یہ سورۂ نون ہے۔ قلم گواہی دیتا ہے اور جو کچھ (لکھنے والے اُس سے) لکھ رہے ہیں۔
نون کے معنی مچھلی کے ہیں۔ سورۂ بقرہ کی ابتدا میں ہم نے بیان کیا ہے کہ ابتداءً یہ حروف معانی پر دلیل ہوتے تھے۔ اِن میں سے بعض اب بھی اپنے اُسی قدیم معنی میں مستعمل ہیں۔ یہ حرف نون بھی اُنھی میں سے ہے۔ اِس کے معنی مچھلی کے ہیں۔ اِس سورہ کا نام نون اِس لیے رکھا گیا ہے کہ اِس میں یونس علیہ السلام کا واقعہ مذکور ہے جنھیں مچھلی نے نگل لیا تھا۔
یعنی اِس وقت لکھ رہے ہیں۔ اِس سے، ظاہر ہے کہ قرآن مجید مراد ہے۔ یہ بھی قلم سے لکھا گیا اور اِس سے پہلے کے صحیفے بھی قلم ہی کے ذریعے سے محفوظ کیے گئے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو یہ درحقیقت تعلیمات الٰہیہ کے اُس پورے مدون سرمایے کی گواہی ہے جو تورات، انجیل، زبور اور قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اِن کے مضامین، پیشین گوئیاں اور تعلیمات، سب گواہی دیتی ہیں کہ جس طرح تورات و انجیل اور زبور کے پیش کرنے والے کوئی دیوانے نہیں تھے، اِسی طرح قرآن بھی اپنے مضامین کی عظمت، بزرگی اور برتری، اپنے اسلوب کی غیر معمولی قدرت اور بے مثل بلاغت سے گواہی دے رہا ہے کہ اِس کا پیش کرنے والا بھی کوئی کاہن یا شاعر یا دیوانہ نہیں ہو سکتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...قریش کے لیڈروں کی سمجھ میں یہ بات کسی طرح نہیں آتی تھی کہ آپ جس عذاب سے اُن کو اِس شدومد اور اِس جزم و یقین کے ساتھ ڈرا رہے ہیں کہ گویا اُس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں، آخر وہ کدھر سے آجائے گا؟ اُن کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ آپ کے لب و لہجہ میں جو غیر معمولی جزم ویقین ، آپ کے انداز دعوت میں جو مافوق العادت بے چینی و بے قراری اور آپ کی تذکیر میں دلوں کو ہلا دینے والی جو دردمندی و شفقت ہے، اُس سے اُن کے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ اِس اثر کو زائل کرنے کے لیے اُنھوں نے لوگوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ اِس شخص کی یہ ساری بے چینی و بے قراری اِس وجہ سے نہیں ہے کہ فی الواقع کوئی عذاب آنے والا ہے جس سے آگاہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس کو بھیجا ہے، بلکہ بعض اشخاص کو جس طرح کسی چیز کا مالیخولیا ہو جاتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے اُسی کی رٹ لگائے رکھتے ہیں، اِسی طرح اِس شخص کو بھی عذاب کا مالیخولیا ہو گیا ہے جو اِس کو ہر طرف سے آتا دکھائی دے رہا ہے۔ اِس بات کو تقویت دینے کے لیے اِس پر وہ یہ اضافہ بھی کر دیتے کہ کسی نے اِس پر جادو کر دیا ہے جس کے سبب سے اِس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں رہی ہے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۵۱۴)
ن، قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔
امام تفسیر مجاہد کہتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر، یعنی قرآن لکھا جا رہا تھا۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ چیز جو لکھی جا رہی تھی اس سے مراد قرآن مجید ہے۔
ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں۔
قلم کی قسم کھائی، جس کی اس لحاظ سے ایک اہمیت ہے کہ اس کے ذریعے سے کھول کر بیان لکھا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ خاص قلم ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا اور اسکو تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس نے ابد تک ہونے والی ساری چیزیں لکھ دیں (سنن ترمذی)
کہ تم اپنے رب کے فضل سے کوئی دیوانے نہیں ہو۔
قسم کا مقسم علیہ: یہ مقسم علیہ ہے۔ یعنی تمام پچھلے آسمانی صحیفے اور یہ قرآن، جو لکھا جا رہا ہے، سب اس بات پر شاہد ہیں کہ تم اللہ کے فضل سے کوئی دیوانے نہیں ہو۔ بلکہ تم انہی باتوں سے لوگوں کو آگاہ کر رہے ہو جن سے آدم علیہ السلام سے لے کر مسیح علیہ السلام تک ہر نبی نے آگاہ کیا اور جن کی صداقت پر تاریخ گواہ ہے۔ اگر یہ مدعیان دانش اس جرم میں تمہیں دیوانہ کہہ رہے ہیں تو اس کا غم نہ کرو، تم دیوانے نہیں بلکہ اپنے رب کے سب سے بڑے فضل سے بہرہ مند ہو البتہ ان دانش فروشوں کی عقل ماری گئی ہے کہ یہ دیوانے اور فرزانے میں امتیاز سے قاصر ہیں۔
