زمین اور آسمانوں کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے، بادشاہی اُسی کی ہے، وہی سزاوار شکر ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یعنی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور اِس طرح اپنے عمل سے شہادت دیتی ہے کہ اِس کائنات کی بادشاہی تنہا اُسی کی ہے اور جب وہی بادشاہ ہے تو وہی سزاوار شکر ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اپنے کسی کام میں کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ کسی کو اُس کا شریک و سہیم ٹھیرایا جائے یا بندوں کے شکر و سپاس کا حق دار سمجھا جائے۔
اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے ۔ اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
(تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورة الحدید،
حاشیہ 1 ۔ ) بعد کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات خود سمجھ میں آجاتی ہے کہ کلام کا آغاز اس فقرے سے کیوں کیا گیا ہے۔ آگے کائنات بےمقصد اور بےحکمت نہیں بنائی ہے۔ اور انسان یہاں غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ جو کچھ چاہے کرتا پھرے، کوئی اس سے باز پرس کرنے والا نہ ہو۔ اور اس کائنات کا فرمانروا کوئی شہ بیخبر نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں جو کچھ ہو رہا ہو اس کا کوئی علم اسے نہ ہو۔ اس مضمون کی بہترین تمہید وہی ہو سکتی تھی جو اس مختصر سے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں کی انتہائی وسعتوں تک جدھر بھی تم نگاہ گے، اگر تم عقل کے اندھے نہیں ہو تو تمہیں صاف محسوس ہوگا کہ ایک ذرے سے لے کر عظیم ترین کہکشانوں تک ہر چیز نہ صرف خدا کے وجود پر گواہ ہے بلکہ اس بات کی گواہی بھی دے رہی ہے کہ اس کا خدا ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے۔ اس کی ذات وصفات، اور اس کے افعال و احکام میں کسی عیب و خطا، یا کسی کمزوری اور نقص کا ادنیٰ درجے میں بھی کوئی احتمال ہوتا تو یہ کمال درجہ حکیمانہ نظام وجود ہی میں نہ آسکتا تھا، کجا کہ ازل سے ابد تک ایسے اٹل طریقہ سے چل سکتا۔
یعنی یہ پوری کائنات تنہا اسی کی سلطنت ہے۔ وہ صرف اس کو بنا کر اور ایک دفعہ حرکت دے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ وہی عملاً اس پر ہر آن حکومت کر رہا ہے۔ اس حکومت و فرمان روائی میں کسی دوسرے کا قطعاً کوئی دخل یا حصہ نہیں ہے۔ دوسروں کو اگر عارضی طور پر اور محدود پیمانے پر اس کائنات میں کسی جگہ تصرف یا ملکیت یا حکمرانی کے اختیارات حاصل ہیں تو وہ ان کے ذاتی اختیارات نہیں ہیں جو انہیں اپنے زور پر حاصل ہوئے ہوں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے ہیں، جب تک اللہ چاہے وہ انہیں حاصل رہتے ہیں، اور جب چاہے وہ انہیں سلب کرسکتا ہے۔
بالفاظ دیگر وہی اکیلا تعریف کا مستحق ہے، دوسری جس ہستی میں بھی کوئی قابل تعریف خوبی پائی جاتی ہے وہ اسی کی عطا کی ہوئی ہے۔ اور اگر حمد کا شکر کے معنی میں لیا جائے تو شکر کا بھی اصل مستحق وہی ہے، کیونکہ ساری نعمتیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور ساری مخلوقات کا حقیقی محسن اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دوسری کسی ہستی کے کسی احسان کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں تو اس بنا پر کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنی نعمت اس کے ہاتھوں ہم تک پہنچائی، ورنہ وہ خود نہ اس نعمت کا خالق ہے، نہ اللہ کی توفیق کے بغیر وہ اس نعمت کو ہم تک پہنچا سکتا تھا۔
یعنی وہ قادر مطلق ہے۔ جو کچھ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ کوئی طاقت اس کی قدرت کو محدود کرنے والی نہیں ہے۔
تمام چیزیں) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر ہر چیز پر قادر ہے۔
یعنی آسمان و زمین کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہر نقص وعیب سے تنزیہ وتقدیس بیان کرتی ہے زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی۔ جیسا کہ پہلے گزرا۔
یہ دونوں خوبیاں بھی اسی کے ساتھ خاص ہیں۔ اگر کسی کو کوئی اختیار حاصل ہے تو وہ اسی کا عطا کردہ ہے جو عارضی ہے، کسی کے پاس کچھ حسن و کمال ہے تو اسی مبدأ فیض کی کرم گستری کا نتیجہ ہے، اس لئے اصل تعریف کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔
وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا تو کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اللہ کی نظر میں ہے۔
ان کے لیے اپنے اختیار کے سوء استعمال کی سزا بھگتنا لازمی ہے: یعنی اسی خدا نے، جس کی تسبیح تمام کائنات کر رہی ہے، تم کو بھی پیدا کیا ہے اس وجہ سے حق تو یہ تھا کہ تم بھی اسی کی تسبیح کرتے جس کی تسبیح آسمان کے تمام ستارے، فضا کے تمام پرندے اور زمین کے تمام شجر و حجر کر رہے ہیں لیکن تم کو خدا نے اختیار بخشا ہے اس وجہ سے تم میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور وہ ہر ایک کے ساتھ اس کے عمل کے مطابق ہی معاملہ کرے گا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نگاہوں میں کفر اور ایمان دونوں یکساں ہیں۔ یہ بات بالبداہت خدا کے عدل اور اس کی حکمت کے خلاف ہے۔
وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن، اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ تمھارا خالق بھی وہی ہے جو کائنات کا خالق ہے، اِس لیے حق تو یہ تھا کہ تم بھی اُسی طرح اپنے خداوند کی تسبیح کرتے، جس طرح تمام کائنات کر رہی ہے، لیکن اُس نے تمھیں ارادہ و اختیار بخشا ہے تو اب اُس کا نتیجہ یہ ہے اور یہی ہونا تھا کہ تم میں ماننے والے بھی ہیں اور نہ ماننے والے بھی۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اُس نے تمھیں شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا ہے کہ جو چاہے کرتے پھرو اور تم سے بے تعلق ہو کر بیٹھ گیا ہے۔ نہیں، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔
وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن ، اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو ۔
اس کے چار مفہوم ہیں اور چاروں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں :
ایک یہ کہ وہی تمہارا خالق ہے، پھر تم میں سے کوئی اس کے خالق ہونے کا انکار کرتا ہے اور کوئی اس حقیقت کو مانتا ہے۔ یہ مفہوم پہلے اور دوسرے فقرے کو ملا کر پڑھنے سے متبادر ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسی نے تم کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ تم کفر اختیار کرنا چاہو تو کرسکتے ہو، اور ایمان لانا چاہو تو لا سکتے ہو۔ ایمان و کفر میں سے کسی کے اختیار کرنے پر بھی اس نے تمہیں مجبور نہیں کیا ہے۔ اس لیے اپنے ایمان و کفر، دونوں کے تم خود ذمہ دار ہو۔ اس مفہوم کی تائید بعد کا یہ فقرہ کرتا ہے کہ ” اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو “۔ یعنی اس نے یہ اختیار دے کر تمہیں امتحان میں ڈالا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو۔
تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تو تم کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا جس کا تقاضا یہ تھا کہ تم سب ایمان کی راہ اختیار کرتے، مگر اس صحیح فطرت پر پیدا ہونے کے بعد تم میں سے بعض لوگوں نے کفر اختیار کیا جو ان کی خلقت و آفرینش کے خلاف تھا، اور بعض نے ایمان کی راہ اختیار کی جو ان کی فطرت کے مطابق تھی۔ یہ مضمون اس آیت کو سورة روم کی آیت 30 کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے سمجھ میں آتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ” یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین پر جمادو، قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت نہ بدلی جائے، یہی بالکل راست اور درست دین ہے “۔ اور اسی مضمون پر وہ متعدد احادیث روشنی ڈالتی ہیں جن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بار بار یہ فرمایا ہے کہ ہر انسان صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور بعد میں خارج سے کفر و شرک اور گمراہی اس پر عارض ہوتی ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، تفسیر سورة روم، حواشی 42 تا 47) ۔ اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتب آسمانی نے بھی انسان کے پیدائشی گناہگار ہونے کا وہ تصور پیش نہیں کیا ہے جسے ڈیڑھ ہزار سال سے عیسائیت نے اپنا بنیادی عقیدہ بنا رکھا ہے۔ آج خود کیتھولک علماء یہ کہنے لگے ہیں کہ بائیبل میں اس عقیدے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ چنانچہ بائیبل کا ایک مشہور جرمن عالم ریورینڈ ہر برٹ ہاگ (Haag) اپنی تازہ کتاب Is Original Sin In Scripture میں لکھتا ہے کہ ابتدائی دور کے عیسائیوں میں کم از کم تیسری صدی تک یہ عقیدہ سرے سے موجود ہی نہ تھا کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے، اور جب یہ خیال لوگوں میں پھیلنے لگا تو دو صدیوں تک عیسائی اہل علم اس کی تردید کرتے رہے۔ مگر آخر کار پانچویں صدی میں سینٹ آگسٹائن نے اپنی منطق کے زور سے اس بات کو مسیحیت کے بنیادی عقائد میں شامل کردیا کہ ” نوع انسانی نے آدم کے گناہ کا وبال وراثت میں پایا ہے اور مسیح کے کفارے کی بدولت نجات پانے کے سوا انسان کے لیے کوئی راہ نجات نہیں ہے۔ “
چوتھا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی تم کو عدم سے وجود میں لایا۔ تم نہ تھے اور پھر ہوگئے۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ اگر تم اس پر سیدھے اور صاف طریقے سے غور و فکر کرتے اور یہ دیکھتے کہ وجود ہی وہ اصل نعمت ہے جس کی بدولت تم دنیا کی باقی دوسری نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہو، تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے خالق کے مقابلہ میں کفر و بغاوت کا رویہ اختیار نہ کرتا۔ لیکن تم میں سے بعض نے سوچاہی نہیں، یا غلط طریقے سے سوچا اور کفر کی راہ اختیار کرلی اور بعض نے ایمان کا وہی راستہ اختیار کیا جو فکر صحیح کا تقاضہ تھا۔
