اے نبی، تم لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دو تواُن کی عدت کے حساب سے طلاق دو، اور عدت کا زمانہ ٹھیک ٹھیک شمار کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمھارا پروردگار ہے۔ (زمانۂ عدت میں) نہ تم اُنھیں اُن کے گھروں سے نکالو، نہ وہ خود نکلیں، الاّ یہ کہ وہ کسی صریح بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کریں گے، (وہ یاد رکھیں کہ)اُنھوں نے اپنی ہی جان پر ظلم ڈھایا ہے۔ تم نہیں جانتے، شاید اللہ اِس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کر دے۔
یہ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن اگلے ہی لفظ میں ضمیر خطاب سے واضح کر دیا ہے کہ مخاطب تمام مسلمان ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے احکام دینے سے مقصود یہ ہے کہ جب خدا کا پیغمبر بھی اِن کا پابند ہے تو دوسروں کو تو اِن کے معاملے میں اور بھی محتاط ہونا چاہیے۔
اِس کے معنی یہ ہیں کہ بیوی کو فوراً علیحدہ کر دینے کے لیے طلاق دینا جائز نہیں ہے۔ یہ جب دی جائے گی، ایک متعین مدت کے پورا ہو جانے پر مفارقت کے ارادے سے دی جائے گی۔ عدت کا لفظ اصطلاح میں اُس مدت کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں بیوی شوہر کی طرف سے طلاق یا اُس کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔ یہ مدت چونکہ مقرر ہی اِس لیے کی گئی ہے کہ عورت کے پیٹ کی صورت حال پوری طرح واضح ہو جائے، اِس لیے ضروری ہے کہ بیوی کو حیض سے فراغت کے بعد اور اُس سے زن و شو کا تعلق قائم کیے بغیر طلاق دی جائے۔ ہر مسلمان کو اِس معاملے میں اُس غصے کے باوجود جو اِس طرح کے موقعوں پر بیوی کے خلاف پیدا ہو جاتا ہے، اللہ اپنے پروردگار سے ڈرنا چاہیے۔
طلاق کا معاملہ چونکہ نہایت نازک ہے۔ اِس سے عورت اور مرد اور اُن کی اولاد اور اُن کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں، اِس لیے ضروری ہے کہ جب طلاق دی جائے تو اُس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جائے اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ طلاق کے وقت عورت کی حالت کیا تھی۔ عدت کی ابتدا کس وقت ہوئی، یہ کب تک باقی رہے گی اور کب ختم ہو جائے گی۔ معاملہ گھر میں رہے یا خدانخواستہ کسی مقدمے کی صورت میں عدالت تک پہنچے، دونوں صورتوں میں اِسی سے متعین کیا جائے گا کہ شوہر کو رجوع کا حق کب تک ہے، اُسے عورت کو گھر میں کب تک رکھنا ہے، نفقہ کب تک دینا ہے، وراثت کا فیصلہ کس وقت کے لحاظ سے کیا جائے گا، عورت اُس سے کب جدا ہو گی اور کب اُسے دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہو جائے گا۔
یعنی اُس کے حدود کی پابندی کرتے رہو۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اِس طرح اکٹھا رہنے کے نتیجے میں توقع ہے کہ دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جائے، دونوں اپنے رویے کا جائزہ لیں اور اُن کا اجڑتا ہوا گھر ایک مرتبہ پھر آباد ہو جائے۔
یعنی اِس ہدایت سے مستثنیٰ صرف یہ صورت ہے کہ مرد نے عورت کو طلاق ہی کسی ’فَاحِشَۃٌ مُّبَیِّنَۃ‘ کے ارتکاب پر دی ہو۔ عربی زبان میں یہ تعبیر زنا اور اُس کے لوازم و مقدمات کے لیے معروف ہے۔ اِس صورت میں، ظاہر ہے کہ نہ شوہر سے یہ مطالبہ کرنا جائز ہے کہ وہ ایسی عورت کو گھر میں رہنے دے، اور نہ اِس سے وہ فائدہ ہی حاصل ہو سکتا ہے جس کے لیے یہ ہدایت کی گئی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قائم کردہ اِن حدود سے جو شخص بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا، وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا، بلکہ اپنے ہی مصالح برباد کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حدود اپنے کسی فائدے کے لیے قائم نہیں کیے، بندوں کی بہبود کے لیے قائم کیے ہیں۔ لہٰذا اِنھیں کوئی شخص اگر توڑتا ہے تو اپنی ہی جان پر ظلم ڈھاتا ہے۔
یعنی کوئی ایسی صورت پیدا کردے کہ میاں بیوی اختلاف کے بعد دوبارہ ملاپ کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ اُس مصلحت کی طرف اشارہ ہے جس کے لیے ’لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ‘ (نہ تم اُنھیں گھروں سے نکالو، نہ وہ خود نکلیں) کی ہدایت فرمائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اگر ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے۔ وہ دلوں کو جڑا ہوا اور گھروں کو آباد دیکھنا پسند کرتا ہے۔ یہ پسند نہیں کرتا کہ میاں بیوی میں ایسی ناچاقی پیدا ہو کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں اور صرف وہی جدا نہ ہوں، بلکہ اُن کے بچے ہوں تو وہ بھی اپنی ماں سے اور ماں بھی اپنے بچوں سے جدا ہو جائے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۳۸)
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیئے طلاق دیا کرو ۔ اور عدت کا زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو ، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ (زمانہ عدت میں) نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کر دے
1 ۔ یعنی تم لوگ طلاق دینے کے معاملہ میں یہ جلد بازی نہ کیا کرو کہ جونہی میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوا، فوراً ہی غصّے میں آکر طلاق دے ڈالی، اور نکاح کا جھٹکا اس طرح کیا کہ رجوع کی گنجائش بھی نہ چھوڑی۔ بلکہ جب تمہیں بیویوں کو طلاق دینا ہو تو ان کی عدت کے لیے دیا کرو۔ عدت کے لیے طلاق دینے کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں :
ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دو، یا بالفاظ دیگر اس وقت طلاق دو جس سے ان کی عدت شروع ہوتی ہو۔ یہ بات سورة بقرہ آیت 228 میں بتائی جا چکی ہے کہ جس مدخولہ عورت کو حیض آتا ہو اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آنا ہے۔ اس حکم کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دینے کی صورت لازماً یہی ہو سکتی ہے کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے، کیوں کہ اس کی عدت اس حیض سے شروع نہیں ہو سکتی جس میں اسے طلاق دی گئی ہو، اور اس حالت میں طلاق دینے کے معنی یہ ہوجاتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف عورت کی عدت تین حیض کے بجائے چار حیض بن جائے۔ مزید براں اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو اس طہر میں طلاق نہ دی جائے جس میں شوہر اس سے مباشرت کرچکا ہو، کیونکہ اس صورت میں طلاق دیتے وقت شوہر اور بیوی دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آیا مباشرت کے نتیجے میں کوئی حمل قرار پا گیا ہے یا نہیں، اس وجہ سے عدت کا آغاز نہ اس مفروضے پر کیا جاسکتا ہے کہ یہ عدت آئندہ حیضوں کے اعتبار سے ہوگی اور نہ اسی مفروضے پر کیا جاسکتا ہے کہ یہ حاملہ عورت کی عدت ہوگی۔ پس یہ حکم بیک وقت دو باتوں کا مقتضی ہے۔ ایک یہ کہ حیض کی حالت میں طلاق نہ دی جائے۔ دوسرے یہ کہ طلاق یا تو اس طہر میں دی جائے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ طلاق پر یہ قیدیں لگانے میں بہت بڑی مصلحتیں ہیں۔ حیض کی حالت میں طلاق نہ دینے کی مصلحت یہ ہے کہ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان مباشرت ممنوع ہونے کی وجہ سے ایک طرح کا بعد پیدا ہوجاتا ہے، اور طبی حیثیت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اس حالت میں عورت کا مزاج معمول پر نہیں رہتا۔ اس لیے اگر اس وقت دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوجائے تو عورت اور مرد دونوں اسے رفع کرنے کے معاملہ میں ایک حد تک بےبس ہوتے ہیں، اور جھگڑے سے طلاق تک نوبت پہنچانے کے بجائے اگر عورت کے حیض سے فارغ ہونے تک انتظار کرلیا جائے تو اس امر کا کافی امکان ہوتا ہے کہ عورت کا مزاج بھی معمول پر آجائے اور دونوں کے درمیان فطرت نے جو طبعی کشش رکھی ہے وہ بھی اپنا کام کر کے دونوں کو پھر سے جوڑ دے۔ اسی طرح جس طہر میں مباشرت کی جا چکی ہو اس میں طلاق کے ممنوع ہونے کی مصلحت یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حمل قرار پا جائے تو مرد اور عورت، دونوں میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ وقت طلاق دینے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ حمل کا علم ہوجانے کی صورت میں تو مرد بھی دس مرتبہ سوچے گا کہ جس عورت کے پیٹ میں اس کا بچہ پرورش پا رہا ہے اسے طلاق دے یا نہ دے، اور عورت بھی اپنے اور اپنے بچے کے مستقبل کا خیال کر کے شوہر کی ناراضی کے اسباب دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ لیکن اندھیرے میں بےسوچے سمجھے تیر چلا بیٹھنے کے بعد اگر معلوم ہو کہ حمل قرار پا چکا تھا، تو دونوں کو پچھتانا پڑے گا۔
یہ تو ہے ” عدت کے لیے ” طلاق دینے پہلا مطلب، جس کا اطلاق صرف ان مدخولہ عورتوں پر ہوتا ہے جن کو حیض ٓآتا ہو اور جن کے حاملہ ہونے کا امکان ہو۔ اب رہا اس کا دوسرا مطلب، تو وہ یہ ہے کہ طلاق دینا ہو تو عدت تک کے لیے طلاق دو، یعنی بیک وقت تین طلاق دے کر ہمیشہ کی علیٰحدگی کے لیے طلاق نہ دے بیٹھو، بلکہ ایک، یا حد سے حد دو طلاقیں دے کر عدت تک انتظار کرو تاکہ اس مدت میں ہر وقت تمہارے لیے رجوع کی گنجائش باقی رہے۔ اس مطلب کے لحاظ سے یہ حکم ان مدخولہ عورتوں کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آتا ہو اور ان کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، یا جن کا طلاق کے وقت حاملہ ہونا معلوم ہو، اس فرمان الہٰی کی پیروی کی جائے تو کسی شخص کو بھی طلاق دے کر پچھتانا نہ پڑے، کیونکہ اس طرح طلاق دینے سے عدت کے اندر رجوع بھی ہوسکتا ہے، اور عدت گزر جانے کے بعد بھی یہ ممکن رہتا ہے کہ سابق میاں بیوی پھر باہم رشتہ جوڑنا چاہیں تو از سر نو نکاح کرلیں۔
طَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ کے یہی معنی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” طلاق حیض کی حالت میں نہ دے، اور نہ اس طہر میں دے جس کے اندر شوہر مباشرت کرچکا ہو، بلکہ اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہوجائے۔ پھر اسے ایک طلاق دے دے۔ اس صورت میں اگر وہ رجوع نہ بھی کرے اور عدت گزر جائے تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہوگی ” (ابن جریر) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ” عدت کے لیے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے “۔ یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، میمون بن مہران، مقاتِل بن حیان، اور ضحاک رحمہم اللہ سے مروی ہے (ابن کثیر) عکرمہ اس کا مطلب بیان کرتے ہیں ” طلاق اس حالت میں دے کہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو، اور اس حالت میں نہ دے کہ وہ اس سے مباشرت کرچکا ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ حاملہ ہوگئی ہے یا نہیں ” (ابن کثیر) ۔ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین، دونوں کہتے ہیں ” طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو ” (ابن جریر) ۔
اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی۔ اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی تمام کتابوں میں نقل ہوئی ہیں، اور وہی در حقیقت اس معاملہ میں قانون کی ماخذ ہیں۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمر نے جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا۔ آپ سن کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ” اس کو حکم دو کہ بیوی سے رجوع کرلے اور اسے اپنی زوجیت میں روکے رکھے یہاں تک کہ وہ طاہر ہو، پھر اسے حیض آئے اور اس سے بھی فارغ ہو کر وہ پاک ہوجائے، اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے۔ یہی وہ عدت ہے جس کے لیے طلاق دینے کا اللہ عزو جل نے حکم دیا ہے “۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ” یا تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے، یا پھر ایسی حالت میں دے جبکہ اس کا حمل ظاہر ہوچکا ہو “
اس آیت کے منشا پر مزید روشنی چند اور احادیث بھی ڈالتی ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اکابر صحابہ سے منقول ہیں۔ نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا ” اَیُلْعَبُ بکتاب اللہِ وَانَا بَیْنَ اظہرکم ؟ ” کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جا رہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ؟ ” اس حرکت پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کیا میں اسے قتل نہ کر دوں ؟ عبدالرزاق نے حضرت عبادہ بن الصامت کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں۔ انہوں نے جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا : بانت منہ بثالث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ ، و بقی تسع مأۃ و سبع و تسعون ظُلْماً و عُدْو اناً ، انشاء اللہ عذَّبہ، وان شاء غفر لہ ” تین طلاقوں کے ذریعہ سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہوگئی، اور 997 ظلم اور عدوان کے طور پر باقی رہ گئے جن پر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے “۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے قصے کی جو تفصیل دار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں روایت ہوئی ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت عبداللہ بن عمر کو بیوی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے پوچھا اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا پھر بھی میں رجوع کرسکتا تھا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : لا، کانت تبین منک و کانت معصیۃً ” نہیں، وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور یہ فعل معصیت ہوتا “۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ : اذاً قد عصیت ربک و بانت منک امر أتک۔ ” اگر تم ایسا کرتے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوجاتی “۔
