وَٱلنَّـٰزِعَـٰتِ غَرْقًا

امین احسن اصلاحی

شاہد ہیں جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے والی ہوائیں

نَازِعَاتٌ‘ سے کیا مراد ہے؟

’نَازِعَاتٌ‘ اور ’نَاشِطَاتٌ‘ کی تاویل میں یوں تو متعدد اقوال منقول ہیں لیکن غالب رائے یہ ہے کہ ان سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کفار کی جانیں سختی سے اور اہل ایمان کی جانیں نہایت نرمی سے نکالتے ہیں۔ اگرچہ اس قول کو شہرت حاصل ہے لیکن اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس باب میں جو روایات ہیں وہ بالکل تفسیری نوعیت کی ہیں۔ جن کا یہ درجہ نہیں ہے کہ ان کی بنیاد پر کوئی بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکے۔ قرآن میں بھی کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے اس قول کے حق میں کوئی تائید نکلتی ہو۔ اہل کفر اور اہل ایمان کی جانوں کے نکالنے کا معاملہ تمام تر ایک روحانی و باطنی کیفیت سے تعلق رکھنے والا معاملہ ہے، وہ کوئی ایسی عام مشاہدے میں آنے والی چیز نہیں ہے کہ اس کو کسی دعوے پر بطور حجت پیش کیا جا سکے درآنحالیکہ یہ قسمیں یہاں بطور شہادت کھائی گئی ہیں۔ مفسرین کے نزدیک چونکہ ضروری ہے کہ قسم کسی مبارک و مقدس چیز کی ہو اس وجہ سے انھیں ان الفاظ سے فرشتوں کو مراد لینے کا تکلف کرنا پڑا لیکن ہم برابر واضح کرتے آ رہے ہیں کہ قرآن میں قسمیں بالعموم کسی دعوے پر بطور شہادت آئی ہیں۔ ان کے اندر نمایاں پہلو دعوے پر دلیل کا ہوتا ہے۔ اس سے کچھ بحث نہیں کہ جس کی قسم کھائی گئی ہے وہ کوئی مقدس چیز ہے یا غیر مقدس۔ 

ہمارے نزدیک ’نازعات‘ سے مراد وہ تند ہوائیں ہیں جو درختوں، مکانوں اور گڑی ہوئی چیزوں کو اپنے زور سے اکھاڑ پھینکتی ہیں۔ اس طرح کی ہواؤں کی صفت کے طور پر ’ذاریات‘، ’مرسلات‘ اور ’عاصفات‘ وغیرہ الفاظ بھی قرآن میں استعمال ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ ’ذَرْوًا‘، ’عُرْفًا‘ اور ’عَصْفًا‘ کے الفاظ بطور تاکید آئے ہیں۔ اسی طرح یہاں لفظ ’نازعات‘ ان تند ہواؤں کے لیے استعمال ہوا ہے جو درختوں اور مکانوں کو اکھاڑ پھینکتی ہیں۔ اس کے ساتھ لفظ ’غَرْقًا‘ معنی کی شدت کے اظہار کے لیے بطور تاکید ہے۔
قوم عاد پر اللہ تعالیٰ نے بادتند کا جو عذاب مسلط فرمایا اس کی تصویر سورۂ قمر میں یوں کھینچی گئی ہے:
إِنَّآ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِى يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّۢ تَنزِعُ ٱلنَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ (القمر ۵۴: ۱۹-۲۰)
’’ہم نے ان پر ایک طویل نحوست کے زمانے میں باد صرصر مسلط کر دی جو لوگوں کو اس طرح اکھاڑ پھینکتی گویا وہ کھوکھلی کھجوروں کے تنے ہوں۔‘‘

یہاں فعل ’تَنْزِعُ‘ استعمال ہوا ہے اسی سے اس سورہ میں ’نازعات‘ بطور صفت استعمال ہوا ہے۔

جاوید احمد غامدی

ہوائیں گواہی دیتی ہیں جڑ سے اکھاڑنے والی

اصل میں لفظ ’نٰزِعٰت‘ آیاہے۔ سورۂ قمر (۵۴) کی آیت۲۰میں فرمایا ہے: ’تَنْزِعُ النَّاسَ کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ‘ ۔یہ اِسی فعل ’تَنْزِعُ‘ سے اسم صفت ہے۔ ’غَرْقًا‘ کا نصب مصدر کی وجہ سے ہے، اِس لیے کہ معنی کے لحاظ سے یہ اور ’نزعًا‘ کم و بیش مترادف ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے ان ﴿فرشتوں﴾ کی جو ڈوب کر کھینچتے ہیں،

n/a

جونا گڑھی

ڈوب کر سختی سے کھنچنے والوں کی قسم

نَزْع کے معنی سختی سے کھنچنا، غَرْقًا ڈوب کر، یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے فرشتے کافروں کی جان، نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور جسم کے اندر ڈوب کر۔

وَٱلنَّـٰشِطَـٰتِ نَشْطًا

امین احسن اصلاحی

اور شاہد ہیں آہستہ چلنے والی ہوائیں

’نَاشِطَاتٌ‘ سے مراد: ’نَاشِطَاتٌ‘ ’نشط‘ کے مادہ سے ہے جس کے معنی کسی کام کو نرمی سے کرنے کے بھی آتے ہیں اور کسی رسی کی گرہ یا کسی جانور کے بندھن کو چرنے چگنے کے لیے چھوڑ دینے کے معنی میں بھی۔ یہاں قرینہ بتا رہا ہے کہ یہ نرم رو اس آہستہ خرام ہواؤں کے لیے آیا ہے جس طرح سورۂ ذاریات میں ’فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔

یہ امر واضح رہے کہ تند اور نرم رو ہواؤں کے عمل کی ظاہری نوعیت اگرچہ الگ تھلگ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے عجائبات تصرف کی شانیں دونوں کے اندر نمایاں ہیں۔ سورۂ ذاریات میں سیاق کلام اور ہے اس وجہ سے ہوا کی نرم روی کا ذکر بارش کے مقدمہ کے طور پر آیا ہے۔ یہاں اس کا ذکر مستقلاً ہوا ہے اس وجہ سے یہ رحمت اور نقمت دونوں کو محتمل ہے۔ رحمت کے لیے اس کا محتمل ہونا تو بالکل واضح ہے کہ ہوا کی مروجہ جنبانی ہی زندگی اور راحت و نشاط کا ذریعہ ہے لیکن اس کا رحمت یا نقمت بننا کلیۃً اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ چاہتا ہے تو بعض اوقات اس کی نرم رَوی کو بھی عذاب بنا دیتا ہے۔ چنانچہ آگے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی سرگزشت بیان ہوئی ہے جس سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تند پوربی ہوا کے تصرف سے نجات دی اور اسی ہوا کے سکون کو فرعون اور اس کی فوجوں کی تباہی کا ذریعہ بنا دیا۔

جاوید احمد غامدی

اور وہ بھی جو بہت نرمی سے چلتی ہیں

اصل میں ’نٰشِطٰت‘ ہے۔ یہ ’نشط‘ سے ہے جس کے معنی کسی کام کو نرمی کے ساتھ کرنے کے بھی آتے ہیں۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ یہ نرم رو اور آہستہ خرام ہواؤں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورۂ ذاریات (۵۱) کی آیت ۳میں اِسی مضمون کے لیے ’فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔استاذ امام لکھتے ہیں:

’’یہ امر واضح رہے کہ تند اور نرم رو ہواؤں کے عمل کی ظاہری نوعیت اگرچہ الگ تھلگ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے عجائبات تصرف کی شانیں دونوں کے اندر نمایاں ہیں۔ سورۂ ذاریات میں سیاق کلام اور ہے، اِس وجہ سے ہوا کی نرم روی کا ذکر بارش کے مقدمے کے طور پر آیا ہے۔ یہاں اِس کا ذکر مستقلاً ہوا ہے، اِس وجہ سے یہ رحمت اور نقمت، دونوں کومحتمل ہے۔ رحمت کے لیے اِس کامحتمل ہوناتو بالکل واضح ہے کہ ہوا کی مروحہ جنبانی ہی زندگی اور راحت و نشاط کا ذریعہ ہے، لیکن اِس کا رحمت یا نقمت بننا کلیتاً اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ چاہتا ہے تو بعض اوقات اِس کی نرم روی کو بھی عذاب بنا دیتا ہے۔ چنانچہ آگے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی سرگذشت بیان ہوئی ہے جس سے اِس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تند پوربی ہوا کے تصرف سے نجات دی اور اِسی ہوا کے سکون کو فرعون اور اُس کی فوجوں کی تباہی کا ذریعہ بنادیا۔‘‘(تدبرقرآن۹/ ۱۷۶)

ابو الاعلی مودودی

اور آہستگی سے نکال لے جاتے ہیں،

n/a

جونا گڑھی

بند کھول کر چھڑا دینے والوں کی قسم

 نَشْط کے معنی گرہ کھول دینا، یعنی مومنوں کی جان فرشتے بہ سہولت سے نکالتے ہیں جیسے کسی چیز کی گرہ کھول دی جائے۔ 

وَٱلسَّـٰبِحَـٰتِ سَبْحًا

امین احسن اصلاحی

اور شاہد ہیں فضاؤں میں تیرنے والے بادل

’سٰبِحٰتٌ‘ ’سَبْحٌ‘ سے ہے جس کے معنی تیرنے کے بھی آتے ہیں۔ قرینہ اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں یہ بادلوں کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ اول تو ہواؤں اور بادلوں کا تعلق ہے ہی کچھ لازم و ملزوم سی چیز لیکن ایک واضح قرینہ یہاں یہ ہے کہ اس کے بعد اس کی دو صفتیں جو مذکور ہوئی ہیں وہ ’ف‘ کے ساتھ مذکور ہوئی ہیں جو عربیت کے قاعدے سے اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ صفتیں ’سٰبِحٰتٌ‘ ہی کی ہیں اور ان میں باہم دگر ترتیب بھی ہے۔ اس قاعدے کی وضاحت پچھلی سورتوں میں ہو چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور (فضاؤں میں) تیرتے دوڑتے

اصل میں لفظ ’سٰبِحٰت‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’سبح‘ سے ہے جس کے معنی تیرنے کے بھی آتے ہیں۔ ہواؤں کے ساتھ اِس کا ذکراشارہ کر رہا ہے کہ یہ بادلوں کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ اِس کی جو دو صفتیں اِس کے بعد مذکور ہوئی ہیں، وہ’ف‘ کے ساتھ آئی ہیں۔ یہ واضح قرینہ ہے کہ یہ دونوں صفتیں اِسی کی ہیں اور اِن میں باہم دگر ترتیب بھی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور ﴿ ان فرشتوں کی جو کائنات میں﴾ تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں،

n/a

جونا گڑھی

اور تیرنے پھرنے والوں کی قسم

 سَبْح کے معنی تیرنا، فرشتے روح نکالنے کے لئے انسان کے بدن میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جیسے سمندر سے موتی نکالنے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں تیرتے ہیں یا مطلب ہے کہ نہایت تیزی سے اللہ کا حکم لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔ 

فَٱلسَّـٰبِقَـٰتِ سَبْقًا

امین احسن اصلاحی

پھر ایک دوسرے پر سبقت کرنے والے

یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ’فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا ۵ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا‘ کے الفاظ میں بادنیٰ تغیر الفاظ وہی بات فرمائی گئی ہے جو سورۂ ذاریات میں ’فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا ۵ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا‘ کے الفاظ میں اور سورۂ مرسلات میں ’فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا ۵ فَالْمُلْقِیَاتِ ذِکْرًا‘ کے لفظوں میں فرمائی گئی ہے۔ مذکورہ سورتوں کی تفسیر میں یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ یہ بادلوں سے لدی ہوئی ان ہواؤں کی صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس سرزمین کی طرف چلتی ہیں جس کے لیے حکم ہوتا ہے اور پھر وہاں وہ امر الٰہی کی تقسیم کرتی ہیں یعنی جن کے لیے حکم ہوتا ہے اس کی تعمیل کرتی ہیں۔ کسی علاقے پر وہ رحمت بن کر برستی ہیں اور کسی کے لیے عذاب بن جاتی ہیں۔ کسی جگہ جل تھل کر دیتی ہیں اور کسی جگہ خشک یا تشنہ چھوڑ جاتی ہیں۔ گویا جو بات سورۂ ذاریات میں ’فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا‘ کے الفاظ سے فرمائی گئی ہے وہی بات یہاں ’فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا‘ کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے۔

اس سے پہلے ’فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا‘ کے الفاظ بادلوں کی اس بھاگ دوڑ کی تصویر پیش کر رہے ہیں جو فضا میں اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب ان کے مختلف دستے ایک دوسرے پر سبقت کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سب اپنے غیبی حاکم کے حکم کی تعمیل میں سرگرم تگاپو ہیں اور ہر ایک اس بات کا آرزومند ہے کہ امتثال امر میں اول نمبر اسی کا رہے۔
مقسم علیہ محذوف ہے: ان قسموں کا مقسم علیہ یہاں لفظوں میں مذکور نہیں ہے بلکہ محذوف ہے۔ مقسم علیہ کے محذوف ہونے کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ سورۂ صٓ، سورۂ قٓ اور سورۂ قیامہ سب میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ مقسم علیہ حذف کر دیا گیا ہے۔ جہاں ذکر کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو وہاں حذف ہی اولیٰ ہوتا ہے۔ یہاں چونکہ قیامت کی ہلچل کا ذکر آگے تفصیل سے موجود ہے، جو مقسم علیہ کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، اس وجہ سے اس کے ذکر کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ اس محذوف کو کھولنا چاہیں تو سورۂ مرسلات کی روشنی میں ’إِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَوَاقِعٌ‘ کے الفاظ یہاں محذوف مان سکتے ہیں۔ گویا تند اور نرم ہواؤں اور بادلوں کے عجائب تصرفات کو شہادت میں پیش کر کے قریش کے متمردین کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ تمہیں جس عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے اس کو بعید از امکان نہ سمجھو۔ اللہ تعالیٰ جب اس کو لانا چاہے گا تو اس کے لیے کوئی خاص اہتمام اس کو نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کی ہواؤں اور اس کے بادلوں کے تصرفات کی جو تاریخ موجود ہے اور جو تمہیں سنائی بھی جا چکی ہے اگر اسی سے سبق حاصل کرو تو وہی تمہارے لیے کافی ہے۔ تم سے کہیں زیادہ طاقت ور قومیں اس زمین پر بسی ہیں جن کو خدا نے اپنی ہواؤں ہی کے ذریعہ سے خس و خاشاک کی طرح اڑا دیا۔

جاوید احمد غامدی

پھر اِس دوڑ میں ایک دوسرے سے بڑھتے

n/a

ابو الاعلی مودودی

پھر ﴿حکم بجا لانے میں ﴾ سبقت کرتے ہیں،

n/a

جونا گڑھی

پھر دوڑ کر آگے بڑھنے والوں کی قسم

 یہ فرشتے اللہ کی وحی، انبیاء تک، دوڑ کر پہنچاتے ہیں تاکہ شیطان کو اس کی کوئی خبر نہ لگے۔ یا مومنوں کی روحیں جنت کی طرف لے جانے میں نہایت سرعت سے کام لیتے ہیں۔ 

فَٱلْمُدَبِّرَٰتِ أَمْرًا

امین احسن اصلاحی

اور خدا کے حکم نازل کرنے والے (کہ جس چیز سے تمہیں ڈرایا جا رہا ہے وہ شدنی ہے)۔

یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ’فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا ۵ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا‘ کے الفاظ میں بادنیٰ تغیر الفاظ وہی بات فرمائی گئی ہے جو سورۂ ذاریات میں ’فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا ۵ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا‘ کے الفاظ میں اور سورۂ مرسلات میں ’فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا ۵ فَالْمُلْقِیَاتِ ذِکْرًا‘ کے لفظوں میں فرمائی گئی ہے۔ مذکورہ سورتوں کی تفسیر میں یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ یہ بادلوں سے لدی ہوئی ان ہواؤں کی صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس سرزمین کی طرف چلتی ہیں جس کے لیے حکم ہوتا ہے اور پھر وہاں وہ امر الٰہی کی تقسیم کرتی ہیں یعنی جن کے لیے حکم ہوتا ہے اس کی تعمیل کرتی ہیں۔ کسی علاقے پر وہ رحمت بن کر برستی ہیں اور کسی کے لیے عذاب بن جاتی ہیں۔ کسی جگہ جل تھل کر دیتی ہیں اور کسی جگہ خشک یا تشنہ چھوڑ جاتی ہیں۔ گویا جو بات سورۂ ذاریات میں ’فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا‘ کے الفاظ سے فرمائی گئی ہے وہی بات یہاں ’فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا‘ کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے۔

اس سے پہلے ’فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا‘ کے الفاظ بادلوں کی اس بھاگ دوڑ کی تصویر پیش کر رہے ہیں جو فضا میں اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب ان کے مختلف دستے ایک دوسرے پر سبقت کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سب اپنے غیبی حاکم کے حکم کی تعمیل میں سرگرم تگاپو ہیں اور ہر ایک اس بات کا آرزومند ہے کہ امتثال امر میں اول نمبر اسی کا رہے۔
مقسم علیہ محذوف ہے: ان قسموں کا مقسم علیہ یہاں لفظوں میں مذکور نہیں ہے بلکہ محذوف ہے۔ مقسم علیہ کے محذوف ہونے کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ سورۂ صٓ، سورۂ قٓ اور سورۂ قیامہ سب میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ مقسم علیہ حذف کر دیا گیا ہے۔ جہاں ذکر کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو وہاں حذف ہی اولیٰ ہوتا ہے۔ یہاں چونکہ قیامت کی ہلچل کا ذکر آگے تفصیل سے موجود ہے، جو مقسم علیہ کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، اس وجہ سے اس کے ذکر کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ اس محذوف کو کھولنا چاہیں تو سورۂ مرسلات کی روشنی میں ’إِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَوَاقِعٌ‘ کے الفاظ یہاں محذوف مان سکتے ہیں۔ گویا تند اور نرم ہواؤں اور بادلوں کے عجائب تصرفات کو شہادت میں پیش کر کے قریش کے متمردین کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ تمہیں جس عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے اس کو بعید از امکان نہ سمجھو۔ اللہ تعالیٰ جب اس کو لانا چاہے گا تو اس کے لیے کوئی خاص اہتمام اس کو نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کی ہواؤں اور اس کے بادلوں کے تصرفات کی جو تاریخ موجود ہے اور جو تمہیں سنائی بھی جا چکی ہے اگر اسی سے سبق حاصل کرو تو وہی تمہارے لیے کافی ہے۔ تم سے کہیں زیادہ طاقت ور قومیں اس زمین پر بسی ہیں جن کو خدا نے اپنی ہواؤں ہی کے ذریعہ سے خس و خاشاک کی طرح اڑا دیا۔

جاوید احمد غامدی

پھر حکم کی تدبیر کرتے ہوئے بادل گواہی دیتے ہیں (کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے، وہ ہو کر رہے گی)

یہ وہی بات ہے جو سورۂ ذاریات (۵۱) کی آیات ۳۔۴ میں ’فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا، فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا‘ کے الفاظ میں اور سورۂ مرسلات (۷۷) کی آیات ۴۔۵ میں ’فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا، فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا‘ کے لفظوں میں فرمائی ہے۔ ’فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا‘ کے معنی بالکل وہی ہیں جو ’فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا‘ کے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِس سے پہلے ’فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا‘ کے الفاظ بادلوں کی اُس بھاگ دوڑ کی تصویرپیش کر رہے ہیں جو فضا میں اُس وقت نمایاں ہوتی ہے، جب اُن کے مختلف دستے ایک دوسرے پر سبقت کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سب اپنے غیبی حاکم کے حکم کی تعمیل میں سرگرم تگاپو ہیں اور ہر ایک اِس بات کا آرزومند ہے کہ امتثال امر میں اول نمبر اُسی کا رہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۱۷۷)

یعنی تاریخ میں اپنی اُن سرگذشتوں سے گواہی دیتے ہیں، جب یہ قوموں کے لیے کبھی عذاب اور کبھی رحمت بن کر برستے رہے۔
ہواؤں اور بادلوں کی گواہی یہاں قسم کے اسلوب میں بیان ہوئی ہے۔ یہ اِن قسموں کا مقسم علیہ ہے جو اصل میں بربناے وضاحت قرینہ حذف ہو گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پھر ﴿احکام الہی کے مطابق﴾ معاملات کا انتظام چلاتے ہیں ۔

یہاں پانچ اوصاف رکھنے والی ہستیوں کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ لیکن بعد کا مضمون اس امر پر خود دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کی قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان ضرور از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ اس کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کن ہستیوں کے ہیں، لیکن صحابہ اور تابعین کی بڑی تعداد نے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، مسروق، سعید بن حبیر، ابو صالح، ابوالضحیٰ اور سدی (رضی اللہ عنہم) کہتے ہیں کہ ڈوب کر کھینچنے والوں اور آہستگی سے نکال لے جانے والے سے مراد وہ فرشتے ہیں جو موت کے وقت انسان کی جان کو اس کے جسم کی گہرائیوں تک اتر کر اور اس کی رگ رگ سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔ تیزی سے تیرتے پھرنے والوں سے مراد بھی حضرت علی، حضرت ابن مسعود، مجاہد، سعید بن حبیر اور ابوصالح (رضی اللہ عنہم) نے فرشتے ہی لیے ہیں جو احکام الہی کی تعمیل میں اس طرح تیزی سے رواں دواں رہتے ہیں جیسے کہ وہ فضا میں تیر رہے ہوں۔ یہی مفہوم ” سبقت کرنے والوں ” کا حضرت علی، مجاہد، ابوصالح، اور حسن بصری (رضی اللہ عنہم) نے لیا ہے اور سبقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حکم الہی کا اشارہ پاتے ہی ان میں سے ہر ایک اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ ” معاملات کا انتظام چلانے والوں ” سے مراد بھی فرشتے ہیں، جیسا کہ حضرت علی، مجاہد، عطاء، ابو صالح، حسن بصری، قتادہ، ربیع بن انس، اور سدی (رضی اللہ عنہم) سے منقول ہے۔ بالفاظ دیگر یہ سلطنت کائنات کے وہ کارکن ہیں جن کے ہاتھوں دنیا کا سارا انتظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے۔ ان آیات کے یہ معنی اگرچہ کسی صحیح حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول نہیں ہوئے ہیں، لیکن چند اکابر صحابہ نے، ان تابعین نے جو صحابہ کے شاگرد تھے، جب ان کا یہ مطلب بیان کیا ہے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ علم حضور ہی سے حاصل کیا گیا ہوگا۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقوع قیامت اور حیات بعد الموت پر ان فرشتوں کی قسم کس بنا پر کھائی گئی ہے جبکہ یہ خود بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور شہادت اور بطور استدلال پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے، واللہ اعلم، کہ اہل عرب فرشتوں کی ہستی کے منکر نہ تھے۔ وہ خود اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں کی حرکت انتہائی تیز ہے، زمین سے آسمان تک آناً فاناً وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں اور ہر کام جس کا انہیں حکم دیا جائے بلا تاخیر انجام دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی مانتے تھے کہ یہ فرشتے حکم الہی کے تابع ہیں اور کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے چلاتے ہیں خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ جہالت کی بنا پر وہ ان کو اللہ کی بیٹیاں ضرور کہتے تھے اور ان کو معبود بھی بنائے ہوئے تھے، لیکن ان کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ اصل اختیارات انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے یہاں وقوع قیامت اور حیات بعد الموت پر ان کے مذکورہ بالا اوصاف سے استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جس خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان ڈال بھی سکتے ہیں۔ اور جس خدا کے حکم سے وہ کائنات کا انتظام چلا رہے ہیں اسی کے حکم سے جب بھی اس کا حکم ہو، اس کائنات کو وہ درہم برہم بھی کرسکتے ہیں، اور ایک دوسری دنیا بنا بھی سکتے ہیں۔ اس کے حکم کی تعمیل میں ان کی طرف سے ذرہ برابر بھی سستی یا لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں ہو سکتی۔

جونا گڑھی

پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم

 یعنی اللہ تعالیٰ جو کام سپرد کرتا ہے، وہ اس کی تدبیر کرتے ہیں اصل مدبر تو اللہ ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرشتوں کے ذریعے سے کام کرواتا ہے تو انہیں بھی مدبر کہا جاتا ہے۔ 

يَوْمَ تَرْجُفُ ٱلرَّاجِفَةُ

امین احسن اصلاحی

اس دن سے ڈرو جس دن کپکپی پڑے گی

یہ مقسم علیہ نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے گمان کیا ہے، بلکہ اس دن کی یاددہانی ہے جس دن اس عذاب سے سابقہ پیش آئے گا جس سے ان کو ڈرایا جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا ہے۔ ایک اس عذاب سے جس سے قیامت کے دن دوچار ہونا پڑے گا۔ دوسرے اس عذاب سے جس سے اسی دنیا میں قوم کو سابقہ پیش آتا ہے اگر وہ اپنے رسول کی تکذیب کر دیتی ہے۔

قیامت کے دن کی یاددہانی: پہلے آیات ۶-۱۴ میں عذاب قیامت کی تصویر ہے اس کے بعد آیات ۱۶-۱۷ میں اس عذاب کی تاریخی شہادت پیش کی گئی ہے جو تکذیب رسول کے نتیجہ میں اس دنیا میں پیش آتا ہے۔ عذاب قیامت کا ذکر یہاں اس لیے مقدم کر دیا ہے کہ اصل عذاب وہی ہے جس سے ہر ایک کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ وہ دائمی اور ابدی ہے۔ اس کے ہوتے دنیا کا عذاب نہ بھی ہو جب بھی کسی کے لیے کوئی اطمینان کا پہلو نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید اہتمام ہے کہ وہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر اس دنیا میں بھی عذاب نازل کرتا ہے۔
یہاں ’یوم‘ سے پہلے فعل محذوف ہے۔ یعنی اس دن کو یاد رکھو یا اس کے ہم معنی کوئی فعل۔
’رَاجِفَۃٌ‘ کے معنی کپکپی اور زلزلہ کے ہیں اور ’رَادِفَۃٌ‘ کے معنی پہلے جھٹکے کے بعد دوسرے جھٹکے کے۔ قیامت کی ہلچل، جیسا کہ دوسرے مقامات میں وضاحت ہو چکی ہے، صور کی دو پھونکوں میں مکمل ہو گی۔ یہاں انہی دونوں پھونکوں کے اثرات کی طرف اشارہ ہے۔ مقصود اس سے مکذبین قیامت پر اس حقیقت کا اظہار ہے کہ قیامت کے ظہور کو بہت مستبعد اور ناممکن نہ سمجھو۔ بس دو جھٹکوں میں یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

جاوید احمد غامدی

اُس دن جب تھرتھری چھوٹے گی

n/a

ابو الاعلی مودودی

جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکا

n/a

جونا گڑھی

جس دن کا پنے والی کانپے گی

 یہ نفخئہ اولیٰ ہے جسے نفخئہ فنا کہتے ہیں، جس سے ساری کائنات کانپ اور لرز اٹھے گی اور ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ 

تَتْبَعُهَا ٱلرَّادِفَةُ

امین احسن اصلاحی

اس کے پیچھے ایک دوسرا جھٹکا آئے گا

یہ مقسم علیہ نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے گمان کیا ہے، بلکہ اس دن کی یاددہانی ہے جس دن اس عذاب سے سابقہ پیش آئے گا جس سے ان کو ڈرایا جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا ہے۔ ایک اس عذاب سے جس سے قیامت کے دن دوچار ہونا پڑے گا۔ دوسرے اس عذاب سے جس سے اسی دنیا میں قوم کو سابقہ پیش آتا ہے اگر وہ اپنے رسول کی تکذیب کر دیتی ہے۔

قیامت کے دن کی یاددہانی: پہلے آیات ۶-۱۴ میں عذاب قیامت کی تصویر ہے اس کے بعد آیات ۱۶-۱۷ میں اس عذاب کی تاریخی شہادت پیش کی گئی ہے جو تکذیب رسول کے نتیجہ میں اس دنیا میں پیش آتا ہے۔ عذاب قیامت کا ذکر یہاں اس لیے مقدم کر دیا ہے کہ اصل عذاب وہی ہے جس سے ہر ایک کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ وہ دائمی اور ابدی ہے۔ اس کے ہوتے دنیا کا عذاب نہ بھی ہو جب بھی کسی کے لیے کوئی اطمینان کا پہلو نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید اہتمام ہے کہ وہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر اس دنیا میں بھی عذاب نازل کرتا ہے۔
یہاں ’یوم‘ سے پہلے فعل محذوف ہے۔ یعنی اس دن کو یاد رکھو یا اس کے ہم معنی کوئی فعل۔
’رَاجِفَۃٌ‘ کے معنی کپکپی اور زلزلہ کے ہیں اور ’رَادِفَۃٌ‘ کے معنی پہلے جھٹکے کے بعد دوسرے جھٹکے کے۔ قیامت کی ہلچل، جیسا کہ دوسرے مقامات میں وضاحت ہو چکی ہے، صور کی دو پھونکوں میں مکمل ہو گی۔ یہاں انہی دونوں پھونکوں کے اثرات کی طرف اشارہ ہے۔ مقصود اس سے مکذبین قیامت پر اس حقیقت کا اظہار ہے کہ قیامت کے ظہور کو بہت مستبعد اور ناممکن نہ سمجھو۔ بس دو جھٹکوں میں یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

جاوید احمد غامدی

ایک کے پیچھے دوسری

یہ اُن دو جھٹکوں کی طرف اشارہ ہے جو سورۂ زمر (۳۹)، آیت ۶۸ کے مطابق پہلے اور دوسرے صور کے پھونکنے سے پڑیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

اور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا،

پہلے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جو زمین اور اس کی ہر چیز کو تباہ کر دے گا اور دوسرے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جس کے بعد تمام مردے زندہ ہو کر زمین سے نکل آئیں گے۔ اسی کیفیت کو سورة زمر میں یوں بیان کیا گیا ہے ” اور صور پھونکا جائے گا تو زمین اور آسمان میں جو بھی ہیں وہ سب مر کر گر جائیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ (زندہ رکھنا) چاہے۔ پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے “۔ (آیت 68) ۔

جونا گڑھی

اس کے بعد ایک پیچھے آنے والی (پیچھے پیچھے) آئے گی

 یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر قبروں سے نکل آئیں گے۔ یہ دوسرا نفخہ پہلے نفخہ سے چالیس سال بعد ہوگا۔ 

قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ

امین احسن اصلاحی

کتنے دل اس دن دھڑکتے ہوں گے

اس دن کا اثر لوگوں کے دلوں پر: اوپر کی آیات میں اس دن کی ہلچل کے وہ اثرات بیان ہوئے ہیں جو اس کائنات میں نمودار ہوں گے۔ ان آیات میں اس کے ان اثرات کی طرف اشارہ ہے جو ارواح و قلوب پر طاری ہوں گے۔ فرمایا کہ اس دن کتنے دل ہوں گے جو دھڑک رہے ہوں گے اور ان کی نگاہیں سراسیمگی کے سبب سے جھکی ہوئی ہوں گی۔ یہ ان لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اس دن سے نچنت رہے اور جب انھیں اس سے ڈرایا جاتا تو نہایت ڈھٹائی سے اس کا مذاق اڑاتے۔ رہے وہ لوگ جو اس دنیا میں، اس عذاب کو دیکھے بغیر، اس سے ڈرتے رہے وہ، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات میں تصریح ہے، اس دن کی گھبراہٹ سے بالکل محفوظ ہوں گے۔

جاوید احمد غامدی

اُس دن کتنے دل (خوف سے) دھڑکتے ہوں گے

n/a

ابو الاعلی مودودی

کچھ دل ہوں گے جو اس روز خوف سے کانپ رہے ہوں گے،

” کچھ دل ” کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ قرآن مجید کی رو سے صرف کفار و فجار اور منافقین ہی پر قیامت کے روز ہول طاری ہوگا۔ مومنین صالحین اس ہول سے محفوظ ہوں گے۔ سورة انبیاء میں ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ” وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر ان کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا “۔ (آیت 103) ۔

جونا گڑھی

(بہت سے) دل اس دن دھڑ کتے ہونگے

 قیامت کے ہول اور شدائد سے۔ 

أَبْصَـٰرُهَا خَـٰشِعَةٌ

امین احسن اصلاحی

ان کی نگاہیں پست ہوں گی

’اَبْصَارُہَا‘ میں ضمیر کا مرجع ’قُلُوْبٌ‘ ہے۔ آدمی کے اندر دل ہی وہ چیز ہے جس سے اس کی شخصیت عبارت ہے اور جس کی کیفیات کی ترجمانی اس کے بدن کا رواں رواں کرتا ہے۔ خاص طور پر اس کی آنکھ تو وہ چیز ہے جس کے آئینہ میں اس کے دل کی مخفی سے مخفی کیفیت بھی جھلکتی ہے۔ دل کے ساتھ آنکھوں کے اس تعلق کے سبب سے ان کی اضافت دل کی طرف کر دی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اُن کی نگاہیں جھکی ہوں گی

نگاہوں کی اضافت یہاں دل کی طرف کی گئی ہے۔ اِس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ آدمی کی شخصیت اصلاً دل ہی سے عبارت ہے۔ نگاہوں میں جو کچھ جھلکتا ہے، وہ درحقیقت دل کی کیفیتیں ہوتی ہیں جن کے مخفی سے مخفی پہلو بھی، اگر ہم چاہیں تو نگاہوں کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

نگاہیں ان کی سہمی ہوئی ہوں گی۔

n/a

جونا گڑھی

جس کی نگاہیں نیچی ہونگی

 دہشت زدہ لوگوں کی نظریں بھی (مجرموں کی طرح) جھکی ہوئی ہوں گی۔ 

يَقُولُونَ أَءِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِى ٱلْحَافِرَةِ

امین احسن اصلاحی

پوچھتے ہیں کیا ہم پھر پہلی حالت میں لوٹائے جائیں گے!

کفار کے استہزاء کی تصویر: یہ تصویر ہے ان کے اس مذاق کی جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا ذکر سن کر وہ نہایت بے باکی سے کرتے۔

’حَافِرَۃٌ‘ کے اصل معنی نقش قدم کے ہیں لیکن محاورے میں اگر کہیں کہ ’فلان رجع علی حافرتہٖ اوفی حافرتہٖ‘ تو اس کے معنی ہوں گے کہ فلاں شخص جس حال میں تھا اس سے نکل کر پھر الٹے پاؤں اسی میں واپس آ گیا۔
یعنی جب انھیں ڈرایا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد حساب کتاب کے لیے زندہ کیے جاؤ گے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور ایک دوسرے سے بانداز استہزاء پوچھتے ہیں کہ کیوں جی! کیا مر جانے اور بوسیدہ ہڈیاں ہو جانے کے بعد پھر ہم زندگی کی حالت میں لوٹائے جائیں گے!

جاوید احمد غامدی

پوچھتے ہیں: کیا (مرنے کے بعد) ہم ضرور اِسی طرح پلٹا کر واپس لائے جائیں گے؟

اصل الفاظ ہیں: ’ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَۃِ‘۔ ’حافرۃ‘ کے معنی نقش قدم کے ہیں۔ اِس سے ’رد فی الحافرۃ‘ اور ’رد علی الحافرۃ‘ عربی زبان کے محاورے ہیں جو الٹے پاؤں واپس لانے کے معنی میں مستعمل ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

یہ لوگ کہتے ہیں ” کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے جائیں گے ؟

n/a

جونا گڑھی

کہتے ہیں کہ کیا پہلی کی سی حالت کی طرف لوٹائے جائیں گے

 حافِرَۃ، پہلی حالت کو کہتے ہیں۔ منکرین قیامت کا قول ہے کہ کیا ہم پھر اس طرح زندہ کردیئے جائیں گے جس طرح مرنے سے پیشتر تھے۔ 

Page 1 of 5 pages  1 2 3 >  Last ›