اے نبی، تم اپنی بیویوں کی دل داری میں وہ چیز کیوں حرام ٹھیراتے ہو، جو اللہ نے تمھارے لیے جائز رکھی ہے؟ (خیر جو ہوا سو ہوا)، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
بیویوں کی دل داری انسانی معاشرت کا حسن اور اپنی جگہ ایک نہایت پسندیدہ چیز ہے، لیکن پیغمبر کا معاملہ الگ ہے۔ اُس کے ہر قول و فعل کی دین میں بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی چیز کو استعمال نہ کرنے کی قسم کھا لیتے تو شدید اندیشہ تھا کہ کوئی متقی مسلمان اُس چیز کو ہاتھ نہ لگاتا اور وہی صورت پیدا ہو جاتی جو حضرت یعقوب کے معاملے میں ہوئی کہ اُنھوں نے کسی وجہ سے اونٹ کا گوشت کھانا پسند نہیں کیا تو یہود نے اُسے ہمیشہ کے لیے حرام ٹھیرا لیا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کے اعلان میں یہ مبادرت اِس لیے ہے کہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔آپ نے محض جذبۂ رأفت و محبت اور جنس ضعیف کی دل داری کے لیے اپنے اوپر ایک پابندی عائد کر لی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اُس پر گرفت فرمائی، لیکن ساتھ ہی معافی کا اعلان بھی فرما دیا کہ یہ گرفت آپ کے لیے گراں باری خاطر کا باعث نہ بنے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...بیویوں کی دل داری کوئی بری بات نہیں ہے، بلکہ یہ شرافت، مروت، فتوت کا تقاضا اور فطرت و شریعت کا مطالبہ ہے جس کی قرآن نے تاکید فرمائی ہے، بشرطیکہ یہ شریعت کے حدود کے اندر رہے۔ اگر یہ اُس سے متجاوز ہونے لگے تو یہ فتنہ بن جاتی ہے جس سے بچنا اور بچانا ضروری ہے۔ لیکن جب کسی فروگزاشت کا محرک نیک ہو تو اُس پر گرفت اِس طرح ہونی چاہیے کہ عفو ودرگذر اُس کے ہم رکاب رہے۔ ‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۵۹)
اے نبیؐ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
یہ دراصل استفہام نہیں ہے۔ بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ یعنی مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دریافت کرنا نہیں ہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے، بلکہ آپ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے، حتی کہ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔ اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کو نہ عقیدۃً حرام سمجھا تھا اور نہ اسے شرعاً حرام قرار دیا تھا، بلکہ صرف اپنی ذات پر اس کے استعمال کو حرام کرلیا تھا، لیکن چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی تھی، اور آپ کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے سے یہ خطرہ پیدا ہوسکتا تھا کہ امت بھی اس شے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے، یا امت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فعل پر گرفت فرمائی اور آپ کو اس تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا۔
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :2
اس سے معلوم ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ایسا کریں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محض ان کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کرلی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تحریم کے اس فعل پر ٹوکنے کے ساتھ اس کی اس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا ؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام صرف تحریم حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہوجاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اس کی بھی تصریح کی جاتی۔ اس کو بطور خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصد صرف حضور ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواج مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔
اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ چیز کیا تھی جسے حضور نے اپنے اوپر حرام کیا تھا، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں دو مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب بنے۔ ایک واقعہ حضرت ماریہ قبطیہ کا ہے اور دوسرا واقعہ یہ کہ آپ نے شہد استعمال نہ کرنے کا عہد کرلیا تھا۔
حضرت ماریہ کا قصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہونے کے بعد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خطوط اطراف و نواح کے بادشاہوں کو بھیجے تھے ان میں سے ایک اسکندریہ کے رومی بطریق (Patriarch) کے نام بھی تھا جسے عرب مقوقس کہتے تھے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ یہ نامہ گرامی لے کر جب اسکے پاس پہنچے تو اس نے اسلام قبول نہ کیا، مگر اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا اور جواب میں لکھا ” مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک نبی آنا ابھی باقی ہے، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا۔ تاہم میں آپ کے ایلچی کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا مرتبہ رکھتی ہیں ” (ابن سعد) ۔ ان لڑکیوں میں سے ایک سیرین تھیں اور دوسری ماریہ (عیسائی حضرت مریم کو ماریہ Mary کہتے ہیں) مصر سے واپسی پر راستہ میں حضرت حاطب نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیرین کو حضرت حسان بن ثابت کی ملک یمین میں دے دیا اور حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل فرمایا۔ ذی الحجہ 8 ھجری میں انہی کے بطن سے حضور کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے (الاستیعاب۔ الاصابہ) ۔ یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں۔ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” مجھے کسی کا آنا اس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا ماریہ کا آنا ہوا تھا، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور حضور کو بہت پسند آئی تھیں “۔ ان کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصہ احادیث میں نقل ہوا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حفصہ کے مکان میں تشریف لے گئے اور وہ گھر پر موجود نہ تھیں۔ اس وقت حضرت ماریہ آپ کے پاس وہاں آگئیں اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہیں۔ حضرت حفصہ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے حضور سے اس کی سخت شکایت کی۔ اس پر آپ نے ان کو راضی کرنے کے لیے ان سے یہ عہد کرلیا کہ آئندہ ماریہ سے کوئی ازدواجی تعلق نہ رکھیں گے۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا، اور بعض میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اس پر قسم بھی کھائی تھی۔ یہ روایات زیادہ تر تابعین سے مرسلا نقل ہوئی ہیں، لیکن ان میں سے بعض حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی مروی ہیں۔ ان کی کثرت طرق دیکھتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس قصے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ مگر صحاح ستہ میں سے کسی میں بھی یہ قصہ نقل نہیں کیا گیا ہے۔ نسائی میں حضرت انس سے صرف اتنی بات منقول ہوئی ہے کہ ” حضور کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے پھر حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ آپ کے پیچھے پڑگئیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے “۔
دوسرا واقعہ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور دوسری متعدد کتب حدیث میں خود حضرت عائشہ سے جس طرح نقل ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ آپ حضرت زینب بنت جحش کے ہاں جا کر زیادہ دیر بیٹھنے لگے، کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا، اور حضور کو شیرینی بہت پسند تھی، اس لیے آپ ان کے ہاں شہد کا شربت نوش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق ہوا اور میں نے حضرت حفصہ، سودہ اور حضرت صفیہ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں وہ آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے ا ندر بھی اس بساند کا اثر آجاتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضور نہایت نفاست پسند ہیں اور آپ کو اس سے سخت نفرت ہے کہ آپ کے اندر کسی قسم کی بد بو پائی جائے۔ اس لیے آپ کو حضرت زینب کے ہاں ٹھیرنے سے روکنے کی خاطریہ تدبیر کی گئی اور یہ کارگر ہوئی۔ جب متعدد بیویوں نے آپ سے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آئی ہے تو آپ نے عہد کرلیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ فلن اعود لہ و قد حلفت ” اب میں ہرگز اسے نہ پیونگا، میں نے قسم کھالی ہے “۔ دوسری روایت میں صرف فلن اعودلہ کے الفاظ ہیں، وقد حلفت کا ذکر نہیں ہے۔ اور ابن عباس سے بروایت ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ واللہ لا اشربہ ” خدا کی قسم میں اسے نہ پیو گا “۔
اکابر اہل علم نے ان دونوں قصوں میں سے اسی دوسرے قصے کو صحیح قرار دیا ہے اور پہلے قصے کو ناقابل اعتبار ٹھیرایا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ ” شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہ کی حدیث نہایت صحیح ہے، اور حضرت ماریہ کو حرام کرلینے کا حصہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے “۔ قاضی عیاض کہتے ہیں ” صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ماریہ کے معاملہ میں نہیں بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے “۔ قاضی ابو بکرابن العربی بھی شہد ہی کے قصے کو صحیح قرار دیتے ہیں، اور یہی رائے امام نووی اور حافظ بدر الدین عینی کی ہے۔ ابن ہمام فتح القدیر میں کہتے ہیں کہ ” شہد کی تحریم کا قصہ صحیحین میں خود حضرت عائشہ سے مروی ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا، اس لیے یہی زیادہ قابل اعتبار ہے “۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں ” صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کرلینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے “۔
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :3
یعنی بیویوں کی خوشی کی خاطر ایک حلال چیز کو حرام کرلینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے یہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہ اس پر مواخذہ کیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کردینے پر اکتفا فرمایا اور آپ کی اس لغزش کو معاف کردیا۔
اے نبی ! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں ؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس چیز کو اپنے لئے حرام کرلیا تھا، وہ کیا تھی ؟ جس پر اللہ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس سلسلے میں ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینب بنت جحش (رض) کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے، حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ (رض) دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ کو ٹھہرنے سے روکنے کے لئے یہ سکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں گوشت مچھلی کی سی بو ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں نے تو زینب رضی اللہ کے گھر صرف شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا، لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا۔ صحیح بخاری۔ سنن نسائی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھی جس کو آپ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا (سنن نسائی) جب کہ کچھ دوسرے علماء اسے ضعیف قرار دیتے ہیں اس کی تفصیل دوسری کتابوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ حضرت ماریہ قبطیہ تھیں جن سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے ابراہیم تولد ہوئے تھے یہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ کے گھر آگئی تھیں جب کہ حضرت حفصہ رضی اللہ موجود نہیں تھیں اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حضرت حفصہ رضی اللہ آگئیں انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوار گزرا جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی محسوس فرمایا جس پر آپ نے حضرت حفصہ کو راضی کرنے کے لیے قسم کھا کر ماریہ رضی اللہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور حفصہ رضی اللہ کو تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتلائے امام ابن حجر ایک تو یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ مختلف طرق سے نقل ہوا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بیک وقت دونوں ہی واقعات اس آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔ فتح الباری۔ امام شوکانی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے اور دونوں کو صحیح قرار دیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔
اور اللہ نے تمہاری خلاف شرع قسموں کا توڑ دینا تم پر فرض کر دیا ہے اور اللہ ہی تمہارا مولیٰ و مرجع ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔
ناجائز قَسم کے بارے میں شریعت کا حکم: یہ حکم بیان فرمایا ہے اس صورت کے لیے جب کوئی شخص اپنے اوپر کسی جائز چیز کو حرام کر لینے کی قسم کھا بیٹھے۔ اوپر کی آیت میں خطاب صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اس آیت میں عام مسلمانوں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لغزش پر ٹوکنے سے اصل مقصود، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، یہی تھا کہ اس کے سبب سے امت کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو۔ چنانچہ اس آیت میں تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے اوپر کسی جائز چیز کو حرام کر لینے کی قَسم کھا بیٹھے تو اللہ نے اس کے لیے یہ ضروری ٹھہرایا کہ وہ اس قسم کو توڑ ڈالے اور حرام کردہ چیز کو جائز کرے۔
’وَاللہُ مَوْلَاکُمْ‘ یہ وجہ بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کیوں ضروری ٹھہرائی ہے؟ فرمایا کہ اللہ ہی تمہارا آقا و مولیٰ ہے اس وجہ سے اسی کو حق حاصل ہے کہ وہ تمہیں بتائے کہ تمہارے لیے کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ نہ کسی کو خود یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جی سے کسی چیز کو حرام یا حلال ٹھہرائے اور نہ یہ جائز ہے کہ کسی دوسرے کے لیے وہ تحریم و تحلیل کا حق تسلیم کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے حق میں مداخلت کرے گا جو شرک ہے۔
’وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ‘۔ یہ اسی حقیقت کی مزید وضاحت ہے کہ حقیقی علیم و حکیم اللہ تعالیٰ ہی ہے اس وجہ سے اس نے بندوں کو جو حکم دیا ہے یا جس چیز سے روکا ہے وہ تمام تر علم و حکمت پر مبنی ہے۔ کسی دوسرے کو خدا سے زیادہ علیم و حکیم ہونے کے خبط میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قسم توڑ دینے کا حکم تو دیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ کسی کفارہ کا ذکر نہیں ہے تو کیا اس صورت میں کوئی کفارہ عائد نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قسم توڑنے پر کفارہ کا حکم المائدہ کی آیت ۸۹ میں بیان ہو چکا ہے اس وجہ سے اس کے ذکر کی یہاں ضرورت نہیں تھی البتہ یہاں ’تَحِلَّۃَ أَیْمَانِکُمْ‘ کے الفاظ سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ اگر کسی نے قسم کھا کر کوئی چیز حرام ٹھہرائی ہو تب تو کفارہ ضروری ہو گا۔ لیکن قسم نہ کھائی ہو تو کفارہ ضروری نہیں ہے۔
اپنی اِس طرح کی قسموں کو توڑ دینا اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے اور اللہ ہی تمھارا مولیٰ ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔
اِس میں خطاب کا رخ مسلمانوں کی طرف ہو گیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ قسم توڑنے کا یہ قانون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ پھر حضور کو ٹوکنے سے مقصود بھی یہی تھا کہ حلال و حرام کے معاملے میں عام مسلمان کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ چنانچہ سب کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی جائز چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کی قسم کھا بیٹھے تو اُس پر لازم ہے کہ اُسے توڑ دے۔
یعنی اللہ ہی مولیٰ ہے، اِس لیے اُسی کو حق حاصل ہے کہ حلال و حرام کے فیصلے کرے اور اُسی کا علم و حکمت ہے جس کی بنا پر یہ فیصلے ہو سکتے ہیں۔
اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ ہے، اور وہی علیم و حکیم ہے۔
مطلب یہ ہے کہ کفارہ دے کر قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے سورة مائدہ، آیت 89 میں مقرر دیا ہے اس کے مطابق عمل کر کے آپ اس عہد کو توڑ دیں جو آپ نے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کیا ہے۔ یہاں ایک اہم فقہی سوال پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جبکہ آدمی نے قسم کھا کر حلال کو حرام کرلیا ہو، یا بجائے خود تحریم ہی قسم کی ہم معنی ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں ؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
