إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ

امین احسن اصلاحی

ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا

قرآن کا نزول اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے تحت ہوا ہے: سابق سورہ کی آیات ۳-۵ میں اس عظیم احسان کا ذکر ہو چکا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی تعلیم کے لیے قرآن نازل کر کے فرمایا۔ اب اس سورہ میں اسی کا حوالہ، بغیر کسی تمہید کے، دے کر بتایا کہ ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ ’اَنْزَلْنٰہُ‘ میں ضمیر مفعول اگرچہ بظاہر مرجع کے بغیر آ گئی ہے لیکن قرینہ بالکل واضح ہے اس وجہ سے اس طرح ضمیر لانے میں کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ غور کیجیے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں ایک سورہ کے بعد دوسری سورہ جو آتی ہے تو وہ بغیر کسی تعلق کے نہیں آ جاتی بلکہ سابق اور لاحق دونوں میں نہایت گہرا ظاہری اور باطنی ربط ہوتا ہے۔

’اِنَّا‘ میں جو زور اور تاکید ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ کتاب نہ اس کے پیش کرنے والے کی ذاتی اُپج کا نتیجہ ہے نہ اس میں کسی شیطانی تحریک یا وسوسہ کو کوئی دخل ہے، جیسا کہ اس کے مخالفین سمجھتے ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ نے خاص اپنی جانب سے خلق کی تعلیم و ہدایت کے لیے اتاری ہے، کسی دوسری طاقت کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
لیلۃ القدر: ’لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ‘ سے مراد امور یا تقسیم امور کی وہ رات ہے جس کا ذکر سورۂ دخان میں بدیں الفاظ گزر چکا ہے:

اِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِیْنَ ۵ فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ ۵ أَمْراً مِّنْ عِندِنَا إِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ (الدخان ۴۴: ۳-۴)
’’ہم نے اس (قرآن) کو ایک نہایت مبارک رات میں اتارا ہے۔ بے شک ہم اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہوشیار کرنے والے ہیں۔ اسی رات میں تمام حکیمانہ امور کی تقسیم ہوتی ہے۔ خاص ہمارے حکم سے، بے شک ہم رسول بھیجنے والے تھے۔‘‘

اس آیت پر تدبر کی نظر ڈالیے تو اس سے دو باتیں بالکل واضح طور پر نکلتی ہیں:
ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مبارک رات خاص اس کام کے لیے مقرر فرمائی ہے جس میں وہ تمام امور، جو اس عالم میں نافذ ہونے والے ہوتے ہیں، ان ملائکہ کے سپرد کیے جاتے ہیں جو کو نافذ کرتے ہیں۔
دوسری یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت، قرآن کا نزول اور قریش کو انذار ان اہم امور میں سے ہیں جن کی تنفیذ کا کام اسی مبارک رات میں متعلق فرشتوں کے حوالہ ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی اہم اسکیموں اور عظیم منصوبوں میں سے ہے اور ضروری ہے کہ یہ اپنے آخری مراحل تک پہنچے۔
اس رات میں قرآن کے اتارے جانے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ پورا قرآن اسی ایک رات میں اتار دیا گیا ہو بلکہ اس کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ اس میں اتارے جانے کا فیصلہ ہو گیا، جبریل امینؑ کو یہ کام سپرد کر دیا گیا اور پہلی وحی اسی رات میں نازل ہو گئی۔ اس کے بعد اگر قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا رہا اور تئیس سال کی مدت میں تمام ہوا تو اس بات میں اور اس آیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

ہم نے اِس (قرآن) کو اُس رات میں نازل کیا ہے جس میں تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں

اصل الفاظ ہیں: ’اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ‘۔ ’اَنْزَلْنٰہُ‘ میں ضمیر مفعول مرجع کے بغیر آ گئی ہے، اِس لیے کہ نازل کرنا خود بخود اِس پر دلالت کرتا ہے کہ مراد قرآن ہے۔ اِس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ پورا قرآن اِسی ایک رات میں نازل ہوا ہو، بلکہ اِس کے نزول کا فیصلہ اگر اِس رات میں کر دیا گیا اور پہلی وحی نازل ہو گئی تو ’اَنْزَلْنٰہُ‘ کے الفاظ اِس صورت حال کی تعبیر کے لیے بھی بالکل موزوں ہوں گے۔

یہ رمضان کی کوئی رات تھی۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۸۵میں قرآن نے صراحت کر دی ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔
’قَدْر‘کے معنی فیصلوں کی رات کے بھی ہو سکتے ہیں اور عظمت والی رات کے بھی۔ سورۂ دخان (۴۴) کی آیت ۴ میں یہی مضمون ’فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اِس سے متعین ہو جاتا ہے کہ پہلے معنی ہی مقصود ہیں۔
آیت میں لفظ ’اِنَّا‘ بھی قابل توجہ ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’’اِنَّا‘میں جو زور اور تاکید ہے، اُس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ کتاب نہ اِس کے پیش کرنے والے کی ذاتی اپج کا نتیجہ ہے، نہ اِس میں کسی شیطانی تحریک یا وسوسے کو کوئی دخل ہے، جیسا کہ اِس کے مخالفین سمجھتے ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ نے خاص اپنی جانب سے خلق کی تعلیم و ہدایت کے لیے اتاری ہے، کسی دوسری طاقت کو اِس میں کوئی دخل نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۶۶)

ابو الاعلی مودودی

ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔

اصل الفاظ ہیں اَنْزَلْنٰهُ ” ہم نے اس کو نازل کیا ہے ” لیکن بغیر اس کے کہ پہلے قرآن کا کوئی ذکر ہو، اشارہ قرآن ہی کی طرف ہے، اس لیے کہ ” نازل کرنا ” خود بخود اس پر دلالت کرتا ہے کہ مراد قرآن ہے۔ اور قرآن مجید میں اس امر کی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ اگر سیاق کلام یا انداز بیان سے ضمیر کا مرجع خود ظاہر ہورہا ہو تو ضمیر ایسی حالت میں بھی استعمال کرلی جاتی ہے جب کہ اس کے مرجع کا ذکر پہلے یا بعد میں کہیں نہ کیا گیا ہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، النجم، حاشیہ 9)

یہاں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے، اور سورة بقرہ میں ارشاد ہوا ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ” رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ” (البقرہ 185) اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غار حرا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی، اس رات کو یہاں شب قدر کہا گیا ہے اور سورة دخان میں اسی کو مبارک رات فرمایا گیا ہے۔ اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ ” ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے ” (آیت 3)

اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس رات پورا قرآن حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کردیا گیا، اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتا فوقتا 23 سال کے دوران میں جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کرتے رہے۔ یہ مطلب ابن عباس نے بیان کیا ہے ( ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی) دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اس رات سے ہوئی۔ یہ امام شعبی کا قول ہے، اگرچہ ان سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے جو ابن عباس کا اوپر گزرا ہے۔ (ابن جریر) بہرحال دونوں صورتوں میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں سورة علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں اللہ تعالیٰ اسی وقت تصنیف نہیں فرماتا تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملہ میں ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی، بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زمین پر نوع انسانی کی پیدائش، اس میں انبیاء کی بعثت، انبیاء پر نازل کی جانے والی کتابوں اور تمام انبیاء کے بعد آخر میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمانے اور آپ پر قرآن نازل کرنے کا پورا منصوبہ موجود تھا۔ شب قدر میں صرف یہ کام ہوا کہ اس منصوبے کے آخرے حصے پر عملدر آمد شروع ہوگیا۔ اس وقت اگر پورا قرآن حاملین وحی کے حوالہ کردیا گیا ہو تو کوئی قابل تعجب امر نہیں ہے۔

قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لیے ہیں۔ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کردیتا ہے۔ اس کی تائید سورة دخان کی یہ آیت کرتی ہے فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ” اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے ” (آیت 4) بخلاف اس کے امام زہری کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے، اس معنی کی تائید اسی سورة کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ ” شب قدر ہزار مہینوں سے زیاہ بہتر ہے “۔

اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سی رات تھی، تو اس میں اتنا اختلاف ہوا ہے کہ قریب قریب 40 مختلف اقوال اس کے بارے میں ملتے ہیں۔ لیکن علماء امت کی بڑی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک طاق رات شب قدر ہے، اور ان میں بھی زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ اس معاملہ میں جو معتبر احادیث منقول ہوئی ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا وہ ستائیسویں یا انتیسویں رات ہے (ابوداؤد طیالسی) ۔ دوسری روایت حضرت ابوہریرہ سے یہ ہے کہ وہ رمضان کی آخری رات ہے۔ (مسند احمد)

حضرت ابی بن کعب سے زر بن حبیش نے شب قدر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا اور استثناء نہ کیا کہ وہ ستائیسویں رات ہے (احمد، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن حبان)

حضرت ابوذر سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا حضرت عمر، حضرت حذیفہ اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سے لوگوں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ رمضان کی ستائیسویں رات ہے (ابن ابی شیبہ)

حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات ہے، اکیسویں، یا تئیسویں، یا پچیسویں، یا ستائیسویں، یا انتیسویں، یا آخری (مسند احمد)

حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جب کہ مہینہ ختم ہونے میں 9 دن باقی ہوں، یا سات دن باقی، یا پانچ دن باقی (بخاری) اکثر اہل علم نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضور کی مراد طاق راتوں سے تھی۔

حضرت ابوبکرہ کی روایت ہے کہ 9 دن باقی ہوں، یا سات دن، یا پانچ دن، یا تین دن، یا آخری رات۔ مراد یہ تھی کہ ان تاریخوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ (ترمذی، نسائی)

حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات میں تلاش کرو (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی) حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عمر کی یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تازیست رمضان کی آخری دس راتوں میں اعتکاف فرمایا ہے۔

اس معاملہ میں جو روایات حضرت معاویہ، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس وغیرہ بزرگوں سے مروی ہیں ان کی بنا پر علمائے سلف کی بڑی تعداد ستائیسویں رمضان ہی کو شب قدر سمجھتی ہے۔ غالبا کسی رات کا تعین اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت مکہ معظمہ میں رات ہوتی ہے اس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں دن ہوتا ہے، اس لیے ان علاقوں کے لوگ تو کبھی شب قدر کو پا ہی نہیں سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے رمضان کی ان تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصہ میں ہو اس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لیے شب قدر ہوسکتی ہے۔

جونا گڑھی

یقیناً ہم نے اس شب قدر میں نازل فرمایا

یعنی اتار نے کا آغاز کیا، یا لوح محفوظ سے بیت العزت میں، جو آسمان دنیا پر ہے، ایک ہی مرتبہ اتار دیا، اور وہاں سے حسب واقعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتا رہا تاآنکہ ٢٣ سال میں پورا ہوگیا۔ اور لیلۃ القدر رمضان میں ہی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن کی آیت (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ) 2 ۔ البقرۃ :185) سے واضح ہے۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ

امین احسن اصلاحی

اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے

شب قدر کی عظمت: یہ شب قدر کی عظمت و برکت واضح فرمائی ہے کہ وہ ایسی باعظمت و بابرکت رات ہے کہ اس کی عظمتوں اور برکتوں کا کما حقہٗ اندازہ نہیں کرایا جا سکتا۔ اس کی یہ عظمت و برکت اس وجہ سے ہے کہ اس میں اس کائنات سے متعلق بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ جب اس دنیا کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے وہ دن بڑی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں جن میں وہ اپنے سال بھر کے منصوبے طے کرتی ہیں تو اس رات کی اہمیت کا اندازہ کون کر سکتا ہے جس میں پوری کائنات کے لیے خدائی پروگرام طے ہوتا اور سارے جہان کا فیصلہ ہوتا ہے۔

اگرچہ یہ فیصلے رحمت اور عذاب، نصب اور عزل، فتح اور شکست دونوں طرح کے امور سے متعلق ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ اس کی طرف سے ہوتے ہیں جس کا ہر فیصلہ عدل، رحم اور حکمت پر مبنی اور جس کا ہر کام اس مجموعی دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس رات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے مجموعی حیثیت سے مبارک ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ سورۂ دخان کی مذکورہ آیت میں اس رات کو ’لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور آگے اس سورہ میں اس کو ہزار مہینوں سے بڑھ کر قرار دیا ہے۔ اس کی ان صفتوں کے بیان سے مقصود، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، قرآن کے مخالفوں کو یہ آگاہی دینا ہے کہ ایسی عظیم اور مبارک رات میں نازل ہونے والی کتاب کو اگر کسی نے کہانت، نجوم اور شاعری کے قسم کی کوئی چیز سمجھا تو وہ گہر اور پشیز میں امتیاز کرنے سے قاصر رہا۔ اس مبارک رات میں شیطانی القاء کی تمام راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ اس میں وحی کا ابرنیساں برستا ہے جس کا ایک ایک قطرہ ایک گوہر گراں مایہ ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور تمھیں کیا معلوم کہ وہ فیصلوں کی رات کیا ہے؟

کسی چیز کے ہول یا اُس کی عظمت کا تصور دلانے کے لیے یہ اسلوب قرآن میں جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں اِس سے مقصود شب قدر کی عظمت کی طرف متوجہ کرنا ہے، یعنی یہ ایک ایسی رات ہے کہ کوئی شخص اِس کی عظمتوں اور برکتوں کا کماحقہ اندازہ نہیں کر سکتا۔

ابو الاعلی مودودی

اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟

​n/a

جونا گڑھی

تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے ؟

 اس استفہام سے اس رات کی عظمت و اہمیت واضح ہے، گویا کہ مخلوق اس کی تہ تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتی، یہ صرف ایک اللہ ہی ہے جو اس کو جانتا ہے۔ 

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ

امین احسن اصلاحی

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے

لیلۃ القدر کی برکت: یہ اس رات کی برکت بیان ہوئی ہے کہ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ بہتری، ظاہر ہے کہ حصول مقصد کے اعتبار سے ہے۔ جس طرح اس مادی دنیا میں فصلوں، موسموں اور اوقات کا اعتبار ہے اسی طرح روحانی عالم میں بھی ان کا اعتبار ہے۔ جس طرح خاص خاص چیزوں کے بونے کے لیے خاص خاص موسم اور مہینے ہیں، ان میں آپ بوتے ہیں تو وہ پروان چڑھتی اور مثمر ہوتی ہیں اور اگر ان موسموں اور مہینوں کو آپ نظر انداز کر دیتے ہیں تو دوسرے مہینوں کی طویل سے طویل مدت بھی ان کا بدل نہیں ہو سکتی اسی طرح روحانی عالم میں بھی خاص خاص کاموں کے لیے خاص موسم اور خاص اوقات و ایام مقرر ہیں۔ اگر ان اوقات و ایام میں وہ کام کیے جاتے ہیں تو وہ مطلوبہ نتائج پیدا کرتے ہیں اور اگر وہ ایام و اوقات نظر انداز ہو جاتے ہیں تو دوسرے ایام و اوقات کی زیادہ سے زیادہ مقدار بھی ان کی صحیح قائم مقامی نہیں کر سکتی۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ جمعہ کے لیے ایک خاص دن ہے۔ روزوں کے لیے ایک خاص مہینہ ہے۔ حج کے لیے خاص مہینہ اور خاص ایام ہیں۔ وقوف عرفہ کے لیے معینہ دن ہے۔ ان تمام ایام و اوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی عبادتیں مقرر کر رکھی ہیں جن کے اجر و ثواب کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے لیکن ان کی ساری برکتیں اپنی اصلی صورت میں تبھی ظاہر ہوتی ہیں جب یہ ٹھیک ٹھیک ان ایام و اوقات کی پابندی کے ساتھ عمل میں لائی جائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ برکت فوت ہو جاتی ہے جو ان کے اندر مضمر ہوتی ہے۔

