إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ

امین احسن اصلاحی

یاد رکھو، جب کہ واقع ہو پڑے گی واقع ہونے والی۔

قیامت شدنی ہے: ’وَاقِعَۃُ‘ سے مراد قیامت ہے۔ اس لفظ سے تعبیر اس کے ایک امرشدنی ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے دلائل، پوری تفصیل کے ساتھ، گروپ کی پچھلی سورتوں میں، بیان ہو چکے ہیں اور ان شبہات و سوالات کا بھی ایک ایک کر کے جواب دیا جا چکا ہے جو منکرین نے اس کے امکان اور اس کے وقوع کے باب میں اٹھائے ہیں۔ اب یہ فرمایا کہ اس وقت کو یاد رکھو جب کہ وہ واقع ہونے والی، تمہارے ان تمام لایعنی شبہات و اعتراضات کے علی الرغم، واقع ہو کے رہے گی اور تم کسی طرح بھی اس سے بھاگ نہ سکو گے۔

جاوید احمد غامدی

(یہ اُس دن کو یاد رکھیں) جب واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی۔

یعنی قیامت، جس کے دلائل پچھلی سورتوں میں بیان ہو چکے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا

n/a

جونا گڑھی

جب قیامت قائم ہوجائے گی

 واقعہ بھی قیامت کے ناموں سے ہے، کیونکہ یہ لامحالہ واقع ہونے والی ہے، اس لئے اس کا نام بھی ہے۔ 

لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ

امین احسن اصلاحی

اس کے واقعہ ہونے میں کسی جھوٹ کا شائبہ نہیں۔

’لَیْْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ‘۔ یہاں ’کَاذِبَۃٌ‘ میرے نزدیک ’عاقبۃ‘ اور ’عافیۃ‘ کی طرح مصدر ہے یعنی اس کے واقع ہونے میں ذرا کسی شک و شبہ اور جھوٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر تم اس وہم میں مبتلا ہو کہ تم کو جھوٹ موٹ ایک ہوّے سے ڈرایا جا رہا ہے تو اس میں جھوٹ کا ادنیٰ شائبہ بھی نہیں۔ یہ ایک امر واقعہ ہے جس سے تمہیں لازماً دوچار ہونا ہے تو عاقبت کی بہبود چاہتے ہو تو اس کے مواجہہ کے لیے تیاری کرو۔

جاوید احمد غامدی

اُس کے واقع ہو جانے میں کچھ جھوٹ نہیں ہے۔

اصل میں لفظ ’کَاذِبَۃٌ‘ آیا ہے۔ یہ ہمارے نزدیک ’عاقبۃ‘ اور ’عافیۃ‘ کی طرح مصدر ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔

اس فقرے سے کلام کا آغاز خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ان باتوں کا جواب ہے جو اس وقت کفار کی مجلسوں میں قیامت کے خلاف بنائی جا رہی تھیں۔ زمانہ وہ تھا جب مکہ کے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نئی نئی اسلام کی دعوت سن رہے تھے۔ اس میں جو چیز انہیں سب سے زیادہ عجیب اور بعید از عقل و امکان نظر آتی تھی وہ یہ تھی کہ ایک روز زمین و آسمان کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور پھر ایک دوسرا عالم برپا ہوگا جس میں سب اگلے پچھلے مرے ہوئے لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ یہ بات سن کر حیرت سے ان کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا ہونا بالکل ناممکن ہے۔ آخر یہ زمین، یہ پہاڑ، یہ سمندر، یہ چاند، یہ سورج کہاں چلے جائیں گے ؟ صدیوں کے گڑے مردے کیسے جی اٹھیں گے ؟ مرنے کے بعد دوسری زندگی، اور پھر اس میں بہشت کے باغ اور جہنم کی آگ، آخر یہ خواب و خیال کی باتیں عقل و ہوش رکھتے ہوئے ہم کیسے مان لیں ؟ یہی چہ میگوئیاں اس وقت مکہ میں ہر جگہ ہو رہی تھیں۔ اس پس منظر میں فرمایا گیا ہے کہ جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا اس وقت کوئی اسے جھٹلانے والا نہ ہوگا۔

اس ارشاد میں قیامت کے لیے ” واقعہ ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جس کے لیے اردو زبان میں ہونی شدنی کے الفاظ بولے جاتے ہیں، یعنی وہ ایسی چیز ہے جسے لازماً پیش آ کر ہی رہنا ہے۔ پھر اس کے پیش آنے کو ” وَقْعَۃ ” کہا گیا ہے جو عربی زبان میں کسی بڑے حادثہ کے اچانک برپا ہوجانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لَیْسَ لِوَقْعَتِھَا کَاذِبَۃٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے وقوع کا ٹل جانا اور اس کا آتے آتے رک جانا اور اس کی آمد کا پھیر دیا جانا ممکن نہ ہوگا، یا بالفاظ دیگر کوئی طاقت پھر اس کو واقعہ سے غیر واقعہ بنا دینے والی نہ ہوگی۔ دوسرے یہ کہ کوئی متنفس اس وقت یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہوگا کہ وہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔

جونا گڑھی

جس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔

n/a

خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ

امین احسن اصلاحی

وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہو گی۔

قیامت میں عزت کا معیار ایمان ہو گا: یعنی اس وہم میں نہ رہو کہ تم کو جو سربلندی آج حاصل ہے وہ ہمیشہ رہے گی اور جن کو حقیر و متبذل گمان کر رہے ہو وہ اسی طرح حقیر و پست حال رہیں گے بلکہ جب وہ واقع ہونے والی واقع ہو گی تو یہ آسمان و زمین نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ نمودار ہوں گے۔ آج عزت و شرف کے جو معیارات ہیں وہ یک قلم تبدیل ہو جائیں گے۔ اس دن تمام عزت و سرفرازی ایمان و عمل صالح کو حاصل ہو گی۔ وہ لوگ سربلند و سرفراز ہوں گے جن کے پاس ایمان و عمل صالح کا سرمایہ ہو گا اور وہ پست و ذلیل ہوں گے جو اس دولت سے محروم اٹھیں گے۔ یہاں بات اجمال کے ساتھ فرمائی ہے۔ آگے آیت ۷ سے اس خفض و رفع کی تفصیل آ رہی ہے۔ اس سے واضح ہو جائے گا کہ اس کے لیے کسوٹی کیا ہو گی۔

جاوید احمد غامدی

وہ گرانے والی اور اٹھانے والی ہو گی۔

یعنی جو آج سربلند ہیں، اُن میں سے بہت سے پست ہو جائیں گے اور جو پستی اور ذلت میں پڑے ہوئے ہیں، وہ اگر ایمان اور اعمال صالحہ کا سرمایہ رکھتے ہوں گے تو سربلند ہوجائیں گے۔ آگے اِسی بلندی اور پستی کی تفصیل ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہ تہ وبالا کردینے والی آفت ہوگی ۔

اصل الفاظ ہیں خافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ، ” گرانے والی اور اٹھانے والی “۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ سب کچھ الٹ پلٹ کر کے رکھ دے گی۔ نیچے کی چیزیں اوپر اور اوپر کی چیزیں نیچے ہوجائیں گی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے والی اور اٹھے ہوئے لوگوں کو گرانے والی ہوگی، یعنی اس کے آنے پر انسانوں کے درمیان عزت و ذلت کا فیصلہ ایک دوسری ہی بنیاد پر ہوگا۔ جو دنیا میں عزت والے بنے پھرتے تھے وہ ذلیل ہوجائیں گے اور جو ذلیل سمجھے جاتے تھے وہ عزت پائیں گے۔

جونا گڑھی

وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی

 پستی اور بلندی سے مطلب ذلت اور عزت ہے۔ یعنی اللہ کے اطاعت گزار بندوں کو یہ بلند اور نافرمانوں کو پست کرے گی، چاہے دنیا میں معاملہ اس سے برعکس ہو،۔ 

إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا

امین احسن اصلاحی

جب کہ زمین بالکل جھنجھوڑ دی جائے گی۔

قیامت کے دل کی ہلچل: یہ اس قیامت کی تصویر ہے کہ اس دن زمین بالکل ہلا دی جائے گی اور یہ اونچے اونچے پہاڑ جن کو نادان لوگ غیر فانی اور غیر متزلزل گمان کیے بیٹھے ہیں، غبار کی طرح پراگندہ ہو جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دن اس زمین کی ساری ہی بلندیاں پست کر دی جائیں گی۔ ایک ایسا زلزلہ آئے گا جو پوری زمین کو جھنجھوڑ کر اس کے تمام ایوانوں اور محلوں کو زمین بوس کر دے گا یہاں تک کہ یہ فلک بوس پہاڑ بھی غبار بن کر فضا میں اڑنے لگیں گے۔ یہی مضمون سورۂ حاقہ میں یوں بیان ہوا ہے:

’وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَاحِدَۃً ۵ فَیَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ‘ (الحاقہ ۶۹: ۱۴-۱۵)
(اور اس دن زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا کر بیک دفعہ پاش پاش کر دیے جائیں گے، پس اس دن واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی)۔

جاوید احمد غامدی

(اُس دن) جب زمین ہلا ڈالی جائے گی۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

زمین اس وقت ایک بارگی ہلا ڈالی جائے گی

یعنی وہ کوئی مقامی زلزلہ نہ ہوگا جو کسی محدود علاقے میں آئے، بلکہ پوری کی پوری زمین بیک وقت ہلا ماری جائے گی۔ اس کو یک لخت ایک زبردست جھٹکا لگے گا جس سے وہ لرز کر رہ جائے گی۔

جونا گڑھی

جبکہ زمین زلزلہ کے ساتھ ہلا دی جائے گی۔

n/a

وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا

امین احسن اصلاحی

اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہو (کر منتشر غبار بن) جائیں گے۔

قیامت کے دل کی ہلچل: یہ اس قیامت کی تصویر ہے کہ اس دن زمین بالکل ہلا دی جائے گی اور یہ اونچے اونچے پہاڑ جن کو نادان لوگ غیر فانی اور غیر متزلزل گمان کیے بیٹھے ہیں، غبار کی طرح پراگندہ ہو جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دن اس زمین کی ساری ہی بلندیاں پست کر دی جائیں گی۔ ایک ایسا زلزلہ آئے گا جو پوری زمین کو جھنجھوڑ کر اس کے تمام ایوانوں اور محلوں کو زمین بوس کر دے گا یہاں تک کہ یہ فلک بوس پہاڑ بھی غبار بن کر فضا میں اڑنے لگیں گے۔ یہی مضمون سورۂ حاقہ میں یوں بیان ہوا ہے:

’وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَاحِدَۃً ۵ فَیَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ‘ (الحاقہ ۶۹: ۱۴-۱۵)
(اور اس دن زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا کر بیک دفعہ پاش پاش کر دیے جائیں گے، پس اس دن واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی)۔

جاوید احمد غامدی

اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے

n/a

جونا گڑھی

اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے ۔

 رَجًا کے معنی حرکت و اضطراب (زلزلہ) اور بس کے معنی ریزہ ریزہ ہوجانے کے ہیں۔ 

فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا

امین احسن اصلاحی

اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے۔

قیامت کے دل کی ہلچل: یہ اس قیامت کی تصویر ہے کہ اس دن زمین بالکل ہلا دی جائے گی اور یہ اونچے اونچے پہاڑ جن کو نادان لوگ غیر فانی اور غیر متزلزل گمان کیے بیٹھے ہیں، غبار کی طرح پراگندہ ہو جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دن اس زمین کی ساری ہی بلندیاں پست کر دی جائیں گی۔ ایک ایسا زلزلہ آئے گا جو پوری زمین کو جھنجھوڑ کر اس کے تمام ایوانوں اور محلوں کو زمین بوس کر دے گا یہاں تک کہ یہ فلک بوس پہاڑ بھی غبار بن کر فضا میں اڑنے لگیں گے۔ یہی مضمون سورۂ حاقہ میں یوں بیان ہوا ہے:

’وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَاحِدَۃً ۵ فَیَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ‘ (الحاقہ ۶۹: ۱۴-۱۵)
(اور اس دن زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا کر بیک دفعہ پاش پاش کر دیے جائیں گے، پس اس دن واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی)۔

جاوید احمد غامدی

اِس طرح کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔

n/a

جونا گڑھی

پھر وہ مثل پراگندہ غبار کے ہوجائیں گے۔

n/a

وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً

امین احسن اصلاحی

اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔

لوگوں کی تقسیم تین گروہوں میں: یہ اس خفض و رفع کی تفصیل ہے جس کا ذکر اوپر آیت ۳ میں ہوا ہے۔ فرمایا کہ اس دن تم تین گروہوں میں تقسیم کیے جاؤ گے۔ ایک گروہ اصحاب المیمنہ کا ہو گا، دوسرا گروہ اصحاب المشئمہ کا ہو گا اور تیسرا سابقون پر مشتمل ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

(اُس دن) تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہوجاؤ گے

خطاب اگرچہ بظاہر ان لوگوں سے ہے جنہیں یہ کلام سنایا جا رہا تھا، یا جو اب اسے پڑھیں یا سنیں، لیکن دراصل پوری نوع انسانی اس کی مخاطب ہے تمام انسان جو اول روز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہیں وہ سب آخر کار تین گواہوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔

جونا گڑھی

اور تم تین جماعتوں میں ہوجاؤ گے۔

n/a

فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ

امین احسن اصلاحی

ایک گروہ داہنے والوں کا ہو گا، تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے!

’اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ‘ سے مراد، خود قرآن کی تصریح کے مطابق، وہ لوگ ہیں جن کے اعمال نامے ان کے دہنے ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ چنانچہ سورۂ حاقہ میں فرمایا ہے:

’فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَیَقُوْلُ ھَآؤُمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِیَہْ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ‘ (الحاقہ ۶۹: ۱۹-۲۰)
(تو اس دن جس کا اعمال نامہ اس کے دہنے ہاتھ میں پکڑایا جائے گا وہ لوگوں سے خوش ہو کر کہے گا کہ یہ لو میرا اعمال نامہ پڑھو۔ میں دنیا میں برابر اندیشہ ناک رہا کہ بالآخر مجھے اپنے اعمال کے حساب سے دوچار ہونا ہے)۔

’مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ‘ میں جو استفہام ہے یہ اظہار شان و عظمت کے لیے بھی آتا ہے اور اظہار نفرت و کراہت کے لیے بھی۔ یہاں یہ اظہار شان و عظمت کے لیے ہے یعنی دہنے والوں کی شان و عظمت، ان کے عیش جاوداں، ان کی رفاہیت و خوش حالی اور ان کی عالی مقامی کا کیا پوچھنا ہے! بھلا اس کی تفصیل کس طرح بتائی جا سکتی ہے اور اس کا صحیح اندازہ کون کرسکتا ہے! یہ اسلوب کلام اس صورت میں اختیار کیا جاتا ہے جب صورت واقعہ الفاظ کے احاطہ اور قیاس و گمان کی رسائی سے مافوق ہو۔ قرآن میں اس کی مثالیں بہت ہیں۔ ہماری زبان میں بھی یہ اسلوب معروف ہے۔
اس تفصیل سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے جنھوں نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ دربار الٰہی میں جگہیں پانے والوں کی ترتیب بیان ہوئی ہے۔ اللہ جل شانہٗ کے دربار سے متعلق اول تو دہنے بائیں اور آگے پیچھے کا تصور ہی ایک بے معنی تصور ہے اور اگر اس تصور کی گنجائش تسلیم بھی کر لی جائے تو یہ امر اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ اس دربار میں اصحاب الشمال کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں ہو گی نہ بائیں نہ پیچھے بلکہ ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا جس کی وضاحت آگے اس سورہ میں بھی آ رہی ہے اور قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی آئی ہے۔
دوسری حقیقت یہ واضح ہوئی کہ ’اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ‘ عام مسلمانوں کے مفہوم میں نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اعمال نامے بطور اعزاز داہنے ہاتھ میں دیے جائیں گے اور وہ اپنے شان دار کارناموں پر نہایت شاداں و فرحاں بھی ہوں گے۔ عام مسلمانوں میں تو بے شمار ایسے لوگ بھی ہیں جن کی نسبت یہ گمان کرنا بڑا ہی فیاضانہ حسن ظن ہو گا کہ ان کے اعمال نامے ان کے دہنے ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے اور وہ جوش مسرت میں ’ھَآؤُمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِیَہْ‘ کا نعرہ بھی لگانے کے لائق ہوں گے۔ رہا یہ سوال کہ ’اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ‘ اور ’سَابِقُوْنَ‘ میں کس نوعیت کا فرق ہے تو اس کی طرف اوپر بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں اور آگے بھی اس کی وضاحت آ رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

ایک گروہ داہنے والوں کا ہو گا، تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے!

اِس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کے اعمال نامے اُن کے دائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ سورۂ حاقہ (۶۹) کی آیت ۱۹میں قرآن نے اِس کی صراحت کر دی ہے۔ ’مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ‘ کے جو الفاظ اِن لوگوں کے لیے اصل میں آئے ہیں، اُن میں استفہام اظہار شان و عظمت کے لیے ہے۔ یعنی اِن کی رفاہیت و خوشحالی، اِن کے عیش مدام اور اِن کی عالی مقامی کا کیا پوچھنا ہے! استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... یہ اسلوب کلام اُس صورت میں اختیار کیا جاتا ہے، جب صورت واقعہ الفاظ کے احاطہ اور قیاس و گمان کی رسائی سے مافوق ہو۔ قرآن میں اِس کی مثالیں بہت ہیں۔ ہماری زبان میں بھی یہ اسلوب معروف ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۱۶۰)

ابو الاعلی مودودی

دائیں بازو والے ، تو بائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔

اصل میں لفظ اَصْحَابُ لْمَیْمَنَہ استعمال ہوا ہے۔ میمنہ عربی قاعدے کے مطابق یمین سے بھی ہوسکتا ہے جس کے معنی سیدھے ہاتھ کے ہیں، اور یمن سے بھی ہوسکتا ہے جس کے معنی ہیں چال نیک۔ اگر اس کو یمین سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنی ہوں گے ” سیدھے ہاتھ والے ” لیکن اس سے لغوی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے عالی مرتبہ لوگ، اہل عرب سیدھے ہاتھ کو قوت اور رفعت اور عزت کا نشان سمجھتے تھے۔ جس کا احترام مقصود ہوتا تھا اسے مجلس میں سیدھے ہاتھ پر بٹھاتے تھے۔ کسی کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ میرے دل میں اس کی بڑی عزت ہے تو کہتے فلانٌ مِنِّی بالیمین، ” وہ تو میرے سیدھے ہاتھ کی طرف ہے ” اردو میں بھی کسی شخص کو کسی بڑی ہستی کا دست راست اس معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا خاص آدمی ہے۔ اور اگر اس کو یمن سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنی ہوں گے خوش نصیب اور نیک بخت لوگ۔

جونا گڑھی

پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں

 اس سے عام مومنین مراد ہیں جن کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے جو ان کی خوش بختی کی نشانی ہوگی۔ 

وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ

امین احسن اصلاحی

دوسرا گروہ بائیں والوں کا ہو گا، تو کیا حال ہو گا بائیں والوں کا!

’اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ سورۂ حاقہ میں ان کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:

’وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ یٰلَیْتَھَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ مَآ اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْ ھَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ‘ (الحاقہ ۶۹: ۲۵-۲۹)
(رہا وہ جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا کہ کاش! میرا اعمال نامہ مجھ کو ملتا ہی نہ! اور مجھ کو یہ خبر ہی نہ ہوتی کہ میرا حساب کیا ہے! اے کاش! پہلی موت ہی فیصلہ کن بن گئی ہوتی! میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا! میرا اقتدار ہوا ہو گیا!)

’مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ‘ میں وہی اسلوب اس کے برعکس یعنی اظہار نفرت و کراہت کے مفہفوم میں ہے یعنی جس طرح ’اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ‘ کی خوش حالی و بلند اقبالی کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ’اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ‘ کی بدبختی، ان کی ذلت و مصیبت اور ان کی بدانجامی کا حال بھی کچھ نہ پوچھو! اس کی تصویر بھی الفاظ میں نہیں کھینچی جا سکتی۔ اس کا اندازہ انہی کو ہو گا جن کو اس سے سابقہ پیش آئے گا۔
اس تفصیل سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے جنھوں نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ دربار الٰہی میں جگہیں پانے والوں کی ترتیب بیان ہوئی ہے۔ اللہ جل شانہٗ کے دربار سے متعلق اول تو دہنے بائیں اور آگے پیچھے کا تصور ہی ایک بے معنی تصور ہے اور اگر اس تصور کی گنجائش تسلیم بھی کر لی جائے تو یہ امر اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ اس دربار میں اصحاب الشمال کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں ہو گی نہ بائیں نہ پیچھے بلکہ ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا جس کی وضاحت آگے اس سورہ میں بھی آ رہی ہے اور قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی آئی ہے۔
دوسری حقیقت یہ واضح ہوئی کہ ’اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ‘ عام مسلمانوں کے مفہوم میں نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اعمال نامے بطور اعزاز داہنے ہاتھ میں دیے جائیں گے اور وہ اپنے شان دار کارناموں پر نہایت شاداں و فرحاں بھی ہوں گے۔ عام مسلمانوں میں تو بے شمار ایسے لوگ بھی ہیں جن کی نسبت یہ گمان کرنا بڑا ہی فیاضانہ حسن ظن ہو گا کہ ان کے اعمال نامے ان کے دہنے ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے اور وہ جوش مسرت میں ’ھَآؤُمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِیَہْ‘ کا نعرہ بھی لگانے کے لائق ہوں گے۔ رہا یہ سوال کہ ’اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ‘ اور ’سَابِقُوْنَ‘ میں کس نوعیت کا فرق ہے تو اس کی طرف اوپر بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں اور آگے بھی اس کی وضاحت آ رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

دوسرا بائیں والوں کا، تو کیا بد بختی ہے بائیں والوں کی!

قرآن کی تصریح کے مطابق اِس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کے اعمال نامے اُن کے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ یہاں بھی وہی استفہام ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ یہ لوگ جس ذلت و مصیبت اور بد انجامی سے دوچار ہوں گے، اُس کی تصویر بھی الفاظ میں کھینچی نہیں جا سکتی۔ چنانچہ استفہام کا وہی اسلوب یہاں نفرت و کراہت ظاہر کرنے کے لیے اختیار فرمایا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور بائیں بازو والے ، تو سو دائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔

اصل میں لفظ اصحاب المشئمہ استعمال ہوا ہے۔ مَشْئَمَہْ ، شُؤْم سے ہے جس کے معنی بد بختی، نحوست اور بدفالی کے ہیں۔ اور عربی زبان میں بائیں ہاتھ کو بھی شُوْمیٰ کہا جاتا ہے۔ اردو میں شومئ قسمت اسی لفظ سے ماخوذ ہے۔ اہل عرب شمال (بائیں ہاتھ) اور شؤْم (فال بد) کو ہم معنی سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں بایاں ہاتھ کمزوری اور ذلت کا نشان تھا۔ سفر کو جاتے ہوئے اگر پرندہ اڑ کر بائیں ہاتھ کی طرف جاتا تو وہ اس کو بری فال سمجھتے تھے۔ کسی کو اپنے بائیں ہاتھ بٹھاتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ وہ اسے کمتر درجے کا آدمی سمجھتے ہیں کسی کے متعلق یہ کہنا ہو کہ میرے ہاں اس کی کوئی عزت نہیں تو کہا جاتا کہ فلان منی بالشمال، ” وہ میرے بائیں ہاتھ کی طرف ہے ” اردو میں بھی کسی کام کو بہت ہلکا اور آسان قرار دینا ہو تو کہا جاتا ہے یہ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پس اصحاب المشئمہ سے مراد ہیں بد بخت لوگ، یا وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلت سے دوچار ہوں گے اور دربار الہٰی میں بائیں طرف کھڑے کیے جائیں گے۔

جونا گڑھی

اور بائیں ہاتھ والوں کا کیا حال ہے بائیں ہاتھ والوں کا

 اس سے مراد کافر ہیں جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ 

وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ

امین احسن اصلاحی

رہے سابقون، تو وہ تو سبقت کرنے والے ہی ہیں!

’سَابِقُوْنَ‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے دعوت حق کے قبول کرنے میں سبقت کی اور اس دور میں اپنے جان و مال سے اس کی خدمت کی توفیق پائی جب اس کی خدمت کرنے والے تھوڑے تھے اور اس کی مدد کے لیے حوصلہ کرنا اپنے آپ کو جوکھوں میں ڈالنا تھا۔ چنانچہ سورۂ حدید میں، جو اس کی مثنیٰ سورہ ہے، اس حقیقت پر یوں روشنی ڈالی ہے:

’لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ م بَعْدُ وَقٰتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی‘ (الحدید ۵۷: ۱۰)
(تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں انفاق اور جہاد کریں گے اور دوسرے جو اس سعادت سے محروم رہیں گے، یکساں نہیں ہوں گے۔ پہلے انفاق و جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا ہے ان لوگوں سے جنھوں نے بعد میں انفاق و جہاد کیا اگرچہ اللہ کا وعدہ دونوں سے اچھا ہی ہے)۔

’وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ‘ میں دوسرا ’سَابِقُوْنَ‘ خبر کے محل میں ہے اور اس ایجاز میں غایت درجہ بلاغت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ’سَابِقُوْنَ‘ کی عالی مقامی کا کیا پوچھنا ہے، وہ تو ’سَابِقُوْنَ‘ ہی ہوئے! جب وہ سابقون ہیں تو ان کے درجہ و مرتبہ کو کون پہنچ سکتا ہے! وہ لازماً وہاں تک پہنچیں گے جو انسانی شرف و مزیّت کا آخری نقطہ ہے اور اس نقطۂ کمال کا اندازہ بھلا اس عالم ناسوت میں کون کر سکتا ہے!
اس تفصیل سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے جنھوں نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ دربار الٰہی میں جگہیں پانے والوں کی ترتیب بیان ہوئی ہے۔ اللہ جل شانہٗ کے دربار سے متعلق اول تو دہنے بائیں اور آگے پیچھے کا تصور ہی ایک بے معنی تصور ہے اور اگر اس تصور کی گنجائش تسلیم بھی کر لی جائے تو یہ امر اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ اس دربار میں اصحاب الشمال کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں ہو گی نہ بائیں نہ پیچھے بلکہ ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا جس کی وضاحت آگے اس سورہ میں بھی آ رہی ہے اور قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی آئی ہے۔
دوسری حقیقت یہ واضح ہوئی کہ ’اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ‘ عام مسلمانوں کے مفہوم میں نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اعمال نامے بطور اعزاز داہنے ہاتھ میں دیے جائیں گے اور وہ اپنے شان دار کارناموں پر نہایت شاداں و فرحاں بھی ہوں گے۔ عام مسلمانوں میں تو بے شمار ایسے لوگ بھی ہیں جن کی نسبت یہ گمان کرنا بڑا ہی فیاضانہ حسن ظن ہو گا کہ ان کے اعمال نامے ان کے دہنے ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے اور وہ جوش مسرت میں ’ھَآؤُمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِیَہْ‘ کا نعرہ بھی لگانے کے لائق ہوں گے۔ رہا یہ سوال کہ ’اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ‘ اور ’سَابِقُوْنَ‘ میں کس نوعیت کا فرق ہے تو اس کی طرف اوپر بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں اور آگے بھی اس کی وضاحت آ رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔

یہ اُن لوگوں کا ذکر ہے جنھوں نے دعوت حق کے قبول کرنے میں سبقت کی، بھلائی کے ہر کام میں سب سے آگے رہے اور اُس زمانے میں اپنے جان و مال سے خدمت حق کی توفیق پائی، جب اِس خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔

ابو الاعلی مودودی

​ اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں ۔

سابقین (آگے والوں) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکی اور حق پرستی میں سب پر سبقت لے گئے ہوں، بھلائی کے ہر کام میں سب سے آگے ہوں، خدا اور رسول کی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے ہوں، جہاد کا معاملہ ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کا یا خدمت خلق کا یا دعوت خیر اور تبلیغ حق کا، غرض دنیا میں بھلائی پھیلانے اور برائی مٹانے کے لیے ایثار و قربانی اور محنت و جانفشانی کا جو موقع بھی پیش آئے اس میں وہی آگے بڑھ کر کام کرنے والے ہوں۔ اس بنا پر آخرت میں بھی سب سے آگے وہی رکھے جائیں گے۔ گویا وہاں اللہ تعالیٰ کے دربار کا نقشہ یہ ہوگا کہ دائیں بازو میں صالحین، بائیں بازو میں فاسقین، اور سب سے آگے بارگاہ خداوندی کے قریب سابقین۔ حدیث میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے پوچھا ” جانتے ہو قیامت کے روز کون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سایہ میں جگہ پائیں گے ؟ ” لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے۔ فرمایا الذین اعطوا الحق قبلوہ، واذا سُئِلوہ بذلوہ، وحکموا الناس کحکمہم لا نفسہم، ” وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا انہوں نے قبول کرلیا، جب ان سے حق مانگا گیا انہوں نے ادا کردیا، اور دوسروں کے معاملہ میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جو خود اپنی ذات کے معاملہ میں تھا۔ ” (مسند احمد) ۔

جونا گڑھی

اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہیں

 ان سے مراد خواص مومنین ہیں، یہ تیسری قسم ہے جو ایمان قبول کرنے میں سبقت کرنے اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو قرب خاص سے نوازے گا، یہ ترکیب ایسے ہی ہے، جیسے کہتے ہیں، تو تو ہے اور زید زید، اس میں گویا زید کی اہمیت اور فضیلت کا بیان ہے۔ 

Page 1 of 10 pages  1 2 3 >  Last ›