کھٹکھٹانے والی!
اصل میں لفظ ’اَلْقَارِعَۃ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ یعنی جو رات میں آنے والے کی طرح اچانک آئے گی اور جس طرح دروازے کھٹکھٹا کر وہ سونے والوں کو ہڑبڑا دیتا ہے، اُسی طرح پورے عالم کو ہڑبڑا دے گی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ اسلوب بیان جو یہاں اختیارفرمایا گیا ہے، ایک الارم کی نوعیت کا ہے تاکہ تمام کان رکھنے والے اِس مبتدا کی خبر سننے کے لیے تیار ہو جائیں۔ گویا قیامت جس نوعیت کی ہڑبڑاہٹ اِس دنیا میں پیدا کرے گی، اُسی نوعیت کی ہڑبڑاہٹ یہاں اُس کا نام پیدا کر رہا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۵۱۲)
عظیم حادثہ!
اصل میں لفظ قارعہ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ” ٹھونکنے والی ” قرع کے معنی کسی چیز کو کسی چیز پر زور سے مارنے کے ہیں جس سے سخت آواز نکلے۔ اس لغوی معنی کی مناسبت سے قارعہ کا لفظ ہولناک حادثے اور بڑی بھاری آفت کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلا عرب کہتے ہیں قرعتہم القارعہ یعنی فلاں قبیلے یا قوم کے لوگوں پر سخت آفت آگئی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ یہ لفظ کسی قوم پر بڑی مصیبت نازل ہونے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورة رعد میں ہے وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ۔ ” جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت نازل ہوتی رہتی ہے ” (آیت 31) لیکن یہاں القارعہ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور سورة الحاقہ میں بھی قیامت کو اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ (آیت 4) اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں قیامت کے پہلے مرحلے سے لے کر عذاب و ثواب کے آخری مرحلے تک پورے عالم آخرت کا یکجا ذکر ہورہا ہے۔
کھڑ کھڑا دینے والی
n/a
کیا ہے کھٹکھٹانے والی!
اس سوال نے اس الارم کی سنگینی میں مزید اضافہ کر دیا کہ جو لوگ اس کو کوئی معمولی بات سمجھ کر اس سے بے پروا ہیں وہ چوکنے ہوں اور کان کھول کر اس کا حال سن لیں اور اس کے لیے جس تیاری کی ضرورت ہے، اس کی فکر کریں۔
کیا ہے کھٹکھٹانے والی!
n/a
کیا ہے وہ عظیم حادثہ؟
n/a
کیا ہے وہ کھڑ کھڑا دینے والی۔
یہ بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس سے قبل متعدد نام گزر چکے ہیں مثلاً اَ لْحاقَّۃُ ، الطَّاَمَّۃُ ، صَّاَخَّہُ ، اَلْغَاشِیَۃُ ، الْسَّاعَہُ ، الْوَاقِعَۃُ وغیرہ، اسے الْقَارِعَۃُ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے دلوں کو بیدار اور اللہ کے دشمنوں کو عذاب سے خبردار کر دے گی، جیسے دروازہ کھٹکھٹانے والا کرتا ہے۔
اور تم کیا سمجھے کہ کیا ہے کھٹکھٹانے والی!
لوگوں کی غفلت پر سرزنش: اس اسلوب کی وضاحت جگہ جگہ ہو چکی ہے۔ اس میں سوال کے ساتھ ساتھ مخاطب کی غفلت، بلادت اور ناعاقبت بینی پر افسوس اور حسرت کا اظہار بھی ہے کہ تم کیا جانو یا کیا سمجھے کہ وہ اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کیا ہے اور ان لوگوں پر کیا گزرے گی جو باربار کی تنبیہ و تذکیر کے باوجود اس کا مذاق اڑائے جا رہے ہیں۔
اور تمھیں کیا معلوم کہ کیا ہے کھٹکھٹانے والی!
یہ حسرت و افسوس کا اسلوب ہے۔ یعنی اے کاش، تم جانتے! لیکن تم پر افسوس، تم کیا جانو گے!
تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے؟
n/a
تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے۔
n/a
اس دن لوگ منتشر پتنگوں کے مانند ہوں گے۔
اس دن کوئی کسی کا ساتھ نہیں دے گا: اس دن جس صورت حال سے سابقہ پیش آئے گا یہ اس کا بیان ہے کہ اس دن لوگ پراگندہ پتنگوں کے مانند ہوں گے۔ نہ کسی کے ساتھ اس دن اس کا خاندان و قبیلہ ہو گا، نہ کسی کی کوئی جماعت و جمعیت ہو گی اور نہ وہ شرکاء و شفعاء ہی ہوں گے جن کے اعتماد پر لوگ نچنت ہیں۔ بلکہ لوگ قبروں سے متفرق نکلیں گے اور ہر ایک کو سابقہ صرف اپنے اعمال سے پیش آئے گا۔ سورۂ زلزال میں فرمایا ہے:
یَوْمَئِذٍ یَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّیُرَوْا أَعْمَالَہُمْ (الزلزال ۹۹: ۶)
’’اس دن لوگ قبروں سے متفرق ہو کر نکلیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں۔‘‘
سورۂ مومنون میں فرمایا ہے:
فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَا أَنۡسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَآءَ لُوْنَ ۵ فَمَنۡ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۵ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا أَنفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خَالِدُوْنَ (المومنون ۲۳: ۱۰۱-۱۰۳)
’’پس جب صور پھونکا جائے گا تو ان کے آپس کے نسبی رشتے اس دن ختم ہو جائیں گے اور وہ ایک دوسرے سے مدد کے طالب نہ ہو سکیں گے۔ پس جن کے نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے بنیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں پڑے۔‘‘
اس دن ہر شخص پر نفسی نفسی کی جو حالت طاری ہو گی اس کی تصویر سورۂ معارج میں یوں کھینچی گئی ہے:
وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا ۵ یُبَصَّرُوْنَہُمْ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ ۵ وَصَاحِبَتِہٖ وَأَخِیْہِ ۵ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْویْہِ ۵ وَمَنۡ فِی الْأَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنۡجِیْہِ (المعارج ۷۰: ۱۰-۱۴)
’’اور اس دن کوئی دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا باوجودیکہ وہ ان کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ کاش! وہ اپنے بیٹوں، اپنی بیوی اور اپنے بھائی اور اس خاندان کو، جو اس کو پناہ دیتا رہا ہے، فدیہ میں دے کر اس دن کے عذاب سے اپنے کو چھڑا لے جائے۔‘‘
اُس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔
یعنی بالکل تنہا، الگ اور پراگندہ، کوئی کسی کے ساتھ نہ ہو گا۔
وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح۔
n/a
جس دن انسان بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوجائیں گے
فراش، مچھر اور شمع کے گرد منڈلانے والے پرندے وغیرہ۔ مبثوث، منتشر اور بکھرے ہوئے۔ یعنی قیامت والے دن انسان بھی پروانوں کی طرح پراگندہ اور بکھرے ہوئے ہوں گے۔
اور پہاڑ دھنکی ہوئی اون کے مانند ہو جائیں گے۔
اس دن سارے استحکامات ٹوٹ پھوٹ جائیں گے: یعنی خاندانوں اور قبیلوں کی عصبیتوں کی طرح اس دن قلعوں، گڑھیوں اور عمارتوں کے سارے استحکامات بھی درہم برہم ہو کر رہ جائیں گے۔ اس دن پہاڑوں تک کا یہ حال ہو گا کہ وہ دھنکی ہوئی اون کی مانند ہو جائیں گے۔ یعنی جس طرح دھنکی ہوئی اون کا ریشہ ریشہ الگ ہو جاتا ہے اسی طرح پہاڑوں کا ذرہ ذرہ بھی پراگندہ ہو جائے گا۔
پہاڑوں کا ذکر خاص طور پر اس وجہ سے ہوا کہ قیامت کے منکرین پہاڑوں کو غیر فانی خیال کر کے بطور استہزاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے کہ کیا جب قیامت آئے گی تو وہ پہاڑوں کو بھی اکھاڑ پھینکے گی؟ ان کے اس سوال کا حوالہ اور اس کا جواب قرآن مجید میں مذکور ہے۔
