(یہ قیامت کو جھٹلاتے ہیں)؟ نہیں، میں قیامت کے دن کو گواہی میں پیش کرتا ہوں۔
ہم اپنی زبان میں فوراً کسی بات کی تردید کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں: نہیں، خدا کی قسم اصل بات یوں ہے۔ یہ بالکل اِسی طرح کا اسلوب ہے۔ لہٰذا ’نہیں‘ یہاں گواہی کی نفی کے لیے نہیں، بلکہ مخاطب کے اُس خیال کی نفی کے لیے آیا ہے جس کی تردید اِس گواہی سے پیش نظر ہے۔
اصل میں یہاں قسم کا اسلوب ہے جس کا مقسم علیہ محذوف ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ قسم خود مقسم علیہ پر اِس طرح دلالت کر رہی ہے کہ اُس کے اظہار کی ضرورت نہیں رہی۔ قسم کا یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب مخاطب کو یہ بتانا مقصود ہو کہ وہ جس چیز کو جھٹلا رہا ہے، وہ خود اپنے وجود پر اِس طرح گواہی دے رہی ہے کہ کسی عاقل کے لیے اُس سے انکار کی گنجایش نہیں ہے۔ گویا جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے، اُس نے بجاے خود دعویٰ اور دلیل اور قسم اور مقسم علیہ، دونوں کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔
نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی،
کلام کی ابتدا نہیں سے کرنا خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے سے کوئی بات چل رہی تھی جس کی تردید میں یہ سورة نازل ہوئی ہے اور آگے کا مضمون آپ ہی ظاہر کردیتا ہے کہ وہ بات قیامت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں تھی جس کا اہل مکہ انکار کرر ہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ مذاق بھی اڑا رہے تھے۔ اس طرز بیان کو اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر آپ محض رسول کی صداقت کا اقرار کرنا چاہتے ہوں تو آپ کہیں گے ” خدا کی قسم رسول برحق ہے “۔ لیکن اگر کچھ رسول کی صداقت کا انکار کر رہے ہوں تو آپ جواب میں اپنی بات یوں شروع کریں گے کہ ” نہیں، خدا کی قسم رسول برحق ہے “۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہوں وہ صحیح نہیں ہے، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے۔
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ۔
میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، قیامت کے دن کی قسم کھانے کا مقصد اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح کرنا ہے۔
اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گر کی!
نفس لوامہ کی شہادت قیامت پر: یہ دوسری قسم ہے اور اس کا مقسم علیہ بھی مذکور نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقسم علیہ خود قسم کے اندر ہی مضمر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر نفس لوامہ کا وجود شاہد ہے کہ قیامت حق ہے۔ گویا اس دوسری قسم نے قسم ہی کے پیرایہ میں دعوے اور دلیل دونوں کی وضاحت کر دی اور اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ قیامت کسی خارجی دلیل کی محتاج نہیں ہے۔ اس کا عکس ہر انسان کے اپنے باطن کے اندر موجود ہے اور وہ اس کو دیکھتا بھی ہے اگرچہ اس کی تردید میں کتنی ہی دلیل بازیاں کرے۔
’نفس لوامہ‘ سے مراد کوئی علیحدہ اور مستقل نفس نہیں ہے بلکہ یہ نفس انسانی ہی کا ایک پہلو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کی تشکیل اس طرح فرمائی ہے کہ اس کے اندر نیکی اور بدی دونوں کا شعور ودیعت فرمایا ہے اور اس کی سعادت و شقاوت کے لیے ضابطہ یہ ٹھہرایا ہے کہ جو اپنے نفس کو برائیوں سے پاک رکھے گا وہ فلاح پانے والا بنے گا اور جو اس کو برائیوں سے آلودہ رکھے گا وہ نامراد ہو گا۔ سورۂ شمس میں اس کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا ۵ فَأَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقْوَاہَا ۵ قَدْ أَفْلَحَ مَنۡ زَکَّاہَا ۵ وَقَدْ خَابَ مَنۡ دَسَّاہَا (الشمس ۹۱: ۷-۱۰)
’’اور شاہد ہے نفس اور اس کی تشکیل۔ پس اس کو الہام کر دی اس کی بدی اور نیکی۔ جس نے اس کو پاک رکھا اس نے فلاح پائی اور جس نے اس کو آلودہ رکھا وہ نامراد ہوا۔‘‘
اپنی تشکیل کی اس نوعیت کے سبب سے نفس بعض اوقات اپنی خواہشوں سے مغلوب ہو کر اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور وہ انسان کو کسی برائی پر آمادہ کر دیتا ہے۔ نفس کے اس رجحان کو قرآن میں نفس امارہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے نفس کے اس پہلو کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِیْ إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَۃٌ بِالسُّوۡءِ (یوسف ۱۲: ۵۳)
’’اور میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہراتا۔ نفس بڑا ہی برائی کی راہ سمجھانے والا ہے۔‘‘
لیکن یہ نفس نیکیوں کا شعور بھی رکھتا ہے، اس وجہ سے جب تک اس کا توازن برقرار رہتا ہے اس وقت تک وہ اپنے کو بھی، اگر اس سے کوئی برائی صادر ہو جاتی ہے، ملامت کرتا ہے اور دوسروں کی برائیوں کو دیکھ کر بھی کڑھتا اور بسا اوقات ملامت کرتا ہے۔ نفس کے اسی پہلو کو یہاں نفس لوامہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
نفس کے توازن کو قائم رکھنے کی تدبیر: نفس کے توازن کو درست رکھنے کی تدبیر اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ آدمی برابر اپنے رب اور روز جزا و سزا کو یاد رکھے۔ یہ یاد نفس کے توازن کو درست رکھتی ہے اور وہ کبھی اس کی خواہشوں سے اتنا مغلوب نہیں ہوتا کہ بالکل ان کے آگے سپرانداز ہو جائے۔ اگر کبھی کوئی لغزش ہو جاتی ہے تو نفس لوامہ اس کو فوراً ٹوکتا ہے اور وہ متنبہ ہو کر توبہ و انابت سے اس داغ کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جس نفس کے اندر یہ توازن پیدا ہو جائے قرآن نے اس کو نفس مطمئنہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ تربیت نفس کا سب سے اونچا مرتبہ یہی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دعوت دی ہے اور شریعت کے ذریعہ سے جس کا اہتمام فرمایا ہے۔ اسی نفس کو آخرت میں ’رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃ‘ کا مقام حاصل ہو گا جو نفس انسانی کی معراج ہے۔
