يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُزَّمِّلُ

امین احسن اصلاحی

اے چادر میں لپٹنے والے!

یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسے لفظ سے مخاطب فرمایا گیا ہے جس سے آپ کی وہ تصویر سامنے آتی ہے جو اس اندرونی کیفیت کی غماز ہے جو سورہ کے زمانۂ نزول میں آپ پر بیشتر طاری رہتی تھی۔

’مُزّمّل‘ دراصل ’متزمل‘ ہے۔ عربیت کے قاعدے کے مطابق ’ت‘ حرف ’ز‘ میں مدغم ہو گئی ہے۔ اسی طرح کا تصرف لفظ ’مدّثّر‘ میں بھی ہوا ہے۔ اس کے معنی، جیسا کہ ہم پیچھے اشارہ کر چکے ہیں، اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھنے والے کے ہیں۔ یہ حالت بالعموم ایسے شخص کی ہوتی ہے جو سامنے کے حالات سے فکرمند اور گردو پیش کے لوگوں کے رویہ سے بددل ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایک ایسے عذاب سے ڈرا رہے تھے جو ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا لیکن لوگوں کی بے گانگی و بے زاری کا یہ حال تھا کہ بات سننا تو درکنار الٹے منہ نوچنے کو دوڑتے اور آپ کی بے قراری و ہمدردی کو خبط و جنون قرار دیتے۔ ایسے حالات میں آپ کا متفکر و مغموم رہنا ایک امر فطری تھا اور فکر و غم کی حالت میں آدمی کی چادر، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اس کی بہترین غم گسار ہوتی ہے۔ وہ اس میں لپٹ کر جب چاہتا ہے خلق سے منقطع اور خالق سے متصل ہو جاتا ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ چادر اہل عرب کے لباس کا ایک نہایت اہم جزو بھی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ چادر رکھتے بھی تھے۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت سے پہلے بھی، جب آپ جستجوئے حقیقت میں سرگرداں تھے، آپ پر اسی طرح کی خلوت گزینی کی حالت طاری رہی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے، جیسا کہ سورۂ ضحٰی میں اشارہ ہے، آپ کو راہ دکھائی۔ پھر یہی کیفیت آپ پر مزید شدت کے ساتھ اس وقت طاری ہوئی جب آپ کو اپنی مریض قوم کی دوا بیزاری اور طبیب دشمنی کا ذاتی تجربہ ہوا۔ اس تجربہ سے آپ پر جو کیفیت طاری ہوئی لفظ ’مُزّمّل‘ اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ: بعض مفسرین نے اس خطاب سے یہ مطلب سمجھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھے سوئے پڑے تھے کہ آپ کو وحی کے ذریعہ ہدایت ہوئی کہ اے چادر تان کر سونے والے اٹھ اور نماز پڑھ۔ یہ مطلب اگرچہ اس پہلو سے دلچسپ ہے کہ بعد کی آیات سے بظاہر اس کا جوڑ مل جاتا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات مبارک کے کسی دور میں بھی چادر تان کر غفلت کی نیند سونے والوں میں سے نہیں تھے۔ آپ ہمیشہ کھٹکے کی نیند سوتے اور دن کی طرح آپ کی شب بھی زیادہ تر ذکر و فکر ہی میں گزرتی۔ قرآن کی کسی آیت سے بھی یہ اشارہ نہیں نکلتا کہ آپ کو کبھی خدا سے غفلت کی بنا پر کوئی تنبیہ فرمائی گئی ہو بلکہ اس کے برعکس آپ کو بار بار اس بات پر نہایت پرمحبت انداز میں عتاب ہوا ہے کہ آپ نے اپنے اوپر اس سے زیادہ بوجھ اٹھا رکھا ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالا ہے۔ البتہ یہ بات قرآن میں جگہ جگہ ملتی ہے کہ دعوت کی راہ میں جب آپ کو مشکلات و مصائب سے سابقہ پڑا ہے اور آپ اس صورت حال سے فکر مند رہنے لگے ہیں تو آپ کے عزم و حوصلہ کو مضبوط اور پریشانی کودور کرنے کے لیے نماز بالخصوص تہجد کی نماز کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک یہاں بھی یہی صورت ہے۔

جاوید احمد غامدی

اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے۔

اصل میں لفظ ’مُزَّمِّل‘ آیا ہے۔ یہ دراصل ’متزمل‘ ہے۔ ’ت‘ عربی قاعدے کے مطابق حرف ’ز‘ میں مدغم ہو گئی ہے۔ یہی تصرف اگلی سورہ کے لفظ ’مُدَّثِّر‘ میں بھی ہوا ہے۔ یہ اُس حالت کی تصویر ہے جو اپنی دعوت کے جواب میں قوم کا رد عمل دیکھ کر اُس زمانے میں آپ پر طاری رہتی تھی۔ اِس طرح کی ذہنی کیفیت میں آدمی کو سب سے بڑی غم گسار اپنی چادر ہی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اُسے ہی لپیٹ کر اٹھتا، اُسی میں لپٹ کر چلتا اور اُسی میں چھپ کر اپنے ماحول سے کنارہ کش اور اپنے باطن میں غوطہ زن ہوجاتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ حالت بالعموم ایسے شخص کی ہوتی ہے جو سامنے کے حالات سے فکرمند اور گردوپیش کے لوگوں کے رویے سے بددل ہو۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایک ایسے عذاب سے ڈرا رہے تھے جو اُن کے سروں پر منڈلا رہا تھا، لیکن لوگوں کی بے گانگی و بے زاری کا یہ حال تھا کہ بات سننا تو درکنار الٹے منہ نوچنے کو دوڑتے اور آپ کی بے قراری و ہم دردی کو خبط و جنون قرار دیتے۔ ایسے حالات میں آپ کا متفکر و مغموم رہنا ایک امر فطری تھا اور فکر و غم کی حالت میں آدمی کی چادر ...اُس کی بہترین غم گسار ہوتی ہے۔ وہ اُس میں لپٹ کر جب چاہتا ہے، خلق سے منقطع اور خالق سے متصل ہو جاتا ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ چادر اہل عرب کے لباس کا ایک نہایت اہم جزو بھی تھی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ چادر رکھتے بھی تھے۔‘‘ (تدبر قرآن ۹/ ۲۲)

