تارے گواہی دیتے ہیں، جب وہ گرتے ہیں۔
یہ اُنھی تاروں کا ذکر ہے جن کے متعلق بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں ’رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ‘* (شیطانوں کے لیے سنگ ساری) بنا رکھا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ یہ جب گرتے ہیں تو زبان حال سے گواہی دیتے ہیں کہ ہم اُن راستوں کی پاسبانی کر رہے ہیں جن سے جبریل امین اِس قرآن کو لے کر آتے ہیں۔ اُن میں کسی شیطان کے لیے دراندازی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اِسے جنوں کا الہام اور کاہنوں کا کلام قرار دے کر رد کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اِس کی حریم قدس تک اِن شیطانوں کی رسائی کہاں! یہ تو اُس کے قریب بھی پھٹکنا چاہیں تو شہاب ثاقب کی صورت میں ہم اِن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
_____
*الملک ۶۷:۵۔
قسم ہے تارے کی جبکہ وہ غروب ہوا،
اصل میں لفظ ” النّجم ” استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس، مجاہد اور سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثریا (Pleiades) ہے۔ ابن جریر اور زمخشری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے، کیونکہ عربی زبان میں جب مطلقاً النجم کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً اس سے ثریا ہی مراد لیا جاتا ہے۔ سدی کہتے ہیں کہ اس سے مراد زہرہ (Venus) ہے۔ اور ابو عبیدہ نجوی کا قول ہے کہ یہاں النجم بول کر جنس نجوم مراد لی گئی ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ جب صبح ہوئی اور سب ستارے غروب ہوگئے۔ موقع و محل کے لحاظ سے ہمارے نزدیک یہ آخری قول زیادہ قابل ترجیح ہے۔
قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے
بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لئے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔
کہ تمہارا ساتھی نہ بھٹکا ہے اور نہ گمراہ ہوا ہے۔
آنحضرت صلعم پر کہانت کے الزام کی تردید: یہ پوری بات مقسم علیہ کی حیثیت رکھتی ہے یعنی ستاروں کے غروب یا سقوط کی قسم کھا کر قریش کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہارے ساتھی (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) نہ تو بھٹکے ہیں نہ گمراہ ہوئے ہیں۔ جو کلام وہ تمہیں سنا رہے ہیں اپنے جی سے گھڑ کے نہیں سنا رہے ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر وحی کیا جاتا ہے کہ وہ اس کو تمہیں سنائیں تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔
موقع کلام دلیل ہے کہ قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کہانت کا جو الزام لگاتے تھے یہ اس کی تردید ہے۔ قریش کے لیڈروں کو جب آپ قرآن سناتے اور وحی اور اس کے لانے والے فرشتہ سے متعلق اپنے تجربات و مشاہدات بیان فرماتے تو وہ اپنے عوام کو یہ باور کراتے کہ یہ بھی ہمارے کاہنوں اور منجموں کے قسم کے ایک کاہن و منجم ہیں۔ جس طرح ستاروں کے قِران، نکھتروں کے مشاہدات اور جنات کے القاء کی مدد سے وہ مسجّع و مقفّٰی کلام پیش کرتے اور غیب کی باتیں بتاتے ہیں اسی طرح یہ بھی مسجّع کلام سناتے اور مستقبل کی باتیں جاننے کے مدعی ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فرشتہ وحی لے کر آتا ہے محض دھونس ہے۔ جس طرح ہمارے کاہنوں پر جنات القاء کرتے ہیں اسی طرح کوئی جن ان پر بھی القاء کرتا ہے جس کو یہ فرشتہ سمجھتے ہیں۔
قریش کے اس الزام کی تردید قرآن میں جگہ جگہ ہوئی ہے۔ خاص طور پر سورۂ شعراء کے آخر میں اس کے بعض نہایت اہم پہلو زیربحث آئے ہیں۔ یہاں اسی الزام کی تردید ایک مختلف نہج سے کی جا رہی ہے جس کا آغاز ستاروں کے غروب اور سقوط کی قسم سے ہوا ہے۔
ستاروں کے غروب اور سقوط کی شہادت: ستاروں کے غروب یا ان کے سقوط سے قرآن نے دو پہلوؤں سے عربوں کے اس تصور پر ضرب لگائی ہے جو وہ کاہنوں اور منجموں سے متعلق رکھتے تھے۔
ایک تو اس پہلو سے کہ یہ سورج اور چاند اور یہ تمام نجوم و کواکب نہ خود اپنے اختیار سے کوئی تصرف کرتے ہیں نہ بذات خود مؤثر یا نافع و ضار ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں مسخر اور اسی کے حکم کے تابع ہیں۔ ان کا پوری پابندی کے ساتھ، ایک مقررہ نظام الاوقات کے مطابق، طلوع و غروب خود اس بات کی شہادت ہے کہ یہ بذات خود کسی اقتدار و اختیار کے مالک نہیں ہیں اس وجہ سے نہ تو یہ عبادت کے حق دار ہیں نہ اس بات کے کہ ان کو وحی و الہام کا مصدر سمجھ کر ان سے رجوع کیا جائے یا ان کو آفات کا منبع خیال کر کے ان کی دہائی دی جائے یا ان کو خیر و برکت کا مرکز مان کر ان سے دعا و التجا کی جائے؛ بلکہ یہ خود اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے اور اپنے عمل سے اللہ کے بندوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی انہی کی طرح اللہ ہی کی بندگی اور اسی کو سجدہ کریں۔ یہ مضمون قرآن میں یوں تو گوناگوں شکلوں میں بیان ہوا ہے لیکن خاص طور پر حضرت ابراہیمؑ کی وہ حجت جو انھوں نے اپنی قوم پر تمام کی اس باب میں حرف آخر ہے۔
یہ امر یہاں پیش نظر رہے کہ کہانت کی گرم بازاری جس طرح جنات و شیاطین کے تعلق سے تھی اسی طرح ستاروں کی گردش اوراس کے اثرات سے بھی اس کا نہایت گہرا ربط تھا۔ قرآن نے یہاں ’وَالنَّجْمِ إِذَا ہَوٰی‘ کہہ کر اس کے اسی پہلو پر ضرب لگائی ہے کہ ستارے تو خود اپنے عمل سے شہادت دیتے ہیں کہ وہ خالق کائنات کے حکم کے تابع ہیں۔ اسی کے حکم سے وہ طلوع ہوتے اور اسی کے حکم سے ڈوبتے ہیں، تو احمق ہیں وہ لوگ جو ان سے الہام حاصل کرنے یا لوگوں کی تقدیر معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ احمق ہیں وہ جو اللہ کے رسول کو نجومی یا کاہن بتاتے ہیں درآنحالیکہ ان کی ساری تعلیم ان خرافات پر ایک ضرب کاری ہے۔
دوسرے اس پہلو سے کہ کاہنوں کا یہ دعویٰ بالکل جھوٹ ہے کہ ان کا ربط ایسے جنوں سے ہے جو آسمان کی خبریں معلوم کر کے ان کو بتاتے ہیں۔ غیب تک کسی کی بھی رسائی نہیں ہے۔ جو جنات و شیاطین غیب کی خبریں معلوم کرنے کے لیے آسمانوں میں گھات میں بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو کھدیڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ ان پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے۔ سورۂ صافات میں اس کا ذکر یوں آیا ہے:
إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ (الصافات ۱۰)
’’مگر جو کوئی کچھ اچک لینے کی کوشش کرے تو اس کا تعاقب کرتا ہے ایک شہاب ثاقب۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس انتظام کا اعتراف خود جنات نے ان الفاظ میں کیا ہے:
وَأَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَن یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَہُ شِہَاباً رَّصَدًا (الجن ۹)
’’اور یہ کہ ہم آسمان کے ٹھکانوں میں غیب کی باتیں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے لیکن اب جو سننے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنے لیے ایک شہاب کو گھات میں پائے گا۔‘‘
انہی ٹوٹنے والے ستاروں یا آسمانی راکٹوں کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے سورۂ واقعہ: ۷۵-۸۰ ، سورۂ حاقہ: ۳۸-۴۳ اور سورۂ تکویر: ۱۵-۲۵ میں قرآن کریم کو شیطانی چھوت سے بالکل پاک اور بالاتر قرار دیا ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ قرآن کی حریم قدس تک کسی جن و شیطان کو رسائی نہیں ہے۔ اگر کوئی وہاں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے۔ شیاطین نہ اس لوح محفوظ تک پہنچ سکتے ہیں جس میں قرآن محفوظ ہے، نہ اس جلیل القدر فرشتہ کو متاثر کر سکتے جو اس کو لے کر اترتا ہے اور نہ رسول ہی کو گمراہ کر سکتے جس پر یہ نازل ہوتا ہے۔ شیاطین ان کاہنوں پر اترتے ہیں جو بالکل جھوٹے اور نابکار ہوتے ہیں اور محض لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے بَھگَل بناتے اور غیب دانی کے دعوے کرتے ہیں۔
بعض الفاظ کی وضاحت: قسم اور مقسم بہٖ کا تعلق سمجھ لینے کے بعد ان آیتوں کے الفاظ اور ان کے مفہوم کو بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے تاکہ بات پوری طرح ذہن نشین ہو جائے۔
’مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی‘۔ ’ضَلَّ‘ عام طور پر انسان کی اس گمراہی کے لیے آتا ہے جس کا تعلق بھول چوک یا فکر و اجتہاد کی غلطی سے ہو اور ’غَوٰی‘ کا تعلق اس گمراہی سے ہوتا ہے جس میں نفس کی اکساہٹ اور آدمی کے قصد و تعمد کو بھی دخل ہو۔
لفظ ’صَاحِبْ‘ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوا ہے اور ضمیر خطاب کے مخاطب قریش ہیں۔ ان کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ پیغمبرؐ جو تمہارے اپنے دن رات کے ساتھی ہیں تمہارے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ تم ان کے ماضی و حاضر، ان کے اخلاق و کردار اور ان کے رجحان و ذوق سے اچھی طرح واقف ہو۔ تم نے کب ان کے اندر کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے یہ شبہ بھی ہو سکے کہ ان میں کہانت یا نجوم کا کوئی میلان پایا جاتا ہے۔ اس طرح کا ذوق کسی کے اندر ہوتا ہے تو دن رات کے ساتھیوں سے وہ عمر بھر چھپا نہیں رہتا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز اتنی مدت تک تم نے ان کے اندر کبھی محسوس نہیں کی اب جب انھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور تم کو اللہ کا کلام سنایا تو تم نے ان کو کاہن اور نجومی کہنا شروع کر دیا۔ حالانکہ ان کی زندگی اور ان کا کلام شاہد ہے کہ ان کے اندر کسی ضلالت یا غوایت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔
کہ تمھارا رفیق نہ بھٹکا ہے، نہ بہکا ہے۔
رفیق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ اِس کے بعد دو لفظ استعمال ہوئے ہیں: ایک ’ضَلَّ‘ اور دوسرا ’غَوٰی‘۔ ’ضَلَّ‘ اُس گمراہی کے لیے آتا ہے، جب کوئی شخص راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑے اور ’غَوٰی‘ کا تعلق اُس گمراہی سے ہے جو انسان نفس کی اکساہٹ سے اور جان بوجھ کر اختیار کر لیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اِس آیت میں ’صَاحِبُکُمْ‘ کے لفظ سے ہوا ہے۔ یہ دلیل کے محل میں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’لفظ ’صَاحِب‘ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوا ہے اور ضمیر خطاب کے مخاطب قریش ہیں۔ اُن کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ پیغمبر جو تمھارے اپنے دن رات کے ساتھی ہیں، تمھارے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ تم اِن کے ماضی و حاضر، اِن کے اخلاق و کردار اور اِن کے رجحان و ذوق سے اچھی طرح واقف ہو۔ تم نے کب اِن کے اندر کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے یہ شبہ بھی ہو سکے کہ اِن میں کہانت یا نجوم کا کوئی میلان پایا جاتا ہے۔ اِس طرح کا ذوق کسی کے اندر ہوتا ہے تو دن رات کے ساتھیوں سے وہ عمر بھر چھپا نہیں رہتا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز اتنی مدت تک تم نے اُن کے اندر کبھی محسوس نہیں کی، اب جب اُنھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور تم کو اللہ کا کلام سنایا تو تم نے اِن کو کاہن اور نجومی کہنا شروع کر دیا، حالاں کہ اِن کی زندگی اور اِن کا کلام شاہد ہے کہ اِن کے اندر کسی ضلالت یا غوایت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۵۳)
تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے ۔