بدی کے بدی ہونے کا شعور انسان کی فطرت کے اندر موجود ہے: اس تفصیل سے واضح ہوا کہ بدی کے بدی ہونے کا شعور انسان کی فطرت کے اندر روز اول سے ودیعت ہے۔ آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے حسد سے مغلوب ہو کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل تو کر دیا لیکن قتل کر دینے کے بعد اس کی لاش کو چھپانے کی بھی کوشش کی۔ یہ کوشش ظاہر ہے کہ اسی وجہ سے اسے کرنی پڑی کہ اس کے گناہ ہونے کا اسے احساس ہوا۔ برے سے برا آدمی بھی گناہ کرتا ہے تو اس کو نیکی سمجھ کر نہیں کرتا بلکہ جذبات اور خواہشوں سے مغلوب ہو کر ہی کرتا ہے۔ اگر اس گناہ کے معاملے میں وہ اپنے نفس کو الاؤنس بھی دیتا ہے تو یہ بھی اپنی فطرت کے خلاف دیتا ہے اس لیے کہ وہی برائی اگر کوئی دوسرا اس کے ساتھ کر بیٹھتا ہے تو وہ اس کو برائی ٹھہراتا اور اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔ بروں کے ضمیر کو ٹٹولیے تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر بھی احترام اور عزت نیکی ہی کے لیے ہے اگرچہ ان کا عمل اس کے خلاف ہے۔ انسان نے جب سے معاشرتی و اجتماعی زندگی کی کوئی شکل اختیار کی ہے اس کے اندر اس نے حق و انصاف کے قیام کے لیے لازماً ایک نظام بھی قائم کیا ہے۔ اگرچہ بسا اوقات بعض برائیوں نے معاشرے پر ایسا غلبہ پا لیا ہے کہ نیکیاں ان کے نیچے دب گئی ہیں، لیکن معاشرے کا مجموعی ضمیر اس پر کبھی راضی نہیں ہوا بلکہ اس کے اندر ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنھوں نے معاشرے کے اندر وہی فریضہ انجام دیا ہے جو ہر صحیح الفطرت انسان کے اندر اس کا نفس لوامہ انجام دیتا ہے۔ اگر معاملہ اس حد سے گزر گیا ہے یعنی نیکی کی کوئی رمق سرے سے باقی ہی نہیں رہ گئی ہے تو قانون قدرت نے اس معاشرے کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہے۔
چند سوال اور ان کے جواب: اب سوال یہ ہے کہ جب انسان خود اپنے ضمیر کے اندر ایک نگران رکھتا ہے جو اس سے صادر ہو جانے والی برائیوں پر اس کو ٹوکتا رہتا ہے، تو اس کے لیے یہ تصور کرنا کس طرح معقول قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک شتر بے مہار ہے، جس طرح کی زندگی وہ چاہے بسر کرے اور جس قدر چاہے اس نگران کی مخالفت کرے لیکن کوئی اس سے بازپرس کرنے کا حق نہیں رکھتا؟ اگر انسان شتر بے مہار ہے تو یہ نفس لوامہ اس کے اندر کہاں سے آ گھسا؟ اگر اس کا خالق لوگوں کی نیکی اور بدی دونوں سے بے تعلق ہے تو اس نے نیکی کی تحسین اور بدی پر سرزنش کے لیے انسان کے اندر یہ خلش کیوں اور کہاں سے ڈال دی؟ پھر یہیں سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب اس نے ہر انسان کے اندر یہ چھوٹی سی عدالت قائم کر رکھی ہے تو اس پورے عالم کے لیے وہ ایک ایسی عدالت کبریٰ کیوں نہ قائم کرے گا جو سارے عالم کے اعمال خیر و شر کا احتساب کرے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے؟ ان سوالوں پر جو شخص خواہشوں سے آزاد ہو کر غور کرے گا وہ ان کا یہی جوا ب دے گا کہ بے شک انسان کا اپنا وجود گواہ ہے کہ وہ خیر و شر کے شعور کے ساتھ پیدا ہوا ہے، وہ شتر بے مہار نہیں ہے بلکہ اس کے لیے لازماً ایک پرسش کا دن آنے والا ہے جس میں اس کو اس کی بدیوں کی سزا ملے گی اگر اس نے یہ بدیاں کمائی ہوں گی اور نیکیوں کا صلہ ملے گا اگر اس نے نیکیاں کی ہوں گی۔ اسی دن کی یاددہانی ہی کے لیے خالق نے اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ خود انسان کے نفس کے اندر رکھ دیا ہے تاکہ انسان اس سے غافل نہ رہے اور اگر کبھی غفلت ہو جائے تو خود اپنے نفس کے اندر جھانک کر اس کی تصویر دیکھ لے۔ یہی حقیقت حکماء اور عارفین نے یوں سمجھائی ہے کہ انسان ایک عالم اصغر ہے جس کے اندر اس عالم اکبر کا پورا عکس موجود ہے، اگر انسان اپنے کو صحیح طور پر پہچان لے تو وہ خدا اور آخرت سب کو پہچان لیتا ہے۔ سقراط کا مقولہ مشہور ہے کہ ’’اے انسان! تو اپنے کو پہچان!‘‘
اور نہیں، میں (تمھارے اندر تمھارے) ملامت کرنے والے نفس کو گواہی میں پیش کرتا ہوں۔
یہ پہلے ’نہیں‘ پر عطف ہے جس کی وضاحت اوپر ہوئی ہے۔
یہ دوسری قسم ہے ۔ اِس کا مقسم علیہ بھی حذف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر اُس کا ضمیر جو اُسے برائیوں پر متنبہ کرتا ہے، اپنے وجود ہی سے گواہی دیتا ہے کہ قیامت ہو کر رہے گی۔ اِس کی تقریر اِس طرح ہے کہ انسان کے اندر ایک ملامت کرنے والا نفس برائی پر سرزنش کے لیے ہر وقت موجود ہے۔ اُس کے باطن کی یہ عدالت ہر موقع پر اپنا بے لاگ فیصلہ سنا رہی ہے۔ اِس کے معنی ہی یہ ہیں کہ انسان شتر بے مہار نہیں ہے۔ پھر جب وہ شتر بے مہار نہیں ہے تو لازم ہے کہ اُس سے باز پرس ہو۔ قیامت کا دن اللہ تعالیٰ نے اِسی بازپرس کے لیے مقرر کر رکھا ہے جس کی خبر اُس کے پیغمبر ہمیشہ دیتے رہے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اگر انسان شتر بے مہار ہے تو یہ نفس لوامہ اُس کے اندر کہاں سے آ گھسا؟ اگر اُس کا خالق لوگوں کی نیکی اور بدی، دونوں سے بے تعلق ہے تو اُس نے نیکی کی تحسین اور بدی پر سرزنش کے لیے انسان کے اندر یہ خلش کیوں اور کہاں سے ڈال دی؟ پھر یہیں سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب اُس نے ہر انسان کے اندر یہ چھوٹی سی عدالت قائم کر رکھی ہے تو اُس پورے عالم کے لیے وہ ایک ایسی عدالت کبریٰ کیوں نہ قائم کرے گا جو سارے عالم کے اعمال خیر و شر کا احتساب کرے اور ہر شخص کو اُس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے؟ اِن سوالوں پر جو شخص خواہشوں سے آزاد ہو کر غور کرے گا، وہ اِن کا یہی جواب دے گا کہ بے شک انسان کا اپنا وجود گواہ ہے کہ وہ خیر و شر کے شعور کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ وہ شتر بے مہار نہیں ہے، بلکہ اُس کے لیے لازماً ایک پرسش کا دن آنے والا ہے جس میں اُس کو اُس کی بدیوں کی سزا ملے گی، اگر اُس نے یہ بدیاں کمائی ہوں گی اور نیکیوں کا صلہ ملے گا، اگر اُس نے نیکیاں کی ہوں گی۔ اُسی دن کی یاددہانی ہی کے لیے خالق نے اُس کا ایک چھوٹا سا نمونہ خود انسان کے نفس کے اندر رکھ دیا ہے تاکہ انسان اُس سے غافل نہ رہے اور اگر کبھی غفلت ہوجائے تو خود اپنے نفس کے اندر جھانک کر اُس کی تصویر دیکھ لے۔ یہی حقیقت حکما اور عارفین نے یوں سمجھائی ہے کہ انسان ایک عالم اصغر ہے جس کے اندر اُس عالم اکبر کا پورا عکس موجود ہے۔ اگر انسان اپنے کو صحیح طور پر پہچان لے تو وہ خدا اور آخرت، سب کو پہچان لیتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۸۰)
اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی،
قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں پر اکساتا ہے۔ اس کا نام نفس امارہ ہے۔ دوسرا وہ نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پر نادم ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے۔ اس کا نام نفس لوامہ ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑ دینے میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اس کا نام نفس مطمئنہ ہے۔
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم جس بات پر کھائی ہے اسے بیان نہیں کیا ہے کیونکہ بعد کا فقرہ خود اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ ضرور پیدا کرے گا اور وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات پر ان دو چیزوں کی قسم کس مناسبت سے کھائی گئی ہے ؟
جہاں تک روز قیامت کا تعلق ہے، اس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ یہ نظام نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ اس کی نوعیت ہی خود یہ بتا رہی ہے کہ یہ نہ ہمیشہ سے تھا اور نہ ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے۔ انسان کی عقل پہلے بھی اس گمان بےاصل کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہ پاتی تھی کہ یہ ہر آن بدلنے و الی دنیا کبھی قدیم اور غیر فانی بھی ہو سکتی ہے، لیکن جتنا اس دنیا کے متعلق انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ یہ امر خود انسان کے نزدیک بھی یقینی ہوتا چلا جاتا ہے کہ اس ہنگامئہ ہست و بو کی ایک ابتدا ہے جس سے پہلے یہ نہ تھا، اور لازماً اس کی ایک انتہا بھی ہے جس کے بعد یہ نہ رہے گا۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پر خود قیامت ہی کی قسم کھائی ہے، اور یہ ایسی قسم ہے جیسے ہم کسی شکی انسان کو جو اپنے موجود ہونے ہی میں شک کر رہا ہو، خطاب کر کے کہیں کہ تمہاری جان کی قسم تم موجود ہو، یعنی تمہارا وجود خود تمہارے موجود ہونے پر شاہد ہے۔
لیکن روز قیامت کی قسم صرف اس امر کی دلیل ہے کہ ایک دن یہ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ رہی یہ بات کہ اس کے بعد پھر انسان دوباوہ اٹھایا جائے گا اور اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا اور وہ اپنے کیے کا اچھا یا برا نتیجہ دیکھے گا، تو اس کے لیے دوسری قسم نفس لوامہ کی کھائی گئی ہے۔ کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اس ضمیر میں لازماً بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے بھلائی اور برائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے، اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے، وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے، اور جس برائی کا ارتکاب اس نے دوسرے کے ساتھ کیا ہو اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہو لے، تو اس کے برعکس صورت میں جبکہ اسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اس کے ساتھ کیا ہو، اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔ اب اگر انسان کے وجود میں اس طرح کے ایک نفس لوامہ کی موجودگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہی نفس لوامہ زندگی کے بعد موت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور برے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے ان کی جزا یا سزا اس کو ضرور ملنی چاہیے، زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں پورا نہیں ہو سکتا۔ کوئی صاحب عقل آدمی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ مرنے کے بعد اگر آدمی معدوم ہوجائے تو اس کی بہت سی بھلائیاں ایسی ہیں جن کے اجر سے وہ لازماً محروم رہ جائے گا۔ اور اس کی بہت سی برائیاں ایسی ہیں جن کی منصفانہ سزا پانے سے وہ ضرور بچ نکلے گا۔ اس لیے جب تک آدمی اس بیہودہ بات کا قائل نہ ہو کہ عقل رکھنے والا انسان ایک غیر معقول نظام کائنات میں پیدا ہوگیا ہے اور اخلاقی احساسات رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں جنم لیے بیٹھا ہے جو بنیادی طور پر اپنے پورے نظام میں اخلاق کا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی، اس وقت تک وہ حیات بعد موت کا انکار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح تناسخ یا آواگون کا فلسفہ بھی فطرت کے اس مطالبے کا جواب نہیں ہے۔ کیونکہ اگر انسان اپنے اخلاقی اعمال کی سزا یا جزا پانے کے لیے پھر اسی دنیا میں جنم لیتا چلا جائے تو ہر جنم میں وہ پھر کچھ مزید اخلاقی اعمال کرتا چلا جائے گا جو نئے سرے سے جزا و سزا کے متقاضی ہوں گے۔ اور اس لامتناہی سلسلے میں بجائے اس کے کہ اس کا حساب کبھی چک سکے، الٹا اس کا حساب بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اس لیے فطرت کا یہ تقاضا صرف اسی صورت میں پورا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی صرف ایک زندگی ہو، اور پھر پوری نوع انسانی کا خاتمہ ہوجانے کے بعد ایک دوسری زندگی ہو جس میں انسان کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک حساب کر کے اسے پوری جزا اور سزا دی جائے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف حاشیہ 30) ۔
اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے والا ہو ۔
یعنی بھلائی پر بھی کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائی پر بھی، کہ اس سے باز کیوں نہیں آتا ؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں ان کے نفس انہیں ملامت کرتے ہیں، تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس ملامت کریں گے۔
کیا انسان نے گمان کر رکھا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر پاویں گے!
