حم

امین احسن اصلاحی

یہ حٰمٓ ہے

یہ اس سورہ کا قرآنی نام ہے۔ یاد ہو گا، پچھلی دو سورتوں کا نام بھی ’حٰمٓ‘ ہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’حٰمٓ (عٓسٓقٓ‘ ہے)

اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔ پچھلی سورہ کا نام بھی ’حٰمٓ‘ ہے۔ یہاں اُس پر ’عٓسٓقٓ‘ کا اضافہ ہے۔ یہ اِس بات کا قرینہ ہے کہ سورۂ حٰم السجدہ کے ساتھ اِس سورہ کا تعلق ایک تکملہ یا تتمہ کا ہے جس میں بعض خاص مطالب کی توضیح کی گئی ہے جو پچھلی سورہ میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

ح م۔

n/a

جونا گڑھی

حم

عسق

امین احسن اصلاحی

عٓسٓقٓ ہے

یہاں اس پر ’عٓسٓقٓ‘ کا اضافہ ہے ۔ ناموں کا اشتراک عمود کی وحدت پر دلیل ہے اور یہ اضافہ اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سورہ میں کچھ خاص مطالب بھی ہیں جو پچھلی دونوں سورتوں میں نہیں ہیں چنانچہ مطالب کے تجزیہ پر ایک نظر ڈال کر ان خاص مطالب کو الگ کیا جا سکتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ (سورۂ ’حٰمٓ) عٓسٓقٓ‘ ہے۔

اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔ پچھلی سورہ کا نام بھی ’حٰمٓ‘ ہے۔ یہاں اُس پر ’عٓسٓقٓ‘ کا اضافہ ہے۔ یہ اِس بات کا قرینہ ہے کہ سورۂ حٰم السجدہ کے ساتھ اِس سورہ کا تعلق ایک تکملہ یا تتمہ کا ہے جس میں بعض خاص مطالب کی توضیح کی گئی ہے جو پچھلی سورہ میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

ع س ق۔

n/a

جونا گڑھی

عسق

كَذَٰلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ اللَّـهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

امین احسن اصلاحی

اسی طرح خدائے عزیز و حکیم وحی کرتا ہے تمہاری طرف اور اسی طرح وہ وحی کرتا رہا ہے ان کی طرف جو تم سے پہلے گزرے

تمام نبیوں کی تعلیم بھی ایک ہی رہی ہے اور طریقۂ تعلیم بھی ایک ہی رہا ہے: ’کَذٰلِکَ‘ کا اشارہ ان مطالب کی طرف ہے جو اس سورہ میں بیان ہوئے ہیں۔ ان مطالب کا ایک اجمالی تصور اس سورہ کے نام نے دے دیا ہے اس وجہ سے ’کَذٰلِکَ‘ کے ذریعہ سے ان کی طرف اشارہ بالکل موزوں ہے۔ یعنی اس نام سے موسوم سورہ میں جو باتیں وحی کی جا رہی ہیں یہ جس طرح تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اسی طرح تم سے پہلے آنے والے نبیوں کو بھی وحی کی جا چکی ہیں۔ ادائے مطلب میں بتقاضائے بلاغت ایجاز ہے۔ پوری بات گویا یوں ہے کہ ’اس طرح اللہ تم پر وحی کر رہا ہے اور اسی طرح اس نے ان نبیوں پر بھی وحی کی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں‘۔ اس قسم کے ایجاز کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں اور آگے بھی آئیں گی۔

’کَذٰلِکَ‘ وحدت مدعا کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے اور طریقۂ وحی کی یکسانی کی طرف بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں اور رسولوں کو تعلیم بھی انہی باتوں کی دی جن کی تعلیم تم کو دی جا رہی ہے اور اس تعلیم کے لیے طریقہ بھی وہی اختیار فرمایا جو تمہارے لیے اختیار فرمایا اس وجہ سے کسی پہلو سے بھی قرآن میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو لوگوں کے لیے باعث وحشت ہو۔ اگر یہ اس سے وحشت زدہ ہو رہے ہیں تو یہ ان کی اپنی طبیعت کا فساد ہے۔
وحدت مدعا کی طرف اشارہ: وحدت مدعا کی طرف آگے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:

شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِیْ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ وَمَا وَصَّیْْنَا بِہِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی وَعِیْسَی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوہُمْ إِلَیْْہِ (۱۳)
’’تمہارے لیے اس نے اسی دین کو مقرر کیا جس کی تعلیم نوح کو دی اور اسی کی وحی ہم نے تم کو کی اور جس کی تلقین ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو بھی کی کہ اللہ کے دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ برپا کرو۔ مشرکین پر وہ چیز شاق گزر رہی ہے جس کی تم دعوت دے رہے ہو۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ جس اسلام اور جس دین توحید کی دعوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اسی کی دعوت پر تمام انبیاء علیہم السلام مامور ہوئے لیکن مشرکین نے جو دین شرک ایجاد کیا اس کی عصبیت کے جوش میں اس دین حق کے مخالف بن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اسی قسم کی عصبیت کے جنون میں اہل کتاب بھی مبتلا ہو گئے۔
طریقہ کی یکسانی کی طرف اشارہ: طریقہ کی یکسانی کی طرف آگے اس سورہ میں اس طرح اشارہ فرمایا ہے:

وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُکَلِّمَہُ اللَّہُ إِلَّا وَحْیْاً أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُولاً فَیُوحِیَ بِإِذْنِہِ مَا یَشَاءُ إِنَّہُ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ ۵ وَکَذَلِکَ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ رُوحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَا کُنتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیْمَانُ وَلَکِن جَعَلْنَاہُ نُوراً نَّہْدِیْ بِہِ مَنْ نَّشَاء مِنْ عِبَادِنَا (۵۱-۵۲)
’’اور کسی بشر کی یہ شان نہیں ہے کہ اللہ اس سے بات کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعہ سے یا پردہ کی اوٹ سے یا بھیجے اپنا کوئی فرشتہ پس وہ وحی کر دے اس کے اذن سے جو وہ چاہے۔ بے شک وہ بڑا ہی بلند اور حکیم ہے۔ اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف بھی وحی کی ایک روح کی اپنے امر میں سے۔ تم نہ کتاب سے آشنا تھے اور نہ ایمان سے لیکن ہم نے اس کو ایک نور بنایا جس سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں۔‘‘

اس سے واضح ہوا کہ آج جو لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر خدا پیغمبر سے کلام کرتا ہے تو ان سے بھی کلام کرے یا وہ اس طرح نمودار ہو کہ وہ اس کو دیکھیں اور اس کا کلام سنیں، یہ محض ان کی خود سری اور بددماغی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح نہ کسی سے بات کرتا اور نہ اس طرح جلوہ نمائی کرنا اس کی شان ہے، بلکہ ہمیشہ سے اس کا طریقہ یہ رہا کہ اس نے اپنے جن بندوں کو نبوت کے کارخاص کے لیے منتخب فرمایا ان سے وحی کے ذریعہ سے بات کی اور اس وحی کا ایک خاص ضابطہ ہے۔
آنحضرت صلعم کے لیے تسلی اور مخالفین پر اتمام حجت: اس بات کے کہنے سے مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا بھی ہے اور مخالفین پر اتمام حجت بھی۔ ظاہر ہے کہ جب آپ اسی دین حق کی دعوت دے رہے ہیں جس کی دعوت تمام نبیوں اور رسولوں نے دی تو آپ کوئی ایسی بات نہیں پیش کر رہے ہیں جس سے لوگ وحشت زدہ ہوں۔ جو لوگ اس سے وحشت زدہ ہیں وہ تمام نبیوں کی دعوت کے مخالف اور تعصب و عناد میں مبتلا ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس اگر آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ نہیں کرا سکتے یا اس کو کلام کرتے دوسروں کو سنا نہیں سکتے تو یہ چیز بھی آپ کی نبوت کا کوئی نقص نہیں۔ آپ اللہ کی وحی پیش کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس سے بھی بات کرتا ہے وحی کے ذریعہ ہی سے کرتا ہے۔ اس سے زیادہ وہ کسی کو بھی نہیں نوازتا۔
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ’عزیز و حکیم‘ کا حوالہ یہاں تسلی کے مضمون سے بھی تعلق رکھتا ہے اور تہدید کے مضمون سے بھی۔ جب اللہ تعالیٰ ’عزیز‘ ہے تو وہ گردن کشوں کو جب چاہے دبا سکتا ہے۔ اگر وہ فوراً نہیں دباتا تو وہ اپنی حکمت کے تحت ان کو مہلت دے رہا ہے اس وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب عزیز و حکیم پر بھروسا رکھنا اور ان لوگوں کا معاملہ اسی کے حوالہ کرنا چاہیے۔

