یہ سورۂ ’طٰسٓمّٓ‘ ہے۔
یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
ط۔ س۔ م۔
طسم
یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔
آفتاب آمد دلیل آفتاب! ’کتاب مبین‘ سے مراد ظاہر ہے کہ قرآن مجید ہے جس نے نہایت فصیح و بلیغ زبان میں اپنی دعوت کے ہر پہلو کوگوناگوں اسلوبوں سے بالکل مدلل و مبرہن کر دیا ہے۔ قرآن کی اس صفت کے ذکر سے یہاں مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ آپ جو کتاب لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ اپنی صحت و صداقت کی خود سب سے بڑی دلیل ہے۔ کسی خارجی شہادت کی محتاج نہیں ہے اس وجہ سے جو لوگ اس کی تصدیق کے لیے کسی معجزہ یا نشانئ عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کا مطالبہ درخور اعتناء نہیں ہے، آپ اس کی پروا نہ کریں۔ آفتاب اپنی دلیل خود ہوتا ہے۔ اس پر خارج سے کوئی دلیل قائم نہیں کی جاتی۔
یہ اُس کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنا مدعا وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا جو مضمون آگے آ رہا ہے، یہ اُس کی تمہید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بات ایسی واضح اور مبرہن ہے کہ اُس کے لیے کسی خارجی شہادت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ آپ ہی اپنی دلیل ہے۔ لہٰذا جو نشانیاں اور معجزات یہ مانگ رہے ہیں، اُن کے لیے آپ اِن کی کوئی پروا نہ کریں۔
یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔
یعنی یہ آیات جو اس سورے میں پیش کی جا رہی ہیں، اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف کھول کر بیان کرتی ہے۔ جسے پڑھ کر یا سن کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ کس چیز کی طرف بلاتی ہے، کس چیز سے روکتی ہے، کسے حق کہتی ہے اور کسے باطل قرار دیتی ہے۔ ماننا یا نہ ماننا الگ بات ہے، مگر کوئی شخص یہ بہانہ کبھی نہیں بنا سکتا کہ اس کتاب کی تعلیم اس کی سمجھ میں نہیں آئی اور وہ اس سے یہ معلوم ہی نہ کرسکا کہ وہ اس کو کیا چیز چھوڑنے اور کیا اختیار کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔
قرآن کو الکِتَابُ الْمُبِیْن کہنے کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے، اور وہ یہ کہ اس کا کتاب الہیٰ ہونا ظاہر و باہر ہے۔ اس کی زبان، اس کا بیان، اس کے مضامین، اس کے پیش کردہ حقائق، اور اس کے حالات نزول، سب کے سب صاف صاف دلالت کر رہے ہیں کہ یہ خداوند عالم ہی کی کتاب ہے۔ اس لحاظ سے ہر فقرہ جو اس کتاب میں آیا ہے ایک نشانی اور ایک معجزہ (آیت) ہے۔ کوئی شخص عقل و خرد سے کام لے تو اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا یقین کرنے کے لیے کسی اور نشانی کی حاجت نہیں، کتاب مبین کی یہی آیات (نشانیاں) اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہیں۔
یہ مختصر تمہیدی فقرہ اپنے دونوں معنوں کے لحاظ سے اس مضمون کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے جو آگے اس سورة میں بیان ہوا ہے۔ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزہ مانگتے تھے تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر انہیں اطمینان ہو کہ واقعی آپ یہ پیغام خدا کی طرف سے لائے ہیں۔ فرمایا گیا کہ اگر حقیقت میں کسی کو ایمان لانے کے لیے نشانی کی طلب ہے تو کتاب مبین کی یہ آیات موجود ہیں۔ اسی طرح کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام رکھتے تھے کہ آپ شاعر یا کاہن ہیں۔ فرمایا گیا کہ یہ کتاب کوئی چیستاں اور معما تو نہیں ہے۔ صاف صاف کھول کر اپنی تعلیم پیش کر رہی ہے۔ خود ہی دیکھ لو کہ یہ تعلیم کسی شاعر یا کاہن کی ہو سکتی ہے ؟
یہ آیتیں روشن کتاب کی ہیں
شاید تم اپنے آپ کو اس فکر میں ہلاک کر کے رہو گے کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں بنتے!
دل نواز تسلی: وہی تسلی کا مضمون جو اوپر والی آیت میں مخفی تھا اس آیت میں نہایت دل نواز پیرائے میں واضح ہو گیا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے ارشاد ہوا ہے کہ ان لوگوں کا اس ’کتاب مبین‘ پر ایمان نہ لانا آپ کے دل پر اتنا شاق ہے کہ معلوم ہوتا ہے آپ اس غم میں اپنے کو ہلاک کر کے رہیں گے حالانکہ قصور نہ آپ کا ہے نہ اس کتاب کا، سارا قصور ان لوگوں کا خود اپنا ہے کہ ایک بالکل واضح حقیقت کو جھٹلانے کے لیے مختلف قسم کے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ آپ کی ذمہ داری صرف تبلیغ ہے۔ اس کا حق آپ نے پورا پورا ادا کر دیا اور ادا کر رہے ہیں، پھر ایسے ناقدروں کے پیچھے آپ اپنے کو کیوں ہلکان کریں!
شاید تم اِس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ ایمان نہیں لاتے۔
n/a
اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حالت کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً سورة کہف میں فرمایا : فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلیٰٓ اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّم یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفاً ۔ ” شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے “۔ (آیت 6) ۔ اور سورة فاطر میں ارشاد ہوا فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍ ۔ ” ان لوگوں کی حالت پر رنج و افسوس میں تمہاری جان نہ گھلے ” (آیت 8) ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں اپنی قوم کی گمراہی و ضلالت، اس کی اخلاقی پستی، اس کی ہٹ دھرمی، اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں اس کی مزاحمت کا رنگ دیکھ دیکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برسوں اپنے شب و روز کس دل گداز و جاں گُسِل کیفیت میں گزارتے رہے ہیں۔ بَخع کے اصل معنی پوری طرح ذبح کر ڈالنے کے ہیں۔ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ کے لغوی معنی یہ ہوئے کہ تم اپنے آپ کو قتل کیے دے رہے ہو۔
ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھو دیں گے
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسانیت سے جو ہمدردی اور ان کی ہدایت کے لئے جو تڑپ تھی، اس میں اس کا اظہار ہے۔
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی نشانی اتار دیں پس ان کی گردنیں اس کے آگے جھکی ہی رہ جائیں۔
عربیت کا ایک اسلوب: آیت میں بظاہر ’خٰضِعِیْنَ‘ کی جگہ ’خَاضِعَۃ‘ ہونا تھا لیکن ’اَعْنَاقُھُمْ‘ میں مضاف الیہ کی رعایت سے ’خٰضِعِیْنَ‘ آیا ہے۔ یہ عربی زبان کا ایک معروف اسلوب ہے۔ اس کی بعض مثالیں پیچھے بھی گزر چکی ہیں۔
پیغمبرؐ کے لیے تسلی اور مخالفین کے لیے تہدید: اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کے ساتھ کفار کے لیے دھمکی بھی مضمر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اس کتاب پر ایمان لانے کے لیے کوئی نشانی دیکھنے ہی پر اڑے ہوئے ہیں تو یاد رکھیں کہ ہمارے پاس نشانیوں کی کمی نہیں ہے۔ ہم جب چاہیں آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار سکتے ہیں جس کے آگے سب کی گردنیں جھک جائیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ سوچ سمجھ کر اپنے اختیار و ارادہ سے ایمان لائیں۔ ہمارے ہاں معتبر ایمان وہی ہے جو اختیار و ارادہ کے ساتھ لایا جائے نہ کہ مجبور ہو کر۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تسلی ہے کہ جب ایمان کے باب میں سنت الٰہی یہ ہے تو آپ ان لوگوں کے مطالبات سے پریشان کیوں ہوں، ان کے معاملے کو خدا پر چھوڑ دیں!
اگر ہم چاہیں تو اِن پر آسمان سے کوئی نشانی اتار دیں کہ اِن کی گردنیں اُس کے سامنے جھک کر رہ جائیں۔
مطلب یہ ہے کہ ہم یہ بھی کر سکتے ہیں، لیکن جب ارادہ و اختیار کا امتحان مقصود ہے تو اِس کی گنجایش نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ سمجھا رہے ہیں تو آپ کو بھی اِن کے مطالبات سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
آیت میں ’خاضعۃ‘ کی جگہ ’خٰضِعِیْنَ‘ مضاف الیہ کی رعایت سے آ گیا ہے۔ یہ عربیت کا معروف اسلوب ہے۔
ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کرسکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔
یعنی کوئی ایسی نشانی نازل کردینا جو تمام کفار کو ایمان وطاعت کی روش اختیار کرنے پر مجبور کر دے، اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ کام اس کی قدرت سے باہر ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کا جبری ایمان اس کو مطلوب نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ عقل و خرد سے کام لے کر ان آیات کی مدد سے حق کو پہچانیں جو کتاب الہیٰ میں پیش کی گئی ہیں، جو تمام آفاق میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، جو خود ان کی اپنی ہستی میں پائی جاتی ہیں۔ پھر جب ان کا دل گواہی دے کہ واقعی حق وہی ہے جسے انبیاء (علیہم السلام) نے پیش کیا ہے، اور اس کے خلاف جو عقیدے اور طریقے رائج ہیں وہ باطل ہیں، تو جان بوجھ کر باطل کو چھوڑیں اور حق کو اختیار کریں۔ یہی اختیاری ایمان اور ترک باطل اور اتباع حق وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ انسان سے چاہتا ہے۔ اسلیے اس نے انسان کو ارادے اور اختیار کی آزادی دی ہے۔ اسی بنا پر اس نے انسان کو یہ قدرت عطا کی ہے کہ صحیح اور غلط، جس راہ پر بھی وہ جانا چاہے جاسکے۔ اسی وجہ سے اس نے انسان کے اندر خیر اور شر کے دونوں رجحانات رکھ دیے ہیں، فجور اور تقویٰ کی دونوں راہیں اس کے آگے کھول دی ہیں، شیطان کو بہکانے کی آزادی عطا کی ہے، نبوت اور وحی اور دعوت خیر کا سلسلہ راہ راست دکھانے کے لیے قائم کیا ہے، اور انسان کو انتخاب راہ کے لیے ساری مناسب حال صلاحیتیں دے کر اس امتحان کے مقام پر کھڑا کردیا ہے کہ وہ کفر و فسق کا راستہ اختیار کرتا ہے یا ایمان وطاعت کا۔ اس امتحان کا سارا مقصد ہی فوت ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کوئی ایسی تدبیر اختیار فرمائے جو انسان کو ایمان اور اطاعت پر مجبور کردینے والی ہو۔ جبری ایمان ہی مطلوب ہوتا تو نشانیاں نازل کر کے مجبور کرنے کی کیا حاجت تھی، اللہ تعالیٰ انسان کو اسی فطرت اور ساخت پر پیدا فرما سکتا تھا جس میں کفر، نافرمانی اور بدی کا کوئی امکان ہی نہ ہوتا، بلکہ فرشتوں کی طرح انسان بھی پیدائشی فرماں بردار ہوتا۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف متعدد مواقع پر قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا : وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعاً اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّیٰ یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۔۔ ” اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین کے رہنے والے سب کے سب لوگ ایمان لے آتے۔ اب کیا تم لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرو گے ” ؟ (یونس، آیت 99) ۔ اور : وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ ۔ ” اگر تیرا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنا سکتا تھا۔ وہ تو مختلف راہوں پر ہی چلتے رہیں گے (اور بےراہ رویوں سے) صرف وہی بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی لیے تو اس نے ان کو پیدا کیا تھا “۔ (ہود۔ آیت 119) ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم (یونس، حواشی 101 ۔ 102 ۔ ہود، حاشیہ 116 ) ۔
اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہوجاتیں
یعنی جسے مانے اور جس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح جبر کا پہلو شامل ہوجاتا، جب کہ ہم نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ اس لئے ہم نے ایسی نشانی بھی اتارنے سے گریز کیا جس سے ہمارا یہ قانون متاثر ہو۔ اور صرف انبیاء و رسل بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے پر ہی اکتفا کیا۔
اور ان کے پاس خدائے رحمان کی طرف سے جو تازہ یاددہانی بھی آتی ہے یہ اس سے اعراض کرنے والے ہی بنے رہتے ہیں۔
دوا سے مریض کی بیزاری اور اس کا انجام: یہ ذرا مختلف الفاظ میں وہی مضمون ہے جو سورۂ فرقان کی آخری آیت میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تذکیر و تعلیم کے اس سارے اہتمام سے، جو رب رحمان نے ان کے لیے کیا، مقصود یہی تھا کہ یہ لوگ سوچیں سمجھیں اور زندگی کی صحیح روش اختیار کریں لیکن ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ جتنی ہی ان کے علاج کی تدبیر کی گئی اتنی ہی دوا اور طبیب سے ان کی نفرت بڑھتی گئی۔ اللہ نے تازہ بتازہ، نو بنو اسلوبوں سے ان کو یاددہانی کی لیکن وہ اعراض کرنے والے ہی بنے رہے اور قرآن و رسول دونوں کا انھوں نے مذاق اڑایا۔ ان کی اس روش کے بعد اب ان کے لیے اس کے سوا کوئی چیز بھی باقی نہیں رہ گئی ہے کہ جس قرآن کا انھوں نے اب تک مذاق اڑایا ہے، اس نے جن نتائج سے ان کو خبردار کیا ہے وہ ایک ایک کر کے ان کے سامنے آئیں، چنانچہ وہ ان کے سامنے آئیں گے۔
(لیکن ہم سمجھا رہے ہیں اور اِن کا حال یہ ہے کہ ) خداے رحمٰن کی طرف سے اِن کے پاس جو تازہ یاد دہانی بھی آتی ہے، یہ اُس سے اعراض کیے رہتے ہیں۔
n/a
ان لوگوں کے پاس رحمان کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
اور ان کے پاس رحمان کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آئی یہ اس سے روگردانی کرنے والے بن گئے۔
سو انھوں نے جھٹلا دیا تو جس چیز کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں اب اس کی تنبیہات ان کے آگے ظاہر ہوں گی۔
دوا سے مریض کی بیزاری اور اس کا انجام: یہ ذرا مختلف الفاظ میں وہی مضمون ہے جو سورۂ فرقان کی آخری آیت میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تذکیر و تعلیم کے اس سارے اہتمام سے، جو رب رحمان نے ان کے لیے کیا، مقصود یہی تھا کہ یہ لوگ سوچیں سمجھیں اور زندگی کی صحیح روش اختیار کریں لیکن ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ جتنی ہی ان کے علاج کی تدبیر کی گئی اتنی ہی دوا اور طبیب سے ان کی نفرت بڑھتی گئی۔ اللہ نے تازہ بتازہ، نو بنو اسلوبوں سے ان کو یاددہانی کی لیکن وہ اعراض کرنے والے ہی بنے رہے اور قرآن و رسول دونوں کا انھوں نے مذاق اڑایا۔ ان کی اس روش کے بعد اب ان کے لیے اس کے سوا کوئی چیز بھی باقی نہیں رہ گئی ہے کہ جس قرآن کا انھوں نے اب تک مذاق اڑایا ہے، اس نے جن نتائج سے ان کو خبردار کیا ہے وہ ایک ایک کر کے ان کے سامنے آئیں، چنانچہ وہ ان کے سامنے آئیں گے۔
سو اِنھوں نے جھٹلا دیا ہے تو اُس چیز کی خبریں عنقریب (اپنی حقیقت کے ساتھ) اِن کے آگے ظاہر ہوجائیں گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔
یعنی قرآن جو اِنھیں خبردار کرتا رہا ہے کہ اُس کی تکذیب کے نتیجے میں اِنھیں کیا نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اب کہ یہ جھٹلا چکے ہیں، عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت ﴿مختلف طریقوں سے ﴾ معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔
یعنی جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ معقولیت کے ساتھ ان کو سمجھانے اور راہ راست دکھانے کی جو کوشش بھی کی جائے اس کا مقابلہ بےرخی و بےالتفاتی سے کریں، ان کا علاج یہ نہیں ہے کہ ان کے دل میں زبردستی ایمان اتارنے کے لیے آسمان سے نشانیاں نازل کی جائیں، بلکہ ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ جب ایک طرف انہیں سمجھانے کا حق پورا پورا ادا کردیا جائے اور دوسری طرف وہ بےرخی سے گزر کر قطعی اور کھلی تکذیب پر، اس سے بھی آگے بڑھ کر حقیقت کا مذاق اڑانے پر اتر آئیں، تو ان کا انجام بد انہیں دکھا دیا جائے۔ یہ انجام بد اس شکل میں بھی انہیں دکھایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں وہ حق ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ساری مزاحمتوں کے باوجود غالب آجائے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ اس کی شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان پر ایک عذاب الیم نازل ہوجائے اور وہ تباہ و بر باد کر کے رکھ دیے جائیں۔ اور وہ اس شکل میں بھی ان کے سامنے آسکتا ہے کہ چند سال اپنی غلط فہمیوں میں مبتلا رہ کر وہ موت کی ناگزیر منزل سے گزریں اور آخر کار ان پر ثابت ہوجائے کہ سراسر باطل تھا جس کی راہ میں انہوں نے اپنی تمام سرمایہ زندگانی کھپا دیا اور حق وہی تھا جسے انبیاء (علیہم السلام) پیش کرتے تھے اور جسے یہ عمر بھر ٹھٹھوں میں اڑاتے رہے۔ اس انجام بد کے سامنے آنے کی چونکہ بہت سی شکلیں ہیں اور مختلف لوگوں کے سامنے وہ مختلف صورتوں سے آسکتا ہے اور آتا رہا ہے اسی لیے آیت میں نَبَاء کے بجائے اَنْبَاء بصیغہ جمع فرمایا گیا، یعنی جس چیز کا یہ مذاق اڑا رہے ہیں اس کی حقیقت آخر کار بہت سی مختلف شکلوں میں انہیں معلوم ہوگی۔
ان لوگوں نے جھٹلایا ہے اب انکے پاس جلدی سے اسکی خبریں آجائیں گی جسکے ساتھ وہ مسخرا پن کر رہے ہیں
یعنی تکذیب کے نتیجے میں ہمارا عذاب عنقریب انھیں اپنی گرفت میں لے لے گا جسے وہ ناممکن سمجھ کر استہزاء ومذاق کرتے ہیں یہ عذاب دنیا میں بھی ممکن ہے جیسا کہ کئی قومیں تباہ ہوئیں بصورت دیگر آخرت میں تو اس سے کسی صورت چھٹکارا نہیں ہوگا ماکانوا عنہ معرضین نہیں کہا بلکہ ماکانوا بہ یستھزؤن کہا کیونکہ استہزا ایک تو اعراض و تکذیب کو بھی مستلزم ہے دوسرے یہ اعراض و تکذیب سے زیادہ بڑا جرم ہے۔ فتح القدیر۔
کیا انھوں نے زمین کی طرف نگاہ نہیں کی! ہم نے اس میں کتنی نوع بنوع کی فیض بخش چیزیں اگا رکھی ہیں!
’زَوْجٍ‘ کے معنی قسم اور نوع کے ہیں۔ ’مِنْ کُلِّ زَوْجٍ‘ یعنی نوع بنوع چیزیں۔ ’کَرِیْمٍ‘ یہاں فیض بخش اور منفعت رساں کے مفہوم میں ہے۔ اہل عرب انگور کو ’کرم‘ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نام انھوں نے انگور کی غایت درجہ منفعت رسانی ہی کی وجہ سے رکھا۔
زمین کی نشانیوں کی طرف اشارہ: آیت کا مطلب یہ ہے کہ آخر یہ لوگ آسمان سے اترنے والی کسی نشانئ عذاب ہی کے منتظر کیوں ہیں، اس زمین پر پھیلی ہوئی ان گوناگوں نعمتوں کو کیوں نہیں دیکھتے جن کو رب رحیم و کریم نے اسی لیے پیدا کیا ہے کہ لوگ ان سے فائدہ بھی اٹھائیں اور بصیرت و یاددہانی بھی حاصل کریں!
(یہ نشانیوں کے منتظر ہیں)۔ کیا اِنھوں نے زمین کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اُس میں ہر طرح کی کتنی نفع بخش چیزیں اگائی ہیں۔
n/a
اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں ؟
کیا انہوں نے زمین پر نظریں نہیں ڈالیں ؟ کہ ہم نے اس میں ہر طرح کے نفیس جوڑے کس قدر اگائے ہیں ؟
زَوْجٍ کے دوسرے معنی یہاں صنف اور نوع کے کئیے گئے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی چیزیں ہم نے پیدا کیں جو کریم ہیں یعنی انسان کے لئے بہتر اور فائدے مند ہیں۔ جیسے غلہ جات ہیں پھل میوے ہیں اور حیوانات وغیرہ ہیں۔
اس میں بے شک بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
یعنی اگر یہ کسی نشانی ہی کے طالب ہیں تو اس سے بڑی نشانی اور کیا چاہیے! یہاں ان تمام دلائل توحید قیامت و جزا کو ذہن میں مستحضر کر لیجیے جو قرآن میں تفصیل سے مذکور ہوئے ہیں اور جن کی شہادت میں قرآن نے زمین کی انہی نعمتوں اور برکتوں کا حوالہ دیا ہے۔ آگے سورۂ لقمان کی آیت ۱۱۰ اور سورۂ سجدہ کی آیت ۲۷ کے تحت اس مضمون کی پوری وضاحت ہو جائے گی۔
’وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘ یعنی یہ بات نہیں کہ نشانیوں کی کمی ہے۔ نشانیوں سے تو اس زمین کا چپہ چپہ معمور ہے لیکن جو لوگ ایمان نہیں لانا چاہتے ان کا کیا علاج!
اِس میں، یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔
n/a
یقینا اس میں ایک نشانی ہے 5، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔
یعنی جستجوئے حق کے لیے کسی کو نشانی کی ضرورت ہو تو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، آنکھیں کھول کر ذرا اس زمین ہی کی روئیدگی کو دیکھ لے، اسے معلوم ہوجائے گا کہ نظام کائنات کی جو حقیقت (توحید الہٰ ) انبیاء (علیہم السلام) پیش کرتے ہیں وہ صحیح ہے، یا وہ نظریات صحیح ہیں جو مشرکین یا منکرین خدا بیان کرتے ہیں۔ زمین سے اگنے والی بیشمار انواع و اقسام کی چیزیں جس کثرت سے اگ رہی ہیں، جن مادوں اور قوتوں کی بدولت اگ رہی ہیں، جن قوانین کے تحت اگ رہی ہیں، پھر ان کی خواص اور صفات میں اور بیشمار مخلوقات کی ان گنت ضرورتوں میں جو صریح مناسبت پائی جاتی ہے، ان ساری چیزوں کو دیکھ کر صرف ایک احمق ہی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کی حکمت، کسی علیم کے علم، کسی قادر و توانا کی قدرت اور کسی خالق کے منصوبہ تخلیق کے بغیر بس یونہی آپ سے آپ ہو رہا ہے۔ یا اس سارے منصوبے کو بنانے اور چلانے والا کوئی ایک خدا نہیں ہے بلکہ بہت سے خداؤں کی تدبیر نے زمین اور آفتاب و ماہتاب اور ہوا اور پانی کے درمیان یہ ہم آہنگی، اور ان وسائل سے پیدا ہونے والی نباتات اور بےحد و حساب مختلف النوع جانداروں کی حاجات کے درمیان یہ منا سبت پیدا کر رکھی ہے۔ ایک ذی عقل انسان ہو، اگر وہ کسی ہٹ دھرمی اور پیشگی تعصب میں مبتلا نہیں ہے، اس منظر کو دیکھ کر بےاختیار پکار اٹھے گا کہ یقیناً یہ خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کھلی کھلی علامات ہیں۔ ان نشانیوں کے ہوتے اور کس معجزے کی ضرورت ہے جسے دیکھے بغیر آدمی کو توحید کی صداقت کا یقین نہ آسکتا ہو ؟
بیشک اس میں یقیناً نشانی ہے اور ان میں کے اکثر لوگ مومن نہیں ہیں
یعنی جب اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے یہ چیزیں پیدا کرسکتا ہے، تو کیا انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔
یعنی اس کی یہ عظیم قدرت دیکھنے کے باوجود اکثر لوگ اللہ اور رسول کی تکذیب ہی کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے۔
اور بے شک تمہارا رب غالب بھی ہے، مہربان بھی۔
خدائے عزیز و رحیم کی سنت امہال: ’وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ‘۔ یہ وہی اوپر والی بات اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کی روشنی میں واضح فرمائی ہے کہ تمہارا خداوند عزیز بھی ہے اور ساتھ ہی رحیم بھی۔ ’عَزِیْزٌ‘ یعنی غالب، وہ جو چاہے کر سکتا ہے کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ اگر وہ ان پر فوراً کوئی عذاب نازل کر دے تو کوئی اس کی پکڑ سے ان کو بچا نہ سکے گا، لیکن وہ رحیم بھی ہے اس وجہ سے عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں کرتا کہ جو لوگ توبہ اور اصلاح کرنی چاہیں وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر کر لیں اور اس کی رحمت کے سزاوار بن جائیں۔ یہاں مبتدا کے اعادہ سے مقصود خاص طور پر ان صفات پر زور دینا اور لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرنا ہے اس لیے کہ خدا کی ان صفات کو مستحضر نہ رکھنے ہی کے باعث نادانوں کو یہ مغالطہ پیش آیا کہ وہ خدا کی ڈھیل کو اپنے رویہ کی صحت و صداقت کی دلیل سمجھ بیٹھے اور نہایت غرور کے ساتھ ان لوگوں کا مذاق اڑایا جنھوں نے ان کو اصلاح کی دعوت دی ۔۔۔ یہ آیات اس سورہ میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، بار بار آئیں گی اس وجہ سے ان کے مفہوم کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے تاکہ آگے اس کے اعادے کی ضرورت نہ پیش آئے۔
اور تیرا پروردگار، اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی۔
اوپر جو بات بیان ہوئی ہے، یہ اُسی کو اپنی صفات کی روشنی میں واضح فرمایا ہے کہ خدا زبردست ہے، وہ چاہے تو اِن پر اپنا عذاب نازل کر دے، لیکن وہ رحیم و کریم بھی ہے، اِس لیے عذاب میں جلدی نہیں کرتا اور اپنے بندوں کو اُن کی سرکشی کے باوجود مہلت دیتا ہے کہ سمجھانے ہی سے سمجھ جائیں اور اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آئیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
یعنی اس کی قدرت تو ایسی زبردست ہے کہ کسی کو سزا دینا چاہے تو پل بھر میں مٹا کر رکھ دے۔ مگر اس کے باوجود یہ سراسر اس کا رحم ہے کہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ برسوں اور صدیوں ڈھیل دیتا ہے، سوچنے اور سمجھنے اور سنبھلنے کی مہلت دیے جاتا ہے، اور عمر بھر کی نافرمانیوں کو ایک توبہ پر معاف کردینے کے لیے تیار رہتا ہے۔
اور تیرا رب یقیناً وہی غالب اور مہربان ہے ۔
یعنی ہر چیز پر اس کا غلبہ اور انتقام لینے پر وہ ہر طرح قادر ہے لیکن چونکہ وہ رحیم بھی ہے اس لئے فوراً گرفت نہیں فرماتا بلکہ پوری مہلت دیتا ہے اور اس کے بعد مؤاخذہ کرتا ہے۔
اور جب پکارا تیرے رب نے موسیٰ کو کہ ظالم قوم — (قوم فرعون) — کے پاس جاؤ۔
یہ حضرت موسیٰ ؑ کی سرگزشت کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب مدین سے واپس ہوتے ہوئے وادئ مقدس طویٰ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے کلام سے مشرف فرمایا اور ان کو منصب رسالت پر سرفراز کر کے فرعون اور اس کی قوم کے پاس انذار کے لیے جانے کی ہدایت فرمائی۔
ایک خاص اسلوب بیان: ’اَلَا یَتَّقُوْنَ‘ کا اسلوب بیان فرعون اور اس کی قوم کے غایت درجہ طغیان و فساد کو ظاہر کر رہا ہے، اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ کیا یہ ظالم لوگ اسی طرح بگ ٹٹ اپنی سرکشی میں بڑھتے ہی چلے جائیں گے اور اس کے انجام اور خدا کے قہر و غضب سے نہیں ڈریں گے؟ آگے آیات ۱۲۵، ۱۴۳، ۱۶۲ اور ۱۷۸ سے معلوم ہو گا کہ بعینہٖ اسی اسلوب سے دوسرے انبیائے کرام نے بھی اپنی اپنی قوموں کو انذار فرمایا ہے۔ اس اسلوب خطاب میں حسرت، غصہ، زجر و ملامت اور عذاب الٰہی کے قرب کی جو وعید ہے وہ محتاج تشریح نہیں ہے۔
اِنھیں اُس وقت کا قصہ سناؤ، جب تیرے رب نے موسیٰ کو پکارا کہ تم ظالم قوم کے پاس جاؤ۔
دوسری جگہ وضاحت ہے کہ یہ واقعہ وادی مقدس طویٰ میں اُس وقت پیش آیا، جب موسیٰ علیہ السلام کئی برس کی جلاوطنی کے بعد مدین سے واپس آ رہے تھے۔
انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا ” ظالم قوم کے پاس جا۔۔۔۔
اوپر کی مختصر تمہیدی تقریر کے بعد اب تاریخی بیان کا آغاز ہو رہا ہے جس کی ابتدا حضرت موسیٰ اور فرعون کے قصے سے کی گئی ہے۔ اس سے خاص طور پر جو سبق دینا مقصود ہے وہ یہ کہ :
اولاً ، حضرت موسیٰ کو جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا وہ ان حالات کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ سخت تھے جن سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سابقہ درپیش تھا۔ حضرت موسیٰ ایک غلام قوم کے فرد تھے جو فرعون اور اس کی قوم سے بری طرح دبی ہوئی تھی، بخلاف اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے ایک فرد تھے اور آپ کا خاندان قریش کے دوسرے خاندانوں کے ساتھ بالکل برابر کی پوزیشن رکھتا تھا۔ حضرت موسیٰ نے خود اس فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی اور ایک قتل کے الزام میں دس برس روپوش رہنے کے بعد انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اسی بادشاہ کے دربار میں جا کھڑے ہو جس کے ہاں سے وہ جان بچا کر فرار ہوئے تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی کسی نازک صورت حال سے سابقہ نہ تھا۔ پھر فرعون کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقتور سلطنت تھی۔ قریش کی طاقت کو اس کی طاقت سے کوئی نسبت نہ تھی۔ اس کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور آخر کار ان سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کفار قریش کو یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ جس کی پشت پر اللہ کا ہاتھ ہو اس کا مقابلہ کر کے کوئی جیت نہیں سکتا۔ جب فرعون کی موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے کچھ پیش نہ گئی تو تم بیچارے کیا ہستی ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں بازی جیت لے جاؤ گے۔
ثانیاً جو نشانیاں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے فرعون کو دکھائی گئیں اس سے زیادہ کھلی نشانیاں اور کیا ہو سکتی ہیں۔ پھر ہزارہا آدمیوں کے مجمع میں فرعون ہی کے چیلنج پر علی الاعلان جادوگروں سے مقابلہ کرا کے یہ ثابت بھی کردیا گیا کہ جو کچھ حضرت موسیٰ دکھا رہے ہیں وہ جادو نہیں ہے۔ فن سحر کے جو ماہرین فرعون کی اپنی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور اس کے اپنے بلائے ہوئے تھے۔ انہوں نے خود یہ تصدیق کردی کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی کا اژدھا بن جانا ایک حقیقی تغیر ہے اور یہ صرف خدائی معجزے سے ہوسکتا ہے، جادوگری کے ذریعہ سے ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں۔ ساحروں نے ایمان لاکر اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس امر میں کسی شک کی گنجائش بھی باقی نہ چھوڑی کہ حضرت موسیٰ کی پیش کردہ نشانی واقعی معجزہ ہے، جادو گری نہیں ہے۔ لیکن اس پر بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا تھے انہوں نے نبی کی صداقت تسلیم کر کے نہ دی۔ اب تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہارا ایمان لانا درحقیقت کوئی حسی معجزہ اور مادی نشان دیکھنے پر موقوف ہے۔ تعصب، حمیت جاہلیہ، اور مفاد پرستی سے آدمی پاک ہو اور کھلے دل سے حق اور باطل کا فرق سمجھ کر غلط بات کو چھوڑنے اور صحیح بات قبول کرنے کے لیے کوئی شخص تیار ہو تو اس کے لیے وہی نشانیاں کافی ہیں جو اس کتاب میں اور اس کے لانے والے کی زندگی میں اور خدا کی وسیع کائنات میں ہر آنکھوں والا ہر وقت دیکھ سکتا ہے۔ ورنہ ایک ہٹ دھرم آدمی جسے حق کی جستجو ہی نہ ہو اور اغراض نفسانی کی بندگی میں مبتلا ہو کر جس نے فیصلہ کرلیا ہو کہ کسی ایسی صداقت کو قبول نہ کرے گا جس سے اس کی اغراض پر ضرب لگتی ہو، وہ کوئی نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے گا خواہ زمین اور آسمان ہی اس کے سامنے کیوں نہ الٹ دیے جائیں۔ ثانیاً ، اس ہٹ دھرمی کا جو انجام فرعون نے دیکھا وہ کوئی ایسا انجام تو نہیں ہے جسے دیکھنے کے لیے دوسرے لوگ بےتاب ہوں۔ اپنی آنکھوں سے خدائی طاقت کے نشانات دیکھ لینے کے بعد جو نہیں مانتے وہ پھر ایسے ہی انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔ اب کیا تم لوگ اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس کا مزا چکھنا ہی پسند کرتے ہو ؟
تقابل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، آیات 103 تا 137 ۔ یونس، 75 تا 92 ۔ بنی اسرائیل، 101 تا 104 ۔ جلد سوم طٰہٰ ، 0 تا 79 ۔
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی کہ تو ظالم قوم کے پاس جا ۔
یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آرہے تھے، راستے میں انھیں حرارت حاصل کرنے کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں نداء غیبی نے ان کا استقبال کیا اور انھیں نبوت سے سرفراز کردیا گیا اور ظالموں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انکو سونپ دیا گیا۔
امین احسن اصلاحی
یہ طٰسٓمّٓ ہے۔
’طٰسٓمّٓ‘ ہمار ے نزدیک مبتدائے محذوف کی خبر ہے۔ ہم نے ترجمہ میں یہ محذوف کھول دیا ہے۔ یعنی یہ سورۂ ’طٰسٓمّٓ‘ ہے۔