یہی حال لیلۃ القدر کا ہے۔ یہ بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے۔ بندہ اگر اس کی جستجو میں کامیاب ہو جائے تو اس ایک ہی رات میں خدا کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کر سکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں نہیں کر سکتا۔ ’ہزار راتوں‘ کی تعبیر بیان کثرت کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور بیان نسبت کے لیے بھی لیکن مدعا کے اعتبار سے دونوں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہو گا۔ مقصود یہی بتانا ہے کہ اس رات کے پردوں میں روح و دل کی زندگی کے بڑے خزانے چھپے ہوئے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس کی جستجو میں سرگرم رہ سکیں اور اس کو پانے میں کامیاب ہو جائیں!
لیلۃ القدر کی تعیین میں اختلاف: اس رات سے متعلق یہ بات تو مسلم ہے کہ اس میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ یہ رمضان کی کوئی رات ہے۔ دوسرے مقام میں یہ تصریح ہے کہ قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ہوا:

’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنۡزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ‘ (البقرہ ۲: ۱۸۵)
(رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا)

رہا یہ سوال کہ یہ رمضان کی کون سی تاریخ ہے تو روایات کے اختلاف کے سبب سے اس کا کوئی قطعی جواب دینا مشکل ہے بس زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اس کے ہونے کا گمان غالب ہے۔
اس باب میں جو روایات وارد ہیں ان کے اختلاف کے باعث بعض لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ یہ رمضان ہی کے مہینہ کے ساتھ مخصوص ہے یا کسی دوسرے مہینہ میں بھی اس کے پائے جانے کا امکان ہے؟ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ اس کی میعاد ایک سال ہے یا اس سے مختلف بھی ہو سکتی ہے؟ ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب کا انحصار تمام روایات باب کی تحقیق و تنقید پر ہے اور یہ ایک طویل بحث ہے جس کے لیے یہاں گنجائش نہیں ہے۔ ہم نے ان کی طرف یہاں صرف اس مقصد سے اشارہ کر دیا ہے کہ اہل علم ان پر نگاہ رکھیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم کو حدیث پر اپنی پیش نظر کتاب لکھنے کا موقع عنایت فرمایا تو شاید اس میں یہ سوالات زیربحث آئیں۔

جاوید احمد غامدی

فیصلوں کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے

یہ تعبیر بیان کثرت کے لیے ہے۔ اِس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امور مہمہ کی تنفیذ کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے جو رحمتیں، برکتیں اور قرب الٰہی کے جو مواقع اِس ایک رات میں حاصل ہوتے ہیں، وہ ہزار راتوں میں بھی حاصل نہیں ہو سکتے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس رات میں جو فیصلے ہوتے ہیں، وہ رحمت و نقمت، دونوں طرح کے امور سے متعلق ہوتے ہیں، لیکن چونکہ اُس ذات کی طرف سے ہوتے ہیں جس کا ہر فیصلہ رحمت و حکمت پر مبنی اور سراسر عدالت ہے، اِس وجہ سے باعتبار نتیجہ یہ ہر لحاظ سے مبارک ہی ہوتے ہیں۔ سورۂ دخان (۴۴) کی آیت ۳ میں اِسی بنا پر اِسے ’لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِس کی اِن صفتوں کے بیان سے مقصود ...قرآن کے مخالفوں کو یہ آگاہی دینا ہے کہ ایسی عظیم اور مبارک رات میں نازل ہونے والی کتاب کو اگر کسی نے کہانت، نجوم اور شاعری کے قسم کی کوئی چیز سمجھا تو وہ گہر اور پشیزمیں امتیاز کرنے سے قاصر رہا۔ اِس مبارک رات میں شیطانی القا کی تمام راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ اِس میں وحی کا ابر نیساں برستا ہے جس کا ایک ایک قطرہ ایک گوہر گراں مایہ ہوتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۴۶۷)