جاوید احمد غامدی

اللہ ، غالب اور حکیم اِسی طرح تمھاری طرف وحی کرتا ہے اور جو تم سے پہلے گزرے ہیں، اُن کی طرف بھی اِسی طرح وحی کرتا رہا ہے، (اِنھی مطالب کے ساتھ اور اِسی طریقے سے)۔

یعنی جو زبردست ہے اور چاہے تو گردن کشوں کی گردن دبا سکتا ہے، لیکن وہ حکیم بھی ہے، اِس لیے اُنھیں مہلت دیتا اور اُن کی ہدایت کے لیے یہ اہتمام فرماتا ہے مدعا یہ ہے کہ آپ بھی اپنے رب عزیز و حکیم پر بھروسا رکھیں۔ آپ کے مخاطبین کی مہلت ختم ہو جائے گی تو یہ بھی اُس کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔

یعنی اُسی دین کی تعلیمات کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو وحی کے ذریعے سے دیا۔ چنانچہ اِس قرآن میں نہ کوئی نیا دین بیان ہوا ہے اور نہ اُس کے دینے کے لیے پچھلے پیغمبروں کے طریقے سے مختلف کوئی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ قرآن کے مخاطبین جن چیزوں پر اصرار کر رہے ہیں کہ خدا خود اپنے فرشتوں کے ساتھ بدلیوں میں نمودار ہو یا اُن میں سے ہر شخص سے براہ راست رابطہ کرکے اُس کو اپنا پیغام پہنچائے، اِن میں سے کوئی طریقہ بھی خدا نے کبھی اختیار نہیں کیا۔ اُس کا طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ انسانوں میں سے اپنے کچھ خاص بندوں کو وہ نبوت کے لیے منتخب کرتا ہے، پھر اُن کو وحی کے ذریعے سے اپنا پیغام دیتا اور اُنھی کے ذریعے سے اُس کو لوگوں تک پہنچاتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اِسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے (رسولوں) کی طرف وحی کرتا رہا ہے۔

افتتاح کلام کا یہ انداز خود بتا رہا ہے کہ پس منظر میں وہ چہ میگوئیاں ہیں جو مکہ معظمہ کی ہر محفل، ہر چوپال، ہر کوہ و بازار، اور ہر مکان اور دکان میں اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور قرآن کے مضامین پر ہو رہی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ معلوم یہ شخص کہاں سے یہ نرالی باتیں نکال نکال کر لا رہا ہے۔ ہم نے تو ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ ہوتے دیکھیں۔ وہ کہتے تھے، یہ عجیب ماجرا ہے کہ باپ دادا سے جو دین چلا آرہا ہے، ساری قوم جس دین کی پیروی کر رہی ہے، سارے ملک میں جو طریقے صدیوں سے رائج ہیں، یہ شخص ان سب کو غلط قرار دیتا ہے اور کہتا ہے جو دین میں پیش کر رہا ہوں وہ صحیح ہے۔ وہ کہتے تھے، اس دین کو بھی اگر یہ اس حیثیت سے پیش کرتا کہ دین آبائی اور رائج الوقت طریقوں میں اسے کچھ قباحت نظر آتی ہے اور ان کی جگہ اس نے خود کچھ نئی باتیں سوچ کر نکالی ہیں، تو اس پر کچھ گفتگو بھی کی جاسکتی تھی، مگر وہ تو کہتا ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو میں تمھیں سنا رہا ہوں۔ یہ بات آخر کیسے مان لی جائے ؟ کیا خدا اس کے پاس آتا ہے ؟ یا یہ خدا کے پس جاتا ہے ؟ یا اس کی اور خدا کی بات چیت ہوتی ہے ؟ انہی چرچوں اور چہ میگوئیوں پر بظاہر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے، مگر دراصل کفار کو سناتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ ہاں، یہی باتیں اللہ عزیز و حکیم وحی فرما رہا ہے اور یہی مضامین لیے ہوئے اس کی وحی پچھلے تمام انبیاء پر نازل ہوتی رہی ہے۔ 

وحی کے لغوی معنی ہیں " اشارہ سریع " اور " اشارہ خفی "، یعنی ایسا اشارہ جو سرعت کے ساتھ اس طرح کیا جائے کہ بس اشارہ کرنے والا جانے یا وہ شخص جسے اشارہ کیا گیا ہے، باقی کسی اور شخص کو اس کا پتہ نہ چلنے پائے۔ اس لفظ کو اصطلاحاً اس ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بجلی کی کوند کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندے کے دل میں ڈالی جائے۔ ارشاد الہٰی و مدعا یہ ہے کہ اللہ کے کسی کے پاس آنے یا اس کے پاس کسی کے جانے اور رو برو گفتگو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ وہ غالب اور حکیم ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جب بھی وہ کسی بندے سے رابطہ قائم کرنا چاہے، کوئی دشواری اس کے ارادے کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی۔ اور وہ اپنی حکمت سے اس کام کے لیے وحی کا طریقہ اختیار فرما لیتا ہے۔ اسی مضمون کا اعادہ سورة کی آخری آیات میں کیا گیا ہے۔ اور وہاں اسے زیادہ کھول کر بیان فرمایا گیا ہے۔ 

پھر یہ جو ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نرالی باتیں ہیں، اس پر ارشاد ہوا ہے کہ یہ نرالی باتیں نہیں ہیں بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے انبیاء آئے ہیں ان سب کو بھی خدا کی طرف سے یہی کچھ ہدایات دی جاتی رہی ہیں۔ 

جونا گڑھی

اسی طرح تیری طرف اور تجھ سے اگلوں کی طرف وحی بھیجتا رہا اللہ تعالیٰ جو زبردست ہے اور حکمت والا ہے

لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

امین احسن اصلاحی

اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور وہ بڑی ہی بلند اور عظیم ہستی ہے

صفت ’عزیز‘ کی وضاحت: یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ’عزیز‘ کی وضاحت ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت اور اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ نہ کسی چیز میں کسی کا ساجھا ہے اور نہ کوئی چیز اس کے حیطۂ اقتدار و اختیار سے باہر ہے۔ وہ بڑی ہی بلند اور بڑی ہی عظیم ہستی ہے، کسی کا بھی یہ درجہ نہیں کہ اس کا کفو اور ہمسر ہو سکے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ لوگوں کو مہلت دے رہا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ لوگ اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہو گئے اور اگر اس نے کسی کو عزت و شوکت بخشی ہے تو اس کو اتنا مغرور نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خدا کو دیکھنے اور اس سے ہم کلام ہونے کا حوصلہ کر بیٹھے۔ اللہ کی بارگاہ بہت بلند اور اس کی ہستی بڑی عظیم ہے۔