صحابہ کرام سے اس بارے میں جو فتاویٰ منقول ہیں وہ بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انہی ارشادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مُؤطّا میں ہے کہا یک شخص نے آ کر حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ ابن مسعود (رض) نے پوچھا ” پھر اس پر تمہیں کیا فتویٰ دیا گیا ؟ ” اس نے عرض کیا ” مجھ سے کہا گیا ہے کہ عورت مجھ سے جدا ہوگئی “۔ آپ نے فرمایا صدقوا، ھو مثل ما یقولون، ” لوگوں نے سچ کہا، مسئلہ یہی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں “۔ عبدالرزاق نے عَلْقَمہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود سے کہا میں نے اپنی بیوی کو 99 طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے فرمایا ثلاث بینھا و سائرھن عدوان۔ ” تین طلاقیں اسے جدا کرتی ہیں، باقی سب زیادتیاں ہیں “۔ وَکیع بن الجراح نے اپنی سنن میں حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ، دونوں کا یہی مسلک نقل کیا ہے۔ حضرت عثمان (رض) سے ایک شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ انہوں نے فرمایا بانت منک بثلاث “۔ وہ تین طلاقوں سے تجھ سے جدا ہوگئی “۔ ایسا ہی واقعہ حضرت علی (رض) کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے جواب دیا : بانت منک بثلاث وا قسم سائرھن علی نسائک۔ ” تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہوگئی، باقی طلاقوں کو اپنی دوسری عورتوں پر تقسیم کرتا پھر “۔ ابو داؤد اور ابن جریر نے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ مجاہد کی روایت نقل کی ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ ابن عباس سن کر خاموش رہے، حتی کہ میں نے خیال کیا شاید یہ اس کی بیوی کو اس کی طرف پلٹا دینے والے ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا ” تم میں سے ایک شخص پہلے طلاق دینے میں حماقت کا ارتکاب کر گزرتا ہے، اس کے بعد آ کر کہتا ہے یا ابن عباس، یا ابن عباس۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا، اور تو نے اللہ سے تقویٰ نہیں کیا۔ اب میں تیرے لیے کوئی راستہ نہیں پاتا۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی “۔ ایک اور روایت جسے مؤطا اور تفسیر ابن جریر میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ مجاہد ہی سے نقل کیا گیا ہے، اس میں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں، پھر ابن عباس سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا ” تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہوگئی، باقی 97 سے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی اور تو نے اللہ کا خوف نہیں کیا کہ وہ تیرے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرتا ” امام طحاوِی نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا : اِنَّ عمک عصی اللہ فَاَثِم و اطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجاً ۔ ” تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی اور گناہ کا ارتکاب کیا اور شیطان کی پیروی کی۔ اللہ نے اس کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا ہے۔ ” ابو داؤد اور مؤطا میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا اور فتویٰ پوچھنے نکلا۔ حدیث کے راوی محمد بن بکیر کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ابن عباس اور ابوہریرہ کے پاس گیا دونوں کا جواب یہ تھا انک ارسلت من یدک ماکان من فضل۔ ” تیرے لیے جو گنجائش تھی تو نے اسے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا “۔ زمخشری نے کشاف میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس جو شخص بھی ایسا آتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں اسے وہ مارتے تھے اور اس کی طلاقوں کو نافذ کردیتے تھے۔ سعید بن منصور نے یہی بات صحیح سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے نقل کی ہے۔ اس معاملہ میں صحابہ کرام کی عام رائے، جسے ابن ابی شیبہ اور امام محمد نے ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے، یہ تھی کہ ان الصحابۃ (رض) کانو یستحبون ان یطلقھا واحد ۃ ثم یتر کھا حتی تحیض ثلاثۃ حیض۔ ” صحابہ رضی اللہ عنہیم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی بیوی کو صرف ایک طلاق دے دے اور اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آجائیں “۔ یہ ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں۔ اور امام محمد کے الفاظ یہ ہیں : کانو ایستحبون ان لا تزید و افی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدّۃ۔ ” ان کو پسند یہ طریقہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں ایک سے زیادہ نہ بڑھیں یہاں تک کہ عدت پوری ہوجائے “
ان احادیث و آثار کی مدد سے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کا منشا سمجھ کر فقہائے اسلام نے جو مفصل قانون مرتب کیا ہے اسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔
1) ۔ حنفیہ طلاق کی تین قسمیں قرار دیتے ہیں : احسن، حسَن اور بِدْعی۔ احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں جس کے اندر اس نے مجامعت نہ کی ہو، صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دے۔ حَسَن یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دے۔ اس صورت میں تین طہروں میں تین طلاق دینا بھی سنت کے خلاف نہیں ہے ،۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ اور طلاق بدعت یہ ہے کہ آدمی بیک وقت تین طلاق دے دے، یا ایک ہی طہر کے اندر الگ الگ اوقات میں تین طلاق دے، یا حیض کی حالت میں طلاق دے، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ مباشرت کرچکا ہو۔ ان میں سے جو فعل بھی وہ کرے گا گناہگار ہوگا۔ یہ تو ہے حکم ایسی مدخولہ عورت کا جسے حیض آتا ہو۔ رہی غیر مدخولہ عورت تو اسے سنت کے مطابق طہر اور حیض دونوں حالتوں میں طلاق دی جاسکتی ہے۔ اور اگر عورت ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، تو اسے مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جاسکتی ہے، کیونکہ اس کے حاملہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اور عورت حاملہ ہو تو مباشرت کے بعد اسے بھی طلاق دی جاسکتی ہے، کیونکہ اس کا حاملہ ہونا پہلے ہی معلوم ہے۔ لیکن ان تینوں قسم کی عورتوں کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک مہینہ بعد طلاق دی جائے، اور احسن یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ (ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص، عمدۃ القاری) ۔
امام مالک کے نزدیک بھی طلاق کی تین قسمیں ہیں۔ سُنی، بدعی مکروہ، اور بدعی حرام۔ سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ مدخولہ عورت کو جسے حیض آتا ہو، طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ بِدعی مکروہ یہ ہے کہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دی جائے جس میں آدمی مباشرت کرچکا ہو، یا مباشرت کیے بغیر ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاقیں دی جائیں، یا عدت کے اندر الگ الگ طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں۔ اور بدعی حرام یہ ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی جائے۔ (حاشیہ الدسوقی علیٰ الشرح الکبیر۔ احکام القرآن لابن العربی) ۔
امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب یہ ہے جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے : مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اسے سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر اسے طلاق دی جائے، پھر اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔ لیکن اگر اسے تین طہروں میں تین الگ الگ طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے دی جائیں، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے، یا ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں مباشرت کی گئی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو، تو یہ سب طلاق بدعت اور حرام ہیں۔ لیکن اگر عورت غیر مدخولہ ہو، یا ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، یا حاملہ ہو، تو اس کے معاملہ میں نہ وقت کے لحاظ سے سنت و بدعت کا کوئی فرق ہے نہ تعداد کے لحاظ سے۔ (الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علیٰ مذہب احمد بن حنبل) ۔
امام شافعی کے نزدیک طلاق کے معاملہ میں سنت اور بدعت کا فرق صرف وقت کے لحاظ سے ہے نہ کہ تعداد سے َ یعنی مدخول عورت جس کو حیض آتا ہوا سے حیض کی حالت میں طلاق دینا ‘ یا جو حاملہ ہو سکتی ہو اسے ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں مباشرت کی جا چکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو ‘ بدعت اور حرام ہے۔ رہی طلاقوں کی تعداد، تو خواہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طْہر میں دی جائیں، یا الگ الگ طہروں میں دی جائیں، بہر حال یہ سنّت کے خلاف نہیں ہے۔ اور غیر مدخولہ عورت جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا حیض آیا ہی نہ ہو، یا جس کا حاملہ ہونا ظاہر ہو، اس کے معاملہ میں سنّت اور بدعت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ (مغنی المحتاج) ۔
(2) کسی طلاق کے بدعت، مکروہ، حرام، یا گناہ ہونے کا مطلب ائمۂ اربعہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ واقع ہی نہ ہو۔ چاروں مذاہب میں طلاق، خواہ حیض کی حالت میں دی گئی ہو، یا بیک وقت تین طلاقیں دے دی گئی، یا ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مباشرت کی جاچکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا ہو، یا کسی اور ایسے طریقے سے دی گئی ہو جسے کسی امام نے بدعت قرار دیا ہے، بہر حال واقع ہوجاتی ہے، اگرچہ آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔ لیکن بعض دوسرے مجتہدین نے اس مسئلے میں ائمۂ اربعہ سے اختلاف کیا ہے۔
سعید بن المستیب اور بعض دوسرے تابعین کہتے ہیں کہ جو شخص سنت کے خلاف حیض کی حالت میں طلاق دے دے اس کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی۔ یہی رائے امامیہ کی ہے۔ اور اس رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ ممنوع اور بدعت محرمہ ہے اس لئے یہ غیر مؤثر ہے۔ حالانکہ اوپر جو احادیث ہم نقل کر آئے ہیں ان میں یہ بیان ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جب بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضور نے انہیں رجوع کا حکم دیا۔ اگر یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع کا حکم دینے کے کیا معنی ؟ اور یہ بھی بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک سے زیادہ طلاق دینے والے کو اگرچہ گناہگار قرار دیا ہے، مگر اس کی طلاق کو غیر مؤثر قرار نہیں دیا۔
طاؤس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں تو صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے، اور اسی رائے کو امام ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے۔ ان کی اس رائے کا ماخذ یہ روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس سے پوچھا ” کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کے عہد میں اور حضرت عمر (رض) کے ابتدائی دور میں تین طاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا “؟ انہوں نے جواب دیا ہاں (بخاری و مسلم) اور مسلم، ابو داؤد اور مسند احمد میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کے عہد، اور حضرت عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی دو سوالوں میں تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیئے سوچ سمجھ کر کام کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ اب کیوں نہ ہم ان کے اس فعل کر نافذ کردیں ؟ چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کردیا “
لیکن یہ رائے کئی و جوہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ اول تو متعدد روایات کے مطابق ابن عباس کا اپنا فتوی اس کے خلاف تھا جیسا کہ ہم اوپر نقل کرچکے ہیں۔ دوسرے یہ بات ان احادیث کے بھی خلاف پڑتی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہوئی ہیں، جن میں بیک وقت تین طلاق دینے والے کے متعلق یہ فتوی دیا گیا ہے کہ اس کی تینوں طلاقیں نافذ ہوجاتی ہیں۔ یہ احادیث بھی ہم نے اوپر نقل کردی ہیں۔ تیسرے، خود ابن عباس (رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے صحابہ (رض) کے مجمع میں تین طاقوں کو نافذ کرنے کا اعلان فرمایا تھا، لیکن نہ اس وقت، نہ اس کے بعد کبھی صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کا اظہار کیا۔ اب کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر (رض) سنت کے خلاف کسی کام کا فیصلہ کرسکتے تھے ؟ اور سارے صحابہ (رض) اس پر سکوت بھی پر اختیار کرسکتے تھے ؟ مزید براں رکانہ بن عبد یزید کے قصے میں ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، امام شافعی دارمی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رکانہ نے جب ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ ان کی نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی ؟ (یعنی باقی دو طلاقیں پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے ان کی زبان سے نکلی تھیں، تین طلاق دے کر ہمیشہ کے لئے جدا کردینا مقصود نہ تھا) اور جب انہوں نے یہ حلفیہ بیان دیا تو آپ نے ان کو رجوع کا حق دے دیا۔ اس سے اس معاملہ کی اصل حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ ابتدائی دور میں کسی قسم کی طلاقوں کو ایک کے حکم میں رکھا جاتا تھا۔ اسی بنا پر شارحین حدیث نے ابن عباس کی روایت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ابتدائی دور میں چونکہ لوگوں کے اندر دینی معاملات میں خیانت قریب مفقود تھی، اس لیئے تین طلاقیں محض پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے اس کی زبان سے نکلی تھیں۔ لیکن حضرت عمر (رض) نے جب دیکھا کہ لوگ پہلے جلد بازی کر کے تین تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں اور پھر تاکید کا بہانہ کرتے ہیں تو انہوں نے اس بہانے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ امام نووی اور امام سبکی نے اسے ابن عباس والی روایت کی بہترین تاویل قرار دیا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ خود ابو الصباء کی ان روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے جو ابن عباس کے قول کے بارے میں ان سے مروی ہیں۔ مسلم اور ابوداؤد اور نسائی نے انہی ابو الصباء سے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر ان عباس نے فرمایا ” ایک شخص جب خلوت سے پہلے بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کے عہد اور حضرت عمر (رض) کے ابتدائی دور میں اس کو ایک طلاق قرار دیا جاتا تھا ” اس طرح ایک ہی راوی نے ابن عباس سے دو مختلف مضمونوں کی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ اختلاف دونوں روایتوں کو کمزور کردیتا ہے۔
(3) حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کو چونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجوع کا حکم دیا تھا، اس لیئے فقہا کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ یہ حکم کس معنی ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد، امام اوزاعی، ابن ابی لیلی، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو رجوع کا حکم تو دیا جائے گا مگر رجوع پر مجبور نہ کیا جائے گا (عمدۃ القاری) ۔ ہدایہ ہیں حنفیہ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت میں رجوع کرنا نہ صرف مستحب بلکہ واجب ہے۔ مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ جس نے حیض میں طلاق دی ہو اور تین نہ دے ڈالی ہوں اس کے لیئے مسنون یہ ہے کہ وہ رجوع کرے، اور اس کے بعد والے طہر میں طلاق نہ دے بلکہ اس کے گزر نے کے بعد جب دوسری مرتبہ عورت حیض سے فارغ ہو تب طلاق دینا چاہے تو دے، تاکہ حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع محض کھیل کے طور پر نہ ہو۔ الانصاف میں حنابلہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ اس حالت میں طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کرنا مستحب ہے۔ لیکن امام مالک اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا جرم قابل دست اندازی پولیس ہے۔ عورت خواہ مطالبہ کرے یا نہ کرے، بہر حال حاکم کا یہ فرض ہے کہ جب کسی شخص کا یہ فعل اس کے علم میں آئے تو وہ اسے رجوع پر مجبور کرے اور عدت کے آخری وقت تک اس پر دباؤ ڈالتا رہے۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے قید کر دے۔ پھر بھی انکار کرے تو اسے مارے۔ اس پر نہ مانے تو حاکم خود فیصلہ کر دے کہ ” میں نے تیری بیوی تجھ پر واپس کردی ” اور حاکم کا یہ فیصلہ رجوع ہوگا جس کے بعد مرد کے لیئے اس عورت سے مباشرت کرنا جائز ہوگا، خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، کیونکہ حاکم کی نیت کی قائم مقام ہے (حاشیہ الدسوتی) مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس شخص نے طوعاً و کرہاً حیض میں دی ہوئی رجوع کرلیا ہو وہ اگر طلاق ہی دینا چاہے تو اس کے لیئے مستحب طریقہ یہ ہے کہ جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کے بعد والے طہر میں سے طلاق نہ دے بلکہ جب دوبارہ حیض آنے کے بعد وہ طاہر ہو اس وقت طلاق دے۔ طلاق سے متصل والے طہر میں طلاق نہ دے نے کا حکم دراصل اس لیئے دیا گیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کا رجوع صرف زبانی کلامی نہ ہو بلکہ اسے طہر کے زمانے میں عورت سے مباشرت کرنی چاہیے پھر جس طہر میں مباشرت کی جاچکی ہو اس میں طلاق دینا چونکہ ممنوع ہے، لہذا طلاق دینے کا صحیح وقت اس کے والا طہر ہی ہے (حاشیہ الدسوتی) ۔