ایک گروہ کہتا ہے کہ محض تحریم قسم نہیں ہے۔ اگر آدمی نے کسی چیز کو، خواہ وہ بیوی ہو یا کوئی دوسری حلال چیز، قسم کھائے بغیر اپنے اوپر حرام کیا ہو تو یہ ایک لغو بات ہے جس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا، بلکہ آدمی کفارے کے بغیر ہی وہ چیز استعمال کرسکتا ہے جسے اس نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے مسروق، شعبی، ربیعہ اور ابو سلمہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر اور تمام ظاہریوں نے اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک تحریم صرف اس صورت میں قسم ہے جبکہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے ہوئے قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چونکہ حلال چیز کو اپنے لیے حرام کرنے کے ساتھ قسم بھی کھائی تھی، جیسا کہ متعدد روایات میں بیان ہوا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور سے فرمایا کہ ہم نے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ مقرر کردیا ہے اس پر آپ عمل کریں۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قسم کے الفاظ استعمال کیے بغیر کسی چیز کو حرام کرلینا بجائے خود قسم تو نہیں ہے، مگر بیوی کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ دوسری اشیاء مثلا کسی کپڑے یا کھانے کو آدمی نے اپنے اوپر حرام کرلیا ہو تو یہ لغو ہے، کوئی کفارہ دیے بغیر آدمی اس کو استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن اگر بیوی یا لونڈی کے لیے اس نے کہا ہو کہ اس سے مباشرت میرے اوپر حرام ہے، تو وہ حرام نہ ہوگی، مگر اس کے پاس جانے سے پہلے کفارہ یمین لازم آئے گا۔ یہ رائے شافعیہ کی ہے (معنی المحتاج) ۔ اور اسی سے ملتی جلتی رائے مالکیہ کی بھی ہے (احکام القرآن لابن العربی)
تیسرا گروہ کہتا ہے کہ تحریم بجائے خود قسم ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ یہ رائے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عائشہ، حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمر، حضر زید بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ہے۔ اگرچہ ابن عباس سے ایک دوسری رائے بخاری میں یہ نقل ہوئی ہے کہ اذا حرم امراتہ فلیس بشیء (اگر آدمی نے اپنی بیوی کو حرام کیا ہو تو یہ کچھ نہیں ہے) ، مگر اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ان کے نزدیک یہ طلاق نہیں بلکہ کفارہ ہے، کیونکہ بخاری، مسلم، اور ابن ماجہ میں ابن عباس کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ حرام قرار دینے کی صورت میں کفارہ ہے اور نسائی میں روایت ہے کہ ابن عباس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ” وہ تیرے اوپر حرام تو نہیں ہے مگر تجھ پر کفارہ لازم ہے ” اور ابن جریر کی روایت میں ابن عباس کے الفاظ یہ ہیں : ” اگر لوگوں نے اپنے اوپر کسی چیز کو حرام کیا ہو جسے اللہ نے حلال کیا تو ان پر لازم ہے کہ اپنی قسموں کا کفارہ ادا کریں “۔ یہی رائے حسن بصری، عطاء، طاؤس، سلیمان بن یسار، ابن جبیر اور قتادہ کی ہے، اور اسی رائے کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے۔ امام ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ” آیت لم تحرم ما احل اللہ لک کے ظاہر الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تحریم کے ساتھ ساتھ قسم بھی کھائی تھی، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تحریم ہی قسم، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسی تحریم کے معاملہ میں قسم کا کفارہ واجب فرمایا “۔ آگے چل کر پھر کہتے ہیں ” ہمارے اصحاب (یعنی حنفیہ) نے تحریم کو اس صورت میں قسم قرار دیا ہے جبکہ اس کے ساتھ طلاق کی نیت نہ ہو۔ اگر کسی شخص نے بیوی کو حرام کہا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں تیرے قریب نہیں آؤں گا، اس لیے وہ ایلاء کا مرتکب ہوا۔ اور اگر اس نے کسی کھانے پینے کی چیز وغیرہ کو اپنے لیے حرام قرار دیا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں وہ چیز استعمال نہ کروں گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا کہ آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے، اور پھر فرمایا کہ اللہ نے تم لوگوں کے لیے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے تحریم کو قسم قرار دیا اور تحریم کا لفظ اپنے مفہوم اور حکم شرعی میں قسم کا ہم معنی ہوگیا “۔
اس مقام پر فائدہ عام کے لیے یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے، اور بیوی کے سوا دوسری چیزوں کو حرام کرلینے کے معاملہ میں فقہاء کے نزدیک شرعی حکم کیا ہے۔
حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر طلاق کی نیت کے بغیر کسی شخص نے بیوی کو اپنے لیے حرام کیا ہو، یا قسم کھائی ہو کہ اس سے مقاربت نہ کرے گا، تو یہ ایلاء ہے اور اس صورت میں مقاربت سے پہلے اسے قسم کا کفارہ دینا ہوگا لیکن اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہا ہو تو میرے اوپر حرام ہے تو معلوم کیا جائے گا کہ اس کی نیت کیا تھی۔ اگر تین طلاق کی نیت تھی تو تین واقع ہوں گی اور اگر اس سے کم کی نیت تھی، خواہ ایک کی نیت ہو یا دو کی، تو دونوں صورتوں میں ایک ہی طلاق وارد ہوگی۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جو کچھ میرے لیے حلال تھا وہ حرام ہوگیا، تو اس کا اطلاق بیوی پر اس وقت تک ہوگا جب تک اس نے بیوی کو حرام کرنے کی نیت سے یہ الفاظ نہ کہے ہوں۔ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو حرام کرنے کی صورت میں آدمی اس وقت تک وہ چیز استعمال نہیں کرسکتا جب تک قسم کا کفارہ ادا نہ کر دے (بدائع الصنائع، ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص) ۔
شافعیہ کہتے ہیں کہ بیوی کو اگر طلاق یا ظہار کی نیت سے حرام کیا جائے تو جس چیز کی نیت ہوگی وہ واقع ہوجائے گی۔ رجعی طلاق کی نیت ہو تو رجعی، بائن کی نیت ہو تو بائن، اور ظہار کی نیت ہو تو ظہار۔ اور اگر کسی نے طلاق و ظہار دونوں کی نیت سے تحریم کے الفاظ استعمال کیے ہوں تو اس سے کہا جائے گا کہ دونوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کرلے۔ کیونکہ طلاق و ظہار، دونوں بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے۔ طلاق سے نکاح زائل ہوتا ہے، اور ظہار کی صورت میں وہ باقی رہتا ہے۔ اور اگر کسی نیت کے بغیر مطلقاً بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہو تو وہ حرام نہ ہوگی مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا اور اگر بیوی کے سوا کسی اور چیز کو حرام قرار دیا ہو تو یہ لغو ہے، اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے (مغنی المحتاج) ۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو آدمی اپنے اوپر حرام کرے تو نہ وہ حرام ہوتی ہے اور نہ ا سے استعمال کرنے سے پہلے کوئی کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن اگر بیوی کو کہہ دے کہ تو حرام ہے، یا میرے لیے حرام ہے، یا میں تیرے لیے حرام ہوں، تو خواہ مدخولہ سے یہ بات کہے یا غیر مدخولہ سے، ہر صورت میں یہ طلاق ہیں، الایہ کہ اس نے تین سے کم کی نیت کی ہو۔ اصبغ کا قول ہے کہ اگر کوئی یوں کہے کہ جو کچھ مجھ پر حلال تھا وہ حرام ہے تو جب تک وہ بیوی کو مستثنیٰ نہ کرے، اس سے بیوی کی تحریم بھی لازم آجائے گی۔ المدونہ میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ مدخولہ کو حرام کہہ دینے سے تین ہی طلاقیں پڑیں گی، اور کسی خاص تعداد کی نیت نہ ہو تو پھر یہ تین طلاقیں ہوں گی (حاشیۃ الدسوقی) ۔ قاضی ابن العربی نے احکام القرآن میں اس مسئلے کے متعلق امام مالک کے تین قول نقل کیے ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ایک طلاق بائن ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ تین طلاق ہیں۔ تیسرا یہ کہ مدخولہ کے معاملہ میں تو یہ بہرحال تین طلاقیں ہیں البتہ غیر مدخولہ کے معاملہ میں ایک کی نیت ہو تو ایک ہی طلاق پڑے گی۔ پھر کہتے ہیں کہ ” صحیح یہ ہے کہ بیوی کی تحریم ایک ہی طلاق ہے کیونکہ اگر آدمی حرام کہنے کے بجائے طلاق کا لفظ استعمال کرے اور کسی تعداد کا تعین نہ کرے تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی “۔
امام احمد بن حنبل سے اس مسئلے میں تین مختلف اقوال منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم، یا حلال کو مطلقاً اپنے لیے حرام قرار دینا ظہار ہے خواہ ظہار کی نیت ہو یا نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ صریح کنایہ ہے اور اس سے تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں خواہ نیت ایک ہی کی ہو۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ یہ قسم ہے، الا یہ کہ آدمی نے طلاق یا ظہار میں سے کسی کی نیت کی ہو، اور اس صورت میں جو نیت بھی کی گئی ہو وہی واقع ہوگی۔ ان میں سے پہلا قول ہی مذہب حنبلی میں مشہور ترین ہے (الانصاف) ۔
یعنی اللہ تمہارا آقا اور تمہارے معاملات کا متولی ہے۔ وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ تمہاری بھلائی کس چیز میں ہے اور جو احکام بھی اس نے دیے ہیں سراسر حکمت کی بنا پر دیے ہیں۔ پہلی بات ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تم خود مختار نہیں ہو بلکہ اللہ کے بندے ہو اور وہ تمہارا آقا ہے، اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں میں رد و بدل کرنے کا اختیار تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تمہارے لیے حق یہی ہے کہ اپنے معاملات اس کے حوالے کر کے بس اس کی اطاعت کرتے رہو۔ دوسری بات ارشاد فرمانے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ نے جو طریقے اور قوانین مقرر کیے ہیں وہ سب علم و حکمت پر مبنی ہیں۔ جس چیز کو حلال کیا ہے علم حکمت کی بنا پر حلال کیا ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے اسے بھی علم و حکمت کی بنا پر حرام قرار دیا ہے۔ یہ کوئی الل ٹپ کام نہیں ہے کہ جسے چاہا حلال کردیا اور جسے چاہا حرام ٹھرا دیا۔ لہذا جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ علیم و حکیم ہم نہیں ہیں بلکہ اللہ ہے اور ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اس کے دیے ہوئے احکام کی پیروی کریں۔
تحقیق کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے اور اللہ تمہارا کارساز ہے وہی (پورے) علم والا، حکمت والا ہے۔
یعنی کفارہ ادا کرکے اس کام کو کرنے کی، جس کی نہ کرنے کی قسم کھائی ہو، اجازت دے دی، قسم کا یہ کفارہ سورة مائد ۃ۔ ٨٩ میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کفارہ ادا کیا (فتح القدیر) اس امر میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس کا یہ حکم ہے ؟ جمہور علماء کے نزدیک بیوی کے علاوہ کسی چیز کو حرام کرنے سے وہ چیز حرام ہوگی اور نہ اس پر کفارہ ہے، اگر بیوی کو اپنے اوپر حرام کرے گا تو اس سے اس کا مقصد اگر طلاق ہے تو طلاق ہوجائے گی اور اگر طلاق کی نیت نہیں ہے تو راجح قول کے مطابق یہ قسم ہے، اس کے لئے کفارہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ (ایسر التفاسیر) ۔
اور جب کہ نبی نے اپنی ایک بیوی سے ایک راز کی بات کہی تو جب انھوں نے اس کی خبر کر دی اور اللہ نے اس سے پیغمبر کو آگاہ کر دیا تو پیغمبر نے کچھ بات جتا دی کچھ ٹال دی تو جب پیغمبر نے بیوی کو اس کی خبر کی تو وہ بولیں کہ آپ کو کس نے اس کی خبر دی؟ پیغمبر نے کہا، مجھے خدائے علم و خبیر نے خبر دی۔
ازواج نبیؐ کے احتساب کی ایک مثال: اوپر کی آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احتساب تھا۔ اس آیت میں ازواج نبی میں سے ایک بیوی کی فروگزاشت پر گرفت فرمائی کہ انھوں نے حضورؐ کی کوئی بات، جو آپ نے بطور راز ان سے فرمائی، کسی دوسری بیوی پر ظاہر کر دی۔ پھر جب حضورؐ نے ان کی اس غلطی پر ٹوکا تو اس پر نادم ہونے کے بجائے انھوں نے اس ٹوکنے کو اپنی خودداری کے خلاف محسوس کیا اور جن بیوی پر راز ظاہر کیا گیا تھا انھوں نے بھی اس کو ناگوار جانا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں بیویوں کو تنبیہ فرمائی تاکہ ہر شخص پر یہ واضح ہو جائے کہ دین کے معاملے میں ازواج نبی (رضی اللہ عنہم) بھی احتساب سے بالاتر نہیں ہیں۔
واقعہ کی نوعیت: ’وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا‘۔ مفسرین نے عام طور پر اس واقعہ کو اوپر والے واقعہ ہی سے جوڑ کر ایک ناگوار داستان کی شکل دے دی ہے لیکن عربیت کے لحاظ سے یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ واقعہ اوپر کے واقعہ ہی کا ایک حصہ ہو بلکہ اقرب یہ ہے کہ یہ ایک دوسری بات کا حوالہ ہو جس کا صدور ازواج نبی (رضی اللہ عنہم) میں سے کسی سے ہوا جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی۔ زبان کا یہ نکتہ یاد رکھیے کہ ’وَإِذْ‘ سے بالعموم کسی دوسرے مستقل واقعہ ہی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
یہاں قرآن نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ حضورؐ نے کیا راز کی بات کہی اور کس بیوی سے کہی بلکہ اس کو پردے ہی میں رکھا ہے اس وجہ سے ہم اس راز کے درپے ہونا جائز نہیں سمجھتے۔ حضورؐ کی ازواجؓ ہمارے لیے ماؤں کی منزلت میں ہیں۔ بیٹوں کے لیے یہ بات کسی طرح پسندیدہ نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی ماؤں اور باپوں کے درمیان کے رازوں کے کھوج میں لگیں۔ بالخصوص جب کہ اس راز کے انکشاف سے اس آیت کے فہم میں کوئی مدد بھی نہ مل رہی ہو۔ یہاں راز کے افشا ہی پر تنبیہ فرمائی گئی ہے تو اگر ہم اس کے درپے ہوں گے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ جس چیز سے روکا گیا ہے ہم نے اس کا ارتکاب کیا البتہ اتنی بات اس آیت سے صاف واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کو اپنا محرم راز بناتے تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو ان کی رازداری اور ان کی فہم و بصیرت پر پورا اعتماد تھا۔ میاں بیوی کے تعلقات کا سارا حسن و جمال اسی اعتماد میں ہے۔ اگر باہم یہ اعتماد نہ ہو کہ ایک دوسرے کو محرم راز بنا سکیں تو یہ اعلیٰ انسانی اقدار سے بالکل خالی زندگی ہو گی۔
ازواج مطہرات کے باہمی تعلقات کی خوش گواری کی دلیل: ’فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِہٖ وَأَظْہَرَہُ اللہُ عَلَیْْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَأَعْرَضَ عَنۡ بَعْضٍ‘۔ یہاں اتنی بات بربنائے قرینہ محذوف ہے کہ حضورؐ نے جن بیوی کو محرم راز بنایا انھوں نے یہ راز کسی دوسری بیوی پر ظاہر کر دیا۔ اگرچہ آیت میں جس طرح اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کن بیوی سے یہ غلطی صادر ہوئی اسی طرح اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ یہ افشائے راز کن بیوی پر ہوا لیکن اتنی بات واضح ہے کہ معاملہ ازواج مطہراتؓ کے درمیان ہی کا ہے، کسی غیر کے سامنے کوئی افشائے راز نہیں ہوا۔ مفسرین نے عام طور پر حضرت عائشہؓ صدیقہ اور حضرت حفصہؓ کے نام لیے ہیں۔ اگر اس قول پر اعتماد کیجیے تو اس سے یہ بات نہایت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ ان سیدات کے باہمی تعلقات ایسے خوش گوار تھے کہ آپس میں اہم رازوں کے معاملے میں بھی کوئی پردہ نہ تھا۔ اس سے ان روایات کی تردید ہوتی ہے جن میں غیر محتاط راویوں نے ان کی باہمی چشمک و رقابت کے واقعات بیان کیے ہیں۔
حدود الٰہی کے معاملہ میں کوئی بھی احتساب سے بالا نہیں ہے: اس افشائے راز سے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو باخبر کر دیا جس کے بعد حضورؐ نے ان بیوی کو اس کی طرف توجہ دلائی جن سے یہ غلطی صادر ہوئی۔ یہ توجہ دلانا اس لیے ضروری تھا کہ میاں بیوی کے تعلقات میں رازداری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بیویوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے رازوں کی حفاظت کرنے والی بنیں۔ قرآن میں ان کی خاص صفت ’حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ‘ (رازوں کی حفاظت کرنے والیاں) بیان ہوئی ہے۔ بیوی، شوہر کے رازوں کی قدرتی امین ہوتی ہے۔ اگر وہ اس میں خیانت کرے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کے گھر میں اسی نے نقب لگائی جس کو اس نے گھر کا پاسبان بنایا۔ امانت کی یہ صفت یوں تو ہر بیوی میں ہونی ضروری ہے لیکن ذمہ داریاں علیٰ فرق مراتب ہوتی ہیں۔ ازواج نبی (رضی اللہ عنہم) پر یہ ذمہ داری دوسروں کی نسبت بدرجہا زیادہ تھی اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ایماء پر حضورؐ نے ان کو متنبہ فرمایا تاکہ یہ حقیقت کھل کر ہر شخص کے سامنے آ جائے کہ حدود الٰہی کے معاملے میں کوئی بھی احتساب سے بالا نہیں ہے۔
