تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے
یہ جملہ محض خبر یہ نہیں ہے، اِس میں لعنت کا مضمون بھی چھپا ہوا ہے۔
تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے۔
اصل لفظ مطففین استعمال کیا گیا ہے جو تطفیف سے مشتق ہے۔ عربی زبان میں طفیف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور تطفیف کا لفظ اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا اڑاتا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اسے کیا اور کتنا گھاٹا دے گیا ہے۔
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔
n/a
جو دوسروں سے نپوائیں تو پورا نپوائیں
یہ ان کمی کرنے والوں کی صفت بیان ہوئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہاں مجرد ناپنے اور تولنے میں کمی کرنا زیربحث نہیں ہے بلکہ ایک خاص کردار زیربحث ہے۔ وہ یہ کہ آدمی دوسروں سے اپنے لیے نپواںے اور تولوانے میں تو بڑا چوکس اور حساس ہو، ہرگز نہ چاہے کہ جو چیز اس کے لیے ناپی یا تولی جائے اس میں رتی برابر بھی کمی ہو لیکن وہی شخص جب دوسروں کے لیے ناپے اور تولے تو اس میں ڈنڈی مارنے کی کوشش کرے۔ یہ کردار اس امر پر شاہد ہے کہ انسان عدل کے تصور اور اس کے واجب ہونے کے شعور سے عاری نہیں ہے، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ لینے کے باٹ اور دینے کے باٹ الگ الگ نہیں ہونے چاہییں بلکہ ان کا ایک ہونا ضروری ہے۔ نیز وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جو چیز اسے اپنے لیے پسند نہیں ہے وہ اسے دوسروں کے لیے بھی پسند نہیں کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی فطرت کے خلاف محض اپنی خود غرضی سے مغلوب ہو کر کرتا ہے اور یہ ایک کھلی ہوئی ناانصافی بھی ہے اور ایک سخت قسم کی دناء ت بھی۔
عدل سے محبت کے باوجود ارتکاب ظلم کی وجہ: اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر فاطر فطرت نے عدل اور ظلم کے درمیان امتیاز کے لیے ایک کسوٹی بھی رکھی ہے اور عدل کے ساتھ محبت اور ظلم سے نفرت بھی ودیعت فرمائی ہے۔ اس کے باوجود وہ ظلم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عدل اور ظلم میں امتیاز سے وہ قاصر ہے یا ظلم کا ظلم ہونا اس پر واضح نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، محض یہ ہے کہ وہ اپنی کسی خواہش یا کسی جذبہ سے مغلوب ہو کر اپنے نفس کے توازن کو قائم نہیں رکھ پاتا۔
ایک چور جو دوسروں کے گھروں میں نقب لگاتا ہے وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کے گھر میں نقب لگائے، ایک قاتل جو دوسروں کو قتل کرتا ہے یہ نہیں پسند کرتا کہ کوئی اس کی یا اس کے کسی عزیز و قریب کی جان کے درپے ہو، کوئی زانی جو دوسروں کے عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کے عزت و ناموس پر حملہ آور ہو۔ بلکہ انہی چوروں، انہی قاتلوں اور انہی زانیوں سے اگر ان کی غیرجانبدارانہ رائے معلوم کرنے کی کوئی شکل ہو تو وہ اس حقیقت کا بھی اعتراف کریں گے کہ چوروں، قاتلوں، زانیوں اور اس قبیل کے دوسرے مجرموں کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرے میں جگہ انہی کے لیے ہونی چاہیے جو جان و مال اور ان کے عزت و ناموس کے اسی طرح حفاظت کرنے والے ہوں جس طرح وہ اپنی جان اور اپنی عزت کی حفاظت چاہنے والے ہیں۔
انسان کی فطرت سے ایک روز جزا پر استدلال: انسان کا یہ طرز عمل اور اس کی فطرت کا یہ پہلو اس بات کی بدیہی شہادت ہے کہ نہ وہ نیک اور بد کو یکساں سمجھتا اور نہ اس بات پر راضی ہے کہ دونوں قسم کے لوگوں سے ایک ہی طرح کا معاملہ کیا جائے بلکہ اس کا غیر جانبدارانہ فیصلہ یہی ہے کہ دونوں کے ساتھ الگ الگ معاملہ ہونا چاہیے۔ یہ چیز اس بات کو بھی مستلزم ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا دن لائے جس میں نیکوں اور بدوں کے ساتھ ان کے اعمال کے مطابق معاملہ کرے۔ اگر ایک ایسا دن نہ آئے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس دنیا کے خالق کے نزدیک نیک اور بد دونوں یکساں ہیں درآنحالیکہ یہ چیز اس فطرت کے منافی ہے جو فاطر نے انسان کے اندر ودیعت فرمائی ہے۔ یہاں انسان کی اسی فطرت سے ایک روز جزا و سزا کے لازمی ہونے پر دلیل اور ان منکرین قیامت پر حجت قائم فرمائی ہے جو اپنی فطرت کی اس شہادت سے تو انکار نہیں کر سکتے تھے لیکن قرآن کے انذار قیامت کی تکذیب پر تلے ہوئے تھے۔
ایک ضعیف شان نزول: اس آیت کے تحت مفسرین نے ایک روایت نقل کی ہے کہ انصار میں ناپ تول میں کمی کی خرابی موجود تھی اس وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی۔ لیکن اول تو یہ سورہ مکی ہے، مدنی نہیں ہے؛ پھر انصار میں یہ خرابی رہی بھی ہو گی تو اتنی ہی رہی ہو گی جتنی اہل مکہ میں رہی ہو گی بلکہ اہل مکہ کے اندر اس کے پائے جانے کے زیادہ امکان تھے اس لیے کہ وہ بالعموم تجارت پیشہ تھے جبکہ انصار کا اصل پیشہ زراعت تھا۔ پھر سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ آیت ناپ تول میں کمی کرنے کی مذمت کے سیاق میں نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اس حقیقت کے بیان میں ہے کہ انسان عدل و ظلم میں امتیاز سے قاصر نہیں ہے۔ وہ برائی کرتا ہے تو اپنی فطرت کی شہادت کے خلاف محض اپنے نفس کی کسی خواہش کی پاس داری میں کرتا ہے۔ انسان کی یہ فطرت لازم کرتی ہے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں نیکوں اور بدوں کے درمیان کامل امتیاز ہو۔ اگر وہ ایک ایسے دن کے آنے سے انکار کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ جزا و سزا کے مواجہہ سے گریز کرنا چاہتا ہے حالانکہ یہ چیز اس کی اپنی فطرت کا مطالبہ ہے۔
یہ جو دوسروں سے لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں
n/a
جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں،
n/a
کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔
n/a
اور جب ان کے لیے ناپیں یا تولیں تو اس میں کمی کریں
یہ ان کمی کرنے والوں کی صفت بیان ہوئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہاں مجرد ناپنے اور تولنے میں کمی کرنا زیربحث نہیں ہے بلکہ ایک خاص کردار زیربحث ہے۔ وہ یہ کہ آدمی دوسروں سے اپنے لیے نپواںے اور تولوانے میں تو بڑا چوکس اور حساس ہو، ہرگز نہ چاہے کہ جو چیز اس کے لیے ناپی یا تولی جائے اس میں رتی برابر بھی کمی ہو لیکن وہی شخص جب دوسروں کے لیے ناپے اور تولے تو اس میں ڈنڈی مارنے کی کوشش کرے۔ یہ کردار اس امر پر شاہد ہے کہ انسان عدل کے تصور اور اس کے واجب ہونے کے شعور سے عاری نہیں ہے، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ لینے کے باٹ اور دینے کے باٹ الگ الگ نہیں ہونے چاہییں بلکہ ان کا ایک ہونا ضروری ہے۔ نیز وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جو چیز اسے اپنے لیے پسند نہیں ہے وہ اسے دوسروں کے لیے بھی پسند نہیں کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی فطرت کے خلاف محض اپنی خود غرضی سے مغلوب ہو کر کرتا ہے اور یہ ایک کھلی ہوئی ناانصافی بھی ہے اور ایک سخت قسم کی دناء ت بھی۔
عدل سے محبت کے باوجود ارتکاب ظلم کی وجہ: اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر فاطر فطرت نے عدل اور ظلم کے درمیان امتیاز کے لیے ایک کسوٹی بھی رکھی ہے اور عدل کے ساتھ محبت اور ظلم سے نفرت بھی ودیعت فرمائی ہے۔ اس کے باوجود وہ ظلم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عدل اور ظلم میں امتیاز سے وہ قاصر ہے یا ظلم کا ظلم ہونا اس پر واضح نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، محض یہ ہے کہ وہ اپنی کسی خواہش یا کسی جذبہ سے مغلوب ہو کر اپنے نفس کے توازن کو قائم نہیں رکھ پاتا۔
ایک چور جو دوسروں کے گھروں میں نقب لگاتا ہے وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کے گھر میں نقب لگائے، ایک قاتل جو دوسروں کو قتل کرتا ہے یہ نہیں پسند کرتا کہ کوئی اس کی یا اس کے کسی عزیز و قریب کی جان کے درپے ہو، کوئی زانی جو دوسروں کے عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کے عزت و ناموس پر حملہ آور ہو۔ بلکہ انہی چوروں، انہی قاتلوں اور انہی زانیوں سے اگر ان کی غیرجانبدارانہ رائے معلوم کرنے کی کوئی شکل ہو تو وہ اس حقیقت کا بھی اعتراف کریں گے کہ چوروں، قاتلوں، زانیوں اور اس قبیل کے دوسرے مجرموں کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرے میں جگہ انہی کے لیے ہونی چاہیے جو جان و مال اور ان کے عزت و ناموس کے اسی طرح حفاظت کرنے والے ہوں جس طرح وہ اپنی جان اور اپنی عزت کی حفاظت چاہنے والے ہیں۔
انسان کی فطرت سے ایک روز جزا پر استدلال: انسان کا یہ طرز عمل اور اس کی فطرت کا یہ پہلو اس بات کی بدیہی شہادت ہے کہ نہ وہ نیک اور بد کو یکساں سمجھتا اور نہ اس بات پر راضی ہے کہ دونوں قسم کے لوگوں سے ایک ہی طرح کا معاملہ کیا جائے بلکہ اس کا غیر جانبدارانہ فیصلہ یہی ہے کہ دونوں کے ساتھ الگ الگ معاملہ ہونا چاہیے۔ یہ چیز اس بات کو بھی مستلزم ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا دن لائے جس میں نیکوں اور بدوں کے ساتھ ان کے اعمال کے مطابق معاملہ کرے۔ اگر ایک ایسا دن نہ آئے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس دنیا کے خالق کے نزدیک نیک اور بد دونوں یکساں ہیں درآنحالیکہ یہ چیز اس فطرت کے منافی ہے جو فاطر نے انسان کے اندر ودیعت فرمائی ہے۔ یہاں انسان کی اسی فطرت سے ایک روز جزا و سزا کے لازمی ہونے پر دلیل اور ان منکرین قیامت پر حجت قائم فرمائی ہے جو اپنی فطرت کی اس شہادت سے تو انکار نہیں کر سکتے تھے لیکن قرآن کے انذار قیامت کی تکذیب پر تلے ہوئے تھے۔
ایک ضعیف شان نزول: اس آیت کے تحت مفسرین نے ایک روایت نقل کی ہے کہ انصار میں ناپ تول میں کمی کی خرابی موجود تھی اس وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی۔ لیکن اول تو یہ سورہ مکی ہے، مدنی نہیں ہے؛ پھر انصار میں یہ خرابی رہی بھی ہو گی تو اتنی ہی رہی ہو گی جتنی اہل مکہ میں رہی ہو گی بلکہ اہل مکہ کے اندر اس کے پائے جانے کے زیادہ امکان تھے اس لیے کہ وہ بالعموم تجارت پیشہ تھے جبکہ انصار کا اصل پیشہ زراعت تھا۔ پھر سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ آیت ناپ تول میں کمی کرنے کی مذمت کے سیاق میں نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اس حقیقت کے بیان میں ہے کہ انسان عدل و ظلم میں امتیاز سے قاصر نہیں ہے۔ وہ برائی کرتا ہے تو اپنی فطرت کی شہادت کے خلاف محض اپنے نفس کی کسی خواہش کی پاس داری میں کرتا ہے۔ انسان کی یہ فطرت لازم کرتی ہے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں نیکوں اور بدوں کے درمیان کامل امتیاز ہو۔ اگر وہ ایک ایسے دن کے آنے سے انکار کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ جزا و سزا کے مواجہہ سے گریز کرنا چاہتا ہے حالانکہ یہ چیز اس کی اپنی فطرت کا مطالبہ ہے۔
اور جب اُن کے لیے ناپتے یا تولتے ہیں تو اُس میں ڈنڈی مارتے ہیں
ڈنڈی مارنے والوں کی اِس صفت سے صاف واضح ہے کہ سورہ میں مجرد ناپ تول کی کمی زیر بحث نہیں ہے، بلکہ ایک خاص کردار کی طرف اشارہ مقصود ہے جو دوسروں کے لیے ناپنے اور تولنے میں تو ڈنڈی مارتا ہے، مگر اُن سے لینے میں بڑا حساس ہوتا ہے اور ہرگز نہیں چاہتا کہ اُس کے لیے کوئی چیز تولی جائے تو اُس میں رتی برابر کمی ہو۔ قرآن نے اِسی کردار کو یہاں اپنے اِس دعوے پر شہادت کے لیے پیش کیا ہے کہ انسان اپنے اندر خیر و شر میں امتیازکا شعور رکھتا ہے، اُنھیں ہرگز برابر نہیں سمجھتا۔ ظلم اور انصاف کے درمیان فرق، عدل کے ساتھ محبت اور ظلم سے نفرت اُس کی فطرت میں ودیعت ہے۔ لہٰذا وہ اِس بات پر کبھی راضی نہیں ہو سکتا کہ ظالم اور عادل کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ کیا جائے، بلکہ پوری شدت کے ساتھ چاہتا ہے کہ دونوں کے ساتھ الگ الگ معاملہ ہونا چاہیے۔ قرآن اُسے توجہ دلاتااور تعجب کے اسلوب میں پوچھتا ہے کہ اپنی فطرت کی اِس شہادت کے باوجود وہ کیسے یہ گمان رکھتا ہے کہ ظالم اور عادل، دونوں مر کر مٹی ہو جائیں گے اور اُن کا پروردگار اُن کے اعمال کے لحاظ سے اُنھیں کوئی جزا یا سزا نہ دے گا؟
اور جب ان کو ناپ کو یا تول کردیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں ۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ ناپ تول میں کمی کرنے کی سخت مذمت اور صحیح ناپنے اور تولنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ سورة انعام میں فرمایا ” انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو، ہم کسی شخص کو اس کی مقدرت سے زیادہ کا مکلف نہیں ٹھیراتے ” (آیت 152) ۔ سورة بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ” جب ناپو تو پورا ناپو اور صحیح ترازو سے تولو ” (آیت 35) ۔ سورة رحمان میں تاکید کی گئی ہے ” تولنے میں زیادتی نہ کرو، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ وزن کرو اور ترازو میں گھاٹا نہ دو “۔ (آیات 8 ۔ 9) ۔ قوم شعیب پر جس جرم کی وجہ سے عذاب نازل ہوا وہ یہی تھا کہ اس کے اندر ناپ تول میں کمی کرنے کا مرض عام طور پر پھیلا ہوا تھا اور حضرت شعیب کے پے در پے نصیحتوں کے باوجود یہ قوم اس جرم سے باز نہ آتی تھی۔
جب انہیں ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو کم دیتے ہیں
یعنی لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اس طرح ڈنڈی مار کر ناپ تول میں کمی کرنا، بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے، جس کا نتیجہ دین اور آخرت میں تباہی ہے۔ ایک حدیث ہے، جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کردیا جاتا ہے۔
کیا یہ لوگ یہ گمان نہیں رکھتے کہ ایک دن وہ اٹھائے جانے والے ہیں۔
ان لوگوں کو ملامت جو اپنی فطرت کی شہادت سے کان بند کیے ہوئے ہیں: یہ اس طرح کے لوگوں کے حال پر اظہار تعجب بھی ہے اور ان کو سرزنش بھی کہ کیا یہ لوگ یہ گمان نہیں رکھتے کہ ایک ایسا عظیم دن آنے والا ہے جس میں لوگ اپنے رب کے حضور میں پیشی کے لیے اٹھائے جائیں گے؟ یعنی ایک ایسے دن کے ظہور کا اندیشہ ہر شخص کے دل کے اندر ہونا چاہیے اس لیے کہ اس کی شہادت ہر شخص کی فطرت کے اندر موجود ہے۔ اگر کسی کا دل اس اندیشہ سے خالی ہے تو وہ خود اپنی فطرت کی آواز سے اپنے کان بند کیے ہوئے ہے حالانکہ وہ دن کوئی معمولی دن نہیں ہو گا بلکہ ایک نہایت ہی عظیم دن ہو گا۔ اس دن لوگ اس لیے اٹھیں گے کہ خداوند کائنات کے سامنے پیش ہوں۔ اور ان سے پرسش ہو کہ انھوں نے کیا بنایا اور کیا بگاڑا، پھر اپنے اعمال کے مطابق وہ جزا یا سزا پائیں۔
کیا یہ نہیں سمجھتے کہ ایک دن اٹھائے جائیں گے؟
n/a
کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں ؟
n/a
کیا انہیں مرنے کے بعد اٹھنے کا خیال نہیں۔
n/a
ایک عظیم دن کی حاضری کے لیے
ان لوگوں کو ملامت جو اپنی فطرت کی شہادت سے کان بند کیے ہوئے ہیں: یہ اس طرح کے لوگوں کے حال پر اظہار تعجب بھی ہے اور ان کو سرزنش بھی کہ کیا یہ لوگ یہ گمان نہیں رکھتے کہ ایک ایسا عظیم دن آنے والا ہے جس میں لوگ اپنے رب کے حضور میں پیشی کے لیے اٹھائے جائیں گے؟ یعنی ایک ایسے دن کے ظہور کا اندیشہ ہر شخص کے دل کے اندر ہونا چاہیے اس لیے کہ اس کی شہادت ہر شخص کی فطرت کے اندر موجود ہے۔ اگر کسی کا دل اس اندیشہ سے خالی ہے تو وہ خود اپنی فطرت کی آواز سے اپنے کان بند کیے ہوئے ہے حالانکہ وہ دن کوئی معمولی دن نہیں ہو گا بلکہ ایک نہایت ہی عظیم دن ہو گا۔ اس دن لوگ اس لیے اٹھیں گے کہ خداوند کائنات کے سامنے پیش ہوں۔ اور ان سے پرسش ہو کہ انھوں نے کیا بنایا اور کیا بگاڑا، پھر اپنے اعمال کے مطابق وہ جزا یا سزا پائیں۔
ایک بڑے دن کی حاضری کے لیے
n/a
ایک بڑے دن
روز قیامت کو بڑا دن اس بنا پر کہا گیا ہے کہ اس میں تمام انسانوں اور جنوں کا حساب خدا کی عدالت میں بیک وقت لیا جائے گا اور عذاب و ثواب کے اہم ترین فیصلے کیے جائیں گے۔
اس عظیم دن کے لئے۔
n/a
جس دن لوگ اٹھیں گے خداوند عالم کے حضور پیشی کے لیے
ان لوگوں کو ملامت جو اپنی فطرت کی شہادت سے کان بند کیے ہوئے ہیں: یہ اس طرح کے لوگوں کے حال پر اظہار تعجب بھی ہے اور ان کو سرزنش بھی کہ کیا یہ لوگ یہ گمان نہیں رکھتے کہ ایک ایسا عظیم دن آنے والا ہے جس میں لوگ اپنے رب کے حضور میں پیشی کے لیے اٹھائے جائیں گے؟ یعنی ایک ایسے دن کے ظہور کا اندیشہ ہر شخص کے دل کے اندر ہونا چاہیے اس لیے کہ اس کی شہادت ہر شخص کی فطرت کے اندر موجود ہے۔ اگر کسی کا دل اس اندیشہ سے خالی ہے تو وہ خود اپنی فطرت کی آواز سے اپنے کان بند کیے ہوئے ہے حالانکہ وہ دن کوئی معمولی دن نہیں ہو گا بلکہ ایک نہایت ہی عظیم دن ہو گا۔ اس دن لوگ اس لیے اٹھیں گے کہ خداوند کائنات کے سامنے پیش ہوں۔ اور ان سے پرسش ہو کہ انھوں نے کیا بنایا اور کیا بگاڑا، پھر اپنے اعمال کے مطابق وہ جزا یا سزا پائیں۔
’رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘ کے اندر اس دن کی عظمت، ضرورت اور اس کے فیصلوں کے ناطق ہونے کی جو دلیلیں مضمر ہیں ان کی وضاحت ایک سے زیادہ مقامات میں ہو چکی ہے۔ ان کو ذہن میں تازہ کر لیجیے تب ان کا اصلی زور سمجھ میں آئے گا۔
اُس دن جب لوگ جہانوں کے پروردگار کے حضور میں پیشی کے لیے اُٹھیں گے
یعنی کسی عام ہستی کے سامنے نہیں، بلکہ رب العٰلمین کے حضور میں پیشی کے لیے اُٹھیں گے تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُس کے لیے جو دن مقرر کیا گیاہے، اُس کی عظمت، اہمیت اور ضرورت کیا ہے اور اُس کے فیصلے کس طرح اُن پر ناطق ہو جائیں گے۔
اس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
n/a
جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
n/a
ہرگز نہیں، فاجروں کے اعمال نامے سجّین میں ہوں گے
مخاطبوں کے زعم کی تردید: ’کَلَّا‘ مخاطبوں کے اس زعم باطل کی تردید کے لیے بطور زجر آیا ہے جس کا اشارہ اوپر والی آیت میں موجود ہے۔ یعنی وہ اس فکر سے بالکل نچنت ہیں کہ ان کے سامنے حساب کتاب اور جزا و سزا کا کوئی مرحلہ آنے والا ہے جس میں نیکوں اور بدوں کے درمیان اللہ تعالیٰ فرق کرے گا بلکہ وہ یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ اول تو کوئی دن آنا نہیں ہے اور آیا بھی تو وہ اپنی خاندانی وجاہت اور اپنے دیوتاؤں کی بدولت وہاں بھی اس سے زیادہ عیش لوٹیں گے جو عیش یہاں لوٹ رہے ہیں۔ ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہرگز نہیں، اس قسم کے طفلانہ خیالات میں اپنی عاقبت برباد نہ کرو۔ اس دن ابرار اور فجار میں مشرق و مغرب کی دوری ہو گی۔ ’فُجَّار‘ کے اعمال نامے ’سجین‘ میں ہوں گے اور ابرار کا ذکر آگے آ رہا ہے کہ ان کے اعمال نامے ’عِلّییّن‘ میں ہوں گے۔
(اِس کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ انجام میں سب برابر ہوں گے)۔ ہرگز نہیں، نافرمانوں کا نامۂ اعمال یقیناً سجین میں ہو گا
یعنی اِس کے باوجود کہ یہ جانتے ہیں کہ خیر و شر برابر نہیں ہو سکتے۔ ناپ تول میں اِن کا رویہ گواہی دیتا ہے کہ اِس کا شعور اِن کی فطرت میں ودیعت ہے، لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ نیک و بد کا انجام ایک ہی ہو گا۔
یہ لفظ یہاں اپنے لغوی مفہوم میں نہیں، بلکہ ایک نام کے طور پر آیا ہے۔ چنانچہ آگے قرآن نے خود وضاحت کر دی ہے کہ یہ ’سِجِّیْن‘ کیا ہے۔
ہرگز نہیں ، یقینا بدکاروں کا نامہ اعمال قیدخانے کے دفتر میں ہے ۔
یعنی ان لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ دنیا میں ان جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد یہ یونہی چھوٹ جائیں گے اور کبھی ان کو اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر نہ ہونا پڑے گا۔
اصل میں لفظ سجین استعمال ہوا ہے جو سجن (جیل یا قید خانے) سے ماخوذ ہے اور آگے اس کی جو تشریح کی گئی ہے اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد رجسٹر ہے جس میں سزا کے مستحق لوگوں کے اعمال نامے درج کیے جا رہے ہیں۔
یقیناً بدکاروں کا اعمالنامہ سجین میں ہے
سِجِیْن بعض کہتے ہیں سِجْن (قید خانہ) سے ہے، مطلب ہے کہ قید خانہ کی طرح ایک نہایت تنگ مقام ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ زمین کے سب سے نچلے حصے میں ایک جگہ ہے، جہاں کافروں، ظالموں اور مشرکوں کی روحیں اور ان کے اعمال نامے جمع اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی لئے آگے اسے لکھی ہوئی کتاب قرار دی ہے۔
اور تم کیا جانو کہ سجّین کیا ہے
’سِجِّیْنٌ‘ کی تحقیق: لفظ ’سِجِّیْنٌ‘ اوپر والی آیت میں لغوی مفہوم میں نہیں بلکہ بطور ایک نام کے آیا ہے اس وجہ سے قرآن نے خود ہی اس کی وضاحت بھی فرما دی ہے۔ اس طرح کے نام قرآن میں متعدد آئے ہیں اور ہر جگہ ان کی وضاحت بھی فرما دی گئی ہے۔ سورۂ دہر میں ان کی بعض مثالیں گزر چکی ہیں۔ آگے اس سورہ میں بھی ’عِلِّیُّوْنَ‘ اور ’تَسْنِیْمٌ‘ کے الفاظ اسی نوعیت سے آئے ہیں۔ اس قسم کے الفاظ میں اصل اہمیت ان کے لغوی مفہوم کی نہیں بلکہ ان کے اصطلاحی مفہوم یا ان کے تسمیہ کی ہوتی ہے۔
’وَمَا أَدْرَاکَ مَا سِجِّیْنٌ‘۔ یہ اسلوب بیان ’سِجِّیْنٌ‘ کے ہول کو ظاہر کرنے کے لیے اختیار فرمایا گیا ہے کہ تم کیا سمجھے کہ ’سِجِّیْنٌ‘ کیا ہے! اس کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھو! وہ تباہ ہوا جس کا نام یا جس کے اعمال اس میں درج ہوئے!
’کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ‘۔ وہ لکھا ہوا دفتر ہے۔ یعنی اس میں تمام مجرمین کا سارا ریکارڈ بشکل تحریر محفوظ کیا جاتا ہے۔ ’بشکل تحریر‘ کی قید سے مقصود اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نہ اس میں کسی سہو و نسیان کا کوئی امکان ہے اور نہ اس کے حجت ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش۔
معلوم ہوا کہ ’سِجِّیْنٌ‘ اس دفتر کا نام ہے جس میں مجرموں کے اعمال کا سارا ریکارڈ تحریری صورت میں محفوظ کیا جا رہا ہے اور جس کی بنیاد پر قیامت کے دن فیصلہ ہو گا کہ کون دوزخ کے کس درجے میں داخل کیے جانے کا سزاوار ہے۔ ’سِجِّیْنٌ‘ کا مادہ ’سجن‘ ہے جس کے معنی قید یا قید خانہ کے ہیں۔ اس مناسبت سے مستحقین سزا کے ریکارڈ آفس کا نام ’سِجِّیْنٌ‘ رکھا گیا ہے۔
اور تم کیا سمجھے کہ سجین کیا ہے؟
یہ اسلوب بیان ’سِجِّیْن‘ کے ہول کو ظاہر کرتا ہے۔
اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانے کا دفتر کیا ہے ؟
n/a
تجھے کیا معلوم سجین کیا ہے۔
n/a
لکھا ہوا دفتر
’کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ‘۔ وہ لکھا ہوا دفتر ہے۔ یعنی اس میں تمام مجرمین کا سارا ریکارڈ بشکل تحریر محفوظ کیا جاتا ہے۔ ’بشکل تحریر‘ کی قید سے مقصود اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نہ اس میں کسی سہو و نسیان کا کوئی امکان ہے اور نہ اس کے حجت ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش۔
معلوم ہوا کہ ’سِجِّیْنٌ‘ اس دفتر کا نام ہے جس میں مجرموں کے اعمال کا سارا ریکارڈ تحریری صورت میں محفوظ کیا جا رہا ہے اور جس کی بنیاد پر قیامت کے دن فیصلہ ہو گا کہ کون دوزخ کے کس درجے میں داخل کیے جانے کا سزاوار ہے۔ ’سِجِّیْنٌ‘ کا مادہ ’سجن‘ ہے جس کے معنی قید یا قید خانہ کے ہیں۔ اس مناسبت سے مستحقین سزا کے ریکارڈ آفس کا نام ’سِجِّیْنٌ‘ رکھا گیا ہے۔
ایک دفتر ہے لکھا ہوا
n/a
ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔
n/a
(یہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے۔
n/a
اس دن تباہی ہے جھٹلانے والوں کی
یعنی اس گمان میں نہ رہو کہ جس طرح آج چھوٹے پھر رہے ہو اسی طرح برابر چھوٹے ہی پھرو گے، بلکہ جب وہ جزا و سزا کا دن ظہور میں آئے گا تو ان لوگوں کی شامت آ جائے گی جو اس کو جھٹلاتے رہے ہیں۔ اس دن وہ دیکھ لیں گے کہ ان کا کوئی قول و عمل نہ ریکارڈ ہونے سے رہ گیا ہے اور نہ اب اس کے وبال سے بچنے بچانے کی کوئی صورت ہی باقی رہی۔ مجرم اس کو دیکھ کر پکار اٹھیں گے:
مَالِ ھٰذَا الْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَلَا کَبِیْرَۃً إِلَّا أَحْصَاہَا (الکہف ۱۸: ۴۹)
’’عجیب ہے یہ کتاب کہ اس نے نہ کوئی چھوٹی بات لکھنے سے چھوڑی ہے نہ کوئی بڑی بات!‘‘
تباہی ہے اُس دن جھٹلانے والوں کے لیے
n/a
تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لیے
n/a
اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے۔
n/a
امین احسن اصلاحی
برا ہو، ناپ تول میں کمی کرنے والوں کا
ان لوگوں پر لعنت جن کے لینے کے باٹ اور دینے کے باٹ اور ہیں: یہ جملہ صرف خبریہ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر لعنت اور پھٹکار کا مضمون بھی مضمر ہے۔ ’تطفیف‘ کے معنی ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں یعنی جو لوگ ناپ اور تول میں کمی کرنے والے ہیں ان کے لیے تباہی اور ان پر خدا کی مار اور پھٹکار ہے۔