اس فقرے میں ” دیکھنے ” کا مطلب محض دیکھنا ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جیسے تمہارے اعمال ہیں ان کے مطابق تم کو جزا یا سزا دی جائے گی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی حاکم اگر کسی شخص کو اپنی ملازمت میں لے کر یہ کہے کہ ” میں دیکھتا ہوں تم کس طرح کام کرتے ہو ” تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ٹھیک طرح کام کرو گے تو تمہیں انعام اور ترقی سے نوازوں گا، ورنہ تم سے سخت مواخذہ کروں گا۔
اسی نے تمہیں پیدا کیا سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایماندار ہیں اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے۔
یعنی انسان کے لیے خیروشر، نیکی اور بدی اور کفر و ایمان کے راستوں کی وضاحت کے بعد اللہ نے انسان کو ارادہ واختیار کی جو آزادی دی ہے اس کی رو سے کسی نے کفر کا اور کسی نے ایمان کا راستہ اپنایا ہے اس نے کسی پر جبر نہیں کیا ہے۔ اگر وہ جبر کرتا تو کوئی بھی شخص کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قادر نہ ہوتا۔
اس نے آسمانوں اور زمین کو غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور اس نے تمہاری صورت گری کی تو اس نے تمہاری صورتیں اچھی بنائیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہو گا۔
جزاء و سزا اہتمام ربوبیت کا لازمی تقاضا ہے: یہ اوپر والی بات کی دلیل بیان ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ایک مقصد حق کے ساتھ پیدا کی ہے۔ اس مقصد حق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بعد لازماً ایک ایسا دن آئے جس میں حق پسندوں کو ان کی حق پسندی کا صلہ ملے اور جن کی زندگی اس مقصد حق کے خلاف گزری ہو وہ اس کی سزا بھگتیں۔
’وَصَوَّرَکُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَکُمْ‘۔ یہ اس اہتمام کی طرف توجہ دلائی ہے جو ان کی خلقت میں خالق نے ملحوظ رکھا ہے۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ انسان کی تخلیق بہترین سانچہ پر ہوئی ہے۔ چنانچہ سورۂ تین میں فرمایا ہے:
’لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘ (۴)
(اور ہم نے انسان کو بہترین سانچہ پر بنایا ہے)۔
انسان کے ظاہر و باطن کی تشکیل جس طرح ہوئی ہے اور اس میں جو قوتیں اور قابلیتیں ودیعت کی گئی ہیں وہ صاف اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ اس دنیا کی تمام مخلوقات میں مقصود کی حیثیت اسی کو حاصل ہے۔ وہی سرتاج اور گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے باقی دوسری ساری چیزیں بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی کی خدمت اور نفع رسانی کے لیے ہیں۔
انسان کے لیے یہ اہتمام و انتظام اور اس کا نہایت اعلیٰ ظاہری و باطنی صلاحیتوں سے مسلح ہونا اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اس کو خالق نے بے مقصد و عبث نہیں پیدا کیا ہے کہ بس وہ کھائے پیے اور ایک دن ختم ہو جائے۔ اگر ایسا ہو تو وہ سارا اہتمام بالکل بے معنی ہو کے رہ جاتا ہے جو قدرت نے اس کی تخلیق اوراس کے قیام و بقا پر صرف کیا ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر قرآن نے جگہ جگہ انسان کو یہ یاددہانی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ربوبیت کے لیے جو اہتمام فرمایا، تمہارے لیے جو پاکیزہ خوان کرم بچھایا اور شکل و صورت کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوقات میں جو امتیاز تم کو بخشا اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک دن تم اس کے سامنے حاضر کیے جاؤ اور تم سے تمہارے رب کی بخشی ہوئی نعمتوں سے متعلق سوال ہو۔
اَللہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَآءَ بِنَاءً وَصَوَّرَکُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ (المومن ۴۰: ۶۴)
’’اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو مستقر اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورت گری کی تو تمہاری صورتیں اچھی بنائیں اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق بخشا۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے اچھی صورتوں کے ساتھ پاکیزہ رزق اور عالی شان مکان کا یہ اہتمام اس بات کی بدیہی دلیل ہے کہ تم اپنے رب کے آگے مسؤل ہو۔
اسی دلیل کی بنیاد پر ان لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے جو آخرت اور جزاء و سزا کے قائل نہیں تھے۔ فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ ۵ الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَکَ ۵ فِیْ أَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ (الانفطار ۸۲: ۶-۸)
’’اے انسان، تجھ کو تیرے اس رب کریم کے باب میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے جس نے تیرا نقشہ بنایا، پھر تیرے جوڑ بند ٹھیک کیے پس تجھے متوازن کیا اور جس صورت پر چاہا تجھے ترکیب دے دیا۔‘‘
اس آیت میں اس اہتمام کی وضاحت بھی ہو گئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے میں فرمایا ہے اور ساتھ ہی اس سے جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اس کی طرف بھی نہایت تہدید آمیز انداز میں اشارہ ہو گیا ہے۔
’وَإِلَیْہِ الْمَصِیْرُ‘۔ یعنی جس خدا نے ایک عظیم غایت کو پیش نظر رکھ کر یہ دنیا پیدا کی ہے اور اس اہتمام کے ساتھ تمہیں اس میں وجود بخشا ہے لازم ہے کہ تم ایک دن اسی کی طرف جزاء و سزا کے لیے لوٹائے جاؤ۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ سارا اہتمام بالکل بے معنی ہو کے رہ جائے گا۔
زمین اور آسمانوں کو اُس نے برحق پیدا کیا ہے اور تمھاری صورتیں بنائیں تو نہایت اچھی صورتیں بنائی ہیں، اور (آخر کار) اُسی کی طرف پلٹنا ہے۔
اوپر جو بات بیان ہوئی ہے، یہ اُس کی دلیل ہے کہ دنیا ایک مقصد حق کے ساتھ پیدا ہوئی ہے،یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے۔ اِسی طرح انسان کی پیدایش میں بھی غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے۔ اِس مقصدیت اور اہتمام کا تقاضا ہے کہ بدلے کا ایک دن آئے اور انسان کو جزا و سزا کے لیے اُسی پروردگار کی طرف لوٹایا جائے جس نے اُسے پیدا کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اِس اہتمام کے کوئی معنی نہیں ہیں، اِس لیے متنبہ ہو جاؤ کہ آخر کار اُسی کی طرف پلٹنا ہے۔
اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے، اور اسی کی طرف آخرکار تمہیں پلٹنا ہے ۔
اس آیت میں تین باتیں علی الترتیب بیان کی گئی ہیں جن کے درمیان ایک بہت گہرا منطقی ربط ہے۔
پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ نے یہ کائنات بر حق پیدا کی ہے۔ ” برحق ” کا لفظ جب خبر کے لیے بولا جاتا ہے تو مراد ہوتی ہے سچی خبر۔ حکم کے لیے بولا جاتا ہے تو مطلب ہوتا ہے مبنی بر عدل و انصاف حکم۔ قول کے لیے بولا جاتا ہے تو مقصود ہوتا ہے راست اور درست قول۔ اور جب کسی فعل کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو مراد ایسا فعل ہوتا ہے جو حکیمانہ اور معقول ہو نہ کہ لایعنی اور فضول۔ اب یہ ظاہر ہے کہ خَلْق ایک فعل ہے، اس لیے تخلیق کائنات کو بر حق کہنے کا مطلب لا محالہ یہ ہے کہ یہ کائنات کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی گئی ہے بلکہ یہ ایک خالق حکیم کا نہایت سنجیدہ کام ہے۔ اس کی ہر چیز اپنے پیچھے ایک معقول مقصد رکھتی ہے، اور یہ مقصدیت اس میں اتنی نمایاں ہے کہ اگر کوئی صاحب عقل انسان کسی چیز کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لے تو یہ جان لینا اس کے لیے مشکل نہیں ہوتا کہ ایسی ایک چیز کے پیدا کرنے کا معقول اور مبنی بر حکمت مقصد کیا ہوسکتا ہے۔ دنیا میں انسان کی ساری سائنٹفک ترقی اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جس چیز کی نوعیت کو بھی انسان نے غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے سمجھ لیا اس کے بارے میں یہ بات بھی اسے آخر کار معلوم ہوگئی کہ وہ کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے، اور اس مقصد کو سمجھ کر ہی انسان نے وہ بیشمار چیزیں ایجاد کرلیں جو آج انسانی تمدن میں استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ بات ہرگز ممکن نہ ہوتی اگر یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا ہوتی جس میں کوئی حکمت اور مقصدیت کار فرما نہ ہوتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، سورة انعام، حاشیہ 46 ۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ 75 ۔ الروم، حاشیہ 6 ۔ جلد چہارم، الدخان، حاشیہ 34 ۔ الجاثیہ، حاشیہ 28 ) ۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا ہے۔ صورت سے مراد محض انسان کا چہرہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اس کی پوری جسمانی ساخت ہے اور وہ قوتیں اور صلاحیتیں بھی اسکے مفہوم میں شامل ہیں جو اس دنیا میں کام کرنے کے لیے آدمی کو عطا کی گئی ہیں۔ ان دونوں حیثیتوں سے انسان کو زمین کی مخلوقات میں سب سے بہتر بنایا ہے، اور اسی بنا پر وہ اس قابل ہوا ہے کہ ان تمام موجودات پر حکمرانی کرے جو زمین اور اس کے گرد و پیش میں پائی جاتی ہیں۔ اس کو کھڑا قد دیا گیا ہے۔ اس کو چلنے کے لیے مناسب ترین پاؤں دیئے گئے ہیں۔ اس کو کام کرنے کے لیے موزوں ترین ہاتھ دیئے گئے ہیں۔ اس کو ایسے حواس اور ایسے آلات علم دیئے گئے ہیں جن کے ذریعہ سے وہ ہر طرح کی معلومات حاصل کرتا ہے۔ اس کو سوچنے اور سمجھنے اور معلومات کو جمع کر کے ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا ذہن دیا گیا ہے۔ اس کو ایک اخلاقی حِس اور قوت تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور برائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے۔ اس کو ایک قوت فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششوں کو کس راستے پر لگائے اور کس پر نہ لگائے۔ اس کو یہاں تک آزادی دے دی گئی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کر دے، یا جن جن کو چاہے اپنا خدا بنا بیٹھے، یا جسے خدا مانتا ہو اس کے خلاف بھی بغاوت کرنا چاہے تو کر گزرے۔ ان ساری قوتوں اور ان سارے اختیارات کے ساتھ اسے خدا نے اپنی پیدا کردہ بیشمار مخلوقات پر تصرُّف کرنے کا اقتدار دیا ہے اور وہ عملاً اس اقتدار کو استعمال کر رہا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، المؤمن، حاشیہ 91) ۔
