إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ قَالُوا۟ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ ٱللَّـهِ ۗ وَٱللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُۥ وَٱللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَكَـٰذِبُونَ

امین احسن اصلاحی

جب منافق تمہارے پاس آتے ہیں، کہتے ہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک تم اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین بالکل جھوٹے ہیں۔

پختہ کار منافقین کا کردار: ایک گروہ کے منافقانہ طرز عمل کی طرف اشارہ پچھلی سورہ میں بھی ہوا ہے لیکن بات عام صیغہ سے درپردہ فرمائی گئی تھی، اس سورہ میں پردہ بالکل اٹھا دیا گیا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس میں ان منافقین کا کردار زیربحث ہے جو نفاق میں اتنے پختہ ہو چکے تھے کہ ان سے کسی اصلاح کی توقع باقی نہیں رہی تھی چنانچہ ان کے بارے میں آگے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا بھی ہے کہ ان کے لیے تم مغفرت مانگو بھی تو اللہ ان کی مغفرت کرنے والا نہیں ہے۔ بلکہ دوسرے مقام میں یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر تم ستر بار بھی ان کے لیے مغفرت مانگو جب بھی اللہ ان کی مغفرت فرمانے والا نہیں ہے۔

فرمایا کہ یہ منافقین جب تمہارے پاس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آتے ہیں تو قَسم کھا کر اقرار کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ بھی قَسم کھا کر کہتا ہے کہ یہ منافقین بالکل جھوٹے ہیں۔
ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں کہ عربی میں ’نَشْہَدُ‘ اور ’وَاللہُ یَشْہَدُ‘ کے الفاظ قَسم کے مفہوم کے حامل ہوتے ہیں۔ یعنی منافقین قسمیں کھا کھا کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مومن و مسلم ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔ ان کو قسمیں کھانے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آتی کہ ان کی پیہم غلطیوں نے ان کو اس قدر ساقط الاعتبار بنا دیا تھا کہ وہ خود بھی محسوس کرنے لگے تھے کہ جب تک قسم کھا کے وہ بات نہیں کہیں گے کوئی اس کو باور نہیں کرے گا۔ جس آدمی کو اپنے عمل پر اعتماد ہوتا ہے وہ بے ضرورت قسم نہیں کھاتا لیکن جس کو اپنے عمل پر بھروسہ نہ ہو اس کا واحد سہارا قسم ہی ہوتی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ زیادہ قسم کھانے والے کی صفت قرآن میں ’مَھین‘ آئی ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ

’وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ‘ (القلم ۶۸: ۱۰)
(اور تم زیادہ قسمیں کھانے والے ذلیل کی بات پر کان نہ دھرو)۔

’وَاللہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُوۡلُہُ وَاللہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوۡنَ‘۔ یہ فقرہ غایت درجہ بلیغ اور برمحل ہے۔ فرمایا کہ جہاں تک تمہارے رسول ہونے کا تعلق ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ان کی شہادت کی محتاج نہیں ہے۔ اللہ کو خوب علم ہے کہ تم اس کے رسول ہو۔ لیکن اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنی اس شہادت میں جھوٹے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

یہ منافق جب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ یقیناًآپ اللہ کے رسول ہیں۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ ضرور تم اُس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق بالکل جھوٹے ہیں۔

یعنی قسمیں کھا کھا کر آپ کو اپنے مومن و مسلم ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِن کو قسمیں کھانے کی ضرورت اِس وجہ سے پیش آتی کہ اِن کی پیہم غلطیوں نے اِن کو اِس قدر ساقط الاعتبار بنا دیا تھا کہ وہ خود بھی محسوس کرنے لگے تھے کہ جب تک قسم کھا کے وہ بات نہیں کہیں گے، کوئی اُس کو باور نہیں کرے گا۔ جس آدمی کو اپنے عمل پر اعتماد ہوتا ہے، وہ بے ضرورت قسم نہیں کھاتا، لیکن جس کو اپنے عمل پر بھروسا نہ ہو، اُس کا واحد سہارا قسم ہی ہوتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۳۹۸)

ابو الاعلی مودودی

اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ‘’ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں۔ ” ہاں ’ اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں ۔

یعنی جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ ہے تو بجائے خود سچی، لیکن چونکہ ان کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان سے ظاہر کر رہے ہیں، اس لیے اپنے اس قول میں وہ جھو ٹے ہیں کہ وہ آپ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے۔ دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ۔ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو، اور شہادت دینے والے کا عقیدہ بھی وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہو، تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہوگا۔ اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو، لیکن شہادت دینے والا اسی کے حق ہونے کا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے، اور ایک دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے، کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے وہ بجائے خود غلط ہے۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کے خلاف ہو، تو ہم اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے، اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اظہار کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مومن اگر اسلام کو بر حق کہے تو وہ ہر لحاظ سے سچا ہے۔ لیکن ایک یہودی اپنی یہودیت پر قائم رہتے ہوئے اس دین کو اگر بر حق کہے تو بات اس کی سچی ہوگی مگر شہادت اس کی جھوٹی قرار دی جائے گی، کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف شہادت دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اس دین کو باطل کہے، تو ہم کہیں گے کہ بات اس کی جھوٹی ہے، مگر شہادت وہ اپنے عقیدے کے مطابق سچی دے رہا ہے۔

جونا گڑھی

تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعًا جھوٹے ہیں

 منافقین سے مراد عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ یہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ 

 یہ جملہ معترضہ ہے جو مضمون ماقبل کی تاکید کے لیے ہے جس کا اظہار منافقین بطور منافقت کے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو ویسے ہی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دل اس یقین سے خالی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ 

 اس بات میں کہ وہ دل سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، یعنی دل سے گواہی نہیں دیتے صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں۔ 

ٱتَّخَذُوٓا۟ أَيْمَـٰنَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا۟ عَن سَبِيلِ ٱللَّـهِ ۚ إِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ

امین احسن اصلاحی

انھوں نے اپنی قَسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور وہ اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں۔ بے شک نہایت ہی برا ہے جو یہ کر رہے ہیں۔

قَسم کو سپر بنانے والوں کا انجام: لیکن انھوں نے تمہاری گرفت سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی قسموں کوڈھال بنایا ہے کہ ان کی سازشوں اور شرارتوں کے سبب سے، جو وہ اسلام کے خلاف برابر کر رہے ہیں، تمہیں ان کے بارے میں کوئی شبہ نہ ہو، وہ اسلام کے برابر مخلص سمجھے جاتے رہیں۔ سورۂ مجادلہ آیت ۱۴ میں ان منافقین ہی کی یہ سازش بیان ہوئی ہے کہ انھوں نے خدا کی مغضوب قوم یہود سے دوستی گانٹھ رکھی ہے۔ ایک طرف اپنی قسموں کے ذریعہ سے انھیں اطمینان دلا رکھا ہے کہ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں؛ دوسری طرف مسلمانوں کو بھی قسم کھا کر اطمینان دلاتے ہیں کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھی ہیں۔ اس کے بعد معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ یہی آیت وہاں بھی آئی ہے۔ فرمایا ہے:

اِتَّخَذُوْا أَیْْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنۡ سَبِیْلِ اللہِ فَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ (المجادلہ ۵۸: ۱۶)
’’انھوں نے اپنی قَسموں کو سپر بنا رکھا ہے پس وہ اللہ کی راہ سے رک گئے اور ان کے لیے ایک ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔‘‘