ابو الاعلی مودودی

اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے۔

ان الفاظ کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اس موقع پر آپ کو اے نبی، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ” کہہ کر پکارنا ایک لطیف انداز خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دور گزر گیا جب آپ آرام سے پاؤں پھیلا کر سوتے تھے۔ اب آپ پر ایک کار عظیم کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

جونا گڑھی

اے کپڑے میں لپٹنے والے

 جس وقت یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر اوڑھے ہوئے تھے اللہ نے آپ کی اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اب چادر چھوڑ دیں اور رات کو تھوڑا قیام کریں یعنی نماز تہجد پڑھیں کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی بناء پر تہجد آپ کے لیے واجب تھی۔ (ابن کثیر)
قُمِ ٱلَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا

امین احسن اصلاحی

رات میں قیام کر مگر تھوڑا حصہ۔

قیام لیل کی برکتیں: لفظ ’مُزّمّل‘ میں حضورؐ کی جو فکر مندی اور پریشانی مضمر ہے یہ اس کا علاج بتایا جا رہا ہے اور یہ علاج صرف یہیں نہیں بتایا گیا ہے بلکہ جب جب دعوت کی راہ میں آپ کو پریشانیاں پیش آئی ہیں ان کا یہی علاج آپ کو قرآن نے بتایا ہے اور ہم ہر جگہ اپنے علم کے حد تک اس کی حکمت کی وضاحت کر چکے ہیں۔ یہاں چونکہ اس علاج کی تاثیر اور اس کی قدر و قیمت آگے خود واضح فرما دی گئی ہے اس وجہ سے ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے صرف آیات کی تفسیر پر اکتفا کریں گے جس سے ان شاء اللہ خود یہ بات سامنے آ جائے گی کہ مومن کے لیے اللہ تعالیٰ نے قیام لیل میں کیا برکتیں ودیعت فرمائی ہیں اور وہ کن پہلوؤں سے اس کی صرف شدہ قوتوں کو بحال اور اس کے عزم و ایمان کو مضاعف کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

قیام لیل کا وقت: ’قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا ہ نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا ہ اَوْ زِدْ عَلَیْہِ‘۔ رات سے یہاں ظاہر ہے کہ رات کا نصف آخر ہے، جب آدمی کچھ سو چکنے کے بعد اٹھتا ہے۔ اس کی وضاحت آگے ’نَاشِئَۃَ الَّیْلِ‘ کے لفظ سے ہو گئی ہے۔ تہجد کے لیے یہی وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے اور یہی اصل مقصد کے اعتبار سے سب سے زیادہ بابرکت بھی ہے۔ یہ وقت رات کے نصف کے بقدر بھی ہو سکتا ہے، اس سے کچھ کم بھی ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ شب کے پچھلے پہر میں اٹھنا ایک کٹھن کام ہے، اس میں دیر سویر کے ہو جانے کا امکان ہے، اس وجہ سے وقت کے معاملے میں وسعت رکھی گئی ہے تاکہ زیادہ مشقت کا موجب نہ ہو۔ اگرچہ الفاظ قرآن سے پوری نصف شب کے قیام کا اولیٰ ہونا نکلتا ہے لیکن کمی بیشی کی گنجائش الفاظ میں موجود ہے۔

جاوید احمد غامدی

رات کو کھڑے رہو، مگر تھوڑا۔

رات سے مراد یہاں رات کا آخری نصف ہے جس میں آدمی کچھ سو کر اٹھتا ہے۔ قرآن نے آگے کی آیات میں اِس کی وضاحت کر دی ہے۔اِس وقت کا اٹھنا ایک کٹھن کام ہے، اِس میں دیر سویر کا امکان بھی ہوتا ہے، اِس وجہ سے وقت کے معاملے میں وسعت رکھی گئی ہے۔اگرچہ الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ پوری نصف شب کا قیام اولیٰ ہے۔

ابو الاعلی مودودی

رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم۔

اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ رات نماز میں کھڑے رہ کر گزارو اور اس کا کم حصہ سونے میں صرف کرو۔ دوسرا یہ کہ پوری رات نماز میں گزار دینے کا مطالبہ تم سے نہیں ہے بلکہ آرام بھی کرو اور رات کا ایک قلیل حصہ عبادت میں بھی صرف کرو۔ لیکن آگے کے مضمون سے پہلا مطلب ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی کی تائید سورة دہر کی آیت 26 سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے و من الیل فاسجد لہ و سبحہ لیلا طویلا، رات کو اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو اور رات کا طویل حصہ اس کی تسبیح کرتے ہوئے گزارو “۔

جونا گڑھی

رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہوجاؤ مگر کم

n/a

نِّصْفَهُۥٓ أَوِ ٱنقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا

امین احسن اصلاحی

آدھی رات یا اس میں سے کچھ کم کر دے۔

قیام لیل کی برکتیں: لفظ ’مُزّمّل‘ میں حضورؐ کی جو فکر مندی اور پریشانی مضمر ہے یہ اس کا علاج بتایا جا رہا ہے اور یہ علاج صرف یہیں نہیں بتایا گیا ہے بلکہ جب جب دعوت کی راہ میں آپ کو پریشانیاں پیش آئی ہیں ان کا یہی علاج آپ کو قرآن نے بتایا ہے اور ہم ہر جگہ اپنے علم کے حد تک اس کی حکمت کی وضاحت کر چکے ہیں۔ یہاں چونکہ اس علاج کی تاثیر اور اس کی قدر و قیمت آگے خود واضح فرما دی گئی ہے اس وجہ سے ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے صرف آیات کی تفسیر پر اکتفا کریں گے جس سے ان شاء اللہ خود یہ بات سامنے آ جائے گی کہ مومن کے لیے اللہ تعالیٰ نے قیام لیل میں کیا برکتیں ودیعت فرمائی ہیں اور وہ کن پہلوؤں سے اس کی صرف شدہ قوتوں کو بحال اور اس کے عزم و ایمان کو مضاعف کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

