رحمٰن
n/a
رحمٰن نے۔
n/a
رحمٰن نے۔
n/a
(خدائے رحمان نے) قرآن کی تعلیم دی
قرآن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے: یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ خاص مہربانی ہے کہ اس نے تمہاری تعلیم و تذکیر کے لیے قرآن کریم جیسی رحمت و برکت نازل فرمائی۔ وہ چاہتا تو تمہاری طلب کے مطابق تم پر عذاب بھی بھیج سکتا تھا، لیکن اس نے غایت رحمت کے سبب سے تم کو اپنے صحیفۂ رحمت سے نوازا کہ تم اس کو پڑھو، سمجھو اور اس کی روشنی میں اپنی عقلی و عملی کج رویوں کی اصلاح کر کے اس دنیا میں بھی پھلو پھولو اور آخرت میں بھی فلاح پاؤ ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے رب رحمان نے تمہیں اپنی رحمت سے نوازا تو تم رحمت کی جگہ اس کی نقمت کے طالب کیوں بنتے ہو!
(رحمٰن) نے قرآن کی تعلیم دی
n/a
اِس قرآن کی تعلیم دی ہے۔
یعنی اس قرآن کی تعلیم کسی انسان کی طبعزاد نہیں ہے بلکہ اس کا معلم خود خدائے رحمان ہے۔ اس مقام پر یہ بات بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی کہ اللہ نے قرآن کی یہ تعلیم کس کو دی ہے، کیونکہ لوگ اس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے سن رہے تھے، اس لیے مقتضائے حال سے کلام کا یہ مدعا آپ سے آپ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ تعلیم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ہے۔
آغاز اس فقرے سے کرنے کا پہلا مقصد تو یہی بتانا ہے کہ حضور خود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ اس تعلیم کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے مزید برآں دوسرا ایک مقصد ور بھی ہے جس کی طرف لفظ رحمان اشارہ کر رہا ہے۔ اگر بات صرف اتنی ہی کہنی ہوتی کہ یہ تعلیم اللہ کی طرف سے ہے، نبی کی طبعزاد نہیں ہے تو اللہ کا اہم ذات چھوڑ کر کوئی اسم صفت استعمال کرنے کی حاجت نہ تھی، اور اسم صفت ہی استعمال کرنا ہوتا تو محض اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے اسمائے الٰہیہ میں سے کوئی اسم بھی اختیار کیا جاسکتا تھا۔ لیکن جب یہ کہنے کے بجائے کہ اللہ نے، یا خالق نے، یا رزاق نے یہ تعلیم دی ہے، فرمایا یہ گیا کہ اس قرآن کی تعلیم رحمٰن نے دی ہے، تو اس سے خود بخود یہ مضمون نکل آیا کہ بندوں کی ہدایت کے لیے قرآن مجید کا نازل کیا جانا سراسر اللہ کی رحمت ہے۔ وہ چونکہ اپنی مخلوق پر بےانتہا مہربان ہے، اس لیے اس نے یہ گورا نہ کیا کہ تمہیں تاریکی میں بھٹکتا چھوڑ دے، اور اس کی رحمت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ یہ قرآن بھیج کر تمہیں وہ علم عطا فرمائے جس پر دنیا میں تمہاری راست روی اور آخرت میں تمہاری فلاح کا انحصار ہے۔
قرآن سکھایا
کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے جواب میں ہے جو کہتے رہتے یہ قرآن محمد کو کوئی انسان سکھاتا ہے بعض کہتے ہیں ان کے اس قول کے جواب میں ہے کہ رحمٰن کیا ہے ؟ قرآن سکھانے کا مطلب ہے، اسے آسان کردیا، یا اللہ نے اپنے پیغمبر کو سکھایا اور پیغمبر نے امت کو سکھلایا۔ اس سورت میں اللہ نے اپنی بہت سی نعمتیں گنوائی ہیں۔ چونکہ تعلیم قرآن ان میں قدر ومنزلت اور اہمیت و افادیت کے لحاظ سے سب سے نمایاں ہے، اس لیے پہلے اسی نعمت کا ذکر فرمایا۔ (فتح القدیر)
اس نے انسان کو پیدا کیا
انسان کی فطرت مقتضی تھی کہ اس کی ہدایت کے لیے قرآن نازل ہو: یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے تقاضے کے ساتھ ساتھ انسان کی خلقت اور اس کی صفات کا تقاضا بھی یہی ہوا کہ اس کی رہنمائی کے لیے صحیفۂ ہدایت اترے نہ کہ تازیانۂ عذاب۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو نطق و گویائی کی تعلیم دی۔ یہ گویائی اس بات کی شہادت ہے کہ خالق نے اس کو ایک عاقل و مدرک ہستی بنایا ہے۔ وہ بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کے خیر و شر میں امتیاز کر سکتا ہے اور دوسروں تک بھی اس کو پہنچا اور ان کو سمجھا سکتا ہے۔ جب ان گوناگوں صلاحیتوں سے وہ آراستہ ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ قدرت نے یہ چاہا ہے کہ اس کو کلام کے ذریعہ سے تعلیم دی جائے نہ کہ جانوروں کی طرح ڈنڈے کے ذریعے سے۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ انسان میں نطق کی صلاحیت اس کے اندر دوسری گوناگوں صلاحیتوں کی شاہد ہے۔ یہ نطق مستلزم ہے کہ انسان عاقل و مدرک ہے۔ وہ کلیات سے جزئیات اور جزئیات سے کلیات بنا سکتا ہے، وہ استدلال، استنباط اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ارسطو نے اسی وجہ سے انسان کی اسی صفت کو اس کے لیے حیوانات سے ممتاز کرنے والی صفت قرار دیا ہے۔ یہ صفت اس کے اندر نہ پائی جائے تو پھر وہ انسان نہیں بلکہ دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک جانور ہے۔ اور یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ جو لوگ کسی حقیقت کو دلائل کی روشنی میں سمجھنے کی جگہ اس کو آنکھوں سے دیکھ کر ماننے کے منتظر ہیں وہ بھی جانوروں ہی کے گلے میں شامل ہیں، اگرچہ وہ رہتے شان دار بنگلوں میں ہوں۔
(اِس لیے کہ) اُس نے انسان کو پیدا کیا ہے
n/a
اُسی نے انسان کو پیدا کیا۔
بالفاظ دیگر، چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، اور خالق ہی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی مخلوق کی رہنمائی کرے اور اسے وہ راستہ بتائے جس سے وہ اپنا مقصد وجود پورا کرسکے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کی اس تعلیم کا نازل ہونا محض اس کی رحمانیت ہی کا تقاضا نہیں ہے، بلکہ اس کے خالق ہونے کا بھی لازمی اور فطری تقاضا ہے۔ خالق اپنی مخلوق کی رہنمائی نہ کرے گا تو اور کون کرے گا ؟ اور خالق ہی رہنمائی نہ کرے تو اور کون کرسکتا ہے ؟ اور خالق کے لیے اس سے بڑا عیب اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس چیز کو وہ وجود میں لائے اسے اپنے وجود کا مقصد پورا کرنے کا طریقہ نہ سکھائے ؟ پس در حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی تعلیم کا انتظام ہونا عجیب بات نہیں ہے، بلکہ یہ انتظام اگر اس کی طرف سے نہ ہوتا تو قابل تعجب ہوتا پوری کائنات میں جو چیز بھی اس نے بنائی ہے اس کو محض پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس کو وہ موزوں ترین ساخت دی ہے جس سے وہ نظام فطرت میں اپنے حصے کا کام کرنے کے قابل ہو سکے، اور اس کام کو انجام دینے کا طریقہ اسے سکھایا ہے، خود انسان کے اپنے جسم کا ایک ایک رونگٹا اور ایک ایک خلیہ (Cell) وہ کام سیکھ کر پیدا ہوا ہے جو اسے انسانی جسم میں انجام دینا ہے۔ پھر آخر انسان بجائے خود اپنے خالق کی تعلیم و رہنمائی سے بےنیاز یا محروم کیسے ہوسکتا تھا ؟ قرآن مجید میں اس مضمون کو مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہے۔ سورة لیل (آیت 12) میں فرمایا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدیٰ ۔ ” رہنمائی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ” سورة نحل (آیت 9) میں ارشاد ہوا وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْھَا جَآئِرٌ۔ یہ اللہ کے ذمہ ہے کہ سیدھا راستہ بتائے اور ٹیڑھے راستے بہت سے ہیں “۔ سورة طٰہٰ (آیات 47 ۔ 50) میں ذکر آتا ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ کی زبان سے پیغام رسالت سن کر حیرت سے پوچھا کہ آخر وہ تمہارا رب کونسا ہے جو میرے پاس رسول بھیجتا ہے، تو حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھَدیٰ ۔ ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت عطا کی اور پھر اس کی رہنمائی کی، ” یعنی وہ طریقہ سکھایا جس سے وہ نظام وجود میں اپنے حصے کا کام کرسکے۔ یہی وہ دلیل ہے جس سے ایک غیر متعصب ذہن اس بات پر مطمئن ہوجاتا ہے کہ انسان کی تعلیم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں اور کتابوں کا آنا عین تقاضائے فطرت ہے۔
اسی نے انسان کو پیدا کیا
یعنی یہ بندر وغیرہ جانوروں سے ترقی کرتے کرتے انسان نہیں بن گئے۔ جیسا کہ ڈارون کا فلسفہ ارتقا ہے۔ بلکہ انسان کو اسی شکل و صورت میں اللہ نے پیدا فرمایا ہے جو جانوروں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے۔ انسان کا لفظ بطور جنس کے ہے۔
اس کو گویائی سکھائی
انسان کی فطرت مقتضی تھی کہ اس کی ہدایت کے لیے قرآن نازل ہو: یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے تقاضے کے ساتھ ساتھ انسان کی خلقت اور اس کی صفات کا تقاضا بھی یہی ہوا کہ اس کی رہنمائی کے لیے صحیفۂ ہدایت اترے نہ کہ تازیانۂ عذاب۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو نطق و گویائی کی تعلیم دی۔ یہ گویائی اس بات کی شہادت ہے کہ خالق نے اس کو ایک عاقل و مدرک ہستی بنایا ہے۔ وہ بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کے خیر و شر میں امتیاز کر سکتا ہے اور دوسروں تک بھی اس کو پہنچا اور ان کو سمجھا سکتا ہے۔ جب ان گوناگوں صلاحیتوں سے وہ آراستہ ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ قدرت نے یہ چاہا ہے کہ اس کو کلام کے ذریعہ سے تعلیم دی جائے نہ کہ جانوروں کی طرح ڈنڈے کے ذریعے سے۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ انسان میں نطق کی صلاحیت اس کے اندر دوسری گوناگوں صلاحیتوں کی شاہد ہے۔ یہ نطق مستلزم ہے کہ انسان عاقل و مدرک ہے۔ وہ کلیات سے جزئیات اور جزئیات سے کلیات بنا سکتا ہے، وہ استدلال، استنباط اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ارسطو نے اسی وجہ سے انسان کی اسی صفت کو اس کے لیے حیوانات سے ممتاز کرنے والی صفت قرار دیا ہے۔ یہ صفت اس کے اندر نہ پائی جائے تو پھر وہ انسان نہیں بلکہ دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک جانور ہے۔ اور یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ جو لوگ کسی حقیقت کو دلائل کی روشنی میں سمجھنے کی جگہ اس کو آنکھوں سے دیکھ کر ماننے کے منتظر ہیں وہ بھی جانوروں ہی کے گلے میں شامل ہیں، اگرچہ وہ رہتے شان دار بنگلوں میں ہوں۔
اُسے نطق و بیان کی صلاحیت عطا فرمائی ہے
یعنی تمھارا پروردگار سراسر رحمت ہے۔ اُس نے تمھیں جانور نہیں، بلکہ انسان بنا کر پیدا کیا اور نطق و بیان کی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ یہ صلاحیت بتاتی ہے کہ تم ایک صاحب عقل اور صاحب ادراک ہستی ہو، خیر و شر میں تمیز کرسکتے ہو، کلیات سے جزئیات اور جزئیات سے کلیات بناسکتے ہو، استدلال، استنباط اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہو۔ اِس کے بعد ضروری تھا کہ تم سے بات کی جائے۔ تمھارے پروردگار نے یہی کیا ہے اور تمھاری پیٹھ پر تادیب کا تازیانہ برسانے کے بجاے قرآن کے ذریعے سے تمھاری تعلیم کا اہتمام کر دیا ہے۔
اور اسے بولنا سکھایا۔
اصل میں لفظ بیان استعمال ہوا ہے۔ اس کے ایک معنی تو اظہار ما فی الضمیر کے ہیں، یعنی بولنا اور اپنا مطلب و مدعا بیان کرنا۔ اور دوسرے معنی ہیں فرق و امتیاز کی وضاحت، جس سے مراد اس مقام پر خیر و شر اور بھلائی اور برائی کا امتیاز ہے۔ ان دونوں معنوں کے لحاظ سے یہ چھوٹا سا فقرہ اوپر کے استدلال کو مکمل کردیتا ہے۔ بولنا وہ امتیازی وصف ہے جو انسان کو حیوانات اور دوسرے ارضی مخلوقات سے ممیز کرتا ہے۔ یہ محض قوت ناطقہ کام نہیں کرسکتی۔ اس لیے بولنا دراصل انسان کے ذی شعور اور ذی اختیار مخلوق ہونے کی صریح علامت ہے۔ اور یہ امتیازی وصف جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے لئے تعلیم کی نوعیت بھی وہ نہیں ہو سکتی جو بےشعور اور بےاختیار مخلوق کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اسی طرح انسان کا دوسرا اہم ترین امتیازی وصف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک اخلاقی حِس (Moral Sense) رکھ دی ہے جس کی وجہ سے وہ فطری طور پر نیکی اور بدی، حق اور ناحق، ظلم اور انصاف، بجا اور بےجا کے درمیان فرق کرتا ہے، اور یہ وجدان اور احساس انتہائی گمراہی و جہالت کی حالت میں بھی اس کے اندر سے نہیں نکلتا۔ ان دونوں امتیازی خصوصیات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان کی شعوری و اختیاری زندگی کے لیے تعلیم کا طریقہ اس پیدائشی طریق تعلیم سے مختلف ہو جس کے تحت مچھلی کو تیرنا اور پرندے کو اڑنا، اور خود انسانی جسم کے اندر پلک کو جھپکنا، آنکھ کو دیکھنا، کان کو سننا، اور معدے کو ہضم کرنا سکھایا گیا ہے۔ انسان خود اپنی زندگی کے اس شعبے میں استاد اور کتاب اور مدرسے اور تبلیغ و تلقین اور تحریر و تقریر اور بحث و استدلال جیسے ذرائع ہی کو وسیلہ تعلیم مانتا ہے اور پیدائشی علم و شعور کو کافی نہیں سمجھتا۔ پھر یہ بات آخر کیوں عجیب ہو کہ انسان کے خالق پر اسکی رہنمائی کی جو ذمی داری عائد ہوتی ہے اسے ادا کرنے کے لیے اس نے رسول اور کتاب کو تعلیم کا ذریعہ بنایا ہے ؟ جیسی مخلوق ویسی ہی اس کی تعلیم۔ یہ سراسر ایک معقول بات ہے ” بیان ” جس مخلوق کو سکھایا گیا ہو اس کے لیے قرآن ” ہی ذریعہ تعلیم ہوسکتا ہے نہ کہ کوئی ایسا ذریعہ جو ان مخلوقات کے لیے موزوں ہے جنہیں بیان نہیں سکھایا گیا ہے۔
اور اسے بولنا سکھایا
اس بیان سے مراد ہر شخص کی اپنی مادری بولی ہے جو بغیر سیکھے از خود ہر شخص بول لیتا اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرلیتا ہے، حتیٰ کے وہ چھوٹا بچہ بھی بول لیتا ہے، جس کو کسی بات کا علم اور شعور نہیں ہوتا۔ یہ تعلیم الٰہی کا نتیجہ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔
سورج اور چاند ایک حساب سے گردش کرتے ہیں
