أَتَىٰٓ أَمْرُ ٱللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

امین احسن اصلاحی

امر الٰہی صادر ہو چکا ہے تو اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ، وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

جلد بازوں سے خطاب اور ان کی وعید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی قوم کے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ فرماتے کہ میں جس امر حق کی دعوت دے رہا ہوں اگر تم نے اس کو اختیار نہ کیا تو مہلت کی مدت گزر جانے کے بعد تم پر اللہ کا عذاب آ جائے گا تو سرکش لوگوں کی طرف سے آپ کو یہ جواب ملتا کہ جس عذاب کی دھمکی سنا رہے ہو وہ لاتے کیوں نہیں، ہم تو تمہاری بات جب مانیں گے جب اس عذاب کو دیکھ لیں گے جس کے روز روز ڈراوے سنا رہے ہو۔ آگے آیت ۳۳ میں اس کی تفصیل آئے گی۔ انہی جلد بازوں کو خطاب کر کے ارشاد ہوا کہ عذاب کے لیے امر الٰہی صادر ہو چکا ہے تو اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔

’اَتٰٓی اَمْرُ اللّٰہِ‘ (عذاب کے لیے امر الٰہی صادر ہو چکا ہے) محض دھمکی نہیں ہے بلکہ ایک امر واقعی کا بیان ہے۔ ہم اس کتاب میں متعدد آیات کے تحت اس سنت الٰہی کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کسی قوم کے اندر رسول کی بعثت ہی کے اندر یہ بات مضمر ہوتی ہے کہ جو لوگ اس رسول پر ایمان لائیں گے وہ نجات پائیں گے اور جو لوگ اس کی تکذیب کر دیں گے وہ ہلاک کر دیے جائیں گے۔ رسول، حق و باطل کے امتیاز کے لیے کسوٹی اور اتمام حجت کا آخری ذریعہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے رسول کی بعثت کے بعد اس کی قوم کے لیے دو ہی راہیں باقی رہ جاتی ہیں یا تو لوگ اس پر ایمان لائیں اور نجات حاصل کریں ورنہ خدا کی پکڑ میں آئیں اور اپنی سرکشی کا انجام بد دیکھیں۔
’سُبْحٰٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ‘ یعنی یہ لوگ اس خبط میں مبتلا نہ رہیں کہ جن کو یہ خدا کا شریک و شفیع بنائے بیٹھے ہیں وہ ان کو خدا کے عذاب سے بچا لیں گے۔ خدا ان کے مزعومہ شریکوں سے پاک اور برتر ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ جن اعلیٰ صفات سے متصف ہے ان صفات کے ساتھ ان مشرکانہ توہمات کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ وہ اپنی تمام صفات میں یکتا اور وحدہٗ لاشریک ہے۔
بلاغت کا ایک اسلوب: اس آیت میں اسلوب بیان کا یہ فرق بھی ملحوظ رہے کہ ’فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ‘ میں براہ راست ان کو خطاب کیا ہے لیکن ’عَمَّا یُشْرِکُوْنَ‘ میں خطاب کے بجائے غایب کا صیغہ آ گیا ہے۔ اس میں بلاغت یہ ہے کہ پہلے ٹکڑے میں تہدید و وعید ہے جس کے لیے خطاب ہی کا اسلوب زیادہ موزوں ہے اور اس دوسرے ٹکڑے میں کراہت و نفرت کا اظہار ہے جس کے لیے غایب کا صیغہ زیادہ مناسب تھا گویا بات ان سے منہ پھیر کر فرمائی گئی۔

جاوید احمد غامدی

اللہ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے، سو اُس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔ وہ پاک اور برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں۔

یہ اُس فیصلے کا اعلان ہے جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد لازماً صادر ہو جاتا ہے۔ قرآن کے مخاطبین اُسی کے لیے جلدی مچائے ہوئے تھے۔ یہ اُنھی کو خطاب فرمایا ہے۔

اِس آیت میں پہلے براہ راست خطاب ہے، پھر غائب کا صیغہ آگیا ہے۔ یہ التفات کیوں ہوا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِس میں بلاغت یہ ہے کہ پہلے ٹکڑے میں تہدید و وعید ہے جس کے لیے خطاب ہی کا اسلوب زیادہ موزوں ہے اور اِس دوسرے ٹکڑے میں کراہت و نفرت کا اظہار ہے جس کے لیے غائب کا صیغہ زیادہ مناسب تھا۔ گویا بات اُن سے منہ پھیر کر فرمائی گئی ۔‘‘ (تدبرقرآن ۴/ ۳۸۹)

ابو الاعلی مودودی

آ گیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔ پاک ہے وہ اور بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے۔ اس کے ظہور و نفاد کا وقت قریب آ لگا ہے۔۔۔۔۔ اس بات کو صیغہ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا، یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا اور آخری فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ” فیصلہ “ کیا تھا اور کس شکل میں آیا ؟ ہم یہ سمجھتے ہیں (اللہ اعلم بالصواب) کہ اس فیصلے سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکہ سے ہجرت ہے جس کا حکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ان کے حجود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم ان کی قسمت کا فیصلہ کردیتا ہے۔ اس کے بعد یا تو ان پر تباہ کن عذاب آجاتا ہے، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفار مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں۔

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :2

پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ کفار جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آجاتا خدا کو وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ ان کا مشرکانہ مذہب ہی برحق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اس پر ہماری شامت نہ آجاتی۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فورا یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہرگز وہ نہیں ہے جو تم سمجھ بیٹھے ہو۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔

جونا گڑھی

اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ تمام پاکی اس کے لئے ہے وہ برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں۔

 اس سے مراد قیامت ہے، یعنی وہ قیامت قریب آگئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے، پس جلدی نہ مچاؤ، یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے۔ اسے مستقبل کے بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا، کیونکہ کہ اس کا وقوع یقینی ہے۔ 

يُنَزِّلُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةَ بِٱلرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦٓ أَنْ أَنذِرُوٓا۟ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱتَّقُونِ

امین احسن اصلاحی

وہ فرشتوں کو اپنے امر کی روح کے ساتھ اتارتا ہے اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے کہ لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی سے ڈرو۔

کفار کے بعض مطالبات کا جواب: کفار کا مطالبہ دو چیزوں کے لیے تھا۔ ایک تو اس چیز کے لیے کہ ان پر بھی اسی طرح فرشتے اتریں جس طرح پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دعویٰ ہے کہ ان پر فرشتے اترتے ہیں، دوسرا اس عذاب کے لیے جس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ڈراتے تھے۔ چنانچہ اسی سورہ میں ان کے ان دونوں مطالبات کا حوالہ ہے:

’ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَھُمُ الْمَآٰءِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّکَ‘ (۳۳)
(وہ منتظر ہیں مگر اس بات کے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تمہارے رب کا حکم ہی آ جائے)

ان میں سے دوسرے مطالبہ کا جواب تو اوپر والی آیت میں دے دیا گیا کہ عذاب کے لیے امرالٰہی صادر ہو چکا ہے تو اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔ اب یہ ان کے پہلے مطالبہ کا جواب دیا جا رہا ہے کہ ہر شخص اس بات کا اہل نہیں ہوتا کہ اس پر فرشتے اتریں۔ اللہ اپنے فرشتے اپنے بندوں میں سے ان پر اتارتا ہے جن پر چاہتا ہے۔ یعنی جن کو وہ اس کا اہل پاتا ہے اور جن کا وہ اس مقصد کے لیے انتخاب فرماتا ہے۔
’روح‘ سے مراد وحی الٰہی ہے: ’بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ‘۔ یعنی یہ فرشتے امر الٰہی کی ’روح‘ کے ساتھ اترتے ہیں۔ ’روح‘ سے مراد وحی الٰہی ہے۔ وحی الٰہی کو روح سے اس لیے تعبیر فرمایا گیا ہے کہ جس طرح جسم کی زندگی روح سے ہے اسی طرح روح و دل کی زندگی وحی الٰہی سے ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ انسان روٹی سے نہیں جیتا بلکہ اس کلمہ سے جیتا ہے جو خداوند کی طرف سے آتا ہے۔
رسولوں کو اللہ کی مشترک ہدایت: ’اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ‘۔ یعنی ہر رسول کو اللہ کی طرف سے یہ ہدایت ہوئی کہ لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے تو صرف مجھی سے ڈرو اور میری ہی عبادت کرو۔ کسی اور کو میرا ساجھی اور شریک نہ ٹھہراؤ۔

جاوید احمد غامدی

(اِنھیں بتاؤ، اے پیغمبر کہ ہر شخص اِس کا اہل نہیں ہوتا کہ اللہ اُس پر فرشتے اتار دے)۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے، (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ لوگوں کو خبردار کر دو کہ میرے سوا (تمھارا) کوئی معبود نہیں ہے، لہٰذا مجھی سے ڈرو۔

اصل میں ’بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی اپنے حکم کی روح کے ساتھ۔ ’رُوْح‘سے مراد یہاں وحی الٰہی ہے۔ قرآن میں یہ لفظ اِس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو پھونک یا کلمہ خدا سے صادر ہو کر فرشتہ بن جاتا ہے یا انسان کا قالب اختیار کرتا ہے یا لفظ کا جامہ پہنتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہ اِس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اِس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں کو) “آگاہ کر دو، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔”