آنحضرت صلعم کو مجنون کہنے کی وجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون کہنے کی وجہ ہم اس کے محل میں ظاہر کر چکے ہیں کہ قریش کے لیڈروں کی سمجھ میں یہ بات کسی طرح نہیں آتی تھی کہ آپؐ جس عذاب سے ان کو اس شد و مد اور اس جزم و یقین کے ساتھ ڈرا رہے ہیں کہ گویا اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں آخر وہ کدھر سے آ جائے گا؟ ان کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ آپ کے لب و لہجہ میں جو غیر معمولی جزم و یقین، آپ کے انداز دعوت میں جو مافوق العادت بے چینی و بے قراری اور آپ کی تذکیر میں دلوں کو ہلا دینے والی جو درد مندی و شفقت ہے اس سے ان کے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لیے انھوں نے لوگوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ اس شخص کی یہ ساری بے چینی و بے قراری اس وجہ سے نہیں ہے کہ فی الواقع کوئی عذاب آنے والا ہے جس سے آگاہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے بلکہ بعض اشخاص کو جس طرح کسی چیز کا مالیخولیا ہو جاتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے اسی کی رٹ لگائے رکھتے ہیں اسی طرح اس شخص کو بھی عذاب کا مالیخولیا ہو گیا ہے جو اس کو ہر طرف سے آتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس بات کو تقویت دینے کے لیے اس پر وہ یہ اضافہ بھی کر دیتے کہ کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کے سبب سے اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں رہی ہے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔
کہ اپنے پروردگار کی عنایت سے تم کوئی دیوانے نہیں ہو۔
n/a
تم اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہو۔
یہ ہے وہ بات جس پر قلم اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جو کاتبین وحی کے ہاتھوں سے ثبت ہو رہا ہے، بجائے خود کفار کے اس بہتان کی تردید کے لیے کافی ہے کہ معاذ اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنون ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت سے پہلے تو اہل مکہ آپ کو اپنی قوم کا بہترین آدمی مانتے تھے اور آپ کی دیانت و امانت اور عقل و فراست پر اعتماد رکھتے تھے۔ مگر جب آپ نے ان کے سامنے قرآن پیش کرنا شروع کیا تو وہ آپ کو دیوانہ قرار دینے لگے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ قرآن ہی ان کے نزدیک وہ سبب تھا جس کی بنا پر انہوں نے آپ پر دیوانگی کی تہمت لگائی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قرآن ہی اس تہمت کی تردید کے لیے کافی ثبوت ہے۔ یہ اعلی درجہ کا فصیح و بلیغ کلام، جو ایسے بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے، اس کا پیش کرنا تو اس بات کی دلیل ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کا خاص فضل ہوا ہے، کجا کہ اس امر کی دلیل بنایا جائے کہ آپ معاذ اللہ دیوانے ہوگئے ہیں۔ اسی مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں خطاب تو بظاہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، لیکن اصل مقصود کفار کو ان کی تہمت کا جواب دینا ہے۔ لہذا کسی شخص کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ آیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطمینان دلانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے متعلق تو ایسا کوئی شبہ نہ تھا کہ اسے دور کرنے کے لیے آپ کو یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی۔ مدعا کفار سے یہ کہنا ہے کہ تم جس قرآن کی وجہ سے اس کے پیش کرنے والے کو مجنون کہہ رہے ہو وہی تمہارے اس الزام کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے (مزید تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم تفسیر سورة طور، حاشیہ 22) ۔
تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے
یہ جواب قسم ہے، جس میں کفار کے قول کا رد ہے، وہ آپ کو مجنون (دیوانہ) کہتے تھے۔
اور تمہارے لیے یقیناً ایک کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے-
رسول کے لیے ابدی فیروز مندی کی بشارت: یہ اسی بات کی وضاحت مثبت پہلو سے ہے کہ احمق ہیں وہ جو تمہیں دیوانہ سمجھ کر تمہارے لیے گردش روزگار کے منتظر ہیں جو ان کے خیال میں تمہیں تباہ کر دے گی۔ تباہی تمہارے لیے نہیں بلکہ خود ان کے لیے مقدر ہے۔ تمہارے لیے تو کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے اور مغروروں کو جو دنیا ملی ہے اور جس پر یہ نازاں ہیں یہ اب عذاب کی زد میں ہے اور بہت جلد یہ اس کا انجام دیکھ لیں گے لیکن تمہیں تمہاری حق پرستی کا جو صلہ ملنے والا ہے وہ ابدی ہے جس کے لیے کبھی زوال نہیں ہے۔
’غَیْْرَ مَمْنُوۡنٍ‘ کے معنی غیر منقطع کے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کے معنی اس سے مختلف بھی لیے ہیں لیکن وہ عربیت اور نظائر قرآن کے خلاف ہے۔
اور تمھارے لیے یقیناً وہ صلہ ہے جس پر کبھی زوال نہ آئے گا۔
n/a
اور یقیناً تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
یعنی آپ کے لیے اس بات پر بےحساب اور لازوال اجر ہے کہ آپ خلق خدا کی ہدایت کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں ان کے جواب میں آپ کو ایسی ایسی اذیت ناک باتیں سننی پڑ رہی ہیں اور پھر بھی آپ اپنے اس فرض کو انجام دیے چلے جا رہے ہیں۔
اور بیشک تیرے لئے بےانتہاء اجر ہے ۔
فریضہ نبوت کی ادائیگی میں جتنی زیادہ تکلیفیں برداشت کیں اور دشمنوں کی باتیں سنی ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
اور تم ایک اعلیٰ کردار پر ہو۔
رسول کا کردار اس کے دعوے پر عظیم حجت ہے: یعنی حضرات انبیاء علیہم کی تاریخ نے اعلیٰ کردار کے جو نمونے پیش کیے ہیں تم اسی کی ایک نہایت شان دار مثال ہو اور تمہارا یہ کردار ان لوگوں کے خلاف سب سے بڑی حجت ہے جو تمہیں دیوانہ یا کاہن یا شاعر کہہ کر اپنے کو اور اپنے عوام کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ تمہاری یہ باتیں ہوا میں اڑ جائیں گی۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ کردار کو آپ کے دعوے کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سورۂ شعراء میں نہایت تفصیل سے کاہنوں اور شاعروں کے اخلاق کی پستی، ان کی فکری ہرزہ گردی اور ان کے قول و عمل کی بے ربطی کا حوالہ دے کر ان لوگوں کو ملامت کی گئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ناپاک زمرے میں شامل کرتے تھے۔ ان سے سوال کیا گیا ہے کہ نبی کے اعلیٰ کردار کو ان کاہنوں اور شاعروں کے کردار سے کیا تعلق جن کا ظاہر و باطن دونوں ہی یکساں تاریک ہے!
اور تم بڑے اعلیٰ اخلاق پر ہو۔
یعنی جس طرح تمھاری پیش کردہ کتاب اُنھی تعلیمات کا بیان ہے جو پہلے پیغمبروں نے پیش کی ہیں ، اِسی طرح تم بھی اُس اعلیٰ کردار کی نہایت شان دار مثال ہو جس کے نمونے انبیا علیہم السلام اِس سے پہلے پیش کر چکے ہیں۔
اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔
اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں اسی وجہ سے آپ ہدایت خلق کے کام میں یہ اذیتیں برداشت کر رہے ہیں ورنہ ایک کمزور اخلاق کا انسان یہ کام نہیں کرسکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ قرآن کے علاوہ آپ کے بلند اخلاق بھی اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کفار آپ پر دیوانگی کی جو تہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسر جھوٹی ہے، کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ دیوانہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہو اور جس کے مزاج میں اعتدال باقی نہ رہا ہو۔ اس کے برعکس آدمی کے بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے اور اس کا ذہن اور مزاج غایت درجہ متوازن ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق جیسے کچھ تھے۔ اہل مکہ ان سے ناواقف نہ تھے۔ اس لیے ان کی طرف محض اشارہ کردینا ہی اس بات کے لیے کافی تھا کہ مکہ کا ہر معقول آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ وہ لوگ کس قدر بےشرم ہیں جو ایسے بلند اخلاق آدمی کو مجنون کہہ رہے ہیں۔ ان کی یہ بیہودگی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نہیں بلکہ خود ان کے لیے نقصان دہ تھی کہ مخالفت کے جوش میں پاگل ہو کر وہ آپ کے متعلق ایسی بات کہہ رہے تھے جسے کوئی ذی فہم آدمی قابل تصور نہ مان سکتا تھا۔ یہی معاملہ ان مدعیان علم و تحقیق کا بھی ہے جو اس زمانے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مرگی اور جنون کی تہمت رکھ رہے ہیں۔ قرآن پاک دنیا میں ہر جگہ مل سکتا ہے، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت بھی اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ لکھی ہوئی موجود ہے۔ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو لوگ اس بےمثل کتاب کے پیش کرنے والے اور ایسے بلند اخلاق رکھنے والے انسان کو ذہنی مریض قرار دیتے ہیں وہ عداوت کے اندھے جذبے سے مغلوب ہو کر کیسی لغو بات کہہ رہے ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہ نے اپنے اس قول میں فرمائی ہے کہ کان خلقہ القران۔ ” قرآن آپ کا اخلاق تھا “۔ امام احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور ابن جریر نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ ان کا یہ قول متعدد سندوں سے نقل کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں کی تھی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھا دیا تھا۔ جس چیز کا قرآن میں حکم دیا گیا آپ نے خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل کیا، جس چیز سے اس میں روکا گیا آپ نے خود سب سے زیادہ اس سے اجتناب فرمایا، جن اخلاقی صفات کو اس میں فضلیت قرار دیا گیا سب سے بڑھ کر آپ کی ذات ان سے متصف تھی، اور جن صفات کو اس میں ناپسند ٹھیرایا گیا سب سے زیادہ آپ ان سے پاک تھے۔ ایک اور وایت میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کسی خادم کو نہیں مارا کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، اپنی ذات کے لیے کبھی کسی ایسی تکلیف کا انتقام نہیں لیا جو آپ کو پہنچائی گئی ہو الا یہ کہ اللہ کی حرمتوں کو توڑا گیا ہو اور آپ نے اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا ہو، اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب دو کاموں میں سے ایک کا آپ کو انتخاب کرنا ہوتا تو آپ آسان تر کام کو پسند فرماتے تھے، الا کہ وہ گناہ ہو، اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے تھے ” (مسند احمد) ۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ ” میں نے دس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی ہے۔ آپ نے کبھی میری کسی بات پر اف تک نہ کی، کبھی میرے کسی کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا “۔ (بخاری و مسلم) ۔
اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔
خلق عظیم سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے مطلب ہے کہ تو اس خلق پر ہے جس کا حکم اللہ نے تجھے قرآن میں یا دین میں دیا ہے۔
اِس لیے عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔
اہل ایمان کے لیے بشارت اور مخالفوں کے لیے وعید: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور مخالفین کے لیے دھمکی ہے کہ اگر یہ تمہیں دیوانہ کہہ کر تمہاری باتوں کو بے وزن بنانا چاہتے ہیں تو کچھ دن صبر کرو۔ عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ دونوں میں سے کس پارٹی کی باگ فتنہ میں پڑے ہوئے لیڈر کے ہاتھ میں ہے؟ اہل ایمان کی باگ، جن کی قیادت تم کر رہے یا قریش کی باگ جن کی قیادت ابولہب اور ابوجہل کر رہے ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ اب فیصلہ کا وقت قریب ہے اور حقیقت کے ظاہر ہونے میں زیادہ دیر نہیں رہ گئی ہے۔ بہت جلد سب دیکھ لیں گے کہ کون لوگ شیطان کے فتنہ میں پڑے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی قوم کو تباہی کے کھڈ میں گرایا اور کون شیطان کے فتنوں سے امان میں رہا اور اس نے اپنے پیروؤں کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہ دکھائی!
یہاں وہ حقیقت پیش نظر رکھیے جس کی بار بار یاددہانی کی جا چکی ہے کہ رسولوں کے باب میں سنت الٰہی یہ ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو اسی دنیا میں اپنی جماعت اور اپنے مخالفوں کے انجام کا فیصلہ کر کے جاتے ہیں۔ آیت میں اہل ایمان کے لیے جو تسلی اور اہل کفر کے لیے جو وعید ہے وہ جس طرح آخرت سے متعلق ہے اسی طرح اس دنیا سے بھی متعلق ہے۔ سابق سورہ کے آخر میں جو فرمایا ہے کہ ’فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ہُوَ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ‘ یہ اسی کا اعادہ دوسرے الفاظ میں ہے۔
اِس لیے عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔
n/a
عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔
n/a
پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے۔
یعنی جب حق واضح ہوجائے گا اور سارے پردے اٹھ جائیں گے اور یہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق فرمایا ہے۔
کہ فتنہ میں پڑا ہوا تم میں سے کس گروہ کے ساتھ ہے۔
’بِأَیْیِّکُمُ الْمَفْتُوْنُ‘ میں ’ب‘ بظاہر ’تُبْصِرُ‘ اور ’یُبْصِرُوْنَ‘ کے ساتھ بے جوڑ سی معلوم ہوتی ہے لیکن یہاں تضمین ہے یعنی ’یُبْصِرُوْنَ‘ متضمن ہے ’یَعْلَمُوْنَ‘ کے معنی پر۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ زمخشری کی رائے یہی ہے اور میرے نزدیک یہ رائے اصول عربیت کے مطابق ہے۔ ’بِأَیْیِّکُمُ‘ کے معنی ’بِاَیِّ الْحِزْبَیْنَ‘ کے ہیں۔
’مَفْتُوْنٌ‘ کے معنی ’مَجْنُوْنٌ‘ کے نہیں ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ ’مَفْتُوْنٌ‘ ہی کے ہیں۔ یعنی وہ شخص جو دنیا اور شیطان کے جال میں پھنسا ہوا ہو۔ یہاں ’مجنون‘ کے بجائے ’مفتون‘ کا لفظ استعمال کر کے قرآن نے یہ رہنمائی دی ہے کہ جو لوگ دنیا اور شیطان کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں اصلی مجنون وہی ہوتے ہیں اور جس پارٹی کی باگ ایسے مفتونوں کے ہاتھ میں ہو وہ بالآخر جہنم میں گر کے رہتی ہے۔