کائنات کی نشانیوں کی طرف ایک اشارہ: یہ اس کائنات کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی کہ اگر قرآن کے انذار کی تصدیق کے لیے نشانیوں ہی کی ضرورت ہے تو کسی نئی نشانی کے منتظر کیوں ہو؟ اپنے سروں کے اوپر آسمان کی نشانیوں کو دیکھو، یہ سورج اور چاند کس پابندئ اوقات اور کس نظم و ضبط کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ مجال نہیں ہے کہ کبھی منٹ اور سیکنڈ کا بھی کوئی فرق واقع ہونے پائے۔ پھر یہ دیکھو کہ یہ کس طرح ان حدود و قیود کی پابندی کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ٹھہرا دیے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ سورج اپنی سرحد میں لانگ کر چاند کے مدار میں گھس جائے یا چاند سورج کے حدود میں دراندازی کر دے:
’لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ‘ (یٰس: ۴۰)
(نہ سورج کے لیے یہ روا کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات کو یہ حق کہ وہ دن سے سبقت کر جائے۔ ہر ایک اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہا ہے)۔
کیا یہ نشانی ہر روز انسان کو یہ درس نہیں دیتی کہ جب اس کائنات کے خالق نے سورج اور چاند جیسی عظیم مخلوقات کو اپنے حدود و قیود کا پابند کر رکھا ہے تو انسان کو وہ کیوں اپنے امر و نہی کی پابندی سے آزاد رکھے گا؟ اور اگر انسان اس کے حدود و قیود کو توڑ کر دنیا میں اودھم مچانے کی جسارت کرے گا تو وہ آخر اس کو کیوں سزا نہیں دے گا؟ جو قانون اس نے اس کائنات کے ہر گوشے میں نافذ کر رکھا ہے اس کی پابندی کا سب سے زیادہ سزاوار تو انسان ہے۔
(تم نشانی چاہتے ہو تو دیکھو)، سورج اور چاند ایک حساب سے گردش میں ہیں
n/a
سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔
یعنی ایک زبردست قانون اور ایک اٹل ضابطہ ہے جس سے یہ عظیم الشان سیارے بندھے ہوئے ہیں۔ انسان وقت اور دن اور تاریخوں اور فصلوں اور موسموں کا حساب اسی وجہ سے کر رہا ہے کہ سورج کے طلوع و غروب اور مختلف منزلوں سے اس کے گزرنے کا جو قاعدہ مقرر کردیا گیا ہے اس میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوتا۔ زمین پر بےحد و حساب مخلوق زندہ ہی اس وجہ سے ہے کہ سورج اور چاند کو ٹھیک ٹھیک حساب کر کے زمین سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے اور اس فاصلے میں کمی و بیشی صحیح ناپ تول سے ایک خاص ترتیب کے ساتھ ہوتی ہے۔ ورنہ زمین سے ان کا فاصلہ کسی حساب کے بغیر بڑھ یا گھٹ جائے تو یہاں کسی کا جینا ہی ممکن نہ رہے۔ اسی طرح زمین کے گرد چاند اور سورج کے درمیان حرکات میں ایسا مکمل تناسب قائم کیا گیا ہے کہ چاند ایک عالمگیر جنتری بن کر رہ گیا ہے جو پوری باقاعدگی کے ساتھ ہر رات ساری دنیا کو قمری تاریخ بتا دیتی ہے۔
آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں
یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حساب سے اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں، ان سے تجاوز نہیں کرتے۔
اور ستارے اور درخت بھی سجدہ کرتے ہیں
’وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ‘۔ شمس و قمر کی پابندئ حدود، جس کو شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ سے تعبیر کرتے ہیں، کا حوالہ دینے کے بعد یہ آسمان کے ستاروں اور زمین کے درختوں کے سجدے کا ذکر فرمایا کہ یہ بھی اپنے خالق و مالک کو سجدہ کرتے اوراپنے عمل سے انسان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی اپنے رب سے سرکشی نہ کرے بلکہ نہایت فرماں بردارانہ اس کو سجدہ اور اس کی بندگی کرے۔
ستاروں اور درختوں کے سجدے کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہو چکی ہے۔ اس بحث کو اس کے محل میں دیکھیے۔ یہاں اعادے میں طوالت ہو گی۔
’اَلنَّجْمُ‘ کا صحیح مفہوم: ’اَلنَّجْمُ‘ سے بعض لوگوں نے زمین پر پیدا ہونے والے چھوٹے پودے، جھاڑ اور بیلوں وغیرہ کے قسم کی چیزیں مراد لی ہیں۔ غالباً ’شجر‘ کے ساتھ ستاروں کی مناسبت ان حضرات کی سمجھ میں نہیں آئی اس وجہ سے انھیں یہ تکلف کرنا پڑا حالانکہ ان دونوں کے درمیان نہایت واضح وصفی اشتراک موجود ہے۔ قرآن میں دونوں کے سجدہ کا ذکر مختلف اسلوبوں سے بار بار آیا ہے۔ اسی اشتراک کی بنا پر یہاں بھی دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ ہوا۔ اس سے آسمان و زمین دونوں کی ہم آہنگی واضح ہوتی ہے کہ ان کا رب ایک ہی ہے جس کو آسمان کے ستارے بھی سجدہ کرتے ہیں اور زمین کے درخت بھی۔ یہ امر واضح رہے کہ مجاہدؒ، قتادہؒ اور حسنؒ وغیرہ ’نجوم‘ کو اس کے معروف معنی ہی میں لیتے ہیں۔ ابن کثیرؒ نے بھی انہی لوگوں کی تائید کی ہے اور آیت
’اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ‘ (الحج: ۱۸)
(نہیں دیکھتے کہ اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج، چاند اور ستارے بھی)
کا حوالہ دیا ہے۔
اور تارے اور درخت ، سب سجدہ ریز ہیں
n/a
اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔
اصل میں لفظ النجم استعمال ہوا ہے جس کے معروف اور متبادر معنی تارے کے ہیں۔ لیکن لغت عرب میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا، مثلاً ترکاریاں، خربوزے، تربوز وغیرہ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ یہاں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس سعید بن جبیر، سدی اور سفیان ثوری اس کو بےتنے والی نباتات کے معنی میں لیتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد لفظ الشجر (درخت) استعمال فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہی معنی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے مجاہد، قتادہ اور حسن بصری کہتے ہیں کہ نجم سے مراد یہاں بھی زمین کے بوٹے نہیں بلکہ آسمان کے تارے ہی ہیں، کیونکہ یہی اس کے معروف معنی ہیں، اس لفظ کو سن کر سب سے پہلے آدمی کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے، اور شمس و قمر کے بعد تاروں کا ذکر بالکل فطری مناسبت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مفسرین و مترجمین کی اکثریت نے اگرچہ پہلے معنی کو ترجیح دی ہے، اور اس کو بھی غلط نہیں کہا جاسکتا، لیکن ہمارے نزدیک حافظ ابن کثیر کی رائے صحیح ہے کہ زبان اور مضمون دونوں کے لحاظ سے دوسرا مفہوم زیادہ قابل ترجیح نظر آتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر بھی نجوم اور شجر کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اور وہاں نجوم کو تاروں کے سوا اور کسی معنی میں نہیں لیا جاسکتا۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسْجُدُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ والشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ …………… (الحج۔ 18) ۔ یہاں نجوم کا ذکر شمس و قمر کے ساتھ ہے اور شجر کا ذکر پہاڑوں اور جانوروں کے ساتھ، اور فرمایا گیا ہے کہ یہ سب اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :6
یعنی آسمان کے تارے اور زمین کے درخت، اس اللہ تعالیٰ کے مطیع فرمان اور اس کے قانون کے پابند ہیں، جو ضابطہ ان کے لیے بنا دیا گیا ہے اس سے یَک سَرِ مو تجاوز نہیں کرسکتے۔
ان دونوں آیتوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ تعالیٰ کا آفریدہ ہے اور اسی کی اطاعت میں چل رہا ہے۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک نہ کوئی خود مختار ہے، نہ کسی اور کی خدائی اس جہان میں چل رہی ہے، نہ خدا کی خدائی میں کسی کا کوئی دخل ہے، اور نہ کسی کا یہ مقام ہے کہ اسے معبود بنایا جائے۔ سب بندے اور غلام ہیں، آقا تنہا ایک رب قدیر ہے۔ لہٰذا توحیدی حق ہے جس کی تعلیم یہ قرآن دے رہا ہے۔ اس کو چھوڑ کر جو شخص بھی شرک یا کفر کر رہا ہے وہ دراصل کائنات کے پورے نظام سے بر سر پیکار ہے۔
اور ستارے اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں
جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ ) 22 ۔ الحج :18)
اور اس نے آسمان کو اونچا کیا اور اس میں میزان رکھی
آسمان کی بعض روشن نشانیوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد خود آسمان کی طرف توجہ دلائی کہ اس کو دیکھو، ستونوں کے بغیر کس طرح تمہارے رب نے ایسی ناپیدا کنار چھت بلند کر دی جس کی وسعتوں کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ پھر دیکھو کہ اس بے پایاں عظمت و وسعت کے باوصف اس میں اس نے ایسا توازن رکھا ہے کہ اس کے کسی کونے گوشے میں نہ کوئی جھول کا پتہ دے سکتا ہے نہ کسی رخنے اور دراڑ کا۔ دوسرے مقام میں اسی حقیقت کی طرف یوں توجہ دلائی ہے:
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ. (لقمان: ۱۰)
(اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظر آئیں اور زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے کہ مبادا وہ تمہارے سمیت کسی سمت کو لڑھک جائے)۔
سورۂ ملک میں فرمایا ہے:
الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ہ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ. (الملک: ۳-۴)
(وہی ہے جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے اور تم خدائے رحمان کی اس کاریگری میں کوئی نقص نہیں پا سکتے۔ نگاہ دوڑاؤ، کیا دیکھتے ہو کہیں کوئی خلل! پھر نگاہ دوڑاؤ بار بار، نگاہ ناکام اور تھک کر واپس آ جائے گی)۔
’بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا‘ سے یہ بات نکلتی ہے کہ آسمان کی چھت میں توازن (میزان) قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جذب و کشش کے ایسے ستون استعمال کیے ہیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتے۔
اور اُس نے آسمان کو اونچا کیا اور (اُس میں) میزان قائم کر دی
n/a
آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔
قریب قریب تمام مفسرین نے یہاں میزان (ترازو) سے مراد عدل لیا ہے، اور میزان قائم کرنے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اس پورے نظام کو عدل پر قائم کیا ہے۔ یہ بےحد و حساب تارے اور سیارے جو فضا میں گھوم رہے ہیں، یہ عظیم الشان قوتیں جو اس عالم میں کام کر رہی ہیں، اور یہ لا تعداد مخلوقات اور اشیاء جو اس جہاں میں پائی جاتی ہیں، ان سب کے درمیان اگر کمال درجہ کا عدل و توازن نہ قائم کیا گیا ہوتا تو یہ کارگاہ ہستی ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتی تھی۔ خود اس زمین پر کروڑوں برس سے ہوا اور پانی اور خشکی میں جو مخلوقات موجود ہیں ان ہی کو دیکھ لیجیے۔ ان کی زندگی اسی لیے تو برقرار ہے کہ ان کے اسباب حیات میں پورا پورا عدل اور توازن پایا جاتا ہے، ورنہ ان اسباب میں ذرہ برابر بھی بےاعتدالی پیدا ہوجائے تو یہاں زندگی کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔
اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی
یعنی زمین میں انصاف رکھا، جس کا اس نے لوگوں کو حکم دیا۔
کہ تم بھی میزان میں تجاوز نہ کرو
آسمان کے خالق کی پسند کا اظہار اس کی صفت سے: یعنی جب خالق نے اس کے اندر میزان رکھی جس پر یہ قائم ہے، یہ نہ ہو تو آسمان درہم برہم ہو جائے تو اس سے خالق کا مزاج اور اس کا ذوق معلوم ہوا کہ وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اپنے دائرۂ اختیار کے اندر اسی طرح توازن، عدل اور قسط کو ملحوظ رکھے۔ اس میزان میں کوئی خرابی نہ پیدا کرے ورنہ سارے نظام معاش و معیشت میں فساد پھیل جائے گا۔ مطلب یہ نکلا کہ اسی عدل و قسط کی دعوت تمہیں قرآن دے رہا ہے جس کی شہادت تمہارے سروں پر پھیلے ہوئے آسمان کے ہر گوشے سے مل رہی ہے اور اسی کی خلاف ورزی کے نتائج سے تمہیں وہ ڈرا رہا ہے کہ اگر تم نے اپنے طغیان سے اندھے ہو کر یہ میزان درہم برہم کر ڈالی تو اس کی سزا اس دنیا میں بھی بھگتو گے اور آخرت میں بھی اس کا وبال تم پر آئے گا تو آخر یہ واضح بات جس کی شہادت آسمان و زمین کے گوشے گوشے سے مل رہی ہے، تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی! آفاق کی ان سبق آموز نشانیوں کو نظر انداز کر کے کسی صاعقۂ عذاب کے درپے کیوں ہو!
کہ (اپنے دائرۂ اختیار میں) تم بھی میزان میں خلل نہ ڈالو
n/a
اِس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔
n/a
تاکہ تولنے میں تجاوز نہ کرو
یعنی انصاف سے تجاوز نہ کرو۔
اور ٹھیک تولو پورے انصاف کے ساتھ۔ اور وزن میں کمی نہ کرو
اوپر والی بات ایک کلیہ کی حیثیت سے بیان ہوئی تھی۔ اسی کلیہ پر مبنی ایک دوسری حقیقت کی طرف توجہ دلائی جس کا تعلق ہماری روزمرہ زندگی سے ہے۔ فرمایا کہ جس خدا کے بنائے ہوئے آسمان کی چھت کے نیچے رہتے ہو جب وہ میزان رکھنے والا اور عدل پسند ہے تو اس کی دنیا میں ڈنڈی ماری کی زندگی نہ بسر کرو بلکہ ناپ تول میں پورے انصاف کے ساتھ وزن کو قائم رکھو اور ہرگز تول میں کوئی کمی نہ کرو۔ قوم شعیب کی سرگزشت کے سلسلہ میں ہم اس حقیقت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ ناپ تول میں کمی کوئی منفرد برائی نہیں ہے بلکہ یہ پورے نظام تمدن میں فساد کی ایک خوفناک علامت ہے۔ یہاں ایک مزید حقیقت واضح ہوئی کہ یہ برائی درحقیقت اس میزان کے منافی ہے جس ہر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین قائم فرمائے ہیں۔ اگر کوئی قوم اس فساد کو قبول کر لیتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اس بنیاد ہی کے ڈھا دینے کے درپے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس عالم کی تعمیر فرمائی ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بنائی ہوئی زمین پر ایسے لوگوں کو کبھی گوارا نہیں کر سکتا۔
یہاں یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ ایک ہی بات مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے فرمائی گئی ہے۔ قرآن مجید پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلوب ان مواقع پر اختیار فرمایا گیا ہے جہاں اصل حکم کی خلاف ورزی نہایت خطرناک نتائج پر منتہی ہو سکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ناپ تول میں کامل انصاف کا حکم ایک عظیم حکم ہے۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس میزان عدل کی ایک فرع ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس عالم کا نظام قائم فرمایا ہے اور یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ جو قوم اس میں فساد برپا کر دیتی ہے وہ سارے نظام تمدن میں فساد برپا کر دیتی ہے۔
اور انصاف کے ساتھ سیدھی تول تولو اور وزن میں کمی نہ کرو
مطلب یہ ہے کہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں جس عدل و قسط کی دعوت قرآن دے رہا ہے اور جس کی خلاف ورزی کے نتائج سے خبردار کر رہاہے، اُس کی گواہی تو یہ پوری کائنات اپنے وجود سے دے رہی ہے۔ یہ بتا رہی ہے کہ آسمان کے سیارے اور ستارے ، سب خدا کے حکم کے پابند ہیں اور ٹھیک اُس توازن پر قائم ہیں جو اُن کے خالق نے اُن کے اندر رکھ دیا ہے۔ اِس کا تقاضا یہی ہے اور یہی ہونا چاہیے کہ تم بھی قائم بالقسط ہو کر حق کی شہادت دو اور خدا کی دنیا میں کسی جگہ بھی ڈنڈی ماری کی زندگی بسر نہ کرو، ورنہ اِس کی سزا دنیا میں بھی بھگتو گے اور آخرت میں بھی اِس کا وبال تم پر لازماً آئے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس سے معلوم ہوا کہ ناپ تول میں کامل انصاف کا حکم ایک عظیم حکم ہے۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اُس میزان عدل کی ایک فرع ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اِس عالم کا نظام قائم فرمایا ہے اور یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ جو قوم اِس میں فساد برپا کردیتی ہے، وہ سارے نظام تمدن میں فساد برپا کر دیتی ہے۔‘‘(تدبر قرآن۸/ ۱۳۰)
انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔
یعنی چونکہ تم ایک متوازن کائنات میں رہتے ہو جس کا سارا نظام عدل پر قائم کیا گیا ہے، اس لیے تمہیں بھی عدل پر قائم ہونا چاہیے۔ جس دائرے میں تمہیں اختیار دیا گیا ہے اس میں اگر تم بےانصافی کرو گے، اور جن حق داروں کے حقوق تمہارے ہاتھ میں دیے گئے ہیں اگر تم ان کے حق مارو گے تو یہ فطرت کائنات سے تمہاری بغاوت ہوگی۔ اس کائنات کی فطرت ظلم و بےانصافی اور حق ماری کو قبول نہیں کرتی۔ یہاں ایک بڑا ظلم تو درکنار، ترازو میں ڈنڈی مار کر اگر کوئی شخص خریدار کے حصہ کی ایک تولہ بھر چیز بھی مار لیتا ہے تو میزان عالم میں خلل برپا کردیتا ہے۔ یہ قرآن کی تعلیم کا دوسرا اہم حصہ ہے جو ان تین آیتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلی تعلیم ہے توحید اور دوسری تعلیم ہے عدل۔ اس طرح چند مختصر فقروں میں لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انسان کی رہنمائی کے لیے خدائے رحمان نے جو قرآن بھیجا ہے وہ کیا تعلیم لے کر آیا ہے۔
انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو۔
n/a
اور زمین کو اس نے بچھایا خلق کے لیے
زمین کے اسباب ربوبیت کی طرف اشارہ: آسمان کے عجائب قدرت کی طرف توجہ دلانے کے بعد یہ زمین کے اسباب ربوبیت کی طرف توجہ دلائی۔ آسمان کے لیے ’رفع‘ کا لفظ استعمال فرمایا تھا اس کے مقابل میں زمین کے لیے ’وضع‘ کا لفظ نہایت موزوں اور معنی خیز استعمال فرمایا کہ آسمان کو شامیانے کی طرح تان اور زمین کو فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ اس کی مخلوقات کے لیے یہ ایک آرام دہ مکان بن جائے۔ پھر جس طرح آسمان پر سورج، چاند اور ستاروں کے چراغ اور قمقمے لگا دیے کہ اس گھر کو روشنی اور حرارت حاصل ہوتی رہے اسی طرح اس گھر میں مختلف قسم کے پھلوں، غلوں اور پھولوں کے انبار بھی لگا دیے کہ اس کے مکینوں کو غذا بھی حاصل ہو، اس کے پھلوں سے وہ لذت اندوز اور خوش کام ہوں اور اس کے پھول ان کے لیے باصرہ نوازی اور معطر شامی کا سامان بھی مہیا کریں۔
یہاں غلے کے ساتھ پھلوں اور خاص طور پر پھولوں کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے صرف پیٹ بھرنے ہی کا سامان نہیں کیا ہے بلکہ ان کے ذوق جمال، لذت کام و دہن اور شوق آرائش کا بھی سامان کیا ہے جو اس کی ربوبیت ہی کی دلیل نہیں بلکہ خاص اہتمام ربوبیت کی دلیل ہے۔ اسی طرح ’حبّ‘ کے ساتھ ’ذوالعصف‘ کی صفت اور ’نخل‘ کے ساتھ ’ذات الاکمام‘ کی صفت اس خاص عنایت پر دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرمائی ہے کہ اس نے غلے اور پھل جو دیے تو اس طرح نہیں کہ گویا پھینک مارے ہوں بلکہ ایک ایک دانے اور ایک ایک پھل کی پیکنگ کا ایسا اعلیٰ انتظام فرمایا ہے کہ انسان اس کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اہتمام اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان اپنے رب کی اس پروردگاری کا حق پہچانے، اس کا شکرگزار رہے، اور یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارے کہ جس نے اس کے لیے یہ سارا اہتمام کسی استحقاق کے بغیر کیا ہے وہ اس کو یوں ہی شتر بے مہار کی طرح چھوڑے نہیں رکھے گا بلکہ حساب کتاب کا بھی ایک دن وہ لائے گا۔
اس آیت میں لفظ ’ریحان‘ سے متعلق ایک تنبیہ بھی ضروری ہے بعض لوگوں نے اس کے معنی ’پتوں‘ کے لیے ہیں لیکن اس معنی میں یہ لفظ نہ عربی زبان میں استعمال ہوا ہے اور نہ یہاں پتوں کے ذکر کا کوئی محل ہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے غلہ کے ذکر کے ساتھ پھول کا ذکر ان حضرات کو بے جوڑ سا معلوم ہوا اس وجہ سے انھیں یہ انوکھی تاویل کرنی پڑی حالانکہ اس کے ذکر کا ایک محل ہے جس کی وضاحت ہم نے اوپر کر دی۔
اور زمین کو اُس نے اپنی مخلوقات کے لیے بچھا دیا ہے
n/a
زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لیے بنایا۔
اب یہاں سے آیت 25 تک اللہ تعالیٰ ان نعمتوں اور اس کے ان احسانات اور اس کی قدرت کے ان کرشموں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے انسان اور جن دونوں متمتع ہو رہے ہیں اور جن کا فطری اور اخلاقی تقاضا یہ ہے کہ وہ کفر و ایمان کا اختیار رکھنے کے باوجود خود اپنی مرضی سے بطوعَ و رغبت اپنے رب کی بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں۔
اصل الفاظ ہیں زمین کو ” اَنام ” کے لیے وضع کیا۔ وضع کرنے سے مراد ہے تالیف کرنا، بنانا، تیار کرنا، رکھنا، ثبت کرنا۔ اور انام عربی زبان میں خلق کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں انسان اور دوسری سب زندہ مخلوقات شامل ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کل شیء فیہ الروح، اَنام میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کے اندر روح ہے۔ مجاہد اس کے معنی بیان کرتے ہیں خلائق۔ قتادہ، ابن زید اور شعبی کہتے ہیں کہ سب جاندار انام ہیں۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ انس و جن دونوں اس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ یہ معنی تمام اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اس آیت سے زمین کو ریاست کی ملکیت بنانے کا حکم نکالتے ہیں وہ ایک فضول بات کہتے ہیں۔ یہ باہر کے نظریات لا کر قرآن میں زبردست ٹھونسنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کا ساتھ نہ آیت کے الفاظ دیتے ہیں نہ سیاق وسباق۔ اَنام صرف انسانی معاشرے کو نہیں کہتے بلکہ زمین کی دوسری مخلوقات بھی اس میں شامل ہیں۔ اور زمین کو انام کے لیے وضع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سب کی مشترک ملکیت ہو۔ اور سیاق عبارت بھی یہ نہیں بتا رہا ہے کہ کلام کا مدعا اس جگہ کوئی معاشی ضابطہ بیان کرنا ہے۔ یہاں تو مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اس طرح بنایا اور تیار کردیا کہ یہ قسم قسم کی زندہ مخلوقات کے لیے رہنے بسنے اور زندگی بسر کرنے کے قابل ہوگئی۔ یہ آپ سے آپ ایسی نہیں ہوگئی ہے۔ خالق کے بنانے سے ایسی بنی ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے اس کو ایسی جگہ رکھا اور ایسے حالات اس میں پیدا کیے جن سے یہاں زندہ انواع کا رہنا ممکن ہوا۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم النمل حواشی 73 ۔ 74 جلد چہارم، یٰسٓ، حواشی 29 ۔ 32 ۔ المومن حواشی 90 ۔ 91، حم السجدہ، حواشی 11 تا 13 ۔ الزخرف، حواشی 7 تا 10 الجاثیہ، حاشیہ 7)
اور اسی نے مخلوق کے لئے زمین بچھا دی۔
n/a
امین احسن اصلاحی
خدائے رحمان (نے قرآن کی تعلیم دی)
قرآن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے: یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ خاص مہربانی ہے کہ اس نے تمہاری تعلیم و تذکیر کے لیے قرآن کریم جیسی رحمت و برکت نازل فرمائی۔ وہ چاہتا تو تمہاری طلب کے مطابق تم پر عذاب بھی بھیج سکتا تھا، لیکن اس نے غایت رحمت کے سبب سے تم کو اپنے صحیفۂ رحمت سے نوازا کہ تم اس کو پڑھو، سمجھو اور اس کی روشنی میں اپنی عقلی و عملی کج رویوں کی اصلاح کر کے اس دنیا میں بھی پھلو پھولو اور آخرت میں بھی فلاح پاؤ ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے رب رحمان نے تمہیں اپنی رحمت سے نوازا تو تم رحمت کی جگہ اس کی نقمت کے طالب کیوں بنتے ہو!