ان دو باتوں سے جو اوپر بیان کی گئی ہیں بالکل ایک منطقی نتیجہ کے طور پر وہ تیسری بات خود بخود نکلتی ہے جو آیت کے تیسرے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے کہ ” اسی کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے “۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایسے ایک حکیمانہ اور با مقصد نظام کائنات میں ایسی ایک با اختیار مخلوق پیدا کی گئی ہے تو حکمت کا تقاضا ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسے یہاں شتر بےمہار کی طرح غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا جائے، بلکہ لازماً اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مخلوق اس ہستی کے سامنے جواب دہ ہو جس نے اسے ان اختیارات کے ساتھ اپنی کائنات میں یہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ ” پلٹنے ” سے مراد اس آیت میں محض پلٹنا نہیں ہے بلکہ جواب دہی کے لیے پلٹنا ہے، اور بعد کی آیات میں صراحت کردی گئی ہے کہ یہ واپسی اس زندگی میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہوگی، اور اس کا اصل وقت وہ ہوگا جب پوری نوع انسانی کو از سر نو زندہ کر کے بیک وقت محاسبہ کے لیے اکٹھا کیا جائے گا، اور اس محاسبے کے نتیجے میں جزا و سزا اس بنیاد پر ہوگی کہ آدمی نے خدا کے دیئے ہوئے اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا یا غلط طریقے سے۔ رہا یہ سوال کہ یہ جواب دہی دنیا کی موجودہ زندگی میں کیوں نہیں ہو سکتی ؟ اور اس کا صحیح وقت مرنے کے بعد دوسری زندگی ہی کیوں ہے ؟ اور یہ کیوں ضروری ہے کہ یہ جواب دہی اس وقت ہو جب پوری نوع انسانی اس دنیا میں ختم ہوجائے اور تمام اولین و آخرین کو بیک وقت دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کیا جائے ؟ آدمی ذرا بھی عقل سے کام لے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بھی سراسر معقول ہے اور حکمت و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ محاسبہ دوسری زندگی ہی میں ہو اور سب انسانوں کا ایک ساتھ ہو۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے پورے کارنامہ حیات کے لیے جواب دہ ہے۔ اس لیے اس کی جواب دہی کا صحیح وقت لازماً وہی ہونا چاہیے جب اس کا کارنامہ حیات مکمل ہوچکا ہو۔ اور دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان ان تمام اثرات و نتائج کے لیے ذمہ دار ہے جو اس کے افعال سے دوسروں کی زندگی پر مترتب ہوئے ہوں، اور وہ اثرات و نتائج اس کے مرنے کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتے بلکہ اس کے بعد مدت ہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا صحیح محاسبہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب پوری نوع انسانی کا کارنامہ حیات ختم ہوجائے اور تمام اولین و آخرین بیک وقت جواب دہی کے لیے جمع کیے جائیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 30 ۔ یونس، حواشی 10 ۔ 11 ۔ ہود، حاشیہ 105 ۔ النحل، حاشیہ 35 ۔ جلد سوم، الحج، حاشیہ 9 ۔ النمل، حاشیہ 27 ۔ الروم، حواشی 5 ۔ 6 ۔ جلد چہارم، ص، حواشی 28 ۔ 30 ۔ المؤمن، حاشیہ 80 ۔ الجاشیہ، حواشی 27 تا 29 ) ۔
اسی نے آسمانوں کو اور زمین کو عدل و حکمت سے پیدا کیا اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔
اور وہ عدل و حکمت یہی ہے کہ محسن کو احسان کی اور بدکار کو اس کی بدی کی جزا دے، چنانچہ وہ اس عدل کا مکمل اہتمام قیامت والے دن فرمائے گا۔
تمہاری شکل وصورت، قدو قامت اور خدوخال نہایت خوبصورت بنائے۔ جس سے اللہ کی دوسری مخلوق محروم ہے۔
کسی اور کی طرف نہیں، کہ اللہ کے محاسبے اور مؤاخذے سے بچاؤ ہوجائے۔
وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔ اور اللہ باخبر ہے سینوں کے بھیدوں سے بھی۔
کوئی بات اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے: یعنی اس مغالطہ میں نہ رہو کہ بھلا اللہ تعالیٰ کو ساری دنیا کے تمام خفیہ و اعلانیہ اعمال کی خبر کہاں ہو گی کہ وہ سب کا حساب کرنے بیٹھے گا اور سب کو جزا یا سزا دے گا! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب سے واقف ہے اور تم کوئی کام خواہ پوشیدہ طور پر کرو یا علانیہ وہ تمہارے ہر قول و فعل کو جانتا ہے بلکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں چھپا ہوا ہوتا ہے وہ اس سے بھی باخبر رہتا ہے۔
وہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو ، اور اللہ سینوں کے بھید تک جانتا ہے۔
یہ اُس مغالطے کو دور کیا ہے جو آخرت کی جزا و سزا کے معاملے میں بالعموم لوگوں کو ہوتا رہا ہے کہ خفیہ اور علانیہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اور جس نیت اور ارادے سے کرتے ہیں، اُس کا علم آخر کہاں محفوظ ہو گا کہ ایک ایک چیز سامنے آجائے اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جا سکے۔ فرمایا ہے کہ اللہ اِن میں سے ہر چیز سے واقف ہے، بلکہ وہ تو دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔
زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے۔ جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے ۔
دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جو کچھ تم چھپ کر کرتے ہو اور جو کچھ تم علانیہ کرتے ہو “۔
یعنی وہ انسان کے صرف ان اعمال ہی سے واقف نہیں ہے جو لوگوں کے علم میں آجاتے ہیں بلکہ ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو سب سے مخفی رہ جاتے ہیں۔ مزید براں وہ محض اعمال کی ظاہر شکل ہی کو نہیں دیکھتا بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسان کے ہر عمل کے پیچھے کیا ارادہ اور کیا مقصد کار فرما تھا اور جو کچھ اس نے کیا کس نیت سے کیا اور کیا سمجھتے ہوئے کیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان غور کرے تو اسے اندازہ ہوسکتا ہے انصاف صرف آخرت ہی میں ہوسکتا ہے اور صرف خدا ہی کی عدالت میں صحیح انصاف ہونا ممکن ہے۔ انسان کی عقل خود یہ تقاضا کرتی ہے کہ آدمی کو اس کے ہر جرم کی سزا ملنی چاہیے، لیکن آخر یہ بات کون نہیں جانتا کہ دنیا میں اکثر و بیشتر جرائم یا تو چھپے رہ جاتے ہیں یا ان کے لیے کافی شہادت بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مجرم چھوٹ جاتا ہے، یا جرم کھل بھی جاتا ہے تو مجرم اتنا با اثر اور طاقتور ہوتا ہے کہ اسے سزا نہیں دی جاسکتی۔ پھر انسان کی عقل یہ بھی چاہتی ہے کہ آدمی کو محض اس بنا پر سزا نہیں ملنی چاہیے کہ اس کے فعل کی صورت ایک مجرمانہ فعل کی سی ہے، بلکہ یہ تحقیق ہونا چاہیے کہ جو فعل اس نے کیا ہے بالارادہ سوچ سمجھ کر کیا ہے، اس کے ارتکاب کے وقت وہ ایک ذمہ دار عامل کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، اس کی نیت فی الواقع ارتکاب جرم ہی کی تھی، اور وہ جانتا تھا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ جرم ہے۔ اسی لیے دنیا کی عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ان امور کی تحقیق کرتی ہیں اور ان کی تحقیق کو اصول انصاف کا تقاضا مانا جاتا ہے۔ مگر کیا واقعی دنیا میں کوئی ذریعہ ایسا پایا جاتا ہے جس سے ان کی ٹھیک ٹھیک تحقیق ہو سکے جو ہر شبہ سے بالا تر ہو ؟ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے گہرا منطقی ربط رکھتی ہے کہ ” اس نے زمین اور آسمانوں کو بر حق پیدا کیا ہے “۔ بر حق پیدا کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات میں صحیح اور کامل عدل ہو۔ یہ عدل لازماً اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے جبکہ عدل کرنے والے کی نگاہ سے انسان جیسی ذمہ دار مخلوق کا نہ صرف یہ کہ کوئی فعل چھپا نہ رہ جائے بلکہ وہ نیت بھی اس سے مخفی نہ رہے جس کے ساتھ کسی شخص نے کوئی فعل کیا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ خالق کائنات کے سوا کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہو سکتی جو اس طرح کا عدل کرسکے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ اور آخرت کا انکار کرتا ہے تو وہ گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو فی الحقیقت انصاف سے خالی ہے، بلکہ جس میں سے انصاف کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ اس احمقانہ تخیل پر جس شخص کی عقل اور جس کا قلب و ضمیر مطمئن ہو وہ بڑا ہی بےشرم ہے اگر وہ اپنے آپ کو ترقی پسند یا عقلیت پسند سمجھتا ہو اور ان لوگوں کو تاریک خیال یا رجعت پسند سمجھے جو کائنات کے اس انتہائی معقول (Rational) تصور کو قبول کرتے ہیں جسے قرآن پیش کر رہا ہے۔
وہ آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ظاہر کرو وہ (سب کو) جانتا ہے اللہ تو سینوں کی باتوں تک کو جاننے والا ہے ۔
یعنی اس کا علم کائنات ارضی و سماوی سب پر محیط ہے بلکہ تمہارے سینوں کے رازوں تک سے واقف ہے، اس سے قبل جو وعدے اور وعیدین بیان ہوئی ہیں، یہ ان کی تاکید ہے۔
کیا تمہیں ان لوگوں کا احوال نہیں پہنچا جنھوں نے اس سے پہلے کفر کیا! تو انھوں نے اپنے کیے کا وبال چکھا اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔
مکافات عمل کی شہادت تاریخ سے: فرمایا کہ کیا اس ملک کی پچھلی قوموں کی تاریخ تمہارے علم میں نہیں آئی کہ انھوں نے کفر کیا تو اس کفر کا وبال انھیں اس دنیا میں بھی چکھنا پڑا اور آخرت میں بھی ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے؟ یہ اشارہ عاد، ثمود، اہل مدین اور قوم لوط وغیرہ کی طرف ہے جن کی سرگزشتیں تفصیل سے، پچھلی سورتوں میں سنائی بھی گئی ہیں اور قریش ان سے فی الجملہ واقف بھی ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض قوموں کی بستیوں کے کھنڈروں پر سے ان کو گزرنے کے مواقع بھی ملتے رہتے تھے۔ ان کی تاریخ کی طرف اشارہ کر کے متنبہ فرمایا کہ یہ واقعات دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کے خیر و شر سے غیر متعلق نہیں ہے بلکہ اس کی اصلاح کے لیے اس نے برابر اپنے رسول بھیجے ہیں اور جب قوموں نے رسولوں کی تکذیب کی ہے تو اس نے ان کو سزا بھی نہایت عبرت انگیز دی۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے قانون مجازات کی یہ مثالیں اپنی آنکھوں سے اس زمین میں دیکھتے ہو تو اس بات کو کیوں بعید سمجھتے ہو کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں ساری دنیا کا انصاف کرے اور اس دن اس کے کامل عدل اور اس کی کامل رحمت کا ظہور ہو!
تمھیں اُن لوگوں کے حالات نہیں پہنچے جنھوں نے اِس سے پہلے (اِن حقائق کا) انکار کیا تو اپنے کیے کا وبال (اِسی دنیا میں)چکھ لیا، اور (آگے) اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ کی دینونت کا ظہور جن قوموں میں ہوا، یہ اُن کے انجام کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اہل عرب عاد و ثمود،قوم لوط اور مدین والوں سے واقف تھے اور اِن میں سے بعض قوموں کے آثار اُن کی گزرگاہوں میں بھی پڑتے تھے۔ پچھلی سورتوں میں اِن کی سرگذشتیں تفصیل کے ساتھ سنائی گئی ہیں۔
کیا تمہیں ان لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامت اعمال کا مزہ چکھ لیا ؟ اور آگے ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے ۔
یعنی دنیا میں انہوں نے شامت اعمال کا جو مزا چکھا وہ ان کے جرائم کی نہ اصل سزا تھی نہ پوری سزا۔ اصلی اور پوری سزا تو ابھی آخرت میں ان کو بھگتنی ہے۔ لیکن دنیا میں جو عذاب ان پر آیا اس سے لوگ یہ سبق لے سکتے ہیں کہ جن قوموں نے بھی اپنے رب کے مقابلے میں کفر کا رویہ اختیار کیا وہ کس طرح بگڑتی چلی گئیں اور آخر کس انجام سے دوچار ہوئیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 5 ۔ 6 ۔ ہود، حاشیہ 105) ۔
کیا تمہارے پاس اس سے پہلے کے کافروں کی خبر نہیں پہنچی ؟ جنہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھ لیا اور جن کے لئے دردناک عذاب ہے
یعنی دنیاوی عذاب کے علاوہ آخرت میں۔
یہ اشارہ ہے اس عذاب کی طرف جو دنیا میں انہیں ملا اور آخرت میں بھی انہیں ملے گا۔
یہ اس سبب سے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ آتے رہے تو انھوں نے کہا کہ کیا بشر ہماری رہنمائی کریں گے! پس انھوں نے کفر کیا اور منہ موڑا اور اللہ ان سے بے پروا ہو گیا اور اللہ بے نیاز و ستودہ صفات ہے۔
رسولوں کی تکذیب کے لیے منکرین کا بہانہ: یہ سبب بتایا ہے کہ یہ قومیں کیوں خدا کے عذاب کی گرفت میں آئیں؟ فرمایا کہ اللہ کے رسول ان کی ہدایت کے لیے نہایت واضح نشانیوں اور دلائل کے ساتھ آئے لیکن یہ اپنی سرکشی کے سبب سے ان کو خاطر میں نہ لائیں۔ انھوں نے یہ بہانہ تراشا کہ اگر اللہ کو ہماری ہدایت کے لیے کوئی رسول بھیجنا ہی ہوتا تو وہ کسی برتر مخلوق کو رسول بنا کر بھیجتا۔ ہمارے ہی جیسے انسانوں کو رسول بنا کر بھیجنے کے کیا معنی؟ کیا ہم ایسے حقیر ہیں کہ ہمارے ہی جیسے انسان ہمیں ہدایت دینے والے بنیں گے! مطلب یہ ہے کہ اگر انسان ہی ہمیں ہدایت دے سکتے ہیں تو ہم کیا برے ہیں! ہم خود ہی اپنے کو ہدایت دے لیں گے، دوسروں کا باراحسان ہم کیوں اٹھائیں۔
منکرین کے باب میں سنت الٰہی: ’فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللہُ‘۔ یعنی اس طرح کے اعتراضات اور بہانے پیدا کر کے انھوں نے رسول کا انکار اور دعوت حق سے اعراض کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ بھی ان سے بے پروا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ہدایت سے بہرہ یاب کرنے کے لیے اہتمام کرتا ہے لیکن جب لوگ اس کی ناقدری کرتے ہیں تو وہ ان سے بے پروا ہو کر ان کو چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس ناقدری کا انجام دیکھیں۔
’وَاللہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ‘۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کی ہدایت مطلوب ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ اس میں اس کا کوئی نفع ہے۔ وہ لوگوں کی ہدایت و ضلالت سے بالکل بے نیاز اور خود اپنی ذات میں ستودہ صفات اور کامل ہے۔ وہ ہدایت کا انتظام کرتا ہے تو محض اس وجہ سے کرتا ہے کہ لوگوں کی فلاح اسی میں ہے لیکن جب وہ اس کی قدر نہیں کرتے تو وہ اس کو زبردستی لوگوں کے اوپر نہیں لادتا۔
یہ اِس لیے ہوا کہ اُن کے رسول اُن کے پاس کھلی نشانیوں کے ساتھ آتے رہے، مگر اُنھوں نے کہا: کیا انسان ہماری رہنمائی کریں گے؟ اِس طرح اُنھوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا اور (اِس کے نتیجے میں) اللہ بھی (اپنی سنت کے مطابق اُن سے )بے پروا ہو گیا اور اللہ تو (ہر چیز سے) بے نیاز اور اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔
اُن کا مطلب یہ تھا کہ کیا ہم ایسے ہی حقیر ہو گئے ہیں کہ ہمارے جیسے انسان اب ہمارے ہادی بنا کر بھیج دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اگر کوئی رسول بھیجنا تھا تو ہم سے برتر کسی مخلوق کو اِس منصب پر سرفراز کیا ہوتا۔ اپنی ہدایت کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں۔ ہم اِن کا احسان کیوں اٹھائیں؟ یہ، ظاہر ہے کہ آخری درجے کی سرکشی اور استکبار تھا۔ لہٰذا آگے فرمایا ہے کہ پھر اللہ کو بھی اِس کی کچھ پروا نہیں رہی کہ یہ کس گڑھے میں گرتے ہیں۔
اس انجام کے مستحق وہ اس لیے ہوئے کہ ان کے پاس ان کی رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے ، مگر انہوں نے کہا ” کیا انسان ہی میں ہدایت دیں گے ؟ ” اس طرح انہوں نے ماننے سے انکار کردیا اور منہ پھیرلیا، تب اللہ بھی ان سے بےپروا ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ۔
اصل میں لفظ بینات استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ بین عربی زبان میں ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بالکل ظاہر اور واضح ہو، انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ فرمانا کہ وہ بینات لے کر آتے رہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک تو وہ ایسی صریح علامات اور نشانیاں لے کر آتے تھے جو ان کے مامور من اللہ ہونے کی کھلی کھلی شہادت دیتی تھیں۔ دوسرے، وہ جو بات بھی پیش کرتے تھے نہایت معقول اور روشن دلیلوں کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ تیسرے، ان کی تعلیم میں کوئی ابہام نہ تھا، بلکہ وہ صاف صاف بتاتے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، جائز کیا ہے اور ناجائز کیا، کس راہ پر انسان کو چلنا چاہیے اور کس راہ پر نہ چلنا چاہیے۔
یہ تھی ان کی تباہی کی اولین اور بنیادی وجہ۔ نوع انسانی کو دنیا میں صحیح راہ عمل اس کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کا خالق اسے صحیح علم دے، اور خالق کی طرف سے علم دیئے جانے کی عملی صورت اس کے سوا کچھ نہ ہو سکتی تھی کہ وہ انسانوں ہی میں سے بعض افراد کو علم عطا کر کے دوسروں تک اسے پہنچانے کی خدمت سپرد کرے۔ اس غرض کے لیے اس نے انبیاء کو بینات کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگوں کے لیے ان کے بر حق ہونے میں شک کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ رہے۔ مگر انہوں نے سرے سے یہی بات ماننے سے انکار کردیا کہ بشر خدا کا رسول ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ان کے لیے ہدایت پانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورة یٰس، حاشیہ 11 ) ۔ اس معاملہ میں گمراہ انسانوں کی جہالت و نادانی کا یہ عجیب کرشمہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ بشر کی رہنمائی قبول کرنے میں تو انہوں نے کبھی تامل نہیں کیا ہے، حتیٰ کہ ان ہی کی رہنمائی میں لکڑی اور پتھر کے بتوں تک کو معبود بنایا، خود انسانوں کو خدا اور خدا کا اوتار اور خدا کا بیٹا تک مان لیا، اور گمراہ کن لیڈروں کی اندھی پیروی میں ایسے ایسے عجیب مسلک اختیار کرلیے جنہوں نے انسانی تہذیب و تمدن اور اخلاق کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ مگر جب خدا کے رسول ان کے پاس حق لے کر آئے اور انہوں نے ہر ذاتی غرض سے بالا تر ہو کر بےلاگ سچائی ان کے سامنے پیش کی تو انہوں نے کہا ” کیا اب بشر ہمیں ہدایت دیں گے ” ؟ اس کے معنی یہ تھے کہ نشر اگر گمراہ کرے تو سر آنکھوں پر، لیکن اگر وہ راہ راست دکھاتا ہے تو اس کی رہنمائی قابل قبول نہیں ہے۔
یعنی جب انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے استغناء برتا تو پھر اللہ کو بھی اس کی کچھ پروا نہ رہی کہ وہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں۔ اللہ کی کوئی غرض تو ان سے اٹکی ہوئی نہ تھی کہ وہ اسے خدا مانیں گے تو وہ خدا رہے گا ورنہ خدائی کا ٹکٹ اس سے چھن جائے گا۔ وہ نہ ان کی عبادت کا محتاج تھا، نہ ان کی حمد وثناء کا۔ وہ تو ان کی اپنی بھلائی کے لیے انہیں راہ راست دکھانا چاہتا تھا مگر جب وہ اس سے منہ پھیر گئے تو اللہ بھی ان سے بےپروا ہوگیا۔ پھر نہ ان کو ہدایت دی، نہ ان کی حفاظت اپنے ذمہ لی، نہ ان کو مہالک میں پڑنے سے بچایا اور نہ انہیں اپنے اوپر تباہی لانے سے روکا، کیونکہ وہ خود اس کی ہدایت اور ولایت کے طالب نہ تھے۔
یہ اس لئے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کرے گا پس انکار کردیا اور منہ پھیرلیا اور اللہ نے بےنیازی کی اور اللہ تو ہے بےنیاز سب خوبیوں والا۔
چنانچہ اس بنا پر انہوں نے رسولوں کو رسول ما ننے سے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔
یعنی ان سے اعراض کیا اور جو دعوت وہ پیش کرتے تھے، اس پر انہوں نے غور و تدبر ہی نہیں کیا۔
یعنی ان کے ایمان اور ان کی عبادت سے۔
اس کو کسی کی عبادت سے کیا فائدہ اور اس کی عبادت سے انکار کرنے سے کیا نقصان ؟
یا محمود ہے تمام مخلوقات کی طرف سے یعنی ہر مخلوق زبان حال وقال سے اس کی حمد و تعریف میں رطب اللسان ہے۔
جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ہرگز مرنے کے بعد اٹھائے نہیں جانے کے۔ کہہ دو، ہاں میرے رب کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر تم کو بتایا جائے گا جو کچھ تم نے کیا ہو گا۔ اور یہ کام اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔
منہ توڑ جواب: یعنی ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے اس وجہ سے وہ نبیوں کی دعوت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
’قُلْ بَلَی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ‘۔ فرمایا کہ جس زور و تاکید کے ساتھ یہ لوگ مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کر رہے ہیں اسی زور و تاکید کے ساتھ، بقید قسم، تم ان کو جواب دو کہ ہاں میرے رب کی قسم، تم ضرور اٹھائے جاؤ گے!
قسم کے اندر دلیل کا پہلو: اگرچہ اس فقرے میں دلیل کا پہلو نمایاں نہیں ہے، بلکہ دعوے کا جواب بظاہر دعوے ہی سے دے دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ بات منکرین کے بے دلیل دعوے کے جواب میں کہلائی گئی ہے لیکن ’وَرَبِّیْ‘ کی قسم میں دلیل کا بھی ایک لطیف پہلو مضمر ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، جس کی شانیں اس کائنات کے ہر گوشہ میں نمایاں ہیں، اس بات کو واجب کرتی ہے کہ وہ نیکو کار اور بدکار دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ نہیں کرے گا بلکہ لازماً وہ نیکوں کو ان کی نیکی کا صلہ دے گا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا۔ اس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ وہ مرنے کے بعد لوگوں کو اٹھائے، ان کا حساب کرے اور ان کے اعمال کے مطابق ان کو جزا یا سزا دے۔
’وَذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر قیاس کر کے اس کام کو ناممکن یا مشکل نہ سمجھو۔ دوسروں کے لیے تو یہ کام بے شک ناممکن ہے۔ ان کا علم بھی نہایت محدود ہے اور ان کی قدرت بھی نہایت محدود ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے یہ نہایت آسان ہے۔ وہ غیر محدود علم اور غیر محدود قدرت کا مالک ہے۔
اِن منکروں نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے۔ اِن سے کہو: کیوں نہیں، میرے پروردگار کی قسم، تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر تمھیں ضرور بتایا جائے گا جو کچھ تم نے (دنیا میں) کیا اور یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔
یہ بظاہر دعوے کا جواب دعوے سے دیا ہے، لیکن غور کیجیے تو اِس جملے میں قسم کا جواسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ اپنے اندر دلیل کا بھی ایک لطیف پہلو رکھتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، جس کی شانیں اِس کائنات کے ہر گوشے میں نمایاں ہیں، اِس بات کو واجب کرتی ہے کہ وہ نیکوکار اور بدکار، دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ نہیں کرے گا، بلکہ لازماً وہ نیکوں کو اُن کی نیکی کا صلہ دے گا اور بدوں کو اُن کی بدی کی سزا۔ اِس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ وہ مرنے کے بعد لوگوں کو اٹھائے، اُن کا حساب کرے اور اُن کے اعمال کے مطابق اُن کو جزا یا سزا دے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۱۸)
منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ ان سے کہا ” نہیں، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ، پھر ضرور تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے ، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے “
یعنی ہر زمانے میں منکرین حق دوسری جس بنیادی گمراہی میں مبتلا رہے ہیں، اور جو بالآخر ان کی تباہی کی موجب ہوئی، وہ یہ تھی۔ اگرچہ کسی منکر آخرت کے پاس نہ پہلے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا، نہ آج ہے، نہ کبھی ہوسکتا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ لیکن ان نادانوں نے ہمیشہ بڑے زور کے ساتھ یہی دعویٰ کیا ہے، حالانکہ قطعیت کے ساتھ آخرت کا انکار کردینے کے لیے نہ کوئی عقلی بنیاد موجود ہے نہ علمی بنیاد۔
یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی قسم کھا کر لوگوں سے کہو کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا۔ پہلے سورة یونس میں فرمایا : وَیَسْتَنْبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ ، قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ۔ ” وہ پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ حق ہے ؟ کہو، میرے رب کی قسم یہ یقیناً حق ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہور میں آنے سے روک دو ” (آیت 53) ۔ پھر سورة سبا میں فرمایا : وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَأتِیْنَا السَّاعَۃُ ، قُلْ بَلیٰ وَرَبِّی لَتَأتِیَنَّکُمْ ۔ ” منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے ! کہو، قسم ہے میرے رب کی وہ تم پر آ کر رہے گی ” (آیت 30) ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منکر آخرت کے لیے آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے آخرت کے آنے کی خبر قسم کھا کردیں یا قسم کھائے بغیر دیں ؟ وہ جب اس چیز کو نہیں مانتا تو محض اس بنا پر کیسے مان لے گا کہ آپ قسم کھا کر اس سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بنا پر یہ بات خوب جانتے تھے کہ یہ شخص کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا ہے، اس لیے چاہے زبان سے وہ آپ کے خلاف کیسے ہی بہتان گھڑتے رہے ہوں، اپنے دلوں میں وہ یہ تصور تک نہ کرسکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی خدا کی قسم کھا کر وہ بات کہہ سکتا ہے جس کے بر حق ہونے کا اسے کامل یقین نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محض آخرت کا عقیدہ ہی بیان نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے لیے نہایت معقول دلائل بھی پیش فرماتے تھے۔ مگر جو چیز نبی اور غیر نبی کے درمیان فرق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک غیر نبی آخرت کے حق میں جو مضبوط سے مضبوط دلائل دے سکتا ہے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ نس یہی ہوسکتا ہے کہ آخرت کے نہ ہونے کی بہ نسبت اس کا ہونا معقول تر اور اغلب تسلیم کرلیا جائے۔ اس کے برعکس نبی کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالا تر ہے۔ اس کی اصل حیثیت یہ نہیں ہے کہ عقلی استدلال سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ آخرت ہونی چاہیے۔ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ آخرت ہوگی اور یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ ضرور ہو کر رہے گی۔ اس لیے ایک نبی ہی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتا ہے، ایک فلسفی اس پر قسم نہیں کھا سکتا۔ اور آخرت پر ایمان ایک نبی کے بیان ہی سے پیدا ہوسکتا ہے، فلوسفی کا استدلال اپنے اندر یہ وقت نہیں رکھتا کہ دوسرا شخص تو در کنار، فلسفی خود بھی اپنی دلیل کی بنا پر اپنا ایمانی عقیدہ بنا سکے۔ فلسفی اگر واقعی صحیح الفکر فلسفی ہو تو وہ ” ہونا چاہیے ” سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ” ہے اور یقیناً ہے ” کہنا صرف ایک بی کا کام ہے۔
یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے بنی آدم کو مرنے کے بعد دو بارہ اٹھایا جائے گا، اور اسی میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ ایسا کرنے کی آخر ضرورت کیا ہے۔ اگر وہ بحث آدمی کی نگاہ میں ہو جو سورة کے آغاز سے آیت نمبر 4 تک کی گئی ہے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس بر حق کائنات میں جس مخلوق کو کفر و ایمان میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہو، اور جسے اس کائنات میں بہت سی چیزوں پر تصرف کا اقتدار بھی عطا کیا گیا ہو، اور جس نے کفر یا ایمان کی راہ اختیار کر رکے عمر بھر اپنے اس اقتدار کو صحیح یا غلط طریقے سے استعمال کر کے بہت سی بھلائیاں یا بہت سی برائیاں خود اپنی ذمہ داری پر کی ہوں، اس کے بارے میں یہ تصور کرنا انتہائی غیر معقول ہے کہ یہ سب کچھ جب وہ کرچکے تو آخر کار بھلے کی بھلائی اور برے کی برائی، دونوں بےنتیجہ رہی اور سرے سے کوئی وقت ایسا آئے ہی نہیں جب اس مخلوق کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو۔ جو شخص ایسی غیر معقول بات کہتا ہے وہ لا محالہ دو حماقتوں میں سے ایک حماقت کا ارتکاب کرتا ہے۔ یا تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ کائنات ہے تو مبنی بر حکمت، مگر یہاں انسان جیسی با اختیار مخلوق کو غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی کائنات ہے جسے بنانے میں سرے سے کسی حکیم کی حکمت کار فرما نہیں ہے۔ پہلی صورت میں وہ ایک متناقض بات کہتا ہے کیونکہ مبنی بر حکمت کائنات میں ایک با اختیار مخلوق کا غیر ذمہ دار ہونا صریحاً خلاف عدل و حکمت ہے۔ اور دوسری صورت میں وہ اس بات کی کوئی معقول توجیہ نہیں کرسکتا کہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی نے حکمت کائنات میں انسان جیسی ذی عقل مخلوق کا وجود میں آنا آخر ممکن کیسے ہوا اور اس کے ذہن میں عدل و انصاف کا تصور کہاں سے آگیا ؟ بےعقلی کی عقل کی پیدائش اور بےعدلی سے عدل کا تصور برآمد ہوجانا ایک ایسی بات ہے جس کا قائل یا تو ایک ہٹ دھرم آدمی ہوسکتا ہے، یا پھر وہ جو بہت زیادہ فلسفہ بگھارتے بگھارتے دماغی مریض ہوچکا ہو۔
یہ آخرت کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل آخرت کے ضروری ہونے کی تھی، اور یہ دلیل اس کے ممکن ہونے کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس خدا کے لیے کائنات کا اتنا بڑا نظام بنا دینا دشوار نہ تھا اور جس کے لیے اس دنیا میں انسانوں کو پیدا کرنا دشوار نہیں ہے، اس کے لیے یہ بات آخر کیوں دشوار ہوگی کہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے اپنے سامنے حاضر کرے اور ان کا حساب لے۔
ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوبارہ زندہ نہ کئے جائیں گے آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں اللہ کی قسم ! تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے پھر جو تم نے کیا اس کی خبر دیئے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بلکہ آسان ہے ۔
یعنی یہ عقیدہ کے قیامت والے دن دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے یہ کافروں کا محض گمان ہے جس کی پشت پر دلیل کوئی نہیں۔ زعم کا اطلاق کذب پر بھی ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں تین مقامات پر اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر یہ اعلان کرے کہ اللہ تعالیٰ ضرور دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ ان میں سے ایک یہ مقام ہے اس سے قبل ایک مقام سورة یونس، اور دوسرا مقام سورة سبا ہے۔
یہ وقوع قیامت کی حکمت ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو کیوں دوبارہ زندہ کرے گا ؟ تاکہ وہاں پر ہر ایک کو اس کے عمل کی پوری جزا دی جائے۔
یہ دوبارہ زندگی، انسانوں کو کتنی ہی مشکل نظر آتی ہو، لیکن اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔
تو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے باخبر ہے۔
دعوت ایمان بانداز تنبیہ: یہ بانداز تنبیہ دعوت ایمان ہے۔ یعنی اس قسم کے بہانے پیدا کر کے رسول کی تکذیب نہ کرو بلکہ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس روشنی پر ایمان لاؤ جو اللہ نے نازل فرمائی ہے۔ ’’روشنی‘‘ سے مراد ظاہر ہے کہ قرآن مجید ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے نازل فرمایا۔ یہ امر واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو روشنی اہل کتاب کو ہدایت و ضلالت میں امتیاز کے لیے عطا فرمائی تھی وہ انھوں نے، جیسا کہ پچھلی سورتوں میں تفصیل گزر چکی ہے، ضائع کر دی تھی، جس کے سبب سے ان کے لیے حق و باطل میں امتیاز ناممکن ہو گیا تھا لیکن جب اس نے ازسرنو خلق کی رہنمائی کے لیے اپنی روشنی، اپنی کامل صورت میں، اتاری تو اس کی قدر کرنے کے بجائے انھوں نے پورا زور لگایا کہ اس کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھا دیں، نہ خود اس سے فائدہ اٹھائیں نہ دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیں:
’یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُۡا نُوْرَ اللہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ‘ (الصف ۶۱: ۸)
(یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھا دیں اور اس کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کافروں کے علی الرغم وہ اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا)۔
’وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘۔ یعنی اس مغالطے میں نہ رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر ہے۔ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ سب اس کے علم میں ہے اور ایک دن وہ سب تمہارے سامنے آ کے رہے گا۔
اِس لیے اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اُس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے اور (خبردار ہو جاؤ کہ) جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے با خبر ہے۔
n/a
پس ایمان لاؤ اللہ پر، اور اس کے رسول پر، اور اس روشنی پر جو ہم نے نازل کی ہے ۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
یعنی جب یہ واقعہ ہے اور پوری انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ قوموں کی تباہی کا اصل موجب ان کا رسولوں کی بات نہ ماننا اور آخرت کا انکار کرنا تھا، تو اسی غلط روش پر چل کر اپنی شامت بلانے پر اصرار نہ کرو اور اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کی پیش کردہ ہدایت پر ایمان لے آؤ۔ یہاں سیاق وسباق خود بتا رہا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ روشنی سے مراد قرآن ہے۔ جس طرح روشنی خود نمایاں ہوتی ہے اور گردو پیش کی ان تمام چیزوں کو نمایاں کردیتی ہے جو پہلے تاریکی میں چھپی ہوئی تھیں، اسی طرح قرآن ایک ایسا چراغ ہے جس کا بر حق ہونا بجائے خود روشن ہے، اور اس کی روشنی میں انسان ہر اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے جسے سمجھنے کے لیے اس کے اپنے ذرائع علم و عقل کافی نہیں۔ یہ چراغ جس شخص کے پاس ہو وہ فکر و عمل کی بیشمار پر پیچ راہوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ صاف صاف دیکھ سکتا ہے اور عمر بھر صراط مستقیم پر اس طرح چل سکتا ہے کہ ہر قدم پر اسے یہ معلوم ہوتا رہے کہ گمراہیوں کی طرف لے جانے والی پگ ڈنڈیاں کدھر کدھر جا رہی ہیں اور ہلاکت کے گڑھے کہاں کہاں آ رہے ہیں اور سلامتی کی راہ ان کے درمیان کون سی ہے۔
سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کے نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ (١) اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نازل ہونے والا یہ نور قرآن مجید ہے، جس سے گمراہی کی تاریکیاں چھٹتی ہیں اور ایمان کی روشنی پھیلتی ہے۔
اس دن کو یاد رکھو جب اللہ اکٹھے کیے جانے کے دن کے لیے تم کو اکٹھا کرے گا۔ وہی دن درحقیقت ہار جیت کا دن ہو گا۔ اور جو ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کیے ہوں گے اللہ ان کے گناہوں کو جھاڑ دے گا اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ بڑی کامیابی درحقیقت یہ ہے!
سلامتی کی راہ: یعنی بجائے اس کے کہ اپنے کو اس مغالطے میں مبتلا رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مرنے کے بعد زندہ نہیں کر سکتا، سلامتی اس بات میں ہے کہ اس دن کو برابر یاد رکھو جس دن اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کیے جانے کے دن کے لیے اکٹھا کرے گا یعنی اس دن کے لیے اکٹھا کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں طے شدہ ہے، جس کے دلائل آفاق و انفس میں موجود ہیں، جس کی شہادت تمام نبیوں اور رسولوں اور تمام آسمانی صحیفوں نے دی ہے، جس کا واقع ہونا اس دنیا کے بامقصد و باغایت ہونے کے لیے ضروری ہے اور جو واقع نہ ہو تو یہ دنیا بالکل عبث، بے حکمت ایک کھلنڈرے کا کھیل بن کے رہ جاتی ہے۔ دوسرے مقام میں فرمایا ہے:
’ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ‘ (ہود ۱۱: ۱۰۳)
(وہ دن ہے جس کے لیے لوگ جمع کیے جائیں گے اور وہ حاضری کا دن ہو گا)۔
دوسری جگہ فرمایا ہے:
’قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ ۵ لَمَجْمُوْعُونَ إِلٰی مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ‘ (الواقعہ ۵۶: ۴۹-۵۰)
(کہہ دو، تمام اگلے اور پچھلے ایک معین دن کے وقت مقرر پر حاضر کیے جائیں گے)۔
ان آیات میں ایک مقررہ وقت پر تمام اگلوں پچھلوں کے جمع کیے جانے پر جو زور ہے وہ ان نادانوں کے استبعاد کو رفع کرنے کے لیے ہے جو سمجھتے ہیں کہ بھلا اتنی بے شمار مخلوقات کو خشکی و تری، دریاؤں اور پہاڑوں کے کونے کونے سے کون جمع کر سکتا ہے؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دن اس جمع کے لیے مقرر کر رکھا ہے اور یہ بات لازماً ہو کے رہے گی۔ شکوک میں رہنے کے بجائے اس کے لیے تیاری کرو اور اس کو برابر یاد رکھو۔
ہار جیت کا دن: ’ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ‘۔ ’یَوْمُ التَّغَابُنِ‘ کا ترجمہ شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے ’ہار جیت کا دن‘ کیا ہے۔ یہ ترجمہ ہمارے نزدیک لفظ کی صحیح روح کے مطابق ہے۔ اس ہار جیت کی وضاحت آگے قرآن نے خود کر دی ہے۔ فرمایا ہے کہ جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو لغزشوں کے اثرات سے پاک کر کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور جن کو یہ چیز حاصل ہوئی ان کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بالکل برعکس ان لوگوں کا حال ہو گا جنھوں نے اللہ کا کفر اور اس کی آیتوں کی تکذیب کی ہو گی۔ یہ لوگ دوزخ میں پڑیں گے اور اسی میں ہمیشہ رہیں گے اور نہایت ہی برا ٹھکانا ہو گا۔
اُس دن کو یاد رکھو، جب وہ روز محشر کے لیے تمھیں اکٹھا کرے گا۔ وہی درحقیقت ہار جیت کا دن ہو گا اور جو اللہ پر ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے گناہ وہ (اُس دن) اُن سے جھاڑ دے گا اور اُنھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ بڑی کامیابی یہی ہے۔
یہ مخاطبین کو اُن مغالطوں سے نکالنے کے لیے جن میں وہ مبتلا تھے اور اُن کے اِس استبعاد کو رفع کرنے کے لیے کہ اتنی بے شمار مخلوقات کہاں سے اٹھا کر جمع کر دی جائیں گی، اُنھیں توجہ دلائی ہے کہ شبہات میں رہنے کے بجاے اِس دن کی تیاری کرو۔
مطلب یہ ہے کہ تم اِس دنیا کو ہار جیت کا میدان سمجھتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہار جیت کا اصلی دن وہ ہو گا ، جس دن انسانوں کے ابدی نعمت اور ابدی نقمت کے فیصلے ہوں گے۔
(اس کا پتا تمہیں اس روز چل جائے گا) جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا ۔ وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔ جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے ، اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی۔
اجتماع کے دن سے مراد قیامت، اور سب کو اکٹھا کرنے سے مراد ہے تمام ان انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کرنا جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہوں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں جگہ جگہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورة ہود میں فرمایا ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسْ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ، ” وہ ایک ایسا دن ہوگا جس میں سب انسان جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا ” (آیت 103) ۔ اور سورة واقعہ میں فرمایا : قُلْ اِنَّ الْاَ وَّ لِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ الیٰ مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ، ” ان سے کہو کہ تمام پہلے گزرے ہوئے اور بعد میں آنے والے لوگ یقیناً ایک مقرر دن کے وقت جمع کیے جانے والے ہیں ” (آیت 50) ۔
اصل میں لفظ یَوْمُ التَّغابُنِ استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ اردو زبان تو کیا، کسی دوسرے زبان کے بھی ایک لفظ، بلکہ ایک فقرے میں اس کا مفہوم ادا نہیں کیا جاسکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی قیامت کے جتنے نام آئے ہیں، ان میں غالباً سب سے زیادہ پُر معنی نام یہی ہے۔ اس لیے اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تشریح ناگزیر ہے۔
تغابُن غبن سے ہے جس کا تلفظ غَبُن بھی ہے اور غَبَن بھی۔ غَبُن زیادہ تر خریدو فروخت اور لین دین کے معاملہ میں بولا جاتا ہے اور غَبَن رائے کے معاملہ میں۔ لیکن کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں : غَبَنُوا خَبَرالنَّاقَۃ، ” ان لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی “۔ غَبَنَ فُلَاناً فِی الْبَیْعِ ، ” اس نے فلاں شخص کو خریدو فروخت میں دھوکا دے دیا “۔ اس نے فلاں شخص کو گھاٹا دے دیا “۔ غَبِنْتُ مِنْ حَقِّ عِنْدِ فلانٍ ، ” فلاں شخص سے اپنا حق وصول کرنے میں مجھ سے بھول ہوگئی ” غَبِیْن، ” وہ شخص جس میں ذہانت کی کمی ہو اور جس کی رائے کمزور ہو ” مَغْبُوْن، ” وہ شخص جو دھوکا کھا جائے “۔ لاغبن، الغفلۃ، النسیان، فوت الحظ، ان یبخس صاحبک فی معاملۃ بینک و بینہ لضرب من الاخفاء، ” غبن کے معنی ہیں غفلت، بھول، اپنے حصے سے محروم رہ جانا، ایک شخص کا کسی غیر محسوس طریقے سے کاروبار یا باہمی معاملہ میں دوسرے کو نقصان دینا “۔ امام حسن بصری نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کو بیع میں دھوکا دے رہا ہے تو فرمایا ھٰذٰا یغبن عقلک ” یہ شخص تجھے بیوقوف بنا رہا ہے “۔
اس سے جب لفظ تغابُن بنایا جائے تو اس میں دو یا زائد آدمیوں کے درمیان غبن واقع ہونے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ تَغَابَنَ الْقَوْمُ کے معنی ہیں بعض لوگوں کا بعض لوگوں کے ساتھ غبن کا معاملہ کرنا۔ یا ایک شخص کا دوسرے کو نقصان پہنچانا اور دوسرے کا اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا جانا۔ یا ایک کا حصہ دوسرے کو مل جانا اور اس کا اپنے حصے سے محروم رہ جانا۔ یا تجارت میں ایک فریق کا خسارہ اٹھانا اور دوسرے فریق کا نفع اٹھا لے جانا۔ یا کچھ لوگوں کا کچھ دوسرے لوگوں کے مقالہ میں غافل یا ضعیف الرائے ثابت ہونا۔
اب اس بات پر غور کیجیے کہ آیت میں قیامت کے متعلق فرمایا گیا ہے ذٰلِکَ یَوْ مُ التَّغَابُنِ ، ” وہ دن ہوگا تغابن کا “۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ دنیا میں تو شب و روز تغابن ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن یہ تغابن ظاہری اور نظر فریب ہے، اصل اور حیقی تغابن نہیں ہے۔ اصل تغابن قیامت کے روز ہوگا۔ وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ اصل میں خسارہ کس نے اٹھایا اور کون نفع کما لے گیا۔ اصل میں کس کا حصہ کسے مل گیا اور کون اپنے حصے سے محروم رہ گیا۔ اصل میں دھوکا کس نے کھایا اور کون ہوشیار نکلا۔ اصل میں کس نے اپنا تمام سرمایۂ حیات ایک غلط کاروبار میں کھپا کر اپنا دیوالہ نکال دیا، اور کس نے اپنی قوتوں اور قابلیتوں اور مساعی اور اموال اور اوقات کو نفع کے سودے پر لگا کر وہ سارے فائدے لوٹ لیے جو پہلے شخص کو بھی حاصل ہو سکتے تھے اگر وہ دنیا کی حقیقت سمجھنے میں دھوکا نہ کھاتا۔
مفسرین نے یوم التغابن کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے متعدد مطلب بیان کیے ہیں جو سب کے سب صحیح ہیں اور اس کے معنی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس روز اہل جنت اہل دوزخ جنتیوں کا وہ حصہ لوٹ لیں گے جو انہیں دوزخ میں ملتا اگر انہوں نے دنیا میں دوزخیوں کے سے کام کیے ہوتے۔ اس مضمون کی تائید بخاری کی وہ حدیث کرتی ہے جو انہوں نے کتاب الرِقاق میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جو شخص بھی جنت میں جائے گا اسے وہ مقام دیا جائے گا جو اسے دوزخ میں ملتا اگر وہ برا عمل کرتا، تاکہ وہ اور زیادہ شکر گزار ہو۔ اور جو شخص بھی دوزخ میں جائے گا اسے وہ مقام دکھا دیا جائے گا جو اسے جنت میں ملتا اگر اس نے نیک عمل کیا ہوتا، تاکہ اسے اور زیادہ حسرت ہو “
بعض اور مفسرین کہتے ہیں کہ اس روز ظالم کی اتنی نیکیاں مظلوم لوٹ لے جائے گا جو اس کے ظلم کا بدلہ ہو سکیں، یا مظلوم کے اتنے گناہ ظالم پر ڈال دیئے جائیں گے جو اس کے حق کے برابر وزن رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ قیامت کے روز آدمی کے پاس کوئی مال و زر تو ہوگا نہیں کہ وہ مظلوم کا حق ادا کرنے کے لیے کوئی ہر جانہ یا تاوان دے سکے۔ وہاں تو بس آدمی کے اعمال ہی ایک زر مبادلہ ہوں گے۔ لہٰذا جس شخص نے دنیا میں کسی پر ظلم کیا ہو وہ مظلوم کا حق اسی طرح ادا کرسکتے گا کہ اپنے پلے میں جو کچھ بھی نیکیاں رکھتا ہو ان میں سے اس کا تاوان ادا کرے، یا مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ اپنے اوپر لے کر اس کا جرمانہ بھگتے۔ یہ مضمون بھی متعدد احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔ بخاری، کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ” جس شخص کے ذمہ اپنے کسی بھائی پر کسی قسم کے ظلم کا بار ہو اسے چاہیے کہ یہیں اس سے سبکدوش ہولے، کیونکہ آخرت میں دینار و درہم تو ہونگے ہی نہیں۔ وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ لے کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی، یا اگر اس کے پاس نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے “۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت جابر بن عبداللہ بن انیس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ” کوئی جنتی جنت میں اور کوئی دوزخی دوزخ میں اس وقت تک نہ جاسکے گا جب تک کہ اس ظلم کا بدلہ نہ چکا دیا جائے جو اس نے کسی پر کیا ہو، حتیٰ کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی دینا ہوگا “۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ بدلہ کیسے دیا جائے گا جبکہ قیامت میں ہم ننگے بُچّے ہوں گے ؟ فرمایا ” اپنے اعمال کی نیکیوں اور بدیوں سے بدلہ چکانا ہوگا “۔ مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں لوگوں سے پوچھا، ” جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ ” لوگوں نے عرض کیا ہم میں سے مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال متاع کچھ نہ ہو۔ فرمایا ” میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزہ اور زکوٰۃ ادا کر کے حاضر ہوا ہو، مگر اس حال میں آیا ہو کہ کسی کو اس نے گالی دی تھی اور کسی پر بہتان لگایا تھا اور کسی کا مال مار کھایا تھا اور کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا پیٹا تھا۔ پھر ان سب مظلوموں میں سے ہر ایک پر اس کی نیکیاں لے لے کر بانٹ دی گئیں۔ اور جب نیکیوں میں سے کچھ نہ بچا جس سے ان کا بدلہ چکا یا جاسکے تو ان میں سے ہر ایک کے کچھ کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے گئے، اور وہ شخص دوزخ میں پھینک دیا گیا “۔ ایک اور حدیث میں، جسے مسلم اور ابو داؤد نے حضرت بریدہ سے نقل کیا ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” کسی مجاہد کے پیچھے اگر کسی شخص نے اس کی بیوی اور اس کے گھر والوں کے معاملہ میں خیانت کی تو قیامت کے روز وہ اس مجاہد کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا کہ اس کی نیکیوں میں سے جو کچھ تو چاہے لے لے ” پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ” پھر تمہارا کیا خیال ہے ” ؟ یعنی تم کیا اندازہ کرتے ہو کہ وہ اس کے پاس کیا چھوڑ دے گا ؟
