بہت پانے اور اُس میں دوسروں سے بڑھ جانے کی حرص نے تمھیں غفلت میں ڈالے رکھا۔
اصل میں لفظ ’تَکَاثُر‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی مال و اولاد کی کثرت میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی تگ و دو کے ہیں۔ قرآن نے یہ لفظ اِس لیے اختیار کیا ہے کہ اُس زمانے کے تمدنی حالات میں رفاہیت اور اقتدار کی بنیاد یہی دو چیزیں تھیں۔ تاہم مدعا وہی ہے جو ہم نے ترجمے میں ادا کر دیا ہے۔
یعنی خدا اور آخرت کے بارے میں غفلت میں ڈالے رکھا اوراِس سوال پر غور کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ اگر خدا ہے اور اُس نے پکڑ بلایا تو اُس کے احتساب سے بچنے کی کیا صورت ہو گی؟
تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔
اصل میں اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ فرمایا گیا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ ایک پوری عبارت میں بمشکل اس کو ادا کیا جاسکتا ہے۔
الکھکم لہو سے ہے جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ہر اس شغل کے لیے بولا جاتا ہے جس سے آدمی کی دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں منہمک ہو کر دوسری اہم تر چیزوں سے غافل ہوجائے۔ اس مادے سے جب الکاکم کا لفظ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی لہو نے تم کو اپنے اندر ایسا مشغول کرلیا ہے کہ تمہیں کسی اور چیز کا جو اس سے اہم تر ہے، ہوش باقی نہیں رہا ہے۔ اسی کی دھن تم پر سوار ہے، اسی کی فکر میں تم لگے ہوئے ہو، اور اس انہماک نے تم کو بالکل غافل کردیا ہے۔
تکاثر کثرت سے ہے اور اس کے تین معنی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ لوگ کثرت کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کریں۔ تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اس بات پر فخر جتائیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ کثرت حاصل ہے۔
پس اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ کے معنی ہوئے تکاثر نے تمہیں اپنے اندر ایسا مشغول کرلیا ہے کہ اس کی دھن نے تمہیں اس سے اہم تر چیزوں سے غافل کردیا ہے۔ اس فقرے میں یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ تکاثر میں کس چیز کی کثرت اور الھکم میں کس چیز سے غافل ہوجانا مراد ہے، اور الھکم (تم کو غافل کردیا ہے) کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ اس عدم تصریح کی وجہ سے ان الفاظ کا اطلاق اپنے وسیع ترین مفہوم پر ہوجاتا ہے، تکاثر کے معنی محدود نہیں رہتے بلکہ دنیا کے تمام فوائد و منافع، سامان عیش، اسباب لذت، اور وسائل قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جدوجہد کرنا، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ان کی کثرت پر فخر جاتانا اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح الھکم کے مخاطب بھی محدود نہیں رہتے بلکہ ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اس کے مخاطب ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے، اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے اور دوسروں کے مقابلے میں اس پر فخر جتانے کی دھن افارد پر بھی سوار ہے اور اقوام پر بھی۔ اسی طرح اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ میں چونکہ اس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ تکاثر نے لوگوں کو اپنے اندر منہمک کر کے کسی چیز سے غافل کردیا ہے، اس لیے اس کے مفہوم میں بھی بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس تکاثر کی دھن نے ہر اس چیز سے غافل کردیا ہے جو اس کی بہ نسبت اہم تر ہے۔ وہ خدا سے غافل ہوگئے ہیں۔ عاقبت سے غافل ہوگئے ہیں۔ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل ہوگئے ہیں۔ حق داروں کے حقوق اور ان کی ادائیگی کے معاملہ میں اپنے فرائض سے غافل ہوگئے ہیں۔ انہیں معیار زندگی بلند کرنے کی فکر ہے، اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ معیار آدمیت کس قدر گر رہا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے، اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ انہیں عیش و عشرت اور جسمانی لذتوں کے سامان زیادہ مطلوب ہیں، اس ہوس رانی میں غرق ہو کر وہ اس بات سے بالکل غافل ہوگئے ہیں کہ اس روش کا انجام کیا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت، زیادہ سے زیادہ فوجیں، زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر ہے، اور اس معاملہ میں ان کے درمیان ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ جارہی ہے، اس بات کی فکر انہیں نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی زمین کو ظلم سے بھر دینے اور انسانیت کو تباہ و برباد کردینے کا سروسامان ہے۔ غرض تکاثر کی بیشمار صورتیں ہیں جنہوں نے اشخاص اور اقوام سب کو اپنے اندر ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ انہیں دنیا اور اس کے فائدوں اور لذتوں سے بالا تر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ہے۔
زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا
الھیٰ یلھی کے معنی ہیں، غافل کردینا۔ تکاثر، زیادتی کی خواہش۔ یہ یہ عام ہے، مال، اولاد، اعوان و انصار اور خاندان و قبیلہ وغیرہ سب کو شامل ہے۔ ہر وہ چیز، جس کی کثرت انسان کو محبوب ہو اور کثرت کے حصول کی کوشش و خواش اسے اللہ کے احکام اور آخرت سے غافل کر دے۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسان کی اس کمزوری کو بیان کر رہا ہے۔ جس میں انسانوں کی اکثریت ہر دور میں مبتلا رہی ہے۔
یہاں تک کہ قبروں میں جا پہنچے۔
یعنی اسی تگ و دو میں زندگی گزرتی ہے یہاں تک کہ عمر تمام ہو جاتی ہے اور قبروں میں جا پہنچتے ہو۔ لفظ ’زُرْتُمْ‘ عربی میں بالکل سادہ معنوں میں آتا ہے۔ اردو کے لفظ ’زیارت‘ کی طرح اس کے اندر کسی شرف و تقدس کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ ’زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ‘ کے معنی بس یہ ہوں گے کہ تم نے قبروں کو دیکھا یعنی ان کے حوالے ہوئے۔ کسی حماسی کا شعر ہے:
اذا زرت ارضًا بعد طول الجتنابھا
فقدت صدیقی والبلاد کما ھیا
(جب میں کسی سرزمین کو، عرصہ تک اس سے جدا رہنے کے بعد، دیکھتا ہوں تو نظر آتا ہے کہ احباب تو میں نے سارے کھو دیے لیکن زمین اسی طرح ہے جس طرح تھی)
سرگشتگان دنیا کی حالت پر اظہار افسوس: اگرچہ عربوں میں یہ روایت بھی رہی ہے کہ اپنے قبیلہ کے نام وروں اور مقتولوں کی قبروں کا شمار رکھتے اور مفاخرت کی مجلسوں میں ان کا ذکر بھی کرتے لیکن یہ چیز یہاں مراد نہیں ہے اور یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں ہے کہ اس کا یوں ذکر آئے، البتہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلوب ’حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ‘ کا کیوں اختیار کیا گیا۔ سیدھے لفظوں میں یوں کیوں نہیں کہا گیا کہ ’یہاں تک کہ تمہاری موت آ گئی، یا یہاں تک کہ تم نے جان، جان آفرین کے حوالہ کی‘۔ اس کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اول تو قافیہ کی رعایت یہ اسلوب اختیار کرنے کی مقتضی ہوئی دوسرے اس سے سرگشتگان دنیا کی محرومی و بے نصیبی پر اظہار افسوس کا مضمون آیت میں پیدا ہو گیا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ اسی تکاثر کی بھاگ دوڑ میں لگے رہے یہاں تک کہ قبروں سے دوچار ہوئے یا قبرستانوں میں جا براجے۔
یہاں تک کہ قبروں میں جا پہنچے۔
n/a
یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو۔
یعنی تم اپنی ساری عمر اسی کوشش میں کھپا دیتے ہو اور مرتے دم تک یہ فکر تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔
یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔
اس کا مطلب ہے کہ حصول کی خاطر محنت کرتے کرتے تمہیں موت آگئی اور تم قبروں میں جا پہنچے۔
ہرگز نہیں، تم آگے جانو گے!
یہ ان غفلت کے ماتوں کو تنبیہ اور نہایت زور دار و مؤثر تنبیہ ہے کہ سب کچھ سمجھا دینے کے بعد بھی اگر تم آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہو تو سن رکھو کہ زندگی یہی نہیں ہے جو تمہیں نظر آ رہی ہے اور جس کے عشق نے تمہیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے بلکہ اس کا اصل چہرہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہے جس کو تم جلد دیکھو گے اور پھر سن لو کہ اس کو تم عنقریب دیکھو گے!!
یہ تاکید در تاکید انداز کو مؤثر بنانے کے لیے بھی ہے اور اس حقیقت کے اظہار کے لیے بھی کہ جس قوم کو اللہ کا رسول انذار کرتا ہے وہ اس کی تکذیب کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی گرفتار عذاب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اس کے آگے وہ سب کچھ آئے گا جس سے رسول نے آگاہ کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو اس دنیا میں بھی دیکھو گے اور آخرت میں بھی دیکھو گے اور اس میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ تمہارے لیے عدالت قائم ہو چکی ہے اور فیصلہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ لفظ ’تَعْلَمُوْنَ‘ کے ابہام کے اندر جو وعید مضمر ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
(نہیں، یہ کچھ نہیں لوگو)، ہرگز نہیں، تم جلد جان لو گے۔
مطلب یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی کچھ نہیں، یہ محض متاع غرور ہے جس کے سحر میں شیطان نے تمھیں مبتلا کر رکھا ہے۔
ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا۔
یعنی تمہیں یہ غلط فہمی ہے کہ متاع دنیا کی یہ کثرت، اور اس میں دوسروں سے بڑھ جانا ہی ترقی اور کامیابی ہے۔ حالانکہ یہ ہرگز ترقی اور کامیابی نہیں ہے۔ عنقریب اس کا برا انجام تمہیں معلوم ہوجائے گا اور تم جان لو گے کہ یہ کتنی بڑی غلطی تھی جس میں تم عمر بھر مبتلا رہے۔ عنقریب سے مراد آخرت بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ جس ہستی کی نگاہ ازل سے ابد تک تمام زمانوں پر حاوی ہے، اس کے لیے چند ہزار یا چند لاکھ سال بھی زمانے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ لیکن اس سے مراد موت بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ تو کسی انسان سے بھی کچھ زیادہ دور نہیں ہے، اور یہ بات مرتے ہی انسان پر کھل جائے گی کہ جن مشاغل میں وہ اپنی ساری عمر کھپا کر آیا ہے وہ اس کے لیے سعادت و خوش بختی کا ذریعہ تھے یا بد انجامی و بدبختی کا ذریعہ۔
ہرگز نہیں تم عنقریب معلوم کرلو گے۔
یعنی تم جن تکاثر و تفاخر میں ہو، یہ صحیح نہیں۔
ہاں، ہرگز نہیں، تم آگے جان لو گے!
یہ ان غفلت کے ماتوں کو تنبیہ اور نہایت زور دار و مؤثر تنبیہ ہے کہ سب کچھ سمجھا دینے کے بعد بھی اگر تم آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہو تو سن رکھو کہ زندگی یہی نہیں ہے جو تمہیں نظر آ رہی ہے اور جس کے عشق نے تمہیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے بلکہ اس کا اصل چہرہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہے جس کو تم جلد دیکھو گے اور پھر سن لو کہ اس کو تم عنقریب دیکھو گے!!
یہ تاکید در تاکید انداز کو مؤثر بنانے کے لیے بھی ہے اور اس حقیقت کے اظہار کے لیے بھی کہ جس قوم کو اللہ کا رسول انذار کرتا ہے وہ اس کی تکذیب کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی گرفتار عذاب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اس کے آگے وہ سب کچھ آئے گا جس سے رسول نے آگاہ کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو اس دنیا میں بھی دیکھو گے اور آخرت میں بھی دیکھو گے اور اس میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ تمہارے لیے عدالت قائم ہو چکی ہے اور فیصلہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ لفظ ’تَعْلَمُوْنَ‘ کے ابہام کے اندر جو وعید مضمر ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
پھر (سنو، یہ کچھ نہیں)، ہرگز نہیں، تم جلد جان لو گے۔
یعنی دنیا اور آخرت، دونوں میں جلد جان لو گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ تاکید در تاکید انذار کو موثر بنانے کے لیے بھی ہے اور اِس حقیقت کے اظہار کے لیے بھی کہ جس قوم کو اللہ کا رسول انذار کرتا ہے، وہ اُس کی تکذیب کے نتیجے میں اِس دنیا میں بھی گرفتار عذاب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اُس کے آگے وہ سب کچھ آئے گا جس سے رسول نے آگاہ کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو اِس دنیا میں بھی دیکھو گے اور آخرت میں بھی دیکھو گے، اور اِس میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ تمھارے لیے عدالت قائم ہو چکی ہے اور فیصلہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ لفظ ’تَعْلَمُوْنَ‘ کے ابہام کے اندر جو وعید مضمر ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۵۲۳)
پھر (سن لو کہ) ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا۔
n/a
ہرگز نہیں پھر تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا
اس کا انجام عنقریب تم جان لو گے، یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا۔
ہرگز نہیں، اگر تم یقین کے ساتھ جانتے۔
غفلت کا اصل سبب: یہ ان غافلوں کی اس غفلت کے اصل سبب سے پردہ اٹھایا ہے کہ تمہاری یہ حالت اس وجہ سے ہے کہ تم کو یہ یقین نہیں آ رہا ہے کہ فی الواقع ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جس دن جہنم کو یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے، پھر تم سے ان تمام نعمتوں کی بابت پرسش ہونی ہے جو تمہارے رب نے تم کو بخشیں لیکن تم نے ان کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کیا۔ اگر ان باتوں کا یقین ہوتا تو تم اپنی زندگیاں اس طرح دنیا کے پیچھے نہ گزارتے بلکہ لمحہ لمحہ اس آنے والے دن کی تیاریوں میں صرف کرتے۔
کلام کی تالیف: کلام کی تالیف پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہاں ’لَوْ‘ کا جواب محذوف ہے۔ جواب کو محذوف تو سب مانتے ہیں لیکن ’لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ‘ اور بعد کی آیات کو ’لَوْ‘ کے تحت نہیں مانتے، لیکن میرے نزدیک یہ تینوں آیتیں ’لَوْ‘ کے تحت ہی ہیں۔ یعنی اگر تم یہ یہ باتیں یقین کے ساتھ جانتے ہوتے تو اپنے آپ کو اس طرح نہ کھو بیٹھتے۔
(تم اِس طرح غافل نہیں ہو سکتے تھے)، ہرگز نہیں، اگر تم یقین سے جانتے۔
آگے ’لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کی ابتداحرف ’لَوْ‘ سے ہوئی ہے۔ یہ اِسی ’لَوْ‘ کا جواب ہے جسے قرآن نے بلاغت کے تقاضے سے حذف کر دیا ہے۔ سورہ کے آخر تک سارا کلام اِسی ’لَوْ‘ کے تحت ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اِس کی مثالیں ہیں کہ شرط کا جواب اُن مواقع میں حذف کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ اظہار کے بغیر واضح ہو۔
ہرگز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے (اِس روش کے انجام کو) جانتے ہوتے (تو تمہارا یہ طرز عمل نہ ہوتا)۔
n/a
ہرگز نہیں اگر تم یقینی طور پر جان لو۔
مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس غفلت کا انجام اسطرح یقینی طور پر جان لو جس طرح دنیا کی کسی دیکھی بھالی چیز کا تم یقین کرتے ہو تو تم یقینا تکاثر وتفاخر میں مبتلا نہ ہو۔
کہ دوزخ سے ضرور دوچار ہو گے۔
’لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ‘ سے کلام کا پھر آغاز نہیں ہو رہا ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے خیال کیا ہے، بلکہ یہ ’لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ‘ کے مفعول کے محل میں ہے یعنی اگر تم یقین کے ساتھ جانتے کہ جہنم کو لازماً دیکھو گے۔ ’لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ‘ پر ’ل‘ اس یقین کی تعبیر کے لیے ہے جس کا ہونا مطلوب ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ علم یقین جو ان باتوں کو ماننے کے لیے مطلوب ہے اس کے وسائل اللہ تعالیٰ نے آفاق و انفس کے شواہد اور قرآن کی آیات بینات میں رکھ دیے ہیں۔ اس وجہ سے ہر عاقل مکلف ہے کہ ان کو سمجھے اور مانے۔ جو ان سے گریز کرتا ہے، خواہ سمجھنے سے گریز کرتا ہے یا اس کے قبول کرنے سے وہ اپنی بدبختی کا ذمہ دار خود ہے۔ عند اللہ وہ اپنے اس گریز کی سزا بھگتے گا۔
کہ دوزخ دیکھ کر رہو گے۔
یعنی جزا و سزا کے جو دلائل انفس و آفاق میں موجود ہیں اور قرآن نے بیان کر دیے ہیں، اُن کی روشنی میں یقین سے جان لیتے کہ ایک دن جہنم سامنے آجائے گی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نظری دلائل سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ علم الیقین ہی ہو سکتا ہے، اُس کو عین الیقین کا درجہ آخرت میں حاصل ہو گا، جیسا کہ آگے کی آیت میں تصریح ہے۔
تم دوزخ دیکھ کر رہو گے۔
n/a
تو بیشک تم جہنم دیکھ لو گے۔
یہ قسم مخذوف کا جواب ہے یعنی اللہ کی قسم تم جہنم ضرور دیکھو گے یعنی اس کی سزا بھگتو گے
پھر تم اس کو یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے۔
اس دنیا میں صرف علم یقین حاصل ہوتا ہے: اس سے یہ بات بھی نکلی کہ ایک عاقل کو اس دنیا میں غیب کے حقائق کا علم یقین تو حاصل ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ علم یقین دلائل سے حاصل ہوتا ہے جو آفاق و انفس اور قرآن میں بیان کر دیے گئے ہیں لیکن عین الیقین کا درجہ اس کو آخرت ہی میں حاصل ہو گا اس لیے کہ اس کا تعلق معائنہ و مشاہدہ سے ہے۔ جن لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ چیز اس دنیا میں بھی حاصل ہوتی ہے ان کا دعویٰ ہمارے نزدیک بے بنیاد ہے۔ اس دنیا میں عین الیقین نہیں حاصل ہوتا بلکہ اس بات کا علم یقین حاصل ہوتا ہے کہ قرآن جو کچھ ہمیں بتا رہا ہے وہ ایک دن ہم آنکھوں سے بھی دیکھیں گے۔ عین الیقین اس دن حاصل ہو گا جس دن تمام حقائق کا آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں گے۔
پھر (جانتے کہ) تم اُسے یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے۔
n/a
پھر (سن لو کہ) تم بالکل یقین کے ساتھ اُسے دیکھ لو گے۔
n/a
اور تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔
پہلا دیکھنا دور سے ہوگا یہ دیکھنا قریب سے ہوگا، اسی لیے اسے عین الیقین (جس کا یقین مشاہدہ عین سے حاصل ہو) کہا گیا۔
پھر تم سے اس دن نعمتوں کے باب میں پرسش ہونی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
نعمتوں کا حق: ’ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ‘۔ یہ بات بھی ’لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ‘ کے تحت ہی ہے، یعنی اگر تمہیں اس بات کا علم ہوتا کہ اس دن تم سے تمام نعمتوں کی پرسش ہونی ہے۔ پرسش سے مراد، ظاہر ہے کہ، وہ سزا ہے جو ان کی ناشکری، ناقدری اور ان کے سوء استعمال کے نتیجہ میں بھگتنی پڑے گی۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی قوتیں و صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اور جو وسائل و ذرائع بھی بخشے ہیں وہ سب ’نعیم‘ میں داخل ہیں۔ ان کا فطری حق یہ ہے کہ ان کے لیے خدا کا شکرگزار رہا جائے اور ان کو اس کے مقرر کردہ حدود کے اندر ان کاموں میں استعمال کیا جائے جن کے لیے وہ عطا ہوئے ہیں۔ کوئی نعمت اگر ضائع کی گئی یا وہ خالق کی پسند کے خلاف استعمال ہوئی تو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دے۔ انسان کے کان، آنکھ، دل، دماغ اور تمام اعضاء و جوارح نعمت ہیں، اسی طرح اس کو جو ظاہری و باطنی قوتیں اور صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں وہ بھی نعمت ہیں، علیٰ ہذا القیاس اس دنیا میں زندگی کے جو اسباب و وسائل اس کو عطا ہوئے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمت ہیں۔ ان کا فطری حق، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، یہی ہے کہ انسان ان کو برتے اور اپنے رب کا شکرگزار رہے۔ اس ناشکرگزاری کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ ان کے برتنے میں نہ خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز کرے اور نہ ان میں سے کسی کے عشق میں اس طرح مبتلا ہو جائے کہ اسی کو معبود بنا بیٹھے اور خدا کو بھول جائے۔ جو لوگ اس طرح کے کسی تجاوز میں مبتلا ہوں گے وہ قیامت کے دن لازماً اس کی سزا بھگتیں گے۔
اس سورہ میں چونکہ تکاثر اموال کے فتنہ سے آگاہ فرمایا گیا ہے اس وجہ سے وہ یہاں خاص طور پر پیش نظر رہے۔ ہر صاحب مال سے یہ سوال ہو گا کہ اس نے اپنا مال کن راستوں سے حاصل کیا اور کن کاموں میں صرف کیا۔ جنھوں نے نہ اس کے حاصل کرنے میں حرام و حلال کی پروا کی اور نہ اس کے صرف کرنے میں اصل مالک کی مرضی پیش نظر رکھی بلکہ مال ہی کو انھوں نے معبود بنا لیا اور اسی کے حاصل کرنے میں ساری زندگی کھپا دی ان کو اس انجام سے سابقہ پیش آئے گا جو سورۂ ہمزہ میں بیان ہوا ہے:
وَیْْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ ۵ الَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَہُ ۵ یَحْسَبُ أَنَّ مَالَہٗٓ أَخْلَدَہُ ۵ کَلَّا لَیُنبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ ۵ وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْحُطَمَۃُ ۵ نَارُ اللہِ الْمُوۡقَدَۃُ ۵ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْأَفْئِدَۃِ ۵ إِنَّہَا عَلَیْہِم مُّؤْصَدَۃٌ ۵ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ (الہمزہ ۱۰۴: ۱-۹)
’’ہلاکی ہے ہر اس اشارہ باز، عیب جو کے لیے جس نے مال سمیٹا اور اس کو گن گن کر رکھا۔ یہ گمان کرتے ہوئے کہ اس کے مال نے اس کو زندہ جاوید کر دیا۔ ہرگز نہیں وہ چُور چُور کر دینے والی میں پھینکا جائے گا۔ اور کیا سمجھے کہ چُور چُور کر دینے والی کیا ہے! خدا کی بھڑکتی آگ جو دلوں پر چڑھ جائے گی۔ وہ اس میں بند ہوں گے لمبے ستونوں میں جکڑے۔‘‘
آخر میں ’لو‘ کا جواب، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، محذوف ہے۔ شرط کا جواب ان مواقع میں حذف کر دیا جاتا ہے جہاں وہ اظہار کے بغیر واضح ہو۔ اس کی متعدد مثالیں اس کتاب میں گزر چکی ہیں۔ اس حذف سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ ساری بات محذوف مانی جا سکتی ہے جس کے لیے موقع کلام مقتضی ہو۔ اس میں یہ بلاغت بھی ہے کہ مخاطب کو گویا یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ خود ٹھنڈے دل سے اپنے رویہ کا جائزہ لے اور فیصلہ کرے کہ اگر یہ باتیں صحیح ہیں (اور ان کے صحیح ہونے سے اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے) تو اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے اور اس نے اب تک جو زندگی گزاری ہے وہ کتنی غلط، حقائق سے کتنی بعید اور انجام کے اعتبار سے کتنی ناعاقبت اندیشانہ اور لاابالیانہ زندگی گزاری ہے۔ یہاں اس حذف سے یہ سارا مضمون پیدا ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر تم ان بدیہی حقائق پر سنجیدگی سے غور کرتے تو اپنی قیمتی زندگی یوں برباد نہ کرتے۔ اب بھی اگر بھلائی چاہتے ہو تو عقل سے کام لو اور جس زندگی کے بدلے ابدی بادشاہی حاصل کر سکتے ہو اس کو اس دنیائے فانی کے حقیر خزف ریزوں کو جمع کر نے میں برباد نہ کرو۔
پھر (دنیا کی) سب نعمتوں کے بارے میں اُس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔
یہ اِن نعمتوں کا فطری حق ہے کہ انسان کو اِن کے لیے مسؤل ٹھیرایا جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...انسان کے کان، آنکھ، دل، دماغ اور تمام اعضا و جوارح نعمت ہیں، اِسی طرح اِس کو جو ظاہری و باطنی قوتیں اور صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں وہ بھی نعمت ہیں، علیٰ ہٰذا القیاس اِس دنیا میں زندگی کے جو اسباب و وسائل اُس کو عطا ہوئے ہیں، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمت ہیں۔ اُن کا فطری حق ...یہی ہے کہ انسان اُن کو برتے اور اپنے رب کا شکر گزار رہے۔ اِس شکرگزاری کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ اُن کے برتنے میں نہ خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز کرے اور نہ اُن میں سے کسی کے عشق میں اِس طرح مبتلا ہو جائے کہ اُسی کو معبود بنا بیٹھے اور خدا کو بھول جائے۔ جو لوگ اِس طرح کے کسی تجاوز میں مبتلا ہوں گے، وہ قیامت کے دن لازماً اُس کی سزا بھگتیں گے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۵۲۵)
پھر ضرور اُس روز تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔
اس فقرے میں ” پھر ” کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ دوزخ میں ڈالے جانے کے بعد جواب طلبی کی جائے گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر یہ خبر بھی ہم تمہیں دیے دیتے ہیں کہ تم سے ان نعمتوں کے بارے میں یہ سوال کیا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سوال عدالت الہی میں حساب لینے کے وقت ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ متعدد احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بندوں کو دی ہیں ان کے بارے میں جواب دہی مومن و کافر سب ہی کو کرنی ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور شکر گزار بن کر رہے وہ اس محاسبہ میں کامیاب رہیں گے، اور جن لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا حق اد نہیں کیا اور اپنے قول یا عمل سے یا دونوں سے ان کی ناشکری کی وہ اس میں ناکام ہوں گے۔
حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کو ترو تازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس پر حضور نے فرمایا ” یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا ” (مسند احمد، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ، عبد بن حمید، بیہقی فی الشعب)
حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے کہا کہ چلو ابو الہیثم بن التیہان انصاری کے ہاں چلیں۔ چنانچہ ان کو لے کر آپ ابن التیہان کے نخلستان میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے لاکر کھجوروں کا ایک خوشہ رکھ دیا۔ حضور نے فرمایا تم خود کیوں نہ کھجوریں توڑ لائے ؟ انہوں نے عرض کیا، میں چاہتا تھا کہ آپ حضرات خود چھانٹ چھانٹ کر کھجوریں تناول فرمائیں۔ چنانچہ انہوں نے کھجوریں کھائیں اور ٹھنڈا پانی پیا۔ فارغ ہونے کے بعد حضور نے فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں تمہیں قیامت کے روز جواب دہی کرنی ہوگی، یہ ٹھنڈا سایہ، یہ ٹھنڈی کھجوریں، یہ ٹھنڈا پانی ” (اس قصے کو مختلف طریقوں سے ملسم، ابن ماجہ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن جریر اور ابو یعلی وغیرہم نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے جن میں سے بعض میں ان انصاری بزرگ کا نام لیا گیا ہے اور بعض میں صرف انصار میں سے ایک شخص کہا گیا ہے۔ اس قصے کو مختلف طریقوں سے متعدد تفصیلات کے ساتھ ابن ابی حاتم نے حضرت عمر سے، اور امام احمد نے ابو عسیب، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام سے نقل کیا ہے۔ ابن حبان اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قریب قریب اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں پیش آیا تھا) ۔
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سوال صرف کفار ہی سے نہیں، مومنین صالحین سے بھی ہوگا۔ رہیں خدا کی وہ نعمتیں جو اس نے انسان کو عطا کی ہیں، تو وہ لا محدود ہیں، ان کا کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا، بلکہ بہت سی نعمتیں تو ایسی ہیں کہ انسان کو ان کی خبر بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا۔ ” اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کا پورا شمار نہیں کرسکتے ” (ابراہیم، 34) ان نعمتوں میں سے بےحدو حساب نعمتیں تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے براہ راست انسان کو عطا کی ہیں، اور بکثرت نعمتیں وہ ہیں جو انسان کو اس کے اپنے کسب کے ذریعہ سے دی جاتی ہیں۔ انسان کے کسب سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے متعلق اس کو جواب دہی کرنی پڑے گی کہ اس نے ان کو کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں میں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی براہ راست عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں اسے حساب دینا ہوگا کہ ان کو اس نے کس طرح استعمال کیا۔ اور مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے متعلق اس کو بتانا پڑے گا کہ آیا اس نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ یہ نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر دل، زبان اور عمل سے اس کا شکر ادا کیا تھا ؟ یا یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ اسے اتفاقا مل گیا ہے ؟ یا یہ خیال کیا تھا کہ بہت سے خدا ان کے عطا کرنے والے ہیں ؟ یا یہ عقیدہ رکھا تھا کہ یہ ہیں تو خدا ہی کی نعمتیں مگر ان کے عطا کرنے میں بہت سی دوسری ہستیوں کا بھی دخل ہے اور اس بنا پر انہیں معبود ٹھہرا لیا تھا اور انہی کے شکریے ادا کیے تھے ؟
پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا
یہ سوال ان نعمتوں کے بارے میں ہوگا، جو اللہ نے دنیا میں عطا کی ہونگی جیسے آنکھ، کان، دل، دماغ، امن اور صحت، مال و دولت اور اولاد وغیرہ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سوال صرف کافروں سے ہوگا بعض کہتے ہیں کہ ہر ایک سے ہوگا۔ بعض سوال مستلزم عذاب نہیں۔ جنہوں نے ان نعمتوں کا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق کیا ہوگا وہ عذاب سے محفوظ ہوں گے اور جنہوں نے کفران نعمت کا ارتکاب کیا ہوگا وہ دھر لیے جائیں گے۔
امین احسن اصلاحی
تم کو طلبِ مال کی مسابقت نے غفلت میں ڈالے رکھا۔
’اِلْھَاءٌ‘ کے معنی غافل اور مبتلائے فریب رکھنے کے ہیں۔
’تَکَاثُرٌ‘ کے معنی ہیں مال و اولاد کی کثرت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو۔
میعار زندگی اونچا کرنے کا خبط: عرب جاہلیت میں حفاظت و مدافعت کی ذمہ داری چونکہ خاندان اور قبیلہ ہی پر ہوتی تھی اس وجہ سے قبیلہ میں سرداری کا مقام اسی خاندان کو حاصل ہوتا جس کے افراد زیادہ ہوں۔ اس چیز نے قدرتی طور پر ان کے ہاں مال کے تکاثر کے ساتھ ساتھ اولاد کے تکاثر کے جذبہ کو بھی بہت قوی کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کے لٹریچر پر جن کی نظر ہے، وہ جانتے ہیں کہ جس طرح وہ اپنے مال کی کثرت پر فخر کرتے اسی طرح بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی اولاد کی کثرت پر بھی فخر کرتے۔ اب موجودہ دور میں اجتماعی زندگی کے بدلے ہوئے نظام اور خاص طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے تصور نے اولاد کی کثرت کے رجحان کو دبا کر اس کی جگہ معیار زندگی کے رجحان کو غالب کر دیا ہے۔ اس دور کی عام بیماری یہی ہے۔ مشکل ہی سے اس زمانے میں کوئی شخص اس وبا کے اثر سے محفوظ ملے گا۔ ہر شخص رات دن معیار زندگی اونچا کرنے کی دھن میں ہے اور چونکہ اس کی کوئی حد معین نہیں ہے اس وجہ سے جو اس میدان میں گامزن ہیں ان کو اپنا ہر قدم پہلا قدم معلوم ہوتا ہے، آخری منزل نگاہوں سے اوجھل ہے، کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے، کب آئے گی اور کبھی آئے گی بھی یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ معیار زندگی کی بلندی کا سارا انحصار مال پر ہے تو جب معیار کی کوئی حد معین نہیں ہے تو مال کی حرص میں بھی کسی کمی کا امکان نہیں ہے۔ چنانچہ جس رفتار سے زندگی کا معیار اونچا ہو رہا ہے اس سے زیادہ شدت کے ساتھ مال کی تونس بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی چیز ہے جس کو قرآن نے ’تَکَاثُرٌ‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس کا اثر یہ بتایا ہے کہ اس نے ہر شخص کو اس طرح اپنے دام فریب میں گرفتار کر لیا ہے کہ اسی میں عمر بیت جاتی ہے اور کسی کو اس سوال پر غور کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی کہ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہے یا نہیں اور ہے تو اس کے لیے بھی کچھ کرنا ہے یا نہیں۔