صفیں باندھے حاضر رہنے والے فرشتے گواہی دیتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’وَالصّآفّٰتِ صَفًّا‘۔ اِن میں ’وَ‘ قسم کے لیے ہے۔ قرآن میں اِس طرح کی قسمیں تعظیم کے لیے نہیں، بلکہ مقسم علیہ پر شہادت کے لیے آتی ہیں۔ چنانچہ ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو ملاء اعلیٰ میں عرش الٰہی کے ارد گرد صف بستہ رہتے ہیں۔ سورۂ زمر (۳۹) کی آیت ۷۵ میں اُن کا ذکر ہوا ہے۔
قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم،
n/a
قسم صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔
پھر زجر کرنے والے (شیاطین کو)۔
دوسری صفت: ’زجر‘ کے معنی جھڑکنے، ڈانٹنے اور دھتکارنے کے ہیں۔ یہ انہی فرشتوں کی دوسری صفت بیان ہوئی ہے کہ اگر شیاطین ملاء اعلیٰ کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان کو دھتکارتے ہیں۔ شیاطین کو ملاء اعلیٰ سے دور رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص انتظام بھی فرمایا ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
پھر (شیطانوں کو) جھڑک کر ڈانٹنے والے۔
یعنی جب وہ سن گن لینے کے لیے ملاء اعلیٰ کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر ان کی قسم جو ڈانٹنے پھٹکارنے والے ہیں،
n/a
پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی۔
پہلی تقدیر پر جھڑک کر چلانے والوں سے مراد ملائکہ ہیں جو ابر پر مقرر ہیں اور اس کو حکم دے کر چلاتے ہیں اور دوسری تقدیر پر وہ علماء جو وعظ و پند سے لوگوں کو جھڑک کر دین کی راہ چلاتے ہیں تیسری صورت میں وہ غازی جو گھوڑوں کو ڈپٹ کر جہاد میں چلاتے ہیں۔
پھر ذکر کرنے والے (اپنے رب کا)۔
تیسری صفت: یہ ان فرشتوں کی تیسری صفت ہے۔ تلاوت ذکر سے مراد وہی چیز ہے جو سورۂ زمر میں ’یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ‘ کے الفاظ سے اور اس سورہ میں ’وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوۡنَ‘ کے الفاظ سے مذکور ہوئی ہے۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرتے ہیں۔
صفات میں ترتیب: یہاں عربی زبان کا یہ قاعدہ پیش نظر رہے کہ جب صفات کا بیان اس طرح ’ف‘ کے ساتھ ہو جس طرح یہاں ہے تو یہ دو باتوں پر دلیل ہوتا ہے۔ ایک اس بات پر کہ یہ تمام صفات ایک ہی چیز کی ہیں اس وجہ سے جن لوگوں نے ان صفات کے الگ الگ موصوف قرار دیے ہیں ان کی رائے ہمارے نزدیک عربیت کے خلاف ہے۔ دوسری اس بات پر کہ ان صفات میں ایک تدریجی ترتیب ہے۔ ہم نے جو تاویل کی ہے اس سے پہلی بات تو بالکل واضح ہے کہ یہ تمام صفات ملائکہ کی ہیں۔ رہی دوسری بات تو غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان صفات میں اسی طرح کی ترتیب ہے جس طرح کی ترتیب ہماری نمازوں میں ہوتی ہے۔ جس طرح ہم خدا کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں، پھر شیطان سے تعوذ کرتے ہیں، پھر اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اسی طرح ملائکہ بھی عرش الٰہی کے اردگرد صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں، پھر شیاطین کو زجر کرتے ہیں، پھر اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہیں۔
پھر (خدا کو ) یاد کرنے والے۔
یعنی اُس کی حمد و تسبیح کرنے والے۔ اِن صفات میں، اگر غور کیجیے تو اُسی طرح کی ترتیب ہے جو ہماری نمازوں میں ہوتی ہے کہ ہم پہلے صف باندھتے ہیں، پھر شیاطین سے تعوذ کرتے ہیں، پھر خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول ہوتے ہیں۔
پھر انکی قسم جو کلام سنانے والے ہیں ،
مفسرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ان تینوں گروہوں سے مراد فرشتوں کے گروہ ہیں۔ اور یہی تفسیر حضرات عبداللہ بن مسعود، ابن عباس، قَتَادہ، مسروق، سعید بن جبیر، عکرمہ، مجاہد، سدی، ابن زید اور ربیع بن انس (رضی اللہ عنہم) سے منقول ہے۔ بعض مفسرین نے اس کی دوسری تفسیریں بھی کی ہیں، مگر موقع و محل سے یہی تفسیر زیادہ مناسبت رکھتی نظر آتی ہے۔
اس میں " قطار در قطار صف باندھنے " کا اشارہ اس طرف ہے کہ تمام فرشتے جو نظام کائنات کی تدبیر کر رہے ہیں، اللہ کے بندے اور غلام ہیں، اس کی اطاعت و بندگی میں صف بستہ ہیں اور اس کے فرامین کی تعمیل کے لیے ہر وقت مستعد ہیں۔ اس مضمون کا اعادہ آگے چل کر پھر آیت 165 میں کیا گیا ہے جس میں فرشتے خود اپنے متعلق کہتے ہیں وَاِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُوْنَ ۔
" ڈانٹنے اور پھٹکارنے " سے مراد بعض مفسرین کی رائے میں یہ ہے کہ کچھ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ہانکتے اور بارش کا انتظام کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ مفہوم بھی غلط نہیں ہے، لیکن آگے کے مضمون سے جو مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انہی فرشتوں میں سے ایک گروہ وہ بھی ہے جو نافرمانوں اور مجرموں کو پھٹکارتا ہے اور اس کی یہ پھٹکار صرف لفظی ہی نہیں ہوتی بلکہ انسانوں پر وہ حوادث طبیعی اور آفات تاریخی کی شکل میں برستی ہے۔
" کلام نصیحت سنانے " سے مراد یہ ہے کہ انہی فرشتوں میں وہ بھی ہیں جو امر حق کی طرف توجہ دلانے کے لیے تذکیر کی خدمت انجام دیتے ہیں، حوادث زمانہ کی شکل میں بھی جن سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں، اور ان تعلیمات کی صورت میں بھی جو ان کے ذریعہ سے انبیاء پر نازل ہوتی ہیں، اور ان الہامات کی صورت میں بھی جو ان کے واسطے سے نیک انسانوں پر ہوتے ہیں۔
پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی۔
کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے۔
مقسم علیہ: یہ اس قسم کا مقسم علیہ ہے۔ فرشتوں کی اس بندگی اور اس حمد و تسبیح کو شہادت میں پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ تمہارا رب ایک ہی ہے۔ اس سے یہ بات نکلی کہ جن لوگوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مان کر ان کو خدائی میں شریک کر رکھا ہے اور ان کی شفاعت کی امید پر ان کی پوجا کر رہے ہیں وہ بالکل حماقت میں مبتلا ہیں۔ فرشتوں کا خود اپنا طرز عمل ان نادانوں پر ایک کھلی ہوئی نکیر ہے۔ اس لیے کہ وہ برابر خدا کی بندگی اور اس کی حمد و تسبیح میں سرگرم ہیں اور یہ احمق لوگ ان کو شریک خدا بنا کر ان کی پوجا میں لگے ہوئے ہیں۔
کہ تمھارا معبود ایک ہی ہے۔
یہ مقسم علیہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھتے ہو، وہ خود گواہی دیتے ہیں کہ خدا کے بندے ہیں اور ہمہ وقت اُس کی حمد و تسبیح میں سرگرم رہتے ہیں۔
تمہارا معبود حقیقی بس ایک ہی ہے
یہ وہ حقیقت ہے جس پر مذکورہ صفات کے حامل فرشتوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ پورا نظام کائنات جو اللہ کی بندگی میں چل رہا ہے، اور اس کائنات کے وہ سارے مظاہر جو اللہ کی بندگی سے انحراف کرنے کے برے نتائج انسانوں کے سامنے لاتے ہیں، اور اس کائنات کے اندر یہ انتظام کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک پے در پے ایک ہی حقیقت کی یاد دہانی مختلف طریقوں سے کرائی جا رہی ہے، یہ سب چیزیں اس بات پر گواہ ہیں کہ انسانوں کا ” اِلٰہ ” صرف ایک ہی ہے۔
” اِلٰہ ” کے لفظ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے۔ ایک وہ معبود جس کی بالفعل بندگی و عبادت کی جا رہی ہو۔ دوسرے وہ معبود جو فی الحقیقت اس کا مستحق ہو کہ اس کی بندگی و عبادت کی جائے۔ یہاں الٰہ کا لفظ دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ پہلے معنی میں تو انسانوں نے دوسرے بہت سے الٰہ بنا رکھے ہیں۔ اسی بنا پر ہم نے ” اِلٰہ ” کا ترجمہ ” معبود حقیقی ” کیا ہے۔
یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے ۔
فرشتوں کی صفات ہیں۔ آسمانوں پر اللہ کی عبادت کے لئے صف باندھنے والے، یا اللہ کے حکم کے انتظار میں صف بستہ، وعظ و نصیحت کے ذریعے سے لوگوں کو ڈانٹنے والے یا بادلوں کو جہاں اللہ کا حکم ہو وہاں ہانک کرلے جانے والے اللہ کے ذکر یا قرآن کی تلاوت کرنے والے۔ ان فرشتوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے مضموں میں یہ فرمایا ہے کہ تمام انسانوں کا معبود ایک ہی ہے۔ متعدد نہیں جیسا کہ مشرکین بنائے ہوئے ہیں۔ عرف عام میں قسم تاکید اور شک دور کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں قسم اسی شک کو دور کرنے کے لئے کھائی ہے جو مشرکین اسکی واحدنیت و الوہیت کے بارے میں پھلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر چیز کی مخلوق اور مملوک ہے، اس لئے وہ جس چیز کو بھی گواہ بنا کر اس کی قسم کھائے، اس کے لئے جائز ہے۔ لیکن انسانوں کے لئے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ قسم میں جس کی قسم کھائی جاتی ہے، اسے گواہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اور گواہ اللہ کے سوا کوئی نہیں بن سکتا، کہ عالم الغیب صرف وہی ہے، اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔
وہی خداوند ہے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کا۔ اور وہی خداوند ہے سارے اطراف مشرق کا۔
یہ خبر کے بعد دوسری خبر ہے۔ یعنی وہی اللہ واحد تمام آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کا خداوند ہے اور وہی تمام مشرق و مغرب کا مالک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اس نے اپنی ناپیدا کنار مملکت کے دور دراز گوشوں کا انتظام اپنے دوسرے شریکوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ وہ کسی کی مدد کا محتاج نہی ہے۔ وہ اپنی کائنات کے ہر گوشے اور کونے کا مالک خود ہے اور خود ہی اپنے احکام کے تحت اس کا انتظام فرماتا ہے۔ اس کائنات میں فرشتوں کا اگر کوئی دخل ہے تو خدا کے شریک کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے فرماں بردار سفیروں اور کارندوں کی حیثیت سے ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اپنے رب کے احکام کی تعمیل میں کرتے ہیں۔
جمع کے استعمال کا ایک خاص محل: ’رَبُّ الْمَشَارِقِ‘ میں ’مَشَارِق‘ جمع اپنے اطراف کی وسعت کے اعتبار سے ہے۔ سورۂ اعراف میں لفظ ’اعراف‘ کے تحت ہم بیان کر آئے ہیں کہ جمع بعض مرتبہ کسی شے کی وسعت اور اس کے طول کو ظاہر کرنے کے لیے بھی آتی ہے۔ قرآن میں ’مشارق‘ اور ’مغارب‘ کے الفاظ اسی اعتبار سے آئے ہیں۔ اسی طرح جہاں مقصود کسی شے کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کرنا ہو وہاں اس کو بعض اوقات مثنیٰ کی شکل میں لاتے ہیں چنانچہ قرآن میں ’مشرقین‘ اور ’مغربین‘ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ’رَبُّ الْمَشَارِقِ‘ کے بعد ’رَبُّ الْمَغَارِب‘ بربنائے وضاحت قرینہ حذف ہے۔ اس لیے کہ ’مغارب‘ ’مشارق‘ کے تحت ہیں۔ جب اصل کا ذکر آ گیا تو فرع کا ذکر گویا خود بخود ہو گیا۔ بعض جگہ اس کو واضح بھی فرما دیا ہے۔ مثلاً:
’فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ‘ (المعارج: ۴۰)
(پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں مشارق اور مغارب کے رب کی کہ بے شک ہم قادر ہیں)۔
’مشارق‘ کے خاص اہتمام کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا میں مشرکوں نے سب سے زیادہ پرستش سورج کی کی ہے جو مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔
وہی جو زمین اور آسمانوں اور اُن کے درمیان کی سب چیزوں کا پروردگار ہے اور مشرق (و مغرب) کے تمام اطراف کا پروردگار۔
یہ خبر کے بعد دوسری خبر ہے۔ آیت میں ’مَشَارِق‘ کے بعد ’مَغَارِب‘ کا لفظ بربناے وضاحت قرینہ محذوف ہے اور اِس کی جمع عربیت کے اسلوب پر وسعت اطراف کو ظاہر کر رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی ناپیدا کنار کائنات کے کسی دور دراز گوشے میں بھی اُس کے سوا کسی کی بادشاہی نہیں ہے۔ وہی ہر جگہ اور ہر ایک کا پروردگار ہے۔
وہ جو زمین اور آسمانوں کا اور تمام ان چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں، اور سارے مشرقوں کا مالک ۔
سورج ہمیشہ ایک ہی مطلع سے نہیں نکلتا بلکہ ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع ہوتا ہے۔ نیز ساری زمین پر وہ بیک وقت طابع نہیں ہوجاتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں اس کا طلوع ہوا کرتا ہے۔ ان وجوہ سے مشرق کے بجائے مشارق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ مغارب کا ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ مشارق کا لفظ خود ہی مغارب پر دلالت کرتا ہے، تاہم ایک جگہ رَبُّ المَشَارق و المغارب کے الفاظ بھی آئے ہیں (المعارج۔ 40) ۔
ان آیات میں جو حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک و فرمانروا ہی انسانوں کا اصل معبود ہے، اور وہی درحقیقت معبود ہوسکتا ہے، اور اسی کو معبود ہونا چاہیے۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ رب (یعنی مالک اور حاکم اور مربی و پروردگار) کوئی ہو اور الٰہ (عبادت کا مستحق) کوئی اور ہوجائے۔ عبادت کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ آدمی کا نفع و ضرر، اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا ہونا، اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا، بلکہ بجائے خود اس کا وجود و بقا ہی جس کے اختیار میں ہے، اس کی بالا تری تسلیم کرنا اور اس کے آگے جھکنا آدمی کی فطرت کا عین تقاضا ہے۔ اس وجہ کو آدمی سمجھ لے تو خود بخود اس کی سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ اختیارات والے کی عبادت کرنا، دونوں صریح خلاف عقل و فطرت ہیں۔ عبادت کا استحقاق پہنچتا ہی اس کو ہے جو اقتدار رکھتا ہے۔ رہیں بےاقتدار ہستیاں تو وہ نہ اس کی مستحق ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے، اور نہ ان کی عبادت کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کچھ حاصل ہے، کیونکہ ہماری کسی درخواست پر کوئی کارروائی کرنا سرے سے ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں۔ ان کے آگے عاجزی و نیاز مندی کے ساتھ جھکنا اور ان سے دعا مانگنا بالکل ویسا ہی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے جائے اور اس کے حضور درخواست پیش کرنے کے بجائے جو دوسرے سائلین وہاں درخواستیں لیے کھڑے ہوں ان ہی میں سے کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجائے۔
آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں اور مشرقوں کا رب وہی ہے۔
بے شک ہم ہی نے سجایا ہے سماء دنیا کو ستاروں کی زینت سے۔
شیاطین جن کی تردید: اوپر کی آیات میں ملائکہ کا ذکر ہوا ہے کہ نادانوں نے تو ان کو خدائی کا درجہ دے رکھا ہے اور ان کے ملاء اعلیٰ تک کا حال یہ ہے کہ وہ برابر اپنے رب کے آگے صف بستہ اور اس کی حمد و تسبیح میں سرگرم رہتے ہیں۔ اب آگے کی آیات میں شیاطین جن کا ذکر آ رہا ہے کہ نادانوں نے ان کی نسبت یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کی رسائی ملاء اعلیٰ تک ہے اور وہ وہاں سے غیب کی خبریں حاصل کرتے ہیں چنانچہ اسی توقع پر ان کی پرستش کی جاتی ہے کہ یہ علم غیب کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ حالانکہ ملاء اعلیٰ تک کسی کی بھی رسائی نہیں ہے۔ اگر کوئی شریر جن وہاں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے۔
اِس میں شبہ نہیں کہ (تمھارے) قریبی آسمان کو ہم نے تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔
اِس سے وہ عالم بالا مراد ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اپنی دوربینوں سے جس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اِس سے ماورا چھ عالم اور بھی ہیں جن میں سے ہر ایک میں ہماری زمین کی طرح زندگی کی رعنائیوں سے آباد ایک زمین بھی ہے۔
ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے
آسمان دنیا سے مراد قریب کا آسمان ہے، جس کا مشاہدہ کسی دوربین کی مدد کے بغیر ہم برہنہ آنکھ سے کرتے ہیں۔ اس کے آگے جو عالم مختلف طاقتوں کی دوربینوں سے نظر آتے ہیں، اور جن عالَموں تک ابھی ہمارے وسائل مشاہدہ کی رسائی نہیں ہوئی ہے، وہ سب دور کے آسمان ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ” سماء ” کسی متعین چیز کا نام نہیں ہے بلکہ قدیم ترین زمانے سے آج تک انسان بالعموم یہ لفظ عالَمِ بالا کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔
ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا۔
اور اس کو محفوظ کیا ہے اچھی طرح ہر سرکش شیطان کی دراندازی سے۔
’وَحِفْظًا‘ فعل محذوف کی تاکید ہے۔ یعنی ’وَحَفِظْنٰھَا حِفْظًا‘ اس وجہ سے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آسمان کو ہم نے شیاطین کی دراندازی سے اچھی طرح محفوظ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ستارے ایک طرف تو آسمان زیریں کی زینت ہیں، دوسری طرف قدرت ان سے یہ کام بھی لیتی ہے کہ جو شیاطین ملاء اعلیٰ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو انہی ستاروں کے ذریعے سے سرزنش کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں یہ مضمون مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے۔ مثلاً:
’وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنَاہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیَاطِیْنِ‘ (الملک: ۵)
(اور ہم نے سماء دنیا کو تاروں سے سجایا ہے اور ان کو شیاطین کے سنگ سار کرنے کے لیے بھی بنایا ہے)
دوسرے مقام میں ہے:
’وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِیْنَ ۵ وَحَفِظْنَاہَا مِن کُلِّ شَیْْطَانٍ رَّجِیْمٍ ۵ إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ‘ (الحجر: ۱۶-۱۸)
(اور ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اس کو دیکھنے والوں کے لیے ستاروں سے مزین کیا ہے اور اس کو ہر شیطان رجیم سے محفوظ کیا ہے اور اگر کوئی چھپ کے ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کی کوشش کرتا ہے تو ایک دمکتا شہاب اس کا تعاقب کرتا ہے)۔
اور ہر سرکش شیطان کی دراندازی سے اُس کو بالکل محفوظ کر دیا ہے۔
n/a
اور ہر شیطان سرکش سے اس کو محفوظ کردیا ہے ۔
یعنی عالم بالا محض خلا ہی نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس میں نفوذ کر جائے، بلکہ اس کی بندش ایسی مضبوط ہے، اور اس کے مختلف خطے ایسی مستحکم سرحدوں سے محصور کیے گئے ہیں کہ کسی شیطان سرکش کا ان حدوں سے گزر جانا ممکن نہیں ہے۔ کائنات کے ہر تارے اور ہر سیارے کا اپنا ایک دائرہ اور کرہ (Sphere) ہے جس کے اندر سے کسی کا نکلنا بھی سخت دشوار ہے اور جس میں باہر سے کسی کا داخل ہونا بھی آسان نہیں ہے۔ ظاہری آنکھ سے کوئی دیکھے تو خلائے محض کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن حقیقت میں اس خلا کے اندر بےحد و حساب خطے ایسی مضبوط سرحدوں سے محفوظ کیے گئے ہیں جن کے مقابلے میں آہنی دیواروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کا کچھ اندازہ ان گو ناں گوں مشکلات سے کیا جاسکتا ہے جو زمین کے رہنے والے انسان کو اپنے قریب ترین ہمسائے، چاند تک پہنچنے میں پیش آ رہی ہیں۔ ایسی ہی مشکلات زمین کی دوسری مخلوق، یعنی جنوں کے لیے بھی عالم بالا کی طرف صعود کرنے میں مانع ہیں۔
اور حفاظت کی سرکش شیطان سے ۔
یعنی آسمان دنیا پر، زینت کے علاوہ، ستاروں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ سرکش شیاطین سے حفاظت ہو۔ چنانچہ شیطان آسمان پر کوئی بات سننے کے لئے جاتے ہیں تو ستارے ان پر ٹوٹ گرتے ہیں جس سے بالعموم شیطان جل جاتے ہیں۔ جیسا کہ اگلی آیات اور احادیث سے واضح ہے۔ ستاروں کا ایک تیسرا مقصد رات کی تاریکیوں میں رہنمائی بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر بیان فرمایا گیا ہے۔ ان مقاصد سہ گانہ کے علاوہ ستاروں کا اور کوئی مقصد بیان نہیں کیا گیا ہے۔
اور وہ ملاء اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگانے پاتے اور وہ ہر جانب سے دھتکارے جاتے ہیں۔
’لَا یَسَّمَّعُوۡنَ‘ یہ نفی فعل، نفی فائدہ فعل کے پہلو سے ہے۔ یعنی شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کی کوشش کرتے تو ہیں لیکن وہ کان لگانے پاتے نہیں۔ جب وہ یہ کرنا چاہتے ہیں تو ہر جانب سے ان پر سنگ باری ہوتی ہے۔
وہ ملاء اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور (لگائیں تو) بھگانے کے لیے۔
n/a
یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں سن سکتے، ہر طرف سے مارے اور ہانکے جاتے ہیں
n/a
عالم بالا کے فرشتوں (کی باتوں) کو سننے کے لئے وہ کان بھی نہیں لگا سکتے، بلکہ ہر طرف سے وہ مارے جاتے ہیں۔
کھدیڑنے کے لیے اور ان کے لیے ایک دائمی عذاب ہے۔
’دُحُوْرٌ‘ کے معنی دھتکارنے اور کھدیڑنے کے ہیں اور ’وَاصِبٌ‘ کے معنی دائم کے۔ یعنی اس دنیا میں تو وہ اس طرح ملعون و مرجوم رہیں گے اور آخرت میں ان کے لیے ایک دائمی عذاب ہے۔
ہر طرف سے دھتکارے جاتے ہیں اور یہ اُن کے لیے دائمی عذاب ہے۔
n/a
اور ان کے لیے پیہم عذاب ہے۔
n/a
بھگانے کے لئے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔
مگر یہ کہ کوئی اچک لے کوئی بات تو ایک دہکتا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔
یعنی قدرت کے اس محکم انتظام کے بعد اس بات کا تو امکان ہے نہیں کہ کوئی شیطان ملاء اعلیٰ تک پہنچ سکے یا ان کی باتیں سن سکے۔ کوئی شریر جن اگر کچھ کر سکتا ہے تو یہ کر سکتا ہے کہ اچکوں کی طرح کوئی بات اچکنے کی کوشش کرے۔ سو اس کے سدباب کے لیے بھی یہ انتظام ہے کہ آسمان کی برجیوں سے ایک دہکتا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔
اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ نہ فرشتوں کو خدا کی خدائی میں کوئی دخل ہے اور نہ جنات کی رسائی ملاء اعلیٰ تک ہے کہ وہاں سے وہ غیب کی کوئی خبر معلوم کر سکیں اس وجہ سے جو لوگ فرشتوں کو خدا کی چہیتی بیٹیاں سمجھ کر پوج رہے ہیں وہ بھی احمق اور جو جنات کو علم غیب کا وسیلہ سمجھ کر ان سے تعلق و توصل پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی احمق۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ عربوں کے شرک اور ان کی کہانت کی تمام گرم بازاری انہی دو مذکورہ تصورات پر تھی۔ قرآن نے یہاں جنوں اور فرشتوں دونوں کی حقیقت واضح کر کے ان کی ضلالت کے اس سارے کاروبار کو ختم کر دیا۔
تاہم کوئی شیطان اگر کچھ لے اڑے تو ایک دہکتا شعلہ اُس کا تعاقب کرتا ہے۔
اوپر ملائکہ کے بارے میں مشرکین کے مزعومات کی تردید فرمائی تھی۔ اُس کے بعد اب یہ جنوں کے بارے میں بھی واضح کر دیا ہے کہ اُن کے پاس ہرگز کوئی غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اِس لیے جو لوگ اُن کے اور خد اکے درمیان رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتے اور اُن کی پرستش کرتے ہیں، وہ بھی بالکل احمق ہیں۔
تاہم اگر کوئی ان میں سے کچھ لے اڑے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے ۔
اس مضمون کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس وقت عرب میں کہانت کا بڑا چرچا تھا۔ جگہ جگہ کاہن بیٹھے پیشن گوئیاں کر رہے تھا، غیب کی خبریں دے رہے تھے، گم شدہ چیزوں کے پتے بتا رہے تھے، اور لوگ اپنے اگلے پچھلے حال دریافت کرنے کے لیے ان سے رجوع کر رہے تھے۔ ان کاہنوں کا دعویٰ یہ تھا کہ جن اور شیاطین ان کے قبضے میں ہیں اور وہ انہیں ہر طرح کی خبریں لا لا کردیتے ہیں۔ اس ماحول میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منصب نبوت پر سرفراز ہوئے اور آپ نے قرآن مجید کی آیات سنانی شروع کیں جن میں پچھلی تاریخ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کی خبریں دی گئی تھیں، اور ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی بتایا کہ ایک فرشتہ یہ آیات میرے پاس لاتا ہے، تو آپ کے مخالفین نے فوراً آپ کے اوپر کاہن کی پھبتی کس دی اور لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ ان کا تعلق بھی دوسرے کاہنوں کی طرح کسی شیطان سے ہے جو عالم بالا سے کچھ سن گن لے کر ان کے پاس آجاتا ہے اور یہ اسے وحی الہٰی بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ اس الزام کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ حقیقت ارشاد فرما رہا ہے کہ شیاطین کی تو رسائی ہی عالم بالا تک نہیں ہو سکتی۔ وہ اس پر قادر نہیں ہیں کہ ملاء اعلیٰ (یعنی گروہ ملائکہ) کی باتیں سن سکیں اور لا کر کسی کو خبریں دے سکیں۔ اور اگر اتفاقاً کوئی ذرا سی بھنک کسی شیطان کے کان میں پڑجاتی ہے تو قبل اس کے کہ وہ اسے لے کر نیچے آئے، ایک تیز شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ملائکہ کے ذریعہ سے کائنات کا جو عظیم الشان نظام چل رہا ہے وہ شیاطین کی دراندازی سے پوری طرح محفوظ ہے۔ اس میں دخل دینا تو درکنار، اس کی معلومات حاصل کرنا بھی ان کے بس میں نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحہ 500 تا 502)
مگر جو کوئی ایک آدھ بات اچک لے بھاگے تو (فورا ہی) اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے۔
امین احسن اصلاحی
شاہد ہیں صفیں باندھے، حاضر رہنے والے فرشتے۔
قسم شہادت کے لیے: ’و‘ قسم کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو قسمیں کھائی ہیں یہ تعظیم کے لیے نہیں بلکہ مقسم علیہ پر شہادت کے لیے ہیں۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ ’’الامعان فی اقسام القرآن‘‘ میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کی ہے۔ ہمارے قلم سے اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ تفصیل کے طالب اس کو پڑھیں۔ قسم کے اس مفہوم کی روشنی میں ’وَالصَّافَّاتِ صَفّاً‘ کا ترجمہ ’شاہد ہیں صفیں باندھے ہوئے‘ حاضر رہنے والے فرشتے، کیا جائے تو یہ قسم کے مفہوم کو بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کرنے والا ہو گا۔
’صَافَّاتِ‘ فرشتوں کی صفت ہے: ’صَافَّاتِ‘ یہاں فرشتوں کی صفت کے طور پر آیا ہے اور اس کی وضاحت اسی سورہ میں خود حضرت جبریلؑ کی زبانی ہو گئی ہے۔ ان کا ارشاد نقل ہوا ہے:
’وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ ۵ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ۵ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ‘، (۱۶۴-۱۶۶)
(اور ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک معین مقام ہے، اور ہم تو صف بستہ رہنے والے ہیں اور ہم تو تسبیح کرتے رہنے والے ہیں)۔
قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان فرشتوں کا ذکر ہے جو ملاء اعلیٰ کے زمرے سے تعلق رکھتے اور عرش الٰہی کے ارد گرد صف بستہ رہتے ہیں۔ سورۂ زمر میں ان کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:
’وَتَرَی الْمَلَائِکَۃَ حَافِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ‘ (۷۵)
(اور تم دیکھو گے فرشتوں کو گھیرے ہوئے عرش کے اردگرد، اپنے رب کی تسبیح کرتے ہوئے، اس کی حمد کے ساتھ)۔