جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے۔
پچھلی سورہ میں قریش کے ائمۂ کفر سے اظہار براء ت ہے۔ یہ سورہ سراسر بشارت ہے اور اُس کی توام سورہ کے طور پر اُس کے ساتھ ہی رکھ دی گئی ہے تاکہ وہ رشتہ پوری طرح واضح ہو جائے جو رسولوں کی دعوت میں ہجرت و براء ت اور فتح و نصرت کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ بشارت جس شان کے ساتھ واقعہ بنی، اُس کی تفصیلات تاریخ کے صفحات میں ثبت ہیں۔ یہ کسی انسان کے الفاظ نہیں تھے کہ ابدی حسرتوں کے ساتھ فضا میں تحلیل ہو جاتے۔ یہ خدا کے الفاظ تھے جو اُس کے پیغمبر کی زبان پر جاری ہوئے۔ جب یہ کہے گئے، اُس وقت اِن سے زیادہ ناممکن الوقوع اور ناقابل یقین کوئی چیز نہیں تھی، لیکن تھوڑے ہی دنوں میں تاریخ بن گئے،ایک ایسی تاریخ جس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ سے پیش نہیں کی جا سکتی۔
یہ وہی مدد اور فتح ہے جس کا اللہ نے اپنے پیغمبر سے وعدہ کیا تھا اور مسلمان دعوت حق کے سخت سے سخت مراحل میں بھی جس کے منتظر اور متوقع رہے تھے۔ سورۂ صف (۶۱) کی آیت ۱۳ میں قرآن نے اِسی کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا، نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ‘ (اور وہ دوسری چیز بھی جو تم چاہتے ہو، یعنی اللہ کی مدد اور فتح جو عنقریب حاصل ہو جائے گی)۔ اِس سے، ظاہرہے کہ فتح مکہ کے سوا کوئی اور فتح مراد نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جس مدد کا یہاں ذکر ہوا ہے، وہ بھی اُس کے لیے حاصل ہونے والی مدد ہے جس کا آخری ظہور اُس وقت ہوا، جب دس ہزار قدوسیوں کے سامنے اہل مکہ نے بغیر کسی مزاحمت کے سر تسلیم خم کر دیا۔ سنت الٰہی کے مطابق یہ فتح و نصرت خدا کے رسولوں کو اتمام حجت اور اپنی قوم سے ہجرت و براء ت کے بعد لازماً حاصل ہو جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہی فتح و نصرت تھی جس کی طرف مخاطبین کے ذہن اُس کا نام لیے بغیر منتقل ہو سکتے تھے۔ قرآن نے اِسی بنا پر اِس اجمال کے ساتھ اور محض ایک الف لام سے اُس کا ذکر کر دیا ہے۔
جب اللہ کی مدد آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے۔
فتح سے مراد کسی ایک معرکے میں فتح نہیں، بلکہ وہ فیصلہ کن فتح ہے جس کے بعد ملک میں کوئی طاقت اسلام سے ٹکر لینے کے قابل باقی نہ رہے اور یہ امر واضح ہوجائے کہ اب عرب میں اسی دین کو غالب ہو کر رہنا ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد فتح مکہ لی ہے۔ لیکن فتح مکہ 8 ھ میں ہوئی ہے اور اس سورة کا نزول 10 ھ کے آخر میں ہوا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت سراء بنت بنہان کی ان روایات سے معلوم ہوتا ہے جو ہم نے دیباچے میں نقل کی ہیں۔ علاوہ بریں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول بھی اس تفسیر کے خلاف پڑتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی سب سے آخری سورة ہے۔ کیونکہ اگر فتح سے مراد فتح مکہ ہو تو پوری سورة توبہ اس کے بعد نازل ہوئی تھی، پھر یہ سورة آخری سورة کیسے ہوسکتی ہے۔ بلا شبہ فتح مکہ اس لحاظ سے فیصلہ کن تھی کہ اس نے مشرکین عرب کی ہمتیں پست کردی تھیں، مگر اس کے بعد بھی ان میں کافی دم خم باقی تھا۔ طائف اور حنین کے معرکے اس کے بعد ہی پیش آئے اور عرب پر اسلام کا غلبہ مکمل ہونے میں تقریبا دو سال صرف ہوئے۔
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔
n/a
اور لوگوں کو دیکھو کہ وہ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔
اس عظیم بشارت کا سب سے نمایاں پہلو: یہ اس عظیم بشارت کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قوم سے جو جھگڑا تھا وہ دنیا کی کسی غرض کے لیے نہیں تھا، صرف اللہ کے دین کے لیے تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ قریش کے لیڈر اس امانت کا حق ادا کریں جو بیت اللہ کی صورت میں ان کی تحویل میں ہے۔ اگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ان کو اس پر قابض رہنے اور اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین سے بجبر و ظلم روکنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس مذہبی جبرکو (جس کو قرآن نے فتنہ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے) ختم کرنے کے لیے آپ نے قریش کو مکہ سے بے دخل کیا اور چونکہ دین کی راہ میں جو رکاوٹ تھی وہ صرف لیڈروں کے جبر و استبداد ہی کے سبب سے تھی، عوام کے دلوں میں اس کے خلاف کوئی بدگمانی نہیں تھی اس وجہ سے اس استبداد کے بند ٹوٹتے ہی لوگ رکے ہوئے سیلاب کی طرح قبول اسلام کے لیے ٹوٹ پڑے۔ فتح مکہ سے پہلے جو لوگ قبول اسلام کے لیے حضور کی خدمت میں آتے وہ ڈرتے ڈرتے آتے۔ اس وقت تک اسلام قبول کرنا تو درکنار اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہمدردی کا کوئی کلمہ کہنا بھی عام لوگوں کے لیے ایک خطرہ مول لینے کے حکم میں تھا۔ اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اس دور میں انصار کے بعض وفود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے آئے تو قریش کے لیڈروں نے ان کو ڈرایا کہ آپ لوگ ان سے بیعت کر رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ یہ بیعت اسود و احمر سے جنگ کے ہم معنی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے استبداد کی موجودگی میں وہی لوگ اسلام لانے کا حوصلہ کر سکتے تھے جو پہاڑوں سے لڑ جانے کا حوصلہ رکھتے ہوں لیکن جب یہ استبداد پاش پاش ہو گیا تو پھر کوئی مزاحمت باقی نہیں رہ گئی۔ لوگ ہر طرف سے اس طرح مدینہ کی طرف بڑھے گویا اس چشمۂ حیواں پر پہنچنے کے لیے پیاس سے تڑپ رہے تھے۔
یہی فتح ہے جس نے ملک کے حالات میں وہ تبدیلی پیدا کی کہ لوگ اپنے دین کے انتخاب کے معاملے میں بالکل آزاد ہو گئے اور سرزمین عرب سے اس فتنہ کا بالکلیہ خاتمہ ہو گیا جس کے بل پر قریش کے لیڈر لوگوں کے دین و ایمان کے مالک بنے بیٹھے تھے۔ اس بشارت کے پردے میں گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتا دیا گیا کہ اب جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگ قریش کے ظلم و استبداد سے بالکل آزاد ہو کر اللہ کے دین کی طرف دوڑیں گے اور کسی کی مجال نہ ہو گی کہ ان کی راہ میں کوئی مزاحمت پیدا کر سکے۔ یہ چیز اس بات کی نہایت محکم دلیل ہے کہ اس سے مراد فتح مکہ ہی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور فتح نہیں ہے جس سے یہ اثرات نمایاں ہوئے ہوں۔ جن لوگوں نے اس سے کوئی اور فتح مراد لی ہے انھوں نے اس سورہ کے مضمرات اور فتح مکہ کے اثرات دونوں کا اندازہ کرنے میں غلطی کی۔
اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔
یہ اُس بشارت کا سب سے نمایاں پہلو ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی قوم کو ایمان وا سلام کی نعمت سے نوازے گا۔وہ عاد و ثمود کی طرح مٹا نہیں دیے جائیں گے، بلکہ اللہ کی عنایت سے ایمان کی توفیق پائیں گے اور استبداد کے بند ٹوٹتے ہی رکے ہوئے سیلاب کی طرح آپ کی دعوت پر لبیک کہنے کے لیے ٹوٹ پڑیں گے۔ یہ اِس بات کی تائید مزید ہے کہ جس فتح کا ذکر ہوا ہے، اُس سے مراد فتح مکہ ہی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہی فتح ہے جس نے ملک کے حالات میں وہ تبدیلی پیدا کی کہ لوگ اپنے دین کے انتخاب کے معاملے میں بالکل آزاد ہو گئے اور سرزمین عرب سے اُس فتنے کا بالکلیہ خاتمہ ہو گیا جس کے بل پر قریش کے لیڈر لوگوں کے دین وایمان کے مالک بنے بیٹھے تھے۔ اِس بشارت کے پردے میں گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتا دیا گیا کہ اب جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگ قریش کے ظلم و استبداد سے بالکل آزاد ہو کر اللہ کے دین کی طرف دوڑیں گے اور کسی کی مجال نہ ہو گی کہ اُن کی راہ میں کوئی مزاحمت پیدا کر سکے۔ یہ چیز اِس بات کی نہایت محکم دلیل ہے کہ اِس سے مراد فتح مکہ ہی ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور فتح نہیں ہے جس سے یہ اثرات نمایاں ہوئے ہوں۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۶۲۲)
اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔
یعنی وہ زمانہ رخصت ہوجائے جب ایک ایک دو دو کر کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے اور وہ وقت آجائے جب پورے پورے قبیلے، اور بڑے بڑے علاقوں کے باشندے کسی جنگ اور کسی مزاحمت کے بغیر از خود مسلمان ہونے لگیں۔ یہ کیفیت 9 ھ کے آغاز سے رونما ہونی شروع ہوئی جس کی وجہ سے اس سال کو سال وفود کہا جاتا ہے۔ عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور اسلام قبول کر کے آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ 10 ھ میں جب حضور حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے اس وقت پورا عرب اسلام کے زیر نگیں ہوچکا تھا اور ملک میں کوئی مشرک باقی نہ رہا تھا۔
اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے
اللہ کی مدد کا مطلب، اسلام اور مسلمانوں کا کفر اور کافروں پر غلبہ ہے، اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مولد و مسکن تھا، لیکن کافروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام کو وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ چنانچہ جب ٨ ہجری میں یہ مکہ فتح ہوگیا تو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے، جب کہ اس سے قبل ایک ایک دو دو فرد مسلمان ہوتے تھے فتح مکہ سو لوگوں پر یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور دین اسلام دین حق ہے، جس کے بغیر اب نجات اخروی ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب ایسا ہو تو۔
تو اپنے خداوند کی تسبیح پڑھو اس کی حمد کے ساتھ، اور اس سے مغفرت مانگو۔ بے شک وہ بڑا ہی معاف کرنے والا ہے۔
اس آیت کے دو خاص پہلو: یہ آیت اپنے اندر یوں تو کئی پہلو رکھتی ہے لیکن دو پہلو خاص اہمیت والے ہیں۔
اول یہ اس فرض کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو اس فتح و نصرت کے حاصل ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت پر عائد ہوا۔ یعنی یہ کہ اس پر اترانے اور فخر کرنے کے بجائے لوگ اپنے رب کی حمد و تسبیح کریں، اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگیں اور یہ توقع رکھیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی مہربان و کریم ہے۔ اس کے جو بندے اپنی کوتاہیوں کی معافی کے لیے اس سے رجوع کرتے ہیں وہ ان کی طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے۔ سورۂ کوثر میں جس طرح فرمایا ہے:
’اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘ (الکوثر ۱۰۸: ۱-۲)
(ہم نے تم کو بخشا کوثر تو اپنے خداوند ہی کی نماز پڑھو اور اسی کے لیے قربانی کرو)
اسی طرح یہاں یہ آیت اس ذمہ داری کے بیان کے لیے بھی آئی ہے جو اس فتح و نصرت کا لازمی نقاضا ہے اور اس چیز کی بھی یہ تعلیم دے رہی ہے جو اس کے بقاء کی ضامن ہے۔ بندوں کو جو نعمت بھی حاصل ہوتی ہے اس کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی لازماً وابستہ ہوتی ہیں۔ جب تک بندے ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں وہ نعمت ان کو حاصل رہتی ہے، جب وہ ان کو بھلا بیٹھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کچھ مہلت دینے کے بعد وہ ان سے یا تو چھین لیتا ہے یا وہ اس کے سبب سے نہایت سخت آزمائشوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
دوسرا پہلو اس کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بشارت کا ہے کہ اس فتح کے بعد آپ کے لیے اس عظیم فریضہ سے باعزت طور پر سبک دوش ہونے کا وقت آ جائے گا جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا جو بوجھ ڈالا گیا اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں آپ نے اپنی ساری طاقت جس طرح نچوڑی اور جس طرح اپنے آپ کو اس میں مصروف رکھا اس کی تفصیلات پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہیں۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے نہایت محبت آمیز انداز میں عتاب فرمایا کہ:
’مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیۡکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰی‘ (طٰہٰ ۲۰: ۲)
(ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہیں اتارا ہے کہ تم اس کی خاطر اپنی زندگی اجیرن بنا لو)
اس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سب سے بڑی بشارت کوئی ہو سکتی تھی تو یہی ہو سکتی تھی کہ وہ دن آئے کہ آپ اس بارعظیم سے سبک دوش ہوں اور باعزت طریقے سے سبک دوش ہوں۔ چنانچہ اس سورہ نے آپ کو یہ بشارت دے دی اور فحوائے کلام سے یہ بات بھی نکلی کہ آپ اپنی ذمہ داری سے عزت و سرخروئی کے ساتھ فارغ ہوں گے۔ اس لیے کہ آیت میں آپ کو استغفار کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے توّاب ہونے کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ لفظ ’تَوَّابٌ‘ جب اللہ تعالیٰ کے لیے آتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرنے والا ہے۔
حضرات انبیاء علیہم السلام سے صادر ہونے والی لغزشوں کی نوعیت: یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کی جو ہدایت فرمائی گئی ہے اس کا تعلق اسی طرح کی باتوں سے ہے جن کی وضاحت ہم برابر کرتے آ رہے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے اتباع ھوا کے قسم کے گناہ تو صادر نہیں ہوتے لیکن بعض اوقات کوئی نیک محرک ان کو کسی نیکی میں حد مطلوب سے متجاوز کر دیتا ہے جس کی ایک مثال سورۂ طٰہٰ کی اس آیت میں بھی موجود ہے جس کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں آپ کو جس بات سے ٹوکا گیا ہے وہ اتباع ھوا کے قسم کی کوئی چیز نہیں بلکہ دین میں مفرط انہماک اور ان سرکشوں کے پیچھے اپنے کو کھپانے پر ٹوکا گیا ہے جو اس نازبرداری کے اہل نہیں تھے۔
یہ بشارت اس سے زیادہ واضح لفظوں میں سورۂ فتح میں گزر چکی ہے اور ہم ہر پہلو سے اس کی وضاحت بھی کر چکے ہیں۔ آیت کا حوالہ ہم یہاں دیے دیتے ہیں جن کو تفصیل مطلوب ہو وہ تدبر قرآن میں اس کی تفسیر پڑھ لیں۔۱
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا.(الفتح ۴۸: ۱-۲)
’’ہم نے تمہیں ایک کھلی ہوئی فتح عطا فرمائی تاکہ اللہ تمہاری اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف فرمائے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے اور تمہیں ایک سیدھی راہ کی ہدایت بخشے۔‘‘
’فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ‘ کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے کہ جب تسبیح اور حمد کے الفاظ ساتھ ساتھ آئیں تو تسبیح کے اندر تنزیہہ کا پہلو غالب ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو ان باتوں سے پاک قرار دینا جو اس کی شان الوہیت کے منافی ہیں اور حمد کے اندر ان صفات کا اثبات ہوتا ہے جن سے وہ فی الحقیقت موصوف ہے۔ ان دونوں کے صحیح امتزاج ہی سے حقیقی توحید وجود میں آتی ہے جو ایمان کی بنیاد ہے۔
_____
۱ ملاحظہ ہو تدبر قرآن۔ جلد ششم۔ صفحات: ۴۳۶-۴۴۰۔
تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو اور اُس سے معافی چاہو۔ بے شک، وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔
یعنی توحید کے صحیح تصور کے ساتھ اُس کو یاد کرو، اِس لیے کہ حقیقی توحید تنزیہہ اور اثبات، دونوں کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ وہ اُن باتوں سے پاک ہے جو اُس کی شان الوہیت کے منافی ہیں اور یہ بھی کہ وہ اُن تمام اوصاف سے متصف ہے جو اُس کے شایان شان ہیں۔
یہ وہی ہدایت ہے جو اِس سے پہلے سورۂ الم نشرح میں بیان ہوئی ہے، یعنی ’فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ، وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ‘۔* مطلب یہ ہے کہ جب یہ چیزیں ظہور میں آجائیں تویہ اِس بات کی علامت ہو گی کہ آپ کا مشن پورا ہو گیاہے اور اللہ تعالیٰ نے جو عظیم ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی، آپ نہایت با عزت طریقے سے اُس سے سبک دوش ہوگئے ہیں،اِس لیے اب اپنے پروردگار سے ملاقات کی تیاری کیجیے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اپنے مشن سے فراغت کے بعد پورے انہماک کے ساتھ اللہ کی عبادت میں لگ جاؤ، ہر لحظہ اُس کی پاکی بیان کرو، اُس کی صفات کو مستحضر رکھو اور دعوت کے کام میں اگر کہیں حد مطلوب سے تجاوز ہوا ہے تو اپنے پروردگار سے معافی چاہو۔ اپنے بندوں پر وہ بڑا مہربان اور اُن کی لغزشوں سے درگذر فرمانے والا ہے۔
_____
* ۹۴: ۷۔۸۔’’اِس لیے جب فارغ ہو جاؤ تو (عبادت کے لیے) کمر باندھ لو اور اپنے رب سے لو لگائے رکھو۔‘‘
تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔
حمد سے مراد اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اس کا شکر ادا کرنا بھی۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالیٰ کو ہر لحاظ سے پاک اور منزہ قرار دینا ہے۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے رب کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے، بلکہ اس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو، اس پر اس کا شکر ادا کرو، اور قلب و زبان سے اس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور منزہ قرار دو کہ اس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اس پر منحصر تھا۔ اس کے برعکس تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی اللہ کی تائید و نصرت پر منحصر تھی، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا۔ اس کے علاوہ تسبیح، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے۔ جب کوئی محیر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اس سے صادر ہوسکتا۔
یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اس نے تمہارے سپرد کی تھی اس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو، اس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں، اس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے رب کا جو حق تھا وہ میں نے پورا کا پورا ادا کردیا ہے، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کرسکا، اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے۔ یہ ادب جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھایا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا، تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اس غرے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اس پر تھا وہ اس نے ادا کردیا ہے۔ اللہ کا حق اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اسے ادا کرسکے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مسلمان کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمت دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں، بلکہ اپنی جان راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہیں کہ ” حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا “۔ اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو، اسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخر و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمد و تسبیح اور توبہ و استغفار کریں۔
تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے
یعنی یہ سمجھ لے کہ تبلیغ رسالت اور احقاق حق کا فرض، جو تیرے ذمہ تھا، پورا ہوگیا اور اب تیرا دنیا سے کوچ کرنے کا مرحلہ قریب آ گیا ہے، اس لئے حمد و تسبیح الٰہی اور استفغار کا خوب اہتمام کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کے آخری ایام میں ان چیزوں کا اہتمام کثرت سے کرنا چاہئے۔
امین احسن اصلاحی
جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے۔
اللہ تعالیٰ کی خاص مدد: یہاں اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح کا جس اہتمام خاص کے ساتھ ذکر ہوا ہے اور اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حمد و تسبیح کی جو ہدایت فرمائی گئی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے عام مدد اور عام فتح مراد نہیں ہے بلکہ وہ مدد اور فتح مراد ہے جو سنت الٰہی کے مطابق اللہ کے رسولوں کو ان کے مخالفوں کے مقابل میں اس وقت حاصل ہوئی ہے جب رسولوں نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں اپنی ساری طاقت نچوڑ دی اور قوم رسول کی تکذیب اور اس کی دشمنی پر اس طرح اڑ گئی ہے کہ یہ توقع کرنے کی گنجائش باقی ہی نہیں رہ گئی ہے کہ اس کے رویے میں کوئی تبدیلی واقع ہو سکے گی۔
اس مدد کے ظہور کا وقت: سورۂ یوسف میں اس نصرت الٰہی کے ظہور کے لیے یہ ضابطہ بیان ہوا ہے کہ جب اللہ کے رسول اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہو گئے ہیں اور قوم نے اپنے رویہ سے ثابت کر دیا ہے کہ العیاذ باللہ وہ رسول کے انذار کو بالکل جھوٹ اور لاف زنی خیال کرتی ہے تب اللہ کی یہ مدد ظہور میں آئی۔
حَتّٰٓی اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآءَ ھُمْ نَصْرُنَا.(یوسف ۱۲: ۱۱۰)
(یہاں تک کہ جب رسول قوم کے ایمان سے مایوس ہو گئے ہیں اور قوم کے لوگوں نے گمان کر لیا ہے کہ ان کو جھوٹ موٹ عذاب سے ڈرایا گیا ہے تب ہماری مدد رسولوں کے پاس آ گئی۔)
یہی بات دوسرے الفاظ میں یوں ارشاد ہوئی ہے:
فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰٓی اَتٰھُمْ نَصْرُنَا.(الانعام ۶: ۳۳)
(پس وہ (رسول) ثابت قدم رہے قوم کی طرف سے تکذیب اور ایذا رسانیوں کے باوجود یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ گئی۔)
موعود و منتظر فتح: اسی طرح ’اَلْفَتْحُ‘ پر الف لام اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اس سے مراد موعود و منتظر فتح ہے جو اللہ کے رسولوں اور ان کے ساتھیوں کے لیے سنت الٰہی کا تقاضا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا اور جس کے وہ اپنی زندگی کے سخت سے سخت مرحلے میں بھی منتظر و متوقع رہے ہیں۔ اسی فتح کی طرف سورۂ صف کی اس آیت میں اشارہ ہے جس کا حوالہ ہم اوپر دے چکے ہیں:
’وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ‘ (الصف ۶۱: ۱۳)
(اور ایک دوسری فیروزمندی بھی ہے جس کو تم عزیز رکھتے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور جلدی ظاہر ہونے والی فتح)
قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں بھی اس کا ذکر اسی اجمال کے ساتھ ہوا ہے جس طرح یہاں ہوا ہے لیکن یہ چیز پہلے سے ذہنوں میں موجود تھی اس وجہ سے، اجمال کے باوجود، اس کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی تردد پیش نہیں آیا۔ مثلاً فرمایا ہے:
’لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ‘ (الحدید ۵۷: ۱۰)
(تم میں سے وہ لوگ جو فتح سے پہلے انفاق اور جہاد کریں گے اور جو بعد میں کریں گے دونوں درجے میں یکساں نہیں ہوں گے)۔
یہاں دیکھ لیجیے اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ کون سی فتح مراد ہے لیکن ہر شخص سمجھتا ہے کہ اس سے فتح مکہ مراد ہے اس لیے کہ وہی فتح تھی جو جدوجہد کرنے والوں کے اعمال کی قدر و قیمت کے گھٹانے اور بڑھانے کے معاملے میں ایک میزان کا کام دے سکتی تھی۔ اس سے پہلے متعدد غزوات میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو چکی تھی اور اس کے بعد بھی فتوحات حاصل ہوئیں لیکن نہ ان میں سے کسی کا یہ درجہ تھا کہ نام لیے بغیر اس کی طرف ذہن منتقل ہو سکیں اور نہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر ان کا یہ اثر پڑا کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کی نیکیوں کی قدر و قیمت میں ان کے سبب سے وہ تفاوت واقع ہوا ہو جو اس فتح کے سبب سے واقع ہوا۔ اس فتح کے بعد عرب میں کفر نے اسلام کے آگے اس طرح گھٹنے ٹیک دیے کہ اس کے لیے پھر سر اٹھانے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اس سے بعثت محمدی کا اصل مقصد گویا پورا ہو گیا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتح کے بعد خانۂ کعبہ کے دروازے پر جو خطبہ دیا اس میں آپ نے فرمایا کہ:
لا الٰہ الَّا اللّٰہ وحدہٗ. صدق وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ.
(اللہ واحد کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس نے یکہ و تنہا دشمنوں کی تمام جماعتوں کو شکست دی۔)
اس خطبہ کے بعد ہی آپ نے قریش کے ان سرغنوں کی طرف توجہ فرمائی جو اس سے پہلے تو پرے جما جما کر آپ سے لڑتے رہے تھے لیکن اس وقت محکمومانہ حاضر اور تقدیر کے فیصلہ کے منتظر تھے۔ آپ نے ان کو مخاطب کر کے سوال کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں! سب نے بیک زبان جواب دیا کہ آپ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں! آپ نے ان کا یہ جواب سن کر فرمایا کہ جاؤ، میں نے تم سب کی جان بخشی کی!
فتح و نصرت تائید الٰہی سے حاصل ہوتی ہے: یہاں نصرت اور فتح دونوں کا ذکر جس طرح ساتھ ساتھ ہوا ہے اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ کسی کو کوئی فتح اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اس وجہ سے کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی فتح پر اترائے اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہو کہ یہ اس کی اپنی تدبیر جنگ ہے اور مہارت و بسالت کا کرشمہ ہے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر و حکمت کا کرشمہ سمجھنا چاہیے۔ چنانچہ اوپر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کا جو حوالہ دیا ہے اس سے بھی یہ بات نکلتی ہے کہ آپ نے دشمنوں کی تمام پارٹیوں کی ہزیمت کو تنہا اپنے رب ہی کی قدرت کا کرشمہ قرار دیا، اس کا کریڈٹ نہ خود لینے کی کوشش کی نہ اس میں کسی اور کو حصہ دار بنایا۔ اس سورہ میں آپ کی حمد و تسبیح کی جو ہدایت فرمائی گئی ہے اس سے بھی یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس فضل و انعام پر شکر کا اصل حق دار اللہ تعالیٰ ہی ہے اس وجہ سے زیادہ سے زیادہ اس کی حمد و تسبیح ہونی چاہیے۔