’عِہْنٌ‘ اس اون کو کہتے ہیں جو دھنک کر اور رنگ کر کاتنے کے لیے تیار کی جا چکی ہو۔ اس طرح کی اون کا ریشہ ریشہ الگ ہوتا ہے اس وجہ سے یہاں اس کی تشبیہ استعمال ہوئی ہے۔ تشبیہ میں اصل مقصود اون کی پراگندگی کو نمایاں کرنا ہے نہ کہ اس کے رنگ کو۔
اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے۔
اصل میں لفظ ’عِھْن‘ آیا ہے۔ یہ اُس اون کو کہتے ہیں جو دھننے اور رنگنے کے بعد کاتنے کے لیے تیار کی جا چکی ہو۔ یہاں تشبیہ میں اُس کا رنگ نہیں، بلکہ پراگندگی پیش نظر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح دھنکی ہوئی اون کا ریشہ ریشہ الگ ہو جاتا ہے، اُسی طرح پہاڑ بھی ذرہ ذرہ ہو کر پراگندہ ہو جائیں گے۔
اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح ہوں گے۔
یہاں تک قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے۔ یعنی جب وہ حادثہ عظیم برپا ہوگا جس کے نتیجے میں دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اس وقت لوگ گھبراہٹ کی حالت میں اس طرح بھاگے بھاگے پھریں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے ہر طرف پراگندہ و منتشر ہوتے ہیں، اور پہاڑ رنگ برنگ کے ڈھنکے ہوئے اون کی طرح اڑنے لگیں گے۔ رنگ برنگ کے اون سے پہاڑوں کو تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ ان کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔
اور پہاڑ دھنے ہوئے رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔
عھن، اس اون کو کہتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ساتھ رنگی ہوئی ہو، منفوش، دھنی ہوئی۔ یہ پہاڑوں کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جو قیامت والے دن انکی ہوگی۔ قرآن کریم میں پہاڑوں کی یہ کیفیت مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے، جسکی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اب آگے ان دو فریقوں کا اجمالی ذکر کیا جا رہا ہے جو قیامت والے دن اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔
تو جس کے پلّے بھاری ہوں گے۔
اس دن صرف نیک اعمال کام آئیں گے: اس دن واحد کام آنے والی چیز آدمی کے نیک اعمال ہوں گے۔ ہر شخص کے اعمال تولے جائیں گے۔ جس کی میزان بھاری ہو گی وہ تو فلاح پائے گا اور جس کی میزان ہلکی رہ جائے گی وہ نامراد ہو گا۔ اس دن جو میزان نصب ہو گی وہ خاص میزان ہو گی جو لوگوں کے اعمال ہی کے تولنے کے لیے نصب کی جائے گی۔ سورۂ انبیاء میں اس کا ذکر یوں آیا ہے:
وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ (الانبیاء ۲۱: ۴۷)
’’اور ہم قیامت کے دن کے لیے خاص میزان عدل مقرر کریں گے۔‘‘
اس دن اور اس میزان کا خاص وصف سورۂ اعراف میں یہ بیان ہوا ہے کہ اس دن وزن صرف حق کے اندر ہو گا، باطل کے اندر سرے سے کوئی وزن ہی نہیں ہو گا۔ یہ میزان ہر شخص کے عمل کو تول کر بتا دے گی کہ کس کا عمل حق اور وزن دار ہے اور کس کے اعمال بالکل باطل اور پھوک ہیں۔ فرمایا ہے:
وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَأُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۵ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَأُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا أَنۡفُسَہُمۡ بِمَا کَانُوْا بِآیَاتِنَا یَظْلِمُوْنَ (الاعراف ۷: ۸-۹)
’’اس دن وزن صرف حق کا ہو گا تو جن کے پلڑے بھاری ہوئے وہ تو فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہے وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا بوجہ اس کے کہ وہ ہماری آیات کی ناقدری کر کے اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔‘‘
پھر جس کے پلڑے بھاری ہوئے۔
n/a
پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے۔
یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے جب دوبارہ زندہ ہو کر لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔
پھر جس کے پلڑے بھاری ہونگے۔
موازین، میزان کی جمع ہے۔ ترازو، جس میں صحائف اعمال تولے جائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ذکر (وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف :8) (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥۔ ) 18 ۔ الکہف :105) اور (وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا ۭ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ 47) 21 ۔ الانبیاء :47) میں بھی گزرا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں یہ میزان نہیں، موزون کی جمع ہے یعنی ایسے اعمال جن کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت اور خاص وزن ہوگا (فتح القدیر) لیکن پہلا مفہوم ہی راجح اور صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو وزن اعمال کے وقت ان کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوجائے گا۔
وہ تو دل پسند عیش میں ہو گا۔
’فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ‘۔ یہاں ’مَنْ‘ کے لحاظ سے ضمیر اگرچہ واحد ہے لیکن اس سے مراد، جیسا کہ اوپر سورۂ اعراف کی آیات میں شہادت موجود ہے، جمع بھی لے سکتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ لوگ پسندیدہ عیش میں ہوں گے۔ یعنی جو کچھ یہ چاہیں گے وہ بھی انھیں ملے گا اور ان کا رب ان کو وہ کچھ بھی دے گا جس کا وہ تصور بھی نہ کر سکتے ہوں گے۔
وہ دل پسند عیش میں ہو گا۔
n/a
وہ دل پسند عیش میں ہوگا۔
n/a
وہ دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا۔
یعنی ایسی زندگی جس کو وہ صاحب زندگی پسند کرے گا۔
اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے۔
یہ ان لوگوں کا حشر بیان ہو رہا ہے جن کے پاس صرف باطل ہی باطل ہو گا۔ حق ان کے پاس ہو گا ہی نہیں یا ہو گا تو ان کے عقیدے اور ان کی نیت نے اس کو بھی بالکل بے وزن کر دیا ہو گا۔ فرمایا کہ ان کا ٹھکانا کھڈ ہو گا۔ اس کھڈ کی وضاحت آگے فرما دی کہ ’نَارٌ حَامِیَۃٌ‘ وہ دوزخ کا کھڈ ہو گا جس میں آگ بھڑک رہی ہو گی۔
’اُمٌّ‘ کے معنی ماں کے ہیں لیکن یہاں یہ ملجا اور ٹھکانے کے معنی میں ہے اور نہایت بلاغت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔
’مَاھِیَہْ‘ میں ’ہ‘ سکتہ کی ہے جو قافیہ کی رعایت سے آئی ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے اس کتاب میں گزر چکی ہیں۔
اور جس کے پلڑے ہلکے ہوئے۔
n/a
اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔
اسل میں لفظ موازین استعمال ہوا ہے جو موزون کی جمع بھی ہوسکتا ہے اور میزان کی جمع بھی۔ اگر اس کو موزون کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد وہ اعمال ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وزن نہ ہو، جو اس کے ہاں کسی قدر کے مستحق ہوں۔ اور اگر اسے میزان کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد ترازو کے پلڑے ہوں گے۔ پہلی صورت میں موازین کے بھاری اور ہلکے ہونے کا مطلب نیک اعمال کا برے اعمال کے مقابلے میں بھاری یا ہلکا ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صرف نیکیاں ہی وزنی اور قابل قدر ہیں۔ دوسری صورت میں موازین کے بھاری ہونے کا مطلب اللہ جل شانہ کی میزان عدل میں نیکیوں کے پلڑے کا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت زیادہ بھاری ہونا ہے، اور ان کے ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت ہلکا ہو۔ اس کے علاوہ عربی زبان کے محاورے میں میزان کا لفظ وزن کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور اس معنی کے لحاظ سے وزن کے بھاری اور ہلکا ہونے سے مراد بھلائیوں کا وزن بھاری یا ہلکا ہونا ہے۔ بہرحال موازین کو خواہ موزون کے معنی میں لیا جائے، یا میزان کے معنی میں، یا وزن کے معنی میں، مدعا ایک ہی رہتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ آدمی اعمال کی جو پونجی لے کر آیا ہے وہ وزنی ہے، یا بےوزن، یا اس کی بھلائیوں کا وزن اس کی برائیوں کے وزن سے زیادہ ہے یا کم۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے جن کو نگاہ میں رکھا جائے تو اس کا مطلب پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ سورة اعراف میں ہے ” اور وزن اس روز حق ہوگا، پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے، اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے ” (آیات، 8 ۔ 9) سورة کہف میں ارشاد ہوا ” اے نبی ان لوگوں سے کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا، اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے ” (آیات 104 ۔ 105) سورة انبیاء میں فرمایا ” قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا، جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ” (آیت 47) ان آیات سے معلوم ہوا ہے کہ کفر اور حق سے انکار بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ برائیوں کے پلڑے کو لازما جھکا دے گی اور کافر کی کوئی نیکی ایسی نہ ہوگی کہ بھلائیوں کے پلڑے میں اس کا کوئی وزن ہو جس سے اس کی نیکی کا پلڑا جھک سکے۔ البتہ مومن کے پلڑے میں ایمان کا وزن بھی ہوگا اور اس کے ساتھ ان نیکیوں کا وزن بھی جو اس نے دنیا میں کیں۔ دوسری طرف اس کی جو بدی بھی ہوگی وہ بدی کے پلڑے میں رکھ دی جائے گی۔ پھر دیکھا جائے گا کہ آیا نیکی کا پلڑا جھکا ہوا ہے یا بدی کا۔
جن کے پلڑے ہلکے ہونگے۔
جس کی برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں گی اور برائیوں کا پلڑا بھاری اور نیکیوں کا ہلکا ہوگا۔
تو اس کا ٹھکانا کھڈ ہو گا۔
یہ ان لوگوں کا حشر بیان ہو رہا ہے جن کے پاس صرف باطل ہی باطل ہو گا۔ حق ان کے پاس ہو گا ہی نہیں یا ہو گا تو ان کے عقیدے اور ان کی نیت نے اس کو بھی بالکل بے وزن کر دیا ہو گا۔ فرمایا کہ ان کا ٹھکانا کھڈ ہو گا۔ اس کھڈ کی وضاحت آگے فرما دی کہ ’نَارٌ حَامِیَۃٌ‘ وہ دوزخ کا کھڈ ہو گا جس میں آگ بھڑک رہی ہو گی۔
’اُمٌّ‘ کے معنی ماں کے ہیں لیکن یہاں یہ ملجا اور ٹھکانے کے معنی میں ہے اور نہایت بلاغت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔
’مَاھِیَہْ‘ میں ’ہ‘ سکتہ کی ہے جو قافیہ کی رعایت سے آئی ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے اس کتاب میں گزر چکی ہیں۔
اُس کا ٹھکانا گہری کھائی ہے۔
یہاں اصل میں لفظ ’اُمّ‘ استعمال ہوا ہے اور دیکھیے کہ کس بلاغت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔
اس کی جائے قرار گہری کھائی ہوگی۔
اصل الفاظ ہیں اُمُّهٗ هَاوِيَةٌ ” اس کی ماں ھاویہ ہوگی ” ھاویہ ھوی سے ہے جس کے معنی اونچی جگہ سے نیچی جگہ گرنے کے ہیں، اور ھاویہ اس گہرے گڑھے کے لیے بولا جاتا ہے جس میں کوئی چیز گرے۔ جہنم کو ھاویہ کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ وہ بہت عمیق ہوگی اور اہل جہنم اس میں اوپر سے پھینکے جائیں گے۔ رہا یہ ارشاد کہ اس کی ماں جہنم ہوگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ماں کی گود بچے کا ٹھکانا ہوتی ہے، اسی طرح آخرت میں اہل جہنم کے لیے جہنم کے سوا کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔
اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم) ہے۔
ہاویہ جہنم کا نام ہے اس کو ہاویہ اس لیے کہتے ہیں کہ جہنمی اس کی گہرائی میں گرے گا۔ اور اس کو ام (ماں) سے اس لیے تعبیر کیا کہ جس طرح انسان کے لیے ماں، جائے پناہ ہوتی ہے اسی طرح جہنمیوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ ام کے معنی دماغ کے ہیں۔ جہنمی، جہنم میں سرکے بل ڈالے جائیں گے۔ (ابن کثیر)
اور تم کیا سمجھے کہ وہ کیا ہے!
