ٱقْتَرَبَتِ ٱلسَّاعَةُ وَٱنشَقَّ ٱلْقَمَرُ

امین احسن اصلاحی

عذاب کی گھڑی سر پر آ گئی اور چاند شق ہو گیا

رسول قوم کے لیے خدا کی عدالت ہوتا ہے: ’اَلسَّاعَۃُ‘ سے مراد فیصلہ اور عذاب کی گھڑی ہے جس سے قریش کو، یوں تو اس گروپ کی تمام ہی سورتوں میں، آگاہ کیا گیا ہے لیکن سابق سورہ میں خاص اہتمام کے ساتھ ان کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ ’أَزِفَتْ الْاٰزِفَۃُ‘ (۵۷) یہ قریب آنے والی قریب آ لگی ہے۔ اس کو بہت دور نہ سمجھو، جاگو اور اٹھو اور اس سے بچنے کی واحد تدبیر پر، جو تمہیں سمجھائی جا رہی ہے، عمل کر کے اپنے کو اس کی آفتوں سے بچانے کی کوشش کرو۔

یہ بات ہم جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں کہ اللہ کے رسولوں نے اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا ہے۔ ایک تو اس عذاب سے جو اس دنیا میں لازماً قوم پر آ کے رہتا ہے اگر وہ رسول کے انذار کو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ اس کی تکذیب پر اڑ جاتی ہے۔ دوسرے اس عذاب سے جو آخرت میں پیش آئے گا۔ ان دونوں عذابوں میں فرق صرف آغاز و تکمیل یا تمہید اور خاتمہ کا ہے۔ رسول کی تکذیب کے عذاب میں جو قوم پکڑی جاتی ہے وہ درحقیقت آخرت کے عذاب ہی کے لیے پکڑی جاتی ہے اس وجہ سے لفظ ’اَلسَّاعَۃُ‘ بسا اوقات ان دونوں ہی عذابوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ہر قوم جس کے اندر رسول آ گیا اس کے فیصلہ کی گھڑی سر پر آ گئی۔ گویا ’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ‘ کا اسلوب بیان مبالغہ کا اسلوب نہیں بلکہ یکسر بیان حقیقت ہے۔
ظہور عذاب کی ایک نشانی: ’وَانْشَقَّ الْقَمَرُ‘۔ یہ علامت بیان ہوئی ہے عذاب کی گھڑی کے قریب آنے کی۔ اللہ تعالیٰ کی ایک سنت کا حوالہ ہم اس کتاب میں جگہ جگہ دے چکے ہیں کہ یوں تو اس زمین و آسمان کے چپہ چپہ پر اس کی قدرت و حکمت کی نشانیاں موجود ہیں اور آئے دن نئی نئی نشانیاں بھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں لیکن رسولوں کی بعثت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ خاص طور پر ایسی نشانیاں ظاہر فرماتا ہے جس سے رسول کے انذار اور اس کے دعوائے رسالت کی صداقت ظاہر ہوتی ہے۔ قرآن میں اس سنت الٰہی کا ذکر جگہ جگہ ہوا ہے۔ ہم ایک آیت بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ فرمایا ہے:

’سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ‘ (حٰمٓ السجدہ ۵۳)
(ہم عنقریب ان کو دکھائیں گے اپنی نشانیاں اس کائنات میں بھی اور خود ان کے اندر بھی)۔

ان نشانیوں کا مقصود، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، رسول کے انذار کو تقویت پہنچانا ہوتا ہے۔ رسول جن باتوں کی منادی زبان سے کرتا ہے اس کی تائید کے آثار و شواہد اس کائنات میں بھی، مختلف شکلوں میں، ظاہر ہوتے ہیں تاکہ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت اچھی طرح پوری ہو جائے۔ اسی طرح کی ایک نشانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انذار کی تائید کے لیے چاند کے پھٹنے کی صورت میں ظاہر ہوئی تاکہ منکرین عذاب و قیامت پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے کہ قرآن ان کو جو ڈرا رہا ہے کہ زمین اس دن ہلا دی جائے گی، پہاڑ پاش پاش ہو کر فضا میں اڑنے لگیں گے، سمندر ابل پڑیں گے، سورج تاریک ہو جائے گا؛ یہ باتیں ان کو مرعوب کرنے کے لیے نہیں بیان ہوئی ہیں بلکہ یہ حقائق ہیں جو ایک دن پیش آ کے رہیں گے اور یہ بعید از امکان بھی نہیں ہیں، ان کے شواہد کسی نہ کسی شکل میں اس دنیا میں بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس طرح کی نشانیوں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ رسول نے ان کو اپنے معجزے کے طور پر پیش کیا ہو بلکہ ان کا ظہور کسی اعلان و تحدی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کفار نے بعینہٖ اسی نشانی کا مطالبہ کیا ہو جو ظاہر ہوئی بلکہ ان کی طرف سے کسی مطالبہ کے بغیر محض اس لیے بھی ان کا ظہور ہوتا ہے کہ کفار کے پیش کردہ شبہات کا ان کو جواب مل جائے۔ کفار قیامت کو جو بہت بعید از عقل چیز خیال کرتے تھے اس کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی تھا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہ ساری کائنات ایک دن بالکل درہم برہم ہو جائے۔ پہاڑوں سے متعلق ان کا جو سوال قرآن میں نقل ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں کو وہ بالکل اٹل، غیرمتزلزل اور غیر فانی سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شق قمر کی نشانی دکھا کر ان کو بتایا کہ اس کائنات کی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی خواہ وہ کتنی ہی عظیم ہو، نہ خود مختار ہے، نہ غیر فانی، نہ غیر متزلزل، بلکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے۔ وہ جب چاہے گا ان سب کو درہم برہم کر کے رکھ دے گا۔
ایک سوال کا جواب: رہا یہ سوال کہ اس طرح کا کوئی واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پیش آیا بھی ہے تو اس کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ سے، یہی بات نکلتی ہے کہ یہ پیش آیا اور حدیثوں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ صورت واقعہ کے بارے میں تو حدیثیں ضرور مختلف ہیں لیکن نفس واقعہ کے بارے میں کوئی اختلاف منقول نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ قیامت کے دن پیش آنے والے واقعہ کی خبر ہے۔ جس کو ماضی کے صیغہ سے اس کی قطعیت کے اظہار کے لیے بیان فرمایا گیا ہے۔ ان کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ جائے گا۔ یہ قول اگرچہ اگلوں میں سے بھی بعض لوگوں سے نقل ہوا ہے اور اس زمانے میں بھی اس کو ایک گروہ کے اندر حسن قبول حاصل ہے لیکن سیاق کلام اس سے اِباء کرتا ہے۔ اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ قیامت میں پیش آنے والے واقعات قرآن میں ماضی کے اسلوب میں بیان ہوئے ہیں لیکن یہاں یہ معنی لیے جائیں تو کلام آگے والی بات سے بے جوڑ ہو جاتا ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ یہ کوئی سی نشانی بھی دیکھیں گے تو اس سے اعراض ہی کریں گے اور کہیں گے کہ اس میں کوئی خاص ندرت نہیں، یہ تو جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ غور کیجیے کہ چاند کے پھٹنے کا تعلق قیامت سے ہوتا تو اس کے بعد یہ بات کہنے کا کیا محل تھا؟ قیامت کے دن تو کٹر سے کٹر منکر بھی کسی چیز کو جادو نہ کہہ سکے گا بلکہ سب اعتراف کریں گے کہ رسولوں نے جو خبر دی وہ حرف حرف سچی نکلی۔ چنانچہ آگے بیان بھی ہوا ہے کہ

