لوگو، اپنے اُس پروردگار سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی کی جنس سے اُس کا جوڑا بنایا اور اِن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیں۔ اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے مدد چاہتے ہو اور ڈرو رشتوں کے توڑنے سے۔ بے شک، اللہ تم پر نگران ہے
اِس مفہوم کے لیے اصل میں ’خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِنھیں سورۂ نحل (۱۶) کی آیت۷۲ ’وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا‘ کی روشنی میں دیکھیے تو اِن کا ترجمہ یہی ہوسکتا ہے۔ اِسے ’اُس میں سے‘ یا ’اُس کے اندر سے‘ کے معنی میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
اصل میں لفظ ’تَسَآءَ لُوْنَ‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی جس طرح ایک دوسرے سے پوچھنے اور سوال کرنے کے ہیں، اِسی طرح ایک دوسرے سے مدد چاہنے کے بھی ہیں۔ یہاں یہ اِسی دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
اِس سورہ میں جو ہدایات آگے دی گئی ہیں، یہ آیت اُن کے لیے ایک جامع تمہید کی حیثیت رکھتی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے حقائق اپنی تفسیر میں بیان فرمائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پہلی بات یہ ہے کہ اِس آیت میں جس تقویٰ کی ہدایت کی گئی ہے، اُس کا ایک خاص موقع و محل ہے۔ اِس تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ یہ خلق آپ سے آپ وجود میں نہیں آگئی ہے، بلکہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہے جو سب کا خالق بھی ہے اور سب کا رب بھی۔ اِس وجہ سے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اِس کو ایک بے مالک اور بے راعی کا ایک آوارہ گلہ سمجھ کر اِس میں دھاندلی مچائے اوراِس کو اپنے ظلم وتعدی کا نشانہ بنائے، بلکہ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اِس کے معاملات میں انصاف اور رحم کی روش اختیار کرے ،ورنہ یاد رکھے کہ خدا بڑا زورآور اور بڑا منتقم وقہار ہے۔ جو اُس کی مخلوق کے معاملات میں دھاندلی مچائیں گے، وہ اُس کے قہروغضب سے نہ بچ سکیں گے۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔
دوسری یہ کہ تمام نسل انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدم وحوا کی نسل سے پیدا کیا ہے۔ نسل آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ اِس پہلو سے عربی و عجمی، احمر و اسود اور افریقی وایشیائی میں کوئی فرق نہیں، سب خدا کی مخلوق اور سب آدم کی اولاد ہیں۔ خدا اور رحم کا رشتہ سب کے درمیان مشترک ہے۔ اِس کا فطری تقاضا یہ ہے کہ سب ایک ہی خدا کی بندگی کرنے والے اور ایک ہی مشترک گھرانے کے افراد کی طرح آپس میں حق و انصاف اور مہرومحبت کے تعلقات رکھنے والے بن کر زندگی بسر کریں۔
تیسری یہ کہ جس طرح آدم تمام نسل انسانی کے باپ ہیں، اِسی طرح حوا تمام نسل انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حوا کو آدم ہی کی جنس سے بنایا ہے، اِس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر، فروتر اور فطری گنہ گار مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ بھی شرف انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔ اُس کو حقیروذلیل مخلوق سمجھ کر نہ اُس کو حقوق سے محروم کیا جاسکتا نہ کمزور خیال کرکے اُس کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
چوتھی یہ کہ خدا اور رحم کا واسطہ ہمیشہ سے باہمی تعاون وہمدردی کا محرک رہا ہے۔ جس کو بھی کسی مشکل یا خطرے سے سابقہ پیش آتا ہے، وہ اُس میں دوسروں سے خدا اور رحم کا واسطہ دے کر اپیل کرتا ہے اور یہ اپیل چونکہ فطرت پر مبنی ہے، اِس وجہ سے اکثر حالات میں یہ مؤثر بھی ہوتی ہے۔ لیکن خدا اور رحم کے نام پر حق مانگنے والے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جس طرح اِن واسطوں پر حق مانگنا حق ہے، اِسی طرح اِن کا حق ادا کرنا بھی فرض ہے۔ جو شخص خدا اور رحم کے نام پر لینے کے لیے تو چوکس ہے، لیکن دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے، وہ خدا سے دھوکا بازی اور رحم سے بے وفائی کا مجرم ہے اور اِس جرم کا ارتکاب وہی کر سکتا ہے جس کا دل تقویٰ کی روح سے خالی ہو۔ خدا اور رحم کے حقوق پہچاننے والے جس طرح اِن ناموں سے فائدے اٹھاتے ہیں، اِسی طرح اِن کی ذمہ داریاں بھی اٹھاتے ہیں اور درحقیقت حق طلبی وحق شناسی کا یہی توازن ہے جو صحیح اسلامی معاشرے کا اصلی جمال ہے۔ اِسی حقیقت کی طرف ’وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ‘ کا ٹکڑا اشارہ کر رہا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۲۴۶۔۲۴۷)
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح اٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔
” تم کو ایک جان سے پیدا کیا “ یعنی نوع انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسل انسانی پھیلی۔
” اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا “ ، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا ( تلمود میں اور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوا کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا) ۔ لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعین کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے۔
اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔
' ایک جان ' سے مراد ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور خَلَقَ مِنْہَا وَ زَوْجَھَا میں مِنْھَا سے وہی ' جان ' یعنی آدم (علیہ السلام) مراد ہیں اور آدم (علیہ السلام) سے ان کی زوجہ (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم (علیہ السلام) سے کس طرح پیدا ہوئیں ؟ اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس (رض) سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد ( یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو توڑ بیٹھے گا اگر تو اس سے فائدہ آٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ سے منقول رائے کی تائید کی۔ قرآن کے الفاظ خلق منھا سے اسی مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی ہے جسے آدم کہا جاتا ہے۔
والارحام کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے۔ مراد رشتہ داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناتوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔
اور یتیموں کے مال ان کے حوالہ کرو، نہ اپنے برے مال کو ان کے اچھے مال سے بدلو اور نہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے اس کو ہڑپ کرو۔ بے شک یہ بہت بڑا گناہ ہے
اس آیت میں خطاب یتیموں کے اولیاء اور سرپرستوں سے ہے اوراوپر والی آیت پر اس کا عطف اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں جس بات کا حکم دیا جا رہا ہے یا جس چیز سے روکا جا رہا ہے اس کی بنیاد انھی اصولی حقائق پر ہے جو اوپر مذکور ہوئے
’خبیث‘ اور ’طیب‘ کے الفاظ جس طرح ان اشیا اور ذوات کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو اخلاقی و شرعی نقطۂ نظر سے خبیث یا طیب ہوتی ہیں اسی طرح، جیسا کہ بقرہ کی آیت ۲۶۷ کے تحت گزر چکا ہے، ان اشیاء کے لیے بھی ان کا استعمال عربی میں معروف ہے جو مادی اعتبار سے ناقص یا عمدہ ہوتی ہیں۔
’اکل‘ کے ساتھ ’الٰی‘ کا صلہ اس بات پر دلیل ہے کہ یہاں ’’ضمٍّا‘‘ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔
یتیموں کے بعض سرپرست، جن کے سینے خوفِ خدا سے خالی ہوتے ہیں اول تو یتیموں کا سارا حق ہی دبا بیٹھتے ہیں اور اگر دبا نہیں بیٹھتے تو اس میں خورد برد کرنے کی نیت سے، انتظامی سہولت کی نمائش کر کے، ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا لیتے ہیں اور اس طرح اپنے لیے ہاتھ رنگنے کے نہایت آسان مواقع پیدا کر لیتے ہیں۔ ان کو ہدایت فرمائی کہ یتیموں کا مال یتیموں کو دو۔ خود ہضم کرنے کی کوشش نہ کرو۔ پھر اس مقصد کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں ان سے واضح لفظوں میں بھی روک دیا کہ نہ اپنا ناقص مال ان کے اچھے مال سے بدلنے کی تدبیریں کرو اور نہ ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر اس کو خورد برد کرنے کی کوشش کرو۔
اگر کوئی سرپرست انتظامی سہولت کے نقطۂ نظر سے یتیم کا مال اپنے مال کے ساتھ ملانا چاہے تو اس کی اجازت اگرچہ، جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۲۰ کے تحت گزر چکی ہے، شریعت نے دی ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس اختلاط و اشتراک سے مقصود اصلاح ہو نہ کہ فساد۔ بصورت دیگر یتیم کے حق کی حفاظت اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
(اللہ سے ڈرو) اور یتیموں کے مال اُن کے حوالے کردو، نہ اپنے برے مال کو اُن کے اچھے مال سے بدلو اور نہ اُن کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر کھاؤ، اِ س لیے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے
اصل میں ’خَبِیْث‘ اور ’طَیِّب‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جس طرح اخلاقی لحاظ سے خبیث و طیب چیزوں کے لیے آتے ہیں، اِس طرح مادی لحاظ سے عمدہ اور ناقص چیزوں کے لیے بھی آتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلآی اَمْوَالِکُمْ‘۔ اِن میں ’اِلٰی‘ کا صلہ ’ضَمًّا‘ یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ سے متعلق ہے جو عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گیا ہے۔
اِس پوری آیت کا مدعا یہ ہے کہ یتیموں کے سرپرست اُن کے مال اُن کے حوالے کریں، اُسے خود ہضم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ظلم و ناانصافی سے یتیم کا مال ہڑپ کرنا گویا اپنے پیٹ میں آگ بھرنا ہے۔ لہٰذا کوئی شخص نہ اپنا برا مال اُن کے اچھے مال سے بدلنے کی کوشش کرے اور نہ انتظامی سہولت کی نمایش کرکے اُس کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر کھانے کے مواقع پیدا کرے۔ اِس طرح کا اختلاط اگر کسی وقت کیا جائے تو یہ خردبرد کے لیے نہیں، بلکہ اُن کی بہبود اور اُن کے معاملات کی اصلاح کے لیے ہونا چاہیے۔
یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
یعنی جب تک وہ بچے ہیں، ان کے مال انہی کے مفاد پر خرچ کرو اور جب بڑے ہوجائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انہیں واپس کر دو۔
جامع فقرہ ہے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حلال کی کمائی کے بجائے حرام خوری نہ کرنے لگو، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یتیموں کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے نہ بدل لو۔
اور یتیموں کا مال ان کو دے دو اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھا نہ جاؤ، بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے
یتیم جب بالغ اور باشعور ہوجائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو، خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو، بدلایا گیا مال جو اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کردی اور وہ اب طیب نہیں رہا، بلکہ تمہارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔ اسی طرح بد دیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔
اور اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمھارے لیے جائز ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کر لو۔ اور اگر ڈر ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر بس کرو یا پھر کوئی لونڈی جو تمھاری ملک میں ہو۔ یہ طریقہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو
’یَتَامٰی‘ کا لفظ ان نابالغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کا باپ فوت ہو چکا ہو، عام اس سے کہ وہ نابالغ، لڑکے ہیں یا لڑکیاں۔ صرف نابالغ لڑکیوں کے لیے اس کا استعمال نہ عربی زبان میں معلوم ہے، نہ قرآن مجید اور حدیث میں۔ قرآن میں یہ لفظ کم از کم پندرہ جگہ اسی جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہے لیکن کسی جگہ بھی صرف یتیم بچیوں کے مفہوم میں نہیں استعمال ہوا ہے۔
’مَا طَابَ لَکُمْ‘ کے معنی بعض اہل تاویل نے ’مَا حَلَّ لَکُمْ‘ (یعنی جو عورتیں تمھارے لیے جائز ہوں) لیے ہیں۔ یہ مفہوم لفظ کے استعمالات کے مطابق ہے، اگرچہ ازروئے لغت و ازروئے استعمال اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ’’جو راضی ہوں۔‘‘ آگے والی آیت میں ’فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ‘ کے الفاظ سے اس مفہوم کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ نیز یہ مفہوم بھی اس کا ہو سکتا ہے کہ جن سے تمھاری زندگی میں خوشگواری پیدا ہو۔ یہاں یہ تمام معانی بنتے ہیں لیکن ہم نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موقع و محل سے یہ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
’نِسَاء‘ کا لفظ اگرچہ ظاہر میں عام ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اس سے عام عورتیں مراد نہیں ہیں بلکہ یتیموں کی مائیں مراد ہیں۔ عام بول کر خاص مراد لینا، بشرطیکہ قرینہ موجود ہو، عربی زبان میں بہت معروف ہے۔ قرآن میں اس کی مثالیں بکثرت ہیں۔ یہ قرینہ چونکہ مضمون کے تدریجی ارتقا سے خود بخود واضح ہو جائے گا اس وجہ سے یہاں اس کے دلائل کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم (مخاطب یتیموں کے اولیاء اور سرپرست ہی ہیں) بر بنائے احتیاط یہ اندیشہ رکھتے ہو کہ تمھارے لیے یتیموں کے مال اور ان کے واجبی حقوق کی کماحقہٗ نگہداشت ایک مشکل کام ہے، تم تنہا اپنی ذمہ داری پر اس سے بحسن و خوبی عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے، اگر یتیموں کی ماں بھی اس ذمہ داری میں تمھارے ساتھ شریک ہو جائے تو تم اس فرض سے عمدہ طریقے پر عہدہ بر آ ہو سکتے ہو اس لیے کہ یتیموں کے ساتھ جو قلبی لگاؤ اس کو ہو سکتا ہے، کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا اور ان کے حقوق کی نگہداشت جس بیداری کے ساتھ وہ کر سکتی ہے کسی اور کے لیے ممکن نہیں تو ان میں سے جو تمھارے لیے جائز ہوں، ان سے تم نکاح کر لو، بشرطیکہ عورتوں کی تعداد کسی صورت میں چار سے زیادہ نہ ہونے پائے اور تم ان کے درمیان عدل قائم رکھ سکو۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ عدل نہیں قائم رکھ سکو گے تو پھر ایک سے زیادہ نکاح نہ کرو۔ فرمایا کہ یہ طریقہ تمھیں حق و انصاف پر استوار رکھنے کے نقطۂ نظر سے زیادہ صحیح ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بیویوں کے معاملے میں عدل کی شرط ایک ایسی اٹل شرط ہے کہ یتیموں کے حقوق کی نگہداشت جیسی اہم دینی مصلحت کے پہلو سے بھی اس میں کسی لچک کی شریعت نے گنجائش نہیں رکھی ہے۔
یہاں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو گا کہ آیت کی تاویل اگر یہ ہے جو بیان ہوئی تو اس سے تو صاف یہ بات نکلتی ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت مطلق نہیں بلکہ یتیموں کی مصلحت کے ساتھ مقید ہے۔ اس شبہے کا جواب یہ ہے کہ یہاں مسئلے کے بیان کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ یتیموں کی مصلحت کی قید کے ساتھ تعدد ازواج کی اجازت دی گئی ہو اور بصورتِ دیگر یہ ممنوع ہو بلکہ یہ ہے کہ یتامیٰ کی مصلحت کے نقطۂ نظر سے تعدد ازواج کے اس رواج سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے جو عرب میں تھا البتہ اس کو چار تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اگر مقصود تعدد ازواج کو یتیموں کی مصلحت کے ساتھ مقید کرنا ہوتا تو اس کے لیے اسلوب بیان اس سے بالکل مختلف ہوتا۔ اس اسلوبِ بیان سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ تعدد ازواج کی مروجۂ وقت صورت پر ایک قید عائد کر کے اس سے ایک معاشرتی مصلحت میں فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے لیکن معاشرتی مصلحت صرف ایک یتیموں ہی کی مصلحت نہیں ہے بلکہ اور بھی ہو سکتی ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس میں اس سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت ہو۔
ممکن ہے یہاں ایک اور شبہ بھی بعض لوگوں کو ہو کہ ہم نے یہاں ان لوگوں کے قول کو جنھوں نے یتامیٰ سے یتیم لڑکیوں کو مراد لیا ہے، محض اس دلیل کی بنیاد پر نظر انداز کر دیا ہے کہ اس لفظ کا استعمال صرف لڑکیوں کے لیے معروف نہیں ہے درآنحالیکہ ’نساء‘ سے ہم نے یتیموں کی ماؤں کو مراد لیا ہے جب کہ اس لفظ کا بھی استعمال اس معنی کے لیے معروف نہیں ہے۔ اس شبہے کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اس قول کو صرف اسی بنیاد پر نظر انداز نہیں کیا ہے کہ لغت اور استعمال اس کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ یہ معنی لینے میں آیت کی تاویل صحیح نہیں بنتی۔ کسی شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ اگر وہ ایک یتیم بچی سے نکاح کرے گا تو چونکہ اس کا باپ یا بھائی موجود نہیں ہے اس وجہ سے وہ اس کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا تو اس کو یہ ہدایت ہونی تھی کہ وہ اس وقت تک اس کے ساتھ نکاح کرنے میں توقف کرے جب تک وہ بالغ ہو کر اپنے حقوق و فرائض کو اپنے اختیار و ارادے کے ساتھ سمجھ نہ سکے یا صرف یہ ہدایت ہونی تھی کہ ایسا شخص کسی اور عورت سے نکاح کرے، اس کے ساتھ تعدد ازواج کی اجازت اور اس کے قیود و شرائط کے بیان کے لیے کوئی ضرورت داعی نہیں تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک یتیمہ بالغ ہونے کے بعد بھی باپ بھائی کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے بے بس ہی ہوتی ہے تو یہ ہدایت ہونی تھی کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جن کے باپ بھائی زندہ ہوں، اس لیے کہ اس قسم کی بے بسی دوسری عورتوں کو بھی لاحق ہو سکتی ہے اگرچہ ان کو یتیمی کی بے بسی سے سابقہ نہ پیش آیا ہو۔
یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ اگر کسی کی نگرانی میں کوئی یتیمہ ہو، وہ اس کی اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے اور اس کے بالغ ہونے پر اس کی مرضی سے اس سے نکاح کرے تو شریعت میں یہ بات نا پسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔
بہرحال ہم نے اس قول کو صرف ایک ہی وجہ کی بنا پر نہیں بلکہ متعدد وجوہ کی بنا پر چھوڑا ہے اور نساء کے لفظ کی جو تخصیص کی ہے وہ ان قرائن کی بنا پر ہے جن میں سے بعض اوپر مذکور ہوئے اور بعض آگے آ رہے ہیں۔
مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ
’مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ‘ سے مراد لونڈیاں ہیں۔ چونکہ ان کے معاملے میں عدل وغیرہ کی شرط نہیں ہے اس وجہ سے ان کی اجازت دی۔ اس مسئلے کی صحیح نوعیت پر ہم بقرہ میں لکھ چکے ہیں۔ آگے موزوں مقام پر اس پر مزید بحث کریں گے۔
اور اگر اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو (اُن کے ساتھ) جو عورتیں ہیں، اُن میں سے جو تمھارے لیے موزوں ہوں، اُن میں سے دودو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ پھر اگر ڈر ہو کہ (اُن کے درمیان) انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو یا پھر لونڈیاں جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ یہ اِس کے زیادہ قریب ہے کہ تم بے انصافی سے بچے رہو
اصل میں ’مَا طَابَ لَکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کے معنی ’جو پسند آئیں‘ اور ’جو راضی ہوں‘ کے بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم جس معنی کو ہم نے ترجیح دی ہے، وہ موقع ومحل سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
یہ آیت اصلاً تعدد ازواج سے متعلق کوئی حکم بیان کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی، بلکہ یتیموں کی مصلحت کے پیش نظر تعدد ازواج کے اُس رواج سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب کے لیے نازل ہوئی ہے جو عرب میں پہلے سے عام تھا۔ قرآن نے دوسرے مقامات پر صاف اشارہ کیا ہے کہ انسان کی تخلیق جس فطرت پر ہوئی ہے، اُس کی رو سے خاندان کا ادارہ اپنی اصلی خوبیوں کے ساتھ ایک ہی مردوعورت میں رشتۂ نکاح سے قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ جگہ جگہ بیان ہوا ہے کہ انسانیت کی ابتدا سیدنا آدم سے ہوئی ہے اور اُن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی بیوی پیدا کی تھی۔ یہ تمدن کی ضروریات اور انسان کے نفسی، سیاسی اور سماجی مصالح ہیں جن کی بنا پر تعدد ازواج کا رواج کم یا زیادہ، ہر معاشرے میں رہا ہے اور اِنھی کی رعایت سے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کسی شریعت میں اِسے ممنوع قرار نہیں دیا۔ یہاں بھی اِسی نوعیت کی ایک مصلحت میں اِس سے فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ یتیموں کے مال کی حفاظت اور اُن کے حقوق کی نگہداشت ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ لوگوں کے لیے تنہا اِس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا مشکل ہو اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ یتیم کی ماں یا اُس کی بہن کو اُس میں شامل کر کے وہ اپنے لیے سہولت پیدا کر سکتے ہیں تو اُنھیں چاہیے کہ اِن عورتوں میں سے جو اُن کے لیے موزوں ہوں، اُن کے ساتھ نکاح کر لیں۔ تاہم دوشرطیں اِس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اِس پر عائد کر دی ہیں:
ایک یہ کہ یتیموں کے حقوق جیسی مصلحت کے لیے بھی عورتوں کی تعداد کسی شخص کے نکاح میں چار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
دوسری یہ کہ بیویوں کے درمیان انصاف کی شرط ایک ایسی اٹل شرط ہے کہ آدمی اگر اِسے پورا نہ کر سکتا ہو تو اِس طرح کی کسی اہم دینی مصلحت کے پیش نظر بھی ایک سے زیادہ نکاح کرنا اُس کے لیے جائز نہیں ہے۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ غلامی کا ادارہ اُس وقت تک ختم نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ سورۂ محمد میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی ممانعت کے باوجود جو غلام پہلے سے معاشرے میں موجود تھے، اُن کے لیے یہ استثنا باقی رکھنا ضروری تھا۔ بعد میں قرآن نے اُن کے ساتھ لوگوں کومکاتبت کا حکم دے دیا۔ یہ اِس بات کا اعلان تھا کہ لوح تقدیر اب غلاموں کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی آزادی کی تحریر اُس پر، جب چاہیں، رقم کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں غلامی کو معیشت اور معاشرت کے لیے اِسی طرح ناگزیر سمجھا جاتا تھا، جس طرح اب سود کو سمجھا جاتا ہے۔ نخاسوں پر ہر جگہ غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور کھاتے پیتے گھروں میں ہر سن وسال کی لونڈیاں اور غلام موجود تھے۔ اِس طرح کے حالات میں اگر یہ حکم دیا جاتا کہ تمام غلام اور لونڈیاں آزاد ہیں تو اُن کی ایک بڑی تعداد کے لیے جینے کی کوئی صورت اِس کے سوا باقی نہ رہتی کہ مرد بھیک مانگیں اور عورتیں جسم فروشی کے ذریعے سے اپنے پیٹ کا ایندھن فراہم کریں۔ یہ مصلحت تھی جس کی وجہ سے قرآن نے تدریج کا طریقہ اختیار کیا اور اِس سلسلہ کے کئی اقدامات کے بعد بالآخر سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۳۳ میں مکاتبت کا وہ قانون نازل فرمایا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اِس کے بعد نیکی اور خیر کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھنے والے کسی شخص کو بھی غلام بنائے رکھنے کی گنجایش باقی نہیں رہی۔ اِس قانون کی وضاحت اگر اللہ نے چاہا تو ہم نور کی اِسی آیت کے تحت کریں گے۔