اِس سے یہ بات بھی ضمناً معلوم ہو ئی کہ جس طرح مادی عالم میں خاص چیزوں کے لیے موسم اور مہینے مقرر ہیں، اِسی طرح روحانی عالم میں بھی خاص خاص کاموں کے لیے دن اور مہینے مقرر کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِن کے ساتھ متعلق کر دیا جائے تو اُس کی تمام برکتیں اُسی دن اور مہینے کی پابندی سے حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر لیلۃ القدر کی جستجو میں سرگرم رہے یا لوگوں کو اِس کی ترغیب دی تو اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ پروردگار کی طرف سے یہ جان لینے کے بعد کہ یہ بڑی رحمت و برکت کی رات ہے، ایک بندۂ مومن کا ردعمل یہی ہو سکتا تھا ۔ مسلمان آپ ہی کی اتباع میں ہر سال رمضان کے مہینے میں اِس کی جستجو کرتے اور اِس کے لیے عبادت و ریاضت میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔

مفسرین نے بالعموم اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ اس رات کا عمل خیر ہزار مہینوں کے عمل خیر سے افضل ہے جن میں شب قدر شمار نہ ہو۔ اس میں شک ہیں کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات کے عمل کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ” جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کے لیے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے “۔ اور مسند احمد میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ” شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے، جو شخص ان کے ا جر کی طلب میں عبادت کے لیے کھڑا رہا اللہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے گا “۔ لیکن آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ العمل فی لیلۃ القدر خیر من العمل فی الف شھر (شب قدر میں عمل کرنا ہزار مہینوں میں عمل کرنے سے بہتر ہے) بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ ” شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ” اور ہزار مہینوں سے مراد بھی گنے ہوئے 83 سال چار مہینے نہیں بلکہ اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ بڑی کثیر تعداد کا تصور دلانے کے لیے وہ ہزار کا لفظ بلوتے تھے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات میں خیر اور بھلائی کا اتنا بڑا کام ہوا کہ کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں بھی ایسا کام نہ ہوا تھا۔

جونا گڑھی

شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

 یعنی اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اور ہزار مہینے ٨٣ سال چار مہینے بنتے ہیں یہ امت محمدیہ پر اللہ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ مختصر عمر میں زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے کیسی سہولت عطا فرما دی۔ 

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ

امین احسن اصلاحی

اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں، ہر امر میں، اپنے رب کی اجازت کے ساتھ۔

اس رات کا اصل کام: یہ اس رات کے تقدیر امور یا تقسیم امور کی رات ہونے کی وضاحت ہے۔ فرمایا کہ اس میں ملائکہ اور جبریل امین علیہ السلام ان تمام معاملات میں جو زمین میں نافذ ہونے والے ہوتے ہیں اللہ تعالی کی منظوری لے کر اترتے ہیں۔ یہی بات سورہ دخان میں

’فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ ۵ أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا‘ (الدخان ۴۴: ۴-۵)
(اسی رات میں تمام حکیمانہ امور کی تقسیم ہوتی ہے خاص ہمارے حکم سے)

کے الفاظ سے ارشاد ہوئی ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے تحت جو امور طے کر رکھے ہیں وہ اسی رات میں تقسیم ہوتے ہیں اور متعلق فرشتے اللہ تعالی کے اذن (SANCTION) سے ان کی تنفیذ کے لیے زمین میں اترتے ہیں۔ لفظ ’اَلرُّوْحُ‘ اس آیت میں، قرینہ دلیل ہے کہ، حضرت جبریل امین علیہ السلام کے لیے ہے۔ چونکہ ملائکہ کے زمرے میں ان کا درجہ بہت اونچا ہے اس وجہ سے ان کا ذکر خاص طور پر ہوا۔

جاوید احمد غامدی

اُس میں فرشتے اور روح الامین اپنے پروردگار کے اذن سے ہر معاملے کا حکم لے کر اترتے ہیں

اصل میں لفظ ’الرُّوْح‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے جبریل امین مراد ہیں۔ اُن کے فضل و شرف کی بنا پراُن کا ذکر دوسروں سے الگ کیا گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔

روح سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں جن کے فضل و شرف کی بنا پر ان کا ذکر فرشتوں سے الگ کیا گیا ہے۔

یعنی وہ بطور خود نہیں آتے بلکہ اپنے رب کے اذن سے آتے ہیں۔ اور ہر حکم سے مراد وہی ہے جسے سورة دخان آیت 5 میں امر حکیم (حکیمانہ کام) کہا گیا ہے۔

جونا گڑھی

اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں۔

 روح سے مراد حضرت جبرائیل ہیں یعنی فرشتے حضرت جبرائیل سمیت، اس رات میں زمین پر اترتے ہیں ان کاموں کو سر انجام دینے کے لیے جن کا فیصلہ اس سال میں اللہ فرماتا ہے۔ 

سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ

امین احسن اصلاحی

وہ یکسر امان ہے! یہ صبح کے نمودار ہونے تک ہے

اس رات میں شیاطین پابند ہوتے ہیں: یہ اس رات کے اس پہلو کی وضاحت ہے جس کا ذکر اوپر ’خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ فرمایا کہ یہ رات کلیۃً امان ہی امان ہے اور اس کی یہ برکت طلوع فجر تک محیط ہے۔

’سَلٰمٌ‘ میرے نزدیک مبتدائے محذوف کی خبر ہے۔ پورا جملہ ’ہِیَ سَلٰمٌ‘ ہے۔ پوری توجہ خبر پر مرکوز کر دینے کے لیے مبتدا کو حذف کر دیا ہے۔ جس طرح ’زَیْدٌ عَدْلٌ‘ میں لفظ ’عَدْلٌ‘ میں مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے اسی طرح ’سَلٰمٌ‘ میں بھی مبالغہ کا مفہوم ہے۔ میں نے ترجمہ میں اس کا لحاظ رکھا ہے۔
لفظ ’سَلٰمٌ‘ میں یوں تو ہر قسم کی آفات سے محفوظ ہونے کی ضمانت ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس مبارک رات میں شیاطین کی ہر قسم کی دوا دوش پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ جس طرح وحی کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ ملاء اعلیٰ کے حدود میں ان کی مداخلت کی تمام راہیں مسدود کر دی گئیں، جس کی تفصیل قرآن میں موجود ہے، اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر میں شیاطین آسمانی کرفیو کے تحت ہوتے ہیں اور ان پر یہ کرفیو فجر تک نافذ رہتا ہے۔ جس کے سبب سے نہ وہ اس اہم رات کے اسرار معلوم کرنے کے لیے کوئی نقل و حرکت کر سکتے اور نہ شب مبارک کی برکتوں میں کوئی خلل پیدا کر سکتے۔

جاوید احمد غامدی

وہ سراسر سلامتی ہے، طلوع فجر تک

یعنی فجر کے نمودار ہونے تک یہ امان ہی امان ہے۔ اِس میں کسی شیطان کے لیے دراندازی کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔

ابو الاعلی مودودی

وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔

یعنی شام سے صبح تک وہ پوری رات خیر ہی خیر ہے۔ ہر شر اور فتنے سے پاک۔

جونا گڑھی

یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے

 یعنی اس میں شر نہیں۔ یا اس معنی میں سلامتی والی ہے کہ مومن اس رات کو شیطان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں یا فرشتے اہل ایمان کو سلام عرض کرتے ہیں، یا فرشتے ہی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں۔ شب قدر کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور خاص یہ دعا بتلائی ہے، اللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُو تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ ۔