’یَقُوْلُ الْکَافِرُونَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ‘ (۸)
(اس دن کافر کہیں گے کہ یہ تو بڑا ہی کٹھن دن آ گیا)۔

یہ شبہ صحیح نہیں ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آیا ہوتا تو دوسری قوموں کی تاریخ میں بھی اس کا ذکر ہوتا۔ ہماری زمین اور دوسرے کُرّوں میں اس طرح کی شکست و ریخت اور ان کے ٹکڑوں کے درمیان انفصال و اتصال کے کتنے واقعات ہیں جو آئے دن ہوتے رہتے ہیں لیکن پہلے زمانہ میں ان کا مشاہدہ ایک خاص دائرہ ہی کے اندر محدود رہتا تھا۔ ہمارے زمانے میں اس طرح کے تغیرات کی تحقیق کے لیے بین الاقوامی ادارے اور رصد گاہیں وجود میں آ گئی ہیں اس وجہ سے کوئی واقعہ ظہور میں آتا ہے تو اس کی تحقیق کے لیے فوراً ساری دنیا کے تحقیقاتی ادارے بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں اور برق کی رفتار سے اس کی اطلاع دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ جاتی ہے۔ پہلے تحقیق و اطلاع کے یہ وسائل موجود نہیں تھے اس وجہ سے اس کی خبر ایک خاص دائرے ہی میں محدود رہ گئی۔ لیکن یہ دائرہ نہایت ثقہ لوگوں کا ہے اس وجہ سے نفس واقعہ کی تکذیب کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو سائنس دانوں کے لیے چاند کی تحقیق کی وسیع راہیں کھل جائیں اور علمی تحقیقات سے ثابت ہو جائے کہ چاند کا فلاں حصہ فلاں حصہ سے مربوط تھا لیکن اتنے سو سال پہلے وہ الگ ہو کر فلاں حصے سے جا ملا۔ اس طرح کے کتنے انکشافات ہیں جو ہمارے کرۂ ارض سے متعلق آج ہمارے سامنے آ رہے ہیں اور لوگ ان کو باور کر رہے ہیں تو آخر چاند سے متعلق قرآن کی اس خبر پر تعجب کی کیا وجہ ہے؟ سائنس نے اگر ابھی اس کی تصدیق نہیں کی ہے تو یہ اس کی نارسائی کی دلیل ہے۔ انتظار اور صبر کیجیے، شاید مستقبل میں وہ بھی اس کے اعتراف پر مجبور ہو جائے۔

جاوید احمد غامدی

وہ گھڑی قریب آ گئی (جس سے اِنھیں خبردار کیا جا رہا ہے )اور چاند شق ہو گیا

یعنی قیامت کی گھڑی جو رسول کے مکذبین کے لیے اُس عذاب سے شروع ہو جاتی ہے جو اُس کی تکذیب پر اصرار کے نتیجے میں اُن پر لازماً آتا ہے۔

قیامت کی جس گھڑی سے خبردار کیا ہے، یہ اُس کی علامت بیان ہوئی ہے۔ سورۂ حٰم السجدہ (۴۱) کی آیت ۵۳ میں فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انذار کی تقویت اور آپ کی قوم پر اتمام حجت کے لیے اللہ تعالیٰ عنقریب انفس و آفاق میں اپنی بعض غیر معمولی نشانیاں دکھائیں گے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اِنھی میں سے ایک نشانی چاند کے شق ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِس طرح کی نشانیوں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ رسول نے اِن کو اپنے معجزے کے طور پر پیش کیا ہو، بلکہ اِن کا ظہور کسی اعلان و تحدی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کفار نے بعینہٖ اُسی نشانی کا مطالبہ کیا ہو جو ظاہر ہوئی، بلکہ اُن کی طرف سے کسی مطالبے کے بغیر محض اِس لیے بھی اِن کا ظہور ہوتا ہے کہ کفار کے پیش کردہ شبہات کا اُن کو جواب مل جائے۔ کفار قیامت کو جو بہت بعید از عقل چیز خیال کرتے تھے، اُس کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی تھا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہ ساری کائنات ایک دن بالکل درہم برہم ہو جائے۔ پہاڑوں سے متعلق اُن کا جو سوال قرآن میں نقل ہوا ہے ، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن چیزوں کو وہ بالکل اٹل، غیر متزلزل اور غیر فانی سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شق قمر کی نشانی دکھا کر اُن کو بتایا کہ اِس کائنات کی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی خواہ وہ کتنی ہی عظیم ہو، نہ خودمختار ہے، نہ غیر فانی، نہ غیرمتزلزل ، بلکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے۔ وہ جب چاہے گا، اِن سب کو درہم برہم کرکے رکھ دے گا۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۹۱)

ابو الاعلی مودودی

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔

یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے، قریب آ لگی ہے اور نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہوگیا ہے۔ نیز یہ واقعہ کہ چاند جیسا ایک عظیم کرہ شق ہو کر دو ٹکڑے ہوگیا، اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ جس قیامت کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ برپا ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو زمین بھی پھٹ سکتی ہے، تاروں اور سیاروں کے مدار بھی بدل سکتے ہیں اور افلاک کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی چیز ازلی و ابدی اور دائم و مستقل نہیں ہے کہ قیامت برپا نہ ہو سکے۔

بعض لوگوں نے اس فقرے کا مطلب یہ لیا ہے کہ ” چاند پھٹ جائے گا “۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے چاہے یہ مطلب لینا ممکن ہو، عبارت کا سیاق وسباق اس معنی کو قبول کرنے سے صاف انکار کرتا ہے۔ اول تو یہ مطلب لینے سے پہلا فقرہ ہی بےمعنی ہوجاتا ہے۔ چاند اگر اس کلام کے نزول کے وقت پھٹا نہیں تھا، بلکہ وہ آئندہ کبھی پھٹنے والا ہے تو اس کی بنا پر یہ کہنا بالکل مہمل بات ہے کہ قیامت کی گھڑی قریب آگئی ہے۔ آخر مستقبل میں پیش آنے والا کوئی واقعہ اس کے قرب کی علامت کیسے قرار پا سکتا ہے کہ اسے شہادت کے طور پر پیش کرنا ایک معقول طرز استدلال ہو۔ دوسرے یہ مطلب لینے کے بعد جب ہم آگے کی عبارت پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔ آگے کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ لوگوں نے اس وقت کوئی نشانی دیکھی تھی جو امکان قیامت کی صریح علامت تھی مگر انہوں نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دے کر جھٹلا دیا اور اپنے اس خیال پر جمے رہے کہ قیامت کا آنا ممکن نہیں ہے۔ اس سیاق وسباق میں اِنْشَقَّ الْقَمَرُ کے الفاظ اسی صورت میں ٹھیک بیٹھ سکتے ہیں جبکہ ان کا مطلب ” چاند پھٹ گیا ” ہو۔ ” پھٹ جائے گا ” کے معنی میں ان کو لے لیا جائے تو بعد کی ساری بات بےجوڑ ہوجاتی ہے۔ سلسلہ کلام میں اس فقرے کو رکھ کر دیکھ لیجیے، آپ کو خود محسوس ہوجائے گا کہ اس کی وجہ سے ساری عبارت بےمعنی ہوگئی ہے :

” قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ جائے گا۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی “۔

پس حقیقت یہ ہے کہ شق القمر کا واقعہ قرآن کے صریح الفاظ سے ثابت ہے اور حدیث کی روایات پر اس کا انحصار نہیں ہے۔ البتہ روایات سے اس کی تفصیلات معلوم ہوتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ یہ کب اور کیسے پیش آیا تھا۔ یہ روایات بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، ابو عوانہ، ابو داؤد طیالسی، عبدالرزاق، ابن جریر، بیہقی، طبرانی، ابن مردویہ اور ابو نعیم اصفہانی نے بکثرت سندوں کے ساتھ حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت حذیفہ، حضرت انس بن مالک اور حضرت جبیر بن مطعم سے نقل کی ہیں۔ ان میں سے تین بزرگ، یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم تصریح کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ اور دو بزرگ ایسے ہیں جو اس کے عینی شاہد نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ ان میں سے ایک (یعنی عبداللہ بن عباس) کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے، اور دوسرے (یعنی انس بن مالک) اس وقت بچے تھے۔ لیکن چونکہ یہ دونوں حضرات صحابی ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسے سن رسیدہ صحابیوں سے سن کر ہی اسے روایت کیا ہوگا جو اس واقعہ کا براہ راست علم رکھتے تھے۔

تمام روایات کو جمع کرنے سے اس کی جو تفصیلات معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ قمری مہینے کی چودھویں شب تھی۔ چاند ابھی ابھی طلوع ہوا تھا۔ یکایک وہ پھٹا اور اس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا۔ یہ کیفیت بس ایک ہی لحظہ رہی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم جڑ گئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو۔ کفار نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( نے ہم پر جادو کردیا تھا اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکا کھایا۔ دوسرے لوگ بولے کہ محمد ہم پر جادو کرسکتے تھے، تمام لوگوں پر تو نہیں کرسکتے تھے۔ باہر کے لوگوں کو آنے دو۔ ان سے پوچھیں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہے یا نہیں۔ باہر سے جب کچھ لوگ آئے تو انہوں نے شہادت دی کہ وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں۔

بعض روایات جو حضرت انس سے مروی ہیں ان کی بنا پر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شق القمر کا واقعہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ پیش آیا تھا۔ لیکن اول تو صحابہ میں سے کسی اور نے یہ بات بیان نہیں کی ہے۔ دوسرے خود حضرت انس کی بھی بعض روایات میں مرتین (دو مرتبہ) کے الفاظ ہیں اور بعض میں فرقتین اور شقتین (دو ٹکڑے) کے الفاظ۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید صرف ایک ہی انشقاق کا ذکر کرتا ہے۔ اس بنا پر صحیح بات یہی ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا تھا۔ رہے وہ قصے جو عوام میں مشہور ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا اور وہ دو ٹکڑے ہوگیا اور یہ کہ چاند کا ایک ٹکڑا حضور کے گریبان میں داخل ہو کر آپ کی آستین سے نکل گیا، تو یہ بالکل ہی بےاصل ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی حقیقی نوعیت کیا تھی ؟ کیا یہ ایک معجزہ تھا جو کفار مکہ کے مطالبہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی رسالت کے ثبوت میں دکھایا تھا ؟ یا یہ ایک حادثہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے چاند میں پیش آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اس کی طرف توجہ صرف اس غرض کے لیے دلائی کہ یہ امکان قیامت اور قرب قیامت کی ایک نشانی ہے ؟ علماء اسلام کا ایک بڑا گروہ اسے حضور کے معجزات میں شمار کرتا ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ کفار کے مطالبہ پر یہ معجزہ دکھایا گیا تھا۔ لیکن اس رائے کا مدار صرف بعض ان روایات پر ہے جو حضرت انس سے مروی ہیں۔ ان کے سوا کسی صحابی نے بھی یہ بات بیان نہیں کی ہے۔ فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں کہ ” یہ قصہ جتنے طریقوں سے منقول ہوا ہے ان میں سے کسی میں بھی حضرت انس کی حدیث کے سوا یہ مضمون میری نگاہ سے نہیں گزرا کہ شق القمر کا واقعہ مشرکین کے مطالبہ پر ہوا تھا۔ ” (باب انشقاق القمر) ۔ ایک روایت ابو نعیم اصفہانی نے دلائل لنبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس مضمون کی نقل کی ہے، مگر اس کی سند ضعیف ہے، اور قوی سندوں سے جتنی روایات کتب حدیث میں ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ علاوہ بریں حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن عباس، دونوں اس واقعہ کے ہم عصر نہیں ہیں۔ بخلاف اس کے جو صحابہ اس زمانے میں موجود تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہم) ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ مشرکین مکہ نے حضور کی صداقت کے ثبوت میں کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا اور اس پر شق القمر کا یہ معجزہ ان کو دکھایا گیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن مجید خود بھی اس واقعہ کو رسالت محمدی کی نہیں بلکہ قرب قیامت کی نشانی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ البتہ یہ اس لحاظ سے حضور کی صداقت کا ایک نمایاں ثبوت ضرور تھا کہ آپ نے قیامت کے آنے کی جو خبریں لوگوں کو دی تھیں، یہ واقعہ ان کی تصدیق کر رہا تھا۔

معترضین اس پر دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اول تو ان کے نزدیک ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے کہ چاند جیسے عظیم کرے کے دو ٹکڑے پھٹ کر الگ ہوجائیں اور سینکڑوں میل کے فاصلے تک ایک دوسرے سے دور جانے کے بعد پھر باہم جڑ جائیں۔ دوسرے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ واقعہ دنیا بھر میں مشہور ہوجاتا، تاریخوں میں اس کا ذکر آتا، اور علم نجوم کی کتابوں میں اسے بیان کیا جاتا۔ لیکن در حقیقت یہ دونوں اعتراضات بےوزن ہیں۔ جہاں تک اس کے امکان کی بحث ہے، قدیم زمانے میں تو شاید وہ چل بھی سکتی تھی، لیکن موجودہ دور میں سیاروں کی ساخت کے متعلق انسان کو جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کی بنا پر یہ بات بالکل ممکن ہے کہ ایک کرہ اپنے اندر کی آتش فشانی کے باعث پھٹ جائے اور اس زبردست انفجار سے اس کے دو ٹکڑے دور تک چلے جائیں، اور پھر اپنے مرکز کی مقناطیسی وقت کے سبب سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ آ ملیں۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے بےوزن ہے کہ یہ واقعہ اچانک بس ایک لحظہ کے لیے پیش آیا تھا۔ ضروری نہیں تھا کہ اس خاص لمحے میں دنیا بھر کی نگاہیں چاند کی طرف لگی ہوئی ہوں۔ اس سے کوئی دھماکا نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف منعطف ہوتی۔ پہلے سے کوئی اطلاع اس کی نہ تھی کہ لوگ اس کے منتظر ہو کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے۔ پوری روئے زمین پر اسے دیکھا بھی نہیں جاسکتا تھا، بلکہ صرف عرب اور اس کے مشرقی جانب کے ممالک ہی میں اس وقت چاند نکلا ہوا تھا۔ تاریخ نگاری کا ذوق اور فن بھی اس وقت تک اتنا ترقی یافتہ نہ تھا کہ مشرقی ممالک میں جن لوگوں نے اسے دیکھا ہوتا وہ اسے ثبت کرلیتے اور کسی مؤرخ کے پاس یہ شہادتیں جمع ہوتیں اور وہ تاریخ کی کسی کتاب میں ان کو درج کرلیتا۔ تاہم مالابار کی تاریخوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ اس رات وہاں کے ایک راجہ نے یہ منظر دیکھا تھا۔ رہیں علم نجوم کی کتابیں اور جنتریاں، تو ان میں اس کا ذکر آنا صرف اس حالت میں ضروری تھا جبکہ چاند کی رفتار، اور اس کی گردش کے راستے، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات میں اس سے کوئی فرق واقع ہوا ہوتا۔ یہ صورت چونکہ پیش نہیں آئی اس لیے قدیم زمانے کے اہل تنجیم کی توجہ اس کی طرف منعطف نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں رصد گاہیں اس حد تک ترقی یافتہ نہ تھیں کہ افلاک میں پیش آنے والے ہر واقعہ کا نوٹس لیتیں اور اس کو ریکارڈ پر محفوظ کرلیتیں۔

جونا گڑھی

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ۔

 ایک تو بہ اعتبار اس زمانے کے جو گزر گیا، کیونکہ جو باقی ہے، وہ تھوڑا ہے۔ دوسرے ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بابت فرمایا کہ میرا وجود قیامت سے متصل ہے، یعنی میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔ 

 یہ وہ معجزہ ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا، چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا۔ یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہوگیا۔ جمہور سلف و خلف کا یہی مسلک ہے (فتح القدیر) امام ابن کثیر لکھتے ہیں علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ انشقاق قمر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح معجزات میں سے ہے، صحیح سند سے ثابت احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔ 

وَإِن يَرَوْا۟ ءَايَةً يُعْرِضُوا۟ وَيَقُولُوا۟ سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ

امین احسن اصلاحی

اور یہ کوئی سی بھی نشانی دیکھیں گے تو اس سے اعراض ہی کریں گے اور کہیں گے کہ یہ تو جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے

پیغمبر صلعم کو تسلی: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور مکذبین کو ملامت ہے کہ ان لوگوں کی تکذیب کی اصل علت یہ نہیں ہے کہ ان کو کوئی نشانی نہیں دکھائی جا رہی ہے۔ نشانیاں تو قدم قدم پر موجود ہیں اور آئے دن ان کو نئی نئی نشانیاں بھی دکھائی جا رہی ہیں لیکن یہ ہٹ دھرم لوگ جزاء و سزا کو ماننا نہیں چاہتے اس وجہ سے کسی بڑی سے بڑی نشانی سے بھی سبق نہیں لیتے۔ اگر پیغمبرؐ نے ان کو شق قمر سے بھی بڑی کوئی نشانی دکھا دی تو اس کو بھی یہ جادو کا کرشمہ قرار دے کر نظرانداز کر دیں گے۔
’مستمرّ‘ کا مفہوم: ’سحر‘ کے ساتھ ’مستمرّ‘ کی صفت اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ وہ اس نشانی کو صرف جادو ہی نہیں کہیں گے بلکہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ بھی کہیں گے کہ جادو ہونے کے اعتبار سے بھی اس میں کوئی ایسی ندرت و جدت نہیں ہے کہ اس کو کوئی خاص اہمیت دی جائے بلکہ یہ اسی قسم کا جادو ہے جس قسم کے جادو پچھلے جادوگروں نے دکھائے اور سکھائے اور جو برابر منتقل ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ اس نشانی کی وجہ سے ان کو خدا کا نذیر ماننا تو درکنار کوئی غیر معمولی جادوگر سمجھنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ’مستمرّ‘ کے معنی فانی کے لیے ہیں لیکن اس معنی میں اس کا استعمال میرے علم میں نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

(مگر یہ نہ مانیں گے) اور خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں، اُس سے منہ ہی موڑیں گے اور کہیں گے: یہ تو جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے

یہ جملہ اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ شق قمر کا یہ واقعہ مستقبل کی کوئی خبر نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے جس سے قرآن نے عذاب اور قیامت کے وقوع پر استدلال کیا ہے۔ اِس لیے کہ ’اِنْشَقَّ الْقَمَرُ‘ کے معنی اگر یہ کیے جائیں کہ چاند شق ہو جائے گا تو اِس کے بعد یہ جملہ بالکل بے جوڑ ہو جاتا ہے۔چنانچہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً ۵ سال پہلے پیش آیا۔ قمری مہینے کی چودھویں رات تھی ۔چاند تھوڑی دیر پہلے طلوع ہوا تھا۔ یکایک وہ شق ہوا اور اُس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا۔ ایک لحظے کے لیے لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم مل گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں کو توجہ دلائی کہ خدا کی یہ نشانی دیکھو اور گواہ رہو۔ قریش نے اِسے جادو قرار دے کر جھٹلانے کی کوشش کی۔* قرآن نے اِسی پر تبصرہ کیا ہے کہ اِس طرح کی ہر نشانی کے بارے میں یہ منکرین یہی کہیں گے کہ جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ اِس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جادو ہونے کے لحاظ سے بھی اِس میں کوئی ندرت نہیں ہے۔ یہ اُسی طرح کے کرشمے ہیں جو اِ س سے پہلے کے جادوگر دکھاتے رہے اور جو برابر منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔

_____
* بخاری، رقم ۳۶۵۶، ۴۵۸۳۔ احمد، رقم ۱۶۷۹۶۔

ابو الاعلی مودودی

مگر اِن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔

اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ معاذاللہ، شب و روز کی جادوگری کا جو سلسلہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چلا رکھا ہے، یہ جادو بھی اسی میں سے ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ پکا جادو ہے، بڑی مہارت سے دکھا یا گیا ہے۔ تیسرے یہ کہ جس طرح اور جادو گزر گئے ہیں، یہ بھی گزر جائے گا، اس کا کوئی دیر پا اثر رہنے والا نہیں ہے۔

جونا گڑھی

یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے

 یعنی قریش نے، ایمان لانے کی بجائے، اسے جادو قرار دے کر اپنے اعراض کی روش جاری رکھی۔ 

وَكَذَّبُوا۟ وَٱتَّبَعُوٓا۟ أَهْوَآءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ

امین احسن اصلاحی

اور انھوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے

کفار کو ڈھیل دینے کی حکمت: یہ ان کی تکذیب، سبب تکذیب اور اس کے انجام کا بیان ہے کہ انھوں نے (یعنی قریش نے) خدا کے نذیر اور اس کے انذار کی تکذیب کر دی اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی جس کے سبب سے وہ سنت الٰہی کے مطابق عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر کام ایک معین پروگرام کے مطابق ہوتا ہے۔ جب ان کی اجل معین پوری ہو جائے گی تو پکڑ لیے جائیں گے۔ یعنی ان کو جو ڈھیل مل رہی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پیغمبرؐ کا انذار محض ایک ڈراوا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہلاکت کے لیے مقرر کررکھا ہے تاہم وہ بالکل قریب آ گیا ہے۔

تکذیب کی علت: ’کَذَّبُوْا‘ کے بعد ’وَاتَّبَعُوْا أَہْوَآءَ ہُمْ‘ کے الفاظ سے ان کی تکذیب کی علت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ انھوں نے رسول کے انذار کی جو تکذیب کی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس اس تکذیب کی کچھ دلیلیں ہیں یا فی الواقع کچھ شبہات ہیں جو ابھی صاف نہیں ہوئے ہیں یا ان کو کوئی ایسی نشانی نہیں دکھائی گئی ہے جو ان کو مطمئن کر دے بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشوں کے غلام ہیں۔ اگر وہ جزاء و سزا کو مان لیں تو اپنی ان خواہشوں سے انھیں دست بردار ہونا پڑتا ہے جس کا حوصلہ ان کے اندر نہیں ہے اس وجہ سے وہ مختلف قسم کی باتیں بنا رہے ہیں۔ یہ مضمون سورۂ نجم کی آیت ۲۹ کے تحت وضاحت سے گزر چکا ہے۔

جاوید احمد غامدی

(چنانچہ یہی ہوا ہے) اور اِنھوں نے (اب بھی) جھٹلا دیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی ہے۔ اور (ہم نے اُسی وقت اِن کو نہیں پکڑا، اِس لیے کہ ہمارے ہاں) ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے

یہ تکذیب کی علت بیان فرمائی ہے کہ یہ اپنی خواہشوں کے غلام ہو چکے ہیں، اِ س لیے خیال کرتے ہیں کہ جزا و سزا کو مانیں گے تو اِن خواہشوں سے دستبردار ہونا پڑے گا، لہٰذا انکار کر دیتے ہیں اور پیغمبر کو جھٹلانے کے لیے طرح طرح کی سخن سازیاں کرتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اِنہوں نے (اس کو بھی) جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس ہی کی پیروی کی۔ ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔

یعنی جو فیصلہ انہوں نے قیامت کو نہ ماننے کا کر رکھا ہے، اس نشانی کو دیکھ کر بھی یہ اسی پر جمے رہے۔ قیامت کو مان لینا چونکہ ان کی خواہشات نفس کے خلاف تھا اس لیے صریح مشاہدے کے بعد بھی یہ اسے تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔

مطلب یہ ہے کہ یہ سلسلہ بلا نہایت نہیں چل سکتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں حق کی طرف بلاتے رہیں، اور تم ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے باطل پر جمے رہو، اور ان کا حق پر ہونا اور تمہارا باطل پر ہونا کبھی ثابت نہ ہو۔ تمام معاملات آخر کار ایک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں، اسی طرح تمہاری اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس کشمکش کا بھی لا محالہ ایک انجام ہے جس پر یہ پہنچ کر رہے گی۔ ایک وقت لازماً ایسا آنا ہے جب علی الاعلان یہ ثابت ہوجائے گا کہ وہ حق پر تھے اور تم سراسر باطل کی پیروی کر رہے تھے۔ اسی طرح حق پرست اپنی حق پرستی کا، اور باطل پرست اپنی باطل پرستی کا نتیجہ بھی ایک دن ضرور دیکھ کر رہیں گے۔

جونا گڑھی

انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے

 یہ کفار مکہ کی تکذیب اور اتباع کی تردید کے لئے فرمایا کہ ہر کام کی ایک انتہا ہوتی ہے، وہ کام اچھا ہو یا برا۔ یعنی بالآخر اس کا نتیجہ نکلے گا، اچھے کام کا نتیجہ اچھا اور برے کام کا نتیجہ برا۔ اس نتیجے کا ظہور دنیا میں بھی ہوسکتا ہے اگر اللہ کی مشیت مقتضی ہو، ورنہ آخرت میں تو یقینی ہے۔ 

وَلَقَدْ جَآءَهُم مِّنَ ٱلْأَنۢبَآءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ

امین احسن اصلاحی

اور ان کو ماضی کی سرگزشتیں پہنچ چکی ہیں جن میں کافی سامان عبرت موجود ہے

عاقل وہ ہے جو دوسروں کے انجام سے سبق حاصل کرے: یہ اسی اوپر والی بات ہی کی وضاحت ہے کہ اگر ان پر ابھی عذاب نہیں آیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہے۔ ان کو پچھلی قوموں کی جو سرگزشتیں سنائی گئی ہیں اگر وہ غور کریں تو ان کے اندر کافی سامان عبرت موجود ہے۔ ان سرگزشتوں سے انھیں معلوم ہو جائے گا کہ جس قوم نے بھی رسول کے انذار کی تکذیب کی بالآخر وہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آ گئی۔ تاخیر عذاب سے وہ قومیں بھی انہی کی طرح اس مغالطے میں مبتلا ہوئیں کہ پیغمبر کی دھمکی محض خالی خولی دھمکی ہے لیکن وہ بالکل سچی ثابت ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے حق میں بہتر ہے کہ تاریخ سے سبق لیں۔ اس انتظار میں نہ رہیں کہ جب سب کچھ ان کے اپنے سروں پر سے گزر جائے گا تب مانیں گے۔ اس وقت کا اعتراف نہ پہلوں کے لیے مفید ہوا ہے نہ ان کے لیے مفید ہو گا۔

قوموں کی یہ سرگزشتیں پچھلی سورتوں میں بھی اجمالاً و تفصیلاً گزر چکی ہیں اور اس سورہ میں بھی آیت ۹ سے وہ آ رہی ہیں۔ وہاں آپ دیکھیں گے کہ ہر سرگزشت کے بعد ’فَکَیْْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ‘ کی آیت باربار آئی ہے تاکہ مخاطب پر واضح کر دیا جائے کہ رسول کے انذار کی صداقت یوں ثابت ہو کے رہتی ہے اور اس کو جھٹلانے والے یوں عذاب میں پکڑے جاتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اِن کے سامنے ماضی کی وہ سرگذشتیں آ چکی ہیں جن میں (اِن کے لیے) بہت کچھ سامان عبرت ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

اِن لوگوں کے سامنے (پچھلی قوموں کے) وہ حالات آ چکے ہیں جن میں سرکشی سے باز رکھنے کے لیے کافی سامان عبرت ہے۔

n/a

جونا گڑھی

یقیناً ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں ڈانٹ ڈپٹ (کی نصیحت) ہے۔

 یعنی گذشتہ امتوں کی ہلاکت کی، جب انہوں نے جھٹلایا۔ 

حِكْمَةٌۢ بَـٰلِغَةٌ ۖ فَمَا تُغْنِ ٱلنُّذُرُ

امین احسن اصلاحی

نہایت دل نشین حکمت۔ لیکن تنبیہات کیا کام دے رہی ہیں

یعنی ان سرگزشتوں کے اندر نہایت دل نشین حکمت موجود ہے، مگر دیکھ لو یہ تنبیہات کیا نفع دے رہی ہیں! ’ما‘ نافیہ بھی ہو سکتا ہے اور استفہامیہ بھی؛ لیکن استفہامیہ میں زیادہ زور بھی ہے اور موقع کلام سے زیادہ مناسبت بھی۔

جاوید احمد غامدی

نہایت دل نشیں حکمت۔ مگر تنبیہات (اِن سرکشوں کے معاملے میں) کیا کام دیں گی

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے۔ مگر تنبیہات اِن پر کارگر نہیں ہوتیں۔

n/a

جونا گڑھی

اور کامل عقل کی بات ہے لیکن ان ڈراؤنی باتوں نے بھی کچھ فائدہ نہ دیا۔

 یعنی ایسی بات جو تباہی سے پھیر دینے والی ہے یا قرآن حکمت بالغہ ہے جس میں کوئی نقص یا خلل نہیں ہے۔ یا اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے اور یا اسے گمراہ کرے، اس میں بڑی حکمت ہے جس کو وہی جانتا ہے۔ 

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ۘ يَوْمَ يَدْعُ ٱلدَّاعِ إِلَىٰ شَىْءٍ نُّكُرٍ

امین احسن اصلاحی

تو ان سے اعراض کرو اور اس دن کا انتظار کرو جس دن پکارنے والا ان کو ایک نہایت ہی نامطلوب چیز کی طرف پکارے گا

نبی صلعم کو تسلی آمیز ہدایت: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی آمیز ہدایت ہے کہ ایسے اندھوں کی آنکھوں کی پٹی کھولنا اور ان کو راہ دکھانا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ اب تم ان سے اعراض کرو اور اس دن کا انتظار کرو جس دن اسرافیل صور پھونکیں گے اور یہ قیامت کے عذاب کی طرف پکارے جائیں گے۔

’تَوَلَّ‘ یہاں ’اِنْتَظِرْ‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ یہی مضمون دوسری آیت میں یوں آیا ہے:

’وَاسْتَمِعْ یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّکَانٍ قَرِیْبٍ‘ (قٓ ۴۱)
(اور کان لگاؤ اس دن کی پکار کے لیے جس دن پکارنے والا نہایت قریب کی جگہ سے پکارے گا)۔

’نکر‘ سے اشارہ ہول قیامت کی طرف ہے۔ اس کی ہولناکی کی شدت ظاہر کرنے کے لیے ابہام کا اسلوب اختیار فرمایا ہے۔ یعنی آج تو ان کو اس دن کے لیے تیاری کی جو دعوت دی جا رہی ہے اس کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں، لیکن جلد وہ وقت آ رہا ہے کہ ایک داعی اسی ہولناک چیز کی طرف پکارے گا اور سب اس کی طرف نہایت فرماں برداری و خشیت کے ساتھ بھاگیں گے۔

جاوید احمد غامدی

اِس لیے اِن سے رُخ پھیر لو اور اُس دن کا انتظار کرو، جس دن پکارنے والا اُس چیز کے لیے پکارے گا جو سخت ناگوار ہو گی

اصل الفاظ ہیں: ’فَتَوَلَّ عَنْھُمْ، یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ‘۔ جملے کی تالیف سے واضح ہے کہ ’تَوَلَّ‘ یہاں ’اِنْتَظِرْ‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ ہم نے ترجمے میں اِسے کھول دیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پس اے نبیؐ، اِن سے رخ پھیر لو۔ جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا۔

بالفاظ دیگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جب انہیں زیادہ سے زیادہ معقول طریقہ سے سمجھایا جا چکا ہے، اور انسانی تاریخ سے مثالیں دے کر بھی بتا دیا گیا ہے کہ انکار آخرت کے نتائج کیا ہیں اور رسولوں کی بات نہ ماننے کا کیا عبرتناک انجام دوسری قومیں دیکھ چکی ہیں، پھر بھی یہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے، تو انہیں اسی حماقت میں پڑا رہنے دو۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب مرنے کے بعد قبروں سے نکل کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ وہ قیامت واقعی برپا ہوگئی جسے قبل از وقت خبردار کر کے راہ راست اختیار کرلینے کا مشورہ انہیں دیا جا رہا تھا۔

دوسرا مطلب انجانی چیز بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی ایسی چیز جو کبھی ان کے سان گمان میں بھی نہ تھی، جس کا کوئی نقشہ اور کوئی تصور ان کے ذہن میں نہ تھا، جس کا کوئی اندازہ ہی وہ نہ کرسکتے تھے کہ یہ کچھ بھی کبھی پیش آسکتا ہے۔

جونا گڑھی

پس (اے نبی) تم ان سے اعراض کرو جس دن ایک پکارنے والا ناگوار چیز کی طرف پکارے گا

 یعنی اس دن کو یاد کرو، نہایت ہولناک اور دہشت ناک مراد میدان محشر اور موقف حساب کے آزمائشیں ہیں۔ 

خُشَّعًا أَبْصَـٰرُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ ٱلْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ

امین احسن اصلاحی

ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور یہ نکلیں گے قبروں سے جس طرح منتشر ٹڈیاں نکلتی ہیں

نفخ صور کے بعد قبروں سے نکلنے کی تصویر: یعنی آج تو اللہ کا رسول ان کو اس دن کے ہول سے بچنے کے لیے تیاری کی دعوت دے رہا ہے تو یہ اس سے اکڑتے ہوئے اعراض کر رہے ہیں لیکن جب روز قیامت کا داعی پکارے گا تو یہ اس طرح قبروں سے نکلیں گے کہ جس طرح ٹڈی دَل نکلتا ہے اور ان کا حال یہ ہو گا کہ ان کی نگاہیں ذلت سے جھکی ہوئی ہوں گی اور داعی کی طرف نہایت تیزی سے بھاگ رہے ہوں گے۔

’خُشَّعاً‘ اور ’مُہْطِعِیْنَ‘ دونوں حال ہیں۔ ’کَأَنَّہُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ‘ تفخ صور کے بعد لوگوں کے قبروں سے نکلنے کی تمثیل ہے۔ برسات میں کبھی سرشام پتنگوں کو زمین سے ابھرتے دیکھا ہو گا۔ معلوم ہوتا ہے زمین سے پتنگوں کا طوفان ابل پڑا ہے۔ یہی صورت ٹڈیوں کے ابھرنے کی بھی ہوتی ہے اور یہی شکل لوگوں کے قبروں سے نکلنے کی بھی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ شانیں دکھائی ہی اس لیے ہیں کہ انسان کو قیامت کی یاددہانی زمین و آسمان کے گوشے گوشے سے برابر ہوتی رہے۔

جاوید احمد غامدی

اِن کی نگاہیں (اُس دن) جھکی ہوں گی۔ [یہ پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہوئے] اِس طرح قبروں سے نکلیں گے گویا بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں

n/a

ابو الاعلی مودودی

لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ اپنی قبروں سے اِس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔

اصل الفاظ ہیں خُشَّعاً اَبصَارُھُمْ ، یعنی ان کی نگاہیں خشوع کی حالت میں ہوں گی۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان پر خوف زدگی طاری ہوگی۔ دوسرے یہ کہ ذلت اور ندامت ان سے جھلک رہی ہوگی کیونکہ قبروں سے نکلتے ہی انہیں محسوس ہوجائے گا کہ یہ وہی دوسری زندگی ہے جس کا ہم انکار کرتے تھے، جس کے لیے کوئی تیاری کر کے ہم نہیں آئے ہیں، جس میں اب مجرم کی حیثیت سے ہمیں اپنے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ گھبرائے ہوئے اس ہولناک منظر کو دیکھ رہے ہوں گے جو ان کے سامنے ہوگا، اس سے نظر ہٹانے کا انہیں ہوش نہ ہوگا۔

قبروں سے مراد وہی قبریں نہیں ہیں جن میں کسی شخص کو زمین کھود کر باقاعدہ دفن کیا گیا ہو۔ بلکہ جس جگہ بھی کوئی شخص مرا تھا، یا جہاں بھی اس کی خاک پڑی ہوئی تھی، وہیں سے وہ محشر کی طرف پکارنے والے کی ایک آواز پر اٹھ کھڑا ہوگا۔

جونا گڑھی

یہ جھکی آنکھوں قبروں سے اس طرح نکل کھڑے ہونگے کہ گویا وہ پھیلا ہوا ٹڈی دل ہے ۔

 یعنی قبروں سے نکل کر وہ اس طرح پھیلیں گے اور موقف حساب کی طرف اس طرح نہایت تیزی سے جائیں گے، گویا ٹڈی دل ہے جو آنا فانا میں کشادہ فضا میں پھیل جاتا ہے۔ 

مُّهْطِعِينَ إِلَى ٱلدَّاعِ ۖ يَقُولُ ٱلْكَـٰفِرُونَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ

امین احسن اصلاحی

بھاگتے ہوئے پکارنے والے کی طرف۔ اس وقت کافر کہیں گے، یہ تو بڑا کٹھن دن آ گیا

نفخ صور کے بعد قبروں سے نکلنے کی تصویر: یعنی آج تو اللہ کا رسول ان کو اس دن کے ہول سے بچنے کے لیے تیاری کی دعوت دے رہا ہے تو یہ اس سے اکڑتے ہوئے اعراض کر رہے ہیں لیکن جب روز قیامت کا داعی پکارے گا تو یہ اس طرح قبروں سے نکلیں گے کہ جس طرح ٹڈی دَل نکلتا ہے اور ان کا حال یہ ہو گا کہ ان کی نگاہیں ذلت سے جھکی ہوئی ہوں گی اور داعی کی طرف نہایت تیزی سے بھاگ رہے ہوں گے۔

’خُشَّعاً‘ اور ’مُہْطِعِیْنَ‘ دونوں حال ہیں۔ ’کَأَنَّہُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ‘ تفخ صور کے بعد لوگوں کے قبروں سے نکلنے کی تمثیل ہے۔ برسات میں کبھی سرشام پتنگوں کو زمین سے ابھرتے دیکھا ہو گا۔ معلوم ہوتا ہے زمین سے پتنگوں کا طوفان ابل پڑا ہے۔ یہی صورت ٹڈیوں کے ابھرنے کی بھی ہوتی ہے اور یہی شکل لوگوں کے قبروں سے نکلنے کی بھی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ شانیں دکھائی ہی اس لیے ہیں کہ انسان کو قیامت کی یاددہانی زمین و آسمان کے گوشے گوشے سے برابر ہوتی رہے۔
’یَقُوْلُ الْکَافِرُوْنَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ‘۔ یعنی آج تو جب اللہ کا رسول ان لوگوں کو اس دن کے ہول سے ڈراتا ہے تو ان کو ہر چیز انہونی اور ناممکن نظر آتی ہے اور نہایت ڈھٹائی سے اس کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن جب وہ دن سامنے آ جائے گا تو نہایت حسرت و یاس کے ساتھ پکار اٹھیں گے کہ لاریب وہ کٹھن دن آ گیا جس سے نبیوں اور رسولوں نے آگاہ کیا تھا!

جاوید احمد غامدی

یہ پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہوئے [اِس طرح قبروں سے نکلیں گے گویا بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں]۔ (اُس وقت) یہ منکر کہیں گے: یہ دن تو بہت مشکل آیا ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

پکارنے والے کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے اور وہی منکرین (جو دنیا میں اس کا انکار کرتے تھے) اُس وقت کہیں گے کہ یہ دن تو بڑا کٹھن ہے۔

n/a

جونا گڑھی

پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہونگے اور کافر کہیں گے کہ یہ دن تو بہت سخت ہے۔

n/a

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا۟ عَبْدَنَا وَقَالُوا۟ مَجْنُونٌ وَٱزْدُجِرَ

امین احسن اصلاحی

ان سے پہلے قوم نوح نے بھی جھٹلایا۔ انھوں نے ہمارے بندے کی تکذیب کر دی اور کہا کہ یہ تو خبطی ہے اور وہ جھڑک دیا گیا

قوم نوح کے انجام کی طرف اشارہ: ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں کہ آیت ۴ میں قوموں کی تاریخ کی طرف جو اجمالی اشارہ فرمایا ہے یہ اسی کی تفصیل ہے۔ سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے واقعہ کو لیا ہے اس لیے کہ یہاں بیان واقعات کی ترتیب تاریخی ہے۔ فرمایا کہ ان سے (یعنی قریش سے) پہلے قوم نوح بھی اللہ کے رسول کے انذار کی تکذیب کر چکی ہے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ تنہا تمہی کو اپنی قوم کی طرف سے تکذیب سے دوچار نہیں ہونا پڑا ہے؛ ان مکذبین کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ان سے پہلے قوم نوح بھی اپنے پیغمبر کی تکذیب کر چکی ہے اور دوسری قومیں بھی جن کی تفصیل آگے آ رہی ہے اپنے اپنے رسولوں کی تکذیب کرتی آئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تاریخ کی ایک پرانی اور معروف حکایت ہے جو کچھ اگلے رسولوں کو پیش آیا ہے اس سے تمہیں بھی سابقہ پیش آئے گا اور تکذیب کے جس انجام سے دوسری قومیں دوچار ہوئی ہیں اسی سے تمہاری قوم بھی دوچار ہو گی اگر اس نے انہی قوموں کی تقلید کی۔

’فَکَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَازْدُجِرَ‘۔ ’ف‘ تفصیل کے لیے ہے۔ واقعہ کا اجمالاً حوالہ دینے کے بعد اب یہ اس کی تفصیل سنائی جا رہی ہے کہ انھوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا، اس کو دیوانہ اور خبطی ٹھہرایا اور اس کو جھڑک دیا گیا۔
لفظ ’عَبْدَنَا‘ سے حضرت نوح علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی جس محبت خاص کا اظہار ہو رہا ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ عزت و جاہ کے سرمستوں اور عیش دنیا کے متوالوں کو اللہ کے رسولوں نے جب عذاب دنیا اور عذاب آخرت سے ڈرایا اور اس طرح ڈرایا کہ اس کے لیے اپنے رات دن ایک کر دیے تو یہ چیز ان پر بہت شاق گزری۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر ان پر عذاب کیوں اور کدھر سے آ جائے گا؟ اگر وہ سزاوار عذاب ہیں تو انھیں جو دولت و عزت حاصل ہے وہ کیوں حاصل ہوئی؟ یہ عزت و شوکت تو دلیل ہے کہ وہ خدا کی نظروں میں معزز ہیں اور اگر آخرت ہوئی تو وہاں بھی اسی طرح معزز رہیں گے جس طرح یہاں ہیں۔ اس مغالطہ میں پڑ کر وہ رسول کے ہر وقت کے انذار عذاب سے اس درجہ برافروختہ ہوئے کہ اس کو انھوں نے دیوانہ اور خبطی کہنا شروع کر دیا کہ اس شخص کو عذاب اور قیامت کا مالیخولیا ہو گیا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے اس کو ہر طرف سے عذاب ہی آتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اپنے دل کا غصہ بھی نکال لیتے اور اپنے عوام کو بھی اطمینان دلانے کی کوشش کرتے کہ رسول کے انذار سے وہ متاثر نہ ہوں۔ یہ کوئی رسول نہیں بلکہ ایک خطبی ہے جو ہر وقت عذاب عذاب کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
’وَازْدُجِرَ‘ سے اشارہ قوم نوح کی ان دھمکیوں کی طرف ہے جو حضرت نوحؑ کو سنگسار کر دینے کی دی گئیں۔ مثلاً سورۂ شعراء میں آیا ہے:

 

’قَالُوا لَئِنۡ لَّمْ تَنتَہِ یَا نُوْحُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ‘ (116)
(انھوں نے دھمکایا کہ اے نوح، اگر تم اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو سنگسار کیے ہوئے لوگوں میں سے ہو کے رہو گے!)

جاوید احمد غامدی

اِن سے پہلے نوح کی قوم نے بھی (اِسی طرح) جھٹلایا۔ سوہمارے بندے کواُنھوں نے جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور وہ بری طرح جھڑکا گیا

اِس سے آگے اُسی استدلال کی تفصیل ہے جو آیت ۴ میں بالاجمال بیان ہوا ہے۔ یہ رسولوں کی بعثت کے بعد ظہور دینونت کے واقعات ہیں جو تاریخی ترتیب سے بیان کیے گئے ہیں۔

اصل میں لفظ ’عَبْدَنَا‘ آیا ہے۔نوح علیہ السلام کے لیے اِس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس التفات و محبت کا اظہار ہو رہا ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
مدعا یہ تھا کہ اِس شخص کو عذاب اور قیامت کا خبط ہو گیا ہے۔ اب کوئی اور چیز اِسے نظر نہیں آتی، اٹھتے بیٹھتے عذاب ہی آتا دکھائی دیتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم جھٹلا چکی ہے۔ اُنہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے، اور وہ بری طرح جھڑکا گیا۔

n/a

جونا گڑھی

ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کر جھڑک دیا گیا تھا ۔

 یعنی قوم نوح نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب ہی نہیں کی، بلکہ انہیں جھڑکا اور ڈرایا دھمکایا بھی گیا تھا۔ 

فَدَعَا رَبَّهُۥٓ أَنِّى مَغْلُوبٌ فَٱنتَصِرْ

امین احسن اصلاحی

تو اس نے اپنے رب سے فریاد کی کہ میں مغلوب ہوں، اب تو ان سے انتقام لے

جب قوم کی عداوت اس حد کو پہنچ گئی کہ حضرت نوح علیہ السلام کو سنگسار کر دینے کی دھمکی دے دی گئی تب انہوں نے اپنے رب سے فریاد کی کہ اے رب! میرے اندر جتنا زور تھا وہ میں نے ان کو رام کرنے پر صرف کر دیا لیکن میں اپنی کوشش میں ناکام رہا۔ اب میری طاقت جواب دے چکی ہے اس وجہ سے تجھ سے فریاد کی ہے کہ تو ان سرکشوں سے نمٹ۔

’اِنۡتِصَار‘ کے معنی مدافعت کرنے اور انتقام لینے کے ہیں۔ یعنی میری طرف سے مدافعت کر اور ان کی سرکشی کا انتقام لے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کی پوری تفصیل آگے سورۂ نوح میں آئے گی۔

جاوید احمد غامدی

آخر اُس نے اپنے پروردگار سے فریاد کی کہ میں مغلوب ہو چکا، اب تو اِن سے بدلہ لے

n/a

ابو الاعلی مودودی

آخر کار اُس نے اپنے رب کو پکارا کہ “میں مغلوب ہو چکا، اب تو اِن سے انتقام لے۔”

n/a

جونا گڑھی

پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بےبس ہوں تو میری مدد کر۔

n/a

Page 1 of 6 pages  1 2 3 >  Last ›