حقیقت سے فرار کے لیے منکرین قیامت کی سخن سازی: اگرچہ لفظ ’انسان‘ عام ہے لیکن روئے سخن قریش کے انہی منکرین قیامت کی طرف ہے جن کے شبہات پچھلی سورتوں میں زیربحث آئے ہیں۔ ان سے اظہار بیزاری کے لیے بات عام لفظ سے فرما دی ہے۔ فرمایا کہ قیامت کو ثابت کرنے کے لیے یہ شہادت تو ہر انسان کے اپنے اندر ہی موجود ہے۔ اس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ لوگ یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ ان کے مرنے اور سڑ گل جانے کے بعد ہم ان کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر پائیں گے۔ فرمایا کہ اگر یہ چیز ان کو بعید از امکان نظر آئی ہے اور اس بنا پر وہ اپنے ضمیر کی شہادت کے خلاف قیامت کو جھٹلا رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ ہم ان کی ہڈیوں کو صرف جمع ہی نہیں کریں گے بلکہ اس قدرت و کمال کے ساتھ جمع کریں گے کہ ان کے جوڑ جوڑ پور پور ٹھیک کر دیں گے۔ ’بنان‘ انگلیوں کے پور کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی حقیر سے حقیر جزو بھی ایسا نہ ہو گا جس کے جمع کرنے اور جوڑنے سے ہم قاصر رہ جائیں۔ ’قٰدِرِیْنَ‘ حال واقع ہے ’نَجْمَعَ‘ کی ضمیر جمع سے۔
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اِس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟
روے سخن قریش کے منکرین کی طرف ہے، لیکن اُن سے اظہار بے زاری کے لیے بات ایک عام لفظ ’انسان‘ سے فرما دی ہے۔
کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے ؟
اوپر کی دو دلیلیں، جو قسم کی صورت میں بیان کی گئی ہیں، صرف دو باتیں ثابت کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کا خاتمہ (یعنی قیامت کا پہلا مرحلہ) ایک یقینی امر ہے۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوسری زندگی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے ایک اخلاقی وجود ہونے کے منطقی اور فطری تقاضے پورے نہیں ہو سکتے، اور یہ امر ضرور واقع ہونے والا ہے کیونکہ انسان کے اندر ضمیر کی موجودگی اس پر گواہی دے رہی ہے۔ اب یہ تیسری دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ زندگی کے بعد موت ممکن ہے۔ مکہ میں جو لوگ اس کا انکار کرتے تھے وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں، جن کے جسم کا ذرہ ذرہ خاک میں مل کر پراگندہ ہوچکا ہو، جن کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو کر نہ معلوم زمین میں کہاں کہاں منتشر ہوچکی ہوں جن میں سے کوئی جل مرا ہو، کوئی درندوں کے پیٹ میں جا چکا ہو، کوئی سمندر میں غرق ہو کر مچھلیوں کی غذا بن چکا ہو، ان سب کے اجزائے جسم پھر سے جمع ہوجائیں اور ہر انسان پھر وہی شخص بن کر اٹھ کھڑا ہو جو دس بیس ہزار برس پہلے بھی وہ تھا ؟ اس کا نہایت معقول اور انتہائی پر زور جواب اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سے سوال کی شکل میں دے دیا ہے ” کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو کبھی جمع نہ کرسکیں گے ؟ ” یعنی اگر تم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ تمہارے یہ منتشر اجزائے جسم کسی وقت آپ سے آپ جمع ہوجائیں گے اور تم آپ سے آپ اسی جسم کے ساتھ اٹھو گے، تو بلاشبہ تمہارا اس کو ناممکن سمجھنا بجا ہوتا۔ مگر تم سے تو کہا یہ گیا ہے کہ یہ کام خود نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرے گا۔ اب کیا تم واقعی یہ سمجھ رہے ہو کہ کائنات کا خالق، جسے تم خود بھی خالق مانتے ہو، اس کام سے عاجز ہے ؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میں کوئی شخص جو خدا کو خالق کائنات مانتا ہو، نہ اس وقت یہ کہہ سکتا تھا اور نہ آج یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا بھی یہ کام کرنا چاہے تو نہیں سکتا۔ اور اگر کوئی بیوقوف ایسی بات کہے تو اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ تم جس جسم میں اس وقت موجود ہو اس کے بیشمار اجزاء کو ہوا اور پانی اور مٹی اور نہ معلوم کہاں کہاں سے جمع کر کے اسی خدا نے کیسے یہ جسم بنا دیا جس کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ پھر ان اجزا کو جمع نہیں کرسکتا ؟
