إِذَا ٱلشَّمْسُ كُوِّرَتْ

امین احسن اصلاحی

جب کہ سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی

’تَکْوِیْرٌ‘ کے معنی کسی شے کو لپیٹ دینے یا ایک گٹھڑ کی صورت باندھ لینے کے ہیں۔ ’کوّرَ العھامۃَ عَلٰی رَاْسِہ‘ کے معنی ہیں ’اس نے عمامہ اپنے سر پر لپیٹ لیا‘۔

قیامت کے ظہور کے وقت سورج کا حال: قیامت کے ظہور کے وقت آسمانوں بلکہ اس پوری کائنات کی سب سے زیادہ نمایاں اور شان دار چیز ۔۔۔ سورج ۔۔۔ کا جو حال ہو گا یہ اس کی تصویر ہے کہ اس کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جب سورج کی بساط ہی لپیٹ دی جائے گی تو وہ سارا عالم تیرہ و تار ہو جائے گا جو اس کی تابانی سے روشن ہے۔ اگرچہ سورج کے چھپنے کا مشاہدہ ہمیں آج بھی ہر روز ہوتا رہتا ہے لیکن اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ یہ صورت صرف اس وجہ سے پیش آتی ہے کہ ہم اس سے اوٹ میں ہو جاتے ہیں البتہ جب قیامت کی ہلچل برپا ہو گی تو سورج کا سارا نظام ہی بالکل درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ کون اندازہ کر سکتا ہے اس تاریکی کا جب کہ سرے سے سورج ہی تاریک ہو جائے۔

جاوید احمد غامدی

جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی

n/a

ابو الاعلی مودودی

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا ،

سورج کے بےنور کردیے جانے کے لیے یہ ایک بےنظیر استعارہ ہے۔ عربی زبان میں تکویر کے معنی لپیٹنے کے ہیں۔ سر پر عمامہ باندھنے کے لیے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا، یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہوجائے گا۔

جونا گڑھی

جب سورج لپیٹ میں آجائے گا

 یعنی جس طرح سر پر پگڑی کو لپیٹا جاتا ہے، اسی طرح سورج کے وجود کو لپیٹ کر پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی روشنی از خود ختم ہوجائے گی۔ 

وَإِذَا ٱلنُّجُومُ ٱنكَدَرَتْ

امین احسن اصلاحی

اور ستارے بے نور ہو جائیں گے

ستاروں کا حال: ’اِنْکِدَارٌ‘ کے معنی دھندلے ہو جانے اور ماند پڑ جانے کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد ستاروں کا بے نور ہو جانا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب سورج ہی کی بساط لپیٹ دی جائے گی تو اس کے نظام سے وابستہ جتنے بھی بلب اور قمقمے ہیں وہ سب آپ سے آپ بے نور ہو جائیں گے۔

جاوید احمد غامدی

جب تارے ماند پڑ جائیں گے

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور جب تارے بکھر جائیں گے ،

یعنی وہ بندش جس نے ان کو اپنے اپنے مدار اور مقام پر باندھ رکھا ہے، کھل جائے گی اور سب تارے اور سیارے کائنات میں منتشر ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ انکدار میں کدورت کا مفہوم بھی شامل ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف منتشر ہی نہیں ہو گے بلکہ تاریک بھی ہوجائیں گے۔

جونا گڑھی

اور جب ستارے بےنور ہوجائیں گے

 دوسرا ترجمہ کہ جھڑ کر گر جائیں گے یعنی آسمان پر ان کا وجود ہی نہیں رہے گا 

وَإِذَا ٱلْجِبَالُ سُيِّرَتْ

امین احسن اصلاحی

پہاڑ چلا دیے جائیں گے

پہاڑوں کا حال: آسمان کے بعد یہ زمین کی سب سے شان دار اور عظیم چیز ۔۔۔ پہاڑوں ۔۔۔ کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ پہاڑ جو زمینوں میں گڑے ہوئے ہیں، جن کو سمجھتے ہو کہ یہ بالکل غیر فانی اور اٹل ہیں، ان کی جگہ سے ان کو ہلایا نہیں جا سکتا،؂۱ یہ اس دن چلا دیے جائیں گے۔ یہاں صرف چلا دیے جانے کا ذکر ہے لیکن دوسرے مقامات میں اس کی تفصیل بھی ہے کہ وہ اس طرح اڑتے پھریں گے جس طرح بادل اڑتے پھرتے ہیں۔

_____
؂۱ یہ امر ملحوظ رہے کہ منکرین قیامت کو جب قیامت کی ہلچل سے ڈرایا جاتا تو وہ اس کا مذاق اڑانے کے لیے یہ سوال کرتے کہ قیامت آئے گی تو کیا وہ پہاڑوں کو بھی اکھاڑ پھینکے گی؟

جاوید احمد غامدی

جب پہاڑ چلائے جائیں گے

دوسرے مقامات میں قرآن نے اِس کی تفصیل کر دی ہے کہ پہاڑ اِس طرح اڑتے پھریں گے، جس طرح بادل اڑتے پھرتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ،

دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ کشش بھی ختم ہوجائے گی جس کی بدولت پہاڑ وزنی ہیں اور جمے ہوئے ہیں۔ پس جب وہ باقی نہ رہے گی تو سارے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور بےوزن ہو کر زمین پر اس طرح چلنے لگیں گے جیسے فضا میں بادل چلتے ہیں۔

جونا گڑھی

اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے

  یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ہواؤں میں چلا دیا جائے گا اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑیں گے۔ 

وَإِذَا ٱلْعِشَارُ عُطِّلَتْ

امین احسن اصلاحی

اور دس ماہہ گابھن اونٹنیاں آوارہ پھریں گی

محبوب چیزوں کی کس مپرسی: ’عِشَارٌ‘ جمع ہے ’عُشَرَاءٌ‘ کی۔ یہ لفظ اس اونٹنی کے لیے آتا ہے جو دس ماہ کی گابھن یعنی بچہ جننے کے قریب ہو۔

عظیم چیزوں کی بے ثباتی کے بعد یہ محبوب چیزوں کی بے وقعتی واضح فرمائی ہے کہ اس دن کی ہلچل لوگوں پر ایسی نفسی نفسی کی حالت طاری کر دے گی کہ کسی کی نظروں میں اس کے محبوب سے محبوب مال کی بھی کوئی وقعت باقی نہیں رہے گی۔

یہ بات قرآن کے اولین مخاطب، اہل عرب کے خاص مذاق طبیعت کو پیش نظر رکھ کر فرمائی گئی ہے۔ ان کے مال میں سب سے زیادہ قدر کی جگہ ان کے اونٹوں کو حاصل تھی۔ خاص طور پر وہ اونٹنیاں ان کو نہایت عزیز و محبوب تھیں جن کے حمل پر دس ماہ گزر چکے ہوں اور بچہ جننے کا وقت اب قریب آ لگا ہو۔ اس طرح کی اونٹنیوں کے مالک ان کی نگہداشت کا قدرتی طور پر خاص اہتمام کرتے۔ ان کی مستقبل کی بہت سی آرزوؤں کا ان پر انحصار ہوتا۔ انہی محبوب اونٹنیوں کو بطور مثال ذکر کر کے دنیا کی محبت میں پھنسے ہوئے غافلوں کو ہول آخرت کی یاد دہانی فرمائی ہے کہ اس کا پہلا ہی مرحہ اتنا شدید ہو گا کہ اس وقت کسی کو اپنی محبوب سے محبوب چیزوں کا بھی کچھ ہوش نہیں رہے گا۔ گابھن اونٹنیاں آوارہ پھریں گی لیکن ان کے مالکوں کو خود اپنی اس طرح پڑی ہو گی کہ وہ کسی اور چیز کی طرف، خواہ وہ کتنی ہی محبوب و مطلوب کیوں نہ ہو، توجہ نہیں کر سکیں گے۔ یہی حقیقت دوسرے مقام

’تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ‘ (الحج ۲۲: ۲)

(جس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی)

کے الفاظ سے سمجھائی گئی ہے۔ یس یہ فرق ہے کہ یہاں اس دن کے ہول کی حقیقت محبوب مال کی ناقدری سے سمجھائی گئی ہے اور وہاں شفقت مادری کے مردہ ہو جانے سے درآنحالیکہ یہ جذبہ اتنا قوی ہے کہ اس دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی مصیبت بھی اس کو مغلوب نہیں کر سکتی۔