جاوید احمد غامدی

آسمانوں میں جو کچھ ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اُسی کا ہے اور وہ برتر اور عظیم ہے

لہٰذا اُس کی بارگاہ میں اِس طرح کے مطالبات پیش کرنے کی جسارت کسی کو بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ سامنے آئے اور لوگوں سے خود ہم کلام ہو۔

ابو الاعلی مودودی

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اُسی کا ہے، وہ برتر اور عظیم ہے۔

یہ تمہیدی فقرے محض اللہ تعالیٰ کی تعریف میں ارشاد نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ ان کا ہر لفظ اس پس منظر سے گہرا ربط رکھتا ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے خلاف جو لوگ چہ میگوئیاں کر رہے تھے، ان کے اعتراضات کی اولین بنیاد یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو توحید کی دعوت دے رہے تھے اور وہ اس پر کان کھڑے کر کر کے کہتے تھے کہ اگر اکیلا ایک اللہ ہی معبود، حاجت روا اور شارع ہے تو پھر ہمارے بزرگ کیا ہوئے ؟ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ مالک کے ساتھ اس کی ملکیت میں کسی اور کی خداوندی آخر کس طرح چل سکتی ہے ؟ خصوصاً جبکہ وہ دوسرے جن کی خداوندی مانی جاتی ہے، یا جو اپنی خداوندی چلانا چاہتے ہیں، خود بھی اس کے مملوک ہی ہیں۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ برتر اور عظیم ہے، یعنی اس سے بالاتر اور بزرگ تر ہے کہ کوئی اس کا ہمسر ہو، اور اس کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی حصہ دار بن سکے۔ 

جونا گڑھی

آسمانوں کی (تمام) چیزیں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے وہ برتر اور عظیم الشان ہے۔

تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّ ۚ وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

امین احسن اصلاحی

قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح اور زمین والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ آگاہ کہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا اللہ ہی ہے

’علّی‘ و ’عظیم‘ کی وضاحت: یہ خدائے ’علّی‘ و ’عظیم‘ کے علو اور اس کی عظمت کا بیان ہے کہ اس کی عظمت کے بوجھ سے آسمانوں کا یہ حال ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اوپر سے پھٹ پڑیں گے اور ملائکہ کا حال ’بایں ہمہ قربت‘ یہ ہے کہ اس کی خشیت کے سبب سے وہ ہر وقت اس کی تسبیح و تحمید میں لگے رہتے اور زمین والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ یعنی نادانوں نے تو فرشتوں کو خدائی میں شریک بنا رکھا ہے اور یہ توقع لیے بیٹھے ہیں کہ خدا کی بارگاہ میں ان کو وہ مقام حاصل ہے کہ وہ اپنے پجاریوں کو بڑے بڑے مرتبے دلوائیں گے اور خود ان کا حال یہ ہے کہ وہ ہر وقت اس کی خشیت سے لرزاں و ترساں اور مصروف تسبیح و تحمید ہیں۔

’تسبیح‘ اور ’حمد‘ کے فرق پر اس کے محل میں گفتگو ہو چکی ہے۔ ’تسبیح‘ میں تنزیہہ کا پہلو غالب ہے اور ’حمد‘ میں اثبات کا۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو تمام خلاف شان باتوں سے، جن میں سب سے زیادہ نمایاں شرک ہے، پاک اور تمام اعلیٰ صفات سے، جن میں سب سے مقدم توحید ہے، متصف ٹھہراتے ہیں۔
’وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ‘ میں وہی بات فرمائی گئی ہے جو سورۂ مومن میں بدیں الفاظ گزر چکی ہے:

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِرَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا. (۷)
(جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے، اس پر ایمان رکھتے اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں)۔

ملائکہ کا استغفار اہل زمین کے لیے: اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ اہل زمین میں سے ان لوگوں کے لیے استغفار کرتے ہیں جو اہل ایمان ہیں۔ چونکہ یہ بات واضح تھی اس وجہ سے آیت زیربحث میں یہ حذف کر دی گئی ہے۔ ملائکہ کا یہی استغفار ان کی شفاعت ہے جو وہ اپنے رب کی بارگاہ میں اہل ایمان کے لیے کر رہے ہیں۔ اس سے مشرکین کی مزعومہ شفاعت کی تردید ہو گئی۔
’اَلَآ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘۔ یہ مشرکین کو ایک برمحل تنبیہ ہے کہ کان کھول کر اچھی طرح سن لو کہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا اللہ ہی ہے۔ اگر یہ چیز فرشتوں کے اختیار میں ہوتی تو وہ اس تذلل کے ساتھ لوگوں کی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ سے کیوں درخواست کرتے؟

جاوید احمد غامدی

قریب ہے کہ آسمان (اُس کی ہیبت کے مارے) اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے، (وہ تو) اپنے پروردگار (کی خشیت کے سبب سے اُس) کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح اور زمین والوں کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ سنو، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

تسبیح میں تنزیہہ کا پہلو غالب ہے اور حمد میں اثبات کا۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو تمام خلاف شان باتوں سے، جن میں سب سے زیادہ نمایاں شرک ہے، پاک اور تمام اعلیٰ صفات سے، جن میں سب سے مقدم توحید ہے، متصف قرار دیتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ تمام قربت کے باوجود ، جو فرشتوں کو خدا کی بارگاہ میں حاصل ہے، اُن کا حال یہ ہے کہ خدا کی خشیت سے لرزاں و ترساں ہیں اور یہ احمق اُنھیں معبود بنائے بیٹھے ہیں، جبکہ وہ اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کسی کو خدا کا شریک ٹھیرا دیں۔

یعنی زمین پر جو اہل ایمان ہیں، اُن کی مغفرت کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ یہی اُن کی شفاعت ہے۔ اِس سے آگے کوئی چیز اُن کے اختیار میں نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں۔ فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کیے جاتے ہیں۔ آگاہ رہو، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے۔

یعنی یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ کسی مخلوق کا نسب خدا سے جا ملایا گیا اور اسے خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دے دیا گیا۔ کسی کو حاجت روا اور فریاد رس ٹھہرا لیا گیا اور اس سے دعائیں مانگی جانے لگیں، کسی بزرگ کو دنیا بھر کا کار ساز سمجھ لیا گیا اور علانیہ کہا جانے لگا کہ ہمارے حضرت ہر وقت ہر جگہ ہر شخص کی سنتے ہیں اور وہی ہر ایک کی مدد کو پہنچ کر اس کے کام بنایا کرتے ہیں کسی کو امر و نہی اور حلال و حرام کا مختار مان لیا گیا اور خدا کو چھوڑ کر لوگ اس کے احکام کی اطاعت اس طرح کرنے لگے کہ گویا وہ ان کا خدا ہے۔ خدا کے مقابلے میں یہ وہ جسارتیں ہیں جن پر اگر آسمان پھٹ پڑیں تو کچھ بعید نہیں ہے۔ (یہی مضمون سورة مریم، آیات 88 ۔ 91 میں بھی ارشاد ہوا ہے )

 