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں ۔
یہ جواب قسم ہے انسان سے مراد یہاں کافر اور بےدین انسان ہے جو قیامت کو نہیں مانتا۔ اس کا گمان غلط ہے، اللہ تعالیٰ یقینا انسانوں کے اجزا کو جمع فرمائے گا یہاں ہڈیوں کا بطور خاص ذکر ہے، اس لیئے کہ ہڈیاں ہی پیدائش کا اصل ڈھانچہ اور قالب ہیں۔
ہاں، ہم جمع کریں گے اس طرح کہ اس کے پور پور کو ٹھیک کر دیں گے۔
حقیقت سے فرار کے لیے منکرین قیامت کی سخن سازی: اگرچہ لفظ ’انسان‘ عام ہے لیکن روئے سخن قریش کے انہی منکرین قیامت کی طرف ہے جن کے شبہات پچھلی سورتوں میں زیربحث آئے ہیں۔ ان سے اظہار بیزاری کے لیے بات عام لفظ سے فرما دی ہے۔ فرمایا کہ قیامت کو ثابت کرنے کے لیے یہ شہادت تو ہر انسان کے اپنے اندر ہی موجود ہے۔ اس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ لوگ یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ ان کے مرنے اور سڑ گل جانے کے بعد ہم ان کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر پائیں گے۔ فرمایا کہ اگر یہ چیز ان کو بعید از امکان نظر آئی ہے اور اس بنا پر وہ اپنے ضمیر کی شہادت کے خلاف قیامت کو جھٹلا رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ ہم ان کی ہڈیوں کو صرف جمع ہی نہیں کریں گے بلکہ اس قدرت و کمال کے ساتھ جمع کریں گے کہ ان کے جوڑ جوڑ پور پور ٹھیک کر دیں گے۔ ’بنان‘ انگلیوں کے پور کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی حقیر سے حقیر جزو بھی ایسا نہ ہو گا جس کے جمع کرنے اور جوڑنے سے ہم قاصر رہ جائیں۔ ’قٰدِرِیْنَ‘ حال واقع ہے ’نَجْمَعَ‘ کی ضمیر جمع سے۔
نہیں، ہم تو اِس کی پور پور درست کر سکتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’بَلٰی قٰدِرِیْنَ‘۔ ’قٰدِرِیْنَ‘ اِن میں ’نَجْمَعَ‘ کی ضمیر جمع سے حال واقع ہوا ہے۔
کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنادینے پر قادر ہیں ۔
یعنی بڑی بڑی ہڈیوں کو جمع کر کے تمہارا ڈھانچہ پھر سے کھڑا کردینا تو درکنار، ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ تمارے نازک ترین اجزائے جسم حتیٰ کہ تمہاری انگلیوں کی پوروں تک کو پھر ویسا ہی بنا دیں جیسی وہ پہلے تھیں۔
ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کردیں ۔
بَنَان (پور پور) جوڑوں، ناخن، لطیف رگوں اور باریک ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب یہ باریک اور لطیف چیزیں ہم بالکل صحیح صحیح جوڑ دیں گے تو بڑے حصے کو جوڑ دینا ہمارے لئے کیا مشکل ہوگا
بلکہ انسان اپنے (ضمیر کے) آگے شرارت کرنا چاہتا ہے۔
یعنی قیامت کا انکار اس بنا پر کہ ہڈیوں کو جمع کرنا ان کو بعید از امکان نظر آتا ہے محض حقیقت سے فرار کے لیے سخن سازی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنی خواہشوں کے ایسے غلام بن چکے ہیں کہ ان کی پیروی میں وہ خدا کے مقرر کیے ہوئے محتسب کے سامنے شرارت کرنا چاہتے ہیں جو کہیں دور نہیں بلکہ خود ان کے اندر ہی بیٹھا ہوا ہے۔ ان کی مثال اس چور کی ہے جو کوتوال کی موجودگی میں چوری کرے۔
’اَمَامَہٗ‘ کا مطلب عام طور پر لوگوں نے یہ لیا ہے کہ انسان اپنی آگے کی زندگی میں برابر اپنے گناہوں پر جما رہنا چاتا ہے اس وجہ سے قیامت کے انکار کے لیے بہانے تلاش کرتا ہے لیکن یہ مطلب لینے میں نہ نفس لوامہ کی شہادت سے اس کا کوئی تعلق واضح ہوتا اور نہ اس میں انسان پر اس کے اس رویے کے خلاف کوئی حجت ہی قائم ہوتی۔ ’اپنے آگے‘ سے مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر اور اپنے نفس لوامہ کے روبرو، اس کی تذکیر و تنبیہ کے علی الرغم، شرارتیں کرنا چاہتا ہے۔ قیامت کی سب سے بڑی شہادت انسان کے نفس کے اندر ہی موجود ہے لیکن جو شخص خود اپنی تردید و تکذیب کے لیے اٹھ کھڑا ہو اس کا کیا علاج ہے!
اس میں دلیل کا پہلو یہ ہے کہ قیامت پر حجت قائم کرنے کے لیے تو انسان کا ضمیر ہی کافی ہے لیکن جو شخص ’دروغ گویم بروئے تو‘ کی جسارت کرنے پر تلا بیٹھا ہو اس کا منہ نہیں بند کیا جا سکتا۔
اس سے یہ بات بھی نکلی کہ جو شخص اپنے نفس لوامہ یا دوسرے لفظوں میں اپنے ضمیر کے خلاف کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے وہ درحقیقت خدا کے روبرو برائی کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس لیے کہ ضمیر درحقیقت، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، خدا کا مقرر کردہ محتسب اور قاضی ہے تو جس نے اس کے آگے برائی کی اس نے خدا ہی کے آگے برائی کی۔
(نہیں، یہ بات نہیں ہے)، بلکہ (حق یہ ہے کہ) انسان اپنے ضمیر کے روبرو شرارت کرنا چاہتا ہے۔
یعنی یہ بات نہیں ہے کہ ہڈیوں کو جمع کرنا اِنھیں بعید از امکان نظر آتا ہے۔ یہ محض سخن سازی ہے جو حقیقت سے فرار کے لیے کی جا رہی ہے۔
یعنی ضمیر کی تذکیر و تنبیہ کے باوجود شرارت کرنا چاہتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ جو شخص قیامت کو جھٹلاتا ہے، وہ درحقیقت اپنے آپ کو جھٹلاتا ہے، اِس لیے کہ قیامت کی سب سے بڑی گواہی خود نفس انسانی کے اندر موجود ہے۔
مگر انسان چاہتا یہ ہے کہ آگے بھی بداعمالیاں کرتا رہے ۔
اس چھوٹے سے فقرے میں منکرین آخرت کے اصل مرض کی صاف صاف تشخیص کردی گئی ہے۔ ان لوگوں کو جو چیز آخرت کے انکار پر آمادہ کرتی ہے وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ فی الواقع وہ قیامت اور آخرت کو ناممکن سمجھتے ہیں، بلکہ ان کے اس انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ آخرت کو ماننے سے لازماً ان پر کچھ اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں، اور انہیں یہ پابندیاں ناگوار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ اب تک زمین میں بےنتھے بیل کی طرح پھرتے رہے ہیں اسی طرح آئندہ بھی پھرتے رہیں۔ جو ظلم، جو بےایمانیاں، جو فسق و فجور، جو بد کرداریاں وہ اب تک کرتے رہے ہیں، آئندہ بھی ان کو اس کی کھلی چھوٹ ملی رہے، اور یہ خیال کبھی ان کو یہ ناروا آزادیاں برتنے سے نہ روکنے پائے کہ ایک دن انہیں اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے ان اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ اس لیے دراصل ان کی عقل انہیں آخرت پر ایمان لانے سے نہیں روک رہی ہے بلکہ ان کی خواہشات نفس اس میں مانع ہیں۔
بلکہ انسان تو چاہتا ہے کہ آگے آگے نافرمانیاں کرتا جائے
یعنی اس امید پر نافرمانی اور حق کا انکار کرتا ہے کہ کون سی قیامت آنی ہے۔
پوچھتا ہے قیامت کب ہو گی؟
ایک احمقانہ مطالبہ اور اس کا معتدل جواب: یہ منکرین قیامت کی جسارت اور ڈھٹائی کا بیان ہے کہ باوجودیکہ خدا کا محتسب خود ان کے اندر ہی موجود ہے اور وہ اس کو محسوس بھی کر رہے ہیں لیکن جب ان کو قیامت سے ڈرایا جاتا ہے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قیامت کہاں ہے؟ وہ کب آئے گی! اگر اس کو آنا ہے تو آ کیوں نہیں جاتی! ہم اس کے ڈراوے سنتے سنتے تو تھک گئے لیکن اس کو نہ آنا تھا، نہ آئی تو اب ہم ان ڈراوں سے مرعوب ہونے والے نہیں ہیں۔ جو لوگ اس سے ڈرا رہے ہیں وہ اس کو لا کر ہمیں دکھائیں تو ہم اس کا حق مانیں گے۔ محض زبانی دھونس سے ہم ماننے والے نہیں ہیں۔
پوچھتا ہے: قیامت کب آئے گی؟
n/a
پوچھتا ہے ” آخر کب آنا ہے وہ قیامت کا دن ؟ ”
یہ سوال استفسار کے طور پر نہیں بلکہ انکار اور استہزاء کے طور پر تھا۔ یعنی یہ پوچھنا نہیں چاہتے تھے کہ قیامت کس روز آئے گی، بلکہ مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ حضرت ! جس دن کی آپ خبر دے رہے ہیں آخر وہ آتے آتے رہ کہاں گیا ہے ؟
پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا
یہ سوال اس لئے نہیں کرتا کہ گناہوں سے تائب ہوجائے، بلکہ قیامت کو ناممکن الو قوع سمجھتے ہوئے پوچھتا ہے۔ اسی لیے فسق وفجور سے باز نہیں آتا۔ تاہم اگلی ٓآیت میں اللہ تعالیٰ قیامت کے آنے کا وقت بیان فرما رہے ہیں۔
پس جب نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی۔
یعنی آج تو وہ اس کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں گویا اس کے مقابلہ کے لیے ہر قسم کی تیاری کیے بیٹھے ہیں لیکن جب اس کی ہولناکی سے سابقہ پیش آئے گا تو کہیں گے، اب کہاں بھاگیں؟
قیامت کے دکھا دیے جانے کا مطالبہ چونکہ ایک بالکل ہی احمقانہ مطالبہ ہے اس وجہ سے اس سے تو یہاں تعرض نہیں کیا لیکن اس کی ہولناکی کے بعض پہلو ان کے سامنے رکھ دیے۔ فرمایا کہ اس دن نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی، چاند گہنا جائے گا، سورج اور چاند، جو آج اپنے الگ الگ مداروں میں گردش کر رہے ہیں، ان کی حد بندیاں ٹوٹ جائیں گی اور وہ آپس میں ٹکرا جائیں گے۔
یہ قیامت کے دن کے احوال ہیں جن کا تعلق متشابہات سے ہے۔ اس جہان میں ان کی اصل حقیقت کا سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ جو دن ایسی ہلچل کا ہو گا کہ چاند اور سورج اپنے مداروں سے ہٹ کر ایک ہی مدار میں جا پڑیں گے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ کون کر سکتا ہے! مطلب یہ ہے کہ اگر عقل کا کوئی شائبہ تمہارے اندر ہے تو اس سے پناہ مانگو اور اس کی آفتوں سے بچنے کی جو راہ دکھائی جا رہی ہے اس کو اختیار کرو نہ کہ اس کے لیے جلدی مچاؤ۔
یہ امر یہاں واضح رہے کہ یہاں قیامت کے جو احوال بیان ہوئے ہیں وہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، صرف اس کا ہلکا سا تصور دینے کے لیے بیان ہوئے ہیں اور یہ اس کے بے شمار احوال میں سے صرف چند ہیں۔ آگے اسی گروپ کی سورتوں میں اس کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے اور وہ بھی اس کے بے شمار پہلوؤں میں سے صرف چند ہی ہوں گے اس لیے کہ زبان ان کی تعبیر و تصویر سے قاصر ہے۔
لیکن اُس وقت جب دیدے پتھرائیں گے۔
n/a
پھر جب دیدے پتھرا جائیں گے
اصل میں برق البصر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے لغوی معنی بجلی کی چمک سے آنکھوں کے چندھیا جانے کے ہیں۔ لیکن عربی محاورے میں یہ الفاظ اسی معنی کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ خوف زدگی، حیرت یا کسی اچانک حادثہ سے دو چار ہوجانے کی صورت میں اگر آدمی ہک دک رہ جائے اور اس کی نگاہ اس پریشان کن منظر کی طرف جم کر رہ جائے جو اس کو نظر آ رہا ہو تو اس کے لیے بھی یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے : انما یوخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار، ” اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب آنکھیں پھٹی پھٹی رہ جائیں گی ” (ابراہیم، 42) ۔
پس جس وقت کہ نگاہ پتھرا جائے گی ۔
دہشت اور حیرانی سے جیسے موت کے وقت عام طور پر ہوتا ہے۔
اور چاند گہنا جائے گا۔
یعنی آج تو وہ اس کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں گویا اس کے مقابلہ کے لیے ہر قسم کی تیاری کیے بیٹھے ہیں لیکن جب اس کی ہولناکی سے سابقہ پیش آئے گا تو کہیں گے، اب کہاں بھاگیں؟
قیامت کے دکھا دیے جانے کا مطالبہ چونکہ ایک بالکل ہی احمقانہ مطالبہ ہے اس وجہ سے اس سے تو یہاں تعرض نہیں کیا لیکن اس کی ہولناکی کے بعض پہلو ان کے سامنے رکھ دیے۔ فرمایا کہ اس دن نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی، چاند گہنا جائے گا، سورج اور چاند، جو آج اپنے الگ الگ مداروں میں گردش کر رہے ہیں، ان کی حد بندیاں ٹوٹ جائیں گی اور وہ آپس میں ٹکرا جائیں گے۔
یہ قیامت کے دن کے احوال ہیں جن کا تعلق متشابہات سے ہے۔ اس جہان میں ان کی اصل حقیقت کا سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ جو دن ایسی ہلچل کا ہو گا کہ چاند اور سورج اپنے مداروں سے ہٹ کر ایک ہی مدار میں جا پڑیں گے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ کون کر سکتا ہے! مطلب یہ ہے کہ اگر عقل کا کوئی شائبہ تمہارے اندر ہے تو اس سے پناہ مانگو اور اس کی آفتوں سے بچنے کی جو راہ دکھائی جا رہی ہے اس کو اختیار کرو نہ کہ اس کے لیے جلدی مچاؤ۔
یہ امر یہاں واضح رہے کہ یہاں قیامت کے جو احوال بیان ہوئے ہیں وہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، صرف اس کا ہلکا سا تصور دینے کے لیے بیان ہوئے ہیں اور یہ اس کے بے شمار احوال میں سے صرف چند ہیں۔ آگے اسی گروپ کی سورتوں میں اس کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے اور وہ بھی اس کے بے شمار پہلوؤں میں سے صرف چند ہی ہوں گے اس لیے کہ زبان ان کی تعبیر و تصویر سے قاصر ہے۔
اور چاند گہنائے گا۔
n/a
اور چاند بےنور ہوجائے گا
n/a
اور چاند بےنور ہوجائے گا
جب چاند کو گرہن لگ جاتا ہے تو اس وقت بھی وہ بےنور ہوجاتا ہے۔ لیکن جو علامات قیامت میں سے ہے، جب ہوگا تو اس کے بعد اس میں روشنی نہیں آئے گی۔
اور سورج اور چاند اکٹھے کر دیے جائیں گے۔
یعنی آج تو وہ اس کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں گویا اس کے مقابلہ کے لیے ہر قسم کی تیاری کیے بیٹھے ہیں لیکن جب اس کی ہولناکی سے سابقہ پیش آئے گا تو کہیں گے، اب کہاں بھاگیں؟
قیامت کے دکھا دیے جانے کا مطالبہ چونکہ ایک بالکل ہی احمقانہ مطالبہ ہے اس وجہ سے اس سے تو یہاں تعرض نہیں کیا لیکن اس کی ہولناکی کے بعض پہلو ان کے سامنے رکھ دیے۔ فرمایا کہ اس دن نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی، چاند گہنا جائے گا، سورج اور چاند، جو آج اپنے الگ الگ مداروں میں گردش کر رہے ہیں، ان کی حد بندیاں ٹوٹ جائیں گی اور وہ آپس میں ٹکرا جائیں گے۔
یہ قیامت کے دن کے احوال ہیں جن کا تعلق متشابہات سے ہے۔ اس جہان میں ان کی اصل حقیقت کا سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ جو دن ایسی ہلچل کا ہو گا کہ چاند اور سورج اپنے مداروں سے ہٹ کر ایک ہی مدار میں جا پڑیں گے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ کون کر سکتا ہے! مطلب یہ ہے کہ اگر عقل کا کوئی شائبہ تمہارے اندر ہے تو اس سے پناہ مانگو اور اس کی آفتوں سے بچنے کی جو راہ دکھائی جا رہی ہے اس کو اختیار کرو نہ کہ اس کے لیے جلدی مچاؤ۔
یہ امر یہاں واضح رہے کہ یہاں قیامت کے جو احوال بیان ہوئے ہیں وہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، صرف اس کا ہلکا سا تصور دینے کے لیے بیان ہوئے ہیں اور یہ اس کے بے شمار احوال میں سے صرف چند ہیں۔ آگے اسی گروپ کی سورتوں میں اس کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے اور وہ بھی اس کے بے شمار پہلوؤں میں سے صرف چند ہی ہوں گے اس لیے کہ زبان ان کی تعبیر و تصویر سے قاصر ہے۔
اور سورج اور چاند، دونوں اکٹھے کر دیے جائیں گے۔
n/a
اور چاند سورج ملا کر ایک کردیے جائیں گے
یہ قیامت کے پہلے مرحلے میں نظام عالم کے درہم برہم ہوجانے کی کیفیت کا ایک مختصر بیان ہے۔ چاند کے بےنور ہوجانے اور سورج کے مل کر ایک ہوجانے کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف چاند کی روشنی ختم نہ ہوگی جو سورج سے ماخوذ ہے بلکہ خود سورج بھی تاریک ہوجائے گا اور بےنور ہوجانے میں دونوں یکساں ہوجائیں گے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زمین یکایک الٹی چل پڑے گی اور اس دن چاند اور سورج دونوں بیک وقت مغرب سے طلوع ہوں گے۔ اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ چاند یک لخت زمین کی گرفت سے چھوٹ کر نکل جائے گا اور سورج میں جا پڑے گا۔ ممکن ہے اس کا کوئی اور مفہوم بھی ہو جس کو آج ہم نہیں سمجھ سکتے۔
اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔
یعنی بےنوری میں۔ مطلب ہے کہ چاند کی طرح سورج کی روشنی بھی ختم ہوجائے گی۔
تو اس وقت انسان کہے گا کہ کہاں بھاگوں!