یعنی روح نبوت کو جس سے بھر کر نبی کام اور کلام کرتا ہے۔ یہ وحی اور یہ پیغمبرانہ اسپرٹ چونکہ اخلاقی زندگی میں وہی مقام رکھتی ہے جو طبعی زندگی میں روح کا مقام، اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اس کے لیے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیوں نے روح القدس کو تین خداؤں میں سے ایک خدا بنا ڈالا۔

فیصلہ طلب کرنے کے لیے کفار جو چیلنج کر رہے تھے اس کے پس پشت چونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار بھی موجود تھا، اس لیے شرک کی تردید کے ساتھ اور اس کے معا بعد آپ کی نبوت کا اثبات فرمایا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بناوٹی باتیں ہیں جو یہ شخص بنا رہا ہے۔ اللہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ نہیں، یہ ہماری بھیجی ہوئی روح ہے جس سے لبریز ہو کر یہ شخص نبوت کر رہا ہے۔

پھر یہ جو فرمایا کہ اپنے جس بندے پر اللہ چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے، تو یہ کفار کے ان اعتراضات کا جواب ہے جو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کرتے تھے کہ اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو کیا بس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن عبداللہ ہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا، مکے اور طائف کے سارے بڑے بڑے سردار مر گئے تھے کہ ان میں سے کسی پر بھی نگاہ نہ پڑ سکی ! اس طرح کے بیہودہ اعتراضات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا، اور یہی متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے کہ خدا اپنے کام کو خود جانتا ہے، تم سے مشورہ لینے کی حاجت نہیں ہے، وہ اپنے بندوں میں جس کو مناسب سمجھتا ہے آپ ہی اپنے کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔

اس فقرے سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ روح نبوت جہاں جس انسان پر بھی نازل ہوئی ہے یہی ایک دعوت لے کر آئی ہے کہ خدائی صرف ایک اللہ کی ہے اور بس وہی اکیلا اس کا مستحق ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے۔ کوئی دوسرا اس لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر، اور اس کی نافرمانی کے نتائج بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکر و عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔

جونا گڑھی

وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو۔

 رُوْح سے مراد وحی ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ ) (42 ۔ الشوری :52) ' اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہے، اور ایمان کیا '

 مراد انبیاء علیہم السلام ہیں جن پر وحی ٰ نازل ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا (اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) 6 ۔ الأنعام :124) ' اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے اور وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی ڈالتا یعنی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات والے (قیامت کے) دن سے لوگوں کو ڈرائے ـ'۔ 

خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ ۚ تَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

امین احسن اصلاحی

اس نے آسمانوں اور زمین کو غایت کے ساتھ پیدا کیا، وہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک گردانتے ہیں۔

کارخانۂ کائنات کے ’بالحق‘ ہونے کا لازمی تقاضا: لفظ ’حَق‘ کی تشریح سورۂ حجر کی آیت ۸۵ کے تحت گزر چکی ہے۔ اس کے معنی غایت اور مقصد کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے یہ دنیا بے غایت و بے مقصد نہیں بنائی ہے۔ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل اور بازیچۂ اطفال نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ایک چیز کے اندر جو قدرت و حکمت نمایاں ہے وہ شاہد ہے کہ اس کا خالق حکیم و قدیر ہے۔ ایک حکیم و قدیر خالق کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ کوئی عبث، باطل اور بے مقصد کام کرے۔ اس کے بامقصد اور باغایت ہونے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن ضرور لائے جس دن سب اس کی طرف لوٹیں اور اپنے اعمال کی جزا یا سزا پائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ تمام کارخانہ بالکل عبث اور بے غایت ایک کھیل بن کے رہ جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورۂ مومنون کی آیت ۱۱۵ میں یوں واضح فرمایا ہے:

’اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘
(کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے)۔

’تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ‘ یہ اسی اوپر والے مضمون کی ایک دوسرے پہلو سے تاکید ہے۔ کفار و مشرکین اول تو قیامت کے قائل نہ تھے، پھر ان کا اصل تعلق ان کے ان فرضی معبودوں اور شرکاء و شفعاء سے رہ گیا تھا جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ وہ ان کی طرف سے خدا سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔ ظاہر ہے یہ عقیدہ اس کارخانۂ کائنات کے ’بِالْحَق‘ ہونے کی صریح نفی ہے۔ اس وجہ سے یہ حقیقت بھی واضح کر دی گئی کہ یہ لوگ اپنے جن معبودوں سے لو لگائے بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی ان کے کام آنے والا نہیں ہے۔ خدا کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ وہ ان تمام شریکوں سے پاک اور منزہ ہے۔ وہ جن اعلیٰ صفات سے متصف ہے ان کے ساتھ ان شریکوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

اُس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ (اُس کے فیصلوں پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا)، وہ برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں۔