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔
اس کے تین مفہوم اہل تفسیر نے بیان کیے ہیں :
(١) حضرت عائشہ (رض) اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کرلو۔ اسی سورة میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔
(٢) ابن عباس (رض) اور ان کے شاگرد عکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کرلیتا تھا۔ اور جب اس کثرت ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے بےبس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کردی اور فرمایا کہ ظلم و بےانصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔
(٣) سعید بن جبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہل جاہلیت بھی ان کے ساتھ بےانصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن عورتوں کے معاملہ میں ان کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کرلیتے تھے اور پھر ان کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بےانصافی کرنے سے ڈرو۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کرسکو۔
آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے متحمل ہیں اور عجب نہیں کہ تینوں مفہوم مراد ہوں۔ نیز اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کرسکتے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جن کے ساتھ یتیم بچے ہوں۔
اس بات پر فقہاء امت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رو سے تعدد ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کردیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔
نیز یہ آیت تعدد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے۔ جو شخص عدل کی شرط پوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے۔ حکومت اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو ان کی داد رسی کریں۔
بعض لوگ اہل مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلوب و مرعوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کا اصل مقصد تعدد ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطہ نظر سے فی الاصل برا طریقہ ہے) مٹا دینا تھا، مگر چونکہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا۔ لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں۔ تعدد ازواج کا فی نفسہ ایک برائی ہونا بجائے خود ناقابل تسلیم ہے، کیونکہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے، حصار نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں جس کے نقصانات تمدن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعدد ازواج سے پہنچ سکتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے جو اس کی ضرورت محسوس کریں۔ تاہم جن لوگوں کے نزدیک تعدد ازواج فی نفسہ ایک برائی ہے ان کو یہ اختیار تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے بر خلاف اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کردینے کا مشورہ دیں۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خوا مخواہ قرآن کی طرف منسوب کریں۔ کیونکہ قرآن نے صریح الفاظ میں اس کو جائز ٹھیرایا ہے اور اشارةً و کنایةً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اس کو مسدود کرنا چاہتا تھا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ” سنت کی آئینی حیثیت “ ، ص ٣٠٧ تا ٣١٦) ۔
لونڈیاں مراد ہیں، یعنی وہ عورتیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کردی جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آزاد خاندانی بیوی کا بار بھی برداشت نہ کرسکو تو پھر لونڈی سے نکاح کرلو، جیسا کہ رکوع ٤ میں آگے آتا ہے۔ یا یہ کہ اگر ایک سے زیادہ عورتوں کی تمہیں ضرورت ہو اور آزاد خاندانی بیویوں کے درمیان عدل رکھنا تمہارے لیے مشکل ہو تو لونڈیوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ ان کی وجہ سے تم پر ذمہ داریوں کا بار نسبتًہ کم پڑے گا۔ (آگے حاشیہ نمبر ٤٤ میں لونڈیوں کے متعلق احکام کی مزید تفصیل ملے گی)
اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ ۔
اس کی تفسیر حضرت عائشہ (رض) سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کرلیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تو ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری) ایک کی بجائے دو سے، تین سے حتیٰ کے چار عورتوں تک سے تم نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کرسکو ورنہ ایک ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مذید صراحت اور تحدید کردی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر)
یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی
کی فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس کی حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت اچھے انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے) کہ بیویوں کے درمیان
انصاف کرسکو، اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو، اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔
اور ان عورتوں کو ان کے مہر دو مہر کی حیثیت سے، پس اگر وہ اس میں سے تمھارے لیے کچھ چھوڑ دیں اپنی خوشی سے تو تم اس کو کھاؤ کہ وہ تمھیں راس اور سازگار ہے
اس آیت میں بھی ’نساء‘ سے مراد یتیموں کی مائیں ہی ہیں۔ ’نحل‘ کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں اورجب عورت کے تعلق سے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی مہر ادا کرنے کے ہوتے ہیں۔ ’نحلہ‘ یہاں فعل کی تاکید کے لیے ہیں یعنی ان کو اس طرح مہردو جو مہر دینے کا طریقہ ہے۔ اس تاکید کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ جب ان کے ساتھ نکاح انہی کے بچوں کی مصلحت کے پہلو سے کیا گیا ہے تو ایک شخص خیال کر سکتا ہے کہ اس صورت میں مہر وغیرہ کی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ فرمایا کہ نہیں جس طرح عدل شرط ہے اسی طرح مہر کی ادائیگی بھی شرط ہے اور یہ مہر، مہر کی طرح ادا ہونا چاہیے، صرف چھدا اتارنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔
فإن طبن لكم عن شيء منه میں حرف ’عن‘ دست برداری کے مفہوم کی طرف اشارہ کر رہا ہے یعنی وہ اپنی خوشی سے اگر اپنے مہر کا کوئی حصہ معاف کر دیں تو تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو، یہ تمھارے لیے رچنے پچنے والی چیز ہو سکتی ہے۔
اور اِن عورتوں کوبھی اِن کے مہر دو، مہر کے طریقے سے۔ پھر اگر وہ اُس میں سے تمھارے لیے خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو اُس کو، البتہ تم مزے سے کھا سکتے ہو
اصل میں ’نِحْلَۃً‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کا نصب ہمارے نزدیک مصدر کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِن عورتوں کا مہر اُسی طریقے سے دیا جائے، جس طرح عام عورتوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ عذر نہیں پیدا کرنا چاہیے کہ نکاح چونکہ اُنھی کی اولاد کی مصلحت سے کیا گیا ہے، اِس لیے اب کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہی۔
