یہ ایک عظیم سورہ ہے جس کو ہم نے اتارا ہے اوراِس کے احکام (تم پر) فرض ٹھیرائے ہیں اور اِس میں نہایت واضح تنبیہات بھی اتاری ہیں تاکہ تم یاد رکھو۔
آیت میں مبتدا محذوف ہے۔ اِس نے ساری توجہ خبر پر مرکوز کرا دی ہے جس سے سورہ کی عظمت و اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
یعنی اِس کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھو۔ یہ ہمارا اتارا ہوا کلام ہے، لہٰذا ہر مسلمان کے لیے واجب الاذعان ہے۔ اِس کے احکام کی تعمیل اِسی حیثیت سے ہونی چاہیے۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اِسی نوعیت کے احکام تھے جو پچھلی امتوں کے لیے مزلۂ قدم ثابت ہوئے اور اُنھوں نے اُن سے گریز وفرار کے راستے تلاش کرنا چاہے۔ چنانچہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ سفارشات نہیں ہیں، بلکہ خدا کے عائد کردہ فرائض اور اُس کے قطعی احکام ہیں جن کی ہر جگہ اور ہر زمانے میں بے چون وچرا تعمیل ہونی چاہیے۔ اِن میں کسی کے لیے بے پروائی یا سہل انگاری کی گنجایش نہیں ہے۔
یہ اُن تنبیہات کی طرف اشارہ ہے جو بیان احکام کے ساتھ ساتھ سورہ میں بار بار وارد ہوئی ہیں۔
یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، شاید کہ تم سبق لو۔
ان سب فقروں میں ” ہم نے ” پر زور ہے۔ یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ” ہم ” ہیں، اس لیے اسے کسی بےزور ناصح کے کلام کی طرح ایک ہلکی چیز نہ سمجھ بیٹھنا۔ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کے قبضے میں تمہاری جانیں اور قسمتیں ہیں، اور جس کی گرفت سے تم مر کر بھی نہیں چھوٹ سکتے۔ دوسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو باتیں اس سورے میں کہی گئی ہیں وہ ” سفارشات ” نہیں ہیں کہ آپ کا جی چاہے تو مانیں ورنہ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر مومن اور مسلم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ان کے مطابق عمل کرو۔
تیسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو ہدایات اس سورے میں دی جا رہی ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ صاف صاف اور کھلی کھلی ہدایات ہیں جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کرسکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ ہی میں نہیں آئی تھی تو ہم عمل کیسے کرتے۔
بس یہ اس فرمان مبارک کی تمہید (Preamble) ہے جس کے بعد احکام شروع ہوجاتے ہیں۔ اس تمہید کا انداز بیان خود بتارہا ہے کہ سورة نور کے احکام کو اللہ تعالیٰ کتنی اہمیت دے کر پیش فرما رہا ہے۔ کسی دوسری احکامی سورت کا دیباچہ اتنا پر زور نہیں ہے۔
یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں (احکام) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو۔
قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
زانی عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور خدا کے قانون کی تنفیذ کے معاملے میں ان کے ساتھ کوئی نرمی تمہیں دامن گیر نہ ہونے پائے اگر تم اللہ اور روز آخر پر سچا ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود رہے۔
زنا کی سزا: معاشرے کے انتشار و فساد میں سب سے زیادہ دخل زنا کو ہے اس لیے کہ معاشرہ کے استحکام کا انحصار رحمی رشتہ کی پاکیزگی اور اس کے ہر قسم کے اختلال و فساد سے محفوظ ہونے پر ہے اور زنا اس رشتہ کی پاکیزگی کو ختم کر کے معاشرے کو صنفی انتشار کی راہ پر ڈال دیتا ہے جس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ ایک پاکیزہ معاشرہ کے بجائے ڈھوروں ڈنگروں کا ایک گلہ بن کے رہ جاتا ہے۔ یہ اختلال و انتشار چونکہ صالح تمدن کی بنیاد کو اکھاڑ دینے والا ہے اس وجہ سے تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو ایک مستوجب سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے بھی بالکل پہلے ہی مرحلہ سے اس انتشار کو روکنے کے لیے احکام دیے۔ چنانچہ نساء کی آیات ۱۵۔۱۶ میں اس سلسلہ کے ابتدائی احکام دیے گئے جب کہ حالات حدود و تعزیرات کے نفاذ کے لیے ابھی سازگار نہیں ہوئے تھے اور ساتھ ہی یہ اشارہ فرما دیا گیا کہ اس باب میں قطعی اور آخری احکام بعد میں نازل ہوں گے۔ چنانچہ اس آیت سے وہ وعدہ پور ا ہو گیا۔ زانیہ اور زانی دونوں کے لیے یہ حکم ہوا کہ ان کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔
تنفیذ حدود کے معاملہ میں مداہنت ایمان کے منافی ہے: ’وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘ یہاں ’دین‘ سے مراد یہی حد ہے جو زنا کی بیان ہوئی ہے۔ یعنی اس کی تنفیذ کے معاملے میں کسی نرمی یا مداہنت یا چشم پوشی کو راہ نہ دی جائے۔ نہ عورت کے ساتھ کوئی نرمی برتی جائے نہ مرد کے ساتھ، نہ امیر کے ساتھ نہ غریب کے ساتھ۔ خدا کے مقرر کردہ حدود کی بے لاگ اور بے رورعایت تنفیذ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کا لازمی تقاضا ہے۔ جو لوگ اس معاملے میں مداہنت اور نرمی برتیں ان کا اللہ اور آخرت پر ایمان معتبر نہیں ہے۔ یہاں یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ سزا کے بیان میں عورت کا ذکر مرد کے ذکر پر مقدم ہے۔ اس کی وجہ جہاں یہ ہے کہ زنا عورت کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتا وہاں یہ بھی ہے کہ صنف ضعیف ہونے کے سبب سے اس کے معاملہ میں جذبۂ ہمدردی کے ابھرنے کا زیادہ امکان ہے، اس وجہ سے قرآن نے یہاں اس کے ذکر کو مقدم کر دیا تاکہ اسلوب بیان ہی سے یہ بات واضح ہوجائے کہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہے، عورت ہو یا مرد۔
حدود کے معاملہ میں یہود کی مداہنت: حدود کے معاملہ میں اس شدت کے ساتھ تاکید و تنبیہ کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ یہود نے اکثر حدودعملاً بالکل ساقط کر دیے تھے۔ زنا کی سزا ان کی شریعت میں رجم تھی لیکن عملاً صورت یہ تھی کہ اگر کوئی غریب اس جرم میں ماخوذ ہوتا تب تو اس پر یہ سزا نافذ کی جاتی لیکن کوئی امیر اس کا ارتکاب کرتا تو اس سے تعرض نہ کرتے۔ اور اب موجودہ زمانے میں تو یہ مستقل فلسفہ بن گیاہے کہ جو لوگ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں وہ کسی ذہنی بیماری کے سبب سے کرتے ہیں اس وجہ سے وہ مستحق تربیت و اصلاح اور ہمدردی کے ہیں نہ کہ کسی سخت سزا کے۔ اس فلسفہ کی یہ برکت ہے کہ خدا کی زمین گنڈوں اور بدمعاشوں سے بھر گئی ہے اور کسی شریف آدمی کی بھی جان اور عزت ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔ آپ اپنے ہی ملک کو لیجیے۔ اگر آپ اپنے قانون و امن کے ذمہ داروں کے سامنے زنا کی اس سزا کا ذکر کیجیے جو اوپر مذکور ہوئی ہے تو ایمان کے بلند بانگ دعووں کے باوجود، اس کو وحشیانہ کہیں گے اور اگر مصلحت کی وجہ سے وحشیانہ نہ کہیں تو بہرحال اس کو وحشیانہ سمجھتے ہیں لیکن ملک کی صورت حال یہ ہے کہ بلامبالغہ سال میں ہزاروں جانیں اور آبروئیں نہایت بے دردی و بے رحمی کے ساتھ، بدمعاشوں کے ہاتھوں اس طرح برباد ہوتی ہیں کہ ان کی خبریں ہر صبح کو اخباروں میں پڑھ پڑھ کر کلیجہ شق ہوتا ہے۔
چوروں اور زانیوں کے لیے تو ان حضرات کے جذبۂ رافت و ہمدردی کا یہ حال ہے کہ یہ ان کے لیے گویا خدائے رحمان و رحیم سے بھی زیادہ مہربان بن گئے ہیں کہ ان کا ہاتھ کاٹنے اور ان کو کوڑے مارنے کے تصور سے ان کا دل کانپتا ہے لیکن ان چوروں اور بدمعاشوں کے ہاتھوں خاندانوں کے خاندان جو آئے دن قتل و نہب اور بے عزتی و ناموسی کا شکار ہو رہے ہیں ان کی مظلومیت پران کے دل ذرا نہیں پسیجتے!
اسلامی حدود و تعزیرات کی برکت: اگر یہ حضرات اپنے دعوائے ایمان کی لاج رکھنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو کم از کم دنیا کے تجربات ہی سے کچھ سبق حاصل کریں۔ اسی روئے زمین پر نجد و حجاز اور یمن کی حکومتیں بھی ہیں۔ ان میں اسلامی حدود و تعزیرات نافذ ہیں۔ اس اعداد و شمار کے زمانے میں آسانی سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں چوری، رہزنی، ڈکیتی اور زنا کے کتنے واقعات ہوئے اور کتنے چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے اور کتنے زانیوں کے کوڑے لگائے گئے۔ میرے پاس اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن عینی شاہدوں کے بیانات بھی میرے علم میں ہیں اور میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے کہ وہاں نہ جرائم کا وجود ہے نہ مجرموں کا۔ یہ صرف اسلامی حدود و تعزیرات کا دبدبہ ہے کہ وہاں نہ چوری اور زنا کے واقعات ہوتے ہیں نہ چوروں کے ہاتھ کاٹنے اور زانیوں کو کوڑے مارنے کی نوبت آتی ہے۔ اگر کبھی کبھار کوئی اکا دکا کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے تو مجرم کواس کی جو سزا ملتی ہے عوام کی سبق آموزی کے لیے وہی کافی ہوتی ہے۔ اس کے مقابل میں جب ہم اپنے ملک کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو سیدنا مسیحؑ کے الفاظ میں یہ کہنا پڑتا ہے کہ’’ تم نے میرے باپ کے گھر کو چوروں اور ڈاکوؤں کا بھٹ بنا کے رکھ دیا ہے۔‘‘
اسلامی حدود و تعزیرات کا ایک اہم مقصد: ’وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘۔ اسلامی حدود و تعزیرات کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ ان سے دوسروں کو عبرت و موعظت حاصل ہو۔ چنانچہ قرآن میں ان کو ’نَکَالٌ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے معنی عبرت انگیز سزا کے ہیں۔ اس مصلحت کا تقاضا یہ ہوا کہ یہ سزائیں پبلک میں، مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں دی جائیں۔ اگریہ جیلوں کی کوٹھڑیوں میں چپ چپاتے دے دی جائیں تو ان کی یہ مصلحت فوت ہو جاتی ہے۔ ’طَآءِفَۃٌ‘ کے معنی گروہ اور جماعت کے ہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس لفظ کا اطلاق ایک شخص پر بھی ہوتا ہے۔ معلوم نہیں ان حضرات کی اس نادر تحقیق کا ماخذ کیا ہے!
آیت ۲ کے عموم پر فقہاء کی بعض قیدیں اور ان کے باب میں ہمارا نقطۂ نظر: اس آیت کے ظاہر الفاظ کا جہاں تک تعلق ہے وہ تو ہر قسم کے زانی اور ہر قسم کی زانیہ کے لیے عام ہیں لیکن ہمارے فقہاء نے اس عموم پر بعض قیدیں عاید کی ہیں جن میں سے بعض صحیح ہیں، بعض ہمارے نزدیک غلط ہیں اور بعض محتاج تفصیل ہیں۔ اگرچہ ہمارے لیے فقہی مباحث میں زیادہ گھسنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن بعض ضروری باتوں کی طرف اشارہ ناگزیر ہے:
o ایک یہ کہ اس حد کے اجراء و نفاذ کے لیے دارالاسلام یا بالفاظ دیگر اسلامی حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے نزدیک یہ شرط لازمی ہے۔ یہ احکام نازل ہی اس وقت ہوئے ہیں جب اسلامی حکومت مدینہ میں استوار ہو گئی ہے۔
o دوسری یہ کہ یہ حد صرف عاقل و بالغ پر نافذ ہو گی۔ نابالغ اور فاترالعقل اس سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ بات بھی بالکل بدیہی ہے نابالغ اور مجنون ہر قانون میں مرفوع القلم سمجھے گئے ہیں۔
o تیسری یہ کہ غلام اور لونڈی پر صرف نصف حد جاری ہو گی۔ یہ بات بھی صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اس کی دلیل سورۂ نساء آیت ۲۵ میں موجود ہے۔ اصل یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں غلاموں کا عقلی و اخلاقی معیار اتنا پست ہو چکا تھا کہ ان کو یک بیک آزادوں کی صف میں نہیں لایا جا سکتا تھا اس وجہ سے ان کے معاملات میں اسلام نے ایک تدریج ملحوظ رکھی۔ یہاں تک کہ جب ان کی ذہنی و اخلاقی حالت بلند ہو گئی تو ان کے لیے مکاتبت کا وہ قانون نازل ہو گیا جو اسی سورہ میں آگے زیربحث آئے گا۔ اس قانون کے بعد ہر ذی صلاحیت غلام کے لیے آزادی کی نہایت کشادہ راہ کھل گئی اور وہ حقوق اور ذمہ داریوں، دونوں میں، دوسروں کے ساتھ برابر کے شریک ہو گئے۔ آگے ہم اس مسئلہ کے بعض اہم پہلو واضح کریں گے۔
o چوتھی قید فقہا کے ایک گروہ نے یہ عاید کی ہے کہ یہ حد صرف مسلمان پر نافذ ہو گی، غیر مسلم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلم رعایا اپنے پرسنل لاء کے حد تک تو بے شک حکومت کے عام قوانین سے مستثنیٰ ہو گی لیکن حدود و تعزیرات سے، جن کا تعلق ملک کے امن و عدل سے ہے، اس کو مستثنیٰ رکھنا کس طرح ممکن ہے؟ اگر ایک مسلمان کو بجرم زنا آپ کوڑے لگائیں یا رجم کریں اور اسی جرم میں ایک غیرمسلم پر کوئی گرفت نہ کریں یا کوئی دوسری معمولی سزا دیں تو زنا کا سدباب ناممکن ہو گا۔ یہی حال چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کا ہے۔ اگر ایک اسلامی حکومت چوری کے جرم میں مسلمانوں کے تو ہاتھ کاٹے لیکن اپنی غیر مسلم رعایا کو اس حد سے مستثنیٰ رکھے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ مسلمانوں کو چوری سے روک کر اپنے ملک میں غیر مسلموں کو چوری کا لائسنس دے رہی ہے۔ یہ بات بالبداہت خلاف عقل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عمل سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ آنحضرتؐ نے بھی غیر مسلموں پر حدود جاری فرمائے اور خلفائے راشدین نے بھی۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق کی وضاحت ہم نے اپنی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ میں کی ہے۔ تفصیل کے طالب اس کو پڑھیں۔
o پانچویں قید تقریباً تمام فقہاء نے اس پر یہ عاید کی ہے کہ اس حد کا تعلق صرف اس زانی سے ہے جس کی شادی نہ ہوئی ہو یا شادی تو ہوئی ہو لیکن ابھی اس نے مباشرت نہ کی ہو۔ رہے وہ جن کی شادی بھی ہو چکی ہے اور جو مباشرت بھی کر چکے ہیں تو ان کے لیے سزا رجم کی ہے۔ اس رجم کا ثبوت وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عمل سے لاتے ہیں اور اس طرح وہ اس آیت میں بیان کردہ حد کو کنوارے اور کنواری کے لیے خاص کر دیتے ہیں یا یوں کہیے کہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کے حد تک اس کو سنت کے ذریعہ سے منسوخ مانتے ہیں۔
اس آیت پر فقہاء کی یہ قید بڑی اہم ہے۔ اس کو تخصیص کہیے یا نسخ، مجرد اخبار احاد کی بنا پر قرآن کے کسی حکم عام کو اس طرح مقید یامنسوخ کر دینا بہرحال ایک ایسی بات ہے جس پر دل مطمئن نہیں ہوتا۔ چنانچہ خوارج اس نسخ یا تخصیص کو نہیں مانتے، وہ رجم کا انکار کرتے ہیں اور اس حد کو، جو آیت میں مذکور ہوئی ہے، ہر قسم کے زانیوں کے لیے عام مانتے ہیں۔
ان قدیم خوارج سے زیادہ اہم مسئلہ ہمارے جدید خوارج کا ہے۔ قدیم خوارج اس اعتبار سے غنیمت تھے کہ وہ صرف رجم کے منکر تھے۔ جَلد کے منکر نہیں تھے۔ لیکن ہمارے جدید خوارج تو جَلد کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں بھلا وہ رجم کی بات کب سننے والے ہیں! اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ رجم کا ماخذ قرآن میں کیا ہے اور اس آیت کے حکم اور رجم کے حکم میں تطبیق کی کیا شکل ہے؟ میں پہلے ان روایات پر ایک نظر ڈالوں گا جن سے فقہا نے رجم پر استدلال کیا ہے۔ اس کے بعد قرآن میں رجم کی سزا کا جو ماخذ ہے اس کی نشان دہی کروں گا اور پھر یہ واضح کروں گا کہ رجم کی سزا کس طرح کے مجرموں کے لیے ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو یہ سزا دی وہ کس قماش کے لوگ تھے۔ اگرچہ بحث طویل ہو رہی ہے لیکن ان کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں ہے اس وجہ سے اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند باتیں عرض کرتا ہوں۔
رجم کی سزا کے حق میں فقہاء کے استدلال کا ماخذ: فقہاء نے جس روایت کی بنا پر شادی شدہ کے حد تک اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے وہ عبادہ بن صامت سے بدیں الفاظ مروی ہے:
عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم خذ واعنی قد جعل اللّٰہ لہن سبیلا البکر بالبکر جلد ماءۃ وتغریب عام والثیب بالثیب الجلد والرجم.
’’عبادہ بن صامت راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وقت جو کچھ بتا رہا ہوں اس کو میری طرف سے محفوظ کرو۔ زانیہ عورتوں کے باب میں اللہ نے جو حکم نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ نازل فرما دیا۔ پس اگر مرتکب زنا دونوں کنوارے ہوں تو ان کے لیے سو کوڑوں اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہے اور اگر دونوں شادی شدہ ہوں تو کوڑے اور رجم کی سزا ہے۔‘‘
روایت پر تنقید: اس روایت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس میں کنوارے زانی کے لیے ایک ہی ساتھ کوڑے مارنے کی سزا کا حکم بھی ہے اور ایک سال کی جلاوطنی کا بھی۔ اسی طرح شادہ شدہ کے لیے ایک ہی ساتھ کوڑے کی سزا بھی مذکور ہوئی ہے اور رجم کی سزا بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں سزائیں ساتھ ہی دی جائیں گی؟ اس کا جواب ہمارے فقہاء، حنفی اور شافعی دونوں، یہ دیتے ہیں کہ جَلد اور رجم دونوں سزائیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں اور حدیث میں کوڑے مارنے کی جو سزا مذکور ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے تعامل سے منسوخ ہو گئی، شادی شدہ کے لیے صرف رجم کی سزا ہے۔
غور کیجیے، عبادہ بن صامت کی یہی روایت ہے جس کے بل پر سورۂ نور کی آیت کو منسوخ ٹھہرایا گیا حالانکہ قرآن کو قرآن کے سوا کوئی دوسری چیز منسوخ نہیں کر سکتی۔ پھر جب حدیث سے بھی بات نہیں بنی تو اس کو دوسری روایات سے منسوخ کر دیا گیا۔ ہمارے فقہاء کی اسی طرح کی باتیں ہیں جن سے لوگوں کے دلوں میں دین کے متعلق بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ میں آگے چل کر دکھاؤں گاکہ اگر روایت پر قرآن کی روشنی میں غور کیا جائے تو قرآن کے ساتھ اس کی مطابقت ہو جاتی ہے۔ نہ کسی چیز کو ناسخ ماننے کی ضرورت پیش آتی ہے، نہ کسی چیز کو منسوخ۔
فقہاء کا ایک دوسرا ماخذ : دوسری روایت جو اس سلسلہ میں پیش کی جاتی ہے، دل پر جبر کر کے، میں اس کو نقل کیے دیتا ہوں:
عن ابن عباس قال قال عمرؓ قد خشیت ان یطول بالناس زمان حتی یقول قائل لا نجد الرجم فی کتاب اللّٰہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلھا اللّٰہ وقد قرأنا الشیخ والشیخۃ اذازنیا فارجموہما البتۃ.
’’ابن عباس راوی ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر کچھ زمانہ گزر جائے گا تو وہ وقت آ جائے گا کہ کہنے والے کہنے لگیں گے کہ رجم کی سزا کا ذکر اللہ کی کتاب میں تو ہم کہیں نہیں پاتے اور اس طرح وہ خدا کے ایک فریضہ کو جو اس نے نازل فرمایا ہے، ترک کر کے گمراہ ہو جائیں گے حالانکہ ہم نے خود یہ آیت تلاوت کی ہے الشیخ والشیخۃ اذازنیا فارجموہما البتۃ(بوڑھی بوڑھا جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو لازماً سنگ سار کر دو)‘‘
اس روایت پر تنقید: میں نے، جیسا کہ عرض کیا، اس روایت کو نہایت کراہت کے ساتھ، محض اس لیے نقل کیا ہے کہ اصل حقیقت تک پہنچنے کے لیے راہ کی ان الجھنوں کو صاف کرنا ضروری ہے جو زنادقہ کی پھیلائی ہوئی ہیں اور ہمارے مفسرین اور فقہاء کی سادگی کی وجہ سے تفسیر اور فقہ کی کتابوں میں بھی ان کو جگہ مل گئی ہے۔
اس روایت پر غور کیجیے تو ہر پہلو سے یہ کسی منافق کی گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور مقصود اس کے گھڑنے سے قرآن کی محفوظیت کو مشتبہ ٹھہرانا اور سادہ لوحوں کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کرنا ہے کہ قرآن کی بعض آیات قرآن سے نکال دی گئی ہیں۔
سب سے پہلے اس کی زبان پر غور کیجیے۔ کیا کوئی سلیم المذاق آدمی اس کو قرآن کی ایک آیت قرار دے سکتا ہے؟ اس کو تو قول رسولؐ قرار دینا بھی کسی خوش ذوق آدمی کے لیے ناممکن ہے چہ جائیکہ قرآن حکیم کی ایک آیت۔ آخر قرآن کے مخمل میں اس ٹاٹ کا پیوند آپ کہاں لگائیں گے! قرآن کی لاہوتی زبان اور افصح العرب و العجم کے کلام کے ساتھ اس عبارت کا کیا جوڑ ہے!
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ قرآن کی ایک آیت تھی تو اس کو نکال کس نے دیا جب کہ اس کا حکم یعنی سزائے رجم باقی ہے؟ آیت کو نکال دینے اور حکم کو باقی رکھنے کا آخر کیا تک ہے؟ اگر یہ قرآن کی ایک آیت تھی اور نکال دی گئی تو یہ اس بات کا ثبوت ہوا کہ رجم کا حکم پہلے تھا پھر منسوخ ہوگیا۔ پھر اس سے رجم کے حق میں استدلال کے کیا معنی!
تیسری بات یہ ہے کہ اس کو اگر صحیح باور بھی کر لیجیے جب بھی اس سے ہمارے فقہاء کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ ان کو ثبوت چاہیے شادی شدہ زانی کے رجم کا اور اس میں حکم بیان ہوا ہے بوڑھی زانیہ اور بوڑھے زانی کا۔ ہر شادی شدہ کا بوڑھا ہونا تو ضروری نہیں ہے! پھر دعویٰ اور دلیل میں مطابقت کہاں رہی!
بہرحال یہ روایت بالکل بے ہودہ روایت ہے اور ستم یہ ہے کہ اس کو منسوب حضرت عمرؓ کی طرف کیا گیاہے حالانکہ ان کے عہد مبارک میں اگر کوئی یہ روایت کرنے کی جرأت کرتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان کے دُرے سے نہ بچ سکتا۔ ہمارے فقہاء میں یہ بڑی کمزوری ہے کہ جب وہ اپنے حریف سے مناظرہ پر آتے ہیں تو جو اینٹ پتھر انھیں ہاتھ آجائے وہ اس کے سر پر دے مارتے ہیں۔ پھر یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی زد خود دین پر کہاں تک پڑتی ہے۔
رجم کی سزا کا ماخذ اور اس کا محل: رجم کے ثبوت میں جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں وہ یہی ہیں اور ان کا جو حال ہے وہ اوپر بیان ہو چکا۔ اب سوال یہ ہے کہ رجم کی سزا کا ماخذ کیا ہے؟ کس قسم کے مجرموں کے لیے یہ سزا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سز دی؟ ان سوالات پر غور کرنا اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ بات بالبداہت معلوم ہے کہ رجم کی سزا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض مجرموں کو دی اور خلفائے راشدین نے بھی دی۔ جو لوگ اس امر واقعی کا انکار کرتے ہیں وہ ہر چیز کا انکار کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مجھے ان کی زیادہ فکر نہیں ہے البتہ چونکہ میں خود رجم کی سزا کا قائل ہوں اس وجہ سے قرآن سے اس سزا کا ماخذ اور اس کا موقع و محل واضح کرنا اپنی ایک ذمہ داری سمجھتاہوں۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے پہلے ایک تمہید اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے۔
مجرموں کی دو قسمیں: مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جن سے چوری یا قتل یا زنا یا قذف کا جرم صادر ہو جاتا ہے لیکن ان کی نوعیت یہ نہیں ہوتی کہ وہ معاشرہ کے لیے آفت اور وبال (NUISANCE) بن جائیںیا حکومت کے لیے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کر دیں۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور جتھہ بنا کر بھی معاشرے اور حکومت دونوں کے لیے آفت اور خطرہ بن جاتے ہیں۔ پہلی قسم کے مجرموں کے لیے قرآن میں معین حدود اور قصاص کے احکام ہیں جو اسلامی حکومت انہی شرائط کے مطابق نافذ کرتی ہے جو شرائط قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ دوسری قسم کے مجرمین کی سرکوبی کے لیے احکام سورۂ مائدہ کی آیات ۳۳۔۳۴ میں دیے گئے ہیں اور ان کی تفصیل ہم ان کے محل میں کر چکے ہیں۔ وہاں ہم نے ’اِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا‘ کے تحت جو کچھ لکھا ہے اس کا ضروری حصہ ہم یہاں بھی نقل کیے دیتے ہیں تاکہ آگے کی بحث کے لیے راہ صاف ہو جائے ہمارے الفاظ یہ ہیں:
جرم کی نوعیت:
’’اللہ و رسول سے محاربہ یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ یا جتھہ جرأت و جسارت، ڈھٹائی اور بے باکی کے ساتھ اس نظامِ حق و عدل کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے جو اللہ اور رسول نے قائم فرمایا ہے۔ اس طرح کی کوشش اگر بیرونی دشمنوں کی طرف سے ہو تو اس کے مقابلے کے لیے جنگ و جہاد کے احکام تفصیل کے ساتھ الگ بیان ہوئے ہیں۔ یہاں بیرونی دشمنوں کے بجائے اسلامی حکومت کے ان اندرونی دشمنوں کی سرکوبی کے لیے تعزیرات کا ضابطہ بیان ہورہا ہے جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوتے ہوئے، عام اس سے کہ وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم، اس کے قانون اور نظم کو چیلنج کریں۔ قانون کی خلاف ورزی کی ایک شکل تو یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی جرم صادر ہو جائے۔ اس صورت میں اس کے ساتھ شریعت کے عام ضابطۂ حدود و تعزیرات کے تحت کارروائی کی جائے گی، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کی کوشش کرے۔ اپنے شروفساد سے علاقے کے امن و نظم کو درہم برہم کر دے، لوگ اس کے ہاتھوں ہر وقت اپنی جان، مال، عزت، آبرو کی طرف سے خطرے میں مبتلا رہیں۔ قتل، ڈکیتی، رہزنی، آتش زنی، اغوا، زنا، تخریب، تہریب اور اس نوع کے سنگین جرائم حکومت کے لیے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کر دیں۔ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے عام ضابطۂ حدو د و تعزیرات کے بجائے اسلامی حکومت مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی مجاز ہے۔‘‘
اس کے بعد ہم نے رجم کا ماخذ ان الفاظ میں واضح کیا ہے:
’’’اَنْ یُّقَتَّلُوْا‘ یہ کہ فساد فی الارض کے یہ مجرمین قتل کر دیے جائیں۔ یہاں لفظ ’قتلٌ‘ کے بجائے ’تَقْتِیْلٌ‘ باب تفعیل سے استعمال ہوا ہے۔ باب تفعیل معنی کی شدت اور کثرت پر دلیل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ’تقتیل‘ ’شر تقتیل‘ کے معنی پر دلیل ہو گا۔ اس سے اشارہ نکلتا ہے کہ ان کو عبرت انگیز اور سبق آموز طریقہ پر قتل کیا جائے جس سے دوسروں کو سبق حاصل ہو۔ صرف وہ طریقہ اس سے مستثنیٰ ہو گا جو شریعت میں ممنوع ہے۔ مثلاً آگ میں جلانا۔ اس کے ماسوا دوسرے طریقے جو گنڈوں اور بدمعاشوں کو عبرت دلانے، ان کو دہشت زدہ کرنے اور لوگوں کے اندر قانون و نظم کا احترام پیدا کرنے کے لیے ضروری سمجھے جائیں، حکومت ان سب کو اختیار کر سکتی ہے۔ رجم یعنی سنگسار کرنا بھی ہمارے نزدیک ’تقتیل‘ کے تحت داخل ہے۔ اس وجہ سے وہ گنڈے اور بدمعاش جو شریفوں کے عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائیں، جو زنا اور اغوا کو پیشہ بنا لیں، جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت و آبرو پر ڈاکہ ڈالیں اور کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوں ان کے لیے رجم کی سزا اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے۔ ‘‘
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں رجم کی سزا کا کوئی ذکر نہیں ہے، ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ اس سزا کا ذکر سورۂ مائدہ کی آیت ۳۳ سے ماخوذ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد رسالت میں رجم کے جو واقعات پیش آئے ان کی اس مخصوص نوعیت کے پیش نظر امام بخاریؒ نے اپنی ’الجامع الصحیح‘ میں انہیں آیت محاربہ کے تحت بیان کیا ہے اور ’کتاب المحاربین‘ ہی میں ایک ایسی روایت بھی لائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف میں بعض لوگ رجم کی سزا کا ماخذ سورۂ مائدہ کی اس آیت کوسمجھتے تھے۔
اب آئیے ایک اجمالی نظر ان بعض واقعات پر بھی ڈال لیجیے جو عہد رسالت میں اس سزا کے نفاذ کے پیش آئے ہیں۔
ماعز کے جرم کی نوعیت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں رجم کا سب سے زیادہ مشہور واقعہ ماعز کے رجم کا ہے۔ اس شخص کے بارے میں کتابوں میں جو روایات ملتی ہیں ان میں نہایت عجیب قسم کا تناقض ہے۔ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ بڑا بھلا مانس تھا اور بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت بدخصلت گنڈا تھا۔ میری رہنمائی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رجم کی سزا دلوائی اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی، اس وجہ سے میں ان روایات کو ترجیح دیتا ہوں جن سے اس کا وہ کردار سامنے آتا ہے جس کی بنا پر یہ مستحق رجم ٹھہرا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کسی غزوہ کے لیے نکلتے تو یہ چپکے سے دبک کے بیٹھ رہتا اور مردوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر شریف بہوؤں بیٹیوں کا تعاقب کرتا۔ بعض روایات سے اس تعاقب کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے کہ اس طرح تعاقب کرتا جس طرح بکرا بکریوں کا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی شرارتوں کی رپورٹ ملتی رہی، لیکن چونکہ کسی صریح قانون کی گرفت میں یہ نہیں آتا تھا اس وجہ سے آپؐ نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ بالآخر یہ قانون کی گرفت میں آ گیا۔ آپؐ نے اس کو بلوا کر نہایت تیکھے انداز میں پوچھ گچھ کی۔ وہ تاڑ گیا کہ اب بات چھپانے سے نہیں چھپ سکتی اس وجہ سے اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ جب یہ اقرار کر لیا تو آپؐ نے اس کے رجم کا حکم دے دیا اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ اس کے رجم کے بعد لوگوں کا عام تاثر، جو روایات سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ تھاکہ بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ اس شخص کی شامت نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ یہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کے بعد اس کے بارے میں لوگوں کو کف لسان کی ہدایت فرمائی، لیکن عام تاثر لوگوں کا یہی تھا۔
یہاں ہم چند روایات ان کے اصل الفاظ میں نقل کر رہے ہیں، تاکہ حسب ذیل امور بالکل واضح ہو کر سامنے آجائیں:
ایک یہ کہ ماعز نے بھلے مانسوں کی طرح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اقرار نہیں کیا تھا، بلکہ وہ اپنے قبیلہ والوں کے اصرار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، اس توقع پر آیا کہ خود حاضر ہو جانے سے غالباً وہ کسی بڑی سزا سے بچ جائے گا، حضورؐ کواس کے جرم کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی اور اس نے آپؐ کی پوچھ گچھ کے نتیجے میں اقرار جرم کیا۔
دوسرے یہ کہ اس کاکردار ایک نہایت بدخصلت گنڈے کا کردار تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کسی غزوہ کے لیے نکلتے تو مردوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر یہ جنس زدہ بدمعاشوں کی طرح عورتوں کا تعاقب کرتا۔
تیسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علی وسلم نے اس کی مغفرت کے لیے دعا کی نہ اس کا جنازہ پڑھا، جو اس بات کی شہادت ہے کہ اس کو کٹر منافق قرار دیا گیا۔
روایات یہ ہیں:
(ا).... قال: یا ابن اخی، انا اعلم الناس بھٰذا الحدیث، کنت فیمن رجم الرجل، انا لما خرجنا بہ فرجمناہ فوجد مسّ الحجارۃ، صرخ بنا: یا قوم، ردّ ونی الٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فان قومی قتلونی، وغرّونی من نفسی، واخبرونی انّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیر قاتلی، فلم ننزع عنہ حتّٰی قتلناہ، فلما رجعنا الٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واخبرناہ، قال: ’فھلّا ترکتموہ و جئتمونی بہ، لیستثبت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم منہ، فاما لترک حد فلا، قال: فعرفت وجہ الحدیث. (ابو داوٗد، کتاب الحدود، باب رجم ماعز بن مالک)
’’....حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’بھتیجے! میں سب لوگوں سے زیادہ اس بات سے واقف ہوں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس شخص کو رجم کیا‘۔ واقعہ یوں ہے کہ ہم نے اسے باہر لا کر سنگ سار کرنا شروع کیا، پتھر پڑے تو وہ چیخا: ’لوگو! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس لے چلو۔ میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھوکے میں رکھا۔ وہ مجھے یہی کہتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قتل نہیں کرائیں گے‘۔ لیکن ہم نے اسے قتل کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ پس جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹے اور آپؐ کو اس جزع فزع کے بارے میں بتایا تو آپؐ نے فرمایا: ’تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ تم اسے میرے پاس کیوں نہیں لائے‘؟ یہ آپؐ نے اس لیے فرمایا کہ آپ حقیقت معلوم کر سکیں۔ آپؐ نے یہ بات حد ساقط کرنے کے لیے نہیں فرمائی تھی، راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد یہ حدیث میری سمجھ میں آگئی۔‘‘
(ب).... فرمیناہ بجلامید الحرّۃ (یعنی الحجارۃ) حتّٰی سکت، قال: ثم قام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطیبًا من العشیّ، فقال: اوکلما انطلقنا غزاۃ فی سبیل اللّٰہ، تخلّف رجل فی عیالنا لہ، نبیب کنبیب التیس، علٰی ان لا اوتی برجل فعل ذٰلک الانکلت بہ، قال: فما استغفرلہ ولاسبّہ. (صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب من اعترف علیٰ نفسہ بالزناء)
’’’پس ہم نے اسے وادئ حَرّہ کے پتھروں سے مارا‘ یہاں تک کہ وہ ختم ہو گیا، راوی بیان کر تے ہیں کہ اسی دن عصر کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: ’کیاایسا نہیں ہوتا تھا کہ جب کبھی ہم جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے نکلتے تھے توایک ایسا شخص پیچھے ہمارے اہل و عیال میں رہ جاتا تھا جو شہوت کے جوش میں بکرے کی طرح ممیاتا تھا۔ سنو، مجھ پر لازم ہے کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والا کوئی شخص میرے پاس لایا جائے تو میں اسے عبرت ناک سزا دوں۔‘ راوی بیان کر تے ہیں کہ آپؐ نے نہ اس کے لیے مغفرت کی دعا کی اور نہ اسے برابھلا کہا۔‘‘
(ج) عن ابن عباسؓ ان ماعز بن مالک اتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: ’انّہ زنیٰ، فاعرض عنہ‘. فاعاد علیہ مرارًا، فسأل قومہ: ’أمجنون ہو؟‘ قالوا: ’لیس بہٖ باس‘. قال: ’افعلت بھا‘؟ قال: ’نعم، فامر بہ ان یُرجم. فانطلق بہٖ فرُجِم، ولم یصلّ علیہ. (ابوداوٗد، کتاب الحدود، باب رجم ماعز بن مالک)
’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ماعز بن مالک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے اقرار کیا کہ اس نے زنا کیا ہے۔ آپؐ نے اعراض کیا تو اس نے اپنا یہ اقرار کئی مرتبہ دہرایا۔ اس پر بھی آپ متامل رہے، پھر آپؐ نے اس کی قوم کے لوگوں سے پوچھا: ’کیا یہ پاگل ہے؟‘ انھوں نے کہا: ’نہیں، یہ بھلا چنگا ہے‘۔آپؐ نے اس سے پوچھا: ’کیا تم نے واقعی اس لڑکی سے بدکاری کی ہے؟‘ اس نے کہا: ’ہاں‘! پس آپؐ نے حکم دیا کہ اسے رجم کردیا جائے۔ چنانچہ اسے لے جایا گیا اور رجم کر دیا گیا اور اس کا جنازہ نہیں پڑھا گیا۔‘‘
(د).... فامر بہ فرُجم فکان الناس فیہ فریقین، قائل یقول: لقد ہلک لقد احاطت بہ خطیءَتُہٗ. (صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب من اعترف علٰی نفسہٖ بالزناء)
’’.... نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز کے بارے میں حکم دیا اور اسے رجم کر دیا گیا تو لوگ اس کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے، ان میں سے ایک کی رائے تھی کہ اس کی شامت نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ یہ ہلاک ہو گیا۔‘‘
(ہ).... فامر بہ فرجم، فسمع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رجلین من اصحابہ یقول احدہما لصاحبہٖ: انظر الٰی ہٰذا الّذی ستر اللّٰہ علیہ فلم تدعہ نفسہ حتّٰی رجم رجم الکلب. (ابوداوٗد، کتاب الحدود، باب رجم ماعز بن مالک)
’’....پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز کے بارے میں حکم دیا تواسے رجم کردیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے یہ کہتے ہوئے سنا: اس بدبخت کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانکے رکھا تھا، لیکن اس کے نفس نے اس کو نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ کتے کی طرح سنگ سار کر دیا گیا۔‘‘
غامدیہ کا واقعۂ رجم: ماعز بن مالک اسلمی کے بعد دوسرا بڑا واقعہ غامدیہ کا ہے جو قبیلۂ غامد (قبیلۂ جہنیہ کی ایک شاخ) کی ایک عورت تھی۔ اس کے بارے میں روایات میں جو تفصیلات ملتی ہیں، ان سے نہ اس کے کردار کے بارے میں کوئی معلومات حاصل ہوتی ہیں نہ یہ معلوم ہوتا کہ وہ شادی شدہ تھی۔ تھوڑی بہت تفصیلات جو بیان ہوئی ہیں، ان میں ماعز کے واقعہ ہی کی طرح بہت سے امور باہم متناقض ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں اسے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن یہ اپنے اقرار پر مصر رہی تو آپؐ نے فرمایا: ’اچھا، نہیں مانتی تو جاؤ، وضع حمل کے بعد آئیو‘۔ حمل سے فارغ ہو کر وہ بچے کے ساتھ آئی تو آپؐ نے فرمایا: ’جا اور اس کو دودھ پلا، دودھ چھٹانے کے بعد آئیو‘۔ پھر وہ دودھ چھٹانے کے بعدآئی تو اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا جو اس نے بچے کو کھلا کر حضورؐ کو دکھایا۔ تب آپؐ نے اس کے رجم کا حکم صادر فرمایا۔ اس کے برعکس بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اقرار کیا تو آپؐ نے اسے وضع حمل تک ایک انصاری کی نگرانی میں دے دیا۔ وضع حمل کے بعد اس نے اطلاع دی تو آپؐ نے فرمایا: ’اسے اس حالت میں رجم نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے چھوٹے بچے کو کوئی دودھ پلانے والا بھی نہیں‘۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا: ’اس کی رضاعت کی ذمہ داری مجھ پر ہے‘ اس کے بعد آپؐ نے بغیر کسی توقف کے اس کے رجم کا حکم دے دیا۔
روایات کے مطالعہ سے بیان کا یہ تناقض ہی سامنے نہیں آتا، یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ کوئی آزاد قسم کی عورت تھی، جس کا نہ کوئی شوہر تھا، نہ سرپرست جو اس کے کسی معاملے کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہوتا۔ وضع حمل تک کی مدت اس نے ایک انصاری کے ہاں گزاری، اس کے اقرار سے لے کر سزا کے نفاذ تک، کسی موقع پر بھی اس کے خاندان یا قبیلہ کا کوئی آدمی مقدمہ کی کارروائی کے سلسلہ میں سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ غامدیہ کے کردار کے بارے میں روایات محفوظ نہیں ہو سکیں، لیکن ہمارے نزدیک اس کامعاملہ بھی ماعز کی طرح کا تھا جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرایا۔
اس عہد کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں بہت سی ڈیرے والیاں ہوتی تھیں جو پیشہ کراتی تھیں اور ان کی سرپرستی زیادہ تر یہودی کرتے تھے جوان کی آمدنی سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اسلامی حکومت قائم ہو جانے کے بعد ان لوگوں کا بازار سرد پڑ گیا، لیکن اس قسم کے جرائم پیشہ آسانی سے باز نہیں آتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی قماش کے کچھ مرد اور بعض عورتیں زیرزمین یہ پیشہ کرتے رہے اور تنبیہ کے باوجود باز نہیں آئے۔ بالآخر جب وہ قانون کی گرفت میں آئے تو سورۂ مائدہ کی اسی آیت محاربہ کے تحت، جس کا حوالہ اوپر گزرا، آپؐ نے ان کو رجم کرایا۔
زنا بالجبر کے مجرم کو رجم کی سزا: زنابالجبر کا جرم بھی چونکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے حرابہ اور فساد فی الارض ہی کے قبیل سے ہے، اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مرتکب کو، مجرد زنا کی سزا یعنی سو کوڑے کے بجائے سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کے تحت رجم ہی کی سزا دی ہے۔ اس مقدمہ میں مجرم، نماز کے لیے جاتی ہوئی ایک خاتون پر سرراہ حملہ آور ہونے کی وجہ سے چونکہ کسی رعایت کا مستحق نہیں تھا، اس لیے آپؐ نے اس کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کے بارے میں بھی کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔ حدیث میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے:
عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ، ان امرأۃ خرجت علٰی عہد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ترید الصلٰوۃ، فتلقاھا رجل، فتجللّہا، فقضٰی حاجتہ منہا، فصاحت، وانطلق، فمرّ علیہا رجل، فقالت: ’ان ذاک فعل بی کذا او کذا. ومرّت عصابۃ من المھاجرین فقالت: ان ذٰلک الرجل فعل بی کذا او کذا، فانطلقوا، فاخذوا الرجل الذی ظنت اَنّہ وقع علیہا فاتوہا بہٖ، فقالت: ’نعم‘ ہو ہٰذا، فاتوا بہٖ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فلما امر بہ قام صاحبہا الذی وقع علیہا، فقال: یا رسول اللّٰہ، انا صاحبہا‘. فقال لہا: ’اِذہبی فقد غفر اللّٰہ لکِ‘ وقال للرجل قولًا حسنًا (قال ابوداوٗد: یعنی الرجل الماخوذ) وقال للرجل الذی وقع علیہا: ’ارجموہ‘.(ابوداوٗد، کتاب الحدود، باب فی صاحب الحدیجئی فیقر، والترمذی، ابواب الحدود)
’’علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی تو راستے میں ایک شخص نے اسے دیکھا۔ پس اس نے اس پر غلبہ پالیا اور اپنے نفس کی پیاس بجھائی۔ اس پر وہ چیخی چلائی تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اسی اثناء میں ایک آدمی کا گزر اس طرف سے ہوا تو اس عورت نے اسے بتایا کہ ایک شخص نے اس طرح اسے رسوا کیا ہے۔ یہ بات ہو رہی تھی کہ مہاجرین میں سے ایک گروہ بھی اس طرف آ نکلا۔ اس نے انہیں بھی اپنی روداد سنائی تو وہ بھاگے اور اس شخص کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت کا خیال تھا کہ اس نے اس سے زیادتی کی ہے۔ پس وہ اسے اس کے پاس لے آئے تو اس نے کہا: ہاں، یہ وہی ہے۔ چنانچہ وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے توآپؐ نے بلا تامل اسے سزا دینے کا حکم دے دیا۔ یہ دیکھ کر اصل مجرم کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا: ’اے اللہ کے رسول، یہ میں تھا جس نے اس عورت سے زیادتی کی، اس پر آپؐ نے اس عورت سے کہا: ’جا‘ اللہ نے تجھے معاف کر دیا، اور اس شخص سے کلمات خیر فرمائے (جو شبہ میں پکڑا گیا تھا) پھر اس شخص کے بارے میں ، جس نے اس عورت سے بدکاری کی تھی، فرمایا: ’اسے رجم کر دو‘۔‘‘
خلاصۂ بحث: اس ساری بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رجم کی سزا کے جو واقعات احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں، وہ عام قسم کے زانیوں کے واقعات نہیں ہیں، بلکہ ان بدقماشوں کے واقعات ہیں جو اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں، کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس فعل قبیح کو بطور پیشہ کے اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ ان کی گردن تک پہنچنے ہی والے ہیں تو اس قبیل کے مجرموں کی عام نفسیات کے مطابق اعتراف و اقرار کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں تاکہ معاشرے اور قانون، دونوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ رہی یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مجرموں کے شادی شدہ ہونے کی تحقیق بھی فرمائی، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے قوانین کی طرح اسلامی شریعت کا بھی یہ مسلمہ اصول ہے کہ حدود و تعزیرات کے نفاذ میں مجرم کے احوال کی رعایت کی جانی چاہیے۔ اس رعایت میں عمر، شادی، دماغی حالت، ماحول، غرض ہر وہ چیز جو جرم کی محرک یا اس کے ارتکاب میں رکاوٹ بن سکتی ہے، عدالت کے پیش نظر رہے گی۔ احادیث میں ’ثیب‘ و ’بکر‘ کے الفاظ آئے ہیں، ان کا اطلاق عربیت کی رو سے جس طرح شادی شدہ اور غیر شادی شدہ پر ہوتا ہے، اسی طرح پختہ عمر کے آدمی اور الہڑ نوجوان پر بھی ہوتا ہے۔ ہمارے فقہاء کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے مجرم کی حالتوں میں سے ایک حالت کو مناط حکم قرار دے دیا، درآں حالیکہ اس کا تعلق مناط حکم سے نہیں ہے، اس طرح کی چیزیں تو ہر جرم کی سزا نافذ کرتے وقت ملحوظ رکھی جاتی ہیں۔ لہٰذا آیت زیربحث کو جو لوگ منسوخ مانتے ہیں، ان کا خیال ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ قرآن کی کوئی آیت قرآن کے سوا کسی دوسری چیز سے منسوخ نہیں ہوئی ہے اور یہ ناسخ و منسوخ، دونوں قرآن میں موجود ہیں۔ منسوخ ہونا تو الگ رہا، اگر کسی آیت کی تحدید و تخصیص بھی ہوئی ہے تو اس کے قرائن و اشارات یا تو آیت کے سیاق و سباق اور اس کے موقع و محل میں مضمر ہیں یا خود قرآن کے دوسرے مقامات میں موجود ہیں۔
عبادہ بن صامتؓ کی روایت کا صحیح محل: اس روشنی میں اگر عبادہ بن صامتؓ کی روایت کی تاویل کیجیے تو اس کا بھی ایک موقع و محل نکل آتا ہے۔ وہ یوں کہ اس میں جو حرف ’و‘ ہے اس کو جمع کے بجائے تقسیم کے مفہوم میں لیجیے یعنی کوئی زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ، دونوں کی اصل سزا تو جَلد (تازیانہ) ہی ہے لیکن اگر کوئی کنوارا تازیانہ کی سزا سے قابو میں نہیں آرہا ہے تو حکومت اس کو، اگر مصلحت دیکھے، مائدہ کی مذکورہ بالا آیت کے تحت جلاوطنی کی سز ا بھی دے سکتی ہے اس لیے کہ اس آیت میں ’نفی‘ (جلاوطنی) کا اختیار بھی حکومت کو دیا گیا ہے۔ اسی طرح شادی شدہ زانی کی اصل سزا، جیسا کہ روایت سے واضح ہے، ہے تو تازیانہ ہی لیکن اگر کوئی شخص تازیانہ کی سزا سے قابو میں نہیں آرہا ہے اور معاشرے کے لیے ایک خطرہ بن چکاہے تو اس کو حکومت ’تقتیل‘ یعنی رجم کی سزا ازروئے سورۂ مائدہ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
زانی عورت اور زانی مرد، (اِن کا جرم ثابت ہو جائے) تو دونوں میں سے ہر ایک کوسو کوڑے مارو اور خدا کے اِس قانون (کو نافذ کرنے) میں اُن کے ساتھ کسی نرمی کا جذبہ تمھیں دامن گیر نہ ہونے پائے، اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر فی الواقع ایمان رکھتے ہو۔ اور اُن کو سزا دیتے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ بھی (وہاں) موجود ہونا چاہیے۔
زنا قرآن کی روسے شرک اور قتل نفس کے بعد تیسرا بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو شرائع انبیا علیہم السلام پر نازل کیے ہیں، اُن میں اِسے جرم مستلزم سزا قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی مخصوص حیثیت اور اُن پر خدا کی براہ راست حکومت کی وجہ سے زنا بزن غیر (adultery) کو اُن کی شریعت میں حرابہ قرار دے دیا گیا تھا۔ عورت کنواری ہو تو البتہ، رعایت کی ہدایت کی گئی تھی اور مرد پر مالی تاوان عائد کرکے اُسے پابند کر دیا گیا تھا کہ باقی عمر کے لیے وہ اُسے بیوی بنا کر رکھے گا۔* نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم نبوت کے بعد یہ صورت حال چونکہ تبدیل ہونے والی تھی، اِس لیے قانون میں بھی تبدیلی کردی گئی۔ چنانچہ پہلے بغیر کسی تعیین کے ایذا کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱۶ میں بیان ہوا ہے۔ اِس کے بعد سو کوڑے کی یہ سزا مقرر کی گئی جو اب ہمیشہ کے لیے خدا کا قانون ہے۔یہ اِس جرم کی انتہائی سزا ہے۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید نے اِس کے بیان میں صفت کے صیغے اختیار کیے ہیں جو وقوع فعل میں اہتمام پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ سزا صرف اُنھی مجرموں کو دی جائے گی جن سے جرم بالکل آخری صورت میں سرزد ہو جائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ چنانچہ سزا کے تحمل سے معذور، مجبور اور جرم سے بچنے کے لیے ضروری ماحول، حالات اور حفاظت سے محروم سب لوگ اِس سے یقیناً مستثنیٰ ہیں۔ قرآن مجید نے اُن عورتوں کے بارے میں جن کے مالک اُنھیں پیشہ کرنے پر مجبور کرتے تھے، پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ اِس جبر کے بعد اللہ اُن کے لیے غفور ورحیم ہے۔** اِسی طرح زمانۂ رسالت کی لونڈیوں کے بارے میں بھی اُس کا ارشاد ہے کہ خاندان کی حفاظت سے محرومی اور ناقص اخلاقی تربیت کی وجہ سے اُنھیں بھی یہ سزا نہیں دی جا سکتی، یہاں تک کہ اُس صورت میں بھی جب اُن کے مالکوں اور شوہروں نے اُنھیں پاک دامن رکھنے کا پورا اہتمام کیا ہو، اُنھیں اِس سزا کی نسبت سے آدھی سزا دی جائے گی۔ یعنی سو کے بجاے پچاس کوڑے ہی مارے جائیں گے۔***
یہ سختی اِس لیے ضروری ہے کہ معاشرے کا استحکام رحمی رشتوں کی پاکیزگی اور اُس کے ہر اختلال وفساد سے محفوظ رہنے پر منحصر ہے اور زنا اگر غور کیجیے تو اِس چیز کوہدم کر کے پورے معاشرے کو ڈھوروں اور ڈنگروں کے گلے میں تبدیل کرتا اور اِس طرح صالح تمدن کو اُس کی بنیاد ہی سے محروم کر دیتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یعنی اِس کی تنفیذ کے معاملے میں کسی نرمی یا مداہنت یا چشم پوشی کو راہ نہ دی جائے۔ نہ عورت کے ساتھ کوئی نرمی برتی جائے، نہ مرد کے ساتھ، نہ امیر کے ساتھ نہ غریب کے ساتھ۔ خدا کے مقرر کردہ حدود کی بے لاگ اور بے رو رعایت تنفیذ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا لازمی تقاضا ہے۔ جو لوگ اِس معاملے میں مداہنت اورنرمی برتیں، اُن کا اللہ اور آخرت پر ایمان معتبر نہیں ہے۔ یہاں یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ سزا کے بیان میں عورت کا ذکر مرد کے ذکر پر مقدم ہے۔ اِس کی وجہ جہاں یہ ہے کہ زنا عورت کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتا، وہاں یہ بھی ہے کہ صنف ضعیف ہونے کے سبب سے اِس کے معاملے میں جذبۂ ہمدردی کے ابھرنے کا زیادہ امکان ہے۔ اِس وجہ سے قرآن نے یہاں اِس کے ذکر کو مقدم کر دیا تاکہ اسلوب بیان ہی سے یہ بات واضح ہو جائے کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۵/ ۳۶۲)
اِس لیے کہ مجرموں کے لیے یہ فضیحت اور دیکھنے والوں کے لیے باعث عبرت وموعظت ہو اور مسلمانوں کا معاشرہ اِس کے نتیجے میں اُس اختلال سے محفوظ رہے جو زنا اُس میں پیدا کر سکتا ہے۔
_____
* استثنا ۲۲: ۲۳۔۲۹۔
** النور ۲۴: ۲۳۔
*** النساء ۴: ۲۵۔
زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔
اس مسئلے کے بہت سے قانون، اخلاقی اور تاریخی پہلو تشریح طلب ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان نہ کیا جائے تو موجودہ زمانے میں ایک آدمی کے لیے اس تشریع الہی کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے :
(١) زنا کا عام مفہوم جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے کہ ” ایک مرد اور ایک عورت بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شوہر ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں “۔ اس فعل کا اخلاقا برا ہونا، یا مذہبا گناہ ہونا، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں۔ اور اس میں بجز ان متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کردیا ہے، یا جنہوں نے خبطی پن کی اپچ کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے، کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔ اس عالمگیر اتفاق رائے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدن کا قیام، دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہوجانے میں آزاد نہ ہوں، بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو، اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی، کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور نشو و نما کے لیے کئی برس کی درد مندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور تنہا عورت اس بار کو اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے جد میں آنے کا سبب بنا ہ۔ اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن بھی برقرار نہیں رہ سکتا، کیونکہ تمدن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے، اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہے۔ اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جائے، اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدن کی یہ عمارت اٹھی ہے۔ ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم و معروف اور مسلم عہد و وفا پر مبنی نہ ہو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ انہی وجوہ سے انسان اس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب، ایک بڑی بد اخلاقی، اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے۔ اور انہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج کے ساتھ ساتھ زنا کے سدباب کی بھی کسی نہ کسی طور پر ضرور کوشش کی ہے۔ البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی و تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے، جس کی بنیاد دراصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ، کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے الجھ کر رہ گیا ہے۔
(٢) زنا کی حرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم، یعنی قانونا مستلزم سزا ہونے کا مسئلہ ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں، انہوں نے ہمیشہ زنا، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کو بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں۔ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدن خراب کرتا گیا ہے۔ رویہ نرم ہوتا چلا گیا ہے۔
اس معاملہ میں اولین تساہل جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا، یہ تھا کہ ” محض زنا ” (Fornication) اور ” زنا بزن غیر ” (Adultery) میں فرق کر کے، اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی اور صرف موخر الذکر کو جرم مسلتزم سزا قرار دیا گیا۔
محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ” کوئی مرد خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو “۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں، بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیا ہے۔ عورت اگر بےشوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے، قطع نظر اس سے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ قدیم مصر، بابل، آشور (اسیریا) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی۔ اسی قاعدے کو یونان اور روم نے اختیار کیا، اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہوگئے۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے۔ کتاب ” خروج ” میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :
” اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو، جس کی نسبت (یعنی منگنی) نہ ہوئی ہو، پھسلا کر اس سے مباشرت کرلے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرلے، لیکن اگر اس کا باپ ہرگز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اسے دے، تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق (یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو) اسے نقدی دے “۔ (باب 22 ۔ آیت 16 ۔ 17)
کتاب ” استثناء ” میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے، اور پھر تصریح کی گئی ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کو پچاس مثقال چاندی (تقریبا 55 روپے) تاوان دلوایا جائے (باب 22 ۔ آیت 28 ۔ 29) البتہ اگر کوئی شخص کاہن (یعنی پروہت، Priest) کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے لیے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی، (Everymans Talmud, p 319-2C)
یہ تخیل ہندوؤں کے تخیل سے کس قدر مشابہ ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے منو کی دھرم شاستر سے مقابلہ کر کے دیکھیے، وہاں لکھا ہے کہ :
” جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضا مندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لڑکی کا باپ راضی ہو تو وہ اس کو معاوضہ دے کر شادی کرلے۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے “۔ (ادھیائے 8 اشلوک 365 ۔ 366) اور یہ سزا زندہ جلا دیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جاسکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو (اشلوک 377)
دراصل ان سب قوانین میں زنا بزن غیر ہی اصل اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص (خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے، بلکہ یہ تھی کہ ان دونوں نے ملک کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کردیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا پڑے جو اس کا نہیں ہے۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاط نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خرچ پر پلنا اور اس کا وارث ہونا اصل بنائے جرم تھا جس کی وجہ سے عورت اور مرد دونوں مجرم قرار پاتے تھے۔ مصریوں کے ہاں اس کی سزا یہ تھی کہ مرد کو لاٹھیوں سے خوب پیٹا جائے اور عورت کی سزا یہ تھی کہ اس کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے اور مرد کی یہ کہ اسے لوہے کے گرم پلنگ پر لٹا کر چاروں طرف آگ جلا دی جائے۔ یونان اور روم میں ابتداء ایک مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتے دیکھ لے تو اسے قتل کردے، یا چاہے تو اس سے مالی تاوان وصول کرلے۔ پھر پہلی صدی قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے یہ قانون مقرر کیا کہ مرد کی آدھی جائداد ضبط کر کے اسے جلا وطن کردیا جائے، اور عورت کا آدھا مہر ساقط اور اس کی 1/3 جائداد ضبط کر کے اسے بھی مملکت کے کسی دور دراز حصے میں بھیج دیا جائے۔ قسطنطین نے اس قانون کو بدل کر عورت اور مرد دونوں کے لیے سزائے موت مقرر کی۔ لیو (Leo) اور مارسین (Marcian) کے دور میں اس سزا کو حبس دوام میں تبدیل کردیا گیا، پھر قیصر جسٹینین نے اس میں مزید تخفیف کر کے یہ قاعدہ مقرر کردیا کہ عورت کو کوڑوں سے پیٹ کر کسی راہب خانے میں ڈال دیا جائے اور اس کے شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ چاہے تو دو سال کے اندر اسے نکلوا لے، ورنہ ساری عمر وہیں پڑا رہنے دے۔
یہودی قانون میں زنا بزن غیر کے متعلق جو احکام پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں :
” اگر کوئی کسی ایسی عورت سے صحبت کرے جو لونڈی اور کسی شخص کی منگیتر ہو اور نہ تو اس کا فدیہ ہی دیا گیا ہو اور نہ وہ آزاد کی گئی ہو، تو ان دونوں کو سزا ملے، لیکن وہ جان سے نہ مارے جائیں اس لیے کہ عورت آزاد نہ تھی “۔ (احبار 19 ۔ 20)
” جو شخص دوسرے کی بیوی سے، یعنی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں “۔ (احبار 20 ۔ 10)
” اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں “۔ (استثناء 22 ۔ 22)
اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہوگئی ہو (یعنی اس کی منگنی ہو) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پاکر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کردینا کہ وہ مرجائیں۔ لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسائے کی بیوی کو بےحرمت کیا، پر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہوچکی ہو، کسی میدان یا کھیت میں مل جائے اور وہ آدمی جبرا اس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے پر اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا “۔ (استثناء 22 ۔ 22 تا 26)
لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے عہد سے بہت پہلے یہودی علماء، فقہاء، امراء اور عوام سب اس قانون کو عملا منسوخ کرچکے تھے۔ یہ اگرچہ بائیبل میں لکھا ہوا تھا اور خدائی حکم اسی کو سمجھا جاتا تھا، مگر اسے عملا نافذ کرنے کا کوئی روادار نہ تھا، حتی کہ یہودیوں کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر تک نہ پائی جاتی تھی کہ یہ حکم کبھی نافذ کیا گیا ہو۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب دعوت حق لے کر اٹھے اور علماء یہود نے دیکھا کہ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہورہی ہے تو وہ ایک چال کے طور پر ایک زانیہ عورت کو آپ کے پاس پکڑ لائے اور کہا اس کا فیصلہ فرمائیے (یوحنا باب 8 ۔ آیت 1 ۔ 11) اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ کو کنویں یا کھائی دونوں میں سے کسی ایک میں کودنے پر مجبور کردیں۔ اگر آپ رجم کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں تو آپ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ لیجیے، یہ نرالے پیغمبر صاحب تشریف لائے ہیں جنہوں نے دنیوی مصلحت کی خاطر خدائی قانون بدل ڈالا۔ اور اگر آپ رجم کا حکم دیں تو ایک طرف رومی قانون سے آپ کو ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف قوم سے کہا جائے کہ مانوان پیغمبر صاحب کو، دیکھ لینا، اب توراۃ کی پوری شریعت تمہاری پیٹھوں اور جانوں پر برسے گی۔ لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو انہی پر الٹ دیا۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے۔ یہ سنتے ہی فقیہوں کی ساری بھیڑ چھٹ گئی۔ ایک ایک منہ چھپا کر رخصت ہوگیا اور ” حاملات شرح متین ” کی اخلاقی حالت بالکل برہنہ ہو کر رہ گئی۔ پھر جب عورت تنہا کھڑی رہ گئی تو آپ نے اسے نصیحت فرمائی اور توبہ کرا کے رخصت کردیا، کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ اس کے مقدمے کا فیصلہ کرتے نہ اس پر کوئی شہادت قائم ہوئی تھی اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانون الہی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے اور آپ کے چند اور متفرق اقوال سے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے۔ عیسائیوں نے غلط استنباط کر کے زنا کے جرم کا ایک اور قصور قائم کرلیا۔ ان کے ہاں زنا اگر غیر شادی شدہ مرد، غیر شادی شدہ عورت سے کرے تو یہ گناہ تو ہے، مگر جرم مستلزم سزا نہیں ہے۔ اور اگر اس فعل کا کوئی ایک فریق خواہ وہ عورت ہو یا مرد، شادی شدہ ہو یا دونوں شادی شدہ ہوں، تو یہ جرم ہے، مگر اس کو جرم بنانے والی چیز دراصل ” عہد شکنی ” ہے نہ کہ محض زنا۔ ان کے نزدیک جس نے بھی شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکاب کیا وہ اس لیے مجرم ہے کہ اس نے اس عہد وفا کو توڑ دیا جو قربان گاہ کے سامنے اس نے پادری کے توسط سے اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ باندھا تھا۔ مگر اس جرم کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ زانی مرد کی بیوی اپنے شوہر کے خلاف بےوفائی کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کرلے اور زانیہ عورت کا شوہر ایک طرف اپنی بیوی پر دعوی کر کے تفریق کی ڈگری لے اور دوسری طرف اس شخص سے بھی تاوان لینے کا حق دار ہو جس نے اس کی بیوی کو خراب کیا۔ بس یہ سزا ہے جو مسیحی قانون شادی شدہ زانیوں اور زانیات کو دیتا ہے، اور غضب یہ ہے کہ یہ سزا بھی دو دھاری تلوار ہے۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے خلاف ” بےوفائی ” کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کرلے تو وہ بےوفا شوہر سے تو نجات حاصل کرلے گی، لیکن مسیحی قانون کی رو سے پھر وہ عمر بھر کوئی دوسرا نکاح نہ کرسکے گی۔ اور ایسا ہی حشر اس مرد کا بھی ہوگا جو بیوی پر ” بےوفائی ” کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری لے، کیونکہ مسیحی قانون اس کو بھی نکاح ثانی کا حق نہیں دیتا۔ گویا زوجین میں سے جس کو بھی تمام عمر راہب بن کر رہنا ہو وہ اپنے شریک زندگی کی بےوفائی کا شکوہ مسیحی عدالت میں لے جائے۔
موجودہ زمانے کے مغربی قوانین جن کی پیروی اب خود مسلمانوں کے بھی بیشتر ممالک کر رہے ہیں، انہی مختلف تصورات پر مبنی ہیں۔ ان کے نزدیک زنا عیب یا بد اخلاقی یا گناہ جو کچھ بھی ہو، جرم بہرحال نہیں ہے۔ اسے اگر کوئی چیز جرم بنا سکتی ہے تو وہ جبر ہے، جبکہ فریق ثانی کی مرضی کے خلاف زبردستی اس سے مباشرت کی جائے۔ رہا کسی شادی شدہ مرد کا ارتکاب زنا، تو وہ اگر وجہ شکایت ہے تو اس کی بیوی کے لیے ہے، وہ چاہے تو اس کا ثبوت دے کر طلاق حاصل کرلے۔ اور زنا کی مرتکب اگر شادی شدہ عورت ہے تو اس کے شوہر کو نہ صرف اس کے خلاف بلکہ زانی مرد کے خلاف بھی وجہ شکایت پیدا ہوتی ہے، اور دونوں پر دعوی کر کے وہ بیوی سے طلاق اور زانی مرد سے تاوان وصول کرسکتا ہے۔
(٣) اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جرم مستلزم سزا قرار دیتا ہے اور شادی شدہ ہو کر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے، نہ اس بنا پر کہ مجرم نے کسی سے ” عہد شکنی ” کی یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی، بلکہ اس بنا پر کہ اس کے لیے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک جائز ذریعہ موجود تھا، اور پھر بھی اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے جس کی اگر آزادی ہوجائے تو ایک طرف نوع انسانی کی اور دوسرے طرف تمدن انسانی کی جڑ کٹ جائے۔ نوع کے بقاء اور تمدن کے قیام، دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق صرف قانون کے مطابق قابل اعتماد رابطے تک محدود ہو۔ اور اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہے اگر اس کے ساتھ ساتھ آزادانہ تعلق کی بھی گنجائش موجود رہے، کیونکہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالے بغیر جہاں لوگوں کو خواہشات نفس کی تسکین کے مواقع حاصل رہیں، وہاں ان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ پھر اتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بیٹھنے کے لیے ٹکٹ کی شرط بےمعنی ہے اگر بلا ٹکٹ سفر کرنے کی آزادی بھی لوگوں کو حاصل رہے۔ ٹکٹ کی شرط اگر ضروری ہے تو اسے موثر بنانے کے لیے بلا ٹکٹ سفر کو جرم ہونا چاہیے۔ پھر اگر کوئی شخص پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بےٹکٹ سفر کرتے تو کم درجے کا مجرم ہے، اور مالدار ہوتے ہوئے بھی یہ حرکت کرے تو جرم اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔
(٤) اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیر کے ہتھیار پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ اس کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے، اور یہ قانون تعزیر اس نے محض ایک آخری چارہ کار کے طور پر تجویز کی ہے۔ اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں اور کسی کو اس پر سزا دینے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے، اس کے دل میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے، اسے آخرت کی باز پرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوٹ سکتا، اس میں قانون الہی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے، اور پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بےعصمتی ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ سخت باز پرس کرے گا۔ یہ مضمون سارے قرآن میں جگہ جگہ آپ کے سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد وہ آدمی کے لیے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہے۔ دل نہ ملیں تو مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے۔ اور ناموافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تاکہ یا تو مصالحت ہوجائے، یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جہاں دل ملے نکاح کرلیں۔ یہ سب کچھ آپ سورة بقرہ، سورة نساء، اور سورة طلاق میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور اسی سورة نور میں آپ ابھی دیکھیں گے کہ مردوں اور عورتوں کے بن بیا ہے بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کردیے جائیں، حتی کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے۔ پھر وہ معاشرے سے ان اسباب کا خاتمہ کرتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے، اس کی تحریک کرنے والے، اور اس کے لیے مواقع پیدا کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ زنا کی سزا بیان کرنے سے ایک سال پہلے سورة احزاب میں عورتوں کو حکم دے دیا گیا تھا کہ گھر سے نکلیں تو چادریں اوڑھ کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں، اور مسلمان عورتوں کے لیے جس نبی کا گھر نمونے کا گھر تھا اس کی عورتوں کو ہدایت کردی گئی تھی کہ گھروں میں وقار و سکینت کے ساتھ بیٹھو، اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش نہ کرو، اور باہر کے مرد تم سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں۔ یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے ان تمام صاحب ایمان عورتوں میں پھیل گیا جن کے نزدیک زمانہ جاہلیت کی بےحیا عورتیں نہیں بلکہ نبی کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں۔ اس طرح فوجداری قانون کی سزا مقرر کرنے سے پہلے عورتوں اور مردوں کی خلط ملط معاشرت بند کی گئی، بنی سنوری عورتوں کا باہر نکلنا بند کیا گیا، اور ان اسباب و ذرائع کا دروازہ بند کردیا گیا جو زنا کے مواقع اور اس کی آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔ ان سب کے بعد جب زنا کی فوجداری سزا مقرر کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اسی سورة نور میں اشاعت فحش کو بھی روکا جارہا ہے، قحبہ گری (Prostitution) کی قانونی بندش بھی کی جارہی ہے، عورتوں اور مردوں پر بدکاری کے بےثبوت الزام لگانے اور ان کے چرچے کرنے کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی جارہی ہے، غض بصر کا حکم دے کر نگاہوں پر پہرے بھی بٹھائے جارہے ہیں تاکہ دیدہ بازی سے حسن پرستی تک اور حسن پرستی سے عشق بازی تک نوبت نہ پہنچے، اور عورتوں کو یہ حکم بھی دیا جارہا ہے کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کے درمیان تمیز کریں اور غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔ اس سے آپ اس پوری اصلاحی سکیم کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ایک جز کے طور پر زنا کی قانونی سزا مقرر کی گئی ہے۔ یہ سزا اس لیے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیر اصلاح کے باوجود جو شریر النفس لوگ کھلے ہوئے جائز مواقع کو چھوڑ کر ناجائز طریقے سے ہی اپنی خواہش نفس پوری کرنے پر اصرار کریں ان کی کھال ادھیڑ دی جائے، اور ایک بدکار کو سزا دے کر معاشرے کے ان بہت سے لوگوں کو نفسیاتی آپریشن کردیا جائے جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہوں۔ یہ سزا محض ایک مجرم کی عقوبت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بالفعل اعلان بھی ہے کہ مسلم معاشرہ بدکاروں کی تفریح گاہ نہیں ہے جس میں ذواقین اور ذواقات اخلاقی قیود سے آزاد ہو کر مزے لوٹتے پھریں۔ اس نقطہ نظر سے کوئی شخص اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو سمجھے تو وہ بآسانی محسوس کرلے گا کہ اس پوری اسکیم کا ایک جز بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جاسکتا ہے اور نہ کم و بیش کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ردو بدل کا خیال یا تو وہ نادان کرسکتا ہے جو اسے سمجھنے کی صلاحیت رکھے بغیر مصلح بن بیٹھا ہو، یا پھر وہ مفسد ایسا کرسکتا ہے جس کی اصل نیت اس مقصد کو بدل دینے کی ہو جس کے لیے یہ اسکیم حکیم مطلق نے تجویز کی ہے۔
بقیہ تفسیر ریکارڈ نمبر 2819 پر ملاحظہ کریں
زنا کار عورت و مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔
بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورة النساء آیت۔ ١٥ میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورة نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقرر کردی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحیح مسلم) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔
تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بد قسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ درانحالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔
زانی نہ نکاح کرنے پائے مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور کسی زانیہ سے نکاح نہ کرے مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور اہل ایمان پر یہ چیز حرام ٹھہرائی گئی ہے۔
خبر نہی کے مفہوم میں: ’لَا یَنْکِحُ‘ یہاں خبر کے مفہوم میں نہیں بلکہ نہی کے مفہوم میں ہے۔ نہی کے اندر جب نہی کے ساتھ ارشاد و موعظت کا مفہوم بھی ہو تو وہ خبر کی صورت میں آتی ہے۔ اس اسلوب کی وضاحت بقرہ ۲۷۲ کے تحت ہو چکی ہے۔ یہاں مقصود مسلم معاشرہ کی حس ایمانی کو بیدار کرنا ہے کہ تمہارے اندر زنا سے وہ نفرت و بیزاری ہونی چاہیے کہ کوئی زانی اگر تمہارے اندر نکاح کرنا چاہے تو کوئی صاحب ایمان اس کو اپنی بیٹی دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس کو اگر نکاح کے لیے ملے تو کوئی زانیہ یا مشرکہ ہی ملے، کوئی مومنہ اپنے آپ کو اس کے حبالۂ عقد میں دینے پر راضی نہ ہو۔ اسی طرح اگر کوئی زانیہ ہو تو کوئی باایمان اس سے نکاح نہ کرے۔ اس کو اگر کوئی نکاح کے لیے ملے تو کوئی زانی یا مشرک ہی ملے، کوئی مسلمان اس نجاست کو اپنے گھر میں لانے پر راضی نہ ہو۔ فرمایا کہ ’وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ‘ زانیوں اور زانیات کے ساتھ ازدواجی رشتہ اہل ایمان کے لیے حرام ہے۔
زنا اور شرک کی باہمی مشابہت: آیت میں زانی اور مشرک اور زانیہ اور مشرکہ کا ایک ساتھ ذکر بڑا معنی خیز ہے۔ زنا اور شرک کی باہمی مشابہت پر ہم اس کتاب میں جگہ جگہ لکھ چکے ہیں۔ قدیم آسمانی صحیفوں میں مشرک کو چھنال عورت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ہم اس کے محل میں اس تشبیہ کی بلاغت واضح کر چکے ہیں۔ زنا اسی طرح کی اخلاقی نجاست ہے جس طرح کی عقائدی نجاست شرک ہے۔ قرآن میں اسی وصفی اشتراک کی وجہ سے شرک اور مشرکین کو نجس کہا بھی گیا ہے۔
مسلم معاشرہ کی حس ایمانی کی بیداری کی ضرورت: معاشرہ کی ایمانی حس کو بیدار کرنے کی یہ ضرورت اس وجہ سے تھی کہ مجرد قانون، خواہ وہ کیسا ہی بے لاگ اور حکیمانہ ہو، معاشرہ کی حفاظت اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک خود معاشرہ کے اندر برائی سے نفرت موجود نہ ہو۔ ہر قانون کے نفاذ کے لیے، بالخصوص جب کہ وہ ایک سخت قانون بھی ہو، لازماً ایسی شرطیں ہوتی ہیں کہ بہت سے مجرمین اپنے آپ کو اس کی زد سے بچائے رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے مجرمین سے نمٹنا خود معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنی آنکھوں میں جگہ نہ دے بلکہ وہ جہاں بھی رہیں نِکّو بن کے رہنے پر مجبور ہوں۔ اگر وہ کسی شریف مسلمان سے رشتہ داری کے خواہش مند ہوں تو وہ ان کی درخواست ٹھکرا دے یہاں تک کہ اس طرح کے لوگ کسی شریف خاندان میں قرابت کا حوصلہ ہی نہ کر سکیں۔ یہ بیداری جرائم کے سدباب کے لیے ناگزیر شے ہے۔ اس دور کی آفات میں سے صرف یہی ایک آفت نہیں ہے کہ حدود و تعزیرات اسلامی نہیں ہیں بلکہ اس سے بڑی آفت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر حس اسلامی نہیں ہے۔ اس زمانے میں اگر کوئی اپنی لڑکی کے لیے بر تلاش کرتا ہے تو اس کے اندر تمام وہ اوصاف تلاش کرتا ہے جو دنیاوی وجاہت کے پہلو سے ضروری خیال کیے جاتے ہیں لیکن بہت تھوڑے لوگ اب ایسے رہ گئے ہیں جو معاملہ کے اس پہلو کو نگاہ میں رکھتے ہوں جس کی طرف آیت میں رہنمائی فرمائی گئی ہے۔
(اِس سزا کے بعد) یہ زانی کسی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے گا اور اِس زانیہ کو بھی کوئی زانی یا مشرک ہی اپنے نکاح میں لائے گا۔ ایمان والوں پر اِسے حرام کر دیا گیا ہے۔
یعنی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ پہلے ’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ‘ کے بعد اعادۂ معرف باللام کا قاعدہ اِسی پر دلالت کرتا ہے۔ کسی زانی یا زانیہ کی شادی پر ظاہر ہے کہ قانوناً پابندی اُسی صورت میں لگائی جا سکتی ہے، جب اُس کا جرم ثابت ہو جائے۔
نکاح کے لیے اسلامی قانون میں یہ شرط ہے کہ وہ صرف اُنھی لوگوں کے مابین ہو سکتا ہے جو پاک دامن ہوں یا توبہ واصلاح کے بعد پاک دامنی اختیار کر لیں۔ قرآن کا یہ ارشاد اُسی کی فرع ہے۔ آیت سے واضح ہے کہ زانی اگر ثبوت جرم کے بعد سزا کا مستحق قرار پا جائے تو اُسے کسی عفیفہ سے نکاح کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہی معاملہ زانیہ کے ساتھ ہو گا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اِس کے بعد وہ اگر نکاح کرنا چاہیں تو اُنھیں نکاح کے لیے کوئی زانی یا مشرک اور زانیہ یا مشرکہ ہی ملے۔ کسی مومنہ کے لیے وہ ہرگز اِس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ اپنے آپ کو کسی زانی کے حبالۂ عقد میں دینے کے لیے راضی ہو اور نہ کسی مومن کے لیے یہ جائز رکھتا ہے کہ وہ اِس نجاست کو اپنے گھر میں لانے کے لیے تیار ہو جائے۔ اِس طرح کا ہر نکاح باطل ہے۔
زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یہ مشرک۔ اور یہ حرام کردیا گیا ہے اہل ایمان پر۔
یعنی زانی غیر تائب کے لیے اگر موزوں ہے تو زانیہ ہی موزوں ہے، یا پھر مشرکہ۔ کسی مومنہ صالحہ کے لیے وہ موزوں نہیں ہے، اور حرام ہے اہل ایمان کے لیے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی لڑکیاں ایسے فاجروں کو دیں۔ اسی طرح زانیہ (غیر تائبہ) عورتوں کے لیے اگر موزوں ہیں تو ان ہی جیسے زانی یا پھر مشرک۔ کسی مومن صالح کے لیے وہ موزوں نہیں ہیں، اور حرام ہے مومنوں کے لیے کہ جن عورتوں کی بد چلنی کا حال انہیں معلوم ہو ان سے وہ دانستہ نکاح کریں۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان ہی مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو اپنی بری روش پر قائم ہوں۔ جو لوگ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ توبہ و اصلاح کے بعد ” زانی ” ہونے کی صفت ان کے ساتھ لگی نہیں رہتی۔
زانی کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کا مطلب امام احمد بن حنبل نے یہ لیا ہے کہ سرے سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد محض ممانعت ہے، نہ یہ کہ اس حکم ممانعت کے خلاف اگر کوئی نکاح کرے تو وہ قانوناً نکاح ہی نہ ہو اور اس نکاح کے باوجود فریقین زانی شمار کیے جائیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ الحرام لا یحرم الحلال، ” حرام حلال کو حرام نہیں کردیتا ” (طبرانی، دارقطنی) یعنی ایک غیر قانونی فعل کسی دوسرے قانونی فعل کو غیر قانونی نہیں بنا دیتا لہٰذا کسی شخص کا ارتکاب زنا اس بات کا موجب نہیں ہوسکتا کہ وہ نکاح بھی کرے تو اس کا شمار زنا ہی میں ہو اور معاہدہ نکاح کا دوسرا فریق جو بد کار نہیں ہے، وہ بھی بد کار قرار پائے۔ اصولاً بغاوت کے سوا کوئی غیر قانونی فعل اپنے مرتکب کو خارج از حدود قانون (Out law) نہیں بنا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی فعل بھی قانونی نہ ہو سکے۔ اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر اگر آیت پر غور کیا جائے تو اصل منشا صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی بد کاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے بد کاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے، حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے۔
اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے، اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے۔ آیت کا منشا دراصل یہ بتانا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے کے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو۔ اسے یا تو اپنے ہی جیسے زانیوں میں جانا چاہیے، یا پھر ان مشرکوں میں جو سرے سے احکام الٰہی پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے۔
آیت کے منشا کی صحیح ترجمانی وہ احادیث کرتی ہیں جو اس سلسلے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں۔ مسند احمد اور نسائی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک عورت ام مہزول نامی تھی جو قحبہ گری کا پیشہ کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی۔ آپ نے منع فرمایا اور یہی آیت پڑھی۔ ترمذی اور ابوداؤد میں ہے کہ مرثد بن ابی مرثد ایک صحابی تھے جن کے زمانہ جاہلیت میں مکہ کی ایک بد کار عورت عناق سے ناجائز تعلقات رہ چکے تھے۔ بعد میں انہوں نے چاہا کہ اس سے نکاح کرلیں اور حضور سے اجازت مانگی۔ دو دفعہ پوچھنے پر آپ خاموش رہے۔ تیسری دفعہ پھر پوچھا تو آپ نے فرمایا : یا مرثد، الزانی لا ینکح الا زانیۃ او مشرکۃ فلا تنکحھا۔ اس کے علاوہ متعدد روایات حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جو شخص دیوث ہو ( یعنی جسے معلوم ہو کہ اس کی بیوی بد کار ہے اور یہ جان کر بھی وہ اس کا شوہر بنا رہے) وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا “۔ (احمد، نسائی، ابو داؤد اور طیالسی) ۔ شیخین، ابوبکر و عمر (رض) کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جو غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے الزام میں گرفتار ہوتے ان کو وہ پہلے سزائے تازیانہ دیتے تھے اور پھر ان ہی کا آپس میں نکاح کردیتے تھے۔ ابن عمر کی روایت ہے کہ ایک روز ایک شخص بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آیا اور کچھ اس طرح بات کرنے لگا کہ اس کی زبان پوری طرح کھلتی نہ تھی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ اسے الگ لے جا کر معاملہ پوچھو۔ حضرت عمر (رض) کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا، وہ اس کی لڑکی سے ملوث ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : قبحک اللہ، الا سترت علی ابنتک، ” تیرا برا ہو، تو نے اپنی لڑکی کا پردہ ڈھانک نہ دیا ” ؟ آخر کار لڑکے اور لڑکی پر مقدمہ قائم ہوا، دونوں پر حد جاری کی گئی اور پھر ان دونوں کا باہم نکاح کر کے حضرت ابوبکر (رض) نے ایک سال کے لیے ان کو شہر بدر کردیا۔ ایسے اور چند واقعات قاضی ابوبکر ابن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں نقل کیے ہیں (جلد 2 ۔ ص 86) ۔
زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا
اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں، پھر اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کریں تو ان کو اَسّی کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔ یہی لوگ اصلی فاسق ہیں۔
قذف کے معاملہ میں شہادت اور سزا کا قانون: اب یہ قذف کے معاملہ میں شہادت اور سزا کا قانون بیان ہو رہا ہے کہ شریف اور آزاد مومنات پر جو لوگ زنا کی تہمت لگائیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جرم کے چار عینی شاہد پیش کریں۔ اگر وہ چار گواہ معتبر نہ پیش کر سکیں تو پھر حکم ہے کہ ان کو اسّی کوڑے مارو اور ہمیشہ کے لیے ان کو ساقط الشہادت قرار دے دو۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اسلامی معاشرہ میں کسی کا ہمیشہ کے لیے مردود الشہادۃ قرار دے دیا جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ معاشرے کے اندر یہ اس کی عرفی حیثیت کے بالکل ختم ہو جانے کے ہم معنی ہے۔ اس امت کا اصلی مرتبہ یہ ہے کہ یہ ’شُھَدَآءُ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ‘ ہے۔ اگر کوئی شخص ساقط الشہادت قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس امت کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اس کو جو اصلی سرفرازی حاصل ہوئی تھی وہ اس نے کھو دی۔
’اَلَّذِیْنَ‘ اگرچہ مذکر کے لیے آتا ہے لیکن اگر کوئی عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس حکم سے مستثنیٰ رہے اس وجہ سے یہ لفظ عورت اور مرد دونوں کے لیے علیٰ سبیل التغلیب عام ہو گا۔
لفظ ’مُحْصَنٰتِ‘ اس طرح کے سیاق میں ’حرایر‘ یعنی لونڈیوں کے مقابل میں شریف زادیوں کے لیے آتا ہے اس وجہ سے جو لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے معاملے میں اس کی نصف سزا کے قائل ہیں ان کی بات مبنی بردلیل ہے۔
توبہ اور اصلاح کے بعد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس طرح کے لوگوں کے گناہ تو معاف ہو جائیں گے لیکن جہاں تک ساقط الشہادت ہونے کا تعلق ہے یہ چیز بدستور باقی رہے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ کا تعلق انسان کے دل سے ہے اوردل کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ آیت کے الفاظ سے بھی یہی بات نکلتی ہے کہ مغفرت کا تعلق صرف توبہ سے ہے۔ ’شہادت‘ سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ وہ ساقط الشہادت ’اَبَدًا‘ یعنی عمر بھر کے لیے رہیں گے۔
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں، پھر (اُس کے ثبوت میں) چار گواہ نہ لا سکیں، اُن کو اسی کوڑے مارو اور اُن کی گواہی پھر کبھی قبول نہ کرو۔ یہی لوگ فاسق ہیں۔
یہاں اور اِس سے آگے بھی اگرچہ عورتوں ہی پر تہمت کا ذکر ہوا ہے، لیکن عربی زبان میں یہ علیٰ سبیل التغلیب کا اسلوب ہے جو صرف اِس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اِس طرح کے الزامات کا ہدف بالعموم عورتیں ہی بنتی ہیں او رمعاشرہ اِس معاملے میں اُنھی کے بارے میں زیادہ حساس بھی ہوتا ہے، لہٰذا اشتراک علت کی بنا پر یہ حکم مرد وعورت، دونوں کے لیے عام ہے، اِسے صرف عورتوں کے ساتھ خاص قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی معاملہ آگے لعان کا بھی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ تہمت لگانے والے کو ہر حال میں چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے۔ اِس سے کم کسی صورت میں بھی اُس کا الزام ثابت قرار نہ پائے گا۔ قرائن، حالات، طبی معاینہ، یہ سب اِس معاملے میں بالکل بے معنی ہیں۔ آدمی آبرو باختہ اور بدچلن ہے تو ثبوت جرم کے لیے اِن میں سے ہر چیز بڑی اہمیت کی حامل ہے، لیکن اُس کی شہرت اگر ایک شریف اور پاک دامن شخص کی ہے تو قرآن یہی چاہتا ہے کہ اُس سے اگر کوئی لغزش ہوئی بھی ہے تو اُس پر پردہ ڈال دیا جائے اور اُسے معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے ۔ چنانچہ فرمایا کہ اگر وہ گواہ پیش کرنے سے قاصر رہے تو اُسے اسی کوڑے مارے جائیں اور ہمیشہ کے لیے ساقط الشہادت قرار دے دیا جائے۔ یعنی اُس کی گواہی پھر کسی معاملے میں بھی قبول نہ کی جائے اور اِس طرح معاشرے میں اُس کی حیثیت عرفی بالکل ختم کر دی جائے۔
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اَسّی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں،
جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انھیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں ۔
اس میں (بہتان تراشی) کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے اس طرح جو عورت کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور بطور ثبوت چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اس کے لئے تین حکم بیان کئے گئے ہیں (١) انھیں اسی کوڑے لگائے جائیں (٢) ان کی شہادت قبول نہ کی جائے (٣) وہ عند اللہ و عندالناس فاسق ہیں۔
جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں گے تو اللہ مغفرت فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
قذف کے معاملہ میں شہادت اور سزا کا قانون: اب یہ قذف کے معاملہ میں شہادت اور سزا کا قانون بیان ہو رہا ہے کہ شریف اور آزاد مومنات پر جو لوگ زنا کی تہمت لگائیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جرم کے چار عینی شاہد پیش کریں۔ اگر وہ چار گواہ معتبر نہ پیش کر سکیں تو پھر حکم ہے کہ ان کو اسّی کوڑے مارو اور ہمیشہ کے لیے ان کو ساقط الشہادت قرار دے دو۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اسلامی معاشرہ میں کسی کا ہمیشہ کے لیے مردود الشہادۃ قرار دے دیا جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ معاشرے کے اندر یہ اس کی عرفی حیثیت کے بالکل ختم ہو جانے کے ہم معنی ہے۔ اس امت کا اصلی مرتبہ یہ ہے کہ یہ ’شُھَدَآءُ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ‘ ہے۔ اگر کوئی شخص ساقط الشہادت قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس امت کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اس کو جو اصلی سرفرازی حاصل ہوئی تھی وہ اس نے کھو دی۔
’اَلَّذِیْنَ‘ اگرچہ مذکر کے لیے آتا ہے لیکن اگر کوئی عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس حکم سے مستثنیٰ رہے اس وجہ سے یہ لفظ عورت اور مرد دونوں کے لیے علیٰ سبیل التغلیب عام ہو گا۔
لفظ ’مُحْصَنٰتِ‘ اس طرح کے سیاق میں ’حرایر‘ یعنی لونڈیوں کے مقابل میں شریف زادیوں کے لیے آتا ہے اس وجہ سے جو لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے معاملے میں اس کی نصف سزا کے قائل ہیں ان کی بات مبنی بردلیل ہے۔
توبہ اور اصلاح کے بعد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس طرح کے لوگوں کے گناہ تو معاف ہو جائیں گے لیکن جہاں تک ساقط الشہادت ہونے کا تعلق ہے یہ چیز بدستور باقی رہے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ کا تعلق انسان کے دل سے ہے اوردل کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ آیت کے الفاظ سے بھی یہی بات نکلتی ہے کہ مغفرت کا تعلق صرف توبہ سے ہے۔ ’شہادت‘ سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ وہ ساقط الشہادت ’اَبَدًا‘ یعنی عمر بھر کے لیے رہیں گے۔
ہاں جو اِس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں، (وہ خدا کے نزدیک فاسق نہ رہیں گے)، اِس لیے کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
n/a
سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اصلاح کرلیں کہ اللہ ضرور ﴿ان کے حق میں﴾ غفورورحیم ہے۔
اس حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کردیے جائیں، کیونکہ اس سے بیشمار برائیاں پھیلتی ہیں، اور ان میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس طرح غیر محسوس طریقے پر ایک عام زنا کارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے اس میں نمک مرچ لگا کر اور لوگوں تک انہیں پہنچاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی معلومات یا بد گمانیاں بیان کردیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے، بلکہ برے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ معاشرے میں کہاں کہاں ان کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سد باب پہلے ہی قدم پر کردینا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جو کسی اور جرم پر نہیں دی جاتی۔ اور دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے، ورنہ اس پر اسی کوڑے برسا دو تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلا ثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے، تاکہ گندگی جہاں ہے وہیں پڑی رہے، آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بیہودہ چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کر کے اسے سزا دلوا دے۔
اس قانون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تفصیلات نگاہ میں رہیں۔ اس لیے ہم ذیل میں ان کو نمبر وار بیان کرتے ہیں :
١: آیت میں الفاظ ” وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ ” استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی ہیں ” وہ لوگ جو الزام لگائیں “۔ لیکن سیاق وسباق یہ بتاتا ہے کہ یہاں الزام سے مراد ہر قسم کا الزام نہیں، بلکہ مخصوص طور پر زنا کا الزام ہے۔ پہلے زنا کا حکم بیان ہوا ہے اور آگے لعِان کا حکم آ رہا ہے، ان دونوں کے درمیان اس حکم کا آنا صاف اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں ” الزام ” سے مراد کس نوعیت کا الزام ہے۔ پھر الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ (الزام لگائیں پاک دامن عورتوں پر) سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ مراد وہ الزام ہے جو پاک دامنی کے خلاف ہو۔ اس پر مزید یہ کہ الزام لگانے والوں سے اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پورے قانون اسلامی میں صرف زنا کا نصاب شہادت ہے۔ ان قرائن کی بنا پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت میں صرف الزام زنا کا حکم بیان ہوا ہے، جس کے لیے علماء نے ’ قَذْف ” کی مستقل اصطلاح مقرر کردی ہے تاکہ دوسری تہمت تراشیاں (مثلاً کسی کو چور، یا شرابی، یا سود خوار، یا کافر کہہ دینا) اس حکم کی زد میں نہ آئیں۔ ” قذف ” کے سوا دوسری تہمتوں کی سزا قاضی خود تجویز کرسکتا ہے، یا مملکت کی مجلس شوریٰ حسب ضرورت ان کے لیے توہین اور ازالہ حیثیت عرفی کا کوئی عام قانون بنا سکتی ہے۔
٢ : آیت میں اگرچہ الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتُ (پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں) استعمال ہوئے ہیں، لیکن فقہاء اس بات پر مفتق ہیں کہ حکم صرف عورتوں ہی پر الزام لگانے تک محدود نہیں ہے بلکہ پاک دامن مردوں پر بھی الزام لگانے کا یہی حکم ہے۔ اسی طرح اگرچہ الزام لگانے والوں کے لیے اَلَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، لیکن یہ صرف مردوں ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اگر جرم قذف کی مرتکب ہوں تو وہ اسی حکم کی سزاوار ہوں گی۔ کیونکہ جرم کی شناخت میں قاذف یا مقذوف کے مرد یا عورت ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا قانون کی شکل یہ ہوگی کہ جو مرد یا عورت بھی کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے اس کا یہ حکم ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں محصن اور محصنہ سے مراد شادی شدہ مرد و عورت نہیں بلکہ پاک دامن مرد و عورت ہیں ) ۔
٣ : یہ حکم صرف اسی صورت میں نافذ ہوگا جبکہ الزام لگانے والے نے محصنین یا محصنات پر الزام لگایا ہو کسی غیر محصن پر الزام لگانے کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ غیر محصن اگر بد کاری میں معروف ہو تب تو اس پر ” الزام ” لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ ایسا نہ ہو تو اس کے خلاف بلا ثبوت الزام لگانے والے کے لیے قاضی خود سزا تجویز کرسکتا ہے، یا ایسی صورتوں کے لیے مجلس شوریٰ حسب ضرورت قانون بنا سکتی ہے۔
٤ : کسی فعل قذف کے مستلزم سزا ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ کسی نے کسی پر بد کاری کا بلا ثبوت الزام لگایا ہے، بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں قاذف (الزام لگانے والے) میں اور کچھ مقذوف (الزام کے ہدف بنائے جانے والے) میں، اور کچھ خود فعل قذف میں پائی جانی ضروری ہیں۔
قاذف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : اول یہ کہ وہ بالغ ہو۔ بچہ اگر قذف کا مرتکب ہو تو اسے تعزیر دی جاسکتی ہے مگر اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی۔ دوم یہ کہ وہ عاقل ہو۔ مجنون پر حد قذف جاری نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح حرام نشے کے سوا کسی دوسری نوعیت کے نشے کی حالت میں، مثلاً کلوروفارم کے زیر اثر الزام لگانے والے کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سوم یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے سے (فقہاء کی اصطلاح میں طائعاً ) یہ حرکت کی ہو۔ کسی کے جبر سے قذف کا ارتکاب کرنے والا مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چہارم یہ کہ وہ مقذوف کا اپنا باپ یا دادا نہ ہو، کیونکہ ان پر حد قذف جاری نہیں کی جاسکتی۔ ان کے علاوہ حنفیہ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ ناطق ہو، گونگا اگر اشاروں میں الزام لگائے تو وہ حد قذف کا مستوجب نہ ہوگا۔ لیکن امام شافعی کو اس سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گونگے کا اشارہ بالکل صاف اور صریح ہو جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ لے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے تو وہ قاذف ہے، کیونکہ اس کا اشارہ ایک شخص کو بد نام و رسوا کردینے میں تصریح بالقول سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس کے برعکس حنفیہ کے نزدیک محض اشارے کی صراحت اتنی قوی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر ایک آدمی کو 80 کوڑوں کی سزا دے ڈالی جائے۔ وہ اس پر صرف تعزیر دیتے ہیں۔
مقذوف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : پہلی شرط یہ کہ وہ عاقل ہو، یعنی اس پر بحالت عقل زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ مجنون پر (خواہ وہ بعد میں عاقل ہوگیا ہو یا نہ ہوا ہو) الزام لگانے والا حد قذف کا مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ مجنون اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کرسکتا، اور اس پر اگر زنا کی شہادت قائم بھی ہوجائے تو نہ وہ حد زنا کا مستحق ہوتا ہے نہ اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔ لہٰذا اس پر الزام لگانے والا بھی حد قذف کا مستحق نہ ہونا چاہیے۔ لیکن امام مالک اور امام لیث بن سعد کہتے ہیں کہ مجنون کا قاذف حد کا مستحق ہے کیونکہ بہرحال وہ ایک بےثبوت الزام لگا رہا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو۔ یعنی اس پر بحالت بلوغ زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہو بچے پر الزام لگانا، یا جواب پر اس امر کا الزام لگانا کہ وہ بچپن میں اس فعل کا مرتکب ہوا تھا، حد قذف کا موجب نہیں ہے، کیونکہ مجنون کی طرح بچہ بھی اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کرسکتا، نہ وہ حد زنا کا مستوجب ہوتا ہے، اور نہ اس کی عزت مجروح ہوتی ہے۔ لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ سن بلوغ کے قریب عمر کے لڑکے پر اگر زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے تب تو قاذف حد کا مستحق نہیں ہے، لیکن اگر ایسی عمر کی لڑکی پر زنا کرانے کا الزام لگایا جائے جس کے ساتھ مباشرت ممکن ہو، تو اس کا قاذف حد کا مستحق ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے خاندان تک کی عزت مجروح ہوجاتی ہے اور لڑکی کا مستقبل خراب ہوجاتا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو، یعنی اس پر بحالت اسلام زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو، کافر پر الزام، یا مسلم پر یہ الزام کہ وہ بحالت غلامی اس کا مرتکب ہوا تھا، موجب حد نہیں ہے، کیونکہ غلام کی بےبسی اور کمزوری یہ امکان پیدا کردیتی ہے کہ وہ اپنی عصمت کا اہتمام نہ کرسکے۔ خود قرآن میں بھی غلامی کی حالت کو احصان کی حالت قرار نہیں دیا گیا ہے، چناچہ سورة نساء میں مُحْصَنَات کا لفظ لونڈی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے۔ لیکن داؤد ظاہری اس دلیل کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ لونڈی اور غلام کا قاذف بھی حد کا مستحق ہے۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ عفیف ہو، یعنی اس کا دامن زنا اور شبہ زنا سے پاک ہو۔ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر پہلے کبھی جرم زنا ثابت نہ ہوچکا ہو۔ شبہ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نکاح فاسد، یا خفیہ نکاح، یا مشتبہ ملکیت، یا شبہ نکاح میں مباشرت نہ کرچکا ہو، نہ اس کے حالات زندگی ایسے ہوں جن میں اس پر بد چلنی اور آبرو باختگی کا الزام چسپاں ہوسکتا ہو، اور نہ زنا سے کم تر درجہ کی بد اخلاقیوں کا الزام اس پر پہلے کبھی ثابت ہوچکا ہو، کیونکہ ان سب صورتوں میں اس کی عفت مجروح ہوجاتی ہے، اور ایسی مجروح عفت پر الزام لگانے والا 80 کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ اگر حد قذف جاری ہونے سے پہلے مقذوف کے خلاف کسی جرم زنا کی شہادت قائم ہوجائے، تب بھی قاذف چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ وہ شخص پاک دامن نہ رہا جس پر اس نے الزام لگایا تھا۔
مگر ان پانچوں صورتوں میں حد نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مجنون، یا بچے، یا کافر، یا غلام، یا غیر عفیف آدمی پر بلا ثبوت الزام زنا لگا دینے والا مستحق تعزیر بھی نہیں ہے۔
اب وہ شرطیں لیجیے جو خود فعل قذف میں پائی جانی چاہییں۔ ایک الزام کو دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز قذف بنا سکتی ہے۔ یا تو قاذف نے مقذوف پر ایسی وطی کا الزام لگایا ہو جو اگر شہادتوں سے ثابت ہوجائے تو مقذوف پر حد واجب ہوجائے۔ یا پھر اس نے مقذوف کو ولد الزنا قرار دیا ہو۔ لیکن دونوں صورتوں میں الزام صاف اور صریح ہونا چاہیے۔ کنایات کا اعتبار نہیں ہے جن سے زنا یا طعن فی النسب مراد ہونے کا انحصار قاذف کی نیت پر ہے۔ مثلاً کسی کو فاسق فاجر، بد کار، بد چلن وغیرہ الفاظ سے یاد کرنا۔ یا کسی عورت کو رنڈی، کسبن، یا چھنال کہنا، یا کسی سید کو پٹھان کہہ دینا کنایہ ہے جس سے صریح قذف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ تعریض کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی قذف ہے یا نہیں۔ مثلاً کہنے والا کسی کو مخاطب کر کے یوں کہے کہ ” ہاں، مگر میں تو زانی نہیں ہوں “، یا ” میری ماں نے تو زنا کرا کے مجھے نہیں جنا ہے ” امام مالک کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعریض جس سے صاف سمجھ میں آجائے کہ قائل کی مراد مخاطب کو زانی یا ولد الزنا قرار دینا ہے، قذف ہے جس پر حد واجب ہوجاتی ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، اور امام شافعی، سفیان ثوری، ابن شبرمہ، اور حسن بن صالح اس بات کے قائل ہیں کہ تعریض میں بہرحال شک کی گنجائش ہے، اور شک کے ساتھ حد جاری نہیں کی جاسکتی۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ تعریض اگر لڑائی جھگڑے میں ہو تو قذف ہے اور ہنسی مذاق میں ہو تو قذف نہیں ہے۔ خلفاء میں سے حضرت عمر اور حضرت علی نے تعریض پر حد جاری کی ہے۔ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں دو آدمیوں کے درمیان گالم گلوچ ہوگئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا ” نہ میرا باپ زانی تھا نہ میری ماں زانیہ تھی “۔ معاملہ حضرت عمر (رض) کے پاس آیا۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا آپ لوگ اس سے کیا سمجھتے ہیں ؟ کچھ لوگوں نے کہا اس نے اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے، اس کے ماں باپ پر تو حملہ نہیں کیا۔ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا اس کے لیے اپنے ماں باپ کی تعریف کرنے کے لیے کیا یہی الفاظ رہ گئے تھے ؟ ان خاص الفاظ کو اس موقع پر استعمال کرنے سے صاف مراد یہی ہے کہ اس کے ماں باپ زانی تھے۔ حضرت عمر (رض) نے دوسرے گروہ سے اتفاق کیا اور حد جاری کردی (جصاص ج 3، ص 330) ۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کسی پر عمل قوم لوط (علیہ السلام) کے ارتکاب کا الزام لگانا قذف ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اس کو قذف نہیں مانتے۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور امام شافعی اسے قذف قرار دیتے ہیں اور حد کا حکم لگاتے ہیں۔
٥: جرم قذف قابل دست اندازی سرکار) (CognizableOffene ہے یا نہیں، اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ یہ حق اللہ ہے اس لیے قاذف پر بہرحال حد جاری کی جائے گی خواہ مقذوف مطالبہ کرے یا نہ کرے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ اس معنی میں تو حق اللہ ضرور ہے کہ جب جرم ثابت ہوجائے تو حد جاری کرنا واجب ہے، لیکن اس پر مقدمہ چلانا مقذوف کے مطالبے پر موقوف ہے، اور اس لحاظ سے یہ حق آدمی ہے۔ یہی رائے امام شافعی اور امام اوزاعی کی بھی ہے۔ امام مالک کے نزدیک اس میں تفصیل ہے۔ اگر حاکم کے سامنے قذف کا ارتکاب کیا جائے تو یہ جرم قابل دست اندازی سرکار ہے، ورنہ اس پر کارروائی کرنا مقذوف کے مطالبے پر منحصر ہے۔
٦ : جرم قذف قابل راضی نامہ (CompoundableOffence) نہیں ہے۔ مقذوف عدالت میں دعویٰ لے کر نہ آئے تو یہ دوسری بات ہے لیکن عدالت میں معاملہ آجانے کے بعد قاذف کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنا الزام ثابت کرے، اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس پر حد جاری کی جائے گی۔ نہ عدالت اس کو معاف کرسکتی ہے اور نہ خود مقذوف، نہ کسی مالی تاوان پر معاملہ ختم ہوسکتا ہے، نہ توبہ کر کے یا معافی مانگ کر وہ سزا سے بچ سکتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد پہلے گزر چکا ہے کہ : تعافوا الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حدٍّ فقد وجب۔ ” حدود کو آپس ہی میں معاف کردو، مگر جس حد کا معاملہ میرے پاس پہنچ گیا وہ پھر واجب ہوگئی “۔
٧ : حنفیہ کے نزدیک حد قذف کا مطالبہ یا تو خود مقذوف کرسکتا ہے، یا پھر وہ جس کے نسب پر اس سے حرف آتا ہو اور مطالبہ کرنے کے لیے خود مقذوف موجود نہ ہو، مثلاً باپ، ماں، اولاد اور اولاد کی اولاد۔ مگر امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک یہ حق قابل توریث ہے۔ مقذوف مر جائے تو اس کا ہر شرعی وارث حد کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ امام شافعی بیوی اور شوہر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہوجاتا ہے اور بیوی یا شوہر میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں ہی دلیلیں کمزور ہیں۔ مطالبہ حد کو قابل توریث ماننے کے بعد یہ کہنا کہ یہ حق بیوی اور شوہر کو اس لیے نہیں پہنچتا کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہوجاتا ہے خود قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن نے ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کو اس کا وارث قرار دیا ہے۔ رہی یہ بات کہ زوجین میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا، تو یہ شوہر کے معاملہ میں چاہے صحیح ہو مگر بیوی کے معاملے میں تو قطعاً غلط ہے۔ جس کی بیوی پر الزام رکھا جائے اس کی تو پوری اولاد کا نسب مشتبہ ہوجاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ حد قذف صرف نسب پر حرف آنے کی وجہ سے واجب قرار دی گئی ہے۔ نسب کے ساتھ عزت پر حرف آنا بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے، اور ایک شریف مرد یا عورت کے لیے یہ کچھ کم بےعزتی نہیں ہے کہ اس کی بیوی یا اس کے شوہر کو بد کار قرار دیا جائے۔ لہٰذا اگر حد قذف کا مطالبہ قابل توریث ہو تو زوجین کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
٨: یہ بات ثابت ہوجانے کے بعد کہ ایک شخص نے قذف کا ارتکاب کیا ہے، جو چیز اسے حد سے بچا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ چار گواہ ایسے لائے جو عدالت میں یہ شہادت دیں کہ انہوں نے مقذوف کو فلاں مرد یا عورت کے ساتھ بالفعل زنا کرتے دیکھا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک یہ چاروں گواہ بیک وقت عدالت میں آنے چاہییں اور انہیں بیک وقت شہادت دینی چاہیے، کیونکہ اگر وہ یکے بعد دیگرے آئیں تو ان میں سے ہر ایک قاذف ہوتا چلا جائے گا اور اس کے لیے پھر چار گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ ایک کمزور بات ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی اور عثمان البتّی نے کہی ہے کہ گواہوں کے بیک وقت آنے اور یکے بعد دیگرے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسرے مقدمات کی طرح گواہ ایک کے بعد ایک آئے اور شہادت دے۔ حنفیہ کے نزدیک ان گواہوں کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر قذف چار فاسق گواہ بھی لے آئے تو وہ حد قذف سے بچ جائے گا، اور ساتھ ہی مقذوف بھی حد زنا سے محفوظ رہے گا کیونکہ گواہ عادل نہیں ہیں۔ البتہ کافر، یا اندھے، یا غلام، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ گواہ پیش کر کے قاذف سزا سے نہیں بچ سکتا۔ مگر امام شافعی کہتے ہیں کہ قاذف اگر فاسق گواہ پیش کرے تو وہ اور اس کے گواہ سب حد کے مستحق ہوں گے۔ اور یہی رائے امام مالک کی بھی ہے۔ اس معاملے میں حنفیہ کا مسلک ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ گواہ اگر عادل ہوں تو قاذف جرم قذف سے بری ہوجائے گا اور مقذوف پر جرم زنا ثابت ہوجائے گا۔ لیکن اگر گواہ عادل نہ ہوں تو قاذف کا قذف، اور مقذوف کا فعل زنا، اور گواہوں کا صدق و کذب، ساری ہی چیسیں مشکوک قرار پائیں گی اور شک کی بنا پر کسی کو بھی حد کا مستوجب قرار نہ دیا جاسکے گا۔
٩ : جو شخص ایسی شہادت پیش نہ کرسکے جو اسے جرم قذف سے بری کرسکتی ہو، اس کے لیے قرآن نے تین حکم ثابت کیے ہیں : ایک یہ کہ 80 کوڑے لگائے جائیں۔ دوسرے یہ کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہے۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے : اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْ ا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَسْلَحُوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کرین کہ اللہ غفور اور رحیم ہے ) ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فقرے میں توبہ اور اصلاح سے جس معافی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ان تینوں احکام میں سے کس کے ساتھ ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلے حکم سے اس کا تعلق نہیں، یعنی توبہ سے حد ساقط نہ ہوگی اور مجرم کو سزائے تازیانہ بہر حال دی جائے گی۔ فقہاء اس پر بھی متفق ہیں کہ اس معافی تعلق آخری حکم سے ہے، یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد مجرم فاسق نہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا۔ (اس میں اختلاف صرف اس پہلو سے ہے کہ آیا مجرم نفس قذف سے فاسق ہوتا ہے یا عدالتی فیصلہ صادر ہونے کے بعد فاسق قرار پاتا ہے۔ امام شافعی اور لیث بن سعد کے نزدیک وہ نفس قذف سے فاسق ہوجاتا ہے اس لیے وہ اسی وقت سے اس کو مردود الشہادت قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ نافذ ہوجانے کے بعد فاسق ہوتا ہے، اس لیے وہ نفاذ حکم سے پہلے تک اس کو مقبول الشہادت سمجھتے ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ مجرم کا عند اللہ فاسق ہونا نفس قذف کا نتیجہ ہے اور عند الناس فاسق ہونا اس پر موقوف ہے کہ عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو اور وہ سزا پا جائے ) ۔ اب رہ جاتا ہے بیچ کا حکم، یعنی یہ کہ ” قاذف کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے “۔ فقہاء کے درمیان اس پر بڑا اختلاف واقع ہوگیا ہے کہ آیا : اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوْا کے فقرے کا تعلق اس حکم سے بھی ہے یا نہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس فقرے کا تعلق صرف آخری حکم سے ہے، یعنی جو شخص توبہ اور اصلاح کرلے گا وہ عند اللہ اور عند الناس فاسق نہ رہے گا، لیکن پہلے دونوں حکم اس کے باوجود بر قرار رہیں گے، یعنی مجرم پر حد جاری کی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود الشہادت بھی رہے گا۔ اس گروہ میں قاضی شریح، سعید بن مُسَّٰب، سعید بن جبیر، حسن بصری، ابراہیم نخعی، ابن سیرین، مکْحول، عبدالرحمٰن بن زید، ابو حنیفہ، ابو یوسف، زُفَر، محمد، سُفْیان ثوری اور حسن بن صالح جیسے اکابر شامل ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ : اِلَّا الَّذِیْنَ تَبُوْا کا تعلق پہلے حکم سے تو نہیں ہے مگر آخری دونوں حکموں سے ہے، یعنی توبہ کے بعد قذف کے سزا یافتہ مجرم کی شہادت بھی قبول کی جائے گی اور وہ فاسق بھی نہ شمار ہوگا۔ اس گروہ میں عطاء، طاؤس، مجاہد، شعبِی، قاسم بن محمد، سالم، زُہری، عِکْرِمَہ، عمر بن العزیز، ابن ابی نجیح، سلیمان بن یسار، مُسْرُوق، ضحاک، مالک بن اَنَس، عثمان البتّی، لیث بن سعد، شافعی، احمد بن حنبل اور ابن جریر طبری جیسے بزرگ شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنی تائید میں دوسرے دلائل کے ساتھ حضرت عمر (رض) کے اس فیصلے کو بھی پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں کیا تھا، کیونکہ اس کی بعض روایت میں یہ ذکر ہے کہ حد جاری کرنے کے بعد حضرت عمر (رض) نے ابو بکرہ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے کہا اگر تم توبہ کرلو (یا ” اپنے جھوٹ کا اقرار کرلو ” ) تو میں آئندہ تمہاری شہادت قبول کروں گا ورنہ نہیں۔ دونوں ساتھیوں نے اقرار کرلیا، مگر ابو بکرہ اپنے قول پر قائم رہے۔ بظاہر یہ ایک بڑی قوی تائید معلوم ہوتی ہے، لیکن مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے کی جو روداد ہم پہلے درج کرچکے ہیں اس پر گور کرنے سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس نظیر سے اس مسئلے میں استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ وہاں نفس فعل متفق علیہ تھا اور خود مغیرہبن شعبہ کو بھی اس سے انکار نہ تھا۔ بحث اس میں تھی کہ عورت کون تھی۔ مغیرہ بن شعبہ کہتے تھے کہ وہ ان کی اپنی بیوی تھیں جنہیں یہ لوگ ام جمیل سمجھ بیٹھے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہوگئی تھی کہ حضرت مغیرہ کی بیوی اور ام جمیل باہم اس حد تک مشابہ تھیں کہ واقعہ جتنی روشنی میں جتنے فاصلے سے دیکھا گیا اس میں یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ عورت ام جمیل ہے۔ مگر قرائن سارے کے سارے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں تھے اور خود استغاثے کا بھی ایک گواہ اقرار کرچکا تھا کہ عورت صاف نظر نہ آتی تھی۔ اسی بنا پر حضرت عمر (رض) نے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں فیصلہ دیا اور ابو بکرہ کو سزا دینے کے بعد وہ بات کہی جو مذکورہ بالا روایتوں میں منقول ہوئی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا منشا در اصل یہ تھا کہ تم لوگ مان لو کہ تم نے بےجا بدگمانی کی تھی اور آئندہ کے لیے ایسی بد گمانیوں کی بنا پر لوگوں کے خلاف الزامات عائد کرنے سے توبہ کرو، ورنہ آئندہ تمہاری شہادت کبھی قبول نہ کی جائے گی۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ جو شخص صریح جھوٹا ثابت ہوجائے وہ بھی حضرت عمر (رض) کے نزدیک توبہ کر کے مقبول الشہادت ہوسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں پہلے گروہ ہی کی رائے زیادہ وزنی ہے۔ آدمی کی توبہ کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ ہمارے سامنے جو شخص توبہ کرے گا ہم اسے اس حد تک تو رعایت دے سکتے ہیں کہ اسے فاسق کے نام سے یاد نہ کریں، لیکن اس حد تک رعایت نہیں دے سکتے کہ جس کی زبان کا اعتبار ایک دفعہ جاتا رہا ہے اس پر پھر محض اس لیے اعتبار کرنے لگیں کہ وہ ہمارے سامنے توبہ کر رہا ہے۔ علاوہ بریں خود قرآن کی عبادت کا انداز بیان بھی یہی بتارہا ہے کہ : اِلَّذِیْنَ تَابُوْ ا کا تعلق صرف اولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ سے ہے۔ اس لیے کہ عبارت میں پہلی وہ باتیں حکم کے الفاظ میں فرمائی گئی ہیں : ان کو اسی کوڑے مارو “، ” اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو “۔ اور تیسری بات خبر کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے : ” وہ خود ہی فاسق ہیں “۔ اس تیسری بات کے بعد متصلاً یہ فرمانا کہ ” سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں “، خود ظاہر کردیتا ہے کہ یہ استثناء آخری فقرہ خبر یہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پہلے دو محکمی فقروں سے۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ استثناء آخری فقرے تک محدود نہیں ہے، تو پھر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ” شہادت قبول نہ کرو ” کے فقرے تک پہنچ کر رک کیسے گیا، ” اسّی کوڑے مارو ” کے فقرے تک بھی کیوں نہ پہنچ گیا۔
١٠ : سوال کیا جاسکتا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوا کا استثنا آخر پہلے حکم سے بھی متعلق کیوں نہ مان لیا جائے ؟ قذف آخر ایک قسم کی توہین ہی تو ہے۔ ایک آدمی اس کے بعد اپنا قصور مان لے، مقذوف سے معافی مانگ لے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے توبہ کرلے تو آخر کیوں نہ اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ اللہ تعالیٰ خود حکم بیان کرنے کے بعد فرما رہا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ...... فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرُرَّ حِیْمُ ۔ یہ تو ایک عجیب بات ہوگی کہ خدا معاف کر دے اور بندے معاف نہ کریں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ دراصل ت و ب ۃ کے تلفظ کا نام نہیں ہے بلکہ دل کے احساس ندامت اور عزم اصلاح اور رجوع الی الخیر کا نام ہے اور اس چیز کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے توبہ سے دنیوی سزائیں معاف نہیں ہوتیں بلکہ صرف اخروی سزا معاف ہوتی ہے، اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں تو تم انہیں چھوڑ دو ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ توبہ کرلیں گے میں ان کے حق میں غفور و رحیم ہوں۔ اگر توبہ سے دنیوی سزائیں بھی معاف ہونے لگیں تو آخر وہ کونسا مجرم ہے جو سزا سے بچنے کے لیے توبہ نہ کرے گا ؟
١١ : یہ بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنے الزام کے ثبوت میں شہادت نہ لا سکنا لازماً یہی معنی تو نہیں رکھتا کہ وہ جھوٹا ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا الزام واقعی صحیح ہو اور وہ ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اسے صرف ثبوت نہ دے سکنے کی بنا پر فاسق ٹھہرایا جائے، اور وہ بھی عند الناس ہی نہیں عند اللہ بھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی آنکھوں سے بھی کسی کو بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو پھر بھی وہ اس کا چرچا کرنے اور شہادت کے بغیر اس پر الزام عائد کرنے میں گنہگار ہے شریعت الٰہی یہ نہیں چاہتی ایک شخص اگر ایک گوشے میں نجاست لئے بیٹھا ہو تو دوسرا شخص اسے اٹھا کر سارے معاشرے میں پھیلانا شروع کردے۔ اس نجاست کی موجودگی کا اگر اس کو علم ہے تو اس کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ یا اس کو جہاں وہ پڑی ہے وہیں پڑا رہنے دے، یا پھر اس کی موجودگی کا ثبوت دے تاکہ حکومت اسلامی کے حکام اسے صاف کردیں۔ ان دو راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ اس کے لیے نہیں ہے۔ اگر وہ پبلک میں چرچا کرے گا تو محدود گندگی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا مجرم ہوگا۔ اور اگر وہ قابل اطمینان شہادت کے بغیر حکام تک معاملہ لے جائے گا تو حکام اس گندگی کو صاف نہ کرسکیں گے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ اس مقدمے کی ناکامی گندگی کی اشاعت کا سبب بھی بنے گی اور بد کاروں میں جرأت بھی پیدا کر دے گی۔ اسی لیے ثبوت اور شہادت کے بغیر قذف کا ارتکاب کرنے والا بہرحال فاسق ہے خواہ وہ اپنی جگہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔
١٢ : حد قذف کے بارے میں فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قاذف کو زانی کی بہ نسبت ہلکی مار ماری جائے۔ یعنی تازیانے تو 80 ہی ہوں، مگر ضرب اتنی سخت نہ ہونی چاہیے جتنی زانی کو لگائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس الزام کے قصور میں اسے سزا دی جا رہی ہے اس میں اس کا جھوٹا ہونا بہرحال یقینی نہیں ہے۔
١٣ : تکرار قذف کے بارے میں حنفیہ اور جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قاذف نے سزا پانے سے پہلے یا سزا کے دوران میں خواہ کتنی ہی مرتبہ ایک شخص پر الزام لگایا ہو، اس پر ایک ہی حد جاری کی جائے گی۔ اور اگر اجرائے حد کے بعد وہ اپنے سابق الزام ہی کی تکرار کرتا رہے تو جو حد اسے لگائی جا چکی ہے وہی کافی ہوگی۔ البتہ اگر اجرائے حد کے بعد وہ اس شخص پر ایک نیا الزام زنا عائد کر دے تو پھر نئے سرے سے مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمہ میں سزا پانے کے بعد ابو بکرہ کھلے بندوں کہتے رہے کہ ” میں شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے زنا کا ارتکاب کیا تھا “۔ حضرت عمر (رض) نے ارادہ کیا کہ ان پر پھر مقدمہ قائم کریں۔ مگر چونکہ وہ سابق الزام ہی کو دوہرا رہے تھے اس لیے حضرت علی (رض) نے رائے دی کہ اس پر دوسرا مقدمہ نہیں لایا جاسکتا، اور حضرت عمر (رض) نے ان کی رائے قبول کرلی۔ اس کے بعد فقہاء میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہوگیا کہ سزا یافتہ قاذف کو صرف نئے الزام ہی پر پکڑا جاسکتا ہے، سابق الزام کے اعادے پر نہیں۔
١٤ : قذف جماعت کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص بہت سے لوگوں پر بھی الزام لگائے، خواہ ایک لفظ میں یا الگ الگ الفاظ میں، اس پر ایک ہی حد لگائی جائے گی الّا یہ کہ حد لگنے کے بعد وہ پھر کسی نئے قذف کا ارتکاب کرے۔ اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں ” جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ” اس سے معلوم ہوا کہ ایک فرد ہی نہیں ایک جماعت پر الزام لگانے والا بھی صرف ایک ہی حد کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ زنا کا کوئی الزام ایسا نہیں ہوسکتا جو کم از کم دو شخصوں پر نہ لگتا ہو۔ مگر اس کے باوجود شارع نے ایک ہی حد کا حکم دیا، عورت پر الزام کے لیے الگ اور مرد پر الزام کے لیے الگ حد کا حکم نہیں دیا۔ بخلاف اس کے امام شافعی کہتے ہیں کہ ایک جماعت پر الزام لگانے والا خواہ ایک لفظ میں الزام لگائے یا الگ الگ الفاظ میں، اس پر ہر شخص کے لیے الگ الگ پوری حد لگائی جائے گی۔ یہ رائے عثمان البتّی کی بھی ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ کا قول، جس میں شعبی اور اوزاعی بھی ان کے ہم نوا ہیں یہ ہے کہ ایک لفظ میں پوری جماعت کو زانی کہنے والا ایک حد کا مستحق ہے اور الگ الگ الفاظ میں یہ ایک کو کہنے والا ہر ایک کے لیے الگ حد کا مستحق۔
ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔
توبہ سے کوڑوں کی سزا تو معاف نہیں ہوگی، تائب ہوجائے یا اصرار کرے، یہ سزا تو بہرحال ملے گی
البتہ دوسری دو باتیں جو ہیں اس کے بارے میں اختلاف ہے، بعض علماء اس استثنا کو فسق تک محدود رکھتے ہیں۔ یعنی توبہ کے بعد فاسق نہیں رہے گا۔ اور بعض مفسرین دونوں جملوں کو اس میں شامل سمجھتے ہیں، یعنی توبہ کے بعد مقبول الشہادۃ بھی ہوجائے گا۔
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس ان کی ذات کے سوا کوئی گواہ نہ ہو تو ان کی گواہی کا طریقہ یہ ہے کہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچے ہیں۔
لعان کا ضابطہ: اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کی ذات کے سوا اس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو اس صورت میں معاملہ کا فیصلہ قَسم سے ہو گا۔ اس کو اصطلاح شریعت میں ’لعان‘ کہتے ہیں۔ اس کی شکل یہ ہو گی کہ مرد چار بار اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے گا کہ میں جو الزام لگا رہا ہوں اس میں سچا ہوں۔
اگر کسی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی تکذیب اور باہمدگر ملاعنت کا یہ واقعہ پیش آ جائے تو فقہاء کی یہ رائے ہے کہ قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا۔ یہ رائے مبنی بر حکمت معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ معاملہ اس حد تک خراب ہو جانے کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
لیکن جو اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور اپنی ذات کے سوا اُن کے پاس کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ہر ایک کی گواہی یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے۔
n/a
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت ﴿یہ ہے کہ وہ﴾ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ ﴿اپنے الزام میں﴾ سچا ہے
(٥) زنا کو قابل سزا فعل تو 3 ھ میں ہی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اس وقت یہ ایک ” قانونی ” جرم نہ تھا جس پر ریاست کی پولیس اور عدالت کوئی کارروائی کرے، بلکہ اس کی حیثیت ایک ” معاشرتی ” یا ” خاندانی ” جرم کی سی تھی جس پر اہل خاندان ہی کی بطور خود سزا سے لینے کا اختیار تھا۔ حکم یہ تھا کہ اگر چار گواہ اس امر کی شہاست دے دیں کہ انہوں نے ایک مرد اور ایک عورت کو زنا کرتے دیکھا ہے تو دونوں کو مارا پیٹا جائے، اور عورت کو گھر میں قید کردیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کردیا گیا تھا کہ یہ قاعدہ ” تا حکم ثانی ” ہے، اصل قانون بعد میں آنے والا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ 331) اس کے ڈھائی تین سال بعد یہ حکم نازل ہوا جو آپ اس آیت میں پا رہے ہیں، اور اس نے حکم سابق کو منسوخ کر کے زنا کو ایک قانونی جرم قابل دست اندازی سرکار (Cognizableoffene) قرار دے دیا۔
(٦) اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے وہ دراصل ” محض زنا ” کی سزا ہے، زنا بعد احصان (یعنی شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کے ارتکاب) کی سزا نہیں ہے جو اسلامی قانون کی نگاہ میں سخت تر جرم ہے، یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہاں اس زنا کی سزا بیان کر رہا ہے جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں۔ سورة نساء میں پہلے ارشاد ہوا کہ :
وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا (آیت 15)
” تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے “۔
اس کے بعد تھوڑی دور آگے چل کر پھر فرمایا :
وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ۔۔۔۔ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ (آیت 25)
” اور تم میں سے جو لوگ اتنی مقدرت نہ رکھتے ہوں کہ مومنوں میں سے محصنت کے ساتھ نکاح کریں تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔۔۔ پھر اگر وہ (لونڈیاں) محصنہ ہوجانے کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصنت کو (ایسے جرم پر) دی جائے۔
ان میں سے پہلی آیت میں توقع دلائی گئی ہے کہ زانیہ عورتیں جن کو سردست قید کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ان کے لیے اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی سبیل پیدا کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورة نور کا یہ دوسرا حکم وہی چیز ہے جس کا وعدہ سورة نساء کی مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا تھا۔ دوسری آیت میں شادی شدہ لونڈی کے ارتکاب زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں ایک ہی آیت اور ایک ہی سلسلہ بیان میں دو جگہ محصنات کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنی ہیں۔ اب آغاز کے فقرے کو دیکھیے تو وہاں کہا جارہا ہے کہ جو لوگ ” محصنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتے ہوں “۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شادی شدہ عورت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک آزاد خاندان کی بن بیاہی عورت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اختتام کے فقرے میں فرمایا جاتا ہے کہ لونڈی منکوحہ ہونے کے بعد اگر زنا کرے تو اس کو اس سزا سے آدھی سزا دی جائے جو محصنات کو اس جرم پر ملنی چاہیے۔ سیاق عبارت صاف بتاتا ہے کہ اس فقرے میں بھی محصنات کے معنی وہی ہیں جو پہلے فقرے میں تھے، یعنی شادی شدہ عورت نہیں بلکہ آزاد خاندان کی حفاظت میں رہنے والی بن بیاہی عورت۔ اس طرح سورة نساء کی یہ دونوں آیتیں مل کر اس امر کی طرف اشارہ کردیتی ہیں کہ سورة نور کا یہ حکم، جس کا وہاں وعدہ کیا گیا تھا، غیر شادی شدہ لوگوں کے ارتکاب زنا کی سزا بیان کرتا ہے۔ (مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء حاشیہ 46)
(٧) یہ امر کہ زنا بعد احصان کی سزا کیا ہے، قرآن مجید نہیں بتاتا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوتا ہے بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری) بیان فرمائی ہے، بلکہ عملاً آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی کی ہے۔ پھر آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور میں یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابہ کرام اور تابعین میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ قرن اول میں کسی کو اس کے ایک ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان کے بعد تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنت ثابتہ ہے، کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں جن کے ہوتے کوئی صاحب علم اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ امت کی پوری تاریخ میں بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے، اور ان کے انکار کی بنیاد بھی یہ نہیں تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس حکم کے ثبوت میں وہ کسی کمزوری کی نشان دہی کرسکے ہوں، بلکہ وہ اسے ” قرآن کے خلاف ” قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کے اپنے فہم قرآن کو قصور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن : الزّانی و الذّانیۃ کے مطلق الفاظ استعمال کر کے اس کی سزا سو کوڑے بیان کرتا ہے، لہٰذا قرآن کی رو سے ہر قسم کے زانی اور زانیہ کی سزا یہی ہے اور اس سے زانی محصن کو الگ کر کے اس کی کوئی سزا تجویز کرنا قانون خداوند کی خلاف ورزی ہے، مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی قانونی وزن ان کی اس تشریح کا بھی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کی ہو، بشرطیکہ وہ آپ سے ثابت ہو۔ قرآن نے ایسے ہی مطلق الفاظ میں : السّارق و السّارقۃ کا حکم بھی قطع ید بیان کیا ہے۔ اس حکم کو اگر ان تشریحات سے مقید نہ کیا جائے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں تو اس کے الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک بیر کی چوری پر بھی آدمی کو سارق قرار دیں اور پھر پکڑ کر اس کا ہاتھ شانے کے پاس سے کاٹ دیں۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری کرنے والا بھی اگر گرفتار ہوتے ہی کہہ دے کہ میں نے اپنے نفس کی اصلاح کرلی ہے اور اب میں چوری سے توبہ کرتا ہوں تو آپ کو اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے : فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْ بُ عَلَیْہِ (المائدہ۔ آیت 39) ۔ اسی طرح قرآن صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت بیان کرتا ہے، رضاعی بیٹی کی حرمت اس استدلال کی رو سے قرآن کے خلاف ہونی چاہیے۔ قرآن صرف دو بہنوں کے جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی، اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کو شخص حرام کہے اس پر قرآن کے خلاف حکم لگانے کا الزام عائد ہونا چاہیے۔ قرآن صرف اس حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جب کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ مطلقاً اس کی حرمت خلاف قرآن قرار پانی چاہیے۔ قرآن صرف اس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جب کہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آئے۔ حضر میں، اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کا جواز قرآن کے خلاف ہونا چاہیے۔ قرآن عام لفظوں میں حکم دیتا ہے : وَاَشْھِدُوْآ اِذَا تَبَایَعْتُمْ (گواہ بناؤ جب کہ آپس میں خریدو فروخت کرو) ۔ اب وہ تمام خریدو فروخت ناجائز ہونی چاہیے جو رات دن ہماری دکانوں پر گواہی کے بغیر ہو رہی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینے سے ہی ان لوگوں کے استدلال کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے جو رجم کے حکم کو خلاف قرآن کہتے ہیں۔ نظام شریعت میں نبی کا یہ منصب ناقابل انکار ہے کہ وہ خدا کا حکم پہنچانے کے بعد ہمیں بتائے کہ اس حکم کا منشا کیا ہے، اس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے، کن معاملات پر اس کا اطلاق ہوگا، اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار صرف اصول دین ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اتنی عملی قباحتیں لازم آتی ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔
(٨) زنا کی قانونی تعریف میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ” ایک مرد کا کسی ایسی عورت سے قُبُل میں مباشرت کرنا جو نہ تو اس کے نکاح یا ملک یمین میں ہو اور نہ اس امر کا شبہ کی کوئی معقول وجہ ہو کہ اس نے منکوحہ یا مملوکہ سمجھتے ہوئے اس سے مباشرت کی ہے “۔ اس تعریف کی رو سے وطی فی الدُبُر، عمل قوم لوط، بہائم سے مجامعت وغیرہ، ماہیت زنا سے خارج ہوجاتے ہیں اور صرف عورت سے قُبُل میں مباشرت ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جب کہ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر یہ فعل کیا گیا ہو۔ بخلاف اس کے شافعیہ اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں ” شرمگاہ کو ایسی شرمگاہ میں داخل کرنا جو شرعاً حرام ہو مگر طبعاً جس کی طرف رغبت کی جاسکتی ہو “۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے ” شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر قُبُل یا دُبُر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا “۔ ان دونوں تعریفوں کی رو سے عمل قوم لوط بھی زنا میں شمار ہوجاتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید ہمیشہ الفاظ کو ان کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتا ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاح خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاح خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم خاص کو ظاہر کردیتا ہے۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا اسے معروف معنی ہی میں لیا جائے گا، اور وہ عورت سے فطری مگر ناجائز تعلق تک ہی محدود ہے، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں یہ بات معلوم ہے کہ عمل قوم لوط کی سزا کے بارے میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ اگر اس فعل کا شمار بھی اسلامی اصطلاح کی رو سے زنا میں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اختلاف رائے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
(٩) قانوناً ایک فعل زنا کو مستلزم سزا قرار دینے کے لیے صرف ادخال حشفہ کافی ہے۔ پورا ادخال یا تکمیل فعل اس کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر ادخال حشفہ نہ ہو تو محض ایک بستر پر یکجا پایا جانا، یا ملاعبت کرتے ہوئے دیکھا جانا، یا برہنہ پایا جانا کسی کو زانی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اسلامی شریعت اس حد تک بھی نہیں جاتی کہ کوئی جوڑا ایسی حالت میں پایا جائے تو اس کا ڈاکٹری معائنہ کرا کے زنا کا ثبوت بہم پہنچایا جائے اور پھر اس پر حد زنا جاری کی جائے۔ جو لوگ اس طرح کی بےحیائی میں مبتلا پائے جائیں ان پر صرف تعزیر ہے۔ جس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے حاکم عدالت خود کرے گا، یا جس کے لیے اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کوئی سزا تجویز کرنے کی مجاز ہوگی۔ یہ تعزیر اگر کوڑوں کی شکل میں ہو تو دس کوڑوں سے زیادہ نہیں لگائے جاسکتے، کیونکہ حدیث میں تصریح ہے کہ : لا یجلد فوق عشر جلداتٍ اِلَّا فی حدٍّ من حدود اللہ۔ ” اللہ کی مقرر کردہ حدود کے سوا کسی اور جرم میں دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں ” (بخاری، مسلم، ابو داؤد) ۔ اور اگر کوئی شخص پکڑا نہ گیا ہو بلکہ خود نادم ہو کر ایسے کسی قصور کا اعتراف کرے تو اس کے لیے صرف توبہ کی تلقین کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ” شہر کے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا بجز جماع کے۔ اب حضور جو چاہیں مجھے سزا دیں “۔ حضرت عمر نے کہا ” جب خدا نے پردہ ڈال دیا تھا تو تو بھی پردہ پڑا رہنے دیتا “۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی : اَقِمِ الصَّلوٰۃ طَرَفَی النَّھَارِ وَ زُلَفاً مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبُنَ السَّیِّاٰتِ ۔ ” نماز قائم کر دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر، نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں ” (ہود، آیت 114) ۔ ایک شخص نے پوچھا ” کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے “؟ حضور نے فرمایا ” نہیں، سب کے لیے ہے ” (مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی) ۔ یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کے بغیر اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جائے کہ تو نے کون سا جرم کیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا ” یا رسول اللہ میں حد کا مستحق ہوگیا ہوں، مجھ پر حد جاری فرمائیے ” مگر آپ نے اس سے نہیں پوچھا کہ تو کس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجیے۔ آپ نے فرمایا : ” کیا تو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے “؟ اس نے عرض کیا ،” جی ہاں “۔ فرمایا ” بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کردیا “۔ (بخاری، مسلم، احمد) ۔
(١٠) کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے لیے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زنا صادر ہوا ہے، بلکہ اس کے لیے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہییں۔ یہ شرطیں زنائے محض کے معاملے میں اور ہیں، اور زنا بعد احصان کے معاملہ میں اور۔
زنائے محض کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم عاقل ہو اور بالغ ہو۔ اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو تو وہ حد زنا کا مستحق نہیں ہے۔
اور زنا بعد احصان کے لیے عقل اور بلوغ کے علاوہ چند مزید شرطیں بھی ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں :
پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو۔ اس شرط پر سب کا اتفاق ہے، کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتا ہے کہ غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ ابھی یہ بات گزر چکی ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہیے۔ فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہوگا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو۔ یہ شرط بھی متفق علیہ ہے، اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بنا پر تمتع کرچکا ہو، یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو، شادی شدہ قرار نہیں دیا جائے گا، یعنی اس سے اگر زنا کا صدور ہو تو اس کو رجم کی نہیں بلکہ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔
تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو بلکہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ بھی ہوچکی ہو۔ صرف عقد نکاح کسی مرد کو محصِن، یا عورت کو محصنہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس کو رجم کردیا جائے۔ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں۔ مگر امام ابوحنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ایک مرد یا ایک عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جب کہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد، بالغ اور عاقل ہوں۔ اس مزید شرط سے جو فرق واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہوا ہو جو لونڈی ہو، یا نابالغ ہو، یا مجنون ہو، تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے لذت اندوز ہو بھی چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہوگا۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے اگر اس کو اپنے نابالغ یا مجنون یا غلام شوہر سے لذت اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی معقول اضافہ ہے جو ان دونوں بالغ النظر بزرگوں نے کیا ہے۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو۔ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی، امام ابو یوسف اور امام احمد (رحمہم اللہ) اس کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک ذِمّی بھی اگر زنا بعد احصان کا مرتکب ہوگا تو رجم کیا جائے گا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے لیے ہے۔ اس کے دلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگساری جیسی خوفناک سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل ” احصان ” کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آئے۔ احصان کا مطلب ہے ” اخلاقی قلعہ بندی “، اور اس کی تکمیل تین حصاروں سے ہوتی ہے۔ اولین حصار یہ ہے کہ آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، آخرت کی جواب دہی کا قائل ہو اور شریعت خداوندی کو تسلیم کرتا ہو۔ دوسرا حصار یہ ہے کہ وہ معاشرے کا آزاد فرد ہو، کسی دوسرے کی غلامی میں نہ ہو جس کی پابندیاں اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز تدابیر اختیار کرنے میں مانع ہوتی ہیں، اور لا چاری و مجبوری اس سے گناہ کرا سکتی ہے، اور کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور اپنی عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہیں ہوتا۔ تیسرا حصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہوچکا ہو اور اسے تسکین نفس کا جائز ذریعہ حاصل ہو۔ یہ تینوں حصار جب پائے جاتے ہوں تب ” قلع بندی ” مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بجا طور پر سنگساری کا مستحق قرار پاسکتا ہے جس نے ناجائز شہوت رانی کی خاطر تین تین حصار توڑ ڈالے۔ لیکن جہاں پہلا اور سب سے بڑا حصار، یعنی خدا اور آخرت اور قانون خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں یقیناً قلعہ بندی مکمل نہیں ہے اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنا دے۔ اس دلیل کی تائید ابن عمر کی وہ روایت کرتی ہے جسے اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں اور دار قطنی نے اپنی سُنَن میں نقل کیا ہے کہ : من اشرک باللہ فلیس بمحصن ” جس نے خدا کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے “۔ اگرچہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا ابن عمر نے اس روایت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول نقل کیا ہے، یا یہ ان کا اپنا فتویٰ ہے۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود اس کا مضمون اپنے معنی کے لحاظ سے نہایت قوی ہے۔ اس کے جواب میں اگر یہودیوں کے اس مقدمے سے استدلال کیا جائے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم نافذ فرمایا تھا، تو ہم کہیں گے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس مقدمے کے متعلق تمام معتبر روایات کو جمع کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر اسلام کا ملکی قانون (Law of theland) نہیں بلکہ ان کا اپنا مذہبی قانون (Personal law) نافذ فرمایا تھا۔ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے کہ جب یہ مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ : ما تجدون فی التوراۃ فی شان الرجم یا ما تجدون فی کتابکم، یعنی ” تمہاری کتاب توراۃ میں اس کا کیا حکم ہے “؟ پھر جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کے ہاں رجم کا حکم ہے تو حضور نے فرمایا : فانی احکم بما فی التوراۃ ” میں وہی فیصلہ کرتا ہوں جو توراۃ میں ہے “۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا اللھم انی اول من احیا امرک اذا ماتوہ، ” خداوندا، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ انہوں نے اسے مردہ کردیا تھا “۔ (مسلم، ابو داؤد، احمد) ۔
(١١) فعل زنا کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر واکراہ سے اگر کسی شخص کو اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ اس معاملے پر شریعت کا صرف یہ عام قاعدہ ہی منطبق نہیں ہوتا کہ ” آدمی جبراً کرائے ہوئے کاموں کی ذمہ داری سے بری ہے “۔ بلکہ آگے چل کر اسی سورے میں خود قرآن ان عورتوں کی معافی کا اعلان کرتا ہے جن کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو۔ نیز متعدد احادیث میں تصریح ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں صرف زانی جابر کو سزا دی گئی اور جس پر جبر کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔ ترمذی و ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لیے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کردی۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آگئے اور زانی پکڑا گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رجم کرا دیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ایک شخص نے ایک لڑکی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا۔ آپ نے اسے کوڑے لگوائے اور لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ان دلائل کی بنا پر عورت کے معاملہ میں تو قانون متفق علیہ ہے۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا مرد کے معاملے میں بھی جبر واکراہ معتبر ہے یا نہیں۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی اور امام حسن بن صالح (رحمہم اللہ) کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو تو معاف کیا جائے گا۔ امام زُفَر کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ انتشار عضو کے بغیر اس فعل کا ارتکاب نہیں کرسکتا، اور انتشار عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی اپنی شہوت اس کی محرک ہوئی تھی۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جائے گی، کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تو اسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جائے گی، کیونکہ ارتکاب زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کرسکتا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں کی جاسکتی۔ ان تینوں اقوال میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انتشار عضو چاہے شہوت کی دلیل ہو مگر رضا ورغبت کی لازمی دلیل نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ظالم کسی شریف آدمی کو زبردستی پکڑ کر قید کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ایک جوان، خوبصورت عورت کو بھی برہنہ کر کے ایک ہی کمرے میں بند رکھتا ہے اور اسے اس وقت تک رہا نہیں کرتا جب تک کہ وہ زنا کا مرتکب نہ ہوجائے۔ اس حالت میں اگر یہ دونوں زنا کے مرتکب ہوجائیں اور وہ ظالم اس کے چار گواہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کر دے تو کیا یہ انصاف ہوگا کہ ان کے حالات کو نظر انداز کر کے انہیں سنگسار کردیا جائے یا ان پر کوڑے برسائے جائیں ؟ اس طرح کے حالات میں عقلاً یا عادتاً ممکن ہیں جن میں شہوت لاحق ہو سکتی ہے، بغیر اس کے کہ اس میں آدمی کی اپنی رضا ورغبت کا دخل ہو۔ اگر کسی شخص کو قید کر کے شراب کے سوا پینے کو کچھ نہ دیا جائے، اور اس حالت میں وہ شراب پی لے تو کیا محض اس دلیل سے اس کو سزا دی جاسکتی ہے کہ حالات تو واقعی اس کے لیے مجبوری کے تھے مگر حلق سے شراب کا گھونٹ وہ اپنے ارادے کے بغیر نہ اتار سکتا تھا ؟ جرم کے متحقق ہونے کے لیے محض ارادے کا پایا جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آزاد ارادہ ضروری ہے۔ جو شخص زبردستی ایسے حالات میں مبتلا کیا گیا ہو کہ وہ جرم کا ارادہ کرنے پر مجبور ہوجائے وہ بعض صورتوں میں تو قطعی مجرم نہیں ہوتا، اور بعض صورتوں میں اس کا جرم بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔
(١٢) اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کار روائی کرے، اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت زیر بحث میں حکم فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ البتہ غلام کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس پر اس کا آقا حد جاری کرنے کا مجاز ہے یا نہیں۔ مذہب حنفی کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں وہ مجاز ہے۔ اور مالکیہ کہتے ہیں کہ آقا کو سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کا تو حق نہیں ہے مگر زنا، قذف اور شراب نوشی پر وہ حد جاری کرسکتا ہے۔
(١٣) اسلامی قانون زنا کی سزا کو قانون مملکت کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اس لیے مملکت کی تمام رعایا پر یہ حکم جاری ہوگا خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس سے امام مالک کے سوا غالباً ائمہ میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ رجم کی سزا غیر مسلموں پر جاری کرنے میں امام ابوحنیفہ کا اختلاف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ یہ قانون مملکت نہیں ہے، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نزدیک رجم کی شرائط میں سے ایک شرط زانی کا پورا محصن ہونا ہے اور احصان کی تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی، اس وجہ سے وہ غیر مسلم زانی کو رجم کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام مالک کے نزدیک اس حکم کے مخاطب مسلمان ہیں نہ کہ کافر، اس لیے وہ حد زنا کو مسلمانوں کے شخصی قانون (پرسنل لا) کا ایک جز قرار دیتے ہیں۔ رہا مستامن (جو کسی دوسرے ملک سے دار الاسلام میں اجازت لے کر آیا ہو) تو امام شافعی اور امام ابو یوسف کے نزدیک وہ بھی اگر دار الاسلام میں زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اس پر حد جاری نہیں کرسکتے۔
(١٤) اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہوجائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من اتی شیئا من ھٰذہ القاذورات فلیستتر بستر اللہ فان ابدیٰ لنا صفحۃ اقمنا علیہ کتاب اللہ (احکام القرآن، للجصاص) ۔ ” تم میں سے جو شخص ان گندے کاموں میں سے کسی کا مرتکب ہوجائے تو اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھپا رہے۔ لیکن اگر وہ ہمارے سامنے اپنا پردہ کھولے گا تو ہم اس پر کتاب اللہ کا قانون نافذ کر کے چھوڑیں گے “۔ ابو داؤد میں ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی سے جب زنا کا جرم سرزد ہوگیا تو ہزّال بن نعیم نے ان سے کہا کہ جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کرو۔ چناچہ انہوں نے جا کر حضور سے اپنا جرم بیان کردیا۔ اس پر حضور نے ایک طرف تو انہیں رجم کی سزا دی اور دوسری طرف ہزّال سے فرمایا : لو سترتہ بثوبک کان خیراً لک ” کاش تم اس کا پردہ ڈھانک دیتے تو تمہارے لیے زیادہ اچھا تھا “۔ ابوداؤد اور نسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا : تعافوا الحدود فی ما بینکم فما بلغنی من حد فقد وجب، ” حدود کو آپس ہی میں معاف کردیا کرو۔ مگر جس حد (یعنی جرم مستلزم حد) کا معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا پھر وہ واجب ہوجائے گی۔ “
(١٥) اسلامی قانون میں یہ جرم قابل راضی نامہ نہیں ہے۔ قریب قریب تمام کتب حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا اور وہ اس کی بیوی سے زنا کا مرتکب ہوگیا۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس شخص کو راضی کیا۔ مگر جب یہ مقدمہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا : اما غنمک و جاریتک فردٌّ علیک۔ ” تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس “، اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جرم میں راضی نامہ کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں عصمتوں کا معاوضہ مالی تاوانوں کی شکل میں نہیں دلوایا جاسکتا۔ آبرو کی قیمت کا یہ دیّوثانہ تصور مغربی قوانین ہی کو مبارک رہے۔
(١٦) اسلامی حکومت کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کارروائی نہ کرے گی جب تک کہ اس کے جرم کا ثبوت مل جائے۔ ثبوت جرم کے بغیر کسی کی بد کاری خواہ کتنے ہی ذرائع سے حکام کے علم میں ہو، وہ بہرحال اس پر حد جاری نہیں کرسکتے۔ مدینے میں ایک عورت تھی جس کے متعلق روایات ہیں کہ وہ کھلی کھلی فاحشہ تھی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے : کانت تظھر فی الاسلام السوء، دوسری روایت میں ہے : کانت قد اعلنت فی الاسلام۔ ابن ماجہ کی روایت ہے فقد ظھر منھا الرّیبۃ فیْ منطقہا و ھیئتھا ومن یدخل علیھا، لیکن چونکہ اس کے خلاف بد کاری کا ثبوت نہ تھا اس لیے اسے کوئی سزا نہ دی گئی، حالانکہ اس کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ الفاظ تک نکل گئے تھے کہ : لوکنت راجماً احداً بغیر بینۃ لرجم تھا، ” اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا “۔
(١٧) جرم زنا کا پہلا ممکن ثبوت یہ ہے کہ شہادت اس پر قائم ہو۔ اس کے متعلق قانون کے اہم اجزاء یہ ہیں :
الف : قرآن تصریح کرتا ہے کہ زنا کے لیے کم سے کم چار عینی شاہد ہونے چاہییں۔ اس کی صراحت سورة نساء آیت 15 میں بھی گزر چکی ہے اور آگے اسی سورة نور میں بھی دو جگہ آ رہی ہے۔ شہادت کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں کرسکتا خواہ وہ اپنی آنکھوں سے ارتکاب جرم ہوتے دیکھ چکا ہو۔
ب : گواہ ایسے لوگ ہونے چاہییں جو اسلامی قانون شہادت کی رو سے قابل اعتماد ہوں، مثلاً یہ کہ وہ پہلے کسی مقدمے میں جھوٹے گواہ ثابت نہ ہوچکے ہوں، خائن نہ ہوں، پہلے کے سزا یافتہ نہ ہوں، ملزم سے ان کی دشمنی ثابت نہ ہو، وغیرہ۔ بہرحال ناقابل اعتماد شہادت کی بنا پر نہ تو کسی کو رجم کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی کی بیٹھ پر کوڑے برسائے جاسکتے ہیں۔
ج : گواہوں کو اس بات کی شہادت دینی چاہیے کہ انہوں نے ملزم اور ملزمہ کو عین حالت مباشرت میں دیکھا ہے، یعنی : کالمیل فی المکحلۃ و الرشاء فی البئر (اس طرح جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنویں میں رسی) ۔
د : گواہوں کو اس امر میں متفق ہونا چاہیے کہ انہوں نے کب، کہاں، کس کو، کس سے زنا کرتے دیکھا ہے۔ ان بنیادی امور میں اختلاف ان کی شہادت کو ساقط کردیتا ہے۔
شہادت کی یہ شرائط خود ظاہر کر رہی ہیں کہ اسلامی قانون کا منشا یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں۔ بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے جب کہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا بےحیا ہو کہ چار چار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیں۔
(١٨) اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا محض حمل کا پایا جانا، جب کہ عورت کا کوئی شوہر، یا لونڈی کا کوئی آقا معلوم و معروف نہ ہو، ثبوت زنا کے لیے کافی شہادت بالقرینہ ہے یا نہیں۔ حضرت عمر کی رائے یہ ہے کہ یہ کافی شہادت ہے اور اسی کو مالکیہ نے اختیار کیا ہے۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ محض حمل اتنا مضبوط قرینہ نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کو رجم کردیا جائے یا کسی کی بیٹھ پر سو کوڑے برسا دیے جائیں۔ اتنی بڑی سزا کے لیے ناگزیر ہے کہ یا تو شہادت موجود ہو، یا پھر اقرار۔ اسلامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ شبہ سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ معاف کرنے کے لیے محرک ہونا چاہیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : ادفعوا الحدود ما وجدتم لھا مدفعا، ” سزاؤں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پاؤ ” (ابن ماجہ) ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : ادرؤا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہ مخرجٌ فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطئ فی العفو خیر من ان یخطئ فی العقوبۃ، ” مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو ۔ کیونکہ حاکم کا معاف کردینے میں غلطی کر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کر جائے ” (ترمذی) ۔ اس قاعدے کے لحاظ سے حمل کی موجودگی، چاہے شبہ کے لیے کتنی ہی قوی بنیاد ہو، زنا کا یقینی ثبوت بہرحال نہیں ہے، اس لیے کہ لاکھ میں ایک درجے کی حد تک اس امر کا بھی امکان ہے کہ مباشرت کے بغیر کسی عورت کے رحم میں کسی مرد کے نطفے کا کوئی جز پہنچ جائے اور وہ حاملہ ہوجائے۔ اتنے خفیف شبہ کا امکان بھی اس کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ملزمہ کو زنا کی ہولناک سزا سے معاف رکھا جائے۔
(١٩) اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ اگر زنا کے گواہوں میں اختلاف ہوجائے، یا اور کسی وجہ سے ان کی شہادتوں سے جرم ثابت نہ ہو تو کیا الٹے گواہ جھوٹے الزام کی سزا پائیں گے ؟ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس صورت میں وہ قاذف قرار پائیں گے اور انہیں 80 کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کو سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں نہ کہ مدعی کی حیثیت سے۔ اور اگر اس طرح گواہوں کو سزا دی جائے تو پھر زنا کی شہادت بہم پہنچنے کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔ آخر کس کی شامت نے دھکا دیا ہے کہ سزا کا خطرہ مول لے کر شہادت دینے آئے جب کہ اس مار کا یقین کسی کو بھی نہیں ہوسکتا کہ چاروں گواہوں میں سے کوئی ٹوٹ نہ جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری رائے معقول ہے، کیونکہ شبہ کا فائدہ جس طرح ملزم کو ملنا چاہیے، اسی طرح گواہوں کو بھی ملنا چاہیے۔ اگر ان کی شہادت کی کمزوری اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ملزم کو زنا کی خوفناک سزا دے ڈالی جائے، تو اسے اس بات کے لیے بھی کافی نہ ہونا چاہیے کہ گواہوں پر قذف کی خوفناک سزا برسا دی جائے، اِلّا یہ کہ ان کا صریح جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے۔ پہلے قول کی تائید میں دو بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ قرآن زنا کی جھوٹی تہمت کو مستوجب سزا قرار دیتا ہے لیکن یہ دلیل اس لیے غلط ہے کہ قرآن خود قاذف (تہمت لگانے والے) اور شاہد کے درمیان فرق کر رہا ہے، اور شاہد محض اس بنا پر قاذف قرار نہیں پاسکتا کہ عدالت نے اس کی شہادت کو ثبوت جرم کے لیے کافی نہیں پایا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں حضرت عمر نے ابو بکْرَہ اور ان کے دو ساتھی شاہدوں کو قذف کی سزا دی تھی۔ لیکن اس مقدمے کی پوری تفصیلات دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ نظیر ہر اس مقدمے پر چسپاں نہیں ہوتی جس میں ثبوت جرم کے لیے شہادتیں نا کافی پائی جائیں۔ مقدمے کے واقعات یہ ہیں کہ بصرے کے گورنر مغیرہ بن شعبہ سے ابو بکرہ کے تعلقات پہلے سے خراب تھے۔ دونوں کے مکان ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے واقع تھے۔ ایک روز یکایک ہوا کے زور سے دونوں کے کمروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ابو بکرہ اپنی کھڑکی بند کرنے کے لیے اٹھے تو ان کی نگاہ سامنے کے کمرے پر پڑی اور انہوں نے حضرت مغیرہ کو مباشرت میں مشغول دیکھا۔ ابو بکرہ کے پاس ان کے تین دوست (نافع بن کَلَدَہ، زیاد، اور شبل بن مَعْبَد) بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آؤ، دیکھو اور گواہ رہو کہ مغیرہ کیا کر رہے ہیں۔ دوستوں نے پوچھا یہ عورت کون ہے۔ ابو بکرہ نے کہا ام جمیل۔ دوسرے روز اس کی شکایت حضرت عمر کے پاس بھیجی گئی۔ انہوں نے فوراً حضرت مغیرہ کو معطل کر کے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو بصرے کا گورنر مقرر کیا اور ملزم کو گواہوں سمیت مدینے طلب کرلیا۔ پیشی پر ابو بکرہ اور دو گواہوں نے کہا کہ ہم نے مغیرہ کو ام جمیل کے ساتھ بالفعل مباشرت کرتے دیکھا۔ مگر زیاد نے کہا کہ عورت صاف نظر نہیں آتی تھی اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ ام جمیل تھی۔ مغیرہ بن شعبہ نے جرح میں یہ ثابت کردیا کہ جس رخ سے یہ لوگ انہیں دیکھ رہے تھے اس سے دیکھنے والا عورت کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان کی بیوی اور ام جمیل باہم بہت مشابہ ہیں۔ قرائن خود بتا رہے تھے کہ حضرت عمر کی حکومت میں ایک صوبے کا گورنر، خود اپنے سرکاری مکان میں، جہاں اس کی بیوی اس کے ساتھ رہتی تھی، ایک غیر عورت کو بلا کر زنا نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے ابو بکرہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ سمجھنا کہ مغیرہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے بجائے ام جمیل سے مباشرت کر رہے ہیں۔ ایک نہایت بےجا بد گمانی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر نے صرف ملزم کو بری کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابو بکرہ نافع اور شبل پر حدّ قذف بھی جاری فرمائی۔ یہ فیصلہ اس مقدمے کے مخصوص حالات کی بنا پر تھا نہ کہ اس قاعدہ کلیہ کی بنا پر کہ جب کبھی شہادتوں سے جرم زنا ثابت نہ ہو تو گواہ ضرور پیٹ ڈالے جائیں۔ (مقدمے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو احکام القرآن ابن العربی جلد 2 ۔ صفحہ 88 ۔ 89 ) ۔
(٢٠) شہادت کے سوا دوسری چیز جس سے جرم زنا ثابت ہوسکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ یہ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں فعل زنا کے ارتکاب کو ہونا چاہیے، یعنی اسے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی کالمیل فی المکحلۃ یہ فعل کیا ہے۔ اور عدالت کو پوری طرح یہ اطمینان کرلینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجہ دباؤ کے بغیر بطور خود بحالت ہوش و حواس یہ اقرار کر رہا ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک اقرار کافی نہیں ہے بلکہ مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے ( یہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، ابن ابی لیلیٰ ، اسحاق بن راہَوْیہ اور حسن بن صالح کا مسلک ہے ) ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی اقرار کافی ہے (امام مالک، امام شافعی، عثمان البتی اور حسن بصری وغیرہ اس کے قائل ہیں) پھر ایسی صورت میں جبکہ کسی دوسرے تائیدی ثبوت کے بغیر صرف مجرم کے اپنے ہی اقرار پر فیصلہ کیا گیا ہو اگر عین سزا کے دوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو روک دینا چاہیے، خواہ یہ بات صریحاً ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ مار کی تکلیف سے بچنے کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ اس پورے قانون کا ماخذ وہ نظائر ہیں جو زنا کے مقدمات کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مقدمہ ماعز بن مالک اسلمی کا ہے جسے متعدد صحابہ سے بکثرت راویوں نے نقل کیا ہے اور قریب قریب تمام کتب حدیث میں اس کی روایات موجود ہیں۔ یہ شخص قبیلہ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس نے حضرت ہَزّال بن نعیم کے ہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کردہ لونڈی سے زنا کر بیٹھا۔ حضرت ہزال نے کہا کہ جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اس گناہ کی خبر دے، شاید کہ آپ تیرے لیے دعائے مغفرت فرما دیں۔ اس نے جا کر مسجد نبوی میں حضور سے کہا یا رسول اللہ، مجھے پاک کردیجیے، میں نے زنا کی ہے۔ آپ نے منہ پھیرلیا اور فرمایا : ویحک ارجع فاستغفر اللہ وتب الیہ۔ ” ارے چلا جا اور اللہ سے توبہ و استغفار کر “۔ مگر اس نے پھر سامنے آ کر وہی بات کہی اور آپ نے پھر منہ پھیرلیا۔ اس نے تیسری بار وہی بات کہی اور آپ نے پھر منہ پھیرلیا۔۔ حضرت ابوبکر نے اس کو متنبہ کیا کہ دیکھ، اب چوتھی بار اگر تو نے اقرار کیا تو رسول اللہ تجھے رجم کرا دیں گے۔ مگر وہ نہ مانا اور پھر اس نے اپنی بات دہرائی۔ اب حضور اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا : لعلک قبلت اور غمزت اونظرت ” شاید تو نے بوس و کنار کیا ہوگا یا چھیڑ چھاڑ کی ہوگی یا نظر بد ڈالی ہوگی “۔ (اور تو سمجھ بیٹھا ہوگا کہ یہ زنا کا ارتکاب ہے ) ۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا ” کیا تو اس سے ہم بستر ہوا “؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا ” کیا تو نے اس سے مباشرت کی “؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا ” کیا تو نے اس سے مجامعت کی “؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر آپ نے وہ لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں خاص فعل مباشرت ہی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور یہ فحش لفظ حضور کی زبان سے نہ پہلے کبھی سنا گیا نہ اس کے بعد کسی نے سنا۔ اگر ایک شخص کی جان کا معاملہ نہ ہوتا تو زبان مبارک سے کبھی ایسا لفظ نہ نکل سکتا تھا مگر اس نے اس کے جواب میں بھی ہاں کہہ دیا۔ آپ نے پوچھا : حتّیٰ غاب ذٰلک منک فی ذٰلک منھا (کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اس چیز میں غائب ہوگئی ؟ ) ۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا : کما یغیب المیل فی المکحلۃ و الرشاء فی البئر (کیا اس طرح غائب ہوگئی جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنویں میں رسی ؟ ) اس نے کہا ہاں۔ پوچھا ” کیا تو جانتا ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں “؟ اس نے کہا ” جی ہاں، میں نے اس کے ساتھ حرام طریقے سے وہ کام کیا جو شوہر حلال طریقے سے اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے ” آپ نے پوچھا ” کیا تیری شادی ہوچکی ہے “؟ اس نے کہا ” جی ہاں “۔ آپ نے پوچھا ” تو نے شراب تو نہیں پی لی ہے “؟ اس نے کہا نہیں۔ ایک شخص نے اٹھ کر اس کا منہ سونگھا اور تصدیق کی۔ پھر آپ نے اس کے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ یہ دیوانہ تو نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نے اس کی عقل میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ آپ نے ہزّال سے فرمایا لو سترتہ بثوبک کان خیرا لک، کاش تم نے اس کا پردہ ڈھانک دیا ہوتا تو تمہارے لیے اچھا تھا۔ پھر آپ نے ماعز کو رجم کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا اور اسے شہر کے باہر لے جا کر سنگسار کردیا گیا۔ جب پتھر پڑنے شروع ہوئے تو ماعز بھاگا اور اس نے کہا ” لوگو، مجھے رسول اللہ کے پاس واپس لے چلو، میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھوکا دیا کہ رسول اللہ مجھے قتل نہیں کرائیں گے “۔ مگر مارنے والوں نے اسے مار ڈالا۔ بعد میں جب حضور کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا ” تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا۔ میرے پاس لے آئے ہوتے، شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا “۔
دوسرا واقعہ غامدیہ کا ہے جو قبیلہ غامد (قبیلہ جُہَینَہ کی ایک شاخ) کی ایک عورت تھی۔ اس نے بھی آ کر چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے ناجائز حمل ہے آپ نے اس سے بھی پہلے اقرار پر فرمایا : ویحک ارجعی فاستغفری الی اللہ و توبی الیہ، (” اری چلی جا، اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر ” ) مگر اس نے کہا ” یا رسول اللہ کیا آپ مجھے معز کی طرح ٹالنا چاہتے ہیں۔ میں زنا سے حاملہ ہوں “۔ یہاں چونکہ اقرار کے ساتھ حمل بھی موجود تھا، اس لیے آپ نے اس قدر مفصل جرح نہ فرمائی جو معز کے ساتھ کی تھی۔ آپ نے فرمایا ” اچھا، نہیں مانتی تو جا، وضع حمل کے بعد آئیو “۔ وضع حمل کے بعد وہ بچے کو لے کر آئی اور ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لیتی آئی بچے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا کر حضور کو دکھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور دیکھیے یہ روٹی کھانے لگا ہے۔ تب آپ نے بچے کو پرورش کے لیے ایک شخص کے حوالے کیا اور اس کے رجم کا حکم دیا۔
ان دونوں واقعات میں بصراحت چار اقراروں کا ذکر ہے۔ اور ابو داؤد میں حضرت بُرَیْدَہ کی روایت ہے کہ صحابہ کرام کا عام خیال یہی تھا کہ اگر ماعز اور غامدیہ چار مرتبہ اقرار نہ کرتے تو انہیں رجم نہ کیا جاتا۔ البتہ تیسرا واقعہ (جس کا ذکر ہم اوپر نمبر 15 میں کرچکے ہیں) اس میں صرف یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ” جا کر اس کی بیوی سے پوچھ، اور اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے ” اس میں چار اعترافوں کا ذکر نہیں ہے، اور اسی سے فقہاء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ ایک ہی اعتراف کافی ہے۔
(٢١) اوپر ہم نے جن تین مقدمات کی نظیریں پیش کی ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقراری مجرم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کس سے زنا کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ اس طرح ایک کے بجائے دو کو سزا دینی پڑے گی، اور شریعت لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے بےچین نہیں ہے۔ البتہ اگر مجرم خود یہ بتائے کہ اس فعل کا فریق ثانی فلاں ہے تو اس سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ بھی اعتراف کرے تو اسے سزا دی جائے گی لیکن اگر وہ انکار کر دے تو صرف اقراری مجرم ہی حد کا مستحق ہوگا۔ اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اس دوسری صورت میں (یعنی جبکہ فریق ثانی اس کے ساتھ مرتکب زنا ہونے کو تسلیم نہ کرے) اس پر آیا حد زنا جاری کی جائے گی یا حد قذف۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک وہ حد زنا کا مستوجب ہے، کیونکہ اسی جرم کا اس نے اقرار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کی رائے میں اس پر حد قذف جاری کی جائے گی، کیونکہ فریق ثانی کے انکار نے اس کے جرم زنا کو مشکوک کردیا ہے، البتہ اس کا جرم قذف بہرحال ثابت ہے۔ اور امام محمد کا فتویٰ ہے (امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے) اسے زنا کی سزا بھی دی جائے گی اور قذف کی بھی، کیونکہ اپنے جرم زنا کا وہ خود معترف ہے، اور فریق ثانی پر اپنا الزام وہ ثابت نہیں کرسکا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں اس قسم کا ایک مقدمہ آیا تھا۔ اس کی ایک روایت جو مسند احمد اور ابو داؤد میں سہل بن سعد سے منقول ہے اس میں یہ الفاظ ہیں : ” ایک شخص نے آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اقرار کیا کہ وہ فلاں عورت سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپ نے عورت کو بلا کر پوچھا۔ اس نے انکار کیا۔ آپ نے اس پر حد جاری کی اور عورت کو چھوڑ دیا “۔ اس روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ کونسی حد جاری کی۔ دوسری روایت ابو داؤد اور نسائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اس کے اقرار پر آپ نے حد زنا جاری کی، پھر عورت سے پوچھا اور اس کے انکار پر اس شخص کو حد قذف کے کوڑے لگوائے۔ لیکن یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے ایک راوی قاسم بن فیاض کو متعدد محدثین نے ساقط الاعتبار ٹھہرایا ہے، اور قیاس کے بھی خلاف ہے، اس لیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ آپ نے اسے کوڑے لگوانے کے بعد عورت سے پوچھا ہوگا۔ صریح عقل اور انصاف کا تقاضا، جسے حضور نظر انداز نہیں فرما سکتے تھے، یہ تھا کہ جب اس نے عورت کا نام لے دیا تھا تو عورت سے پوچھے بغیر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ اسی کی تائید سہل بن سعد والی روایت بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا دوسری روایت لائق اعتماد نہیں ہے۔
(٢٢) ثبوت جرم کے بعد زانی اور زانیہ کو کیا سزا دی جائے گی، اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوگیا ہے، مختلف فقہاء کے مسلک اس باب میں حسب ذیل ہیں :
شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا : امام احمد، داؤد ظاہر اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک سو کوڑے لگانا اور اس کے بعد سنگسار کرنا ہے۔
باقی تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی سزا صرف سنگساری ہے۔ رجم اور سزائے تازیانہ کو جمع نہیں کیا جائے گا۔
غیر شادی شدہ کی سزا :
امام شافعی، امام احمد، اسحاق، داؤ
جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں۔
اور پانچویں بار یہ کہیں کہ ان پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹے ہوں۔
پانچویں بار یہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹ الزام لگا رہا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اگر عورت مرد کی اس قسم کی کوئی مدافعت نہ کرے تو اس پر زنا کی وہی حد جاری ہو جائے گی جو اوپر مذکور ہوئی ہے۔
اگر کسی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی تکذیب اور باہمدگر ملاعنت کا یہ واقعہ پیش آ جائے تو فقہاء کی یہ رائے ہے کہ قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا۔ یہ رائے مبنی بر حکمت معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ معاملہ اس حد تک خراب ہو جانے کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو، اگر وہ جھوٹا ہو۔
n/a
اور پانچویں بار کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ ﴿ اپنے الزام میں﴾ جھوٹا ہو۔
اولین چیز جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ کہ یہاں فوجداری قانون کو ” دین اللہ ” فرمایا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف نماز اور روزہ اور حج و زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا قانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی ہے۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو گویا ادھورا دین قائم ہوا۔ جہاں اس کو رد کر کے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جائے وہاں کچھ اور نہیں خود دین اللہ رد کردیا گیا۔
دوسری چیز جو اس میں قابل توجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یہ تنیہ ہے کہ زانی اور زانیہ پر میری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارا ہاتھ نہ پکڑے۔ اس بات کو اور زیادہ کھول کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں بیان فرمایا : یؤتیٰ بوالٍ نقص من الحد سوطا فیقال لہ لِمَ فعلت ذٰاک ؟ فیقول رحمۃ لعبادک فیقال لہ انت ارحم بہم منی ؟ فیومر بہ الی النار۔ و یؤتیٰ بمن زاد سوطا فیقال لہ لم فعلت ذاک ؟ فیقول لینتھوا عن معاصیک۔ فیقول انت احکم بہم منی ؟ فیومر بہ الی النار۔ ” قیامت کے روز ایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کردیا تھا۔ پوچھا جائے گا یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی ؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہوگا اچھا، تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا ! پھر حکم ہوگا لے جاؤ اسے دوزخ میں۔ ایک اور حاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کردیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا ؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہوگا اچھا، تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا ! پھر حکم ہوگا لے جاؤ اسے دوزخ میں ” (تفسیر کبیر۔ ج 6 ۔ ص 225) یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بنا پر ہو۔ لیکن اگر کہیں احکام میں رد و بدل مجرموں کے مرتبے کی بنا پر ہونے لگے تو پھر یہ ایک بد ترین جرم ہے۔ صحیحین میں سے حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبطہ میں فرمایا ” لوگو، تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ ہلاک ہوگئیں اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے ” ایک اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے ” (نسائی و ابن ماجہ) ۔
بعض مفسرین نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد چھوڑ نہ دیا جائے اور نہ سزا میں کمی کی جائے، بلکہ پورے سو کوڑے مارے جائیں۔ اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہلکی مار نہ ماری جائے جس کی کوئی تکلیف ہی مجرم محسوس نہ کرے۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں، بلکہ حق یہ ہے کہ دونوں ہی مراد معلوم ہوتے ہیں۔ اور مزید براں یہ مراد بھی ہے کہ زانی کو وہی سزا دی جائے جو اللہ نے تجویز فرمائی ہے، اسے کسی اور سزا سے نہ بدل دیا جائے۔ کوڑوں کے بجائے کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنا پر ہو تو معصیت ہے، اور اگر اس خیال کی بنا پر ہو کہ کوڑوں کی سزا یک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان کے ساتھ ایک سینے میں جمع نہیں ہو سکتا۔ خدا کو خدا بھی ماننا اور اس کو معاذ اللہ وحشی بھی کہنا صرف ان ہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جو ذلیل ترین قسم کے منافق ہیں۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :4
یعنی سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جائے، تاکہ ایک طرف مجرم کو فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام الناس کو نصیحت۔ اس سے اسلام کے نظریہ سزا پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ سورة مائدہ میں چوری کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا : جَزَآءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللہِ ۔ ” ان کے کیے کا بدلا اور اللہ کی طرف سے جرم کو روکنے والی سزا ” (آیت 38) اور اب یہاں ہدایت کی جار ہی ہے کہ زانی کو علانیہ لوگوں کے سامنے عذاب دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں۔ اول یہ کہ مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے اور اس کو اس برائی کا مزا چکھایا جائے جو اس نے کسی دوسرے شخص یا معاشرے کے ساتھ کی تھی۔ دوم یہ کہ اسے اعادہ جرم سے باز رکھا جائے۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنادیا جائے تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہوجائے اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ علانیہ سزا دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں حکام سزا دینے میں بےجا رعایت یا بےجا سختی کرنے کی کم ہی جرأت کرسکتے ہیں۔
اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو
اس میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لئے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے، اس لئے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے، اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی۔ لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بد چلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہ شخص عدالت میں یا حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہوں بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس
پر اللہ کی لعنت۔
اور عورت سے سزا کو یہ چیز دفع کرے گی کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔
اور اگر وہ اس الزام کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کے لیے سزا سے بریت اس صورت میں ہو گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔
’وَیَدْرَؤُا عَنْھَا الْعَذَابَ‘ میں ’عذاب‘ سے مراد ظاہر ہے کہ وہی حد ہے جو اوپر آیت ۲ میں مذکور ہوئی ہے۔ اس کے سوا کسی اور سزا کو اس سے مراد لینا عربیت کے خلاف ہو گا۔
اگر کسی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی تکذیب اور باہمدگر ملاعنت کا یہ واقعہ پیش آ جائے تو فقہاء کی یہ رائے ہے کہ قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا۔ یہ رائے مبنی بر حکمت معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ معاملہ اس حد تک خراب ہو جانے کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
(اِس کے بعد) عورت سے سزا اُسی صورت میں ٹل سکتی ہے کہ (اِس کے جواب میں) وہ بھی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔
یعنی سو کوڑے کی سزا جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ آیت میں اِس کے لیے ’الْعَذَاب‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِسی مفہوم کے لیے اوپر ’عَذَابَہُمَا‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ عربی زبان کے علما جانتے ہیں کہ اُس میں یہ قاعدہ بالکل مسلم ہے کہ معرفہ کا اعادہ اگر معرفہ کی صورت میں کیا جائے اور کوئی قرینہ مانع نہ ہو تو دوسرا بعینہٖ پہلا ہو گا۔ لہٰذا سو کوڑے کے سوا کوئی دوسری سزا اِس سے کسی طرح مراد نہیں لی جا سکتی۔ چنانچہ یہ بالکل قطعی ہے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی سزا میں اگر علی الاطلاق کوئی فرق کیا جائے گا تو یہ قرآن کے بالکل خلاف ہوگا۔
اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص ﴿اپنے الزام میں﴾ جھوٹا ہے
اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔
اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر یہ شخص سچا ہو۔
اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے۔
اگر کسی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی تکذیب اور باہمدگر ملاعنت کا یہ واقعہ پیش آ جائے تو فقہاء کی یہ رائے ہے کہ قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا۔ یہ رائے مبنی بر حکمت معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ معاملہ اس حد تک خراب ہو جانے کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اِس بندی پر اللہ کا غضب ہو، اگر یہ(اپنے الزام میں) سچا ہو۔
n/a
اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ ﴿اپنے الزام میں﴾ سچا ہو۔