جاوید احمد غامدی

جب دس ماہہ گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی

اصل میں لفظ ’عِشَار‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’عشراء‘ کی جمع ہے اور اُس اونٹنی کے لیے آتا ہے جو دس ماہ کے حمل سے ہو۔ یہ وقت اُس کے بچہ جننے کا ہوتا ہے۔ اِس طرح کی اونٹنیاں قدرتی طور پر اُن کے مالکوں کو بہت عزیز ہوتی تھیں اور وہ اُن کی نگہداشت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ قرآن نے عظیم چیزوں کی بے ثباتی کے بعد یہ محبوب چیزوں کی بے وقعتی کا ذکر کرنے کے لیے اِنھی اونٹنیوں کو مثال میں پیش کرکے فرمایا ہے کہ اُس دن کی افراتفری اور نفسی نفسی کی حالت میں لوگوں کو اپنی عزیز سے عزیز چیزوں کا بھی کچھ ہوش نہ رہے گا۔

ابو الاعلی مودودی

اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی ،

عربوں کو قیامت کی سختی کا تصور دلانے کے لیے یہ بہترین طرز بیان تھا۔ موجودہ زمانہ کے ٹرک اور بسیں چلنے سے پہلے اہل عرب کے لیے اس اونٹنی سے زیادہ قیمتی مال اور کوئی نہ تھا جو بچہ جننے کے قریب ہو۔ اس حالت میں اس کی بہت زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی تھی تاکہ وہ کھوئی نہ جائے، کوئی اسے چرا نہ لے، یا اور کسی طرح وہ ضائع نہ ہوجائے۔ ایسی اونٹنیوں سے لوگوں کا غافل ہوجانا گویا یہ معنی رکھتا تھا کہ اس وقت کچھ ایسی سخت افتاد لوگوں پر پڑے گی کہ انہیں اپنے اس عزیز ترین مال کی حفاظت کا بھی ہوش نہ رہے گا۔

جونا گڑھی

اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی

 جب قیامت برپا ہوگی تو ایسا ہولناک منظر ہوگا کہ اگر کسی کے پاس اس قسم کی حاملہ اور قیمتی اونٹنی بھی ہوگی تو وہ ان کی پرواہ نہیں کرے گا اور چھوڑ دے گا۔ 

وَإِذَا ٱلْوُحُوشُ حُشِرَتْ

امین احسن اصلاحی

وحشی جانور اکٹھے ہو جائیں گے

وحشی جانوروں کا حال: یعنی انسان تو انسان اس دن کے ہول سے وحشی جانوروں پر بھی ایسی نفسی نفسی کی حالت طاری ہو گی کہ ان کو جس جگہ پناہ ملنے کی توقع ہو گی، آپس کی فطری دشمنیاں بھول کر سب اکٹھے ہو جائیں گے۔ جنگل میں آگ لگ جائے یا سیلاب کا پانی پھیل جائے تو جنگلی جانور سراسیمگی کی حالت میں ٹیلے اور ٹیکرے پر ان کو پناہ ملنے کی توقع ہو وہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور مشترک مصیبت کا ہول ان پر ایسا طاری ہوتا ہے کہ بکری، شیر اور بھیڑیے پاس پاس کھڑے ہوتے ہیں لیکن کسی کو ہوش نہیں رہتا کہ اس کا حریف یا شکار اس کی بغل میں ہے۔ یہی صورت حال خوفناک ترین شکل میں ظہور قیامت کے وقت پیش آئے گی۔ آگے والی آیت:

’وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ‘ (۶)
(اور جب کہ سمندر ابل پڑیں گے)

سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سمندر اپنی حدوں سے آزاد ہو کر زمین پر پھیل جائیں گے۔ یہ ہمہ گیر مصیبت جنگلی جانوروں پر بھی نفسی نفسی کی حالت طاری کر دے گی۔

جاوید احمد غامدی

جب وحشی جانور (اپنی سب دشمنیاں بھول کر) ایک ہی جگہ اکٹھے ہو جائیں گے

یعنی انسان تو انسان ، اُس دن کا ہول وحشی جانوروں پر بھی یہ حالت طاری کردے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...جنگل میں آگ لگ جائے یا سیلاب کا پانی پھیل جائے تو جنگلی جانور سراسیمگی کی حالت میں جس ٹیلے یا ٹیکرے پر اُن کو پناہ ملنے کی توقع ہو، وہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور مشترک مصیبت کا ہول اُن پر ایسا طاری ہوتا ہے کہ بکری، شیر اور بھیڑیے پاس پاس کھڑے ہوتے ہیں، لیکن کسی کو ہوش نہیں رہتا کہ اُس کا حریف یا شکار اُس کی بغل میں ہے۔ یہی صورت حال خوف ناک ترین شکل میں ظہور قیامت کے وقت پیش آئے گی۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۲۲۰)