مراد ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مخاطب ہیں قریش کے لوگ۔ اصل الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ صَاحِبُکُمْ (تمہارا صاحب) ۔ ” صاحب ” عربی زبان میں دوست، رفیق، ساتھی، پاس رہنے والے اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کو ہوتے ہیں۔ اس مقام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لینے یا ” ہمارا رسول ” کہنے کے بجائے ” ” تمہارا صاحب ” کہہ کر آپ کا ذکر کرنے میں بڑی گہری معنویت ہے۔ اس سے قریش کے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ جس شخص کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ تمہارے ہاں باہر سے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی نہیں ہے اس سے تمہاری پہلے کی کوئی جان پہچان نہ ہو۔ تمہاری اپنی قوم کا آدمی ہے۔ تمہارے ساتھ ہی رہتا بستا ہے۔ تمہارا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کون ہے، کیا ہے، کس سیرت و کردار کا انسان ہے، کیسے اس کے معاملات ہیں، کیسے اس کی عادات و خصائل ہیں، اور آج تک تمہارے درمیان اس کی زندگی کیسی رہی ہے۔ اسے بارے میں منہ پھاڑ کر کوئی کچھ کہہ دے تو تمہارے اندر ہزاروں آدمی اس کے جاننے والے موجود ہیں جو خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بات اس شخص پر چسپاں ہوتی بھی ہے یا نہیں۔
یہ ہے وہ اصل بات جس پر غروب ہونے والے تارے یا تاروں کی قسم کھائی گئی ہے۔ بھٹکنے سے مراد ہے کسی شخص کا راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑنا اور بہکنے سے مراد ہے کسی شخص کا جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کرلینا۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تمہارے جانے پہچانے آدمی ہیں، ان پر تم لوگوں کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہوگئے ہیں۔ در حقیقت وہ نہ بھٹکے ہیں نہ بہکے ہیں۔ اس بات پر تاروں کے غروب ہونے کی قسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں جب تارے نکلے ہوئے ہوں، ایک شخص اپنے گردو پیش کی اشیاء کو صاف نہیں دیکھ سکتا اور مختلف اشیاء کی دھندلی شکلیں دیکھ کر ان کے بارے میں غلط اندازے کرسکتا ہے۔ مثلاً اندھیرے میں دور سے کسی درخت کو دیکھ اسے بھوت سمجھ سکتا ہے۔ کوئی رسی پڑی دیکھ کر اسے سانپ سمجھ سکتا ہے۔ ریت سے کوئی چٹان ابھری دیکھ کر یہ خیال کرسکتا ہے کہ کوئی درندہ بیٹھا ہے۔ لیکن جب تارے ڈوب جائیں اور صبح روشن نمودار ہوجائے تو ہر چیز اپنی اصلی شکل میں آدمی کے سامنے آجاتی ہے۔ اس وقت کسی چیز کی اصلیت کے بارے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ ایسا ہی معاملہ تمہارے ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ہے کہ ان کی زندگی اور شخصیت تاریکی میں چھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ صبح روشن کی طرح عیاں ہے۔ تم جانتے ہو کہ تمہارا یہ ” صاحب ” ایک نہایت سلیم الطبع اور دانا و فرزانہ آدمی ہے۔ اس کے بارے میں قریش کے کسی شخص کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ گمراہ ہوگیا ہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ کمال درجہ کا نیک نیت اور راستباز انسان ہے۔ اس کے متعلق تم میں سے کوئی شخص کیسے یہ رائے قائم کرسکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر نہ صرف خود ٹیڑھی راہ اختیار کر بیٹھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اسی ٹیڑھے راستے کی طرف دعوت دینے کے لیے کھڑا ہوگیا ہے۔
کہ تمہارے ساتھی نے نہ راہ گم کی ہے اور نہ ٹیڑھی راہ پر ہے
یہ جواب قسم ہے۔ صَاحِبِکُمْ (تمہارا ساتھی) کہہ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو واضح تر کیا گیا ہے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال اس نے تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان گزارے ہیں، اس کے شب و روز کے تمام معمولات تمہارے سامنے ہیں، اس کا اخلاق و کردار تمہارا جانا پہچانا ہے۔ راست بازی اور امانت داری کے سوا تم نے اس کے کردار میں کبھی کچھ اور بھی دیکھا ؟ اب چالیس سال کے بعد جو وہ نبوت کا دعوی کر رہا ہے تو ذرا سوچو، وہ کس طرح جھوٹ ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ واقعہ یہ کہ وہ نہ گمراہ ہوا ہے نہ بہکا ہے۔ ضلالت، راہ حق سے وہ انحراف ہے جو جہالت اور لاعلمی سے ہو اور غوابت، وہ کجی ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھوڑ کر اختیار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی گمراہیوں سے اپنے پیغمبر کی تنزیہ بیان فرمائی۔
اور وہ اپنے جی سے نہیں بولتا۔
’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی‘۔ ’عَنْ‘ یہاں منبع و منشا کا سراغ دینے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو کلام وہ تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں اس کا کوئی تعلق نفس اور اس کی خواہشوں سے نہیں ہے بلکہ یہ تمام تر وحی ہے جو ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری ہدایت کے لیے اتاری جا رہی ہے۔ اس ٹکڑے میں کاہنوں اور نجومیوں پر تعریض ہے کہ ان کا کلام تو تمام تر ان کے نفس کی تحریک سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس کلام کا منبع و مصدر اور ہے۔
جوہر جام جم از کان جہان دِگر است
اس آیت میں اصلاً تو بیان قرآن کا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحی کی حیثیت سے پیش کر رہے تھے۔
وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔
یعنی کاہن اور نجومی تو جو کچھ کہتے ہیں، اپنے نفس کی تحریک سے کہتے ہیں، لیکن اِس کلام کا منبع اور منشا اور ہے۔ نفس اور اُس کی خواہشوں سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا،
n/a
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔
n/a
یہ تو بس وحی ہے جو اس کو کی جاتی ہے۔
پچھلی آیت میں اصلاً تو بیان قرآن کا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحی کی حیثیت سے پیش کر رہے تھے چنانچہ آگے کی آیت ’إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحٰی‘ سے اس کی وضاحت بھی ہو گئی ہے؛ لیکن نبی چونکہ معصوم اور اس کا ہر قول و فعل لوگوں کے لیے نمونہ ہوتا ہے اس وجہ سے عام زندگی میں بھی اس کی کوئی بات حق و عدل سے ہٹی ہوئی نہیں ہوتی اور اگر کبھی اس سے کوئی فروگزاشت صادر ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فرما دیتا ہے۔
یہ (قرآن) تو ایک وحی ہے جو اُسے کی جاتی ہے۔
n/a
یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کی وجہ سے تم اس پر یہ الزام لگاتے ہو کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہوگیا ہے، وہ اس نے اپنے دل سے نہیں گھڑ لی ہیں، نہ ان کی محرک اس کی اپنی خواہش نفس ہے، بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس پر وحی کے ذریعہ سے نازل کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ اس کا خود نبی بننے کو جی نہیں چاہا تھا کہ اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے اس نے دعوائے نبوت کردیا ہو، بلکہ خدا نے جب وحی کے ذریعہ سے اس کو اس منصب پر مامور کیا تب وہ تمہارے درمیان تبلیغ رسالت کے لیے اٹھا اور اس نے تم سے کہا کہ میں تمہارے لیے خدا کا نبی ہوں۔ اسی طرح اسلام کی یہ دعوت، توحید کی یہ تعلیم، آخرت اور حشر و نشر اور جزائے اعمال کی یہ خبریں، کائنات و انسان کے متعلق یہ حقائق، اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے یہ اصول، جو وہ پیش کر رہا ہے، یہ سب کچھ بھی اس کا اپنا بنایا ہوا کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ خدا نے وحی کے ذریعہ سے اس کو ان باتوں کا علم عطا کیا ہے۔ اسی طرح یہ قرآن جو وہ تمہیں سناتا ہے، یہ بھی اس کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعہ سے اس پر نازل ہوتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” آپ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ جو کچھ آپ کہتے ہیں وہ ایک وحی ہے جو آپ پر نازل کی جاتی ہے “، آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والی کن کن باتوں سے متعلق ہے ؟ آیا اس کا اطلاق ان ساری باتوں پر ہوتا ہے جو آپ بولتے تھے، یا بعض باتوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض باتوں پر نہیں ہوتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے اس پر تو اس ارشاد کا اطلاق بدرجہ اولیٰ ہوتا ہے۔ رہیں وہ دوسری باتیں جو قرآن کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ادا ہوتی تھیں تو وہ لا محالہ تین ہی قسموں کی ہو سکتی تھیں۔
ایک قسم کی باتیں وہ جو آپ تبلیغ دین اور دعوت الیٰ اللہ کے لیے کرتے تھے، یا قرآن مجید کے مضامین اس کی تعلیمات اور اس کے احکام و ہدایات کی تشریح کے طور پر کرتے تھے، یا قرآن ہی کے مقصد و مدعا کو پورا کرنے کے لیے وعظ و نصیحت فرماتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے تھے۔ ان کے متعلق ظاہر ہے کہ یہ شبہ کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ باتیں معاذاللہ، آپ اپنے دل سے گھڑتے تھے۔ ان امور میں تو آپ کی حیثیت در حقیقت قرآن کے سرکاری ترجمان، اور اللہ تعالیٰ کے نمائندہ مجاز کی تھی۔ یہ باتیں اگرچہ اس طرح لفظاً لفظاً آپ پر نازل نہیں کی جاتی تھیں جس طرح قرآن آپ پر نازل کیا جاتا تھا، مگر یہ لازماً تھیں اسی علم پر مبنی جو وحی کے ذریعہ سے آپ کو دیا گیا تھا ان میں اور قرآن میں فرق صرف یہ تھا کہ قرآن کے الفاظ اور معانی سب کچھ اللہ کی طرف سے تھے، اور ان دوسری باتوں میں معانی و مطالب وہ تھے جو اللہ نے آپ کو سکھائے تھے اور ان کو ادا آپ اپنے الفاظ میں کرتے تھے۔ اسی فرق کی بنا پر قرآن کو وحی جلی، اور آپ کے ان دوسرے ارشادات کو وحی خَفِی کہا جاتا ہے۔
دوسری قسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور اقامت دین کی خدمات کے سلسلے میں کرتے تھے۔ اس کام میں آپ کو مسلمانوں کی جماعت کے قائد و رہنما کی حیثیت سے مختلف نوعیت کے بیشمار فرائض انجام دینے ہوتے تھے جن میں بسا اوقات آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ بھی لیا ہے، اپنی رائے چھوڑ کر ان کی رائے بھی مانی ہے، ان کے دریافت کرنے پر کبھی کبھی یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ بات میں خدا کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی رائے کے طور پر کہہ رہا ہوں، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ نے اپنے اجتہاد سے کوئی بات کی ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف ہدایت آگئی ہے۔ اس نوعیت کی جتنی باتیں بھی آپ نے کی ہیں، ان میں سے بھی کوئی ایسی نہ تھی اور قطعاً نہ ہو سکتی تھی جو خواہش نفس پر مبنی ہو۔ رہا یہ سوال کہ کیا وہ وحی پر مبنی تھیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بجز ان باتوں کے جن میں آپ نے خود تصریح فرمائی ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے نہیں ہیں، یا جن میں آپ نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا ہے اور ان کی رائے قبول فرمائی ہے، یا جن میں آپ سے کوئی قول و فعل صادر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف ہدایت نازل فرما دی ہے، باقی تمام باتیں اسی طرح وحی خفی پر مبنی تھیں جس طرح پہلی نوعیت کی باتیں۔ اس لیے کہ دعوت اسلامی کے قائد و رہنما اور جماعت مومنین کے سردار اور حکومت اسلامی کے فرمانروا کا جو منصب آپ کو حاصل تھا وہ آپ کا خود ساختہ یا لوگوں کا عطا کردہ نہ تھا بلکہ اس پر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے تھے، اور اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں آپ جو کچھ کہتے اور کرتے تھے اسمیں آپ کی حیثیت مرضی الٰہی کے نمائندے کی تھی۔ اس معاملے میں آپ نے جو باتیں اپنے اجتہاد سے کی ہیں ان میں بھی آپ کا اجتہاد اللہ کو پسند تھا اور علم کی اس روشنی سے ماخوذ تھا جو اللہ نے آپ کو دی تھی۔ اسی لیے جہاں آپ کا اجتہاد ذرا بھی اللہ کی پسند سے ہٹا ہے وہاں فوراً وحی جلی سے اس کی اصلاح کردی گئی ہے۔ آپ کے بعض اجتہادات کی یہ اصلاح بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے باقی تمام اجتہادات عین مرضی الٰہی کے مطابق تھے۔