مطلب یہ ہے کہ فرشتے انسانوں کی یہ باتیں سن سن کر کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ یہ کیا بکواس ہے جو ہمارے رب کی شان میں کی جا رہی ہے، اور یہ کیسی بغاوت ہے جو زمین کی اس مخلوق نے برپا کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، سبحان اللہ، کس کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ رب العالمین کے ساتھ الوہیت اور حکم میں شریک ہو سکے، اور کون اس کے سوا ہمارا اور سب بندوں کا محسن ہے کہ اس کی حمد کے ترانے گائے جائیں اور اس کا شکر ادا کیا جائے۔ پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایسا جرم عظیم دنیا میں کیا جا رہا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہر وقت بھڑک سکتا ہے، اس لیے وہ زمین پر بسنے والے ان خود فراموش و خدا فراموش بندوں کے حق میں بار بار رحم کی درخواست کرتے ہیں کہ ابھی ان پر عذاب نازل نہ کیا جائے اور انہیں سنبھلنے کا کچھ موقع دیا جائے۔ 

 

یعنی یہ اس کی حلیمی و رحیمی اور چشم پوشی و در گزر ہی تو ہے جس کی بدولت کفر اور شرک اور دہریت اور فسق و فجور اور ظلم و ستم کی انتہا کردینے والے لوگ بھی سالہا سال تک، بلکہ اس طرح کے پورے پورے معاشرے صدیوں تک مہلت پر مہلت پاتے چلے جاتے ہیں، اور ان کو صرف رزق ہی نہیں ملے جاتا بلکہ دنیا میں ان کی بڑائی کے ڈنکے بجتے ہیں اور زینت حیات دنیا کے وہ سرو سامان انہیں ملتے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر نادان لوگ اس غلط فہمی میں پڑجاتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے۔ 

جونا گڑھی

قریب ہے آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لئے استغفار کر رہے ہیں خوب سمجھ رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی معاف فرمانے والا ہے

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ اللَّـهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ

امین احسن اصلاحی

اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں اللہ ان پر نگرانی رکھے ہوئے ہے اور تم ان پر داروغہ نہیں مقرر کیے گئے ہو

مشرکین کو نہایت سخت وعید: یہ مشرکین کو نہایت سخت انداز میں وعید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں اور تمام تنبیہ و تذکیر کے باوجود اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، اللہ ان کی کڑی نگرانی کر رہا ہے کہ جونہی وہ اپنی مہلت پوری کر لیں ان کو اپنے قہر و غضب کے پنجہ میں گرفتار کر لے۔ اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ خدا نے تم پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی ہے کہ لازماً تم ان کو ایمان کی راہ پر لگا ہی دو۔ تمہاری ذمہ داری تبلیغ حق کی تھی وہ تم نے کر دی اور جب تک تمہارے رب کا حکم ہے، کرتے رہو۔ اگر یہ ایمان نہ لائے تو اس کی پرسش انہی سے ہونی ہے، تم سے نہیں ہونی ہے۔ یہی مضمون آگے اسی سورہ میں یوں آیا ہے:

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً إِنْ عَلَیْْکَ إِلَّا الْبَلَاغُ (۴۸)
’’پس اگر یہ اعراض کریں تو ہم نے تم کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے، تمہارے اوپر ذمہ داری صرف واضح طور پر پہنچا دینے کی ہے۔‘‘

جاوید احمد غامدی

اِس کے باوجود جن لوگوں نے اُس کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں، اللہ اُن پر نگران ہے اور، (اے پیغمبر)، تم اُن پر ذمہ دار نہیں بنائے گئے ہو۔

یہ نہایت سخت وعید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نگران ہے تو اِن کے تمام کرتوتوں کو دیکھ بھی رہا ہے، لہٰذا مہلت پوری ہو جائے گی تو اِن کواِن کے انجام تک پہنچا دے گا۔

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ تمھاری ذمہ داری صرف دعوت و تبلیغ کی ہے۔ اِس لیے یہ نہیں مانتے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِن کی پرسش اِنھی سے ہونی ہے، تم سے نہیں ہونی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جن لوگوں نے اُس کو چھوڑ کر اپنے کچھ دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں، اللہ ہی اُن پر نگراں ہے، تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو۔

اصل میں لفظ " اولیاء “ استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم عربی زبان میں بہت وسیع ہے۔ معبودان باطل کے متعلق گمراہ انسانوں کے مختلف عقائد اور بہت سے مختلف طرز عمل ہیں جن کو قرآن مجید میں " اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنانے " سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کا تتبع کرنے سے لفظ " ولی " کے حسب ذیل مفہومات معلوم ہوتے ہیں : 

1) جس کے کہنے پر آدمی چلے، جس کی ہدایات پر عمل کرے، اور جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں، رسموں اور قوانین و ضوابط کی پیروی کرے (النساء، آیات 118 تا 120 ۔ الاعراف 3، 27 تا 30) ۔ 

2) جس کی رہنمائی (Guidance) پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے والا اور غلطی سے بچانے والا ہے (بقرہ 257 ۔ بنی اسرائیل 97 ۔ الکہف 17 ۔ 50 ۔ الجاثیہ 19) ۔

3) جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں، وہ مجھے اس کے برے نتائج سے اور اگر خدا ہے اور آخرت بھی ہونے والی ہے، تو اس کے عذاب سے بچا لے گا (النساء 123 ۔ 173 ۔ الانعام 51 ۔ الرعد 37 ۔ العنکبوت 22 ۔ الاحزاب 65 ۔ الزمر 3)

4) جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں فوق الفطری طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے، آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے، اسے روزگار دلواتا ہے، اولاد دیتا ہے، مرادیں بر لاتا ہے، اور دوسری ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے (ہود، 20 ۔ الرعد، 16 ۔ العنکبوت، 41)

بعض مقامات پر قرآن میں ولی کا لفظ ان میں سے کسی ایک معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اور بعض مقامات پر جامعیت کے ساتھ اس کے سارے ہی مفہومات مراد ہیں۔ آیت زیر تشریح بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے سے مراد مذکورہ بالا چاروں معنوں میں ان کو اپنا سرپرست بنانا اور حامی و مددگار سمجھنا ہے۔ 

 

 " اللہ ہی ان پر نگراں ہے " یعنی وہ ان کے سارے افعال دیکھ رہا ہے اور ان کے نامۂ اعمال تیار کر رہا ہے۔ ان کا محاسبہ اور مواخذہ کرنا اسی کا کام ہے۔ " تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو "، یہ خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی قسمت تمہارے حوالے نہیں کردی گئی ہے کہ جو تمہاری بات نہ مانے گا اسے تم جلا کر خاک کر دو گے یا اس کا تختہ الٹ دو گے، یا اسے تہس نہس کر کے رکھ دو گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو ایسا سمجھتے تھے اور آپ کی غلط فہمی یا بر خود غلطی کو رفع کرنے کے لیے یہ بات ارشاد ہوئی ہے۔ بلکہ اس سے مقصود کفار کو سنانا ہے۔ اگرچہ بظاہر مخاطب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں، لیکن اصل مدعا کفار کو یہ بتانا ہے کہ اللہ کا نبی اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتا جیسے بلند بانگ دعوے خدا رسیدگی اور روحانیت کے ڈھونگ رچانے والے عموماً تمہارے ہاں کیا کرتے ہیں۔ جاہلیت کے معاشروں میں بالعموم یہ خیال پایا جاتا ہے کہ " حضرت " قسم کے لوگ ہر اس شخص کی قسمت بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں جو ان کی شان میں کوئی گستاخی کرے۔ بلکہ مر جانے کے بعد ان کی قبر کی بھی اگر کوئی توہین کر گزرے، یا اور کچھ نہیں تو ان کے متعلق کوئی برا خیال ہی دل میں لے آئے تو وہ اس کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ یہ خیال زیادہ تر " حضرتوں " کا اپنا پھیلایا ہوا ہوتا ہے، اور نیک لوگ جو خود ایسی باتیں نہیں کرتے، ان کے نام اور ان کی ہڈیوں کو اپنے کاروبار کا سرمایہ بنانے کے لیے کچھ دوسرے ہوشیار لوگ ان کے متعلق اس خیال کو پھیلاتے ہیں۔ بہرحال عوام میں اسے روحانیت و خدا رسیدگی کا لازمہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کو قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات حاصل ہوں۔ اسی فریب کا طلسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ کفار کو سناتے ہوئے اپنے رسول پاک سے فرما رہا ہے کہ بلا شبہ تم ہمارے پیغمبر ہو اور ہم نے اپنی وحی سے تمہیں سرفراز کیا ہے، مگر تمہارا کام صرف لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ ان کی قسمتیں تمہارے حوالہ نہیں کردی گئی ہیں۔ وہ ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں۔ بندوں کے اعمال کو دیکھنا اور ان کو عذاب دینا یا نہ دینا ہمارا اپنا کام ہے۔ 

جونا گڑھی

اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسروں کو کارساز بنا لیا ہے اللہ تعالیٰ ان پر نگران ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ

امین احسن اصلاحی

اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف ایک عربی قرآن وحی کیا ہے تاکہ تم اہل مکہ اور اس کے گرد و پیش والوں کو آگاہ کر دو اور اس دن سے ڈرا دو جو سب کے اکٹھے کرنے کا دن ہو گا جس کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اس دن ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا اور ایک گروہ دوزخ میں

اس ’کَذٰلِکَ‘ کا اشارہ آیت ۱ کے مضمون کی طرف ہے کہ جس طرح ہم نے تم سے پہلے آنے والے نبیوں اور رسولوں کو اپنی وحی سے سرفراز کیا اسی طرح ہم نے تمہاری طرف بھی یہ قرآن بزبان عربی اتارا ہے تاکہ تم عرب کی مرکزی بستی اور اس کے گردوپیش کے لوگوں کو آگاہ کر دو۔

قرآن کے ساتھ ’عربی‘ کی صفت بطور امتنان اور اتمام حجت ہے، جیسا کہ ’حٰمٓ السجدہ‘ کی آیت ۲۴ میں گزر چکا ہے کہ اہل عرب کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے کہ ان کے لیے اللہ کے دین کی پوری وضاحت نہیں کی گئی۔
’اُمّ الْقُرٰی‘ میں اتمام حجت کا پہلو: ’اُمُّ الْقُرٰی‘ سے مراد مکہ ہے اس لیے کہ ’اُمُّ الْقُرٰی‘ مرکزی بستی کو کہتے ہیں اور عرب میں مرکزی بستی کی حیثیت مکہ ہی کو حاصل تھی۔ یہاں مکہ کے بجائے ’اُمُّ الْقُرٰی‘ کے لفظ میں بھی اتمام حجت کا پہلو ہے۔ اگر ایک پیغام مرکزی بستی کے لوگوں کو پہنچا دیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس ملک کے لوگوں کو ان کے سرپر چڑھ کر پکار دیا گیا ہے۔ اگر ’اُمُّ الْقُرٰی‘ کے بجائے عرب کے کسی گوشے سے یہ دعوت اٹھتی تو باتیں بنانے والے یہ بات بنا سکتے تھے کہ آخر ہمارے اکابر و سادات اور ہمارے ذہین طبقہ کو چھوڑ کر قرآن نے سب سے پہلے عوام کے طبقہ کو کیوں مخاطب کیا، اس کے حق و باطل کے اصلی پرکھنے والے تو مکہ کے سادات ہو سکتے تھے!
’وَمَنْ حَوْلَھَا‘ سے کیا مراد ہے؟ ’وَمَنْ حَوْلَھَا‘ سے بعض لوگوں نے تمام عالم کو مراد لیا ہے۔ ان کے اس خیال کی بنیاد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام عالم کے لیے ہوئی ہے، اس وجہ سے صرف اطراف مکہ یا ملک عرب ہی کے شہر مراد نہیں ہیں، بلکہ پوری دنیا مراد ہے۔ یہ بات اگرچہ بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ آنحضرتؐ خاتم النبیین ہیں، اس وجہ سے آپ کی بعثت تمام عالم کے لیے ہوئی، لیکن ’وَمَنْ حَوْلَھَا‘ کی یہ تاویل الفاظ کے حدود سے اول تو صریح تجاوز ہے پھر اصل مقصد کے لیے اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ آپ دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ ایک بعثت خاص، دوسری بعثت عام۔ آپ کی بعثت خاص اہل مکہ اور اہل عرب کی طرف ہوئی اور ان پر آپ نے براہ راست حجت قائم فرمائی۔ رہی آپ کی بعثت عام تو وہ تمام عالم کے طرف ہے اور اہل عالم پر دین حق کی شہادت دینے کی ذمہ داری قرآن نے بھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی، قیامت تک کے لیے ملت مسلمہ پر ڈالی ہے اور اس ذمہ داری ہی کی بنا پر اس امت کو اللہ تعالیٰ نے ’شُھَدَآءُ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ‘ کے منصب پر سرفراز فرمایا ہے۔ یہ اس امت کا فریضۂ منصبی ہے کہ اللہ کے رسول نے دین حق کی گواہی جس طرح اس امت کے لوگوں پر دی اسی طرح یہ برابر دوسروں کے سامنے یہ گواہی دیتی رہے۔ اسی فریضہ کے تقاضے سے اس امت کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ ایک گروہ اس میں ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ یہ اس وقت بھی حق پر قائم رہے گا جب دنیا کی رگ رگ میں باطل کا زہر سرایت کر جائے گا۔ ۱؂
عدالت عام سے انذار: ’وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ‘۔ انذار عام کے بعد یہ انذار خاص کا ذکر ہے کہ ان لوگوں کو خاص طور پر ’یَوْمَ الجمع‘ سے ڈرا دو۔ ’یَوْمَ الجمع‘ سے اشارہ ظاہر ہے کہ روز قیامت کی طرف ہے۔ روزقیامت کو ’یَوْمَ الجمع‘ سے تعبیر کرنے میں اس بات کی آگاہی ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ بلااستثناء سب کو اکٹھا کرے گا۔ عابدوں کو بھی اور معبودوں کو بھی؛ لیڈروں کو بھی، ان کے پیرؤوں کو بھی، انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو بھی؛ کفار اور ان کے حمایتیوں کو بھی۔ اور ان سب کی موجودگی میں، بھری عدالت میں، فیصلہ فرمائے گا کہ اللہ کے دین کے معاملے میں کس کا رول کیا رہا ہے؟ کس نے اس میں اختلاف برپا کیا اور فساد ڈالا اور کس نے اس کی وحدت و پاکیزگی قائم رکھنے کی کوشش کی۔ کون انعام کا مستحق ہے اور کون سزا کا؟
’فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ‘۔ یہ اس کھلی عدالت کے فیصلہ کا بیان ہے کہ اس دن ایک گروہ یعنی اہل ایمان کا گروہ لازماً جنت میں جائے گا اور دوسرا گروہ یعنی اہل کفر کا گروہ لازماً دوزخ میں۔
_____
۱؂ اس مسئلہ پر مفصل بحث ہم اپنی کتاب ’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘ میں کر چکے ہیں۔ جن لوگوں کو دلائل کی تفصیل مطلوب ہو، اس کی مراجعت کریں۔

جاوید احمد غامدی

اِسی طرح، (جیسے کہ بیان ہوا) ہم نے ایک عربی قرآن تمھاری طرف وحی کیا ہے تاکہ تم مکہ والوں کو اور اُس کے گردوپیش رہنے والوں کو خبردار کردو، خاص کر اُس دن سے خبردار کر دو جو سب لوگوں کے جمع ہونے کا دن ہے، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اُس دن ایک گروہ جنت میں ہو گا اور ایک گروہ جہنم میں۔

قرآن کے ساتھ ’عَرَبِیّ‘ کی صفت بطور امتنان اور اتمام حجت ہے کہ اِس کے بعد اہل عرب کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔

اصل میں لفظ ’اُمَّ الْقُرٰی‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ مرکزی بستی کو کہتے ہیں اور عرب میں مرکزی بستی کی حیثیت مکہ ہی کو حاصل تھی۔ یہ بھی، ظاہر ہے کہ اتمام حجت کے پہلو سے ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اگر ایک پیغام مرکزی بستی کے لوگوں تک پہنچا دیا گیا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اُس ملک کے لوگوں کو اُن کے سر پر چڑھ کر پکار دیا گیا ہے۔ اگر ’اُمُّ الْقُرٰی‘ کے بجاے عرب کے کسی گوشے سے یہ دعوت اٹھتی تو باتیں بنانے والے یہ بات بنا سکتے تھے کہ آخر ہمارے اکابر و سادات اور ہمارے ذہین طبقہ کو چھوڑ کر قرآن نے سب سے پہلے عوام کے طبقے کو کیوں مخاطب کیا، اُس کے حق و باطل کے اصلی پرکھنے والے تومکہ کے سادات ہو سکتے تھے!‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۴۳)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت براہ راست اہل عرب کی طرف ہوئی تھی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ دنیا کی دوسری تمام قومیں بھی آپ پر ایمان اور آپ کی اطاعت کی مکلف ہیں، لیکن اُن تک پیغام پہنچانے کی ذمہ داری قرآن نے براہ راست آپ پر نہیں، بلکہ آپ کی قوم بنی اسمٰعیل پر ڈالی ہے جس میں تبعاً دوسرے مسلمان بھی شریک ہیں۔ اِس کی وضاحت دوسرے مقامات میں ہوگئی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ہاں، اِسی طرح اے نبیؐ، یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اُس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو، اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو جن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں۔

وہی بات پھر دہرا کر زیادہ زور دیتے ہوئے کہی گئی ہے جو آغاز کلام میں کہی گئی تھی۔ اور " قرآن عربی " کہہ کر سامعین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے، تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ تم براہ راست اسے خود سمجھ سکتے ہو، اس کے مضامین پر غور کر کے دیکھو کہ یہ پاک صاف اور بےغرض رہنمائی کیا خداوند عالم کے سوا کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔ 

 

یعنی انہیں غفلت سے چونکا دو اور متنبہ کر دو کہ افکار و عقائد کی جن گمراہیوں اور اخلاق و کردار کی جن خرابیوں میں تم لوگ مبتلا ہو، اور تمہاری انفرادی اور قومی زندگی جن فاسد اصولوں پر چل رہی ہے ان کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 

 

یعنی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ تباہی و بربادی صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے وہ دن بھی آنا ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کا حساب لے گا۔ دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی گمراہی و بد عملی کے برے نتائج سے بچ بھی نکلا تو اس دن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ جو یہاں بھی خراب ہو اور وہاں بھی اس کی شامت آئے۔ 

جونا گڑھی

اس طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کردیں اور جمع ہونے کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

امین احسن اصلاحی

اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ داخل کرتا ہے اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے اور جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں نہ ان کا کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار

ایک شبہ کا جواب: اب یہ ایک شبہ کا جواب دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک ہی دین دیا تو اس نے یہ کیوں نہیں پسند فرمایا کہ سب اسی دین پر رہتے؟ اس نے یہ موقع کیوں دیا کہ لوگ اس میں اختلاف برپا کریں اور اس اختلاف کا نتیجہ بالآخر یہ نکلے کہ ایک گروہ تو جنت کا حق دار ٹھہرے اور دوسرا دوزخ کا سزاوار قرار پائے؟

اس کا جواب یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا، کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں تھا۔ لیکن اس نے یہ نہیں پسند فرمایا کہ وہ لوگوں کو اپنی ہدایت قبول کرنے پر مجبور کرے بلکہ اس نے چاہا کہ لوگوں کو اختیار دے کر ان کے سامنے اپنی ہدایت رکھے کہ لوگ اپنی عقل و بصیرت سے کام لے کر، اپنی آزادئ رائے کے ساتھ، ہدایت کو اختیار کریں اور اللہ کی رحمت میں داخل ہونے کے سزاوار بنیں۔ ’یُدْخِلُ مَنۡ یَشَاءُ فِیْ رَحْمَتِہٖ‘ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جس مشیت کا ذکر فرمایا ہے وہ اس کی رحمت اور اس کے عدل کے تحت ہے۔ اس وجہ سے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جن کے لیے اس کا عدل مقتضی ہو کہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہوں ان کو وہ اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ اس مضمون کو اس کے بعد ’وَالظَّالِمُونَ مَا لَہُم مِّن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیْرٍ‘ فرما کر واضح بھی کر دیا کہ جو لوگ ظالم یعنی کافر و مشرک ہیں نہ ان کا کوئی کارساز ہو گا، نہ کوئی مددگار۔ یعنی نہ ان کے مزعومہ اولیاء ان کے کام آنے والے بنیں گے اور نہ ان کی کوئی جمعیت و جماعت ہو گی جو ان کی کوئی مدد کر سکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے صرف وہ لوگ محروم ہوں گے جو ظالم و مشرک ہوں گے اور ایسا اس لیے ہو گا کہ یہ اس کے عدل کا تقاضا ہے۔ اس کی مشیت اس کے عدل پر مبنی ہے اور کسی کی طاقت نہیں ہے کہ اس کی مشیت کو بدل سکے۔
یہ مضمون قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے اور اس کتاب میں بار بار اس کی وضاحت ہو چکی ہے۔ ہم مزید وضاحت کے لیے یہاں بھی چند آیات کا حوالہ دیے دیتے ہیں۔ سورۂ یونس میں فرمایا ہے:

وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَنۡ فِی الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْنَ ۵ وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُوۡنَ (یونس: ۹۹-۱۰۰)
’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو زمین میں جو بھی ہیں سب ایمان پر ہوتے تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ مومن بن جائیں اور کوئی جان بھی ایمان نہیں لا سکتی مگر اللہ کے اذن سے اور اللہ ان لوگوں پر گندگی لاد دیتا ہے جو اپنی عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ ایمان و ہدایت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے اور اس کی مشیت ان لوگوں کو ایمان کی توفیق بخشتی ہے جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔ جو عقل سے کام نہیں لیتے ان کی عقل ایسی گندگی کے ڈھیر کے نیچے دب جاتی ہے کہ ان کو ایمان و ہدایت کی روشنی نظر نہیں آتی۔ یہی مضمون سورۂ سجدہ میں اس طرح بیان ہوا ہے:

وَلَوْ شِئۡنَا لَآتَیْْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدَاہَا (السجدہ: ۱۳)
’’اور اگر ہم چاہتے تو ہر جان کو اس کی ہدایت دے دیتے۔‘‘

یعنی اگر ہم لوگوں کو ایمان پر مجبور کرنا چاہتے تو سب کو مومن بنا دیتے لیکن ہم نے لوگوں کو اختیار دے کر آزمایا ہے کہ کون ایمان کی راہ اختیار کرتا ہے، کون کفر کی۔ پس جو کفر کی راہ اختیار کریں گے ہم ان سب کو جہنم میں بھر دیں گے اور ان لوگوں کو جنت میں داخل کریں گے جو ایمان لائیں گے۔
یہی بات نہایت وضاحت سے سورۂ دہر میں اس طرح ارشاد ہوئی ہے:

إِنَّ ہَذِہِ تَذْکِرَۃٌ فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَی رَبِّہِ سَبِیْلاً ۵ وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّہُ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلِیْماً حَکِیْماً ۵ یُدْخِلُ مَن یَشَاءُ فِیْ رَحْمَتِہِ وَالظَّالِمِیْنَ أَعَدَّ لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً (الدہر: ۲۹-۳۱)
’’یہ قرآن تو بس ایک یاددہانی ہے تو جس کا جی چاہے اپنے رب کی راہ اختیار کرے اور تمہارا چاہنا کچھ نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ بھی چاہے۔ بے شک اللہ علیم و حکیم ہے۔ وہ اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ رہے اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تو ان کے لیے اللہ نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو تسلی دی گئی ہے کہ لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی سے پریشان نہ ہو۔ یہ قرآن لوگوں پر زبردستی لادنے کی چیز نہیں ہے۔ یہ صرف ایک یاددہانی ہے۔ تو اس کے ذریعہ سے لوگوں کو یاددہانی کرو۔ جس کا جی چاہے ایمان لائے، جس کا جی چاہے کفر کی راہ اختیار کرے۔ اگر تم لوگ ان کے ایمان کے خواہش مند ہو تو تمہاری خواہش سے کچھ نہیں ہو سکتا جب تک اللہ کی مشیت نہ ہو اور اللہ کی مشیت اس کے علم اور اس کی حکمت پر مبنی ہے۔ وہ اپنی رحمت میں انہی کو داخل کرتا ہے جن کو چاہتا ہے اور وہ انہی کو چاہتا ہے جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی بخشی ہوئی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے اور اس کی ہدایت کی قدر کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے بن کر چلتے ہیں تو ایسے ظالموں کے لیے اللہ نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

 

جاوید احمد غامدی

(اِس سے زیادہ تمھاری کوئی ذمہ داری نہیں ہے)۔ اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن (اُس نے لوگوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، لہٰذا اب) وہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور رہے وہ لوگ جو اپنی جان پر ظلم ڈھانے والے ہیں تو اُن کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔

یعنی اِس قانون کے مطابق کہ اُس کی رحمت کے مستحق وہی ہوں گے جو شرک اور نافرمانی اختیار کرکے اپنی جان پر ظلم نہیں ڈھائیں گے، بلکہ خدا کی بخشی ہوئی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں گے اور اُس کی ہدایت کی قدر کریں گے۔قرآن میں یہ قانون متعدد جگہوں پر بیان ہوا ہے اور ہر جگہ یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کو کوئی بدل نہیں سکتا، لیکن اُس کی یہ مشیت اندھا دھند نہیں ہے، یہ اُس کے عدل اور اُس کی حکمت کے تحت ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے، اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مدد گار۔

یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے : 

اولاً ، اس سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم اور تسلی دینا ہے۔ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کڑھیں، اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جائے، پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جائے جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا، پہاڑ، درخت، مٹی، پتھر اور سب حیوانات ہیں (اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام، حواشی ٢٣ تا ٢٥، ٧١) ۔ 

ثانیاً ، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات، جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اسے پسند نہ تھے، اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں، تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی ؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کرسکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کردیتا۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے جن پر ہم چل رہے ہیں، اس کو پسند ہیں، اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں، لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے (اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام، حواشی ٨٠۔ ١١٠۔ ١٢٤۔ ١٢٥۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ ١٠١، ہود، حاشیہ ١١٦، النحل، حواشی ١٠۔ ٣١۔ ٣٢)

ثالثاً ، اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے، وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تاکہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں، اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بےجا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں (اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الرعد، حواشی ٤٧ تا ٤٩، النحل، حواشی ٨٩ تا ٩٧) ۔ 

ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اسکی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جائے۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزوں نہ سمجھا گیا۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہوسکتا ہے۔ یہ رحمت کی اپنی چیز ہے۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے، نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کرسکے۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے، اس کو اپنا ولی بنائے اور اس کا دامن تھامے۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے، اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجائے دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے، اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے، اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے، سرے سے کوئی علم، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں۔ 

جونا گڑھی

اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا لیکن جسے چاہتا اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں۔

أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۖ فَاللَّـهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

امین احسن اصلاحی

کیا ان لو گوں نے اس کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں تو یاد رکھیں کہ کارساز اللہ ہی ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے

سوال یہاں اظہار تعجب اور انکار کے مفہوم میں ہے۔ اوپر والی آیت میں فرمایا ہے کہ ان کے لیے نہ کوئی کارساز ہو گا، نہ مددگار۔ یہ اسی کی مزید وضاحت ہے کہ اگر انھوں نے اللہ کے سوا کچھ دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں تو یہ محض ان کی بوالفضولی ہے۔ کارساز صرف اللہ ہی ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ وہی ہے جو مردوں کو زندہ کرے گا اور ہر ایک کی پیشی اس کے حضور میں ہونی ہے تو کارساز کوئی دوسرا کیسے بن جائے گا۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اس کے ہوتے کسی کارساز کی ضرورت کیا رہی اور اس کے آگے کسی بڑے سے بڑے کارساز کی کارسازی کیا کارگر ہو سکتی ہے۔

جاوید احمد غامدی

کیا اِن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں؟ تو یاد رکھیں کہ اللہ ہی کارساز ہے، وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور (یہ اُس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں)، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

کیا یہ (ایسے نادان ہیں کہ) اِنہوں نے اُسے چھوڑ کر دوسرے ولی بنا رکھے ہیں؟ ولی تو اللہ ہی ہے، وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

یعنی ولایت کوئی من سمجھوتے کی چیز نہیں ہے کہ آپ جسے چاہیں اپنا ولی بنا بیٹھیں اور وہ حقیقت میں بھی آپ کا سچا اور اصلی ولی بن جائے اور ولایت کا حق ادا کر دے۔ یہ تو ایک امر واقعی ہے جو لوگوں کی خواہشات کے ساتھ بنتا اور بدلتا نہیں چلا جاتا، بلکہ جو حقیقت میں ولی ہے وہی ولی ہے، خواہ آپ اسے ولی نہ سمجھیں اور نہ مانیں، اور جو حقیقت میں ولی نہیں ہے وہ ولی نہیں ہے، خواہ آپ مرتے دم تک اسے ولی سمجھتے اور مانتے چلے جائیں۔ اب رہا یہ سوال کہ صرف اللہ ہی کے ولی حقیقی ہونے اور دوسرے کسی کے نہ ہونے کی دلیل کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا حقیقی ولی وہی ہوسکتا ہے جو موت کو حیات میں تبدیل کرتا ہے، جس نے بےجان مادوں میں جان ڈال کر جیتا جاگتا انسان پیدا کیا ہے، اور جو حق ولایت ادا کرنے کی قدرت اور اختیارات بھی رکھتا ہے۔ وہ اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہو تو اسے ولی بناؤ، اور اگر وہ صرف اللہ ہی ہے، تو پھر اس کے سوا کسی اور کو اپنا ولی بنا لینا جہالت و حماقت اور خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ 

جونا گڑھی

کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز بنا لئے ہیں (حقیقتاً تو) اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہی ہر چیز کا قادر ہے

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

امین احسن اصلاحی

اور جس کسی چیز میں بھی تم نے اختلاف کیا ہے تو اس کا فیصلہ اللہ کے حوالہ ہے۔ وہی اللہ میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔

ان لوگوں کا معاملہ اللہ کے حوالہ جو اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے: اوپر آیت ۸ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ مخالفین کی ضد اور مکابرت سے آپ پریشان نہ ہوں۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں اللہ نے جو سنت مقرر کر رکھی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہ لوگ اللہ کے قانون کی زد میں آئے ہوئے ہیں اس وجہ سے ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ کیجیے۔ اسی ہدایت کے بموجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا معاملہ اللہ کے حوالہ فرما دیا۔ چونکہ یہ بات اوپر والی آیت ہی کی تعمیل میں تھی اس وجہ سے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نئی ہدایت کی ضرورت نہیں تھی بلکہ کہنے کی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلا دی گئی۔ فرمایا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے دین کی جس بات میں بھی تم نے اختلاف کیا، خواہ وہ توحید ہو یا آخرت، میری ذمہ داری اس میں صرف حق پہنچا دینے کی تھی سو وہ میں نے تم کو پہنچا دیا۔ اب اس کا فیصلہ اللہ کے حوالہ ہے۔ وہ فیصلہ فرمائے گا کہ میں نے حق پہنچانے میں کوتاہی کی یا تم نے حق کو پہچان کر اس کو جھٹلایا! وہی اللہ میرا رب ہے اس وجہ سے میں نے اس پر بھروسہ کیا اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے۔

جاوید احمد غامدی

تم جن چیزوں میں بھی کوئی اختلاف رکھتے ہو، (خواہ وہ توحید ہے یا آخرت)، اُس کا فیصلہ اللہ ہی کے حوالے ہے۔ وہی اللہ میرا پروردگار ہے، اُسی پر میں نے بھروسا کیا ہے اور اُسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔

یہاں سے متکلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو گئے ہیں۔ گویا اوپر جو فرمایا تھا کہ تمھاری ذمہ داری صرف دعوت و تبلیغ ہے، اِس کے بعد لوگوں کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے تو آپ نے اُس کی تعمیل کر دی۔

ابو الاعلی مودودی

تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ وہی اللہ میرا رب ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور اُسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔

اس پورے پیراگراف کی عبارت اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے، لیکن اس میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ گویا اللہ جل شانہ اپنے نبی کو ہدایت دے رہا ہے کہ تم یہ اعلان کرو۔ اس طرح کے مضامین قرآن مجید میں کہیں تو قل (اے نبی، کہو) سے شروع ہوتے ہیں، اور کہیں اس کے بغیر ہی شروع ہوجاتے ہیں، صرف انداز کلام بتا دیتا ہے کہ یہاں متکلم اللہ نہیں بلکہ اللہ کا رسول ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر تو کلام اللہ کا ہوتا ہے اور متکلم اہل ایمان ہوتے ہیں، جیسے مثلاً سورة فاتحہ میں ہے، یا متکلم فرشتے ہوتے ہیں، جیسے مثلاً سورة مریم 24 ۔ 25 میں ہے۔

 

یہ اللہ تعالیٰ کے مالک کائنات اور ولی حقیقی ہونے کا فطری اور منطقی تقاضا ہے۔ جب بادشاہی اور ولایت اسی کی ہے تو لا محالہ پھر حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے۔ اس کو جو لوگ صرف آخرت کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں، وہ غلطی کرتے ہیں۔ کوئی دلیل اس امر کی نہیں ہے کہ اللہ کی یہ حاکمانہ حیثیت اس دنیا کے لیے نہیں بلکہ صرف موت کی زندگی کے لیے ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا میں صرف عقائد اور چند " مذہبی " مسائل تک اسے محدود قرار دیتے ہیں، وہ بھی غلطی پر ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ عام ہیں اور وہ صاف صاف علی الا طلاق تمام نزاعات و اختلافات میں اللہ کو فیصلہ کرنے کا اصل حق دار قرار دے رہے ہیں۔ ان کی رو سے اللہ جس طرح آخرت کا مالک یوم الدین ہے اسی طرح اس دنیا کا بھی احکم الحاکمین ہے۔ اور جس طرح وہ اعتقادی اختلافات میں یہ طے کرنے والا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ٹھیک اسی طرح قانونی حیثیت سے بھی وہی یہ طے کرنے والا ہے کہ انسان کے لیے پاک کیا ہے اور ناپاک کیا، جائز اور حلال کیا ہے اور حرام و مکروہ کیا، اخلاق میں بدی و زشتی کیا ہے اور نیکی و خوبی کیا، معاملات میں کس کا کیا حق ہے اور کیا نہیں ہے، معاشرت اور تمدن اور سیاست اور معیشت میں کونسے طریقے درست ہیں اور کونسے غلط۔ آخر اسی بنیاد پر تو قرآن میں یہ بات اصول قانون کے طور پر ثبت کی گئی ہے کہ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَئءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوْ لِ (النساء۔ 59) ، اور مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ (الاحزاب۔ 36) ، اور اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآءَ (الاعراف۔ 3)

پھر جس سیاق وسباق میں یہ آیت آئی ہے اس کے اندر یہ ایک اور معنی بھی دے رہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اختلافات کا فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کا محض قانونی حق ہی نہیں ہے جس کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کافر و مومن ہونے کا مدار ہے، بلکہ اللہ فی الواقع عملاً بھی حق اور باطل کا فیصلہ کر رہا ہے جس کی بدولت باطل اور اس کے پرستار آخر کار تباہ ہوتے ہیں اور حق اور اس کے پرستار سرفراز کیے جاتے ہیں، خواہ اس فیصلے کے نفاذ میں دنیا والوں کو کتنی ہی تاخیر ہوتے نظر آتی ہو۔ یہ مضمون آگے آیت 24 میں بھی آ رہا ہے، اور اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الرعد، حواشی ٣٤۔ ٦٠ ابراہیم، حواشی ٢٦۔ ٣٤ تا ٤٠، بنی اسرائیل، حاشیہ ١٠٠۔ جلد سوم، الانبیاء، حواشی ١٥ تا ١٨۔ ٤٤ تا ٤٦)

 

یعنی جو اختلافات کا فیصلہ کرنے والا اصل حاکم ہے۔ 

 

یہ دو فعل ہیں جن میں سے ایک بصیغۂ ماضی بیان کیا گیا ہے اور دوسرا بصیغۂ مضارع جس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ صیغہ ماضی میں فرمایا " میں نے اس پر بھروسہ کیا، " یعنی ایک دفعہ میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ کرلیا کہ جیتے جی مجھے اسی کی مدد، اسی کی رہنمائی، اسی کی حمایت و حفاظت، اور اسی کے فیصلے پر اعتماد کرنا ہے۔ پھر صیغہ مضارع میں فرمایا " میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں " یعنی جو معاملہ بھی مجھے اپنی زندگی میں پیش آتا ہے، میں اس میں اللہ ہی کی طرف رجوع کیا کرتا ہوں۔ کوئی مصیبت، تکلیف، یا مشکل پیش آتی ہے تو کسی کی طرف نہیں دیکھتا، اس سے مدد مانگتا ہوں۔ کوئی خطرہ پیش آتا ہے تو اس کی پناہ ڈھونڈتا ہوں اور اس کی حفاظت پر بھروسا کرتا ہوں۔ کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو اس سے رہنمائی طلب کرتا ہوں اور اسی کی تعلیم و ہدایت میں اس کا حل یا حکم تلاش کرتا ہوں۔ اور کسی سے نزاع ہوتی ہے تو اسی کی طرف دیکھتا ہوں کہ اس کا آخری فیصلہ وہی کرے گا اور یقین رکھتا ہوں کہ جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہی حق ہوگا۔ 

جونا گڑھی

اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے یہی اللہ میرا رب ہے جس پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جس کی طرف میں جھکتا ہوں۔

Page 1 of 6 pages  1 2 3 >  Last ›