الم

امین احسن اصلاحی

یہ الٓمّٓ ہے۔

’الٓمّٓ‘ یہ اور اس طرح کے جتنے حروف بھی مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں چونکہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں اس وجہ سے ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں۔

یہ جس سورہ میں بھی آئے ہیں بالکل شروع میں اس طرح آئے ہیں جس طرح کتابوں، فصلوں اور ابواب کے شروع میں ان کے نام آیا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں۔ قرآن نے جگہ جگہ ذٰلک اور تِلۡکَ کے ذریعہ سے ان کی طرف اشارہ کر کے ان کے نام ہونے کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے۔ حدیثوں سے بھی ان کا نام ہی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
جو سورتیں ان ناموں سے موسوم ہیں اگرچہ ان میں سے سب اپنے انہی ناموں سے مشہور نہیں ہوئیں بلکہ بعض دوسرے ناموں سے مشہور ہوئیں، لیکن ان میں سے کچھ اپنے انہی ناموں سے مشہور بھی ہیں۔ مثلاً طٰہٰ، یٰس، ق اور ن وغیرہ۔
ان ناموں کے معانی کے بارے میں کوئی قطعی بات کہنا بڑا مشکل ہے اس وجہ سے ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن کا تو دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک بالکل واضح کتاب ہے، اس میں کوئی چیز بھی چیستاں یا معمے کی قسم کی نہیں ہے، پھر اس نے سورتوں کے نام ایسے کیوں رکھ دیے ہیں جن کے معنی کسی کو بھی نہیں معلوم؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ان حروف کا تعلق ہے، یہ اہل عرب کے لئے کوئی بیگانہ چیز نہیں تھے بلکہ وہ ان کے استعمال سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس واقفیت کے بعد قرآن کی سورتوں کا ان حروف سے موسوم ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے قرآن کے ایک واضح کتاب ہونے پر کوئی حرف آتا ہو۔ البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حروف سے نام بنا لینا عربوں کے مذاق کے مطابق تھا بھی یا نہیں تو اس چیز کے مذاق عرب کے مطابق ہونے کی سب سے بڑی شہادت تو یہی ہے کہ قرآن نے نام رکھنے کے اس طریقہ کو اختیار کیا۔ اگر نام رکھنے کا یہ طریقہ کوئی ایسا طریقہ ہوتا جس سے اہل عرب بالکل ہی نامانوس ہوتے تو وہ اس پر ضرور ناک بھوں چڑھاتے اور ان حروف کی آڑ لے کر کہتے کہ جس کتاب کی سورتوں کے نام تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتے اس کے ایک کتاب مبین ہونے کے دعوے کو کون تسلیم کر سکتا ہے۔
قرآن پر اہل عرب نے بہت سے اعتراضات کئے اور ان کے یہ سارے اعتراض قرآن نے نقل بھی کئے ہیں لیکن ان کے اس طرح کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ناموں میں ان کے لئے کوئی اجنبیت نہیں تھی۔
علاوہ بریں جن لوگوں کی نظر اہل عرب کی روایات اور ان کے لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ اہل عرب نہ صرف یہ کہ اس طرح کے ناموں سے نامانوس نہیں تھے بلکہ وہ خود اشخاص، چیزوں، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں حتیٰ کہ قصائد اور خطبات تک کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھتے تھے۔ یہ نام مفرد حروف پر بھی ہوتے تھے اور مرکب بھی ہوتے تھے۔ ان میں یہ اہتمام بھی ضروری نہیں تھا کہ اسم اور مسمٰی میں کوئی معنوی مناسبت پہلے سے موجود ہو بلکہ یہ نام ہی بتاتا تھا کہ یہ نام اس مسمٰی کے لئے وضع ہوا ہے۔
اور یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک شے کے متعلق یہ معلوم ہو گیا کہ یہ نام ہے تو پھر اس کے معنی کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ نام سے اصل مقصود مسمٰی کا اس نام کے ساتھ خاص ہوجانا ہے نہ کہ اس کے معنی۔ کم ازکم فہم قرآن کے نقطۂ نظر سے ان ناموں کے معانی کی تحقیق کی تو کوئی خاص اہمیت ہے نہیں۔ بس اتنی بات ہے کہ چونکہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے ہیں اس وجہ سے آدمی کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ضرور یہ کسی نہ کسی مناسبت کی بنا پر رکھے گئے ہوں گے۔ یہ خیال فطری طور پر طبیعت میں ایک جستجو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی جستجو کی بنا پر ہمارے بہت سے پچھلے علماء نے ان ناموں پر غور کیا اور ان کے معنی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ان کی جستجو سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا لیکن ہمارے نزدیک ان کا یہ کام بجائے خود غلط نہیں تھا اور اگر ہم بھی ان پر غور کریں گے تو ہمارا یہ کام بھی غلط نہیں ہو گا۔ اگر اس کوشش سے کوئِی حقیقت واضح ہوئی تو اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو گا اور اگر کوئی بات نہ مل سکی تو اس کو ہم اپنے علم کی کوتاہی اور قرآن کے اتھاہ ہونے پر محمول کریں گے۔ یہ رائے بہرحال نہیں قائم کریں گے کہ یہ نام ہی بے معنی ہیں۔
اپنے علم کی کمی اور قرآن کے اتھاہ ہونے کا یہ احساس بجائے خود ایک بہت بڑا علم ہے۔ اس احساس سے علم و معرفت کی بہت سی بند راہیں کھلتی ہیں۔ اگر قرآن کا پہلا ہی حرف اس عظیم انکشاف کے لئے کلید بن جائے تو یہ بھی قرآن کے بہت سے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہو گا۔ یہ اسی کتاب کا کمال ہے کہ اس کے جس حرف کا راز کسی پر نہ کھل سکا اس کی پیدا کردہ کاوش ہزاروں سربستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کے لئے دلیل راہ بنی۔
ان حروف پر ہمارے پچھلے علماء نے جو رائیں ظاہر کی ہیں ہمارے نزدیک وہ تو کسی مضبوط بنیاد پر مبنی نہیں ہیں اس وجہ سے ان کا ذکر کرنا کچھ مفید نہیں ہوگا۔ البتہ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمة اللہ علیہ کی رائے اجمالاً یہاں پیش کرتا ہوں۔ اس سے اصل مسئلہ اگرچہ حل نہیں ہوتا لیکن اس کے حل کے لئے ایک راہ کھلتی ضرور نظر آتی ہے۔ کیا عجب کہ مولانا رحمة اللہ علیہ نے جو سراغ دیا ہے دوسرے اس کی رہنمائی سے کچھ مفید نشانات راہ اور معلوم کر لیں اور اس طرح درجہ بدرجہ تحقیق کے قدم کچھ اور آگے بڑھ جائیں۔
جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لئے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ عرب قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذ امام رحمة اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرف صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرف معانی اور اشیاء پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیاء پر وہ دلیل ہوتے تھے عموماً ان ہی کی صورت و ہئیت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ مولانا کی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جو قدیم مصریوں نے اخذ کئے اور اپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم و اصلاح کر کے ان کو اس خط تمثالی کی شکل دی جس کے آثار اہرام مصر کے کتبات میں موجود ہیں۔
ان حروف کے معانی کا علم اب اگرچہ مٹ چکا ہے تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً “الف” کے متعلق معلوم ہے کہ وہ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سر کی صورت ہی پر لکھا جاتا ہے۔ “ب” کو عبرانی میں بَیت کہتے بھی ہیں اور اس کے معنی بھی “بیت” (گھر) کے ہیں۔ “ج” کا عبرانی تلفظ جمیل ہے جس کے معنی جمل (اونٹ) کے ہیں۔ “ط” سانپ کے معنی میں آتا تھا اور لکھا بھی کچھ سانپ ہی کی شکل پر جاتا تھا۔ “م” پانی کی لہر پر دلیل ہوتا ہے اور اس کی شکل بھی لہر سے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔
مولانا اپنے نظریہ کی تائید میں سورہ “ن” کو پیش کرتے ہیں۔ حرف “نون” اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جو سورہ اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر صاحب الحوت، مچھلی والے، کے نام سے آیا ہے۔ مولانا اس نام کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طور پر اس طرف جاتا ہے کہ اس سورہ کا نام “نون” (ن) اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت، حضرت یونس علیہ السلام، کا واقعہ بیان ہوا ہے جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ پھر کیا عجب ہے کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں وہ بھی اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بنا پر آئے ہوں۔
قران مجید کی بعض اور سورتوں کے ناموں سے بھی مولانا کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے مثلاً حرف “ط” کے معنی، جیسا کے میں نے اوپر بیان کیا ہے، سانپ کے تھے اور اس کے لکھنے کی ہئیت بھی سانپ کی ہئیت سے ملتی جلتی ہوتی تھی۔ اب قرآن میں سورہ طٰہٰ کو دیکھئے جو “ط” سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں ایک مختصر تمہید کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی لٹھیا کے سانپ بن جانے کا قصہ بیان ہوتا ہے۔ اسی طرح طسم، طس وغیرہ بھی “ط” سے شروع ہوتی ہیں اور ان میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لٹھیا کے سانپ کی شکل اختیار کر لینے کا معجزہ مذکور ہے۔
“الف” کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ گائے کے سر کی ہئیت پر لکھا بھی جاتا تھا اور گائے کے معنی بھی بتاتا تھا۔ اس کے دوسرے معنی اللہ واحد کے ہوتے تھے۔ اب قرآن مجید میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ سورہ بقرہ میں جس کا نام الف سے شروع ہوتا ہے، گائے کے ذبح کا قصہ بیان ہوا ہے۔ دوسری سورتیں جن کے نام الف سے شروع ہوئے ہیں توحید کے مضمون میں مشترک نظر آتی ہیں۔ یہ مضمون ان میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان ناموں کا یہ پہلو بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن سورتوں کے نام ملتے جلتے سے ہیں ان کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں بلکہ بعض سورتوں میں تو اسلوب بیان تک ملتا جلتا ہے۔
میں نے مولانا کا یہ نظریہ، جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، محض اس خیال سے پیش کیا ہے کہ اس سے حروف مقطعات پر غور کرنے کے لئے ایک علمی راہ کھلتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی حیثیت ابھی ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک تمام حروف کے معانی کی تحقیق ہو کر ہر پہلو سے ان ناموں اور ان سے موسوم سورتوں کی مناسبت واضح نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کر لینا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ محض علوم قرآن کے قدردانوں کے لئے ایک اشارہ ہے، جو لوگ مزید تحقیق و جستجو کی ہمت رکھتے ہیں وہ اس راہ میں قسمت آزمائی کریں۔ شاید اللہ تعالیٰ اس راہ سے یہ مشکل آسان کر دے۔
یہ امر ملحوظ رہے کہ سابق سورہ کی طرح اس سورہ کی تمہید بھی بقرہ کی تمہید سے ملتی جلتی ہوئی ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’الٓمّٓ‘ ہے۔

یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

آ۔ لٓ۔ مٓ۔ (1)

جونا گڑھی

الف لام میم

 سُوْرَۃُ السَّجْدَ ۃِ ٣٢ سورة سجدہ مکی ہے اس میں تیس آیتیں اور تین رکوع ہیں 

تَنزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ

امین احسن اصلاحی

اس کتاب کی تنزیل، اس میں ذرا شبہ نہیں، خداوند عالم کی طرف سے ہے۔

قرآن پر قریش اور یہود کا اصل اعتراض: ’تَنزِیْل‘ کے معنی ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں کہ صرف اتارنے کے نہیں بلکہ اہتمام خاص کے ساتھ درجہ بدرجہ اتارنے کے ہیں۔ ’الکتٰب‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس کتاب کی تنزیل ’اَللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘ کی طرف سے ہے۔ اس کے اللہ رب العٰلمین کی طرف سے ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ’لَا رَیْْبَ فِیْہِ‘ کا یہی مفہوم ہم نے سورۂ بقرہ کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ اس آیت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ قریش اور یہود دونوں کو سب سے زیادہ اختلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوے سے تھا کہ یہ کتاب آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی جاتی ہے۔ اس دعوے کو وہ، جیسا کہ آگے کی آیت سے واضح ہو گا ’اِفْتِرَاء‘ قرار دیتے یعنی آنحضرت صلعم پر یہ الزام لگاتے کہ نعوذ باللہ اس کتاب کو یہ تصنیف تو خود کرتے ہیں لیکن ہمارے اوپر دھونس جمانے کے لیے اس کو جھوٹ موٹ منسوب اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اِس میں کچھ شک نہیں کہ اِس کتاب کی تنزیل جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اس کتاب کی تنزیل بلا شبہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔

قرآن مجید کی متعدد سورتیں اس طرح کے کسی نہ کسی تعارفی فقرہ سے شروع ہوتی ہیں جس سے مقصود آغاز کلام ہی میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کلام کہاں سے آ رہا ہے۔ یہ بظاہر اسی طرز کا ایک تمہیدی فقرہ ہے جیسے ریڈیو پر اعلان کرنے والا پروگرام کے آغاز میں کہتا ہے کہ ہم فلاں اسٹیشن سے بول رہے ہیں۔ لیکن ریڈیو کے اس معمولی سے اعلان کے برعکس قرآن مجید کی کسی سورت کا آغاز جب اس غیر معمولی اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ پیغام فرمانروائے کائنات کی طرف سے آ رہا ہے تو یہ محض مصدر کلام کا بیان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس میں ایک بہت بڑا دعویٰ ، ایک عظیم چیلنج اور ایک سخت انذار بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ چھوٹتے ہی اتنی بڑی خبر دیتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے، خدا وند عالم کا کلام ہے۔ یہ اعلان فوراً ہی یہ بھاری سوال آدمی کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے کہ اس دعوے کو تسلیم کروں یا نہ کروں۔ تسلیم کرتا ہوں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے آگے سر اطاعت جھکا دینا ہوگا، پھر میرے لیے اس کے مقابلہ میں کوئی آزادی باقی نہیں رہ سکتی۔ تسلیم نہیں کرتا تو لا محالہ یہ خطرۂ عظیم مول لیتا ہوں کہ اگر واقعی یہ خداوند عالم کا کلام ہے تو اسے رد کرنے کا نتیجہ مجھ کو ابدی شقاوت و بد بختی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔ اس بنا پر یہ تمہیدی فقرہ مجرد اپنی اس غیر معمولی نوعیت ہی کی بنا پر آدمی کو مجبور کردیتا ہے کہ چوکنا ہو کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس کلام کو سنے اور یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کلام الہٰی ہونے کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے یا نہیں۔

یہاں صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے، بلکہ مزید براں پورے زور کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ ، بیشک یہ خدا کی کتاب ہے، اس کے مَنَزَّل مِنَ اللہ ہونے میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اس تاکیدی فقرے کو اگر نزول قرآن کے واقعاتی پس منظر اور خود قرآن کے اپنے سیاق میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر دعوے کے ساتھ دلیل بھی مضمر ہے، اور یہ دلیل مکہ معظمہ کے ان باشندوں سے پوشیدہ نہ تھی جن کے سامنے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ اس کتاب کے پیش کرنے والے کی پوری زندگی ان کے سامنے تھی، کتاب پیش کرنے سے پہلے کی بھی اور اس کے بعد کی بھی۔ وہ جانتے تھے کہ جو شخص اس دعوے کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا ہے وہ ہماری قوم کا سب سے زیادہ راستباز، سنجیدہ اور پاک سیرت ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دعوائے نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس سے وہ باتیں کبھی نہ سنی تھیں جو نبوت کے بعد یکایک اس نے بیان کرنی شروع کردیں۔ وہ اس کتاب کی زبان اور طرز بیان میں اور خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اور طرز بیان میں نمایاں فرق پاتے تھے اور اس بات کو بداہۃً جانتے تھے کہ ایک ہی شخص کے دو اسٹائل اتنے صریح فرق کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔ وہ اس کتاب کے انتہائی معجزانہ ادب کو بھی دیکھ رہے اور اہل زبان کی حیثیت سے خود جانتے تھے کہ ان کے سارے ادیب اور شاعر اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ وہ اس سے بھی ناواقف نہ تھے کہ ان کی قوم کے شاعروں، کاہنوں اور خطیبوں کے کلام میں اور اس کلام میں کتنا عظیم فرق ہے اور جو پاکیزہ مضامین اس کلام میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ کتنے بلند پایہ ہیں۔ انہیں اس کتاب میں، اور اس کے پیش کرنے والے کی دعوت میں کہیں دور دور بھی اس خود غرضی کا ادنیٰ شائبہ تک نظر نہیں آتا جس سے کسی جھوٹے مدعی کا کام اور کلام کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ وہ خوردبین لگا کر بھی اس امر کی نشان دہی نہیں کرسکتے تھے کہ نبوت کا یہ دعویٰ کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات کے لئے یا اپنے خاندان کے لئے یا اپنی قوم کے لئے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کام میں ان کی اپنی کیا غرض پوشیدہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اس دعوت کی طرف ان کی قوم کے کیسے لوگ کھنچ رہے ہیں اور اس سے وابستہ ہو کر ان کی زندگیوں میں کتنا بڑا انقلاب واقع ہو رہا ہے۔ یہ ساری باتیں مل جل کر خود دلیل دعویٰ بنی ہوئی تھیں اسی لئے اس پس منظر میں یہ کہنا بالکل کافی تھا کہ اس کتاب کا رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اس پر کسی دلیل کے اضافے کی کوئی حاجت نہ تھی۔

جونا گڑھی

بلا شبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے

 حدیث میں آتا ہے کہ نبی جمعہ کے دن فجر نماز میں الَمَّ السَّجْدَہ (اور دوسری رکعت میں) (ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ ) (سُوْرَۃ دہر) پڑھا کرتے تھے (صحیح بخاری) اسی طرح یہ بھی سند سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سونے سے قبل سورة الم السجدہ اور سورة ملک پڑھا کرتے تھے (ترمذی ٨٩٢، مسند احمد أ ٣٤٠)

٢۔ ١ مطلب یہ ہے کہ جھوٹ، جادو، کہانت اور من گھڑت قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ رب العالمین کی طرف سے آسمانی کتاب ہدایت ہے۔ 

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ

امین احسن اصلاحی

کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے خود اپنے جی سے گھڑ کر اس کو خدا کی طرف منسوب کر دیا ہے! بلکہ یہی تیرے رب کی جانب سے حق ہے تاکہ تم ان لوگوں کو ہوشیار کر دو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ہوشیار کرنے والا نہیں آیا تاکہ وہ راہ یاب ہوں۔

یہ سوال حیرت و تعجب کی نوعیت کا ہے کہ کیا یہ لوگ حق کی مخالفت میں ایسے اندھے بہرے ہو گئے ہیں کہ اس کتاب کے کتاب الٰہی ہونے کے دعوے کو افتراء قرار دیتے ہیں! مطلب یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے اندر انصاف اور سچائی کی کوئی رمق ہوتی تو یہ بات وہ زبان سے نہ نکالتے لیکن یہ لوگ مخالفت کے جوش میں بالکل اندھے بہرے بن چکے ہیں۔

جواب میں دھمکی: ’بَلْ ہُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ‘۔ اس الزام کا جواب قرآن مجید نے مختلف پہلوؤں سے دیا ہے جن کی وضاحت پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے۔ یہاں کوئی تفصیلی جواب دینے کے بجائے نہایت سخت دھمکی کے انداز میں دعوے کو مزید مؤکد کر دیا ہے۔ اور یہ تاکید یہاں دو پہلوؤں سے نمایاں ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ یہی حق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جس دین آبائی کے علم بردار ہیں وہ بالکل باطل ہے، صحیح دین یہی ہے جس کی دعوت یہ کتاب دے رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کتاب کے متعلق اس وہم میں نہ رہیں کہ اس کو خدا کی طرف جھوٹ موٹ نسبت دی جا رہی ہے۔ یہ فی الحقیقت خدا ہی کی طرف سے ہے، اگر یہ لوگ اسی طرح اس کو جھٹلاتے رہے تو اس کا انجام خود بھگتیں گے۔
اُمّی عربوں پر اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان: ’لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاہُم مِّن نَّذِیْرٍ مِّن قَبْلِکَ لَعَلَّہُمْ یَہْتَدُونَ‘۔ یہ اس کتاب کے اس اہتمام کے ساتھ اتارنے کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اس لیے اتاری ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے ان لوگوں کو اس زندگی کے انجام اور آخرت کے احوال سے آگاہ کر دو جن کے اندر تم سے پہلے کوئی منذر نہیں آیا۔ یہاں ’قوم‘ سے مراد اہل عرب ہیں جن کے اندر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ یہ اس کتاب کے احسان کا پہلو نمایاں فرمایا گیا ہے کہ اُمّی عربوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نازل کر کے بہت بڑا فضل فرمایا ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اس عظیم نعمت کی قدر کریں۔
ساتھ ہی اس کے اندر انذار کا پہلو بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کے اندر اپنا منذر بھیج دیتا ہے تو اس قوم کی قسمت میزان میں آ جاتی ہے۔ اگر اس کے بعد بھی وہ اپنے رویہ کی اصلاح نہیں کرتی تو ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو لازماً تباہ کر دیتا ہے۔ اس سنت الٰہی کی وضاحت جگہ جگہ اس کتاب میں ہو چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

کیا یہ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے اِسے خود گھڑ لیا ہے؟ (ہرگز نہیں)، بلکہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق آیا ہے، اِس لیے کہ تم اُن لوگوں کو خبردار کرو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا، اِس لیے کہ وہ راہ پر آ جائیں۔

یہ استفہام حیرت و استعجاب کی نوعیت کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا ایسے اندھے بہرے ہو گئے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب کو تمھارا افترا قرار دے رہے ہیں۔

یعنی اِس لحاظ سے بھی حق کہ فی الواقع خدا کی طرف سے ہے اور اِس لحاظ سے بھی کہ جو کچھ اُس میں بیان کیا گیا ہے، اُس میں کسی باطل کی آمیزش کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یعنی قریش مکہ کو، جن کے اندر اسمٰعیل علیہ السلام کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا، دراں حالیکہ وہ زمین پر خدا کے اولین معبد کے متولی بنائے گئے تھے۔

ابو الاعلی مودودی

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اس خود گھڑ لیا ہے ؟ نہیں بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے تاکہ تو متنبہ کرے ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پاجائیں

اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکین مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر کرتے تھے۔

یہ محض سوال و استفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان ساری باتوں کے باوجود، جن کی بنا پر اس کتاب کا منزَّل من اللہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ رب العالمین کی طرف منسوب کردیا ہے ؟ اتنا لغو اور بےسرو پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی ؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اور اس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں، وہ اس بیہودہ الزام کو سن کر کیا رائے قائم کریں گے ؟

جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ ، کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے حق میں پیش کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی، اسی طرح اب اس آیت میں بھی کفار مکہ کے الزام افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ ” یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے ” اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ١ میں ہم بیان کرچکے ہیں۔ کون، کس ماحول میں، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ کی اس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا رب العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کردینا ہی کفار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا۔ اس پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اس کمزور کرنے کی موجب ہوتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو ؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کردیں گے۔

یعنی جس کا حق ہونا اور من جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اسی طرح اس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے۔ تم خود جانتے کہ صدہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے۔

واضح رہے کہ عرب میں دین حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہود (علیہ السلام) اور حضرت صالح (علیہ السلام) کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے۔ اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے۔ یہ اتنی طویل مدت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مدت دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے۔

یہاں ایک اور سوال سامنے آجاتا ہے جس کو صاف کردینا ضروری ہے۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پرس کس بنیاد پر ہوگی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھی کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جاسکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اس جاہلیت کے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بت پرستی نہیں سکھائی ہے۔ یہ حقیقت ان روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئے ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین، دین ابراہیمی (علیہ السلام) تھا اور بت پرستی ان کے ہاں عمرو بن لحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی۔ شرک و بت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بتوں پر قربانیاں کرنے کی علانیہ مذمت کرتے تھے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِدۃ الایاوی، اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی، عمرو بن جندُب الجُہنِی، ابو قیس صرمہ بن ابی انَس، زید بن عمرو بن نُفَیل، ورقہ بن نوفَل، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃ الکنانی، زُہَیر بن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سنان بن غیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بےتعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیرو الرحمان اور رب السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحد تسلیم کرتے تھے۔ ٣٧٨ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد ” الٰہ ذو سموی ” یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔ ٤٦٥ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصر وردا الٰھن بعل سمین وارضین (بنصر و بعون الالٰہ رب السماء والارْض) کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں۔ اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن (یعنی استعین بحول الرحمٰن) کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، اسی طرح شمال عرب میں دریائے فرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَبَد کے مقام پر ٥١٢ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الالٰہ لَا عِزَّ اِلَّا لَہ لَا شُکرَ اِلَّا لَہ کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ” تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے “۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ٤٦٤۔ ٤٦٥)

جونا گڑھی

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے گھڑ لیا ہے (نہیں نہیں) بلکہ یہ تیرے رب تعالیٰ کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انھیں ڈرائیں جنکے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔

  یہ بطور توبیخ کے ہے کہ کیا رب العالمین کے نازل کردہ اس کلام بلاغت نظام کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اسے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے ؟

 یہ نزول قرآن کی علت ہے۔ اس سے معلوم ہوا (جیسا کہ پہلے بھی وضاحت گزر چکی ہے) کہ عربوں میں نبی پہلے نبی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی عربوں میں مبعوث نبی قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس اعتبار سے قوم سے مراد پھر خاص قریش ہوں گے جن کی طرف کوئی نبی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 

سے پہلے نہیں آیا۔ 

اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ

امین احسن اصلاحی

اللہ ہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو چھ دنوں میں پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔ اس کے سوا نہ تمہارے لیے کوئی کارساز ہے اور نہ اس کے مقابل میں کوئی سفارشی۔ کیا تم لوگ چیتتے نہیں!

انذار کا خاص موضوع: اوپر کی آیت میں اس کتاب کی تنزیل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا خاص مقصد انذار بتایا گیا ہے۔ اب یہ اسی کی تفصیل آ رہی ہے۔ انذار کا خاص موضوع دو چیزیں ہیں۔ ایک توحید دوسری قیامت قرآن مجید اول تو اس بات سے ڈراتا ہے کہ لوگ غلط سہاروں اور فرضی معبودوں کی امید پر زندگی نہ گزاریں۔ اس کائنات کا خالق و مدبر تنہا اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ ہے۔ سب کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا اور اسی کے آگے جواب دہ ہونا ہے۔ اس وجہ سے اسی کی شکرگزاری اور اسی کی عبادت و اطاعت سب پر واجب ہے۔

دوسرے وہ قیامت سے ڈراتا ہے کہ قیامت شدنی ہے۔ بالآخر سب کی پیشی خدا ہی کے آگے ہو گی۔ اس وقت مجرم اپنے جرم کا اعتراف اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ اگر ایک مرتبہ پھر انھیں دنیا میں جانے کی مہلت نصیب ہو تو وہ ایمان و عمل صالح کی زندگی گزاریں گے لیکن وہاں اس قسم کی درخواستوں اور التجاؤں کا موقع باقی نہیں رہے گا۔
آیت زیربحث اور بعد کی چند آیتوں میں توحید کا بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد قیامت اور احوال قیامت کا ذکر آئے گا۔
یہ کائنات کسی اتفاقی حادثہ کے طور پر ظہور میں نہیں آئی ہے: ’اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ‘۔ چھ دنوں سے مراد، جیسا کہ اس کے محل میں ہم واضح کر چکے ہیں، خدائی ایام ہیں اور آگے وضاحت آ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کا ایک دن ہمارے ہزار سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے چھ دنوں سے مراد چھ ادوار ہوں گے۔ یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کی خلقت کسی اتفاقی واقعہ کی طرح ظہور میں نہیں آئی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت تدریج و اہتمام کے ساتھ وجود بخشا ہے۔ یہ تدریج و اہتمام اس کی غایت و حکمت پر دلیل ہے اور اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ کوئی کھیل تماشا نہیں ہے بلکہ ایک بامقصد باغایت کارخانہ ہے۔
اس کا انتظام اللہ تعالیٰ براہ راست خود کر رہا ہے: ’ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ‘۔ یعنی اس اہتمام و انتظام سے اس دنیا کو پیدا کر کے اللہ تعالیٰ اس سے بے تعلق نہیں ہو بیٹھا ہے بلکہ وہ اپنے عرش حکومت پر متمکن ہو کر براہ راست اور بالفعل اس کا انتظام بھی فرما رہا ہے۔ یہ مشرکین کے اس خیال کی تردید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کر کے اس کا انتظام اپنی دوسری مقرب ہستیوں کے سپرد کر دیا ہے اور خود اس سے بالکل الگ ہو بیٹھا ہے۔ اس تصور کی بنیاد جس وہم پر تھی اس کی وضاحت ہم اس کے محل میں کر چکے ہیں۔
براہ راست انتظام کا لازمی نتیجہ: ’مَا لَکُم مِّنۡ دُوْنِہِ مِنۡ وَلِیٍّ وَلَا شَفِیْعٍ‘۔ یہ اس کے لازمی نتیجہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ جب براہ راست تمام امور کی باگ اسی کے ہاتھ میں ہے تو سب کی پیشی بھی اسی کے آگے ہونی ہے اور وہی سارے معاملات کا فیصلہ فرمائے گا۔ اس وقت اس کے سوا نہ کوئی کسی کا کارساز و مددگار بن سکے گا اور نہ اس کے مقابل میں کوئی کسی کی سفارش کر سکے گا۔ لفظ ’دُوْنَ‘ میں سوا اور مقابل دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اس وجہ سے یہاں ’وَلِیِّ‘ کے ساتھ ’شَفِیْع‘ کی بھی نفی فرما دی۔
’أَفَلَا تَتَذَکَّرُوۡنَ‘۔ یہ تمام نتائج چونکہ مخاطب کے مسلمات پر مبنی ہیں اس وجہ سے ان کو سامنے رکھ دینے کے بعد متنبہ کیا کہ آخر ایسی واضح باتیں تم لوگ کیوں نہیں چیتتے!!

جاوید احمد غامدی

(یہ اُس کے شریک بناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی ہے جس نے زمین اور آسمانوں اور اُن کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر اپنے عرش پر متمکن ہو گیا۔ اُس کے سوا نہ تمھارے لیے کوئی کارساز ہے نہ اُس کے مقابل میں سفارش کرنے والا، پھر کیا دھیان نہیں کرتے ہو؟

اِس سے خدائی ایام مراد ہیں جو ہمارے ہزاروں لاکھوں سال کے برابر بھی ہو سکتے ہیں۔ قرآن میں یہ بات اِس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے بتائی جاتی ہے کہ خدا نے یہ دنیا نہایت تدریج و اہتمام کے ساتھ بنائی ہے، لہٰذا اِسے کھیل تماشا خیال نہ کرو، اِس کا ایک مقصد ہے اور یہ اُسی کے پیش نظر وجود میں آئی ہے۔

یعنی پیدا کرکے اُس سے بے تعلق نہیں ہو بیٹھا ہے، بلکہ اپنے عرش حکومت پر متمکن ہو کر بالفعل اُس کا انتظام بھی فرما رہا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا ، اس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے ؟

اب مشرکین کے دوسرے اعتراض کو لیا جاتا ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید پر کرتے تھے۔ ان کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دیوتاؤں، اور بزرگوں کی معبودیت سے انکار کرتے ہیں اور ہانکے پکارے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود کوئی کار ساز، کوئی حاجت روا، کوئی دعائیں سننے والا، اور بگڑی بنانے والا، اور کوئی حاکم ذی اختیار نہیں ہے۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ص ٣٦۔ ٢٦١۔ ٢٦٢۔ ٤٤١۔ ٤٤٢۔

یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے، مخلوق ہے۔ اور اللہ اس دنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے، بلکہ اپنی اس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرماروا بھی وہ آپ ہی ہے۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو ؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کرسکے ؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے ؟ اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے ؟

جونا گڑھی

اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کردیا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں کیا اس پر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔

  اس کے لئے دیکھئے (اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف :54) کا حاشیہ یہاں اس مضمون کو دہرانے سے مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور عجائب صنعت کے ذکر سے شاید وہ قرآن کو سنیں اور اس پر غور کریں۔ 

 یعنی وہاں کوئی ایسا دوست نہیں ہوگا، جو تمہاری مدد کرسکے اور تم سے اللہ کے عذاب کو ٹال دے، نہ وہاں کوئی سفارشی ہی ایسا ہوگا جو تمہاری سفارش کرسکے۔ 

 یعنی اے غیر اللہ کے پجاریو اور دوسروں پر بھروسہ رکھنے والو ! کیا پھر تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

امین احسن اصلاحی

وہی آسمان سے زمین تک سارے امور کا انتظام فرماتا ہے۔ پھر یہ تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ہزار سال کے برابر ہے۔

مشرکین کے ایک خاص گروہ کی تردید: یعنی آسمان سے لے کر زمین تک تمام امور کی تدبیر وہی فرماتا ہے۔ یہ مشرکین کے اس گروہ کی تردید ہے جو اس وہم میں مبتلا تھا کہ زمین چونکہ اللہ تعالیٰ کی کائنات کا ایک دور دراز علاقہ ہے اس وجہ سے اس نے اپنی حکومت صرف آسمان تک محدود رکھی ہے، زمین کا انتظام اس نے اپنے دوسرے کارندوں کے حوالہ کر دیا ہے۔ اسی گروہ کو مخاطب کر کے قرآن میں بعض جگہ یہ سوال آیا ہے کہ کیا زمین میں الگ خدا اور آسمان میں الگ خدا ہیں! کیسی بے عقلی کی باتیں کرتے ہو!

’ثُمَّ یَعْرُجُ إِلَیْْہِ‘ یعنی تمام امور صادر بھی اسی کی طرف سے ہوتے ہیں اور پھر رجوع بھی اسی کی طرف ہوتے ہیں۔ ’یَعْرُجُ إِلَیْْہِ‘ یہاں (REFER) ہونے کے مفہوم میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ احکام صادر کر کے پھر بے تعلق نہیں ہو بیٹھتا بلکہ ہر چیز اس کے سامنے پیش ہوتی رہتی ہے اور وہ پوری طرح باخبر رہتا ہے کہ کارکنان قضا و قدر نے کیا فرائض انجام دیے اور کس طرح انجام دیے۔
خدائی ایام کی نوعیت: ’فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ أَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ‘۔ عام طور پر لوگوں نے اس سے مراد قیامت کا دن لیا ہے اور اس دن لوگوں کے اعمال کی جو پیشی خدا کے سامنے ہونی ہے ان کے نزدیک یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔ قیامت کا دن چونکہ بہت سخت ہو گا اس کی اس سختی کو بطریق استعارہ یوں تعبیر فرمایا کہ وہ ہزار سال کے برابر بن جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ بعینہٖ یہی مضمون سورۂ حج میں اس طرح آیا ہے:

وَإِنَّ یَوْماً عِندَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (۴۷)
’’اور تمہارے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار سے ہزار سالوں کے برابر کا ہوتا ہے۔‘‘

وہاں یہ آیت عذاب کے لیے لوگوں کی جلد بازی کے جواب میں وارد ہوئی ہے کہ جب ان کو عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس عذاب کی دھمکی ہم ایک مدت سے سن رہے ہیں لیکن وہ آیا نہیں، اگر اس کو آنا ہے تو آ کیوں نہیں جاتا! ان کے جواب میں فرمایا ہے کہ خدا کے کاموں کو اپنے محدود پیمانوں سے نہ ناپو۔ تمہارے دن چوبیس گھنٹوں کے ہوتے ہیں اس وجہ سے تمہیں چند سالوں کی مدت بھی بہت طویل محسوس ہوتی ہے لیکن خدا کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار سے ایک ہزار سال کے برابر کا ہوتا ہے اور اسی کے حساب سے اس کے سارے پروگرام اور منصوبے بنتے ہیں۔ تم اپنے دنوں کو پیش نظر رکھ کر گھبرانے لگتے ہو کہ فلاں بات پر اتنی مدت گزر گئی لیکن اب تک وہ واقع نہیں ہوئی، اور پھر اس سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہو کہ یہ دھمکی تمہیں جھوٹ موٹ سنائی گئی حالانکہ خدائی دنوں کے اعتبار سے ابھی اس پر ایک گھڑی بھی نہیں گزری ہوتی ہے۔
بعینہٖ اسی سیاق میں آیت زیربحث بھی وارد ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمام امر و تدبیر خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ اسی کی طرف سے احکام صادر بھی ہوتے ہیں اور پھر اسی کی طرف لوٹتے بھی ہیں لیکن یہ صادر ہونا اور لوٹنا سب خدائی دنوں کے حساب سے ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نہ ہر شخص ان کے نتائج سے آگاہ ہو سکتا اور نہ ہر شخص ان کی حکمت کو سمجھ سکتا ہے۔ بندوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ خدا کے معاملات میں جلد بازی نہ کریں بلکہ صبر کے ساتھ انتظار کریں۔

جاوید احمد غامدی

آسمان سے زمین تک وہی تمام معاملات کی تدبیر فرماتا ہے، پھر وہ اوپر اُس کی طرف لوٹتے ہیں، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھاری گنتی سے ہزار سال کے برابر ہے۔

یعنی ایسا نہیں ہے کہ اُس کی حکومت صرف آسمان تک محدود ہے اور زمین کا انتظام اُس نے کچھ دوسرے لوگوں کے سپرد کر رکھا ہے، جیسا کہ بعض احمق سمجھتے ہیں۔

یعنی اُس کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور وہ براہ راست دیکھتا ہے کہ کارکنان قضا و قدر نے کیا فرائض انجام دیے اور کس طرح انجام دیے ہیں۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ خدا کے معاملات کو سمجھنے میں انسان بعض اوقات جلد بازی کرنے لگتا ہے، دراں حالیکہ وہ ہزار ہزار سال کے لیے ایک ہی مرتبہ طے کرکے کارکنان قضا و قدرکے سپرد کر دیے جاتے ہیں اور خدا کی متعین کردہ حکمت کے مطابق سامنے آتے رہتے ہیں، لوگوں کی خواہش کے مطابق اُن میں ہر روز ترمیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ابو الاعلی مودودی

وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے

یعنی تمہارے نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس) کا کام ان کے سپرد کیا جائے۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ کفار عرب کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آجائے گا۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں۔ ان کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے :

وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ ۔ (آیت ٤٧)

یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے۔

دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے :

سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ (o لا) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ (o لا) مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ ۔ تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ O فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیلاً ا ِنَّھُمْ یَرَوْنَہ بَعِیْدًا (o لا) وَّنَرٰہ قَرِیْباً ط (المعارج۔ آیات ١۔ ٧)

پوچھنے والا پوچھتا ہے اس عذاب کو جو واقع ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے، اس خدا کی طرف سے جو چڑھتے درجوں والا ہے (یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا ) ۔ چڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔ پس اے نبی ! صبر جمیل سے کام لو۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔

ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے۔ کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہوگا، تو وہ قوم سخت احمق ہوگی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے برے نتائج سامنے آجائیں۔ ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں، صدیاں بھی کوئی بڑی مدت نہیں ہیں۔

جونا گڑھی

وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔

  آسمان سے، جہاں اللہ کا عرش اور لوح محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ زمین پر احکام نازل فرماتا ہے یعنی تدبیر کرتا اور زمین پر ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جیسے موت اور زندگی، صحت اور مرض، عطا اور منع، غنا اور فقر، جنگ اور صلح، عزت اور ذلت، وغیرہ، اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں اور تصرفات کرتا ہے۔ 

 یعنی پھر اس کی یہ تدبیر یا امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ہی دن میں جسے فرشتے لے کر جاتے ہیں اور صعود کا یا آنے جانے کا فاصلہ اتنا ہے کہ غیر فرشتہ ہزار سال میں طے کرے۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن انسانوں کے سارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اس یوم کی تعیین و تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے امام شوکانی نے ١٥، ١٦ اقوال اس ضمن میں ذکر کیے ہیں اس لیے حضرت ابن عباس نے اس کے بارے میں توقف کو پسند فرمایا اور اس کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ صاحب ایسر التفاسیر لکھتے ہیں کہ قرآن میں یہ تین مقامات پر آیا ہے اور تینوں جگہ الگ الگ دن مراد ہے۔ (وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 22 ۔ الحج :48) میں یوم کا لفظ عبارت ہے اس زمانہ اور مدت سے جو اللہ کے ہاں اور سورة معارج میں جہاں یوم کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے یوم حساب مراد ہے اور اس مقام زیر بحث میں یوم سے مراد دنیا کا آخری دن ہے جب دنیا کے تمام معاملات فنا ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔ 

ذَٰلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

امین احسن اصلاحی

وہ غائب و حاضر کا جاننے والا، عزیز و رحیم ہے۔

’ذٰلِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ‘۔ غیب اور حاضر کا جاننے والا اور عزیز و رحیم وہی ہے۔ دوسرے کسی کا بھی یہ درجہ نہیں ہے کہ وہ کائنات کے تمام اسرار سے واقف ہو سکے۔ وہ تمام غائب و حاضر سے واقف بھی ہے اور عزیز و رحیم بھی ہے۔ اس وجہ سے بندوں کو چاہیے کہ وہ کامل حسن ظن کے ساتھ اس پر بھروسہ کریں۔

ایک شبہ کا ازالہ: ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہی مضمون سورۂ معارج میں یوں وارد ہوا ہے:

تَعْرُجُ الْمَلّٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ(۴)
’’فرشتے اور جبریل اس کی طرف صعود کرتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔‘‘

بظاہر اس آیت اور اوپر کی آیت میں تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن یہ تضاد نہیں ہے۔ دنوں کا یہ تفاوت مداروں کے اختلاف پر مبنی ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے مختلف سیاروں کے دن الگ الگ ہیں۔ پھر یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ آیت زیربحث میں امور کے پیش کیے جانے کا ذکر ہے اور سورۂ معارج میں ملائکہ اور جبریل کی پیشی کا ذکر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ امور کی پیشی ہزار سال کے دن میں ہوتی ہو اور ملائکہ اور جبریل کی براہ راست پیشی کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو۔ یہ امور غیب ہیں۔ ان کے باب میں کوئی بات جزم کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی تاہم اتنی بات بالکل واضح ہے کہ دونوں آیتوں میں کوئی تناقض نہیں ہے۔ سورۂ حج کی تفسیر میں اس مسئلہ پر ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ سورۂ معارج کی تفسیر میں انشاء اللہ ہم اس کے بعض دوسرے گوشوں پر بھی نظر ڈالیں گے۔

جاوید احمد غامدی

وہ غائب و حاضر کا جاننے والا، زبردست اور رحیم ہے۔

اِس وجہ سے بندوں کو چاہیے کہ وہ پورے حسن ظن کے ساتھ اُسی پر بھروسا رکھیں، تھڑدلے ہو کر دوسروں کے دروازے پر نہ چلے جائیں۔

ابو الاعلی مودودی

وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ، زبردست ، اور رحیم

یعنی دوسرے جو بھی ہیں ان کے لیے ایک چیز ظاہر ہے تو بیشمار چیزیں ان سے پوشیدہ ہیں۔ فرشتے ہوں یا جن، یا نبی اور ولی اور برگزیدہ انسان، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو سب کچھ جاننے والا ہو۔ یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ اس پر ہر چیز عیاں ہے۔ جو کچھ گزر چکا ہے، جو کچھ موجود ہے، اور جو کچھ آنے والا ہے، سب اس پر روشن ہے۔

یعنی ہر چیز پر غالب۔ کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے ارادے میں مزاحم ہوسکے اور اس کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے۔ ہر شے اس سے مغلوب ہے اور کسی میں اس کے مقابلے کا بل بوتا نہیں ہے۔

یعنی اس غلبے اور قوت قاہرہ کے باوجود وہ ظالم نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر رحیم و شفیق ہے۔

جونا گڑھی

یہی ہے چھپے کھلے کا جاننے والا، زبردست غالب بہت ہی مہربان۔

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ

امین احسن اصلاحی

جس نے جو چیز بھی بنائی ہے خوب ہی بنائی ہے! اس نے انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا۔

انذار قیامت کے لیے تمہید صفات الٰہی سے: اللہ تعالیٰ کی صفات عالم الغیب والشہادۃ اور عزیز و رحیم کو بنیاد قرار دے کر آگے قیامت کے انذار کے لیے تمہید استوار فرمائی کہ یہ اللہ ہی ہے جس نے جو چیز بھی بنائی خوب بنائی۔ یعنی اس نے جو چیز بھی بنائی ہے اس کی قدرت، حکمت، ربوبیت اور اس کے لیے نہایت علم کی شاہد ہے۔ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی لے کر انسان اگر اس پر غور کرے تو اس کی عقل صانع کی صنعت و کاریگری پر دنگ رہ جاتی ہے اور وہ بے خود ہو کر پکار اٹھتا ہے کہ ’تَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ‘ (بڑی ہی بابرکت ذات ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا!!) یہیں سے انسان پر اس حقیقت کا دروازہ کھلتا ہے کہ جو ذات اتنی قدرت رکھنے والی، اتنی حکیم، اتنی باریک بیں اور ایسی رحمان و رحیم ہے اس کی نسبت یہ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اتنا بڑا عالم بالکل بے مقصد کھڑا کر دے۔ پس ضرور ہے کہ اس کے بعد ایک ایسا دن آئے جس میں وہ حق و باطل میں امتیاز کرے۔ ان لوگوں کو جزا دے جنھوں نے اس کی نعمتوں کا حق پہچانا اور ان لوگوں کو سزا دے جنھوں نے اس دنیا میں اندھوں بہروں کی زندگی گزاری، نہ انھوں نے خود اس کی حکمتوں پر غور کیا اور نہ دوسرے غور کرنے والوں کی باتوں کو لائق اعتناء سمجھا۔

خدا کی قدرت کا کرشمہ ۔۔۔ انسان: ’بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ‘۔ اوپر والے ٹکڑے میں یہ بات جو فرمائی ہے کہ اس نے جو چیز بھی بنائی خوب بنائی، اس کے ثبوت میں خارج کی مثالیں پیش کرنے کے بجائے خود انسان ہی کی خلقت کو بطور مثال پیش کیا ہے کہ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود اپنی ہی خلقت کے مراحل و مدارج پر غور کرو اور دیکھو کہ خدا کی قدرت و حکمت اور اس کی ربوبیت کی کیا کیا شانیں تمھارے اندر ظاہر ہوئی ہیں! فرمایا کہ یہ انسان جو آج اپنی قابلیتوں پر اتنا نازاں ہے، اس کا آغاز خدائے حکیم و قدیر نے کسی بڑے قیمتی جوہر سے نہیں کیا بلکہ مٹی سے کیا، اسی سے اس کا قالب بنا اور اسی مٹی کے اندر سے اس کے اندر زندگی کی حرکت نمودار ہوئی لیکن دیکھو خالق کی قدرت و حکمت کہ اس نے مٹی کے لوندے کو کیا سے کیا بنا دیا!!

جاوید احمد غامدی

اُس نے جو چیز بھی بنائی ہے، خوب ہی بنائی ہے۔ انسان کی تخلیق کا آغاز اُس نے مٹی سے کیا۔

یعنی ایسی متناسب، موزوں اور اپنے اوصاف و خصائص کے لحاظ سے ایسی کامل بنائی ہے کہ اُس میں نہ کسی نقص کی نشان دہی کی جا سکتی ہے، نہ کوئی ترمیم پیش کی جا سکتی ہے۔

یہ پہلے مرحلے کا بیان ہے، جب انسان کا حیوانی وجود تخلیق ہوا۔ اِس کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو انسان کی پیدایش کے لیے اب اختیار کیا جاتا ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ اب جو عمل ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، اُس وقت زمین کے پیٹ میں ہوا ۔ چنانچہ مٹی کے وہی اجزا جو غذا کی صورت میں ہمارے اندر جاتے اور حقیر پانی کے خلاصے میں تبدیل ہو کر اُس عمل کی ابتدا کرتے ہیں جس سے انسان بنتے ہیں، اُس وقت سڑے ہوئے گارے کے اندر اِسی عمل سے گزرے۔ یہاں تک کہ جب خلقت پوری ہوگئی تو اوپر سے وہی گارا انڈے کے خول کی طرح خشک ہو گیا جس کے ٹوٹنے سے جیتی جاگتی ایک مخلوق نمودار ہوئی جسے انسان کا حیوانی وجود کہنا چاہیے۔ اِس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دوسری تمام مخلوقات بھی پہلی مرتبہ اِسی طریقے سے وجود میں آئیں۔

ابو الاعلی مودودی

جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی،

یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بےحد و حساب چیزیں بنائی ہیں، مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بےڈھنگی اور بےتکی ہو۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے۔ ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اس کے لیے موزوں ترین شکل پر، مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے۔ دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے، اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے چاہییں۔ تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے تقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کرسکتے ہو۔

جونا گڑھی

جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی ۔

  یعنی جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، وہ چوں کہ اس کی حکمت و مصلحت کا اعتدال ہے، اس لئے اس میں اپنا ایک حسن اور انفرادیت ہے۔ یوں اس کی بنائی ہوئی ہر چیز حسین ہے اور بعض نے اَ حْسَنَ کے معنی اَتْکُنَ و اَحْکَمَ کے کئے ہیں، یعنی ہر چیز مضبوط اور پختہ بنائی۔ بعض نے اسے اَ لْھَمَ کے مفہوم میں لیا یعنی ہر مخلوق کو ان چیزوں کا الہام کردیا جس کی وہ محتاج ہے۔ 

یعنی انسان اول آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا جن سے انسانوں کا آغاز ہوا اور اس کی زوجہ حضرت حوا کو آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کردیا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ 

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ

امین احسن اصلاحی

پھر اس کی نسل حقیر پانی کے خلاصہ سے چلائی۔

انسان کی خلقت کا دوسرا مرحلہ: ’ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ‘۔ یہ انسان کی خلقت کے دوسرے مرحلہ کی طرف اشارہ ہے کہ دوسرے مرحلے میں اس کی حیثیت یہ ہوئی کہ مٹی کے بجائے اس کی نسل کے چلنے کا ذریعہ حقیر و ناپاک پانی کا خلاصہ بنا۔

جاوید احمد غامدی

پھر اُس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی۔

یہ دوسرا مرحلہ ہے جس میں اِس طرح بنائی جانے والی مخلوق نے اپنی نسل آپ پیدا کرنی شروع کر دی۔ چنانچہ وہی عمل جو زمین کے پیٹ میں ہوا تھا، اب وہ ماں کے پیٹ میں ہونے لگا۔ یہ انسان کا وہ دور ہے، جب وہ علم و ادراک سے محروم محض ایک ناتراشیدہ حیوان تھا۔

ابو الاعلی مودودی

پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے ،

یعنی پہلے اس نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل (Direct Creation) سے انسان کو پیدا کیا، اور اس کے بعد خود اسی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں۔ ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کر کے ایک تخلیقی حکم سے اس میں وہ زندگی اور وہ شعور و تعقل پیدا کردیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آگئی۔ اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لیے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

یہ آیت قرآن مجید کی ان آیات میں سے ہے جو انسان اول کی براہ راست تخلیق کی تصریح کرتی ہیں۔ ڈارون کے زمانہ سے سائنس داں حضرات اس تصور پر بہت ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور بڑی حقارت کے ساتھ وہ اس کو ایک غیر سائنٹیفک نظریہ قرار دے کر گویا پھینک دیتے ہیں۔ لیکن انسان کی نہ سہی، تمام انواع حیوانی کی نہ سہی، اولین جرثومۂ حیات کی براہ راست تخلیق سے تو وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ اس تخلیق کو نہ مانا جائے تو پھر یہ انتہائی لغو بات ماننی پڑے گی کہ زندگی کی ابتدا محض ایک حادثہ کے طور پر ہوئی ہے، حالانکہ صرف ایک خلیّہ (Cell) والے حیوان میں زندگی کی سادہ ترین صورت بھی اتنی پیچیدہ اور نازک حکمتوں سے لبریز ہے کہ اسے حادثہ کا نتیجہ قرار دینا اس سے لاکھوں درجہ غیر سائنٹیفک بات ہے جتنا نظریۂ ارتقاء کے قائلین نظریۂ تخلیق کو ٹھہراتے ہیں۔ اور اگر ایک دفعہ آدمی یہ مان لے کہ حیات کا پہلا جرثومہ براہ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا، پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوع حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے، اور پھر اس نسل تناسل (Procreation) کی مختلف صورتوں سے چلی ہے۔ اس بات کو مان لینے سے وہ بہت سی گتھیاں حل ہوجاتی ہیں جو ڈارونیت کے علمبرداروں کی ساری سائنٹیفک شاعری کے باوجود ان کے نظریۂ ارتقاء میں غیر حل شدہ رہ گئی ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحات ٢٥٩۔ ٣١٩۔ ٥٦٦۔ جلد دوم، صفحات ١٠۔ ١١۔ ١٠٦۔ ٥٠٤۔ جلد سوّم، صفحات ٢٠١۔ ٢٦٩) ۔

جونا گڑھی

پھر اس کی نسل ایک بےوقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی

 یعنی منی کے قطرے سے، مطلب یہ ہے کہ ایک انسانی جوڑا بنانے کے بعد، اس کی نسل کے لئے ہم نے یہ طریقہ مقرر کردیا کہ مرد اور عورت آپس میں نکاح کریں، ان کے جنسی ملاپ سے جو قطرہ آب، عورت کے رحم میں جائے گا، اس سے ہم ایک انسانی پیکر تراش کر باہر بھیجتے رہیں گے۔ 

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

امین احسن اصلاحی

پھر اس کے نوک پلک سنوارے اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے ۔۔۔ تم بہت ہی کم شکر گزار ہوتے ہو!

تیسرا مرحلہ: ’ثُمَّ سَوّٰہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ‘۔ ’تسویۃ‘ کے معنی، جیسا کہ اس کے محل میں ہم واضح کر چکے ہیں، کسی چیز کو سنوارنے اور اس کی نوک پلک درست کرنے کے ہیں۔ آرٹ کی اصطلاح میں جس چیز کو تکمیلی یا اتمامی عمل (FINISHING TOUCH) کہتے ہیں ٹھیک وہی مفہوم ’تَسْوِیَۃ‘ کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تیسرے مرحلے میں آ کر اس نے مٹی سے بنے ہوئے اس انسان کے نوک پلک سنوارے اور اس کے اندر اپنی روح پھونکی تب اس کے اندر سمع و بصر اور دل کی وہ صلاحیتیں نمودار ہوئیں جو دوسری حیوانی مخلوقات کے مقابل میں اس کے لیے وجہ امتیاز بنیں۔

انسان کا اصلی شرف: ’نَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ‘ میں روح سے مراد وہ روح ہے جس کو ہم روحِ ملکوتی سے تعبیر کرتے ہیں۔ انسان کے اندر حیوانی روح کے ساتھ ایک نورِ یزدانی (DIVINE SPARK) بھی ہے اور اسی نور کے فیض سے انسان کے سمع و بصر اور فواد میں وہ روشنی پیدا ہوئی ہے جس سے اس کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ اگر اس روشنی سے وہ محروم ہو جائے تو پھر اس کا باطن بھی اسی طرح تیرہ و تار ہے جس طرح حیوانات کا ہے۔ کان، آنکھ اور دل حیوانات کے پاس بھی ہیں لیکن وہ نوریزدانی سے محروم ہیں اس وجہ سے ان کے کانوں، آنکھوں اور دلوں میں وہ صلاحیت نہیں ہے جو انسان کے سمع و بصر اور دل میں ہے۔ اگر انسان اپنے کو اس نور سے محروم کر لے تو پھر وہ بھی ایک حیوان ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اس نور کو باقی رکھنا اور اس کو بڑھانا یا گھٹانا انسان کے اپنے اختیار پر منحصر ہے۔ جو لوگ اس کی قدر کرتے اور اس کے حقوق ادا کرتے ہیں وہ اس میں اضافہ کرتے ہیں اور ان کے اندر یہ قوی سے قوی تر ہوتا جاتا ہے اور جو لوگ اس کی قدر نہیں کرتے ان کے اندر یہ ضعیف ہوتے ہوتے بالکل ہی بجھ جاتا ہے۔
’مِنْ رُّوْحِہٖ‘ میں اضافت سے مقصود فی الجملہ اس روح کے اختصاص کا اظہار ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فیوض و برکات میں سے ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حصہ ہے۔ اس غلط فہمی پر تنبیہ اس لیے ہم نے ضروری سمجھی ہے کہ وحدت الوجود کی گمراہیوں میں بڑا دخل اسی غلط فہمی کا ہے۔
تسویہ اور نفخِ روح سے پہلے انسان حیوانیت کے دور میں تھا: اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تسویہ اور نفخ روح سے پہلے انسان پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب انسان حیوانات کی طرح ناتراشیدہ اور بصیرت و ادراک سے محروم تھا۔ اس دور کے بعد تسویہ نے اس کے ظاہر کو سنوارا اور نفخ روح نے اس کے باطن کو منور کیا۔
خلاصۂ بحث: ’قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ‘۔ یعنی اپنی خلقت کے ان تمام مراحل پر غور کرو کہ کس طرح خدا نے تمھارا آغاز کیا اور پھر کس درجے تک تم کو پہنچایا! حق تھا کہ تمھارا بال بال اپنے رب کی اس عنایت و ربوبیت کا شکرگزار ہوتا اور جو نعمتیں و صلاحیتیں اس نے تم کو بخشیں ان کو تم اس کی رضا کے کاموں میں استعمال کرتے لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ تم بہت ہی کم اس کے شکرگزار ہوتے ہو۔

جاوید احمد غامدی

پھر اُس کے نوک پلک سنوارے اور اُس میں اپنی روح پھونک دی اور تمھارے (سننے کے) لیے کان اور (دیکھنے کے لیے)آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے)دل بنا دیے ۔۔۔ تم کم ہی شکرگزار ہوتے ہو!

یہ تیسرا مرحلہ ہے جس میں غالباً کئی نسلوں کے اختلاط سے انسان کے حیوانی وجود کو نک سک سے درست کیا گیا، یہاں تک کہ وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے انسان کی شخصیت عطا کی جائے۔ چنانچہ اِس مخلوق کے جو افراد اُس وقت موجود تھے، اُن میں سے دو کا انتخاب کرکے خدا کی طرف سے ایک لطیف پھونک کے ذریعے سے جسے قرآن میں روح کہا گیا ہے، یہ شخصیت اُسے عطا کر دی گئی۔ یہی آدم و حوا تھے۔ اِس کے بعد جو انسان پیدا ہوئے، وہ سب اِنھی کی اولاد ہیں۔

قرآن کے اِس بیان سے، اگر غور کیجیے تو اُن تمام آثار کی نہایت معقول توجیہ ہو جاتی ہے جو سائنسی علوم کے ماہرین نے اب تک دریافت کیے ہیں اور جنھیں ڈاروینیت کے علم بردار اپنی تائید میں پیش کرتے اور اِس طرح اُن گتھیوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اُن کے نظریے میں نہ پہلے حل ہوئی ہیں، نہ آیندہ کبھی ہوں گی۔
یہ نفخ روح کا نتیجہ ہے جس نے بصیرت و ادراک سے محروم ایک حیوان کے اندر سمع و بصراور دل و دماغ کی وہ صلاحیتیں پیدا کر دیں جو تمام حیوانات کے مقابل میں اُس کے لیے وجہ امتیاز ہیں۔ چنانچہ اب وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے مخاطب کرکے یہ کہا جا سکے کہ ہم نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دیے۔ قرآن نے اِسی بنا پر صیغۂ غائب کو یہاں پہنچ کر صیغۂ خطاب میں تبدیل کر دیا ہے۔
یعنی اِس کے باوجود کہ اِن سب مراحل سے گزر کر اُس مقام تک پہنچے ہو، جہاں اب اپنے آپ کو دیکھ رہے ہو، لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ چنانچہ کبھی خدا کا انکار کرتے اور کبھی اُس کے شریک ٹھیرانے لگتے ہو۔

ابو الاعلی مودودی

پھر اسے نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی ، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے ۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو

یعنی انتہائی باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء وجوارح کے ساتھ مکمل کردیا۔

روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل وتمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقات ارضی سے ممتاز ایک صاحب شخصیت ہستی، صاحب انا ہستی، اور حامل خلافت ہستی بنتا ہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی ملک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہو کر اس کی چیز کہلاتی۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو ہیں۔ ان کا سر چشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔ یہ اوصاف کسی بےعلم، بےدانش اور بےاختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوّم، صفحات ٥٠٤۔ ٥٠٥) ۔

یہ ایک لطیف انداز بیان ہے۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا۔ ” اس کی تخلیق کی “، ” اس کی نسل چلائی “، ” اس کو نِک سک سے درست کیا “، ” اس کے اندر روح پھونکی “۔ اس لیے اس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا۔ پھر جب روح پھونک دی گئی تو اب اس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ” تم کو کان دیے “، ” تم کو آنکھیں دیں “، ” تم کو دل دیے ” اس لیے کہ حامل روح ہوجانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اسے مخاطب کیا جائے۔

کان اور آنکھوں سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ حصول علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامہ بھی ہیں، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد ” دل ” سے مراد وہ ذہن (Mind) ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف امکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :18

یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ دل تمہیں اس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کر دو، اور اس سے کچھ اونچے اٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذتوں میں غرق ہوجاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوا بنانا چاہیے تھا۔

جونا گڑھی

جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اس نے روح پھونکی اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو

  یعنی اس بچے کی ماں کے پیٹ میں نشو و نما کرتے، اس کے اعضا بناتے، سنوارتے ہیں اور پھر اس میں روح پھونکتے ہیں۔ 

 یعنی ساری چیزیں پیدا کیں تاکہ وہ اپنی تخلیق کی تکمیل کر دے، پس تم سننے والی بات کو سن سکو دیکھنے والی چیز کو دیکھ سکو اور ہر عقل و فہم میں آنے والی بات کو سمجھ سکو۔ 

 یعنی اتنے احسانات کے باوجود انسان اتنا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بہت ہی کم ادا کرتا ہے یا شکر کرنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں۔ 

وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ

امین احسن اصلاحی

اور کہتے ہیں کہ کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے تو ہم پھر نئی خلقت میں آئیں گے! بلکہ یہ لوگ اپنے رب کے آگے پیشی کے منکر ہیں۔

سب کچھ دیکھنے کے بعد انسان کی بے بصیرتی: یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو سمع و بصر اور ادراک و تعقل کی جو صلاحیتیں بخشی تھیں وہ اس لیے بخشی تھیں کہ ان سے وہ کام لیں اور خدا کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت کے آثار کے مشاہدہ سے اس نتیجے تک پہنچیں کہ یہ دنیا عبث نہیں پیدا ہوئی ہے اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس کے بعد ایک ایسا دن آئے جس دن ہر شخص اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اپنے رب کے حضور حاضر کیا جائے اور وہ جزا یا سزا پائے، لیکن اس انسان کی کج فہمی کا یہ حال ہے کہ جب اس کو قیامت سے ڈرایا جاتا ہے تو خدا کی قدرت کی اتنی شانیں دیکھنے کے باوجود، وہ طنز و استہزاء کے ساتھ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا جب ہم گل سڑ کر زمین میں رل مل جائیں گے تو اس کے بعد ازسرنو زندہ کیے جائیں گے!!

قیامت کے انکار کے لیے ایک بہانہ: ’بَلْ ہُمْ بِلِقَایئ رَبِّہِمْ کَافِرُوۡنَ‘۔ یعنی یہ باتیں سب اوپر کے بہانے ہیں۔ آخر خدا کی اتنی شانیں اپنے وجود کے اندر اور باہر دیکھتے ہوئے یہ اتنے غبی کس طرح ہو سکتے ہیں کہ اپنے دوبارہ پیدا کیے جانے کو اس کی قدرت سے بعید سمجھیں! اصل چیز یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کے آگے پیشی اور اعمال کی جواب دہی کے منکر ہیں، اس چیز کو تسلیم کرنا ان کے دلوں پر بہت شاق ہے اس وجہ سے اس سے گریز کے لیے یہ تمام عقلی استمالے اور شبہات گھڑے اور اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ بسا اوقات انسان انکار تو کسی اور چیز کا کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے انکار کے لیے بہانہ کسی اور چیز کو بناتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ براہ راست اس حقیقت کے انکار کی کچھ زیادہ گنجائش وہ نہیں پاتا۔ مشرکین عرب کا حال بھی یہی تھا۔ وہ خدا کے قائل تھے اس وجہ سے خدا کے آگے پیشی کا صریح انکار ان کے لیے مشکل تھا لیکن اس کو ماننے سے جو بھاری ذ مہ داریاں عائد ہوتی تھیں وہ ان کے لیے تیار نہیں تھے اس وجہ سے اس سے گریز کے لیے اول تو وہ قیامت پر اس قسم کے شبہات وارد کرتے تھے جس کی ایک مثال اوپر گزری اور بدرجۂ آخر اس کو مانتے تھے تو اس کے نتائج سے بچاؤ کے لیے انھوں نے شرکاء و شفعاء ایجاد کر لیے تھے۔

جاوید احمد غامدی

(یہ اُس خدا کی شانیں ہیں جس نے اِنھیں پیدا کیا ہے۔ اِس کے باوجود) کہتے ہیں کہ جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے تو کیا پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟ (نہیں، یہ اِس کو بعید نہیں سمجھتے)، بلکہ یہ اپنے پروردگار کے حضور پیشی کے منکر ہیں۔

یعنی طنز و استہزا کے ساتھ سوال کرتے ہیں۔

یعنی ایسے غبی نہیں ہیں کہ خدا کی یہ شانیں دیکھتے ہوئے اپنے دوبارہ پیدا کیے جانے کو اُس کی قدرت سے بعید سمجھیں۔
یعنی اِس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ایک دن خدا کے آگے پیش ہو کر اعمال کی جواب دہی کرناہو گی ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ بسا اوقات انسان انکار تو کسی اور چیز کا کرنا چاہتا ہے، لیکن اُس کے انکار کے لیے بہانہ کسی اور چیز کو بناتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ براہ راست اُس حقیقت کے انکار کی کچھ زیادہ گنجایش وہ نہیں پاتا۔ مشرکین عرب کا حال بھی یہی تھا۔ وہ خدا کے قائل تھے، اِس وجہ سے خدا کے آگے پیشی کا صریح انکار اُن کے لیے مشکل تھا، لیکن اُس کو ماننے سے جو بھاری ذ مہ داریاں عائد ہوتی تھیں، وہ اُن کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ اِس وجہ سے اُس سے گریز کے لیے اول تو وہ قیامت پر اُس قسم کے شبہات وارد کرتے تھے جس کی ایک مثال اوپر گزری اور بدرجۂ آخر اُس کو مانتے بھی تھے تو اُس کے نتائج سے بچاؤ کے لیے اُنھوں نے شرکا و شفعا ایجاد کر لیے تھے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۶۲)

ابو الاعلی مودودی

اور یہ لوگ کہتے ہیں ” جب ہم مٹی میں رل مل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ” ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں

رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بنیادی عقیدے یعنی آخرت پر ان کے اعتراض کو لے کر اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمون ماسبق سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے۔ گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ ” وہ کہتے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول نہیں ہیں “، اور ” وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کر دوبارہ نہ اٹھیں گے “۔

اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کفار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کا محض نقل کردینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دو اجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ” ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے ” آخر کیا معنی رکھتا ہے۔ ” ہم ” جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رلتی ملتی ہے ؟ ( مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے ” ہم ” نکل چکا ہوتا ہے۔ اس جسم کا نام ” ہم ” نہیں ہے۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پر عضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر ” ہم ” ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اس کا کوئی جز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا۔ اور جب یہ ” ہم ” کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ” ہم ” کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مردہ جسم کو لے جا کر دفن کردیتا ہے، کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس خالی جسم کو دفن کرتا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا۔ پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بےبنیاد ہے۔ رہا اس کا دوسرا جز : ” کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ” ؟ تو یہ انکار و تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلی اس ” ہم ” اور اس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پر ایک لمحہ کے لیے کچھ غور کرلیا ہوتا۔ اس ” ہم ” کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہ کہیں کوئلہ اور کہیں سے لوہا اور کہیں سے چونا اور اسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کا لبد خاکی میں یہ ” ہم ” براجمان ہوگیا۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس لبد خاکی میں سے جب ” ہم ” نکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ” ہم ” کو یہ مکان بنا کردیا تھا، کیا وہ دوبارہ اسی سر و سامان سے وہی مکان بنا کر اسے از سرنو اس میں نہیں بسا سکتا ؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہوچکی ہے، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے ؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال کرے تو خود ہی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنی عقل کو اس رخ پر کیوں نہیں جانے دیتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بےسوچے سمجھے حیات بعد الموت اور آخرت پر اس طرح کے لایعنی اعتراضات جڑتا ہے ؟ بیچ کی ساری بحث چھوڑ کر اللہ تعالیٰ دوسرے فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ” دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں “۔ یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید از امکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آسکتی ہو، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھوٹے پھریں اور دل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ (Scot-ires) یہاں سے نکل جائیں۔ پھر ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے۔

جونا گڑھی

اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے ؟ بلکہ (بات یہ ہے) کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں۔

 جب کسی چیز پر کوئی دوسری چیز غالب آجائے اور پہلی کے تمام اثرات مٹ جائیں تو اس کو ضلالت (گم ہوجانے) سے تعبیر کرتے ہیں ضَلَلُنَا فِیْ الْاَرْضِ کے معنی ہوں کے کہ جب مٹی میں مل کر ہمارا وجود زمین میں غائب ہوجائے گا۔ 

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >