طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُبِينٍ

امین احسن اصلاحی

یہ طٰسٓ ہے۔ یہ قرآن اور ایک واضح کتاب کی آیات ہیں

’طٰسٓ‘ یہ اس سورہ کا قرآنی نام ہے۔

قرآن اپنے دعوے پر خود حجت ہے: ’تِلْکَ آیَاتُ الْقُرْآنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ‘۔ لفظ ’قُرْآنٌ‘ کتاب آسمانی کے لیے معروف ہے اس کے ساتھ ’کِتَابٍ مُّبِیْنٍ‘ کی صفت اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ یہ اپنے ہر دعوے پر خود ایسی حجت ہے کہ اس کی صحت و صداقت کو جانچنے کے لیے کسی خارجی شہادت اور کسی معجزہ و نشانی کی ضرورت نہیں ہے یہ صفت یہاں اس کے ان معترضین و مخالفین کو سامنے رکھ کر لائی گئی ہے جو اس کی تصدیق کے لیے کسی نشانی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہاں ان دونوں لفظوں نے اس کی عظمت کے پہلو کو بھی واضح کر دیا ہے اور اس کی حجت کے پہلو کو بھی۔ مطلب یہ ہے کہ یہ خدا کا اتارا ہوا قرآن ہے کوئی مذاق و استہزاء کی چیز نہیں ہے اور اتمام حجت کے پہلو سے یہ خود اپنے وجود کے اندر مکمل ہے تو جو لوگ اس کو ہنسی مسخری میں ٹالنا چاہتے ہیں وہ سوچ لیں کہ ان کی اس حرکت کے نتائج کیا کچھ نکل سکتے ہیں!

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’طٰسٓ‘ ہے۔ یہ قرآن اور ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں

یعنی ایسی کتاب کی جو حقائق کو اِس طرح واضح کر دیتی ہے کہ آپ ہی اپنی حجت بن جاتی ہے۔ اُس کی صحت و صداقت کو جانچنے کے لیے کسی خارجی شہادت یا معجزے اور نشانی کی ضرورت نہیں رہتی۔ آیت میں ’تِلْکَ‘ کا مشار الیہ ’طٰسٓ‘ ہے۔ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱کے تحت بیان کر چکے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

ط۔ س۔ یہ آیات ہیں قرآن اور کتاب مبین کی،

xکتاب مبین کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اپنی تعلیمات اور اپنے احکام اور ہدایات کو بالکل واضح طریقے سے بیان کرتی ہے، دوسرا یہ کہ وہ حق اور باطل کا فرق نمایاں طریقے سے کھول دیتی ہے، اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کا کتاب الہی ہونا ظاہر ہے جو کوئی اسے آنکھیں کھول کر پڑھے گا اس پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا گھڑا ہوا کلام نہیں ہے۔

جونا گڑھی

طس، یہ آیتیں ہیں قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی۔

 نَمْل، چیو نٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورة نمل کہا جاتا ہے۔ 

هُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

امین احسن اصلاحی

یہ ہدایت و بشارت ہے ان ایمان لانے والوں کے لیے

قرآن ہدایت و بشارت ہے: یعنی اس کے مخالفین اس کی قدر کریں یا نہ کریں لیکن یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہدایت و بشارت بن کر نازل ہوئی ہے جو اس پر ایمان لائے ہیں۔ ان کو یہ زندگی کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی بھی کر رہی ہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں فوز و فلاح کی بشارت بھی دے رہی ہے۔ اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا ذکر یہاں ان اہل ایمان کی جامع صفت کی حیثیت سے ہوا ہے۔ ہم دوسرے مقام میں ذکر کر چکے ہیں کہ ان دونوں چیزوں کی حیثیت دین میں تمام نیکیوں کے شیرازے کی ہے، خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والی ہوں یا حقوق العباد سے۔ ان کا ذکر ہو گیا تو گویا سب کا ذکر ہو گیا۔

جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں وہی اس قرآن پر ایمان لائیں گے: ’وَہُم بِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ‘۔ میں حصر اور تاکید کا اسلوب یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ نماز اور زکوٰۃ کا یہ اہتمام کر رہے ہیں درحقیقت وہی لوگ آخرت پر یقین رکھنے والے ہیں اور اسی چیز نے ان کو اس کتاب پر ایمان لانے کی توفیق بخشی ہے۔ رہے وہ لوگ جن پر یہ چیزیں شاق ہیں تو وہ آخرت کے یقین سے محروم ہیں اور اس قسم کے لوگ اس کتاب پر ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔

جاوید احمد غامدی

ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت

ہدایت کے ساتھ بشارت کا ذکر یہاں خاص طور پر اِس لیے ہوا ہے کہ آگے سورہ کے مضامین اِسی کی شہادت دے رہے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

ہدایت اور بشارت ان ایمان لانے والوں کے لیے

یعنی یہ آیات ہدایت اور بشارت ہیں، " ہدایت کرنے والی " اور " بشارت دینے والی " کہنے کے بجائے انہیں بجائے خود " ہدایت " اور " بشارت " کہا گیا جس سے رہنمائی اور بشارت کے وصف میں ان کے کمال کا اظہار مقصود ہے، جیسے کسی کو آپ سخی کہنے کے بجائے مجسم سخاوت اور حسین کہنے کے بجائے ازسرتاپا حسن کہیں۔ 

جونا گڑھی

ہدایت اور خوشخبری ایمان والوں کے لئے۔

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

امین احسن اصلاحی

جو نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہی ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں

قرآن ہدایت و بشارت ہے: یعنی اس کے مخالفین اس کی قدر کریں یا نہ کریں لیکن یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہدایت و بشارت بن کر نازل ہوئی ہے جو اس پر ایمان لائے ہیں۔ ان کو یہ زندگی کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی بھی کر رہی ہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں فوز و فلاح کی بشارت بھی دے رہی ہے۔ اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا ذکر یہاں ان اہل ایمان کی جامع صفت کی حیثیت سے ہوا ہے۔ ہم دوسرے مقام میں ذکر کر چکے ہیں کہ ان دونوں چیزوں کی حیثیت دین میں تمام نیکیوں کے شیرازے کی ہے، خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والی ہوں یا حقوق العباد سے۔ ان کا ذکر ہو گیا تو گویا سب کا ذکر ہو گیا۔

جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں وہی اس قرآن پر ایمان لائیں گے: ’وَہُم بِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ‘۔ میں حصر اور تاکید کا اسلوب یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ نماز اور زکوٰۃ کا یہ اہتمام کر رہے ہیں درحقیقت وہی لوگ آخرت پر یقین رکھنے والے ہیں اور اسی چیز نے ان کو اس کتاب پر ایمان لانے کی توفیق بخشی ہے۔ رہے وہ لوگ جن پر یہ چیزیں شاق ہیں تو وہ آخرت کے یقین سے محروم ہیں اور اس قسم کے لوگ اس کتاب پر ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔

جاوید احمد غامدی

جو نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی آخرت پر فی الواقع یقین رکھتے ہیں

یہ دونوں عبادات ایمان و اسلام کا لازمی ظہور ہیں۔ اہل عرب کے لیے یہ کوئی اجنبی چیزیں نہیں تھیں۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے وہ نہ صرف یہ کہ اِن سے واقف تھے، بلکہ اُن کے صالحین اِن کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اِن کی کوئی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔

چنانچہ یہی چیز اُن کے ایمان لانے اور نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام کرنے کا باعث بن گئی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں 3، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔

یعنی قرآن مجید کی یہ آیات رہنمائی بھی صرف انہی لوگوں کی کرتی ہیں اور انجام نیک کی خوشخبری بھی صرف انہی لوگوں کو دیتی ہیں جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں، ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں، اور ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ وہ قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو قبول کرلیں، خدائے واحد کو اپنا ایک ہی الہ اور رب مان لیں، قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کرلیں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی بر حق مان کر اپنا پیشوا بنالیں، اور یہ عقیدہ بھی اختیار کرلیں کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں ہم کو اپنے اعمال کا حساب دینا اور جزائے اعمال سے دو چار ہونا ہے، دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو محض مان کر نہ رہ جائیں بلکہ عملا اتباع و اطاعت کے لیے آمادہ ہوں اور اس آمادگی کی اولین علامت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، یہ دونوں شرطیں جو لوگ پوری کردیں گے انہی کو قرآن کی آیات دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتائیں گے، اس راستہ کے ہر مرحلے میں ان کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں گے، اس کے ہر موڑ پر انہیں غلط راہوں کی طرف جانے سے بچائیں گی، اور ان کو یہ اطمینان بخشیں گی کہ راست روی کے نتائج دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوں، آخر کار ابدی اور دائمی فلاح اسی کی بدولت انہیں حاصل ہوگی اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے سرفراز ہوں گے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک معلم کی تعلیم سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس پر اعتماد کر کے واقعی اس کی شاگردی قبول کرلے اور پھر اس کی ہدایات کے مطابق کام بھی کرے، ایک ڈاکٹر سے استفادہ ہی مریض کرسکتا ہے جو اسے اپنا معالج بنائے اور دوا اور پرہیز وغیرہ کے معاملہ میں اس کی ہدایات پر عمل کرے، اسی صورت میں معلم اور ڈاکٹر یہ اطمینان دلا سکتے ہیں کہ آدمی کو نتائج مطلوبہ حاصل ہوں گے۔

بعض لوگوں نے اس آیت میں يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ اخلاق کی پاکیزگی اختیار کریں، لیکن قرآن مجید میں اقامت صلوۃ کے ساتھ ایتاء زکوٰۃ کا لفظ جہان بھی آیا ہے اس سے مراد وہ زکوٰۃ ادا کرنا ہے جو نماز کے ساتھ اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ علاوہ بریں زکوٰۃ کے لیے ایتاء کا لفظ استعمال ہوا ہے جو زکوٰۃ مال ادا کرنے کے معنی متعین کردیتا ہے، کیونکہ عربی زبان میں پاکیزگی اختیار کرنے کے لیے تزکی کا لفظ بولا جاتا ہے نہ کہ ایتاء زکوٰۃ، دراصل یہاں جو بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ کہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایمان کے ساتھ عملاً اطاعت و اتباع کا رویہ اختیار کرنا بھی ضروری ہے، اور اقامت صلوۃ و ایتاء زکوٰۃ وہ پہلی علامت ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ آدمی نے واقعی اطاعت قبول کرلی ہے، یہ علامت جہاں غائب ہوئی وہاں فورا یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آدمی سرکش ہے، حاکم کو حاکم چاہے اس نے مان لیا ہو، مگر حکم کی پیروی کے لیے وہ تیار نہیں ہے۔

سورة النمل حاشیہ نمبر :4

اگرچہ آخرت کا عقیدہ ایمانیات میں شامل ہے، اور اس بنا پر ” ایمان لانے والوں ” سے مراد ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہیں جو توحید اور رسالت کے ساتھ آخرت پر بھی ایمان لائیں، لیکن ایمانیات کے ضمن میں اس کے آپ سے آپ شامل ہونے کے باوجودیہاں اس عقیدے کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے خاص طور پر زور دے کر اسے الگ بیان کیا گیا ہے، اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ آخرت کے قائل نہ ہوں ان کے لیے اس قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا بلکہ اس پر قدم رکھنا بھی محال ہے، کیونکہ اس طرز فکر کے لوگ طبعا اپنا معیار خیر و شر صرف انہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو اس دنیا میں ظاہر ہوتے یا ہوسکتے ہیں۔ اور ان کے لیے کسی ایسی نصیحت و ہدایت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا جو انجام اخروی کو سود و زیاں اور نفع و نقصان کا معیار قرار دے کر خیر و شر کا تعین کرتی ہو، ایسے لوگ اول تو انبیاء علیہم السلام کی تعلیم پر کان ہی نہیں دھرتے، لیکن اگر کسی وجہ سے وہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل بھی ہوجائیں تو آخرت کا یقین نہ ہونے کے باعث ان کے لیے ایمان و اسلام کے راستے پر ایک قدم چلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس راہ میں پہلی ہی آزمائش جب پیش آئے گی جہاں دنیوی فائدے اور اخروی نقصان کے تقاضے انہیں دو مختلف سمتوں میں کھینچیں گے تو وہ بےتکلف دنیا کے فائدے کی طرف کھچ جائیں گے اور آخرت کے نقصان کی ذرہ برابر پروا نہ کریں گے، خواہ زبان سے وہ ایمان کے کتنے ہی دعوے کرتے رہیں۔

جونا گڑھی

جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔

  یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہونگے جو ہدایت کے طالب ہونگے، جو لوگ اپنے دل اور دماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کرلیں گے، قرآن انھیں کس طرح سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے، ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہو سکتے، درآں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔ 

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ

امین احسن اصلاحی

جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال ان کی نگاہوں میں کھبا دیے ہیں، پس وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں۔

منکرین قرآن کا سبب انکار: یہ منکرین کے اصل سبب انکار کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں بلکہ اسی دنیا کی زندگی کو کل زندگی سمجھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں ان کے اعمال اس طرح کھبا دیے گئے ہیں کہ اب ان سے ہٹ کر کچھ سوچنے سمجھنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ یہ اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جس کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہو چکی ہے کہ جو لوگ اسی دنیا کو مقصود و مطلوب بنا کر اپنی تمام ذہانت و قابلیت اسی کی طلب میں لگا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اعمال و مشاغل کو اس طرح ان پر مسلط کر دیتا ہے کہ پھر نہ وہ ان کے چھوڑنے ہی پر آمادہ ہوتے اور نہ ان سے چھوٹ ہی سکتے۔ وہ انہی کے اندر بھٹکتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن فرشتۂ اجل آ کر ان کو دبوچ لیتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِس کے برخلاف جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے، اُن کے اعمال ہم نے اُن کے لیے خوش نما بنا دیے ہیں، چنانچہ بھٹکتے پھر رہے ہیں

یعنی دنیا کو مطلوب و مقصود بنا کر جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اُسی پر مطمئن ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ اُس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جس کی وضاحت ...جگہ جگہ ہو چکی ہے کہ جو لوگ اِسی دنیا کو مقصود و مطلوب بنا کر اپنی تمام ذہانت و قابلیت اِسی کی طلب میں لگا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال و مشاغل کو اِس طرح اُن پر مسلط کر دیتا ہے کہ پھر نہ وہ اُن کے چھوڑنے ہی پر آمادہ ہوتے اور نہ اُن سے چھوٹ ہی سکتے۔ وہ اُنھی کے اندر بھٹکتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دن فرشتۂ اجل آ کر اُن کو دبوچ لیتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۵۷۷)

ابو الاعلی مودودی

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے ان کے کرتوتوں کو خوشنما بنادیا ہے، اس لیے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔

یعنی خدا کا قانون فطرت یہ ہے، نفسیات انسان کی فطری منطق یہی ہے کہ جب آدمی زندگی اور اس کی سعی و عمل کے نتائج کو صرف اسی دنیا تک محدود سمجھے گا، جب وہ کسی ایسی عدالت کا قائل نہ ہوگا جہاں انسان کے پورے کارنامہ حیات کی جانچ پڑتال کر کے اس کے حسن و قبح کا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جانے والا ہو، اور جب وہ موت کے بعد کسی ایسی زندگی کا قائل نہ ہوگا جس میں حیات دنیا کے اعمال کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق ٹھیک ٹھیک جزا و سزا دی جانے والی ہو تو لازما اس کے اندر ایک مادہ پرستانہ نقطعہ نظر نشو و نما پائے گا۔ اسے حق اور باطل، شرک اور توحید، نیکی اور بدی، اخلاق اور بد اخلاقی کی ساری بحثیں سراسر بےمعنی نظر آئیں گی، جو کچھ اسے اس دنیا میں لذت و عیش اور مادی ترقی و خوشحالی اور قوت و اقتدار سے ہمکنار کرے وہی اس کے نزدیک بھلائی ہوگی قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی فلسفہ حیات اور کوئی طرز زندگی اور نظام اخلاق ہو، اس کو حقیقت اور صداقت سے دراصل کوئی غرض ہی نہ ہوگی، اس کی اصل مظلوب صرف حیات دنیا کی زینتیں اور کامرانیاں ہوں گی جن کے حصول کی فکر اسے ہر وادی میں لیے بھٹکتی پھرے گی، اور اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی وہ کرے گا اسے اپنے نزدیک بڑی خوبی کی بات سمجھے گا اور الٹا ان لوگوں کو بیوقوف سمجھے گا جو اس کی طرح دنیا طلبی میں منہمک نہیں ہیں اور اخلاق و بد اخلاقی سے بےنیاز ہو کر ہر کام کر گزرنے میں بےباک نہیں ہیں۔

کسی کے اعمال بد کو اس کے لیے خوشنما بنا دینے کا یہ فعل قرآن مجید میں کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، اور کبھی شیطان کی طرف، جب اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس سے مراد جیسا کہ اوپر بیان ہوا، یہ ہوتی ہے کہ جو شخص یہ نقطہ نظر اختیار کرتا ہے اسے فطرۃ زندگی کا یہی ہنجار خویش آئند محسوس ہوتا ہے اور جب یہ فعل شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس طرز فکر اور طرز عمل کو اختیار کرنے والے آدمی کے سامنے شیطان ہر وقت ایک خیالی جنت پیش کرتا رہتا ہے اور اسے خوب اطمینان دلاتا ہے کہ شاباش برخوردار بہت اچھے جارہے ہو۔

جونا گڑھی

جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے انھیں ان کے کرتوت زینت دار کر دکھائے ہیں، پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں

  یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لئے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لئے بدی کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔

٤۔ ٢ یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔ 

أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَهُمْ سُوءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ

امین احسن اصلاحی

یہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے دنیا میں بھی برا عذاب ہے اور آخرت میں وہی ہیں جو بڑے خسارے میں ہوں گے

مکذبین رسول پر اس دنیا میں بھی عذاب آیا: اس آیت میں عذاب آخرت کا چونکہ مستقلاً ذکر ہے اس وجہ سے قرینہ دلیل ہے کہ ’سُوءُ الْعَذَابِ‘ کا تعلق عذاب دنیا سے ہے۔ یہاں ذکر مکذبین رسول کا ہے اور مکذبین رسول پر اس دنیا میں بھی، جیسا کہ ہم اس کے محل میں ذکر کر چکے ہیں، لازماً عذاب آتا ہے اس وجہ سے فرمایا کہ ان کے لیے دنیا میں بھی برا عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ ’وَہُمْ فِیْ الْآخِرَۃِ ہُمُ الْأَخْسَرُونَ‘ میں اسی طرح حصر اور تاکید کا اسلوب ہے جس طرح اوپر ’وَہُم بِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ‘ میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے ساری زندگی چونکہ دنیا ہی کو مطلوب و مقصود بنا کر گزاری، آخرت کا ان کو کبھی دھیان ہی نہیں آیا، یہاں تک کہ اسی دنیا کے عشق میں انھوں نے قرآن کا بھی مذاق اڑایا تو آخرت میں سب سے زیادہ خسارے میں تو یہ لوگ ہوں گے ہی!

جاوید احمد غامدی

یہ لوگ ہیں کہ اِن کے لیے (دنیا میں بھی) برا عذاب ہے اور آخرت میں بھی یہی سخت خسارے میں ہوں گے

یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کے مکذبین پر اِس دنیا میں بھی لازماً عذاب آتا ہے اور یہاں اُنھی کا ذکر ہو رہا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بری سزا ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں۔

اس بری سزا کی صورت اور وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ یہ اس دنیا میں بھی مختلف افراد گروہوں اور قوموں کو بیشمار مختلف طریقوں سے ملتی ہے، اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت عین موت کے دروازے پر بھی اس کا ایک حصہ ظالموں کو پہنچتا ہے، موت کے بعد عالم برزخ میں بھی اس سے آدمی دوچار ہوتا ہے، اور پھر روز حشر سے تو اس کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے گا جو پھر کہیں جاکر ختم نہ ہوگا۔

جونا گڑھی

یہی لوگ ہیں جن کے لئے برا عذاب ہے اور آخرت میں بھی وہ سخت نقصان یافتہ ہیں۔

وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ

امین احسن اصلاحی

اور بے شک یہ قرآن تم کو ایک حکیم و علیکم کی طرف سے تعلیم کیا جا رہا ہے

آنحضرتؐ کو تسلی: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ یہ لوگ اگر ایمان نہیں لاتے بلکہ تمہاری مخالفت کے درپے ہیں تو تم ان کی پروا نہ کرو بلکہ مطمئن رہو کہ یہ کلام تمہارے اوپر جس ذات کی طرف سے اتارا جا رہا ہے وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے تو جو کچھ اس کے علم و حکمت کا تقاضا ہو گا وہی ہو گا اور اسی میں تمہارے لیے خیر ہے۔ جب وہ حکیم و علیم تمہارے اوپر اس کلام کو نازل فرما رہا ہے تو وہ تمہیں تنہا نہیں چھوڑے گا بلکہ ہر قدم پر تمہاری رہنمائی فرمائے گا اور تمہیں منزل مقصود پر پہنچائے گا۔

جاوید احمد غامدی

(اِن کی پروا نہ کرو، اے پیغمبر)، اِس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ یہ قرآن تمھیں ایک حکیم و علیم کی طرف سے دیا جا رہا ہے

یعنی اُس ذات کی طرف سے دیا جا رہاہے جس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے اور وہ ہر چیز سے با خبر بھی رہتا ہے، اِس لیے مطمئن رہو، وہ تمھیں کبھی تنہا نہ چھوڑے گا، بلکہ ہر قدم پر تمھاری رہنمائی فرمائے گا اور تمھیں منزل مقصود پر پہنچائے گا۔

ابو الاعلی مودودی

اور ﴿اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ﴾ بلا شبہہ تم یہ قرآن ایک حکیم وعلیم ہستی کی طرف سے پا رہے ہو۔

یعنی یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں جو اس قرآن کی جارہی ہیں اور نہ یہ کسی انسان کے قیاس و رائے پر مبنی ہیں، بلکہ انہیں ایک حکیم وعلیم ذات القا کررہی ہے جو حکمت و دانائی اور علم و دانش میں کامل ہے، جسے اپنی خلق کے مصالح اور ان کے ماضی و حال اور مستقبل کا پورا علم ہے، اور جس کی حکمت بندوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے بہترین تدابیر اختیار کرتی ہے۔

جونا گڑھی

بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جا رہا ہے۔

 اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک واقعہ بیان فرمایا جاتا ہے جو دقائقِ علم و لطائف حکمت پر مشتمل ہے۔ 

إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ

امین احسن اصلاحی

یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا، میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے۔ میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا کوئی انگارا تاکہ تم تاپو

حضرت موسیٰؑ کی سرگزشت حضورؐ کے لیے سبق آموز: حضرت موسیٰؑ کی یہ سرگزشت پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے اور اس کے ہر جزو کی وضاحت بھی ہو چکی ہے۔ یہاں ہم اس کے صرف اس پہلو کو مدنظر رکھیں گے جس کا تعلق سورہ کے نظام سے ہے۔ نبوت و رسالت کے متعلق یہ بات معلوم ہے کہ یہ کوئی عام تجربے کی چیز نہیں ہے۔ اس کا تجربہ صرف انہی لوگوں کو ہوا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس کارخاص کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ اس وجہ سے جن کو یہ چیز عطا ہوئی ان کو بھی اس کے اسرار و رموز سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا اور جن کے سامنے اس کی دعوت پیش کی گئی انھوں نے بھی اس کو بالعموم ایک انوکھی اور عجیب چیز سمجھا اور اس کے خلاف طرح طرح کے شبہات و اعتراضات اٹھائے ان دونوں ہی چیزوں کا واحد علاج یہی ہو سکتا تھا کہ ان نبیوں کے حالات سنائے جائیں جو اس سلسلہ کے تمام مراحل سے گزر چکے تھے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کے مشاہدات و تجربات سے طمانیت و سکینت حاصل ہو اور آپؐ کے معترضین و مخالفین پر بھی ان کی حجت قائم ہو سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپؐ سے سب سے زیادہ مشابہ نبی و رسول سیدنا موسیٰؑ تھے جن کی زندگی کے حالات بھی تفصیل کے ساتھ تورات میں موجود تھے اور ان پر ایمان کی مدعی ایک قوم بھی موجود تھی جو بدقسمتی سے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی، جیسا کہ آگے اس سورہ میں بھی اس کی طرف اشارہ آئے گا، مخالفت کر رہی تھی۔ اس وجہ سے حضرت موسیٰؑ کے حالات و تجربات اس مرحلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی سب سے زیادہ تسکین بخش ہو سکتے تھے اور مخالفین کے لیے بھی سب سے زیادہ سبق آموز ہو سکتے تھے بشرطیکہ وہ ان سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ انہی دونوں مقصدوں سے یہ سرگزشت سنائی جا رہی ہے۔ مخاطب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں لیکن روئے سخن مخالفین کی طرف بھی ہے۔