کہ تم میں سے کون فتنے میں پڑا ہوا ہے۔
اصل الفاظ ہیں: ’بِاَیِّکُمُ الْمَفْتُوْنَ‘ ۔اِن سے پہلے فعل ’یُبْصِرُوْنَ‘ آیا ہے۔ ’ب‘ کا صلہ دلیل ہے کہ یہ یہاں ’علم‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بہت جلد سب دیکھ لیں گے کہ کون شیطان کے فتنے میں پڑا ہوا ہے اور اُس نے اپنی قوم کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے اور کون شیطان کے فتنوں سے مامون ہے اور اُس نے اپنے ماننے والوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ دکھائی ہے۔
کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے۔
n/a
کہ تم میں سے کون فتنہ میں پڑا ہوا ہے۔
n/a
تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ انھیں بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت یاب ہیں۔
یہ اسی اوپر والے مضمون کی تائید و توثیق ہے کہ تمہارا رب نہ تو ان لوگوں سے بے خبر ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور نہ ان لوگوں سے ناواقف ہے جو ہدایت پر ہیں بلکہ وہ دونوں ہی سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ہو گا۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو ذلت کے مستحق ہیں وہ ہمیشہ عزت سے سرفراز رہیں اور نہ یہ ہو سکتا کہ جو سرفرازی کے حق دار ہیں وہ برابر ظالموں کے ظلم کے ہدف بنے رہیں۔ یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ یہ ایک عظیم و خبیر خالق کی پیدا کی ہوئی دنیا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے ایک روز انصاف آئے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے اس رب پر بھروسہ رکھو۔ وہ نیکوکاروں اور شریروں کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ نہیں کرے گا۔
تمھارا پروردگار ہی بہترجانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون راہ راست پر ہیں۔
لہٰذا مطمئن رہو۔ وہ اِن میں سے ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا، جس کا وہ مستحق ہے۔
تمہارا رب اُن لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور وہی ان کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں۔
n/a
بیشک تیرا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو خوب جانتا ہے، اور وہ راہ یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے۔
n/a
پس ان جھٹلانے والوں کی باتوں پر کان نہ دھرو۔
یعنی جب اصل حقیقت یہ ہے جو بیان ہوئی تو عذاب اور قیامت کی تکذیب کرنے والوں کی باتوں کا دھیان نہ کرو اور ان کی ہفوات پر کان نہ دھرو۔ یہ لوگ اگر نچنت ہیں کہ نہ عذاب ہے نہ قیامت تو انھیں نچنت رہنے دو۔ اگر یہ مطمئن ہیں کہ قیامت ہوئی تو وہاں بھی ان کو وہی کچھ حاصل ہو گا جو یہاں حاصل ہے تو انھیں یہ خواب خوش دیکھ لینے دو۔ یہ دنیا ان کی خواہشوں کے محور پر نہیں گھوم رہی ہے کہ جو کچھ یہ چاہیں گے انھیں مل جائے گا بلکہ یہ ایک حکیم و عزیز کی پیدا کی ہوئی دنیا ہے اور یہ لازم ہے کہ ایک دن اس کی حکمت اور اس کا عدل اپنی کامل صورت میں ظاہر ہو۔
لفظ ’اِطَاعَۃٌ‘ یہاں کسی کی بات کا اثر لینے کے مفہوم میں ہے۔ اس مفہوم میں یہ لفظ کلام عرب میں بھی استعمال ہوا ہے اور قرآن میں بھی۔
اِس لیے تم اِن جھٹلانے والوں کی کسی بات پر کان نہ دھرو۔
یعنی عذاب اور قیامت کو جھٹلانے والوں کی کسی بات کا اثر نہ لو۔ اصل میں لفظ ’اِطَاعَۃ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ اِس مفہوم میں عام استعمال ہوتا ہے۔ اِس کے نظائر کلام عرب میں بھی ہیں اور قرآن مجید میں بھی۔
لہٰذا تم اِن جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ۔
n/a
پس تو جھٹلانے والوں کو نہ مان
اطاعت سے مراد یہاں وہ مدارات ہے جس کا اظہار انسان نے اپنے ضمیر کے خلاف کرتا ہے۔ یعنی مشرکوں کی طرف جھکنے اور ان کی خاطر مدارت کی ضرورت نہیں۔
یہ تو چاہتے ہیں کہ ذرا تم نرم پڑو تو یہ بھی نرم پڑ جائیں گے۔
مخالفین کی اصل پالیسی: یہ ان مکذبین کی مخالفت کے اصل سبب سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کی یہ ساری تگ و دو اس مقصد سے ہے کہ تم کچھ اپنے رویہ میں لچک پیدا کرو تو یہ بھی نرم پڑ جائیں۔ یعنی تمہاری باتوں کی صداقت میں انھیں شبہ نہیں ہے لیکن ان کو ماننا ان کی خواہشوں کے خلاف ہے اس وجہ سے انھوں نے یہ طوفان اٹھایا ہے کہ تم پر دباؤ ڈال کر تمہیں کچھ نرم کریں تاکہ تم کچھ باتیں ان کی مان لو اور وہ کچھ باتیں تمہاری مان لیں اور اس طرح ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول پر باہم سمجھوتہ ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی یہ مخالفت اپنے دین جاہلی کے ساتھ کسی اخلاص پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک قسم کی (BARGAINING) کی کوشش ہے۔ جب تک انھیں توقع ہے کہ وہ تمہیں دبانے میں کچھ کامیاب ہو جائیں گے ان کی یہ کوشش جاری رہے گی۔ جب یہ توقع ختم ہو جائے گی ان کا حوصلہ پست ہو جائے گا۔
زبان سے متعلق ایک سوال کا جواب: یہاں ایک سوال زبان سے متعلق پیدا ہوتا ہے کہ عربیت کے قاعدے سے تو یہاں ’وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْا‘ ہونا تھا لیکن ہے ’فَیُدْہِنُوْنَ‘۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اسلوب مختلف اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں دراصل مبتدا محذوف کر دیا گیا ہے۔ یعنی اصل میں ’فَھُمْ یُدْہِنُوْنَ‘ ہے۔ مطلب یہ ہو گا کہ ان کی خواہش یہ ہے کہ جب تم کچھ نرم پڑ جاؤ گے تو وہ بھی اپنے رویہ میں نرمی پیدا کر لیں گے۔ اس اسلوب کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
یہ تو چاہتے ہیں کہ تم ذرا نرم پڑو، پھر یہ بھی نرم پڑ جائیں گے۔
اصل الفاظ ہیں: ’وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ‘ ۔ عربیت کے عام قاعدے سے یہاں ’فیدھنوا‘ ہونا تھا، لیکن قرآن نے اسلوب تبدیل کر دیا ہے۔ چنانچہ ’فَیُدْھِنُوْنَ‘ اصل میں ’فَھُمْ یُدْھِنُوْنَ‘ ہے۔ اِس میں مبتدا محذوف کر دیا گیا ہے۔ اِس اسلوب کی مثالیں قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اِن کی مخالفت کسی اصول پر نہیں ہے۔ یہ کچھ لو اور کچھ دو کے طریقے پر معاملہ کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اُس وقت تک کوشش کریں گے، جب تک توقع باقی رہے گی۔ جب یہ ختم ہو جائے گی تو اِن کا حوصلہ بھی پست ہو جائے گا۔
یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں۔
یعنی تم اسلام کی تبلیغ میں کچھ ڈھیلے پڑجاؤ تو یہ بھی تمہاری مخالفت میں کچھ نرمی اختیار کرلیں، یا تم ان کی گمراہیوں کی رعایت کر کے اپنے دین میں کچھ ترمیم کرنے پر آمادہ ہوجاؤ تو یہ تمہارے ساتھ مصالحت کرلیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑجائیں
وہ چاہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے تو وہ بھی تیرے بارے میں نرم رویہ اختیار کریں باطل پرست اپنی باطل پرستی کو چھوڑنے میں ڈھیلے ہوجائیں گے۔ اس لئے حق میں خوشامد، حکمت، تبلیغ اور کار نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
اور تم بات نہ سنو ہر جھوٹی قسمیں کھانے والے، (ذلیل، اشارہ باز، لُترے، خیر سے روکنے والے، حد سے تجاوز کرنے والے، حق مارنے والے، سنگدل، مزید برآں بے نسب) کی۔
قریش کی پوری قیادت کی اخلاقی تصویر: یہ اسی ’فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ‘ پر عطف کر کے تاکید کے ساتھ پھر تنبیہ فرمائی کہ تم ہر لپاٹیے ذلیل کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ یہ اشارہ کسی خاص شخص کی طرف نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ قریش کی پوری قیادت کی اخلاقی پستی کی تصویر آگے کی چند آیتوں میں کھینچ دی گئی ہے اور مقصود اس سے یہ دکھانا ہے کہ ایک طرف پیغمبر کا وہ بے مثال ’خلق عظیم‘ ہے جس کا آیت ۴ میں حوالہ ہے اور دوسری طرف قریش کے لیڈروں ۔۔۔ ابولہب، ولید بن مغیرہ، ابوجہل، اخنس بن شریق ۔۔۔ وغیرہ کا یہ کردار ہے جو بیان ہو رہا ہے۔ ان دونوں کو سامنے رکھ کر ہر منصف فیصلہ کر سکتا ہے کہ کون کس انجام سے دوچار ہونے والا ہے!
یہ بات کہ یہ کسی خاص شخص کا نہیں بلکہ قریش کی پوری قیادت کا کردار بیان ہو رہا ہے مختلف پہلوؤں سے واضح ہے۔
اول یہ کہ اس کا عطف ’فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ‘ پر ہے اور مکذبین سے مراد ظاہر ہے کہ کوئی معین شخص نہیں بلکہ موقع و محل دلیل ہے کہ قریش کی پوری قیادت ہے۔
دوسرا یہ کہ لفظ ’کُلّ‘ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں زیربحث کسی معین شخص کا کردار نہیں بلکہ جماعت کا کردار ہے۔
تیسرا یہ کہ آگے ’اِنَّا بَلَوْنٰہُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں جس میں جمع کی ضمیر ’ہُمْ‘ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مرجع کوئی فرد نہیں بلکہ جماعت ہے۔
چوتھا یہ کہ یہاں جو کردار بیان ہوا ہے وہ قریش کی پوری قیادت پر تو ٹھیک ٹھیک منطبق ہو جاتا ہے لیکن ہر بات کسی ایک معین شخص پر اگر منطبق کرنے کی کوشش کی جائے تو تکلف کرنا پڑے گا۔
اس اصولی بحث کو ذہن نشین کر لینے کے بعد اب الفاظ پر غور فرمائیے۔
’حَلَّافٌ‘ کے معنی بہت زیادہ قسم کھانے والے کے ہیں۔ لفظ ’حلف‘ جیسا کہ اس کے محل میں وضاحت ہو چکی ہے، اول تو اچھے معنی میں آتا نہیں پھر اس کے ساتھ ’مَّھِیْنٌ‘ کی صفت بھی لگی ہوئی ہے جس کے معنی ذلیل کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زیادہ قسم وہی شخص کھائے گا جس کو اپنی عزت نفس کا خیال نہیں ہو گا۔ جو لوگ کردار کے اعتبار سے پست یا مطعون ہوتے ہیں وہ ہمیشہ احساس کہتری کے سبب سے شک میں مبتلا رہتے ہیں کہ مخاطب ان کی بات اس وقت تک باور نہیں کرے گا جب تک وہ قسم کھا کے اطمینان نہیں دلائیں گے اس وجہ سے وہ بات بات پر قسم کھاتے ہیں۔ چنانچہ منافقین کے متعلق قرآن میں جگہ جگہ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ وہ اپنے کردار پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے قسموں کا سہارا لیتے ہیں۔ قریش کے لیڈروں کے پاس نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر حرف رکھنے کی گنجائش تھی اور نہ اسلام کے خلاف کوئی مبنی بر دلیل بات کہنے کی۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے واحد سہارا ان کے پاس یہی تھا کہ قسمیں کھا کھا کے لوگوں کو اطمینان دلائیں کہ العیاذ باللہ آپ شاعر، کاہن، مجنون اور مفتری ہیں۔
ہرگز کان نہ دھرو کسی ایسے شخص کی بات پر جو بہت قسمیں کھانے والا ہے، ذلیل ہے۔
یہ صاحب خلق عظیم کے مقابلے میں کسی خاص شخص کا نہیں، بلکہ قریش کی پوری قیادت کا کردار بیان ہوا ہے جس کا مظاہرہ اسلام اور پیغمبر کی مخالفت میں وہ شب و روز کر رہے تھے۔ اِس کے قرائن بالکل واضح ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’اول یہ کہ اِس کا عطف ’فَلاَ تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ‘ پر ہے اور مکذبین سے مراد، ظاہر ہے کہ کوئی معین شخص نہیں، بلکہ موقع و محل دلیل ہے کہ قریش کی پوری قیادت ہے۔
دوسرا یہ کہ لفظ ’کُلّ‘ بھی اِس بات کی دلیل ہے کہ یہاں زیر بحث کسی معین شخص کا کردار نہیں، بلکہ جماعت کا کردار ہے۔
تیسرا یہ کہ آگے ’اِنَّا بَلَوْنٰھُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں جس میں جمع کی ضمیر ’ھُمْ‘ اِس بات کی دلیل ہے کہ اِس کا مرجع کوئی فرد نہیں، بلکہ جماعت ہے۔
چوتھا یہ کہ یہاں جو کردار بیان ہوا ہے، وہ قریش کی پوری قیادت پر تو ٹھیک ٹھیک منطبق ہو جاتا ہے، لیکن ہر بات کسی ایک معین شخص پر اگر منطبق کرنے کی کوشش کی جائے تو تکلف کرنا پڑے گا۔‘‘ (تدبرقرآن ۸/ ۵۱۷)
زیادہ قسمیں وہی لوگ کھاتے ہیں جنھیں اپنی عزت نفس کا خیال نہیں ہوتا اور اپنے کردار کی پستی کے باعث وہ ہمیشہ اِس شک میں مبتلا رہتے ہیں کہ مخاطبین اُن کی بات اُس وقت تک باور نہیں کریں گے، جب تک وہ قسم کھا کر اُنھیں اطمیناننہ دلائیں۔
ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے۔
اصل میں لفظ مھین استعمال ہوا ہے جو حقیر و ذلیل اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ بہت قسمیں کھانے والے آدمی کی لازمی صفت ہے۔ وہ بات بات پر اس لیے قسم کھاتا ہے اسے خود یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور اس کی بات پر اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک وہ قسم نہ کھائے۔ اس بنا پر وہ اپنی نگاہ میں خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہنا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا۔
n/a
امین احسن اصلاحی
یہ سورۂ نٓ ہے۔ قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جو وہ لکھتے ہیں۔
حرف ’نٓ‘ کے معنی: جس طرح ’قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ‘ (قٓ ۵۰: ۱) میں ’قٓ‘ سورہ کا نام ہے اسی طرح یہاں ’نٓ‘ اس سورہ کا نام ہے۔ عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق مبتدا یہاں حذف ہو گیا ہے جس کو ہم نے ترجمہ میں کھول دیا ہے۔ سورۂ بقرہ کی تفسیر میں امام فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے اس نظریہ کا حوالہ ہم دے چکے ہیں کہ ابتداءً یہ حروف معانی پر دلیل ہوتے تھے، اب ان کے معانی کا علم اگرچہ باقی نہیں رہا تاہم بعض حروف اب بھی معنی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس دعوے کے ثبوت میں استاذ امامؒ نے جن حروف کا حوالہ دیا ہے ان میں یہ حرف بھی شامل ہے۔ جو اب بھی اپنے قدیم معنی (مچھلی) میں مستعمل ہے۔ اس سورہ کو اس نام سے موسوم کرنے میں اشارہ ہے حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ کی طرف جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا، چنانچہ سورہ کے آخر میں ’صَاحِبُ الْحُوْتِ‘ (مچھلی والے) کے لقب سے آنجنابؑ کا ذکر آیا بھی ہے۔ سورۂ انبیاء کی آیت ۸۷ میں ’ذُوا النُّوْنِ‘ کے لقب سے بھی آپ کو ملقب فرمایا گیا ہے جس کے معنی بعینہٖ وہی ہیں جو ’صاحب الحوت‘ کے ہیں۔