تیسری قسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے زندگی کے عام معاملات میں کرتے تھے، جن کا تعلق فرائض نبوت سے نہ تھا، جو آپ نبی ہونے سے پہلے بھی کرتے تھے اور نبی ہونے کے بعد بھی کرتے رہے۔ اس نوعیت کی باتوں کے متعلق سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے بارے میں کفار سے کوئی جھگڑا نہ تھا۔ کفار نے ان کی بنا پر آپ کو گمراہ اور بد راہ نہیں کہا تھا بلکہ پہلی دو قسم کی باتوں پر وہ یہ الزام لگاتے تھے۔ اس لیے وہ سرے سے زیر بحث ہی نہ تھیں کہ اللہ تعالیٰ انکے بارے میں یہ آیت ارشاد فرماتا۔ لیکن اس مقام پر ان کے خارج از بحث ہونے کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کوئی بات اپنی زندگی کے اس نجی پہلو میں بھی کبھی خلاف حق نہیں نکلتی تھی، بلکہ ہر وقت ہر حال میں آپ کے اقوال و افعال ان حدود کے اندر محدود رہتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبرانہ اور متقیانہ زندگی کے لیے آپ کو بتا دی تھیں۔ اس لیے در حقیقت وحی کا نور ان میں بھی کار فرما تھا۔ یہی بات ہے جو بعض صحیح احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہوئی ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر حضور نے فرمایا لا اقول اِلّا حقّاً ، ” میں کبھی حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا “۔ کسی صحابی نے عرض کیا فانّک تُداعبُنا یا رسول اللہ، ” یا رسول اللہ، کبھی کبھی آپ ہم لوگوں سے ہنسی مذاق بھی تو کرلیتے ہیں “۔ فرمایا انی لا اقول الا حقّا، ” فی الواقع میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا “۔ مسند احمد اور ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سنتا تھا وہ لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کرلوں۔ قریش کے لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہنے لگے تم ہر بات لکھتے چلے جاتے ہو، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسان ہیں، کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرما دیتے ہیں۔ اس پر میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ بعد میں اس بات کا ذکر میں نے حضور سے کیا تو آپ نے فرمایا : اکتب فو الذی نفسی بیدہ ما خرج منّی الّا الحق، تم لکھے جاؤ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری زبان سے کبھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلی ہے “۔ (اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب تفہیمات، حصہ اوّل، مضمون ” رسالت اور اس کے احکام ” ) ۔
وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔
n/a
اس کو ایک مضبوط قوتوں والے، عقل و کردار کے توانا نے تعلیم دی ہے۔
حضرت جبریلؑ کی صفات: کلام اور صاحب کلام کی صفات بیان کرنے کے بعد یہ اس فرشتہ (حضرت جبریلؑ) کی صفت بیان ہو رہی ہے جس نے اس کلام کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی۔ فرمایا کہ وہ ’شَدِیْدُ الْقُوٰی‘ یعنی تمام اعلیٰ صفات اور صلاحیتوں سے بھرپور اور اس کی ہر صفت و صلاحیت نہایت محکم و مضبوط ہے۔ اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی دوسری روح اس کو متاثر یا مرعوب کر سکے، اس سے خیانت کا ارتکاب کرا سکے یا اس کی تعلیم میں کوئی خلط مبحث کر سکے یا اس سے کوئی فروگذاشت ہو سکے یا اس کو کوئی وسوسہ لاحق ہو سکے۔ اس طرح کی تمام کمزوریوں سے اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ رکھا ہے تاکہ جو فرض اس کے سپرد فرمایا ہے اس کو وہ بغیر کسی خلل و فساد کے پوری دیانت و امانت کے ساتھ ادا کر سکے۔ سورۂ تکویر میں اس فرشتہ کی تعریف یوں آئی ہے:
’اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ‘(۱۹-۲۱)
(یہ ایک باعزت فرستادہ کی وحی ہے، وہ بڑی قوت والا اور عرش والے کے نزدیک بارسوخ ہے۔ اس کی اطاعت کی جاتی ہے، مزید برآں وہ نہایت امین ہے)۔
’ذُوْمِرَّۃٍ‘۔ یعنی وہ اپنی عقل اور اپنے کردار میں نہایت محکم ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ کوئی دھوکا کھا سکے یا کوئی اس کو دھوکا دے سکے یا وہ کسی کے ہاتھ بک سکے اور کوئی اس کو خرید سکے۔ یہ لفظ اخلاقی و عقلی برتری کے لیے آتا ہے۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ حضرت جبریلؑ کی یہ صفات کاہنوں اور نجومیوں کے مصدر الہام کی تحقیر ہی کے لیے نہیں بیان ہوئی ہیں بلکہ یہود اور ان کے ہم مشرب روافض نے، جیسا کہ سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ہم اشارہ کر آئے ہیں، آپ پر نعوذ باللہ خیانت، جانب داری اور بے بصیرتی کا الزام لگایا ہے اور اسی بنا پر ان کو حضرت جبریل علیہ السلام سے ہمیشہ عداوت بھی رہی ہے جس کا حوالہ قرآن مجید میں موجود ہے۔
اُس کو ایک زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے۔
n/a
اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔
یعنی کوئی انسان اس کو سکھانے والا نہیں ہے، جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، بلکہ یہ علم اس کو ایک فوق البشر ذریعہ سے حاصل ہو رہا ہے۔ ” زبردست قوت والے ” سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عائشہ حضرت ابوہریرہ، قتادہ، مجاہد، اور ربیع بن انس سے یہی منقول ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر، رازی اور آلوسی وغیرہ حضرات نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں اسی کی پیروی کی ہے۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے بھی یہی ثابت ہے۔ سورة تکویر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّہ لَقَولُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍ ، ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمیْنٍ ، وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ، وَلَقَدْ رَاٰہُ بالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ (آیت 19 ۔ 23) ۔ ” در حقیقت یہ ایک بزرگ فرشتے کا بیان ہے جو زبردست قوت والا ہے، مالک عرش کے ہاں بڑا درجہ رکھتا ہے، اس کا حکم مانا جاتا ہے اور وہاں وہ معتبر ہے۔ تمہارا رفیق کچھ دیوانہ نہیں ہے، وہ اس فرشتے کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھ چکا ہے “۔ پھر سورة بقرہ کی آیت 97 میں اس فرشتے کا نام بھی بیان کردیا گیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ تعلیم حضور کے قلب پر نازل کی گئی تھی : قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنّہ نَزَّلَہ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ ۔ ان تمام آیات کو اگر سورة نجم کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہاں زبردست قوت والے معلم سے مراد جبریل امین ہی ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث آ گے آ رہی ہے۔
