آیات ۱ تا ۶ ۔ [عام خطاب] قرآن کے نزول کی ضرورت کی وضاحت اور استدلال View

الم

امین احسن اصلاحی

یہ الٓمّٓ ہے۔

سورۂ بقرہ کی تفسیر میں حروف مقطعات پر ایک جامع بحث ہم کر چکے ہیں۔ وہاں ہم نے اس باب میں استاذ امام مولانا فراہی رحمتہ اللہ علیہ کا نقطہ نظر بھی پیش کر دیا ہے ۔ اس کے سوا کوئی نئی چیز اس سلسلے میں ہمارے سامنے ایسی نہیں آئی جو یہاں قابل ذکر ہو۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورہ الم ہے

سورۂ بقرہ کی طرح اِس سورہ کا نام بھی الم ہے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ دونوں سورتیں توام ہیں۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں ؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

الف لام میم۔

​n/a

جونا گڑھی

الم۔

n/a

اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ

امین احسن اصلاحی

اللہ ہی معبود ہے، نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی، زندہ اور قائم رکھنے والا

اس آیت میں جو اسمائے حسنی مذکور ہیں سب کی تحقیق گزر چکی ہے۔ بعض کی تفسیر سورۂ فاتحہ میں، بعض کی سورہ بقرہ میں۔

صفات حیات و قیومیت کے اسرار و مقتضیات

یہ امر، جیسا کہ ہم تمھید میں اشارہ کر چکے ہیں، ملحوظ رہے کہ اس سورہ میں استدلال بیشتر صفاتِ الٰہی سے ہے۔ صفات الٰہی میں سب سے پہلے صفاتِ حیات و قیومیت کو لیا ہے۔ ان دونوں صفتوں کے اسرار و حقائق پر ہم آیت الکرسی کے اسرار و حقائق میں گفتگو کر چکے ہیں۔ یہاں ان کا اعادہ باعث طوالت ہو گا۔ یہاں موقع کلام کی مناسبت سے ان صفات کا حوالہ کتابِ الٰہی کی ضرورت کے اثبات کے پہلو سے ہے۔ چنانچہ بعد کی آیات سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو رہا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ایک زندہ خدا ہے تو ناگزیر ہے کہ وہ سب کچھ دیکھتا سنتا ہے، ہماری دعائیں، فریادیں اس تک پہنچتی ہیں ہمارے اعمال و افعال اس کی نظر میں ہیں۔ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ہماری دعائیں اپنی حکمت کے مطابق قبول فرماتا ہے اور ہمارے اعمال پر وہ ایک دن جزا اور سزا بھی دے گا۔ پھر ایک قدم اور آگے بڑھ کر اس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ بندے اپنی زندگی میں وہ رویہ اختیار کریں جو اسے پسند ہو۔ یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ بندوں میں اس بات کی جستجو ہو کہ کون سے اعمال خدا کو پسند ہیں، کون سے ناپسند، تاکہ وہ اس کی اطاعت و ہدایت کی راہ اختیار کر کے سعادت کا مقام حاصل کر سکیں اور حقیقی زندگی کے چشمۂ حیواں سے فیض یاب ہو سکیں۔

حی

اہل کتاب ’’خداوند خدا، زندہ خدا‘‘ کی تعبیر سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ ان کے انبیا کے صحیفوں میں بکثرت یہ تعبیر استعمال ہوئی ہے۔ جہاں کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے علم اور اس کی غیرت کا اظہار ہوا ہے بالعموم اس کے لیے ’’زندہ خدا‘‘ ہی کی تعبیر ہوئی ہے۔ نصاریٰ اگرچہ اپنے زعم کے مطابق ایک مصلوب خدا کی پرستش کرتے ہیں لیکن وہ بھی ’’زندہ خدا‘‘ کی تعبیر سے نا آشنا نہیں تھے۔ اس وجہ سے یہ بات بداہتہً ان کے خلاف جاتی ہے کہ ایک طرف تو وہ زندہ خدا کا تصور رکھتے ہیں اور دوسری طرف اس کا مصلوب ہونا بھی مانتے ہیں۔

قیوم

اسی طرح ’’قیوم‘‘ کی صفت بھی انبیا کے صحیفوں میں بار بار مذکور ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قیوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اللہ ہی کے حکم اور اس کی قدرت سے قائم ہے۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کی ان بدیہی صفات میں سے ہے جن پر عقلاً بھی ایمان لانا ضروری ہے اور انبیا کے صحیفوں کی رو سے بھی۔ نصاریٰ بھی ان صحیفوں پر ایمان کے مدعی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ حضرت مسیحؑ کی الوہیت کے قائل ہیں۔ اگر ان سے یہ سوال کیا جائے کہ جب تم خود اقرار کرتے ہوکہ حضرت مسیح بھوک پیاس محسوس کرتے تھے، غذا اور پانی کے محتاج تھے، بغیر ان چیزوں کے وہ اپنی ہستی کو قائم رکھنے پر قادر نہ تھے تو پھر وہ خدا کس طرح ہوئے، جب کہ خدا کے لیے تمھارے اپنے انبیا کے ارشاد کے بموجب قیوم ہونا صروری ہے؟ یا یہ سوال کیا جائے کہ جب تمھاری اپنی انجیلوں سے ثابت ہے کہ حضرت مسیحؑ مصائب و شداید پیش آنے پر روئے، ان کا دل تنگ ہوا اور سولی پر انھوں نے فریاد کی تو پھر وہ آسمان و زمین کے تھامنے والے اور قائم رکھنے والے کیسے ہوسکتے ہیں؟ تو ان سوالوں کے جواب میں ان کے پاس ضد اور کٹ حجتی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
یہاں قیوم کی صفت کا حوالہ اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قیوم ہونے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ہمیں ہدایت بخشے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ واحد، ہمارا پروردگار، جس طرح ہمارا پیدا کرنے والا اور ہمیں زندگی بخشنے والا ہے اسی طرح وہ، جیسا کہ آیت الکرسی میں ارشاد ہوا، اپنی خلق کو قائم رکھنے والا بھی ہے اور اس کے لیے اس نے ہر قسم کے اسباب و وسائل پیدا کیے ہیں۔ پھر جب اس نے ہماری معیشت کے لیے یہ کچھ سامان کیے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ہماری اجتماعی زندگی کے لیے وہ چیز نہ دے جو ہمارے قیام و بقا کی ضامن ہو سکے درآنحالیکہ یہ چیز ہماری خلقت کی اصل غایت ہے۔ چنانچہ یہی چیز قیام عدل و قسط کی اصل اور اللہ کی طرف سے شرائع و احکام کے نزول کی بنیاد بنی اس لیے کہ اس کے بغیر فطرتِ انسانی ارتقا کے اس درجے کو حاصل نہیں کر سکتی تھی جو اس کے وجود کے اندر مضمر ہے۔
یہ قیومیت اس بات کی بھی مقتضی ہوئی کہ خدائے قیوم و کارساز اس امر کی بھی نگرانی رکھے کہ جب بندے اپنی خود مختاری اور سرکشی سے کام لے کر اس کے نظامِ عدل کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کریں تو وہ اپنے ایسے بندوں کو بھی اٹھاتا رہے جو اس کو ازسرِ نو بحال کرنے کے لیے اپنی مساعی صرف کریں۔ چنانچہ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ خاتم الانبیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تک اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عدل و حق اور اپنی سیدھی راہ پر استوار رکھنے کے لیے اپنے بے شمار نبی اور رسول بھیجے اور خاتم الانبیا پر دین کی تکمیل کر دینے اور کتابِ الٰہی کو ہر قسم کی دست اندازیوں سے محفوظ کر دینے کے بعد اس مقصد کے لیے یہ اہتمام فرمایا کہ ہر دور میں اس امت کے اندر ایک ایسا گروہ، خواہ وہ کتنا ہی قلیل التعداد ہو، پیدا ہوتا رہے گا جو خود حق و عدل پر قائم اور دوسروں کو اس عدل و حق کے قائم کرنے کی دعوت دیتا رہے گا۔ اس حقیقت کی وضاحت حدیثوں میں بھی ہوئی ہے اوراس کی طرف بعض لطیف اشارات اس سورہ میں بھی آ رہے ہیں جن کی طرف ہم آگے ان شاء اللہ موزوں مقامات میں توجہ دلائیں گے۔

جاوید احمد غامدی

اللہ وہ ہستی ہے کہ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، زندہ اور سب کو قائم رکھنے والا ہے

اصل میں لفظ ’الْقَیُّوْم‘ استعمال ہوا ہے ۔ اِس کے معنی ہیں: وہ ہستی جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والی ہو ۔ اِس سے اور اِس سے پہلے ’حَیّ‘ کی صفت سے قرآن نے اُن تمام معبودوں کی نفی کر دی ہے جو نہ زندہ ہیں ، نہ دوسروں کو زندگی دے سکتے ہیں، اور نہ اپنے بل پر قائم ہیں ، نہ دوسروں کو قائم رکھنے والے ہیں ، بلکہ خود اپنی زندگی اور بقا کے لیے ایک حی و قیوم کے محتاج ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔

یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبود بنا رکھے ہوں، مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکت غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے۔ کوئی دوسرا نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اور کو معبود (الہ) بنایا جا رہا ہے، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے۔

جونا گڑھی

اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ اور سب کا نگہبان ہے

 حَیُّ اور قَیُوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں جن کا مطلب وہ ازل سے ابد تک رہے گا اسے موت اور فنا نہیں قیوم کا مطلب سارے کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتے تھے گویا ان کو کہا جا رہا ہے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصہ بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہو سکتے ہیں نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے تھی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہوچکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔ ایک یہ آل عمران کی آیت۔ دوسری آیت الکرسی اور تیسری سورة طہٰ (ابن کثیر تفسیر آیت الکرسی) 

نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ

امین احسن اصلاحی

اس نے تم پر کتاب اتاری حق کے ساتھ مصداق اس کی جو اس کے آگے سے موجود ہے۔ اور اس نے تورات اور انجیل اتاری

قرآن کے اتارے جانے کی ضرورت

’’حق‘‘ کے معنی کی تحقیق تفسیر سورۂ بقرہ کے شروع میں ہم بیان کر چکے ہیں (دیکھیے سورة البقرہ آیت ۷۱)۔ یہاں اس کے مختلف معانی میں سے ’’قولِ فیصل‘‘ مراد ہے۔ یعنی وہ بات جو نزاع و اختلاف کا فیصلہ کر دے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ یہود و نصاریٰ کو جو کتاب دی گئی تھی اس میں انھوں نے اختلاف پیدا کر دیے جس کے سبب سے اصل حقیقت گم ہو کر رہ گئی تھی۔ اس گم شدہ حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن اتارا تاکہ لوگ اللہ کے اصل دین سے بہرہ مند ہوں اور اختلاف و نزاعات کی بھول بھلیوں سے نکل کر دین کی اصلی شاہراہ پر آ جائیں۔

’مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘

’مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘ پر بھی تفصیلی بحث سورہ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ قرآن کے ’مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘ ہونے کے ایک مشہور معنی تو یہ ہیں کہ یہ بنیادی طور پر پچھلے صحیفوں کی تمام صحیح تعلیمات کی تصدیق کرتا ہے، صرف ان باتوں کی تردید کرتا ہے جو ان میں ملاوٹ کرنے والوں کی طرف سے ملا دی گئی ہیں۔ قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفوں کی یہ ہم اہنگی و ہم رنگی اس بات کی صاف شہادت ہے کہ یہ سب ایک ہی آفتابِ حق کی شعائیں اور ایک ہی منبع انوار کے پرتو ہیں۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ قرآن اور اس کے حامل کی صفات پچھلے صحیفوں کی پیشین گوئیوں میں مذکور ہیں، یہ پیشین گوئیاں اب تک اپنے مصداق کی منتظر تھیں، قرآن کے نزول اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ان کی تصدیق ہوئی۔ یہ قران کے حق ہونے کی ایک بہت بڑی شہادت ہے اور ساتھ ہی اس سے ان صحیفوں کی بھی تصدیق ہو رہی ہے کہ ان میں جو پیشین گوئیاں وارد تھیں وہ سچی ثابت ہوئیں۔ اس پہلو سے قرآن سب سے پہلے ان لوگوں کی طرف خیر مقدم کا سزاوار تھا جو اگلے صحیفوں پر ایمان کے مدعی تھے کہ اصلاً قرآن کے ظہور سے سب سے زیادہ انہی کے سر اونچے ہوئے تھے، لیکن انھوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اس کا انکار کیا۔

جاوید احمد غامدی

(لوگوں کو امتحان میں ڈال کر وہ اُن کی ہدایت سے بے پروا نہیں ہو سکتا تھا ، لہٰذا) اُس نے یہ کتاب تم پر قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے ، اُن پیشین گوئیوں کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہیں ، اور تورات و انجیل کو بھی

n/a

ابو الاعلی مودودی

اُس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے، جو حق لے کر آئی ہے اور اُن کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے۔

عام طور پر لوگ تورات سے مراد بائیبل کے پرانے عہد نامے کی ابتدائی پانچ کتابیں اور انجیل سے مراد نئے عہد نامے کی چار مشہور انجیلیں لے لیتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ الجھن پیش آتی ہے کہ کیا فی الواقع یہ کتابیں کلام الٰہی ہیں ؟ اور کیا واقعی قرآن ان سب باتوں کی تصدیق کرتا ہے جو ان میں درج ہیں ؟ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ تورات بائیبل کی پہلی پانچ کتابوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ان کے اندر مندرج ہے، اور انجیل نئے عہد نامہ کی اناجیل اربعہ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ان کے اندر پائی جاتی ہے۔

دراصل تورات سے مراد وہ احکام ہیں، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے لے کر ان کی وفات تک تقریباً چالیس سال کے دوران میں ان پر نازل ہوئے۔ ان میں سے دس احکام تو وہ تھے، جو اللہ تعالیٰ نے پتھر کی لوحوں پر کندہ کر کے انہیں دیے تھے۔ باقی ماندہ احکام کو حضرت موسیٰ نے لکھوا کر اس کی ١٢ نقلیں بنی اسرائیل کے ١٢ قبیلوں کو دے دی تھیں اور ایک نقل بنی لاوِی کے حوالے کی تھی تاکہ وہ اس کی حفاظت کریں۔ اسی کتاب کا نام ” تورات “ تھا۔ یہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے بیت المقدس کی پہلی تباہی کے وقت تک محفوظ تھی۔ اس کی ایک کا پی جو بنی لاوی کے حوالے کی گئی تھی، پتھروں کی لوحوں سمیت، عہد کے صندوق میں رکھ دی گئی تھی اور بنی اسرائیل اس کو ” توریت “ ہی کے نام سے جانتے تھے۔ لیکن اس سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ یہودیہ کے بادشاہ یوسیاہ کے عہد میں جب ہیکل سلیمانی کی مرمت ہوئی تو اتفاق سے سردار کاہن (یعنی ہیکل کے سجادہ نشین اور قوم کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا) خلقیاہ کو ایک جگہ توریت رکھی ہوئی مل گئی اور اس نے ایک عجوبے کی طرح اسے شاہی منشی کو دیا اور شاہی منشی نے اسے لے جا کر بادشاہ کے سامنے اس طرح پیش کیا، جیسے ایک عجیب انکشاف ہوا ہے (ملاحظہ ہو ٢۔ سلاطین، باب ٢٢۔ آیت ٨ تا ١٣) ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بخت نَصَّر نے یروشلم فتح کیا اور ہیکل سمیت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، تو بنی اسرائیل نے تورات کے وہ اصل نسخے، جو ان کے ہاں طاق نسیاں پر رکھے ہوئے تھے اور بہت تھوڑی تعداد میں تھے، ہمیشہ کے لیے گم کردیے۔ پھر جب عزر اکاہن (عزیر) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے بچے کھچے لوگ بابل کی اسیری سے واپس یروشلم آئے اور دوبارہ بیت المقدس تعمیر ہوا، تو عزرا نے اپنی قوم کے چند دوسرے بزرگوں کی مدد سے بنی اسرائیل کی پوری تاریخ مرتب کی، جو اب بائیبل کی پہلی ١٧ کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ کے چار باب، یعنی خروج، احبار، گنتی اور استثنا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت پر مشتمل ہیں اور اس سیرت ہی میں تاریخ نزول کی ترتیب کے مطابق تورات کی وہ آیات بھی حسب موقع درج کردی گئی ہیں، جو عزرا اور ان کے مددگار بزرگوں کو دستیاب ہو سکیں۔ پس دراصل اب تورات ان منتشر اجزا کا نام ہے، جو سیرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اندر بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں صرف اس علامت سے پہچان سکتے ہیں کہ اس تاریخی بیان کے دوران میں جہاں کہیں سیرت موسوی کا مصنف کہتا ہے کہ خدا نے موسیٰ سے یہ فرمایا، یا موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارا خدا یہ کہتا ہے، وہاں سے تورات کا ایک جز شروع ہوتا ہے اور جہاں پھر سیرت کی تقریر شروع ہوجاتی ہے، وہاں وہ جز ختم ہوجاتا ہے۔ بیچ میں جہاں کہیں کوئی چیز بائیبل کے مصنف نے تفسیر و تشریح کے طور پر بڑھا دی ہے، وہاں ایک عام آدمی کے لیے یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ آیا یہ اصل تورات کا حصہ ہے، یا شرح و تفسیر۔ تاہم جو لوگ کتب آسمانی میں بصیرت رکھتے ہیں، وہ ایک حد تک صحت کے ساتھ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ ان اجزا میں کہاں کہاں تفسیری و تشریحی اضافے ملحق کردیے گئے ہیں۔

قرآن انہیں منتشر اجزا کو ” تورات “ کہتا ہے، اور انہیں کی وہ تصدیق کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان اجزا کو جمع کر کے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے، تو بجز اس کے کہ بعض بعض مقامات پر جزوی احکام میں اختلاف ہے، اصولی تعلیمات میں دونوں کتابوں کے درمیان یک سرمو فرق نہیں پایا جاتا۔ آج بھی ایک ناظر صریح طور پر محسوس کرسکتا ہے کہ یہ دونوں چشمے ایک ہی منبع سے نکلے ہوئے ہیں۔

اسی طرح انجیل دراصل نام ہے ان الہامی خطبات اور اقوال کا، جو مسیح (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت نبی ارشاد فرمائے۔ وہ کلمات طیبات آپ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں، اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعہ معلومات نہیں ہے۔ ممکن ہے بعض لوگوں نے انہیں نوٹ کرلیا ہو، اور ممکن ہے کہ سننے والے معتقدین نے ان کو زبانی یاد رکھا ہو۔ بہرحال ایک مدت کے بعد جب آنجناب کی سیرت پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے، تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسب موقع درج کردیے گئے، جو ان رسالوں کے مصنفین تک زبانی روایات اور تحریری یادداشتوں کے ذریعے سے پہنچے تھے۔ آج متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے، دراصل انجیل وہ نہیں ہیں، بلکہ انجیل حضرت مسیح کے وہ ارشادات ہیں، جو ان کے اندر درج ہیں۔ ہمارے پاس ان کو پہچاننے اور مصنفین سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیح نے یہ فرمایا یا لوگوں کو یہ تعلیم دی، صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزا ہیں۔ قرآن انہیں اجزا کے مجموعے کو ” انجیل “ کہتا ہے اور انہیں کی وہ تصدیق کرتا ہے۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزا کو مرتب کر کے قرآن سے ان کا مقابلہ کر کے دیکھے، تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا اور جو تھوڑا بہت فرق محسوس ہوگا، وہ بھی غیر معتصبانہ غور و تامل کے بعد بآسانی حل کی جاسکے گا۔

جونا گڑھی

جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے اسی اس سے پہلے تورات اور انجیل کو اتارا تھا

 یعنی اس کی منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ 

مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ

امین احسن اصلاحی

اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر۔ اور پھر فرقان اُتارا۔ بے شک جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا، ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب اور انتقام لینے والا ہے

خلاصۂ مطلب

’وَاَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ مِنْ قَبْلُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ‘ الایۃ۔ یہ اوپر والے ٹکڑے کے اجمال کی تفصیل ہے جس سے قرآن کے اتارے جانے کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ حی و قیوم ہے اس وجہ سے اس نے ہماری زندگی کی رہنمائی اور ہمیں عدل و قسط پر استوار رکھنے کے لیے قران کو قولِ فیصل بنا کر اتارا ہے۔ اس سے پہلے اس نے لوگوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل فرمائیں لیکن ان کے پیروؤں نے ان میں تحریف اور ان کے بعض حصوں کو فراموش کر کے ان میں بہت سے اختلافات پیدا کر دیے جس کے سبب سے حق و باطل میں امتیاز ناممکن ہو گیا۔ یہ صورتِ حال مقتضی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ قرآن کو حق و باطل کے درمیان امتیاز کی کسوٹی بنا کر اتارے۔ چنانچہ اس نے یہ کتاب نازل فرمائی۔ اب جو لوگ اس کتاب کا انکار کریں گے ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب ہے اس لیے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس نظامِ عدل و قسط کے دشمن ہیں جو اس کی مخلوق کی صلاح و فلاح اور اس کی دنیا و آخرت دونوں کی سعادت کے لیے ضروری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو چھوڑ دے، ان کی عدل دشمنی کی ان کو سزا نہ دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے اپنی دنیا کو تباہی کے لیے چھوڑ دیا اور اس کے بقا سے اسے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ درآنحالیکہ اس کی صفت، جیسا کہ اسی سورہ میں آگے ذکر آئے گا ’قَاءِمًا بِالْقِسْط‘ ہے۔ اس قوامیت کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ اس قسط کے دشمنوں سے انتقام لے اوران کو واجبی سزا دے۔ وہ عزیز یعنی غالب اور قدرت والا ہے، کمزور اور ناتوان نہیں ہے کہ کوئی اسے بے بس کر دے، اسی طرح وہ انتقام والا ہے یعنی عدل و قسط کے معاملے میں غیور ہے، سرد مہر اور بے احساس نہیں ہے کہ ان کی پامالی پر راضی ہو جائے۔ یہ اس کی انھی صفات کا ظہور ہے کہ جن قوموں نے اس کے قائم کردہ قسط کو مٹایا ہے، ایک خاص حد تک ان کو مہلت دینے کے بعد اس نے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے اور جب جب اس کے شرائع و احکام کو نابود کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس نے ان کو ازسرنو تازہ کرنے اور سنوارنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ عدل و قسط کے قیام و بقا کے لیے اپنی اسی سنت کو یہاں انتقام سے تعبیر فرمایا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِس سے پہلے اُسی نے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اتارا تھا ، اور اب یہ فرقان بھی اُسی نے اتارا ہے۔ (یہ اللہ کی آیتیں ہیں، اور) جو لوگ (جانتے بوجھتے) اللہ کی آیتوں کے منکر ہوں، اُن کے لیے بڑا سخت عذاب ہے، اور اللہ زبردست ہے ، وہ (اِس طرح کے لوگوں سے) انتقام لینے والا ہے

یعنی جب وہ لوگوں کا معبود بھی ہے اور حی و قیوم بھی تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ اُنھیں امتحان کے لیے دنیا میں بھیجے اور پھر حق و باطل کے معاملے میں اُن کی رہنمائی نہ فرمائے ۔ چنانچہ لوگوں کو اختلافات کی تاریکی سے نکالنے کے لیے اپنی کتابوں کی صورت میں یہ روشنی اُس نے نازل کر دی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے (جو حق اور باطل کا فرق د کھانے والی ہے)۔ اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی۔ اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے۔

n/a

جونا گڑھی

اس سے پہلے لوگوں کو ہدایت کرنے والی بنا کر اور قرآن بھی اسی نے اتارا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے، بدلہ لینے والا۔

  اس سے پہلے انبیاء پر جو کتابیں نازل ہوئیں یہ کتاب اس کی تصدیق کرتی ہے یعنی جو باتیں ان میں درج تھیں ان کی صداقت اور ان میں بیان کردہ پیشن گوئیوں کا اعتراف کرتی ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں یہ قرآن کریم بھی اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پہلے بہت سی کتابیں نازل فرمائیں۔ اگر یہ کسی اور کی طرف سے یا انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ان میں باہم مطابقت کی بجائے مخالفت ہوتی۔

 یعنی اپنے وقت میں تورات اور انجیل بھی یقینا لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ تھیں اسلئے کہ ان کے اتارنے کا مقصد ہی یہی تھا۔ تاہم اس کے بعد دوبارہ کہہ کر وضاحت فرما دی کہ اب تورات و انجیل کا دور ختم ہوگیا اب قرآن نازل ہوچکا ہے وہ فرقان ہے اور اب صرف وہی حق و باطل کی پہچان ہے اس کو سچا مانے بغیر عند اللہ کوئی مسلمان اور مومن نہیں۔ 

إِنَّ اللَّـهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ

امین احسن اصلاحی

اللہ سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمان میں

قیام عدل پر صفاتِ الٰہی سے استدلال

اوپر والی آیت میں کتابِ الٰہی کے مخالفین یا بالفاظِ دیگر عدل و قسط کے ہادمین کے لیے جو سزا مذکور ہوئی ہے یہ اس کی دلیل ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا کی اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے وہ بے خبر رہتا ہے۔ اس سے کوئی بات بھی مخفی نہیں رہتی، خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی، اور خواہ زمین میں پیش آئے یا آسمانوں میں، خدا کا علم ہر چیز اور ہر جگہ کو محیط ہے.

جاوید احمد غامدی

(اِس لیے کہ) اللہ سے نہ زمین میں کوئی چیز چھپی ہوئی ہے، نہ آسمان میں

n/a

ابو الاعلی مودودی

زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں۔

یعنی وہ کائنات کی تمام حقیقتوں کا جاننے والا ہے۔ لہٰذا جو کتاب اس نے نازل کی ہو، وہ سراسر حق ہی ہونی چاہیے۔ بلکہ خالص حق صرف اسی کتاب میں انسان کو میسر آسکتا ہے، جو اس علیم و دانا کی طرف سے نازل ہو۔

جونا گڑھی

یقیناً اللہ تعالیٰ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔

n/a

هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جو تمھاری صورت گری کرتا ہے رحموں کے اندر جس طرح چاہتا ہے۔ نہیں کوئی معبود مگر وہ، وہ غالب اور حکیم ہے

اس سے کوئی بات بھی مخفی نہیں رہتی، خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی، اور خواہ زمین میں پیش آئے یا آسمانوں میں، خدا کا علم ہر چیز اور ہر جگہ کو محیط ہے. اور محیط کیوں نہ ہو اسی نے تو سب کو پیدا کیا اور وہی ہے جو رحموں کے اندر صورت گری فرماتا ہے تو جس نے پیدا کیا اور جس نے صورت گری فرمائی کیا وہ بھی بے خبر ہو سکتا ہے

اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَق
(کیا جس نے پیدا کیا وہ بھی نہ جانے گا)

اس کے بعد توحید اور خدا کی صفات میں عزیز اور حکیم کا حوالہ دیا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ محیط کُل علم رکھنے والی ہستی اگر قیام عدل و قسط کا اہتمام نہ کرے تو اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ اس کو عزت وقدرت حاصل نہیں ہے یا عزت و قدرت تو حاصل ہے لیکن اس کو اپنے کاموں میں کسی حکمت و مصلحت کی کوئی پروا نہیں، بس ایک کھلنڈرے کا کھیل ہے، خیر ہو یا شر، ظلم ہو یا انصاف اس سے اسے کچھ بحث نہیں، دونوں ہی چیزیں اس کی نظر میں یکساں ہیں۔ یہ خیال بالبداہت باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی، اسے ہر چیز پر قدرت بھی حاصل ہے اور اس کے ہر کام میں عدل و حکمت بھی ہے اور ساتھ ہی وہ ہر چیز سے با خبر بھی ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں سے انتقام نہ لے گا جو اللہ کی اس کتاب کا انکار کریں گے جو اس نے دنیا میں ازسرِ نو حق و عدل کے آثار و اعلام کو اجاگر کرنے کے لیے نازل فرمائی ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہی تو ہے جو ماؤں کے پیٹ میں تمھاری صورتیں، جس طرح چاہتا ہے ، بنا دیتا ہے۔ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے

یعنی وہ جب اُن کی سرکشی کو دیکھ بھی رہا ہے ، اُن کا معبود بھی وہی ہے ، اُن سے انتقام کی قدرت بھی رکھتا ہے اور ایک حکیم کی حیثیت سے اُس کی حکمت کا تقاضا بھی ہے کہ اِس طرح کے مجرموں کو اُن کے انجام تک پہنچا دے تو ضروری تھا کہ وہ بدلہ لینے والا ہو ۔ و ہ اگر ایسا نہ کرے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو وہ اُنھیں دیکھ نہیں رہا یا تنہا وہی معبود نہیں ہے یا دنیا کے بعض معاملات اُس نے دوسروں کے سپرد کر دیے ہیں یا بے بس ہے کہ اِس طرح کے مجرموں کو پکڑنے کی قدرت نہیں رکھتا یا کھلنڈرا ہے کہ خیر و شر کو ایک ہی جگہ رکھ کر اُن کا تماشا دیکھ رہا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں، جیسی چاہتا ہے، بناتا ہے۔ اُس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔

اس میں دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک یہ کہ تمہاری فطرت کو جیسا وہ جانتا ہے، نہ کوئی دوسرا جان سکتا ہے، نہ تم خود جان سکتے ہو۔ لہٰذا اس کی رہنمائی پر اعتماد کیے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جس نے تمہارے استقرار حمل سے لے کر بعد کے مراحل تک ہر موقع پر تمہاری چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں تک کو پورا کرنے کا اہتمام کیا، کس طرح ممکن تھا کہ وہ دنیا میں تمہاری ہدایت و رہنمائی کا انتظام نہ کرتا، حالانکہ تم سب سے بڑھ کر اگر کسی چیز کے محتاج ہو، تو وہ یہی ہے۔

جونا گڑھی

وہ ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح کی چاہتا ہے بناتا ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

 خوب صورت یا بد صورت، مذکر یا مونث نیک بخت یا بد بخت، ناقص الخلقت یا تام الخلقت جب رحم مادر میں یہ سارے تصرفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کس طرح ہو سکتے ہیں جو خود بھی اسی مرحلہ تخلیق سے گزر کر دنیا میں آئے ہیں جس کا سلسلہ اللہ نے رحم مادر میں قائم فرمایا۔ 

آیات ۷ تا ۱۷ ۔ [عام خطاب] قرآن کا انکار کرنے والوں اور اس پر ایمان لانے والوں کی خصوصیات کا بیان View

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جس نے تمھارے اوپر کتاب اتاری جس میں مُحکم آیات ہیں جو اصل کتاب کا درجہ رکھتی ہیں اور دوسری کچھ آیتیں اس میں ایسی ہیں جو متشابہ ہیں۔ تو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس میں سے متشابہات کے درپے ہوتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت و ماہیت معلوم کریں حالانکہ ان کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ تو جو لوگ علم میں راسخ ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے، یہ سب ہمارے رب ہی کے پاس سے ہیں۔ اور یاددہانی تو اہلِ عقل ہی حاصل کرتے ہیں

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ

(وہی خدا ہے جس نے تمھارے اوپر کتاب اتاری) سے اشارہ اس عزیز و حکیم اور حی و قیوم خدا کی طرف ہے جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اور اس سے مقصود یہاں مخاطب کو کئی چیزوں کی طرف متوجہ کرنا ہے۔

ایک تو اس عظیم رحمت کی طرف اشارہ کرنا ہے جو اس کتاب کی شکل میں ظہور میں آئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات حیات و قیومیت کا ظہور ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو زندگی جاوداں سے بہرہ مند اور ان کو جادۂ حق پر استوار کرنے کے لیے یہ کتاب اتاری ہے۔ اس عظیم نعمت کا حق یہ ہے کہ بندے اس کی قدر پہچانیں، اس پر ایمان لائیں اور اس کے ذریعے سے حیاتِ جاوداں اور بقائے دوام حاصل کریں۔
دوسرے اس میں ان لوگوں کے لیے تخویف و تہدید کا پہلو بھی ہے جو اس کی تردید و تکذیب کریں گے اس لیے کہ جس خدا نے یہ کتاب اتاری ہے وہ عزیز بھی ہے اور قیوم بھی۔ اس کی اس عزت و حکمت اور اس قیومیت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ان لوگوں کو سزا دے جو اس کے قانونِ حق و عدل کی راہ میں مزاحم ہوں۔
تیسرے اس سے نفس کتاب کے مزاج کی طرف بھی اشارہ ہو رہا ہے کہ یہ ایک خدائے عزیز و حکیم کا کلام ہے اس وجہ سے یہ خود بھی عزیز و حکیم ہے۔ چنانچہ قرآن میں جگہ جگہ اس کی صفت عزیز و حکیم آئی بھی ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ کتاب الجھنے اور موشگافی کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ بقدر ظرف و توفیق فائدہ اٹھانے کے لیے ہے۔ آدمی اس ناپیدا کنار سمندر کی حکمتوں سے جو فائدہ اٹھا سکے اٹھا لے، یہ توقع نہ کرے کہ وہ اس کے تمام اسرار و حقائق کا احاطہ کر سکتا ہے۔ اس کی جو باتیں سمجھ میں نہ آئیں ان کو فتنہ اور شبہات و شکوک کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ ان کو اللہ کے حوالہ کرے۔
اس آیت میں چند الفاظ ایسے استعمال ہوئے ہیں جن کی نوعیت کچھ قرآنی اصطلاحات کی سی ہے، چونکہ آیت کا ٹھیک ٹھیک مفہوم اس وقت تک واضح نہیں ہو سکے گا جب تک ان اصطلاحات کا مفہوم اچھی طرح واضح نہ ہو جائے اس وجہ سے پہلے ہم ان کی وضاحت کرتے ہیں۔

آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ‘ سے مراد

آیات محکمات سے مراد قرآن کی وہ آیات ہیں جو آفاق و انفس کی بالکل بدیہیات، خیر و شر کے مسلمات، اور معرو ف و منکر کے قطعیات و یقینیات پر مشتمل ہیں۔ جن کو دل قبول کرتے ہیں اور جن کو قبول کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی شرط نہیں ہے کہ دل سلیم ہو۔ جن کے حق میں ہر عقل گواہی دیتی ہے بشرطیکہ اس پر تعصب، جذبات اور غیر فطری عقلیات کے پردے پڑے ہوئے نہ ہوں۔ انھی محکمات پر ہر صحیح مذہب کی بنیاد ہوتی ہے اس وجہ سے تمام آسمانی مذاہب اور تمام انبیا سے یہ تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔ چونکہ فطرت انسانی کے اندر ان کی جڑیں نہایت مستحکم ہوتی ہیں۔ شبہات و شکوک کی آندھیاں ان کو ہلانے سے قاصر رہتی ہیں اس وجہ سے قرآن نے ان کو محکمات سے تعبیر کیا ہے۔

أُمُّ الْكِتَابِ‘ کا مفہوم

آیات محکمات کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ ان کی حیثیت ام الکتاب کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ ساری کتاب کا مرجع و مرکز وہی محکمات ہوتی ہیں، انھی پر ساری بحث کا مدار ہوتا ہے۔ ساری شاخیں انھی سے پھوٹتی ہیں۔ اگر کوئی نزاع و اختلاف پیدا ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی انھی کی کسوٹی پر پرکھ کر ہوتا ہے۔ پھر انھی کا یہ درجہ ہوتا ہے کہ ان کو اصول قرار دے کر ان سے مسائل مستنبط کیے جائیں اور ان مسائل پر اسی طرح اعتماد کیا جائے جس طرح اصولوں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔

’آیات متشابہات‘ سے مراد

متشابہات سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں ہمارے مشاہدات و معلومات کے دسترس سے باہر کی باتیں تمثیلی و تشبیہی رنگ میں قرآن نے بتائی ہیں۔ یہ باتیں جس بنیادی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں وہ بجائے خود واضح اور مبرہن ہوتی ہے، عقل اس کے اتنے حصے کو سمجھ سکتی ہے جتنا سمجھنا اس کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ البتہ چونکہ اس کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہوتا ہے اس وجہ سے قرآن ان کو تمثیل و تشبیہہ کے انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ علم کے طالب بقدر استعداد ان سے فائدہ اٹھا لیں اور ان کے اصل صورت و حقیقت کو علم الٰہی کے حوالہ کریں۔ یہ باتیں خدا کی صفات و افعال یا آخرت کی نعمتوں اور اس کے آلام سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں۔ ان کا جس حد تک ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے اتنا ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے اور اس سے ہمارے علم و یقین میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اگر ہم اپنی حد سے آگے بڑھ کر ان کی اصل حقیقت اور صورت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کریں تو یہ چیز فتنہ بن جاتی ہے اور اس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے ذہن سے شک کا ایک کانٹا نکالنا چاہتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے شمار کانٹے اس کے اندر چبھا لیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نایافتہ کی طلب میں اپنی یافتہ دولت کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے اور نہایت واضح حقائق کی اس لیے تکذیب کر دیتا ہے کہ ان کی شکل و صورت ابھی اس کے سامنے نمایاں نہیں ہوئی۔ قرآن نے اسی چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

بَلْ كَذَّبُوا۟ بِمَا لَمْ يُحِيطُوا۟ بِعِلْمِهِۦ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُۥ ۚ  (یونس۔۳۹)
(بلکہ انھوں نے اس چیز کو جھٹلایا جو ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور ابھی تک اس کی حقیقت ان کے سامنے ظاہر نہیں ہوئی ہے.)

متشابہات کی بعض مثالیں

ہم یہاں قرآن سے اس قسم کے بعض متشابہات کی مثالیں نقل کرتے ہیں۔ سورۂ مدثر میں قرآن نے دوزخ کے عذاب کی تصویر ان الفاظ میں پیش کی ہے۔

سَأُصْلِيهِ سَقَرَ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (سورة المدثر آیات ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹)
(میں اس کو دوزخ میں داخل کروں گا اور تمھیں کیا پتا کہ دوزخ کیا ہے؟ وہ نہ ذرا ترس کھائے گی اور نہ کسی چیز کو چھوڑے گی، جسموں کو جھلس دینے والی ہو گی۔ اس پر خدا کے انیس سرہنگ مقرر ہوں گے۔)

اس آیت میں جس سزا کا ذکر ہے وہ ایک حقیقت ہے اور قانون مجازات پر جس کا ایمان ہو اس کے لیے اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں، رہی اس کی تفصیل تو اس کا تعلق چونکہ ایک نادیدہ عالم سے ہے اس وجہ سے اس کی اصل صورت کسی طرح ہماری گرفت میں نہیں آ سکتی۔ اس طرح کے معاملات میں صحیح روش یہ ہے کہ آدمی اتنے پر قناعت کرے جو سمجھ میں آتا ہے۔ جو سمجھ میں نہیں آتا وہ اس عالم میں سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا، اس وجہ سے اس کے درپے ہونے کے بجائے اس کو خدا کے حوالے کرے۔ سلیم الطبع انسان ایسا ہی کرتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں کجی اور عقلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے وہ یہ روش اختیار کرنے کے بجائے متشابہات و تمثیلات کی حقیقت معلوم کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں جس سے وہ خود بھی فتنوں میں پڑتے ہیں اور اپنے جیسے دوسرے بہتوں کو بھی فتنوں میں ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ دیکھیے مذکورہ بالا آیت میں تِسْعَۃَ عَشَرَ کا جو لفظ آیا تو قرآن نے اس کے متعلق شرارت پسندوں کا ردِ عمل یہ بتایا ہے کہ وہ اسی کے درپے ہو گئے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر اس سے فرشتے مراد ہیں تو یہ سوال انھوں نے اٹھایا کہ انیس کے عدد کی تخصیص میں کیا رمز ہے؟ قرآن نے ان کے اس ردِ عمل پر ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا۔

وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ (المدثر آیت ۳۱)
(اور ہم نے دوزخ کی پہرہ داری پر نہیں مقرر کیے ہیں مگر فرشتے، اور ہم نے ان کی تعداد کو نہیں بنایا مگر کافروں کے لیے فتنہ، تاکہ وہ لوگ یقین کریں جن کو کتاب ملی ہے اور ایمان والے اپنے ایمان میں اضافہ کریں اور کتاب پانے والے اور اہل ایمان شک میں نہ پڑیں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو کافر ہیں وہ یہ کہیں کہ اس قسم کی تمثیل سے اللہ تعالیٰ کا کیا مطلب ہے؟ اسی طرح اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور یہ نہیں ہے مگرانسانوں کے لیے یاددہانی۔)

اسی طرح سورۂ بقرہ میں جنت کی نعمتوں کا تمثیلی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب اہل جنت کے سامنے جنت کی نعمتیں پیش کی جائیں گی تو وہ خوشی سے پکار اٹھیں گے کہ یہ تو وہی نعمتیں ہیں جن کی ہمیں پہلے قرآن میں سیر کرا دی گئی تھی، قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُلا وَ اُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا (البقرہ۔ ۲۵) (وہ پکاریں گے، یہ تو وہی چیز ہے جو ہمیں اس سے پہلے بخشی گئی اور وہ دیے جائیں گے اس سے ملتی جلتی) یعنی جنت کی نعمتوں کا ذکر جو تمثیلات و متشابہات کے رنگ میں قرآن میں ہوا ہے اس سے اہل ایمان کو تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں بیٹھے ہوئے ایک سیر جنت کی کر لیتے ہیں لیکن انہی تمثیلات و متشابہات سے متعلق فتنہ جویوں اور ضلالت پسندوں کے رویہ کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے۔

وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا۟ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا۟ هَـٰذَا ٱلَّذِى رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا۟ بِهِۦ مُتَشَـٰبِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَآ أَزْوَٰجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ (البقرہ آیت ۲۵)
(اللہ اس بات سے نہیں جھجکتا کہ کوئی تمثیل بیان کرے خواہ وہ کسی مچھر کی ہو یا اس سے بھی کسی چھوٹی چیز کی، تو جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ تو جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اور ان کے پروردگار ہی کی جانب سے ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تمثیلیں پیش کرنے سے اللہ تعالیٰ نے کیا چاہا؟ اللہ ان تمثیلوں سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور ان سے بہتوں کو راہ یاب کرتا ہے اور ان سے نہیں گمراہ کرتا مگر انھی لوگوں کو جو خدا کی نافرمانی کرنے والے ہوں۔)

اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیات متشابہات سے مراد قرآن کی وہ آیتیں ہیں جن میں یا تو آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں میں سے کسی نعمت یا نقمت کا بیان تمثیلی و تشبیہی رنگ میں ہوا ہے یا خدا کی صفات و افعال میں سے کوئی بات تمثیلی اسلوب میں پیش ہوئی ہے۔ مثلاً آدم میں خدا کا اپنی روح پھونکنا یا حضرت عیسیٰ کو بن باپ کے پیدا کرنا وغیرہ۔ اس طرح کی آیات سے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اہل ایمان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے لیکن جن کی طبیعتوں میں فتنہ پسندی ہوتی ہے وہ انھی کے اندر موشگافیاں کر کے بہت سے فتنے پیدا کر لیتے ہیں۔

تاویل کا مفہوم

تاویل کا لفظ بھی اس آیت میں ذرا ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے یہاں مراد مذکورہ بالا قسم کی کسی بیان کردہ شے کی حقیقت اور اس کی صورت ہے۔ جس مفہوم میں یہ لفظ یہاں استعمال ہوا ہے اسی مفہوم میں سورۂ یوسف میں استعمال ہوا ہے۔

 ۖ وَقَالَ يَـٰٓأَبَتِ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُءْيَـٰىَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّا ۖ  (یوسف آیت ۱۰۰)
(اس نے کہا اے میرے باپ، یہ ہے میرے اس خواب کی حقیقت جو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا، میرے پروردگار نے اس کو واقعہ ثابت کر دکھایا.)

محکمات و متشابہات کے بارے میں چند تنبیہات

یہاں چند باتیں بطور تنبیہ اور بھی قابل ذکر ہیں۔ ان سے اس راہ کی ساری الجھنیں انشاء اللہ دور ہو جائیں گی۔

ایک یہ کہ اس آیت میں اسلوبِ کلام حصر کا نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ نہیں گمان کرنا چاہیے کہ بس قرآن کی آیات دو ہی قسموں، محکمات اور متشابہات، ہی میں تقسیم ہیں۔ یہاں صرف انھی دونوں قسموں کا ذکر دو متقابل قسموں کی حیثیت سے ہوا ہے اور مقصود ان کے ذکر سے محض فتنہ پسندوں اور ہدایت پسندوں کے اختلافِ ذوق کو نمایاں کرنا ہے کہ جو طبیعتیں فتنہ پسند ہوں ان کی ساری دلچسپی صرف متشابہات سے ہوتی ہے تاکہ ان کے ذوق فتنہ جوئی کے لیے کوئی غذا فراہم ہو سکے۔ برعکس اس کے جو علم و معرفت کے طالب ہوتے ہیں اور جن پر حقیقت پسندی کا رنگ غالب ہوتا ہے ان کی اصلی دلچسپی محکمات سے ہوتی ہے۔ جہاں تک متشابہات کا تعلق ہے ان کا جتنا حصہ ان کی سمجھ میں آتا ہے اس سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، جو حصہ سمجھ میں نہیں آتا اس کی صورت و ہیئت معلوم کرنے کے پیچھے نہیں پڑتے بلکہ اس کو خدا کے حوالے کرتے ہیں۔ محکمات کی بدولت چونکہ ان کے قدم علم میں بہت راسخ ہو جاتے ہیں اس وجہ سے اس طرح کی چیزیں ان کو متزلزل نہیں کرتیں۔ قرآن میں ان دو قسموں کے علاوہ بھی آیات ہیں لیکن مقصود یہاں چونکہ آیاتِ قرآنی کی تمام انواع کا احاطہ نہیں ہے اس وجہ سے ان کے ذکر کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ مثلاً قصصِ قرآن، امثالِ قرآن، تلمیحات و اشارات۔ یہ چیزیں نہ تو ام الکتاب کے درجے اورمرتبے کی ہیں اور نہ ان کو ان متشابہات کے درجے میں رکھنا صحیح ہے جن کی تاویل میں غور و فکر کرنا ممنوع ہو۔
دوسری یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کی آیات کا محکم و متشابہ ہونا ہرگز بلحاظ الفاظ نہیں ہے بلکہ صرف بلحاظ معنی ہے۔ قرآن، اپنے الفاظ اور اپنی زبان کے اعتبار سے، تمام تر عربی مبین میں ہے۔ الفاظ کی تاویل میں جو اختلافات ہوئے ہیں وہ بالعموم تین اسباب سے ہوئے ہیں یا تو غور و تحقیق میں کوتاہی ہوئی ہے یا کسی غلط عقیدے کی بے جا عصبیت اس کا باعث ہوئی ہے، یا عربی زبان سے ناواقفیت اس کا سبب بنی ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں اس طرح کے کسی سبب سے کوئی الجھن پیدا ہوئی ہو تو اس پر غور و فکر عربی زبان کے معروف و مسلم قواعد و ضوابط کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ یہ ان چیزوں میں سے نہیں ہے جن پر غور و فکر ممنوع ہو۔
تیسری بات یہ کہ متشابہات ہوں یا محکمات، قرآن میں یہ دونوں قسمیں ممیز اور معلوم ہیں۔ یہ بات نہیں ہے، جیسا کہ بعض متکلمین نے گمان کیا ہے کہ یہ دونوں غیر ممیز ہیں اور نہ یہ بات ہے کہ الفاظ کی اپنے معانی پر دلالت کوئی مشتبہ اور مشکوک چیز ہے۔ جن لوگوں نے ایسا سمجھا ہے انھوں نے بالکل غلط سمجھا ہے۔ ان میں سے پہلی بات تو صریحاً غلط ہے اور دوسری بات نہایت مبہم ہے جو سرے سے قرآن ہی سے مایوس کر دینے والی ہے حالانکہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے نور و برہان بنا کر اتارا ہے۔ جو باتیں عالم غیب سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کے متعلق خدا نے ہماری ضرورت کے حد تک خبر دے دی ہے، اس کا جو حصہ ہم سے محجوب رکھا گیا ہے بس اس کی تاویل پردۂ خفا میں ہے۔
چوتھی یہ کہ قرآن نے یہاں محکم اور متشابہ کا ایک خاص مفہوم مراد لیا ہے جو ان کے لغوی مفہوم سے ایک حد تک الگ ہے۔ بعض دوسرے مقامات میں بھی قرآن میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں جہاں ان کے لغوی مفہوم مراد ہیں۔ مثلاً محکم سے مراد وہ کلام ہے جو جامع، واضح اور موجز ہو۔ اس صورت میں اس کا مقابل لفظ مفصل آتا ہے۔ مثلاً الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (ھود۔ ۱) (یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات پہلے محکم کی گئیں، پھر ان کی تفصیل کی گئی خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے) سنت الٰہی یہ رہی ہے کہ شروع شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیمات و ہدایات قولِ محکم کی شکل میں اتاریں تاکہ وہ ذہن و حافظے میں اچھی طرح راسخ ہو سکیں اور دل اور زبان دونوں کے لیے وہ ہلکی پھلکی محسوس ہوں۔ پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے یا نبی صلی اللہ علیہ ولسم کی سنت کے ذریعے سے ان کی تفصیل فرما دی۔ اسی طرح متشابہ کا ایک عام مفہوم بھی ہے وہ یہ کہ ایک دوسری سے ملتی جلتی ہم آہنگ و ہم رنگ چیز۔ اپنے اس مفہوم کے اعتبار سے پورا قرآن مشابہ ہے۔ چنانچہ اسی پہلو سے قرآن کو متشابہ کہا گیا ہے۔  كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ (زمر۔ ۲۳)
پانچویں یہ کہ جس طرح قران محکمات و متشابہات دونوں ہی قسم کی آیات پر مشتمل ہے اسی طرح عالم انفس اور عالم آفاق میں جو نشانیاں ہیں وہ بھی محکمات و متشابہات دونوں ہی پر مشتمل ہیں۔ ان کے باب میں بھی اربابِ علم و اہل زیغ کا رویہ وہی ہوتا ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ جن کے ذہن و فکر میں پختگی ہوتی ہے وہ محکمات سے اطمینان و یقین حاصل کرتے ہیں اور متشابہات سے شبہات و شکوک میں گرفتار ہونے کے بجائے ان کو خدا کے علم و حکمت کے حوالے کرتے ہیں اور اپنے علم کی کوتاہی کا اقرار کرتے ہیں۔ برعکس اس کے جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ ان متشابہات کو اپنی اور دوسروں کی گمراہی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس مسئلے پر مفصل بحث ان شاء اللہ ہم سورۂ کہف کی تفسیر میں کریں گے۔ غزوۂ احد کے واقعہ کو بھی، جیسا کہ ہم تمھیدی بحث میں اشارہ کر چکے ہیں ، ایک متشابہ واقعہ کی نوعیت حاصل ہے، چنانچہ اس جنگ کے بعد اس عظیم آیت کا اترنا اس کائنات کی ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے تھا۔ ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں کہ جس طرح غزوۂ بدر حق و باطل کے درمیان ایک یومِ فرقان تھا جس سے اہل ایمان کے قلوب اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر مطمئن ہوئے اور اس نے ایک آیت محکم بن کر اہل کفر پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری کر دی اسی طرح غزؤہ احد کی حیثیت ایک متشابہ کی ہے اس لیے کہ اس میں بظاہر باطل کو حق پر غلبہ حاصل ہوا جس سے کفار کو یہ گمان ہوا کہ جنگ میں کامیابی و ناکامی کا تعلق صرف تدابیر اور اسباب و وسائل ہی سے ہے۔ اس میں نہ خدا کو کوئی دخل ہے اور نہ اس کا کوئی تعلق حق اور باطل سے ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک شدید قسم کی غلط فہمی تھی، جس کا دور ہونا نہایت ضروری تھا چنانچہ جب اس کے دور کرنے کے لیے مناسب وقت آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں یہ دور فرمائی اور یہ اس سلسلے کی ایک عظیم آیت ہے۔

’زیغ‘ کی حقیقت

اس آیت میں ’زیغ‘ کا جو لفظ آیا ہے مختصراً اس کی حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے۔
زیغ کے اصل معنی میل یعنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں۔ یہ لفظ بیک وقت دو مفہوموں کا حامل ہے ، ایک کجی، اور دوسرے سقوط۔ کوئی چیز جو کھڑی ہو جب جھک جاتی ہے تو گرنے سے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ حالت اس رسوخ کے برعکس حالت ہے جو اس آیت میں رَاسِخُوْنَ فِی الْعِلْم کی بیان ہوئی ہے۔
اہل کتاب کی عام بیماری: یہ زیغ یوں تو اہل ضلالت کی عام بیماری ہے لیکن اہل کتاب اس مرض میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ مبتلا رہے ہیں۔ یہود کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ شروع ہی سے اس بیماری میں مبتلا رہے اور ان کے زیغ کا یہ پہلو خاص طور پر نہایت سنگین ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی موجودگی میں اس میں مبتلا رہے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے۔ قرآن میں اس بات کا ذکر ہوا ہے۔ سورہ صف میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (صف۔ ۵)
(اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم مجھے کیوں دکھ پہنچا رہے ہو جب کہ تم اچھی طرح جان چکے ہو کہ میں تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پس جب وہ کج ہو گئے تو خدا نے بھی ان کے دل کج کر دیے اور اللہ بد عہدوں کو ہدایت نہیں بخشتا۔)

یہودی و نصاریٰ کی گمراہی میں فرق

یہی یہود ہیں جنھوں نے’ کلمتہ اللہ‘ اور اس قسم کے بعض دوسرے الفاظ کی حقیقت کی تشریح میں فلسفیانہ قسم کی موشگافیاں پیدا کر کے ان کو ایک گورکھ دھندا بنایا جس سے نصاریٰ کے لیے گمراہی کی راہیں کھلیں اور وہ حضرت مسیحؑ کی الوہیت کے عقیدے میں مبتلا ہوئے۔ بعد میں نصاریٰ کی اس گمراہی پر مزید اضافہ بت پرست قوموں کی تقلید سے ہوا اور پھر آہستہ آہستہ وہ حق سے اتنے دور ہو گئے کہ اس سے ان کا رشتہ ہی منقطع ہو گیا اور وہ صریح کفر میں مبتلا ہو گئے۔ چنانچہ قرآن نے ان کے بارے میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ (مائدہ۔ ۷۲)
(ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے یہ کہا کہ اللہ تو وہی مسیح ابن مریم ہے.)

یہود اور نصاریٰ کی گمراہی کی نوعیت میں بس یہ فرق ہے کہ یہود کی گمراہی اصلاً عملی ہے اور نصاریٰ کی اعتقادی۔ اس فرق کی وجہ سے حق کی مخالفت میں ان کا رویہ بھی ایک دوسرے سے مختلف رہا۔ یہود تو قرآن کو حق جاننے کے باوجود اس کی مخالفت کرتے تھے۔ نصاریٰ جس طرح تورات اور انجیل کے متشابہات میں پڑنے کی وجہ سے گمراہ ہوئے تھے اسی طرح قرآن میں بھی ان کی ساری دلچسپی بس متشابہات ہی سے تھی۔ انھی میں موشگافیاں کر کے وہ طرح طرح کے فتنے پیدا کرتے اور اس طرح اپنی گمراہی کا بھی سامان کرتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے۔ قرآن کے محکمات سے نہ انھوں نے خود دلچسپی لی اور نہ ان لوگوں کو دلچسپی لینے دی جن پر ان کا بس چلا۔ الغرض قلب و نظر کے زیغ اور متشابہات کی پیروی کے باب میں تھے تو یہود و نصاریٰ دونوں ایک ہی سطح پر، یہ بیماری ان میں مشترک تھی لیکن ان کے ذوقی رجحانات ذرا الگ الگ تھے۔ یہود ابتغاء فتنہ سے زیادہ رغبت رکھتے تھے اور نصاریٰ ابتغائے تاویل سے۔ یہ گمراہیاں چونکہ دنیا کے تمام گمراہوں میں مشترک ہیں اس وجہ سے قرآن نے اسلوبِ بیان عام ہی رکھا ہے تاکہ کلام میں وسعت پیدا ہو سکے۔ یہود و نصاریٰ کی تخصیص نہیں کی۔ لیکن قرآن کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اشارہ انھی کی طرف ہے۔ یہی اندازہ سورۂ فاتحہ میں بھی ہے۔ اس میں بھی مَغضُوْبِ عَلَیْہِمْ اور ضَّالِّیْنَ کے الفاظ ہر چند عام ہیں اور ان کے عام ہونے کی وجہ سے ان میں بڑی وسعت پیدا ہو گئی ہے لیکن ان کا خاص اشارہ یہود و نصاریٰ کی طرف ہے۔

متشابہات سے گمراہی کی ایک مثال

متشابہات کی پیروی کی وجہ سے نصاریٰ جس قسم کی گمراہیوں میں مبتلا ہوئے اس کو ایک مثال سے واضح کرنا مفید رہے گا۔
قرآن اور انجیل دونوں اس امر میں باہم متفق ہیں کہ حضرت مسیحؑ کلمۃ اللہ ہیں۔ کلمتہ اللہ کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ اس سے امر و حکم کی تعبیر کی جاتی ہے۔ حضرت مسیحؑ کی پیدائش چونکہ فطرت کے عام ضابطے کے خلاف ہوئی تھی اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے کلمہ سے تعبیر کیا یعنی ان کی ولادت اللہ تعالیٰ کے کلمہ ’’کن‘‘ سے ہوئی ہے۔ یہ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ اصل شے کسی چیز کے واقع ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہی ہے۔ اسباب محض ظاہر کا پردہ ہیں۔ یہ بات قرآن میں نہایت وضاحت سے بیان ہوئی ہے اور اس میں کسی قسم کا ایچ پیچ نہیں ہے جس سے کسی صاف ذہن کے آدمی کے اندر کوئی الجھن پیدا ہو سکے۔ قرآن نے نہایت غیر مبہم الفاظ میں فرمایا ہے۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ(آلِ عمران۔ ۵۹)
(بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک ایسی ہے جیسی آدم کی، آدم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا کہ ہو جا بس وہ ہو گیا)

یعنی آدم کو کلمۂ ’’کن‘‘ کے ذریعے سے حی و ناطق بنایا۔ اسی چیز کو دوسری جگہ نفخ روح سے تعبیر فرمایا ہے۔ بعینہٖ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے۔
نصاریٰ نے اس واضح بات میں جو تحریف کی اس کی صورت یہ ہوئی کہ جب ان کو بت پرست قوموں سے سابقہ پیش آیا اور ان کے ساتھ ان کی مذہبی بحثیں شروع ہوئیں تو انھوں نے ان پر یہ اعتراض شروع کیا کہ تم تو ایک مصلوب خدا کی پرستش کرتے ہو، ہم تم سے ہزار درجے افضل ہیں اس لیے کہ ہم آسمانی دیوتاؤں کی پرستش کرتے ہیں۔ نصاریٰ نے اپنے حریفوں کے اس اعتراض سے بچنے کے لیے یہ کوشش کی کہ اپنے عقیدے کو بھی انھی کے عقیدے کے سانچے میں ڈھال دیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ مسیح تو ابن اللہ ہیں، وہ مخلوق نہیں ہیں۔ اپنے اس نئے عقیدے کی آرائش کے لیے انھوں نے ایک طرف تو یونانیوں، مجوسیوں اور ہندوؤں کے فکر و فلسفہ سے مواد لیا اور دوسرے ان یہودی متکلمین کے علم کلام سے رہنمائی حاصل کی جو یہود کے آخری دور کی پیداوار تھے اور جو نہ صرف خالق اور مخلوق کے درمیان وسائل و وسائط کے قائل تھے بلکہ ان کو مستقل ذوات کا درجہ دیتے اور ان کو کلمتہ اللہ کہتے تھے۔ نصاریٰ نے بعینہٖ یہی عقیدہ حضرت عیسیٰؑ کے لیے اختیار کر لیا۔ کچھ عرصے تک تو بات اسی حد تک رہی لیکن آہستہ آہستہ گمراہی سے گمراہی پیدا ہونی شروع ہوئی اور انھوں نے ان کو خدا کا کفو، اسی کے جوہر سے اور ازل سے اس کے ساتھ قرار دے دیا۔ اور پھر اس عقیدے کی تائید کے لیے انجیل یوحنا کے آغاز میں تحریف کے چور دروازے سے بعض عبارتیں بھی داخل کر دیں تاکہ باہر سے برآمد کیے ہوئے اس عقیدے کے لیے گھر کی ایک دلیل بھی فراہم ہو جائے۔

وَمَا یَعْلَمُ الآیۃ، پر وقف ہے

وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلَّا اللّٰہ (اور اس کی اصل حقیقت نہیں جانتا مگر اللہ ) اوپر کی تفصیلات سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ یہاں وقف ہے۔ یہی مذہب جمہور اہل سنت کا ہے اور یہی حضرت ابن عباسؓ ، حضرت عائشہؓ، حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، مالک بن انسؓ، کسائی اور فراسے منقول ہے۔ البتہ شیعہ اور بعض متکلمین یہاں وصل کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک متشابہات کی تاویل اللہ تعالیٰ کے سوا راسخین فی العلم بھی جانتے ہیں۔ اس کی وجہ، جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے، وہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اماموں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کو ہر بات کا علم ہوتا ہے۔ رہے دوسرے لوگ جو اس بات کے قائل ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تاویل سے مراد معنی لیتے ہیں حالانکہ آیت کا سیاق و سباق اس کے خلاف ہے۔ اوپر اس کی وضاحت ہو چکی ہے۔ ( ان مطالب کا اکثر حصہ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کے افادات سے ماخوذ ہے، صرف بعض مطالب کی توضیح میری طرف سے ہے۔ اس وجہ سے اس کی صحیح باتیں مولاناؒ کی طرف منسوب کیجیے اور اگر کہیں خامی ہو تو اس کی ذمہ داری تنہا میرے سر ہے۔)
اگرچہ آیت کے الفاظ اور اس کے مختلف اجزا کی اس وضاحت کے بعد آیت کی صحیح تاویل خود بخود سامنے آ گئی ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر مزید اطمینان کے لیے ہم اس کا واضح مفہوم بھی پیش کیے دیتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ وہی خدا جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی، جو زندہ بھی ہے اور قیوم بھی، اسی نے تورات اور انجیل اتاریں۔ پھر جب ان میں گھپلا کر دیا گیا تو اس کی حکمت اور قیومیت مقتضی ہوئی کہ یہ قرآن اتارے تاکہ اس کے ذریعے سے حق و باطل میں امتیاز ہو سکے تو جو لوگ اس کی مزاحمت کریں گے وہ یاد رکھیں کہ خدائے عزیز حق کو مظلوم نہیں چھوڑے گا، وہ اس کا انتقام ضرور لے گا۔
اس کے بعد اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اہل کتاب جو اس فرقان کی مخالفت کر رہے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ فی نفسہٖ اس کتاب میں کوئی بات ایسی ہے جو ان کی وحشت کا باعث ہو رہی ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے دلوں میں کجی ہے۔ اس کجی کے سبب سے ان کو اس کتاب کے محکمات سے، جن کی حیثیت اصل کتاب کی ہے اور جن پر اس کی تمام تعلیمات اور اس کے سارے حکمت و فلسفہ کی بنیاد ہے، کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انھیں اگر دلچسپی ہے تو بس اس کی ان آیات متشابہات سے ہے جن میں کوئی با ت تمثیلی و تشبیہی رنگ میں بتائی گئی ہے۔ وہ اپنی طبیعت کے بگاڑ کے سبب سے انھی کے درپے ہوتے ہیں اور فساد انگیزی اور فتنہ آرائی کے لیے ان کی صورت و حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ جس حد تک ان کا علم ضروری ہے وہ خدا نے کھول دیا ہے، بس اتنے پر قناعت کرنی چاہیے، ان کی اصل حقیقت کا معاملہ اللہ کے حوالہ کرنا چاہیے، وہ اس دن کھلیں گی جس دن وہ سامنے آئیں گی۔ جو لوگ علم میں راسخ ہیں ان کی روش متشابہات کے معاملے میں یہی ہے وہ محکمات اور متشابہات دونوں کو اپنے رب ہی کا عطیہ سمجھتے ہیں اور دونوں پر یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ وہ اپنے علم کی پختگی کی وجہ سے اس رمز سے واقف ہیں کہ آیاتِ الٰہی کا مقصود بندوں کو یاد دہانی ہے اور چونکہ وہ عقل رکھتے ہیں اس وجہ سے ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہیے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، کسی سعی نامراد و لاطائل میں اپنا وقت برباد کر کے اپنے خسران کے اسباب نہیں فراہم کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ اس کی آیات سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور اس عقل سے صحیح طور پر کام لیتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری ہے جس میں آیتیں محکم بھی ہیں جو اِس کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور (اِن کے علاوہ) کچھ دوسری متشابہات بھی ہیں۔ سو جن کے دل پھرے ہوئے ہیں، وہ اِس میں سے ہمیشہ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں، اِس لیے کہ فتنہ پیدا کریں اور اِس لیے کہ اُن کی حقیقت معلوم کریں، دراں حالیکہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (اِس کے بر خلاف) جنھیں اِس علم میں رسوخ ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم اِنھیں مانتے ہیں، یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے، اور ( حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کی چیزوں کو) وہی سمجھتے ہیں جنھیں اللہ نے عقل عطا فرمائی ہے

یعنی وہی عزیز وحکیم اور حی وقیوم جس کی اِن صفات کا تقاضا تھا کہ وہ یہ کتاب اتارے اور اِس کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد اِس کے منکروں کو سزا دے۔

لفظ محکم یہاں متشابہ کے مقابل میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ آیتیں جن میں ایسے حقائق بیان کیے گئے جنھیں سمجھنا انسان کے لیے ممکن ہے، جو اُس کے علم وعقل سے ماورا نہیں ہیں اور جن کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت اُس کی فطرت میں ودیعت ہے۔ قرآن کی زیادہ تر آیتیں یہی ہیں اور اِنھی پر اُس کی ہدایت کا مدار ہے۔ قرآن نے اِسی بنا پر اُنھیں ام الکتاب، یعنی کتاب کی اصل بنیاد قرار دیا ہے۔
اِس سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں میں سے کسی نعمت یا نقمت کا بیان تمثیل اور تشبیہ کے انداز میں ہوا ہے یا اللہ تعالیٰ کے صفات و افعال اور ہمارے علم اور مشاہدے سے ماورا اُس کے کسی عالم کی کوئی بات تمثیلی اسلوب میں بیان کی گئی ہے، مثلاً آدم میں اللہ تعالیٰ کا اپنی روح پھونکنا یا سیدنا مسیح علیہ السلام کا بن باپ کے پیدا کرنا یا جنت اور جہنم کے احوال ومقامات وغیرہ۔ وہ سب چیزیں جن کے لیے ابھی الفاظ وجود میں نہ آئے ہوں، اُنھیں تمثیل اور تشبیہ کے اسلوب ہی میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ کسی نادیدہ عالم کے حقائق دنیا کی سب زبانوں کے ادب میں اِسی طرح بیان کیے جاتے ہیں۔ آج سے دو صدی پہلے ہم میں سے کوئی شخص اگر مستقبل کا علم پا کر بجلی کے قمقموں کا ذکر کرتا تو غالباً اِسی طرح کرتا کہ دنیا میں ایسے چراغ جلیں گے جن میں نہ تیل ڈالا جائے گا اور نہ اُنھیں آگ دکھانے کی ضرورت ہو گی۔ متشابہ آیات کی نوعیت بالکل یہی ہے ۔ وہ نہ غیر متعین ہیں اور نہ اُن کے مفہوم میں کوئی ابہام ہے۔ اُن کے الفاظ عربی مبین ہی کے الفاظ ہیں اور اُن کے معنی بھی ہم بغیر کسی تردد کے سمجھتے ہیں۔ ہاں ، یہ ضرور ہے کہ اُن کی حقیقت ہم اِس دنیا میں نہیں جان سکتے، لیکن اِس جاننے یا نہ جاننے کا قرآن کے فہم سے چونکہ کوئی تعلق نہیں ہے، اِس لیے کسی صاحب ایمان کو اِس کے درپے بھی نہیں ہونا چاہیے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’... یہ باتیں جس بنیادی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں وہ بجاے خود واضح اور مبرہن ہوتی ہے، عقل اُس کے اتنے حصے کو سمجھ سکتی ہے جتنا سمجھنا اُس کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ البتہ چونکہ اُس کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہوتا ہے ، اِس وجہ سے قرآن اِن کو تمثیل و تشبیہ کے انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ علم کے طالب بقدر استعداد اِن سے فائدہ اٹھالیں اور اِن کی اصل صورت و حقیقت کو علم الٰہی کے حوالہ کریں ۔ یہ باتیں خدا کی صفات و افعال یا آخرت کی نعمتوں اور اُس کے آلام سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں ۔ اِن کا جس حد تک ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے ، اتنا ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے اور اِس سے ہمارے علم و یقین میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن اگر ہم اپنی حد سے آگے بڑھ کر اِن کی اصل حقیقت اور صورت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کریں تو یہ چیز فتنہ بن جاتی ہے اور اِس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے ذہن سے شک کا ایک کانٹا نکالنا چاہتا ہے اور اِس کے نتیجے میں بے شمار کانٹے اُس کے اندر چبھا لیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اِس نایافتہ کی طلب میں اپنی یافتہ دولت کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے اور نہایت واضح حقائق کی اِس لیے تکذیب کر دیتا ہے کہ اُن کی شکل و صورت ابھی اُس کے سامنے نمایاں نہیں ہوئی۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۵)

اصل میں لفظ ’َزیْغٌ‘ استعمال ہوا ہے ۔ اِس کے معنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ لفظ بیک وقت دو مفہوموں کا حامل ہے: ایک کجی اور دوسرے سقوط۔ کوئی چیز جو کھڑی ہو جب جھک جاتی ہے تو گرنے سے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ حالت اُس رسوخ کے برعکس حالت ہے جو اِس آیت میں ’رَاسِخُوْنَ فِی الْعِلْم‘ کی بیان ہوئی ہے۔
یہ زیغ یوں تو اہل ضلالت کی عام بیماری ہے ، لیکن اہل کتاب اِس مرض میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ مبتلا رہے ہیں۔ یہود کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ شروع ہی سے اِس بیماری میں مبتلا رہے ، اور اُن کے زیغ کا یہ پہلو خاص طور پر نہایت سنگین ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی موجودگی میں اِس میں مبتلا رہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ اِس کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۳۰)

یہود ونصاریٰ کی گمراہی کی طرف اشارہ ہے۔ اُن کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود فتنہ پیدا کرنے سے زیادہ دل چسپی رکھتے تھے اور نصاریٰ متشابہ آیات کی حقیقت جاننے سے۔ استاذ امام کے الفاظ میں یہ گمراہیاں چونکہ دنیا کے تمام گمراہوں میں مشترک ہیں، اِس وجہ سے قرآن نے اسلوب بیان عام ہی رکھا ہے تاکہ کلام میں وسعت پیدا ہو سکے، یہود ونصاریٰ کی تخصیص نہیں کی۔ لیکن قرآن کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اشارہ اُنھی کی طرف ہے۔
اِس آیت کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اِس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ متشابہات کے معنی اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اِس کے لیے اصل میں ’تَاْوِیْل‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بالکل اُسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس مفہوم میں یہ سورۂ یوسف (۱۲) کی آیت ۱۰۰ میں آیا ہے: ’قَالَ: یٰٓاَبَتِ، ہٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْ یَایَ مِنْ قَبْلُ، قَدْ جَعَلَہَا رَبِّیْ حَقًّا‘ ( اُس نے کہا: ابا جان، یہ ہے میرے اُس خواب کی حقیقت جو میں نے اِس سے پہلے دیکھا تھا، میرے پروردگار نے اُسے سچ کر دکھایا ہے)۔یہ خواب جن لفظوں میں قرآن نے بیان کیا ہے، اُن کے معنی ہر شخص پر واضح ہیں۔ عربی زبان کا ایک عام طالب علم بھی سورۂ یوسف کی اِس آیت کا مفہوم ، جس میں یہ خواب بیان ہوا ہے، بغیر کسی دقت کے سمجھ لیتا ہے۔ لیکن سورج اور چاند اور اُن گیارہ ستاروں کا مصداق کیا تھا جنھیں یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو سجدہ کرتے دیکھا، اُس سے پوری قطعیت کے ساتھ کوئی شخص اُس وقت تک واقف نہیں ہو سکتا تھا، جب تک یہ مصداق اپنی اصل صورت میں لوگوں کے سامنے نہ آ جاتا۔ متشابہ قرآن نے اِنھی چیزوں کو کہا ہے۔ اِس کے معنی، جس طرح کہ لوگ بالعموم سمجھتے ہیں، مشتبہ اور مبہم کے نہیں ہیں کہ اِس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ حق وباطل میں امتیاز کے لیے فرقان ہے، کسی حیثیت سے مجروح ہو۔
یعنی جن کے دلوں میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے، جو انسان کے حدود کو سمجھتے اور اُسی کے مطابق اپنے علم کے حدود متعین کرتے ہیں۔
یعنی جو لوگ علم میں رسوخ کے حامل ہیں، وہ محکمات اور متشابہات، دونوں کو اپنے پروردگار کا عطیہ سمجھتے اور دونوں پر یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل رکھتے ہیں اور اِس عقل سے صحیح طور پر کا م بھی لیتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔ جن لوگوں کے دلو ں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلا ف اِس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ “ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔” اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔

محکم پکی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ” آیات محکمات “ سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختہ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مل سکتا ہے۔ یہ آیات ” کتاب کی اصل بنیاد ہیں “ ، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے، اس غرض کو یہی آیتیں پورا کرتی ہیں۔ انہی میں اسلام کی طرف دنیا کی دعوت دی گئی ہے، انہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، انہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ انہی میں دین کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ انہی میں عقائد، عبادات، اخلاق، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالب حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً انہی پر اس کی توجہ مرکوز ہوگی اور وہ زیادہ تر انہی سے فائدہ اٹھانے میں مشغول رہے گا۔

متشابہات، یعنی وہ آیات جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔

یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جاسکتا، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومت انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں، نہ آسکتی ہیں، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا، نہ چھوا، نہ چکھا، ان کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو انہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب بیان مل سکتے ہیں، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور اسالیب بیان وہ استعمال کیے جائیں، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔

لیکن اس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھندلا سا تصور پیدا کردے۔ ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالب حق ہیں اور ذوق فضول نہیں رکھتے، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اس دھندلے تصور پر قناعت کرلیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو لوگ بوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں، ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے۔

یہاں کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں، تو ان پر ایمان کیسے لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے۔ اور جب آیات محکمات میں غور و فکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے، تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے، اس کو وہ لے لیتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے، وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔

جونا گڑھی

وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں،

محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامر ونواہی، احکام و مسائل اور قصص وحکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا اس کے برعکس آیات متشابھات ہیں مثلا اللہ کی ہستی قضا و قدر کے مسائل، جنت و دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماوراء عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اس لئے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے فتنے برپا کرتے ہیں جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو عبد اللہ اور نبی کہا یہ واضح اور محکم بات ہے لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جو کہا گیا اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدال کرتے ہیں یہی حال اہل بدعت کا ہے قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں وہ انہیں متشابہات کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات محکمات کو بھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے متشابھات بنا دیتے ہیں اعاذنا اللہ منہ۔ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پر عمل کرتا ہے اور متشابھات کے مفہوم کو بھی اگر اس میں اشتباہ ہو محکمت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انہی اصل کتاب قرار دیا ہے۔ جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد گمراہی سے بھی جعلنا اللہ منہم

تاویل کے ایک معنی تو ہیں کسی چیز کی اصل حقیقت اس معنی کے اعتبار سے الْا اللّٰہُ پر وقف ضروری ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طور پر صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاویل کے دوسرے معنی ہیں کسی چیز کی تفسیر و تعبیر اور بیان، اس اعتبار سے الْا اللّہ پر وقف کے بجائے (وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ ) 3 ۔ آل عمران :7) پر بھی وقف کیا جاسکتا ہے کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر کا علم رکھتے ہیں تاویل کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں (ملخص از ابن کثیر)

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ

امین احسن اصلاحی

اے ہمارے پروردگار! ہمارے دلوں کو ہدایت بخشنے کے بعد کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت بخش۔ تو نہایت بخشنے والا ہے

راسخین فی العلم کی دعا

یہ راسخین فی العلم کی دعا ہے جس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں اتنے بے پروا نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ شبہات اور شکوک کو بلاوے بھیج کر بلائیں اور اپنے ایمان و اسلام کو خطرے میں ڈالیں بلکہ وہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے برابر اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ دین میں ان کے جمے ہوئے قدم اکھڑنے نہ پائیں اور جب فتنوں کی یورش ہو تو خدائے وہاب اپنے پاس سے ان کے لیے وہ روحانی کمک بھیجے جو ان کے ثبات قدم کا ذریعہ بنے۔

جاوید احمد غامدی

(وہ کہتے ہیں): پروردگار، تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اِس کے بعد اب تو ہمارے دل نہ پھیر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ لا ریب، تو ہی عطا فرمانے والا ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

وہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ: “پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔ ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے۔

n/a

جونا گڑھی

اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے۔

n/a

رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ

امین احسن اصلاحی

اے ہمارے پروردگار! تو سب لوگوں کو ایک ایسے دن کے لیے جمع کر کے رہے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا

آیت میں اس یقین کا اظہار ہے کہ جو ان راسخین کے اندر آخرت کے باب میں ہوتا ہے۔ موقع کلام یہاں اشارہ کر رہا ہے کہ درحقیقت یہی یقین ہے جو دل اور عقل دونوں کا اصلی پاسبان ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کے ذہن و فکر کو کوئی چیز بھی ہرزہ گردی سے نہیں روک سکتی۔ وہ زندگی کو ایک نہایت سہل بازی سمجھتا ہے اور ہر داؤں پر اس کو لگا دینے کے لیے تیار رہتا ہے لیکن جن کے اندر آخرت کا یقین رچا بسا ہوتا ہے وہ ہر قدم احتیاط کے ساتھ اٹھاتے اور نہایت پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ یہ احتیاط ان کو ہمیشہ جادۂ مستقیم پر استوار رکھتی ہے۔

جاوید احمد غامدی

پروردگار، تو یقیناً سب لوگوں کو ایک ایسے دن کی پیشی کے لیے جمع کر کے رہے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا

درحقیقت یہی یقین ہے جو اُنھیں ہر زہ گردی سے بچا کر ہمیشہ جادۂ مستقیم پر پابرجا رکھتا ہے اور اِس کے نتیجے میں اُن کے رسوخ فی العلم کا باعث بنتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پروردگار! تو یقیناً سب لوگوں کو ایک روز جمع کرنے والا ہے، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ تو ہرگز اپنے وعدے سے ٹلنے والا نہیں ہے۔”

n/a

جونا گڑھی

اے ہمارے رب ! تو یقیناً لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

n/a

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ

امین احسن اصلاحی

بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، نہ ان کے مال خدا کے ہاں کچھ کام آئیں گے، نہ ان کی اولاد۔ اور وہی لوگ دوزخ کے ایندھن بنیں گے

راہِ حق کی اصل رکاوٹ

’’إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا‘‘ سے یہاں مراد، جیسا کہ آیت ۴ میں گزر چکا ہے، قرآن کے منکرین ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ مال و اولاد، جن کی محبت آج ان کے لیے ایک سورج سے زیادہ واضح حق کے قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، انھیں خدا کی پکڑ سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس وجہ سے ان کی محبت میں اس خدا کو نہیں بھولنا چاہیے جس کے حقوق سب پر مقدم ہیں اور جس کی پکڑ بھی بے پناہ ہے۔ مال و اولاد کا ذکر یہاں قبولِ حق کی راہ کے اصل حجاب کی حیثیت سے ہوا ہے۔ آگے آیت ۱۴ میں ان کا ذکر تفصیل کے ساتھ آ رہا ہے۔ درحقیقت انھی کی محبت ہے جو انسان کے لیے قبولِ حق میں رکاوٹ بنتی ہے لیکن انسان اصل حقیقت کے اعتراف سے گریز کرتا ہے اور اپنے اغراض کے لیے کچھ ایسے بہانے تلاش کرتا ہے جو اس کی اصل بیماری پر پردہ ڈال سکیں۔ قرآن نے یہ ان لوگوں کی اصلی اندرونی بیماری سے پردہ اٹھایا ہے کہ یہ درحقیقت مال و اولاد کی محبت ہے جو انھیں قرآن کی پیش کردہ سچائیوں کے آگے جھکنے سے روک رہی ہے لیکن وہ اس کو چھپانے کے لیے متشابہات کے اندر سے کچھ اعتراضات و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی دنیا پرستی بے نقاب نہ ہونے پائے۔ انسان کی یہ عام کمزوری ہے کہ وہ ایک حقیقت سے گریز تو اختیار کرتا ہے اپنے نفس کی کسی کمزوری کے سبب سے، لیکن نمائش کچھ ایسی کرتا ہے جس سے مخاطب پر یہ اثر پڑے کہ فی الواقع اس کے اس گریز کے لیے کچھ وجوہ و اسباب اور کچھ اعتراضات و شبہات ہیں۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کتاب کے ) منکروں کو،(جن پر حجت پوری ہو گئی)، اللہ کے حضور میں اُن کا مال کچھ کام دے گا اور نہ اُن کی اولاد ، اور یہی ہیں جو دوزخ کا ایندھن بنیں گے

یہ اِن منکروں کی اصلی بیماری کی طرف اشارہ کیا ہے کہ درحقیقت مال واولاد کی محبت ہی ہے جو اِنھیں قرآن کے پیش کردہ حقائق کے سامنے سرافگندہ ہونے سے روک رہی ہے، لیکن اِس کو چھپانے کے لیے وہ متشابہات کے درپے ہوتے اور اُن کے اندر سے کچھ اعتراضات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اِن کی یہ کمزوری بے نقاب نہ ہونے پائے۔

ابو الاعلی مودودی

جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا، نہ اولاد۔ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة بقرہ، حاشیہ نمبر ١٦١۔ ( سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :161)

” کفر “ کے اصل معنی چھپانے کے ہیں۔ اسی سے انکار کا مفہوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا، قبول کرنا، تسلیم کرلینا۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا، رد کردینا، انکار کرنا۔ قرآن کی رو سے کفر کے رویہ کی مختلف صورتیں ہیں :

ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے، یا اس کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبود ماننے سے انکار کر دے، یا اسے واحد مالک اور معبود نہ مانے۔

دوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبع علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔

تیسرے یہ کہ اصولاً اس بات کو بھی تسلیم کرلے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے، انہیں تسلیم نہ کرے۔

چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔

پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد، اخلاق اور قوانین حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے۔

چھٹے یہ کہ نظریے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکام الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے، اور دنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے۔

یہ سب مختلف طرز فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفران نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو، اس کے احسان کی قدر کرے، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے، اور اس کا دل اپنے محسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفران نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بےوفائی کرے۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعموم احسان فراموشی، نمک حرامی، غداری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

جونا گڑھی

کافروں کے مال اور ان کی اولاد اللہ تعالیٰ (کے عذاب) سے چھڑانے میں کچھ کام نہ آئیں گی، یہ تو جہنم کا ایندھن ہی ہیں۔

n/a

Page 1 of 20 pages  1 2 3 >  Last ›