ابو الاعلی مودودی

اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کردیے جائیں گے ،

دنیا میں جب کوئی عام مصیبت کام موقع آتا ہے تو ہر قسم کے جانور بھاگ کر ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ اس وقت نہ سانپ ڈستا ہے، نہ شیر پھاڑتا ہے۔

جونا گڑھی

اور جب وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے

 یعنی انہیں بھی قیامت والے دن جمع کیا جائے گا 

وَإِذَا ٱلْبِحَارُ سُجِّرَتْ

امین احسن اصلاحی

اور سمندر اُبل پڑیں گے

سمندروں کی طغیانی: لفظ ’تَسْجِیْرٌ‘ اصلاً تنور کو ایندھن سے بھر کر بھڑکا دینے کے لیے آتا ہے پھر اسی مفہوم سے وسعت پا کر یہ دریاؤں اور سمندروں کی طغیانی کے لیے بھی آنے لگا۔ دریا جب بے قابو ہو کر اپنے حدود سے باہر نکل پڑیں اور زمین پر بھیل جائیں تو اس حالت کی تعبیر کے لیے یہ معروف لفظ ہے۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لیے لفظ ’تَفْجِیْرٌ‘ بھی آیا ہے، چنانچہ بعد والی سورہ میں جو اس کی توام سورہ ہے، یہی بات ’وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ‘ (الانفطار ۸۲: ۳) کے الفاظ سے تعبیر فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آج تو یہ سمندر اپنے اپنے حدود کے اندر بند ہیں لیکن جب قیامت کی ہلچل برپا ہو گی تو یہ ابل کر تمام سطح پر چھا جائیں گے۔

جاوید احمد غامدی

جب سمندر ابل پڑیں گے

اصل میں لفظ ’سُجِّرَتْ‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی تنور میں ایندھن بھر کر بھڑکا دینے کے ہیں۔ اِس سے یہ دریاؤں اور سمندروں کے بے قابو ہو کر اپنے حدود سے باہر نکل پڑنے کے لیے استعمال ہوا۔

ابو الاعلی مودودی

اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے ،

اصل میں لفظ سجرت استعمال کیا گیا ہے جو تسجیر سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے۔ تسجیر عربی زبان میں تنور کے اندر آگ دہکانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے روز سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ لیکن اگر پانی کی حقیقت لوگوں کی نگاہ میں ہو تو اس میں کوئی چیز بھی قابل تعجب محسوس نہ ہوگی۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ اس نے آکسیجن اور ھائیڈروجن، دو ایسی گیسوں کو باہم ملایا جن میں سے ایک آگ بھڑکانے والی اور دوسری بھڑک اٹھنے والی ہے۔ اور ان دونوں کی ترکیب سے پانی جیسا مادہ پیدا کیا جو آگ بجھانے والا ہے۔ اللہ کی قدرت کا ایک اشارہ اس بات کے لیے باکل کافی ہے کہ وہ پانی کی اس ترکیب کو بدل ڈالے اور یہ دونوں گیسیں ایک دوسرے سے الگ ہو کر بھڑکنے اور بھڑکانے میں مشغول ہوجائیں جو ان کی اصل بنیادی خاصیت ہے۔

جونا گڑھی

اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے

n/a

وَإِذَا ٱلنُّفُوسُ زُوِّجَتْ

امین احسن اصلاحی

جب کہ نفوس کی جوڑیں ملائی جائیں گی

ظہور قیامت کے بعد کے احوال: اوپر کی آیات میں وہ احوال بیان ہوئے جو ظہور قیامت کے وقت پیش آئیں گے۔ اب اس آیت اور بعد کی آیات میں وہ باتیں بیان ہو رہی ہیں جن کا تعلق ظہور قیامت کے بعد کے احوال سے ہے۔

فرمایا کہ جب کہ ’نفوس کی جوڑیں ملائی جائیں گی‘ جوڑیں ملانے سے مقصود لوگوں کی ان کے اعمال و عقائد کے اعتبار سے الگ الگ گروہ بندی ہے۔ یہ اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے جس کی تفصیل سورۂ واقعہ کی آیت ۷:

’وَکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً‘
(اور اس وقت تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔)

سے لے کر آیت ۴۴ تک بیان ہوئی ہے۔ وہاں واضح فرمایا ہے کہ اس دنیا میں تو نیک و بد دونوں ایک ہی ساتھ زندگی گزارتے ہیں لیکن یہی حالت ہمیشہ نہیں رہے گی بلکہ ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جب لوگوں کی درجہ بندی ان کے ایمان و اخلاق کی بنیاد پر ہو گی۔ اس دن وہ لوگ فائز المرام اور ابدی بادشاہی کے حق دار ٹھہریں گے جو اس روز عدل کی میزان میں پورے اتریں گے اور وہ لوگ ابدی خسران و ذلت سے دوچار ہوں گے جو اس سے بے پروا ہو کر زندگی گزاریں گے۔ اس کے بعد لوگوں کو تین بڑے گروہوں ۔۔۔ اصحاب الیمین، اصحاب الشمال اور سابقون و مقربون ۔۔۔ میں تقسیم کیا جانا بیان کیا ہے اور ہر گروہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو معاملہ ہو گا اس کی تفصیل ہے۔ اسی چیز کی طرف دو لفظوں میں یہاں اشارہ فرما دیا ہے اور مقصود لوگوں کو متنبہ فرمانا ہے کہ یہ دنیا آزمائش و امتحان کے لیے ہے۔ اس میں خیر و شر اور حق و باطل دونوں کو مہلت ملی ہوئی ہے لیکن قیامت کے بعد جو جہان نو پیدا ہو گا اس میں باطل کے پرستار جہنم میں جھونک دیے جائیں گے اور ان لوگوں کو ابدی سرفرازی حاصل ہو گی جو امتحان میں پورے اتریں گے۔

جاوید احمد غامدی

جب روحوں کے جوڑ (اُن کے عمل کے لحاظ سے) بندھیں گے

یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے، یعنی ظہور قیامت کے بعد جو حالات پیش آئیں گے۔

یہ وہی بات ہے جو سورۂ واقعہ (۵۶) کی آیت۷ ’وَکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً‘ میں بیان ہوئی ہے، یعنی عقیدہ و عمل کے لحاظ سے لوگ الگ الگ گروہوں میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

اور جب جانیں ﴿جسموں سے﴾ جوڑ دی جائیں گی ،

یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے۔

یعنی انسان از سرنو اسی طرح زندہ کیے جائیں گے جس طرح وہ دنیا میں مرنے سے پہلے جسم و روح کے ساتھ زندہ تھے۔

جونا گڑھی

اور جب جانیں (جسموں سے) ملا دی جائیں گی

 اس کے کئے مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ زیادہ قرین قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اس کے ہم مذہب وہم مشرب کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ مومنوں کو مومنوں کے ساتھ اور بد کو بدوں کے ساتھ یہودی کو یہودیوں کے ساتھ اور عیسائی کو عیسائیوں کے ساتھ۔ 

وَإِذَا ٱلْمَوْءُۥدَةُ سُئِلَتْ

امین احسن اصلاحی

اور زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا

معصوم مظلوموں کی داد رسی: یہ اس روز عدل کے عدل کی طرف اشارہ ہے اور اس کے بیان کے لیے بطور مثال زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کی داد رسی کا حوالہ ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس دن سب سے پہلے وہ معصوم اپنی مظلومیت کی داد پائیں گے جو بالکل بے گناہ ان لوگوں کے ہاتھوں ظلم کے شکار ہوئے جن کو خدا نے ان کا محافظ بنایا۔ ’مَوْءٗ دَۃٌ‘ زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کو کہتے ہیں۔ عرب جاہلیت کے بعض اجڈ قبائل میں سنگ دل باپ اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ بیشتر تو اس سنگ دلی کا سبب فقر کا اندیشہ ہوتا لیکن بعض حالات میں غیرت کی بے اعتدالی بھی اس کا باعث بن جاتی۔ ان مظلوم بچیوں کو زندہ درگور کرنے والے چونکہ ان کے باپ ہی ہوتے، جن کو ان کے اوپر کلی اختیار حاصل ہوتا، اس وجہ سے ان کی داد فریاد کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔

اخروی عدالت کا مزاج: قرآن نے یہاں ان بے زبان مظلوموں کی دادرسی کا ذکر کر کے اخروی عدالت کا مزاج واضح فرمایا ہے کہ اس میں سب سے پہلے ان کی داد رسی ہو گی جو اس دنیا میں سب سے زیادہ بے بس اور کمزور تھے اور جو اپنے اوپر گزرے ہوئے ظلم کی کسی کے آگے فریاد بھی نہ کر سکے۔ ان کو سب سے پہلے پکارا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ انھیں کس گناہ پر مارا گیا؟ ان سنگ دل باپوں کو یہ نہایت ہی سخت قسم کی تنبیہ ہے کہ اگر ان کی سنگ دلی کے خلاف یہ بے زبان و بے گناہ بچیاں فریاد نہ کر سکیں تو اس سے وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ خدا کے ہاں بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ اس دن اللہ تعالیٰ خود ان کے خون کا مدعی بنے گا۔ وہ ان مظلوموں سے پوچھے گا کہ تمہیں کس جرم میں مارا گیا؟ اس سوال کا مقصد ظاہر ہے کہ یہی ہو گا کہ ان کے قتل ناحق کا مقدمہ جو دنیا کی کسی عدالت میں نہ جا سکا اس کو رب العزت خود اپنی عدالت میں لائے اور اس کا فیصلہ فرمائے۔

جاوید احمد غامدی

جب اُس سے جو زندہ گاڑ دی گئی، پوچھا جائے گا

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا

n/a

جونا گڑھی

جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا۔

n/a

بِأَىِّ ذَنۢبٍ قُتِلَتْ

امین احسن اصلاحی

کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی

معصوم مظلوموں کی داد رسی: یہ اس روز عدل کے عدل کی طرف اشارہ ہے اور اس کے بیان کے لیے بطور مثال زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کی داد رسی کا حوالہ ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس دن سب سے پہلے وہ معصوم اپنی مظلومیت کی داد پائیں گے جو بالکل بے گناہ ان لوگوں کے ہاتھوں ظلم کے شکار ہوئے جن کو خدا نے ان کا محافظ بنایا۔ ’مَوْءٗ دَۃٌ‘ زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کو کہتے ہیں۔ عرب جاہلیت کے بعض اجڈ قبائل میں سنگ دل باپ اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ بیشتر تو اس سنگ دلی کا سبب فقر کا اندیشہ ہوتا لیکن بعض حالات میں غیرت کی بے اعتدالی بھی اس کا باعث بن جاتی۔ ان مظلوم بچیوں کو زندہ درگور کرنے والے چونکہ ان کے باپ ہی ہوتے، جن کو ان کے اوپر کلی اختیار حاصل ہوتا، اس وجہ سے ان کی داد فریاد کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔

اخروی عدالت کا مزاج: قرآن نے یہاں ان بے زبان مظلوموں کی دادرسی کا ذکر کر کے اخروی عدالت کا مزاج واضح فرمایا ہے کہ اس میں سب سے پہلے ان کی داد رسی ہو گی جو اس دنیا میں سب سے زیادہ بے بس اور کمزور تھے اور جو اپنے اوپر گزرے ہوئے ظلم کی کسی کے آگے فریاد بھی نہ کر سکے۔ ان کو سب سے پہلے پکارا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ انھیں کس گناہ پر مارا گیا؟ ان سنگ دل باپوں کو یہ نہایت ہی سخت قسم کی تنبیہ ہے کہ اگر ان کی سنگ دلی کے خلاف یہ بے زبان و بے گناہ بچیاں فریاد نہ کر سکیں تو اس سے وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ خدا کے ہاں بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ اس دن اللہ تعالیٰ خود ان کے خون کا مدعی بنے گا۔ وہ ان مظلوموں سے پوچھے گا کہ تمہیں کس جرم میں مارا گیا؟ اس سوال کا مقصد ظاہر ہے کہ یہی ہو گا کہ ان کے قتل ناحق کا مقدمہ جو دنیا کی کسی عدالت میں نہ جا سکا اس کو رب العزت خود اپنی عدالت میں لائے اور اس کا فیصلہ فرمائے۔

جاوید احمد غامدی

کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی؟

عرب جاہلی میں بعض اجڈاور سنگ دل باپ کبھی فقر کے اندیشے سے اور کبھی اِس غیرت میں کہ کوئی شخص اُن کا داماد بنے گا، اپنی بیٹیوں کو زندہ قبروں میں دفن کر دیتے تھے۔ یہ اِسی جاہلیت کی طرف اشارہ ہے۔ اِس سے مقصود اِس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے دادرسی کے مستحق وہ معصوم ہوں گے جو اُن لوگوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوئے جنھیں خدا نے اُن کا محافظ بنایا تھا۔

ابو الاعلی مودودی

کہ وہ کس قصور میں ماری گئی ؟

اس آیت کے انداز بیان میں ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضبناکی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں باپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کر کے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اس معصوم کو کیوں قتل کیا، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بےچاری آخر کس قصور میں ماری گئی، اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کردیا۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی آیت میں دو بہت بڑے مضمون سمیٹ دیے گئے ہیں جو الفاظ میں بیان کیے بغیر خود بخود اس کے فحوی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں اہل عرب کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جاہلیت نے ان کو اخلاقی پستی کی کس انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں زندہ در گور کرتے ہیں، پھر بھی انہیں اصرار ہے کہ اپنی اسی جاہلیت پر قائم رہیں گے اور اس اصلاح کو قبول نہ کریں گے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بگڑے ہوئے معاشرے میں کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس میں آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے۔ جس لڑکی کو زندہ دفن کردیا گیا، آخر اس کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے۔ اور جن ظالموں نے یہ ظلم کیا، آخر کبھی تو وہ قت آنا چاہیے جب ان سے اس بےدردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے۔ دفن ہونے والی لڑکی کی فریاد دنیا میں تو کوئی سننے والا نہ تھا۔ جاہلیت کے معاشرے میں اس فعل کو بالکل جائز کر رکھا گیا تھا۔ نہ ماں باپ کو اس پر کوئی شرم آتی تھی۔ نہ خاندان میں کوئی ان کو ملامت کرنے والا تھا۔ نہ معاشرے میں کوئی اس پر گرفت کرنے والا تھا۔ پھر کیا خدا کی خدائی میں ظلم عظیم بالکل ہی بےداد رہ جانا چاہیے ؟

عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا بےرحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوہ سے رائج ہوگیا تھا۔ ایک، معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار ان پر نہ پڑے۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں وہ حصول معیشت میں ہاتھ بٹائیں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کردیا جاتا تھا کہ انہیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انہیں بیاہ دینا ہوگا۔ دوسرے، عام بد امنی جس کی وجہ سے بیٹوں کو اس لیے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مددگار ہوں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کردیا جاتا تھا کہ قبائلی لڑائیوں میں الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع پر وہ کسی کام نہ آسکتی تھیں۔ تیسرے عام بد امنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے ہاتھ لگتی تھیں انہیں لے جا کر وہ یا تو لونڈیاں بنا کر رکھتے تھے یا کہیں بیچ ڈالتے تھے۔ ان وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے ایک گڑھا کھود رکھا جاتا تھا تاکہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائے۔ اور کبھی اگر ماں اس پر راضی نہ ہوتی یا اس کے خاندان والے اس میں مانع ہوتے تو باپ بادل ناخواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جا کر زندہ دفن کردیتا۔ اس معاملہ میں جو شقاوت برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک مرتبہ بیان کیا۔ سنن دارمی کے پہلے ہی باب میں حدیث منقول ہے کہ ایک شخص نے حضور سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستہ میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ تھی ہائے ابا، ہائے ابا۔ یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رو دیے اور آپ کے آنسو بہنے لگے۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا اے شخص تو نے حضور کو غمگین کردیا۔ حضور نے فرمایا اسے مت روکو، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو۔ پھر آپ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ نے اسے معاف کردیا، اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر۔

یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اہل عرب اس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت کا سرے سے کوئی احساس ہی نہ رکھتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو، وہ ایسے ظالمانہ افعال کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے قرآن پاک میں اس فعل کی قباحت پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی ہے، بلکہ رونگٹے کھڑے کردینے والے الفاظ میں صرف اتنی بات کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قصور میں ماری گئی۔ عرب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو زمانہ جاہلیت میں اس رسم قباحت کا احساس تھا۔ طبرانی کی روایت ہے کہ فرزدق شاعر کے دادا صعصعہ بن ناجیۃ المجاشعی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ، میں نے جاہلیت کے زمانے میں کچھ اچھے اعمال بھی کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے 360 لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا اور ہر ایک کی جان بچانے کا دو دو اونٹ فدیے میں دیے۔ کیا مجھے اس پر اجر ملے گا ؟ حضور نے فرمایا ہاں تیرے لیے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی۔

در حقیقت یہ اسلام کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سے اس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا، بلکہ اس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے جسے بادل ناخواستہ برداشت کیا جائے۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کو پرورش کرنا، انہیں عمدہ تعلیم و تربیت دینا اور انہیں اس قابل بنانا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکیں، بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس معاملہ میں لڑکیوں کے متعلق لوگوں کے عام تصور کو جس طرح بدلا ہے اس کا اندازہ آپ کے ان بہت سے ارشادات سے ہوسکتا ہے جو احادیث میں منقول ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہم آپ کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں :

من ابتلی من ہذہ البنات بشیء فا حسن الیھن کن لہ ستراً من النار۔

(بخاری، مسلم)

جو شخص ان لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔

من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیمۃ انا و ھکذا او ضم اصابعہ

(مسلم)

جس نے دو لڑکیوں کو پرورش کیا یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضور نے اپنی انگلیوں کو جوڑ کر بتایا۔

من عال ثلث بنات او مثلھن من الاخوات فاد بھن و رحمھن حتی یغنیھن اللہ اوجب اللہ لہ الجنۃ، فقال رجل یا رسول اللہ او اثنتین۔ قال او اثنتین حتی لو قالوا او واحدۃ لقال واحدۃ۔

(شرح السنۃ)

جس شخص نے تین بیٹیوں، یا بہنوں کو پرورش کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کیا یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اور دو، حضور نے فرمایا اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو حضور اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔

من کانت لہ انثیٰ فلم یئدھا و لم یھنھا و لم یؤثر ولدہ علیھا ادخلہ اللہ الجنۃ۔

جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کر کے رکھے، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

من کان لہ ثلاث بنات و صبر علیھن و کساھن من جدتہ کن لہ حجابا من النار۔

(بخاری فی الادب المفرد۔ ابن ماجہ)

جس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔

ما من مسلم تدرکہ ابنتان فیحسن صحبتھما الا ادخلتاہ الجنۃ۔

(بخاری، ادب المفرد)

جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی۔

ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لسراقۃ بن جعشم الا ادلک علی اعظم الصدقۃ او من اعظم الصدقۃ قال بلی یا رسول اللہ قال ابنتک المردودۃ الیک لیس لھا کا سب غیرک۔

(ابن ماجہ۔ بخاری فی الادب المفرد)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ۔ (فرمایا بڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ۔ فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو۔

یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں کے متعلق لوگوں کا نقطہ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی ان تمام قوموں میں بدل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں۔

جونا گڑھی

کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی

n/a

وَإِذَا ٱلصُّحُفُ نُشِرَتْ

امین احسن اصلاحی

جب کہ اعمال نامے کھولے جائیں گے

ہر ایک کا کچا چٹھا اس کے سامنے: ’صُحُفٌ‘ سے مراد لوگوں کے اعمال نامے ہیں اور ان کے کھولے جانے سے مقصود یہ ہے کہ ہر ایک کا سارا کچا چٹھا اس کے سامنے آ جائے گا۔ آگے فرمایا ہے:

’عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا أَحْضَرَتْ‘
(یعنی ہر جان یہ جان لے گی کہ آج کے دن کے لیے اس نے کیا کیا)۔

جاوید احمد غامدی

جب دفتر کھولے جائیں گے

اور اِس کے نتیجے میں لوگوں کے اعمال ناموں میں رقم اُن کا سارا کچا چٹھا اُن کے سامنے آ جائے گا۔

ابو الاعلی مودودی

اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے،

n/a

جونا گڑھی

جب نامہ اعمال کھول دئیے جائیں گے

 موت کے وقت یہ صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں، پھر قیامت والے دن حساب کے لئے کھول دیئے جائیں گے، جنہیں ہر شخص دیکھ لے گا بلکہ ہاتھوں میں پکڑا دیئے جائیں گے۔ 

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >