المر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ ۗ وَالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ

امین احسن اصلاحی

یہ الف، لام، میم، را ہے۔ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں اور جو چیز تمہاری طرف تمہارے خداوند کی طرف سے اتاری گئی ہے حق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں مان رہے ہیں

اظہار احسان اور انذار بیک وقت دونوں

’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘ لفظ ’اَلْکِتٰب‘ پر تفصیلی بحث بقرہ کی پہلی آیات کے تحت گزر چکی ہے۔ اس سے مراد وہ موعود و منتظر کتاب الٰہی ہے جس کو آخری صحیفۂ ہدایت کی حیثیت سے اتارنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے وعدہ فرمایا تھا۔ ’تِلْکَ‘ کا اشارہ ’الٓمٓرٰ‘ کی طرف ہے۔ یعنی یہ سورہ موعود و منتظر کتاب الٰہی کی آیات پر مشتمل ہے۔ اس فقرے میں بیک وقت اظہار احسان بھی ہے اور دھمکی بھی۔ احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم نعمت، جس کا اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے وعدہ فرمایا تھا، اتار دی ہے۔ اب یہ لوگوں کا فرض ہے کہ اس کی صدق دل سے قدر کریں اور اس کی برکتوں سے متمتع ہوں۔ دھمکی کا پہلو یہ ہے کہ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں تو جو لوگ ان کی قدر کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑائیں گے اور ان کی مخالفت میں اپنا زور صرف کریں گے وہ خود سوچ لیں کہ وہ اپنے لیے کس شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔


پیغمبر صلعم کو تسلی

’وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘۔

 یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ کتاب جو تم پر تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے اس کی ایک ایک بات حق ہے۔ اس کا ہر دعویٰ ثابت، مدلل اور مبرہن ہے اور اس کی ہر چیز شدنی ہے۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے اختلاف کیا جا سکے، یہ لوگوں کی اپنی محرومی و بدقسمتی ہے کہ ان کی اکثریت اس کو قبول نہیں کر رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورہ ’الٓمّٓرٰ‘ ہے۔ یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور تمھارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ (سراسر) حق ہے، مگر (تمھاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں

اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔

اصل الفاظ ہیں: ’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘۔ اِن میں ’تِلْکَ‘ کا اشارہ ’الٓمّٓرٰ‘ کی طرف ہے اور ’الْکِتٰب‘ کے معنی کتاب الٰہی کے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ جگہ جگہ اِس معنی کے لیے استعمال ہوا ہے اور اُسی طریقے پر استعمال ہوا ہے، جس پر کوئی لفظ اپنے مختلف مفاہیم میں سے کسی اعلیٰ اور برتر مفہوم کے لیے خاص ہو جایا کرتا ہے۔ یہ فقرہ کس لیے ارشاد ہوا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِس فقرے میں بہ یک وقت اظہار احسان بھی ہے اور دھمکی بھی۔ احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم نعمت، جس کا اُس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے سے وعدہ فرمایا تھا، اتار دی ہے۔ اب یہ لوگوں کا فرض ہے کہ اِس کی صدق دل سے قدر کریں اور اِس کی برکتوں سے متمتع ہوں۔ دھمکی کا پہلو یہ ہے کہ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں تو جو لوگ اِن کی قدر کرنے کے بجاے اِن کا مذاق اڑائیں گے اور اِن کی مخالفت میں اپنا زور صرف کریں گے ،وہ خود سوچ لیں کہ وہ اپنے لیے کس شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۷۰)

یعنی قطعی حقیقت ہے، اُس میں کسی ریب و گمان کی گنجایش نہیں ہے۔ چنانچہ ہر چیز جس طرح بیان ہوئی ہے، اُسی طرح واقع ہو کر رہے گی۔

ابو الاعلی مودودی

ا۔ ل۔ م۔ ر۔ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔

یہ اس سورة کی تمہید ہے جس میں مقصود کلام کو چند لفظوں میں بیان کردیا گیا ہے۔ روئے سخن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے اور آپ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، تمہاری قوم کے اکثر لوگ اس تعلیم کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ اسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور یہی حق ہے خواہ لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل تقریر شروع ہوجاتی ہے جس میں منکرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تعلیم کیوں حق ہے اور اس کے بارے میں ان کا رویہ کس قدر غلط ہے۔ اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ابتدا ہی سے یہ پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی۔ ایک یہ کہ خدائی پوری کی پوری اللہ کی ہے اس لیے اس کے سوا کوئی بندگی و عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تم کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ تیسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور جو کچھ پیش کر رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پیش کر رہا ہوں۔ یہی تین باتیں ہیں جنہیں ماننے سے لوگ انکار کر رہے تھے، انہی کو اس تقریر میں بار بار طریقے طرقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور انہی کے متعلق لوگوں کے شبہات و اعتراضات کو رفع کیا گیا ہے۔

جونا گڑھی

یہ قرآن کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے، سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

اللَّـهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ

امین احسن اصلاحی

اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظر آئیں۔ پھر وہ اپنے عرش پر متمکن ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ان میں سے ہر ایک ایک وقت معین کے لیے گردش کرتا ہے۔ وہی کائنات کا انتظام فرماتا ہے اور اپنی نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو

خدا کی عظیم قدرت و حکمت کی طرف ایک اشارہ

 ’رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا‘۔

’عَمَدٍ‘ عمود کی بھی جمع ہے اور عماد کی بھی اور ’تَرَوْنَھَا‘ اس کی صفت ہے۔ یعنی خدا نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر کھڑا کیا ہے جو تمہیں نظر آئیں۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت و حکمت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس نے یہ عظیم شامیانہ جذب و کشش کے ایسے ستونوں پر کھڑا کیا ہے جن کو دیکھنے سے تمہاری نگاہیں قاصر ہیں۔

’ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ‘۔

یعنی وہ ان کو پیدا کر کے کہیں کسی گوشے میں نہیں جا بیٹھا ہے جیسا کہ مشرکین گمان کرتے ہیں، بلکہ وہ اپنے عرش اقتدار پر متمکن ہے اور اس پوری کائنات پر فرماں روائی کر رہا ہے۔
’وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی‘۔ یہ دو بڑی نشانیاں۔ سورج اور چاند اپنے وجود سے شہادت دے رہی ہیں کہ ہر چیز ہر وقت، خدا کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی چیز اپنے معین مدار سے بال برابر ادھر ادھر ہو سکے۔ سورج اور چاند کے طلوع و غروب کے لیے جو اوقات مقرر کر دیے گئے ہیں وہ ٹھیک ٹھیک اسی نظام الاوقات کی پابندی کرتے ہیں، اس میں منٹ اور سیکنڈ کا بھی کبھی کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
’یُُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُْفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآءِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَ‘۔ یعنی ان نشانیوں سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ خدا ہی تمام کائنات کا اتنظام فرما رہا ہے اور ساتھ ہی وہ ان نشانیوں کے تمام مضمرات بھی واضح فرما رہا ہے تاکہ تم اس بات کا یقین کرو کہ جس طرح ہر چیز کے لیے ایک اجل معین ہے اسی طرح تمہارے لیے بھی ایک اجل معین ہے۔ بالآخر تمہیں ایک دن خدا کی طرف لوٹنا اور اس سے ملنا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر اونچا بنا کھڑا کیا ہے جو تم کو نظر آتے ہوں،پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر متمکن ہوا اور اُس نے سورج اور چاند کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اِن میں سے ہر ایک ایک مقرر وقت کے لیے گردش کر رہا ہے۔ وہی نظم عالم کی تدبیر فرماتا ہے۔ وہ (اپنی) اِن نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے ، اِس لیے کہ تم اپنے پروردگار کی ملاقات کا یقین کرو

یعنی محسوس اور مرئی ہوں۔ دور حاضر کے انسانی علم نے اِسی چیز کو کشش ثقل کا نام دیا ہے۔ یہاں اِس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی طرف توجہ دلانا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اِن بے کراں آسمانوں کو پیدا کرکے وہ کسی گوشے میں نہیں جا بیٹھا ہے، جیسا کہ مشرکین گمان کرتے ہیں، بلکہ اپنے تخت سلطنت پر متمکن ہے اور زمین و آسمان کی تدبیر امور فرما رہا ہے۔ آگے ’یُدَبِّرُ الْاَمْرَ‘ کے الفاظ میں اِس کو کھول دیا ہے۔
یہ دو بڑی نشانیوں کی مثال سے اِس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ ہر چیز ہر وقت خدا کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اُس وقت تک کے لیے گردش کر رہی ہے جو اُس کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔ اِس عالم میں کوئی چیز بھی ابدی و سرمدی نہیں ہے، بلکہ کشاں کشاں ایک معین اجل کی طرف بڑھ رہی ہے۔
یعنی اپنی کتاب میں اِن کی تفصیل کرتا ہے تاکہ جن حقائق پر یہ دلالت کر رہی ہیں، تم اُن کو سمجھو اور اِس کے نتیجے میں کائنات کی اِس عظیم حقیقت کا یقین حاصل کرلو کہ جس نے اپنی بے پایاں قدرت اور کمال حکمت کے ساتھ یہ دنیا بنائی ہے، وہ اِسے اتمام و تکمیل تک پہنچائے بغیر یوں ہی ختم نہیں ہونے دے گا، بلکہ لازماً اُس منزل تک لے جائے گا جو اِس کے لیے مقرر ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہو ں، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے، شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔

بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بےحد و حساب اجرام فلکی کو تھامے ہوئے ہو۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی۔

 

اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة اعراف حاشیہ نمبر ٤١۔ مختصرا یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش (یعنی سلطنت کائنات کے مرکز) پر اللہ تعالیٰ کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض سے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کردیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں، اور نہ مختلف خداؤں کی آماج گاہ ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کرنے والا خود چلا رہا ہے۔

یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں، اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے۔ بلکہ ان واقعات کو، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظام کائنات میں صاحب اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانے کا مستحق ہو۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجود باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار، ایک بےعیب حکمت، اور بےخطا علم کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو۔

یعنی یہ نظام صرف اسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے، بلکہ اس کے تمام اجزا اور ان میں کام کرنے والی ساری قوتیں اس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مٹ جاتی ہے۔ یہ حقیقت جس طرح اس نظام کے ایک ایک جزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ اس عالم طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہوگا۔ لہٰذا قیامت، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے، اس کا آنا مستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مستبَعد ہے۔

یعنی اس امر کی نشانیاں کہ رسول خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں۔ کائنات میں ہر طرف ان پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بیشمار نشانات ان کی تصدیق کر رہے ہیں۔

اوپر جن آثار کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی، اور عدالت الہٰی میں انسان کی حاضری، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو انہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے۔

مذکورہ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے :

ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرام فلکی پیدا کیے ہیں، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے، اس کے لیے نوع انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پیدا کردینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اسی نظام فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا کمال درجے کا حکیم ہے، اور اس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعور صاحب اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد، اور اپنی زمین کی بیشمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کرنے کے بعد، اس کے کارنامہ زندگی کا حساب نہ لے، اس کے ظالموں سے باز پرس اور اس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے، اس کے نیکوکاروں کو جزا اور اس کے بدکاروں کو سزا نہ دے، اور اس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تو نے کیا معاملہ کیا۔ ایک اندھا راجہ تو بیشک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خواب غفلت میں سرشار ہوسکتا ہے، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

 

اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے۔

جونا گڑھی

اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وہ عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے اسی نے سورج اور چاند کو ما تحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے ، وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وہ اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔

 استوا علی العرش کا مفہوم اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ (لیس کمثلہ شیء وہو السمیع البصیر) الشوری

 ٢۔ ٢ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا (والشمس تجری لمستقرلھا ذلک تقدیر العزیز العلیم) یسین۔ اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کرلیتا ہے جس طرح فرمایا (والقمر قدرنہ منازل) یسین۔ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردی ہیں سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہونگے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہو سکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا (لَا تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ) 41 ۔ فصلت :37) حم السجدہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔ ( ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ ) 16 ۔ النحل :12) الاعراف سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ 

وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

امین احسن اصلاحی

اور وہی ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر قسم کے پھلوں کی دو دو قسمیں اس میں پیدا کیں۔ وہ رات کو دن پر اڑھا دیتا ہے۔ بے شک ان چیزوں کے اندر ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کریں

آسمان کے بعد زمین کی نشانیوں کی طرف اشارہ

 آسمان کی نشانیوں کے بعد یہ زمین کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس طرح آسمان کی نشانیوں سے اس کے خلق و تدبیر، اس کی قدرت و حکمت اور اس کی وحدت و یکتائی کی شانیں ظاہر ہوتی ہیں اسی طرح زمین کے چپہ چپہ سے بھی اس کی ان صفات کی شہادت مل رہی ہے بشرطیکہ سوچنے والے دل اور غور کرنے والی عقلیں ہوں۔ دریا اور پہاڑ بظاہر اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں لیکن خدا نے اپنی قدرت و حکمت سے ان کے اندر ایسی سازگاری پیدا کر رکھی ہے کہ پتھروں کے اندر سے پانی کے چشمے جاری کر دیے ہیں۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آپ سے آپ وجود میں آ گئے ہیں اور ان پر الگ الگ دیوتاؤں کی خدائی ہے یا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ہی قادر و توانا حکیم نے یہ تمام اضداد پیدا کیے اور پھر اپنی بے پایاں حکمت سے ان میں حیرت انگیز سازگاری پیدا کر دی کہ ان میں زوجین کا سارا توافق پیدا ہو گیا ہے۔

آسمان و زمین کی نشانیوں کی شہادت

 اس کائنات کے ہر گوشہ میں، ہر چیز، آسمان اور زمین، سورج اور چاند، شب اور روز کے اندر جس طرح کا تضاد اور پھر ساتھ ہی جس طرح کا توافق پایا جاتا ہے۔ وہ صاف صاف شہادت دے رہا ہے کہ یہ کائنات مختلف الاغراض دیوتاؤں کی رزم گاہ نہیں ہے بلکہ اس پر ایک ہی قادر و قیوم کا ارادہ کارفرما ہے۔

تضاد اور توافق کے قانون کی ہمہ گیری

 ’مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰت‘ کے الفاظ سے تضاد اور توافق کے اس قانون کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس طرح شب اور روز کے اندر یہ قانون کارفرما ہے اسی طرح ایک ایک پھل اور ایک ایک دانے کے اندر کارفرما ہے، خواہ انسان کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ گندم کے ایک دانے کو بھی دیکھیے تو وہ بھی دو حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ تاہم دونوں میں پوری وابستگی اور پیوستگی پائی جاتی ہے ۔۔۔ کائنات کے ہر گوشہ کی یہ شہادت اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ دنیا بھی تنہا نہیں ہے بلکہ اس کا بھی جوڑا ہے اور وہ ہے آخرت۔ اپنے اسی جوڑے کے ساتھ مل کر ہی یہ اپنی غایت کو پہنچتی ہے ورنہ اس کا وجود بالکل بے مقصد اور بے غایت ہو کے رہ جاتا ہے۔

نشانیاں صرف اہل حق کے لیے کارآمد ہیں

 ’اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ‘ یعنی ان چیزوں کے اندر خدا کے خلق و تدبیر، اس کی قدرت و حکمت، اس کی توحید اور آخرت کی بہت سی نشانیاں ہیں لیکن ان نشانیوں تک انہی لوگوں کی عقلیں پہنچتی ہیں جو ان پر غور کرتے ہیں اور ان سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے اس کو حرزجاں بناتے ہیں۔ بے فکرے اور لاابالی لوگ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

جاوید احمد غامدی

اور وہی ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اُس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑے اور ندیاں بہا دیں اور اُس میں ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے۔ وہ رات کو (چادر کی طرح) دن پر اڑھا دیتا ہے۔ یقیناًاِن سب چیزوں میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کریں

یعنی جس طرح حیوانات کے جوڑے ہیں، اُسی طرح درختوں کے بھی نر و مادہ ہیں جن سے طرح طرح کے پھل پیدا ہوتے ہیں۔

اوپر آسمان کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی تھی، اُس کے بعد اب یہ زمین کی نشانیوں کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اِنھیں بھی دیکھو۔ دریا، پہاڑ، زمین سے پیدا ہونے والے قسم قسم کے پھل اور لیل و نہار کی گردش، یہ سب کس قدر مختلف چیزیں ہیں، مگر کس بے پایاں حکمت، بے مثال نظم و ترتیب اور کتنی اتھاہ معنویت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہیں۔ یہ اِس بات کا صریح ثبوت ہے کہ نہ یہ زمین و آسمان آپ سے آپ وجود میں آئے ہیں اور نہ اِن پر الگ الگ دیوتاؤں کی حکمرانی ہے، بلکہ ایک ہی قادر و حکیم ہے جس نے اِن کی ہر چیز میں یہ حیرت انگیز توافق، ہم آہنگی اور سازگاری پیدا کر دی ہے۔ اِس کو دیکھنے اور اِس پر غور کرنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے اور ایک دن یہ سب خاک میں گم ہو جائے گا تو یہ عقل و دانش کی نہیں، بلکہ حماقت و بلادت کی دلیل ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھو نٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔

اجرام فلکی کے بعد عالم ارضی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہاں بھی خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات سے انہی دونوں حقیقتوں (توحید اور آخرت) پر استشہاد کیا گیا ہے جن پر پچھلی آیات میں عالم سماوی کے آثار سے استشہاد کیا گیا تھا۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے :

(١) اجرام فلکی کے ساتھ زمین کا تعلق، زمین کے ساتھ سورج اور چاند کا تعلق، زمین کی بیشمار مخلوقات کی ضرورتوں سے پہاڑوں اور دریاؤں کا تعلق، یہ ساری چیزیں اس بات پر کھلی شہادت دیتی ہیں کہ ان کو نہ تو الگ الگ خداؤں نے بنایا ہے اور نہ مختلف با اختیار خدا ان کا انتظام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ان سب چیزوں میں باہم اتنی مناسبتیں اور ہم آہنگیاں اور موافقتیں نہ پیدا ہو سکتی تھیں اور نہ مسلسل قائم رہ سکتی تھیں۔ الگ الگ خداؤں کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مل کر پوری کائنات کے لیے تخلیق و تدبیر کا ایسا منصوبہ بنا لیتے جس کی ہر چیز زمین سے لے کر آسمانوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتی چلی جائے اور کبھی ان کی مصلحتوں کے درمیان تصادم واقع نہ ہونے پائے۔

(٢) زمین کے اس عظیم الشان کرے کا فضائے بسیط میں معلق ہونا، اس کی سطح پر اتنے بڑے بڑے پہاڑوں کا ابھر آنا، اس کے سینے پر ایسے ایسے زبر دست دریاؤں کا جاری ہونا، اس کی گود میں طرح طرح کے بےحد و حساب درختوں کا پھلنا، اور پیہم انتہائی باقاعدگی کے ساتھ رات اور دن کے حیرت انگیز آثار کا طاری ہونا، یہ سب چیزیں اس خدا کی قدرت پر گواہ ہیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ ایسے قادر مطلق کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا نہیں کرسکتا، عقل و دانش کی نہیں، حماقت و بلادت کی دلیل ہے۔

 

(٣) زمین کی ساخت میں، اس پر پہاڑوں کی پیدائش میں، پہاڑوں سے دریاؤں کی روانی کا انتظام کرنے میں، پھلوں کی ہر قسم دو دو طرح کے پھل پیدا کرنے میں، اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات باقاعدگی کے ساتھ لانے میں جو بیشمار حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں وہ پکار پکار کر شہادت دے رہی ہیں کہ جس خدا نے تخلیق کا یہ نقشہ بنایا ہے وہ کمال درجے کا حکیم ہے۔ یہ ساری چیزیں خبر دیتی ہیں کہ یہ نہ تو کسی بےارادہ طاقت کی کار فرمائی ہے اور نہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا۔ ان میں سے ہر ہر چیز کے اندر ایک حکیم کی حکمت اور انتہائی بالغ حکمت کام کرتی نظر آتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد صرف ایک نادان ہی ہوسکتا ہے جو یہ گمان کرے کہ زمین پر انسان کو پیدا کر کے اور اسے ایسی ہنگامہ آرائیوں کے مواقع دے کر وہ اس کو یونہی خاک میں گم کر دے گا۔

جونا گڑھی

اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کردی ہیں اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کردیئے وہ رات کو دن سے چھپا دیتا ہے۔ یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔

  زمین میں طول و عرض کا اندازہ بھی عام لوگوں کے لئے مشکل ہے اور بلند وبالا پہاڑوں کے ذریعے سے زمین میں گویا میخیں گاڑی ہیں، نہروں دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا کہ جس سے انسان خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔

 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ نر مادہ دونوں بنائے، جیسا کہ موجودہ تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔ دوسرا مطلب (جوڑے جوڑے کا) یہ ہے میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ اور سفید اور ذائقہ، اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔ 

وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

امین احسن اصلاحی

اور زمین میں پاس پاس کے قطعے ہیں، انگوروں کے باغ ہیں، کھیتی ہے اور کھجور ہیں۔ جڑواں بھی ہیں اور اکہرے بھی۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں لیکن ہم پیداوار میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دے دیتے ہیں۔ بے شک اس کے اندر نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں

زمین کی نشانیوں کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ

 یہ زمین کی نشانیوں کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلائی کہ دیکھتے ہو کہ زمین کے بالکل پاس پاس کے قطعے ہیں، بعض میں انگور کے باغ ہیں، بعض میں کھیتیاں ہیں، بعض میں کھجور ہیں، جن میں بعض کے تنے اکہرے ہیں، بعض کے دوہرے۔ ٹکڑے پاس پاس کے ہیں، سیراب سب ایک ہی پانی سے ہوتے ہیں، لیکن پیداوار کی مقدار میں فرق ہو جاتا ہے، کسی کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے کسی کی کم، مزے میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے، کسی کا مزا معیار پر ہوتا ہے کسی کا معیار سے اترا ہوا، درختوں کی نشوونما میں بھی بڑا فرق ہوتا ہے، کہیں ایک ہی جڑ سے کئی کئی تنے پھوٹ نکلے ہیں، کہیں ایک ہی تنا نکلا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو رہا ہے اور نیچر کا ایک اندھا بہرہ قانون سب پر مسلط ہے یا اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی خدائے علیم و حکیم اس پورے نظام کائنات کو اپنی نگرانی میں چلا رہا ہے اور سارے عالم اسباب پر تنہا اسی کی حکمرانی ہے اور وہ اپنی حکمت کے تحت اس کے ذرے ذرے پر تصرف فرما رہا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور زمین میں پاس پاس کے قطعے ہیں، انگوروں کے باغ ہیں، کھیتی ہے، کھجور کے درخت ہیں، جن میں جڑواں بھی ہیں اور اکہرے بھی ۔سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیں، لیکن اُن کے پھلوں میں ہم ایک کو دوسرے پر برتری دے دیتے ہیں۔ یقیناًاِن سب چیزوں میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں

درختوں کی نشوونما میں جو فرق پیدا ہوجاتا ہے، یہ اُس کا ذکر ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں ایک ہی جڑ سے کئی کئی تنے پھوٹ نکلتے ہیں اور کہیں ایک ہی تنا نکلتا ہے۔

یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ کائنات کا خالق زمین کی پیداوار میں کس قدر تنوع، رنگا رنگی، جدت اور بوقلمونی کے ساتھ اپنی ہمہ گیر قدرت اور اپنے بے خطا علم و حکمت کو نمایاں کرتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

یعنی ساری زمین کو اس نے یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا ہے بلکہ اس میں بیشمار خطے پیدا کردیے ہیں جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں، رنگ میں، مادہ ترکیب میں، خاصیتوں میں، قوتوں اور صلاحیتوں میں، پیداوار اور کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان مختلف خطوں کی پیدائش اور ان کے اندر طرح طرح کے اختلافات کی موجودگی اپنے اندر اتنی حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ دوسری مخلوقات سے قطع نظر، صرف ایک انسان ہی کے مفاد کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی مختلف اغراض و مصالح اور زمین کے ان خطوں کی گونا گونی کے درمیان جو مناسبتیں اور مطابقتیں پائی جاتی ہیں، اور ان کی بدولت انسانی تمدن کو پھلنے پھولنے کے جو مواقع بہم پہنچے ہیں، وہ یقینا کسی حکیم کی فکر اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کے دانشمندانہ ارادے کا نتیجہ ہیں۔ اسے محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے کے لیے بڑی ہٹ دھرمی درکار ہے۔

کھجور کے درختوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور بعض میں ایک جڑ سے دو یا زیادہ تنے نکلتے ہیں۔

اس آیت میں اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و حکمت کے نشانات دکھانے کے علاوہ ایک اور حقیقت کی طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں کہیں بھی یکسانی نہیں رکھی ہے۔ ایک ہی زمین ہے، مگر اس کے قطعے اپنے اپنے رنگوں، شکلوں اور خاصیتوں میں جدا ہیں۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی ہے مگر اس سے طرح طرح کے غلے اور پھل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک ہی درخت اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل اور جسامت اور دوسری خصوصیات میں مختلف ہے۔ ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی الگ انفرادی خصوصیات رکھتا ہے۔ ان باتوں پر جو شخص غور کرے گا وہ کبھی یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوگا کہ انسانی طبائع اور میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورة میں فرمایا گیا ہے، اگر اللہ چاہتا تو سب انسانوں کو یکساں بنا سکتا تھا، مگر جس حکمت پر اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ یکسانی کی نہیں بلکہ تنوع اور رنگا رنگی کی متقاضی ہے۔ سب کو یکساں بنا دینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامہ وجود ہی بےمعنی ہو کر رہ جاتا۔

جونا گڑھی

اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیت ہیں اور کھجوروں کے درخت ہیں، شاخ دار اور بعض ایسے ہیں جو بےشاخ ہیں سب ایک ہی پانی پلائے جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم ایک کو ایک پر پھلوں میں برتری دیتے ہیں اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

 متجورات۔ ایک دوسرے کے قریب اور متصل یعنی زمین کا ایک حصہ شاداب اور زرخیز ہے۔ خوب پیداوار دیتا ہے اس کے ساتھ ہی زمین شور ہے، جس میں کسی قسم کی بھی پیدا نہیں ہوتی۔

 صنوان۔ کے ایک معنی ملے ہوئے اور غیر صنوان۔ کے جداجدا کیے گئے ہیں دوسرا معنی صنوان، ایک درخت، جس کی کئی شاخیں اور تنے ہوں، جیسے انار، انجیر اور بعض کھجوریں۔ 

 

 یعنی زمین بھی ایک، پانی، ہوا بھی ایک۔ لیکن پھل اور غلہ مختلف قسم اور ان کے ذائقے اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔ 

وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

امین احسن اصلاحی

اور اگر تم تعجب کرو تو تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ، کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو ہم ازسرنو وجود میں آئیں گے! یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کا انکار کیا، یہی لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں اور یہی لوگ اہل دوزخ ہیں، یہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے

تعجب کی اصل بات

 یعنی خدا کی قدرت و حکمت اور اس کے خلق و تدبیر کی ان نشانیوں کی موجودگی میں جن کا ذکر اوپر ہوا، تعجب کرنے کی بات وہ نہیں ہے جس سے تم (خطاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) لوگوں کو آگاہ کر رہے ہو کہ مرنے کے بعد اٹھنا اور خدا کے حضور حساب کتاب کے لیے حاضر ہونا ہے بلکہ تعجب کے قابل ان لوگوں کا یہ تعجب ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم سڑ گل کر خاک ہو جائیں گے تو کیا ازسرنو زندہ کیے جائیں گے۔

خدا کو ماننے کا صحیح مفہوم

 ’اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ‘۔ فرمایا کہ اپنے رب کے اصلی منکر درحقیقت یہ لوگ ہیں۔ خدا کو ماننے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ مان لے کہ خدا ہے بلکہ اس کو اس کی صفات اور اس کے حقوق کے ساتھ ماننا ضروری ہے، اگر کوئی شخص خدا کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کی بدیہی اور لازمی صفات یا ان سے عاید شدہ حقوق و لوازم کا منکر ہے تو وہ اپنے اقرار کے باوجود مومن نہیں بلکہ کافر ہے۔ خدا کی میزان میں اس کے اس اقرار کا کوئی وزن نہیں ہے۔ خدا کسی کے ماننے کا محتاج نہیں ہے بلکہ لوگ اس کے ماننے کے محتاج ہیں اور یہ چیز اس کو صحیح طور پر ماننے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
منکرین کے انکار کی اصل علت: ’اُولٰٓءِکَ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ‘۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی گردنوں میں کبر و انانیت، خودپرستی، تقلید اعمیٰ اور جمود کے طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ طوق نہ ان کی گردنیں اوپر کی طرف اٹھنے دیتے ہیں کہ یہ آسمان کی ان نشانیوں پر غور کر سکیں جن کی طرف قرآن نے آیت ۲ میں اشارہ فرمایا ہے اور نہ زمین کی ان نشانیوں کی طرف جھکنے دیتے جن کا حوالہ آیات ۳-۴ میں ہے۔ نتیجہ اس اندھے پن کا یہ ہے کہ یہ دوزخ میں پڑیں گے اور اسی میں ہمیشہ سڑیں گے۔ اس حقیقت کو سورۂ یٰسین میں یوں واضح فرمایا ہے۔ ’اِنَّا جَعَلْنَا فِیْ اَعْنَاقِھِمْ اَغْلَالًا فَھِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَھُمْ مُّقْمَحُوْنَ‘ (۸)

جاوید احمد غامدی

اب اگر تعجب کرو تو تعجب کے قابل تو اِن کی یہ بات ہے کہ جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کا انکار کر دیا ہے۔ یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہی دوزخ کے لوگ ہیں، یہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی بات پر تعجب کرنا ہے تو زمین وآسمان کی اُن نشانیوں کو دیکھ کر ، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، اُن لوگوں کی بات پر تعجب کرنا چاہیے جو مرنے کے بعد جی اٹھنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ نشانیاں تو پکار پکار کر شہادت دے رہی ہیں کہ جس خدا نے اپنی مخلوقات میں کمال حکمت کے یہ نمونے دکھائے ہیں، اُس کا کوئی کام بھی عبث نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ممکن نہیں ہے کہ وہ انسان جیسی مخلوق کو پیدا کرکے اُسے یوں ہی خاک میں گم کر دے گا اور اُس کے لیے کوئی ایسی دنیا نہیں بنائے گا، جہاں اُس کا باطن ہر لحاظ سے اُس کے ظاہر کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے ۔

یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ آخرت کا انکار درحقیقت خدا کا انکار ہے، کیونکہ آخرت کے انکار کے بعد خدا کے اقرار کے بھی کوئی معنی نہیں ہیں۔ یہ ، اگر غور کیجیے تو خدا کی تمام اعلیٰ صفات قدرت، ربوبیت، علم اور حکمت کا انکار ہے۔ جو شخص اِن صفات کے بغیر خدا کو مانتا ہے، اُس کا ماننا اور نہ ماننا، دونوں برابر ہیں۔
یعنی جہالت، ہٹ دھرمی، انانیت، تعصب اور اندھی تقلید کے طوق جو استاذ امام کے الفاظ میں اِن کی گردنیں نہ اوپر اٹھنے دیتے ہیں کہ آسمان کی نشانیوں پر غور کریں اور نہ زمین کی طرف جھکنے دیتے ہیں کہ اُس کی نشانیوں پر تدبر کی نگاہ ڈالیں۔ چنانچہ جو زاویۂ نظر اپنے لیے مقرر کیے ہوئے ہیں، اُسی پر جم کر رہ گئے ہیں۔ اُس سے ہٹ کر کسی اور طرف نظر دوڑانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اب اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ “جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیر ممکن ہے، بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذاللہ وہ خدا عاجز دور ماندہ اور نادان و بےخرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔

گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی جہالت کے، اپنی ہٹ دھرمی کے، اپنی خواہشات نفس کے، اور اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ یہ آزادانہ غور و فکر نہیں کرسکتے۔ انہیں ان کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے، اور انکار آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نامعقول ہے۔

جونا گڑھی

اگر تجھے تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ کہنا عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہو نگے ؟ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی ہیں جو جہنم کے رہنے والے ہیں جو اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

 یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ پیدا کیا، اس کے لئے دوبارہ اس چیز کا بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن کفار یہ عجیب بات کہتے ہیں کہ دوبارہ ہم کیسے پیدا کئے جائیں گے۔ 

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ

امین احسن اصلاحی

اور یہ لوگ خیر سے پہلے شر کے لیے تم سے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان سے پہلے عقوبت کی مثالیں گزر چکی ہیں۔ تمہارا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان سے درگزر کرنے والا بھی ہے اور تیرا رب سخت سزا دینے والا بھی ہے

عاقل وہ ہے جو دوسروں سے سبق حاصل کرے

 قوموں کی تاریخ میں نشان عبرت: ’مثلت‘ ’مَثُلَۃ‘ کی جمع ہے۔ اس کے معنی عقوبت اور عبرت انگیز عذاب کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ توبہ اور اصلاح سے پہلے کسی آفت اور عذاب کے منتظر ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب ہم اس عذاب کی کوئی نشانی دیکھ لیں گے جس سے پیغمبر ڈرا رہے ہیں، تب ہم ان کی بات مانیں گے۔ حالانکہ عاقل وہ ہے جو دوسروں سے سبق حاصل کرے۔ ان سے پہلے کتنی قومیں گزر چکی ہیں جنھوں نے انھی کی طرح اپنے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی اور بالآخر کیفر کردار کو پہنچیں۔ ان کی سرگزشتیں ان کو سنائی بھی جا رہی ہیں۔ کیا ان کے اندر ان کے لیے درس عبرت موجود نہیں ہے؟ یہ تو اللہ کی عنایت ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے کفر و شرک کے باوجود توبہ و اصلاح کی طویل مہلت دیتا ہے لیکن اس مہلت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس کے گزر جانے کے بعد جب وہ پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بھی بڑی ہی سخت ہوتی ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ بھلائی سے پہلے تم سے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں، دراں حالیکہ (اِس رویے پر) عبرت ناک عذاب کی مثالیں اِن سے پہلے گزر چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود اُن سے درگذر فرمانے والا ہے۔ اور (اِس کے ساتھ) یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا پروردگار سخت سزا دینے والا ہے

مطلب یہ ہے کہ اِنھیں تو تم سے خدا کی رحمت و عنایت اور اپنے لیے خیر و صلاح کی طلب کرنی چاہیے تھی، مگر یہ اُس سے پہلے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے۔

کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ اگر تم واقعی نبی ہو اور تم دیکھ رہے ہو کہ ہم نے تم کو جھٹلا دیا ہے تو اب آخر ہم پر وہ عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہم کو دھمکیاں دیتے ہو ؟ اس کے آنے میں خواہ مخواہ دیر کیوں لگ رہی ہے ؟ کبھی وہ چیلنج کے انداز میں کہتے کہ ” رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ” (خدایا ہمارا حساب تو ابھی کر دے، قیامت پر نہ اٹھا رکھ) ۔ اور کبھی کہتے کہ ” اَلَّھُمّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِ کَ فَاَ مْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَ ۃً مِّنَ السَّمَآ ءِ اَوِأْ تِنَا بِعَذَ ابٍ اَلِیْمٍ ۔ ” (خدایا اگر یہ باتیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کر رہے ہیں حق ہیں اور تیری ہی طرف سے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی دردناک عذاب نازل کر دے) ۔ اس آیت میں کفار انہی باتوں کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ نادان خیر سے پہلے شر مانگتے ہیں، اللہ کی طرف ان کو سنبھلنے کے لیے جو مہلت دی جا رہی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مہلت کو جلدی ختم کردیا جائے اور ان کی باغیانہ روش پر فورا گرفت کر ڈالی جائے۔

جونا گڑھی

اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلدی کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی، یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بےجا ظلم پر اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔

  یعنی عذاب الٰہی سے قوموں اور بستیوں کی تباہی کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں، اس کے باوجود یہ عذاب جلدی مانگتے ہیں ؟ یہ کفار کے جواب میں کہا گیا جو کہتے تھے کہ اے پیغمبر ! اگر تو سچا ہے تو عذاب ہم پر لے آ۔ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔

 یعنی لوگوں کے ظلم و معصیت کے باوجود وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنی تاخیر کرتا ہے کہ معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے، یہ اس کے حلم و کرم اور عفو و درگزر کا نتیجہ ہے ورنہ وہ فوراً مواخذہ کرنے اور عذاب دینے پر آجائے تو روئے زمین پر کوئی انسان ہی باقی نہ رہے

(وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا 45؀ ) 35 ۔ فاطر :45) 

 اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب پکڑ دھکڑ فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک تنفس کو نہ چھوڑتا '

 

 یہ اللہ کی دوسری صفت کا بیان ہے تاکہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھتا رہے کیونکہ ایک ہی رخ اور ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھنے رہنے سے بہت سی چیزیں اوجھل رہ جاتی ہیں اسی لیے قرآن کریم میں جہاں اللہ کی صفت رحیمی وغفوری کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہاری و جباری کا بیان بھی ملتا ہے جیسا کہ یہاں بھی ہے تاکہ رجاء امید اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے تو انسان معصیت الہی پر دلیر ہوجاتا ہے اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل ودماغ پر مسلط رہے تو اللہ کی رحمت سے مایوسی ہوجاتی ہے اور دونوں ہی باتیں غلط اور انسان کے لیے تباہ کن ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے الایمان بین الخوف والرجاء ایمان خوف اور مبید کے درمیان ہے یعنی دونوں باتوں کے درمیان اعتدال وتوازن کا نام ایمان ہے انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے بےپروا ہو اور نہ اس کی رحمت سے مایوس۔ اس مضمون کے ملاحظہ کے لیے دیکھئے سورة الانعام۔ سورة الاعراف۔ سورة الحجر 

وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ

امین احسن اصلاحی

اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ تم تو بس ایک آگاہ کر دینے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے

مطالبۂ عذاب کا جواب

 ’اٰیت‘ سے مراد یہاں کوئی نشانئ عذاب ہے۔ اوپر والی آیت میں جس عذاب کے لیے عجلت کا ذکر ہے یہ اسی کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر ہمیں جس عذاب کے ڈراوے ہر وقت سنا رہے ہیں آخر اس کی کوئی نشانی یہ کیوں نہیں دکھاتے؟ فرمایا کہ تمہارا کام صرف لوگوں کو اس عذاب سے خبردار کر دینا ہے، اس کی کوئی نشانی دکھانا یا اس عذاب کو لا دینا تمہارا کام نہیں ہے۔ یہ ہمارا کام ہے۔ تم اپنا کام کرو اور ہمارا کام ہم پر چھوڑو۔ ان کی بکواسوں کی پروا مت کرو۔ ’وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ‘ میں اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو سزا دینے سے پہلے اس کو انذار و تنبیہ فرماتا ہے چنانچہ ان کے انذار کے لیے خدا نے تمہیں ہادی بنا کر بھیج دیا ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر انھوں نے تمہاری ہدایت قبول نہ کی تو اب اس کے بعد ان کے لیے عذاب ہی کا مرحلہ باقی رہ جاتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ منکرین کہتے ہیں کہ اِس شخص پر اِس کے پروردگار کی طرف سے (عذاب کی) کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ (اِنھیں بتاؤ کہ یہ تمھارا کام نہیں ہے، اِس لیے کہ) تم تو صرف خبردار کرنے والے ہو اور ہر قوم کے لیے (اِسی طرح) ایک راہ بتانے والا (آتا رہا) ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

یہ لوگ جنہوں نے تمہاری با ت ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ “اِس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔

نشانی سے ان کی مراد ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر ان کو یقین آجائے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو اس کی حقانیت کے دلائل سے سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پاک سے سبق لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس زبردست اخلاقی انقلاب سے بھی کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم کے اثر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی زندگیوں میں رونما ہو رہا تھا۔ وہ ان معقول دلائل پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کے اوہام جاہلیت کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے قرآن میں پیش کیے جا رہے تھے۔ ان سب چیزوں کو چھوڑ کر وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی کرشمہ دکھایا جائے جس کے معیار پر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو جانچ سکیں۔

یہ ان کے مطالبے کا مختصر سا جواب ہے جو براہ راست ان کو دینے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے آخر کون سا کرشمہ دکھایا جائے۔ تمہارا کام ہر ایک کو مطمئن کردینا نہیں ہے۔ تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو چونکا دو اور ان کو غلط روی کے برے انجام سے خبردار کرو۔ یہ خدمت ہم نے ہر زمانے میں، ہر قوم میں، ایک نا ایک ہادی مقرر کر کے لی ہے۔ اب تم سے یہی خدمت لے رہے ہیں۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے آنکھیں کھولے اور جس کا جی چاہے غفلت میں پڑا رہے۔ یہ مختصر جواب دے کر اللہ تعالیٰ ان کے مطالبے کی طرف سے رخ پھیر لیتا ہے اور ان کو متنبہ کرتا ہے کہ تم کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہو جہاں کسی چوپٹ راجہ کا راج ہو۔ تمہارا واسطہ ایک ایسے خدا سے ہے جو تم میں سے ایک ایک شخص کو اس وقت سے جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بن رہے تھے، اور زندگی بھر تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے ہاں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ ٹھیٹھ عدل کے ساتھ تمہارے اوصاف کے لحاظ سے ہوتا ہے، اور زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔

جونا گڑھی

اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں اتاری گئی۔ بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔

  ہر نبی کو اللہ نے حالات و ضروریات اور اپنی مشیت و مصلحت کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں۔ جیسے کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں، وغیرہ وغیرہ جب ان کی خواہش کے مطابق معجزہ صادر کر کے نہ دکھایا جاتا تو کہتے کہ اس پر کوئی نشان (معجزہ) نازل کیوں نہیں کیا گیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے پیغمبر ! تیرا کام صرف تبلیغ ہے۔ وہ تو کرتا رہ کوئی مانے نہ مانے، اس سے تجھے کوئی غرض نہیں، اس لئے کہ ہدایت دینا یہ ہمارا کام ہے۔ تیرا کام راستہ دکھانا ہے، اس راستے پر چلا دینا، یہ تیرا کام نہیں، ہمارا کام ہے۔

 یعنی ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ لیکن سیدھے راستے کی نشان دہی کرنے کے لئے پیغمبر ہر قوم کے اندر ضرور آیا۔ (وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر) فاطر۔ ہر امت میں ایک نذیر ضرور آیا ہے۔ 

اللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ

امین احسن اصلاحی

اللہ ہی جانتا ہے ہر مادہ کے حمل کو اور جو کچھ رحموں میں گھٹتا اور بڑھتا ہے اس کو بھی اور ہر چیز اس کے ہاں ایک اندازہ کے مطابق ہے

لوگوں کی جلد بازی سے سنت الٰہی متغیر نہیں ہوتی

یعنی ایک بات جو ایک امر واقعی اور شدنی ہے اس میں اس بنیاد پر کوئی شبہ قائم کرنا کہ تم اس کا وقت معین طور پر نہیں بتا سکتے یا ان کے مطالبے پر اس کو دکھا نہیں سکتے، کوئی معقول بات نہیں ہے۔ ایک عورت حاملہ ہوتی ہے، اس کے رحم میں لڑکا ہے یا لڑکی، اس کو صرف اللہ ہی جانتا ہے، اس میں درپردہ جو کمی بیشی واقع ہوتی ہے اس کو بھی اللہ ہی جانتا ہے، اس کے وضع کا ٹھیک ٹھیک وقت بھی اللہ ہی کے علم میں ہوتا ہے۔ ان باتوں کے نہ جاننے سے نہ تو نفس حمل کی نفی ہوتی اور نہ کوئی عاقل اس بنیاد پر ایک حاملہ کے حاملہ ہونے سے انکار کرتا ہے۔ یہی مثال ان ظالموں کے لیے عذاب الٰہی کی ہے۔ انھوں نے اپنے عقاید و اعمال کے فساد کے باعث اس کا حمل قبول کر لیا ہے اور یہ حمل لازماً اپنی مدت کو پہنچ کر ظہور میں آئے گا لیکن کب آئے گا اور کس شکل و صورت میں آئے گا اس کا ٹھیک ٹھیک پتہ صرف اللہ ہی کو ہے، کسی دوسرے کو اس کا علم نہیں ہے۔ ’کُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ‘ اللہ کے ہاں ہر چیز کے لگے بندھے ضابطے، معین پیمانے اور مقرر اوقات ہیں۔ لوگوں کی جلد بازی سے وہ سنت الٰہی متغیر نہیں ہوتی جو اس نے ہر چیز کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اِن پر عذاب کے لیے کوئی نشانی کب ظاہر ہو گی؟ اِسے اللہ جانتا ہے، جس طرح) اللہ ہر مادہ کے حمل کو جانتا ہے اور جو کچھ رحموں میں گھٹتا اور بڑھتا ہے، اُس کو بھی جانتا ہے۔ ہر چیز اُس کے ہاں ایک اندازے کے مطابق ہے

مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہر حاملہ کے وضع حمل کا ٹھیک ٹھیک وقت صرف اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ اُس میں درپردہ کیا کمی بیشی ہو رہی ہے، اُسی طرح عذاب کا وقت بھی اُسی کے علم میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ تمھارے حالات کے لحاظ سے اُس میں کیا کمی بیشی کرنی ہے۔ میں تو جو کچھ بتا سکتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اپنے عقیدہ و عمل کے فساد کا حمل تم لوگ بھی قبول کر چکے ہو اور اپنی مدت کو پہنچ کر وہ بھی لازماً ظہور میں آ جائے گا۔ میں اُسی سے تمھیں خبردار کر رہا ہوں، جس طرح پہلی قوموں کے رسول کرتے رہے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے۔ جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقر رہے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کے رحم میں بچے کے اعضاء اس کی قوتوں اور قابلیتوں، اور اس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں جو کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے، اللہ براہ راست نگرانی میں ہوتا ہے۔

جونا گڑھی

مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے ۔

 رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر ؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

 اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر ٩ مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت ١٠ مہینے اور کسی وقت ٧، ٨ مہینے ہوجاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔

 

 یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے ؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا ؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔ 

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ

امین احسن اصلاحی

وہ غائب و حاضر سب کا جاننے والا، عظیم اور عالی شان ہے

توضیحِ مزید

یہ اوپر والے مضمون کی مزید توضیح و تاکید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی باتوں، اس کے علم اور اس کے منصوبوں کو اپنے محدود علم سے ناپنے کی کوشش نہ کرو۔ اس کا علم تمام غائب و حاضر کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وہ بڑی ہی عظیم ہستی اور اس کی بارگاہ بہت بلند ہے۔ وہ اپنے ارادوں اور اپنی اسکیموں کے بھیدوں کو خود ہی جانتا ہے، دوسرے اس میں سے اتنا ہی جان سکتے ہیں، جتنا وہ ظاہر کر دے۔

جاوید احمد غامدی

وہ غائب و حاضرکا جاننے والا ہے، سب سے بڑا ہے، سب سے برتر ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالا تر رہنے والا ہے۔

n/a

جونا گڑھی

ظاہر و پوشیدہ کا وہ عالم ہے (سب سے) بڑا اور (سب سے) بلند وبالا۔

سَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ

امین احسن اصلاحی

اس کے علم میں یکساں ہیں تم میں سے وہ جو بات کو چپکے سے کہیں اور وہ جو بلند آواز سے کہیں اور جو شب کی تاریکی میں چھپے ہوئے ہوں اور جو دن کی روشنی میں نقل و حرکت کر رہے ہوں

مطلب یہ کہ دیر سویر کی فکر تو اس کو ہو جس کو اندیشہ ہو کہ ذرا تاخیر ہوئی تو وقت نکل جائے گا اور پھر حریف قابو میں نہ آ سکے گا۔ جس کا علم اور جس کی قدرت ہر چیز اور ہر شخص کا اس طرح احاطہ کیے ہوئے ہو کہ اس کا ’سِرًّا وَّعَلَانِیَۃ‘ سب اس کے علم میں ہو اور اس کی شب اور اس کے روز کی ہر نقل و حرکت پر اس کو پورا اختیار حاصل ہو وہ پکڑنے میں جلد بازی کیوں کرے؟ وہ جب چاہے گا اور جہاں سے چاہے گا ہر ایک کو پکڑے گا۔ کس کی طاقت ہے کہ اس کے قابو سے باہر نکل سکے یا کہیں اس سے چھپ سکے۔

جاوید احمد غامدی

اُس کے علم میں یکساں ہیں جو تم میں سے چپکے سے بات کریں اور جو پکار کر کریں اور جو رات (کی تاریکی) میں چھپے ہوئے ہوں اور جو دن میں چل رہے ہوں

n/a

ابو الاعلی مودودی

تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے با ت کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بآواز بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر و یکساں ہیں۔

Page 1 of 5 pages  1 2 3 >  Last ›