اصل الفاظ ہیں: ’فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ‘۔ اِن میں حرف ’عَنْ‘ دست برداری کے مفہوم کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی اپنی خوشی سے اگر وہ مہر کے کسی حصے سے دست بردار ہو جائیں یا کوئی اور رعایت کریں تو اِس میں حرج نہیں ہے۔ لوگ اگر چاہیں تو اِس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔
حضرت عمر (رض) اور قا ضی شریح کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کو پورا مہر یا اس کا کوئی حصہ معاف کردیا ہو اور بعد میں وہ اس کا پھر مطالبہ کرے تو شوہر اس کے ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا، کیونکہ اس کا مطالبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے مہر یا اس کا کوئی حصہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ” حقوق الزوجین “ عنوان ” مہر “۔
اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔
n/a
اور تم وہ مال جس کو خدا نے تمھارے لیے قیام و بقا کا ذریعہ بنایا ہے، نادان یتیموں کے حوالہ نہ کرو۔ ہاں اس سے ان کو فراغت کے ساتھ کھلاؤ، پہناؤ اور دستور کے موافق ان کی دل داری کرتے رہو
مال کے اندر انفرادی اور اجتماعی بہبود کے پہلو:’سُفَھَاء‘ سے مراد وہی یتامیٰ ہیں جن کا ذکر چل رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حکم جو تمھیں دیا گیا ہے کہ تیموں کا مال ان کو دو تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر وہ بالکل نادان و نا سمجھ ہوں جب بھی جو کچھ ان کا ہے ان کے حوالہ کر دو۔ مال کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قیام و بقا کا ذریعہ بنایا ہے اس وجہ سے اس کے اندر انفرادی حق کے ساتھ خاندانی اور اجتماعی بہبود کا بھی ایک پہلو ہے۔ اس پہلو سے اس کی بربادی میں ایک ہی کا نقصان نہیں ہے بلکہ پورے خاندان اور بالآخر پورے معاشرے کا نقصان ہے۔ یہ چیز مقتضی ہے کہ کوئی ایسی شکل اختیار نہ کی جائے جو کسی مال کی بربادی کا باعث ہو۔ اگر یتیم ابھی نادان اور نا سمجھ ہے تو سرپرست کا فرض ہے کہ وہ اس کا مال اپنی حفاظت و نگرانی میں رکھے البتہ اس کو کھلائے پہنائے اور اس کی دل داری کرتا رہے تاکہ اس کو اطمینان رہے کہ یہ نگرانی اسی کے فائدے کے لیے ہے۔ ذمہ داری سنبھالنے کے قابل ہو جانے کے بعد اس کی ہر چیز اسی کو ملنی ہے۔
’وَٱرْزُقُوهُمْ فِيهَا ‘ میں ’فِیْھَا‘ کے لفظ سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یتیموں کی ضروریات پوری کرنے میں سر پرستوں کو کشادہ دلی سے کام لینا چاہیے۔ خسیس اورمکھی چوس سرپرستوں کا سا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ عربی میں جب کہیں گے کہ ’ارزقوھم فیھا‘ تو اس کے معنی ہوں گے ان کو فراخی سے کھلاؤ پلاؤ اور اگر کہیں ’وارزقوھم منھا‘ جیسا کہ آگے آیت ۸ میں آ رہا ہے، تو اس کے معنی ہوں گے ان کو اس میں سے کچھ دے دلا دو۔
اور (یتیم اگر ابھی نادان اور بے سمجھ ہوں تو) اپنا وہ مال جس کو اللہ نے تمھارے لیے قیام وبقا کا ذریعہ بنایا ہے، اِن بے سمجھوں کے حوالے نہ کرو۔ ہاں، اِ س سے فراغت کے ساتھ اُن کو کھلاؤ، پہناؤ اور اُن سے بھلائی کی بات کرو
اِس سے واضح ہے کہ حقوق ملکیت کے ساتھ خاندانی اور اجتماعی بہبود کا پہلو بھی لازماً ملحوظ رہنا چاہیے، اِس لیے کہ کسی شخص کے مال کی بربادی پورے خاندان، بلکہ بعض اوقات پورے معاشرے کے لیے نقصان کا باعث ہوجاتی ہے۔ یتیم کے مال کو اِسی بنا پر اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معاشرے کا مال قرار دیا ہے اور ہدایت فرمائی ہے کہ یتیم اگر ابھی نادان اور بے سمجھ ہے تو اُس کے سرپرستوں کا فرض ہے کہ اُس کا مال اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھیں، اُسے ہرگز اُس کے حوالے نہ کریں، ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ اپنا یہ مال جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے قیام وبقا کا ذریعہ بنایا ہے، ضائع کربیٹھے گا۔
اصل میں ’وَارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’فِیْھَا‘ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ یتیموں کے مال سے اُن کی ضروریات فراخ دلی کے ساتھ پوری کی جائیں۔ عربی زبان میں ’اُرْزُقُوْھُمْ فِیْھَا‘ کہا جائے تو اِس کا مفہوم یہی ہوگا۔ ’فِیْھَا‘ کے بجاے اِس جملے میں ’منھا‘ ہوتا تو اِس کے معنی، البتہ یہ ہوتے کہ اُن کو اِس میں سے کچھ دے دلا دیا جائے۔
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو۔
یہ آیت وسیع معنی کی حامل ہے۔ اس میں امت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مال جو ذریعہ قیام زندگی ہے، بہر حال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام تمدن و معیشت اور بالآخر نظام اخلاق کو خراب کردیں۔ حقوق ملکیت جو کسی شخص کو اپنے املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جاسکیں۔ جہاں تک آدمی کی ضروریات زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں، لیکن جہاں تک حقوق مالکانہ کے آزادانہ استعمال کا تعلق ہے اس پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مضر نہ ہو۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحب مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالہ کر رہا ہے وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اور بڑے پیمانہ پر حکومت اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں، یا جو لوگ اپنی دولت کو برے طریقے پر استعمال کر رہے ہوں، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریات زندگی کا بندوبست کر دے۔
بےعقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو۔
n/a
اور ان یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو اور اس ڈر سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے اسراف اور جلد بازی کر کے اُن کا مال ہڑپ نہ کرو اور جو غنی ہو اس کو چاہیے کہ وہ پرہیز کرے اور جو محتاج ہو تو وہ دستور کے مطابق اس سے فائدہ اُٹھائے۔ پھر جب تم ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو ان پر گواہ ٹھہرا لو۔ ویسے اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے
یہ وہ طریقہ بتایا ہے جو یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے کے معاملے میں سر پرستوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ یتیموں کو جانچتے رہو یعنی کوئی چھوٹی موٹی ذمہ داری ان کے سپرد کر کے ان کی صلاحیت کا امتحان کرتے رہو کہ معاملات کی سوجھ بوجھ ان کے اندر پیدا ہو رہی ہے یا نہیں۔ نکاح کی عمر، یعنی بلوغ تک، ان کے ساتھ یہی معاملہ رکھنا چاہیے۔ جب بالغ ہو جائیں تو اس وقت اگر یہ محسوس ہو کہ ان کے اندر اب اپنی ذمہ داریوں کے اٹھانے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے تو ان کا مال ان کے سپرد کر دینا چاہیے۔
آیت میں اس بات کا اشارہ صاف موجود ہے کہ جنسی بلوغ ہر حال میں عقلی بلوغ کو مستلزم نہیں ہے۔ ایسے بھی کتنے بالغ ہو سکتے ہیں جو بالغ ہو جانے کو تو ہو جاتے ہیں لیکن ناک لگی ہی رہ جاتی ہے۔ ایسے الھڑ اور بالغ نادانوں کے معاملے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس چیز کو ان کے مال پر قابض رہنے کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ جو کچھ کرنا چاہیے ان کی بہبود پیش نظر رکھ کر کرنا چاہیے۔
سرپرست اگر مستغنی آدمی ہو تو اس کو یتیم کے مال میں سے کچھ لینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر غریب ہو تو دستور کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دستور کے مطابق سے مراد یہ ہے کہ ذمہ داریوں کی نوعیت، جائداد کی حیثیت، مقامی حالات اور سرپرست کے معیارِ زندگی کے اعتبار سے وہ فائدہ اٹھانا معقولیت کے حدود کے اندر ہو، یہ نوعیت نہ ہو کہ ہر معقول آدمی پر یہ اثر پڑے کہ یتیم کے بالغ ہو جانے کے اندیشے سے اسراف اور جلد بازی کر کے یتیم کی جائداد ہضم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آخر میں یہ ہدایت ہوئی کہ یتیم کا مال جب اس کے حوالے کرنے لگو تو اس پر کچھ ثقہ اور معتبر لوگوں کو گواہ بھی بنا لو تاکہ کسی سوئے ظن اور نزاع کا احتمال باقی نہ رہے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھو کہ سارے معاملات کا حساب خدا کے ہاں بھی دینا ہے۔ اگر کسی قسم کی خیانت ہوئی تو ہو سکتا ہے کہ دنیا کے شاہدوں اور گواہوں کی نگاہ اس پر نہ پڑے لیکن خدا کی نگاہ کسی چیز سے بھی نہیں چوک سکتی۔
اور نکاح کی عمر کو پہنچنے تک اِن یتیموں کو جانچتے رہو، پھر اگر اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کردو، اور اِ س اندیشے سے کہ بڑے ہوجائیں گے، اُن کے مال اڑا کر اور جلد بازی کرکے کھا نہ جاؤ۔ اور (یتیم کا) جو (سرپرست) غنی ہو، اُسے چاہیے کہ (اُس کے مال سے) پرہیز کرے اور جو محتاج ہو، وہ (اپنے حق خدمت کے طور پر) دستور کے مطابق (اُس سے) فائدہ اٹھائے۔ پھر جب اُن کا مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو اُن پر گواہ ٹھیرا لو اور (یاد رکھو کہ) حساب کے لیے اللہ کافی ہے
یعنی کوئی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری اُن کے سپرد کر کے دیکھتے رہو کہ معاملات کی سوجھ بوجھ اور اپنی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی صلاحیت اُن کے اندر پیدا ہورہی ہے یا نہیں، اِس لیے کہ جنسی بلوغ ہر حال میں عقلی بلوغ کو مستلزم نہیں ہے۔ اِس طرح کے تمام معاملات میں یہ چیز لازماً پیش نظر رہنی چاہیے۔
یہ سرپرستوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ اپنی کسی خدمت کے عوض کچھ لینا اگرچہ ممنوع نہیں ہے، تاہم وہ اگر مستغنی ہوں تو بہتر یہی ہے کہ اِس سے پرہیز کریں، لیکن غریب ہوں تو یتیم کے مال سے اپنا حق خدمت دستور کے مطابق لے سکتے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’... دستور کے مطابق سے مراد یہ ہے کہ ذمہ داریوں کی نوعیت، جائداد کی حیثیت، مقامی حالات اور سرپرست کے معیار زندگی کے اعتبار سے وہ فائدہ اٹھانا جو معقولیت کے حدود کے اندر ہو، یہ نوعیت نہ ہو کہ ہر معقول آدمی پر یہ اثر پڑے کہ یتیم کے بالغ ہوجانے کے اندیشے سے اسراف اور جلد بازی کر کے یتیم کی جائداد ہضم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۲۵۵)
یعنی اِس بات کو یاد رکھو کہ ایک دن یہی حساب اللہ تعالیٰ کو بھی دینا ہے اور وہ سمیع وعلیم ہے، اُس سے کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی۔
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو۔ ایسا کبھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اِس خوف سے اُن کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے۔ پھر جب اُن کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لو، اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے۔
یعنی جب وہ سن بلوغ کے قریب پہنچ رہے ہوں تو دیکھتے رہو کہ ان کا عقلی نشوونما کیسا ہے اور ان میں اپنے معاملات کو خود اپنی ذمہ داری پر چلانے کی صلاحیت کس حد تک پیدا ہو رہی ہے۔
مال ان کے حوالہ کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں : ایک بلوغ، دوسرے رشد، یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت۔ پہلی شرط کے متعلق تو فقہائے امت میں اتفاق ہے۔ دوسری شرط کے بارے میں امام ابو حنیفہ (رح) کی رائے یہ ہے کہ اگر سن بلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رشد نہ پایا جائے تو ولی یتیم کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظام کرنا چاہیے۔ پھر خواہ رشد پایا جائے یا نہ پایا جائے، اس کا مال اس کے حوالہ کردینا چاہیے۔ اور امام ابو یوسف، امام محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ کے رائے یہ ہے کہ مال حوالہ کیے جانے کے لیے بہر حال رشد کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ غالباً موخر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرین صواب ہوگی کہ اس معاملہ میں قاضی شرع سے رجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر ثابت ہوجائے کہ اس میں رشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے۔
یعنی اپنا حق الخدمت اس حد تک لے کہ ہر غیر جانبدار معقول آدمی اس کو مناسب تسلیم کرے۔ نیز یہ کہ جو کچھ بھی حق الخدمت وہ لے چوری چھپے نہ لے بلکہ علانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے۔
اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہوجانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کر دو مال داروں کو چاہیے کہ (ان کے مال سے) بچتے رہیں ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طرح سے کھالے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو دراصل حساب لینے والا اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے
یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہارے پاس رہا، تم اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں، عام لوگوں کو تو تمہاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتہ نہ چلے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے فرمایا ” ابوذر ! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا، نہ کسی یتیم کے مال کا والی اور سر پرست ” (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ)
والدین اور اقربا کے ترکے میں سے مردوں کے لیے بھی ایک حصہ ہے اور والدین اور اقربا کے ترکے میں سے عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ۔ ایک مقررہ حصہ
قانونِ وراثت کی تمہید: یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے بعد اب یہ تمہید ہے اس قانونِ وراثت کی جس میں مردوں اور عورتوں دونوں کے حقوق، ان کے والدین و اقربا کے ترکے میں سے معین کر دیے گئے تاکہ زور آور عصبات اور وارثوں کے لیے مورث کی تمام املاک و جائداد سمیٹ کر اس پر قابض ہو جانے کا کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔ اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں بلکہ ساری دنیا میں یہ حال رہا ہے کہ یتیموں اور عورتوں کا ذکر، تمام کمزور ورثہ زور آور وارثوں کے رحم و کرم پر تھے۔ قرآن نے اس صورتِ حال کی طرف دوسرے مقام ’وَتاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ اس صورتِ حال کو ختم کر دینے کے لیے قرآن نے تمام وارثوں کے حقوق معین کر دیے۔ مردوں کے بھی، عورتوں کے بھی۔ اوپر کی آیات کی تلاوت کرتا ہوا آدمی جب اس آیت پر پہنچتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ گویا یتیموں کی برکت سے دوسروں کے حقوق معین کرنے کی بھی راہ کھل گئی۔ یعنی جو خود حقوق سے محروم تھے انہوں نے نہ صرف یہ کہ حقوق حاصل کیے بلکہ ان کی بدولت دوسروں کو بھی حقوق حاصل ہوئے۔ خاص طور پر عورتوں کا ذکر اس طرح آیا ہے گویا پہلی بار ان کو بھی مردوں کے پہلو بہ پہلو حق داروں کی صف میں جگہ ملی اور اپنے والدین و اقربا کے ترکے میں سے، خواہ کم ہو یا زیادہ، ان کا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معین حصہ فرض کر دیا گیا۔
(تمھارے) ماں باپ اور اقربا جو کچھ چھوڑیں، اُس میں مردوں کا بھی ایک حصہ ہے اور (تمھارے) ماں باپ اور اقربا جوکچھ چھوڑیں، اُس میں عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ، ایک متعین حصے کے طور پر