(4) رجوعی طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کا موقع کسی وقت تک ہے ؟ اس میں بھی فقہاء کے درمیان سے مراد تین حیض ہیں یا تین طہر ؟ امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک قرء سے مراد حیض ہے اور امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب بھی یہی ہے۔ یہ رائے چاروں خلفاء راشدین، عبداللہ بن مسعود عبد اللہ بن عباس ابی بن کعب، معاذ بن جبل، ابو الدردا، عبادہ بن صامت اور ابو موسیٰ اشعری (رض) سے منقول ہے۔ امام محمد نے مؤطا میں شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے 13 صحابیوں سے ملے ہیں، اور ان سب کی رائے یہی تھی۔ اور یہی بکثرت تابعین نے بھی اختیار کی ہے۔
اس اختلاف کی بنا شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک تیسرے حیض میں داخل ہوتے ہی عورت کی عدت ختم ہوجاتی ہے، اور مرد کا حق رجوع ساقط ہوجاتا ہے۔ اور اگر طلاق حیض کی حالت میں دی گئی ہو، اس حیض کا شمار عدت میں نہ ہوگا، بلکہ چو تھے حیض میں داخل ہونے پر عدت ختم ہوگی (مضنی المحتاج أ حاشیہ الدستی) حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر تیسرے حیض میں دس دن گزر نے پر خون بند ہو تو عورت کی عدت ختم نہ ہوگی جب تک عورت غسل نہ کرے، یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزر جائے۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک جب عورت تیمم کر کے نماز پڑھ لے اس وقت مرد کا حق رجوع ختم ہوگا، اور امام محمد کے نزدیک تیمم کرتے ہی حق رجوع ختم ہوجائے گا (ہدایہ) امام احمد کا معتبر مذہب جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے، یہ ہے کہ جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل نہ کرلے مرد کا حق رجوع باقی رہے گا (الانصاف)
(5) رجوع کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح نہیں ہوتا ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ہو وہ عدت ختم ہونے پہلے چاہے رجوع کرسکتا ہے، خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ قرآن مجید ( سورة بقرہ، آیت 228) میں فرمایا گیا ہے وَبُعُولَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں واپس لے لینے کے پوری طرح حق دار ہیں ” اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عدت گزر نے سے پہلے تک ان کی زوجیت بر قرار رہتی ہے اور وہ انہیں قطعی طور پر چھوڑ دینے سے پہلے واپس لے سکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر رجوع کوئی تجدید نکاح نہیں ہے کہ اس کے لیئے عورت کی رضا ضروری ہو۔ شافعیہ کے نزدیک رجوع صرف قول ہی سے ہوسکتا ہے، عمل سے نہیں ہو سکتا۔ اگر آدمی زبان سے یہ نہ کہے کہ میں نے رجوع کیا تو مباشرت یا اختلاط کا کوئی فعل خواہ رجوع کی نیت ہی سے کیا گیا ہو، رجوع قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس صورت میں عورت سے ہر قسم سے کا اتمتاع حرام ہے چاہے وہ بلا شہوت ہی ہو۔ لیکن مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرنے پر حد نہیں ہے، کیونکہ علماء کا اس کے حرام ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔ البتہ جو اس کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہوا سے تعزیز دی جائے گی۔ مزید براں آدمی رجوع بالقول کرے یا نہ کرے (مغنی المحتاج) ۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ رجوع قول اور فعل، دونوں سے ہوسکتا ہے۔ اگر رجوع بالقول میں آدمی صریح الفاظ استعمال کرے تو خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، رجوع ہوجائے گا، بلکہ اگر وہ مذاق کے طور پر بھی رجوع قرار دیئے جائیں گے جبکہ وہ رجوع کی نیت سے کہے گئے ہوں۔ رہا رجوع بالفعل تو کوئی فعل خواہ وہ اختلاط ہو، یا مباشرت، اس وقت تک رجوع قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ وہ رجوع کی نیت سے نہ کیا گیا ہو (حاشیتہ الدسوتی۔ احکام القرآن لابن العربی)
حنیفہ اور حنابلہ کا مسلک رجوع بالقول کے معاملہ میں وہی جو مالکیہ کا ہے۔ ربا رجوع بالفعل، تو مالکیہ کے بر عکس ان دونوں مذاہب کا فتوی یہ ہے کہ شوہر اگر عدت کے اندر مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرلے تو وہ آپ سے آپ رجوع ہے، خواہ وہ مباشرت سے کم کسی درجے کا ہو، اور حنابلہ محض اختلاط کو رجوع نہیں مانتے ( ہدایہ، فتح القدیر، عمدۃ القاری، الانصاف)
(6) طلاق سنت اور طلاق بدعت کے نتائج کا فرق یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاق دینے کی صورت میں اگر عدت گزر بھی جائے تو مطلّقہ عورت اور اس کے سابق شوہر کے درمیان باہمی رضامندی سے پھر نکاح ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آدمی تین طلاق دے چکا ہو تو نہ عدّت کے اندر رجوع ممکن ہے اور نہ عدّت گزر جانے کے بعد دو بارہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔ الّا یہ کہ اس عورت کا نکاح کسی اور شخص سے ہو، وہ نکاح صحیح نوعیت کا ہو، دوسرا شوہر اس عورت سے مباشرت بھی کرچکا ہو، پھر یا تو وہ اسے طلاق دے دے یا مر جائے۔ اس کے بعد اگر عورت اور اس کا سابق شوہر رضامندی کے ساتھ از سرِ نو نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ احادیث کی اکثر کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا، اور اس دوسرے شوہر کے ساتھ اس کی خلوت بھی ہوئی مگر مباشرت نہیں ہوئی، پھر اس نے اسے طلاق دے دی، اب کیا اس عورت کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : لا، حتّٰی یزوق الاٰخر من عسَیْلتھا ما ذاق الاول۔ ” نہیں، جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہوچکا ہو جس طرح پہلا شوہر ہوا تھا “۔ رہا سازشی نکاح، جس میں پہلے سے یہ طے شدہ ہو کہ عورت کو سابق شوہر کے لیے حلال کرنے کی خاطر ایک آدمی اس سے نکاح کرے گا اور مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دیدے گا، تو امام ابو یوسف کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہے، اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک اس سے تحلیل تو ہوجائے گی، مگر یہ فعل مگر وہ تحریمی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لعن اللہ المحلل و المحلل لہ، ” اللہ نے تحلیل کرنے والے اور تحلیل کرانے والے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے ” (ترمذی، نسائی) ۔ حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے پوچھا الا اخبرکم بالتیس المستعار ؟ ” کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ کرائے کا سانڈ کون ہوتا ہے ؟ ” صحابہ نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا ھوالمحلل، لعن اللہ المحلل و المحلل لہ۔ ” وہ تحلیل کرنے والا ہے۔ خدا کی لعنت ہے تحلیل کرنے والے پر بھی اور اس شخص پر بھی جس کے لیے تحلیل کی جائے ” (ابن ماجہ۔ دارقطنی) ۔
اس حکم کا خطاب مردوں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی اور ان کے خاندان والوں سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق کو کھیل نہ سمجھ بیٹھو کہ طلاق کا اہم معاملہ پیش آنے کے بعد یہ بھی یاد نہ رکھا جائے کہ کب طلاق دی گئی ہے، کب عدت شروع ہوئی اور کب اس کو ختم ہونا ہے۔ طلاق ایک نہایت نازک معاملہ ہے جس سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے جب طلاق دی جائے تو اس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جائے، اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ کس حالت میں عورت کو طلاق دی گئی ہے، اور حساب لگا کر دیکھا جائے کہ عدت کا آغاز کب ہوا ہے، کب تک وہ باقی ہے، اور کب وہ ختم ہوگئی۔ اسی حساب پر ان امور کا فیصلہ موقوف ہے کہ شوہر کو کب تک رجوع کا حق ہے۔ کب تک اسے عورت کو گھر میں رکھنا ہے، کب تک اس کا نفقہ دینا ہے، کب تک وہ عورت کا وارث ہوگا اور عورت اس کی وارث ہوگی، کب عورت اس سے جدا ہوجائے گی اور اسے دوسرا نکاح کرلینے کا حق حاصل ہوجائے گا۔ اور اگر یہ معاملہ کسی مقدمہ کی صورت اختیار کر جائے تو عدالت کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کے لیے طلاق کی صحیح تاریخ اور وقت اور عورت کی حالت معلوم ہونے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ اس کے بغیر وہ مدخولہ اور غیر مدخولہ، حاملہ اور غیر حاملہ، بےحیض اور باحیض، رجعیہ اور غیر رجعیہ عورتوں کے معاملہ میں طلاق سے پیدا شدہ مسائل کا صحیح فیصلہ نہیں کرسکتی۔
یعنی نہ مرد غصے میں آ کر عورت کو گھر سے نکال دے، اور نہ عورت خود ہی بگڑ کر گھر چھوڑ دے۔ عدت تک گھر اس کا ہے۔ اسی گھر میں دونوں کو رہنا چاہیے، تاکہ باہم موافقت کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ طلاق اگر رجعی ہو تو کسی وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہو سکتی ہے، اور بیوی بھی اختلاف کے اسباب کو دور کر کے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ دونوں ایک گھر میں موجود رہیں گے تو تین مہینے تک، یا تین حیض آنے تک، یا حمل کی صورت میں وضع حمل تک اس کے مواقع بارہا پیش آسکتے ہیں۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کر کے اسے نکال دے، یا عورت ناسمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں رجوع کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور بالعموم طلاق کا انجام آخر کار مستقل علیٰحدگی ہو کر رہتا ہے۔ اسی لیے فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو (ہدایہ۔ الانصاف) ۔
فقہاء کے درمیان اس امر میں اتفاق ہے کہ مطلقہ رجعیہ کو عدت کے زمانے میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے، اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے جائے، اور مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اسے گھر سے نکالے۔ اگر مرد اسے نکالے گا تو گناہ گار ہوگا، اور عورت اگر خود نکلے گی تو گناہ گار بھی ہوگی اور نفقہ و سکونت کے حق سے بھی محروم ہوجائے گی۔
اس کے متعدد مطلب مختلف فقہاء نے بیان کیے ہیں۔ حضرت حسن بصری، عامر شعبی، زید بن اسلم، ضحاک، مجاہد، عکرمہ، ابن زید، حماد اور لیث کہتے ہیں کہ اس سے مراد بدکاری ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد زبانی ہے، یعنی یہ کہ طلاق کے بعد بھی عورت کا مزاج درستی پر نہ آئے، بلکہ وہ عدت کے زمانے میں شوہر اور اس کے خاندان والوں سے جھگڑتی اور بد زبانی کرتی رہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نشوز ہے، یعنی عورت کو نشوز کی بنا پر طلاق دی گئی ہو اور عدت کے زمانے میں بھی وہ شوہر کے مقابلے پر سرکشی کرنے سے باز نہ آئے۔ عبد اللہ بن عمر، سدی، ابن السائب، اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا گھر سے نکل جانا ہے، یعنی ان کی رائے میں طلاق کے بعد عدت کے زمانہ میں عورت کا گھر چھوڑ کر نکل جانا بجائے خود فاحشۃ مبینۃ (صریح برائی کا ارتکاب) ہے، اور یہ ارشاد کہ ” وہ نہ خود نکلیں الّا یہ کہ صریح برائی کی مرتکب ہوں ” کچھ اس طرح کا کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ ” تم کسی کو گالی نہ دو الّا یہ کہ بدتمیز بنو ” ان چار اقوال میں سے پہلے تین قولوں کے مطابق ” الّا یہ ” کا تعلق ” ان کو گھروں سے نہ نکالو ” کے ساتھ ہے اور اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بد چلنی یا بد زبانی یا نشوز کی مرتکب ہوں تو انہیں نکال دینا جائز ہوگا۔ اور چوتھے قول کی رو سے اس کا تعلق ” اور نہ وہ خود نکلیں ” کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نکلیں گی تو صریح برائی کی مرتکب ہوں گی۔
یہ دونوں فقرے ان لوگوں کے خیال کی بھی تردید کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے یا بیک وقت تین طلاق دے دینے سے کوئی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی، اور ان لوگوں کی رائے کو بھی غلط ثابت کردیتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بدعی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی یا تین طلاق ایک ہی طلاق رجعی کے حکم میں ہیں، تو یہ کہنے کی آخر ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ جو اللہ کی حدود، یعنی سنت کے بتائے ہوئے طریقے کی خلاف ورزی کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا، اور تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ؟ یہ دونوں باتیں تو اسی صورت میں با معنی ہو سکتی ہیں جبکہ سنت کے خلاف طلاق دینے سے واقعی کوئی نقصان ہوتا ہو جس پر آدمی کو پچھتانا پڑے، اور تین طلاق بیک وقت دے بیٹھنے سے رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا ہو۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو طلاق واقع ہی نہ ہو اس سے حدود اللہ پر کوئی تعدی نہیں ہوتی جو اپنے نفس پر ظلم قرار پائے، اور جو طلاق بہرحال رجعی ہی ہو اس کے بعد تو لازماً موافقت کی صورت باقی رہتی ہے، پھر یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے۔
اس مقام پر ایک مرتبہ پھر سورة بقرہ کی آیات 228 تا 230 اور سورة طلاق کی زیر بحث آیات کے باہمی تعلق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ سورة بقرہ میں طلاق کا نصاب تین کا نصاب تین بتایا گیا ہے، جن میں سے دو کے بعد رجوع کا حق، اور عدت گزر جانے کے بعد بلا تحلیل دوبارہ نکاح کرلینے کا حق باقی رہتا ہے، اور تیسری طلاق دے دینے سے یہ دونوں حق ساقط ہوجاتے ہیں۔ سورة طلاق کی یہ آیات اس حکم میں کسی ترمیم و تنسیخ کے لیے نازل نہیں ہوئی ہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے نازل ہوئی ہیں کہ بیویوں کو طلاق دینے کے جو اختیارات مردوں کو دیے گئے ہیں ان کو استعمال کرنے کی دانشمندانہ صورت کیا ہے جس کی پیروی اگر کی جائے تو گھر بگڑنے سے بچ سکتے ہیں، طلاق دے کر پچھتانے کی نوبت پیش نہیں آسکتی، موافقت پیدا ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقع باقی رہتے ہیں، اور اگر بالآخر علیٰحدگی ہو بھی جائے تو یہ آخری چارہ کار کھلا رہتا ہے کہ پھر مل جانا چاہیں تو دوبارہ نکاح کرلیں۔ لیکن اگر کوئی شخص نادانی کے ساتھ اپنے ان اختیارات کو غلط طریقے سے استعمال کر بیٹھے تو وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا اور تلافی کے تمام مواقع کھو بیٹھے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کو تین سو روپے دے اور کہے کہ یہ تمہاری ملکیت ہیں، ان کو تم اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے مختار ہو۔ پھر وہ اسے نصیحت کرے کہ اپنے اس مال کو جو میں نے تمہیں دے دیا ہے، اس طرح احتیاط کے ساتھ بر محل اور بتدریج استعمال کرنا تاکہ تم اس سے صحیح فائدہ اٹھا سکو، ورنہ میری نصیحت کے خلاف تم بےاحتیاطی کے ساتھ اسے بےموقع خرچ کرو گے یا ساری رقم بیک وقت خرچ کر بیٹھو گے تو نقصان اٹھاؤ گے اور پھر مزید کوئی رقم میں تمہیں برباد کرنے کے لیے نہیں دوں گا۔ یہ ساری نصیحت ایسی صورت میں بےمعنی ہوجاتی ہے جب کہ باپ نے پوری رقم سرے سے اس کے ہاتھ میں چھوڑی ہی نہ ہو، وہ بےموقع خرچ کرنا چاہے تو رقم اس کی جیب سے نکلے ہی نہیں، یا پورے تین سو خرچ کر ڈالنے پر بھی ایک سو ہی اس کے ہاتھ سے نکلیں اور دو سو بہر حال اس کی جیب میں پڑے رہیں۔ صورت معاملہ اگر یہی ہو تو اس نصیحت کی آخر حاجت کیا ہے ؟
اے نبی ! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب آپ کے شرف و مرتب کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جا رہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے۔ اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمْ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کرلو۔
اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لعدتھن میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لاول یا لاستقبال عدتھن (عدت کے آغاز میں طلاق دو۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہوجائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دو حالت طہر میں اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اسکو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے صحیح طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسکی تایید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا اور اسکے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحیح بخاری) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی باوجود بدعی ہونے کے واقع ہوجائے گی۔ محدثین اور جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں۔
یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کرسکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو
یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔
یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔
یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔
یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کردے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہوجائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
پس جب وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو ان کو یا تو دستور کے مطابق نکاح میں رکھو یا دستور کے مطابق جدا کر دو اور اپنے میں سے دو ثقہ آدمیوں کو گواہ بنا لو۔ اور گواہی کو قائم رکھو اللہ کے لیے۔ یہ نصیحت ان کو کی جاتی ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اللہ سے ڈریں گے تو اللہ ان کے لیے راہ نکالے گا۔
مرد کو اپنا حق عورت کی ضرررسانی کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے: فرمایا کہ جب وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں یعنی تیسرے طہر میں داخل ہو جائیں تب ان کے رکھنے یا الگ کر دینے کا آخری فیصلہ کرو۔ اگر ان کو رکھنا ہو تو دستور کے مطابق رکھو جس طرح ایک خدا ترس مسلمان اپنی بیوی کو رکھتا ہے اور جدا کر دینے ہی کا فیصلہ ہو تو یہ بھی شریفوں کے دستور کے مطابق یعنی کچھ دے دلا کر، احسان و مروت کے ساتھ ہو۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۱ میں فرمایا ہے: ’وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا‘ یعنی اگر ان کو روکو تو یہ مراجعت اس قصد سے نہ ہو کہ وہ تمہارے پنجہ میں اسیر رہیں اور تم ان کو تنگ کر سکو۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص ایسا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اس لیے کہ اس کو مراجعت کا حق حاصل ہے لیکن یہ حق اگر کوئی عورت کو ضرر پہنچانے اور تنگ کرنے کے لیے استعمال کرے گا تو وہ خدا کے بخشے ہوئے ایک حق کو ایک نہایت ظالمانہ مقصد کے لیے استعمال کرے گا جس کا وبال بہت ہی سخت ہے۔
گواہ اور گواہی کی اہمیت: ’وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ‘۔ یعنی اس کو بیوی کی حیثیت سے رکھنا ہو تو اور جدا کرنا ہو تو، دونوں صورتوں میں اس پر اپنے اندر سے دو ثقہ مسلمانوں کو گواہ بنا لو تاکہ اس واقعہ کی بنا پر کوئی نزاع پیدا ہونے کا امکان باقی نہ رہے ورنہ اندیشہ ہے کہ فریقین میں سے کسی کی موت پر وراثت وغیرہ کے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوں۔ اس شہادت کے حکم کو فقہاء نے تو عام طور پر استحسان ہی کے درجے میں رکھا ہے، اور ایک اچھے معاشرے میں اگر یہ استحسان ہی کے درجے میں رہے جب بھی کافی ہے، لیکن اس زمانے میں معاشرے کے فساد کے سبب سے جس طرح نکاح کے لیے رجسٹریشن کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے اسی طرح طلاق کے لیے بھی یہ طریقہ اختیار کر لیا جائے تو اس سے بہت سی نزاعات کا سدباب ہو سکتا ہے۔
’وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ‘۔ یہ مسلمانوں کو عام طور پر اور گواہوں کو خاص طور پر تاکید ہے کہ گواہی کے فرائض کو اللہ کے لیے انجام دو۔ یعنی اول تو گواہی سے حتی الامکان کترانا نہیں چاہیے ثانیاً جب گواہی کی نوبت آئے تو بے رو رعایت اور بے خوف و خطر صرف اللہ کی خاطر گواہی دو۔ یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مسلمانوں کو ’شہدآءَ اللّٰہ فی الارض‘ کے منصب پر سرفراز فرمایا ہے اس وجہ سے مسلمان کسی معاملہ میں کسی شخص یا کسی فریق کا گواہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کا گواہ ہوتا ہے اور اسی گواہی پر امت کے اندر اس کی حیثیت عرفی کا انحصار ہے۔
ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا لازمی تقاضا: ’ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘۔ فرمایا کہ یہ تین باتیں جو اوپر کی آیات میں بتائی گئی ہیں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے لازمی نتائج میں سے ہیں۔ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان کے مدعی ہیں ان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان کو حرزجان بنائیں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ ان کا ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا دعویٰ بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔
حدود الٰہی کی پابندی کرنے والوں کو عظیم بشارت: ’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا‘۔ یہ حدود کی پابندی کرنے والوں کو اطمینان دلایا ہے کہ وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھیں کہ ان کو کوئی مشکل پیش آئی تو اللہ ان کے لیے راہ نکالے گا۔ وہ اپنے بندوں کا مشکلات کے ذریعہ سے امتحان کرتا ہے۔ جو ان سے پست حوصلہ ہر کر برگشتہ ہو جاتے ہیں خدا بھی ان کو چھوڑ دیتا ہے لیکن جو مشکلات کے علی الرغم خدا کے حدود کا احترام قائم رکھنے کا عزم کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ بالآخر ان کی راہ آسان کر دیتا ہے:
’وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا‘(العنکبوت ۲۹: ۶۹)
(جو موانع کے علی الرغم ہماری راہ پر چلنے کی جدوجہد کریں گے ہم ضرور ان کے لیے اپنی راہیں کھولیں گے)۔
(اِسی طرح طلاق دو)، پھر جب وہ اپنی عدت کے خاتمے پر پہنچ جائیں تو اُنھیں بھلے طریقے سے نکاح میں رکھو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ اور(نباہ کا ارادہ ہو یا جدائی کا، دونوں صورتوں میں) دو ثقہ آدمیوں کو اپنے میں سے گواہ بنا لو، اور (گواہوں کے لیے اللہ کا حکم ہے کہ گواہی دینے والو)، تم اِس گواہی کو اللہ کے لیے قائم رکھو۔ یہ بات ہے جس کی نصیحت (تم میں سے) اُن لوگوں کو کی جاتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ اللہ سے ڈریں گے، (اُنھیں کوئی مشکل پیش آئی) تو اللہ اُن کے لیے نکلنے کا راستہ پیدا کرے گا۔
اِس سے واضح ہے کہ عدت کے پورا ہو نے تک شوہر کو رجوع کا حق ہے۔ چنانچہ ہدایت کی گئی ہے کہ یہ خاتمے کو پہنچ رہی ہو تو شوہر کو فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اُسے بیوی کو روکنا ہے یا رخصت کر دینا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں اللہ کا حکم ہے کہ معاملہ معروف کے مطابق، یعنی بھلے طریقے سے کیا جائے۔ سورۂ بقرہ میں مزید وضاحت ہے کہ روکنا مقصود ہو تو یہ ہرگز ہرگز دست ستم دراز کرنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ محبت اور سازگاری کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے ہونا چاہیے، ورنہ یہ محض ظلم ہو گا جو قیامت میں اللہ کی شدید ناراضی کا باعث بن جائے گا۔
اِس سے مقصود یہ ہے کہ فریقین میں سے کوئی بعد میں کسی بات کا انکار نہ کرے اور اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو اُس کا فیصلہ آسانی کے ساتھ ہو جائے۔ مزید یہ کہ اِس معاملے میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں اور لوگوں کے لیے ہر چیز بالکل واضح اور متعین رہے۔
پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہو جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں۔ اور (اے گواہ بنے والو) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیئے ادا کرو۔
یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا
6 ۔ یعنی ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے فیصلہ کرلو کہ آیا عورت کو اپنی زوجیت میں رکھنا ہے یا نہیں۔ رکھنا ہو تو نباہنے کی غرض سے رکھو، اس غرض سے نہ رکھو کہ اس کو ستانے کے لیے رجوع کرلو اور پھر طلاق دے کر اس کی عدت لمبی کرتے رہو۔ اور اگر رخصت کرنا ہو تو شریف آدمیوں کی طرح کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر رخصت کرو، مہر یا اس کا کوئی حصہ باقی ہو تو ادا کر دو، اور حسب توفیق کچھ نہ کچھ متعہ طلاق کے طور پر دو، جیسا کہ سورة بقرہ آیت 241 میں ارشاد ہوا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 86) ۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد طلاق پر بھی گواہ بنانا ہے اور رجوع پر بھی (ابن جریر) ۔ حضرت عمران بن حصین سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس سے رجوع کرلیا، مگر نہ طلاق پر کسی کو گواہ بنایا نہ رجوع پر۔ انہوں نے جواب دیا ” تم نے طلاق بھی سنت کے خلاف دی اور رجوع بھی سنت کے خلاف کیا۔ طلاق اور رجعت اور فرقت پر گواہ بنانا، ان افعال کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے کہ اگر گواہ نہ بنایا جائے تو نہ طلاق واقع ہو، نہ رجوع صحیح ہو اور نہ فرقت، بلکہ یہ حکم اس احتیاط کے لیے دیا گیا ہے کہ فریقین میں سے کوئی بعد میں کسی واقعہ کا انکار نہ کرسکے، اور نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہو سکے، اور شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہوجائے۔ یہ حکم بالکل ایسا ہی ہے جیسے فرمایا : وَاَشْھِدُوْآاِذَا تَبَایَعْتُمْ ، ” جب تم آپس میں بیع کا کوئی معاملہ طے کرو تو گواہ بنا لو ” (بقرہ۔ 282) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیع پر گواہ بنانا فرض ہے اور اگر گواہ نہ بنایا جائے تو بیع صحیح نہ ہوگی، بلکہ یہ ایک حکیمانہ ہدایت ہے جو نزاعات کا سد باب کرنے کے لیے دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنے ہی میں بہتری ہے۔ اسی طرح طلاق اور رجوع کے معاملہ میں بھی صحیح بات یہی ہے کہ ان میں سے ہر فعل گواہیوں کے بغیر بھی قانوناً درست ہوجاتا ہے، لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی کیا جائے، اسی وقت یا اس کے بعد دو صاحب عدل آدمیوں کو اس پر گواہ بنا لیا جائے۔
یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اوپر جو ہدایات دی گئی ہیں وہ نصیحت کی حیثیت رکھتی ہیں نہ کہ قانون کی۔ آدمی سنت کے خلاف طلاق دے بیٹھے، عدت کا شمار محفوظ نہ رکھے، بیوی کو بلا عذر معقول گھر سے نکال دے، عدت کے خاتمے پر رجوع کرے تو عورت کو ستانے کے لیے کرے اور رخصت کرے تو لڑائی جھگڑے کے ساتھ کرے، اور طلاق، رجوع، مفارقت، کسی چیز پر بھی گواہ نہ بنائے، تو اس سے طلاق اور رجوع اور مفارقت کے قانونی نتائج میں کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت کے خلاف عمل کرنا اس بات کی دلیل ہوگا کہ اس کے دل میں اللہ اور روز آخرت پر صحیح ایمان موجود نہیں ہے جس کی بنا پر اس نے وہ طرز عمل اختیار کیا جو ایک سچے مومن کو اختیار نہ کرنا چاہیے۔
سیاق کلام خود بتا رہا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا مطلب سنت کے مطابق طلاق دینا، عدت کا ٹھیک ٹھیک حساب رکھنا، بیوی کو گھر سے نہ نکالنا، عدت کے اختتام پر عورت کو روکنا ہو تو نباہ کرنے کی نیت سے رجوع کرنا اور علیحدگی ہی کرنی ہو تو بھلے آدمیوں کی طرح اس کو رخصت کردینا، اور طلاق، رجوع یا مفارقت، جو بھی ہو، اس پر دو عادل آدمیوں کو گواہ بنا لینا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو اس طرح تقویٰ سے کام لے گا اس کے لیے ہم کوئی مخرج (یعنی مشکلات سے نکلنے کا راستہ) نکال دیں گے۔ اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص ان امور میں تقویٰ سے کام نہ لے گا وہ اپنے لیے خود ایسی الجھنیں اور مشکلات پیدا کرلے گا جن سے نکلنے کا کوئی راستہ اسے نہ مل سکے گا۔
ان الفاظ پر غور کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک طلاق بدعی سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی اور جو لوگ بیک وقت یا ایک ہی طہر میں دی ہوئیں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں، ان کی رائے صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اگر طلاق بدعی واقع ہی نہ ہو تو سرے سے کوئی الجھن پیش نہیں آتی جس سے نکلنے کے لیے کسی مخرج کی ضرورت ہو۔ اور اگر تین طلاق اکٹھی دے بیٹھنے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہو، تب بھی مخرج کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس صورت میں آخر وہ پیچیدگی کیا ہے جس سے نکلنے کے لیے کسی راستے کی حاجت پیش آئے ؟
پس جب یہ عورتیں اپنی عدت کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کردو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو اور اللہ کی رضامندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو یہی ہے وہ جس کی نصیحت اسے کی جاتی ہے اور جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے
اس رجعت اور بعض کے نزدیک طلاق پر گواہ کرلو۔ یہ امر وجوب کے لئے نہیں، استحباب کے لئے ہے، یعنی گواہ بنا لینا بہتر ہے تاہم ضروری نہیں۔
یہ تاکید گواہوں کو ہے کہ وہ کسی کی رعایت اور لالچ کے بغیر صحیح صحیح گواہی دیں۔
یعنی شدائد اور آزمائشوں سے نکلنے کی سبیل پیدا فرما دیتا ہے
اور ان کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ ہو گا اور جو اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ اللہ اپنے ارادے پورے کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا رکھا ہے۔
’وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ‘۔ یہ اوپر والی بات ہی کی مزید وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا۔ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ ایک ہی سانس میں تین طلاقیں دے کر بیوی کو گھر سے نکال باہر کرنے کا ایک بڑا محرک، خاص طور پر غربا کے لیے، ان کا معاشی مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ جب ایک عورت کو طلاق دے چھوڑی تو اب اس کے نان نققہ کی ذمہ داری مفت میں کیوں اٹھائیں! اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلایا ہے کہ اگر تم اللہ کے حدود کے احترام کے لیے یہ بوجھ اٹھاؤ گے تو وہ تمہیں وہاں سے رزق فراہم کرے گا جہاں سے تم کو گمان بھی نہ ہو گا۔ یہ خیال نہ کرو کہ خدا کی رحمت اور اس کی مدد کے راستے اتنے ہی ہیں جتنے تم نے سوچ رکھے ہیں یا جو تم قیاس کر سکتے ہو بلکہ اس کے بے شمار راستے ہیں جن کا علم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ کھلتے ہیں۔ اس وقت انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس کے لیے خدا کی مدد اس گوشے سے نمودار ہوئی جدھر سے اس کے نمودار ہونے کا وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
’وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ‘۔ فرمایا کہ اس کے لیے شرف صرف یہ ہے کہ خدا پر پورا بھروسہ رکھو۔ اگر تم خدا پر بھروسہ رکھو گے تو وہ تمہاری دست گیری کے لیے کافی ہے۔ وہ اسباب و وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اسباب و وسائل سب اس کے تابع ہیں۔ بندے کو یہ اندیشہ نہیں رکھنا چاہیے کہ جن نامساعد حالات میں وہ گھرا ہوا ہے خدا ان کو بدلنے سے قاصر رہ جائے گا۔ جب وہ مدد کرنا چاہے گا تو اس کے ارادے میں کوئی چیز مزاحم نہ ہو سکے گی۔