نبوت ایک موہبت ربانی ہے: اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ نبوت و رسالت ایک خاص موہبت ربانی اور فضل یزدانی ہے۔ اس کو اکتساب یا طلب و تمنا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مصنف، شاعر، خطیب، کاہن، ساحر، منجم، جوتشی اور اس قبیل کے سارے ہی لوگ اپنے اپنے فن اور پیشہ کو سیکھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور اس کی طلب و تمنا میں ایک عمر کھپاتے ہیں تب کہیں ان کو اپنے فن میں کچھ درخور حاصل ہوتا ہے لیکن نبی و رسول کی تربیت اللہ تعالیٰ خود اپنی نگرانی میں کرتا ہے۔ نبی نہ کسی کا شاگرد ہوتا، نہ وہ کسی مدرسہ میں بیٹھتا اور نہ اس کے ذہن میں نبوت کا کوئی گمان یا ارمان ہوتا، بس اللہ تعالیٰ ہی، زندگی کے نشیب و فراز کے امتحانوں سے گزار کر، اس کو اس کارخاص کے لیے تیار کرتا ہے جو اس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کی تربیت مصر کے زندان میں ہوئی۔ حضرت داؤدؑ نے اپنی نسبت خود فرمایا ہے کہ ’’مجھے خداوند نے بھیڑ سالہ سے نکالا اور اسرائیل کے تخت پر لا بٹھایا۔‘‘ اسی طرح حضرت موسیٰؑ، جن کی سرگزشت یہاں بیان ہو رہی ہے، مدین میں حضرت شعیبؑ کی بکریاں چراتے رہے۔ وہاں سے مصر کے لیے واپس ہوتے ہوئے اندھیری اور ٹھنڈی رات میں راستہ بھول گئے۔ دور سے ایک روشنی دکھائی دی۔ انھوں نے گھر والوں سے کہا تم لوگ یہیں ٹھہرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے۔ میں وہاں جاتا ہوں، اگر کچھ لوگ وہاں ہوئے تو ان سے راستہ کا پتہ کرتا ہوں ورنہ آگ ہی کا کوئی انگارہ لاتا ہوں کہ تم لوگ اس سردی میں تاپ سکو۔

جاوید احمد غامدی

(اور اپنے اوپر خدا کی اِس عنایت کو سمجھنے کے لیے) وہ قصہ یاد کرو، جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے۔ (تم لوگ ذرا ٹھیرو)، میں وہاں سے ابھی تمھارے پاس کوئی خبر لاتاہوں یا آگ کا کوئی انگارا لے کر آتا ہوں تاکہ تم اُسے تاپ سکو

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مماثلت حضرت موسیٰ ہی کی ہے۔ چنانچہ آگے اُنھی کی سرگذشت آپ کی تسلی اور آپ کے مخاطبین کی تنبیہ کے لیے سنائی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ پیغمبری کیا ہے، یہ کیسے ملتی ہے اور اِس کے ساتھ خدا کی کیا کیا عنایتیں وابستہ ہو سکتی ہیں۔

یہ اُس وقت کا قصہ ہے ، جب موسیٰ علیہ السلام مدین میں آٹھ دس سال گزارنے کے بعد اپنی بیوی کو لے کر واپس مصر جا رہے تھے۔ اپنے اِس سفر میں جب وہ مدین سے چل کر جزیرہ نماے سینا کے اُس مقام پر پہنچے جو اب کوہ سینا اور جبل موسیٰ کہلاتا ہے تو اِسی پہاڑ کے دامن میں یہ واقعہ پیش آیا۔ نزول قرآن کے زمانے میں یہ پہاڑ طور کے نام سے مشہور تھا۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سردی کا زمانہ تھا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جب موسیٰ علیہ السلام وادی طور کے پاس پہنچے تو رات ہو چکی تھی اور اُنھیں راستے کا کچھ اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ چنانچہ روشنی دیکھ کر اُنھیں خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے وہاں کچھ لوگ ہوں جن سے رہنمائی مل جائے، ورنہ آگ ہی کا کوئی انگارا لے آؤں جس سے کچھ گرمی حاصل کی جا سکے۔

ابو الاعلی مودودی

﴿انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ﴾ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ” مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چن لاتا ہوں تاکہ تم لوگ گرم 9 ہو سکو۔ ”

یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین میں آٹھ دس سال گزارنے کے عبد اپنے اہل و عیال کو ساتھ لیکر کوئی ٹھکانا تلاش کرنے جارہے تھے، مدین کا علاقہ خلیج عقبہ کے کنارے عرب اور جزیرہ نمائے سینا کے سواحل پر واقع تھا (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعرء، حاشیہ 115) وہاں سے چل کر حضرت موسیٰ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی حصے میں اس مقام پر پہنچے جو اب کوہ سینا اور جبل موسیٰ کہلاتا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں طور کے نام سے مشہور تھا، اسی کے دامن میں وہ واقعہ پیش آیا جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے۔

یہاں جو قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کی تفصیلات اس سے پہلے سورة طہ (رکوع 1) میں گزر چکی ہیں اور آگے سورة قصص (رکوع 4) میں آرہی ہیں۔

سورة النمل حاشیہ نمبر :9

فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا موسم تھا، اور حضرت موسیٰ ایک اجنبی علاقے سے گزر رہے تھے جس سے انہیں کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی، اس لیے انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ میں جاکر معلوم کرتا ہوں یہ کون سی بستی ہے جہاں آگ جل رہی ہے، آگے کدھر راستے جاتے ہیں اور کون کون سی بستیاں قریب ہیں۔ تاہم اگر وہ بھی ہماری ہی طرح کوئی چلتے پھرتے مسافر ہوئے جن سے کوئی معلومات حاصل نہ ہوسکیں تو کم از کم میں کچھ انگارے ہی لے آؤں گا کہ تم لوگ آگ جلا کر چکھ گرمی حاصل کرسکو۔

یہ مقام جہاں حضرت موسیٰ نے جھاڑی میں آگ لگی ہوئی دیکھی تھی کوہ طور کے دامن میں سطح سمندر سے تقریبا 5 ہزار فیٹ کی بلندی پر واقع ہے، یہاں رومی سلطنت کے پہلے عیسائی بادشاہ قسطنطین نے 365 کے لگ بھگ زمانے میں ٹھیک اس مقام پر ایک کنیسہ تعمیر کرادیا تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس کے دو سو برس بعد قیصر جسٹینین نے یہاں ایک دیر (Monastery) تعمیر کرایا جس کے اندر قسطنطین کے بنائے ہوئے کنیسہ کو بھی شامل کرلیا، یہ دیر اور کنیسہ دونوں آج تک موجود ہیں اور یونانی کلیسا (Greek Orthodox Church) کے راہبوں کا ان پر قبضہ ہے، میں نے جنوری 1960 ء میں اس مقام کی زیارت کی ہے، مقابل کے صفحہ پر اس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں۔

جونا گڑھی

(یاد ہوگا) جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لے کر یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر ابھی تمہارے پاس آجاؤں گا تاکہ تم سینک تاپ کرلو

 یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آرہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی۔ 

فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

امین احسن اصلاحی

تو جب وہ اس کے پاس آیا تو اس کو آواز آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ارد گرد ہیں! اور پاک ہے اللہ، عالم کا خداوند

رب العالمین کی ندا حضرت موسیٰؑ کو: حضرت موسیٰؑ تو آگ لینے گئے لیکن وہاں یہ آواز سنائی دی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور وہ جو اس کے ارد گرد ہیں۔ مجہول کا صیغہ ابہام اور تفخیم کو ظاہر کر رہا ہے یعنی حضرت موسیٰؑ کو ایک ہاتف کی آواز سنائی دی لیکن وہ یہ متعین نہ کر سکے کہ یہ کس کی آواز ہے اور کہاں سے آئی ہے ’أَنۡ بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا‘ یہ اسی آواز کی تفصیل ہے کہ یہ آگ نہیں ہے بلکہ اس روشنی کے پردے میں اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات اپنے بابرکت کروبیوں کے جلو میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ اپنی اور اپنے کروبیوں دونوں کی مبارکی کا حوالہ اس موقع پر صرف بیان حقیقت کے لیے نہیں بلکہ حضرت موسیٰؑ کو مانوس کرنے کے لیے بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مرحلہ حضرت موسیٰؑ کے لیے نہایت اہم تھا۔ دامن کوہ اور اندھیری رات میں، بالکل خلاف توقع، اس آواز کو سن کر حضرت موسیٰؑ پر نہیں معلوم کیا گزری ہو گی اور نہ معلوم کیا گزرتی اگر اس کا پہلا ہی کلمہ برکت کی بشارت کا نہ ہوتا۔ اس مبارک کلمہ نے حضرت موسیٰؑ کی بڑی ڈھارس بندھائی ہو گی کہ جو آواز ان کو سنائی دی ہے اس کے پیچھے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ منبع خیر و برکت سے ایک بابرکت آواز آئی ہے۔

’وَسُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘ تنزیہہ کا کلمہ ہے اور یہ اسی مضمون کی تاکید مزید ہے جو اوپر والے ٹکڑے میں بیان ہوا ہے۔ یعنی اللہ، عالم کا رب، ہر عیب سے پاک اور منزہ ہے اور یہ اسی کی تجلی ہے جو تمہیں نظر آئی ہے تو اس پر بھروسہ رکھو۔ وہ تمہارے ساتھ وہی کرے گا جو اس کی رحمت و ربوبیت کے شایان شان ہے۔ اس سے کسی گزند کا اندیشہ نہیں ہے۔ اور وہ تمام عالم کا رب ہے اس وجہ سے اس کے اختیار میں سب کچھ ہے۔

جاوید احمد غامدی

سو جب وہ اُس کے پاس پہنچا تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو اِس آگ میں (جلوہ فرما) ہے اور وہ بھی جو اِس کے ارد گرد ہیں۔ اور پاک ہے اللہ، جہانوں کا پروردگار

اصل میں مجہول کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ یہ ابہام اور تفخیم کو ظاہر کر رہا ہے۔ یعنی اُنھیں آواز تو سنائی دی، لیکن یہ متعین نہیں ہو سکا کہ آواز کس کی ہے اور کہاں سے آئی ہے۔

یعنی خدا کے فرشتے۔ اِس میں ’مبارک‘کے لفظ سے بیان حقیقت کے ساتھ حضرت موسیٰ کی تسلی بھی مقصود ہے کہ وہ اِس طرح کی آواز سن کر گھبرائیں نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات کی آواز ہے جو اپنے بابرکت کروبیوں کے ساتھ اِس آگ کے پردے میں جلوہ گر ہوئی ہے۔
آگ کے اندر سے آنے والی آواز چونکہ تحدید و حلول کا تاثر پیدا کر سکتی تھی، لہٰذا تنزیہہ کے لیے فرمایا ہے کہ متنبہ رہو، تمام محدودتیوں اور تمام عیوب و نقائص سے پاک ہوتے ہوئے، یہ اُسی کی تجلی ہے جو تمھیں نظر آئی ہے اور وہ تمام عالم کا پروردگار ہے، اِس لیے جس وقت اور جس طریقے سے چاہے، اپنے بندوں سے مخاطب ہو سکتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہاں جو پہنچا تو ندا آئی کہ ” مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے۔ پاک ہے اللہ، سب جہان والوں کا پروردگار۔

سورة قصص میں ہے کہ ندا ایک درخت سے آرہی تھی فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ ، اس سے جو صورت معاملہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وادی کے کنارے سے ایک خطے میں آگ سی لگی ہوئی تھی مگر نہ کچھ جل رپا تجا نہ کوئی دھواں اٹھ رہا تھا اور اس آگ کے اندر ایک ہرا بھرا درخت کھڑا تھا جس پر سے یکایک یہ ندا آنی شروع ہوئی۔

یہ ایک عجیب معاملہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ پیش آتا رہا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب پہلی مرتبہ نبوت سے سرفراز کیے گئے تو غار حرا کی تنہائی میں یکایک ایک فرشتہ آیا اور اس نے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کردیا، حضرت موسیٰ کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی کہ ایک شخص سفر کرتا ہوا ایک جگہ ٹھہرا ہے، دور سے آگ دیکھ کر راستہ پوچھنے یا انگارا چننے کی غرض سے آتا ہے اور یکلخت اللہ رب العالمین کی ہر قیاس و گمان سے بالا ذات اس سے مخاطب ہوجاتی ہے۔ ان مواقع پر درحقیقت ایک ایسی غیر معمولی کیفیت خارج میں بھی اور انبیاء علیہم السلام کے نفس میں بھی موجود ہوتی ہے جس کی بنا پر انہیں اس امر کا یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ کسی جن یا شیطان یا خود ان کے اپنے ذہن کا کوئی کرشمہ نہیں ہے، انہ ان کے حواش کوئی دھوکا کھا رہے ہیں، بلکہ فی الواقع یہ خداوند عالم یا اس کا فرشتہ ہی ہے جو ان سے ہمکلام ہے، (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النجم، حاشیہ 10)

اس موقع پر ” سبحان اللہ ” ارشاد ارشاد فرمانے سے دراصل حضرت موسیٰ کو اس بات پر متنبہ کرنا مقصود تھا کہ یہ معاملہ کمال درجہ تنزیہ کے ساتھ پیش آرہا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ رب العالمین اس درخت پر بیٹھا ہو، یا اس میں حلول کر آیا ہو، یا اس کا نور مطلق تمہاری بینائی کے حدود میں سما گیا ہو، یا کوئی زبان کسی منہ میں حرکت کر کے یہاں کلام کر رہی ہو، بلکہ ان تمام محدود دیتوں سے پاک اور منزہ ہوتے ہوئے وہ بذات خود تم سے مخاطب ہے۔

جونا گڑھی

جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔

 دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ سر سبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فَی النَّار میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَھَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب (پردے) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے، کہ ' اگر اپنی ذات کو بےنقاب کر دے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے ' (صحیح مسلم) 

يَا مُوسَىٰ إِنَّهُ أَنَا اللَّـهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

امین احسن اصلاحی

اے موسیٰ، یہ تو میں ہوں، خدائے عزیز و حکیم

صفات عزیز و حکیم کا تعارف: اوپر کی بات تو ہاتف غیب کی آواز تھی جو حضرت موسیٰؑ کو سنائی دی۔ اب یہ خود حضرت موسیٰؑ کو خطاب کر کے رب العزت نے اپنا تعارف کرایا کہ میں ہی خدائے عزیز و حکیم ہوں۔ ان صفات سے تعارف کرانے کی وجہ ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہو سکتی کہ حضرت موسیٰؑ ان سے ناواقف تھے۔ حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے اور ایک مدت تک حضرت شعیبؑ کی صحبت و معیت میں رہے تھے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے ناواقف نہیں ہو سکتے تھے۔ مقصود ان کی تذکیر سے اس مہم کے لیے ان کے قلب کو مضبوط کرنا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمانا چاہا۔ پچھلی سورہ میں ’اَلْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ‘ کی صفات بار بار آئی ہیں اور ان کے مضمرات ہم واضح کر چکے ہیں۔ یہاں ’عَزِیْز‘ کے ساتھ ’حَکِیْمٌ‘ کی صفت آئی ہے۔ جس سے مقصود اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ جس ذات نے تم کو اس وقت خطاب و کلام سے مشرف فرمایا ہے۔ وہ ہر چیز پر غالب و مقتدر ہے۔ کوئی اس کے کسی ارادے میں مزاحم نہیں ہو سکتا اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے اس کا ہر ارادہ حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اور اسلوب کلام چونکہ حصر در حصر کا ہے۔ اس وجہ سے اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ میرے مقابل میں کسی اور کے زور و اقتدار یا میری حکمت و مصلحت کے مقابل میں کسی اور کی حکمت و مصلحت کے تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ غور کیجیے کہ ان صفات کی معرفت اس مہم کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لیے کتنی ضروری تھی جس پر حضرت موسیٰؑ مامور کیے جا رہے تھے اور جس کا ذکر آگے کی آیات میں آ رہا ہے۔ خدا کی انہی صفات کی معرفت نے حضرت موسیٰؑ کے اندر وہ عزیمت پیدا کی کہ وہ بنی اسرائیل جیسی نکمی قوم کے ساتھ فرعون جیسے جبار کے مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قدم پر فیروزمندی عطا فرمائی۔

جاوید احمد غامدی

اے موسیٰ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور حکیم

n/a

ابو الاعلی مودودی

اے موسیٰ (علیہ السلام) ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور دانا۔

n/a

جونا گڑھی

موسٰی ! سن بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں غالب با حکمت۔

 درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسٰی ! تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔ 

وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ

امین احسن اصلاحی

اور تم اپنا عصا ڈال دو۔ تو جب اس نے اس کو اس طرح حرکت کرتے دیکھا گویا سانپ ہو تو وہ پیچھے کو مڑا اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ ڈرو نہیں، میرے حضور پیغمبروں کے لیے کوئی اندیشہ نہیں ہوتا

انبیاؑء کے معاملہ میں ایک خاص قابل توجہ پہلو: نبوت کے ابتدائی مشاہدات نبی کے لیے نامانوس ہوتے ہیں: اوپر کی آیات میں حضرت موسیٰؑ کو پیش نظر مہم کے لیے ذہنی و قلبی طور پر تیار کرنے والی تعلیمات ہیں۔ اس کے بعد ان کو وہ عظیم ظاہری نشانیاں دی گئیں جن سے فرعون کے مقابلہ کے لیے ان کا مسلح ہونا ضروری تھا۔ ان میں سب سے اہم نشانی عصا کی تھی جس سے بعد کی تمام نشانیوں کا ظہور ہوا۔ اس نشانی کی وضاحت دوسرے مقامات میں ہو چکی ہے اور یہ بات بھی ہم واضح کر چکے ہیں کہ بالکل پہلے ہی مرحلے میں حضرت موسیٰؑ کو یہ نشانیاں کیوں دی گئیں۔ یہاں صرف ایک بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق، عصا کو زمین پر ڈال دیا اور وہ سانپ کے مانند رینگنے لگا تو حضرت موسیٰؑ ایسا ڈر کے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اس واقعہ کا یہ پہلو ہمارے نزدیک اس حقیقت کے اظہار کے لیے یہاں خاص طور پر ظاہر کیا گیا ہے کہ نبوت کے ابتدائی مرحلہ کے مشاہدات نبی کے لیے بالکل نامانوس، نہایت انوکھے اور عجیب ہوتے ہیں اس وجہ سے وہ شروع شروع میں ان سے گھبراتا ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس کو ان سے مانوس کر دیتا ہے۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ حضرات انبیاء علیہم کو یہ چیز طلب اور ارمان پر نہیں ملی ہے بلکہ بالکل خلاف توقع اس کا ظہور ہوا ہے اور بڑے اندیشوں، بری فکروں اور بہت ہی احتیاط کے ساتھ انھوں نے ایک فریضۂ الٰہی کی حیثیت سے اس کی ذمہ داری اٹھائی ہے جب کہ ان کو پوری طرح یہ شرح صدر حاصل ہو گیا ہے کہ جو مشاہدے ان کو ہو رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہیں اور وہ ایک خاص فریضہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نبوت میں جو مشاہدے ہوئے اور ان کے سبب سے آپؐ پر شروع شروع میں جو کیفیت طاری رہی اس کے بعض اہم پہلوؤں کی طرف آخری گروپ کی سورتوں میں اشارات ہیں۔ ان شاء اللہ ان کے محل میں ہم ان کی وضاحت کریں گے۔

حضرت موسیٰؑ کی تسکین: حضرت موسیٰؑ کے لیے پہلی نشانی: ’یَا مُوسَی لَا تَخَفْ إِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوۡنَ‘۔ جب حضرت موسیٰؑ اپنے عصا کو سانپ کی صورت دیکھ کر بھاگے اور پیچھے مڑ کے بھی دیکھنے کی انھیں جرأت نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت دل نواز انداز میں تسلی دی کہ موسیٰؑ ! تم نہ ڈرو، اس سے تم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے جو خطرہ پیش آئے وہ تمہارے دشمنوں کو پیش آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کے رسولوں کے لیے کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ وہ بالکل مامون و محفوظ ہوتے ہیں۔ البتہ جن لوگوں کی طرف وہ بھیجے جاتے ہیں ان لوگوں کے لیے خطرہ ہے اگر وہ رسولوں پر ایمان نہیں لاتے۔ مطلب یہ ہے کہ تم خدا کے رسول ہو اور یہ عصا تمہارے لیے ایک تلوار ہے تو تم اس سے کیوں ڈرو، اس سے ڈریں تمہارے دشمن!

جاوید احمد غامدی

(اِس لیے مضبوط ہو جاؤ) اور اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو۔ پھر جب موسیٰ نے اُس کو دیکھا کہ وہ اِس طرح بل کھا رہی ہے ، گویا وہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔ (ارشاد ہوا): اے موسیٰ، ڈرو نہیں، میرے حضور پیغمبر ڈرا نہیں کرتے

آیت میں عزیز و حکیم کی صفات کا حوالہ اِسی مقصد سے آیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہاں ’عَزِیْز‘ کے ساتھ ’حَکِیْم‘ کی صفت آئی ہے جس سے مقصود اِس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ جس ذات نے تم کو اِس وقت خطاب و کلام سے مشرف فرمایا ہے، وہ ہر چیز پر غالب و مقتدر ہے، کوئی اُس کے کسی ارادے میں مزاحم نہیں ہو سکتا اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے، اُس کا ہر ارادہ حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ اور اسلوب کلام چونکہ حصر در حصر کا ہے، اِس وجہ سے اِس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ میرے مقابل میں کسی اور کے زور و اقتدار یا میری حکمت و مصلحت کے مقابل میں کسی اور کی حکمت و مصلحت کے تصور کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۵۸۱)

یہ تسلی کا نہایت دل نواز اسلوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم نبوت کے منصب پر فائز کیے جا رہے ہو اور اِس منصب کے حاملین میری حفاظت میں ہوتے ہیں۔ اُنھیں اِس طرح کی چیزیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکتیں، اِس لیے بے خوف اور مطمئن ہو جاؤ۔

ابو الاعلی مودودی

اور پھینک تو ذرا اپنی لاٹھی۔ ” جونہی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ” اے موسیٰ (علیہ السلام) ، ڈرو نہیں۔ میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے،

سورة اعراف اور سورة شعراء میں اس کے لیے ثعبان (اژدھے) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہاں اسے ” جان ” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جو چھوٹے سانپ کے لے بولا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جسامت میں وہ اژدہا تھا، مگر اس کی حرکت کی تیزی ایک چھوٹے سانپ جیسی تھی، اسی مفہوم کو سورة طہ میں حیۃ تسعی (دوڑتے ہوئے سانپ) کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔

یعنی میرے حضور اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ رسول کو کوئی گزند پہنچے رسالت کے منصب عظیم پر مقرر کرنے کے لیے جب میں کسی کو اپنی پیشی میں بلاتا ہوں تو اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں، اس لیے خواہ کیسا ہی کوئی غیر معمولی معاملہ پیش آئے رسول کو بےخوف اور مطمئن رہنا چاہیے کہ اس کے لیے وہ کسی طرح ضرر رساں نہ ہوگا۔

جونا گڑھی

تو اپنی لاٹھی ڈال دے، موسیٰ نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا، اے موسٰی ! خوف نہ کھا میرے حضور میں پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔

  اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لا حق ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔ 

Page 1 of 10 pages  1 2 3 >  Last ›