قلم کی شہادت تین دعاوی پر: ’وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوۡنَ‘ یہ ’وَ‘ قسم کے لیے ہے اور یہ بات ہم بار بار ظاہر کر چکے ہیں کہ قرآن میں قسمیں کسی دعوے پر شہادت کے لیے کھائی گئی ہیں۔ یہاں دعوے کے طور پر، جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی، تین باتیں مذکور ہیں جن کو ثابت کرنے کے لیے یہ قسم کھائی گئی ہے۔
ایک یہ کہ مخالفین آپ کو (پیغمبر صلعم) جو دیوانہ کہتے ہیں یہ ان کی خرد باختگی ہے۔ آپ دیوانے نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے تمام فرزانوں سے بڑھ کر فرزانے ہیں۔
دوسری یہ کہ مخالفین جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ آپ کی یہ ساری سرگرمیاں چند روزہ ہیں جو بہت جلد ہوا میں اڑ جائیں گی، یہ بالکل غلط فہمی ہے۔ آپ کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں ایک غیر منقطع اجر مقدر ہے۔
تیسری یہ کہ آپ ایک اعلیٰ کردار کے مالک ہیں اس وجہ سے جو لوگ آپ کو شاعر، کاہن یا دیوانہ سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں وہ اپنی شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔
ان دعاوی پر قرآن میں جگہ جگہ خود قرآن ہی کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے اس وجہ سے قرینہ اسی بات کا ہے کہ یہاں بھی ’وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوۡن‘ سے قرآن ہی مراد ہو۔ چنانچہ مجاہدؒ سے روایت بھی ہے کہ ’القلم‘ سے مراد وہ قلم ہے جس سے قرآن مجید لکھا جا رہا تھا اور ’وَمَا یَسْطُرُوۡن‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔
قلم کی اہمیت کے چند پہلو: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ ’تعلیم بالقلم‘ اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
’اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ۵ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۵ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘ (العلق ۹۶: ۳-۵)
(پڑھو اور تمہارا رب نہایت ہی بافیض رب ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے تعلیم دی، انسان کو سکھایا وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا)
سابق انبیاء علیہم السلام نے جو تعلیم دی وہ زبانی تعلیم کی شکل میں تھی جس کو محفوظ رکھنا نہایت مشکل تھا۔ وہ بہت جلد یا تو محرف ہو کر مسخ ہو جاتی یا اس پر نسیان کا پردہ پڑ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو اس آفت سے محفوظ رکھنے کے لیے انسان کو قلم اور تحریر کے استعمال کا طریقہ سکھایا جس سے وہ اس قابل ہوا کہ زبانی تعلیم کی جگہ اس کو تحریر کے ذریعہ سے تعلیم دی جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے اس کو تورات کے احکام عشرہ الواح میں لکھ کر دیے گئے۔ پھر دوسرے نبیوں کی تعلیمات بھی قلم بند ہوئی اور سب کے آخر میں سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اس طرح محفوظ کی گئی کہ قیامت تک اس میں کسی تحریف و تغیر کا کوئی ادنیٰ احتمال بھی باقی نہ رہا۔
قلم سے مراد: ’قلم‘ کی اسی اہمیت کے سبب سے یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے۔ ہمارے نزدیک اس سے یہاں کوئی خاص قلم مراد نہیں ہے بلکہ یہ لفظ تعبیر ہے تعلیمات الٰہیہ کے اس پورے مدوّن سرمایہ (WRITTEN RECORD) کی جو قلم کے ذریعہ سے محفوظ ہوا۔ یعنی تورات، زبور، انجیل وغیرہ۔ ان مقدس صحیفوں کی تعلیمات بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتی ہیں اور ان کے اندر آپ کے ظہور کی ناقابل تردید شہادتیں بھی ہیں۔ ان ساری چیزوں کی وضاحت ان کے محل میں ہو چکی ہے۔
’وَمَا یَسْطُرُوۡن‘ کا مفہوم: ’وَمَا یَسْطُرُون‘ سے مراد، قرینہ دلیل ہے کہ، قرآن مجید ہے جو اس وقت نازل بھی ہو رہا تھا اور صحابہؓ کے ہاتھوں لکھا بھی جا رہا تھا۔ پچھلے صحیفوں کی قسم کے بعد یہ خود قرآن مجید کی قسم ہے۔ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، رزانت اور رسالت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ جو شخص ایسا اعلیٰ اور برتر کلام پیش کر رہا ہے اس کا یہ کلام ہی دلیل ہے کہ یہ کوئی کاہن یا شاعر یا دیوانہ نہیں ہے بلکہ اللہ کا رسول ہے۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ کفار کے اس قسم کے طعنوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بالعموم قرآن مجید ہی کو ان کے سامنے پیش کیا ہے کہ وہ اس کو دیکھیں اور انصاف سے فیصلہ کریں کہ یہ کسی دیوانے یا کاہن یا شاعر کا کلام ہو سکتا ہے یا اللہ تعالیٰ کا؟