زمین اور آسمانوں کی ہر چیز نے اللہ کی تسبیح کی ہے اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔
یہ تمہید کا جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی راہ میں جہاد کے لیے خدا تمھارا محتاج نہیں ہے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اُس کی تسبیح میں سرگرم ہے۔ اُس نے تم سے جہاد کا تقاضا کیا ہے تو اِس میں تمھارا ہی بھلا ہے۔کیا تم اُس پر بھروسا نہیں رکھتے کہ اُس کی راہ میں جہاد سے جی چراتے ہو؟ اگر یہی بات ہے تو تم سے بڑھ کر بد قسمت کون ہو گا جو ایسی زبردست اور صاحب حکمت ہستی پر بھروسا نہ کرے۔
آیت کی ابتدا میں فعل ’سَبَّحَ‘ ماضی کے صیغے میں ہے۔ بیان واقعہ اور بیان حقیقت کے لیے یہ اسلوب قرآن مجید میں کئی جگہوں پر اختیار کیا گیا ہے۔
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ غالب اور حکیم ہے ۔
یہ اس خطبہ کی مختصر تمہید ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورة الحدید، حاشیہ ١۔ ٢ کلام کا آغاز اس تمہید سے اس لیے کیا گیا ہے کہ آگے جو کچھ فرمایا جانے والا ہے اس کو سننے یا پڑھنے سے پہلے آدمی یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ بےنیاز اور اس سے بالاتر ہے کہ اس کی خدائی کا چلنا کسی کے ایمان اور کسی کی مدد اور قربانیوں پر موقوف ہو۔ وہ اگر ایمان لانے والوں کو ایمان میں خلوص اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ صداقت کا بول بالا کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو، تو یہ سب کچھ ان کے اپنے ہی بھلے کے لیے ہے۔ ورنہ اس کے ارادے اس کے اپنے ہی زور اور اس کی اپنی ہی تدبیر سے پورے ہو کر رہتے ہیں، خواہ کوئی بندہ ان کی تکمیل میں ذرہ برابر بھی سعی نہ کرے، بلکہ ساری دنیا مل کر ان کی مزاحمت پر تل جائے۔
زمین و آسمان کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے۔
n/a
اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں!
زبان کے غازیوں کو تنبیہ: خطاب اگرچہ باعتبار الفاظ عام ہے لیکن روئے سخن انہی کی طرف ہے جو ایمان و اسلام اور انفاق و جہاد کے دعوے تو بڑی بلند آہنگی سے کرتے لیکن جب آزمائش کا وقت آتا تو بالکل بزدل ثابت ہوتے۔ ان کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم اس بات کا دعویٰ ہی کیوں کرتے ہو جو پورا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے! اگر تمہارا گمان یہ ہے کہ اس زبانی جہاد سے تم کوئی سعادت کی کمائی کر رہے ہو تو یہ خیال بالکل غلط ہے۔ تمہارا یہ رویہ اللہ کے نزدیک تمہارے لیے موجب سعادت نہیں بلکہ غضب کا باعث ہے کہ تم زبان سے تو بڑے غازی ہو لیکن عمل کے اعتبار سے بالکل صفر۔
آدمی کے قول و قرار کی ساری قدر و قیمت اس کی وفاداری و راست بازی میں ہے۔ ایک شخص ایک طالب مدد کو پہلے ہی مرحلے میں اگر صاف جواب دے دیتا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کرے گا تو گو اس کا انکار، اگر وہ مدد کی اہلیت رکھتا ہے، فتوت، ہمدردی اور اسلامی اخوت کے منافی اور اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اللہ کے نزدیک مبغوض وہ ہو گا جس نے ایک ضرورت مند کو مدد کا اطمینان تو بڑی فراخ دلی سے دلایا لیکن جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو اس کو دھوکا دیا۔
یہ رویہ یوں تو ہر شکل میں مکروہ و مبغوض ہے لیکن معاملہ ایک نبی اور اس پر ایمان کے مدعیوں کا ہو تو اس کی سنگینی اور بڑھ جائے گی۔ جو لوگ ایک نبی کی دعوت قبول نہیں کرتے وہ اللہ کے غضب کے سزاوار ہوتے ہیں اور ان کو سزاوار ہونا چاہیے لیکن ان سے بھی زیادہ اللہ کے غضب کے سزاوار وہ ہیں جو ماننے کو تو اس کی ہر بات مان لیں لیکن عمل کسی بات پر بھی نہ کریں یا صرف ان باتوں پر کریں جو ان کے نفس کی خواہشوں کے موافق ہوں اور جب کوئی اہم مرحلہ پیش آئے تو اس وقت چھپتے پھریں۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کا رویہ کھلے ہوئے دشمنوں کے مقابل میں دین کے لیے زیادہ خطر ناک ہے اس لیے کہ انھوں نے اپنے کو دوست ظاہر کر کے دین کی دشمنی کی اور اس کی فوج میں بھرتی ہو کر اس کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے۔
ان کے نزدیک معتوب الٰہی ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب ایک مرتبہ انھوں نے دین کو مان لیا تو گویا انھوں نے اس امر کا اعتراف کر لیا کہ یہ چیز ان کے دل کو اپیل کرنے والی اور ان کی سمجھ میں آنے والی ہے۔ اس پہلو سے ان کا معاملہ ان لوگوں سے بالکل مختلف ہو جاتا ہے جو اس کے مخالف اس بنا پر ہوں کہ ابھی بات ان کی سمجھ میں سرے سے آئی ہی نہ ہو۔ کسی بات کا سمجھ میں نہ آنا بہرحال ایک عذر ہے جس کی بنا پر ایک شخص رعایت کا مستحق قرار پاتا ہے لیکن جو لوگ سمجھ چکنے کا اعتراف کر چکے ہوں اگر وہ اس کے عملی تقاضوں سے گریز اختیار کریں تو اس کا سبب صرف ان کی اخلاقی کمزوری ہی ہو سکتی ہے جو کسی کے لیے بھی کوئی عذر نہیں بن سکتی بلکہ یہ بہر شکل ایک برائی ہے جو اللہ کے غضب اور اس کی نفرت ہی کی موجب ہو گی۔
ایمان والو، تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟
اِس سے واضح ہے کہ مخاطب وہی منافقین ہیں جو اسلام کے لیے سرفروشی اور جاں بازی کے لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے، مگر جب آزمایش کا وقت آتا تو بالکل بزدل ثابت ہوتے اور راہ فرار اختیار کر لیتے تھے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟
n/a
اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں
یہاں ندا اگرچہ عام ہے لیکن اصل خطاب ان مومنوں سے ہے جو کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسند عمل ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھنے چاہئیں تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاکر پوچھنے کی جرت کوئی نہیں کر رہا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (مسند احمد)
اللہ کے نزدیک یہ بات زیادہ غصہ کی ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔
زبان کے غازیوں کو تنبیہ: خطاب اگرچہ باعتبار الفاظ عام ہے لیکن روئے سخن انہی کی طرف ہے جو ایمان و اسلام اور انفاق و جہاد کے دعوے تو بڑی بلند آہنگی سے کرتے لیکن جب آزمائش کا وقت آتا تو بالکل بزدل ثابت ہوتے۔ ان کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم اس بات کا دعویٰ ہی کیوں کرتے ہو جو پورا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے! اگر تمہارا گمان یہ ہے کہ اس زبانی جہاد سے تم کوئی سعادت کی کمائی کر رہے ہو تو یہ خیال بالکل غلط ہے۔ تمہارا یہ رویہ اللہ کے نزدیک تمہارے لیے موجب سعادت نہیں بلکہ غضب کا باعث ہے کہ تم زبان سے تو بڑے غازی ہو لیکن عمل کے اعتبار سے بالکل صفر۔
آدمی کے قول و قرار کی ساری قدر و قیمت اس کی وفاداری و راست بازی میں ہے۔ ایک شخص ایک طالب مدد کو پہلے ہی مرحلے میں اگر صاف جواب دے دیتا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کرے گا تو گو اس کا انکار، اگر وہ مدد کی اہلیت رکھتا ہے، فتوت، ہمدردی اور اسلامی اخوت کے منافی اور اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اللہ کے نزدیک مبغوض وہ ہو گا جس نے ایک ضرورت مند کو مدد کا اطمینان تو بڑی فراخ دلی سے دلایا لیکن جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو اس کو دھوکا دیا۔
یہ رویہ یوں تو ہر شکل میں مکروہ و مبغوض ہے لیکن معاملہ ایک نبی اور اس پر ایمان کے مدعیوں کا ہو تو اس کی سنگینی اور بڑھ جائے گی۔ جو لوگ ایک نبی کی دعوت قبول نہیں کرتے وہ اللہ کے غضب کے سزاوار ہوتے ہیں اور ان کو سزاوار ہونا چاہیے لیکن ان سے بھی زیادہ اللہ کے غضب کے سزاوار وہ ہیں جو ماننے کو تو اس کی ہر بات مان لیں لیکن عمل کسی بات پر بھی نہ کریں یا صرف ان باتوں پر کریں جو ان کے نفس کی خواہشوں کے موافق ہوں اور جب کوئی اہم مرحلہ پیش آئے تو اس وقت چھپتے پھریں۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کا رویہ کھلے ہوئے دشمنوں کے مقابل میں دین کے لیے زیادہ خطر ناک ہے اس لیے کہ انھوں نے اپنے کو دوست ظاہر کر کے دین کی دشمنی کی اور اس کی فوج میں بھرتی ہو کر اس کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے۔
ان کے نزدیک معتوب الٰہی ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب ایک مرتبہ انھوں نے دین کو مان لیا تو گویا انھوں نے اس امر کا اعتراف کر لیا کہ یہ چیز ان کے دل کو اپیل کرنے والی اور ان کی سمجھ میں آنے والی ہے۔ اس پہلو سے ان کا معاملہ ان لوگوں سے بالکل مختلف ہو جاتا ہے جو اس کے مخالف اس بنا پر ہوں کہ ابھی بات ان کی سمجھ میں سرے سے آئی ہی نہ ہو۔ کسی بات کا سمجھ میں نہ آنا بہرحال ایک عذر ہے جس کی بنا پر ایک شخص رعایت کا مستحق قرار پاتا ہے لیکن جو لوگ سمجھ چکنے کا اعتراف کر چکے ہوں اگر وہ اس کے عملی تقاضوں سے گریز اختیار کریں تو اس کا سبب صرف ان کی اخلاقی کمزوری ہی ہو سکتی ہے جو کسی کے لیے بھی کوئی عذر نہیں بن سکتی بلکہ یہ بہر شکل ایک برائی ہے جو اللہ کے غضب اور اس کی نفرت ہی کی موجب ہو گی۔
اللہ کے نزدیک بہت ناراضی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہوجو کرتے نہیں ہو۔
یعنی قول و فعل میں تضاد یوں تو ہر حال میں ایک نا پسندیدہ چیز ہے، لیکن اِس کی سنگینی اُس وقت بہت بڑھ جاتی ہے ، جب خدا سے کوئی وعدہ کرکے اور اُس کے ایفا کے بڑے بڑے دعووں کے بعد اُس کی خلاف ورزی کی جائے۔ چنانچہ تمھارا یہ رویہ خدا کی ناراضی میں بہت زیادہ اضافے کا باعث بن گیا ہے۔
اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسند دیدہ حرکت ہے کہ مت کہو ہو بات جو کرے نہیں ۔
اس ارشاد کا ایک مدعا تو عام ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ اور ایک مدعا خاص ہے جو بعد والی آیت کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا۔ پہلا مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہئے۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے، اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں، کجا کہ ایک ایسا شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا :
ایٰۃ المنافق ثلاث (زاد مسلم وان صام و صلی و زعم انہ مسلم) اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف واذا أتمن خان (بخاری و مسلم)
منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ یہ جب بولے جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
ایک اور حدیث میں آپ کا ارشاد ہے :
اربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا، اذا اتمن خان واذا حدث کذب۔ واذا عاھد غدر، واذا خاصم فجر۔ (بخاری و مسلم)
چار صفتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ چاروں پائیں جائیں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے، جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور جب بولے تو جھوٹ بولے، اور عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کر جائے، اور لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالیں۔
فقہائے اسلام کا اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ کوئی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرے (مثلاً کسی چیز کی نذر مانیں) یا بندوں سے کوئی معاہدہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے تو اسے وفا کرنا لازم ہے، الا یہ کہ کام بجائے خود گناہ ہو جس کا اس نے عہد یا وعدہ کیا ہو۔ اور گناہ ہونے کی صورت میں وہ فعل تو نہیں کرنا چاہئے جس کا عہد یا وعدہ کیا گیا ہے لیکن اس کی پابندی سے آزاد ہونے کے لیے کفارہ یمین ادا کرنا چاہئے، جو سورة المائدہ آیت ٨٩ میں بیان کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص وابن عربی)
یہ تو ہے ان آیات کا مدعا۔ رہا وہ خاص مدعا جس کے لیے اس موقع پر یہ آیات ارشاد فرمائی گئی ہیں تو بعد والی آیت کو ان کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ مقصود ان لوگوں کو ملامت کرنا ہے جو اسلام کے لیے سرفروشی و جانبازی کے لمبے چوڑے وعدے کرتے تھے، مگر جب آزمائش کا وقت آتا تھا تو بھاگ نکلتے تھے۔ ضعیف الایمان لوگوں کی اس کمزوری پر قرآن مجید میں کئی جگہ گرفت کی گئی ہے۔ مثلاً سورة نساء آیت ٧٧ میں فرمایا ” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے، یا اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا، یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی “۔ اور سورة محمد آیت ٢٠ میں فرمایا ” جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی صورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک محکم سورت نازل کی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو “۔ جنگ احد کے موقع پر یہ کمزوریاں خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں جن کی طرف سورة آل عمران میں ١٣ ویں رکوع سے ١٧ ویں رکوع تک اشارات کئے گئے ہیں۔
مفسرین نے ان آیات کی شان نزول میں ان کمزوریوں کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جہاد فرض ہونے سے پہلے مسلمانوں میں کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ کاش ہمیں وہ عمل معلوم ہوجائے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو ہم وہی کریں۔ مگر جب بتایا گیا کہ وہ عمل ہے جہاد، تو ان پر اپنی اس بات کو پورا کرنا بہت شاق ہوگیا۔ مقاتِل بن حیّان کہتے ہیں کہ احد کی جنگ میں ان لوگوں کو آزمائش سے سابقہ پیش آیا اور یہ حضور کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ابن زید کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین دلاتے تھے کہ آپ کو دشمنوں کے مقابلہ کے لیے نکلنا پڑے تو ہم آپ کے ساتھ نکلیں گے۔ مگر جب وقت آیا تو ان کے وعدے جھوٹے نکلے۔ قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ بعض لوگ جنگ میں شریک ہوتے بھی تھے تو کوئی کارنامہ انجام نہ دیتے تھے مگر آ کر یہ ڈینگیں مارتے تھے کہ ہم یوں لڑے اور ہم نے یوں مارا۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آیات میں ملامت کی ہے۔
تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔
یہاں ندا اگرچہ عام ہے لیکن اصل خطاب ان مومنوں سے ہے جو کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسند عمل ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھنے چاہئیں تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاکر پوچھنے کی جرت کوئی نہیں کر رہا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (مسند احمد)
اللہ تو محبوب ان لوگوں کو رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اس طرح لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔
اللہ تو اُنھی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اُس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اِس طرح لڑتے ہیں، گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گو یا کہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔
اس سے اول تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ کی خوشنودی سے وہی اہل ایمان سرفراز ہوتے ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے اور خطرہ سہنے کے لیے تیار ہوں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو جو فوج پسند ہے اس میں تین صفات پائی جانی چاہئے۔ ایک یہ کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اللہ کی راہ میں لڑے اور کسی ایسی راہ میں نہ لڑے جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بدنظمی و انتشار میں مبتلا نہ ہو بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑے۔ تیسری یہ کہ دشمنوں کے مقابلہ میں اسکی کیفیت ” سیسہ پلائی ہوئی دیوار ” کی سی ہو۔ پھر یہ آخری صفت بجائے خود اپنے اندر معنی کی ایک دنیا رکھتی ہے۔ کوئی فوج اس وقت تک میدان جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک اس میں حسب ذیل صفات پیدا نہ ہوجائیں :
عقیدہ اور مقصد میں کامل اتفاق، جو اس کے سپاہیوں اور افسروں کو آپس میں پوری طرح متحد کر دے۔
ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد جو کبھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا کہ سب فی الواقع اپنے مقصد میں مخلص اور ناپاک اغراض سے پاک ہوں۔ ورنہ جنگ جیسی سخت آزمائش کسی کا کھوٹ چھپا رہنے نہیں دیتی اور اعتماد ختم ہوجائے تو فوج کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے بجائے بلکہ الٹا ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں۔
اخلاق کا ایک بلند معیار، جس سے اگر فوج کے افسر اور سپاہی نیچے گر جائیں تو ان کے دل میں نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہو سکتی ہے نہ عزت، اور نہ وہ آپس میں متصادم ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
اپنے مقصد کا ایک ایسا عشق اور اسے حاصل کرنے کا ایسا پختہ عزم جو پوری فوج میں سرفروشی و جانبازی کا ناقابل تسخیر جذبہ پیدا کر دے اور وہ میدان جنگ میں واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جائے۔
یہی تھیں وہ بنیادیں جن پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں ایک ایسی زبردست عسکری تنظیم اٹھی جس سے ٹکرا کر بڑی بڑی قوتیں پاش پاش ہوگئیں اور صدیوں تک دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے نہ ٹھر سکی۔
بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں ۔
یہ جہاد کا ایک انتہائی نیک عمل بتلایا گیا جو اللہ کو بہت محبوب ہے۔
اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اے میرے ہم قومو! تم مجھے کیوں دکھ پہنچاتے ہو حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تمہارے پاس اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں تو جب وہ کج ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل کج کر دیے اور اللہ نافرمانوں کو راہ یاب نہیں کیا کرتا۔
(یہود کا رویہ بھی یہی تھا)۔ یاد کرو، جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: میری قوم کے لوگو، (بار بار کی نافرمانیوں سے) تم مجھے کیوں اذیت دیتے ہو، دراں حالیکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمھارے پاس خدا کا رسول ہو کر آیا ہوں؟ لیکن (اِس تنبیہ کے باوجود) جب اُنھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے اُن کے دل ٹیڑھے کر دیے۔ اللہ ایسے نافرمان لوگوں کو کبھی راہ یاب نہیں کرتا۔
اور یاد کرو موسیٰ کی وہ بات جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی ” اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ” ؟ پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیئے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو اللہ کا نبی اور اپنا محسن جاننے کے باوجود کس کس طرح تنگ کیا اور کیسی کیسی بےوفائیاں ان کے ساتھ کیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت 51 ۔ 55 ۔ 60 ۔ 67 تا 71 ۔ النساء، 153 ۔ المائدہ، 20 تا 26 ۔ الاعراف 138 تا 141 ۔ 148 تا 151 ۔ طٰہٰ 86 تا 98 ۔ بائیبل میں خود یہودیوں کی اپنی بیان کردہ تاریخ بھی اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے۔ صرف بطور نمونہ چند واقعات کے لیے دیکھیے خروج 20:5 ۔ 21 11:14 ۔ 12 ۔ 2:16 ۔ 3 ۔ 3:17 ۔ 4 ۔ گنتی 1:11 ۔ 15 ۔ 1:14 ۔ 10 ۔ 16 مکمل۔ 1:20 ۔ 5 یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ مسلمانوں کو خبردار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نبی کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کریں جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی کے ساتھ اختیار کی تھی، ورنہ وہ اس انجام سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوئے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کو زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ خود اس شخص یا قوم کی طرف سے ہوتا ہے، البتہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو گمراہی پسند کرے وہ اس کے لیے راست روی کے نہیں بلکہ گمراہی کے اسباب ہی فراہم کرتا رہے گا کہ جن جن راہوں میں وہ بھٹکنا چاہے بھٹکتا چلا جائے۔ اللہ نے تو انسان کو انتخاب کی آزادی (Free dom of Choice) عطا فرما دی ہے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہر انسان کا اور انسانوں کے ہر گروہ کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے یا نہیں، اور راہ راست پسند کرتا ہے یا ٹیڑھے راستوں میں سے کسی پر جانا چاہتا ہے۔ اس انتخاب میں کوئی جبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے۔ اگر کوئی اطاعت اور ہدایت کی راہ منتخب کرے تو اللہ اسے جبراً گمراہی و نافرمانی کی طرف نہیں دھکیلتا، اور اگر کسی کا فیصلہ یہ ہو کہ اسے نافرمانی ہی کرنی ہے اور راہ راست اختیار نہیں کرنی تو اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجبور کر کے طاعت و ہدایت کی راہ پر لائے۔ لیکن یہ بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جس راستے کو بھی اپنے لیے منتخب کرے اس پر وہ عملاً ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جب تک اللہ اس کے لیے وہ اسباب و ذرائع فراہم اور وہ حالات پیدا نہ کر دے جو اس پر چلنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ یہی اللہ کی وہ ” توفیق ” ہے جس پر انسان کی ہر سعی کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار ہے۔ اب اگر کوئی شخص بھلائی کی توفیق سرے سے چاہتا ہی نہیں، بلکہ الٹی برائی کی توفیق چاہتا ہے تو اس کو وہی ملتی ہے۔ اور جب اسے برائی کی توفیق ملتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی ذہنیت کا سانچا ٹیڑھا اور اس کی سعی و عمل کا راستہ کج ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے اندر سے بھلائی کو قبول کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہی معنی ہیں اس ارشاد کے کہ ” جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیے “۔ اس حالت میں یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے کہ جو خود گمراہی چاہتا ہے اور گمراہی کی طلب ہی میں سرگرم ہے اور اسی میں آگے بڑھنے کے لیے اپنی ساری فکر و سعی صرف کر رہا ہے اسے جبراً ہدایت کی طرف موڑ دیا جائے، کیونکہ ایسا کرنا اس آزمائش اور امتحان کے منشا کو فوت کر دے گا جس کے لیے دنیا میں انسان کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے، اور اس طرح کی ہدایت پاکر اگر آدمی سیدھا چلے تو کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس پر وہ کسی اجر اور جزائے خیر کا مستحق ہو۔ بلکہ اس صورت میں تو جسے زبردستی ہدایت نہ ملی ہو اور اس بنا پر وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا ہو وہ بھی کسی سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ پھر تو اس کے گمراہ رہنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر آجاتی ہے اور وہ آخرت میں باز پرس کے موقع پر یہ حجت پیش کرسکتا ہے کہ جب آپ کے ہاں زبردستی ہدایت دینے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ” اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا “۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کرلی ہے انکو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں دیا کرتا۔
اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں ستا رہے ہو حالانکہ تمہیں (بخوبی) معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کردیا اور اللہ تعالیٰ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے سچے رسول ہیں، بنی اسرائیل انہیں اپنی زبان سے ایذا پہنچاتے تھے، حتٰی کہ بعض جسمانی عیوب ان کی طرف منسوب کرتے تھے، حالانکہ وہ بیماری ان کے اندر نہیں تھی۔
یعنی علم کے باوجود حق سے اعراض کیا اور حق کے مقابلے میں باطل کو خیر کے مقابلے میں شر کو اور ایمان کے مقابلے میں کفر کو اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر ان کے دلوں کو مستقل طور پر ہدایت سے پھیر دیا۔ کیونکہ یہی سنت اللہ چلی آرہی ہے۔ کفر وضلالات پر دوام واستمرار ہی دلوں پر مہر لگنے کا باعث ہوتا ہے پھر فسق کفر اور ظلم اس کی طبیعت اور عادت بن جاتی ہے جس کو کوئی بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ اس لیے آگے فرمایا اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو اپنی سنت کے مطابق گمراہ کیا ہوتا ہے اب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے جسے اس طریقے سے اللہ نے گمراہ کیا ہو۔
اور یاد کرو جب کہ کہا عیسیٰ بن مریم نے، اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، مصداق ہوں تورات کی ان پیشین گوئیوں کا جو مجھ سے پہلے سے موجود ہیں اور خوش خبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہو گا؛ تو جب وہ آیا ان کے پاس کھلی نشانیوں کے ساتھ تو انھوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
(اُن کی یہ ٹیڑھ اِسی طرح قائم رہی)۔ یاد کرو، جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تورات کی اُن پیشین گوئیوں کا مصداق ہوں جو مجھ سے پہلے موجود ہیں، اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہو گا۔ مگر اُن کے پاس جب وہ کھلی کھلی نشانیاں لے کر آگیا تو اُنھوں نے کہا: یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ ” اے بنی اسرائیل، میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں تصدیق کرنے والا ہوں اس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ مگر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ صریح دھوکا ہے ۔
یہ بنی اسرائیل کی دوسری نافرمانی کا ذکر ہے۔ ایک نافرمانی وہ تھی جو انہوں نے اپنے دور عروج کے آغاز میں کی۔ اور دوسری نافرمانی یہ ہے جو اس دور کے آخری اور قطعی اختتام پر انہوں نے کی جس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان پر خدا کی پھٹکار پڑگئی۔ مدعا ان دونوں واقعات کو بیان کرنے کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا کے رسول کے ساتھ بنی اسرائیل کا سا طرز عمل اختیار کرنے کے نتائج سے خبردار کیا جائے۔
اس فقرے کے تین معنی ہیں اور تینوں صحیح ہیں :
ایک یہ کہ میں کوئی الگ اور نرالا دین نہیں لایا ہوں بلکہ وہی دین لایا ہوں جو موسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے۔ میں توراۃ کی تردید کرتا ہوا نہیں آیا ہوں بلکہ اس کی تصدیق کر رہا ہوں، جس طرح ہمیشہ سے خدا کے رسول اپنے سے پہلے آئے ہوئے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ تم میری رسالت کو تسلیم کرنے میں تامل کرو۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں ان بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق توراۃ میں موجود ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ تم میری مخالفت کرو، تمہیں تو اس بات کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ جس کے آنے کی خبر پچھلے انبیاء نے دی تھی وہ آگیا۔
اور اس فقرے کو بعد والے فقرے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے تیسرے معنی یہ نکلتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے متعلق توراۃ کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور خود بھی ان کے آنے کی بشارت دیتا ہوں۔ اس تیسرے معنی کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس قول کا اشارہ اس بشارت کی طرف ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے دی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :
” خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔
(استثناء، باب 18 ۔ آیات 15 ۔ 19)
یہ توراۃ کی صریح پیشن گوئی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہو سکتی۔ اس میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ میں تیرے لیے تیرے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ایک قوم ” بھائیوں ” سے مراد خود اسی قوم کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں ہوسکتا بلکہ کوئی دوسری ایسی قوم ہی ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اس کا قریبی نسلی رشتہ ہو۔ اگر مراد خود بنی اسرائیل میں سے کسی نبی کی آمد ہوتی تو الفاظ یہ ہوتے کہ میں تمہارے لیے خود تم ہی میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ لہٰذا بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لا محالہ بنی اسماعیل ہی ہو سکتے ہیں جو حضرت ابراہیم کی اولاد ہونے کی بنا پر ان کے نسبی رشتہ دار ہیں۔ مزید براں اس پیشن گوئی کا مصداق بنی اسرائیل کا کوئی نبی اس وجہ سے بھی نہیں ہوسکتا کہ حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں کوئی ایک نبی نہیں، بہت سارے نبی آئے ہیں جن کے ذکر سے بائیبل بھری پڑی ہے۔
دوسری بات اس بشارت میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جو نبی برپا کیا جائے گا وہ حضرت موسیٰ کے مانند ہوگا۔ اس سے مراد ظاہر ہے کہ شکل صورت یا حالات زندگی میں مشابہ ہونا تو نہیں ہے، کیونکہ اس لحاظ سے کوئی فرد بھی کسی دوسرے فرد کے مانند نہیں ہوا کرتا۔ اور اس سے مراد محض وصف نبوت میں مماثلت بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ وصف ان تمام انبیاء میں مشترک ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد آئے ہیں، اس لیے کسی ایک نبی کی یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس وصف میں ان کے مانند ہو۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے مشابہت کے خارج از بحث ہوجانے کے بعد کوئی اور وجہ مماثلت، جس کی بنا پر آنے والے ایک نبی کی تخصیص قابل رحم ہو، اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ وہ نبی ایک مستقل شریعت لانے کے اعتبار سے حضرت موسیٰ کے مانند ہو۔ اور یہ خصوصیت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی، کیونکہ آپ سے پہلے بنی اسرائیل میں جو نبی بھی آئے تھے وہ شریعت موسوی کے پیرو تھے، ان میں سے کوئی بھی ایک مستقل شریعت لے کر نہ آیا تھا۔