یعنی آج تو وہ اس کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں گویا اس کے مقابلہ کے لیے ہر قسم کی تیاری کیے بیٹھے ہیں لیکن جب اس کی ہولناکی سے سابقہ پیش آئے گا تو کہیں گے، اب کہاں بھاگیں؟
قیامت کے دکھا دیے جانے کا مطالبہ چونکہ ایک بالکل ہی احمقانہ مطالبہ ہے اس وجہ سے اس سے تو یہاں تعرض نہیں کیا لیکن اس کی ہولناکی کے بعض پہلو ان کے سامنے رکھ دیے۔ فرمایا کہ اس دن نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی، چاند گہنا جائے گا، سورج اور چاند، جو آج اپنے الگ الگ مداروں میں گردش کر رہے ہیں، ان کی حد بندیاں ٹوٹ جائیں گی اور وہ آپس میں ٹکرا جائیں گے۔
یہ قیامت کے دن کے احوال ہیں جن کا تعلق متشابہات سے ہے۔ اس جہان میں ان کی اصل حقیقت کا سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ جو دن ایسی ہلچل کا ہو گا کہ چاند اور سورج اپنے مداروں سے ہٹ کر ایک ہی مدار میں جا پڑیں گے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ کون کر سکتا ہے! مطلب یہ ہے کہ اگر عقل کا کوئی شائبہ تمہارے اندر ہے تو اس سے پناہ مانگو اور اس کی آفتوں سے بچنے کی جو راہ دکھائی جا رہی ہے اس کو اختیار کرو نہ کہ اس کے لیے جلدی مچاؤ۔
یہ امر یہاں واضح رہے کہ یہاں قیامت کے جو احوال بیان ہوئے ہیں وہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، صرف اس کا ہلکا سا تصور دینے کے لیے بیان ہوئے ہیں اور یہ اس کے بے شمار احوال میں سے صرف چند ہیں۔ آگے اسی گروپ کی سورتوں میں اس کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے اور وہ بھی اس کے بے شمار پہلوؤں میں سے صرف چند ہی ہوں گے اس لیے کہ زبان ان کی تعبیر و تصویر سے قاصر ہے۔
تو یہی انسان اُس دن کہے گا: اب کہاں بھاگ کر جاؤں۔
n/a
اس وقت یہی انسان کہے گا ” کہاں بھاگ کر جاؤں ؟ ”
n/a
اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ۔
یعنی جب یہ واقعات ظہور پذیر ہونگے تو پھر اللہ سے یا جہنم کے عذاب سے راہ فرار ڈھونڈے گا، لیکن اس وقت راہ فرار کہاں ہوگی۔
امین احسن اصلاحی
نہیں، میں قسم کھاتا ہوں روز محشر کی۔
قسم سے پہلے ’لا‘ کے استعمال کی نوعیت: عربیت کے اس اسلوب کی وضاحت ایک سے زیادہ مقامات میں ہو چکی ہے کہ قسم سے پہلے جب اس طرح ’لا‘ آیا کرتا ہے جس طرح یہاں ہے تو وہ قسم کی نفی کے لیے نہیں بلکہ مخاطب کے اس خیال کی نفی کے لیے آتا ہے جس کی تردید اس قسم سے مقصود ہوتی ہے! اس کی مثالیں جس طرح عربی زبان میں بکثرت موجود ہیں اسی طرح ہماری زبان میں بھی یہ اسلوب معروف ہے۔ آپ جس کسی شخص کی بات کی فوری تردید کرنی چاہتے ہیں تو کہتے ہیں: نہیں، خدا کی قسم، اصل حقیقت یوں ہے۔ اس اسلوب قسم سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ متکلم کے نزدیک مخاطب کی بات اتنی لغو ہے کہ وہ اس کی تردید میں اتنے توقف کا بھی روادار نہیں کہ قسم کے بعد اس کی تردید کرے بلکہ اس سے پہلے ہی اس کی تردید بلکہ اپنی بیزاری کا اظہار ضروری سمجھتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس ’لا‘ کو زائد اور بعضوں نے اس کو فعل سے متصل مانا ہے لیکن یہ دونوں رائیں عربیت کے خلاف ہیں۔ ہم نے جگہ جگہ اس کتاب میں اس کی تردید کی ہے۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تفسیر سورۂ قیامہ میں اس پر وضاحت سے بحث کی ہے۔ تفصیل مطلوب ہو تو اس کی مراجعت فرمائیے۔
یہاں قسم کا مقسم علیہ مذکور نہیں ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔
مقسم علیہ کے حذف کی بلاغت: ایک یہ کہ یہاں مقسم علیہ اتنا واضح ہے کہ اس کے اظہار کی ضرورت نہیں ہے۔ گویا قسم خود اپنے مقسم علیہ پر دلیل ہے۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ اس کی متعدد مثالیں پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہیں۔ سورۂ قٓ اور سورۂ صٓ میں ’وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ‘ اور ’وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ‘ کی قسمیں بھی اسی طرح مقسم علیہ کے بغیر آئی ہیں۔ اس طرح کی قسموں سے مقصود مخاطب پر یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ وہ جس چیزکی تردید یا تکذیب کر رہا ہے وہ خود اپنی صداقت پر ایسی شاہد عدل ہے کہ اس کے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے بعد ’نفس لوامہ‘ کی جو قسم ہے وہ قیامت کے حق ہونے پر ایسی بدیہی دلیل ہے کہ اس کی تکذیب، جیسا کہ آگے وضاحت آئے گی، آدمی کے خود اپنے قلب و ضمیر کی تکذیب کے ہم معنی ہے۔ اس شہادت کے ہوتے قیامت کسی دلیل کی محتاج نہیں رہ جاتی بلکہ وہ بجائے خود دعویٰ اور دلیل قسم اور مقسم علیہ دونوں کی حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