اللہ کی مدد کے ظہور کے لیے ایک وقت مقرر ہوتا ہے: ’اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا‘۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اسی طرح اس کی نصرت کے ظہور کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اس کے ظہور میں اگر کچھ دیر ہوتی ہے تو اس سے مقصود بندوں کے صبر کا امتحان ہوتا ہے۔ بندے کو اطمیان رکھنا چاہیے کہ اللہ نے جو وعدہ کر رکھا ہے وہ ضرور پورا کرے گا۔ اگر اس میں دیر ہو گی تو اتنی ہی ہو گی جتنی اس کے صبر کے امتحان کے لیے ضروری ہے اور یہ امتحان اسی کی بھلائی کے لیے ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب: یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان آیات میں جو طریقہ طلاق دینے کا بتایا گیا ہے اگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کرتا بلکہ ایک ہی وقت میں تین یا اس سے زئد طلاقیں دے کر بیوی کو علیحدہ کر دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟
اس سوال کے جواب میں حنفیہ اور دوسرے ائمہ کے درمیان اختلاف ہے۔ دوسرے ائمہ کے نزدیک تو اس طرح طلاق دینے والے کی ایک سے زیادہ طلاقیں ایک ہی حکم میں محسوب ہوں گی لیکن حنفیہ کے نزدیک اس طرح طلاق دینے والے کی طلاق واقع ہو جائے گی البتہ صحیح طریقہ اختیار نہ کرنے کے سبب سے وہ عند اللہ گنہ گار ہو گا۔
ہمارے نزدیک ان دونوں ہی مسلکوں میں تھوڑی تھوڑی کسر ہے جس کی اصلاح، احترام شریعت کے نقطۂ نظر سے، ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کی اتنی واضح ہدایات کے باوجود، ایک ہی سانس میں کئی طلاقیں دے ڈالتا ہے اور اس کی جسارت پر اس کو کوئی تادیب نہیں ہوتی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ دین کے ساتھ اس نے جو مذاق کیا اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اس کا نوٹس لینا ضروری ہے ورنہ لفظ ’طلاق‘ ایک بالکل بے معنی لفظ بن کے رہ جاتا ہے حالانکہ شریعت میں نکاح و طلاق کے الفاظ نہایت اہم ہیں جن کو مذاق کے طور پر بھی استعمال کیا جائے تو یہ حقیقت بن جاتے ہیں۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو حنفیہ کا مسلک، احترام شریعت کے نقطۂ نظر سے، زیادہ قرین صواب معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی طلاق کو واقع کر دیتے ہیں۔ لیکن ایک خامی اس میں بھی ہے۔ وہ یہ کہ اگر اس کو کوئی تادیب و تعزیر نہ کی جائے تو مجرد اس بات سے کہ اس طرح طلاق دینے والا عند اللہ گنہ گار ہو گا لوگوں کے اندر قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کا صحیح احترام پیدا نہیں کیا جا سکتا اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس کی طلاق کو نافذ کرنے کے ساتھ دین کے ساتھ کھیل کرنے کی کوئی سزا بھی اس کو دی جائے تاکہ جو لوگ طلاق دینے کا یہ غلط طریقہ اختیار کرتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو۔
حنفیہ کے اس فتوے کی بنیاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک اجتہاد پر ہے اور ہمیں جہاں تک علم ہے ان کا اجتہاد یہ ہے کہ اس طرح طلاق دینے والے کی طلاق نافذ تو کر دینی چاہیے اس لیے کہ اس نے ضائع کیا ہے تو اپنا حق رجعت ضائع کیا ہے لیکن ساتھ ہی حدود الٰہی کی جو خلاف ورزی اس نے کی ہے اس کی سزا بھی اس کو ملنی چاہیے تاکہ دوسروں کو حدود شریعت کی خلاف ورزی کی جرأت نہ ہو۔ یہ اجتہاد نہایت حکیمانہ ہے۔ ہم نے اس کتاب میں فقہی جزئیات پر بحث کے لیے ایک خاص حد مقرر کر لی ہے اس وجہ سے اشارہ پر کفایت کرتے ہیں۔ اپنے بعض فقہی مقالات میں ہم نے اس پر بحث کی ہے۔
اور اُنھیں وہاں سے رزق دے گا، جدھر اُن کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ اور جو اللہ پر بھروسا کریں گے، وہ اُن (کی دست گیری) کے لیے کافی ہے۔ اللہ اپنے ارادے پورے کرکے رہتا ہے۔ (ہاں، یہ ضرور ہے کہ) اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ کوئی شخص طلاق دے کر محض اِس لیے بیوی کو نکال باہر نہ کرے کہ طلاق دے دی ہے تو اب اِس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مفت میں کیوں اٹھائی جائے۔
چنانچہ اُس کی نصرت کے ظہور کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس کے ظہور میں اگر کچھ دیر ہوتی ہے تو اِس سے مقصود بندوں کے صبر کا امتحان ہوتا ہے۔ بندے کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ اللہ نے جو وعدہ کر رکھا ہے، وہ ضرور پورا کرے گا۔ اگر اُس میں دیر ہو گی تو اتنی ہی ہو گی، جتنی اُس کے صبر کے امتحان کے لیے ضروری ہے اور یہ امتحان اُسی کی بھلائی کے لیے ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۴۰)
اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو ۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرے کے رہتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز کے لیئے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔
مراد یہ ہے کہ عدت کے دوران میں مطلقہ بیوی کو گھر میں رکھنا، اس کا خرچ برداشت کرنا، اور رخصت کرتے ہوئے اس کو مہر یا متعہ طلاق دے کر رخصت کرنا بلا شبہ آدمی پر مالی بار ڈالتا ہے۔ جس عورت سے آدمی دل برداشتہ ہو کر تعلقات منقطع کرلینے پر آمادہ ہوچکا ہو، اس پر مال خرچ کرنا تو اسے ضرور ناگوار ہوگا۔ اور اگر آدمی تنگ دست بھی ہو تو یہ خرچ اسے اور زیادہ کھلے گا۔ لیکن اللہ سے ڈرنے والے آدمی کو یہ سب کچھ برداشت کرنا چاہیے۔ تمہارا دل تنگ ہو تو ہو، اللہ کا ہاتھ رزق دینے کے لیے تنگ نہیں ہے۔ اس کی ہدایت پر چل کر مال خرچ کرو گے تو وہ ایسے راستوں سے تمہیں رزق دے گا جدھر سے رزق ملنے کا تم گمان بھی نہیں کرسکتے۔
یعنی کوئی طاقت اللہ کے حکم کو نافذ ہونے سے روکنے والی نہیں ہے۔
اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔
یعنی وہ جو چاہے۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔
تنگیوں کے لئے بھی اور آسانیوں کے لئے بھی۔ یہ دونوں اپنے وقت پر انتہا پذیر ہوجاتے ہیں۔ بعض نے اس سے حیض اور عدت مراد لی ہے۔
اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر ان کے باب میں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور اسی طرح ان کی بھی جن کو حیض نہ آیا ہو اور حمل والیوں کی مدت وضع حمل ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا تو اللہ اس کے لیے اس کے معاملے میں آسانی پیدا کرے گا۔
عورتوں کے اختلاف حالات کے سبب سے ان کی عدت میں فرق: اوپر ان عورتوں کی عدت بتائی ہے جن کو حیض آتا ہے اور جن کی عدت کی حدبندی حیض اور طہر سے ہو سکتی ہے۔ اب یہ ان عورتوں کی عدت بتائی جا رہی ہے جو آئسہ ہو چکی ہوں یا ابھی ان کو حیض آیا ہی نہ ہو یا وہ حاملہ ہوں جس کے سبب سے ان کو حیض نہ آ رہا ہو۔ فرمایا کہ جو آئسہ ہو چکی ہوں یا جن کو ابھی حیض آیا ہی نہ ہو ان کی عدت تو تین مہینے ہے اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔
ارباب تاویل کی ایک الجھن اور اس کا حل: آئسہ عورتوں کے ساتھ ’اِنِ ارْتَبْتُمْ‘ کی جو شرط لگی ہوئی ہے اس کے سبب سے ہمارے ارباب تاویل کو اس میں بڑا ارتیاب پیش آیا ہے۔ عام طور پر تو لوگ اس کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر تمہیں ان کی عدت کے بارے میں کوئی شبہ ہو تو ہم تم کو بتاتے ہیں کہ ان کی عدت تین مہینے ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ عورت کو خون تو آتا ہو لیکن یہ معین نہ ہو رہا ہو کہ یہ حیض ہے یا استحاضہ تو اس کی عدت تین مہینے ہے۔
پہلا قول سعید ابن جبیرؒ سے مروی ہے اور ابن جریرؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن یہ قول کچھ قوی نہیں معلوم ہوتا۔ اگر مقصود محض لوگوں کے سوال کا حوالہ ہے تو اس مضمون کی تعبیر کے لیے موزوں ترین لفظ ’سوال‘ ہے جو قرآن میں اس طرح کے مواقع میں ہر جگہ استعمال ہوا ہے۔ اس کے لیے ’اِرْتَبْتُمْ‘ کا لفظ موزوں نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر سوال ہوتا تو ان تینوں ہی قسم کی عورتوں سے متعلق ہوتا جن کا حکم یہاں بیان ہوا ہے، جیسا کہ روایات سے معلوم بھی ہوتا ہے، لیکن ’اِرْتَبْتُمْ‘ اس طرح استعمال ہوا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آئسہ عورتوں کے ساتھ بطور ایک شرط مذکور ہوا ہے۔
دوسرا قول مجاہدؒ ، زہریؒ اور ابن زیدؒ سے مروی ہے۔ اس میں ایک تو یہ بات کھٹکتی ہے کہ اگر یہ مسئلہ ایسی عورتوں کا ہے جن کو خون آتا ہے لیکن یہ شک پیدا ہو رہا ہے کہ یہ حیض ہے یا استحاضہ تو ان کو آئسہ سے تعبیر کرنا موزوں نہیں تھا حالانکہ یہاں ان کے لیے ’وَالّٰٓئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس آئسہ کے بارے میں اس طرح کا شک نہ ہو اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے۔ وہ طلاق کے معاً بعد الگ ہو جائے گی حالانکہ جہاں تک ہمیں علم ہے غیرمدخولہ آئسہ کے لیے تو کسی عدت کی قید نہیں ہے لیکن جو آئسہ مدخولہ ہے اس کے لیے تین ماہ کی عدت کی قید بہرشکل ہے۔
ان شبہات کے سبب سے میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ ’اِنِ ارْتَبْتُمْ‘ کی شرط یہاں آئسہ غیرمدخولہ اور آئسہ مدخولہ کے درمیان امتیاز کے لیے آئی ہے۔ یعنی آئسہ اگر مدخولہ ہے تو آئسہ ہونے کے باوجود اس کا امکان ہے کہ شاید یاس کی حالت عارضی ہو، پھر امید کی شکل پیدا ہو گئی ہو اور اس کے رحم میں کچھ ہو۔ یہی صورت اس کو بھی پیش آ سکتی ہے جس کو ابھی اگرچہ حیض نہیں آیا ہے لیکن وہ مدخولہ ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر آئسہ غیرمدخولہ اور صغیرہ غیرمدخولہ کے لیے تو کسی عدت کی ضرورت نہیں ہے لیکن آئسہ یا صغیرہ، جس کو حیض نہ آیا ہو، اگر مدخولہ ہوں تو ان کے بارے میں چونکہ شبہ کا امکان ہے اس وجہ سے ان کے لیے عدت ہے۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر بات یہی کہنی تھی تو صاف صاف یوں کیوں نہ کہہ دی کہ اگر آئسہ مدخولہ ہو تو اس کی عدت تین مہینے ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بات یوں کہی جاتی تو اس سے عدت کی اصل علت واضح نہ ہوتی جب کہ اس کا واضح ہونا ضروری تھا۔ اس عدت کی اصل علت عورت کا مجرد مدخولہ ہونا نہیں بلکہ یہ اشتباہ ہے کہ ممکن ہے اس کے رحم میں کچھ ہو۔
’وَاُوۡلَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ‘۔ فرمایا کہ اسی طرح وہ عورتیں جو حاملہ ہوں ان کی عدت وضع حمل ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب: اس حکم کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۴ میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن بیان ہوئی ہے اور یہاں حاملہ کی عدت وضع حمل بیان ہوئی ہے تو اگر کسی حاملہ مطلقہ کا شوہر انتقال کر جائے تو وہ عدت کے چار مہینے دس دن پورے کرے گی یا وضع حمل کے ساتھ ہی اس کی عدت ختم ہو جائے گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حاملہ کی عدت مہینوں اور دنوں کے حساب سے مقرر نہیں کی جا سکتی۔ وہ تو بہرحال وضع حمل ہی کے ساتھ مشروط ہو گی۔ یہ چار ماہ دس دن سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے، کم بھی ہو سکتی ہے۔ اگر زیادہ ہو جائے تو عورت بہرحال اس کو گزارنے کی پابند ہو گی تو جب کم ہو تو عورت کو اس کمی سے فائدہ اٹھانے کا بھی حق ہونا چاہیے۔ گویا یہ دونوں حکم دو الگ الگ حالتوں سے متعلق ہیں اور دونوں اپنے اپنے دائروں میں نافذ العمل رہیں گے۔
حدود شریعت کی پابندی کرنے والوں کو اطمینان دہانی: ’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا‘۔ یہ وہی بات جو آیت ۲ میں فرمائی ہے معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ یہاں بھی دہرائی ہے۔ احکام کے ساتھ ساتھ یہ تنبیہات اس لیے ضروری ہیں کہ لوگ شریعت الٰہی کو بوجھ نہ محسوس کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ان مطلقات کے زمانۂ عدت کے قیام اور مصارف کا بار بعضوں کی طبیعت پر گراں تو گزرے گا لیکن جو لوگ اللہ سے ڈریں گے اور حتی الامکان اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کو قائم رکھیں گے اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر جو بوجھ ڈالتا ہے اگر بندے اس کو اٹھانے کا حوصلہ کر لیتے ہیں تو وہ اس کے اٹھانے میں ان کی مدد فرماتا ہے اور جیسا کہ اوپر فرمایا ہے ان کی مدد وہاں سے کرتا ہے جہاں سے ان کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق نہ تو یہ سوء ظن ہونا چاہیے کہ وہ اپنے بندوں پر کوئی ایسا بوجھ ڈالے گا جو ان کی قوت برداشت سے زیادہ ہو اور نہ یہ اندیشہ ہونا چاہیے کہ وہ بندے پر بوجھ ڈال کر اس کو تنہا چھوڑ دے گا۔
تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں، اور وہ بھی جنھیں (حیض کی عمر کو پہنچنے کے باوجود) حیض نہیں آیا، اُن کے بارے میں اگر کوئی شک ہے تو اُن کی عدت تین مہینے ہو گی۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ حمل سے فارغ ہو جائیں۔ (یہ اللہ کی ہدایات ہیں، اِن کی پیروی کرو) اور(یاد رکھو کہ) جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اُس کے لیے اُس کے معاملے میں سہولت پیدا کر دے گا۔
اصل میں ’وَالّٰٓئِیْ لَمْ یَحِضْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’لَمْ‘ عربی زبان میں نفی جحد کے لیے آتا ہے۔ لہٰذا اِس سے وہ بچیاں مراد نہیں ہو سکتیں جنھیں ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا، بلکہ وہی عورتیں مراد ہوں گی جنھیں حیض کی عمر کو پہنچنے کے باوجود حیض نہیں آیا۔
اِس حکم کے ساتھ ’اِنِ ارْتَبْتُمْ‘ (اگر کوئی شک ہے) کی جو شرط لگی ہوئی ہے، اُس سے کیا مراد ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...میرا ذہن اِس طرف جاتا ہے کہ ’اِنِ ارْتَبْتُمْ‘ کی شرط یہاں آئسہ غیر مدخولہ اور آئسہ مدخولہ کے درمیان امتیاز کے لیے آئی ہے۔ یعنی آئسہ اگر مدخولہ ہے تو آئسہ ہونے کے باوجود اِس کا امکان ہے کہ شاید یاس کی حالت عارضی ہو، پھر امید کی شکل پیدا ہو گئی ہو اور اُس کے رحم میں کچھ ہو۔ یہی صورت اُس کو بھی پیش آ سکتی ہے جس کو ابھی اگرچہ حیض نہیں آیا ہے، لیکن وہ مدخولہ ہے... ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر بات یہی کہنی تھی تو صاف صاف یوں کیوں نہ کہہ دی کہ اگر آئسہ مدخولہ ہو تو اُس کی عدت تین مہینے ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اگر بات یوں کہی جاتی تو اُس سے عدت کی اصل علت واضح نہ ہوتی، جبکہ اُس کا واضح ہونا ضروری تھا۔ اِس عدت کی اصل علت عورت کا مجرد مدخولہ ہونا نہیں، بلکہ یہ اشتباہ ہے کہ ممکن ہے اُس کے رحم میں کچھ ہو۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۴۲)
یعنی مطلقہ عورتوں کے زمانۂ عدت کے قیام اور دوسرے مصارف کا بوجھ اٹھانے میں اللہ سے ڈرے گا، اللہ اُس کے لیے آسانی پیدا کر دے گا۔
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے ۔ اور یہی حکم ان کا ہے۔ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو ۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہو جائے۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ وہ سہولت پیدا کردیتا ہے۔
یہ ان عورتوں کا حکم ہے جن کو حیض آنا قطعی بند ہوچکا ہو اور کبر سنی کی وجہ سے وہ سن ایاس میں داخل ہوچکی ہوں۔ ان کی عدت اس روز سے شمار ہوگی جس روز انہیں طلاق دی گئی ہو۔ اور تین مہینوں سے مراد تین قمری مہینے ہیں اگر قمری مہینے کے آغاز میں طلاق دی گئی ہو تو بالاتفاق رویت ہلال کے لحاظ سے عدت شمار ہوگی، اور اگر مہینے کے بیچ میں کسی وقت طلاق دی گئی ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک 30 دن کا مہینہ قرار دے کر 3 مہینے پورے کرنے ہوں گے (بدائع الصنائع) ۔
رہیں وہ عورتیں جن کے حیض میں کسی نوع کی بےقاعدگی ہو، ان کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلافات ہیں۔
حضرت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا جس عورت کو طلاق دی گئی ہو، پھر ایک دو مرتبہ حیض آنے کے بعد اس کا حیض بند ہوگیا ہو، وہ 9 مہینے انتظار کرے۔ اگر حمل ظاہر ہوجائے تو ٹھیک ہے، ورنہ 9 مہینے گزرنے کے بعد وہ مزید تین مہینے عدت گزارے، پھر وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کے لیے حلال ہوگی۔
ابن عباس، قتادہ اور عکرمہ کہتے ہیں کہ جس عورت کو سال بھر حیض نہ آیا ہو اسکی عدت تین مہینے ہے۔
طاؤس کہتے ہیں کہ جس عورت کو سال میں ایک مرتبہ حیض آئے اس کی عدت تین حیض ہے۔ یہی رائے حضرت عثمان حضرت علی، اور حضرت زیدبن ثابت سے مروی ہے۔