اس تعبیر کو مزید تقویت پیشین گوئی کے ان الفاظ سے ملتی ہے کہ ” یہ تیری (یعنی بنی اسرائیل کی) اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا “۔ اس عبارت میں حورب سے مراد وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلی مرتبہ احکام شریعت دیے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل کی جس درخواست کا اس میں ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ اگر کوئی شریعت ہم کو دی جائے تو ان خوفناک حالات میں نہ دی جائے جو حورب پہاڑ کے دامن میں شریعت دیتے وقت پیدا کیے گئے تھے۔ ان حالات کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور بائیبل میں بھی۔ (ملاحظہ ہو البقرہ، آیات 55 ۔ 56 ۔ 63 ۔ الاعراف، آیات 155 ۔ 171 ۔ بائیبل، کتاب خروج 17:19 ۔ 18) ۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ درخواست قبول کرلی ہے، اس کا ارشاد ہے کہ میں ان کے لیے ایک ایسا نبی برپا کروں گا جس کے منہ میں میں اپنا کلام ڈالوں گا۔ یعنی آئندہ شریعت دینے کے اس وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہ کیے جائیں گے جو حورب پہاڑ کے دامن میں پیدا کیے گئے تھے، بلکہ اب جو نبی اس منصب پر مامور کیا جائے گا اس کے منہ میں بس اللہ کا کلام ڈال دیا جائے گا اور وہ اسے خلق خدا کو سنا دے گا۔ اس تصریح پر غور کرنے کے بعد کیا اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اس کا مصداق کوئی اور نہیں ہے ؟ حضرت موسیٰ کے بعد مستقل شریعت صرف آپ ہی کو دی گئی، اس کے عطا کرنے کے وقت کوئی ایسا مجمع نہیں ہوا جیسا حورب پہاڑ کے دامن میں بنی اسرائیل کو ہوا تھا، اور کسی وقت بھی احکام شریعت دینے کے موقع پر وہ حالات پیدا نہیں کیے گئے جو وہاں پیدا کیے گئے تھے۔
یہ قرآن مجید کی ایک بڑی اہم آیت ہے، جس پر مخالفین اسلام کی طرف سے بڑی لے دے بھی کی گئ ہے اور بدترین خیانت مجرمانہ سے بھی کام لیا ہے، کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صاف صاف نام لے کر آپ کی آمد کی بشارت دی تھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے۔
1 ۔ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم گرامی احمد بتایا گیا ہے۔ احمد کے دو معنی ہیں۔ ایک، وہ شخص جو اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو۔ دوسرے، وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو، یا جو بندوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف ہو۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک نام تھا۔ مسلم اور ابو داؤد طیالِسی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انا محمد و انا احمد والحاشر۔۔۔۔۔ ” میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں حاشر ہوں۔۔۔۔۔ ” اسی مضمون کی روایات حضرت جبیر بن مطعم سے امام مالک، بخاری، مسلم، دارمی، ترمذی اور نسائی نے نقل کی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ اسم گرامی صحابہ میں معروف تھا، چنانچہ حضرت حصان بن ثابت کا شعر ہے :
صلی الالٰہ و من یحف بعرشہ والطیبون علی المبارک احمد
” اللہ نے اور اس کے عرش کے گرد جمگھٹا لگائے ہوئے فرشتوں نے اور سب پاکیزہ ہستیوں نے بابرکت احمد پر درود بھیجا ہے “۔
تاریخ سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام مبارک صرف محمد ہی نہ تھا بلکہ احمد بھی تھا۔ عرب کا پورا لٹریچر اس بات سے خالی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کسی کا نام احمد رکھا گیا ہو۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد احمد اور غلام احمد اتنے لوگوں کے نام رکھے گئے ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ زمانہ نبوت سے لے کر آج تک تمام امت میں آپ کا یہ اسم گرامی معلوم و معروف رہا ہے۔ اگر حضور کا یہ اسم گرامی نہ ہوتا تو اپنے بچوں کے نام غلام احمد رکھنے والوں نے آخر کس احمد کا غلام ان کو قرار دیا تھا ؟
2 ۔ انجیل یوحنا اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح کی آمد کے زمانے میں بنی اسرائیل تین شخصیتوں کے منتظر تھے۔ ایک مسیح، دوسرے ایلیاہ (یعنی حضرت الیاس کی آمد ثانی) ، اور تیسرے ” وہ نبی ” انجیل کے الفاظ یہ ہیں
” اور یوحنا (حضرت یحییٰ علیہ السلام) کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے، تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟۔۔۔۔ اس نے کہا میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو ۔۔۔۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے، نہ ایلیا نہ وہ نبی تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے ؟ ” (باب 1 ۔ آیات 19 ۔ 25)
یہ الفاظ اس بات پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت مسیح اور حضرت الیاس کے علاوہ ایک اور نبی کے بھی منتظر تھے، اور وہ حضرت یحییٰ نہ تھے، اس نبی کی آمد کا عقیدہ بنی اسرائیل کے ہاں اس قدر مشہور و معروف تھا کہ ” وہ نبی ” کہہ دینا گویا اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بالکل کافی تھا، یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ ” جس کی خبر توراۃ میں دی گئی ہے ” مزید برآں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نبی کی طرف وہ اشارہ کر رہے تھے اس کا آنا قطعی طور پر ثابت تھا، کیونکہ جب حضرت یحییٰ سے یہ سوالات کیے گئے تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے، تم کس نبی کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟
3 ۔ اب وہ پیشین گوئیاں دیکھیے جو انجیل یوحنا میں مسلسل باب 14 سے 16 تک منقول ہوئی ہیں :
” اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے، یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے۔ تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہے ” (14:16 ۔ 17 ) ۔
” میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔ ” (25:14 ۔ 26)
” اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ” (30:14 ) ۔
” لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے، تو وہ میری گواہی دے گا ” (26:15) ۔
” لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا ” (7:16) ۔
” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گا۔ اس لیے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا۔ جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے۔ اس لیے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا ” (12:16 ۔ 15) ۔
4 ۔ ان عبارتوں کے معنی متعین کرنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اور ان کے ہم عصر اہل فلسطین کی عام زبان آرامی زبان کی وہ بولی تھی جسے سریانی (Syriac) کہا جاتا ہے۔ مسیح کی پیدائش سے دو ڈھائی سو برس پہلے ہی سلوقی (Seleu cide) اقتدار کے زمانے میں اس علاقے سے عبرانی رخصت ہوچکی تھی اور سریانی نے اس کی جگہ لے لی تھی۔ اگرچہ سلوقی اور پھر رومی سلطنتوں کے اثر سے یونانی زبان بھی اس علاقے میں پہنچ گئی تھی، مگر وہ صرف اس طبقے تک محدود رہی جو سرکار دربار میں رسائی پاکر، یا رسائی حاصل کرنے کی خاطر یونانیت زدہ ہوگیا تھا۔ فلسطین کے عام لوگ سریانی کی ایک خاص بولی (Dialect) استعمال کرتے تھے جس کے لہجے اور تلفظات اور محاورات دمشق کے علاقے میں بولی جانے والی سریانی سے مختلف تھے، اور اس ملک کے عوام یونانی سے اس قدر ناواقف تھے کہ جب 70 ء میں یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد رومی جنرل تیتُس (Titus) نے اہل یروشلم کو یونانی میں خطاب کیا تو اس کا ترجمہ سریانی زبان میں کرنا پڑا۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے جو کچھ کہا تھا وہ لامحالہ سریانی زبان ہی میں ہوگا۔
دوسری بات یہ جاننی ضروری ہے کہ بائیبل کی چاروں انجیلیں ان یونانی بولنے والے عیسائیوں کی لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے بعد اس مذہب میں داخل ہوئے تھے۔ ان تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اقوال و اعمال کی تفصیلات سریانی بولنے والے عیسائیوں کے ذریعہ سے کسی تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی روایات کی شکل میں پہنچی تھیں اور ان سریانی روایات کو انہوں نے اپنی زبان میں ترجمہ کر کے درج کیا تھا۔ ان میں سے کوئی انجیل بھی 70 ء سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے، اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد غالباً ایشیائے کوچک کے شہر افسس میں لکھی گئی ہے۔ مزید یہ کہ ان انجیلوں کا بھی کوئی اصل نسخہ اس یونانی زبان میں محفوظ نہیں ہے جس میں ابتداءً یہ لکھی گئی تھیں۔ مطبع کی ایجاد سے پہلے کے جتنے یونانی مسودات جگہ جگہ سے تلاش کر کے جمع کیے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی سے پہلے کا نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تین صدیوں کے دوران میں ان کے اندر کیا کچھ رد و بدل ہوئے ہوں گے۔ اس معاملہ کو جو چیز خاص طور پر مشتبہ بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق دانستہ تغیر و تبدل کرنے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (ایڈیشن 1946) کے مضمون ” بائیبل ” کا مصنف لکھتا ہے :
” اناجیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں جیسے مثلاً بعض پوری پوری عبارتوں کو کسی دوسرے ماخذ سے لے کر کتاب میں شامل کردینا۔ ……… یہ تغیرات صریحاً کچھ ایسے لوگوں نے بالقصد کیے ہیں جنہیں اصل کتاب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا، اور وہ اپنے آپ کو اس کا مجاز سمجھتے رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ مفید بنانے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اس مواد کا اضافہ کردیں ……… بہت سے اضافے دوسری صدی ہی میں ہوگئے تھے اور کچھ نہیں معلوم کہ ان کا ماخذ کیا تھا “۔
اس صورت حال میں قطعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جو اقوال ہمیں ملتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک نقل ہوئے ہیں اور ان کے اندر کوئی رد و بدل نہیں ہوا ہے۔
تیسری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی تقریباً تین صدیوں تک فلسطین کے عیسائی باشندوں کی زبان سریانی رہی اور کہیں نویں صدی عیسوی میں جا کر عربی زبان نے اس کی جگہ لی ان سریانی بولنے والے اہل فلسطین کے ذریعہ سے عیسائی روایات کے متعلق جو معلومات ابتدائی تین صدیوں کے مسلمان علماء کو حاصل ہوئیں وہ ان لوگوں کی معلومات کی بہ نسبت زیادہ معتبر ہونی چاہییں جنہیں سریانی سے یونانی اور پھر یونانی سے لاطینی زبانوں میں ترجمہ در ترجمہ ہو کر یہ معلومات پہنچیں۔ کیونکہ مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے اصل سریانی الفاظ ان کے ہاں محفوظ رہنے کے زیادہ امکانات تھے۔
5 ۔ ان ناقابل انکار تاریخی حقائق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ انجیل یوحنا کی مذکورہ بالا عبارات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دے رہے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ” دنیا کا سردار ” (سرور عالم) ہوگا، ” ابد تک ” رہے گا، ” سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا، ” اور خود ان کی (یعنی حضرت عیسیٰ کی) ” گواہی دے گا “۔ یوحنا کی ان عبارتوں میں ” روح القدس ” اور ” سچائی کی روح ” وغیرہ الفاظ شامل کر کے مدعا کو خبط کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے، مگر اس کے باوجود ان سب عبارتوں کو اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس آنے والے کی خبر دی گئی ہے وہ کوئی روح نہیں بلکہ کوئی انسان اور خاص شخص ہے جس کی تعلیم عالمگیر، ہمہ گیر، اور قیامت تک باقی رہنے والی ہوگی۔ اس شخص خاص کے لیے اردو ترجمے میں ” مددگار ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یوحنا کی اصل انجیل میں یونانی زبان کا جو لفظ استعمال کیا گیا تھا، اس کے بارے میں عیسائیوں کو اصرار ہے کہ وہ Para Cletus تھا۔ مگر اس کے معنی متعین کرنے میں خود عیسائی علماء کو سخت زحمت پیش آئی ہے۔ اصل یونانی زبان میں Para Clate کے کئی معنی ہیں : کسی جگہ کی طرف بلانا، مدد کے لیے پکارنا، انذار و تنیہ، ترغیب، اکسانا، التجا کرنا، دعا مانگنا۔ پھر یہ لفظ ہی بینی مفہوم میں یہ معنی دیتا ہے : تسلی دینا، تسکین بخشنا، ہمت افزائی کرنا۔ بائیبل میں اس لفظ کو جہاں جہاں استعمال کیا گیا ہے، ان سب مقامات پر اس کے کوئی معنی بھی ٹھیک نہیں بیٹھتے۔ اور ائجن (Origen) نے کہیں اس کا ترجمہ Consolator کیا ہے اور کہیں Deprecator مگر دوسرے مفسرین نے ان دونوں ترجموں کو رد کردیا کیونکہ اول تو یہ یونانی گرامر کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں، دوسرے تمام عبارتوں میں جہاں یہ لفظ آیا ہے، یہ معنی نہیں چلتے۔ بعض اور مترجمین نے اس کا ترجمہ (رض) eacher کیا ہے، مگر یونانی زبان کے استعمالات سے یہ معنی بھی اخذ نہیں کیے جاسکتے۔ ترتولیان اور آگسٹائن نے لفظ Advocate کو ترجیح دی ہے، اور بعض اور لوگوں نے Assistant, اور Comforter, اور Consoler وغیرہ الفاظ اختیار کیے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر، لفظ پیریکلیٹس ) ۔
اب دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان ہی میں ایک دوسرا لفظ Periclytos موجود ہے جس کے معنی ہیں ” تعریف کیا ہوا “۔ یہ لفظ بالکل ” محمد ‘’ کا ہم معنی ہے، اور تلفظ میں اس کے اور Paracletus کے درمیان بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ کیا بعید ہے کہ جو مسیحی حضرات اپنی مذہبی کتابوں میں اپنی مرضی اور پسند کے مطابق بےتکلف رد و بدل کرلینے کے خوگر رہے ہیں انہوں نے یوحنا کی نقل کردہ پیشین گوئی کے اس لفظ کو اپنے عقیدے کے خلاف پڑتا دیکھ کر اس کے املا میں یہ ذرا سا تغیر کردیا ہو۔ اس کی پڑتال کرنے کے لیے یوحنا کی لکھی ہوئی ابتدائی یونانی انجیل بھی کہیں موجود نہیں ہے جس سے یہ تحقیق کیا جاسکے کہ وہاں ان دونوں الفاظ میں سے دراصل کونسا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔
7 ۔ لیکن فیصلہ اس پر بھی موقوف نہیں ہے کہ یوحنا نے یونانی زبان میں دراصل کونسا لفظ لکھا تھا، کیونکہ بہرحال وہ بھی ترجمہ ہی تھا اور حضرت مسیح کی زبان، جیسا کہ اوپر بیان کرچکے ہیں فلسطین کی سریانی تھی، اس لیے انہوں نے اپنی بشارت میں جو لفظ استعمال کیا ہوگا وہ لا محالہ کوئی سریانی لفظ ہی ہونا چاہیے۔ خوش قسمتی سے وہ اصل سریانی لفظ ہمیں ابن ہشام کی سیرت میں مل جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اسی کتاب سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا ہم معنی یونانی لفظ کیا ہے۔ محمد بن اسحاق کے حوالہ سے ابن ہشام نے یُحَنّس (یوحنا) کی انجیل کے باب 15، آیات 23 تا 27، اور باب 16 آیت 1 کا پورا ترجمہ نقل کیا ہے اور اس میں یونانی ” فارقلیط ” کے بجائے سریانی زبان کا لفظ منحَمَنَّا استعمال کیا گیا ہے۔ پھر ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ ” مُنحَمَنَّا کے معنی سریانی میں محمد اور یونانی میں برقلیطس ہیں ” (ابن ہشام، جلد اول، ص 248) ۔
اب دیکھیے کہ تاریخی طور پر فلسطین کے عام عیسائی باشندوں کی زبان نویں صدی عیسوی تک سریانی تھی، یہ علاقہ ساتویں صدی کے نصف اول سے اسلامی مقبوضات میں شامل تھا۔ ابن اسحاق نے 768 ء میں اور ابن ہشام نے 868 ء میں وفات پائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے زمانے میں فلسطینی عیسائی سریانی بولتے تھے، اور ان دونوں کے لیے اپنے ملک کی عیسائی رعایا سے ربط پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ نیز اس زمانے میں یونانی بولنے والے عیسائی بھی لاکھوں کی تعداد میں اسلامی مقبوضات کے اندر رہتے تھے، اس لیے ان کے لیے یہ معلوم کرنا بھی مشکل نہ تھا کہ سریانی کے کس لفظ کا ہم معنی یونانی زبان کا کونسا لفظ ہے۔ اب اگر ابن اسحاق کے نقل کردہ ترجمے میں سریانی لفظ منحَمَنّا استعمال ہوا ہے، اور ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ عربی میں اس کا ہم معنی لفظ محمد اور یونانی میں بر قلیطس ہے، تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ حضرت عیسیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام مبارک لے کر آپ ہی کے آنے کی بشارت دی تھی، اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یوحنا کی یونانی انجیل میں دراصل لفظ Periclytos استعمال ہوا تھا جسے عیسائی حضرات نے بعد میں کسی وقت Para Cletus سے بدل دیا۔
8 ۔ اس سے بھی قدیم تر تاریخی شہادت حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت ہے کہ مہاجرین حبشہ کو جب نجاشی نے اپنے دربار میں بلایا، اور حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا : مَرحَباً بِکُم وَبِمَن جِئتُم مِن عندِہ، اَشھَدُ اَنَّہ رَسُول اللہِ وَاَنَّہُ الَّذِی نَجِدُ فِی الاِنجِیل، وَ اَنَّہ الَّذِی بَشَّرَ بِہ عیسَی بن مریَمَ ۔ (مسند احمد) ۔ یعنی ” مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن مریم نے دی تھی “۔ یہ قصہ احادیث میں خود حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے بھی منقول ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کے آغاز میں نجاشی کو یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک نبی کی پیشین گوئی کر گئے ہیں، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نبی کی ایسی صاف نشاندہی انجیل میں موجود تھی جس کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی وہ نبی ہیں۔ البتہ اس روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰ کی اس بشارت کے متعلق نجاشی کا ذریعہ معلومات یہی انجیل یوحنا تھی یا کوئی اور ذریعہ بھی اس کو جاننے کا اس وقت موجود تھا۔
9 ۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے بارے میں حضرت عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کو نہیں، خود حضرت عیسیٰ کے اپنے صحیح حالات اور آپ کی اصل تعلیمات کا جاننے کا بھی معتبر ذریعہ وہ چار انجیلیں نہیں ہیں جن کو مسیحی کلیسا نے معتبر و مسلم اناجیل (Canonical Gospels) قرار دے رکھا ہے، بلکہ اس کا زیادہ قابل اعتماد ذریعہ وہ انجیل برناباس ہے جسے کلیسا غیر قانونی اور مشکوک الصحت (Apocryphal) کہتا ہے۔ عیسائیوں نے اسے چھپانے کا بڑا اہتمام کیا ہے۔ صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ہے۔ سولہویں صدی میں اس کے اطالوی ترجمے کا صرف ایک نسخہ پوپ سکسٹس (Sixtus) کے کتب خانے میں پایا جاتا تھا اور کسی کو اس کے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں وہ ایک شخص جان ٹولینڈ کے ہاتھ لگا۔ پھر مختلف ہاتھوں میں گشت کرتا ہوا 1738 ء میں ویانا کی امپریل لائبریری میں پہنچ گیا۔ 1907 ء میں اسی نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کے کلیرنڈن پریس سے شائع ہوگیا تھا مگر غالباً اس کی اشاعت کے بعد فوراً ہی عیسائی دنیا میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ کتاب تو اس مذہب کی جڑ ہی کاٹے دے رہی ہے جسے حضرت عیسیٰ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے مطبوعہ نسخے کسی خاص تدبیر سے غائب کردیے گئے اور پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آسکی۔ دوسرا ایک نسخہ اسی اطالوی ترجمہ سے اسپینی زبان میں منتقل کیا ہو اٹھارویں صدی میں پایا جاتا تھا، جس کا ذکر جارج سیل نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں کیا ہے۔ مگر وہ بھی کہیں غائب کردیا گیا اور آج اس کا بھی کہیں پتہ نشان نہیں ملتا۔ مجھے آکسفورڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمے کی ایک فوٹو اسٹیٹ کا پی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اسے لفظ بہ لفظ ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے عیسائیوں نے محض تعصب اور ضد کی بنا پر اپنے آپ کو محروم کر رکھا ہے۔
مسیحی لٹریچر میں انجیل کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے، اسے یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ ایک جعلی انجیل ہے جسے شاید کسی مسلمان نے تصنیف کر کے برنا باس کی طرف منسوب کردیا ہے۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے، جو صرف اس بنا پر بول دیا گیا کہ اس میں جگہ جگہ بہ صراحت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیشین گوئیاں ملتی ہیں۔ اول تو اس انجیل کو پڑھنے ہی سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب کسی مسلمان کی تصنیف کردہ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے، اگر یہ کسی مسلمان نے لکھی ہوتی تو مسلمانوں میں یہ کثرت سے پھیلی ہوئی ہوتی اور علمائے اسلام کی تصنیفات میں بہ کثرت اس کا ذکر پایا جاتا۔ مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ جارج سیل کے انگریزی مقدمہ قرآن سے پہلے مسلمانوں کو سرے سے اس کے وجود تک کا علم نہ تھا۔ گبری، یعقوبی، مسعودی، البیرونی، ابن حذم اور دوسرے مصنفین، جو مسلمانوں میں مسیحی لٹریچر وسیع اطلاع رکھنے والے تھے، ان میں سے کسی کے ہاں بھی مسیحی مذہب پر بحث کرتے ہوئے انجیل برناباس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔ دنیائے اسلام کے کتب خانوں میں جو کتابیں پائی جاتی تھیں ان کی بہترین فہرستیں ابن ندیم کی الفہرست اور حاجی خلیفہ کی کشف الظنون ہیں، اور وہ بھی اس کے ذکر سے خالی ہیں۔ انیسویں صدی سے پہلے کسی مسلمان عالم نے انجیل برناباس کا نام تک نہیں لیا ہے۔ تیسری اور سب سے بڑی دلیل اس بات کے جھوٹ ہونے کی یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش سے بھی 75 سال پہلے پوپ گلاسیس اول (Gelasius) کے زمانے میں بد عقیدہ اور گمراہ کن (Heretical) کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعہ سے جن کا پڑھنا ممنوع کردیا گیا تھا، ان میں انجیل برناباس (evangelium Barnabe) بھی شامل تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسا مسلمان تھا جس نے یہ جعلی انجیل تیار کی تھی ؟ یہ بات تو خود عیسائی علماء نے تسلیم کی ہے کہ شام، اسپین، مصر وغیرہ ممالک کے ابتدائی مسیحی کلیسا میں ایک مدت تک برنا باس کی انجیل رائج رہی ہے اور چھٹی صدی میں اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
10 ۔ قبل اس کے کہ اس انجیل سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارتیں نقل کی جائیں، اس کا مختصر تعارف کرا دینا ضروری ہے، تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہوجائے اور یہ بھی سمجھ میں آجائے کہ عیسائی حضرات اس سے اتنے ناراض کیوں ہیں۔
بائیبل میں جو چار انجیلیں قانونی اور معتبر قرار دے کر شامل کی گئی ہیں، ان میں سے کسی کا لکھنے والا بھی حضرت عیسیٰ کا صحابی نہ تھا۔ اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا ہے کہ اس نے آنحضرت کے صحابیوں سے حاصل کردہ معلومات اپنی انجیل میں درج کی ہیں۔ جن ذرائع سے ان لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں ان کا کوئی حوالہ انہوں نے نہیں دیا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ راوی نے آیا خود وہ واقعات دیکھے اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال اس کتاب میں درج کر رہا ہوں۔ یہی نہیں بلکہ کتاب کے آخر میں وہ کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت حضرت مسیح نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میرے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پھیل گئی ہیں ان کو صاف کرنا اور صحیح حالات دنیا کے سامنے لانا تیری ذمہ داری ہے۔
یہ برناباس کون تھا ؟ بائیبل کی کتاب اعمال میں بڑی کثرت سے اس نام کے ایک شخص کا ذکر آتا ہے جو قبرص کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مسیحیت کی تبلیغ اور پیروان مسیح کی مدد و اعانت کے سلسلے میں اس کی خدمات کی بڑی تعریف کی گئی ہے۔ مگر کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کب دین مسیح میں داخل ہوا، اور ابتدائی بارہ حواریوں کی جو فہرست تین انجیلوں میں دی گئی ہے اس میں بھی کہیں اس کا نام درج نہیں ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس انجیل کا مصنف وہی برناباس ہے یا کوئی اور۔ متی، اور مرقس نے حواریوں (Apostles) کی جو فہرست دی ہے، برناباس کی دی ہوئی فہرست اس سے صرف دو ناموں میں مختلف ہے۔ ایک تو ما، جس کے بجائے برناباس خود اپنا نام دے رہا ہے، دوسرا شمعون قنانی، جس کی جگہ وہ یہو واہ بن یعقوب کا نام لیتا ہے۔ لوقا کی انجیل میں یہ دوسرا نام بھی موجود ہے۔ اس لیے یہ قیاس کرنا صحیح ہوگا کہ بعد میں کسی وقت صرف برناباس کو حواریوں سے خارج کرنے کے لیے تو ما کا نام داخل کیا گیا ہے تاکہ اس کی انجیل سے پیچھا چھڑایا جاسکے، اور اس طرح کے تغیرات اپنی مذہبی کتابوں میں کرلینا ان حضرات کے ہاں کوئی ناجائز کام نہیں رہا ہے۔
اس انجیل کو اگر کوئی شخص تعصب کے بغیر کھلی آنکھوں سے پڑھے اور نئے عہد نامے کی چاروں انجیلوں سے اس کا مقابلہ کرے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ان چاروں سے بدرجہا برتر ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اس طرح بیان ہوئے ہیں جیسے کوئی شخص فی الواقع وہاں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور ان واقعات میں خود شریک تھا۔ چاروں انجیلوں کی بےربط داستانوں کے مقابلہ میں یہ تاریخی بیان زیادہ مربوط بھی ہے اور اس سے سلسلہ واقعات بھی زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات اس میں چاروں انجیلوں کی بہ نسبت زیادہ واضح اور مفصل اور مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہیں۔ توحید کی تعلیم، شرک کی ترید، صفات باری تعالیٰ ، عبادات کی روح، اور اخلاق فاضلہ کے مضامین اس میں بڑے ہی پر زور اور مدلل اور مفصل ہیں۔ جن آموز تمثیلات کے پیرایہ میں مسیح نے یہ مضامین بیان کیے ہیں ان کا عشر عشیر بھی چاروں انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ اس سے یہ بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کس حکیمانہ طریقے سے فرماتے تھے۔ حضرت عیسیٰ کی زبان، طرز بیان اور طبیعت و مزاج سے کوئی شخص اگر کچھ بھی آشنا ہو تو وہ اس انجیل کو پڑھ کر یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ یہ کوئی جعلی داستاں نہیں ہے جو بعد میں کسی نے گھڑ لی ہو، بلکہ اس میں حضرت مسیح اناجیل اربعہ کی بہ نسبت اپنی اصلی شان میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں، اور اس میں ان تضادات کا نام و نشان بھی نہیں ہے جو اناجیل اربعہ میں ان کے مختلف اقوال کے درمیان پایا جاتا ہے۔
اس انجیل میں حضرت عیسیٰ کی زندگی اور آپ کی تفصیلات ٹھیک ٹھیک ایک نبی کی زندگی اور تعلیمات کے مطابق نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ تمام پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ صاف کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے سوا معرفت حق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے، اور جو انبیاء کو چھوڑتا ہے وہ دراصل خدا کو چھوڑتا ہے۔ توحید، رسالت اور آخرت کے ٹھیک وہی عقائد پیش کرتے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے۔ نماز، روزے اور زکوٰۃ کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی نمازوں کا جو ذکر بکثرت مقامات پر برناباس نے کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا اور تہجد کے اوقات تھے جن میں وہ نماز پڑھتے تھے، اور ہمیشہ نماز سے پہلے وضو فرماتے تھے۔ انبیاء میں سے وہ حضرت داؤد و سلیمان کو نبی قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ان کو انبیاء کی فہرست سے خارج کر رکھا ہے۔ حضرت اسماعیل کو وہ ذبیح قرار دیتے ہیں اور ایک یہودی عالم سے اقرار کراتے ہیں یہ کہ فی الواقع ذبیح حضرت اسماعیل ہی تھے اور بنی اسرائیل نے زبر دستی کھینچ تان کر کے حضرت اسحاق کو ذبیح بنا رکھا ہے۔ آخرت اور قیامت اور جنت و دوزخ کے متعلق ان کی تعلیمات قریب قریب وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔
11 ۔ عیسائی جس وجہ سے انجیل برناباس کے مخالف ہیں، وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جگہ جگہ صاف اور واضح بشارتیں ہیں، کیونکہ وہ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش سے بھی بہت پہلے اس انجیل کو رد کرچکے تھے۔ ان کی ناراضی کی اصل وجہ کو سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تفصیلی بحث درکار ہے۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی پیرو آپ کو صرف نبی مانتے تھے، موسوی شریعت کا اتباع کرتے تھے، عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے بنی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے، اور یہودیوں سے ان کا اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ یہ حضرت عیسیٰ کو مسیح تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ان کو مسیح ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بعد میں جب سینٹ پال اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں، یونانیوں، اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کردی، اور اس غرض کے لیے ایک نیا دین بنا ڈالا جس کے عقائد اور اصول اور احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا۔ اس شخص نے حضرت عیسیٰ کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کے زمانے میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروؤں کا دشمن بنا رہا۔ پھر جب اس جماعت میں داخل ہو کر اس نے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰ کے کسی قول کی سند نہیں پیش کی بلکہ اپنے کشف والہام کو بنیاد بنایا۔ اس نئے دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی (Gentile) دنیا قبول کرلے۔ اس نے اعلان کردیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔ اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی ساری قیود ختم کردیں۔ اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کردیا جو غیر یہودی دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ اس نے مسیح کی الوہیت اور ان کے ابن خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولاد آدم کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا۔ مسیح کے ابتدائی پیروؤں نے ان بدعات کی مزاحمت کی، مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا، اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہوگیا جس کے مقابلے میں وہ مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھہر سکے۔ تاہم تیسری صدی عیسوی کے اختتام تک بکثرت لوگ ایسے موجود تھے جو مسیح کی الوہیت کے عقیدے سے انکار کرتے تھے۔ مگر چوتھی صدی کے آغاز ( 325 ء) میں نیقیہ (Nicaea) کی کونسل نے پولوسی عقائد کو قطعی طور پر مسیحیت کا مسلم مذہب قرار دے دیا۔ پھر رومی سلطنت خود عیسائی ہوگئی اور قیصر تھیوڈو سِس کے زمانے میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا۔ اس کے بعد قدرتی بات تھی کہ وہ تمام کتابیں جو اس عقیدے کے خلاف ہوں، مردود قرار دے دی جائیں اور صرف وہی کتابیں معتبر ٹھہرائی جائیں جو اس عقیدے سے مطابقت رکھتی ہوں۔ 367 میں پہلی مرتبہ اتھانا سیوس (Athanasius) کے ایک خط کے ذریعہ معتبر و مسلم کتابوں کے ایک مجموعہ کا اعلان کیا گیا، پھر اس کی توثیق 382 ء میں پوپ ڈیمیسس (Damasius) کے زیر صدارت ایک مجلس نے کی، اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ گلاسس (Gelasius) نے اس مجموعہ کو مسلم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں ایک فہرست مرتب کردی جو غیر مسلم تھیں۔ حالانکہ جن پولوسی عقائد کو بنیاد بنا کر مذہبی کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں، خود ان میں بھی حضرت عیسیٰ کے اپنے کسی قول سے ان عقائد کا ثبوت نہیں ملتا۔
انجیل برناباس ان غیر مسلم کتابوں میں اس لیے شامل کی گئی کہ وہ مسیحیت کے اس سرداری عقیدے کے بالکل خلاف تھی۔ اس کا مصنف کتاب کے آغاز ہی میں اپنا مقصد تصنیف یہ بیان کرتا ہے کہ ” ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کی جائے جو شیطان کے دھوکے میں آ کر یسوع کو ابن اللہ قرار دیتے ہیں، ختنہ کو غیر ضروری ٹھہراتے ہیں اور حرام کھانوں کو حلال کردیتے ہیں، جن میں سے ایک دھوکہ کھانے والا پولوس بھی ہے “۔ وہ بتاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ دنیا میں موجود تھے اس زمانے میں ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے مشرک رومی سپاہیوں نے ان کو خدا اور بعض نے خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا، پھر یہ چھوت بنی اسرائیل کے عوام کو بھی لگ گئی۔ اس پر حضرت عیسیٰ سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے بار بار نہایت شدت کے ساتھ اپنے متعلق اس غلط عقیدے کی تردید کی اور ان لوگوں پر لعنت بھیجی جو ان کے متعلق ایسی باتیں کہتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے شا گردوں کو پورے یہودیہ میں اس عقیدے کی تردید کے لیے بھیجا اور ان کی دعا سے شاگردوں کے ہاتھوں بھی وہی معجزے صادر کرائے گئے جو خود حضرت عیسیٰ سے صادر ہوتے تھے، تاکہ لوگ اس غلط خیال سے باز آجائیں کہ جس شخص سے یہ معجزے صادر ہو رہے ہیں وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عیسیٰ کی مفصل تقریریں نقل کرتا ہے جن میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس غلط عقیدے کی تردید کی تھی، اور جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ آنجناب اس گمراہی کے پھیلنے پر کس قدر پریشان تھے۔ مزید براں وہ اس پولوسی عقیدے کی بھی صاف صاف تردید کرتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) نے صلیب پر جان دی تھی۔ وہ اپنے چشم دید حالات یہ بیان کرتا ہے کہ جب یہوداہ اسکریوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر حضرت عیسیٰ کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آنجناب کو اٹھا لے گئے، اور یہوداہ اسکریوتی کی شکل اور آواز بالکل وہی کردی گئی جو حضرت عیسیٰ کی تھی۔ صلیب پر وہی چڑھایا گیا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ ۔ اس طرح یہ انجیل پولوسی مسیحیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور قرآن کے بیان کی پوری توثیق کرتی ہے۔ حالانکہ نزول قرآن سے 115 سال پہلے اس کے ان بیانات ہی کی بنا پر مسیحی پادری اسے رد کرچکے تھے۔
12 ۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انجیل برناباس درحقیقت اناجیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے، مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمات اور سیرت اور اقوال کی صحیح ترجمانی کرتی ہے، اور یہ عیسائیوں کی اپنی بد قسمتی ہے کہ اس انجیل کے ذریعہ سے اپنے عقائد کی تصحیح اور حضرت مسیح کی اصل تعلیمات کو جاننے کا جو موقع ان کو ملا تھا اسے محض ضد کی بنا پر انہوں نے کھو دیا۔ اس کے بعد ہم پورے اطمینان کے ساتھ وہ بشارتیں نقل کرسکتے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں برناباس نے حضرت عیسیٰ سے روایت کی ہیں۔ ان بشارتوں میں کہیں حضرت عیسیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لیتے ہیں، کہیں ” رسول اللہ ” کہتے ہیں، کہیں آپ کے لیے ” مسیح ” کا لفظ استعمال کرتے ہیں، کہیں ” قابل تعریف ” (Admirable) کہتے ہیں، اور کہیں صاف صاف ایسے فقرے ارشاد فرماتے ہیں جو بالکل لٓا اِلٰہٰ الَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے ہم معنی ہیں۔ ہمارے لیے ان ساری بشارتوں کو نقل کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ اتنی زیادہ ہیں، اور جگہ جگہ مختلف پیرایوں اور سیاق وسباق میں آئی ہیں کہ ان سے ایک اچھا خاصا رسالہ مرتب ہوسکتا ہے۔ یہاں ہم محض بطور نمونہ ان میں سے چند کو نقل کرتے ہیں :
” تمام انبیاء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا، جن کی تعداد ایک لاکھ 44 ہزار تھی، انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی۔ مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہوئی باتوں، کے اندھیرے پر روشنی ڈال دے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے ” (باب 17)
” فریسیوں اور لاویوں نے کہا اگر تو نہ مسیح ہے، نہ الیاس، نہ کوئی اور نبی، تو کیوں تو نئی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسیح سے بھی زیادہ بنا کر پیش کرتا ہے ؟ یسوع نے جواب دیا جو معجزے خدا میرے ہاتھ سے دکھاتا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے، ورنہ در حقیقت میں اپنے آپ کو اس (مسیح) سے بڑا شمار کیے جانے کے قابل نہیں قرار دیتا جس کا تم ذکر کر رہے ہو۔ میں تو اس خدا کے رسول کے موزے کے بند یا اس کی جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں ہوں جس کو تم مسیح کہتے ہو، جو مجھ سے پہلے بنایا گیا تھا اور میرے بعد آئے گا اور صداقت کی باتیں لے کر آئے گا تاکہ اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو ” (باب 42) ۔
” بالیقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لیے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے۔ اس وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا کہیں اور نہیں پھیلیں جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے۔ مگر خدا کا رسول جب آئے گا، خدا کو یا اس کو اپنے ہاتھ کی مہر دے دے گا، یہاں تک کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو جو اس کی تعلیم پائیں گی، نجات اور رحمت پہنچا دے گا۔ وہ بےخدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا اور بت پرستی کا ایسا قلع قمع کرے گا کہ شیطان پریشان ہوجائے گا “۔ اس کے آگے شاگردوں کے ساتھ ایک طویل مکالمہ میں حضرت عیسیٰ تصریح کرتے ہیں کہ وہ بنی اسماعیل میں سے ہوگا (باب 43) ۔
” اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کا رسول وہ رونق ہے جس سے خدا کی پیدا کی ہوئی قریب قریب تمام چیزوں کو خوشی نصیب ہوگی کیونکہ وہ فہم اور نصیحت، حکمت اور طاقت، خشیت اور محبت، حزم اور درع کی روح سے آراستہ ہے۔ وہ فیاضی اور رحمت، عدل اور تقویٰ ، شرافت اور صبر کی روح سے مزین ہے جو اس نے خدا سے ان تمام چیزوں کی بہ نسبت تین گنی پائی ہے جنہیں خدا نے اپنی مخلوق میں سے یہ روح بخشی ہے۔ کیسا مبارک وقت ہوگا جب وہ دنیا میں آئے گا۔ یقین جانو، میں نے اس کو دیکھا ہے اور اس کی تعظیم کی ہے جس طرح ہر نبی نے اس کو دیکھا تو میری روح سکینت سے بھر گئی یہ کہتے ہوئے کہ اے محمد، خدا تمہارے ساتھ ہو، اور وہ مجھے تمہاری جوتی کے تسمے باندھنے کے قابل بنا دے، کیونکہ یہ مرتبہ بھی پالوں تو میں ایک بڑا نبی اور خدا کی ایک مقدس ہستی ہوجاؤں گا “۔ (باب 44) ۔
” (میرے جانے سے) تمہارا دل پریشان نہ ہو، نہ تم خوف کرو، کیونکہ میں نے تم کو پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ خدا ہمارا خالق، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، وہی تمہاری حفاظت کرے گا۔ رہا میں، تو اس وقت میں دنیا میں اس رسول خدا کے لیے راستہ تیار کرنے آیا ہوں جو دنیا کے لیے نجات لے کر آئے گا ……… اندر یاس نے کہا، استاد ہمیں اس کی نشانی بتا دے تاکہ ہم اسے پہچان لیں۔ یسوع نے جواب دیا، وہ تمہارے زمانے میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ سال بعد آئے گا جبکہ میری انجیل ایسی مسخ ہوچکی ہوگی مشکل سے کوئی 30 آدمی مومن باقی رہ جائیں گے۔ اس وقت اللہ دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنے رسول کو بھیجے گا جس کے سر پر سفید بادل کا سایہ ہوگا جس سے وہ خدا کا برگزیدہ جانا جائے گا اور اس کے ذریعہ سے خدا کی معرفت دنیا کو حاصل ہوگی۔ وہ بےخدا لوگوں کے خلاف بڑی طاقت کے ساتھ آئے گا اور زمین پر بت پرستی کو مٹا دے گا۔ اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ہمارا خدا پہچانا جائے گا اور اس کی تقدیس ہوگی اور میری صداقت دنیا کو معلوم ہوگی اور وہ ان لوگوں سے انتقام لے گا جو مجھے انسان سے بڑھ کر کچھ قرار دیں گے ……… وہ ایک ایسی صداقت کے ساتھ آئے گا جو تمام انبیاء کی لائی ہوئی صداقت سے زیادہ واضح ہوگی ” (باب 72) ۔
” خدا کا عہد یروشلم میں، معبد سلیمان کے اندر کیا گیا تھا نہ کہ کہیں اور۔ مگر میری بات کا یقین کرو کہ ایک وقت آئے گا جب خدا اپنی رحمت ایک اور شہر میں نازل فرمائے گا، پھر ہر جگہ اس کی صحیح عبادت ہو سکے گی، اور اللہ اپنی رحمت سے ہر جگہ سچی نماز کو قبول فرمائے گا ……… میں دراصل اسرائیل کے گھرانے کی طرف نجات کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں، مگر میرے بعد مسیح آئے گا، خدا کا بھیجا ہوا تمام دنیا کی طرف، جس کے لیے خدا نے یہ ساری دنیا بنائی ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں اللہ کی عبادت ہوگی، اور اس کی رحمت نازل ہوگی ” (باب 83) ۔
” یسوع نے سردار کاہن سے کہا، زندہ خدا کی قسم جس کے حضور میری جان حاضر ہے، میں وہ مسیح نہیں ہوں جس کی آمد کا تمام دنیا کی قومیں انتظار کر رہی ہیں، جس کا وعدہ خدا نے ہمارے باپ ابراہی
اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے میری قوم، بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے ۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی، اسی طرح انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی انکار کیا، اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ یہود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ساتھ اس طرح نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کی تو ساری تاریخ ہی انبیاء علیہم السلام کی تکذیب سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ میں جو دعوت دے رہا ہوں، وہ وہی ہے جو تورات کی بھی دعوت ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو پیغمبر مجھ سے پہلے تورات لے کر آئے اور اب میں انجیل لے کر آیا ہوں، ہم دونوں کا اصل ماخذ ایک ہی ہے۔ اس لیے جس طرح تم موسیٰ و ہارون اور داوٗد و سلیمان علیہم السلام پر ایمان لائے مجھ پر بھی ایمان لاؤ، اس لیے کہ میں تورات کی تصدیق کر رہا ہوں نہ کہ اس کی تردید و تکذیب۔
٦۔ ٢ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشخبری سنائی چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' " انا دعوۃ ابی ابراہیم وبشسارۃ عیسیٰ " میں اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا مصداق ہوں۔ احمد یہ فاعل سے اگر مبالغے کا صیغہ ٠ ہو تو معنی ہوں گے دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کی زیادہ حمد کرنے والا۔ اور اگر یہ مفعول سے ہوں تو معنی ہوں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے جتنی تعریف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کی گئی اتنی کسی کی بھی نہیں کی گئی۔ (فتح القدیر)
یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیش کردہ معجزات کو جادو سے تعبیر کیا گیا، جس طرح گذشتہ قومیں بھی اپنے پیغمبروں کو اسی طرح کہتی رہیں۔ بعض نے اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لئے ہیں جیسا کہ کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے تھے۔
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ تہمت باندھے درآنحالیکہ اس کو اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہو! اور اللہ ظالموں کو راہ یاب نہیں کرتا۔
(یہی ٹیڑھ اب بھی قائم ہے۔ ذرا بتاؤ کہ) اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے، دراں حالیکہ اُسے اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہو۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اِس طرح کے ظالم لوگوں کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔
اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جا رہی ہو ؟ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے نبی کو جھوٹا مدعی قرار دے، اور اللہ کے اس کلام کو جو اس کے نبی پر نازل ہو رہا ہو، نبی کا اپنا گھڑا ہوا کلام ٹھہرائے۔
یعنی اول تو سچے نبی کو جھوٹا مدعی کہنا ہی بجائے خود کچھ کم ظلم نہیں ہے، کجا کہ اس پر مزید ظلم یہ کیا جائے کہ بلانے والا تو خدا کی بندگی و اطاعت کی طرف بلا رہا ہو اور سننے والا جواب میں اسے گالیاں دے اور اس کی دعوت کو زک دینے کے لیے جھوٹ اور بہتان اور افترا پردازیوں کے ہتھکنڈے استعمال کرے۔
اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے میری قوم، بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے ۔
یعنی اللہ کی اولاد قرار دے، یا جو جانور اس نے حرام قرار نہیں دیئے ان کو حرام باور کرائے۔
جو تمام دینوں میں اشرف اور اعلٰی ہے، اس لئے جو شخص ایسا ہو، اس کو کب یہ زیب دیتا ہے یہ وہ کسی پر بھی جھوٹ گھڑے، چہ جائیکہ اللہ پر جھوٹ باندھے ؟
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا ان کافروں کے علی الرغم۔
خدا کے اِس نور کو وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، خواہ اِن منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو ۔
یہ بات نگاہ میں رہے کہ یہ آیات 3 ہجری میں جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلام صرف شہر مدینہ تک محدود تھا، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور سارا عرب اس دین کو مٹا دینے پر تلا ہوا تھا۔ احد کے معرکے میں جو زک مسلمانوں کو پہنچی تھی، اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ گئی تھی، اور گرد و پیش کے قبائل ان پر شیر ہوگئے تھے۔ ان حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پوری طرح روشن ہو کر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا۔ یہ ایک صریح پیشن گوئی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اللہ کے سوا اس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے ؟ انسانی نگاہیں تو اس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بجھا دینے کے لیے بڑے زور کی آندھیاں چل رہی ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔
نور سے مراد قرآن، یا اسلام یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، یا دلائل وبراہین ہیں ' منہ سے بجھا دیں ' کا مطلب ہے، وہ طعن کی وہ باتیں ہیں جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہیں۔
یعنی اس کو آفاق میں پھیلانے والا اور دوسرے تمام دینوں پر غالب کرنے والا ہے۔ دلائل کے لحاظ سے، یا مادی غلبے کے لحاظ سے یا دونوں لحاظ سے۔
وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو غالب کرے تمام دینوں پر اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام ادیان پر اُس کو غالب کر دے، خواہ یہ مشرکین اِسے کتنا ہی ناپسند کریں۔
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار رہو۔
n/a
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں۔
یہ گذشتہ بات ہی کی تاکید ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے پھر دہرایا گیا ہے۔
تاہم یہ لامحالہ ہو کر رہے گا۔
اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات بخشے!
ایمان والو، میں تم کو وہ تجارت بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے نجات دے؟
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے ؟
” مشرکین ” کو ناگوار ہو، یعنی ان لوگوں کو جو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں ملاتے ہیں، اور اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی آمیزش کرتے ہیں۔ جو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ پورا کا پورا نظام زندگی صرف ایک خدا کی اطاعت اور ہدایت پر قائم ہو۔ جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ جس جس معبود کی چاہیں گے بندگی کریں گے، اور جن جن فلسفوں اور نظریات پر چاہیں گے اپنے عقائد و اخلاق اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھیں گے۔ ایسے سب لوگوں کے علی الرغم یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کا رسول ان کے ساتھ مصالحت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دین حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے۔ یہ کام اسے بہرحال کر کے رہنا ہے۔ کافر اور مشرک مان لیں تو، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا۔ یہ اعلان اس سے پہلے قرآن میں دو جگہ ہوچکا ہے۔ ایک، سورة توبہ آیت 33 میں۔ دوسرے، سورة فتح آیت 28 میں۔ اب تیسری مرتبہ اسے یہاں دہرایا جا رہا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 32 ۔ جلد پنجم، الفتح، حاشیہ 51 ) ۔
تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال، وقت، محنت اور ذہانت و قابلیت اس لیے کھپاتا ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو۔ اسی رعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت کہا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤ گے تو وہ نفع تمہیں حاصل ہوگا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ یہی مضمون سورة توبہ آیت 111 میں ایک اور طریقہ سے بیان کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 106 ) ۔
اے ایمان والو ! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے۔
اس عمل (یعنی ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ اس میں بھی انہیں تجارت کی طرح ہی نفع ہوگا وہ نفع کیا ہے ؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔ اس سے بڑا نفع اور کیا ہوگا۔ اور وہ نفع کیا ہے اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا " اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ " 9 ۔ التوبہ :111) اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا جنت کے بدلے میں کرلیا ہے۔
امین احسن اصلاحی
اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور وہی غالب و حکیم ہے۔
آیت تسبیح کا آگے کے مضمون سے ربط: یہ آیت تشویق و تحریض کے محل میں بھی ہو سکتی ہے اور اظہار بے نیازی کے محل میں بھی۔ آگے جہاد سے جان چرانے والے منافقین کو ان کی بدعہدی و بزدلی پر ملامت کی گئی ہے۔ اس مضمون سے یہ آیت اپنے مذکورہ دونوں پہلوؤں سے ربط رکھتی ہے۔ اگر تشویق و ترغیب کے پہلو سے نگاہ ڈالیے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس خدا کی تسبیح و بندگی میں اس کائنات کی ہر چیز سرگرم ہے، جو ہر چیز پر غالب اور جس کے ہر کام میں حکمت ہے اس کی راہ میں جہاد سے اگر کوئی جان چرائے تو اس پر حیف ہے!
بے نیازی کے پہلو سے نگاہ ڈالیے تو مطلب یہ ہو گا کہ جب اس کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و بندگی میں لگی ہوئی ہے اور حقیقی غالب و حکیم وہی ہے تو اس کو اس بات کی کیا پروا ہو سکتی ہے کہ کچھ بزدل اس کی راہ میں جہاد سے جان چراتے پھرتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس سورہ میں ’سَبَّحَ‘ آیا ہے اور اگلی سورہ میں ’یُسَبِّحُ‘ ہے۔ ان دونوں اسلوبوں میں یہ فرق ہے کہ ماضی بیان واقعہ اور بیان حقیقت کے لیے آتا ہے اور مضارع تصویر حال اور استمرار کا فائدہ بھی دیتا ہے۔
’اَلْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘ کی دو صفتوں کا بغیر حرف عطف کے بیان اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں صفتیں موصوف میں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔ یعنی وہ بیک وقت ہر چیز پر غالب و قادر بھی ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت و مصلحت بھی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جو ذات ان صفات سے موصوف ہے اس سے بڑھ کر بھروسہ کے قابل اور کس کی ذات ہو سکتی ہے! بدقسمت ہیں وہ جو ایسی ذات پر بھی بھروسہ نہ کریں۔