یہ ان لوگوں کا حشر بیان ہو رہا ہے جن کے پاس صرف باطل ہی باطل ہو گا۔ حق ان کے پاس ہو گا ہی نہیں یا ہو گا تو ان کے عقیدے اور ان کی نیت نے اس کو بھی بالکل بے وزن کر دیا ہو گا۔ فرمایا کہ ان کا ٹھکانا کھڈ ہو گا۔ اس کھڈ کی وضاحت آگے فرما دی کہ ’نَارٌ حَامِیَۃٌ‘ وہ دوزخ کا کھڈ ہو گا جس میں آگ بھڑک رہی ہو گی۔
’اُمٌّ‘ کے معنی ماں کے ہیں لیکن یہاں یہ ملجا اور ٹھکانے کے معنی میں ہے اور نہایت بلاغت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔
’مَاھِیَہْ‘ میں ’ہ‘ سکتہ کی ہے جو قافیہ کی رعایت سے آئی ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے اس کتاب میں گزر چکی ہیں۔
اور تم کیا سمجھے کہ وہ کیا ہے؟
اصل الفاظ ہیں: ’وَمَآ اَدْرٰکَ مَاھِیَہْ‘۔ ’مَاھِیَہْ‘ کی ’ہ‘ سکتہ کی ہے اور یہاں قافیے کی رعایت سے آئی ہے۔
اور تمہیں کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے؟
n/a
تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے
یہ استفہام اس کی ہو لناکی اور شدت عذاب کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ انسان کے وہم و تصور سے بالا ہے انسانی علوم اس کا احاطہ نہیں کرسکتے اور اس کی کنہ نہیں جان سکتے۔
امین احسن اصلاحی
کھٹکھٹانے والی!
’اَلْقَارِعَۃُ‘ میں ایک خاص تنبیہ مضمر ہے: یہ قیامت کے مختلف ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اس کے معنی ہیں ٹھونکنے والی، کھٹکھٹانے والی۔ ’قَرَعَ الْبَابَ‘ کے معنی ہیں اس نے دروازہ کو ٹھونکا یا کھٹکھٹایا؛ اس نام سے قیامت کے اس خاص پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ جس طرح کوئی رات میں آنے والا دروازے کو ٹھونکتا اور گھر کے تمام سونے والوں کو دفعۃً ہڑبڑا دیتا ہے، وہی حال قیامت کا بھی ہو گا۔ اس کا وقت کسی کو نہیں معلوم کہ کب آ دھمکے۔ اس کا ظہور اچانک ہو گا اور وہ بالکل دفعۃً سارے عالم میں ایک ہلچل برپا کر دے گی۔ اس کے اسی نام کے اندر یہ تنبیہ بھی مضمر ہے کہ جب یہ اس کائنات کی سب سے بڑی ہلچل ہے اور اس کا وقت کسی کو نہیں معلوم ہے تو سلامتی اسی میں ہے کہ اس کا کھٹکا ہر وقت لگا رہے۔
یہ اسلوب بیان جو یہاں اختیار فرمایا گیا ہے ایک الارم کی نوعیت کا ہے تاکہ تمام کان رکھنے والے اس مبتداء کی خبر سننے کے لیے تیار ہو جائیں۔ گویا قیامت جس نوعیت کی ہڑبڑاہٹ اس دنیا میں پیدا کرے گی اسی نوعیت کی ہڑبڑاہٹ یہاں اس کا نام پیدا کر رہا ہے۔ سورۂ حاقہ میں بھی یہی اسلوب کلام اختیار کیا گیا ہے اور اس کی بقدر ضرورت وضاحت ہم کر چکے ہیں۔۱
_____
۱ ملاحظہ ہو تدبر قرآن جلد ہفتم، صفحات: ۵۴۱-۵۴۲۔