امام مالک کی روایت ہے کہ ایک صاحب حبان نامی تھے جنہوں نے اپنی بیوی کو ایسے زمانے میں طلاق دی جبکہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی تھیں اور اس پر ایک سال گزر گیا مگر انہیں حیض نہ آیا۔ پھر وہ صاحب انتقال کر گئے۔ مطلقہ بیوی نے وراثت کا دعویٰ کردیا۔ حضرت عثمان کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ انہوں نے حضرت علی اور حضرت زید بن ثابت سے مشورہ طلب کیا۔ دونوں بزرگوں کے مشورے سے حضرت عثمان نے فیصلہ فرمایا کہ عورت وارث ہے۔ دلیل یہ تھی کہ نہ وہ ان عورتوں میں سے ہے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اور نہ ان لڑکیوں میں سے ہے جن کو ابھی حیض نہیں آیا، لہٰذا وہ شوہر کے مرنے تک اپنے اس حیض پر تھی جو اسے پہلے آیا تھا اور اس کی عدت باقی تھی۔
حنفیہ کہتے ہیں کہ جس عورت کا حیض بند ہوگیا ہو، مگر اس کا بند ہونا سن ایام کی وجہ سے نہ ہو کہ آئندہ اس کے جاری ہونے کی امید نہ رہے، اس کی عدت یا تو حیض ہی سے ہوگی اگر وہ آئندہ جاری ہو، یا پھر اس عمر کے لحاظ سے ہوگی جس میں عورتوں کو حیض آنا بند ہوجاتا ہے اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد وہ تین مہینے عدت گزار کر نکاح سے آزاد ہوگی۔ یہی قول امام شافعی، امام ثوری اور امام لیث کا ہے۔ اور یہی مذہب حضرت علی، حضرت عثمان اور حضرت زید بن ثابت کا ہے۔
امام مالک نے حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس کے قول کو اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت پہلے 9 مہینے گزارے گی۔ اگر اس دوران میں حیض جاری نہ ہو تو پھر وہ تین مہینے اس عورت کی سی عدت گزارے گی جو حیض سے مایوس ہوچکی ہو۔ ابن القاسم نے امام مالک کے مسلک کی توضیح یہ کی ہے کہ 9 مہینے اس روز سے شمار ہوں گے جب آخری مرتبہ اس کا حیض ختم ہوا تھا نہ کہ اس روز سے جب اسے طلاق دی گئی۔ (یہ تمام تفصیلات احکام القرآن للجصاص اور بدائع الصنائع للکاسانی سے ماخوذ ہیں) ۔
امام احمد بن حنبل کا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جس کی عدت حیض کے اعتبار سے شروع ہوئی تھی، عدت کے دوران میں آئسہ ہوجائے تو اسے حیض والی عورتوں کے بجائے آئسہ عورتوں والی عدت گزارنی ہوگی۔ اور اگر اس کو حیض آنا بند ہوجائے اور معلوم نہ ہو سکے کہ وہ کیوں بند ہوگیا ہے تو پہلے وہ حمل کے شبہ میں 9 مہینے گزارے گی اور پھر اسے تین مہینے عدت کے پورے کرنے ہوں گے۔ اور اگر یہ معلوم ہو کہ حیض کیوں بند ہوا ہے، مثلاً کوئی بیماری ہو یا دودھ پلا رہی ہو یا ایسا ہی کوئی اور سبب ہو تو وہ اس وقت تک عدت میں رہے گی جب تک یا تو حیض آنا شروع نہ ہوجائے اور عدت حیضوں کے لحاظ سے شمار ہو سکے، یا پھر وہ آئسہ ہوجائے اور آئسہ عورتوں کی سی عدت گزار سکے (الانصاف) ۔
حیض خواہ کم سنی کی وجہ سے نہ آیا ہو، یا اس وجہ سے کہ بعض عورتوں کو بہت دیر میں حیض آنا شروع ہوتا ہے، اور شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر نہیں آتا، بہر حال تمام صورتوں میں ایسی عورت کی عدت وہی ہے جو آئسہ عورت کی عدت ہے، یعنی طلاق کے وقت سے تین مہینے۔
اس جگہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ قرآن کی تصریح کے مطابق عدت کا سوال اس عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کرچکا ہو، کیونکہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہے ہی نہیں (الاحزاب، 49) ۔ اس لیے ایسی لڑکیوں کی عدت بیان کرنا جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کردینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ جس چیز کو قرآن نے جائز قرار دیا ہو اسے ممنوع قرار دینے کا کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا۔
جس لڑکی کو ایسی حالت میں طلاق دی گئی ہو کہ اسے ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، اور پھر عدت کے دوران میں اس کو حیض آجائے، تو وہ پھر اسی حیض سے عدت شروع کرے گی اور اس کی عدت حائضہ عورتوں جیسی ہوگی۔
اس امر پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ لیکن اس امر میں اختلاف واقع ہوگیا ہے کہ آیا یہی حکم اس عورت کا بھی ہے جس کا شوہر زمانہ حمل میں وفات پا گیا ہو ؟ یہ اختلاف اس وجہ سے ہوا ہے کہ سورة بقرہ آیت 234 میں اس عورت کی عدت 4 مہینے دس دن بیان کی گئی ہے جس کا شوہر وفات پا جائے، اور وہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حکم آیا تمام بیوہ عورتوں کے لیے عام ہے یا ان عورتوں کے لیے خاص ہے جو حاملہ نہ ہوں۔
حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عباس ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ استنباط کرتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ کی حد تو وضع حمل تک ہی ہے، مگر بیوہ حاملہ کی عدت آخر الَاَجلَین ہے، یعنی مطلقہ کی عدت اور حاملہ کی عدت میں سے جو زیادہ طویل ہو وہی اس کی عدت ہے۔ مثلاً اگر اس کا بچہ 4 مہینے دس دن سے پہلے پیدا ہوجائے تو اسے چار مہینے دس سن پورے ہونے تک عدت گزارنی ہوگی۔ اور اگر اس کا وضع حمل اس وقت تک نہ ہو تو پھر اس کی عدت اس وقت پوری ہوگی جب وضع حمل ہوجائے۔ یہی مذہب امامیہ کا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ سورة طلاق کی یہ آیت سورة بقرہ کی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس لیے بعد کے حکم نے پہلی آیت کے حکم کو غیر حاملہ بیوہ کے لیے خاص کردیا ہے اور ہر حاملہ کی عدت وضع حمل تک مقرر کردی ہے، خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ۔ اس مسلک کی رو سے عورت کا وضع حمل چاہے شوہر کی وفات کے فوراً بعد ہوجائے یا 4 مہینے دس دن سے زیادہ طول کھینچے، بہر حال بچہ پیدا ہوتے ہیں وہ عدت سے باہر ہوجائے گی۔ اس مسلک کی تائید حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت کرتی ہے وہ فرماتے ہیں، جب سورة طلاق کی یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کیا یہ مطلقہ اور بیوہ دونوں کے لیے ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ہاں۔ دوسری روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید تصریح فرمائی : اجل کل حامل ان تضع مافی بطنہا، ” ہر حاملہ عورت کی عدت کی مدت اس کے وضع حمل تک ہے ” (ابن جریر۔ ابن ابی حاتم۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کی سند میں کلام کی گنجائش ہے، لیکن چونکہ یہ متعدد سندوں سے نقل ہوئی ہے اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے ) ۔ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر اس کی مضبوط تائید سبیعہ اسلمیہ کے واقعہ سے ہوتی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں پیش آیا تھا۔ وہ بحالت حمل بیوہ ہوئی تھیں اور شوہر کی وفات کے چند روز بعد (بعض روایات میں 20 دن، بعض میں 23 دن، بعض میں 25 دن، بعض میں 40 دن اور بعض میں 35 دن بیان ہوئے ہیں) ان کا وضع حمل ہوگیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے معاملہ میں فتویٰ پوچھا گیا تو آپ نے ان کو نکاح کی اجازت دے دی۔ اس واقعہ کو بخاری و مسلم نے کئی طریقوں سے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا ہے۔ اسی واقعہ کو بخاری، مسلم، امام احمد، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے مختلف سندوں کے ساتھ حضرت مسور بن مخرمہ سے بھی روایت کیا ہے۔ مسلم نے خود سبیعہ اسلمیہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں حضرت سعد بن خولہ کی بیوی تھی۔ حجۃ الوداع کے زمانے میں میرے شوہر کا انتقال ہوگیا جبکہ میں حاملہ تھی۔ وفات کے چند روز بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ تم چار مہینے دس دن سے پہلے نکاح نہیں کرسکتیں۔ میں نے جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ تم وضع حمل ہوتے ہی حلال ہوچکی ہو، اب چاہے تو دوسرا نکاح کرسکتی ہو۔ اس روایت کو بخاری نے بھی مختصراً نقل کیا ہے۔
صحابہ کی کثیر تعداد سے یہی مسلک منقول ہے۔ امام مالک، امام شافعی، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے حاملہ بیوہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا اس کی عدت وضع حمل گی ہے۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب بولے کہ حضرت عمر نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر شوہر ابھی دفن بھی نہ ہوا ہوا بلکہ اس کی لاش اس کے بستر پر ہی ہو اور اس کی بیوی کے ہاں بچہ ہوجائے تو وہ دوسرے نکاح کے لیے حلال ہوجائے گی۔ یہی رائے حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو مسعود بدری اور حضرت عائشہ کی ہے، اور اسی کو ائمہ اربعہ اور دوسرے اکابر فقہاء نے اختیار کیا ہے۔
شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر حاملہ کے پیٹ میں ایک سے زیادہ بچے ہوں تو آخری بچے کی ولادت پر عدت ختم ہوگی۔ بچہ خواہ مردہ ہی پیدا ہو، اس کی ولادت سے عدت ختم ہوجائے گی۔ اسقاط حمل کی صورت میں اگر دائیاں اپنے فن کی رو سے یہ کہیں کہ یہ محض خون کا لوتھڑا نہ تھا بلکہ اس میں آدمی کی صورت پائی جاتی تھی، یا یہ رسولی نہ تھی بلکہ آدمی کی اصل تھی تو ان کا قول قبول کیا جائے گا اور عدت ختم ہوجائے گی (مغنی المحتاج) ۔ حنابلہ اور حنفیہ کا مسلک بھی اس کے قریب قریب ہے، مگر اسقاط کے معاملہ میں ان کا مذہب یہ ہے کہ جب تک انسانی بناوٹ ظاہر نہ پائی جائے، محض دائیوں کے اس بیان پر کہ یہ آدمی ہی کی اصل ہے، اعتماد نہیں کیا جائے گا اور اس سے عدت ختم نہ ہوگی (بدائع الصنائع۔ الانصاف ) ۔ لیکن موجودہ زمانے میں طبی تحقیقات کے ذریعہ سے یہ معلوم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی کہ جو چیز ساقط ہوئی ہے وہ واقعی انسانی حمل کی نوعیت رکھتے تھی یا کسی رسولی یا جمے ہوئے خون کی قسم سے تھی، اس لیے اب جہاں ڈاکٹروں سے رائے حاصل کرنا ممکن ہو وہاں یہ فیصلہ بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ جس چیز کو اسقاط حمل کہا جاتا ہے وہ واقعی اسقاط تھا یا نہیں اور اس سے عدت ختم ہوئی یا نہیں۔ البتہ جہاں ایسی طبی تحقیق ممکن نہ ہو وہاں حنابلہ اور حنفیہ کا مسلک ہی زیادہ مبنی بر احتیاط ہے اور جاہل دائیوں پر اعتماد کرنا مناسب نہیں ہے۔
تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوگئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا۔
یہ ان کی عدت ہے جن کا حیض عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا ہو، یا جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔ واضح رہے کہ نادر طور پر ایسا ہوتا ہے کہ عورت سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہے اور اسے حیض ہی نہیں آتا۔
مطلقہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے، چاہے دوسرے روز ہی وضع حمل ہوجائے، ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے چاہے وہ مطلقہ ہو یا اس کا خاوند فوت ہوگیا ہو۔ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (صحیح بخاری) اور جن کے خاوند فوت ہوجائیں ان کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔
یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا ہے تو جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس سے اس کے گناہ دور کر دے گا اور اس کے اجر کو بڑھائے گا۔
یہ اوپر والے مضمون ہی کی مزید تاکید ہے کہ یہ اللہ کے احکام ہیں جو اس نے تمہاری طرف اتارے ہیں تو ان کو نہ گراں سمجھو، نہ ان کو حقیر جانو اور نہ یہ گمان کرو کہ وہ تم پر احکام اتار کر خود بے تعلق ہو جائے گا بلکہ وہ تمہاری مدد کرے گا اگر تم ان کو اٹھاؤ گے اور سزا بھی دے گا اگر ان کو پھینکنے کی کوشش کرو گے۔
’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا‘۔ یہ تسلی دی ہے کہ اللہ کے جو بندے اپنی حد تک حدود الٰہی کو قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرے گا۔ چھوٹی موٹی غلطیاں اور کوتاہیاں جو ان سے صادر ہو جائیں گی ان کو معاف کر دے گا اور ان کے نیکیوں کے اجر کو بڑھائے گا۔
یہ اللہ کا حکم ہے جو اُس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اُس کے گناہ اُس سے دور کرے گا اور اُس (کی نیکیوں) کا اجر بڑھا دے گا۔
n/a
یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔ جو اللہ ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔
یہ اگرچہ ایک عمومی نصیحت ہے جس کا اطلاق انسانی زندگی کے تمام حالات پر ہوتا ہے، لیکن اس خاص سیاق وسباق میں اسے ارشاد فرمانے کا مقصد مسلمانوں کو خبردار کرنا ہے کہ اوپر جو احکام بیان کیے گئے ہیں، ان سے خواہ تمہارے اوپر کتنی ہی ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہو، بہر حال خدا سے ڈرتے ہوئے ان کی پیروی کرو، اللہ تمہارے کام آسان کرے گا، تمہارے گناہ معاف کے گا اور تمہیں بڑا اجر دے گا۔ ظاہر ہے کہ جن مطلقہ عورتوں کی عدت تین مہینے مقرر کی گئی ہے ان کا زمانہ عدت ان عورتوں کی بہ نسبت طویل تر ہوگا جن کی عدت تین حیض مقرر کی گئی ہے۔ اور حاملہ عورت کا زمانہ عدت تو اس سے بھی کئی مہینے زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس پورے زمانے میں عورت کی سکونت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری اٹھانا، جبکہ آدمی اسے چھوڑ دینے کا ارادہ کرچکا ہو، لوگوں کو ناقابل برداشت بار محسوس ہوگا۔ لیکن جو بار اللہ سے ڈرتے ہوئے، اللہ کے احکام کی پیروی میں اٹھایا جائے، اللہ کا وعدہ ہے کہ اپنے فضل سے وہ اس کو ہلکا کر دے گا اور اس کی اتنی بھاری جزا دے گا جو دنیا میں اٹھائے ہوئے اس تھوڑے سے بار کی بہ نسبت بہت زیادہ گراں قدر ہوگی۔
یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا ہے اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا۔
n/a
اور ان کو رکھو جس طرح اپنی حیثیت کے مطابق تم رہتے ہو اور ان کو ضیق میں ڈالنے کے لیے ضرر نہ پہنچاؤ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو تاآنکہ وہ حمل سے فارغ ہو جائیں۔ پس اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کا معاوضہ دو اور دستور کے مطابق ایک قرارداد کر لو۔ اگر تم کوئی زحمت محسوس کرو تو اس کے لیے کوئی اور دودھ پلائے گی۔
زمانۂ عدت میں عورتوں کو ساتھ رکھنے کا طریقہ: فرمایا کہ زمانۂ عدت میں ان عورتوں کو ساتھ رکھنے کا طریقہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے ان کی خودداری مجروح ہو بلکہ تمہاری آمدنی کے لحاظ سے رہائش کا جو معیار تمہارا ہو وہی معیار رہائش ان کے لیے بھی مہیا کرو اور اس دوران میں کسی پہلو سے ان کو تنگ کرنے کی تدبیریں نہ اختیار کرو کہ چند ہی دنوں میں پریشان ہو کر وہ تمہارا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔
’وجد‘ کے معنی یافت کے ہیں۔ آدمی کا معیار زندگی اس کی آمدنی کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اسی کی ہدایت ان عورتوں کے باب میں فرمائی کہ ان کو اسی معیار پر رکھنا ہو گا جو معیار آدمی کا اپنا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ خود تو کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہیں اور بیوی کو نوکروں کے کسی کوارٹر یا گیراج میں ڈال دیں اور بچا کھچا اس کو کھانے کو بھیج دیں۔
’وَلَا تُضَآرُّوْھُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْھِنَّ‘۔ اگر کسی نے دل سے اللہ تعالیٰ کے یہ احکام قبول نہ کیے ہوں تو وہ ظاہر میں ان کی خانہ پری کرتے ہوئے بھی تنگ کرنے کی ایسی تدبیریں اختیار کر سکتا ہے کہ عورت کے لیے چوبیس گھنٹے بھی اس کے گھر میں گزارنا محال ہو جائے۔ اگر ایسا ہو تو وہ ساری مصلحت یک قلم فوت ہو جائے گی جس کے لیے یہ احکام دیے گئے ہیں اس وجہ سے منفی پہلو سے بھی اس بات کی وضاحت فرما دی کہ اس دوران میں ان کو تنگ کر کے بھگا دینے کی تدبیریں نہ کی جائیں۔
’وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ‘۔ یہ خاص طور پر حاملہ عورتوں کے بارے میں ہدایت فرمائی کہ ان پر اس وقت تک خرچ کرو جب تک وہ حمل سے فارغ نہ ہو جائیں۔ اس خاص اہتمام سے ذکر کی وجہ ظاہر ہے کہ ان کی مدت قیام طویل بھی ہو سکتی ہے اور بعض حالات میں ان کے مصارف کی نوعیت بھی مختلف ہو سکتی ہے۔
بعض احکام درباب رضاعت: ’وَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ‘۔ یہ وضع حمل کے بعد کا مرحلہ ہے کہ اگر تمہارے بچے کو دودھ پلائیں تو ان کو اس کا معاوضہ دو اور اس معاوضہ سے متعلق باہمی مشورہ سے ایک قرار داد طے کر لو جو وقت کے دستور اور مرد کے معیار زندگی کے مطابق ہو۔
’وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰی‘۔ یعنی اس طرح کی قرار داد میں اگر فریقین زحمت محسوس کر رہے ہیں تو کسی دوسری عورت سے دودھ پلانے کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ یعنی اس کا انحصار فریقین کی باہمی رضامندی، سہولت اور مفاہمت پر ہے۔ کسی کو اس معاملے میں اس کی مرضی کے خلاف مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۳ کے تحت رضاعت سے متعلق بنیادی مسائل پر گفتگو ہو چکی ہے۔ تفصیل مطلوب ہو تو اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ہمارے لیے فقہی جزئیات کی تفصیل کا زیادہ موقع نہیں ہے۔
(زمانۂ عدت میں) اِن عورتوں کو وہیں رکھو، جہاں اپنی حیثیت کے مطابق تم رہتے ہو اور اُن کو تنگ کرنے کے لیے ستاؤ نہیں۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو، جب تک وہ حمل سے فارغ نہ ہو جائیں۔ پھر اگر وہ( تمھارے بچے کو) تمھارے لیے دودھ پلائیں تو اُن کا معاوضہ اُنھیں دو اور یہ معاملہ دستور کے مطابق باہمی مشورے سے طے کرلو۔ اور اگر تم کوئی زحمت محسوس کرو تو بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلا لے گی۔
مطلب یہ ہے کہ عورت کو ساتھ رکھنے کا طریقہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے اُس کی خودداری مجروح ہو، بلکہ تمام معاملات شوہر کی آمدنی کے لحاظ سے اور اُس کے معیارزندگی کے مطابق ہونے چاہییں۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ طلاق دے دینے کے بعد مرد اِس معاملے میں بہت کچھ خست کا رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
یعنی اِس عرصے میں عورت کو کسی پہلو سے تنگ کرنے کی تدبیریں اختیار نہ کی جائیں کہ چند ہی دنوں میں پریشان ہو کر وہ شوہر کا گھر چھوڑنے کے لیے مجبور ہو جائے۔
مطلب یہ ہے کہ کسی کو اُس کی مرضی کے خلاف مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اِس طرح کے تمام معاملات باہمی رضامندی کے ساتھ اور مفاہمت کے جذبے سے طے ہونے چاہییں۔ ایسا نہ ہو سکے تو بہتر یہی ہے کہ کوئی دوسرا بندوبست کر لیا جائے۔
ان کو (زمانہ عدت میں) اسی جگہ رکھو جو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسر ہو۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لیئے ان کو نہ ستاؤ ۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہوجائے ۔ اور پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو ، بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ) باہمی گفت و شنید سے طے کرلو ۔ لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلا لے گی۔
اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مطلّقہ کو اگر رجعی طلاق دی گئی ہو تو شوہر پر اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اور اس امر پر بہی اتفاق ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو، تو خو اہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہو یا قطعی طور پرا لگ کردینے والی بہر حال اس کے وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شو ہر ہوگا۔ اس کے بعد اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا غیر حاملہ مطلّقہ مبتُوتہ (یعنی جسے قطعی طور پرا لگ کردینے والی طلاق دی گئی ہو) سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ؟ یا صرف سکونت کا حق رکہتی ہے ؟ یا دونوں میں سے کسی کی بھی حق دار نہیں ہے ؟
ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے۔ یہ رائے حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی بن حسین (امام زین العابد ین) ، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی کی ہے۔ اسی کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے، اور امام سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی مذہب ہے۔ اس کی تائید دار قطنی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : المطلقۃ ثلاثا لھا السکنٰی والنفقۃ، ” جس عورت کو تین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس کے لیے زمانہ عدت میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے “۔
اس کی مزید تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ ایک عورت کے قول پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کرسکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے علم میں لازماً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ سنت ہوگی کہ ایسی عورت کے لیے نفقہ اور سکونت کا حق ہے۔ بلکہ ابراہیم نخعی کی ایک روایت میں تو یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو رد کرتے ہوئے فرمایا تھا سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول لھا السکنٰی و النفقۃ، ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایسی عورت کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی ” امام ابوبکر جصاص احکام القرآن میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے اس مسلک کے حق میں پہلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً فرمایا ہے فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ ، ” ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو ” اس فرمان الہٰی کا اطلاق اس شخص پر بھی تو ہوتا ہے جو دو طلاق پہلے دے کر رجوع کرچکا ہو اور اب اسے صرف ایک ہی طلاق دینے کا حق باقی ہو۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق دینے کا جب یہ طریقہ بتایا کہ ” آدمی یا تو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو یا ایسی حالت میں طلاق دے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا ظاہر ہوچکا ہو ” تو اس میں آپ نے پہلی، دوسری، یا آخری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ” ان کو اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو ” ہر قسم کی طلاق سے متعلق مانا جائے گا۔ تیسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اس کی سکونت اور اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے۔ اور غیر حاملہ رجعیہ کے لیے بھی یہ دونوں حقوق واجب ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سکونت اور نفقہ کا وجوب دراصل حمل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں شرعاً شوہر کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اب اگر یہی حکم مبتوتہ غیر حاملہ کے بارے میں بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی سکونت اور اس کا نفقہ مرد کے ذمہ نہ ہو۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق تو ہے مگر نفقہ کا حق نہیں ہے۔ یہ مسلک سعید بن المسیب، سلیمان بن یسار، عطاء، شعبی، اوزاعی، لیث اور ابو عبید رحمہم اللہ کا ہے، اور امام شافعی اور امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ لیکن مغنی المحتاج میں امام شافعی کا مسلک اس سے مختلف بیان ہوا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
تیسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ یہ مسلک حسن بصری، حماد، ابن ابی لیلیٰ ، عمرو بن دینار، طاؤس، اسحاق بن راہویہ، اور ابو ثور کا ہے۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور امامیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ تجب سکنٰی لمعتدۃِ طلاقٍ او حاملٍ ولا بائن………… والحائل البائن لا نفقۃ لھا ولا کسوۃ۔ ” طلاق کی بنا پر جو عورت عدت گزار رہی ہو اس کے لیے سکونت کا حق واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا نہ ہو، مگر بائنہ کے لیے واجب نہیں ہے ………… اور غیر حاملہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ کپڑا “۔ اس مسلک کا استدلال ایک تو قرآن مجید کی اس آیت سے ہے کہ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْراً ، تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے “۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ بات مطلقہ رجعیہ کے حق ہی میں درست ہو سکتی ہے نہ کہ مبتوتہ کے حق میں۔ اس لیے مطلقہ کو گھر میں رکھنے کا حکم بھی رجعیہ ہی کے لیے خاص ہے۔ دوسرا استدلال فاطمہ بنت قیس کی حدیث سے ہے جسے کتب حدیث میں بکثرت صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔
یہ فاطمہ بن قیس الفہریہ اولین مہاجرات میں سے تھیں، بڑی عاقلہ سمجھی جاتی تھیں، اور حضرت عمر کی شہادت کے موقع پر اصحاب شوریٰ کا اجتماع انہی کے ہاں ہوا تھا۔ یہ پہلے ابو عمرو بن حفص المحیرۃ المخزُومی کے نکاح میں تھیں، پھر ان کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دے کر الگ کردیا، اور بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے کیا۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ان کو شوہر ابو عمرو پہلے ان کو دو طلاق دے چکے تھے۔ پھر جب حضرت علی کے ساتھ وہ یمن بھیجے گئے تو انہوں نے وہاں سے باقی ماندہ تیسری طلاق بھی ان کو بھیج دی۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ابو عمرو ہی نے اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجا تھا کہ عدت کے زمانے میں ان کو گھر میں رکھیں اور ان کا خرچ برداشت کریں۔ اور بعض میں یہ ہے کہ انہوں نے خود نفقہ و سکونت کے حق کا مطالبہ کیا تھا۔ بہر حال جو صورت بھی ہو، شوہر کے رشتہ داروں نے ان کا حق ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر یہ دعویٰ لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچیں، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ نہ تمہارے لیے نفقہ ہے نہ سکونت۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انما النفقہ والسکنٰی للمرأۃ علیٰ زوجھا ما کانت لۂ علیھا رجعۃ، فاذالم یکن لہ علیہا رجعۃ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔ ” عورت کا نفقہ اور اس کی سکونت تو شوہر پر اس صورت میں واجب ہے جب کہ شوہر کو اس پر رجوع کا حق ہو۔ مگر جب رجوع کا حق نہ ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکونت ” (مسند احمد) ۔ طبرانی اور نسائی نے بھی قریب قریب یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں فاذا کانت لا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔ ” لیکن جب وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے تو پھر اس کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکونت “۔ یہ حکم بیان کرنے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پہلے ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا اور بعد میں فرمایا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو۔
لیکن اس حدیث کو جن لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں :
اولاً ، ان کو شوہر کے رشتہ داروں کا گھر چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ بہت تیز زبان تھیں اور شوہر کے رشتہ دار ان کی بد مزاجی سے تنگ تھے۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ ” ان خاتون نے اپنی حدیث بیان کر کے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ زبان دراز تھیں، اس لیے ان کو ابن ام مکتوم کے ہاں رکھا گیا ” (ابو داؤد) ۔ دوسری روایت میں سعید بن المسیب کا یہ قول منقول ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں سے زبان درازی کی تھی اس لیے انہیں اس گھر سے منتقل ہونے کا حکم دیا گیا تھا (جصاص) ۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں ” ان کا گھر سے نکلنا در اصل بد مزاجی کی وجہ سے تھا ” (ابو داؤد) ۔
ثانیاً ، ان کی روایت کو حضرت عمر نے اس زمانے میں رد کردیا تھا جب بکثرت صحابہ موجود تھے اور اس معاملہ کی پوری تحقیقات ہو سکتی تھی۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر کو فاطمہ کی یہ حدیث پہنچی تو انہوں نے فرمایا لسنا بتارکی اٰیۃ فی کتاب اللہ و قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لقول امرأۃ لعلھا اوھمت سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول لھا السکنٰی و النفقۃ۔ ” ہم کتاب اللہ کی ایک آیت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے جسے شاید کچھ وہم ہوا ہے۔ میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی ” (جصاص) ۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس کوفہ کی مسجد میں بیٹھا تھا۔ وہاں شعبی نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کا ذکر کیا۔ اس پر حضرت اسود نے شعبی کو کنکریاں کھینچ ماریں اور کہا کہ حضرت عمر کے زمانے میں جب فاطمہ کی یہ روایت پیش کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا ” ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے رد نہیں کرسکتے، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا یا بھول گئی۔ اس کے لیے نفقہ اور سکونت ہے، اللہ کا حکم ہے لَا تُخرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ ” یہ روایت باختلاف الفاظ مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں منقول ہوئی ہے۔
ثالثاً ، مروان کے زمانہ حکومت میں جن مطلقہ مبتوتہ کے متعلق ایک نزاع چل پڑی تھی، حضرت عائشہ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کیا آپ کو فاطمہ کا قصہ معلوم نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ” فاطمہ کی حدیث کا ذکر نہ کرو تو اچھا ہے ” (بخاری) بخاری نے دوسری روایت جو نقل کی ہے اس میں حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں ” فاطمہ کو کیا ہوگیا ہے، وہ خدا سے ڈرتی نہیں ؟ ” تیسری روایت میں حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا ” فاطمہ کے لیے یہ حدیث بیان کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے “۔ حضرت عروہ ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فاطمہ پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا ” وہ دراصل ایک خالی مکان میں تھیں جہاں کوئی مونس نہ تھا اس لیے ان کی سلامتی کی خاطر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو گھر بدل دینے کی ہدایت فرمائی تھی “۔
رابعاً ، ان خاتون کا نکاح بعد میں اسامہ بن زید سے ہوا تھا، اور محمد بن اسامہ کہتے ہیں کہ جب کبھی فاطمہ اس حدیث کا ذکر کرتیں میرے والد، جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اٹھا کر ان پر دے مارتے تھے (جصاص) ۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ کے علم میں سنت اس کے خلاف نہ ہوتی تو وہ اس حدیث کی روایت پر اتنی ناراضی کا اظہار نہیں کرسکتے تھے۔
یہ امر متفق علیہ ہے کہ مطلقہ، خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے۔ البتہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ حاملہ کا شوہر مرگیا ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ طلاق دینے کے بعد مرا ہو، یا اس نے کوئی طلاق نہ دی ہو اور عورت زمانہ حمل میں بیوہ ہوگئی ہو۔ اس معاملہ میں فقہاء کے مسالک یہ ہیں :
1) ۔ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے کہ شوہر کے مجموعی ترکہ میں اس کا نفقہ واجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، قاضی شریح، ابو العالیہ، شعبی اور ابراہیم نخعی سے بھی یہی قول منقول ہے، اور حضرت عبد اللہ بن عباس کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے (آلوسی۔ جصاص) ۔