قیام لیل کا وقت: ’قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا ہ نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا ہ اَوْ زِدْ عَلَیْہِ‘۔ رات سے یہاں ظاہر ہے کہ رات کا نصف آخر ہے، جب آدمی کچھ سو چکنے کے بعد اٹھتا ہے۔ اس کی وضاحت آگے ’نَاشِئَۃَ الَّیْلِ‘ کے لفظ سے ہو گئی ہے۔ تہجد کے لیے یہی وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے اور یہی اصل مقصد کے اعتبار سے سب سے زیادہ بابرکت بھی ہے۔ یہ وقت رات کے نصف کے بقدر بھی ہو سکتا ہے، اس سے کچھ کم بھی ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ شب کے پچھلے پہر میں اٹھنا ایک کٹھن کام ہے، اس میں دیر سویر کے ہو جانے کا امکان ہے، اس وجہ سے وقت کے معاملے میں وسعت رکھی گئی ہے تاکہ زیادہ مشقت کا موجب نہ ہو۔ اگرچہ الفاظ قرآن سے پوری نصف شب کے قیام کا اولیٰ ہونا نکلتا ہے لیکن کمی بیشی کی گنجائش الفاظ میں موجود ہے۔

جاوید احمد غامدی

آدھی رات یا اُس سے کچھ کم کر لو۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو،

n/a

جونا گڑھی

آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کرلے۔

n/a

أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ ٱلْقُرْءَانَ تَرْتِيلًا

امین احسن اصلاحی

یا اس پر کچھ زیادہ کر لے اور قرآن کی تلاوت کر ٹھہر ٹھہر کر۔

’اَوْ زِدْ عَلَیْہِ‘۔ رات سے یہاں ظاہر ہے کہ رات کا نصف آخر ہے، جب آدمی کچھ سو چکنے کے بعد اٹھتا ہے۔ اس کی وضاحت آگے ’نَاشِئَۃَ الَّیْلِ‘ کے لفظ سے ہو گئی ہے۔ تہجد کے لیے یہی وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے اور یہی اصل مقصد کے اعتبار سے سب سے زیادہ بابرکت بھی ہے۔ یہ وقت رات کے نصف کے بقدر بھی ہو سکتا ہے، اس سے کچھ کم بھی ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ شب کے پچھلے پہر میں اٹھنا ایک کٹھن کام ہے، اس میں دیر سویر کے ہو جانے کا امکان ہے، اس وجہ سے وقت کے معاملے میں وسعت رکھی گئی ہے تاکہ زیادہ مشقت کا موجب نہ ہو۔ اگرچہ الفاظ قرآن سے پوری نصف شب کے قیام کا اولیٰ ہونا نکلتا ہے لیکن کمی بیشی کی گنجائش الفاظ میں موجود ہے۔

قرآن کی تلاوت کا طریقہ: ’وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا‘ یہ قرآن کے پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا کہ نماز میں اس کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ چنانچہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ قرآن لحن اور لَے سے پڑھتے، آیت آیت پر وقف فرماتے، کبھی کبھی ایک ہی آیت شدت تاثر میں بار بار دہراتے علاوہ ازیں کوئی آیت قہر و غضب کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگتے اور جو آیت رحمت کی ہوتی اس پر ادائے شکر فرماتے۔ بعض آیتیں جن میں سجدہ کا حکم یا اشارہ ہے ان کی تلاوت کے وقت، فوری امتثال امر کے طور پر آپ سجدہ میں بھی گر جاتے۔
تلاوت قرآن کا یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق بھی ہے اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور و منقول بھی ہے۔ قرآن کے مقصد نزول کے پہلو سے بھی یہی طریقہ نافع ہو سکتا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ طریقہ صرف اس وقت تک باقی رہا جب تک وہ قرآن کو فکر و تدبر کی چیز اور زندگی کی رہنما کتاب سمجھتے رہے۔ بعد میں جب قرآن صرف حصول ثواب اور ایصال ثواب کی چیز بن کے رہ گیا تو یہ اس طرح پڑھا جانے لگا جس کا مظاہرہ ہمارے حفاظ کرام تراویح اور شبینوں میں کرتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

یا اُس پر کچھ بڑھا دو اور (اپنی اِس نماز میں) قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔

روایتوں سے اِس کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لحن سے قرآن پڑھتے، ہر آیت پر ٹھیرتے، غضب کے موقع پر اللہ کی پناہ مانگتے، رحمت کی آیتوں پر اُس کا شکر ادا کرتے، آیت میں سجدے کا حکم ہوتا تو امتثال امر کے طور پر فوراً سجدہ ریز ہو جاتے تھے۔

ابو الاعلی مودودی

یا اس سے کچھ کم کر لو۔ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔

یہ اس مقدار وقت کی تشریح ہے جسے عبادت میں گزارنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس میں آپ کو اختیار دیا گیا کہ خواہ آدھی رات نماز میں صرف کریں، یا اس سے کچھ کم کردیں، اس سے کچھ زیادہ۔ لیکن انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قابل ترجیح آدھی رات ہے، کیونکہ اسی کو معیار قرار دے کر کمی بیشی کا اختیار دیا گیا ہے۔

یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکر سے لبریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرات محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرات کا طریقہ حضرت انس سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ، رحمان اور رحیم کو مد کے ساتھ پڑھا کرے تھے۔ (بخاری) حضرت ام سلمہ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھہرتے جاتے تھے، مثلاً الحمد للہ رب العلمین پڑھ کر رکھ جاتے، پھر الرحمن الرحیم پر ٹھہرتے اور اس کے بعد رک کر ملک یوم الدین کہتے (مسند احمد۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ نسائی) حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ کی قرات کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی) ۔ حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مقام پر پہنچے ان تعذبھم فانھم عبادک و ان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم۔ (اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی (مسند احمد، بخاری) ۔