ایک نہایت لطیف حقیقت: ’عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَأَعْرَضَ عَنۡ بَعْضٍ‘ کے الفاظ ایک نہایت ہی لطیف حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہ حضورؐ نے بیوی صاحبہ کا احتساب تو فرمایا کہ یہ دین کا تقاضا تھا لیکن اس طرح نہیں کہ ان کے لتے لے ڈالے ہوں بلکہ کچھ بات ظاہر فرمائی اور کچھ نظر انداز فرما دی۔ یہ طریقہ حضورؐ نے اس وجہ سے اختیار فرمایا کہ بیوی صاحبہ کو تنبیہ تو ہو جائے لیکن یہ تنبیہ ان کے دل پر زیادہ شاق نہ گزرے۔ حضورؐ کے اندر اول تو رافت تھی ہی بہت، منافقین و مخالفین کی غلطیوں پر بھی آپ کبھی درشت الفاظ میں نہیں ٹوکتے تھے۔ ثانیاً یہ معاملہ ازواج مطہراتؓ کا تھا جن کی نسبت یہ گمان نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ان کی کوئی غلطی ارادی بدنیتی پر مبنی ہو گی۔ چنانچہ یہ غلطی بھی، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، کسی بدنیتی کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ محض اس وجہ سے صادر ہو گئی کہ بی بی صاحبہ نے خیال فرمایا کہ دوسری بیوی صاحبہ بھی جب شوہر کی محبوب و معتمد ہیں تو یہ نج کی بات ان کے سامنے ظاہر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ ازیاد محبت و اعتماد کا سبب ہو گی۔ یہ خیال نیک نیتی پر مبنی تھا۔ اس میں کسی قسم کے فساد نیت کو دخل نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک اہم پہلو اس میں نظر انداز ہو گیا کہ یہ افشائے راز اس کردار کے منافی ہے جو بیویوں کے لیے اللہ اور رسول نے پسند فرمایا ہے اور جس کا ازواج نبی (رضی اللہ عنہم) کے اندر کمال درجہ پایا جانا اس وجہ سے ضروری تھا کہ وہ تمام امت کی خواتین کے لیے نمونہ ہیں۔ پھر معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا جو صرف ایک شوہر ہی نہیں بلکہ اللہ کے رسول بھی تھے۔ معاملہ کی اس اہمیت کے سبب سے اس پر گرفت ہوئی لیکن اس طرح نہیں کہ کسی کا فضیحتا ہو بلکہ اشاروں کے انداز میں ہوئی اور یہی انداز ان حالات میں بابرکت ہے جب کہ غلطی کا صدور کسی برے ارادے سے نہ ہوا ہو۔
مفسرین کی بے احتیاطی: ہمارے مفسرین نے اس راز سے پردہ اٹھانے کی جو کاوش کی ہے ہم اس سے تعرض نہیں کرنا چاہتے۔ اس کی بنیاد اول تو ایسی روایات پر ہے جن میں نہایت واضح تضاد ہے۔ پھر یہ کاوش اس تعلیم کے بھی خلاف ہے جو اس آیت میں دی گئی ہے۔ جب خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زیادہ کھولنے کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ بات پسند فرمائی تو کسی دوسرے کے لیے یہ کس طرح جائز ہے کہ وہ اس کے بخیے ادھیڑنے بیٹھے بالخصوص جب کہ معاملہ اللہ کے رسول اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان کا ہو۔
’فَلَمَّا نَبَّأَہَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَکَ ہٰذَا قَالَ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ‘۔ جب حضورؐ نے یہ بات اشارۃً بیوی صاحبہ کو بتائی تو وہ فوراً بولیں کہ آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ یعنی اس کی صحت سے تو انھوں نے انکار نہیں کیا لیکن اپنی فروگزاشت کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے انھیں فکر یہ ہوئی کہ یہ بات حضورؐ کو بتائی کس نے؟ ان کا ذہن اسی طرف گیا ہو گا کہ جن بیوی کو انھوں نے رازدار بنایا تھا انہی نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی۔ اس طرف ذہن جانے کے لیے قرینہ موجود تھا کیونکہ ان کے سوا انھوں نے کسی اور پر یہ بات ظاہر نہیں کی تھی۔ ہو سکتا ہے انھیں کچھ غصہ بھی آیا ہو جیسا کہ ان کے انداز سوال ’مَنْ أَنبَأَکَ‘ سے اشارہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہو تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ کسی سے اپنے اعتماد کو ٹھیس پہنچے تو اس سے رنج ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ لیکن حضورؐ نے ان کی یہ غلط فہمی فوراً رفع فرما دی کہ یہ بات مجھے خدائے علیم و خبیر نے بتائی ہے، کسی دوسرے نے نہیں بتائی ہے۔ حضورؐ کی اس وضاحت سے بیوی صاحبہ کا سوء ظن دور ہو گیا ہو گا جس کا دور ہونا ضروری تھا۔ اس مقصد سے حضورؐ نے یہ وضاحت بلا تاخیر ضروری سمجھی۔
(اِسی طرح کا معاملہ اُس وقت بھی ہوا)، جب پیغمبرنے اپنی ایک بیوی سے راز کی ایک بات کہی۔ پھر اُنھوں نے یہ بات جب (کسی دوسری بیوی کو)بتا دی اور اللہ نے پیغمبر کو اُس سے آگاہ کر دیا تو آپ نے کچھ بات جتائی اور کچھ ٹال دی۔ پھر جب بیوی کو وہی بتایا تو وہ بولیں: آپ کو کس نے اِس کی خبر دی؟ پیغمبر نے کہا: مجھے اُس (پروردگار) نے خبر دی ہے جو علیم و خبیر ہے۔
یہ بات کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ نے اِس کو پردے میں رکھا ہے۔ اِس وجہ سے ہمارے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ ہم اِس راز کے درپے ہوں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...حضور کی ازواج رضی اللہ عنہن ہمارے لیے ماؤں کی منزلت میں ہیں۔ بیٹوں کے لیے یہ بات کسی طرح پسندیدہ نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی ماؤں اور باپوں کے درمیان کے رازوں کے کھوج میں لگیں، بالخصوص جب کہ اِس راز کے انکشاف سے اِس آیت کے فہم میں کوئی مدد بھی نہ مل رہی ہو۔ یہاں راز کے افشا ہی پر تنبیہ فرمائی گئی ہے تو اگر ہم اُس کے درپے ہوں گے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ جس چیز سے روکا گیا ہے ، ہم نے اُس کا ارتکاب کیا۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۶۰)
آگے کی آیات سے واضح ہے کہ ایک بیوی نے دوسری بیوی کو بات بتائی اور معاملہ ازواج مطہرات کے درمیان ہی رہا، کسی غیر کے سامنے کوئی افشاے راز نہیں ہوا۔
یہ اِس لیے ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک شوہر ہی نہیں، بلکہ اللہ کے رسول تھے۔ یہ کسی طرح مناسب نہیں تھا کہ جس بات کو آپ راز کہیں، اُسے گھر ہی میں سہی، لیکن کسی دوسرے کے سامنے افشا کر دیا جائے۔ اِس سے اندیشہ تھا کہ یہ کمزوری باقی رہی تو ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسی بات کسی وقت کھول دی جائے جس سے اُس کارعظیم کو نقصان پہنچ سکتا ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست توجہ دلائی اور لوگوں پر واضح کر دیا کہ حدودالٰہی کے معاملے میں کوئی بھی احتساب سے بالاتر نہیں ہے۔
یعنی آپ نے احتساب تو فرمایا، اِس لیے کہ یہ دین کا تقاضا تھا، لیکن اتنا ہی جس سے تنبیہ ہو جائے۔ چنانچہ کچھ بات آپ نے ظاہر فرمائی اور کچھ نظر انداز کر دی تاکہ یہ تنبیہ اُن کے دل پر زیادہ شاق نہ گزرے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ غلطی تو یقیناًہوئی تھی، مگر اِس میں کسی قسم کے فساد نیت کو دخل نہیں تھا۔ یہ محض اِس وجہ سے ہو گئی کہ اُنھوں نے گھر کی بات اپنے ہی گھر میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک محبوب بیوی کے سامنے ظاہر کر دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔
اِس سوال کے انداز سے واضح ہے کہ اپنی فروگزاشت کی طرف متوجہ ہونے کے بجاے اُنھیں فکر یہ ہو گئی کہ یہ بات حضور کو بتائی کس نے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اُن کا ذہن اِسی طرف گیا ہو گا کہ جن بیوی کو اُنھوں نے رازدار بنایا تھا، اُنھی نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی۔ اِس طرف ذہن جانے کے لیے قرینہ موجود تھا، کیونکہ اُن کے سوا اُنھوں نے کسی اور پر یہ بات ظاہر نہیں کی تھی۔ ہو سکتا ہے اُنھیں کچھ غصہ بھی آیا ہو، جیسا کہ اُن کے انداز سوال ’مَنْ اَنْبَاَکَ‘ سے اشارہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہو تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ کسی سے اپنے اعتماد کو ٹھیس پہنچے تو اُس سے رنج ہونا ایک قدرتی بات ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۶۲)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے کہ مجھے خداے علیم و خبیر نے خبر دی ہے، اُن کی غلط فہمی تو دور ہو گئی، لیکن یہ گرفت دونوں بیویوں پر گراں گزری اور وہ حضور سے کچھ روٹھ سی گئیں۔ ایک اِس لیے کہ افشاے راز اگر ہوا تو دوسری بیوی ہی کے سامنے ہوا، اِس پر محاسبہ کیوں؟ اور دوسری اِس لیے کہ بات میرے ہی سامنے کی گئی تھی، کسی غیر کے سامنے نہیں، پھر عتاب کی کیا وجہ ہے؟ اِس کے معنی تو یہ ہوئے کہ مجھے غیر خیال کیا گیا ہے۔ اِس سے حضور کے خلاف دونوں میں ایک طرح کا ایکا بھی ہو گیا۔ آگے اِسی پر گرفت فرمائی ہے۔
(اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبیؐ نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اُس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبیؐ کو اِس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی، تو نبیؐ نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے درگزر کیا۔ پھر جب نبیؐ نے اُسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو اُس نے پوچھا آپ کو اِس کی کس نے خبر دی؟ نبیؐ نے کہا، “مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔”
مختلف روایات میں مختلف باتوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ فلاں بات تھی جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی اور ان بیوی نے ایک دوسری بیوی سے اس کا ذکر کردیا۔ لیکن ہمارے نزدیک اول تو اس کا کھوج لگانا صحیح نہیں ہے، کیونکہ راز کے افشا کرنے پر ہی تو اللہ تعالیٰ یہاں کی بیوی کو ٹوک رہا ہے، پھر ہمارے لیے کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی ٹٹول کریں اور اسے کھولنے کی فکر میں لگ جائیں۔ دوسرے جس مقصد کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے اس کے لحاظ سے یہ سوال سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ راز کی بات تھی کیا۔ مقصود کلام سے اس کا کوئی تعلق ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے خود بیان فرما دیتا۔ اصل غرض جس کے لیے اس معاملے کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، ازواج مطہرات میں سے ایک کو اس غلطی پر ٹوکنا ہے کہ ان کے عظیم المرتبہ شوہر نے جو بات راز میں ان سے فرمائی تھی اسے انہوں نے راز نہ رکھا اور اس کا افشا کردیا۔ یہ محض ایک نجی معاملہ ہوتا، جیسا دنیا کے عام میاں اور بیوی کے درمیان ہوا کرتا ہے، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ براہ راست وحی کے ذریعہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر کردیتا اور پھر محض خبر دینے ہی پر اکتفا نہ کرتا بلکہ اسے اپنی کتاب میں بھی درج کردیتا جسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ساری دنیا کو پڑھنا ہے۔ لیکن اسے یہ اہمیت جس وجہ سے دی گئی وہ یہ تھی کہ وہ بیوی کسی معمولی شوہر کی نہ تھیں بلکہ اس عظیم ہستی کی بیوی تھیں جسے اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامور فرمایا تھا، جسے ہر وقت کفار و مشرکین اور منافقین کے ساتھ ایک مسلسل جہاد سے سابقہ در پیش تھا جس کی قیادت میں کفر کی جگہ اسلام کا نظام برپا کرنے کے لیے ایک زبردست جدوجہد ہو رہی تھی۔ ایسی ہستی کے گھر میں بیشمار ایسی باتیں ہو سکتی تھیں جو اگر راز نہ رہتیں اور قبل از وقت ظاہر ہوجاتیں تو اس کار عظیم کو نقصان پہنچ سکتا تھا جو وہ ہستی انجام دے رہی تھی۔ اس لیے جب اس گھر کی ایک خاتوں سے پہلی مرتبہ یہ کمزوری صادر ہوئی کہ اس نے ایک ایسی بات کو جو راز میں اس سے کہی گئی تھی کسی اور پر ظاہر کردیا (اگرچہ وہ کوئی غیر نہ تھا بلکہ اپنے ہی گھر کا ایک فرد تھا) تو اس پر فوراً ٹوک دیا گیا، اور در پردہ نہیں بلکہ قرآن مجید میں برملا ٹوکا گیا تاکہ نہ صرف ازواج مطہرات کو، بلکہ مسلم معاشرے کے تمام ذمہ دار لوگوں کی بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی تربیت دی جائے۔ آیت میں اس سوال کو قطعی نظر انداز کردیا گیا ہے کہ جس راز کی بات کو افشا کیا گیا تھا وہ کوئی خاص اہمیت رکھتی تھی یا نہیں، اور اس کے افشا سے کسی نقصان کا خطرہ تھا یا نہیں۔ گرفت بجائے خود اس امر پر کی گئی ہے کہ راز کی بات کو دوسرے سے بیان کردیا گیا۔ اس لیے کہ کسی ذمہ دار ہستی کے گھر والوں میں اگر یہ کمزوری موجود ہو کہ وہ رازوں کی حفاظت میں تساہل برتیں تو آج ایک غیر اہم راز افشا ہوا ہے، کل کوئی اہم راز افشا ہوسکتا ہے۔ جس شخص کا منصب معاشرے میں جتنا زیادہ ذمہ دارانہ ہوگا اتنے ہی زیادہ اہم اور نازک معاملات اس کے گھر والوں کے علم میں آئیں گے۔ ان کے ذریعہ سے راز کی باتیں دوسروں تک پہنچ جائیں تو کسی وقت بھی یہ کمزوری بڑے خطرے کی موجب بن سکتی ہے۔
اور یاد کرو کہ جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی پس جب اس نے اس بات کی خبر کردی اور اللہ نے اپنے نبی پر آگاہ کردیا تو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئے پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے ۔
وہ پوشیدہ بات شہد کو یا ماریہ کو حرام کرنے والی بات تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ سے کی تھی۔
یعنی حفصہ رضی اللہ نے وہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ کو جاکر بتلا دی۔
یعنی حفصہ رضی اللہ کو بتلا دیا کہ تم نے میرا راز فاش کردیا ہے۔ تاہم اپنی تکریم و عظمت کے پیش نظر ساری بات بتانے سے اعراض فرمایا۔
جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ رضی اللہ کو بتلایا کہ تم نے میرا راز ظاہر کردیا ہے تو وہ حیران ہوئیں کیونکہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ کے علاوہ کسی کو یہ بات نہیں بتلائی تھی اور عائشہ رضی اللہ سے انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ آپ کو بتلا دیں گی، کیونکہ وہ شریک معاملہ تھیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔
اگر تم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تو یہی تمہارے لیے زیبا ہے، تمہارے دل تو خدا کی طرف مائل ہی ہیں اور اگر تم اس کے خلاف ایکا کرو گی تو اس کا حامی اللہ ہے اور جبریل اور تمام نیکو کار مسلمان اور مزید برآں فرشتے بھی اس کے مددگار ہیں۔
یہ ان دونوں بیویوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر تم اللہ کی طرف رجوع کرو تو یہی بات تمہارے شایان شان ہے اس لیے کہ تمہارے دل تو اللہ کی طرف جھکے ہوئے ہیں ہی۔ اور اگر تم نے رسول کے خلاف ایکا کیا تو یاد رکھو کہ رسول اپنی دل جمعی کے لیے تمہارا محتاج نہیں ہے بلکہ اس کی طمانیت کے لیے اللہ، جبریل اور مومنین صالحین کی معیت و رفاقت کافی ہے، مزید براں فرشتے بھی اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔
ایک سوال اور اس کا جواب: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فروگزاشت تو ایک بیوی صاحبہ سے ہوئی تھی تو یہاں خطاب دو سے کیوں ہوا اور دوسری بیوی صاحبہ سے کون سی غلطی صادر ہوئی تھی جس پر ان کو بھی توبہ کی ہدایت ہوئی، بظاہر تو وہ بالکل بے قصور نظر آتی ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیوی صاحبہ پر ان کے افشائے راز کے سبب سے ناخوشی کا اظہار فرمایا تو دوسری بیوی صاحبہ کو یہ گمان گزرا ہو گا کہ شاید اس ناخوشی کا سبب یہ ہے کہ یہ افشائے راز ان کے سامنے کیوں ہوا؟ انھوں نے خیال فرمایا ہو گا کہ بات میرے ہی سامنے ظاہر کی گئی تھی، کسی غیر کے سامنے نہیں، تو آخر اس پر عتاب کی کیا وجہ ہوئی، اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ مجھے غیر خیال کیا گیا، اگرچہ ان کا یہ احساس بالکل غلط فہمی پر مبنی تھا لیکن جہاں محبت و اعتماد کے معاملے میں تنافس ہو وہاں اس طرح کی غلط فہمی کا پیدا ہو جانا کچھ بعید نہیں۔
بے جا خودداری کے اظہار پر گرفت: بہرحال ان دونوں ہی سیدات نے اس گرفت کو اپنی خود داری کے خلاف محسوس کیا اور یہ چیز اس شکل میں ظاہر ہوئی کہ یہ دونوں ہی بیویاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ روٹھ سی گئیں۔ عام حالات میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ میاں بیوی میں اس طرح کی باتیں آئے دن ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہراتؓ کا تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پر سختی سے گرفت فرمائی تاکہ ازواج نبی پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جائے کہ دین کے معاملے میں کسی کو بھی بے جا خودداری کے اظہار کا حق نہیں ہے۔ ان سے فروگزاشت ہوئی ہے تو دوسروں سے زیادہ وہ سزاوار ہیں کہ اپنے رویے کی اصلاح کریں۔ یہی بات ان کے شایان شان اور ان کے ایمان و انابت کا مقتضیٰ ہے۔ اور اگر انھوں نے ضد سے کام لیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف ایکا کیا تو یاد رکھیں کہ اللہ کا رسول اپنی دل جمعی و طمانیت کے لیے ان کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہی اس کی محتاج ہیں۔
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ ان بیویوں کی طرف سے جس رویے کا مظاہرہ ہوا اس کا محرک کوئی نفرت یا غصہ کا جذبہ نہیں بلکہ، جیسا کہ واضح ہوا، محض اعتماد و محبت یا بالفاظ دیگر تدلل کا جذبہ تھا لیکن قرآن نے اس پر گرفت سخت الفاظ میں کی۔ اس کہ وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم تمہیدی مباحث میں اشارہ کر چکے ہیں کہ اس سورہ میں دراصل تعلیم دی ہی اس بات کی گئی ہے کہ محبت کے جذبات کے اندر بھی اللہ کے حدود اور اس کے احکام و اوامر کی پوری پوری پابندی کی جائے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ازواج نبی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اپنا شوہر ہی نہیں بلکہ ہر حال میں آپؐ کو اللہ کا رسول سمجھیں اور ہر طرح کے حالات کے اندر اس خاص پہلو کو سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ مستحضر رکھیں۔ اس لیے کہ آپ کی یہ حیثیت دوسری تمام حیثیتوں پر بالا ہے۔
’إِنْ تَتُوۡبَا إِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوۡبُکُمَا‘۔ اس ٹکڑے کی تاویل میں ہمارے مفسرین سے سخت لغزش ہوئی ہے۔ انھوں نے ’صَغَتْ‘ کے معنی کج ہونے کے لیے اور تاویل یہ کی کہ اگر تم دونوں توبہ کرو تو یہی تمہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ تمہارے دل تو کج ہو چکے ہیں۔
اس تاویل میں کئی غلطیاں ہیں جن میں سے بعض کی طرف ہم توجہ دلائیں گے۔
لفظ ’صغو‘ کی تحقیق: ۱۔ اس میں پہلی غلطی تو یہ ہے کہ یہ تاویل عربیت کے بالکل خلاف ہے۔ لفظ ’صغو‘ عربی میں کسی شے سے انحراف کے معنی میں نہیں بلکہ کسی شے کی طرف جھکنے اور مائل ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر سورۂ تحریم میں اس لفظ کی لغوی تحقیق بیان فرمائی ہے۔ اس کا ضروری حصہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں:
’’دنیا کی تمام زبانوں میں عموماً اور عربی زبان میں خصوصاً خاص خاص الفاظ ایک کلی معنی کے تحت ہوتے ہوئے بھی خاص خاص معانی کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ جو لوگ زبان کی ان خصوصیات سے ناواقف ہوتے ہیں وہ اس کے فہم سے بالکل محروم رہتے ہیں۔‘‘
یہ کلیہ بیان کرنے کے بعد مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مثلاً ’میل‘ جس کے معنی جھکنے اور ہٹنے کے ہیں، ایک کلی مفہوم ہے جس کے تحت عربی میں بہت سے الفاظ ہیں، مثلاً زیغ، جور، ارعواء، حیادۃ، انحراف وغیرہ لیکن یہ سب میل عن الشئی یعنی کسی چیز سے ہٹ جانے یا برگشتہ ہو جانے کے لیے آتے ہیں۔ پھر اسی کلی مفہوم کے تحت فَی، توبۃ، التفات اور صِغو وغیرہ الفاظ بھی ہیں جو سب کے سب میل الی الشئی یعنی کسی چیز کی طرف مائل ہونے اور جھکنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں.....‘‘
’’لفظ کی اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد عربی زبان کے ایک عالم سے یہ حقیقت مخفی نہیں رہ سکتی کہ ’صَغَتْ قُلُوۡبُکُمَا‘ کے معنی ’انابت قلوبکما ومالت الی اللہ ورسولہ‘ (یعنی تم دونوں کے دل اللہ اور رسول کی طرف جھک چکے ہیں) کے ہوں گے کیونکہ لفظ ’صغو‘ کسی شے کی طرف جھکنے کے لیے آتا ہے، اس سے مڑنے اور ہٹنے کے لیے نہیں آتا۔‘‘
’’اس لفظ کی یہ حقیقت اس کے تمام مشتقات میں بھی موجود ہے۔ مثلاً ’صاغیۃ الرجل‘ کسی شخص کے اتباع کو کہتے ہیں۔ ’صغوہ معک‘ کے معنی ہیں اس کا میلان تمہاری طرف ہے۔ ’اصغیت الی فلان‘ کے معنی ہیں اس کی طرف تم نے کان لگایا۔ حدیث شریف میں ہے: ’ینفخ فی الصور فلا یسمعہ احد الا اصغی الیہ‘ (صور پھونکا جائے گا تو ہر شخص اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا) اسی طرح محاورہ ہے ’الصبی اعلم بمصغی خدہ‘ (بچہ اپنی آغوش محبت کو خوب پہچانتا ہے) ’ھرّۃ‘ (بلی) والی حدیث میں ہے: ’کان یصغی لہا الاناء‘ (اس کے لیے برتن جھکا دیتے کہ وہ آسانی سے پانی پی لے)۔ برتن کے جوف کو ’صغو‘ کہتے ہیں کیونکہ چیز اس میں جمع ہو جاتی ہے۔‘‘
ابن بری نے ’اصغاء سمع‘ (کسی کی طرف کان لگانا) کے ثبوت میں کسی شاعر کا مندرجہ ذیل شعر پیش کیا ہے:
تری السفیہ بہ عن کل مکرمۃ
زیغ وفیہ للتسفیہ اصغاء
(بے وقوف عزت و شرف کی باتوں سے منہ موڑتا ہے اور سفاہت کی باتوں کی طرف کان لگاتا ہے)
’’شاعر اونٹنی کی تعریف میں کہتا ہے:
تصغی اذا شدّھا بالکور جانحۃ
حتی اذا ما استوی فی غرزھا تثب
(جب وہ اس پر کجاوہ کستا ہے وہ گردن موڑ کر کان لگاتی ہے اور جب وہ رکاب میں پاؤں رکھ دیتا ہے وہ جھپٹ پڑتی ہے)‘‘
’’اعشیٰ اپنی کتیا کی آنکھ کا ذکر کرتا ہے:
تری عینھا صغواء فی جنب مؤقھا
تراقب کفی والقطیع المعد ما
(اس کی آنکھ گوشۂ چشم کی طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے اور وہ میرے ہاتھ اور سخت کوڑے کو دیکھتی ہوتی ہے)
’’نمر بن تولب نے ’اصغاء اناء‘ کا محاورہ ایک خاص معنی میں استعمال کیا ہے لیکن لفظ کے اصل مفہوم کی روح اس کے اندر بھی موجود ہے:
وان ابن اخت القوم مصغی اناؤہ
اذا لم یزاحم خالہ باب جلد
(اور قوم کے بھانجے کی حق تلفی کی جاتی ہے اگر وہ اپنے ماموؤں کی مزاحمت ایک بہادر باپ سے نہ کرے)‘‘
مولانا رحمۃ اللہ علیہ یہ محاورات و اشعار لسان العرب سے نقل کرنے کے بعد، نہایت گہرے تاثر کے ساتھ فرماتے ہیں:
’’جن لوگوں کو حق کی تلاش ہے ان کے لیے یہ شواہد بس ہیں۔ وہ ان سے مطمئن ہو جائیں گے اور گھڑنے والوں نے روایات و آثار میں جو زہر ملایا ہے اس سے وہ متاثر نہ ہوں گے۔ انھوں نے جب کتاب الٰہی میں کسی لفظی تحریف کی راہ مسدود دیکھی تو معنوی تحریف ہی کی کچھ راہیں کھول لیں اور ’صغو‘ کے معنی ’زیغ‘ کے کر دیے حالانکہ دونوں کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے۔ بعض روایات میں ’زاغت‘ کی جو قراء ت آئی ہے وہ بالکل ہی ناقابل التفات ہے۔‘‘
عربیت کے ایک اسلوب کی وضاحت: ۲۔ دوسری غلطی اس میں یہ ہے کہ اگر بات یہ کہنی ہوتی کہ تم دونوں توبہ کرو اس لیے کہ تمہارے دل کج ہو چکے ہیں، تو اس کے لیے یہ اسلوب بیان، جو قرآن نے یہاں اختیار کیا ہے، بالکل ہی ناموزوں ہے۔ ’اِنْ‘ شرطیہ کے بعد ’قد‘ جو آتا ہے، جس طرح یہاں آیا ہے، اس کی متعدد مثالیں قرآن اور کلام عرب سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ پیش کرنے کے بعد اس اسلوب کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:
’’ان مثالوں پر غور کرو تو معلوم ہو جائے گا کہ اس اسلوب میں ’قَد‘ کے بعد جو جملہ آتا ہے وہ اس امر کی آسانی و سہولت کو بیان کرتا ہے جو ’اِنْ‘ کے بعد کہی جاتی ہے۔ یعنی اسلوب کے اجمال کو کھول دیا جائے تو تقدیر کلام یوں ہو گی کہ اگر ایسا ایسا ہوا تو کچھ حرج نہیں، یا کوئی تعجب نہیں یا یہ معمولی بات ہے کیونکہ ایسا ایسا ہو چکا ہے۔ اس روشنی میں آیت کی تاویل یہ ہو گی کہ اگر تم پیغمبر کی رضا جوئی کے لیے خدا سے توبہ کرو تو یہی تم سے متوقع ہے اس لیے کہ تمہارے دل تو پہلے ہی سے اس کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔‘‘
نفسیات انسانی کی ایک حقیقت: ۳۔ اس میں تیسری غلطی یہ ہے کہ ازواج مطہرات کو بالکل بلاسبب دل کے زیغ و انحراف کو گنہگار بنا دیا گیا ہے حالانکہ اوپر ہم نے الفاظ قرآن کی روشنی میں واقعہ کی جو نوعیت بیان کی ہے اس سے صاف واضح ہے کہ اس میں کسی پہلو سے کسی فساد نیت کا کوئی شائبہ نہین ہے بلکہ جو کچھ بھی ہوا باہمی اعتماد و محبت اور اخلاص کی بنا پر ہوا۔ حضورؐ نے ایک بات راز کے طور پر ایک بیوی سے کہی انھوں نے وہ بات بربنائے محبت دوسری بیوی پر ظاہر کر دی۔ حضورؐ کو اللہ تعالیٰ نے اس افشائے راز سے آگاہ فرما دیا تو آپ نے ان بیوی صاحبہ کو ٹوکا جن سے یہ کوتاہی صادر ہوئی لیکن انھوں نے اس ٹوکنے کو قرار واقعی اہمیت نہ دی بلکہ یہ خیال کیا کہ شوہر کی بات انھوں نے شوہر ہی کی دوسری معتمد و محبوب بیوی پر اگر ظاہر کی تو یہ ایسی غلطی نہیں ہے جس پر گرفت کی جائے۔ پھر ان کے اس رویے پر حضورؐ کچھ کھنچے کھنچے ظاہر ہوئے تو اس اعتماد کی بنا پر جو شوہر کی محبت پر تھا وہ بھی ازراہ تدلل روٹھ گئیں اور اس میں ان بیوی صاحبہ نے بھی ان کا ساتھ دیا جن پر راز ظاہر کیا گیا تھا۔ انھوں نے، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، اس بات میں اپنی کچھ توہین سی محسوس فرمائی ہو گی کہ ایک ایسی بات پر عتاب ہوا جو ان پر ظاہر کی گئی۔ اس طرح کے احساس خودداری کا معزز گھرانوں کی سیدات کے اندر ابھرنا ذرا بھی عجیب نہیں ہے۔
یہاں نفسیات انسانی کی یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ جب روٹھنے کا سبب محبت و اعتماد ہو تو خفگی محض ظاہر کا پردہ ہوتی ہے جس کے پیچھے نہایت گہری خواہش ملاپ کی موجود ہوتی ہے۔ یہاں بھی یہی صورت تھی۔ دونوں بیویاں بظاہر روٹھ گئیں لیکن دل کے ہر گوشے میں یہ بے قراری موجود تھی کہ حضورؐ کی طرف سے ذرا ملاطفت کا اظہار ہو تو وہ خفگی کا یہ مصنوعی پردہ اٹھا دیں لیکن حضورؐ اپنے رویہ میں کوئی نرمی اس وجہ سے پیدا نہیں کر سکتے تھے کہ آپؐ کو، جیسا کہ واضح ہوا، گھر والوں کو یہ تعلیم دینی تھی کہ محبت کے اندر بھی وہ اللہ و رسول کے احکام کو مقدم رکھیں۔ ناچار بیویوں ہی کو اپنی بے جا خودداری سے دست بردار ہونا تھا لیکن اعتماد محبت کی زنجیر سخت ہوتی ہے۔ دل سے یہ چاہنے کے باوجود کہ کوئی ایسی بات ہو جائے کہ یہ بیگانگی دور ہو، وہ پہل کرنے سے ہچکچاتی رہیں۔ قرآن نے ’إِنْ تَتُوۡبَا إِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوۡبُکُمَا‘ کے الفاظ سے ان کی اسی باطنی کشمکش کی طرف نہایت خوبی سے اشارہ کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین اس کو سمجھ نہ سکے۔ اور دل کے اس پرمحبت جھکاؤ کو العیاذ باللہ وہ دل کی کجی گمان کر بیٹھے۔
سیدہ عائشہؓ اور سیدہ حفصہؓ میں گہری محبت تھی: ’وَإِنْ تَظَاہَرَا عَلَیْْہِ فَإِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلَاہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلَائِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ‘۔ ’تظاھر‘ کے معنی ہیں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار بننا۔ اس کے بعد ’علٰی‘ کے صلہ سے اس کے اندر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایکا یا اتحاد کر لینے کا مفہوم پیدا ہو گیا۔ اوپر ہم اس اتحاد کی نوعیت اور اس کے سبب کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ یہ کسی جنگ و پیکار کا مظاہرہ نہیں بلکہ اعتماد و تدلل کا مظاہرہ تھا۔ انھوں نے یہ خیال کیا کہ اس معاملے میں انھیں اپنی خودداری کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ یہ حقیقت ان کی نگاہوں سے اس وقت اوجھل ہو گئی کہ دین کے معاملے میں احتساب سے کوئی بھی بالا نہیں ہے یہاں تک کہ اللہ کا رسول بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
اس امر پر نگاہ رہے کہ یہاں جن سیدات کے اتحاد کی طرف اشارہ ہے مشہور روایت کے مطابق وہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما ہیں جن کی نسبت تفسیری روایات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے درمیان سوکنوں کے قسم کی چشمک و رقابت برابر رہتی تھی لیکن قرآن کے اس مقام میں ان کا جو کردار بیان ہوا ہے وہ اس امر کی ناقابل تردید شہادت ہے کہ ان میں ایسی گہری محبت تھی کہ وہ شوہر کے راز میں بھی ایک دوسری کو شریک کر لیتی تھیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ایک دوسری کی ہمدردی میں شوہر سے روٹھ بھی جاتی تھیں۔
پیغمبر صلعم کی دلچسپی کا اصل مرکز: آیت میں خطاب اگرچہ دو ہی بیویوں سے ہے لیکن اس میں جو تنبیہ ہے وہ تمام ازواج مطہراتؓ سے متعلق ہے۔ ان کو یہ آگاہی دی گئی ہے کہ اگر وہ روٹھ جائیں گی تو یہ نہ سمجھیں کہ اسے سے ہمارے پیغمبر کی بزم سونی ہو جائے گی۔ پیغمبر کو جو دلچسپی ان کے ساتھ ہے اس کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس کی اصل وابستگی اللہ سے ہے جو اس کا مولیٰ و مرجع ہے، پھر جبریل اس کے ساتھی ہیں جو وحی لاتے ہیں، پھر مومنین صالحین ہیں جو اس کی توجہ و تربیت کے اصل حق دار ہیں۔ مزید برآں اللہ کے فرشتے ہیں جن کی رفاقت و معیت اس کو ہر مشکل میں حاصل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ازواج نبی (رضی اللہ عنہم) کو اپنے شوہر کے ساتھ معاملہ کرنے میں اس فرق عظیم کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو ایک عام شوہر اور ایک پیغمبرؐ میں ہوتا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عظیم مصروفیات میں سے جو لمحے بچا کر انھیں بخش دیں اس کی قدر کریں۔ اس گمان میں نہ رہیں کہ پیغمبرؐ ان کی محبت و رفاقت کے محتاج ہیں اس وجہ سے ہر معاملے میں لازماً ان کی دلداری ملحوظ رکھیں گے۔ وہ دلداری وہیں تک کریں گے جہاں تک اللہ تعالیٰ کے حدود کے اندر گنجائش ہو گی۔ اگر کسی معاملے میں ذرا بھی حدود سے تجاوز ہو گا تو اس پر احتساب بھی ان کے فرائض میں داخل ہے جس میں کوتاہی ان کے لیے روا نہیں ہے۔
(نبی کی بیویو، اپنے رویے کی اصلاح کرو)، اگر تم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تو (یہی تمھارے لیے زیبا ہے)، تمھارے دل تو (اِس کے لیے) مائل ہی ہیں، لیکن اگر نبی کے خلاف ایکا کرو گی تو (جان رکھو کہ) اُس کا حامی اللہ ہے، اور جبریل اور تمام صالح مسلمان اور مزید براں فرشتے بھی اُس کے حامی اور مددگار ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ، فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا‘۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں بیویاں اگرچہ روٹھی ہوئی تھیں، مگر یہ روٹھنا ازراہ تدلل اور اُس اعتماد کی بنا پر تھا جو بیوی کو شوہر کی محبت پر ہوتا ہے۔ اِس طرح کے روٹھنے میں خفگی محض ظاہر کا پردہ ہوتی ہے۔ اِس کے پیچھے یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ دوسری طرف سے ذرا ملاطفت کا اظہار ہو تو اندر سخت بے قراری ہے کہ جلد سے جلد ملاپ ہو جائے۔ یہ مدعا اُس ترجمے سے واضح ہوجاتا ہے جو ہم نے اوپر کیا ہے۔ ہمارے مفسرین سے اِس آیت کی تاویل میں سخت لغزش ہوئی ہے۔ ہم نے جو ترجمہ کیا ہے، اُس کے دلائل کوئی شخص اگر دیکھنا چاہے تو امام حمید الدین فراہی کی تفسیر سورۂ تحریم میں دیکھ لے سکتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ تمھارا معاملہ کسی عام شخص سے نہیں ہے، خدا کے پیغمبر سے ہے۔ یہ عظیم فرق ہر حال میں ملحوظ رہنا چاہیے۔ اِس ہستی کے خلاف ایکا کروگی تو اپنا ہی نقصان کرو گی۔ جس کا مولیٰ اللہ ہے، اور جبریل اور ملائکہ اور تمام صالح مسلمان جس کے ساتھ ہیں، اُس کے خلاف کوئی ایکا آخر کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے؟
اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں، اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔
اصل الفاظ ہیں فقد صغت قلوبکما۔ صغو عربی زبان میں مڑ جانے اور ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے : ” ہر آئینہ کج شدہ است دل شما “۔ اور شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ ہے : ” کج ہوگئے ہیں دل تمہارے “۔ عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس سفیان ثوری اور ضحاک رحمہم اللہ نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے زاعت قلوبکما یعنی ” تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں “۔ امام رازی اس کی تشریح میں کہتے ہیں عدلت ومالت عن الحق و ھو حق الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ ” حق سے ہٹ گئے ہیں، اور حق سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق ہے ” اور علامہ آلوسی کی تشریح یہ ہے : مالت عن الواجب من موافقتہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ما یحبہ و کراھۃ یارھہ الی مخالفتہ یعنی ” تم پر واجب تو یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ پسند کریں اسے پسند کرنے میں اور جو کچھ آپ ناپسند کریں اسے ناپسند کرنے میں آپ کی موافقت کرو۔ مگر تمہارے دل اس معاملہ میں آپ کی موافقت سے ہٹ کر آپ کی مخالفت کی طرف مڑ گئے ہیں “۔
اصل الفاظ میں وان تظاھرا علیہ تظاھر کے معنی ہیں کسی کے مقابلہ میں باہم تعاون کرنا یا کسی کے خلاف ایکا کرنا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے : ” اگر باہم متفق شوید بر رنجایندرن پیغمبر “۔ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے : ” اگر تم دونوں چڑھائی کروگی اس پر “۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے : ” اگر تم دونوں اس طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں “۔
آیت کا خطاب صاف طور پر دو خواتین کی طرف ہے، اور سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات میں سے ہیں، کیونکہ اس سورے کی پہلی آیت سے پانچویں آیت تک مسلسل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے معاملات ہی زیر بحث آئے ہیں۔ اس حد تک تو بات خود قرآن مجید کے انداز بیان سے ظاہر ہورہی ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دونوں بیویاں کون تھیں، اور وہ معاملہ کیا تھا جس پر یہ عتاب ہوا، اس کی تفصیل ہمیں حدیث میں ملتی ہے۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک مفصل روایت نقل ہوئی ہے جس میں کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ یہ قصہ بیان کیا گیا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں :
” میں ایک مدت سے اس فکر میں تھا کہ حضرت عمر سے پوچھوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں تھیں جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں جتھہ بندی کرلی تھی اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ارشاد فرمائی کہ ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما۔ لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر ایک مرتبہ وہ حج کے لیے تشریف لے گئے اور میں ان کے ساتھ گیا۔ واپسی پر راستہ میں ایک جگہ ان کو وضو کراتے ہوئے مجھے موقع مل گیا اور میں نے یہ سوال پوچھ لیا۔ انہوں نے جواب دیا وہ عائشہ اور حفصہ تھیں۔ پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں کو دباکر رکھنے کے عادی تھے جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں حاوی تھیں اور یہی سبق ہماری عورتیں بھی ان سے سیکھنے لگیں۔ ایک روز میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے رہی ہے (اصل الفاظ ہیں فاذا ھی تراجعنی) ۔ مجھے یہ بہت ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے۔ اس نے کہا آپ اس بات پر کیوں بگڑتے ہیں کہ میں آپ کو پلٹ کر جواب دوں ؟ خدا کی قسم رسول اللہ کی بیویاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو بدو جواب دیتی ہیں (اصل لفظ ہے لیراجعنہ) اور ان میں سے کوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دن دن بھر روٹھی رہتی ہے۔ (بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے دن بھر ناراض رہتے ہیں) ۔ یہ سن کر میں گھر سے نکلا اور حفصہ کے ہاں گیا (جو حضرت عمر کی بیٹی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی تھیں) ۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تو رسول اللہ کو دو بدو جواب دیتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا اور کیا تم میں سے کوئی دن دن بھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روٹھی رہتی ہے ؟ (بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں) ۔ اس نے کہا ہاں۔ میں نے کہا نامراد ہوگئی اور گھاٹے میں پڑگئی وہ عورت جو تم میں سے ایسا کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بےخوف ہوگئی ہے کہ اپنے رسول کے غضب کی وجہ سے اللہ اس پر غضبناک ہوجائے اور وہ ہلاکت میں پڑجائے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر (یہاں بھی وہی الفاظ ہیں لا تراجعی) اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کر، میرے مال سے تیرا جو جی چاہیے مانگ لیا کر۔ تو اس بات سے کسی دھوکے میں نہ پڑ کہ تیری پڑوسن (مراد ہیں حضرت عائشہ) تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ محبوب ہے۔ اس کے بعد میں وہاں سے نکل کر ام سلمہ کے پاس پہنچا جو میری رشتہ دار تھیں، اور میں نے اس معاملہ میں ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا، ابن خطاب تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ہر معاملہ میں تم نے دخل دیا یہاں تک کہ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینے چلے ہو۔ ان کی اس بات نے میری ہمت توڑ دی۔ پھر ایسا ہوا کہ میرا ایک انصاری پڑوسی رات کے وقت میرے گھر آیا اور اس نے مجھے پکارا۔ ہم دونوں باری باری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور جو بات کسی کی باری کے دن ہوتی تھی وہ دوسرے کو بتا دیا کرتا تھا۔ زمانہ وہ تھا جب ہمیں غسان کے حملے کا خطرہ لگا ہوا تھا۔ اس کے پکارنے پر جب میں نکلا تو اس نے کہا ایک بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے میں نے کہا غسانی چڑھ آئے ہیں ؟ اس نے کہا نہیں، اس سے بھی زیادہ بڑا معاملہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا برباد ہوئی نامراد ہوگئی حفصہ، (بخاری کے الفاظ ہیں رغم انف حفصہ و عائشۃ) ، مجھے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ یہ ہونے والی بات ہے “۔
اس کے آگے کا قصہ ہم نے چھوڑ دیا ہے جس میں حضرت عمر نے بتایا ہے کہ دوسرے روز صبح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جا کر انہوں نے کس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ اس قصے کو ہم نے مسند احمد اور بخاری کی روایات جمع کر کے مرتب کیا ہے۔ اس میں حضرت عمر نے مراجعت کا لفظ جو استعمال کیا ہے اسے لغوی معنی میں نہیں لیا جاسکتا بلکہ سیاق خود بتا رہا ہے کہ یہ لفظ دو بدو جواب دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور حضرت عمر کا اپنی بیٹی سے یہ کہنا کہ لا ترجعی رسول اللہ صاف طور پر اس معنی میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زبان درازی نہ کیا کر۔
اس ترجمے کو بعض لوگ غلط کہتے ہیں اور انکا اعتراض یہ ہے کہ مراجعت کا ترجمہ پلٹ کر جواب دینا، یا دو بدو جواب دینا تو صحیح ہے، مگر اس کا ترجمہ ” زبان درازی ” صحیح نہیں ہے۔ لیکن یہ معترض حضرات اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر کم مرتبے کا آدمی اپنے سے بڑے مرتبے کے آدمی کو پلٹ کر جواب دے، یا دو بدو جواب دے تو اسی کا نام زبان درازی ہے۔ مثلا باپ بیٹے کو کسی بات ڈانٹے یا اس کے کسی فعل پر ناراضی کا اظہار کرے اور بیٹا اس پر ادب سے خاموش رہنے یا معذرت کرنے کے بجائے پلٹ کر جواب دینے پر اتر آئے، تو اس کو زبان درازی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پھر جب یہ معاملہ باپ اور بیٹے کے درمیان نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور امت کے کسی فرد کے درمیان ہو تو صرف ایک غبی آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا نام زبان درازی نہیں ہے۔
بعض دوسرے لوگ ہمارے اس ترجمے کو سوء ادب قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ سوء ادب اگر ہوسکتا تھا تو اس صورت میں جبکہ ہم اپنی طرف سے اس طرح کے الفاظ حضرت حفصہ کے متعلق استعمال کرنے کی جسارت کرتے۔ ہم نے تو حضرت عمر کے الفاظ کا صحیح مفہوم ادا کیا ہے، اور یہ الفاظ انہوں نے اپنی بیٹی کو اس کے قصور پر سرزنش کرتے ہوئے استعمال کیے ہیں۔ اسے سوء ادب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یا تو باپ اپنی بیٹی کو ڈانٹتے ہوئے بھی ادب سے بات کرے ٗ یا پھر ڈانٹ کا ترجمہ کرنے والا اپنی طرف سے اس کو با ادب کلام بنا دے۔
اس مقام پر سوچنے کے قابل بات دراصل یہ ہے کہ اگر معاملہ صرف ایسا ہی ہلکا اور معمولی سا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی اپنی بیویوں کو کچھ کہتے تھے اور وہ پلٹ کر جواب دے دیا کرتی تھیں، تو آخر اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خود ان ازواج مطہرات کو شدت کے ساتھ تنبیہ فرمائی ؟ اور حضرت عمر نے اس معاملہ کو کیوں اتنا سخت سمجھا کہ پہلے بیٹی کو ڈانٹا اور پھر ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے گھر جا کر ان کو اللہ کے غضب سے ڈرایا ؟ اور سب سے زیادہ یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کے خیال میں ایسے ہی زودرنج تھے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر بیویوں سے ناراض ہوجاتے تھے اور کیا معاذ اللہ آپ کے نزدیک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تنگ مزاجی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایسی باتوں پر ناراض ہو کر آپ ایک دفعہ سب بیویوں سے مقاطعہ کر کے اپنے حجرے میں عزلت گزیں ہوگئے تھے ؟ ان سوالات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے لامحالہ ان آیات کی تفسیر میں دو ہی راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا۔ یا تو اسے ازواج مطہرات کے احترام کی اتنی فکر لاحق ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر حرف آجانے کی پروا نہ کرے۔ یا پھر سیدھی طرح یہ مان لے کہ اس زمانہ میں ان ازواج مطہرات کا رویہ فی الواقع ایسا ہی قابل اعتراض ہوگیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ناراض ہوجانے میں حق بجانب تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات میں حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو اس رویہ پر شدت سے تنبیہ فرمائے۔
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے تم اپنا ہی نقصان کرو گی، کیونکہ جس کا مولی اللہ ہے اور جبریل اور ملائکہ اور تمام صالح اہل ایمان جس کے ساتھ ہیں اس کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اے نبی کی دونوں بیویو ! ) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک ایماندار اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں
یا تمہاری توبہ قبول کرلی جائے گی یہ شرط ان تتوبا کا جواب محذوف ہے۔
یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں اور وہ ہے ان کا ایسی چیز پسند کرنا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ناگوار تھی (فتح القدیر)
یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں تم جتھہ بندی کروگی تو نبی کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گی، اس لئے کہ نبی کا مددگار تو اللہ بھی ہے اور مومنین اور ملائکہ بھی۔
بہت ممکن ہے کہ وہ تمہیں طلاق دے چھوڑے تو اس کا پروردگار تمہارے بدلے میں تم سے بہتر بیویاں اس کو دے دے۔ اطاعت شعار، مومنہ، فرماں بردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار، ریاض کرنے والیاں، شوہر آشنا اور کنواریاں۔
ازواج نبی کے سامنے اعلیٰ صفات کا ایک آئینہ: یہ وہی اوپر والا مضمون، احتساب کے تقاضے سے کس قدر تیز ہو گیا ہے۔ ازواج مطہراتؓ کو خطاب کر کے فرمایا کہ تمہیں یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ اگر تم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے روٹھ گئیں تو پھر اس کی دلبستگی کا کوئی سہارا باقی نہیں رہے گا۔ آج اللہ نے اس کی رفاقت کے لیے جس طرح تمہارا انتخاب فرمایا ہے اگر وہ تمہیں طلاق دے چھوڑے تو اللہ تم سے بہتر بیویاں اس کے لیے منتخب فرما دے گا جن کے اندر وہ تمام اوصاف ہوں گے جو ہونے چاہییں۔ یہاں ان بیویوں کے جو اوصاف گنائے ہیں وہ سب دوسرے مقامات میں زیربحث آ چکے ہیں۔ خاص طور پر سورۂ احزاب آیت ۳۵ کے تحت جو بحث گزر چکی ہے اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ یہاں اعادے میں طوالت ہو گی۔
کنواریوں کے ساتھ ’ثَیِّبَاتٌ‘ کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کو سامنے لانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصلی قدر و قیمت اعلیٰ اوصاف کی ہے، ثیبۃ اور کنواری ہونا ثانوی چیزیں ہیں۔ اگر اوصاف حمیدہ موجود ہوں تو ثیبۃ کو کنواری پر تقدم حاصل ہے چنانچہ یہاں ’ثَیِّبَاتٌ‘ کا ذکر پہلے ہے۔
’سٰٓئِحٰتٌ‘ کا ترجمہ مترجمین نے ’روزہ رکھنے والیاں‘ کیا ہے لیکن ہمارے نزدیک لفظ کی یہ تعبیر ناقص ہے۔ یہ ’سیاحت‘ سے ہے جو ایک دینی اصطلاح ہے اور جس کا مفہوم وسیع ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت ۱۱۲ کے تحت اس کی تحقیق ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس کی روح زُہد اور ترک دنیا ہے اس وجہ سے اس سے وہ عبادات اور ریاضتیں مراد ہیں جو اسلام نے ترک دنیا اور زہد کے لیے پسند فرمائی ہیں، مثلاً روزہ، اعتکاف اور حج وغیرہ۔ یہ درحقیقت رہبانیت کے زمرہ کی عبادت ہے۔ جس طرح رہبانیت اسلام میں ایک خاص حد ہی تک جائز ہے اسی طرح سیاحت بھی ایک خاص حد ہی تک مطلوب ہے۔ روزہ اس ریاضت کے اہم ارکان میں سے ضرور ہے لیکن اس کا ترجمہ روزہ کے لفظ سے صحیح نہیں ہے۔ میں نے اس کا ترجمہ ریاض کرنے والیاں کیا ہے جو نسبۃً جامع ہے اور ان تمام عبادتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے جو اس کے تحت آتی ہیں۔ ان میں روزہ بھی شامل ہے۔
دین میں احتساب کی اہمیت: یہ آیات پڑھتے ہوئے یہ حقیقت مستحضر رہے کہ یہ احتساب ازواج نبی (رضی اللہ عنہم) کا ہو رہا ہے جن کی پاکی و طہارت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور جن کو تمام عالم کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ ان سیدات کو محض اس بنا پر طلاق تک کی دھمکی دے دی گئی کہ ان سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تربیت قبول کرنے کے معاملے میں ذرا سی بے پروائی ہو گئی اور وہ بھی بربنائے مخالفت و مکابرت نہیں بلکہ محض بربنائے محبت و اعتماد اس سے اندازہ کیجیے کہ دین میں احتساب و تربیت کا کیا درجہ ہے۔ گویا اسلامی معاشرہ میں وصل و فصل کی اصل بنیاد ہی یہی ہے۔ جو محبت اس احتساب و تربیت سے خالی ہو وہ محبت نہیں بلکہ شیطان کا پھندا ہے۔ اہل ایمان کی محبت کا اصلی جمال یہی ہے کہ وہ اللہ کے حدود کے تابع ہوتی ہے۔ اس معاملے میں وہ ایک دوسرے سے کبھی غافل نہیں ہوتے بلکہ جن سے جتنی ہی زیادہ محبت ہوتی ہے ان کے احتساب میں وہ اتنے ہی زیادہ بیدار ہوتے ہیں اس لیے کہ حقیقی محبت کا تقاضا یہی ہے۔ پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے خیر خواہانہ کلمات کے لیے دلوں میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے تو وہ عزیز رشتوں کے کاٹ دینے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اس لیے کہ روحانی تعلق کے ختم ہو جانے کے بعد مجرد جسمانی تعلق کی ان کی نگاہوں میں کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔
بعید نہیں کہ اگر وہ تمھیں طلاق دے دے تو اُس کا پروردگار تمھارے بدلے میں اُسے بہتر بیویاں عطا فرمادے ۔۔۔ مسلمان، مومنہ، فرماں بردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار اور درویشی کی زندگی بسر کرنے والیاں، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا کنواریاں۔
اصل میں لفظ ’سٰٓئِحٰت‘ آیا ہے۔ یہ سیاحت سے ہے۔ ایک دینی اصطلاح کے طور پر یہ لفظ اُس سیر و سیاحت کے لیے مستعمل رہا ہے جو علم و معرفت کی جستجو اور تزکیہ و تطہیر کے لیے کی جائے۔ قرآن کے استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانوں میں اِس کے معنی محض درویشی اور ریاضت کی زندگی بسر کرنے کے رہ گئے۔ لفظ کے معنی میں اِس نوعیت کی تجرید عربی زبان کے کئی لفظوں میں ہوئی ہے۔
یعنی اصلی مقصود یہ اوصاف ہیں۔ اِس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ شوہردیدہ ہیں یا کنواریاں ہیں۔ احتساب کے تقاضے سے اِس آیت کا مضمون کسی قدر تیز ہو گیا ہے۔ تاہم مدعا یہی ہے کہ وہ بے جا خودداری سے دست بردارہوں اور آگے بڑھیں۔ اُن سے فروگزاشت ہوتی ہے تو دوسروں سے زیادہ وہ سزاوار ہیں کہ ضد سے کام نہ لیں، بلکہ اپنی اصلاح کر لیں۔ ایسا نہ ہوا اور اُنھوں نے اِسی طرح ایکا کیے رکھا تو اللہ اپنے پیغمبر کی رفاقت کے لیے اُن سے بہتر بیویاں منتخب فرما دے گا، جن کے اندر وہ تمام اوصاف ہوں گے جو ہونے چاہییں۔ بیوی اور شوہر کا رشتہ پیغمبر کی شخصیت اور اُس کے مشن سے بڑھ کر نہیں ہے۔ وہ اِس حقیقت کو سمجھیں اور جلد سے جلد پیغمبر کو راضی کر لیں۔
اِس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دین کے معاملے میں ازواج مطہرات بھی احتساب سے بالاتر نہیں ہیں تو تابہ دیگراں چہ رسد۔ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ باہمی اعتماد و محبت کے جذبات کو حدود الٰہی کا پابند رکھے اور اپنے دائرۂ اختیار میں دین و شریعت کی ترجیحات قائم رکھنے کی کوشش کرے۔
بعید نہیں کہ اگر نبیؐ تم سب بیویوں کو طلاق دیدے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں، سچی مسلمان، با ایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔
اس سے معلوم ہوا کہ قصور صرف حضرت عائشہ اور حفصہ ہی کا نہ تھا، بلکہ دوسری ازواج مطہرات بھی کچھ نہ کچھ قصور وار تھیں، اسی لیے ان کے بعد اس آیت میں باقی ازواج کو بھی تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اس قصور کی نوعیت پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے البتہ احادیث میں اس کے متعلق کچھ تفصیلات آئی ہیں۔ ان کو ہم یہاں نقل کردیتے ہیں۔
بخاری میں حضرت انس کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے آپس کے رشک و رقابت میں مل جل کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنگ کردیا تھا۔ (اصل الفاظ ہیں اجتمع نساء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الغیرۃ علیہ) ۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ ” بعید نہیں اگر حضور تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تم سے بہتر بیویاں آپ کو عطا فرما دے “۔ ابن ابی حاتم نے حضرت انس کے حوالہ سے حضرت عمر کا بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے : ” مجھے خبر پہنچی کہ امہات المومنین اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کچھ ناچاقی ہوگئی ہے۔ اس پر میں ان میں سے ایک ایک کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنگ کرنے سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرما دے گا۔ یہاں تک کہ جب میں امہات المومنین میں سے آخری کے پاس گیا (اور یہ بخاری کی ایک روایت کے بموجب حضرت ام سلمہ تھیں) تو انہوں نے مجھے جواب دیا اے عمر، کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہیں کہ تم انہیں نصیحت کرنے چلے ہو ؟ اس پر میں خاموش ہوگیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی “۔
مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے ان سے بیان کیا کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار فرما لی تو میں مسجد نبوی میں پہنچا۔ دیکھا لوگ متفکر بیٹھے ہوئے کنکریاں اٹھا اٹھا کر گرا رہے ہیں اور آپس میں کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر نے حضرت عائشہ اور حفصہ کے ہاں اپنے جانے اور ان کو نصیحت کرنے کا ذکر کیا، پھر فرمایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا ” بیویوں کے معاملہ میں آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ؟ اگر آپ ان کو طلاق دے دیں تو اللہ آپ کے ساتھ ہے، سارے ملائکہ اور جبریل و میکائیل آپ کے ساتھ ہیں اور میں اور ابوبکر اور سب اہل ایمان آپ کے ساتھ ہیں “۔ میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ کم ہی ایسا ہوا ہے میں نے کوئی بات کہی ہو اور اللہ سے یہ امید نہ رکھی ہو کہ وہ میرے قول کی تصدیق فرما دے گا چنانچہ اس کے بعد سورة تحریم کی یہ آیات نازل ہوگئیں۔ پھر میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں۔ اس پر میں نے مسجد نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو کر با آواز بلند اعلان کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی ہے۔
بخاری میں حضرت انس اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ سے یہ روایات منقول ہوئی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مہینہ تک کے لیے اپنی بیویوں سے علیحدہ رہنے کا عہد فرما لیا تھا اور اپنے بالا خانے میں بیٹھ گئے تھے۔ 29 دن گزر جانے پر جبریل (علیہ السلام) نے آ کر کہا آپ کی قسم پوری ہوگئی ہے، مہینہ مکمل ہوگیا۔
حافظ بدر الدین عینی نے عمدۃ القاری میں حضرت عائشہ کے حوالہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ ازواج مطہرات کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ ایک میں خود حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ، حضرت سودہ اور حضرت صفیہ تھیں، اور دوسری میں حضرت زینب، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھن اور باقی ازواج مطہرات شامل تھیں۔
ان تمام روایات سے کچھ اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خانگی زندگی میں کیا حالات پیدا ہوگئے تھے جن کی بنا پر یہ ضروری ہوا کہ اللہ تعالیٰ مداخلت کر کے ازواج مطہرات کے طرز عمل کی اصلاح فرمائے۔ یہ ازواج اگرچہ معاشرے کی بہترین خواتین تھیں۔ مگر بہرحال تھیں انسان ہی، اور بشریت کے تقاضوں سے مبرا نہ تھا۔ کبھی ان کے لیے مسلسل عسرت کی زندگی بسر کرنا دشوار ہوجاتا تھا اور وہ بےصبر ہو کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نفقہ کا مطالبہ کرنے لگتیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورة احزاب کی آیات 28 ۔ 29 نازل فرما کر ان کو تلقین کی اگر تمہیں دنیا کی خوشحالی مطلوب ہے تو ہمارا رسول تم کو بخیر و خوبی رخصت کر دے گا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہو تو پھر صبر و شکر کے ساتھ ان تکلیفوں کو برداشت کرو جو رسول کی رفاقت میں پیش آئیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحزاب حاشیہ 41، اور دیباچہ سورة احزاب صفحہ 84) ۔ پھر کبھی نسائی فطرت کی بنا پر ان سے ایسی باتوں کا ظہور ہوجاتا تھا جو عام انسانی زندگی میں معمول کے خلاف نہ تھیں، مگر جس گھر میں ہونے کا شرف اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا تھا، اس کی شان اور اس کی عظیم ذمہ داریوں سے وہ مطابقت نہ رکھتی تھیں۔ ان باتوں سے جب یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خانگی زندگی کہیں تلخ نہ ہوجائے اور اس کا اثر ان کار عظیم پر مترتب نہ ہو جو اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے رہا تھا، قرآن مجید میں یہ آیات نازل کر کے ان کی صلاح فرمائی گئی تاکہ ازواج مطہرات کے اندر اپنے اس مقام اور مرتبے کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہو جو اللہ کے آخری رسول کی رفیق زندگی ہونے کی حیثیت سے ان کو نصیب ہوا تھا، اور وہ اپنے آپ کو عام عورتوں کی طرح اور اپنے گھر کو عام گھروں کی طرح نہ سمجھ بیٹھیں۔ اس آیت کا پہلا ہی فقرہ ایسا تھا کہ اس کو سن کر ازواج مطہرات کے دل لرز اٹھے ہوں گے۔ اس ارشاد سے بڑھ کر ان کے لیے تنبیہ اور کیا ہو سکتی تھی کہ ” اگر نبی تم کو طلاق دے دے تو بعید نہیں کہ اللہ اس کو تمہاری جگہ تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے “۔ اول تو نبی سے طلاق مل جانے کا تصور ہی ان کے لیے ناقابل برداشت تھا، اس پر یہ بات مزید کہ تم سے امہات المؤمنین ہونے کا شرف چھن جائے گا اور دوسری عورتیں جو اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت میں لائے گا وہ تم سے بہتر ہوں گی۔ اس کے بعد تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ازواج مطہرات سے پھر کبھی کسی ایسی بات کا صدور ہوتا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت کی نوبت آتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بس دو ہی مقامات ہم کو ایسے ملتے ہیں جہاں ان برگزیدہ خواتین کو تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ ایک سورة احزاب دور دوسرے یہ سورة تحریم۔
مسلم اور مومن کے الفاظ جب ایک ساتھ لائے جاتے ہیں تو مسلم کے معنی عملاً احکام الہی پر عمل کرنے والے کے ہوتے ہیں اور مومن سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو صدق دل سے ایمان لائے۔ پس بہترین مسلمان بیویوں کی اولین خصوصیات یہ ہے کہ وہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین پر ایمان رکھتی ہوں، اور عملاً اپنے اخلاق، عادات، خصائل اور برتاؤ میں اللہ کے دین کی پیروی کرنے والی ہوں۔
اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک، اللہ اور اس کے رسول کی تابع فرمان۔ دوسرے، اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی۔
تائب کا لفظ جب آدمی کی صفت کے طور پر آؤے تو اس کے معنی بس ایک ہی دفعہ توبہ کرلینے والے کے نہیں ہوتے بلکہ ایسے شخص کے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اللہ سے اپنے قصوروں کی معافی مانگتا رہے، جس کا ضمیر زندہ اور بیدار ہو، جسے ہر وقت اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کا احساس ہوتا رہے اور وہ ان پر نادم و شرمسار ہو۔ ایسے شخص میں کبھی غرور و تکبر اور نخوت و خود پسندی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ طبعاً نرم مزاج اور حلیم ہوتا ہے۔
عبادت گزار آدمی بہرحال کبھی اس شخص کی طرح خدا سے غافل نہیں ہوسکتا جس طرح عبادت نہ کرنے والا انسان ہوتا ہے۔ ایک عورت کو بہترین بیوی بنانے میں اس چیز کا بھی بڑا دخل ہے۔ عبادت گزار ہونے کی وجہ سے وہ حدود اللہ کی پابندی کرتی ہے، حق والوں کے حق پہنچانتی اور ادا کرتی ہے، اس کا ایمان ہر وقت تازہ اور زندہ رہتا ہے، اس سے اس امر کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ احکام الہی کی پیروی سے منہ نہیں موڑے گی۔
اصل میں لفظ سائحات استعمال ہوا ہے۔ متعدد صحابہ اور بکثرت تابعین نے اس کے معنی صائمات بیان کیے ہیں۔ روزے کے لیے سیاحت کا لفظ جس مناسبت سے استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں سیاحت زیادہ تر راہب اور درویش لوگ کرتے تھے، اور ان کے ساتھ کوئی زاد راہ نہیں ہوتا تھا۔ اکثر ان کو اس وقت تک بھوکا رہنا پڑتا تھا جب تک کہیں سے کچھ کھانے کو نہ مل جائے۔ اس بنا پر روزہ بھی ایک طرح کی درویشی ہی ہے کہ جب تک افطار کا وقت نہ آئے روزہ دار بھی بھوکا رہتا ہے۔ ابن جریر نے سوۃ توبہ آیت 12 کی تفسیر میں حضرت عائشہ کا قول نقل کیا ہے کہ سیاحۃ ھذا الاماۃ الصیام، ” اس امت کی سیاحت (یعنی درویشی) روزہ ہے “۔ اس مقام پر نیک بیویوں کی تعریف میں ان کی روزہ داری کا ذکر اس معنی میں نہیں کیا گیا ہے کہ وہ محض رمضان کے فرض روزے رکھتی ہیں، بلکہ اس معنی میں ہے کہ وہ فرض کے علاوہ نفل روزے بھی رکھا کرتی ہیں۔
ازواج مطہرات کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تمہارے بدلے میں ان کو ایسی بیویاں عطا فرمائے گا جن میں یہ اور یہ صفات ہوں گی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ازواج مطہرات یہ صفات نہیں رکھتی تھیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری جس غلط روش کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت ہو رہی ہے اس کو چھوڑ دو اور اس کے بجائے اپنی ساری توجہات اس کوشش میں صرف کرو کہ تمہارے اندر یہ پاکیزہ صفات بدرجہ اتم پیدا ہوں۔
اگر وہ (پیغمبر) تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انہیں ان کا رب ! تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا جو اسلام والیاں توبہ کرنے والیاں، عبادت بجا لانے والیاں روزے رکھنے والیاں ہوں گی بیوہ اور کنواریاں۔
یہ تنبیہ کے طور پر ازواج مطہرات کو کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو تم سے بھی بہتر بیویاں عطا کرسکتا ہے
ثیبات۔ ثیب کی جمع ہے (لوٹ آنے والی) بیوہ عورت کو ثیب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خاوند سے واپس لوٹ آتی ہے اور پھر اس طرح بےخاوند رہ جاتی ہے جیسے پہلے تھی ابکار بکر کی جمع ہے کنواری عورت اسے بکر اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ ابھی اپنی اسی پہلی حالت پر ہوتی ہے جس پر اس کی تخلیق ہوتی ہے فتح القدیر۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ثیب سے حضرت آسیہ فرعون کی بیوی اور بکر سے حضرت مریم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مراد ہیں یعنی جنت میں ان دونوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں بنا دیا جائے گا ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن ان روایات کی بنیاد پر ایسا خیال رکھنا یا بیان کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ سندا یہ روایات پایہ اعتبار سے ساقط ہیں۔
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔ جس پر درشت مزاج اور سخت گیر ملائکہ مامور ہوں گے۔ اللہ ان کو جو حکم دے گا اس کی تعمیل میں وہ اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا ان کو حکم ملے گا۔
احتساب کی عام منادی: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہراتؓ کے احتساب کے بعد یہ عام مسلمانوں کو جھنجھوڑا ہے کہ تم بھی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی اس آگ سے بچانے کی کوشش کرو جس کے ایندھن لوگ اور پتھر بنیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم نے دیکھ لیا کہ پیغمبرؐ اور ان کی ازوارجؓ بھی اللہ تعالیٰ کے احتساب سے بالا نہیں ہیں تو دوسروں کا کیا ذکر! ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے وہ اٹھا نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پا رہی ہے فوراً اس کے سد باب کی فکر کرے۔ یہ پروا نہ کرے کہ یہ چیز اس کی طبیعت پر شاق گزرے گی اور اس کے نتیجہ میں ان کی ناراضی و بے زاری مول لینی پڑے گی۔ یہ ناگواری و بے زاری اس امر کے مقابل میں آسان ہے کہ آدمی ان کو جہنم میں جانے کے لیے چھوڑ دے اور آخرت میں اس کی مسؤلیت، جیسا کہ ’کلکم راعٍ وکلّکم مسؤل عن رعیّتہٖ‘۱ والی حدیث میں وارد ہے، اپنے سر لے۔
آتش دوزخ کی اصلی غذا: ’وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ‘ کے الفاظ اس آگ کے مزاج کو ظاہر کر رہے ہیں کہ اس کی اصل غذا لوگ اور پتھر بنیں گے۔ اسی ایندھن سے وہ اپنے اصلی رنگ میں بھڑکے گی۔ ’لوگ‘ سے مراد ظاہر ہے کہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس دنیا میں اپنے آپ کو پاک نہیں کیا بلکہ انہی گندگیوں میں لتھڑے رہے جن سے پاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت نازل فرمائی۔
’حِجَارَۃُ‘ سے ہمارے نزدیک، جیسا کہ البقرہ کی آیت ۲۳ کے تحت وضاحت ہو چکی ہے، وہ پتھر مراد ہیں جو اس دنیا میں شرک و کفر اور عبادت غیراللہ کی علامت کی حیثیت سے پوجے گئے۔ انہی چیزوں کو جلانے کے لیے یہ آگ پیدا کی گئی ہے تو جب یہ ایندھن اس کے ملے گا تو اس کو گویا اس کا من بھاتا کھاجا ملے گا اور وہ ’ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ‘ کہتے ہوئے ایک ایک چیز کو نگلے گی اور جیسا کہ فرمایا ہے ’لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَر‘ نہ کسی چیز پر ذرا ترس کھائے گی اور نہ کسی چیز کو چھوڑے گی۔
دوزخ پر مامور فرشتوں کا مزاج: ’عَلَیْھَا مَآٰئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘۔ یعنی اس دوزخ پر جو فرشتے مقرر ہوں گے وہ نہایت درشت مزاج اور سخت گیر ہوں گے۔ ذرا کسی کے ساتھ نرمی اور مداہنت نہیں برتیں گے۔ ان کو جو حکم ملے گا سرمو اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے بلکہ وہی کریں گے جس کا ان کو حکم ملے گا۔
اس ٹکڑے میں ان لوگوں پر تعریض ہے جو اپنے اہل و عیال کی کسی بڑی سے بڑی غلطی پر بھی ان کو ٹوکنا محبت کے منافی سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ آج اگر ان کی محبت ان کے احتساب سے تم کو روکے ہوئے ہے تو یاد رکھو کہ دوزخ پر جو فرشتے مامور ہیں وہ محبت کرنے والے نہیں بلکہ بڑے ہی درشت مزاج اور سخت گیر ہوں گے، بہتر ہے کہ ان سے سابقہ پڑنے سے پہلے پہلے تم ہی اپنے احتساب سے اپنے آپ کو بھی اور ان کو بھی جس حد تک عذاب کی گرفت سے بچانے کی کوشش کر سکتے ہو۔ کر لو۔
’لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘۔ یعنی آج تمہیں احتساب کی جو ہدایت دی جا رہی ہے اگر تمہارے دلوں پر شاق گزر رہی ہے تو شاق گزرے دوزخ کے داروغوں پر یہ ذرا بھی شاق نہیں گزرے گی۔ وہ اللہ کے کسی حکم کی ذرا بھی خلاف ورزی نہیں کریں گے بلکہ ہر حکم کی پوری پوری تعمیل کریں گے۔
_____
۱ تم میں سے ہر ایک چرواہا بنایا گیا اور ہر ایک سے اس کے گلے کے بارے میں پرسش ہونی ہے۔
ایمان والو، (جب پیغمبر اور اُس کی بیویاں بھی احتساب سے بالا نہیں تو) تم بھی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے، (جنھیں وہ پوجتے رہے)، جس پر تند خواور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے۔ اللہ جو بات اُنھیں فرمائے گا، اُس کی تعمیل میں نافرمانی نہ کریں گے اور وہی کریں گے جس کا حکم اُنھیں دیا جائے گا۔
یعنی وہ لوگ جنھوں نے دنیا کی زندگی میں اپنا تزکیہ نہیں کیا اور اُنھی غلاظتوں میں لتھڑے ہوئے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے جن سے پاک کرنے کے لیے اُس نے اپنی شریعت نازل کی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ آج احتساب کے لیے کہا جاتا ہے تو یہ بات تمھیں شاق گزرتی ہے اور اِسے اہل و عیال کی محبت کے منافی سمجھتے ہو، مگر دوزخ کے داروغوں کو یہ ہرگز شاق نہ گزرے گی اور خدا کے حکم کی تعمیل میں کسی کی محبت بھی مانع نہ ہو گی کہ لوگ اُن کی گرفت سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر لیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظام فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملہ میں جوابدہ ہے حکمران راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے معاملہ میں جوادہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے “۔
جہنم کا ایندھن پتھر ہوں گے، اس سے مراد غالباً پتھر کا کوئلہ ہے۔ ابن مسعود، ابن عباس، مجاہد، امام میں الباقر اور سدی (رض) کہتے ہیں کہ یہ گندھک کے پتھر ہوں گے۔
یعنی ان کو جو سزا بھی کسی مجرم پر نافذ کرنے کا حکم دیا جائے گا اسے جوں توں نافذ کریں گے اور ذرا رحم نہ کھائیں گے۔
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :18
ان دونوں آیتوں کا انداز بیان اپنے اندر مسلمانوں کے لیے سخت تنبیہ لیے ہوئے ہے۔ پہلی آیت میں مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس خوفناک عذاب سے بچاؤ۔ اور دوسری آیت میں فرمایا گیا کہ جہنم میں عذاب دیتے وقت کافروں سے یہ کہا جائے گا۔ اس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا میں وہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچنا چاہیے جسکی بدولت آخرت میں ان کا انجام کافروں کے ساتھ ہو۔
اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔
اس میں اہل ایمان کو ان کی ایک نہایت اہم ذمے داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور وہ ہے اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام تاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے نماز کی تلقین کرو اور دس سال عمر کے بچوں میں نماز سے تساہل دیکھو تو انہیں سرزنش کرو سنن ابی داؤد۔ فقہا نے کہا ہے اسی طرح روزے ان سے رکھوائے جائیں اور دیگر احکام کے اتباع کی تلقین انہیں کی جائے تاکہ جب وہ شعور کی عمر کو پہنچیں تو اس دین حق کا شعور بھی انہیں حاصل ہوچکا ہو۔ ابن کثیر۔
اے لوگو، جنھوں نے کفر کیا، آج عذر نہ پیش کرو، تم وہی بدلے میں پار ہے ہو جو تم کرتے رہے ہو۔
یعنی اس دن کسی کے لیے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش نہ ہو گی۔ جو لوگ کوئی عذر پیش کرنا چاہیں گے ان کو جواب ملے گا کہ آج کوئی عذر پیش نہ کرو۔ تمہارے سامنے جو کچھ آ رہا ہے تمہاری اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کا حاصل ہے۔ دنیا میں تم نے جو کمائی کی ہے اب اس کے نتائج بھگتو۔ یہ کسی غیر کے کیے ہوئے جرائم نہیں ہیں جو تمہارے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہوں بلکہ تمہارے ہی جرائم کی مکافات تمہارے سامنے آ رہی ہے تو اس پر تمہارا واویلا اب بے سود ہے۔ اس سے بچنے کے لیے تم جو کچھ کر سکتے تھے دنیا میں کر سکتے تھے۔ اب اس کا وقت گزر گیا۔
(اُس وقت کہا جائے گا): اے کافرو، آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں وہی بدلے میں دیا جا رہا ہے جو تم کرتے رہے ہو۔
n/a
(اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو، آج معذرتیں پیش نہ کرو، تہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔
n/a
اے کافرو ! آج تم عذر و بہانہ مت کرو۔ تمہیں صرف تمہارے کرتوت کا بدلہ دیا جا رہا ہے۔
n/a
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ کی طرف مخلصانہ رجوع کرو۔ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے اوپر سے تمہارے گناہ جھاڑ دے اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ جس دن کہ اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے، رسوا نہیں کرے گا۔ ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے دہنے چل رہی ہو گی۔ وہ دعا کر رہے ہوں گے: اے ہمارے پروردگار، ہمارے لیے روشنی کو کامل کر اور ہماری مغفرت فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
توبہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت عام: اوپر والی تنبیہ کے بعد اب یہ تمام مسلمانوں کو توبہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دی ہے کہ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اپنے غفلت کے بستر چھوڑو اور اپنے رب کی طرف مخلصانہ رجوع کرو۔
’توبۃ نصوح‘ سے مراد وہ توبہ ہے جو دل کے پورے انقیاد اور سچے عزم کے ساتھ ہو۔ جس کے بعد گناہ کی طرف مڑنے کی کوئی خواہش باقی نہ رہے بلکہ گناہ کو آخری طلاق دے کر آدمی اپنے آپ کو اپنے رب کے آگے ڈال دے۔ فرمایا کہ جو لوگ اس طرح توبہ کریں گے وہ توقع رکھیں کہ اللہ ان کے گناہوں کے اثرات ان کے اوپر سے دور کر دے گا اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی۔
’عسٰی‘ کے متعلق اس کے محل میں یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ جب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو خطاب کر کے آئے تو اس کی نوعیت بندوں کے لیے وعدے اور بشارت کی ہوتی ہے بشرطیکہ بندے اپنے کو اس کا اہل ثابت کریں۔
’یَوْمَ لَا یُخْزِی اللہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَہٗ‘۔ اس ’یَوْمَ‘ کو فعل ’یُدْخِلَ‘ کا ظرف بھی قرار دے سکتے ہیں اور اس سے پہلے کوئی فعل محذوف بھی مان سکتے ہیں۔ فرمایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے با ایمان ساتھیوں کو رسوا نہیں کرے گا اس لیے کہ وہ اس دنیا ہی میں اپنے احتساب کے چھاج میں پھٹک کر صرف ان لوگوں کو اپنی معیت کے لیے انتخاب کریں گے جو کفر و نفاق کی آلائش سے بالکل پاک اور صد فی صد کھرے ہوں گے۔ یہ ان لوگوں کے مانند نہیں ہوں گے جنھوں نے خود بھی منافقانہ زندگی گزاری اور اپنی مداہنت سے اپنے اہل و عیال اور دوسرے متعلقین کو بھی نفاق کی راہ دکھائی۔ یہ لوگ قیامت کے دن رسوا ہوں گے اس لیے کہ اس دن ان کو ان کے نفاق کی تاریکی گھیرے گی۔ جب کہ پیغمبرؐ اور ان کے اصحابؓ اپنے ایمان و اخلاص کی روشنی میں اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہوں گے۔
قیامت کے دن پیغمبرؐ ان کے صحابہؓ اور اہل ایمان کی سرفرازی: ’نُوْرُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘۔ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی سرخروئی اور سرفرازی کا بیان ہے کہ اس دن سب اندھیرے میں بھٹک رہے ہوں گے لیکن پیغمبرؐ اور ان کے ساتھیوں کے آگے اور داہنے ان کی روشنی ہو گی جو ان کی رہنمائی کر رہی ہو گی اور وہ دعا کرتے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہماری روشنی کو کامل کر، ہماری مغفرت فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اور روشنی کا ذکر سورۂ حدید میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں ان لوگوں کا بھی ذکر آیا ہے جو اس دن رسوا ہوں گے۔ فرمایا ہے:
یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعٰی نُورُہُم بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْْمَانِہِم بُشْرَاکُمُ الْیَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنۡ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۵ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا انظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنۡ نُّوْرِکُمْ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا فَضُرِبَ بَیْْنَہُمۡ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الْعَذَابُ ۵ یُنَادُوْنَہُمْ أَلَمْ نَکُنۡ مَّعَکُمْ قَالُوْا بَلٰی وَلَکِنَّکُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَکُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْکُمُ الْأَمَانِیُّ حَتَٰی جَآءَ أَمْرُ اللہِ وَغَرَّکُم بِاللہِ الْغَرُوْرُ (الحدید ۵۷: ۱۲-۱۴)
’’جس دن مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے دہنے چل رہی ہو گی۔ ان کو خوش خبری دی جا رہی ہو گی کہ آج تمہارے لیے ایسے باغوں کی بشارت ہے جن میں نہریں جاری ہیں۔ ان میں ہمیشہ رہو گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ جس دن منافق مرد اور عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ ذرا ہمیں بھی موقع دیجیے کہ ہم بھی آپ لوگوں کی روشنی سے فائدہ اٹھا لیں۔ ان کو جواب ملے گا کہ پیچھے پلٹو اور وہاں سے روشنی تلاش کرو۔ پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا۔ اس کے اندر کی جانب رحمت ہو گی اور اس کے باہر کی طرف سے عذاب۔ یہ منافقین ان کو پکاریں گے کہ کیا ہم آپ لوگوں کے ساتھ نہ تھے؟ وہ جواب دیں گے ساتھ تھے تو سہی لیکن تم نے اپنے کو فتنوں میں ڈالا، انتظار میں رہے، شک کیا اور آرزوؤں نے تمہیں دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہر ہو گیا اور اللہ کے بارے میں شیطان نے تمہیں دھوکے ہی میں رکھا۔ ‘‘
’رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘۔ یہ روشنی ان لوگوں کو جنت میں داخل ہونے سے پہلے جنت کے راستے کو طے کرنے کے لیے دکھائی جائے گی جب کہ ان کے دہنے اور آگے کے سوا ہر طرف اندھیرا گھپ ہو گا اس وجہ سے یہ لوگ گہرے جذبۂ شکر کے ساتھ یہ دعا کریں گے کہ اے رب، تو اس روشنی کو کامل کر اور ہماری مغفرت فرما۔ ظاہر ہے کہ جب راستہ طے کرنے کے لیے یہ روشنی عطا ہو گی تو اس سے قدرتی طور پر یہ توقع بھی پیدا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت سے نوازنے والا ہے اور وہ وقت لازماً اس روشنی کے کامل ظہور کا ہو گا۔ چنانچہ وہ اپنی اسی توقع کے پورے کیے جانے کے لیے دعا کریں گے۔
’إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘۔ یہ ان لوگوں کی زبان سے اس حقیقت کا اظہار ہو گا کہ ہم ایک عقیدہ کے طور پر مانتے تو رہے ہیں کہ تو ہر چیز پر قادر ہے لیکن اب ہم نے اپنی آنکھوں سے بھی اس حقیقت کا مشاہدہ کر لیا۔ لاریب تو ہر چیز پر قادر ہے۔
ایمان والو، اللہ کی طرف مخلصانہ رجوع کرو۔ امید ہے کہ تمھارا پروردگار تمھارے گناہ تم سے دور کر دے اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں، اُس دن جب اللہ اپنے نبی کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا۔ اُن کی روشنی اُن کے آگے اور اُن کے دہنے چل رہی ہو گی۔ وہ دعا کر رہے ہوں گے: پروردگار، ہماری اِس روشنی کو تو ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگذر فرما۔ حقیقت یہ ہے کہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اصل میں ’تَوْبَۃً نَّصُوْحًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن سے مراد وہ توبہ ہے جو سچے عزم اور پوری انابت کے ساتھ کی جائے، جس کے بعد گناہ کی طرف جانے کی کوئی خواہش باقی نہ رہے۔
اصل میں ’عَسٰی‘ ہے۔ یہ خدا کی طرف سے بندوں کو خطاب کرکے آئے تو اِس کی نوعیت وعدے اور بشارت کی ہوتی ہے۔
اصل الفاظ ہیں: ’اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا‘۔ اِن سے کیا مراد ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...یہ روشنی اُن لوگوں کو جنت میں داخل ہونے سے پہلے جنت کے راستے کو طے کرنے کے لیے دکھائی جائے گی، جب کہ اُن کے دہنے اور آگے کے سوا ہر طرف اندھیرا گھپ ہو گا۔ اِس وجہ سے یہ لوگ گہرے جذبۂ شکر کے ساتھ یہ دعا کریں گے کہ اے رب، تو اِس روشنی کو کامل کر اور ہماری مغفرت فرما۔ ظاہر ہے کہ جب راستہ طے کرنے کے لیے یہ روشنی عطا ہو گی تو اِس سے قدرتی طور پر یہ توقع بھی پیدا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی مغفرت سے نوازنے والا ہے اور وہ وقت لازماً اِس روشنی کے کامل ظہور کا ہو گا۔ چنانچہ وہ اپنی اِسی توقع کے پورے کیے جانے کے لیے دعا کریں گے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۷۲)
یعنی پہلے تو عقیدہ تھا، آج یہ حقیقت آنکھوں سے بھی دیکھ لی کہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور اُن لوگوں جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اصل میں توبۃً نصوحاً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ نصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں۔ خالص شہد کو عسل ناصح کہتے ہیں جس کو موم اور دوسری آلائشوں سے پاک کردیا گیا ہو۔ پھٹے ہوئے کپڑے کو سی دینے اور ادھڑے ہوئے کپڑے کی مرمت کردینے کے لیے نصاحۃ الثوب کا لفاظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پس توجہ کو نصوح کہنے کا مطلب لغت کے اعتبار سے یا تو یہ ہوگا کہ آدمی ایسی خالص توجہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو۔ یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بد انجامی سے بچا لے۔ یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑگیا ہے، توبہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کر دے۔ یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سوار لے کہ دوسروں کے لیے وہ نصیحت کا موجب ہو اور اسکی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسی کی طرح اپنی اصلاح کرلیں۔ یہ تو ہیں توبہ نصوح کے وہ مفہومات جو اس کے لغوی معنوں سے مترشح ہوتے ہیں۔ رہا اسی کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زر بن حبیش کے واسطے سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے توجہ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ سے یہی سوال کیا تھا آپ نے فرمایا ” اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو “۔ یہی مطلب حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی منقول ہے، اور ایک روایت میں حضرت عمر نے توبہ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی کا اعادہ تو درکنار، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے۔ (ابن جریر) ۔ حضرت علی نے ایک مرتبہ ایک بدو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ توبۃ الکذابین ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے ؟ فرمایا اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہیں (1) جو کچھ ہوچکا ہے اس پر نادم ہو۔ (2) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کر۔ (3) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کر۔ (4) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگ۔ (5) آئندہ کے لیے عزم کرلے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا۔ اور (6) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھلا دے جس طرح تو نے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے۔ (کشاف)
توبہ کے سلسلہ میں چند امور اور بھی ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اول یہ کہ توبہ درحقیقت کسی معصیت پر اس لیے نادم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی ہے۔ ورنہ کسی گناہ سے اس لیے پرہیز کا عہد کرلینا کہ وہ مثلاً صحت کے لیے نقصان دہ ہے، یا کسی بدنامی کا، یا مالی نقصان کا موجب ہے، توبہ کی تعریف میں نہیں آتا۔ دوسرے یہ کہ جس وقت آدمی کو احساس ہوجائے کہ اس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے، اسی وقت اسے توبہ کرنی چاہیے اور جس شکل میں بھی ممکن ہو بلا تاخیر اس کی تلافی کر دینی چاہیے، اسے ٹالنا مناسب نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ توبہ کر کے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور توبہ کو کھیل بنا لینا اور اسی گناہ کا بار بار اعادہ کرنا جس سے توبہ کی گئی ہو، توبہ کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہے، اور بار بار کی توبہ شکنی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرمساری موجود نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ جو شخص سچے دل سے توبہ کر کے یہ عزم کرچکا ہو کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا، اس سے اگر بشری کمزوری کی بنا پر اسی گناہ کا اعادہ ہوجائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ ہوگا البتہ اسے بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنی چاہیے اور زیادہ سختی کے ساتھ عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ وہ توبہ شکنی کا مرتکب نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ ہر مرتبہ جب معصیت یاد آئے، توبہ کی تجدید کرنا لازم نہیں ہے، لیکن اگر اس کا نفس اپنی سابق گناہ گارانہ زندگی کی یاد سے لطف لے رہا ہو تو بار بار توبہ کرنی چاہیے یہاں تک کہ گناہوں کی یاد اس کے لیے لذت کے بجائے شرمساری کی موجب بن جائے۔ اس لیے جس شخص نے فی الواقع خدا کے خوف کی بنا پر معصیت سے توجہ کی ہو وہ اس خیال سے لذت نہیں لے سکتا کہ وہ خدا کی نافرمانی کرتا رہا ہے۔ اس سے لذت لینا اس بات کی علامت ہے کہ خدا کے خوف نے اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی ہے۔
آیت کے الفاظ قابل غور ہیں۔ یہ نہیں فرمایا گیا کہ توبہ کرلو تو تمہیں ضرور معاف کردیا جائے گا اور لازماً تم جنت میں داخل کردیے جاؤ گے، بلکہ یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرو گے تو بعید نہیں کہ اللہ تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ گناہ گار کی توبہ قبول کرلینا اور اسے سزا دینے کے بجائے جنت عطا فرما دینا اللہ پر واجب نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر اس کی عنایت و مہربانی ہوگی کہ وہ معاف بھی کرے اور انعام بھی دے۔ بندے کو اس سے معافی کی امید تو ضرور رکھنی چاہیے مگر اس بھروسے پر گناہ نہیں کرنا چاہیے کہ توبہ سے معافی مل جائے گی۔
یعنی ان کے اعمال حسنہ کا اجر ضائع نہ کرے گا کفار و منافقین کو یہ کہنے کا موقع ہرگز نہ دے گا کہ ان لوگوں نے خدا پرستی بھی کی تو اس کا کیا صلہ پایا۔ رسوائی باغیوں اور نافرمانوں کے حصے میں آئے گی نہ کہ وفاداروں اور فرماں برداروں کے حصے میں۔
اس آیت کو سورة حدید کی آیات 12 ۔ 13 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل ایمان کے آگے آگے نور کے دوڑنے کی یہ کیفیت اس وقت پیش آئے گی جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف جا رہے ہوں گے۔ وہاں ہر طرف گھپ اندھیرا ہوگا جس میں وہ سب لوگ ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے جن کے حق میں دوزح کا فیصلہ ہوگا، اور روشنی صرف اہل ایمان کے ساتھ ہوگی جس کے سہارے وہ اپنا راستہ طے کر رہے ہوں گے۔ اس نازک موقع پر تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگوں کی آہ و فغاں سن سن کر اہل ایمان پر خشیت کی کیفیت طاری ہو رہی ہوگی، اپنے قصوروں اور اپنی کوتاہیوں کا احساس کر کے انہیں اندیشہ لاحق ہوگا کہ کہیں ہمارا نور بھی نہ چھن جائے اور ہم ان بدبختوں کی طرح ٹھوکریں کھاتے نہ رہ جائیں۔ اس لیے وہ دعا کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے قصور معاف فرما دے اور ہمارے نور کو جنت میں پہنچنے تک ہمارے لیے باقی رکھ۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ : ” ربنا اتمم لنا نورنا ” کے معنی یہ ہیں کہ : ” وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ان کا نور اس وقت تک باقی رکھا جائے اور اسے بجھنے نہ دیا جائے جب تک وہ پل صراط سے بخریت نہ گزر جائیں “۔ حضرت حسن بصری اور مجاہد اور ضحاک کی تفسیر بھی قریب قریب یہی ہے۔ ابن کثیر نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے ” اہل ایمان جب دیکھیں گے کہ منافقین نور سے محروم رہ گئے ہیں تو وہ اپنے حق میں اللہ سے تکمیل نور کی دعا کریں گے “۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الحدید، حاشیہ 17) ۔
اے ایمان والو ! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔
خالص توبہ یہ ہے کہ، ١۔ جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے، اسے ترک کر دے ٢۔ اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے، ٣۔ آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم رکھے، ٤۔ اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے اس کا ازالہ کرے، جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے، محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
یہ دعا اہل ایمان اس وقت کریں جب منافقین کا نور بجھا دیا جائے گا، جیسا سورة حدید میں تفصیل گزری، اہل ایمان کہیں گے، جنت میں داخل ہونے تک ہمارے اس نور کو باقی رکھ اور اس کا اتمام فرما۔
اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سخت ہو جا۔ اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے!
پیغمبر صلعم کو عام احتساب کی تاکید: مومنین و متعلقین کے احتساب کے بعد یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عام فریضۂ احتساب کی تاکید ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ مامور تھے۔ آیت میں جس جہاد کا حکم ہے وہ تلوار اور زبان دونوں ہی کا جہاد ہے، البتہ دونوں کے محل الگ الگ ہیں۔ جن لوگوں پر حجت تمام ہو چکی تھی اور وہ علانیہ حق دشمنی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ان سے تو جہاد تلوار کے ذریعہ سے تھا جس کی تفصیل پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے اور جو لوگ بظاہر تو ایمان کے مدعی تھے لیکن ایمان کے تقاضوں سے گریزاں تھے ان کے بارے میں خاص طور پر ہدایت ہوئی کہ ان کا احتساب کیا جائے اور اب یہ احتساب نرم انداز میں نہیں بلکہ سخت انداز (وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ) میں کیا جائے۔
منافقین کے احتساب میں درشت رویہ اختیار کرنے کی ہدایت: یہ سخت انداز میں منافقین کے احتساب کی تاکید اس وجہ سے ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کریم النفسی کے سبب سے ان کی غلطیوں پر جب بھی گرفت فرماتے نرم ہی انداز میں فرماتے تاکہ ان کی رسوائی نہ ہو۔ اس کریمانہ انداز کی انھیں قدر کرنی تھی لیکن منافقین اس کے اہل نہ تھے۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے دلیر ہوتے جا رہے تھے کہ ان کا فریب کامیاب ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ انداز بدل دینے کا حکم دیا اور سختی کے ساتھ ان کے احتساب کی تاکید فرمائی تاکہ ان کے کان کھلیں اور اگر وہ اپنی اصلاح کرنی چاہیں تو کر لیں ورنہ ان کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ سورۂ توبہ کی آیت ۷۳ کے تحت اس مضمون کی وضاحت ہو چکی ہے۔ تفصیل مطلوب ہو تو اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
’وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئۡسَ الْمَصِیْرُ‘۔ یعنی تم اب ان کو اچھی طرح جھنجھوڑ کر سنا دو کہ اگر انھوں نے اپنی روش نہ بدلی تو یاد رکھیں کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔
اے نبی، (تمھارے مخاطبین میں سے اب کوئی بھی رعایت کا مستحق نہیں رہا، اِس لیے) منکرین اور منافقین، سب سے جہاد کرو اور اِن پر سخت ہو جاؤ۔ اِن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔
جہاد کا لفظ زبان اور تلوار، دونوں سے جہاد کے لیے آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تزکیہ و تطہیر کا مرحلہ اب پایۂ تکمیل کو پہنچ رہا ہے، اِس لیے نرمی سے سمجھانے کا طریقہ چھوڑ دیجیے۔ عذاب سے پہلے واضح ہو جانا چاہیے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ سختی کے ساتھ احتساب کیا جائے اور جو جس رویے کا مستحق ہے، اُس کے ساتھ وہی معاملہ کرکے اُسے کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تاکہ خدا کی دینونت پورے انصاف کے ساتھ برپا ہو۔
اے نبیؐ، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 82 ۔
اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
کفار کے ساتھ جہاد، و قتال کے ساتھ اور منافقین سے، ان پر حدود الٰہی قائم کرکے، جب وہ ایسے کام کریں جو موجب حد ہوں۔
یعنی دعوت و تبلیغ میں سختی اور احکام شریعت میں درشتی اختیار کریں کیونکہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے ماننے والے نہیں ہیں اس کا مطلب ہے کہ حکمت تبلیغ کبھی نرمی کی متقاضی ہوتی ہے اور کبھی سختی کی ہر جگہ نرمی بھی مناسب نہیں اور ہر جگہ سختی بھی مفید نہیں رہتی تبلیغ ودعوت میں حالات وظروف اور اشخاص و افراد کے اعتبار سے نرمی یا سختی کرنے کی ضرورت ہے۔
یعنی کافروں اور منافقوں دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔
اللہ کافروں کے لیے مثال بیان کرتا ہے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی۔ دونوں ہمارے بندوں میں سے نیک بندوں کے نکاح میں تھیں تو انھوں نے ان کے ساتھ بے وفائی کی تو وہ اللہ سے ان کے کچھ کام آنے والے نہ بن سکے اور دونوں عورتوں کو حکم ہوا کہ جاؤ تم بھی دوزخ میں پڑنے والوں کے ساتھ دوزخ میں پڑو۔
آدمی کے کام آنے والی چیز اس کا عمل ہے نہ کہ بڑوں سے نسبت: یہ آخر میں مثال پیش کی ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کام آنے والی چیز آدمی کا اپنا عمل ہے۔ جس کے پاس حسن عمل کی پونجی نہیں ہو گی اس کو کسی بڑے سے بڑے کی نسبت بھی کچھ نفع پہنچانے والی نہیں بن سکے گی۔ فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیویاں ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں لیکن انھوں نے ان کا اسوۂ حسنہ اختیار کرنے کے بجائے ان کے ساتھ بے وفائی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسولوں کی بیویاں ہونے کے باوجود ان کو حکم ہوا کہ دوسرے جہنم میں پڑنے والوں کے ساتھ جاؤ تم دونوں بھی جہنم میں پڑو۔
اس مثال کا حوالہ کفار کی عام سبق آموزی کے لیے دیا گیا ہے چنانچہ فرمایا بھی ہے:
’ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘
(اللہ نے یہ مثال کفار کی سبق آموزی کے لیے بیان کی ہے)
اس کو ابتدائے سورہ میں بیان کیے ہوئے امہات المومنینؓ کے واقعات سے ربط ہے تو محض ایک کلی نوعیت کا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ خاص اسی تعلق سے یہ بیان ہوئی ہے۔ آخرت کی مسؤلیت سے سب سے زیادہ بے پروائی، خاص طور پر اہل مذاہب کے اندر، اس غلط وہم نے پیدا کی کہ انھوں نے خیال کیا کہ وہ اللہ کے محبوبوں اور برگزیدوں کی اولاد ہیں اس وجہ سے ان کو دوزخ کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی۔ یہود اور نصاریٰ اسی فتنہ میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے اور اب مسلمان بھی اسی فتنہ میں مبتلا ہیں۔
آیت میں ان دونوں عورتوں کے بارے میں لفظ ’خَانَتَا‘ آیا ہے جس سے یہ بات تو واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ یہ اپنے شوہروں کی رازدار و وفادار نہیں تھیں لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ ان کے اندر ’فحشاء‘ کے قسم کی کوئی برائی رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو اس قسم کی گندگی کے ہر شائبہ سے پاک رکھتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی ان کے پا س آنے والے مہمانوں کی خبر قوم کے گنڈوں کو کر دیتی تھی۔ ان کی اس قسم کی بے وفائیوں کو خیانت سے تعبیر فرمایا ہے۔
(اِنھیں بتاؤ کہ ہر شخص اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے)۔ اللہ منکروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے۔ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے گھر میں تھیں، مگر اُنھوں نے اپنے شوہروں سے بے وفائی کی تو اللہ کے مقابلے میں وہ اُن کے کچھ کام نہ آ سکے اور دونوں عورتوں کو حکم ہوا کہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی آگ میں چلی جاؤ۔
یعنی دین کے معاملے میں بے وفائی کی۔ اصل میں لفظ ’خَانَتَا‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ بدکاری کی مرتکب ہوئی تھیں۔
اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے۔ وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں، مگر انہوں نے اپنے ان شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ بھی نہ کام آ سکے۔ دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاؤ۔
یہ خیانت اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ بد کاری کی مرتکب ہوئی تھیں بلکہ اس معنی میں ہے کہ انہوں نے ایمان کی راہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا ساتھ نہ دیا بلکہ ان کے مقابلہ میں دشمنان دین کا ساتھ دیتی رہیں۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ” کسی نبی کی بیوی کبھی بدکار نہیں رہی ہے۔ ان دونوں عورتوں کی خیانت دراصل دین کے معاملہ میں تھی۔ انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط علی السلام کا دین قبول نہیں کیا۔ حضرت نوح علی السلام کی بیوی اپنی قوم کے جباروں کو ایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایا کرتی تھی۔ اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی اپنے شوہر کے ہاں آنے والے لوگوں کی اطلاع اپنی قوم کے بد اعمال لوگوں کو دے دیا کرتی تھی “۔ (ابن جریر)
اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں دو (شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی پس دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دیا گیا (اے عورتوں) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ،
مثل کا مطلب ہے کسی ایسی حالت کا بیان کرنا جس میں ندرت وغرابت ہوتا کہ اس کے ذریعے سے ایک دوسری حالت کا تعارف ہوجائے جو ندرت وغرابت میں اس کے مماثل ہو مطلب یہ ہوا کہ ان کافروں کے حال کے لیے اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے جو نوح اور لوط علیہما السلام کی بیوی کی ہے۔
یہاں خیانت سے مراد ہے کہ یہ اپنے خاوندوں پر ایمان نہیں لائیں نفاق میں مبتلا رہیں اور ان کی ہمدردیاں اپنی کافر قوموں کے ساتھ رہیں چنانچہ نوح (علیہ السلام) کی بیوی، حضرت نوح (علیہ السلام) کی بابت لوگوں سے کہتی کہ یہ مجنون ہے اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی اپنی قوم کو گھر میں آنے والے مہمانوں کی اطلاع پہنچاتی تھی بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں اپنی قوم کے لوگوں میں اپنے خاوندوں کی چغلیاں کھاتی تھیں۔
یعنی نوح اور لوط علیہما السلام دونوں، باوجود اس بات کے کہ وہ اللہ کے پیغمبر تھے، جو اللہ کے مقرب ترین بندوں میں سے ہوتے ہیں، اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے
یہ انہیں قیامت والے دن کہا جائے گا یا موت کے وقت انہیں کہا گیا کافروں کی یہ مثال بطور خاص یہاں ذکر کرنے سے مقصود ازواج مظہرات کو تنبیہ کرنا ہے کہ وہ بیشک اس رسول کے حرم کی زینت ہیں جو تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے رسول کی مخالفت کی یا انہیں تکلیف پہنچائی تو وہ بھی اللہ کی گرفت میں آسکتی ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر کوئی ان کو بچانے والا نہیں ہوگا۔
امین احسن اصلاحی
اے نبی، تم اپنی بیویوں کی دل داری میں وہ چیز کیوں حرام ٹھہراتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے جائز کی ہے! اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
پیغمبر صلعم کے ایک فعل پر احتساب: اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ اس سورہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جن کے ساتھ محبت و مروت کے تعلقات ہوں خدا کے حدود و حقوق کے معاملات میں ان کے ساتھ بھی کوئی مداہنت و رعایت جائز نہیں ہے بلکہ اس محبت ہی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا احتساب زیادہ احتیاط کے ساتھ ہوتا رہے تاکہ خدا کے چھاج میں پھٹکے جانے سے پہلے ہی ممکن ہو تو ان کی اصلاح ہو جائے اور اگر اصلاح نہ ہو تو بدرجۂ ادنیٰ آدمی اپنے حق نصیحت سے عند اللہ بری الذمہ ہو جائے۔
اس حقیقت کو مبرہن کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں سب سے پہلے اپنے پیغمبرؐ ہی پر گرفت فرمائی کہ آپ نے اپنی ازواج مطہراتؓ کی دل داری کے خیال سے اپنے اوپر ایک ایسی چیز حرام کیوں کر لی جو اللہ نے آپ کے لیے جائز کی؟
غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبرؐ اور ان کی ازواجؓ سے زیادہ کون محبوب ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود آپ کی ایک معمولی سی فروگذاشت پر، جو خود قرآن کے بیان کے مطابق، ایک نہایت نیک محرک سے صادر ہوئی، آپ کو تنبیہ فرمائی گئی تاکہ ہر شخص کے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جائے کہ خدا کے حدود و قیود کی پابندی سے جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہراتؓ بھی بالا نہیں ہیں تو
تابہ دیگراں چہ رسد!
واقعہ کی نوعیت: رہا یہ سوال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کی دل داری کے خیال سے اپنے اوپر کیا چیز حرام کر لی تھی تو اس کے جواب میں راویوں سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ زیادہ مشہور روایت یہ ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ ازواج مطہراتؓ میں سے کسی کے پاس شہد نوش فرمایا جس کی بو پر آپ کی بعض ازواج نے ناگواری کا اظہار فرمایا۔ شہد کی بعض قسمیں ناگوار بو کی ہوتی بھی ہیں اور نہ بھی ہوں تو جو لوگ زیادہ ذکی الحس ہوتے ہیں وہ ہر بو کو پسند نہیں کرتے۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ شدید الاحساس ہوتی ہیں۔ وہ بسا اوقات اچھی بھلی اور اچھے خاصے ذائقہ کی چیزوں کو بھی پسند نہیں کرتیں۔ لوگوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ امہات المومنینؓ میں سے بھی بعض کو وہ شہد پسند نہیں تھا جس میں مغافیر۱ کی بو ہو۔ چنانچہ انھوں نے اپنی اس ناگواری کا اظہار حضورؐ کے سامنے فرمایا۔ حضورؐ چونکہ خود نہایت لطیف المذاق اور دوسروں، بالخصوص جنس ضعیف، کے جذبات و احساسات کا بڑا پاس و لحاظ رکھنے والے تھے، اس وجہ سے آپؐ نے عہد کر لیا کہ اب کبھی شہد نوش نہیں فرمائیں گے۔
عام حالات میں تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی بلکہ ایک نیک محرک سے صادر ہونے کے سبب سے نہایت پسندیدہ بات تھی لیکن پیغمبر کا ہر قول و فعل دین میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا ہر عمل پوری امت کے لیے مثال و نمونہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے ذاتی ذوق و رجحان اور اپنے محبوب سے محبوب لوگوں کی خاطر سے بھی کوئی ایسی بات کہے یا کرے جو بال برابر بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حدود سے متجاوز ہو، ورنہ پوری امت کے لیے ایک غلط مثال قائم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ یہود کے متعلق معلوم ہے کہ انھوں نے اپنے اوپر اونٹ کو صرف اس بنا پر حرام کر لیا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کسی سبب سے اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کے علم میں یہ بات آتی کہ حضورؐ نے شہد نہ کھانے کا عہد کر لیا تو کوئی متقی مسلمان مشکل ہی سے شہد کو ہاتھ لگاتا۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر گرفت فرمائی اور فوراً اس کی اصلاح کے لیے ہدایت فرمائی۔
حضور کے فعل کا محرک: ’تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ أَزْوَاجِکَ‘ سے اس محرک کی طرف اشارہ ہے جو آپ کے اس اقدام کا باعث ہوا۔ اس محرک کا پتا دینا اس لیے ضروری ہوا کہ اس سورہ کا مقصد ہی، جیسا کہ ہم نے تمہید میں بیان کیا، یہ تعلیم دینا ہے کہ جن کے ساتھ محبت کے تعلقات ہوں ان کے احتساب میں بھی آدمی کو مداہن نہیں ہونا چاہیے۔ نفرت کی طرح محبت بھی حدود الٰہی کے احترام سے آدمی کو غافل کر دیتی ہیں۔ اس خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ اور آپ کی ازواج پر گرفت فرمائی، جن سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں کوئی دوسرا محبوب نہیں ہو سکتا، تاکہ مسلمانوں کو اس سے یہ سبق حاصل ہو کہ دین کے معاملے میں کسی محبوب سے محبوب کے ساتھ بھی کوئی رعایت جائز نہیں ہے۔
غلطی پر گرفت کے ساتھ ہی معافی کا اعلان: ’وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیْمٌ‘۔ حضورؐ کے اس فعل کا محرک چونکہ نہایت نیک تھا، آپ نے محض جذبۂ رافت و محبت کے تحت، خاص اپنی ذات کے لیے ایک فیصلہ فرمایا تھا، امت کے لیے کسی چیز کو حرام کرنا مقصود نہیں تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے گرفت کے ساتھ ہی اس فروگزاشت کی معافی کا اعلان بھی فرما دیا۔
یہاں اسی امر پر نگاہ رہے کہ معافی کے اعلان میں نہایت مبادرت پائی جاتی ہے۔ یعنی اس طرح کے کسی اقدام کا شرعی حکم بیان کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا گیا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتی ہے کہ حضورؐ کے سامنے اپنے اس فعل کا وہ پہلو بالکل نہیں تھا جس پر گرفت فرمائی گئی بلکہ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، آپ نے محض جذبۂ رافت کے تحت، جنس ضعیف کی دل داری کے لیے، اپنی ذات پر ایک پابندی عائد فرما لی تھی، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پر گرفت تو فرمائی تاکہ اس سے وہ مضرتیں نہ پیدا ہوں جن کے پیدا ہونے کا امکان تھا لیکن ساتھ ہی اس کی معافی کا اعلان بھی فرما دیا تاکہ یہ گرفت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر گراں نہ گزرے۔
حضرات انبیاء علیہم السلام سے صادر ہونے والی لغزشوں کی نوعیت: یہاں وہ بات یاد رکھیے جو اس کتاب میں ہم بار بار بیان کر چکے ہیں کہ حضرات ابنیاء علیہم السلام سے کوئی لغزش صادر ہوتی ہے تو وہ نفس کی پاس داری میں نہیں ہوتی بلکہ کسی خیر کی پاس داری میں وہ حد مطلوب سے متجاوز ہو جاتے ہیں۔ بیویوں کی دل داری کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ یہ شرافت، مروت، فتوت کا تقاضا اور فطرت و شریعت کا مطالبہ ہے جس کی قرآن نے تاکید فرمائی ہے بشرطیکہ یہ شریعت کے حدود کے اندر رہے۔ اگر یہ اس سے متجاوز ہونے لگے تو یہ فتنہ بن جاتی ہے جس سے بچنا اور بچانا ضروری ہے لیکن جب کسی فروگزاشت کا محرک نیک ہو تو اس پر گرفت اس طرح ہونی چاہیے کہ عفو و درگزر اس کے ہم رکاب رہے۔
_____
۱ یہ ایک خاص بوٹی کا نام ہے جس سے شہد کی مکھیاں شہد لیتی ہیں لیکن بعض لوگوں کو اس کی بو ناگوار ہوتی ہے۔