یعنی اس سپر کی آڑ میں وہ بزعم خود اپنے کو یہود سے بھی محفوظ کیے ہوئے ہیں اور مسلمانوں سے بھی اور اس طرح انھوں نے اللہ کی راہ میں جو قدم اٹھایا تھا وہ روک لیا ہے لیکن یہ پناہ گاہ زیادہ عرصہ تک ان کی حفاظت نہ کر سکے گی بلکہ بہت جلد ان کو ایک ذلیل کرنے والے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
’فَصَدُّوْا عَنۡ سَبِیْلِ اللہِ‘۔ لفظ ’صَدٌّ‘ لازم اور متعدی دونوں آتا ہے۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ لازم کے مفہوم میں ہے۔ یعنی پہلے اسلام کی طرف انھوں نے قدم بڑھایا لیکن قَسموں کی آڑ میں اب رک گئے۔ ان کا گمان یہ ہے کہ جب مجرد قسموں کے بل پر بھی اپنی اسلامیت کی دھونس جمائی جا سکتی ہے اور مسلمانوں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے تو اس سے آگے بڑھ کر اپنے لیے خطرات کو کیوں دعوت دی جائے۔ فرمایا کہ ’إِنَّہُمْ سَآءَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘ وہ اس کو بڑی دانش مندانہ سیاست سمجھ رہے ہیں لیکن یہ دانش مندانہ سیاست نہیں بلکہ نہایت ہی احمقانہ چال ہے جس کے نہایت مہلک نتائج ان کے آگے آئیں گے۔

جاوید احمد غامدی

اِنھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہایت ہی برا ہے جو یہ کر رہے ہیں۔

یعنی جس اسلام کی طرف بڑھے تھے، اُس کو چھوڑ کر واپس جا چکے ہیں، لیکن قسموں کی آڑ میں مسلمانوں کو دھوکا دیتے اور باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سچے مسلمان ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ اِنھیں احساس نہیں ہے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اُس کے نتائج اِن کے لیے کتنے مہلک ہوں گے۔ یہ اِس کو بڑی دانش مندی سمجھتے ہیں، لیکن نہیں جانتے کہ اِس سے بڑی کوئی حماقت نہیں ہو سکتی جس میں یہ مبتلا ہو گئے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

انہوں نے اپنی قسمتوں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ اللہ کے راستے سے خود رکتے اور دنیا کو روکتے ہیں ۔ کیسی بری حرکت ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

یعنی اپنے مسلمان اور مومن ہونے کا یقین دلانے کے لیے جو قسمیں وہ کھاتے ہیں، ان سے وہ ڈھال کا کام لیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے غصے سے بچے رہیں اور ان کے ساتھ مسلمان وہ برتاؤ نہ کرسکیں جو کھلے کھُلے دشمنوں سے کیا جاتا ہے۔

ان قسموں سے مراد وہ قسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو وہ بالعموم اپنے ایمان کا یقین دلانے کے لیے کھایا کرتے تھے، اور وہ قسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو اپنی کسی منافقانہ حرکت کے پکڑے جانے پر وہ کھاتے تھے تاکہ مسلمانوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ حرکت انہوں نے منافقت کی بنا پر نہیں کی تھی، اور وہ قسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو عبداللہ بن ابی نے حضرت زید بن ارقم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانے کے لیے کھائی تھیں۔ ان سب احتمالات کے ساتھ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو قسم قرار دیا ہو کہ ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں “۔ اس آخری احتمال کی بنا پر فقہاء کے درمیان یہ بحث پیدا ہوئی ہے کہ کوئی شخص ” میں شہادت دیتا ہوں ” کے الفاظ کہہ کر کوئی بات بیان کرے تو آیا اسے قسم یا حلف (Oath) قرار دیا جائے گا یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب (امام زُفَر کے سوا) اور امام سفیان ثوری اور امام اوزاعی اسے حلف (شرعی اصطلاح میں یمین) قرار دیتے ہیں۔ امام زفر کہتے ہیں کہ یہ حلف نہیں ہے۔ امام مالک سے دو قول مروی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مطلقاً حلف ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر اس نے ” شہادت دیتا ہوں ” کے الفاظ کہتے وقت نیت یہ کی ہو کہ ” خدا کی قسم میں شہادت دیتا ہوں “، یا ” خدا کو گواہ کر کے میں شہادت دیتا ہوں ” تو اس صورت میں یہ حلفیہ بیان ہوگا ورنہ نہیں۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر کہنے والا یہ الفاظ بھی کہے کہ میں ” خدا کو گواہ کر کے شہادت دیتا ہوں ” تب بھی اس کا یہ بیان حلفیہ بیان نہ ہوگا، الا یہ الفاظ اس نے حلف اٹھانے کی نیت سے کہے ہوں (احکام القرآن للجصاص۔ احکام القرآن لابن العربی) ۔

صد کا لفظ عربی زبان میں لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ اس لیے صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اللہ کے راستے سے خود رکتے ہیں، اور یہ بھی کہ وہ اس راستے سے دوسروں کو روکتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں دونوں معنی درج کردیے ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اپنی ان قسموں کے ذریعہ سے مسلمانوں کے اندر اپنی جگہ محفوظ کرلینے کے بعد وہ اپنے لیے ایمان کے تقاضے پورے نہ کرنے اور خدا و رسول کی اطاعت سے پہلو تہی کرنے کی آسانیاں پیدا کرلیتے ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اپنی ان جھوٹی قسموں کی آڑ میں وہ شکار کھیلتے ہیں، مسلمان بن کر مسلمانوں کی جماعت میں اندر سے رخنے ڈالتے ہیں، مسلمانوں کے اسرار سے واقف ہو کر دشمنوں کو ان کی خبریں پہنچاتے ہیں، اسلام سے غیر مسلموں کو بد گمان کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شبہات اور وسوسے ڈالنے کے لیے وہ وہ حربے استعمال کرتے ہیں جو صرف ایک مسلمان بنا ہوا منافق ہی استعمال کرسکتا ہے، کھلا کھلا دشمن اسلام ان سے کام نہیں لے سکتا۔

جونا گڑھی

انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پس اللہ کی راہ سے رک گئے بیشک برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں۔

 یعنی وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح مسلمان ہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں انہوں نے اپنی اس قسم کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اس کے ذریعے سے وہ تم سے بچے رہتے ہیں اور کافروں کی طرح یہ تمہاری تلواروں کی زد میں نہیں آتے۔

دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے شک و شبہات پیدا کرکے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا۔ 

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ ثُمَّ كَفَرُوا۟ فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ

امین احسن اصلاحی

یہ اس سبب سے ہے کہ یہ پہلے ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا تو ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی پس یہ سمجھنے سے عاری ہو گئے۔

فرمایا کہ یہ راہ انھوں نے اس وجہ سے اختیار کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کر دی ہے جس کے سبب سے وہ فکر سلیم کی نعمت سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس مہر کے لگنے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کی راہ اختیار کر لی۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جن کو وہ ایک مرتبہ اسلام کی روشنی دکھا دیتا ہے اگر وہ اس کی قدر کرتے ہیں تو ان کی روشنی میں اضافہ کرتا ہے اور اگر قدر نہیں کرتے بلکہ مڑ مڑ کر پیچھے ہی کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کی وہ روشنی بھی سلب ہو جاتی ہے اور ان کے دل پر مہر بھی کر دی جاتی ہے۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ پھر وہ صحیح سونچنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہود کے دلوں پر جو مہر لگی اس کے وجوہ اور اثرات کی تفصیل سورۂ بقرہ میں بیان ہوئی ہے۔ اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ انہی لوگوں کے بارے میں حضرت مسیحؑ نے فرمایا کہ ان سے وہ بھی لے لیا جاتا ہے جو ان کے پاس ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ اِس لیے ہے کہ اِنھوں نے پہلے ایمان کا دعویٰ کیا ، پھر کفر اختیار کر لیا تو اِن کے دلوں پر مہر کر دی گئی۔ سو یہ کچھ نہیں سمجھتے۔

یہ اُس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت کسی فرد یا گروہ کو ہدایت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’...اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جن کو وہ ایک مرتبہ اسلام کی روشنی دکھا دیتا ہے، اگر وہ اُس کی قدر کرتے ہیں تو اُن کی روشنی میں اضافہ کرتا ہے، اور اگر قدر نہیں کرتے ، بلکہ مڑ مڑ کر پیچھے ہی کی طرف دیکھتے ہیں تو اُن کی وہ روشنی بھی سلب ہو جاتی ہے اور اُن کے دل پر مہر بھی کر دی جاتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ پھر وہ صحیح سونچنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۸/ ۳۹۹)

ابو الاعلی مودودی

یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیئے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے ۔

اس آیت میں ایمان لانے سے مراد ایمان کا اقرار کر کے مسلمانوں میں شامل ہونا ہے۔ اور کفر کرنے سے مراد دل سے ایمان نہ لانا اور اسی کفر پر قائم رہنا ہے جس پر وہ اپنے ظاہری اقرار ایمان سے پہلے قائم تھے۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ جب انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر سیدھے سیدھے ایمان یا صاف صاف کفر کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے یہ منافقانہ روش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ان سے یہ توفیق سلب کرلی گئی کہ وہ ایک سچے اور بےلاگ اور شریف انسان کا سا رویہ اختیار کریں۔ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے۔ ان کی اخلاقی حس مر چکی ہے۔ انہیں اس راہ پر چلتے ہوئے کبھی یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ شب و روز کا جھوٹ اور یہ ہر وقت کا مکر و فریب اور یہ قول و فعل کا دائمی تضاد، کیسی ذلیل حالت ہے جس میں انہوں نے اپنے آپ کو مبتلا کرلیا ہے۔

یہ آیت من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اللہ کی طرف سے کسی کے دل پر مہر لگانے کا مطلب بالکل واضح طریقہ سے بیان کردیا گیا ہے۔ ان منافقین کی یہ حالت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اس لیے ایمان ان کے اندر اتر ہی نہ سکا اور وہ مجبوراً منافق بن کر رہ گئے۔ بلکہ اس نے ان کے دلوں پر یہ مہر اس وقت لگائی جب انہوں نے اظہار ایمان کرنے کے باوجود کفر پر قائم رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ تب ان سے مخلصانہ ایمان اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی رویہ کی توفیق سلب کرلی گئی اور اس منافقت اور منافقانہ اخلاق ہی کی توفیق انہیں دے دی گئی جسے انہوں نے خود اپنے لیے پسند کیا تھا۔

جونا گڑھی

یہ اس سب اسلئے ہے کہ یہ ایمان لا کر پھر کافر ہوگئے پس ان کے دلوں پر مہر کردی گئی ہے۔ اب یہ نہیں سمجھتے۔

 اس سے معلوم ہوا کہ منافقین بھی صریح کافر ہیں۔ 

وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا۟ تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ ٱلْعَدُوُّ فَٱحْذَرْهُمْ ۚ قَـٰتَلَهُمُ ٱللَّـهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

امین احسن اصلاحی

اور جب تم ان کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو تم ان کی بات سنتے ہو لیکن ان کی مثال ایسی ہے گویا وہ لکڑی کے کندے ہوں جنھیں دیوار سے ٹیک لگا دی گئی ہو۔ وہ ہر خطرہ اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں۔ اصلی دشمن وہی ہیں، پس ان سے بچ کے رہو۔ اللہ ان کو غارت کرے! کس طرح ان کی عقل الٹ گئی ہے!

منافقین کے ظاہر اور باطن کی تصویر: یہ ان منافقین کی تصویر ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ چند چھوٹے چھوٹے جملوں میں ان کے ظاہر اور باطن دونوں کی اس طرح تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ کوئی پہلو بھی مخفی نہیں رہ گیا ہے۔ اوپر کے دو فقروں میں ان کے ظاہر کی تصویر ہے۔ بعد کے دو فقروں میں ان کے باطن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے ہوشیار رہنے کی تاکید اور ساتھ ہی ان کی حالت پر اظہار افسوس ہے۔

’وَإِذَا رَأَیْْتَہُمْ تُعْجِبُکَ أَجْسَامُہُمْ‘۔ فرمایا کہ جب تم ان کو دیکھتے ہو تو ان کے پلے ہوئے جسم اور ان کی پالش کی ہوئی شکلیں تمہیں دل کش معلوم ہوتی ہیں۔ یہ امر واضح رہے کہ ان منافقین کے مالی حالات اچھے تھے۔ اول تو انھوں نے حرام و حلال، ہر راستہ سے، دولت اکٹھی کر رکھی تھی۔ دوسرے یہ انتہا درجہ کے بخیل تھے، اپنے ذاتی آرام و عیش کے سوا کسی دوسرے دینی و اجتماعی کام پر کوڑی بھی خرچ کرنے کے روادار نہ تھے۔ ان کی اس رفاہیت کا اثر ان کے جسموں اور ان کی شکلوں میں نمایاں تھا۔ ان کا سردار مشہور منافق عبداللہ بن اُبّی بڑا دولت مند تھا۔ اس کے جتھے کے دوسرے آدمی بھی خوش حال تھے۔
’وَإِنْ یَقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ‘۔ یعنی یہ بڑے چرب زبان بھی ہیں۔ جب باتیں کرتے ہیں تو اسلام کی حمیت و حمایت میں اس طرح تقریر کرتے ہیں کہ مخاطب کا دل موہ لیتے ہیں اور وہ ان کی باتیں سننے لگتا ہے۔ اوپر ذکر آیا ہے کہ یہ لوگ اللہ و رسول کو اپنی وفاداری کا یقین اپنی قسموں اور جادو بیانی سے دلاتے ہیں۔ سورۂ محمد میں ان کی یہ خصوصیت بھی بیان ہوئی ہے کہ یہ زبان سے جوش جہاد کا اظہار بہت کرتے ہیں لیکن جب جہاد کا حکم دے دیا گیا تو چھپنے لگے۔ ان منافقین کو چونکہ اندازہ تھا کہ ان کی بزدلی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ظاہر ہے اور عام مسلمانوں پر بھی اس وجہ سے بھی یہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو کوشش کرتے کہ اپنے زور خطابت سے حضورؐ کو یہ باور کرا دیں کہ وہ اسلام کے فدائی اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے والے ہیں۔ حضورؐ اگرچہ زبان کے ان غازیوں سے اچھی طرح واقف تھے لیکن کریم النفسی کے سبب سے آپؐ ان کی باتیں سن لیتے جن سے ان کو اطمینان ہو جاتا کہ ان کی جادوبیانی کارگر ہو گئی۔
’کَأَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ‘۔ یہ ان کے باطن پر عکس ڈالا گیا ہے کہ ہر چند ان کے جسم اور ان کی شکلیں دل کش ہیں لیکن ان کے جسموں کے اندر جو دل ہیں وہ مردہ ہیں۔ ان پر، جیسا کہ اوپر والی آیت میں فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مہر کر دی ہے۔ اس روحانی اور قلبی موت کے سبب سے تمہاری مجلس میں ان کی مثال بالکل ایسی ہوتی ہے کہ گویا لکڑی کے کھوکھلے کندے ہوں جنھیں لباس پہنا کر دیواروں سے ٹیک لگا دی گئی ہو۔
’یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْْحَۃٍ عَلَیْْہِمْ‘۔ ’صَیْْحَۃٌ‘ کے لغوی معنی تو چیخ کے ہیں لیکن یہ خطرہ کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہاں اسی معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ لوگ اپنی طلاقت لسانی سے تمہیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ یہ بڑے بہادر اور اسلام کی راہ میں ہر قربانی کے لیے تیار ہیں لیکن یہ پرلے سرے کے بزدل ہیں۔ کہیں بھی کوئی خطرہ نمودار ہو یہ اپنی بزدلی کے سبب سے خیال کرتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ بجلی انہی پر گرنے والی ہے۔ جن کی بزدلی کا یہ حال ہے ان سے اس وقت کیا توقع کی جا سکتی ہے جب فی الواقع انھیں کسی حقیقی خطرے کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
’ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ‘۔ یعنی یہ تو اپنے کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے تمہاری نظروں میں دوسروں کو مشکوک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اسلام کے اصلی دشمن درحقیقت یہی ہیں۔ ان سے ہر وقت چوکنے رہو۔ یہ بات یہاں ملحوظ رہے کہ ان منافقین کی ایک چال یہ بھی تھی کہ یہ جن جرائم کا ارتکاب خود کرتے ان کا الزام دوسرے بے گناہ مسلمانوں کے سر تھوپتے تاکہ حضورؐ کے سامنے یہ بے گناہ بنے رہیں۔
’قَاتَلَہُمُ اللہُ أَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ‘۔ یہ ان کو زجر و ملامت بھی ہے اور ان کے حال پر اظہار افسوس بھی۔ فرمایا کہ اللہ ان کو غارت کرے! یہ کس طرح اوندھے کر دیے گئے ہیں کہ ان کا ہر قدم الٹا ہی پڑ رہا ہے!
ان منافقین کے اس کردار کی تصویر قرآن میں جگہ جگہ کھینچی گئی ہے۔ ہم بخیال اختصار صرف ایک مثال سورۂ بقرہ سے پیش کرتے ہیں:

وَمِنَ النَّاسِ مَن یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ۵ وَإِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ ۵ وَإِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللہَ أَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُہُ جَہَنَّمُ وَلَبِئۡسَ الْمِہَادُ (البقرہ ۲: ۲۰۴-۲۰۶)
’’اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جن کی بات دنیا کی زندگی کے باب میں تمہیں دل کش لگتی ہے اور وہ اپنے دل کے حال پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ہیں اور جب وہ تمہارے پاس سے ہٹتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ زمین میں اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں فساد برپا کریں اور مال و جان کو تباہ کریں۔ اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا اور جب ان کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو عزت کا خیال ان کو گناہ میں گرفتار کر لیتا ہے تو ان کے لیے جہنم کافی ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔‘‘

جاوید احمد غامدی

اِنھیں جب دیکھو تو اِن کی خوش اندامی تمھیں بھائے اور اگربولیں تو اِن کی باتیں تم سنتے رہ جاؤ۔اِن کی مثال ایسی ہے گویا لکڑی کے کندے ہیں، جنھیں (لباس پہنا کر) دیوار سے ٹکا دیا گیا ہے۔ ہر خطرے کو اپنے ہی اوپر ٹوٹتا خیال کرتے ہیں۔ یہی دشمن ہیں، سو اِن سے بچ کر رہو۔ اللہ اِنھیں غارت کرے، اِن کی عقل کس طرح الٹ گئی ہے!

یہ اُن کے ظاہر کی تصویر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ اِس کا اثر چہروں پر بھی ہے اور زبانیں بھی تیز ہیں۔ بات کرتے ہیں تو اپنی چرب زبانی سے مخاطبین کے دل موہ لیتے ہیں۔

یعنی ہر چند صورتیں دل کش ہیں، مگر اندر کچھ بھی نہیں۔ اِن کے دل مردہ ہو چکے ہیں اور جسم روح سے خالی ہیں۔
اصل میں لفظ ’صَیْحَۃ‘ آیا ہے۔ اِس کے لغوی معنی توچیخ کے ہیں، لیکن یہ خطرہ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں اِسی معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ باتیں بہت کرتے ہیں، لیکن پرلے درجے کے بزدل ہیں۔ دور و نزدیک، کہیں سے کوئی خطرہ نمودار ہو تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ بجلی اِنھی پر گرنے والی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

انہیں دیکھو تو ان کے جتے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ رہ جاؤ۔ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیئے گئے ہوں ۔ ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں ۔ یہ پکے دشمن ہیں ، ان سے بچ کر رہو ، اللہ کی مار ان پر ، کدھر الٹے پھر اے جا رہے ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی بڑے ڈیل ڈول کا، تندرست، خوش شکل اور چرب زبان آدمی تھا۔ اور یہی شان اس کے بہت سے ساتھیوں کی تھی۔ یہ سب مدینہ کے رئیس لوگ تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آتے تو دیواروں سے تکیے لگا کر بیٹھتے اور بڑی لچھے دار باتیں کرتے۔ ان کے جُثّے بشرے کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر کوئی یہ گمان تک نہ کرسکتا تھا کہ بستی کے یہ معززین اپنے کردار کے لحاظ سے اتنے ذلیل ہوں گے۔

یعنی یہ جو دیواروں کے ساتھ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں، یہ انسان نہیں ہیں بلکہ لکڑی کے کندے ہیں۔ ان کو لکڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جوہر انسانیت ہے۔ پھر انہیں دیوار سے لگے ہوئے کندوں سے تشبیہ دے کر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ بالکل ناکارہ ہیں۔ کیونکہ لکڑی بھی اگر کوئی فائدہ دیتی ہے تو اس وقت جب کہ وہ کسی چھت میں، یا کسی دروازے میں یا کسی فرنیچر میں لگ کر استعمال ہو رہی ہو۔ دیوار سے لگا کر کندے کی شکل میں جو لکڑی رکھ دی گئی ہو وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دیتی۔

اس مختصر سے فقرے میں ان کے مجرم ضمیر کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ چونکہ وہ اپنے دلوں میں خوب جانتے تھے کہ وہ ایمان کے ظاہر پردے کی آڑ میں منافقت کا کیا کھیل کھیل رہے ہیں، اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کب ان کے جرائم کا راز فاش ہو، یا ان کی حرکتوں پر اہل ایمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور ان کی خبر لے ڈالی جائے۔ بستی میں کسی طرف سے بھی کوئی زور کی آواز آتی یا کہیں کوئی شور بلند ہوتا تھا تو وہ سہم جاتے اور یہ خیال کرتے تھے کہ آگئی ہماری شامت۔

دوسرے الفاظ میں کھلے دشمنوں کی بہ نسبت یہ چھپے ہوئے دشمن زیادہ خطرناک ہیں۔

یعنی ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھاؤ۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں۔

یہ بد دعا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں اس فیصلے کا اعلان ہے کہ وہ اس کی مار کے مستحق ہوچکے ہیں، ان پر اس کی مار پڑ کر رہے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے لغوی معنی میں استعمال نہ فرمائے ہوں بلکہ عربی محاورے کے مطابق لعنت اور پھٹکار اور مذمت کے لیے استعمال کیے ہوں، جیسے اردو میں ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ستیاناس اس کا، کیسا خبیث آدمی ہے۔ اس لفظ ستیاناس سے مقصود اس کی خیانت کی شدت ظاہر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرنا۔

یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو ایمان سے نفاق کی طرف الٹا پھر انے والا کون ہے۔ اس کی تصریح نہ کرنے سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کی اس اوندھی چال کا کوئی ایک محرک نہیں ہے بلکہ بہت سے محرکات اس میں کار فرما ہیں۔ شیطان ہے۔ برے دوست ہیں۔ ان کے اپنے نفس کی اغراض ہیں۔ کسی کی بیوی اس کی محرک ہے۔ کسی کے بچے اس کے محرک ہیں۔ کسی کی برادری کے اشرار اس کے محرک ہیں۔ کسی کو حسد اور بغض اور تکبر نے اس راہ پر ہانک دیا ہے۔

جونا گڑھی

جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو خوشنما معلوم ہوں یہ جب باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتوں پر (اپنا) کان لگائیں گویا کہ یہ لکڑیاں ہیں اور دیوار کے سہارے لگائی ہوئی ہیں ہر سخت آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو اللہ انہیں غارت کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔

 یعنی ان کے حسن و جمال اور رونق و شادابی کی وجہ سے۔ 

 یعنی زبان کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے۔ 

 یعنی اپنی درازئی قد اور حسن ورعنائی، عدم فہم اور قلت خیر میں ایسے ہیں گویا کہ دیوار پر لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔

 یعنی بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زوردار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہوگئی یا گھبرا اٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کاروائی کا آغاز تو نہیں ہو رہا۔ 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا۟ يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ ٱللَّـهِ لَوَّوْا۟ رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ

امین احسن اصلاحی

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ، اللہ کا رسول تمہارے لیے استغفار کرے تو وہ اپنے سر مٹکاتے ہیں اور تم ان کو دیکھتے ہو کہ وہ غرور کے ساتھ اعراض کرتے ہیں۔

جھوٹی عزت نفس: یہ وہی بات ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے جو سورۂ بقرہ کی مندرجہ بالا آیت میں ’وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی سازشوں اور شرارتوں کے نوٹس میں آنے کے بعد جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر توبہ کرو تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے استغفار کریں اور آپؐ کا استغفار اللہ کے ہاں تمہارے لیے سفارش بنے تو اکڑتے اور اپنے سر مٹکاتے ہیں اور نہایت غرور کے ساتھ اس سے اعراض کرتے ہیں۔

ان کے مغرورانہ اعراض کا اظہار ان کے جوارح سے جس طرح ہوتا ہے اس کی تعبیر ’لَوَّوْا رُءُ وْسَھُمْ‘ کے الفاظ سے کی گئی ہے اور یہ بلیغ ترین تعبیر ہے۔ باطن میں اس کا جو اثر مترتب ہوتا ہے اس کو ’یَصُدُّوْنَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ‘ کے الفاظ سے بیان فرمایا گیا ہے۔ گویا ان کا ظاہر و باطن دونوں سامنے کر دیا گیا ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ جن لوگوں کے اندر اخلاقی جرأت نہیں ہوتی وہ اپنے گناہوں کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ان کا اعتراف یا ان پر اظہار ندامت نہیں کرتے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ایک بار اعتراف جرم کر لیا تو ہمیشہ کے لیے بھرم ختم ہو جائے گا۔ ان کی یہ کمزوری ان کو ان کے گناہوں کے ساتھ باندھے رکھتی ہے۔ اسی چیز کو سورۂ بقرہ والی آیت میں ’اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔

جاوید احمد غامدی

(ایسے بد قسمت ہیں کہ) جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ، اللہ کا رسول تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو سر مٹکاتے ہیں اور تم اُن کو دیکھتے ہو کہ بڑے غرور کے ساتھ اعراض کر لیتے ہیں۔

اصل الفاظ ہیں: ’لَوَّوْا رُءُ وْسَھُمْ وَرَاَیْتَھُمْ یَصُدُّوْنَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ‘۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۰۶ میں یہی بات ’اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِن کے مغرورانہ اعراض کا اظہار اِن کے جوارح سے جس طرح ہوتا ہے، اُس کی تعبیر ’لَوَّوْا رُءُ وْسَھُمْ‘ کے الفاظ سے کی گئی ہے اور یہ بلیغ ترین تعبیر ہے۔ باطن میں اِس کا جو اثر مترتب ہوتاہے، اُس کو ’یَصُدُّوْنَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ‘ کے الفاظ سے بیان فرمایا گیا ہے۔ گویا اِن کا ظاہر و باطن، دونوں سامنے کر دیا گیا ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ جن لوگوں کے اندر اخلاقی جرأ ت نہیں ہوتی، وہ اپنے گناہوں کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی اُن کا اعتراف یا اُن پر اظہار ندامت نہیں کرتے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ایک بار اعتراف جرم کر لیا تو ہمیشہ کے لیے بھرم ختم ہو جائے گا۔ اُن کی یہ کمزوری اُن کو اُن کے گناہوں کے ساتھ باندھے رکھتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۰۲)

ابو الاعلی مودودی

​ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لیئے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں ۔

یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس استغفار کے لیے آئیں، بلکہ یہ بات سن کر غرور اور تمکنت کے ساتھ سر کو جھٹکا دیتے ہیں اور رسول کے پاس آنے اور معافی طلب کرنے کو اپنی توہین سمجھ کر اپنی جگہ جمے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ ان کے مومن نہ ہونے کی کھلی علامت ہے۔

جونا گڑھی

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لئے اللہ کے رسول استغفار کریں تو اپنے سر مٹکاتے ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے رک جاتے ہیں ۔

 یعنی استغفار سے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو موڑ لیتے ہیں۔ 

 یعنی کہنے والے کی بات سے منہ موڑ لیں گے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعراض کرلیں گے۔ 

سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ ٱللَّـهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّـهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَـٰسِقِينَ

امین احسن اصلاحی

ان کے لیے یکساں ہے، تم ان کے لیے مغفرت چاہو یا نہ چاہو، اللہ ان کو ہرگز معاف کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ نافرمانوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔

گناہوں پر اصرار کرنے والوں کو اللہ مغفرت سے محروم کر دیتا ہے: ان کے اس غرور و اعراض کی سزا ان کو یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے ان کے بارے میں یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ تم ان کے لیے مغفرت مانگو یا نہ مانگو، اللہ ان کو معاف کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنی ہدایت سے نہیں نوازتا جو نافرمانی پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ ہدایت صرف انہی کو دیا کرتا ہے جو اپنے گناہوں پر شرمسار ہو کر اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ سورۂ نساء میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے:

وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذۡ ظَّلَمُوْا أَنفُسَہُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (النساء ۴: ۶۴)
’’اور اگر وہ، جب کہ انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تمہارے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت مانگتا تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔‘‘

جو لوگ اللہ اور رسول سے اکڑتے ہیں سورۂ توبہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا:

اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِنۡ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَغْفِرَ اللہُ لَہُمْ (التوبہ ۹: ۸۰)
’’ان کے لیے مغفرت چاہو یا نہ چاہو۔ اگر تم ستر بار بھی ان کے لیے مغفرت چاہو گے تو بھی اللہ ان کو معاف کرنے والا نہیں ہے۔‘‘

جاوید احمد غامدی

تم اِن کی مغفرت چاہو یا نہ چاہو، اِن کے لیے یکساں ہے۔ اللہ اِنھیں ہرگز معاف نہ کرے گا، اِس لیے کہ اللہ اِس طرح کے نافرمان لوگوں کو کبھی ہدایت نہیں دیتا۔

اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس درجے کے متمردین تھے اور اپنے نفاق میں کہاں تک پہنچے ہوئے تھے۔ اِسی طرح کے لوگ تھے جن کے متعلق سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۸۰ میں فرمایا ہے کہ آپ اِن کے لیے ستر مرتبہ بھی مغفرت چاہیں گے تو اللہ اِن کو معاف کرنے والا نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، تم چاہے ان کے لیئے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیئے یکساں ہے، اللہ ہرگز انہیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔

یہ بات سورة توبہ میں (جو سورة منافقون کے تین سال بعد نازل ہوئی ہے) اور زیادہ تاکید کے ساتھ فرما دی گئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے منافقین کے متعلق فرمایا کہ ” تم چاہے ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ستر (70) مرتبہ بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرو گے تو اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ” (التوبہ۔ آیت 80) ۔ آگے چل کر پھر فرمایا ” اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور یہ فاسق ہونے کی حالت میں مرے ہیں ” (التوبہ۔ آیت 84) ۔

اس آیت میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ دعائے مغفرت صرف ہدایت یافتہ لوگوں ہی کے حق میں مفید ہو سکتی ہے۔ جو شخص ہدایت سے پھر گیا ہو اور جس نے اطاعت کے بجائے فسق و نافرمانی کی راہ اختیار کرلی ہو، اس کے لیے کوئی عام آدمی تو در کنار، خود اللہ کا رسول بھی مغفرت کی دعا کرے تو اسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگوں کو ہدایت بخشنا اللہ کا طریقہ نہیں ہے جو اس کی ہدایت کے طالب نہ ہوں۔ اگر ایک بندہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑ رہا ہو، بلکہ ہدایت کی طرف اسے بلایا جائے تو سر جھٹک کر غرور کے ساتھ اس دعوت کو رد کر دے، تو اللہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے اپنی ہدایت لیے پھرے اور خوشامد کرے اسے راہ راست پر لائے۔

جونا گڑھی

ان کے حق میں آپکا استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز نہ بخشے گا بیشک اللہ تعالیٰ (ایسے) نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا،

 اپنے نفاق پر اصرار اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں استغفار اور عدم استغفار ان کے حق میں برابر ہے۔ 

 اگر اسی حالت میں نفاق میں مر گئے۔ ہاں اگر وہ زندگی میں کفر و نفاق سے تائب ہوجائیں تو بات اور ہے، پھر ان کی مغفرت ممکن ہے۔ 

هُمُ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا۟ عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ ٱللَّـهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا۟ ۗ وَلِلَّـهِ خَزَآئِنُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَلَـٰكِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ

امین احسن اصلاحی

یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ ان لوگوں پر تم لوگ اپنے مال خرچ نہ کرو جو رسول اللہ کے ساتھ ہیں تاکہ وہ منتشر ہو جائیں۔ اور اللہ ہی کے ہیں آسمانوں اور زمین کے خزانے لیکن منافقین نہیں سمجھتے۔

اللہ تعالیٰ کے غضب کا سبب: یہ سبب بتایا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے اس غضب کے مستحق کیوں ٹھہرے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے ستر بار مغفرت مانگیں جب بھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمانے والا نہیں ہے۔ ارشاد ہوا کہ یہی لوگ ہیں جو لوگوں کو روکتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو تاکہ یہ منتشر ہو جائیں۔

روایات میں آتا ہے کہ ۶ھ میں غزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چشمہ پر پڑاؤ ڈالا وہاں پانی کے بارے میں ایک غریب مہاجر اور ایک انصاری میں جھگڑا ہو گیا۔ مہاجر نے انصاری کے تھپڑ مار دی۔ انصاری نے انصار کی دہائی دی اور مہاجر نے مہاجرین کی۔ دونوں طرف کے آدمی تلواریں سونت سونت کر اکٹھے ہو گئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے بات زیادہ بڑھنے نہ پائی۔ لیکن عبداللہ بن اُبیّ نے، جو اس طرح کے مواقع کی ہمیشہ گھات میں رہتا، موقع سے فائدہ اٹھا کر مہاجرین کے خلاف انصار کے جذبات بھڑکانے کے لیے نہایت زہر آلود فقرے کہے۔ اس نے کہا کہ ’’یہ ہمارے گھر میں پناہ پا کر اب ہمیں پر غرانے لگے ہیں۔ سچ کہا ہے جس نے کہا ہے کہ کتے کو موٹا کرو بالآخر تمہی کو کاٹے گا۔ خدا کی قسم! اب ہم پلٹے تو جو باعزت ہیں وہ رذیلوں کو وہاں سے نکال کے رہیں گے۔‘‘
انصار کے جو آدمی اس دوران میں اس کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے ان کو مخاطب کر کے اس نے کہا۔ ’’یہ تمہاری اپنی غلطی کا خمیازہ ہے جو تمہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ تم نے اپنے گھر میں ان کو اتارا اور اپنے مال میں ان کو حصہ دار بنایا۔ خدا کی قسم! اگر تم ان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتے تو یہ کب کے یہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ہوتے۔‘‘
آیت میں اس کے انہی فقروں میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جن کے دلوں کے اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ بغض و حسد بھرا ہوا ہے اللہ تعالیٰ ان کو کیسے معاف کر سکتا ہے۔
عبداللہ بن ابیّ کے طعنوں کا جواب: ’وَلِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوۡنَ‘۔ یہ عبداللہ بن ابی کی بات کا جواب ہے کہ یہ منافق سمجھتا ہے کہ اگر وہ اور اس کے ساتھی مہاجرین کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیں گے تو ان کا کوئی سہارا باقی نہیں رہ جائے گا حالانکہ آسمانوں اور زمین کے سارے خزانے اللہ ہی کے قبضہ میں ہیں۔ وہی جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے اور جن سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے لیکن ان منافقوں کے دلوں پر چونکہ مہر لگ چکی ہے اس وجہ سے یہ اس حقیقت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔

جاوید احمد غامدی

یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں، اور( حقیقت یہ ہے کہ) زمین اور آسمانوں کے خزانے اللہ ہی کے ہیں، مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں۔

اوپر جس غضب کا اظہار ہوا ہے، آگے کی آیتوں میں اُس کا سبب بیان کر دیا ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گفتگو غزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر ہوئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’روایات میں آتا ہے کہ ۶ ھ میں غزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چشمے پر پڑاؤ ڈالا، وہاں پانی کے بارے میں ایک غریب مہاجر اور ایک انصاری میں جھگڑا ہو گیا۔ مہاجر نے انصاری کے تھپڑ مار دی۔ انصاری نے انصار کی دہائی دی اور مہاجر نے مہاجرین کی۔ دونوں طرف کے آدمی تلواریں سونت سونت کر اکٹھے ہو گئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے بات زیادہ بڑھنے نہ پائی، لیکن عبداللہ بن ابی نے، جو اِس طرح کے مواقع کی ہمیشہ گھات میں رہتا، موقع سے فائدہ اٹھا کر مہاجرین کے خلاف انصار کے جذبات بھڑکانے کے لیے نہایت زہر آلود فقرے کہے۔ اُس نے کہا کہ ’’یہ ہمارے گھر میں پناہ پا کر اب ہمیں پر غرانے لگے ہیں۔ سچ کہا ہے، جس نے کہا ہے کہ کتے کو موٹا کرو، بالآخر تمھی کو کاٹے گا۔ خدا کی قسم، اب ہم پلٹے تو جو باعزت ہیں، وہ رذیلوں کو وہاں سے نکال کے رہیں گے۔‘‘
انصار کے جو آدمی اِس دوران میں اُس کے اردگرد جمع ہو گئے تھے،اُن کو مخاطب کرکے اُس نے کہا:’’ یہ تمھاری اپنی غلطی کا خمیازہ ہے جو تمھیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ تم نے اپنے گھر میں اِن کو اتارا اور اپنے مال میں اِن کو حصہ دار بنایا۔ خدا کی قسم! اگر تم اِن کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتے تو یہ کب کے یہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ہوتے۔‘‘‘‘*(تدبرقرآن ۸/ ۴۰۳)

یہ عبداللہ بن ابی کی بات کا جواب ہے کہ خدا نے یہ سعادت مدینہ والوں کو بخشی ہے تو یہ اُس کی عنایت ہے، ورنہ زمین و آسمان کے خزانے اللہ ہی کے ہیں، وہ جب چاہے اور جس کو چاہے، اُن سے مالا مال کر سکتا ہے۔
_____
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۲۸۔

ابو الاعلی مودودی

یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کردو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

یہی وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ ادھر ادھر ہوجائیں اور آسمان و زمین کے خزانے اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں لیکن یہ منافق بےسمجھ ہیں ۔

 مطلب یہ کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لئے رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں، وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔ 

منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔ 

يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَآ إِلَى ٱلْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ ٱلْأَعَزُّ مِنْهَا ٱلْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّـهِ ٱلْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِۦ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ

امین احسن اصلاحی

کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹے مدینہ کو تو جو غالب ہیں وہ وہاں سے ان کو نکال چھوڑیں گے جو بالکل بے حیثیت ہیں۔ حالانکہ غلبہ اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے لیکن یہ منافقین نہیں جانتے۔

یہ عبداللہ بن ابی کے اس دوسرے زہرآلود فقرے کی طرف اشارہ ہے جس کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے۔ اس نے انصار کو مہاجرین کے خلاف اکسانے کے لیے یہ بھی کہا کہ اب مدینہ واپس ہوتے ہی پہلا کام یہ کرنا ہے کہ جو عزت و اقتدار والے ہیں (یعنی انصار) وہ ان لوگوں کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے جو ذلیل ہیں۔ یہ اشارہ اس کا مہاجرین کی طرف تھا۔ یعنی اس نے وہی جاہلی نعرہ لگایا جو اہل عرب کا شعار تھا کہ اس سرزمین پر ہم ہمیشہ عزت و اقتدار والے رہے ہیں اور یہ ہمارا ہی حق ہے۔ ہم یہ کس طرح گوارا کر سکتے ہیں کہ جو ہمارے ہاں پناہ لینے آئے وہ ہمارے آدمیوں کو طمانچے لگائیں!

’وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوۡلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوۡنَ‘۔ یہ اس نعرۂ جاہلی کا جواب ہے کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کے لیے ہے اور سنت الٰہی کے مطابق اب اس کے ظہور کا وقت آ گیا ہے لیکن یہ منافقین اس کو نہیں جانتے۔ اس سنت کا حوالہ سورۂ مجادلہ میں بدیں الفاظ گزر چکا ہے۔

إِنَّ الَّذِیْنَ یُحَادُّوۡنَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ أُولٰٓئِکَ فِی الأَذَلِّیْنَ ۵ کَتَبَ اللہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِیْ إِنَّ اللہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (المجادلہ ۵۸: ۲۰-۲۱)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں ذلیل ہونے والے وہی بنیں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول، بے شک اللہ قوی اور غالب ہے۔‘‘

جاوید احمد غامدی

کہتے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ گئے تو زور والے اِن بے حیثیت لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے، دراں حالیکہ زور و غلبہ تو حقیقت میں اللہ اور اُس کے رسول اور اُن کے ماننے والوں کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔

یہ بھی اُسی کے جواب میں فرمایا ہے کہ عزت تو اللہ و رسول اور اُن کے ماننے والوں کے لیے ہے، اور سنت الٰہی کے مطابق اب اُس کے ظہور کا وقت بھی آ گیا ہے۔ یہ ذرا انتظار کریں، ہم نے لکھ رکھا ہے کہ رسول کے مخالفین لازماً ذلیل ہوں گے، اور رسول اور اُس کے ساتھیوں کو اُن کا پروردگار اِس سرزمین میں غلبہ عطا فرمائے گا۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو ہر حال میں نافذ ہو کر رہے گا۔

سورۂ مجادلہ (۵۸) کی آیات ۲۰۔۲۱ میں یہ بات اِنھی الفاظ میں بیان ہو چکی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لیئے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔

حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں کہ جب میں نے عبداللہ بن ابی کا یہ قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچایا، اور اس نے آ کر صاف انکار کردیا اور اس پر قسم کھا گیا، تو انصار کے بڑے بوڑھوں نے اور خود میرے اپنے چچا نے مجھے بہت ملامت کی، حتیٰ کہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مجھے جھوٹا اور عبداللہ بن ابی کو سچا سمجھا ہے۔ اس چیز سے مجھے ایسا غم لاحق ہوا جو عمر بھر کبھی نہیں ہوا اور میں دل گرفتہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلا کر ہنستے ہوئے میرا کان پکڑا اور فرمایا لڑکے کا کان سچا تھا، اللہ نے اس کی خود تصدیق فرما دی (ابن جریر۔ ترمذی میں بھی اس سے ملتی جلتی روایت موجود ہے ) ۔

یعنی عزت اللہ کے لیے بالذات مخصوص ہے، اور رسول کے لیے بر بنائے رسالت، اور مومنین کے لیے بر بنائے ایمان۔ رہے کفار و فُسّاق و منافقین، تو حقیقی عزت میں سرے سے ان کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے۔

جونا گڑھی

یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینے جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا سنو ! عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمانداروں کے لئے ہے لیکن یہ منافق جانتے نہیں۔

 اس کا کہنے والا رئیس المنافق عبد اللہ بن ابی تھا، عزت والے سے اس کی مراد تھی، وہ خود اور اس کے رفقاء اور ذلت والے سے (نعوذ باللہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان۔ 

 

یعنی عزت اور غلبہ صرف ایک اللہ کے لیے ہے اور پھر وہ اپنی طرف سے جس کو چاہے عزت وغلبہ عطا فرمادے۔

اس لیے ایسے کام نہیں کرتے جو ان کے لیے مفید ہیں اور ان چیزوں سے نہیں بچتے جو اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ 

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَٰلُكُمْ وَلَآ أَوْلَـٰدُكُمْ عَن ذِكْرِ ٱللَّـهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَـٰسِرُونَ

امین احسن اصلاحی

اے ایمان والو، اللہ کی یاد سے تمہیں غافل نہ کرنے پاویں تمہارے مال اور نہ تمہاری اولاد اور جو ایسا کریں گے تو یاد رکھیں کہ وہی لوگ گھاٹے میں پڑے۔

مسلمانوں کو تنبیہ: یہ آخر میں مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی کہ تم ان منافقوں کی روش کی تقلید نہ کرنا۔ ان کو مال و اولاد کی محبت نے خدا سے غافل کر دیا ہے۔ اب ان کے اندر آخرت کے لیے کچھ کرنے کا حوصلہ باقی نہیں رہا۔ اگر تم بھی انہی کی طرح مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر خدا اور آخرت کو بھول بیٹھے تو یاد رکھو کہ اصل نامرادی و محرومی یہی ہے۔ جو لوگ اللہ کو بھلا بیٹھتے ہیں وہ خود اپنے انجام کو بھلا بیٹھتے ہیں اور شیطان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ سورۂ مجادلہ میں منافقین کے بارے میں فرمایا ہے:

’اسْتَحْوَذَ عَلَیْْہِمُ الشَّیْْطَانُ فَأَنسَاہُمْ ذِکْرَ اللہِ اُولٰٓئِکَ حِزْبُ الشَّیْْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّیْْطَانِ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ‘ (المجادلہ ۵۸: ۱۹)
(ان پر شیطان نے قابو پا لیا ہے پس ان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ یہی لوگ شیطان کی پارٹی ہیں اور سن لو کہ شیطان کی پارٹی ہی بالآخر نامراد ہونے والی ہے)۔

جاوید احمد غامدی

ایمان والو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تمھیں بھی (اِن منافقوں کی طرح) اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں اور (یاد رکھو کہ) جو ایسا کریں گے، وہی خسارے میں پڑنے والے ہوں گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں ۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔

اب تمام ان لوگوں کو جو دائرہ اسلام میں داخل ہوں، قطع نظر اس سے کہ سچے مومن ہوں یا محض زبانی اقرار ایمان کرنے والے، عام خطاب کر کے ایک کلمۂ نصیحت ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔ یہ بات اس سے پہلے ہم کئی مرتبہ بیان کرچکے ہیں کہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے کبھی تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے، اور کبھی اس کے مخاطب منافقین ہوتے ہیں کیونکہ وہ زبانی اقرار ایمان کرنے والے ہوا کرتے ہیں، اور کبھی ہر طرح کے مسلمان بالعموم اس سے مراد ہوتے ہیں۔ کلام کا موقع و محل یہ بتا دیتا ہے کہ کہاں کونسا گروہ ان الفاظ کی مخاطب ہے۔

مال اور اولاد کا ذکر تو خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان زیادہ تر انہی کے مفاد کی خاطر ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر منافقت، یا ضعف ایمان، یا فسق و نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے، ورنہ در حقیقت مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے اندر اتنا مشغول کرلے کہ وہ خدا کی یاد سے غافل ہوجائے۔ یہ یاد خدا سے غفلت ہی ساری خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ اگر انسان کو یہ یاد رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور وہ خدا اس کے تمام اعمال سے باخبر ہے، اور اس کے سامنے جا کر ایک دن اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، تو وہ کبھی کسی گمراہی و بد عملی میں مبتلا نہ ہو، اور بشری کمزوری سے اس کا قدم اگر کسی وقت پھسل بھی جائے تو ہوش آتے ہی وہ فوراً سنبھل جائے۔

جونا گڑھی

اے مسلمانو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔

 یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر غالب آجائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہوجاؤ اور اللہ کی قائم کردہ حلال وحرام کی حدوں کی پروا نہ کرو۔ 

وَأَنفِقُوا۟ مِن مَّا رَزَقْنَـٰكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَآ أَخَّرْتَنِىٓ إِلَىٰٓ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ

امین احسن اصلاحی

اور ہم نے جو کچھ تمہیں بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ آ دھمکے تم میں سے کسی کی موت، پھر وہ حسرت سے کہے کہ اے رب، تو نے مجھے کچھ اور مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور یوں نیکو کاروں میں سے بنتا!

یہ اللہ تعالیٰ کی یاد کو زندہ رکھنے، مال و اولاد کے فتنہ سے بچنے اور نفاق کے حملے سے محفوظ رہنے کا طریقہ بتایا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہیں بخشا ہے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی موت سے پہلے پہلے اس میں آخرت کے لیے جو کمائی کرنی ہے کر لے۔ ایسا نہ ہو کہ موت آ دھمکے تب وہ حسرت کے ساتھ کہے کہ اے رب! تو نے مجھے کچھ اور مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا۔ اگر ایسا کرسکتا تو میں بھی صالحین کے زمرہ میں ہوتا۔

سورۂ توبہ میں منافقین کے کردار کا یہ پہلو خاص طور پر نمایاں ہوا ہے کہ وہ بخل کے سبب سے اپنی مٹھیاں بھینچے رہتے ہیں۔ جب یہ غریب تھے تو ہر جگہ یہ اپنے شوق اور اس تمنا کا اظہار کرتے تھے کہ اگر اللہ نے ہمارے حالات بھی سدھار دیے تو ہم اللہ کی راہ میں خوب خرچ کریں گے اور دین کی بڑی بڑی خدمتیں کر کے صالحین میں اپنا نام روشن کریں گے لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کی تمنا پوری کر دی تو منہ پھیر کر چل دیے۔ اس بخل کی پاداش میں خدا نے ان کے دلوں کے اندر نفاق کی جڑ جما دی اور صدقہ کر کے صالحین میں سے بننے کا جو موقع خدا نے انھیں عطا کیا تھا وہ اس سے محروم ہو گئے۔ فرمایا ہے:

وَمِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ہ فَلَمَّآ اٰتٰھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَتَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ہ فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ. (التوبہ ۹: ۷۵-۷۷
’’اور ان میں سے وہ بھی ہیں جنھوں نے عہد کیا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم خوب صدقہ کریں گے اور صالحین میں سے ہوں گے۔ تو جب اللہ نے ان کو اپنے فضل میں سے عطا فرمایا وہ اس میں بخیل بن بیٹھے اور برگشتہ ہو کر منہ پھیر لیا تو اس کی پاداش میں خدا نے ان کے دلوں میں نفاق جما دیا۔‘‘

سورۂ حدید کی تفسیر سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انفاق سے پہلو تہی کرنے والے اس دنیا ہی میں نفاق سے آلودہ ہو کر مومنین صالحین سے ممیز نہیں ہو جاتے بلکہ آخرت میں بھی وہ اس کے نتائج سے اس طرح دوچار ہوں گے کہ صورت حال ان کے لیے حسرت کا باعث ہو گی۔ دنیا میں صدقہ کرنے والے مردوں اور عورتوں کو اللہ تعالیٰ وہاں صالحین کے اس زمرہ کے ساتھ اٹھائے گا جس میں صدیقین اور شہدا ہوں گے اور نور جن کا ہم رکاب ہو کر جنت کی طرف رہنمائی کرے گا۔ منافق مرد اور عورتیں اس نور سے حصہ نہ پا سکیں گے۔ ان کے اور صالحین کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی۔ وہاں ان پر واضح کر دیا جائے گا کہ صالحین کے زمرہ میں شامل ہونے کی شرط انفاق اور صدقہ تھا جس سے دنیا میں انھوں نے گریز کیا۔
اس آیت میں ’اَکُنْ‘ جو مضارع کی ساکن شکل ہے، کا عطف بظاہر ’فَاَصَّدَّقَ‘ پر ہے جو منصوب ہے لیکن ہمارے نزدیک اصل میں ’اَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ‘ شرط محذوف کا جواب ہے۔ اس کو کھول دیجیے تو مطلب یہ ہو گا کہ اگر میں یہ صدقہ کر سکتا تو نیکوکاروں میں سے بنتا۔ ’فَاَصَّدَّقَ‘ کی صورت میں چونکہ اس شرط کا قرینہ واضح تھا اس وجہ سے اسے حذف کر دیا گیا۔

جاوید احمد غامدی

ہم نے جو کچھ تمھیں عطا فرمایا ہے، اُس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو، اِس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے، پھر وہ (حسرت سے) کہے کہ پروردگار، تو نے مجھے کچھ اور مہلت کیوں نہ دی کہ میں تیری راہ میں خرچ کرتا اور( ایسا کرتا) تو (آج) صالحین کے زمرے میں ہوتا۔

اِس جملے میں تالیف کی ایک مشکل ہے۔ استاذامام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اِس آیت میں ’اَکُنْ‘ جو مضارع کی ساکن شکل ہے، کا عطف بظاہر ’فَاَصَّدَّقَ‘ پر ہے جو منصوب ہے، لیکن ہمارے نزدیک اصل میں ’اَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ‘ شرط محذوف کا جواب ہے۔ اِس کو کھول دیجیے تو مطلب یہ ہو گا کہ اگر میں یہ صدقہ کر سکتا تو نیکوکاروں میں سے بنتا۔ ’فَاَصَّدَّقَ‘ کی صورت میں چونکہ اِس شرط کا قرینہ واضح تھا ، اِس وجہ سے اِسے حذف کر دیا گیا۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۰۶)

ابو الاعلی مودودی

جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اس وقت وہ کہے کہ ‘’ اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا ”۔

n/a

جونا گڑھی

اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا ؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں ہوجاؤں۔

 خرچ کرنے سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا ہے۔ 

 اس سے معلوم ہوا کہ زکواۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں اور اسی طرح اگر حج کی استطاعت ہو تو اس کی ادائیگی میں قطعا تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کس وقت آجائے ؟ اور یہ فرائض اس کے ذمے رہ جائیں۔ 

Page 1 of 2 pages  1 2 >