طسم

امین احسن اصلاحی

یہ طٰسٓمّٓ ہے

حروف مقطعات پر پیچھے بحث گزر چکی ہے۔ ‘کتاب مبین’ کے اندر احسان و امتنان اور اتمام حجت کے جو پہلو ہیں، خاص طور پر اہل کتاب کے لیے، ان کی وضاحت بھی ان کے محل میں ہو چکی ہے۔ کم و بیش انہی الفاظ سے سابق سورہ کی تمہید بھی شروع ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ دونوں کا مرکزی مضمون ایک ہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’طٰسٓمّٓ‘ ہے

اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

ط۔ س۔ م۔

n/a

جونا گڑھی

طسم

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ

امین احسن اصلاحی

یہ واضح کتاب الٰہی کی آیات ہیں

’کتاب مبین‘ کے اندر احسان و امتنان اور اتمام حجت کے جو پہلو ہیں، خاص طور پر اہل کتاب کے لیے، ان کی وضاحت بھی ان کے محل میں ہو چکی ہے۔ کم و بیش انہی الفاظ سے سابق سورہ کی تمہید بھی شروع ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ دونوں کا مرکزی مضمون ایک ہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ نہایت واضح کتاب کی آیتیں ہیں

n/a

ابو الاعلی مودودی

یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی۔

نَتْلُو عَلَيْكَ مِنْ نَبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

امین احسن اصلاحی

ہم تمہیں موسیٰؑ اور فرعون کی سرگزشت کا کچھ حصہ ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جو ایمان لانا چاہیں

موسیٰؑ و فرون کی سرگزشت سنانے کا اصل مقصد: خطاب اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن آیت کے آخری الفاظ ’لِقَوْمٍ یُؤْمِنُوۡنَ‘ خود شاہد ہیں کہ مقصود اس سرگزشت کے سنانے سے وقت کے فراعنہ یعنی قریش کے لیڈروں کے کان کھولنا ہے۔ ’بِالْحَقِّ‘ یعنی بالکل ٹھیک ٹھیک، غایت و مدعا اور عبرت و موعظت کے ساتھ۔ تورات میں حضرت موسیٰؑ اور فرعون کی سرگزشت نہ تو ٹھیک ٹھیک بیان ہوئی ہے اور نہ اس سے وہ موعظت ہی سامنے آتی ہے جواس کی اصل روح ہے۔ قرآن نے یہ سرگزشت اس کے ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر سنائی ہے۔ ’لِقَوْمٍ یُؤْمِنُوۡنَ‘ میں فعل ہمارے نزدیک ارادۂ فعل کے مفہوم میں ہے۔ یہ ٹکڑا اپنے اندر ایک قسم کی تنبیہ رکھتا ہے کہ ہم یہ سرگزشت سنا تو رہے ہیں لیکن اس کا فائدہ انہی کو پہنچے گا جن کے اندر ایمان لانے کا ارادہ پایا جاتا ہے۔ جو اندھے بہرے بن چکے ہیں وہ بدستور اندھے بہرے ہی بنے رہیں گے۔

جاوید احمد غامدی

ہم اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے جو ایمان لانا چاہیں، موسیٰ اور فرعون کی سرگذشت کا کچھ حصہ ٹھیک ٹھیک تمھیں سناتے ہیں

اصل الفاظ ہیں: ’لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘۔ اِن میں فعل ارادۂ فعل کے مفہوم میں ہے۔ یہ ایک قسم کی تنبیہ ہے۔ قرآن نے ابتدا ہی میں بتا دیاہے کہ اِس سرگذشت سے ہدایت اُنھی کو ملے گی جو ہدایت پانا چاہیں گے۔ اُن کے لیے اِس میں کوئی ہدایت نہیں ہے جو فیصلہ کر چکے ہیں کہ اندھے اور بہرے بن کر ہی جئیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

ہم موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سناتے ہیں، ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں۔ 2

تقابل کے لیے ملاحظۃ ہو البقرہ رکوع 6 ۔ الاعراف رکوع 13 تا 16 ۔ یونس رکوع 8 ۔ 9 ۔ ہود رکوع 9 ۔ بنی اسرائیل رکوع 12 ۔ مریم رکوع 4 ۔ طہ رکوع 4 ۔ المومنون رکوع 3 ۔ الشعراء رکوع 2 ۔ 4 ۔ النمل رکوع 1 ۔ العنکبوت رکوع 4 ۔ المومن رکوع 3 ۔ 5 ۔ الزخرف رکوع 5 ۔ الدخان رکوع 1 ۔ الذاریات رکوع 2 ۔ النازعات رکوع 1 ۔

سورة القصص حاشیہ نمبر : 2

یعنی جو لوگ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہوں ان کو سنانا تو بےکار ہے، البتہ جنہوں نے ہٹ دھرمی کا قفل اپنے دلوں چڑھا نہ رکھا ہو وہ اس گفتگو کے مخاطب ہیں۔

جونا گڑھی

ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعوں کا صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں

 یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کردینا جس طرح پیش آتے ناممکن ہے، تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہوگا کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔ 

إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ

امین احسن اصلاحی

بے شک فرعون سرزمین مصر میں بہت سرکش ہو گیا تھا اور اس نے اس کے باشندوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ان میں سے ایک گروہ کو اس نے دبا رکھا تھا۔ ان کے بیٹوں کو ذبح کر چھوڑتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا، بے شک وہ زمین میں فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا

سرگزشت سے پہلے اس کا خلاصہ: اصل سرگزشت سے پہلے یہ اور اس کے بعد کی دو آیتیں اس غایت و مقصد کو سامنے کر دینے کے لیے وارد ہوئی ہیں جس کو پیش نظر رکھ کر یہ سنائی جا رہی ہے۔ قرآن میں یہ اسلوب متعدد مقامات میں اختیار کیا گیا ہے کہ کوئی سرگزشت سنانے سے پہلے وہ مدعا مختصر الفاظ میں قاری کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے جو اس کے سنانے سے پیش نظر ہوتا ہے تاکہ سرگزشت کے پھیلاؤ میں اصل حقیقت قاری کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ سورۂ کہف میں اس کی مثال گزر چکی ہے۔

’إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِیْ الْأَرْضِ‘۔ زمین میں ’علو‘ (سرکشی) یہ ہے کہ زمین کے اصل خالق و مالک کی مرضی اور اس کے احکام کو نظر انداز کر کے کوئی اس میں اپنی من مانی کرنے لگ جائے اور خدا کے بندوں کو خدا کی بندگی و اطاعت میں داخل کرنے کے بجائے ان سے اپنی بندگی و غلامی کرانے لگے۔
’وَجَعَلَ أَہْلَہَا شِیَعاً یَسْتَضْعِفُ طَائِفَۃً مِّنْہُمْ‘ یہ اسی ’عُلو‘ اور ’فساد فی الارض‘ کی وضاحت ہے کہ اس نے ملک کے باشندوں کو طبقات میں تقسیم کیا اور ان میں سے ایک گروہ کو اس نے بالکل دبا کر اور غلام بنا کر رکھا۔ جب راعی و رعیت سب خدا کی مملوک ہیں تو کسی ملک کے حکمران کے لیے یہ بات جائز نہیں ہو سکتی کہ وہ رعایا کے درمیان کوئی تفریق و امتیاز برتے بلکہ راعی و رعیت سب کے لیے بلا امتیاز ایک ہی قانون اور ایک ہی نظام عدل و مساوات ہونا چاہیے لیکن فرعون نے بنی اسرائیل کو تو غلاموں کی حیثیت دے رکھی تھی اور خود خدا بن بیٹھا تھا۔ ساتھ ہی اپنی قوم قبطیوں کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ وہ بنی اسرائیل سے غلاموں کی طرح کام لیں۔
’یُذَبِّحُ أَبْنَاء ہُمْ وَیَسْتَحْیِیْ نِسَاء ہُمْ‘۔ اس جبر و ظلم کی ایک مثال ہے جو فرعون اور قبطیوں کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر ہو رہا تھا۔ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کی سنگدلانہ اسکیم فرعون اور اس کے اعیان نے جس سیاسی اندیشہ کی بنا پر چلائی تھی اس کی وضاحت سورۂ طٰہٰ اور بعض پچھلی دوسری سورتوں میں ہو چکی ہے۔
’إِنَّہُ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ‘۔ یعنی یہ خدا کی زمین میں فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا درآنحالیکہ اللہ اپنی زمین میں جس کو بھی حکمرانی کا منصب بخشتا ہے عدل و امن کے قیام کے لیے بخشتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

واقعہ یہ ہے کہ سرزمین مصر میں فرعون نے سرکشی اختیار کر لی تھی۔ اُس کے باشندوں کو اُس نے گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو اُس نے سختی سے دبا رکھا تھا، وہ اُن کے بیٹوں کو ذبح کر چھوڑتا اور اُن کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ فی الواقع وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا

اِس سرکشی کی نوعیت کیا تھی؟ آگے قرآن نے اِسی کی وضاحت فرمائی ہے۔

یعنی انصاف کی مسند پر بیٹھ کر انصاف کرنے اور سب کو یکساں اور برابر کے حقوق دینے کے بجاے اُس نے رعایا کو طبقات میں تقسیم کر دیا تھا۔ چنانچہ کسی کو مراعات اور امتیازات دے رکھے تھے اور کسی کو محکوم بنا کر ذلیل کرتا تھا۔
یعنی بنی اسرائیل کو جو یوسف علیہ السلام کے زمانے میں یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے اور اب ایک بڑی قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔
یہ، ظاہر ہے کہ سرکشی کی انتہا ہے جس کا صدور کسی حکمران سے ہو سکتا ہے۔ فرعون اور اُس کے اعیان واکابر نے یہ اسکیم اِس لیے چلائی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کی تعداد میں اضافے سے خوف زدہ تھے کہ مبادا وہ ایک بڑی قوت بن کر اُن پر غلبہ پا لیں۔ اِس کی تفصیلات بائیبل اور تالمود، دونوں میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

واقعہ یہ کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔

اصل میں لفظ علا فی الارض استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین میں سر اٹھایا، باغیانہ روش اختیار کی، اپنی اصل حیثیت یعنی بندگی کے مقام سے اٹھ کر خود مختاری اور خداوندی کا روپ دھار لیا، ماتحت بن کر رہنے کے بجائے بالادست بن بیٹھا، اور جبار و متکبر بن کر ظلم ڈھانے لگا۔

یعنی اس کی حکومت کا قاعدہ یہ نہ تھا کہ قانون کی نگاہ میں ملک کے سب باشندے یکساں ہوں اور سب کو برابر کے حقوق دیے جائیں، بلکہ اس نے تمدن و سیاست کا یہ طرز اختیار کیا کہ ملک کے باشنوں کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے، کسی کو مراعات و امتیازات دے کر حکمراں گروہ ٹھہرایا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر یا دبایا اور پیسا اور لوٹا جائے۔

یہاں کسی کو یہ شبہ لاحق نہ ہو کہ اسلامی حکومت بھی تو مسلم اور ذمی کے درمیان تفریق کرتی ہے اور ان کے حقوق و اختیارات ہر حیثیت سے یکساں نہیں رکھتی۔ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ اس فرق کی بنیاد فرعونی تفریق کے برعکس نسل، رنگ، زبان، یا طبقاتی امتیاز پر نہیں ہے بلکہ اصول اور مسلک کے اختلاف پر ہے، اسلامی نظام حکومت میں ذمیوں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی حقوق میں قطعا کوئی فرق نہیں ہے، تمام تر فرق صرف سیاسی حقوق میں ہے، اور اس فرق کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک اصولی حکومت میں حکمراں جماعت صرف وہی ہوسکتی ہے جو حکومت کے بنیادی اصولوں کی حامی ہو، اس جماعت میں ہر وہ شخص داخل ہوسکتا ہے جو اس کے اصولوں کو مان لے اور ہر وہ شخص اس سے خارج ہوجاتا ہے جو ان اصولوں کا منکر ہوجائے۔ آخر اس تفریق میں اور اس فرعونی طرز تفریق میں کیا وجہ مشابہت ہے جس کی بنا پر محکوم نسل کا کوئی فرد کبھی حکمراں گروہ میں شامل نہیں ہوسکتا، جس میں محکوم نسل کے لوگوں کو سیاسی اور قانونی حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے، حتی کہ زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے، جس میں محکوموں کے لیے کسی حق کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، تمام فوائد منافع اور حسنات و درجات صرف حکمران قوم کے لیے مختص ہوتے ہیں اور یہ مخصوص حقوق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتے ہیں جو حکمراں قوم میں پیدا ہوجائے۔

بائیبل میں اس کی جو تشریح ملتی ہے وہ یہ ہے :

” تب مصر میں ایک نیا بادشاہ ہوا جو یوسف کو نہیں جانتا تھا، اور اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ دیکھو اسرائیلی ہم سے زیادہ اور قوی ہوگئے ہیں سو آؤ ہم ان کے ساتھ حکمت سے پیش آئیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ اور زیادہ ہوجائیں اور اس وقت جنگ چھڑ جائے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جائیں۔ اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کیے جو ان سے سخٹ کام لے کر انہیں ستائیں۔ سو انہوں نے فرعون کے لیے ذخیرے کے شہر پتوم اور غمیس بنائے۔ اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کر کے ان سے کام کرایا اور انہوں نے ان سے سخت محنت سے گارا اور اینٹ بنوا بنوا کر اور کھیت میں ہر قسم کی خدمت لیکر ان کی زندگی تلخ کی، ان کی سب خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے تشدد کی تھیں۔ تب مصر کے بادشاہ نے عبرانی دائیوں سے باتیں کیں اور کہا کہ جب عبرانی (یعنی اسرائیلی) عورتوں کے تم بچہ جناؤ اور ان کو پتھر کی بیٹھکوں پر بیٹھی دیکھو تو اگر بیٹا ہو تو اسے مار ڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے “۔ (خروج، باب 1 ۔ آیت 8 ۔ 16)

اس سے معلوم ہوا کہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دور گزر جانے کے بعد مصر میں ایک قوم پرستانہ انقلاب ہوا تھا اور قبطیوں کے ہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تو نئی قوم پرست حکومت نے بنی اسرائیل کا زور توڑنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا گیا کہ اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا اور انہیں ادنی درجے کی خدمات کے لیے مخصوص کرلیا جاتا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹائی جائے اور ان کے لڑکوں کو قتل کر کے صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائین اور ان سے اسرائیلی کے بجائے قبطی نسل پیدا ہو۔ تلمود اس کی مزید تفصیل یہ دیتی ہے کہ حضرت یوسف کی وفات پر ایک صدی سے کچھ زیادہ مدت گزر جانے کے بعد یہ انقلاب ہوا تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ نئی قوم پرست حکومت نے پہلے تو بنی اسرائیل کو ان کی زرخیز زمینوں اور ان کے مکانات اور جائدادوں سے محروم کیا۔ پھر انہیں حکومت کے تمام مناصب سے بےدخل کیا، اس کے بعد بھی جب قبطی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب مصری کافی طاقتور ہیں تو انہوں نے اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کرنا شروع کیا اور ان سے سخت محنت کے کام قلیل معاوضوں پر یا بلا معاوضہ لینے لگے۔ یہ تفسیر ہے قرآن کے اس بیان کی کہ مصر کی آبادی کے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اور سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی کہ آل فرعون بنی اسرائیل کو سخت عذاب دیتے تھے۔ (يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ )

مگر بائیبل اور قرآن دونوں اس ذکر سے خالی ہیں کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ الٹ جائے گا اور اسی خطرے کو روکنے کے لیے فرعون نے اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یا فرعون نے کوئی خوفناک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر یہ دی گئی تھی کہ ایک لڑکا بنی اسرائیل میں ایسا پیدا ہونے والا ہے۔ یہ افسانہ تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے ہمارے مفسرین نے نقل کیا ہے ( ملاحظہ ہو جیوش انسائیکلوپیڈیا مضمون ” موسیٰ ” اور (TheTalmud Selections Page124. 23)

جونا گڑھی

یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو چھوڑ دیتا تھا بیشک وہ تھا ہی مفسدوں میں سے۔

  یعنی ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔ 

 جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔ 

اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن آزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم زانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔ 

 جس کی وجہ بعض نجومیوں کی پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کردیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقینا ہو کر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے یہ خوشحبری منتقل ہوتی چلی آ رہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہوگا جسکے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہوگی۔ قبیلوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کردیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کردیا۔ (ابن کثیر) 

وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ

امین احسن اصلاحی

اور ہم یہ چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو ملک میں دبا کر رکھے گئے تھے اور ان کو پیشوا بنائیں اور ان کی وراثت بخشیں

بنی اسرائیل کو یپشوائی دینے کا خدائی فیصلہ: ’نُرِیْدُ‘ سے پہلے، عربی زبان کے معروف قاعدے کے مطابق، فعل ناقص محذوف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ فرعون اور اس کے اعیان تو یہ ظلم و ستم ڈھائے ہوئے تھے اور ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو کسی طرح ابھرنے نہ دیں لیکن ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ہم مظلوموں پر احسان کریں، ان کو پیشوائی کا منصب بخشیں اور ظالموں کو مٹا کر مظلوموں کو وراثت و خلافت عطا کریں۔ ’نَجْعَلَہُمْ أَئِمَّۃً‘ سے اشارہ اس دینی پیشوائی کی طرف ہے جو حضرت موسیٰؑ کی بعثت کے بعد بنی اسرائیل کو حاصل ہوئی۔ اور ’نَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِیْنَ‘ سے خلافت و حکومت مراد ہے جو ان کو ارض فسلطین میں ملی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں جس کے حدود نہایت وسیع ہو گئے یہاں تک کہ مصر کی حکومت بھی ان کی ایک باجگزار ریاست بن گئی۔

جاوید احمد غامدی

اور اِدھر ہم نے ارادہ کر لیا تھا کہ اُن لوگوں پر عنایت کریں جو اُس ملک میں دبا کر رکھے گئے تھے اور اُن کو امامت عطا فرمائیں اور اُنھیں (ملک کا) وراث بنائیں

یہ اُس خدائی فیصلے کا بیان ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد بنی اسرائیل کو عالمی سطح پر اپنے دین کی شہادت کے لیے منتخب کیا۔ یہ اُسی طرح کا انتخاب تھا، جس طرح انسانوں میں سے انبیا علیہم السلام کو انذار و بشارت اور دعوت و شہادت کے لیے منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ یہاں جو مدعا ’نَمُنَّ‘ کے لفظ سے ادا ہوا ہے، قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں اُسی کو ’نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ‘ کے الفاظ میں ادافرمایا ہے۔

یعنی دین کے امام اور پیشوا بنائیں۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۲۴میں قرآن نے ابراہیم علیہ السلام سے متعلق جس فیصلے کا ذکر ’اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا‘ کے الفاظ میں کیا ہے، یہ اُسی کا نتیجہ ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنادیں اور انہی کو وارث بنائیں

یعنی انہیں دنیا میں قیادت و رہنمائی کا مقام عطا کریں۔

یعنی ان کو زمین کی وراثت بخشیں اور وہ حکمران و فرمانروا ہوں۔

جونا گڑھی

پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بیحد کمزور کردیا گیا تھا، اور ہم انھیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں

  چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کمزور اور غلام قوم کو مشرق و مغرب کا وارث (مالک و حکمران) بنا دیا نیز انھیں دین کا پیشوا اور امام بھی بنا دیا۔ 

وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ

امین احسن اصلاحی

اور ان کو زمین میں اقتدار عطا کریں اور فرعون و ہامان اور ان کی فوجوں کو ان کے ہاتھوں وہ دکھائیں جس کا وہ اندیشہ رکھتے تھے

بنی اسرائیل کو اقتدار دینے کا خدائی فیصلہ: ’تمکین فی الارض‘ سے مراد اقتدار و صولت و دبدبہ ہے۔ یعنی ارادۂ الٰہی یہ ہوا کہ ان دبائے ہوئے مظلوموں کو ایک مضبوط اور طاقتور سلطنت عطا کرے اور فرعون و ہامان اور ان کی فوجوں کو وہ چیز دکھا دے جس کا وہ اندیشہ رکھتے تھے۔ ’مَا کَانُوۡا یَحْذَرُوۡنَ‘ سے اشارہ فرعون اور اس کے اعیان کے اس انداز کی طرف ہے جس کی وضاحت ہم اس کے محل میں کر چکے ہیں کہ وہ بنی اسرائیل کی تعداد میں روز افزوں اضافہ سے بہت خائف تھے کہ اگر یہ قوت پکڑ گئے تو یا تو وہ خود ملک پر قابض ہو جائیں گے یا باہر کے دشمنوں سے مل کر یہاں سے قبطیوں کو بے دخل کر دیں گے۔ اسی خطرے کے سدباب کے لیے ان احمقوں نے بنی اسرائیل کے ذکور کے قتل کی وہ اسکیم بنائی تھی جس کی پوری تفصیل ہم پچھلی سورتوں میں پیش کر چکے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے مقابل میں ان کی ساری اسکیمیں اور پیش بندیاں بالکل بیکار ثابت ہوئیں۔ ارادۂ الٰہی مظلوموں کے حق میں پورا ہو کے رہا اور ان کے دشمن تمام زور و سطوت اور تمام تدبیر و تدبر کے باوجود پامال ہوئے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اسی حقیقت کو قریش کے اکابر و زعما کے سامنے رکھنے کے لیے وہ سرگزشت سنائی جا رہی ہے جو آگے آ رہی ہے تاکہ لوگ اس قصہ کو قصہ کی حیثیت سے نہ سنیں بلکہ اس حق کو مد نظر رکھ کر سنیں جو اس کے اندر مضمر ہے۔

ہامان فرعون کا وزیر تھا: یہاں بالکل پہلی مرتبہ فرعون کے ساتھ ’ہامان‘ کا ذکر بھی آیا ہے اور اس طرح آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت فرعون کے وزیر کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کو دبائے رکھنے کے مسئلہ سے خاص دلچسپی تھی۔ آگے بھی اس کا ذکر فرعون کے وزیر اعظم ہی کی حیثیت سے آ رہا ہے۔ تورات میں یہ نام نہیں آیا ہے لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پیدا ہوتا۔ کتنی باتیں ہیں جن میں قرآن نے تورات کے بیانات کی تصحیح کی ہے یا ان پر اضافہ کیا ہے۔ یہ بھی حضرت موسیٰؑ اور فرعون کی سرگزشت میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ بعض مستشرقین نے اس نام کو اعتراض کا ہدف بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر میں اس نام کا کوئی شخص نہیں تھا۔ ان لال بجھکڑوں کا یہ اعتراض بالکل ہی احمقانہ ہے۔ کیا یہ حضرات یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کو فرعون اور اس کے تمام وزراء و اعیان اور اس عہد کے تمام اکابر مصر کے ناموں کی فہرست مل گئی ہے؟ وزراء و اعیان تو درکنار کیا یہ حضرات خود اس فرعون کے بارے میں متفق اللفظ ہیں جو حضرت موسیٰؑ کا ہم عصر تھا؟ قرآن کی مخالفت کے جنون میں اس قسم کی باتیں جو یہ لوگ کہتے ہیں وہ بالکل ہی ناقابل التفات ہیں۔ یہ لوگ پائی ہوئی حقیقت کو گم کرنے میں تو بڑے ماہر ہیں۔ لیکن جب کسی چیز کا سراغ دیتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹڈے کی ٹانگ پر ہاتھی کا خول چڑھایا ہے۔
بنی اسرائیل کے اندیشہ سے فرعون کی فوجی تیاریاں: یہ فرعون و ہامان کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ان کی فوجوں کا جو ذکر بار بار آیا ہے اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے۔ اس عہد کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کے اعیان نے بنی اسرائیل کے مسئلہ کو ایک بالکل سیاسی رنگ دے دیا تھا۔ ان کی کثرت تعداد کو وہ اپنی حکومت کے لیے ایک خطرہ سمجھتے تھے۔ اس وجہ سے فرعون نے اپنے تمام امراء و اعیان کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی فوجوں کو بنی اسرائیل کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بالکل چوکس رکھیں۔ چنانچہ جب اس نے بنی اسرائیل کے تعاقب کا فیصلہ کیا تو اپنے تمام امراء اور نوابوں کو ان کی فوجوں سمیت طلب کیا۔ فرعون کو اپنی ان افواج پر، جیسا کہ قرآن اور تورات دونوں سے واضح ہوتا ہے، بڑا ناز تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ سارا غرور و ناز چشم زدن میں ختم کر دیا۔

جاوید احمد غامدی

اور اُنھیں اُس ملک میں اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکروں کو اُن سے وہی کچھ دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے تھے

اِس کے لیے ارض فلسطین کا انتخاب کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اِسے اپنی دعوت کے لیے خاص قرار دے کر بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا۔ چنانچہ حکم دیا گیا کہ اِس کے باشندوں سے اِس سرزمین کو خالی کرا لیا جائے اور گردوپیش کی حکومتوں کو باج گزار بنا کر اِس پورے علاقے میں انبیا علیہم السلام کی زیر قیادت خدا کی حکومت قائم کر دی جائے۔ بائیبل میں اِسی بنا پر اِسے بنی اسرائیل کی میراث کا علاقہ کہا گیا ہے۔ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ یہ ایک خدائی فیصلہ تھا، اِس کا دنیا کے دوسرے علاقوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اِس کا ذکر جس طریقے سے یہاں ہوا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غالباً فرعون کا وزیراعظم تھا اور اُس کے دست راست کی حیثیت سے اُس کے تمام مظالم میں پوری طرح شریک تھا۔
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ فرعونی اِس بات سے ڈرتے تھے کہ بنی اسرائیل کی تعداد اور مصر میں اُن کا اثر و رسوخ اِسی طرح بڑھتا رہا تو ایک دن وہ اُن پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ یہ اُسی ڈر کا ذکر ہے۔ فرمایا کہ یہی ہو گا اور فرعون اور اُس کے اعیان و اکابر اپنے تمام زور و سلطنت اور تدبیر و تدبر کے باوجود ایک دن بالکل مغلوب ہو کر رہ جائیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

​ اور امین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔

مغربی مستشرقین نے اس بات پر بڑی لے دے کی ہے کہ ہامان تو ایران کے بادشاہ اخسویرس یعنی خشیارشا (Xerxes) کے دربار کا ایک امیر تھا، اور اس بادشاہ کا زمانہ حضرت موسیٰ کے سینکڑوں برس بعد 486 اور 465 قبل مسیح میں گزرا ہے، مگر قرآن نے اسے مصر لے جاکر فرعون کا وزیر بنا دیا۔ ان لوگوں کی عقل پر تعصب کا پردہ پڑا ہوا نہ ہو تو یہ خود غور کریں کہ آخر ان کے پاس یہ یقین کرنے کے لیے کیا تاریخی ثبوت موجود ہے کہ اخسویرس کے درباری ہامان سے پہلے دنیا میں کوئی شخص کبھی اس نام کا نہیں گزرا ہے۔ جس فرعون کا ذکر یہاں ہورہا ہے اگر اس کے تمام وزراء اور امراء اور اہل دربار کی کوئی مکمل فہرست بالکل مستند ذریعے سے کسی مستشرق صاحب کو مل گئی ہے جس میں ہامان کا نام مفقود ہے تو وہ اسے چھپائے کیوں بیٹھے ہیں ؟ انہیں اس کا فوٹو فورا شائع کردینا چاہیے۔ کیونکہ قرآن کی تکذیب کے لیے اس سے زیادہ موثر ہتھیار انہیں کوئی اور نہ ملے گا۔

جونا گڑھی

اور یہ بھی کہ ہم انھیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں ۔

 یہاں زمین سے مراد ارض شام ہے جہاں وہ کنعانیوں کی زمین کے وارث بنے کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے، واللہ اعلم۔ 

 یعنی انھیں جو اندیشہ تھا کہ ایک اسرائیلی کے ہاتھوں فرعون کی اور اس کے ملک و لشکر کی تباہی ہوگی، ان کے اس اندیشے کو ہم نے حقیقت کر دکھایا۔ 

وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ

امین احسن اصلاحی

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ اس کو دودھ پلاؤ، پس جب تمہیں اس باب میں اندیشہ ہو تو اس کو دریا میں ڈال دیجیو اور نہ اندیشہ کیجیو اور نہ غم۔ ہم اس کو تمہارے پاس لوٹا کر لائیں گے اور اس کو اپنے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں

اصل سرگزشت کا آغاز: اب یہ اصل سرگزشت شروع ہوئی ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ کی ولادت ہوئی تو فرمایا کہ ہم نے موسیٰؑ کی ماں کو وحی کی کہ اس کو دودھ پلاتی رہو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو تو اس کو دریا میں ڈال دیجیو اور ذرا فکر و غم نہ کیجیو، ہم اس کو تمہارے پاس واپس لائیں گے اور اس کو اپنے رسولوں میں سے بنائیں گے۔

’وحی‘ سے مراد یہاں ظاہر ہے کہ وہ اصطلاحی وحی نہیں ہے جو حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے۔ بلکہ الہام و القاء یا رؤیا کے ذریعہ سے اس طرح دل میں کوئی بات ڈال دینا ہے جس سے دل کو اس پر فی الجملہ اطمینان ہو جائے۔
حضرت موسیٰؑ کی حفاظت کے لیے خدائی انتظامات: جس زمانے میں حضرت موسیٰؑ کی ولادت ہوئی ہے بنی اسرائیل کے بچوں کے ہلاک کرنے کی سکیم بڑے زوروں سے چل رہی تھی۔ اول اول تو یہ کام فرعون اور اس کے اعیان نے دائیوں سے لینا چاہا لیکن تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیوں نے اس میں کچھ زیادہ تعاون نہیں کیا۔ بالآخر فرعون نے قبطیوں کو یہ عام حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو اولاد نرینہ پیدا ہو اس کو دریا میں پھینک دیا کریں۔ اسی خطرناک زمانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اس وجہ سے قدرتی طور پر ان کی والدہ ماجدہ کا دل ہر وقت دھڑکتا رہتا کہ معلوم نہیں کس وقت کسی ظالم کی نظر بچے پر پڑ جائے اور وہ اس کو اچک لے جائے۔ اسی خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابھی تو تم اس کو دودھ پلاؤ۔ اگر اس طرح کا کوئی خطرہ محسوس ہو تو بے خوف و خطر بچے کو تم خود اپنے ہاتھوں دریا کے حوالہ کر دینا اور ذرا غم و فکر نہ کرنا۔ ہم اس کو تمہارے پاس واپس بھی لائیں گے اور اس کو مستقبل میں اپنے شرف رسالت سے بھی مشرف کریں گے۔ دریا میں ڈالنے کی یہ ہدایت ظاہر ہے کہ اس وجہ سے فرمائی گئی کہ فرعون نے جو راستہ بچوں کی ہلاکت کے لیے اختیار کیا تھا اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت موسیٰؑ کے لیے وہی راستہ نجات کا راستہ بنے۔ سورۂ طٰہٰ کی آیت ۴۹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک صندوق میں بچے کو رکھ کے صندوق کو دریا میں بہا دینے کی ہدایت ہوئی تھی۔ تورات میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے:

’’وہ عورت حاملہ ہوئی اور بیٹا جنی اور اس نے اسے خوب صورت دیکھ کے تین مہینے تک چھپا رکھا اور آگے اس کو نہ چھپا سکی تو سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنایا اور اس پر لاسا اور رال لگایا اور لڑکے کو اس میں رکھا اور اس نے اسے دریا کے کنارے پر جھاڑ میں رکھ دیا۔‘‘

تورات کے بیان میں جو کمیاں اور غلطیاں ہیں ان کی طرف سورۂ طٰہٰ اور سورۂ اعراف کی تفسیر میں ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ یہاں خاص چیز جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی والدہ ماجدہ کو الہام کے ذریعے سے یہ تسلی دے دی گئی تھی کہ اس بچے کو ہم تمہارے پاس پھر واپس لائیں گے اور اس کو منصب رسالت پر سرفراز کریں گے اور یہ تسلی، اسلوب کلام دلیل ہے کہ ایک حتمی وعدے کی شکل میں دی گئی تھی۔ یہی چیز تھی جس کے اعتماد پر حضرت موسیٰؑ کی والدہ ماجدہ یہ بازی کھیل گئیں ورنہ کوئی ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو اس طرح دریا کی موجوں کے حوالہ کس طرح کر سکتی ہے!!

جاوید احمد غامدی

(چنانچہ موسیٰ پیدا ہوا تو بچے قتل کیے جارہے تھے)۔ ہم نے موسیٰ کی ماں کو (اِسی بنا پر) وحی کی کہ ابھی اِسے دودھ پلاؤ، پھر جب اِس کی نسبت تمھیں (جان کا) خطرہ ہو تو اِسے دریا میں ڈال دینا اور کوئی اندیشہ اور غم نہ کرنا، ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اِس کو ہم واپس تمھارے پاس پہنچا دیں گے اور اِسے پیغمبروں میں سے (ایک پیغمبر) بنائیں گے

موسیٰ قبطی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: میں نے اُسے پانی سے نکالا۔ بائیبل اور تالمود، دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا یہ نام فرعون کے گھر میں رکھا گیا تھا۔ اُن کے والد کا نام اِن کتابوں میں عمرام بتایا گیا ہے۔ قرآن اِسی کا تلفظ عمران کرتا ہے۔ وہ حضرت یعقوب کے بیٹے لاوی کی اولاد میں سے تھے۔

الہام و القا یا رؤیا کے ذریعے سے کوئی بات کسی کے دل میں ڈال دی جائے تو قرآن کی زبان میں وحی کا لفظ اُس کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پیغمبر نہیں تھیں، اِس لیے یہاں اِس لفظ کو اِسی مفہوم میں لینا چاہیے۔
بائیبل کی کتاب خروج میں ہے کہ فرعون اور اُس کے اعیان نے پہلے دائیوں کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیں ، لیکن جب اِس میں کچھ زیادہ کامیابی نہیں ہوئی تو قبطیوں کو عام حکم دے دیا گیا کہ جہاں دیکھیں کہ بنی اسرائیل کے ہاں کوئی بیٹا پیدا ہوا ہے، اُسے اٹھائیں اور دریا میں پھینک دیں۔* چنانچہ اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ بچے کو چھپائے رکھو، لیکن جب یہ ممکن نہ رہے تو اپنے ہاتھوں سے اُسے دریا میں ڈال دینا اور کوئی اندیشہ نہ کرنا، ہم اِسی کو تمھارے بچے کے لیے نجات کی راہ بنا دیں گے۔
_____
* ۱: ۱۵۔۲۲۔

ابو الاعلی مودودی

ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو اشارہ کیا کہ ” اس کو دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس واپس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے۔ ”

بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا ہے کہ انہی حالات میں ایک اسرائیلی والدین کے ہاں وہ بچہ پیدا ہوگیا جس کو دنیا نے موسیٰ (علیہ السلام) کے نام سے جانا۔ بائیبل اور تلمود کے بیان کے مطابق یہ خاندان حضرت یعقوب کے بیٹھے لاوی کی اولاد میں سے تھا۔ حضرت موسیٰ کے والد کا نام ان دونوں کتابوں میں عمرام بتایا گیا ہے، قرآن اسی کا تلفظ عمران کرتا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ان کے ہاں دو بچے ہوچکے تھے، سب سے بڑی لڑکی مریم (Miriam) نامی تھیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ ان سے چھوٹے حضرت ہارون تھے، غالبا یہ فیصلہ کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بیٹھا پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے، حضرت ہارون کی پیدائش کے زمانے میں نہیں ہوا تھا، اس لیے وہ بچ گئے، پھر یہ قانون جاری ہوا اور اس خوفناک زمانے میں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی۔

یعنی پیدا ہوتے ہی دریا میں ڈال دینے کا حکم نہ تھا، بلکہ ارشاد یہ ہوا کہ جب تک خطرہ نہ ہو بچے کو دودھ پلاتی رہو۔ جب راز فاش ہوتا نظر آئے اور اندیشہ ہو کہ بچے کی آواز سن کر یا اور کسی طرح دشمنوں کو اس کی پیدائش کا علم ہوجائے گا۔ یا خود بنی اسرائیل ہی میں سے کوئی کمینہ آدمی مخبری کر بیٹھے گا تو بےخوف و خطر اسے ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دینا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پیدائش کے بعد تین مہینے تک حضرت موسیٰ کی والدہ ان کو چپھائے رہیں، تلمود اس پر اضافہ کرتی ہے کہ فرعون کی حکومت نے اس زمانے میں جاسوس عورتیں چھوڑ رکھی تھیں جو اسرائیلی گھروں میں اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے لے جاتی تھیں اور وہاں کسی نہ کسی طرح ان بچوں کو رلا دیتی تھیں تاکہا گر کسی اسرائیلی نے اپنے ہاں کوئی بچہ چھپا رکھا ہو تو وہ بھی دوسرے بچے کی آواز سن کر رونے لگے۔ اس نئے طرز جاسوسی سے حضرت موسیٰ کی والدہ پریشان ہوگئیں اور انہوں نے اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے پیدائش کے تین مہینے بعد اسے دریا میں ڈال دیا۔ اس حد تک ان دونوں کتابوں کا بیان قرآن کے مطابق ہے، اور دریا میں ڈالنے کی کیفیت بھی انہوں نے وہی بتائی ہے جو قرآن میں بتائی گئی ہے، سورة طہ میں ارشاد ہوا ہے اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ فَاقْذِفِيْهِ فِي الْيَمِّ ، ” بچے کو ایک تابوب میں رکھ کر دریا میں ڈال دے “۔ اسی کی تائید بائیبل اور تلمود بھی کرتی ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنایا اور اسے چکنی مٹی اور رال سے لیپ کر پانی سے محفوظ کردیا، پھر اس میں حضرت موسیٰ کو لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ لیکن سب سے بڑی بات جو قرآن میں بیان کی گئی ہے اس کا کوئی ذکر اسرائیلی روایات میں نہیں ہے، یعنی یہ کہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے یہ کام اللہ تعالیٰ کے اشارے پر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کو یہ اطمینان دلا دیا تھا کہ اس طریقے پر عمل کرنے میں نہ صرف یہ کہ تمہارے بچے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ ہم بچے تمہارے پاس ہی پلٹا لائیں گے، اور یہ کہ تمہارا یہ بچہ آگے چل کر ہمارا رسول ہونے والا ہے۔

جونا گڑھی

ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج نہ کرنا ہم یقیناً اسے تیری طرف لٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں۔

  وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے، جو انبیاء پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے ام موسیٰ (علیہ السلام) کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آجاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں واقع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء) 

٧۔ ٢ یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہوجانے سے ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔ 

٧۔ ٣ یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہوجائے اور مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑجائیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کردیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں ؛ حضرت ہارون (علیہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہ کئے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) قتل والے سال پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سروسامان پیدا فرما دیا۔ کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آجائیں اس لئے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہوگیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا۔ جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی والقاء کے ذریعے سے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو سمجھا دیا چنانچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر) 

فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ۗ إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ

امین احسن اصلاحی

تو فرعون کے گھر والوں نے اس کو اٹھا لیا کہ وہ ان کے لیے دشمن اور باعث غم بنے۔ بے شک فرعون و ہامان اور ان کے اہل لشکر سے بڑی چوک ہوئی

حضرت موسیٰؑ شاہی محل میں: اتنی بات بربنائے قرینہ یہاں پر حذف ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی والدہ نے جب خطرہ محسوس کیا تو ہدایت خداوندی کے مطابق بچے کو سرکنڈے کے ایک صندوق میں رکھ کر صندوق کو دریائے نیل کے حوالہ کر دیا۔ تورات کی مذکورہ بالا روایت پر اعتماد کیجیے تو واقعہ کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ تین ماہ تک تو انھوں نے بچے کو کسی نہ کسی طرح چھپائے رکھنے کی کوشش کی لیکن بالآخر انھیں یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ تدبیر کارگر ہونے والی نہیں ہے۔ چنانچہ ناچار انھیں وہ اقدام کرنا پڑا جس کا ذکر اوپر ہوا۔ دریائے نیل اسرائیلیوں کی بستی کے پاس سے گزرتا ہوا فرعون کے محل کی طرف جاتا تھا۔ وہاں دریا کی موجوں نے صندوق کو کنارے پر ڈال دیا۔ فرعون کے گھر کے لوگوں کی نظر اس پر پڑ گئی۔ انھوں نے جب دیکھا کہ صندوق میں ایک موہنا بچہ پڑا ہوا ہے تو بادشاہ اور ملکہ کے حکم سے بچے کو شاہی محل میں لایا گیا۔ فرعون کی بیوی، جیسا کہ سورۂ تحریم سے واضح ہے، نہایت نیک دل تھیں۔ انھوں نے کہا اس بچے کو قتل نہ کرو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہم کو نفع پہنچائے یا ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنا لیں۔ اس طرح حضرت موسیٰؑ شاہی محل میں پہنچ گئے اور بادشاہ اور ملکہ دونوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گئے۔ یہاں لفظ ’آل‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب صندوق میں پڑے ہوئے ایک بچے کا ذکر شاہی محل تک پہنچا تو خاندان شاہی کے تمام چھوٹے بڑے موقع پر پہنچ گئے اور سب اس کو اٹھا کر محل میں لائے۔

تقدیر الٰہی کے بھید کسی کو معلوم نہیں: ’لِیَکُونَ لَہُمْ عَدُوّاً وَحَزَناً‘۔ اس ’ل‘ کی وضاحت ہم دوسرے مقام میں کر چکے ہیں کہ یہ غایت و انجام کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ انھوں نے تو بچے کو اس لیے اٹھایا کہ وہ ان کے لیے، جیسا کہ آگے ملکہ کے قول سے واضح ہو گا، آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا لیکن تقدیر الٰہی کا یہ بھید ان کو نہیں معلوم تھا کہ اس بچے کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔
’إِنَّ فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَجُنُودَہُمَا کَانُوا خَاطِئِیْنَ‘۔ یہ فرعون، ہامان اور ان کے فوجیوں کے رویے پر عام تبصرہ ہے کہ وہ اپنی حماقت کے سبب سے یہ سمجھے کہ تمام اختیار و اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بنی اسرائیل کو ہمیشہ اسی طرح دبائے رکھیں گے۔ انھیں کیا خبر تھی کہ اگر خدا چاہے گا تو ان کے سب سے بڑے قامع کی پرورش ان کے شاہی محل میں، خود بادشاہ اور ملکہ کے ہاتھوں کرائے گا! اوپر آیت ۶ کے مضمون پر ایک نظر ڈال لیجیے۔

جاوید احمد غامدی

(اُسے بالآخر یہی کرنا پڑا)، پھرفرعون کے گھر والوں نے (دریا میں بہتے دیکھ کر) اُس کو اٹھا لیا کہ(خدا کی بات پوری ہو اور اِس کے نتیجے میں) وہ اُن کا دشمن اور اُن کے لیے باعث غم بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر بڑے خطاکار تھے (کہ اپنے آپ کو تمام اختیار و اقتدار کا مالک سمجھتے رہے)

بائیبل میں ہے:

’’...وہ عورت حاملہ ہوئی اور اُس کے بیٹا ہوا اور اُس نے یہ دیکھ کر کہ بچہ خوب صورت ہے، تین مہینے تک اُسے چھپا کر رکھا۔ اور جب اُسے اور زیادہ چھپا نہ سکی تو اُس نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا لیا اور اُس پر چکنی مٹی اور رال لگا کر لڑکے کو اُس میں رکھا اور اُسے دریا کے کنارے جھاؤ میں چھوڑ آئی۔‘‘(خروج ۲: ۲۔۳)

یہ اِس لیے ممکن ہوا کہ دریاے نیل بنی اسرائیل کی بستیوں سے گزرتا ہوا شاہی محلات کی طرف جاتا تھا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام جس ٹوکرے میں تھے، اُسے دریا کی سیر کرتے ہوئے خود بادشاہ اور ملکہ نے یا اُن کے خدام نے دیکھا اور دریا سے نکال لیا۔
اصل الفاظ ہیں: ’لِیَکُوْنَ لَھُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا‘۔ اِن میں ’ل‘ اُن کے مقصد کو نہیں، بلکہ فعل کی غایت اور انجام مقدر کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اُنھوں نے سوچا ہی نہیں کہ کائنات کا اصل مالک خدا ہے اور وہ اگر چاہے گا تو اُن کے سب سے بڑے قامع کی پرورش اُنھی کے ہاتھوں کرا کے اُنھیں اُن کے انجام مقدر تک پہنچا دے گا، اور یہی بہت بڑی غلطی تھی۔

ابو الاعلی مودودی

آخرکار فرعون کے گھر والوں نے اسے ﴿دریا سے ﴾ نکال لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے سبب رنج بنے، واقعی فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر ﴿اپنی تدبیر میں﴾ بڑے غلط کار تھے۔

یہ ان کا مقصد نہ تھا بلکہ یہ ان کے اس فعل کا انجام مقدر تھا، وہ اس بچے کو اٹھا رہے تھے جس کے ہاتھوں آخر کار انہیں تباہ ہونا تھا۔

جونا گڑھی

آخر فرعون کے لوگوں نے اس بچے کو اٹھا لیا کہ آخرکار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے رنج کا باعث بنا کچھ شک نہیں کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطا کار ۔

 یہ تابوت بہتا بہتا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لب دریا تھا اور وہاں فرعون کے نوکروں چاکروں نے پکڑ کر باہر نکال لیا۔ 

یہ عاقبت کے لئے ہے۔ یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کرلیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر۔ لیکن انجام ان کے اس فعل کا یہ ہوا کہ وہ ان کا دشمن اور رنج و غم کا باعث، ثابت ہوا۔ 

 یہ اس سے پہلے کی تعلیل ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے لئے دشمن کیوں ثابت ہوئے ؟ اس لئے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطا کار تھے، اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے پروردہ کو ہی ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دیا۔ 

وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

امین احسن اصلاحی

اور فرعون کی بیوی نے کہا، یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اس کو قتل نہ کرو۔ کیا عجب کہ یہ ہم کو نفع پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا ہی بنا لیں اور ان کو انجام کی کچھ خبر نہ تھی

فرعون کی بیوی نہایت نیک دل تھیں: ملکہ نے جب بچے کو دیکھا تو اس موہنی صورت پر قربان ہو گئیں۔ فرعون سے کہا، یہ تو میری اور تمہاری دونوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اس کو قتل نہ کرو۔ امید ہے یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا ہی بنا لیں۔ ملکہ کے متعلق دوسرے مقام میں ہم یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ نہایت نیک دل اور فرعون کے رویہ سے سخت بیزار تھیں۔ ’عَسٰٓی أَن یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَدًا‘ یہ بعینہٖ وہی بات ہے، جو عزیز مصر نے، حضرت یوسفؑ سے متعلق، اپنی بیوی کو خطاب کر کے کہی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک ملکہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور اگر تورات کے بیان کو باور کر لیا جائے کہ جس نے حضرت موسیٰؑ کے صندوق کو سب سے پہلے دیکھا وہ فرعون کی لڑکی تھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت ان کے ہاں کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ اس وجہ سے انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اول تو اس شکل و صورت کا بچہ فوائد و برکات سے خالی نہیں ہو سکتا، پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر کسی اولاد نرینہ کے لیے ہماری امید پوری نہ ہوئی تو ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنا لیں گے۔ ’وَہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ‘ یعنی بادشاہ اور ملکہ یہ سوچ رہے تھے، انھیں کچھ خبر نہیں تھی کہ قدرت اس پردے میں اپنی کیا شان دکھانے والی ہے!

جاوید احمد غامدی

فرعون کی بیوی نے (بچے کو دیکھا تو فرعون سے) کہا: یہ تو میری اور تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، تم لوگ اِسے قتل نہ کرو۔ کیا عجب کہ یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اِسے بیٹا ہی بنا لیں۔ (وہ یہ باتیں کر رہے تھے) اور اُنھیں کچھ خبر نہ تھی (کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے)

فرعون کے ہاں غالباً کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور یہ ملکہ نہایت نیک دل خاتون تھیں۔ قرآن نے دوسری جگہ بتایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑی موہنی صورت عطا فرمائی تھی۔ جو دیکھتا، اُسے بے اختیار پیار آ جاتا تھا۔ چنانچہ ملکہ بھی اِس موہنی صورت پر قربان ہو گئیں اور اُنھوں نے فرعون سے وہ بات کہی جو یہاں نقل ہوئی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

فرعون کی بیوی نے ﴿اس سے﴾ کہا ” یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، کیا عجب کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو، یا ہم اسے بیٹا ہی بنالیں۔ ” اور وہ ﴿انجام سے﴾ بیخبر تھے۔

اس بیان سے جو صورت معاملہ صاف سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تابوت یا ٹوکرا دریا میں بہتا ہوا جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے، تو فرعون کے خدام نے اسے پکڑ لیا اور لے جاکر بادشاہ اور ملکہ کے سامنے پیش کردیا۔ ممکن ہے کہ بادشاہ اور ملکہ خود اس وقت دریا کے کنارے سیر میں مشغول ہوں اور ان کی نگاہ اس ٹوکرے پر پڑی ہو اور انہی کے حکم سے وہ نکالا گیا ہو۔ اس میں ایک بچہ پڑا ہوا دیکھ کر بآسانی یہ قیاس کیا جاسکتا تھا کہ یہ ضرور کسی اسرائیلی کا بچہ ہے، کیونکہ وہ ان محلوں کی طرف سے آرہا تھا جن میں بنی اسرائٰل رہتے تھے، اور انہی کے بیٹے اس زمانے میں قتل کیے جارہے تھے، اور انہی کے متعلق یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ کسی نے بچے کو چھپا کر کچھ مدت تک پالا ہے اور پھر جب وہ زیادہ دیر چھپ نہ سکا تو اب اسے اس امید پر دریا میں ڈال دیا ہے کہ شاید اسی طرح اس کی جان بچ جائے اور کوئی اسے نکال کر پال لے۔ اسی بنا پر کچھ ضرورت سے زیادہ وفادار غلاموں نے عرض کیا کہ حضور اسے فورا قتل کرادیں، یہ بھی کوئی بچہ افعی ہی ہے، لیکن فرعون کی بیوی آخر عورت تھی اور بعید نہیں کہ بےاولاد ہو، پھر بچہ بھی بہت پیاری صورت کا تھا، جیسا کہ سورة طہ میں اللہ تعالیٰ خود حضرت موسیٰ کو بتاتا ہے کہ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ( میں نے اپنی طرف سے تیرے اوپر محبت ڈال دی تھی) یعنی تجھے ایسی موہنی صورت دی تھی کہ دیکھنے والوں کو بےاختیار تجھ پر پیار آجاتا تھا اس لیے اس عورت سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو بلکہ لے کر پال لو۔ یہ جب ہمارے ہاں پرورش پائے گا اور ہم اسے اپنا بیٹھا بنا لیں گے تو اسے کیا خبر ہوگی کہ میں اسرائیلی ہوں۔ یہ اپنے آپ کو آل فرعون ہی کا ایک فرد سمجھے گا اور اس کی قابلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کام آئیں گی۔

بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ عورت جس نے حضرت موسیٰ کو پالنے اور بیٹا بنانے کے لیے کہا تھا فرعون کی بیٹی تھی۔ لیکن قرآن صاف الفاظ میں اسے ” امرأۃ فرعون ” (فرعون کی بیوی) کہتا ہے اور ظاہر ہے کہ صدیوں بعد مرتب کی ہوئی زبانی روایات کے مقابلے میں براہ راست اللہ تعالیٰ کا بیان ہی قابل اعتماد ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ خواہ مخواہ اسرائیلی روایات سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر عربی محاورہ و استعمال کے خلاف امرأۃ فرعون کے معنی ” فرعون کے خاندان کی عورت ” کیے جائیں۔

جونا گڑھی

اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنالیں اور یہ لوگ شعور ہی نہیں رکھتے تھے ۔

یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین و جمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لئے تھے تو فرعوں نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لئے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔

 کیونکہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔ 

 کہ یہ بچہ جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لئے سینکڑوں بچوں کو موت کی نید سلا دیا گیا ہے۔ 

وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِغًا ۖ إِنْ كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

امین احسن اصلاحی

اور موسیٰؑ کی ماں کا دل بالکل بے چین ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ اس کے راز کو ظاہر کر دیتی اگر ہم اس کے دل کو نہ سنبھالتے کہ وہ اہل ایمان میں سے بنی رہے

آزمائشوں میں اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ: حضرت موسیٰؑ کی والدہ نے جب کوئی مفر نہ دیکھا تو جی کڑا کر کے صندوق دریا میں ڈالنے کو تو ڈال دیا لیکن اس کے بعد ان پر جو کچھ گزری یہ اس کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا دل صبر و قرار سے بالکل خالی ہو گیا۔ قریب تھا کہ بے صبری میں ان سے کوئی ایسی بات صادر ہو جائے جس سے سارا راز فاش ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو سنبھال لیا تاکہ جس دولت ایمان سے وہ بہرہ مند تھیں اس پر اس آزمائش میں بھی وہ ثابت قدم رہیں، انسان بہرحال انسان ہے۔ کسی ماں کے لیے خود اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کو دریا کی موجوں کے حوالہ کر دینا کوئی آسان بازی نہیں ہے۔ اگرچہ ایک اشارۂ غیبی کا سہارا ان کو حاصل تھا اور یہ سہارا نہ ہوتا تو بھلا وہ اس کا تصور بھی کس طرح کر سکتی تھیں تاہم جب اپنا حال یہ ہے کہ اس واقعہ کے تصور کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ دل سینہ سے نکل پڑے گا تو اس وقت حضرت موسیٰؑ کی والدہ کے دل پرجو کچھ گزر رہی ہو گی اس کا اندازہ ان کے رب کے سوا اور کون کر سکتا ہے! لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس نازک موقع پر سنبھالا اور وہی سنبھال سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور بندیوں کو امتحان میں تو ڈالتا ہے کہ یہ امتحان اس کی سنت ہے اور یہ امتحان درجے اور مرتبے کے اعتبار سے سخت سے سخت تر بھی ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی یہ سنت بھی ہے کہ جو لوگ اس کے امتحان کی راہ میں بازی کھیل جاتے ہیں وہ ان کو سنبھالتا بھی ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی والدہ ماجدہ نے چونکہ بچے کو دریا کی موجوں کے حوالہ کر کے اپنے ایمان و توکل کی شہادت دے دی تھی اس وجہ سے آگے کے مرحلے میں خود رب کریم نے ان کے دل کو سنبھال لیا کہ ان کے اس ایمان و توکل کی لاج قائم رہے، کوئی ایسی بات صادر نہ ہونے پائے جو اس کے منافی ہو۔ اپنے باایمان بندوں اور بندیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یوں ہی ہے لیکن اس کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں!

جاوید احمد غامدی

(اُدھر) موسیٰ کی ماں کا دل بالکل بے قرار ہو گیا۔ اگر ہم اُس کے دل کو نہ سنبھالتے کہ اُس کو (ہمارے وعدے کا) یقین رہے تو وہ اُس کا راز فاش کر بیٹھتی

یعنی خدا کے اشارے سے بچے کو دریا کے حوالے کر کے اُس نے جس ایمان و توکل کی شہادت دی تھی، اُس کی لاج قائم رہے۔ اپنے مومن بندوں اور بندیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یوں ہی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور بندیوں کو امتحان میں تو ڈالتا ہے کہ یہ امتحان اُس کی سنت ہے ،اور یہ امتحان درجے اور مرتبے کے اعتبار سے سخت سے سخت تر بھی ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی اُس کی یہ سنت بھی ہے کہ جو لوگ اُس کے امتحان کی راہ میں بازی کھیل جاتے ہیں، وہ اُن کو سنبھالتا بھی ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۶۶۱)

ابو الاعلی مودودی

ادھر موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا دل اڑا جا رہا تھا۔ وہ اس کا راز فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھا دیتے تاکہ وہ ﴿ہمارے وعدے پر﴾ ایمان لانے والوں میں سے ہو۔

​n/a

جونا گڑھی

موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کا دل بےقرار ہوگیا قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں رہے

 یعنی ان کا دل ہر چیز اور فکر سے فارغ (خالی) ہوگیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بےقراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 

 یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کردیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کرلیا کہ اللہ نے اس موسیٰ (علیہ السلام) کو بخریت واپس لٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہوگا۔ 

Page 1 of 9 pages  1 2 3 >  Last ›