اس مقام پر بعض حضرات جبریل امین کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معلم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے، اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ وہ استاد ہیں اور حضور شاگرد، اور اس سے حضور پر جبریل کی فضیلت لازم آئے گی لیکن یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جبریل اپنے کسی ذاتی علم سے حضور کو تعلیم نہیں دیتے تھے جس سے آپ پر ان کی فضیلت لازم آئے، بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے آپ تک علم پہنچانے کا ذریعہ بنایا تھا اور وہ محض واسطہ تعلیم ہونے کی حیثیت سے مجازاً آپ کے معلم تھے۔ اس سے ان کی افضلیت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پانچ وقت نمازیں فرض ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے صحیح اوقات بتانے کے لیے جبریل (علیہ السلام) کو آپ کے پاس بھیجا اور انہوں نے دو روز تک پانچوں وقت کی نمازیں آپ کو پڑھائیں۔ یہ قصہ بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور مُؤطا وغیرہ کتب حدیث میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے اور اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ مقتدی تھے اور جبریل نے امام بن کر آپ کو نماز پڑھائی تھی۔ لیکن اس طرح محض تعلیم کی غرض سے ان کا امام بنایا جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ آپ سے افضل تھے۔
اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا۔
n/a
(عقل و کردار کے توانا نے تعلیم دی ہے۔) وہ نمودار ہوا۔
جبریلؑ کا طریقۂ تعلیم: ’ذُوْمِرَّۃٍ‘ کا تعلق ’شَدِیْدُ الْقُوٰی‘ سے ہے اس وجہ سے اس کی وضاحت ہم نے ’شَدِیْدُ الْقُوٰی‘ کے ساتھ ہی کر دی ہے۔
’ذُوْمِرَّۃٍ‘۔ یعنی وہ اپنی عقل اور اپنے کردار میں نہایت محکم ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ کوئی دھوکا کھا سکے یا کوئی اس کو دھوکا دے سکے یا وہ کسی کے ہاتھ بک سکے اور کوئی اس کو خرید سکے۔ یہ لفظ اخلاقی و عقلی برتری کے لیے آتا ہے۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ حضرت جبریلؑ کی یہ صفات کاہنوں اور نجومیوں کے مصدر الہام کی تحقیر ہی کے لیے نہیں بیان ہوئی ہیں بلکہ یہود اور ان کے ہم مشرب روافض نے، جیسا کہ سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ہم اشارہ کر آئے ہیں، آپ پر نعوذ باللہ خیانت، جانب داری اور بے بصیرتی کا الزام لگایا ہے اور اسی بنا پر ان کو حضرت جبریل علیہ السلام سے ہمیشہ عداوت بھی رہی ہے جس کا حوالہ قرآن مجید میں موجود ہے۔
جو بڑا صاحب کردار، بڑا صاحب حکمت ہے۔
یعنی جس فرشتے نے یہ کلام پیغمبر پر اتارا ہے، وہ تمام اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل اور علم و عقل اور سیرت و کردار کے لحاظ سے نہایت محکم ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی دوسری روح اُس کو متاثر یا مرعوب کر سکے، اُس سے خیانت کا ارتکاب کرا سکے یا اُس کی تعلیم میں کوئی خلط مبحث کر سکے یا اُس سے کوئی فروگذاشت ہو سکے یا اُس کو کوئی وسوسہ لاحق ہو سکے۔ اِس طرح کی تمام کمزوریوں سے اللہ تعالیٰ نے اُس کو محفوظ رکھا ہے تاکہ جو فرض اُس کے سپرد فرمایا ہے، اُس کو وہ بغیر کسی خلل و فساد کے پوری دیانت و امانت کے ساتھ ادا کر سکے۔‘‘ (تدبرقرآن ۸ /۵۳)
جو بڑا صاحب حکمت ہے۔ وہ سامنے آکھڑا ہوا
اصل میں لفظ ذُوْ مِرَّۃٍ استعمال فرمایا گیا ہے۔ ابن عباس اور قتادہ اس کو خوبصورت اور شاندار کے معنی میں لیتے ہیں۔ مجاہد، حسن بصری، ابن زید اور سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس کے معنی طاقتور کے ہیں۔ سعید بن مُسَیَّب کے نزدیک اس سے مراد صاحب حکمت ہے۔ حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رشاد ہے : لا تحل الصدقۃ لغنی ولا لذی مِرَّۃٍ سَوِیٍّ ۔ اس ارشاد میں ذو مرہ کو آپ نے تندرست اور صحیح القویٰ کے معنی میں استعمال فرمایا ہے۔ عربی محاورے میں یہ لفظ نہایت صائب الرائے اور عاقل و دانا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جبریل (علیہ السلام) کے لیے یہ جامع لفظ اسی لیے منتخب فرمایا ہے کہ ان میں عقلی اور جسمانی، دونوں طرح کی قوتوں کا کمال لیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں کوئی لفظ ان تمام معنوں کا جامع نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمے میں اس کے صرف ایک معنی کو اختیار کیا ہے، کیونکہ جسمانی قوتوں کے کمال کا ذکر اس سے پہلے کے فقرے میں آ چکا ہے۔
جو زور آور ہے پھر وہ سیدھا کھڑا ہوگیا۔
n/a
اور وہ افق اعلیٰ میں تھا۔
اب ’فَاسْتَوٰی‘ سے آگے اس تعلیم کے طریقہ کی وضاحت ہو رہی ہے جس کا ذکر اوپر ’عَلَّمَہٗ‘ کے لفظ سے ہوا ہے۔ فرمایا کہ اس مقرب فرشتے نے نبی کو نہایت اہتمام، توجہ اور شفقت سے اس وحی کی تعلیم دی جو اللہ نے اس پر نازل کرنی چاہی۔ ’فَاسْتَوٰی‘ میں ’فَ‘ تفصیل کے لیے ہے، یعنی پہلے وہ اپنی اصل صورت میں، مستوی القامت ہو کر، نمودار ہوا۔ اس کے نمودار ہونے کی جگہ آسمان کی افق اعلیٰ میں تھی۔ ’اُفُق اَعْلٰی‘ سے مراد وہ افق ہے جو سمت راس میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی چیز سمت راس کے افق سے نمایاں ہو گی تو چودھویں کے چاند اور دوپہر کے سورج کی طرح وہ بالکل صاف و شفاف، جلی اور غیرمشتبہ صورت میں نظر آئے گی۔ اس کے برعکس مشرق یا مغرب یا شمال یا جنوب کے افق سے اگر کوئی چیز نمودار ہو گی تو وہ خفی صورت میں نمودار ہو گی جس طرح پہلی کا چاند نکلتا ہے۔ مقصود اس وضاحت سے یہ ہے کہ حضرت جبریلؑ اپنی اصلی ہیئت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے افق اعلیٰ کے اسٹیج پر نمودار ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلی آنکھوں سے ان کا اچھی طرح مشاہدہ کیا۔
چنانچہ وہ نمودار ہوا، اِس طرح کہ وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا۔
اصل میں ’الْاُفُقُ الْاَعْلٰی‘ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی وہ افق جو سمت رأس میں ہوتا ہے۔ یہ پہلی وحی اور جبریل امین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی ملاقات کا ذکر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل جلی اور غیرمشتبہ صورت میں اِس طرح نمودار ہوئے، جس طرح ماہ تمام یا مہر نیم روز نمودار ہوتا ہے اور پیغمبر نے کھلی آنکھوں کے ساتھ اُن کا مشاہدہ کیا۔
جبکہ وہ بالائی افق پر تھا،
اُفق سے مراد ہے آسمان کا مشرقی کنارا جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور دن کی روشنی پھیلتی ہے۔ اسی کو سورة تکویر کی آیت 23 میں افق مبین کہا گیا ہے۔ دونوں آیتیں صراحت کرتی ہیں کہ پہلی مرتبہ جبریل (علیہ السلام) جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر آئے اس وقت وہ آسمان کے مشرقی کنارے سے نمودار ہوئے تھے۔ اور متعدد و معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ اپنی اصلی صورت میں تھے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے۔ آ گے چل کر ہم وہ تمام روایات نقل کریں گے جن میں یہ بات بیان کی گئی ہے۔
اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھا۔
n/a
پھر قریب ہو گیا اور جھک پڑا۔
’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی‘۔ ’تَدَلَّی‘ کے معنی جھک پڑنے یا لٹک آنے کے ہیں۔ یہ بیان ہے اس بات کا کہ اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دینے کے قصد سے آپ کے قریب آئے اور جس طرح شفیق اور بزرگ استاد اپنے عزیز و محبوب شاگرد پر غایت شفقت سے جھک پڑتا ہے اسی طرح وہ آپ کے اوپر جھک پڑے۔ یعنی یہ نہیں ہوا کہ دور سے اپنی بات پھینک ماری ہو اور اس امر کی پروا نہ کی ہو کہ آپ نے بات اچھی طرح سنی یا نہیں اور سنی تو سمجھی یا نہیں بلکہ پورے التفات و اہتمام سے اس طرح آپ کے کان میں بات ڈالی کہ آپ اچھی طرح سن اور سمجھ لیں۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ کاہنوں کے شیاطین کا جو علم ہوتا ہے اس کو قرآن نے ’خَطِفَ الْخَطْفَۃَ‘ (الصافات: ۱۰) سے تعبیر کیا ہے یعنی اچکی ہوئی بات، جس طرح چور اور اچکے کوئی چیز اچک لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب استاد اچکے ہیں توو ہ اپنے شاگردوں کو تعلیم بھی اچکوں ہی کی طرح دیتے ہوں گے۔ قرآن نے یہاں حضرت جبریل علیہ السلام کے طریقۂ تعلیم کو اس لیے نمایاں فرمایا ہے کہ دونوں کا فرق اچھی طرح واضح ہو سکے۔
پھر قریب ہوا اور جھک پڑا۔
یہ اُس التفات و اہتمام اور غایت شفقت کا بیان ہے جس کے ساتھ جبریل امین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی تاکہ جو ہدایات آپ کو دی جا رہی ہیں، آپ اُنھیں اچھی طرح سن اور سمجھ لیں۔
پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا،
n/a
پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا۔
n/a
پس دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
’فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی‘۔ ’قاب‘ کے معنی ’بقدر‘ کے ہیں یہ غایت قرب و اتصال کی تعبیر ہے۔ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے قریب ہو گئے کہ بس دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس تشبیہ میں اہل عرب کے ذوق کا بھی لحاظ ہے۔ اہل عرب تیر و کمان والے لوگ تھے اس وجہ سے غایت قرب کی تعبیر کے لیے ایک کمان یا دو کمانوں کے بقدر کی تشبیہ استعمال کرتے تھے، جس طرح ہم ایک گز یا دو گز کے الفاظ بولتے ہیں۔ ’اَوْ‘ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ تشبیہ محض قرب کی تعبیر کے لیے ہے۔ یہ فاصلہ اس سے بھی کم ہو سکتا ہے۔
یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اُس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔
یہ تشبیہ اہل عرب کے ذوق کے لحاظ سے ہے اور غایت قرب و اتصال کی تعبیر کے لیے آئی ہے۔ اِس میں ’اَوْ‘ اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیش نظر محض قرب کا بیان ہے، اِس سے مقدار فاصلہ کی تعیین مقصود نہیں ہے۔ یہ کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔
یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا ۔
یعنی آسمان کے بالائی مشرقی کنارے سے نمودار ہونے کے بعد جبریل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آ گے بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ آپ کے اوپر آ کر فضا میں معلق ہوگئے۔ پھر وہ آپ کی طرف جھکے اور اس قدر قریب ہوگئے کہ آپ کے اور ان کے درمیان صرف دو کمانوں کے برابر یا کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ عام طور پر مفسرین نے قابَ قَوْسَیْن کے معنی ” بقدر دو قوس ” ہی بیان کیے ہیں، لیکن حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے قوس کو ذراع (ہاتھ) کے معنی میں لیا ہے اور کانَ قَابَ قَوْسَیْنِ کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ دونوں کے درمیان صرف دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
اور یہ جو فرمایا کہ فاصلہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم تھا، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ فاصلے کی مقدار کے تعین میں اللہ تعالیٰ کو کوئی شک لاحق ہوگیا ہے۔ دراصل یہ طرز بیان اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ تمام کمانیں لازماً ایک ہی ناپ کی نہیں ہوتیں اور ان کے حساب سے کسی فاصلے کو جب بیان کیا جائے گا تو مقدار فاصلہ میں ضرور کمی بیشی ہوگی۔
پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔
n/a
پس اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔
’فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی‘۔ ’اَوْحٰی‘ کا فاعل اللہ تعالیٰ بھی ہو سکتا ہے اور حضرت جبریلؑ بھی۔ پہلی صورت میں مطلب بالکل واضح ہے کہ اس اہتمام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو وحی کرنی تھی وہ کی۔ دوسری صورت میں مضاف الیہ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہو گا، یعنی اس توجہ اور اہتمام کے ساتھ جبریل علیہ السلام نے اللہ کے بندے کی طرف جو وحی کرنی تھی وہ کی یا وہ وحی کی جو اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کو کرنے کے لیے ہدایت فرمائی۔ میرا رجحان پہلے قول کی طرف ہے، ویسے دوسرے قول میں بھی کوئی خاص قباحت نہیں ہے۔ بعض صوفیوں نے اس سے یہ بالکل غلط نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریلؑ کا بندہ قرار دیا ہے۔ ہم اس کتاب میں جگہ جگہ، مثالوں کی روشنی میں، واضح کرتے آ رہے ہیں کہ ضمیروں کے مرجع کا تعین قرینہ سے ہوتا ہے۔ انتشار ضمیر ہر صورت میں عیب نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں اس سے ایجاز کا فائدہ ہوتا ہے جو کلام عرب میں داخل بلاغت ہے۔
پھر اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔
n/a
تب اس نے اللہ کے بندے کی وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہچانی تھی ۔
اصل الفاظ ہیں فَاَوْحٰٓی الیٰ عَبْدِہ مَا اَوْحیٰ ۔ اس فقرے کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ ” اس نے وحی کی اس کے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی “۔ اور دوسرا یہ کہ ” اس نے وحی کی اپنے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی “۔ پہلا ترجمہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جبریل نے وحی کی اللہ کے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی۔ اور دوسرا ترجمہ کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے وحی کی جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی۔ مفسرین نے یہ دونوں معنی بیان کیے ہیں۔ مگر سیاق وسباق کے ساتھ زیادہ مناسبت پہلا مفہوم ہی رکھتا ہے اور وہی حضرت حسن بصری اور ابن زید سے منقول ہے۔ اس پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ عبدہ کی ضمیر اوحیٰ کے فاعل کی طرف پھرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے پھر سکتی ہے جبکہ آغاز سورة سے یہاں تک اللہ کا نام سرے سے آیا ہی نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں ضمیر کا مرجع کسی خاص شخص کی طرف سیاق کلام سے صاف ظاہر ہو رہا ہو وہاں ضمیر آپ سے آپ اسی کی طرف پھرتی ہے خواہ اس کا ذکر پہلے نہ آیا ہو۔ اس کی متعدد نظیریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ۔ ” ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے “۔ یہاں قرآن کا سرے سے کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔ مگر سیاق کلام خود بتا رہا ہے کہ ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلیٰ ظَھْرِھَا مِنْ دَآبَّۃٍ ۔ ” اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑنے لگے تو اس کی پیٹھ پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے “۔ یہاں آ گے پیچھے زمین کا ذکر کہیں نہیں آیا ہے۔ مگر سیاق کلام سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ ” اس کی پیٹھ ” سے مراد زمین کی پیٹھ ہے۔ سورة یٰس میں فرمایا گیا ہے وَمَآ عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ۔ ” ہم نے اسے شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ شاعری اس کو زیب دیتی ہے۔ “۔ یہاں پہلے یا بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے مگر سیاق کلام بتا رہا ہے کہ ضمیروں کے مرجع آپ ہی ہیں۔ سورة رحمٰن میں فرمایا کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ ، ” وہ سب کچھ جو اس پر ہے فانی ہے “۔ آ گے پیچھے کوئی ذکر زمین کا نہیں ہے۔ مگر عبارت کا انداز ظاہر کر رہا ہے کہ علیہا کی ضمیر اسی کی طرف پھرتی ہے۔ سورة واقعہ میں ارشاد ہوا اِنَّآ اَنْشَأْنَاھُنَّ اِنْشَآءً ، ” ہم نے ان کو خاص طور پر پیدا کیا ہوگا “۔ آس پاس کوئی چیز نہیں جس کی طرف ھُنَّ کی ضمیر پھرتی نظر آتی ہو۔ یہ فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مراد خواتین جنت ہیں۔ پس چونکہ اَوْحیٰ الیٰ عَبْدِہ کا یہ مطلب بہرحال نہیں ہوسکتا کہ جبریل نے اپنے بندے پر وحی کی، اس لیے لازماً اس کے معنی یہی لیے جائیں گے کہ جبریل نے اللہ کے بندے پر وحی کی، یا پھر یہ کہ اللہ نے جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر وحی کی۔
پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی۔
n/a
امین احسن اصلاحی
شاہد ہیں ستارے جب کہ وہ گرتے ہیں۔
’النّجم‘ سے مراد: ’النّجم‘ سے عام طور پر مفسرین نے ثریا کو مراد لیا ہے، لیکن اس کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اس سے زیادہ واضح قرینہ تو شعریٰ کا ہو سکتا ہے جس کا ذکر اسی سورہ میں آگے آیا ہے لیکن اس کو مراد لینے کا بھی، جیسا کہ وضاحت آئے گی، یہاں کوئی محل نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اسم جنس کے مفہوم میں ہے جس طرح
’وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوۡنَ‘ (النحل ۱۶)
(اور ستاروں سے وہ رہنمائی حاصل کرتے ہیں)
یا
’وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ‘ (الرحمٰن ۶)
(اور ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں)
اور اس نوع کی دوسری آیات میں جگہ جگہ قرآن میں آیا ہے۔
’ہَوٰی یَھْوی‘ کا صحیح مفہوم: ’ہَوٰی یَھْوی‘ کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے گرنے کے ہیں۔ یہ لفظ ستاروں کے افق سے غائب ہونے اور ڈوبنے کی تعبیر کے لیے بھی موزوں ہے اور اس آتش باری کے لیے بھی موزوں ہے جو غیب کی ٹوہ لگانے والے شیاطین پر ستاروں سے ہوتی ہے اور جس کا ذکر قرآن میں جگہ جگہ ہوا ہے۔
’وَالنَّجْمِ‘ میں ’و‘ قسم کے لیے ہے اور قسم سے متعلق ہم جگہ جگہ وضاحت کرتے آ رہے ہیں کہ قرآن میں یہ بیشتر شہادت کے لیے آئی ہے۔