جونا گڑھی

یا اس پر بڑھا دے اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کرو

 یعنی یہ قیام نصف رات سے کچھ کم (ثلث) یا کچھ زیادہ (دو ثلث) ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ 

 چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی قرأت ترتیل کے ساتھ ہی تھی اور آپ نے اپنی امت کو بھی ترتیل کے ساتھ، یعنی ٹھہر ٹھہر پڑھنے کی تلقین کی ہے۔ 

إِنَّا سَنُلْقِى عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا

امین احسن اصلاحی

ہم تم پر عنقریب ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔

’قول ثقیل‘ سے مراد: یہ اس مقصد عظیم کی طرف اشارہ ہے جس کے لیے قیام لیل کی یہ ہدایت فرمائی گئی۔ ارشاد ہے کہ ہم عنقریب تم پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس بھاری بات کے تحمل کے لیے ایک پیشگی ریاضت اور تیاری کے طور پر آپ کو اس کا حکم ہوا۔ اس بھاری بات سے کیا مراد ہے؟ اس کے جواب میں اہل تاویل سے مختلف اقوال منقول ہیں لیکن ان کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں ہے اس وجہ سے ان کے نقل کرنے میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ استاذ امامؒ اس سے اس انذار عام کو مراد لیتے ہیں جس کا حکم اگلی سورہ میں

’یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ہ قُمْ فَاَنْذِرْ‘ (المدثر ۷۴: ۱-۲)
(اے چادر میں لپٹنے والے، اٹھ اور انذار کر)

اور اس کے بعد کی آیات میں دیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی رائے قرین قیاس ہے۔ اس لیے کہ اسی انذارعام سے بعد میں براء ت، ہجرت اور اعلان جنگ کے وہ مراحل سامنے آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک کے شدید ترین مراحل ہیں، جن میں آپؐ بھی اور آپؐ کے ساتھ صحابہ بھی ایسے کڑے امتحانوں سے گزرے کہ ان کے تصور سے بھی کلیجہ کانپ اٹھتا ہے۔
اقامت دین کی جدوجہد کی امتیازی خصوصیت: اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام لیل کا حکم اس جہاد عظیم کی تیاری کے لیے دیا گیا جس سے آگے آپؐ کو آپؐ کے صحابہؓ کو اقامت دین کی راہ میں سابقہ پیش آنے والا تھا۔ اقامت دین کی جدوجہد کی یہی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو اس کو دوسری تمام تحریفات سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کے لیے دوسرے وسائل و ذرائع کے فراہم ہونے سے پہلے صحیح معرفت رب، مستحکم ایمان، غیر متزلزل شب کی نماز ہے بشرطیکہ وہ اس طرح ادا کی جائے جس طرح اس کے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی چٹان پر اقامت دین کی جدوجہد کی بنیاد ہے۔ اس بنیاد کے بغیر اگر دین کی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ کھڑی ہونے سے پہلے ہی زمین بوس ہو جائے گی

جاوید احمد غامدی

اِس لیے کہ عنقریب ایک بھاری بات کا بوجھ ہم تم پر ڈال دیں گے۔

یعنی اپنی قوم کو انذار عام کا بوجھ۔ اِسے بھاری بات کے بوجھ سے اِس لیے تعبیر کیا ہے کہ اِسی انذار عام سے بعد میں ہجرت و براء ت اور جہاد و قتال کے وہ مراحل سامنے آئے جن کی شدت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی سیرت و سوانح کا ہر طالب علم واقف ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ تم کو رات کی نماز کا یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ایک بھاری کلام ہم تم پر نازل کر رہے ہیں جس کا بارا ٹھانے کے لیے تم میں اس کے تحمل کی طاقت پیدا ہونی ضروری ہے، اور یہ طاقت تمہیں اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ راتوں کو اپنا آرام چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھو اور آدھی آدھی رات یا کچھ کم و بیش عبادت میں گزارا کرو۔ قرآن کو بھاری کلام اس بنا پر بھی کہا گیا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنا، اس کی تعلیم کا نمونہ بن کردکھانا، اس کی دعوت کو لے کر ساری دنیا کے مقابلے میں اٹھنا، اور اس کے مطابق عقائد و افکار، اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کے پو رے نظام میں انقلاب برپا کردینا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑھ کر کسی بھاری کام کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس بنا پر بھی اس کو بھاری کلام کہا گیا ہے کہ اس کے نزول کا تحمل بڑا دشوار کام تھا۔ حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی اس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ اپنا زانو میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے تھے۔ میرے زانو پر اس وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا اب ٹوٹ جائے گا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے سخت سردی کے زمانے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے، آپ کی پیشانی سے اس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا (بخاری، مسلم، مالک، ترمذی، نسائی) ۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ جب کبھی آپ پر اس حالت میں وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پر بیٹھے ہوں تو اونٹنی اپنا سینہ زمین پر ٹکا دیتی تھی اور اس وقت تک حرکت نہ کرسکتی تھی جب تک نزول وحی کا سلسلہ ختم نہ ہوجاتا (مسند احمد، حاکم، ابن جریر) ۔

جونا گڑھی

یقیناً ہم تجھ پر بہت بھاری بات عنقریب نازل کریں گے

 رات کا قیام چونکہ نفس انسانی کے لئے بالعموم گراں ہے، اس لئے یہ جملہ خاص طور پر فرمایا کہ ہم اس سے بھی بھاری بات تجھ پر نازل کریں گے، یعنی، قرآن، جس کے احکام و فرائض پر عمل، اس کی حدود کی پابندی اور اس کی تبلیغ اور دعوت، ایک بھاری جانفسانی کا عمل ہے۔ بعض نے ثقالت سے وہ بوجھ مراد لیا ہے جو وحی کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پڑتا تھا جس سے سخت سردی میں بھی آپ پسینے سے شرابور ہوجاتے تھے۔ 

إِنَّ نَاشِئَةَ ٱلَّيْلِ هِىَ أَشَدُّ وَطْـًٔا وَأَقْوَمُ قِيلًا

امین احسن اصلاحی

بے شک رات میں اٹھنا دل جمعی اور فہم کلام کے لیے نہایت خوب ہے۔

قیام لیل کی حکمت: یہ اللہ تعالیٰ نے حکمت بتائی ہے اس بات کی کہ آپ کو قیام لیل کا یہ حکم کیوں دیا گیا۔ فرمایا کہ اس لیے کہ یہ وقت سکون قلب و دماغ کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور فہم قرآن کے لیے سب سے زیادہ سازگار و مددگار ہے۔

’نَاشِئَۃٌ‘ ہمارے نزدیک ’نشأ‘ سے، جس کے معنی اٹھنے کے ہیں ’عَاقِبَۃٌ‘ اور ’عَافِیَۃٌ‘ کے وزن پر مصدر یا حاصل مصدر ہے۔ ’نَاشِئَۃَ الَّیْلِ‘ کے معنی ہوں گے قیام لیل یا شب خیزی۔ اس لفظ ہی سے یہ بات نکلی کہ تہجد کا وقت درحقیقت شب میں کچھ سو کر اٹھنے کے بعد یعنی پچھلے پہر کا ہے۔ اس وقت اٹھنا اگرچہ اس اعتبار سے ایک مشکل کام ہے کہ اس وقت کی نیند بہت محبوب ہوتی ہے لیکن اس امتحان میں انسان اگر کامیاب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی کتاب کے سمجھنے کے لیے اس سے زیادہ بابرکت وقت اور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو اس ساعت میمون میں بستر سے اٹھنے کی توفیق دیتا ہے اول تو اس کو اپنے نفس کی خواہشوں پر غلبہ پانے کی ایسی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کے لیے اصلاح نفس کی راہ میں فتوحات کے بے شمار دروازے کھول دیتی ہے ثانیاً اللہ تعالیٰ نے، جو رات اور دن کو وجود میں لانے والا ہے، اس وقت کو اپنی رحمتوں کے نزول کے لیے مخصوص فرمایا ہے جن کے دروازے اس کے ان بندوں کے لیے کھلتے ہیں جو اس کی قدر و قیمت پہچانتے اور اس وقت اس کے دروازے پر سائل بن کر حاضر ہوتے ہیں۔
شب خیزی کی تاثیر ’اَشَدُّ وَطْاً‘ یہ اس وقت اٹھنے کی تاثیر بتائی ہے کہ جب آدمی اس وقت بستر سے اٹھ کر، وضو کر کے، نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کے قدم خوب جمتے ہیں۔ قدم خوب جمنا دماغ کی یکسوئی، دل کے اطمینان اور عقل کی بیداری کی تعبیر ہے۔ اگر دماغ پریشان اور قلب بے سکون ہو تو آدمی کے قدم نہیں جمتے، کوئی بڑا کام تو درکنار وہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی دلجمعی سے نہیں کرسکتا۔ گویا یہاں ظاہر سے ان کے باطن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعض مفسرین نے اس کے یہ معنی لیے ہیں کہ اس وقت اٹھنا نفس کو اچھی طرح کچلنے والا ہے۔ اگرچہ الفاظ میں اس معنی کی بھی گنجائش ہے لیکن آگے کے فقرے سے اسے مناسبت نہیں ہے۔ میں نے جو معنی اختیار کیے ہیں وہ دوسرے مفسرین نے بھی لیے ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ ثبات قدم درحقیقت قلبی و عقلی یکسوئی و دلجمعی کی تعبیر ہے۔
’وَّاَقْوَمُ قِیْلًا‘ یعنی یہ وقت چونکہ دماغ کے سکون اور دل کی بیداری کا خاص وقت ہے اس وجہ سے زبان سے جو بات نکلتی ہے تیربہدف اور ’ازدل خیزد بردل ریزد‘ کا مصداق بن کر نکلتی ہے۔ آدمی خود بھی اس کو اپنے دل کی گواہی کی طرح قبول کرتا ہے اور دوسرے سننے والوں کے دلوں پر بھی اس کی تاثیر بے خطا ہوتی ہے۔ جنات کا جو واقعہ سورۂ جن میں بیان ہوا ہے روایات اور قرائن دونوں سے ثابت ہے کہ انھوں نے تہجد ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھتے سنا اور اس درجہ متاثر ہوئے کہ نہ صرف اس پر ایمان لائے بلکہ اپنی قوم کے اندر اس کے داعی بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم انسان کے دل کو بھی اسی طرح کے ایک واقعہ نے فتح کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہجد میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق تلاوت قرآن صرف اپنے ہی نفس کے تہذیب و تزکیہ کے لیے نہیں بلکہ بعض اوقات دوسروں کے ارواح و قلوب کو زندہ کر دینے کے لیے بھی ندائے غیب کی حیثیت رکھتی ہے خواہ وہ جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے۔

جاوید احمد غامدی

رات کا یہ اٹھنا، درحقیقت دل کی جمعیت اور بات کی درستی کے لیے بہت موزوں ہے۔

اصل میں ’اَشَدُّ وَطْاً‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جن کے معنی قدم اچھی طرح جمنے کے ہیں۔ لیکن صاف واضح ہے کہ یہ ظاہریہاں انسان کے ’باطن‘ کی تعبیر ہے۔ہم نے ترجمہ اِسی رعایتسے کیا ہے۔استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِس وقت اٹھنا اگرچہ اِس اعتبار سے ایک مشکل کام ہے کہ اِس وقت کی نیند بہت محبوب ہوتی ہے، لیکن اِس امتحان میں انسان اگر کامیاب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کی کتاب کے سمجھنے کے لیے اِس سے زیادہ با برکت وقت اور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰجس کو اِس ساعت میمون میں بستر سے اٹھنے کی توفیق دیتا ہے، اول تو اُس کو اپنے نفس کی خواہشوں پر غلبہ پانے کی ایسی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اُس کے لیے اصلاح نفس کی راہ میں فتوحات کے بے شمار دروازے کھول دیتی ہے۔ثانیاً، اللہ تعالیٰ نے، جو رات اور دن کو وجود میں لانے والا ہے، اِس وقت کو اپنی رحمتوں کے نزول کے لیے مخصوص فرمایا ہے، جن کے دروازے اُس کے اُن بندوں کے لیے کھلتے ہیں جو اِس کی قدر و قیمت پہچانتے اور اِس وقت اُس کے دروازے پر سائل بن کر حاضر ہوتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۲۵)