یہ میراث کے اُن حصوں کی طرف اشارہ ہے جو آگے کی آیات میں متعین کر دیے گئے ہیں تاکہ انسان جس چیز کا فیصلہ خود کرلینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اُس کے بارے میں اُسے رہنمائی حاصل ہوجائے اور زورآور وارثوں کے لیے مرنے والے کی تمام املاک اور جائداد سمیٹ کر قبضہ کرلینے کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں، بلکہ ساری دنیا میں یہ حال رہا ہے کہ یتیموں اور عورتوں کا کیا ذکر، تمام کمزور ورثہ زور آور وارثوں کے رحم وکرم پر تھے۔ قرآن نے اِس صورت حال کی طرف دوسرے مقام ’وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ اِس صورت حال کو ختم کر دینے کے لیے قرآن نے تمام وارثوں کے حقوق معین کردیے۔ مردوں کے بھی، عورتوں کے بھی۔ اوپر کی آیات کی تلاوت کرتا ہوا آدمی جب اِس آیت پر پہنچتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ گویا یتیموں کی برکت سے دوسروں کے حقوق معین کرنے کی بھی راہ کھل گئی۔ یعنی جو خود حقوق سے محروم تھے، اُنھوں نے نہ صرف یہ کہ حقوق حاصل کیے، بلکہ اُن کی بدولت دوسروں کوبھی حقوق حاصل ہوئے۔ خاص طور پر عورتوں کا ذکر اِس طرح آیا ہے گویا پہلی بار اُن کو بھی مردوں کے پہلو بہ پہلو حق داروں کی صف میں جگہ ملی اور اپنے والدین واقرباکے ترکے میں سے، خواہ کم ہو یا زیادہ، اُن کا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معین حصہ فرض کردیا گیا۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۲۵۶)
مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔
اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں : ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔ دوسرے یہ کہ میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتٰی کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔ تیسرے اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وارث کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا۔ خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو۔ پانچویں اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا۔
ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی (جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔
اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتوں اور بچے بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہونگے انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے (جیساکہ ٣ آیات کے بعد مذکور ہے) یہ عورت پر ظلم نہیں ہے، نہ اس کا استخفاف ہے بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اسے ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔
اور اگر تقسیم کے وقت قرابت مند، یتیم اور مسکین آ موجود ہوں تو اس میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان سے دستور کے مطابق بات کرو
حصے معین ہو جانے کے بعد قانونی حق دار تو وہی ہوں گے جو ازروئے شریعت وارث قرار پائے ہیں لیکن صلہ رحم اور خاندانی و انسانی ہمدردی کے عام حقوق پھر بھی باقی رہیں گے۔ چنانچہ وارثوں کو خطاب کر کے ہدایت ہوئی کہ اگر کسی کی وراثت تقسیم کرتے وقت قرابت مند، یتیم اور مسکین آ موجود ہوں تو ہر چند وراثت میں ان کا کوئی شرعی حق نہ ہو تاہم وہ ڈانٹے ڈپٹے نہ جائیں بلکہ ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دلا کر ان کی دل داری کی کوشش کی جائے۔ فرمایا کہ یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ جس طرح دوسروں کے بچے یتیم ہوئے ہیں اسی طرح ان کے بچے بھی یتیم ہو سکتے تھے۔ پھر سوچیں کہ اگر یہ اپنے پیچھے یتیم چھوڑتے تو ان کے دل میں ان سے متعلق کیا کچھ اندیشے ہوتے اس وجہ سے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور سیدھی بات کرنی چاہیے۔
لیکن تقسیم کے موقع پر جب قریبی اعزہ اور یتیم اور مسکین وہاں آ جائیں تو اُس میں سے اُن کو بھی کچھ دے دو اور اُن سے بھلائی کی بات کرو
یعنی اِس میں شبہ نہیں کہ ہر ایک کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے، لیکن اِس کے باوجود ، اُنھیں کچھ دے دلا کر اور اُن سے بھلائی کی بات کر کے رخصت کرنا چاہیے اور اِس طرح کے موقعوں پر چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ جس طرح کی باتیں کیا کرتے ہیں، اُس طرح کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔
اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور اُن کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو۔
خطاب میت کے وارثوں سے ہے اور انہیں ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ میراث کی تقسیم کے موقع پر جو دور نزدیک کے رشتہ دار اور کنبہ کے غریب و مسکین لوگ اور یتیم بچے آجائیں ان کے ساتھ تنگ دلی نہ برتو۔ میراث میں ازروئے شرع ان کا حصہ نہیں ہے تو نہ سہی، وسعت قلب سے کام لے کر ترکہ میں سے ان کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو، اور ان کے ساتھ وہ دل شکن باتیں نہ کرو جو ایسے مواقع پر بالعموم چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں۔
جب تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو ۔
اسے بعض علماء نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صیح تر بات یہ ہے یہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے۔ کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصے دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیار اور محبت سے کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون اور فرعون نہ بنو۔
ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو اپنے پیچھے اگر ناتوان بچے چھوڑتے تو ان کے معاملے میں بہت اندیشہ ناک ہوتے۔ پس انھیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی بات زبان سے نکالیں
حصے معین ہو جانے کے بعد قانونی حق دار تو وہی ہوں گے جو ازروئے شریعت وارث قرار پائے ہیں لیکن صلہ رحم اور خاندانی و انسانی ہمدردی کے عام حقوق پھر بھی باقی رہیں گے۔ چنانچہ وارثوں کو خطاب کر کے ہدایت ہوئی کہ اگر کسی کی وراثت تقسیم کرتے وقت قرابت مند، یتیم اور مسکین آ موجود ہوں تو ہر چند وراثت میں ان کا کوئی شرعی حق نہ ہو تاہم وہ ڈانٹے ڈپٹے نہ جائیں بلکہ ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دلا کر ان کی دل داری کی کوشش کی جائے۔ فرمایا کہ یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ جس طرح دوسروں کے بچے یتیم ہوئے ہیں اسی طرح ان کے بچے بھی یتیم ہو سکتے تھے۔ پھر سوچیں کہ اگر یہ اپنے پیچھے یتیم چھوڑتے تو ان کے دل میں ان سے متعلق کیا کچھ اندیشے ہوتے اس وجہ سے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور سیدھی بات کرنی چاہیے۔
اُن لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو اگر اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑتے تو اُن کے بارے میں اُنھیں بہت کچھ اندیشے ہوتے۔ سو چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور (ہر معاملے میں) سیدھی بات کریں
n/a
لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بےبس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچّوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔
n/a
چاہیے کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے (ننھے ننھے) ناتواں بچے چھوڑ جاتے جنکے ضائع ہوجانے کا اندیشہ رہتا (تو ان کی چاہت کیا ہوتی) پس اللہ تعالیٰ سے ڈر کر جچی تلی بات کہا کریں
بعض کے نزدیک اس کے مخطب اوصیاء ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں انکے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حقوق اللہ میں کوتاہی کرسکے نہ حقوق بنی آدم میں، اور وصیت میں وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر وہ خوب صاحب حیثیت ہے تو ایک تہائی مال کی وصیت ایسے لوگوں کے حق میں ضرور کرے جو اس کے قریبی رشتہ داروں میں غریب اور مستحق امداد ہیں یا پھر کسی دینی مقصد اور ادارے پر خرچ کرنے کی وصیت کرے تاکہ یہ مال اس کے لیے زاد آخرت بن جائے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں ہے تو اسے تہائی مال میں وصیت کرنے سے روکا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ بعد میں مفلسی اور احتیاج سے دو چار نہ ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے ورثا کو محروم کرنا چاہے تو اس سے اس کو منع کیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ اگر ان کے بچے فقر و فاقہ سے دو چار ہوجائیں تو اس کے تصور سے ان پر کیا گزرے گی۔ اس تفصیل سے مذکورہ سارے ہی مخاطبین اس کا مصداق ہیں۔ (تفسیر قرطبی وفتح القدیر)
جو لوگ ظلم و ناانصافی سے یتیموں کے مال ہڑپ کر رہے ہیں وہ تو بس اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے
آخر میں آخری تنبیہ فرمائی کہ جو لوگ ظلم و حق تلفی کی راہ سے اپنے پیٹوں میں یتیموں کے مال بھر رہے ہیں وہ انجام کار کے اعتبار سے اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور آخرت میں وہ اس آگ کو لیے ہوئے دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے۔
(سنو، خبردار رہو)، یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے
n/a
جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنّم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جنگ احد کے بعد حضرت سعد بن ربیع (رض) کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ ” یا رسول اللہ ! یہ سعد (رض) کی بچیاں ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ احد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچا نے پوری جائداد پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہ تک نہیں چھوڑا ہے۔ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا “۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔
n/a
امین احسن اصلاحی
اے لوگو، اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ اور ڈرو اُس اللہ سے جس کے واسطے سے تم باہمدگر طالب مدد ہوتے ہو اور ڈرو قطع رحم سے۔ بے شک اللہ تمھاری نگرانی کر رہا ہے
خلق منھا زوجھا کا مفہوم: ’خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا‘ کے معنی ہیں اس کی جنس سے۔ اگرچہ اس کے معنی لوگوں نے اور بھی لیے ہیں لیکن جس بنیاد پر لیے ہیں وہ نہایت کمزور ہے۔ ہم نے جو معنی لیے ہیں اس کی تائید خود قرآن میں موجود ہے۔
سورۂ نحل میں فرمایا ہے وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا (۷۲) ظاہر ہے کہ اس کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ ’’اللہ نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں۔‘‘ اس کے یہ معنی کوئی بھی نہیں لے سکتا کہ یہ بیویاں ہر ایک کے اندر سے پیدا ہوئیں۔
’تساء ل‘ کا مفہوم: ’تساء ل‘ کے معنی باہمدگر ایک دوسرے سے پوچھنے، سوال کرنے اورمانگنے کے ہیں۔ اسی سے ترقی کر کے ایک دوسرے سے طالب مدد ہونے کے معنی میں بھی یہ استعمال ہوتا ہے۔ سورۂ مومنون میں ہے
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَءِذٍ وَّلَا یَتَسَآءَ لُوْنَ (۱۰۱)
(جب صور پھونکا جائے گا تو نہ ان کے نسبی تعلقات باقی رہیں گے اور نہ وہ ایک دوسرے سے طلب مدد ہی کر سکیں گے.)
’ارحام‘ کا مفہوم: ’ارحام‘ سے مراد رحمی رشتے ہیں۔ اس کو ’اللہ ‘ پر عطف کر کے اس کی وہ اہمیت واضح فرمائی ہے جو دین میں اس کی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ خدا کے بعد پہلی چیز جو تقویٰ اور احترام کی سزاوار ہے وہ رشتۂ رحم اور اس کے حقوق ہیں۔ خدا سب کا خالق ہے اور رحم سب کے وجود میں آنے کا واسطہ اور ذریعہ ہے اس وجہ سے خدا اور رحم کے حقوق سب پر واجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بنیاد پر رحم کا یہ درجہ رکھا ہے کہ جو اس کو جوڑتا ہے خدا اس سے جڑتا ہے اور جو اس کو کاٹتا ہے خدا اس سے کٹتا ہے۔ یہ بات ایک حدیث قدسی سے بھی ثابت ہے اور یہی بات قرآن سے بھی نکلتی ہے۔
معاشرہ کی تنظیم سے متعلق بنیادی حقائق: زیر بحث آیت ایک جامع تمہید ہے ان تمام احکامات و ہدایات کے لیے جو انسانی معاشرہ کی تنظیم کے لیے اللہ تعالیٰ نے اتارے ہیں اور جو آگے آ رہے ہیں۔ اس تمہید میں جو باتیں بنیادی حقائق کی حیثیت سے واضح کی گئی ہیں ان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں جس تقویٰ کی ہدایت کی گئی ہے اس کا ایک خاص موقع و محل ہے۔ اس تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ یہ خلق آپ سے آپ وجود میں نہیں آ گئی ہے بلکہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہے جو سب کا خالق بھی ہے اور سب کا رب بھی۔ اس وجہ سے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کو ایک بے مالک اور بے راعی کا ایک آوارہ گلہ سمجھ کر اس میں دھاندلی مچائے اور اس کو اپنے ظلم و تعدی کا نشانہ بنائے بلکہ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اس کے معاملات میں انصاف اور رحم کی روش اختیار کرے ورنہ یاد رکھے کہ خدا بڑا زور آور اور بڑا منتقم و قہار ہے۔ جو اس کی مخلوق کے معاملات میں دھاندلی مچائیں گے وہ اس کے قہر و غضب سے نہ بچ سکیں گے۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔
دوسری یہ کہ تم نسل انسانی ایک ہی آدم کا گھرانا ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آدمؑ و حوا کی نسل سے پیدا کیا ہے۔ نسل آدم ہونے کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ اس پہلو سے عربی و عجمی، احمر و اسود اور افریقی و ایشیائی میں کوئی فرق نہیں، سب خدا کی مخلوق اور سب آدمؑ کی اولاد ہیں۔ خدا اور رحم کا رشتہ سب کے درمیان مشترک ہے۔ اس کا فطری تقاضا یہ ہے کہ سب ایک ہی خدا کی بندگی کرنے والے اورایک ہی مشترک گھرانے کے افراد کی طرح آپس میں حق و انصاف اور مہر و محبت کے تعلقات رکھنے والے بن کر زندگی بسر کریں۔
تیسری یہ کہ جس طرح آدمؑ تمام نسل انسانی کے باپ ہیں اسی طرح حوا تمام نسلِ انسانی کی ماں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حوا کو آدمؑ ہی کی جنس سے بنایا ہے اس وجہ سے عورت کوئی ذلیل، حقیر، فروتر اور فطری گنہگار مخلوق نہیں ہے بلکہ وہ بھی شرف انسانیت میں برابر کی شریک ہے۔ اس کو حقیر و ذلیل مخلوق سمجھ کر نہ اس کو حقوق سے محروم کیا جا سکتا نہ کمزور خیال کر کے اس کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
چوتھی یہ کہ خدا اور رحم کا واسطہ ہمیشہ سے باہمی تعاون و ہمدردی کا محرک رہا ہے۔ جس کو بھی کسی مشکل یا خطرے سے سابقہ پیش آتا ہے وہ اس میں دوسروں سے خدا او ر رحم کا واسطہ دے کر اپیل کرتا ہے اور یہ اپیل چونکہ فطرت پر مبنی ہے اس وجہ سے اکثر حالات میں یہ موثر بھی ہوتی ہے۔ لیکن خدا اور رحم کے نام پر حق مانگنے والے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ان واسطوں پر حق مانگنا حق ہے اسی طرح ان کا حق ادا کرنا بھی فرض ہے۔ جو شخص خدا اور رحم کے نام پر لینے کے لیے تو چوکس ہے لیکن دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے وہ خدا سے دھوکا بازی اور رحم سے بے وفائی کا مجرم ہے اور اس جرم کا ارتکاب وہی کر سکتا ہے جس کا دل تقویٰ کی روح سے خالی ہو۔ خدا اور رحم کے حقوق پہچاننے والے جس طرح ان ناموں سے فائدے اٹھاتے ہیں اسی طرح ان کی ذمہ داریاں بھی اٹھاتے ہیں اور درحقیقت حق طلبی و حق شناسی کا یہی توازن ہے جو صحیح اسلامی معاشرے کا اصلی جمال ہے۔ اسی حقیقت کی طرف وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ کا ٹکڑا اشارہ کر رہا ہے۔