یہ ہوائیں جن کی باگ چھوڑ دی جاتی ہے۔
اصل الفاظ ہیں: ’وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا‘۔ ’مُرْسَلٰت‘ کے معنی چھوڑی ہوئی کے ہیں۔ یہ لفظ یہاں ہواؤں کے لیے آیا ہے۔ ’عُرْف‘ ایال کے اُن بالوں کے لیے آتا ہے جو گھوڑوں کی پیشانی پر لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اِن بالوں کو پکڑ کر گھوڑوں کو روکا بھی جا سکتا ہے اور اِن کو چھوڑ کر اُنھیں جولانی کے لیے چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ قرآن نے یہاں ہواؤں کو گھوڑوں سے اور اُنھیں چھوڑ دینے کوگھوڑوں کی ایال چھوڑ دینے سے تعبیر کرکے غایت درجہ بلاغت کے ساتھ اِس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ ہوائیں خود مختار نہیں ہیں۔ اِن کی پیشانی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب چاہتا ہے، اِنھیں روک لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ، چھوڑ دیتا ہے۔
قسم ہے ان ﴿ہوآؤ ں﴾ کی جو پے درپے بھیجی جاتی ہیں،
n/a
دل خوش کن چلتی ہوئی ہواؤں کی قسم
اس مفہوم کے اعتبار سے عرفاً کے معنی پے درپے ہوں گے، بعض نے مرسلات سے فرشتے یا انبیا مراد لئے ہیں اس صورت میں عرفاً کے معنی وحی الٰہی، یا احکام شریعت ہوں گے۔
پس وہ اڑاتی ہیں غبار اندھا دھند۔
’عَصْفٌ‘ کے معنی بگٹٹ اور اندھا دھند چلنے کے ہیں۔ فرمایا ہے:
’حَتّٰی إِذَا کُنتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْْنَ بِہِم بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَفَرِحُوۡا بِہَا جَآءَ تْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَجَآءَ ہُمُ الْمَوْجُ مِن کُلِّ مَکَانٍ‘ (یونس ۱۰: ۲۲)
(یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ ان کو لے کر چلتی ہیں موافق ہوا کے ساتھ اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں دفعۃً نمودار ہو جاتی ہے بادتند اور ان کو گھیر لیتی ہیں موجیں ہر جانب سے)۔
یہ ان ہواؤں کا دوسرا مرحلہ بیان ہوا ہے کہ چھوڑے جانے کے بعد وہ بگٹٹ ہو کر اندھا دھند چلنے لگتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو تند ہو کر بالآخر طوفان اور عذاب بن جاتی ہیں اور قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔ ان کے عجائب تصرفات کی تاریخ قرآن میں تفصیل سے بیان ہو چکی ہے اور آج بھی ان کی تباہ کاریوں کے تجربات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔
پھر وہ اندھا دھند غبار اڑاتی ہیں۔
n/a
پھر طوفانی رفتار سے چلتی ہیں
n/a
پھر زور سے جھونکا دینے والیوں کی قسم
یا فرشتے مراد ہیں، جو بعض دفعہ ہواؤں کے عذاب کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔
اور شاہد ہیں ہوائیں پھیلانے والی (بادلوں کو)۔
ابر رحمت والی ہوائیں: ’نَشْرٌ‘ کے معنی پھیلانے، چھینٹنے، ابھارنے، اگانے کے ہیں۔ یہ لفظ ان تمام معانی میں، قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں اس سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو ابر رحمت لاتی ہیں۔ اس لیے کہ ان میں ’نشر‘ کے مختلف پہلو موجود ہیں۔ یہ بادلوں کو ابھارتی ہیں، پھر ان کو فضا میں پھیلاتی ہیں، پھر اپنے رب کی رحمت کو چھینٹتی اور نباتات لگا کر زمین کو سرسبز و شاداب بناتی ہیں۔ فرمایا ہے:
’وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوۡا وَیَنۡشُرُ رَحْمَتَہٗ‘ (الشوریٰ ۴۲: ۲۸)
(اور وہی ہے جو نازل کرتا ہے بارش بعد اس کے کہ لوگ اسے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں اور پھیلاتا ہے اپنی رحمت)۔
اوپر کی قسم تو، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، طوفانی ہواؤں کی ہے اور یہ قسم ابررحمت والی ہواؤں کی ہے جن پر زندگی کے قیام و بقا کا انحصار ہے۔
یہاں زبان کا یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ ’عَاصِفَاتِ‘ کو ’اَلْمُرْسَلَاتِ‘ پر ’ف‘ کے ساتھ عطف کر کے اس کی تدریجی ترقی کو واضح کر دیا۔ اس کے برخلاف اس آیت میں حرف عطف ’و‘ آیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سابق کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک مستقل وصف ہے۔
اور یہ ہوائیں جو بادلوں کو اٹھا کر پھیلاتی ہیں۔
اصل میں ’وَالنّٰشِرٰتِ نَشْرًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِس سے پچھلی آیت میں ’عٰصِفٰت‘ کا عطف ’ف‘ کے ساتھ ہے۔ قرآن نے ’النّٰشِرٰت‘ کو ’و‘ کے ساتھ عطف کرکے واضح کردیا ہے کہ ہواؤں کی پہلی قسم سے یہ دوسری قسم الگ ہے۔ پہلی قسم طوفانی ہواؤں کی ہے جو تند ہو کر بستیوں کے لیے عذاب بن جاتی ہیں۔ یہ دوسری قسم اُن ہواؤں کی ہے جو رحمت کے بادل اپنے دوش پر اٹھا کر لاتی ہیں، پھر اُنھیں فضا میں پھیلا دیتی ہیں۔
اور ﴿بادلوں کو ﴾ اٹھا کر پھیلاتی ہیں،
n/a
پھر (ابر کو) ابھار کر پراگندہ کرنے والیوں کی قسم۔
یا ان فرشتوں کی قسم، جو بادلوں کو منتشر کرتے ہیں یا فضائے آسمانی میں اپنے پر پھیلاتے ہیں۔ تاہم امام ابن کثیر اور امام طبری نے ان تینوں ہوائیں مراد لی اور صحیح قرار دیا ہے، جیسے کہ ترجمے میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
پھر وہ معاملہ کرتی ہیں جدا جدا۔
ہوائیں خود مختار نہیں بلکہ مسخّر ہیں: یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ ذاریات میں ’فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا‘ کے الفاظ سے بیان ہوا ہے یعنی یہ ہوائی فرق و امتیاز کرتی ہیں۔ کبھی بادلوں کو ہانک کر لاتی ہیں کبھی ان کو اڑا کر لے جاتی ہیں۔ ایک علاقہ کو جل تھل کر دیتی ہیں، دوسرے کو تشنہ چھوڑ جاتی ہیں۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ خود کار و خود مختار نہیں بلکہ ایک بالا تر قوت کے تابع فرمان ہیں۔ یہ فرق و امتیاز چونکہ ’نشر‘ کے ذریعہ سے اور اس کے بعد نمایاں ہوتا ہے اس وجہ سے عطف ’ف‘ کے ذریعہ سے ہوا۔
پھر بانٹ کر الگ الگ معاملہ کرتی ہیں۔
یعنی کسی جگہ بادل ہانک کر لاتی ہیں، کسی جگہ سے اُنھیں اڑا لے جاتی ہیں۔ ایک جگہ برسا دیتی ہیں، دوسری کو پیاسا چھوڑ جاتی ہیں۔ یہاں یہ امرملحوظ رہے کہ یہ سب معاملات چونکہ ’نشر‘ کے بعد اور اِس کے ذریعے سے ہوتے ہیں، اِس وجہ سے ’فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا‘ اور ’فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا‘ اصل میں ’ف‘ کے ساتھ عطف ہوئے ہیں۔
پھر ﴿ ان کو﴾ پھاڑ کر جدا کرتی ہیں،
n/a
پھر حق اور باطل کو جدا جدا کردینے والے
یعنی ان فرشتوں کی قسم جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے احکام لے کر اترتے ہیں۔ یا مراد آیات قرآنیہ ہیں، جن سے حق و باطل اور حلال و حرام کی تمیز ہوتی ہے یا رسول مراد ہیں جو وحی الٰہی کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔
پھر ڈالتی ہیں یاددہانی۔
ہواؤں کی یاددہانی: یعنی بارش کے ساتھ ساتھ یہ لوگوں پر یاددہانی بھی اتارتی ہیں۔
بارش جن باتوں کی تذکیر کرتی ہے وہ قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہیں اور ان کی وضاحت ان کے محل میں ہو چکی ہے۔ یہاں چند نمایاں پہلو ذہن میں تازہ کر لیجیے۔
o یہ آسمان و زمین میں توافق کے پہلو سے توحید اور اللہ ہی کی شکرگزاری کی یاددہانی کرتی ہے۔
o اس کے اندر خدا کی ربوبیت کی جو شان ہے وہ خدا کے آگے مسؤلیت کی یاددہانی کرتی ہے۔
o مردہ زمین کو زندہ کر کے یہ بعث اور حشر و نشر کی یاددہانی کرتی ہے۔
o کسی کے لیے رحمت اور کسی کے لیے عذاب بن کر یہ خدا کے اختیار مطلق اور اس کے عذاب و ثواب کی یاددہانی کرتی ہے۔
پھر (دلوں میں) یاد دہانی ڈالتی ہیں۔
یعنی الگ الگ معاملہ کر کے انسانوں پر خدا کے اختیار مطلق کی یاددہانی دلوں میں ڈالتی ہیں۔
پھر ﴿دلوں میں خدا کی﴾ یاد ڈالتی ہیں،
n/a
اور وحی لانے والے فرشتوں کی قسم۔
جو اللہ کا کلام پیغمبروں تک پہنچاتے ہیں یا رسول مراد ہیں جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی، اپنی امتوں کو پہنچاتے ہیں۔
اتمام حجت کے طور پر یا آگاہ کر دینے کو۔
یہ مقصد بیان ہوا ہے ان کرشموں کا جو ہواؤں کے تصرفات سے ہر انسان کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ کرشمے اللہ تعالیٰ لوگوں پر اتمام حجت یا ان کو بیدار کرنے کے لیے دکھاتا ہے۔ ’اَوْ‘ یہاں تقسیم کے لیے ہے۔ یعنی ان لوگوں پر حجت تمام ہو جاتی ہے جو غفلت کی سرمستی میں پڑے رہنا چاہتے ہیں اور ان لوگوں کو یاددہانی حاصل ہوتی ہے جو یاددہانی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سورۂ اعراف میں مصلحین کے ایک گروہ کا قول نقل ہوا ہے جس سے اس ’عُذْرٌ‘ اور ’نُذْرٌ‘ کی وضاحت ہوتی ہے:
وَإِذَ قَالَتْ أُمَّۃٌ مِّنْہُمْ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوْمًا نِ اللہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا قَالُوۡا مَعْذِرَۃً إِلٰی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُوۡنَ (الاعراف ۷: ۱۶۴)
’’اور جب کہ ان سے ایک گروہ نے کہا کہ ان لوگوں کو نصیحت کرنے سے کیا فائدہ جن کو اللہ تعالیٰ یا تو ہلاک کر دینے والا ہے یا ایک سخت عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے حضور معذرت کے لیے اور اس لیے بھی کہ شاید وہ ڈریں۔‘‘
یعنی یہ لوگ اگر ہماری نصیحت نہ مانیں گے تو ہم اپنے فرض نصیحت سے سبکدوش ہو جائیں گے، ہم پر کوئی ذمہ داری عند اللہ باقی نہیں رہے گی۔ پھر ذمہ داری ان کی ہو گی اور یہ قیامت کے دن اپنی گمراہی کے لیے کوئی عذر نہ پیش کر سکیں گے اور اگر ہماری بات مان کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے بن گئے تو یہی مقصود ہے۔ یہ چیز ان کے لیے بھی باعث برکت و رحمت ہو گی اور ہمارے لیے بھی۔
کسی پر اتمام حجت اور کسی کو انذار کے لیے، یہ گواہی دیتی ہیں۔
اِس مفہوم کے لیے اصل میں ’عُذْرًا اَوْ نُذْرًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں حرف ’اَوْ‘ تقسیم کے لیے ہے، یعنی اتمام حجت اُن کے لیے جو غفلت کی سرمستی میں پڑے رہنا چاہتے ہیں اور انذار اُن کے لیے جو یاددہانی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یعنی اِس طرح خدا کے اختیار مطلق اور اُس کے عذاب و ثواب کی علامت بن کر گواہی دیتی ہیں۔
عذر کے طور پر یا ڈراوے کے طور پر
یعنی کبھی تو ان کی آمد کے رکنے اور قحط کا خطرہ پیدا ہونے سے دل گداز ہوتے ہیں اور لوگ اللہ سے توبہ و استغفار کرنے لگتے ہیں۔ کبھی ان کے باران رحمت لانے پر لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اور کبھی ان کی طوفانی سختی دلوں میں خوف پیدا کرتی ہے اور تباہی کے ڈر سے لوگ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ (نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر 3 ۔ صفحہ نمبر 579) ۔
جو (وحی) الزام اتارنے یا آگاہ کردینے والی ہوتی ہے
یعنی فرشتے وحی لے کر آتے ہیں تاکہ لوگوں پر دلیل قائم ہوجائے اور یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمارے پاس تو کوئی اللہ کا پیغام ہی لے کر نہیں آیا یا مقصد ڈرانا ہے ان کو جو انکار یا کفر کرنے والے ہوں گے۔
بے شک جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ شدنی ہے۔
قسموں کا مقصود: یہ مذکورہ قسموں کا مقسم علیہ ہے۔ فرمایا کہ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ واقع ہو کے رہے گی۔ ’تُوْعَدُوْنَ‘ یہاں عام ہے، اس میں وعدہ اور ’وعید‘ دونوں شامل ہے لیکن یہ سورہ، جیسا کہ ہم تمہید میں اشارہ کر چکے ہیں، انذار کی ہے اس وجہ سے یہاں وعید کا پہلو غالب ہے۔ یعنی جس عذاب اور قیامت سے تمہیں ڈرایا جا رہا ہے وہ اٹل ہے، اس سے تمہیں سابقہ پیش آ کے رہے گا۔
عذاب اور قیامت پر ہواؤں کے تصرفات کی شہادت گوناگوں پہلوؤں سے پچھلی سورتوں میں بیان ہو چکی ہے۔ تفصیل مطلوب ہو تو سورۂ ذاریات کی تفسیر پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب اور قیامت کے مکذبین کو ہواؤں کے تصرفات کی طرف توجہ دلا کر متنبہ فرمایا ہے کہ اپنی قوت و سطوت پر زیادہ ناز نہ فرماؤ۔ اللہ عذاب لانا چاہے تو اسے کوئی بڑا اہتمام نہیں کرنا ہے۔ جس ہوا کی لائی ہوئی بارش سے جیتے ہو اسی کے پیچ ذرا ڈھیلے چھوڑ دے تو چشم زدن میں تمہاری ہستی کا نام و نشان ہی مٹ جائے۔ اس دنیا میں کتنی ہی قومیں گزری ہیں جن کو ہوا ہی نے خس و خاشاک کی طرح اڑا دیا۔
کہ جس عذاب کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے، وہ آ کر رہے گا۔
n/a
جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے ۔
دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جا رہا ہے “۔ مراد قیامت اور آخرت ہے۔
یہاں قیامت کے ضرور واقع ہونے پر پانچ چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک۔ المرسلت عرفا۔ ” پے درپے، یا بھلائی کے طور پر بھیجی جانے والیاں “۔ دوسرے، العاصفات عصفا۔ ” بہت تیزی اور شدت کے سات چلنے والیاں “۔ تیسرے، الناشرات نشرا۔ ” خوب پھیلانے والیاں “۔ چوتھے، الفارقات فرقاً ۔ ” الگ الگ کرنے والیاں “۔ پانچویں، الملقیات ذکراً ۔ ” یاد کا القا کرنے والیاں “۔ چونکہ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں، اور یہ صراحت نہیں کی گئی ہے کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں کی صفات ہیں، اس لیے مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ آیا یہ پانچوں صفات ایک ہی چیز کی ہیں، یا الگ الگ چیزوں کی، اور وہ چیز یا چیزیں کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ دوسرا کہتا ہے بانچوں سے مراد فرشتے ہیں۔ تیسرا کہتا ہے پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور باقی دو سے مراد فرشتے ہیں۔ چوتھا کہتا ہے پہلے دو سے مراد ہوائیں اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد ملائکہ رحمت، دوسرے سے مراد ملائکہ عذاب اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔
ہمارے نزدیک پہلی بات تو یہ قابل غور ہے کہ جب ایک ہی سلسلہ کلام میں پانچ صفات کا مسلسل ذکر کیا گیا ہے اور کوئی علامت بیچ میں ایسی نہیں پائی جاتی جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ کہاں تک ایک چیز کی صفات کا ذکر ہے اور کہاں سے دوسری چیز کا ذکر شروع ہوا ہے، تو یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ محض کسی بےبنیاد یا قیاس کی بنا پر ہم یہ سمجھ لیں کہ یہاں دو باتیں مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں، بلکہ اس صورت میں نظم کلام خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پوری عبارت کو کسی ایک ہی چیز کی صفات سے متعلق مانا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی شک یا انکار کرنے والوں کو کسی حقیقت غیر محسوس کا یقین دلانے کے لیے کسی چیز، یا بعض چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہاں قسم دراصل استدلال کے ہم معنی ہوتی ہے، یعنی اس سے مقصود یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ چیز یا چیزیں اس حقیقت کے صحیح و برحق ہونے پر دلالت کر رہی ہیں۔ اس غرض کے لیے ظاہر ہے کہ ایک غیر محسوس شے کے حق میں کسی دوسری غیر محسوس شے کو بطور استدلال پیش کرنا درست نہیں ہو سکتا، بلکہ غیر محسوس پر محسوس سے دلیل لانا ہی موزوں اور مناسب ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہماری رائے میں صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس سے مراد ہوائیں ہیں، اور ان لوگوں کی تفسیر قابل قبول نہیں ہے جنہوں نے ان پانچوں چیزوں سے مراد فرشتے لیے ہیں، کیونکہ وہ بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح قیامت کا وقوع غیر محسوس ہے۔
اب غور کیجئے کہ قیامت کے و قوع پر ہواؤں کی یہ کیفیات کس طرح دلالت کرتی ہیں۔ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں سے ایک نہایت اہم سبب ہوا ہے۔ ہر نوع کی زندگی سے اس کی صفات کا جو تعلق ہے وہ بجائے خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادر مطلق اور صانع حکیم ہے جس نے اس کرہ خاکی پر زندگی کو وجود لانے کا ارادہ کیا اور اس غرض کے لیے یہاں ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔ پھر اس نے صرف اتنا ہی نہیں کیا ہے کہ زمین کو ہوا کا ایک لبادہ اڑھا کر چھوڑ دیا ہو، بلکہ اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں اس نے بیشمار مختلف کیفیات پیدا کی ہیں جن کا انتظام لاکھوں کروڑوں برس سے اس طرح ہو رہا ہے کہ انہی کی بدولت موسم پیدا ہوتے ہیں، کبھی حبس ہوتا ہے اور کبھی باد نسیم چلتی ہے، کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی، کبھی بادل آتے ہیں اور کبھی آتے ہوئے اڑ جاتے ہیں، کبھی نہایت خوشگوار جھونکے چلتے ہیں اور کبھی انتہائی تباہ کن طوفان آجاتے ہیں، کبھی نہایت نفع بخش بارش ہوتی ہے اور کبھی کال پڑجاتا ہے۔ غرض ایک ہوا نہیں بلکہ طرح طرح کی ہوائیں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر چلتی ہیں اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔ یہ انتظام ایک غالب قدرت کا ثبوت ہے جس کے لیے نہ زندگی کو وجود میں لانا خارج از امکان ہوسکتا ہے، نہ اسے مٹا دینا، اور نہ مٹا کر دوبارہ وجود میں لے آنا۔ اسی طرح یہ انتظام کمال درجہ حکمت و دانائی کا ثبوت بھی ہے، جس سے صرف ایک نادان آدمی ہی یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ سارا کاروبار محض کھیل کے طور پر کیا جا رہا ہو اور اس کا کوئی عظیم تر مقصد نہ ہو۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں انسان اتنا بےبس ہے کہ کبھی وہ نہ اپنے لیے مفید طلب ہوا چلا سکتا ہے نہ اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے کو روک سکتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی اور بےشعوری اور ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے، کبھی نہ کبھی یہی ہوا اس کو یاد دلا دیتی ہے کہ اوپر کوئی زبردست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعہ کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے، اور انسان اس کے کسی فیصلے کو بھی روک دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، الجاثیہ، حاشیہ 7 ۔ جلد پنجم، الذاریات، حواشی 1 تا 4) ۔
جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یقیناً ہونے والی ہے ۔
(یا جواب قسم) یہ ہے کہ تم سے قیامت کا جو وعدہ کیا جاتا ہے، وہ یقینا واضح ہونے والی ہے، یعنی اس میں شک کرنے کی نہیں بلکہ اس کے لئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قیامت کب واقع ہوگی ؟ اگلی سورت میں اس کو واضح کیا جا رہا ہے
پس جب کہ ستارے بے نشان کر دیے جائیں گے۔
قیامت کی ہلچل کی تصویر: ان آیتوں میں قیامت کی ہلچل کی تصویر ہے کہ اس دن اس کائنات کی وہ چیزیں جو بہت عظیم، بڑی ہی پرشوکت اور بالکل غیر فانی اور لازوال نظر آتی ہیں اور جن کو دیکھ کر تم گمان کرتے ہو کہ بھلا ان کو ان کی جگہ سے کون ہلا سکتا ہے وہ بالکل بے نشان اور بے حقیقت ہو کے رہ جائیں گی۔ ہواؤں کے لائے ہوئے طوفانوں سے بڑے بڑے شہروں، محلوں اور قلعوں کو جس طرح بے نشان ہوتے دیکھا ہے اسی طرح اس دن ایسی ہلچل برپا ہو گی کہ ستارے بے نشان ہو جائیں گے، آسمان پھٹ جائے گا اور زمین کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔
’طمس‘ کے معنی کسی چیز کو مٹا دینے اور بے نشان کر دینے کے ہیں۔ فرمایا ہے:
’مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّطْمِسَ وُجُوۡہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰی أَدْبَارِہَا‘ (النساء ۴: ۴۷)
(قبل اس کے کہ ہم چہروں کو مٹا دیں اور ان کو ان کے پیچھے پھیر دیں)۔
’فَإِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتْ‘ کے معنی ہوں گے، پس جب کہ ستارے بے نور اور بے نشان کر دیے جائیں گے۔ یہی بات دوسرے مقام میں ’وَإِذَا النُّجُوۡمُ انْکَدَرَتْ‘ (التکویر ۸۱: ۲) اور ’وَإِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ‘ (الانفطار ۸۲: ۲) کے الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔
اِس لیے جب ستارے مٹا دیے جائیں گے۔
n/a
پھر جب ستارے ماند پڑجائیں گے ،
یعنی بےنور ہوجائیں گے اور ان کی روشنی ختم ہوجائے گی۔
پس جب ستارے بےنور کردیئے جائیں گے
طَمْس کے معنی مٹ جانے اور بےنشان ہونے کے ہیں، یعنی جب ستاروں کی روشنی ختم بلکہ ان کا نشان تک مٹ جائے گا۔
آسمان پھٹ جائے گا۔
’وَإِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتْ‘۔ یعنی یہ آسمان جس میں کہیں کسی شگاف اور دراڑ کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی، جو بالکل ٹھوس اور محکم نظر آتا ہے قیامت کے دن پھٹ جائے گا۔ قرآن کے دوسرے مقام میں فرمایا ہے: ’وَفُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتْ اَبْوَابًا‘ (اور آسمان کھول دیا جائے گا تو وہ دروازے دروازے بن کے رہ جائے گا)۔ سورۂ انفطار میں فرمایا ہے:
’إِذَا السَّمَاء انفَطَرَتْ‘ (الانفطار ۸۲: ۱)
(اس دن کو یاد رکھو جس دن آسمان پاش پاش ہو جائے گا)۔
اور آسمان پھٹ جائے گا۔
n/a
اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا ،
یعنی عالم بالا کا وہ بندھا ہوا نظام، جس کی بدولت ہر ستارہ اور سیارہ اپنے مدار پر قائم ہے، اور جس کی بدولت کائنات کی ہر چیز اپنی اپنی حد میں رکی ہوئی ہے، توڑ ڈالا جائے گا اور اس کی ساری بندشیں کھول دی جائیں گی۔
اور جب آسمان توڑ پھوڑ دیا جائے گا۔
n/a
پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے۔
’وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ‘۔ ’نَسْفٌ‘ کے معنی ریزہ ریزہ کر دینے، پیس دینے، پراگندہ کر دینے کے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ متعدد مقامات میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً
’وَانْظُرْ إِلٰٓی إِلٰہِکَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَّنُحَرِّقَنَّہُ ثُمَّ لَنَنۡسِفَنَّہُ فِی الْیَمِّ نَسْفًا‘ (طٰہٰ ۲۰: ۹۷)
(اور اپنے اس دیوتا کو، جس پر تو معتکف رہا ہے، دیکھ، ہم اس کو جلائیں گے پھر اس کو ریزی ریزہ کر کے سمندر میں بکھیر دیں گے)۔
خود پہاڑوں سے متعلق، منکرین قیامت کے سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے:
’وَیَسْئَلُوۡنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنۡسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا ۵ فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا‘ (طٰہٰ ۲۰: ۱۰۵-۱۰۶)
(اور وہ تم سے پہاڑوں کی بابت سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو، میرا رب ان کو ریزہ ریزہ کر دے گا اور زمین کو صفا چٹ چھوڑ دے گا)۔
بعض مقامات میں یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ قیامت کے دن پہاڑ تودۂ ریگ (کثیب مھیل) اور شراب کے مانند ہو جائیں گے۔
اوپر کی دو آیتوں میں آسمان کا حشر بیان ہوا تھا، اس آیت میں زمین پر جو کچھ گزرے گی اس کی طرف اشارہ ہے۔ زمین کی چیزوں میں، استحکام اور وسعت و عظمت کے اعتبار سے، سب سے زیادہ اونچا درجہ پہاڑوں ہی کا ہے۔ چنانچہ کفار قیامت کا مذاق اڑاتے تو یہ سوال بھی کرتے کہ قیامت آئے گی تو ان پہاڑوں کا کیا بنے گا، کیا ان کو بھی وہ توڑ پھوڑ دے گی! یہاں پہاڑوں کا انجام بیان کر کے گویا اس پوری زمین کا حشر بیان کر دیا کہ جب پہاڑوں پر، جن کو لوگ اٹل خیال کرتے ہیں یہ گزرے گی تو دوسری چیزوں کا جو حال ہو گا اس کے بیان کی ضرورت نہیں ہے۔
اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے۔
n/a
اور پہاڑ دھنک ڈالے جائیں گے،
n/a
اور جب پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کرکے اڑا دیئے جائیں گے۔
یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا اور زمین بالکل صاف اور ہموار کردی جائے گی۔
امین احسن اصلاحی
شاہد ہیں ہوائیں جن کی باگ چھوڑ دی جاتی ہے۔
عذاب کے شدنی ہونے پر شہادت: ’مُرْسَلَاتِ‘ کے معنی چھوڑی ہوئی کے ہیں۔ یہ لفظ یہاں ہواؤں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس سے ملائکہ کو بھی مراد لیا ہے لیکن بعد کی صفات، جیسا کہ واضح ہو گا، اس سے ابا کرتی ہیں۔ اس خیال کی بنیاد صرف اس غلط فہمی پر ہے کہ یہاں ’و‘ قسم کے لیے ہے اور عام خیال کے مطابق قسم کسی مقدس چیز کی ہونی چاہیے اس وجہ سے انھوں نے ’مُرْسَلَاتِ‘ سے فرشتوں کو مراد لیا۔ لیکن ہم جگہ جگہ تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ قرآن میں قسمیں بیشتر شہادت یعنی دعوے پر دلیل کی نوعیت کی ہیں۔ یہ قسم بھی اسی نوع کی ہے۔ جس طرح سورۂ ذاریات میں ہواؤں کی قسم عذاب اور جزا و سزا کے حق ہونے پر کھائی گئی ہے اسی طرح یہ قسم بھی وعدۂ عذاب و قیامت کے شدنی ہونے پر کھائی گئی ہے۔
لفظ ’عُرْفٌ‘ گھوڑے کی ایال کے بالوں کے لیے آتا ہے جو پیشانی پر لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس معنی کے لیے یہ ایک معروف لفظ ہے۔ امرؤ القیس کا مشہور شعر ہے:
نمش باعراف الجیاد اکفنا
اذا نحن قمنا عن شواء مضھّبٖ
(جب ہم شکار کا کچا پکا گوشت کھا کر اٹھتے تو گھوڑوں کی ایال میں اپنے ہاتھ پونچھ لیتے)
گھوڑوں کی ایال پکڑ کر ان کو روکا بھی جا سکتا ہے اور اس کو چھوڑ کر ان کو جولانی کے لیے چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ آیت میں ہواؤں کو گھوڑوں سے اور ان کے آزاد کرنے کو ان کی ایال چھوڑنے سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ تعبیر نہایت بلیغ ہے۔ اس سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہوائیں نہ خودکار ہیں نہ خودمختار بلکہ ان کی پیشانی خدا کی مٹھی میں ہے۔ جب وہ چاہتا ہے ان کو روک لیتا ہے اور جب چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے۔ فرمایا ہے:
’مَا مِنْ دَآبَّۃٍ إِلاَّ ہُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا‘ (ہود ۱۱: ۵۶)
(نہیں ہے کوئی جاندار مگر وہ اس کی پیشانی کے بال کو پکڑے ہوئے ہے)۔