بعض اور مفسرین نے کہا ہے کہ تغابن کا لفظ زیادہ تر تجارت کے معاملہ میں بولا جاتا ہے۔ اور قرآن مجید میں جگہ جگہ اس رویے کو جو کافر اور مومن اپنی دنیا کی زندگی میں اختیار کرتے ہیں، تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مومن اگر نافرمانی کا راستہ چھوڑ کر اطاعت اختیار کرتا ہے اور اپنی جان، مال اور محنتیں خدا کے راستے میں کھپا دیتا ہے تو گویا وہ گھاٹے کا سودا چھوڑ کر ایک ایسی تجارت میں اپنا سرمایہ لگا رہا ہے جو آخر کار نفع دینے والی ہے۔ اور ایک کافر اگر اطاعت کی راہ چھوڑ کر خدا کی نافرمانی اور بغاوت کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسا تاجر ہے جس نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے اور آخر کار وہ اس کا خسارہ اٹھانے والا ہے۔ دونوں کا نفع اور نقصان قیامت کے روز ہی کھلے گا۔ دنیا میں یہ ہوسکتا ہے کہ مومن سراسر گھاٹے میں رہے اور کافر بڑے فائدے حاصل کرتا ہے۔ مگر آخرت میں جا کر معلوم ہوجائے گا کہ اصل میں نفع کا سودا کس نے کیا ہے اور نقصان کا سودا کس نے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں : البقرہ، آیات 16 ۔ 175 ۔ 207 ۔ آل عمران 77 ۔ 177 ۔ النساء 74 ۔ التوبہ 111 ۔ النحل 95 ۔ فاطر 29 ۔ الصف 10 ۔
ایک اور سورت تغابن کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں لوگ کفر و فسق اور ظلم و عصیان پر بڑے اطمینان سے آپس میں تعاون کرتے رہتے ہیں اور یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان بڑی گہری محبت اور دوستی ہے۔ بد کردار خاندانوں کے افراد، ضلالت پھیلانے والے پیشوا اور ان کے پیرو، چوروں اور ڈاکوؤں کے جتھے، رشوت خور اور ظالم افسروں اور ملازمین کے گٹھ جوڑ، بےایمان تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں کے گروہ، گمراہی اور شرارت و خباثت برپا کرنے والی پارٹیاں اور بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ظلم و فساد کی علمبردار حکومتیں اور قومیں، سب کا باہمی ساز باز اسی اعتماد پر قائم ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد اس گمان میں ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بڑے اچھے رفیق ہیں اور ہمارے درمیان بڑا کامیاب تعاون چل رہا ہے۔ مگر جب یہ لوگ آخرت میں پہنچیں گے تو ان پر یکایک یہ بات کھلے گی کہ ہم سب نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے۔ ہر ایک یہ محسوس کرے گا کہ جسے میں اپنا بہترین باپ بھائی، بیوی، شوہر، اولاد، دوست، رفیق، لیڈر، پیر، مرید، یا حامی و مددگار سمجھ رہا تھا وہ در اصل میرا بد ترین دشمن تھا۔ ہر رشتہ داری اور دوستی اور عقیدت و محنت، عداوت میں تبدیل ہوجائے گی۔ سب ایک دوسرے کو گالیاں دین گے، ایک دوسرے پر لعنت کریں گے، اور ہر ایک یہ چاہے گا کہ اپنے جرائم کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر اسے سخت سے سخت سزا دلوائے۔ یہ مضمون بھی قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے جس کے چند مثالیں حسب ذیل آیات میں دیکھی جاسکتی ہیں : البقرہ 167 ۔ الاعراف 37 تا 39 ۔ ابراہیم 21 ۔ 22 ۔ المومنون 101 ۔ العنکبوت 12 ۔ 13 ۔ 25 ۔ لقمٰن 33 ۔ الاحزاب 67 ۔ 68 ۔ سبا 31 تا 33 ۔ فاطر 18 ۔ الصّٰفّٰت 27 تا 33 ۔ صٓ 59 تا 61 ۔ حٰم السجدہ 29 ۔ الذخرف 67 ۔ الدخان 41 ۔ المعارج 10 تا 14 ۔ عبس 34 تا 37 ۔
اللہ پر ایمان لانے سے مراد محض یہ مان لینا نہیں ہے کہ اللہ موجود ہے، بلکہ اس طریقے سے ایمان لانا مراد ہے جس طرح اللہ نے خود اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے بتایا ہے۔ اس ایمان میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب آپ سے آپ شامل ہے۔ اسی طرح نیک عمل سے مراد بھی ہر وہ عمل نہیں ہے جسے آدمی نے خود نیکی سمجھ کر یا انسانوں کے کسی خود ساختہ معیار اخلاق کی پیروی کرتے ہوئے اختیار کرلیا ہو، بلکہ اس سے مراد وہ عمل صلح ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق ہو۔ لہٰذا کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اور کتاب کے واسطے کے بغیر اللہ کو ماننے اور نیک عمل کرنے کے وہ نتائج ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ قرآن مجید کا جو شخص بھی سوچ سمجھ کر مطالعہ کرے گا اس سے یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ قرآن کی رو سے اس طرح کے کسی ایمان کا نام ایمان باللہ اور کسی عمل کا نام عمل صالح سرے سے ہے ہی نہیں۔
جس دن تم سب کو اس جمع ہونے کے دن جمع کرے گا وہی دن ہے ہار جیت کا اور جو شخص اللہ پر ایمان لا کر نیک عمل کرے اللہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
قیامت کو یوم الجمع اس لیے کہا کہ اس دن اول وآخر سب ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے فرشتے کی آواز سب سنیں گے ہر ایک کی نگاہ آخر تک پہنچے گی کیونکہ درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہوگی۔
یعنی ایک گروہ جیت جائے گا اور ایک ہار جائے گا، اہل حق اہل باطن پر، ایمان والے اہل کفر پر اور اہل طاعت اہل معصیت پر جیت جائیں گے، سب سے بڑی جیت اہل ایمان کو یہ حاصل ہوگی کہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور سب سے بڑی ہار جہنمیوں کے حصے آئے گی جو جہنم میں داخل ہونگے۔
اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخ والے ہوں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہو گا۔
فرمایا ہے کہ جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو لغزشوں کے اثرات سے پاک کر کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور جن کو یہ چیز حاصل ہوئی ان کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بالکل برعکس ان لوگوں کا حال ہو گا جنھوں نے اللہ کا کفر اور اس کی آیتوں کی تکذیب کی ہو گی۔ یہ لوگ دوزخ میں پڑیں گے اور اسی میں ہمیشہ رہیں گے اور نہایت ہی برا ٹھکانا ہو گا۔
مطلب یہ ہے جو لوگ آخرت کے منکر ہیں انھوں نے تو اسی دنیا کو ہار جیت کا میدان سمجھ رکھا ہے۔ جن کو دنیا کی رفاہیتیں حاصل ہو گئیں وہ سمجھ بیٹھے کہ انھوں نے بازی جیت لی اور جن کو نہیں حاصل ہوئیں ان کو ناکام و نامراد سمجھ لیا۔ حالانکہ یہ دنیا دارالانعام نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ دارالانعام آخرت ہے جس میں بازی وہ لوگ جیتیں گے جو اس دنیا میں ایمان و عمل صالح کی زندگی گزاریں گے اگرچہ اس دنیا کی متاع میں سے انھیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی ہو اور وہ لوگ وہاں بالکل محروم و نامراد ہوں گے جو ایمان و عمل صالح سے محروم اٹھیں گے اگرچہ دنیا میں انھیں قارون کے خزانے حاصل رہے ہوں۔
یہ امر یہاں واضح رہے کہ جو لوگ اسی دنیا کو ہار جیت کا میدان سمجھ بیٹھیں گے ان کے لیے یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ اپنے عیش و آرام کو قربان کر کے دوسروں کی خدمت و اعانت کی راہ میں اپنے مال صرف کریں۔ اگر کبھی وہ حوصلہ کرنا بھی چاہیں تو فوراً یہ اندیشہ ان کا حوصلہ پست کر دے گا کہ اگر کل کو کوئی ناگہانی آفت یا مشکل پیش آ گئی تو کیا بنے گا! البتہ جو شخص ہار جیت کا اصل میدان آخرت کو سمجھے گا اس کو اس طرح کا کوئی اندیشہ پست حوصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر کبھی کوئی دغدغہ دل میں پیدا ہو گا بھی تو وہ اس کو شیطانی دغدغہ سمجھے گا اور بے دھڑک اپنی آخرت کی کامیابی کے لیے اپنے رب کے بھروسہ پر بازی کھیل جائے گا۔
اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا، وہ دوزخ کے لوگ ہوں گے، اُس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے۔
n/a
اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخ کے باشندے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے۔ ع
یہ الفاظ خود کفر کے مفہوم کو واضح کردیتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیات کو اللہ کی آیات نہ ماننا، اور ان حقائق کو تسلیم نہ کرنا جو ان آیات میں بیان کیے گئے ہیں، اور ان احکام کی پیروی سے انکار کردینا جو ان میں ارشاد ہوئے ہیں، یہی کفر ہے اور اس کے نتائج وہ ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری ّآیتوں کو جھٹلایا وہی (سب) جہنمی ہیں (جو) جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
n/a
امین احسن اصلاحی
اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں۔ اسی کی بادشاہی ہے اور وہی سزاوار شکر ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یہ پوری کائنات خدا ہی کی بندگی کی دعوت دے رہی ہے: یہ آیت الفاظ کے معمولی رد و بدل کے ساتھ پچھلی سورتوں میں بھی گزر چکی ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت ہم کر چکے ہیں۔ یہاں یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ ہی کی تسبیح کرتی اور اپنے عمل سے انسانوں کو یہ درس دے رہی ہے کہ اس کائنات کی بادشاہی تنہا اللہ ہی کی ہے اور شکر کا سزاوار وہی ہے، نہ اس کی بادشاہی میں اس کا کوئی شریک و سہیم ہے اور نہ بندوں کے شکر کا اس کے سوا کوئی دوسرا حق دار ہے۔
خدا کا کوئی شریک نہیں: ’وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے؛ اپنے کسی کام میں، خواہ کتنا ہی بڑا ہو، کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے اس وجہ سے کسی کو اس کا شریک ٹھہرانا ایک بالکل بے معنی بات ہے۔ اس نے نہ دنیا کے پیدا کرنے میں کسی کی مدد حاصل کی اور نہ اس کے انتظام و انصرام میں وہ کسی کا محتاج ہوا بلکہ اس نے سب کچھ تنہا اپنے بل بوتے پر کیا ہے اور جس طرح پہلے کیا ہے اسی طرح آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے بندوں کے اعتماد کے لیے وہ تنہا کافی ہے۔ ان کو چاہیے کہ اسی پر بھروسہ کریں اور اس کی بندگی میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں۔