر اللہ نے اس آیت میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی اور یہ حکم دیا امتحان لینے کا مطلب ہے اس امر کی تحقیق کرو کہ ہجرت کر کے آنے والی عورت جو ایمان کا اظہار کر رہی ہے اپنے کافر خاوند سے ناراض ہو کر یا کسی مسلمان کے عشق میں یا کسی اور غرض سے تو نہیں آئی ہے اور صرف یہاں پناہ لینے کی خاطر ایمان کا دعوی کر رہی ہے۔ ١٠۔
یعنی تم اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچو اور تمہیں گمان غالب حاصل ہوجائے کہ یہ واقعی مومنہ ہیں۔
یہ انہیں ان کے کافر خاوندوں کے پاس واپس نہ کرنے کی علت ہے کہ اب کوئی مومن عورت کسی کافر کے لیے حلال نہیں جیسا کہ ابتدائے اسلام میں یہ جائز تھا چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت زینب (رض) کا نکاح ابو العاص ابن ربیع کے ساتھ ہوا تھا جب کہ وہ مسلمان نہیں تھے لیکن اس آیت نے آئندہ کے لیے ایسا کرنے سے منع کردیا اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے حلال نہیں اس لیے انہیں کافروں کے پاس مت لوٹاؤ ہاں اگر شوہر بھی مسلمان ہوجائے تو پھر ان کا نکاح برقرار رہ سکتا ہے چاہے خاوند عورت کے بعد ہجرت کر کے آئے۔
یعنی ان کے کافر خاوندوں نے ان کو جو مہر ادا کیا ہے، وہ تم انہیں ادا کردو۔
یہ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ یہ عورتیں جو ایمان کی خاطر اپنے کافر خاوندوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آگئی ہیں تم ان سے نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کا حق مہر تم ادا کرو تاہم یہ نکاح مسنون طریقے سے ہی ہوگا یعنی ایک تو انقضائے عدت (استبراء رحم) کے بعد ہوگا دوسرے اس میں ولی کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے البتہ عورت مدخول بہا نہیں ہے تو پھر بلا عدت فوری نکاح جائز ہے
عصم عصمۃ کی جمع ہے یہاں اس سے مراد عصمت عقد نکاح ہے مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند مسلمان ہوجائے اور بیوی بدستور کافر اور مشرک رہے تو ایسی مشرک عورت کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے اسے فورا طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کردیا جائے چنانچہ اس حکم کے بعد حضرت عمر (رض) نے اپنی دو مشرک بیویوں کو اور حضرت طلحہ ابن عبید اللہ (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ابن کثیر۔ البتہ اگر بیوی کتابیہ ہو تو اسے طلاق دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ ان سے نکاح جائز ہے اس لیے اگر وہ پہلے سے ہی بیوی کی حثییت سے تمہارے پاس موجود ہے تو قبول اسلام کے بعد اسے علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یعنی ان عورتوں پر جو کفر پر برقرا رہنے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں
یعنی ان عورتوں پر جو مسلمان ہو کر ہجرت کرکے مدینے آگئی ہیں۔
یعنی یہ حکم مذکور کہ دونوں ایک دوسرے کو حق مہر ادا کریں بلکہ مانگ کرلیں اللہ کا حکم ہے امام قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس دور کے ساتھ ہی خاص تھا اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے فتح القدیر۔ اس کی وجہ وہ معاہدہ ہے جو اس وقت فریقین کے درمیان تھا اس قسم کے معاہدے کی صورت میں آئندہ بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا بصورت دیگر نہیں۔
امین احسن اصلاحی
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو اور ان کا حال یہ ہے کہ انھوں نے اس حق کا انکار کیا جو تمہارے پاس آیا، وہ رسول کو اور تم کو اس بنا پر جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اللہ، اپنے خداوند پر، ایمان لائے! ۔۔۔ اگر تم میری راہ میں جہاد اور میری رضا جوئی کو نکلتے ہو، ان سے رازدارانہ نامہ و پیام کرتے ہوئے، درآں حالیکہ میں جانتا ہوں جو تم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہو، اور جو تم میں سے ایسا کرتے ہیں وہ راہ راست سے بھٹک گئے۔
مصلحت پرست مسلمان کو تنبیہ: خطاب اگرچہ باعتبار الفاظ عام ہے لیکن روئے سخن انہی مسلمانوں کی طرف ہے جو ہجرت کے مرحلہ سے گزرنے کے بعد بھی مشرکین مکہ کے ساتھ اپنے سابق خاندانی اور عزیزانہ تعلقات کا لحاظ باقی رکھے ہوئے تھے۔ جب تک مشرکین سے عام جنگ کا حکم نہیں ہوا اس وقت تک تو ان کی اس کمزوری پر پردہ پڑا رہا لیکن جب ان کے عام تعاقب کا حکم ہو گیا تو ان کی یہ کمزوری ظاہر ہونے لگی۔ یہ لوگ اپنے خاندان اور قبیلہ والوں کے خلاف تلوار اٹھانے سے بھی جھجکتے تھے اور قریش کے لیڈروں کو خوش رکھنے کے بھی خواہش مند تھے کہ وہ ان کے عزیزوں کے درپے آزار نہ ہو جائیں۔ اگرچہ ان کی یہ روش نفاق سے زیادہ مصلحت پرستی پر مبنی تھی۔ ان کا گمان تھا کہ اگر انھوں نے اپنے ان مشرک عزیزوں سے اچھے تعلقات باقی رکھے تو ان کے رویے سے متاثر ہو کر وہ ایک دن سچے مسلمان بن جائیں گے۔ لیکن قرآن نے اس مصلحت کو ایمان کے منافی قرار دیا اوران پر واضح فرمایا کہ جس ایمان کے تم مدعی ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان لوگوں سے رشتۂ موالات نہ رکھو جو اللہ کے بھی دشمن ہیں اور تمہارے بھی۔
لفظ ’عدوّ‘ واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ’فَعُوْل‘ کے وزن پر ہے اور عربی میں یہ وزن دونوں کے لیے یکساں ہے بلکہ اس میں مذکر و مؤنث کا بھی امتیاز نہیں ہے۔
’تُلْقُوْنَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاء کُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللہِ رَبِّکُمْ‘۔ یہ اوپر والی بات ہی کی وضاحت ہے کہ تم تو ان سے موالات و محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کے بھی دشمن ہیں اور تمہارے بھی۔ ان کی یہ دشمنی اس سے واضح ہے کہ جو دین تمہارے پاس آیا اس کا بھی انھوں نے انکار کیا اور رسول کو اور تم کو اس جرم میں جلاوطن کرنے کے درپے ہیں کہ تم اللہ پر جو تمہارا رب ہے، ایمان کیوں لائے۔
’تُلْقُوْنَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ‘ اسی طرح کا اسلوب بیان ہے جس طرح ’وَلاَ تُلْقُوْا بِأَیْْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ‘ (البقرہ ۲: ۱۹۵) ہے۔ اس طرح کے کام نامہ و پیام اور وسائل و وسائط سے انجام پاتے ہیں اس وجہ سے تعبیر مطلب کے لیے یہ اسلوب نہایت موزوں ہے۔ ہم نے اسلوب کی معنویت ملحوظ رکھنے کے لیے ترجمہ ’محبت کی پینگیں بڑھانا‘ کیا ہے۔
’یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَإِیَّاکُمْ‘ میں حال کا صیغہ صورت حال کو نگاہوں کے سامنے کر دینے کے لیے ہے تا کہ ان لوگوں کو غیرت دلائی جائے جو ایسے بے درد لوگوں سے موالات کے خواہش مند تھے جنھوں نے رسول اور ان کے ساتھیوں کو ان کے وطن سے جلاوطن کیا۔ فرمایا کہ اگر اس کے باوجود تم ان سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہو تو اپنے ایمان و اسلام کا جائزہ لو اس لیے کہ ان کا سارا غصہ تو اسی بات پر ہے کہ تم اللہ پر، جو تمہارا رب ہے، ایمان لائے! ’رَبِّکُمْ‘ یہاں دلیل کے محل میں ہے کہ اللہ ہی جب رب ہے تو وہی ایمان کا حق دار ہوا۔ اگر تم اس پر ایمان لائے تو تم نے اصل حق دار کا حق پہچانا لیکن تمہاری یہی حق شناسی ان کے غضب کا سبب بن گئی ہے۔
’اَنْ تُؤْمِنُوْا‘ کے اسلوب کی وضاحت ہم جگہ جگہ کرتے آ رہے ہیں کہ ’اَنْ‘ سے پہلے بعض اوقات مضاف محذوف ہو جایا کرتا ہے۔ اگر اس کو کھول دیجیے تو مطلب یہ ہو گا کہ اس الزام یا اس گناہ پر تمہیں نکال رہے ہیں کہ تم اللہ پر، جو تمہارا پروردگار ہے، ایمان کیوں لائے؟ گویا تمہاری سب سے بڑی نیکی اور سب سے بڑی حق شناسی ان کے نزدیک تمہارا سب سے بڑا گناہ بن گئی ہے۔
ایک اسلوب کی وضاحت: ’اِنْ کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَاداً فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاء مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ وَمَنْ یَفْعَلْہُ مِنکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ‘۔ اس ٹکڑے کی نحوی تالیف مفسرین پر اچھی طرح واضح نہیں ہوئی اس وجہ سے وہ اس کا مطلب واضح نہ کر سکے۔ پہلے اس کی تالیف نحوی سمجھ لیجیے، پھر ہم اس کا مطلب واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ مفسرین نے عام طور پر ’شرط‘ کا جواب محذوف مانا ہے اور قرینہ سے اس کو معین کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میرے نزدیک یہاں ’اِنْ کُنتُمْ‘ اور ’مَنْ یَفْعَلْہُ‘ دونوں شرطوں کا جواب ایک ہی یعنی ’فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ‘ ہے۔ ’تُسِرُّوْنَ‘ ضمیر خطاب سے حال واقع ہوا ہے اور ’اَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْْتُمْ وَمَآ أَعْلَنتُمْ‘ جملہ معترضہ کے محل میں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اگر تم میری راہ میں جہاد اور رضا طلبی کے لیے اس حال میں نکلے کہ تم اپنے دلوں میں اللہ و رسول کے دشمنوں کے ساتھ موالات کی خواہش چھپائے ہوئے ہو، درآنحالیکہ میں تمہارے باطن اور ظاہر دونوں کو جانتا ہوں، تو یاد رکھو کہ جو تم میں سے ایسا کریں گے وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔
اللہ کی رضا طلبی اور اس کے دشمنوں سے موالات ایک جگہ نہیں جمع ہو سکتیں: سیدھی راہ سے بھٹک جانے کی وجہ ظاہر ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد اور اس کی رضا طلبی اور اللہ و رسول کے دشمنوں کے ساتھ دوستی، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں۔ یہ دونوں بیک وقت کسی کے دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اگر اللہ ظاہر و باطن دونوں سے آگاہ نہ ہوتا تب تو اس کو دھوکا دیا جا سکتا تھا لیکن جب وہ ہر ایک کے ظاہر و باطن سے اچھی طرح آگاہ ہے تو اس کو کس طرح دھوکا دیا جا سکتا ہے! جو لوگ اس طرح کی دو متضاد خواہشیں اپنے دلوں میں رکھ کے نکل رہے ہیں انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ خدا کی راہ میں نہیں بلکہ شیطان کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ع
کہ تو میردی بہ ترکستان است
ایں رہ
شان نزول سے متعلق ایک نکتہ: اس آیت کے تحت مفسرین نے حضرت حاطب بن بلتعہؓ کا ایک واقعہ، بطور شان نزول، نقل کیا ہے۔ شان نزول سے متعلق ہم مقدمۂ کتاب میں استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کی رائے نقل کر چکے ہیں کہ سلف جب کسی آیت کے تعلق سے کوئی واقعہ بطور شان نزول نقل کرتے ہیں تو اس کا مطلب لازماً یہی نہیں ہوا کرتا کہ بعینہٖ وہی واقعہ آیت کے نزول کا سبب ہے بلکہ اس سے ان کا مقصود صرف یہ رہنمائی دینا ہوتا ہے کہ اس آیت میں اس طرح کے واقعات کے لیے بھی حکم موجود ہے۔ اس آیت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس میں کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ ایک خاص قسم کی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ جس کمزوری کی طرف آیت میں اشارہ ہے بعض لوگوں کے اندر اس کا پایا جانا کچھ عجیب بھی نہیں ہے بلکہ یہ عام بشری کمزوری کا نتیجہ یا، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، مصلحت خیر پر بھی مبنی ہو سکتی ہے اور یہاں یہی پہلو، جیسا کہ آگے آیات سے واضح ہو گا، قرین عقل ہے۔ لیکن مصالح کا اصل جاننے والا خدائے علیم و حکیم ہی ہے۔ بسا اوقات آدمی نیک نیتی سے ایک رائے قائم کرتا ہے لیکن اس میں اس کے نفس کی کوئی کمزوری بھی چھپی ہو سکتی ہے جس تک اس کی نظر نہیں پہنچتی۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اسی طرح کی کمزوریوں پر متنبہ فرمایا ہے تاکہ اس امت کے ہراول دستہ کا ہر عمل بعد والوں کے لیے نمونہ ہو۔