یہ آیات پچھلی آیات کے کچھ مدت بعد نازل ہوئی ہیں۔ حد قذف کا حکم جب نازل ہوا تو لوگوں میں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ غیر مرد اور عورت کی بد چلنی دیکھ کر تو آدمی صبر کرسکتا ہے، گواہ موجود نہ ہوں تو زبان پر قفل چڑھا لے اور معاملے کو نظر انداز کر دے۔ لیکن اگر وہ خود اپنی بیوی کی بد چلنی دیکھ لے تو کیا کرے ؟ قتل کر دے تو الٹا سزا کا مستوجب ہو۔ گواہ ڈھونڈنے جائے تو ان کے آنے تک مجرم کب ٹھہرا رہے گا۔ صبر کرے تو آخر کیسے کرے۔ طلاق دے کر عورت کو رخصت کرسکتا ہے، مگر نہ اس عورت کو کسی قسم کی مادی یا اخلاقی سزا ملی نہ اس کے آشنا کو۔ اور اگر اسے ناجائز حمل ہو تو غیر کا بچہ الگ گلے پڑا۔ یہ سوال ابتداءً تو حضرت سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت میں پیش کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں اگر خدا نخواستہ اپنے گھر میں یہ معاملہ دیکھوں تو گواہوں کی تلاش میں نہیں جاؤں گا بلکہ تلوار سے اسی وقت معاملہ طے کر دوں گا (بخاری و مسلم) ۔ لیکن تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ بعض ایسے مقدمات عملاً پیش آگئے جن میں شوہروں نے اپنی آنکھوں سے یہ معاملہ دیکھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کی شکایت لے گئے۔ عبد اللہ بن مسعود اور ابن عمر (رض) کی روایات ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (غالباً عویمر عجلانی) نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ، اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے اور منہ سے بات نکالے تو آپ حد قذف جاری کردیں گے، قتل کر دے تو آپ اسے قتل کردیں گے، چپ رہے تو غیظ میں مبتلا رہے۔ آخر وہ کیا کرے ؟ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی کہ خدایا، اس مسئلے کا فیصلہ فرما (مسلم، بخاری، ابو داؤد، احمد، نسائی) ۔ ابن عباس کی روایات ہے کہ ہلال بن امیہ نے آ کر اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا جسے انہوں نے بچشم خود ملوث دیکھا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ثبوت لاؤ، ورنہ تم پر حد قذف جاری ہوگی “۔ صحابہ میں اس پر عام پریشانی پھیل گئی، اور ہلال نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، میں بالکل صحیح واقعہ عرض کر رہا ہوں جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ بچا دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری، احمد، ابو داؤد) ۔ اس میں جو طریق تصفیہ تجویز کیا گیا ہے اسے اسلامی قانون کی اصطلاح میں ” لِعان ” کہا جاتا ہے۔
یہ حکم آجانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن مقدمات کا فیصلہ فرمایا ان کی مفصل رودادیں کتب حدیث میں منقول ہیں اور وہی لعان کے مفصل قانون اور ضابطہ کارروائی کا ماخذ ہیں۔
بلال بن امیہ کے مقدمے کی جو تفصیلات صحاح ستہ اور مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں ابن عباس اور انس بن مالک (رض) سے منقول ہوئی ہیں ان میں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ہلال اور ان کی بہوٰ ، دونوں عدالت نبوی میں حاضر کیے گئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے حکم خداوندی سنایا۔ پھر فرمایا ” خوب سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت چیز ہے “۔ ہلال نے عرض کیا میں نے اس پر بالکل صحیح الزام لگایا ہے۔ عورت نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اچھا، تو ان دونوں میں ملاعنَت کرائی جائے “۔ چناچہ پہلے ہلال اٹھے اور انہوں نے حکم قرآنی کے مطابق قسمیں کھانی شروع کیں ............ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دوران میں بار بار فرماتے رہے ” اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے، پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا ؟ ” پانچویں قسم سے پہلے حاضرین نے ہلال سے کہا ” خدا سے ڈرو، دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ یہ پانچویں قسم تم پر عذاب واجب کر دے گی “۔ مگر ہلال نے کہا جس خدا نے یہاں میری پیٹھ بچائی ہے وہ آخرت میں بھی مجھے عذاب نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے پانچویں قسم بھی کھالی۔ پھر عورت اٹھی اور اس نے بھی قسمیں کھانی شروع کیں۔ پانچویں قسم سے پہلے اسے بھی روک کر کہا گیا کہ ” خدا سے ڈر، آخرت کے عذاب کی بہ نسبت دنیا کا عذاب برداشت کرلینا آسان ہے۔ یہ آخری قسم تجھ پر عذاب الٰہی کو واجب کر دے گی “۔ یہ سن کر وہ کچھ دیر رکتی اور جھجکتی رہی۔ لوگوں نے سمجھا اعتراف کرنا چاہتی ہے مگر پھر کہنے لگی ” میں ہمیشہ کے لیے اپنے قبیلے کو رسوا نہیں کروں گی ” اور پانچویں قسم بھی کھا گئی۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا بچہ (جو اس وقت پیٹ میں تھا) ماں کی طرف منسوب ہوگا، باپ کا نہیں پکارا جائے گا، کسی کو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگانے کا حق نہ ہوگا، جو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگائے گا وہ حد قذف کا مستحق ہوگا، اور اس کو زمانۂ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال پر حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر شوہر سے جدا کی جا رہی ہے۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا کہ اس کے ہاں جب بچہ ہو تو دیکھو، وہ کس پر گیا ہے۔ اگر اس اس شکل کا ہو تو ہلال کا ہے، اور اگر اس صورت کا ہو تو اس شخص کا ہے جس کے بارے میں اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ وضع حمل کے بعد دیکھا گیا کہ وہ مؤخر الذکر صورت کا تھا، اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لولا الایمان (یا بروایت دیگر لو لا مضیٰ من کتاب اللہ) لکان لی ولھا شان، یعنی اگر قسمیں نہ ہوتیں (یا خدا کی کتاب پہلے ہی فیصلہ نہ کرچکی ہوتی) تو میں اس عورت سے بری طرح پیش آتا۔
عویمر عجلانی کے مقدمے کی روداد سہل بن سعد ساعدی اور ابن عمر (رض) سے بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ملتی ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ عویمر اور ان کی بیوی، دونوں مسجد نبوی میں بلائے گئے۔ مُلاعَنَت سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی تنبیہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا ” اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا ” ؟ جب کسی نے توبہ نہ کی تو دونوں میں ملاعنت کرائی گئی۔ اس کے بعد عویمر نے کہا ” یا رسول اللہ اب اگر میں اس عورت کو رکھوں تو جھوٹا ہوں “۔ یہ کہہ کر انہوں نے تین طلاقیں دے دیں بغیر اس کے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہوتا۔ سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان طلاقوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نافذ فرما دیا اور ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ ” یہ تفریق ہے ہر ایسے جوڑے کے معاملے میں جو باہم لعان کرے “۔ اور سنت یہ قائم ہوگئی کہ لعان کرنے والے زوجین کو جدا کردیا جائے، پھر وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ مگر ابن عمر صرف اتنا بیان کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کرا دی۔ سہل بن سعد یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ عورت حاملہ تھی اور عویمر نے کہا کہ یہ حمل میرا نہیں ہے۔ اس بنا پر بچہ ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور سنت یہ جاری ہوئی کہ اس طرح کا بچہ ماں سے میراث پائے گا اور ماں ہی اس سے میراث پائے گی۔
ان دو مقدموں کے علاوہ متعدد روایات ہم کو کتب حدیث میں ایسی بھی ملتی ہیں جن میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کن اشخاص کے مقدموں کی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض ان ہی دونوں مقدموں سے تعلق رکھتی ہوں، مگر بعض میں کچھ دوسرے مقدمات کا بھی ذکر ہے اور ان سے قانون لعان کے بعض اہم نکات پر روشنی پڑتی ہے۔
ابن عمر ایک مقدمے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زوجین جب لعان کرچکے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کردی (بخاری، مسلم، نسائی، احمد، ابن جریر) ۔ ابن عمر کی ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا گیا۔ پھر اس نے حمل سے انکار کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کردی اور فیصلہ فرمایا کہ بچہ صرف ماں کا ہوگا (صحاح ستہ اور احمد) ۔ ابن عمر ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ملاعنت کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تمہارا حساب اب اللہ کے ذمہ ہے، تم میں سے ایک بہرحال جھوٹا ہے “۔ پھر آپ نے مرد سے فرمایا : لا سبیل لک علیھا (یعنی اب یہ تیری نہیں رہی۔ نہ تو اس پر کوئی حق جتا سکتا ہے، نہ کسی قسم کی دست درازی یا دوسری منتقمانہ حرکت اس کے خلاف کرنے کا مجاز ہے ) ۔ مرد نے کہا یا رسول اللہ اور میرا مال (یعنی وہ مہر تو مجھے دلوائیے جو میں نے اسے دیا تھا ) ۔ فرمایا : لا مال لک، ان کنت صدقت علیھا فھو بما استحلت من فوجھا و ان کنت کذبت علیھا فذاک ابعد و ابعد لک منھا (یعنی مال واپس لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے، اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو وہ مال اس لذت کا بدل ہے جو تو نے حلال کر کے اس سے اٹھائی، اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال تجھ سے اور بھی زیادہ دور چلا گیا، وہ اس کی بہ نسبت تجھ سے زیادہ دور ہے) بخاری، مسلم، ابو داؤد۔
دارقطنی نے علی بن ابی طالب اور ابن مسعود (رض) کا قول نقل کیا ہے : ” سنت یہ مقرر ہوچکی ہے کہ لعان کرنے والے زوجین پھر کبھی باہم جمع نہیں ہو سکتے ” (یعنی ان کا دوبارہ نکاح پھر کبھی نہیں ہو سکتا) ۔ اور دارقطنی ہی حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود فرمایا ہے کہ یہ دونوں پھر کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔
قبیصہ بن ذؤَیب کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے حمل کو ناجائز قرار دیا، پھر اعتراف کرلیا کہ یہ حمل اس کا اپنا ہے، پھر وضع حمل کے بعد کہنے لگا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ معاملہ حضرت عمر کی عدالت میں پیش ہوا۔ آپ نے اس پر حد قذف جاری کی اور فیصلہ کیا کہ بچہ اسی کی طرف منسوب ہوگا (دار قطنی، بیہقی) ۔
ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا میری ایک بیوی ہے جو مجھے بہت محبوب ہے۔ مگر اس کا حال یہ ہے کہ کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی (واضح رہے کہ یہ کنایہ تھا جس کے معنی زنا کے بھی ہو سکتے ہیں اور زنا سے کم تر درجے کی اخلاقی کمزوری کے بھی) ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طلاق دیدے۔ اس نے کہا مگر میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ فرمایا تو اسے رکھے رہ (یعنی آپ نے اس سے اس کنایے کی تشریح نہیں کرائی اور اس کے قول کو الزام زنا پر محمول کر کے لعان کا حکم نہیں دیا) ۔ نسائی۔
ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر عرض کیا میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ میرا ہے (یعنی محض لڑکے کے رنگ نے اسے شبہ میں ڈالا تھا ورنہ بیوی پر زنا کا الزام لگانے کے لیے اس کے پاس کوئی اور وجہ نہ تھی) ۔ آپ نے پوچھا تیرے پاس کچھ اونٹ تو ہوں گے۔ اس نے عرض کیا ہاں۔ آپ نے پوچھا ان کے رنگ کیا ہیں ؟ کہنے لگا سرخ۔ آپ نے پوچھا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے ؟ کہنے لگا جی ہاں، بعض ایسے بھی ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ کہنے لگا شاید کوئی رگ کھینچ لے گئی (یعنی ان کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہوگا اور اسی کا اثر ان میں آگیا) ۔ فرمایا ” شاید اس بچے کو بھی کوئی رگ کھینچ لے گئی ” اور آپ نے اسے نفی وَلَد (بچے کے نسب سے انکار) کی اجازت نہ دی (بخاری، مسلم، احمد، ابو داؤد) ۔
ابوہریرہ کی ایک اور روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت لعان پر کلام کرتے ہوئے فرمایا ” جو عورت کسی خاندان میں ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے (یعنی حرام کا پیٹ رکھوا کر شوہر کے سر منڈھ دے) اس کا اللہ سے کچھ واسطہ نہیں، اللہ اس کو جنت میں ہرگز داخل نہ کرے گا۔ اور جو مرد اپنے بچے کے نسب سے انکار کرے حالانکہ بچہ اس کو دیکھ رہا ہو، اللہ قیامت کے روز اس سے پردہ کرے گا اور اسے تمام اگلی پچھلی خلق کے سامنے رسوا کر دے گا (ابو داؤد، نسائی، دارمی) ۔
آیت لعان اور یہ روایات و نظائر اور شریعت کے اصول عامہ اسلام میں قانون لعان کے وہ مآخذ ہیں جن کی روشنی میں فقہاء نے لعان کا مفصل ضابطہ بنایا ہے۔ اس ضابطے کی اہم دفعات یہ ہیں :
١): جو شخص بیوی کی بد کاری دیکھے اور لعان کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قتل کا مرتکب ہوجائے اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ اس کو خود حد جاری کرنے کا حق نہ تھا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے فعل پر کوئی مواخذہ ہوگا بشرطیکہ اس کی صداقت ثابت ہوجائے (یعنی یہ کہ فی الواقع اس نے زنا ہی کے ارتکاب پر یہ فعل کیا) ۔ امام احمد اور اسحاق بن راہَوَیہ کہتے ہیں کہ اسے اس امر کے دو گواہ لانے ہوں گے کہ قتل کا سبب یہی تھا۔ مالکیہ میں سے ابن القاسم اور ابن حبیب اس پر مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ زانی جسے قتل کیا گیا وہ شادی شدہ ہو، ورنہ کنوارے زانی کو قتل کرنے پر اس سے قصاص لیا جائے گا۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس کو قصاص سے صرف اس صورت میں معاف کیا جائے گا جبکہ وہ زنا کے چار گواہ پیش کرے، یا مقتول مرنے سے پہلے خود اس امر کا اعتراف کرچکا ہو کہ وہ اس کی بیوی سے زنا کر رہا تھا، اور مزید یہ کہ مقتول شادی شدہ ہو (نیل الاوطار، ج 6، ص 228) ۔
٢) : لعان گھر بیٹھے آپس ہی میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے عدالت میں جانا ضروری ہے۔
٣) : لعان کے مطالبے کا حق صرف مرد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت بھی عدالت میں اس کا مطالبہ کرسکتی ہے جبکہ شوہر اس پر بد کاری کا الزام لگائے یا اس کے بچے کا نسب تسلیم کرنے سے انکار کرے۔
٤): کیا لعان ہر زوج اور زوجہ کے درمیان ہوسکتا ہے یا اس کے لیے دونوں میں کچھ شرائط ہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جس کی قسم قانونی حیثیت سے معتبر ہو اور جس کو طلاق دینے کا اختیار ہو وہ لعان کرسکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک صرف عاقل اور بالغ ہونا اہلیت لعان کے لیے کافی ہے خواہ زوجین مسلم ہوں یا کافر، غلام ہوں یا آزاد، مقبول الشہادت ہوں یا نہ ہوں، اور مسلم شوہر کی بیوی مسلمان ہو یا ذمی۔ قریب قریب یہی رائے امام مالک اور امام احمد کی بھی ہے۔ مگر حنفیہ کہتے ہیں کہ لعان صرف ایسے آزاد مسلمان زوجین ہی میں ہوسکتا ہے جو قذف کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہوں۔ اگر عورت اور مرد دونوں کافر ہوں، یا غلام ہوں، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہو سکتا۔ مزید براں اگر عورت کبھی اس سے پہلے حرام یا مشتبہ طریقے پر کسی مرد سے ملوث ہوچکی ہو تب بھی لعان درست نہ ہوگا۔ یہ شرطیں حنفیہ نے اس بنا پر لگائی ہیں کہ ان کے نزدیک لعان کے قانون اور قذف کے قانون میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ غیر آدمی اگر قذف کا مرتکب ہو تو اس کے لیے حد ہے اور شوہر اس کا ارتکاب کرے تو وہ لعان کر کے چھوٹ سکتا ہے۔ باقی تمام حیثیتوں سے لعان اور قذف ایک ہی چیز ہے۔ علاوہ بریں حنفیہ کے نزدیک چونکہ لعان کی قسمیں شہادت کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے وہ کسی ایسے شخص کو اس کی اجازت نہیں دیتے جو شہادت کا اہل نہ ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں حنفیہ کا مسلک کمزور ہے اور صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی نے فرمائی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے قذف زوجہ کے مسئلے کو آیت قذف کا ایک جز نہیں بنایا ہے بلکہ اس کے لیے الگ قانون بیان کیا ہے، اس لیے اس کو قانون قذف کے ضمن میں لا کر وہ تمام شرائط اس میں شامل نہیں کی جا سکتیں جو قذف کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ آیت لعان ہی سے اخذ کرنا چاہیے نہ کہ آیت قذف سے۔ مثلاً آیت قذف میں سزا کا مستحق وہ شخص ہے جو پاک دامن عورتوں (محصنات) پر الزام لگائے۔ لیکن آیت لعان میں پاک دامن بیوی کی شرط کہیں نہیں ہے۔ ایک عورت چاہے کبھی گناہ گار بھی رہی ہو، اگر بعد میں وہ توبہ کر کے کسی شخص سے نکاح کرلے اور پھر اس کا شوہر اس پر ناحق الزام لگائے تو آیت لعان یہ نہیں کہتی کہ اس عورت پر تہمت رکھنے کی یا اس کی اولاد کے نسب سے انکار کردینے کی شوہر کو کھلی چھٹی دے دو کیونکہ اس کی زندگی کبھی داغ دار رہ چکی ہے۔ دوسری اور اتنی ہی اہم وجہ یہ ہے کہ قذف زوجہ اور قذف اجنبیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ان دونوں کے بارے میں قانون کا مزاج ایک نہیں ہو سکتا۔ غیر عورت سے آدمی کو کوئی بڑی سے بڑی با وقعت دلچسپی ہو سکتی ہے تو جس پہ کہ معاشرے کو بد اخلاقی سے پاک دیکھنے کا جوش اسے لاحق ہو۔ اس کے بر عکس اپنی بیوی سے آدمی کا تعلق ایک طرح کا نہیں کئی طرح کا ہے اور بہت گہرا ہے۔ وہ اس کے نسب اور اس کے مال اور اس کے گھر کی امانت دار ہے۔ اس کی زندگی کی شریک ہے۔ اس کے رازوں کی امین ہے۔ اس کے نہایت گہرے اور نازک جذبات اس سے وابستہ ہیں۔ اس کی بد چلنی سے آدمی کی غیرت اور عزت پر، اس کے مفاد پر، اور اس کی آئندہ نسل پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ یہ دونوں معاملے آخر ایک کس حیثیت سے ہیں کہ دونوں کے لیے قانون کا مزاج ایک ہی ہو۔ کیا ایک ذمی، یا ایک غلام، یا ایک سزا یافتہ آدمی کے لیے اس کی بیوی کا معاملہ کسی آزاد اہل شہادت مسلمان کے معاملے سے کچھ بھی مختلف یا اہمیت اور نتائج میں کچھ بھی کم ہے ؟ اگر وہ اپنی آنکھوں سے کسی کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث دیکھ لے، یا اس کو یقین ہو کہ اس کی بیوی غیر سے حاملہ ہے تو کون سی معقول وجہ ہے کہ اسے لعان کا حق نہ دیا جائے ؟ اور یہ حق اس سے سلب کرنے کے بعد ہمارے قانون میں اس کے لیے اور کیا چارہ کار ہے ؟ قرآن مجید کا منشا تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ جوڑوں کو اس پیچیدگی سے نکالنے کی ایک صورت پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں بیوی کی حقیقی بد کاری یا ناجائز حمل سے ایک شوہر، اور شوہر کے جھوٹے الزام یا اولاد کے نسب سے بےجا انکار کی بدولت ایک بیوی مبتلا ہوجائے۔ یہ ضرورت صرف اہل شہادت آزاد مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، اور قرآن کے الفاظ میں بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کو صرف ان ہی تک محدود کرنے والی ہو۔ رہا یہ استدلال کہ قرآن نے لعان کی قسموں کو شہادت قرار دیا ہے اس لیے شہادت کی شرائط یہاں عائد ہوں گی، تو اس کا تقاضا پھر یہ ہے کہ اگر عادل مقبول الشہادت شوہر قسمیں کھالے اور عورت قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو عورت کو رجم کردیا جائے، کیونکہ اس کی بد کاری پر شہادت قائم ہوچکی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس صورت میں حنفیہ رجم کا حکم نہیں لگاتے۔ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ خود بھی ان قسموں کو بعینہ شہادت کی حیثیت نہیں دیتے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت نہیں قرار دیتا ورنہ عورت کو چار کے بجائے آٹھ قسمیں کھانے کا حکم دیتا۔
٥): لعان محض کنایے اور استعارے یا اظہار شک و شبہ پر لازم نہیں آتا، بلکہ صرف اس صورت میں لازم آتا ہے جبکہ شوہر صریح طور پر زنا کا الزام عائد کرے یا صاف الفاظ میں بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ امام مالک اور لیث بن سعد اس پر یہ مزید شرط بڑھاتے ہیں کہ قسم کھاتے وقت شوہر کو یہ کہنا چاہیے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے بیوی کو زنا میں مبتلا دیکھا ہے۔ لیکن یہ قید بےبنیاد ہے۔ اس کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔
٦) : اگر الزام لگانے کے بعد شوہر قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ اسے قید کردیا جائے گا اور جب تک وہ لعان نہ کرے یا اپنے الزام کا جھوٹا ہونا نہ مان لے، اسے نہ چھوڑا جائے گا، اور جھوٹ مان لینے کی صورت میں اس کو حد قذف لگائی جائے گی۔ اس کے برعکس امام مالک، شافعی، حسن بن صالح اور لیث بن سعد کی رائے یہ ہے کہ لعان سے پہلو تہی کرنا خود ہی اقرار کذب ہے اس لیے حد قذف واجب آجاتی ہے۔
٧): اگر شوہر کے قسم کھا چکنے کے بعد عورت لعان سے پہلو تہی کرے تو حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کردیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک وہ لعان نہ کرے، یا پھر زنا کا اقرار نہ کرلے۔ دوسری طرف مذکورہ بالا ائمہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اسے رجم کردیا جائے گا۔ ان کا استدلال قرآن کے اس ارشاد سے ہے کہ عورت سے عذاب صرف اس صورت میں دفع ہوگا جبکہ وہ بھی قسم کھالے۔ اب چونکہ وہ قسم نہیں کھاتی اس لیے لا محالہ وہ عذاب کی مستحق ہے۔ لیکن اس دلیل میں کمزوری یہ ہے کہ قرآن یہاں ” عذاب ” کی نوعیت تجویز نہیں کرتا بلکہ مطلقاً سزا کا ذکر کرتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ سزا سے مراد یہاں زنا ہی کی سزا ہو سکتی ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ زنا کی سزا کے لیے قرآن نے صاف الفاظ میں چار گواہوں کی شرط لگائی ہے۔ اس شرط کو محض ایک شخص کی چار قسمیں پورا نہیں کر دیتیں۔ شوہر کی قسمیں اس بات کے لیے تو کافی ہیں کہ وہ خود قذف کی سزا سے بچ جانے اور عورت پر لعان کے احکام مترتب ہو سکیں، مگر اس بات کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ان سے عورت پر زنا کا الزام ثابت ہوجائے۔ عورت کا جوابی قسمیں کھانے سے انکار شبہ ضرور پیدا کرتا ہے اور بڑا قوی شبہ پیدا کردیتا ہے، لیکن شبہات پر حدود جاری نہیں کی جا سکتیں۔ اس معاملہ کو مرد کی حد قذف پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس کا قذف تو ثابت ہے، جبھی تو اس کو لعان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے برعکس عورت پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے اپنے اقرار یا چار یعنی شہادتوں کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔
٨) : اگر لعان کے وقت عورت حاملہ ہو تو امام احمد کے نزدیک لعان بجائے خود اس بات کے لیے کافی ہے کہ مرد اس حمل سے بری الذمہ ہوجائے اور بچہ اس کا قرار نہ پائے قطع نظر اس سے کہ مرد نے حمل کو قبول کرنے سے انکار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ مرد کا الزام زنا اور نفی حمل دونوں ایک چیز نہیں ہیں، اس لیے مرد جب تک حمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے صریح طور پر انکار نہ کرے وہ الزام زنا کے باوجود اسی کا قرار پائے گا کیونکہ عورت کے زانیہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو حمل بھی زنا ہی کا ہو۔
٩) : امام مالک، امام شافعی اور امام احمد دوران حمل میں مرد کو نفی حمل کی اجازت دیتے ہیں اور اس بنیاد پر لعان کو جائز رکھتے ہیں۔ مگر امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر مرد کے الزام کی بنیاد زنانہ ہو بلکہ صرف یہ ہو کہ اس نے عورت کو ایسی حالت میں حاملہ پایا ہے جب کہ اس کے خیال میں حمل اس کا نہیں ہوسکتا تو اس صورت میں لعان کے معاملے کو وضع حمل تک ملتوی کردینا چاہیے، کیونکہ نس اوقات کوئی بیماری حمل کا شبہ پیدا کردیتی ہے اور در حقیقت حمل ہوتا نہیں ہے۔
١٠) : اگر باپ بچے کے نسب سے انکار کرے تو بالاتفاق لعان لازماً آتا ہے۔ اور اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ ایک دفعہ بچے کو قبول کرلینے کے بعد (خواہ یہ قبول کرلینا صریح الفاظ میں ہو یا قبولیت پر دلالت کرنے والے افعال، مثلاً پیدائش پر مبارک باد لینے یا بچے کے ساتھ پدرانہ شفقت برتنے اور اس کی پرورش سے دلچسپی لینے کی صورت میں) پھر باپ کو انکار نسب کا حق نہیں رہتا، اور اگر کرے تو حد قذف کا مستحق ہوجاتا ہے۔ مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ باپ کو کس وقت تک انکار نسب کا حق حاصل ہے۔ امام مالک کے نزدیک اگر شوہر اس زمانے میں گھر پر موجود رہا ہے جبکہ بیوی حاملہ تھی تو زمانہ حمل سے لے کر وضع حمل تک اس کے لیے انکار کا موقع ہے، اس کے بعد وہ انکار کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ اگر وہ غائب تھا اور اس کے پیچھے ولادت ہوئی تو جس وقت اسے علم ہو وہ انکار کرسکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر پیدائش کے بعد ایک دو روز کے اندر وہ انکار کرے تو لعان کر کے وہ بچے کی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا، لیکن اگر سال دو سال بعد انکار کرے تو لعان ہوگا مگر وہ بچے کی ذمہ داری سے بری نہ ہو سکے گا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک ولادت کے بعد، یا ولادت کا علم ہونے کے بعد چالیس دن کے اندر اندر باپ کو انکار نسب کا حق ہے، اس کے بعد یہ حق ساقط ہوجائے گا۔ مگر یہ چالیس دن کی قید بےمعنی ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام ابوحنیفہ نے فرمائی ہے کہ ولادت کے بعد یا اس کا علم ہونے کے بعد ایک دو روز کے اندر ہی انکار نسب کیا جاسکتا ہے، الا یہ کہ اس میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جسے معقول رکاوٹ تسلیم کیا جاسکے۔
١١) : اگر شوہر طلاق دینے کے بعد مطلقہ بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان نہیں ہوگا بلکہ اس پر قذف کا مقدمہ قائم کیا جائے گا، کیونکہ لعان زوجین کے لیے ہے اور مطلقہ عورت اس کی بیوی نہیں ہے۔ الا یہ کہ طلاق رجعی ہو اور مدت رجوع کے اندر وہ الزام لگائے۔ مگر امام مالک کے نزدیک یہ قذف صرف اس صورت میں ہے جبکہ کسی حمل یا بچے کا نسب قبول کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ مرد کو طلاق بائن کے بعد بھی لعان کا حق حاصل ہے کیونکہ وہ عورت کو بد نام کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود ایک ایسے بچے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے لعان کر رہا ہے جسے وہ اپنا نہیں سمجھتا۔ قریب قریب یہی رائے امام شافعی کی بھی ہے۔
١٢): لعان کے قانونی نتائج میں سے بعض متفق علیہ ہیں، اور بعض میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
متفق علیہ نتائج یہ ہیں : عورت اور مرد دونوں کسی سزا کے مستحق نہیں رہتے۔ مرد بچے کے نسب کا منکر ہو تو بچہ صرف ماں کا قرار پائے گا، نہ باپ کی طرف منسوب ہوگا نہ اس سے میراث پائے گا، ماں اس کی وارث ہوگی اور وہ ماں کا وارث ہوگا۔ عورت کو زانیہ اور اس کے بچے کو ولد الزنا کہنے کا کسی کو حق نہ ہوگا، خواہ لعان کے وقت اس کے حالات ایسے ہی کیوں نہ ہوں کہ لوگوں کو اس کے زانیہ ہونے میں شک نہ رہے۔ جو شخص لعان کے بعد اس پر یا اس کے بچے پر سابق الزام کا اعادہ کرے گا وہ حد کا مستحق ہوگا۔ عورت کا مہر ساقط نہ ہوگا۔ عورت دوران عدت میں مرد سے نفقہ اور مسکن پانے کی حق دار نہ ہوگی۔ عورت اس مرد کے لیے حرام ہوجائے گی۔
اختلاف دو مسئلوں میں ہے۔ ایک یہ کہ لعان کے بعد عورت اور مرد کی علیٰحدگی کیسے ہوگی ؟ دوسرے یہ کہ لعان کی بنا پر علیٰحدہ ہوجانے کے بعد کیا ان دونوں کا پھر مل جانا ممکن ہے ؟ پہلے مسئلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ جس وقت مرد لعان سے فارغ ہوجائے اسی وقت فرقت آپ سے آپ واقع ہوجاتی ہے خواہ عورت جوابی لعان کرے نہ کرے۔ امام مالک، لیث بن سعد اور زفر کہتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں جب لعان سے فارغ ہوں تب فرقت واقع ہوتی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ، ابو یوسف اور محمد کہتے ہیں کہ لعان سے فرقت آپ ہی آپ واقع نہیں ہوجاتی بلکہ عدالت کے تفریق کرانے سے ہوتی ہے۔ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر، ورنہ حاکم عدالت ان کے درمیان تفریق کا اعلان کرے گا۔ دوسرے مسئلے میں امام مالک، ابو یوسف، زفر، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ، شافعی، احمد بن حنبل اور حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ لعان سے جو زوجین جدا ہوئے ہوں وہ پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، دوبارہ وہ باہم نکاح کرنا بھی چاہیں تو کسی حال میں نہیں کرسکتے۔ یہی رائے حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بھی ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، شعبی، سعید بن جبیر، ابوحنیفہ اور محمد رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر اپنا جھوٹ مان لے اور اس پر حد قذف جاری ہوجائے تو پھر ان دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے کے لیے حرام کرنے والی چیز لعان ہے۔ جب تک وہ اس پر قائم رہیں، حرمت بھی قائم رہے گی۔ مگر جب شوہر اپنا جھوٹ مان کر سزا پا گیا تو لعان ختم ہوگیا اور حرمت بھی اٹھ گئی۔
اور پانچویں دفع کہے کہ اس پر اللہ کا عذاب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو۔
یعنی اگر خاوند کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے (اور میں جھوٹی ہوں) تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ تو اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائی گی اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہوجائے گی۔ اسے لعان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں ہی اپنے آپ کو جھوٹا ہونے کی صورت میں مستحق لعنت قرار دیتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایسے بعض واقعات پیش آئے، جن کی تفصیل احادیث میں موجود ہے، وہی واقعات ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کا کرم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ توبہ قبول فرمانے والا اور صاحب حکمت ہے تو تم اس کی پکڑ میں آ جاتے۔
ایک تنبیہ: یہ آیت، جیسا کہ پہلی آیت میں اشارہ ہو چکا ہے، بطور تنبیہ و تذکیر ہے اور اس میں جواب شرط عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق، محذوف ہے۔ آگے آیت ۱۴ میں اس محذوف کو کھول بھی دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کے فضل و رحمت اور اس کے توّاب و حکیم ہونے کی برکت ہے کہ وہ تم کو یہ روشن ہدایات اور واضح و پر حکمت احکام دے رہا ہے کہ تمہارے لیے توبہ و اصلاح کی راہ کھولے ورنہ تم جس روش پر چل پڑے تھے یہ تو خدا کے غضب کو دعوت دینے والی تھی۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ احکام اس زمانہ میں نازل ہوئے ہیں جب مسلمانوں کے اندر، منافقین کی ریشہ دوانیوں سے، بعض نہایت سخت قسم کی، جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے، کمزوریاں ظاہر ہوئی تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوریوں پر سزا دینے کے بجائے اپنے فضل و رحمت سے ان کو ان احکام و ہدایات کے نزول کا سبب بنا لیا جو اسلامی معاشرہ کو شیاطین و منافقین کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری تھے۔
(ایمان والو)، اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور صاحب حکمت ہے (تو جو رویہ تم نے اختیار کیا تھا، اِن احکام کے بجاے اُس پر اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا)۔
یہ جواب شرط ہے جو عربیت کے قاعدے سے آیت میں محذوف ہے۔ آگے آیت ۱۴ میں اِس کو کھول دیا ہے۔ ہم نے ترجمہ اُسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے، تو ﴿بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا﴾۔
یہ آیات پچھلی آیات کے کچھ مدت بعد نازل ہوئی ہیں۔ حد قذف کا حکم جب نازل ہوا تو لوگوں میں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ غیر مرد اور عورت کی بد چلنی دیکھ کر تو آدمی صبر کرسکتا ہے، گواہ موجود نہ ہوں تو زبان پر قفل چڑھا لے اور معاملے کو نظر انداز کر دے۔ لیکن اگر وہ خود اپنی بیوی کی بد چلنی دیکھ لے تو کیا کرے ؟ قتل کر دے تو الٹا سزا کا مستوجب ہو۔ گواہ ڈھونڈنے جائے تو ان کے آنے تک مجرم کب ٹھہرا رہے گا۔ صبر کرے تو آخر کیسے کرے۔ طلاق دے کر عورت کو رخصت کرسکتا ہے، مگر نہ اس عورت کو کسی قسم کی مادی یا اخلاقی سزا ملی نہ اس کے آشنا کو۔ اور اگر اسے ناجائز حمل ہو تو غیر کا بچہ الگ گلے پڑا۔ یہ سوال ابتداءً تو حضرت سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت میں پیش کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں اگر خدا نخواستہ اپنے گھر میں یہ معاملہ دیکھوں تو گواہوں کی تلاش میں نہیں جاؤں گا بلکہ تلوار سے اسی وقت معاملہ طے کر دوں گا (بخاری و مسلم) ۔ لیکن تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ بعض ایسے مقدمات عملاً پیش آگئے جن میں شوہروں نے اپنی آنکھوں سے یہ معاملہ دیکھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کی شکایت لے گئے۔ عبد اللہ بن مسعود اور ابن عمر (رض) کی روایات ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (غالباً عویمر عجلانی) نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ، اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے اور منہ سے بات نکالے تو آپ حد قذف جاری کردیں گے، قتل کر دے تو آپ اسے قتل کردیں گے، چپ رہے تو غیظ میں مبتلا رہے۔ آخر وہ کیا کرے ؟ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی کہ خدایا، اس مسئلے کا فیصلہ فرما (مسلم، بخاری، ابو داؤد، احمد، نسائی) ۔ ابن عباس کی روایات ہے کہ ہلال بن امیہ نے آ کر اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا جسے انہوں نے بچشم خود ملوث دیکھا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ثبوت لاؤ، ورنہ تم پر حد قذف جاری ہوگی “۔ صحابہ میں اس پر عام پریشانی پھیل گئی، اور ہلال نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، میں بالکل صحیح واقعہ عرض کر رہا ہوں جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ بچا دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری، احمد، ابو داؤد) ۔ اس میں جو طریق تصفیہ تجویز کیا گیا ہے اسے اسلامی قانون کی اصطلاح میں ” لِعان ” کہا جاتا ہے۔
یہ حکم آجانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن مقدمات کا فیصلہ فرمایا ان کی مفصل رودادیں کتب حدیث میں منقول ہیں اور وہی لعان کے مفصل قانون اور ضابطہ کارروائی کا ماخذ ہیں۔
بلال بن امیہ کے مقدمے کی جو تفصیلات صحاح ستہ اور مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں ابن عباس اور انس بن مالک (رض) سے منقول ہوئی ہیں ان میں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ہلال اور ان کی بہوٰ ، دونوں عدالت نبوی میں حاضر کیے گئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے حکم خداوندی سنایا۔ پھر فرمایا ” خوب سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت چیز ہے “۔ ہلال نے عرض کیا میں نے اس پر بالکل صحیح الزام لگایا ہے۔ عورت نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اچھا، تو ان دونوں میں ملاعنَت کرائی جائے “۔ چناچہ پہلے ہلال اٹھے اور انہوں نے حکم قرآنی کے مطابق قسمیں کھانی شروع کیں ............ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دوران میں بار بار فرماتے رہے ” اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے، پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا ؟ ” پانچویں قسم سے پہلے حاضرین نے ہلال سے کہا ” خدا سے ڈرو، دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ یہ پانچویں قسم تم پر عذاب واجب کر دے گی “۔ مگر ہلال نے کہا جس خدا نے یہاں میری پیٹھ بچائی ہے وہ آخرت میں بھی مجھے عذاب نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے پانچویں قسم بھی کھالی۔ پھر عورت اٹھی اور اس نے بھی قسمیں کھانی شروع کیں۔ پانچویں قسم سے پہلے اسے بھی روک کر کہا گیا کہ ” خدا سے ڈر، آخرت کے عذاب کی بہ نسبت دنیا کا عذاب برداشت کرلینا آسان ہے۔ یہ آخری قسم تجھ پر عذاب الٰہی کو واجب کر دے گی “۔ یہ سن کر وہ کچھ دیر رکتی اور جھجکتی رہی۔ لوگوں نے سمجھا اعتراف کرنا چاہتی ہے مگر پھر کہنے لگی ” میں ہمیشہ کے لیے اپنے قبیلے کو رسوا نہیں کروں گی ” اور پانچویں قسم بھی کھا گئی۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا بچہ (جو اس وقت پیٹ میں تھا) ماں کی طرف منسوب ہوگا، باپ کا نہیں پکارا جائے گا، کسی کو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگانے کا حق نہ ہوگا، جو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگائے گا وہ حد قذف کا مستحق ہوگا، اور اس کو زمانۂ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال پر حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر شوہر سے جدا کی جا رہی ہے۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا کہ اس کے ہاں جب بچہ ہو تو دیکھو، وہ کس پر گیا ہے۔ اگر اس اس شکل کا ہو تو ہلال کا ہے، اور اگر اس صورت کا ہو تو اس شخص کا ہے جس کے بارے میں اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ وضع حمل کے بعد دیکھا گیا کہ وہ مؤخر الذکر صورت کا تھا، اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لولا الایمان (یا بروایت دیگر لو لا مضیٰ من کتاب اللہ) لکان لی ولھا شان، یعنی اگر قسمیں نہ ہوتیں (یا خدا کی کتاب پہلے ہی فیصلہ نہ کرچکی ہوتی) تو میں اس عورت سے بری طرح پیش آتا۔
عویمر عجلانی کے مقدمے کی روداد سہل بن سعد ساعدی اور ابن عمر (رض) سے بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ملتی ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ عویمر اور ان کی بیوی، دونوں مسجد نبوی میں بلائے گئے۔ مُلاعَنَت سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی تنبیہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا ” اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا ” ؟ جب کسی نے توبہ نہ کی تو دونوں میں ملاعنت کرائی گئی۔ اس کے بعد عویمر نے کہا ” یا رسول اللہ اب اگر میں اس عورت کو رکھوں تو جھوٹا ہوں “۔ یہ کہہ کر انہوں نے تین طلاقیں دے دیں بغیر اس کے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہوتا۔ سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان طلاقوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نافذ فرما دیا اور ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ ” یہ تفریق ہے ہر ایسے جوڑے کے معاملے میں جو باہم لعان کرے “۔ اور سنت یہ قائم ہوگئی کہ لعان کرنے والے زوجین کو جدا کردیا جائے، پھر وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ مگر ابن عمر صرف اتنا بیان کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کرا دی۔ سہل بن سعد یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ عورت حاملہ تھی اور عویمر نے کہا کہ یہ حمل میرا نہیں ہے۔ اس بنا پر بچہ ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور سنت یہ جاری ہوئی کہ اس طرح کا بچہ ماں سے میراث پائے گا اور ماں ہی اس سے میراث پائے گی۔
ان دو مقدموں کے علاوہ متعدد روایات ہم کو کتب حدیث میں ایسی بھی ملتی ہیں جن میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کن اشخاص کے مقدموں کی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض ان ہی دونوں مقدموں سے تعلق رکھتی ہوں، مگر بعض میں کچھ دوسرے مقدمات کا بھی ذکر ہے اور ان سے قانون لعان کے بعض اہم نکات پر روشنی پڑتی ہے۔
ابن عمر ایک مقدمے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زوجین جب لعان کرچکے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کردی (بخاری، مسلم، نسائی، احمد، ابن جریر) ۔ ابن عمر کی ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا گیا۔ پھر اس نے حمل سے انکار کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کردی اور فیصلہ فرمایا کہ بچہ صرف ماں کا ہوگا (صحاح ستہ اور احمد) ۔ ابن عمر ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ملاعنت کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تمہارا حساب اب اللہ کے ذمہ ہے، تم میں سے ایک بہرحال جھوٹا ہے “۔ پھر آپ نے مرد سے فرمایا : لا سبیل لک علیھا (یعنی اب یہ تیری نہیں رہی۔ نہ تو اس پر کوئی حق جتا سکتا ہے، نہ کسی قسم کی دست درازی یا دوسری منتقمانہ حرکت اس کے خلاف کرنے کا مجاز ہے ) ۔ مرد نے کہا یا رسول اللہ اور میرا مال (یعنی وہ مہر تو مجھے دلوائیے جو میں نے اسے دیا تھا ) ۔ فرمایا : لا مال لک، ان کنت صدقت علیھا فھو بما استحلت من فوجھا و ان کنت کذبت علیھا فذاک ابعد و ابعد لک منھا (یعنی مال واپس لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے، اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو وہ مال اس لذت کا بدل ہے جو تو نے حلال کر کے اس سے اٹھائی، اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال تجھ سے اور بھی زیادہ دور چلا گیا، وہ اس کی بہ نسبت تجھ سے زیادہ دور ہے) بخاری، مسلم، ابو داؤد۔
دارقطنی نے علی بن ابی طالب اور ابن مسعود (رض) کا قول نقل کیا ہے : ” سنت یہ مقرر ہوچکی ہے کہ لعان کرنے والے زوجین پھر کبھی باہم جمع نہیں ہو سکتے ” (یعنی ان کا دوبارہ نکاح پھر کبھی نہیں ہو سکتا) ۔ اور دارقطنی ہی حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود فرمایا ہے کہ یہ دونوں پھر کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔
قبیصہ بن ذؤَیب کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے حمل کو ناجائز قرار دیا، پھر اعتراف کرلیا کہ یہ حمل اس کا اپنا ہے، پھر وضع حمل کے بعد کہنے لگا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ معاملہ حضرت عمر کی عدالت میں پیش ہوا۔ آپ نے اس پر حد قذف جاری کی اور فیصلہ کیا کہ بچہ اسی کی طرف منسوب ہوگا (دار قطنی، بیہقی) ۔
ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا میری ایک بیوی ہے جو مجھے بہت محبوب ہے۔ مگر اس کا حال یہ ہے کہ کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی (واضح رہے کہ یہ کنایہ تھا جس کے معنی زنا کے بھی ہو سکتے ہیں اور زنا سے کم تر درجے کی اخلاقی کمزوری کے بھی) ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طلاق دیدے۔ اس نے کہا مگر میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ فرمایا تو اسے رکھے رہ (یعنی آپ نے اس سے اس کنایے کی تشریح نہیں کرائی اور اس کے قول کو الزام زنا پر محمول کر کے لعان کا حکم نہیں دیا) ۔ نسائی۔
ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر عرض کیا میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ میرا ہے (یعنی محض لڑکے کے رنگ نے اسے شبہ میں ڈالا تھا ورنہ بیوی پر زنا کا الزام لگانے کے لیے اس کے پاس کوئی اور وجہ نہ تھی) ۔ آپ نے پوچھا تیرے پاس کچھ اونٹ تو ہوں گے۔ اس نے عرض کیا ہاں۔ آپ نے پوچھا ان کے رنگ کیا ہیں ؟ کہنے لگا سرخ۔ آپ نے پوچھا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے ؟ کہنے لگا جی ہاں، بعض ایسے بھی ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ کہنے لگا شاید کوئی رگ کھینچ لے گئی (یعنی ان کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہوگا اور اسی کا اثر ان میں آگیا) ۔ فرمایا ” شاید اس بچے کو بھی کوئی رگ کھینچ لے گئی ” اور آپ نے اسے نفی وَلَد (بچے کے نسب سے انکار) کی اجازت نہ دی (بخاری، مسلم، احمد، ابو داؤد) ۔
ابوہریرہ کی ایک اور روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت لعان پر کلام کرتے ہوئے فرمایا ” جو عورت کسی خاندان میں ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے (یعنی حرام کا پیٹ رکھوا کر شوہر کے سر منڈھ دے) اس کا اللہ سے کچھ واسطہ نہیں، اللہ اس کو جنت میں ہرگز داخل نہ کرے گا۔ اور جو مرد اپنے بچے کے نسب سے انکار کرے حالانکہ بچہ اس کو دیکھ رہا ہو، اللہ قیامت کے روز اس سے پردہ کرے گا اور اسے تمام اگلی پچھلی خلق کے سامنے رسوا کر دے گا (ابو داؤد، نسائی، دارمی) ۔
آیت لعان اور یہ روایات و نظائر اور شریعت کے اصول عامہ اسلام میں قانون لعان کے وہ مآخذ ہیں جن کی روشنی میں فقہاء نے لعان کا مفصل ضابطہ بنایا ہے۔ اس ضابطے کی اہم دفعات یہ ہیں :
١): جو شخص بیوی کی بد کاری دیکھے اور لعان کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قتل کا مرتکب ہوجائے اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ اس کو خود حد جاری کرنے کا حق نہ تھا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے فعل پر کوئی مواخذہ ہوگا بشرطیکہ اس کی صداقت ثابت ہوجائے (یعنی یہ کہ فی الواقع اس نے زنا ہی کے ارتکاب پر یہ فعل کیا) ۔ امام احمد اور اسحاق بن راہَوَیہ کہتے ہیں کہ اسے اس امر کے دو گواہ لانے ہوں گے کہ قتل کا سبب یہی تھا۔ مالکیہ میں سے ابن القاسم اور ابن حبیب اس پر مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ زانی جسے قتل کیا گیا وہ شادی شدہ ہو، ورنہ کنوارے زانی کو قتل کرنے پر اس سے قصاص لیا جائے گا۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس کو قصاص سے صرف اس صورت میں معاف کیا جائے گا جبکہ وہ زنا کے چار گواہ پیش کرے، یا مقتول مرنے سے پہلے خود اس امر کا اعتراف کرچکا ہو کہ وہ اس کی بیوی سے زنا کر رہا تھا، اور مزید یہ کہ مقتول شادی شدہ ہو (نیل الاوطار، ج 6، ص 228) ۔
٢) : لعان گھر بیٹھے آپس ہی میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے عدالت میں جانا ضروری ہے۔
٣) : لعان کے مطالبے کا حق صرف مرد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت بھی عدالت میں اس کا مطالبہ کرسکتی ہے جبکہ شوہر اس پر بد کاری کا الزام لگائے یا اس کے بچے کا نسب تسلیم کرنے سے انکار کرے۔
٤): کیا لعان ہر زوج اور زوجہ کے درمیان ہوسکتا ہے یا اس کے لیے دونوں میں کچھ شرائط ہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جس کی قسم قانونی حیثیت سے معتبر ہو اور جس کو طلاق دینے کا اختیار ہو وہ لعان کرسکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک صرف عاقل اور بالغ ہونا اہلیت لعان کے لیے کافی ہے خواہ زوجین مسلم ہوں یا کافر، غلام ہوں یا آزاد، مقبول الشہادت ہوں یا نہ ہوں، اور مسلم شوہر کی بیوی مسلمان ہو یا ذمی۔ قریب قریب یہی رائے امام مالک اور امام احمد کی بھی ہے۔ مگر حنفیہ کہتے ہیں کہ لعان صرف ایسے آزاد مسلمان زوجین ہی میں ہوسکتا ہے جو قذف کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہوں۔ اگر عورت اور مرد دونوں کافر ہوں، یا غلام ہوں، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہو سکتا۔ مزید براں اگر عورت کبھی اس سے پہلے حرام یا مشتبہ طریقے پر کسی مرد سے ملوث ہوچکی ہو تب بھی لعان درست نہ ہوگا۔ یہ شرطیں حنفیہ نے اس بنا پر لگائی ہیں کہ ان کے نزدیک لعان کے قانون اور قذف کے قانون میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ غیر آدمی اگر قذف کا مرتکب ہو تو اس کے لیے حد ہے اور شوہر اس کا ارتکاب کرے تو وہ لعان کر کے چھوٹ سکتا ہے۔ باقی تمام حیثیتوں سے لعان اور قذف ایک ہی چیز ہے۔ علاوہ بریں حنفیہ کے نزدیک چونکہ لعان کی قسمیں شہادت کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے وہ کسی ایسے شخص کو اس کی اجازت نہیں دیتے جو شہادت کا اہل نہ ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں حنفیہ کا مسلک کمزور ہے اور صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی نے فرمائی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے قذف زوجہ کے مسئلے کو آیت قذف کا ایک جز نہیں بنایا ہے بلکہ اس کے لیے الگ قانون بیان کیا ہے، اس لیے اس کو قانون قذف کے ضمن میں لا کر وہ تمام شرائط اس میں شامل نہیں کی جا سکتیں جو قذف کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ آیت لعان ہی سے اخذ کرنا چاہیے نہ کہ آیت قذف سے۔ مثلاً آیت قذف میں سزا کا مستحق وہ شخص ہے جو پاک دامن عورتوں (محصنات) پر الزام لگائے۔ لیکن آیت لعان میں پاک دامن بیوی کی شرط کہیں نہیں ہے۔ ایک عورت چاہے کبھی گناہ گار بھی رہی ہو، اگر بعد میں وہ توبہ کر کے کسی شخص سے نکاح کرلے اور پھر اس کا شوہر اس پر ناحق الزام لگائے تو آیت لعان یہ نہیں کہتی کہ اس عورت پر تہمت رکھنے کی یا اس کی اولاد کے نسب سے انکار کردینے کی شوہر کو کھلی چھٹی دے دو کیونکہ اس کی زندگی کبھی داغ دار رہ چکی ہے۔ دوسری اور اتنی ہی اہم وجہ یہ ہے کہ قذف زوجہ اور قذف اجنبیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ان دونوں کے بارے میں قانون کا مزاج ایک نہیں ہو سکتا۔ غیر عورت سے آدمی کو کوئی بڑی سے بڑی با وقعت دلچسپی ہو سکتی ہے تو جس پہ کہ معاشرے کو بد اخلاقی سے پاک دیکھنے کا جوش اسے لاحق ہو۔ اس کے بر عکس اپنی بیوی سے آدمی کا تعلق ایک طرح کا نہیں کئی طرح کا ہے اور بہت گہرا ہے۔ وہ اس کے نسب اور اس کے مال اور اس کے گھر کی امانت دار ہے۔ اس کی زندگی کی شریک ہے۔ اس کے رازوں کی امین ہے۔ اس کے نہایت گہرے اور نازک جذبات اس سے وابستہ ہیں۔ اس کی بد چلنی سے آدمی کی غیرت اور عزت پر، اس کے مفاد پر، اور اس کی آئندہ نسل پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ یہ دونوں معاملے آخر ایک کس حیثیت سے ہیں کہ دونوں کے لیے قانون کا مزاج ایک ہی ہو۔ کیا ایک ذمی، یا ایک غلام، یا ایک سزا یافتہ آدمی کے لیے اس کی بیوی کا معاملہ کسی آزاد اہل شہادت مسلمان کے معاملے سے کچھ بھی مختلف یا اہمیت اور نتائج میں کچھ بھی کم ہے ؟ اگر وہ اپنی آنکھوں سے کسی کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث دیکھ لے، یا اس کو یقین ہو کہ اس کی بیوی غیر سے حاملہ ہے تو کون سی معقول وجہ ہے کہ اسے لعان کا حق نہ دیا جائے ؟ اور یہ حق اس سے سلب کرنے کے بعد ہمارے قانون میں اس کے لیے اور کیا چارہ کار ہے ؟ قرآن مجید کا منشا تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ جوڑوں کو اس پیچیدگی سے نکالنے کی ایک صورت پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں بیوی کی حقیقی بد کاری یا ناجائز حمل سے ایک شوہر، اور شوہر کے جھوٹے الزام یا اولاد کے نسب سے بےجا انکار کی بدولت ایک بیوی مبتلا ہوجائے۔ یہ ضرورت صرف اہل شہادت آزاد مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، اور قرآن کے الفاظ میں بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کو صرف ان ہی تک محدود کرنے والی ہو۔ رہا یہ استدلال کہ قرآن نے لعان کی قسموں کو شہادت قرار دیا ہے اس لیے شہادت کی شرائط یہاں عائد ہوں گی، تو اس کا تقاضا پھر یہ ہے کہ اگر عادل مقبول الشہادت شوہر قسمیں کھالے اور عورت قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو عورت کو رجم کردیا جائے، کیونکہ اس کی بد کاری پر شہادت قائم ہوچکی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس صورت میں حنفیہ رجم کا حکم نہیں لگاتے۔ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ خود بھی ان قسموں کو بعینہ شہادت کی حیثیت نہیں دیتے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت نہیں قرار دیتا ورنہ عورت کو چار کے بجائے آٹھ قسمیں کھانے کا حکم دیتا۔
٥): لعان محض کنایے اور استعارے یا اظہار شک و شبہ پر لازم نہیں آتا، بلکہ صرف اس صورت میں لازم آتا ہے جبکہ شوہر صریح طور پر زنا کا الزام عائد کرے یا صاف الفاظ میں بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ امام مالک اور لیث بن سعد اس پر یہ مزید شرط بڑھاتے ہیں کہ قسم کھاتے وقت شوہر کو یہ کہنا چاہیے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے بیوی کو زنا میں مبتلا دیکھا ہے۔ لیکن یہ قید بےبنیاد ہے۔ اس کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔
٦) : اگر الزام لگانے کے بعد شوہر قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ اسے قید کردیا جائے گا اور جب تک وہ لعان نہ کرے یا اپنے الزام کا جھوٹا ہونا نہ مان لے، اسے نہ چھوڑا جائے گا، اور جھوٹ مان لینے کی صورت میں اس کو حد قذف لگائی جائے گی۔ اس کے برعکس امام مالک، شافعی، حسن بن صالح اور لیث بن سعد کی رائے یہ ہے کہ لعان سے پہلو تہی کرنا خود ہی اقرار کذب ہے اس لیے حد قذف واجب آجاتی ہے۔
٧): اگر شوہر کے قسم کھا چکنے کے بعد عورت لعان سے پہلو تہی کرے تو حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کردیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک وہ لعان نہ کرے، یا پھر زنا کا اقرار نہ کرلے۔ دوسری طرف مذکورہ بالا ائمہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اسے رجم کردیا جائے گا۔ ان کا استدلال قرآن کے اس ارشاد سے ہے کہ عورت سے عذاب صرف اس صورت میں دفع ہوگا جبکہ وہ بھی قسم کھالے۔ اب چونکہ وہ قسم نہیں کھاتی اس لیے لا محالہ وہ عذاب کی مستحق ہے۔ لیکن اس دلیل میں کمزوری یہ ہے کہ قرآن یہاں ” عذاب ” کی نوعیت تجویز نہیں کرتا بلکہ مطلقاً سزا کا ذکر کرتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ سزا سے مراد یہاں زنا ہی کی سزا ہو سکتی ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ زنا کی سزا کے لیے قرآن نے صاف الفاظ میں چار گواہوں کی شرط لگائی ہے۔ اس شرط کو محض ایک شخص کی چار قسمیں پورا نہیں کر دیتیں۔ شوہر کی قسمیں اس بات کے لیے تو کافی ہیں کہ وہ خود قذف کی سزا سے بچ جانے اور عورت پر لعان کے احکام مترتب ہو سکیں، مگر اس بات کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ان سے عورت پر زنا کا الزام ثابت ہوجائے۔ عورت کا جوابی قسمیں کھانے سے انکار شبہ ضرور پیدا کرتا ہے اور بڑا قوی شبہ پیدا کردیتا ہے، لیکن شبہات پر حدود جاری نہیں کی جا سکتیں۔ اس معاملہ کو مرد کی حد قذف پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس کا قذف تو ثابت ہے، جبھی تو اس کو لعان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے برعکس عورت پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے اپنے اقرار یا چار یعنی شہادتوں کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔
٨) : اگر لعان کے وقت عورت حاملہ ہو تو امام احمد کے نزدیک لعان بجائے خود اس بات کے لیے کافی ہے کہ مرد اس حمل سے بری الذمہ ہوجائے اور بچہ اس کا قرار نہ پائے قطع نظر اس سے کہ مرد نے حمل کو قبول کرنے سے انکار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ مرد کا الزام زنا اور نفی حمل دونوں ایک چیز نہیں ہیں، اس لیے مرد جب تک حمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے صریح طور پر انکار نہ کرے وہ الزام زنا کے باوجود اسی کا قرار پائے گا کیونکہ عورت کے زانیہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو حمل بھی زنا ہی کا ہو۔
٩) : امام مالک، امام شافعی اور امام احمد دوران حمل میں مرد کو نفی حمل کی اجازت دیتے ہیں اور اس بنیاد پر لعان کو جائز رکھتے ہیں۔ مگر امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر مرد کے الزام کی بنیاد زنانہ ہو بلکہ صرف یہ ہو کہ اس نے عورت کو ایسی حالت میں حاملہ پایا ہے جب کہ اس کے خیال میں حمل اس کا نہیں ہوسکتا تو اس صورت میں لعان کے معاملے کو وضع حمل تک ملتوی کردینا چاہیے، کیونکہ نس اوقات کوئی بیماری حمل کا شبہ پیدا کردیتی ہے اور در حقیقت حمل ہوتا نہیں ہے۔
١٠) : اگر باپ بچے کے نسب سے انکار کرے تو بالاتفاق لعان لازماً آتا ہے۔ اور اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ ایک دفعہ بچے کو قبول کرلینے کے بعد (خواہ یہ قبول کرلینا صریح الفاظ میں ہو یا قبولیت پر دلالت کرنے والے افعال، مثلاً پیدائش پر مبارک باد لینے یا بچے کے ساتھ پدرانہ شفقت برتنے اور اس کی پرورش سے دلچسپی لینے کی صورت میں) پھر باپ کو انکار نسب کا حق نہیں رہتا، اور اگر کرے تو حد قذف کا مستحق ہوجاتا ہے۔ مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ باپ کو کس وقت تک انکار نسب کا حق حاصل ہے۔ امام مالک کے نزدیک اگر شوہر اس زمانے میں گھر پر موجود رہا ہے جبکہ بیوی حاملہ تھی تو زمانہ حمل سے لے کر وضع حمل تک اس کے لیے انکار کا موقع ہے، اس کے بعد وہ انکار کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ اگر وہ غائب تھا اور اس کے پیچھے ولادت ہوئی تو جس وقت اسے علم ہو وہ انکار کرسکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر پیدائش کے بعد ایک دو روز کے اندر وہ انکار کرے تو لعان کر کے وہ بچے کی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا، لیکن اگر سال دو سال بعد انکار کرے تو لعان ہوگا مگر وہ بچے کی ذمہ داری سے بری نہ ہو سکے گا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک ولادت کے بعد، یا ولادت کا علم ہونے کے بعد چالیس دن کے اندر اندر باپ کو انکار نسب کا حق ہے، اس کے بعد یہ حق ساقط ہوجائے گا۔ مگر یہ چالیس دن کی قید بےمعنی ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام ابوحنیفہ نے فرمائی ہے کہ ولادت کے بعد یا اس کا علم ہونے کے بعد ایک دو روز کے اندر ہی انکار نسب کیا جاسکتا ہے، الا یہ کہ اس میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جسے معقول رکاوٹ تسلیم کیا جاسکے۔
١١) : اگر شوہر طلاق دینے کے بعد مطلقہ بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان نہیں ہوگا بلکہ اس پر قذف کا مقدمہ قائم کیا جائے گا، کیونکہ لعان زوجین کے لیے ہے اور مطلقہ عورت اس کی بیوی نہیں ہے۔ الا یہ کہ طلاق رجعی ہو اور مدت رجوع کے اندر وہ الزام لگائے۔ مگر امام مالک کے نزدیک یہ قذف صرف اس صورت میں ہے جبکہ کسی حمل یا بچے کا نسب قبول کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ مرد کو طلاق بائن کے بعد بھی لعان کا حق حاصل ہے کیونکہ وہ عورت کو بد نام کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود ایک ایسے بچے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے لعان کر رہا ہے جسے وہ اپنا نہیں سمجھتا۔ قریب قریب یہی رائے امام شافعی کی بھی ہے۔
١٢): لعان کے قانونی نتائج میں سے بعض متفق علیہ ہیں، اور بعض میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
متفق علیہ نتائج یہ ہیں : عورت اور مرد دونوں کسی سزا کے مستحق نہیں رہتے۔ مرد بچے کے نسب کا منکر ہو تو بچہ صرف ماں کا قرار پائے گا، نہ باپ کی طرف منسوب ہوگا نہ اس سے میراث پائے گا، ماں اس کی وارث ہوگی اور وہ ماں کا وارث ہوگا۔ عورت کو زانیہ اور اس کے بچے کو ولد الزنا کہنے کا کسی کو حق نہ ہوگا، خواہ لعان کے وقت اس کے حالات ایسے ہی کیوں نہ ہوں کہ لوگوں کو اس کے زانیہ ہونے میں شک نہ رہے۔ جو شخص لعان کے بعد اس پر یا اس کے بچے پر سابق الزام کا اعادہ کرے گا وہ حد کا مستحق ہوگا۔ عورت کا مہر ساقط نہ ہوگا۔ عورت دوران عدت میں مرد سے نفقہ اور مسکن پانے کی حق دار نہ ہوگی۔ عورت اس مرد کے لیے حرام ہوجائے گی۔
اختلاف دو مسئلوں میں ہے۔ ایک یہ کہ لعان کے بعد عورت اور مرد کی علیٰحدگی کیسے ہوگی ؟ دوسرے یہ کہ لعان کی بنا پر علیٰحدہ ہوجانے کے بعد کیا ان دونوں کا پھر مل جانا ممکن ہے ؟ پہلے مسئلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ جس وقت مرد لعان سے فارغ ہوجائے اسی وقت فرقت آپ سے آپ واقع ہوجاتی ہے خواہ عورت جوابی لعان کرے نہ کرے۔ امام مالک، لیث بن سعد اور زفر کہتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں جب لعان سے فارغ ہوں تب فرقت واقع ہوتی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ، ابو یوسف اور محمد کہتے ہیں کہ لعان سے فرقت آپ ہی آپ واقع نہیں ہوجاتی بلکہ عدالت کے تفریق کرانے سے ہوتی ہے۔ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر، ورنہ حاکم عدالت ان کے درمیان تفریق کا اعلان کرے گا۔ دوسرے مسئلے میں امام مالک، ابو یوسف، زفر، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ، شافعی، احمد بن حنبل اور حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ لعان سے جو زوجین جدا ہوئے ہوں وہ پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، دوبارہ وہ باہم نکاح کرنا بھی چاہیں تو کسی حال میں نہیں کرسکتے۔ یہی رائے حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بھی ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، شعبی، سعید بن جبیر، ابوحنیفہ اور محمد رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر اپنا جھوٹ مان لے اور اس پر حد قذف جاری ہوجائے تو پھر ان دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے کے لیے حرام کرنے والی چیز لعان ہے۔ جب تک وہ اس پر قائم رہیں، حرمت بھی قائم رہے گی۔ مگر جب شوہر اپنا جھوٹ مان کر سزا پا گیا تو لعان ختم ہوگیا اور حرمت بھی اٹھ گئی۔
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل تم پر نہ ہوتا (تو تم پر مشقت اترتی) اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
تو تم میں سے جھوٹے پر فوراً اللہ کا عذاب نازل ہوجاتا۔ لیکن چونکہ وہ تو رب ہے اور حکیم بھی، اس لئے ایک تو اس نے ستر پوشی کردی، تاکہ اس کے بعد اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو وہ اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے گا اور حکیم بھی ہے کہ اس نے لعان جیسا مسئلہ بیان کر کے غیور مردوں کے لئے ایک نہایت معقول اور آسان تجویز مہیا کردی۔
امین احسن اصلاحی
یہ ایک اہم سورہ ہے جو ہم نے نازل کی ہے اور اس کے احکام ہم نے فرض ٹھہرائے ہیں اور اس میں ہم نے نہایت واضح تنبیہات بھی اتاری ہیں تاکہ تم اچھی طرح یاد رکھو۔
سورہ کی اہمیت کا اظہار: یہ سورہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، سورۂ مومنون کے تکملہ و تتمہ کی حیثیت رکھتی ہے اس وجہ سے بغیر کسی خاص تمہید کے محض ایک تنبیہ سے شروع ہو گئی ہے۔ حذف مبتدا، جیسا کہ اس کے محل میں ہم واضح کر چکے ہیں، اس بات کا قرینہ ہے کہ مقصود و مخاطب کی ساری توجہ کو خبر پر مرکوز کرانا ہے جس سے اس سورہ کی اہمیت و عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی یہ ایک عظیم سورہ ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے۔ ’’ہم نے نازل کیا ہے‘‘ یعنی اس کو کوئی معمولی چیز اور ہوائی بات نہ سمجھو بلکہ یہ ہمارا اتارا ہوا کلام اور ہمارا نازل کردہ فرمان ہے اس وجہ سے اس کی ہر بات کی تعمیل ہمارے فرمان واجب الاذعان کی حیثیت سے کی جائے۔ ’وَفَرَضْنٰھَا‘ یعنی اس میں جو احکام و ہدایات ہیں ان کی حیثیت فرائض کی ہے، سب بے چون و چرا ان کی اطاعت کریں، کسی معاملہ میں سہل انگاری و بے پروائی کو راہ نہ پانے دیں۔
سورہ کی تنبیہات کی طرف اشارہ: ’وَاَنْزَلْنَا فِیْھَآ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘۔ یہ ان تنبیہات کی طرف اشارہ ہے جو اس سورہ میں احکام و ہدایات کے بیان کے ساتھ ساتھ مقطع کی طرح بار بار وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً ملاحظہ ہوں آیات ۱۰، ۱۴، ۱۷، ۲۰، ۳۴، ۴۶ اور ۵۸۔ ان تنبیہات کا مشترک مقصود یہ ہے کہ یہ احکام جو دیے جا رہے ہیں پورے اہتمام کے ساتھ ان کی پابندی کرو ورنہ یاد رکھو کہ خدا کی پکڑ بڑی ہی سخت چیز ہے۔ اس سورہ میں ان تنبیہات کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے تھی کہ اس میں خاندان و معاشرہ اور تعزیرات و حدود سے متعلق جو احکام دیے گئے ہیں وہ پچھلی امتوں کے لیے مزلّۂ قدم ثابت ہوئے جس کے سبب سے وہ امتیں خدا کے عتاب میں آئیں۔ اس امت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل و احسان ہے کہ اس نے احکام کے ساتھ ان کی خلاف ورزی کے نتائج سے بھی بار بار آگاہ فرما دیا تاکہ لوگ اچھی طرح بیدار و ہوشیار رہیں۔ ’لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘ سے اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