یعنی بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بہت موزوں ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز میں تلاوت قرآن جہاں اپنی تہذیب نفس کے لیے ضروری ہے، وہاں سننے والوں کے دلوں کو زندہ کر دینے کے لیے بھی ایک نداے غیب کی حیثیت رکھتی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

اصل میں لفظ ناشئۃ الیل استعمال کیا گیا ہے جس کے متعلق مفسرین اور اہل لغت کے چار مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ناشئہ سے مراد نفس ناشئہ ہے، یعنی وہ شخص جو رات کو اٹھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رات کے اوقات ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں رات کو اٹھنا۔ اور چوتھا قول یہ ہے کہ اس لفظ کا اطلاق محض رات کو اٹھنے پر نہیں ہوتا بلکہ سو کر اٹھنے پر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ اور مجاہد نے اسی چوتھے قول کو اختیار کیا ہے۔

اصل میں لفظ اشد وطاً استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اسے ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ اس طریقے سے جو شخص اپنے آپ پر قابو پا لے اور اپنے جسم و ذہن پر تسلط حاصل کر کے اپنی اس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے پر قادر ہوجائے وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دین حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کرسکتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کے ان اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لامحالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا اس میں ریاکاری کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے اس لیے اس کا التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے، وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کرسکتا ہے۔

اصل میں اقوم قیلا ارشاد ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں ” قول کو زیادہ راست اور درست بناتا ہے “۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ اس وقت انسان قرآن کو زیادہ سکون و اطمینان اور توجہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھ سکتا ہے۔ ابن عباس (رض) اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ اجدر ان یفقہ فی القران، یعنی ” وہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ آدمی قرآن میں غور و خوض کرے ” (ابو داؤد)

جونا گڑھی

بیشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لئے انتہائی مناسب ہے اور بات کو بالکل درست کردینے والا ہے

 دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دن کے مقابلے میں رات کو قرآن زیادہ واضح اور حضور قلب کے لئے زیادہ موثر ہے، اس لئے کہ اس وقت دوسری آوازیں خاموش ہوتی ہیں۔ فضا میں سکون غالب ہوتا ہے اس وقت نمازی جو پڑھتا ہے وہ آوازوں کے شور اور دنیا کے ہنگاموں کے نذر نہیں ہوتا بلکہ نمازی اس سے خوب محفوظ ہوتا اور اس کی اثر آفرینی کو محسوس کرتا ہے۔ 

إِنَّ لَكَ فِى ٱلنَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا

امین احسن اصلاحی

دن میں بھی تمہارے لیے کافی تسبیح کا موقع ہے۔

’سبح طویل‘ کی تاویل: عام طور پر لوگوں نے اس کے معنی یہ لیے ہیں کہ دن میں تمہارے لیے اور بھی بہت سے کام ہیں یعنی دن میں چونکہ دوسرے بہت سے دھندے گھیرے رہتے ہیں، نماز کے لیے دلجمعی کا وقت مشکل ہی سے میسر آتا ہے، اس وجہ سے شب میں تم کو تہجد کے اہتمام کا حکم دیا گیا۔

لفظ ’سبح‘ کے اندر، ازروئے لغت، اس معنی کی گنجائش موجود ہے لیکن ہمارا دل مختلف وجوہ سے اس تاویل پر نہیں جمتا۔
اول وجہ یہ ہے کہ قیام لیل کے لیے پچھلے پہر کا وقت اللہ تعالیٰ نے صرف اس وجہ سے نہیں منتخب فرمایا ہے کہ دن میں آدمی کے سامنے دوسری بہت سی مشغولیتیں ہیں بلکہ قرآن کے متعدد اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں اپنے مزاج و کیفیات کے اعتبار سے یہی وقت ان مقاصد کے لیے سب سے زیادہ سازگار ہے جو قیام شب سے مقصود ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر یہ بات کہنی ہوتی تو اس کے لیے سادہ اسلوب بیان یہ ہوتا کہ ’اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ شَغْلًا کَثِیْرًا‘ یا اس کے ہم معنی دوسرے الفاظ ہوتے۔ لفظ ’سبح‘ تیرنے، چلنے وغیرہ کے معنی میں آتا تو ہے لیکن شغل اور مصروفیت کے معنی میں یہ ایسا معروف نہیں ہے کہ بغیر واضح قرینہ کے ذہن اس کی طرف منتقل ہو سکے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر لفظ ’سبح‘ یہاں اس معنی میں ہوتا تو اس کی صفت ’طَوِیْلًا‘ کی جگہ ’کَثِیْرًا‘ یا ’کَبِیْرًا‘ زیادہ موزوں ہوتی۔
ان مختلف وجوہ سے اس تاویل پر دل پوری طرح مطمئن نہیں ہوتا۔ ہمارے نزدیک لفظ ’تسبیح‘ یہاں اپنے معروف معنی یعنی تسبیح کرنے ہی کے معنی میں ہے اور آیت کی تاویل یہ ہے کہ شب میں تمہیں جس اہتمام نماز کا حکم دیا جا رہا ہے اس کے علاوہ دن میں بھی تمہارے لیے کافی تسبیح کا موقع ہے جس کا اہتمام رکھو۔ چنانچہ یہ امر واقعہ ہے کہ حضورؐ دن میں بھی اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے اللہ تعالیٰ کے ذکر کا اہتمام رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے آپ سے دعائیں منقول ہیں۔ آدمی ان کا اہتمام رکھے تو اس کا کوئی قدم بھی ذکر کے بغیر نہیں اٹھ سکتا اور ان کی برکت سے آدمی کے وہ کام بھی عبادت بن جاتے ہیں جو بظاہر دنیا کے کام خیال کیے جاتے ہیں۔
دین میں مطلوب ذکر دوام ہے: یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ دین میں مطلوب ذکر دوام ہے۔ اس مسئلہ پر اس کے مقام میں بحث ہو چکی ہے۔ جس طرح انسان کی مادی زندگی کے لیے سانس ضروری ہے اسی طرح اس کی روحانی زندگی کے لیے اللہ کی یاد ضروری ہے۔ سانس رک جائے تو جسم مردہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ سے غفلت ہو جائے تو روح پژمردہ ہو جاتی ہے۔ دل ذکر کی جھڑی ہی سے زندہ رہتا ہے اور دل کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔
آیات آفاق و انفس میں تفکر بھی ذکر ہے: یہاں وہ حقیقت بھی پیش نظر رہے جو اس کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات میں بیان ہو چکی ہے کہ اللہ کے دین کی دعوت اور آیات آفاق و انفس میں تدبر و تفکر بھی ذکر ہی میں شامل ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس کو افضل الذکر کی حیثیت حاصل ہے اس لیے کہ اس تفکر ہی سے درحقیقت ذکر کے اندر حقیقی معنویت پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو تو ذکر محض ورزش زبان بن کے رہ جاتا ہے۔ زندگی پر اس کا کوئی مفید اثر مرتب نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ پر ’الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘ (آل عمران ۳: ۱۹۱) کے تحت بحث گزر چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِس لیے کہ دن میں تو (اِس کام کی وجہ سے) تمھیں بہت مصروفیت رہے گی۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

دن کے اوقات میں تو تمہارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

یقیناً تجھے دن میں بہت شغل رہتا ہے

 یعنی رات کو نماز اور تلاوت زیادہ مفید اور موثر ہے، یعنی اس پر ہمیشگی کر، دن ہو یا رات، اللہ کی تسبیح و تمحید اور تکبیر و تہلیل کرتا رہ۔ 

وَٱذْكُرِ ٱسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا

امین احسن اصلاحی

اور اپنے رب کے نام کا ذکر کر اور اس کی طرف گوشہ گیر ہو جا۔

رب کے دامن رحمت میں پناہ گیر ہونے کا طریقہ: ’تَبَتُّلٌ‘ اور ’تَبْتِیْلٌ‘ دونوں کے معنی انقطاع الی اللہ کے ہیں یعنی خلق سے کٹ کر رب کے دامن رحمت میں پناہ گیر ہو جانا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طریقہ بتایا اس بات کا کہ جب جب لوگوں کی حق بیزاری اور دل آزاری سے دل آزردہ ہو تو تم ان ناقدروں سے کٹ کر اپنے رب کے دامن رحمت میں پناہ گیر ہو جایا کرو اور اس کے لیے تمہیں اس کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ تم اس کے نام کو یاد کرو۔ جب تم اس کے نام کے ساتھ اس کو یاد کرو گے تو وہ خود تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گا۔

صفات الٰہی کا استحضار: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام اس کی صفات کی تعبیر ہیں اور ان کی صفات ہی پر تمام دین و شریعت اور سارے ایمان و عقیدہ کی بنیاد ہے۔ ان صفات کا صحیح علم مستحضر رہے تو آدمی کی پشت پر ایک ایسا لشکر گراں اس کے محافظ کی حیثیت سے موجود رہتا ہے کہ شیطان کی ساری فوجیں اس کی نگاہوں میں پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتیں۔ وہ اپنے آپ کو پہاڑوں سے بھی زیادہ مستحکم محسوس کرتا ہے۔ اور اگر خدا کی صفات کی صحیح یادداشت اس کے اندر باقی نہ رہے یا کمزور ہو جائے تو پھر اس کا عقیدہ بے بنیاد یا کمزور ہو جاتا ہے جس کے سبب سے اس کو منافقین کی طرح ہر بجلی اپنے ہی خرمن پر گرتی نظر آتی ہے۔

جاوید احمد غامدی

(لہٰذا اِس وقت پڑھو) اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرواور (رات کی اِس تنہائی میں) سب سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہو۔

یعنی اُس کی صفات پر متنبہ ہو کر اپنے دل کو اُس کی یاد سے معمور اور زبان کو اُس کی تسبیح و تحمید سے تر رکھو، اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے سب نام اُس کی صفات کی تعبیر ہیں اور دین و شریعت کی ساری عمارت اِنھی صفات پر استوار ہوئی ہے۔ لہٰذا خدا کے نام کا یہی ذکر ہے جو دعوت دین کی جدوجہد میں ہر لحظہ تمھارے ایمان و عقیدہ اور عزم وا ستقلال کی حفاظت کرے گا۔استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...جس طرح انسان کی مادی زندگی کے لیے سانس ضروری ہے، اِسی طرح اُس کی روحانی زندگی کے لیے اللہ کی یاد ضروری ہے۔ سانس رک جائے تو جسم مردہ ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح اللہ سے غفلت ہو جائے توروح پژمردہ ہو جاتی ہے۔ دل ذکر کی جھڑی ہی سے زندہ رہتا ہے اور دل کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۲۷)

یعنی ہر چیز سے بے تعلق ہو کر اُسی سے لو لگاؤ اور یہ وقت اُسی کی یاد میں بسر کرو۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دعوت دین کی جدوجہد میں صبر و ثبات کے لیے تہجد کی نماز ، اُس میں قرآن کی تلاوت اور ذکر الٰہی کی کیا اہمیت ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔

دن کے اوقات کی مصروفیتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد ہے کہ ” اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو “۔ خود بخود یہ مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں ہر طرح کے کام کرتے ہوئے بھی اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو اور کسی نہ کسی شکل میں اس کا ذکر کرتے رہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 63) ۔

جونا گڑھی

تو اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کر اور تمام مخلوقات سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوجا۔

 یعنی اللہ کی عبادت اور اس سے دعا و مناجات کے لیے یکسو اور ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہوجانا، یہ رہبانیت سے مختلف چیز ہے رہبانیت تو تجرد اور ترک دنیا ہے جو اسلام میں ناپسندیدہ ہے۔ 

رَّبُّ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَٱتَّخِذْهُ وَكِيلًا

امین احسن اصلاحی

وہی مشرق و مغرب کا خداوند ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بنا۔

یعنی اللہ کی پناہ کسی کمزور کی پناہ نہیں ہے بلکہ تمام مشرق و مغرب کے خداوند کی پناہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو اس کا شریک و سہیم ہو یا اس کے ارادوں میں مزاحم ہو سکے۔ اس کو وکیل بناؤ گے تو وہ تمہارے لیے کافی ہے۔ ’وَکَفٰی بِاللہِ وَکِیْلاً‘ (النسآء ۴: ۸۱)

جاوید احمد غامدی

وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے۔ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اِس لیے اُسی کو اپنا کارساز بناؤ۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنا لو۔

وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جس پر اعتماد کر کے کوئی شخص اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دے۔ قریب قریب اسی معنی میں ہم اردو زبان میں وکیل کا لفظ اس شخص کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے حوالہ اپنا مقدمہ کر کے ایک آدمی مطمئن ہوجاتا ہے کہ اس کی طرف سے وہ اچھی طرح مقدمہ لڑے گا اور اسے خود اپنا مقدمہ لڑنے کی حاجت نہ رہے گی۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دین کی دعوت پیش کرنے پر تمہارے خلاف مخالفتوں کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اور جو مشکلات تمہیں پیش آ رہی ہیں ان پر کوئی پریشانی تم کو لاحق نہ ہونی چاہیے۔ تمہارا رب وہ ہے جو مشرق و مغرب، یعنی ساری کائنات کا مالک ہے، جس کے سوا خدائی کے اختیارات کسی کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ تم اپنا معاملہ اسی کے حوالے کر دو اور مطمئن ہوجاؤ کہ اب تمہارا مقدمہ وہ لڑے گا، تمہارے مخالفین سے وہ نمٹے گا اور تمہارے سارے کام وہ بنائے گا۔

جونا گڑھی

مشرق و مغرب کا پروردگار جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اسی کو اپنا کارساز بنا لے۔

n/a

وَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَٱهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا

امین احسن اصلاحی

اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کر اور ان کو خوبصورتی سے نظرانداز کر۔

مخالفین کی باتوں پر صبر اور اس صبر کا طریقہ: اپنے جھٹلانے والوں کی بے ہودہ گوئیوں پر صبر کرو اور اپنے موقف پر ڈٹے رہو نہ ان کی باتوں کا غم کرو اور نہ زیادہ ان کے درپے ہو، بلکہ ان کو خوبصورتی کے ساتھ چھوڑو۔ وہ اپنی اس روش کا خمیازہ خود بھگتیں گے۔

چھوڑنا دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک چھوڑنا تو وہ ہے جو فضیحتا اور لعن طعن کے بعد، عناد و انتقام کے جذبہ کے ساتھ ہو۔ اس طرح کا چھوڑنا عام دنیا داروں کا شیوہ ہے۔ اخیار و صالحین یہ طریقہ نہیں اختیار کرتے۔ وہ خلق کی اصلاح کی کوشش اپنی کسی ذاتی منفعت کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی ہدایت اور اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ لوگ ان کی ناقدری اور دل آزاری کرتے ہیں تو انھیں غصہ یا نفرت کے بجائے ان کے حال پر افسوس اور ان کی محرومی و بدانجامی پر صدمہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ ان کے رویہ سے مجبور ہو کر ان کو چھوڑتے تو ہیں لیکن یہ چھوڑنا اسی طرح کا ہوتا ہے جس طرح ایک شریف باپ اپنے نالائق بیٹے کے رویہ پر خاموشی اور علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرح کے چھوڑنے کو یہاں ’ہجر جمیل‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس طرح کی علیحدگی بعض اوقات مفید نتائج پیدا کرتی ہے۔ جن کے اندر خیر کی کوئی رمق ہوتی ہے وہ اس شریفانہ طرز عمل سے متاثر اور اپنے رویہ کا جائزہ لینے کی طرف مائل ہوتے ہیں ورنہ کم سے کم انھیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ شخص ان کے باطل پر راضی ہونے والا نہیں ہے خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ جب تک پیغمبر اپنی قوم کے اندر رہتا ہے قوم کی زیادتیوں کا مقابلہ وہ اسی ’ہجر جمیل‘ سے کرتا ہے۔ البتہ جب قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو وہ اس کو اعلان براء ت کے ساتھ چھوڑتا ہے اور اس کا یہ چھوڑنا قوم کی موت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کرو، اِن سے نہایت بھلے طریقے سے صرف نظر کرو۔

یعنی اِن کی زیادتیوں کو نظر انداز کر دو۔ ہو سکتا ہے کہ تمھارا یہی ’ہَجْرٌ جَمِیْل‘ اِن کے رویے میں تبدیلی کا باعث بن جائے۔

ابو الاعلی مودودی

اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ۔

الگ ہوجاؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے مقاطعہ کر کے اپنی تبلیغ بند کر دو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ نہ لگو، ان کی بیہودگیوں کو بالکل نظر انداز کر دو، اور انکی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو۔ پھر یہ احتراز بھی کسی غم اور غصے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ نہ ہو، بلکہ اس طرح کا احتراز ہو جس طرح ایک شریف آدمی کسی بازاری آدمی کی گالی سن کر اسے نظر انداز کردیتا ہے اور دل پر میل تک نہیں آنے دیتا۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل کچھ اس سے مختلف تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرمائی۔ اصل میں تو آپ پہلے ہی سے اسی طریقے پر عمل فرما رہے تھے، لیکن قرآن میں یہ ہدایت اس لیے دی گئی کہ کفار کو بتا دیا جائے کہ تم جو حرکتیں کر رہے ہو ان کا جواب نہ دینے کی وجہ کمزوری نہیں ہے بلکہ اللہ نے ایسی باتوں کے جواب میں اپنے رسول کو یہی شریفانہ طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔

جونا گڑھی

اور جو کچھ وہ کہیں تو سہتا رہ اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ۔

n/a

Page 1 of 2 pages  1 2 >