یعنی غایت و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ یہ کائنات بامعنیٰ انجام کو پہنچے اور اِس میں جو کچھ ہوا ہے، خدا کی عدالت انصاف کے ساتھ اُس کا فیصلہ سنا دے۔ یہ کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے کہ لوگ اِس میں جو چاہیں، کرتے پھریں اور اُن سے کوئی بازپرس نہ ہو۔

ابو الاعلی مودودی

اُس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں، اسی کی شہادت زمین و آسمان کا پورا کارخانہ تخلیق دے رہا ہے۔ یہ کارخانہ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے، بلکہ ایک سراسر مبنی برحقیقت نظام ہے۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہین منت ہے۔ پھر جب یہ ٹھوس حقیقت پر بنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہوسکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے ؟۔۔ اس کے بعد آثار کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔

جونا گڑھی

اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا وہ اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں۔

 یعنی محض تماشے اور کھیل کود کے طور پر نہیں پیدا کیا بلکہ ایک مقصد پیش نظر ہے اور وہ ہے جزا و سزا، جیسا کہ ابھی تفصیل گزری ہے۔ 

خَلَقَ ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ

امین احسن اصلاحی

اس نے انسان کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا تو وہ ایک کھلا ہوا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا۔

انسان سے یہاں مراد وہی کفار و مشرکین ہیں جو اوپر کی آیات میں مخاطب ہیں۔ ان سے بیزاری کے لیے بات عام صیغہ سے کہہ دی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیدا تو ہم نے انسان کو نجس پانی کی ایک بوند سے کیا لیکن اب وہ کھلم کھلا ہمارا ایک حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا ہے اب وہ اپنے دوبارہ اٹھائے جانے کو بھی بعید ازامکان سمجھتا ہے اور کہتا ہے:

’ءَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا ذٰلِکَ رَجْعٌ بَعِیْدٌ‘ (۳ ق)
(کیا جب ہم مر جائیں گے اور گل سڑ کر مٹی ہو جائیں گے تو ہم ازسرنو اٹھائے جائیں گے، یہ واپسی تو بہت ہی مستبعد ہے)

اور جن کو اپنے زعم کے مطابق اس نے ہمارا شریک بنا رکھا ہے ان کی حمایت میں بھی ہم سے لڑتا ہے۔ آگے آیت ۲۷ میں ان کے اسی لڑنے کا حوالہ ہے:

’وَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَکَآءِیَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْھِمْ‘
(اور وہ فرمائے گا کہ اب میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کی حمایت میں تم لڑتے تھے؟)

جاوید احمد غامدی

اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا تو دیکھتے ہو کہ یکایک وہ ایک کھلا ہوا حریف بن کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔

اشارہ ہے اُنھی سرکشوں کی طرف جو اُس وقت قرآن کے مخاطب تھے۔

ابو الاعلی مودودی

اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا۔

اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور غالبا دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث و استدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدعا کے لیے حجتیں پیش کرسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پر اتر آیا ہے۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے ( جس کی تشریح ہم اس سلسلہ بیان کے آخر میں کریں گے) ۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کر کہاں پہنچا، کس جگہ تو نے ابتداء پرورش پائی، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تو کس کے منہ آ رہا ہے۔

جونا گڑھی

اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا ۔

 یعنی ایک جامد چیز سے جو ایک جاندار کے اندر سے نکلتی ہے۔ جسے منی کہا جاتا ہے۔ اسے مختلف اطوار سے گزار کر ایک مکمل صورت دی جاتی ہے، پھر اس میں اللہ تعالیٰ روح پھونکتا ہے اور ماں کے پیٹ سے نکال کر اس دنیا میں لاتا ہے جس میں وہ زندگی گزارتا ہے لیکن جب اسے شعور آتا ہے تو اسی رب کے معاملے میں جھگڑتا، اس کا انکار کرتا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے۔ 

وَٱلْأَنْعَـٰمَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَـٰفِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ

امین احسن اصلاحی

اور چوپائے بھی اس نے تمہارے لیے پیدا کیے جن کے اندر تمہارے لیے جڑ اول بھی ہے اور دوسری منفعتیں بھی اور ان سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔

’دِفْءٌ‘ چوپایوں کے بال اور اون وغیرہ کو کہتے ہیں جن سے بنے ہوئے لباس سردیوں میں گرمی حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

آیات الٰہی کی طرف اشارہ: اب اس آیت اور آگے کی آیات میں مخاطب کے گرد و پیش کی چیزوں اور ان کے گوناگوں فوائد و منافع کا حوالہ دے کر اس کو توجہ دلائی ہے کہ ان میں سے ایک ایک چیز شہادت دے رہی ہے کہ اس کائنات کا خالق نہایت ہی کریم و حکیم اور نہایت ہی مہربان و رحیم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نعمتیں تو تمہیں ساری خدا سے ملی ہیں لیکن تم عبادت دوسروں کی کرتے ہو اور جس کی پروردگاری کی یہ شانیں دیکھتے ہو اس کے متعلق یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ اس نے بس تمہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے چھوڑ رکھا ہے، نہ ان نعمتوں کے جواب میں اس کا تم پر کوئی حق قائم ہوتا ہے اور نہ تمہیں اس کے آگے کبھی کوئی جواب دہی کرنی ہے۔ نعمتوں کے ذکر میں سب سے پہلے چوپایوں کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب کی اصل دولت یہ چوپائے ہی تھے۔ وہ بیشتر انہی سے لباس غذا اور دوسرے گوناگوں فوائد حاصل کرتے تھے۔

جاوید احمد غامدی

یہ چوپایے بھی اُس نے پیدا کیے ہیں جن میں تمھارے لیے جاڑے کی پوشاک ہے اور دوسرے فائدے بھی اور اِن سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔

n/a

جونا گڑھی

اسی نے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لئے گرم لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں۔

 اسی احسان کے ساتھ دوسرے احسان کا ذکر فرمایا کہ چوپائے (اونٹ، گائے اور بکریاں) بھی اسی نے پیدا کئے، جن کے بالوں اور اون سے تم گرم کپڑے تیار کر کے گرمی حاصل کرتے ہو۔ اسی طرح ان سے دیگر منافع حاصل کرتے ہو، مثلاً ان سے دودھ حاصل کرتے ہو، ان پر سواری کرتے ہو اور سامان لادتے ہو، ان کے ذریعے ہل چلاتے اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ 

وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ

امین احسن اصلاحی

اور ان کے اندر تمہارے لیے ایک شان بھی ہے جب کہ تم ان کو شام کو گھر واپس لاتے ہو اور جس وقت کہ ان کو چرنے کو چھوڑتے ہو۔

چوپایوں کی نعمت: ’جمال‘ سے مراد یہاں شان و شوکت اور دولت و عظمت ہے اہل عرب کی اصل چونکہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، چوپائے ہی تھے اس وجہ سے وہاں کسی شخص کی ثروت و عظمت کا اندازہ اس کے گلے ہی سے کیا جاتا۔ اگر اس کا گلہ بڑا ہوتا تووہ بڑا آدمی سمجھا جاتا اور اگر چھوٹا ہوتا تو چھوٹا آدمی خیال کیا جاتا۔

’اِرَاحَۃٌ‘ کے معنی شام کو گلے کو چراگاہ سے گھر واپس لانے کے ہیں اور ’سَرْحٌ‘ کے معنی اس کو چرنے چگنے کے لیے صبح کو چھوڑنے کے ہیں۔ یہاں ’اِرَاحَۃٌ‘ کو ’سَرْحٌ‘ پر مقدم کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ موقع کلام اظہار شان کا ہے اور شان کا اظہار گلے کی شام کو واپسی میں زیادہ ہے جبکہ وہ چراگاہ سے چر چگ کے تازگی اور فربہی کی حالت میں گھر کو واپس آتا ہے۔ یہ بات اس درجہ میں اس وقت نہیں ہوتی جب وہ صبح کو چرنے کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِن کے اندر تمھارے لیے جمال بھی ہے، جبکہ شام کے وقت اِن کو واپس لاتے ہو اور جب صبح کو چرنے کے لیے چھوڑتے ہو۔

اصل الفاظ ہیں: ’حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ‘۔ اِن میں ’سَرْح‘ کو بظاہر ’اِرَاحَۃ‘ پر مقدم ہونا چاہیے تھا، لیکن قرآن نے اُسے موخر کر دیا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’... اِس کی وجہ یہ ہے کہ موقع کلام اظہار شان کا ہے اور شان کا اظہار گلے کی شام کو واپسی میں زیادہ ہے، جبکہ وہ چراگاہ سے چر چگ کے تازگی اور فربہی کی حالت میں گھر کو واپس آتا ہے۔ یہ بات اِس درجہ میں اُس وقت نہیں ہوتی، جب وہ صبح کو چرنے کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۴/ ۳۹۱)

ابو الاعلی مودودی

اُن میں تمہارے لیے جمال ہے جب کہ صبح تم انہیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔

n/a

جونا گڑھی

ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر لاؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی ۔

  تریحون جب شام کو چرا کر گھر لاؤ، جب صبح چرانے کے لئے لے جاؤ، ان دونوں وقتوں میں یہ لوگوں کی نظروں میں آتے ہیں، جس سے تمہارے حسن و جمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان دونوں اوقات کے علاوہ وہ نظروں سے اوجھل رہتے یا باڑوں میں بند رہتے ہیں۔ 

وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا۟ بَـٰلِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ ٱلْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

امین احسن اصلاحی

اور وہ تمہارے بوجھ ایسی جگہوں تک پہنچاتے ہیں جہاں تم شدید مشقت کے بغیر پہنچنے والے نہیں بن سکتے تھے، بے شک تمہارا رب بڑا ہی شفیق و مہربان ہے۔

یہ اشارہ اونٹوں کی طرف ہے جن پر عرب میں باربرداری اور سفر کا تمام تر انحصار تھا۔ یہ جانور طویل سے طویل اور پر مشقت سے پر مشقت سفر کے لیے، خاص طور پر صحرائی اور گرم ملکوں میں، خدائی سفینہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وصف میں کوئی دوسرا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

نعمت سے متمتع ہونے والوں کے لیے سبق: ’اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ‘۔ یہ وہ اصل سبق ہے جو ان نعمتوں سے متمتع ہونے والے انسان کو حاصل ہونا چاہیے کہ وہ یہ مانے کہ ان کا بخشنے والا نہایت ہی مہربان اور نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور پھر اس سے جو بات لازم آتی ہے اس کو اختیار کرے یعنی اس منعم کا حق پہچانے، اس کا شکرگزار بندہ بنے، اس کی بندگی و اطاعت میں سرگرم رہے، اس کے حقوق میں دوسروں کو شریک نہ بنائے اور اس کے مقابل میں حریف بن کر نہ اٹھ کھڑا ہو۔ لیکن انسان کی یہ عجیب شامت ہے کہ وہ خدا کی نعمتیں پا کر اس کا شکرگزار بندہ بننے کی بجائے خود اپنی شان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور خدا کا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ مزید ستم یہ کہ اگر شکر گزار بھی ہوتا ہے تو خدا کا نہیں بلکہ خدا کے سوا دوسروں کا ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ تمھارے بوجھ ایسی جگہوں تک لے جاتے ہیں، جہاں تم جان توڑ کر ہی پہنچ سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار بڑا ہی شفیق، بڑا مہربان ہے۔

یعنی اِس بات کی نشانی کہ یہ کائنات مخلوق ہے اور اِس کا ایک ہی خالق ہے، زمین و آسمان میں ہر جگہ اُسی کی حکومت ہے، سب اُسی کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت سے متمتع ہو رہے ہیں، اُس نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی ہے، وہ یقیناً ایک دن ایسا لائے گا جس میں اُن لوگوں پر انعام فرمائے گا جنھوں نے اپنی ذمہ داری پہچانی اور اُن سے بازپرس کرے گا جو اندھے اور بہرے بن کر ایک شتر بے مہار کی زندگی گزارتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

وہ تمہارے لیے بوجھ ڈھو کر ایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔

n/a

جونا گڑھی

اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم آدھی جان کیئے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ یقیناً تمہارا رب بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے۔

وَٱلْخَيْلَ وَٱلْبِغَالَ وَٱلْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

امین احسن اصلاحی

اور اسی نے پیدا کیے گھوڑے اور خچر اور گدھے کہ تم ان پر سوار ہو اور وہ زینت بھی ہیں اور وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔

اونٹ کے بعد یہ دوسرے جانوروں کی طرف اشارہ فرمایا جو سواری کے کام بھی آتے اور سرداری کے لوازم میں سے ہونے کے باعث شان و شوکت کا بھی ذریعہ تھے نیز فرمایا کہ انہی تک محدود نہیں خدا بے شمار ایسی مخلوقات بھی پیدا کرتا رہتا ہے، جن کو تم جانتے بھی نہیں بلکہ بالواسطہ یا بلا واسطہ تم یا تمہارے سوا دوسرے لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مقصود ان چیزوں کے ذکر سے بھی وہی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ گزرا کہ نعمتیں بخشی ہوئی تو سب خدا کی ہیں لیکن تم ان کو پا کر خدا کو تو بھول جاتے ہو اور اپنی شان اور دوسروں کی بندگی میں لگ جاتے ہو۔

جاوید احمد غامدی

یہ گھوڑے اور خچر اور گدھے بھی اُس نے پیدا کیے ہیں تاکہ تم اِن پر سوار ہو اور یہ زینت بھی ہیں۔ وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جنھیں تم نہیں جانتے۔

یعنی اِس بات کی نشانی کہ یہ کائنات مخلوق ہے اور اِس کا ایک ہی خالق ہے، زمین و آسمان میں ہر جگہ اُسی کی حکومت ہے، سب اُسی کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت سے متمتع ہو رہے ہیں، اُس نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی ہے، وہ یقیناً ایک دن ایسا لائے گا جس میں اُن لوگوں پر انعام فرمائے گا جنھوں نے اپنی ذمہ داری پہچانی اور اُن سے بازپرس کرے گا جو اندھے اور بہرے بن کر ایک شتر بے مہار کی زندگی گزارتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اُس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں۔ وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔

یعنی بکثرت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہیں اور انسان کو خبر تک نہیں ہے کہ کہاں کہاں کتنے خدام اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کیا خدمت انجام دے رہے ہیں۔

جونا گڑھی

گھوڑوں کو، خچروں کو گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وہ باعث زینت بھی ہیں۔ اور بھی ایسی بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ۔

  یعنی ان کی پیدائش کا اصل مقصد اور فائدہ تو ان پر سواری کرنا ہے تاہم زینت کا بھی باعث ہیں، گھوڑے خچر، اور گدھوں کے الگ ذکر کرنے سے بعض فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچر۔ علاوہ ازیں کھانے والے چوپاؤں کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ اس لئے اس آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے، یہ صرف (سواری) کے لئے ہے۔

٨۔ ٢ زمین کے زیریں حصے میں، اسی طرح سمندر میں، اور بےآب وگیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالیٰ مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی میں انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جو اللہ کے دیئے ہوئے دماغ اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردہ چیزوں کو مختلف انداز میں جوڑ کر تیار کرتا ہے، مثلاً بس، کار، ریل گاڑی، جہاز اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بیشمار چیزیں اور جو مستقبل میں متوقع ہیں۔ 

وَعَلَى ٱللَّـهِ قَصْدُ ٱلسَّبِيلِ وَمِنْهَا جَآئِرٌ ۚ وَلَوْ شَآءَ لَهَدَىٰكُمْ أَجْمَعِينَ

امین احسن اصلاحی

اور اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے اور بعض راہیں کج ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر کر دیتا۔

’قَصْد‘ کے معنی سیدھے اور مستقیم کے ہیں۔ ’طَرِیْق قَصْد‘ سیدھا راستہ۔ ’قَصْد السَّبِیل‘ میں صفت اپنے موصوف کی طرف مضاف ہو گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بندے کو خدا تک توحید کی سیدھی راہ پہنچاتی ہے، اس میں کج پیچ اور پگ ڈنڈیاں نہیں ہیں۔ خدا نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان وسائط کو حائل نہیں کیا ہے۔ اس نے اپنے تک پہنچنے کے لیے سیدھی راہ کھولی ہے، بندہ اس کو اختیار کر لے تو یہ سیدھے خدا تک پہنچا دیتی ہے۔ اسی حقیقت کو سورۂ حجر کی آیت ۴۱ میں یوں واضح فرمایا گیا ہے:

’ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ‘
(یہ سیدھی راہ (توحید) سیدھے مجھ تک پہنچاتی ہے)

یہی مضمون سورۂ ہود آیت ۵۶ میں یوں بیان ہوا ہے:

’اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٌٍ‘
(بے شک میرا رب ایک سیدھے راستہ پر ہے)۔

’وَمِنْھَا جَآءِرٌ‘۔ یعنی خدا تک تو توحید کی سیدھی راہ پہنچاتی ہے لیکن لوگوں نے اپنی شامت سے اس سیدھی راہ سے شرک کے کج پیچ کے راستے نکال لیے ہیں جن پر پڑ کے وہ اس طرح کھو جاتے ہیں کہ پھر خدا سے وہ دور سے دور تر ہی ہوتے جاتے ہیں۔ ان کے لیے اصل شاہراہ کی طرف لوٹنا نہایت دشوار ہو جاتا ہے۔
’وَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ‘ یعنی اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت کے راستہ ہی پر ڈال دیتا لیکن اس معاملے میں اس نے جبر کو پسند نہیں فرمایا ہے بلکہ لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی عقل و تمیز سے کام لیں اور جس راہ کو بھی اختیار کریں اپنی ذمہ داری پر اختیار کریں۔ اگر وہ توحید کی راہ اختیار کریں گے تو منزل تک پہنچیں گے اور اگر اس سے انحراف کریں گے تو اس کا انجام خود دیکھیں گے۔ اسی سورہ میں آگے ارشاد ہوا ہے۔ ’اِنْ تَحْرِصْ عَلٰی ھُدٰھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ‘۔ یعنی جن پر خدا کا قانون ضلالت نافذ ہو جاتا ہے، پھر ان کو ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی تو ایسوں کی ہدایت کے درپے ہونے کی ضرورت نہیں۔

جاوید احمد غامدی

(اُس کو پانا چاہتے ہو تو جان لو کہ) اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے، جبکہ راہیں ٹیڑھی بھی ہیں۔ (اُس نے تمھیں اختیار دیا ہے کہ جو راہ چاہے، اختیار کرو)، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (اُسی ایک راہ کی) ہدایت دے دیتا۔

یعنی اِس بات کی نشانی کہ یہ کائنات مخلوق ہے اور اِس کا ایک ہی خالق ہے، زمین و آسمان میں ہر جگہ اُسی کی حکومت ہے، سب اُسی کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت سے متمتع ہو رہے ہیں، اُس نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی ہے، وہ یقیناً ایک دن ایسا لائے گا جس میں اُن لوگوں پر انعام فرمائے گا جنھوں نے اپنی ذمہ داری پہچانی اور اُن سے بازپرس کرے گا جو اندھے اور بہرے بن کر ایک شتر بے مہار کی زندگی گزارتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔

توحید اور رحمت و ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں اشارۃ نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کردی گئی ہے۔ اس دلیل کا مختصر بیان یہ ہے :

دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملا موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریہ حیات صرف وہی ہوسکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو۔ اور عمل کے بیشمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہوسکتا ہے جو صحیح نظریہ حیات پر مبنی ہو۔

اس صحیح نظریے اور صحیح راہ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہوگئی۔

اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سروسامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا ؟

یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے ؟ اس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بیشمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے، کیونکہ خدا کے ساتھ اس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشونما کا اتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الرحمٰن، حاشیہ نمبر ٢ – ٣) ۔

یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس ذمہ داری کو (جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے) اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بےاختیار مخلوقات کے مانند برسر ہدایت بنا دیتا۔ لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا۔ اس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں، اپنے اندر اور باہر کی بیشمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بیشمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بےمعنی ہوجاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنا دیا جاتا۔ اور ترقی کے ان بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار فرمایا کرتا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو، اور راہ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کردی جائے۔

جونا گڑھی

اور اللہ پر سیدھی راہ کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا ۔

اس کے ایک دوسرے معنی ہیں ' اور اللہ ہی پر ہے سیدھی راہ ' یعنی اس کا بیان کرنا۔ چنانچہ اس نے اسے بیان فرما دیا اور ہدایت اور ضلالت دونوں کو واضح کردیا، اسی لئے آگے فرمایا کہ بعض راہیں ٹیڑھی ہیں یعنی گمراہی کی ہیں۔ 

 لیکن اس میں چوں کہ جبر ہوتا اور انسان کی آزمائش نہ ہوتی، اس لئے اللہ نے اپنی مشیت سے سب کو مجبور نہیں کیا، بلکہ دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے، انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ 

هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً ۖ لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا جس میں سے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے وہ نباتات بھی اگتی ہیں جن میں تم مویشیوں کو چراتے ہو۔

’اسامۃ‘ کے معنی مویشیوں کو چراگاہ کی طرف لے جانے کے ہیں۔

توحید کی دلیل توافق کے پہلو سے: آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہی ایک خدا ہے جو آسمان سے پانی اتارتا ہے جس کو تم زمین پر بسنے والے پیتے بھی ہو اور اسی سے وہ جنگل جھاڑیاں اور نباتات بھی اگتی ہیں جن میں تم اپنے مال مویشی چراتے ہو۔ یہ صورت واقعہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آسمانوں کے خدا اور ہیں، زمین کے خدا اور یا اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ ایک ہی خدائے قادر و قیوم آسمانوں اور زمین سب پر حکمران ہے؟ ظاہر ہے کہ آسمانوں اور زمین کا یہ توافق اس حقیقت کی کھلی شہادت ہے کہ ایک ہی حکیم و قدیر کا ارادہ آسمانوں اور زمین سب میں کارفرما ہے اور اس کی ربوبیت و پروردگاری کا خوان کرم اتنا وسیع ہے کہ انسان تو انسان، انسان کے کام آنے والے جانور بھی اس سے متمتع ہو رہے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا جس سے تم پیتے بھی ہو اور اُسی سے وہ نباتات بھی اگتی ہیں جن میں تم (مویشیوں کو) چراتے ہو۔

یعنی اِس بات کی نشانی کہ یہ کائنات مخلوق ہے اور اِس کا ایک ہی خالق ہے، زمین و آسمان میں ہر جگہ اُسی کی حکومت ہے، سب اُسی کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت سے متمتع ہو رہے ہیں، اُس نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی ہے، وہ یقیناً ایک دن ایسا لائے گا جس میں اُن لوگوں پر انعام فرمائے گا جنھوں نے اپنی ذمہ داری پہچانی اور اُن سے بازپرس کرے گا جو اندھے اور بہرے بن کر ایک شتر بے مہار کی زندگی گزارتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے۔

n/a

جونا گڑھی

وہی تمہارے فائدے کے لئے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو۔

Page 1 of 13 pages  1 2 3 >  Last ›