2) ۔ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباس کا دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ اس پر اس کے پیٹ کے بچہ کے حصے میں سے خرچ کیا جائے اگر میت نے کوئی میراث چھوڑی ہو۔ اور اگر میراث نہ چھوڑی ہو تو میت کے وارثوں کو اس پر خرچ کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ (البقرہ، آیت 233) ۔
3) ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت عبداللہ بن الزبیر، حضرت حسن نصری، حضرت سعید بن المُسَیَّب اور حضرت عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ متوفیٰ شوہر کے مال میں اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی ایک تیسرا قول یہی منقول ہوا ہے (جصاص) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے ترکہ میں سے اس کو جو میراث کا حصہ ملا ہو اس سے وہ اپنا خرچ پورا کرسکتی ہے، لیکن شوہر کے مجموعی ترکے پر اس کا نفقہ عائد نہیں ہوتا جس کا بار تمام وارثوں پر پڑے۔
4) ۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ اس کا نفقہ متوفی شوہر کے مال میں اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے مال میں کسی کا قرض واجب ہوتا ہے (جصاص) ۔ یعنی مجموعی ترکہ میں سے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے اسی طرح اس کا نفقہ بھی ادا کیا جائے۔
5) ۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کہتے ہیں کہ میت کے مال میں اس کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ کیونکہ موت کے بعد میت کی کوئی ملکیت ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد تو وہ وارثوں کا مال ہے۔ ان کے مال میں حاملہ بیوہ کا نفقہ کیسے واجب ہوسکتا ہے (ہدایہ، جصاص) ۔ یہی مسلک امام احمد بن حنبل کا ہے (الانصاف) ۔
6) ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے، البتہ اسے سکونت کا حق ہے (مُغنی المحتاج) ۔ ان کا اسدلال حضرت ابو سعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک کے اس واقعہ سے ہے کہ ان کے شوہر جب قتل کردیے گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے گھر ہی میں عدت گزاریں ( ابو داؤد، نسائی، ترمذی) ۔ مزید برآں ان کا استدلال دارقُطنی کی اس روایت سے ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : للحامل المتوفی عنھا زوجھا نفقۃ۔ ” بیوہ حاملہ کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے “۔ یہی مسلک امام مالک کا بھی ہے (حاشیۃ الد سوقی) ۔
اس ارشاد سے کئی اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ عورت اپنے دودھ کی مالک ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اس کی اجرت لینے کی مجاز نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ جب وہ وضع حمل ہوتے ہی اپنے سابق شوہر کے نکاح سے باہر ہوگئی تو بچے کو دودھ پلائے گی اور اس پر اجرت لینے کی حق دار ہوگی۔ تیسرے یہ کہ باپ بھی قانوناً مجبور نہیں ہے کہ بچے کی ماں ہی سے اس کو دودھ پلوائے۔ چوتھے یہ کہ بچے کا نفقہ باپ پر عائد ہوتا ہے۔ پانچویں یہ کہ بچے کو دودھ پلانے کی اولین حق دار ماں ہے اور دوسری عورت سے رضاعت کا کام اسی صورت میں لیا جاسکتا ہے جبکہ ماں خود اس پر راضی نہ ہو، یا اس کی اجرت مانگے جس کا ادا کرنا باپ کی مقدرت میں نہ ہو۔ اسی سے چھٹا قاعدہ یہ نکلتا ہے کہ اگر دوسری عورت کو بھی وہی اجرت دینی پڑے جو بچے کی ماں مانگتی ہو تو ماں کا حق اولیٰ ہے۔
فقہاء کی آراء اس مسئلے میں یہ ہیں :
ضحاک کہتے ہیں کہ ” بچے کی ماں اسے دودھ پلانے کی زیادہ حق دار ہے۔ مگر اسے اختیار ہے کہ چاہے دودھ پلائے یا نہ پلائے۔ البتہ اگر بچہ دوسری عورت کی چھاتی قبول نہ کرے تو ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا “۔ اسی سے ملتی جلتی رائے قتادہ اور ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کی ہے۔ ابراہیم نخعی یہ بھی کہتے ہیں کہ ” اگر دوسرے عورت رضاعت کے لیے نہ مل رہی ہو تب بھی ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا ’‘ (ابن جریر) ۔
ہدایہ میں ہے، ” اگر ماں باپ کی علیٰحدگی کے وقت چھوٹا بچہ دودھ پیتا ہو تو ماں پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہی اسے دودھ پلائے۔ البتہ اگر دوسری عورت نہ ملتی ہو تو وہ رضاعت پر مجبور کی جائے گی۔ اور اگر باپ یہ کہے کہ میں بچے کی ماں کو اجرت دے کر اس سے دودھ پلوانے کے بجائے دوسری عورت سے اجرت پر یہ کام لوں گا، اور ماں دوسری عورت ہی کے برابر اجرت مانگ رہی ہو، یا بلا اجرت ہی اس خدمت کے لیے راضی ہو، تو اس صورت میں ماں کا حق مقدم رکھا جائے گا۔ اور اگر بچے کی ماں زیادہ اجرت مانگ رہی ہو تو باپ کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا “۔
اس میں ماں اور باپ دونوں کے لیے عتاب کا ایک پہلو ہے۔ انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی تلخیوں کی بنا پر، جن کے باعث بالآخر طلاق تک نوبت پہنچی تھی، دونوں بھلے طریقہ سے آپس میں بچے کی رضاعت کا معاملہ طے نہ کریں تو یہ اللہ کو پسند نہیں ہے۔ عورت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تو زیادہ اجرت مانگ کر مرد کو تنگ کرنے کی کوشش کرے گی تو بچے کی پرورش کچھ تیرے ہی اوپر موقوف نہیں ہے، کوئی دوسری عورت اسے دودھ پلالے گی۔ اور مرد کو بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تو ماں کی مامتا سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے تنگ کرنا چاہے گا تو یہ بھلے آدمیوں کا سا کام نہ ہوگا۔ قریب قریب یہی مضمون سورة بقرہ، آیت 233 میں زیادہ تفصیل کے ساتھ ارشاد ہوا ہے۔
تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان (طلاق والی) عورتوں کو رکھو اور انہیں تنگ کرنے کے لئے تکلیف نہ پہنچاؤ اور اگر وہ حمل سے ہوں تو جب تک بچہ پیدا ہولے انہیں خرچ دیتے رہا کرو پھر اگر تمہارے کہنے سے وہی دودھ پلائیں تو تم انہیں ان کی اجرت دے دو اور باہم مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو اور اگر تم آپس میں کشمکش کرو تو اس کے کہنے سے کوئی اور دودھ پلائے گی۔
یعنی مطلقہ رجعیہ کو۔ اس لیے کہ مطلقہ بائنہ کے لیے تو رہائش اور نفقہ ضروری ہی نہیں۔ اپنی طاقت کے مطابق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مکان فراخ ہو اور اس میں متعدد کمرے ہوں تو ایک کمرہ اس کے لیے مخصوص کردیا جائے۔ بصورت دیگر اپنا کمرہ اس کے لیے خالی کردے۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ قریب رہ کر عدت گزارے گی تو شاید خاوند کا دل پسیج جائے اور رجوع کرنے کی رغبت اس کے دل میں پیدا ہوجائے خاص طور پر اگر بچے بھی ہوں تو پھر رغبت اور رجوع کا قوی امکان ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمان اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس حکم کے فوائد سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کے ساتھ ہی جس طرح عورت کو فوراً چھوت بنا کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے، یا بعض دفعہ لڑکی والے اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں، یہ رواج قرآن کریم کی صریح تعلیم کے خلاف ہے۔
یعنی نان نفقہ میں یا رہائش میں اسے تنگ اور بےآبرو کرنا تاکہ وہ گھر چھوڑ جائے۔ عدت کے دوران ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے عدت ہوجانے کے قریب ہو تو رجوع کرلے اور بار بار ایسا نہ کرے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔ جس کے سدباب کے لیے شریعت نے طلاق کے بعد رجوع کرنے کی حد مقرر فرمادی تاکہ کوئی شخص آئندہ اس طرح عورت کو تنگ نہ کرے، اب ایک انسان دو مرتبہ تو ایسا کرسکتا ہے یعنی طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے۔ لیکن تیسری مرتبہ جب طلاق دے گا تو اس کے بعد اس کے رجوع کا حق بھی ختم ہوجائے گا۔
یعنی مطلقہ خواہ بائنہ ہی کیوں نہ ہو، اگر حاملہ ہے تو اس کا نفقہ و رہائش ضروری ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔
یعنی طلاق دینے کے بعد اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائے تو اس کی اجرت تمہارے ذمے ہے۔
یعنی باہم مشورے سے اجرت اور دیگر معاملات طے کر لئے جائیں۔ مثلاً بچے کا باپ حیثیت کے مطابق اجرت دے اور ماں، باپ کی حیثیت کے مطابق اجرت طلب کرے، وغیرہ۔
یعنی آپس میں اجرت وغیرہ کا معاملہ طے نہ ہوسکے تو کسی دوسری انا کے ساتھ معاملہ کرلے جو اسکے بچے کو دودھ پلائے
چاہیے کہ کشادگی والا اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس کو کم ہی رزق دیا گیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اس کو دیا ہے۔ جتنا جس کو اللہ نے دیا ہے اس سے زیادہ کسی پر وہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اللہ تنگی کے بعد کشادگی بھی پیدا کرے گا۔
خرچ کا معیار: یہ خرچ کا معیار بتا دیا کہ کشادہ حال کو اپنی کشادہ حالی کے معیار پر خرچ کرنا پڑے گا اور تنگ حال کو اپنی آمدنی کے مطابق۔ نہ کشادہ حال کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے معیار زندگی سے ان کو فروتر حال میں رکھے اور نہ غریب پر اس کی حیثیت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص پر ذمہ داری اس کی حیثیت کے اعتبار سے ڈالی ہے۔
غریبوں کو اطمینان دہانی: ’سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا‘۔ یہ غریبوں کو برسر موقع تسلی دی ہے کہ اگر وہ اپنی حالت پر قانع و صابر اور تنگ حالی کے باوجود خدا کے حدود کو قائم رکھنے کا اہتمام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے تنگی کے بعد آسانی پیدا کرے گا۔ غربت اور احتیاج کے باوجود اللہ کی خوشنودی کے لیے جو لوگ ایثار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت دیتا ہے۔
(تم میں سے) جو خوش حال ہو، وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس کو نپا تلا ہی ملا ہے، وہ اُسی میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اُسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا دیا ہے، اُس سے زیادہ کا وہ اُس پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ (تم مطمئن رہو)، اللہ تنگ دستی کے بعد جلد کشادگی بھی عطا فرمائے گا۔
یہ بڑی بشارت ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ غربت اور احتیاج کے باوجود اللہ کی خوشنودی کے لیے ایثار کرتے ہیں، اللہ اُن کے رزق میں برکت دیتا اور تنگ دستی کے بعد فراخی بھی عطا فرماتا ہے۔ تاہم اِس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صبر سے کام لے اور ہر حال میں خدا کے حدود کو قائم رکھنے کا اہتمام کرے۔
خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے۔
n/a
کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسب حیثیت) دے، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کر دے گا۔
یعنی دودھ پلانے والی عورتوں کو اجرت اپنی طاقت کے مطابق دی جائے اگر اللہ نے مال ودولت میں فراخی عطا فرمائی ہے تو اسی فراخی کے ساتھ مرضعۃ کی خدمت ضروری ہے۔
یعنی مالی لحاظ سے کمزور ہو۔
اس لیے وہ غریب اور کمزور کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ دودھ پلانے والی کو زیادہ اجرت ہی دے۔ مطلب ان ہدایات کا یہ ہے کہ بچے کی ماں اور بچے کا باپ دونوں ایسا مناسب رویہ اختیار کریں کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے اور بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ سنگین نہ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ :233) نہ ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے اور نہ باپ کو۔
چنانچہ جو اللہ پر اعتماد وتوکل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آسانی و کشادگی سے بھی نواز دیتا ہے۔
اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہوئی ہیں جنھوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو نہایت ہولناک عذاب دیا۔
ایک عام تنبیہ: اس آیت کا موقع و محل سمجھنے کے لیے سورۂ تغابن کی آیات ۶-۸ پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ یہ ایک عام تنبیہ ہے جس کے مخاطب قریش اور مسلمان سب ہیں کہ اللہ نے تمہاری رہنمائی کے لیے اپنی ہدایات نازل کر دی ہیں۔ اگر تم نے ان کی قدر کی تو ان کا فائدہ تمہی کو پہنچے گا اور اگر نافرمانی کی تو یاد رکھو کہ تم سے پہلے کتنی ہی قومیں گزر چکی ہیں جنھوں نے اپنے رب کے احکام اور اس کے رسولوں کی تعلیمات کی ناقدری کی تو اللہ نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو نہایت ہولناک عذاب دیا۔ یہ اشارہ عاد و ثمود وغیرہ کی طرف بھی ہے جن کی سرگزشتیں قرآن میں سنائی گئی ہیں اور یہود کی طرف بھی جن کو اللہ نے اپنی شریعت سے نوازا لیکن انھوں نے اس کی قدر نہیں کی تو وہ اللہ کے نہایت سخت عذاب کی گرفت میں آئے۔
’عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا‘ میں ’عَنْ‘ اس امر کا قرینہ ہے کہ ’عَتَتْ‘ یہاں ’اَعْرَضَتُ‘ کے مفہوم پر متضمن ہے یعنی سرکشی کے سبب سے انھوں نے اپنے رب کے حکم سے اعراض کیا۔ ’حَاسَبْنَا‘ یہاں محاسبہ کے مفہوم میں ہے یعنی اللہ نے ان پر سخت گرفت کی اور ان کو ہولناک عذاب دیا۔ ’نُکر‘ کے معنی شدید اور ہولناک کے ہیں۔
(یہ اللہ کے حدود ہیں۔ اِن سے روگردانی کرو گے تو یاد رکھو کہ تم سے پہلے) کتنی ہی بستیاں ایسی ہوئی ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار اور اُس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے اُن سے سخت محاسبہ کیا اور اُنھیں بڑی ہول ناک سزا دی۔
اصل الفاظ ہیں: ’عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّھَا‘۔ اِن میں ’عَنْ‘ اِس امر کا قرینہ ہے کہ ’عَتَتْ‘ یہاں اعراض کے مفہوم پر متضمن ہے، یعنی سرتابی کی اور منہ موڑا۔
کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کو تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بری طرح سزا دی۔
اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول اور اس کی کتاب کے ذریعہ سے جو احکام ان کو دیے گئے ہیں ان کی اگر وہ نافرمانی کریں گے تو دنیا اور آخرت میں کس انجام سے دوچار ہونگے، اور اگر اطاعت کی راہ اختیار کریں گے تو کیا جزا پائیں گے۔
اور بہت سی بستی والوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان سے سخت حساب کیا اور انہیں عذاب دیا ان دیکھا (سخت) عذاب۔
عَتَتُ ، ای تمردت وطغت و استکبرت عن اتباع امر اللہ تعالیٰ و متابعۃ رسلہ۔
نکرا، منکرا فظیعا، حساب اور عذاب، دونوں سے مراد دنیاوی مواخذہ اور سزا ہے یا پھر بقول بعض کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ عذابا نکرا، وہ عذاب ہے جو دنیا میں قحط، خسف ومسخ وغیرہ کی شکل میں انہیں پہنچا، اور حسابا شدیدا وہ ہے جو آخرت میں ہوگا۔
تو انھوں نے اپنے کیے کا وبال چکھا اور ان کا انجام نامرادی ہوا۔
یعنی جب وہ خدا کے محاسبہ کی زد میں آ گئیں تو انھیں اپنی سرکشی کا انجام بھگتنا پڑا اور ان کا انجام نامرادی ہوا۔ اس لیے کہ فلاح و بہبود کی واحد راہ وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بتائی ہے۔ اگر قومیں اپنی سرکشی کے سبب سے اس سے انحراف اختیار کرتی ہیں تو لازماً نامرادی سے دوچار ہوتی ہیں۔
سو اُنھوں نے اپنے کیے کا مزہ چکھ لیا اور اُن کا انجام کار محرومی ہوا-
یہ اُن قوموں کی طرف اشارہ ہے جن کے لیے دنیا ہی میں دینونت کا ظہورہوا۔ قرآن میں اُن کی سرگذشتیں کئی مقامات پر سنائی گئی ہیں۔
انہوں نے اپنے کیے کا مزا کچھ لیا اور ان کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے ،
n/a
پس انہوں نے اپنے کرتوت کا مزہ چکھ لیا اور انجام کار ان کا خسارہ ہی ہوا۔
n/a
اللہ نے ان کے لیے ایک سخت عذاب بھی تیار کر رکھا ہے۔ تو اللہ سے ڈرو، اے عقل والو، اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ نے تمہاری طرف ایک یاددہانی اتار دی ہے۔
ایک مؤثر تنبیہ و ترغیب: یہ نہایت واضح الفاظ میں مسلمانوں کو تنبیہ بھی ہے ساتھ ہی نہایت مؤثر انداز میں ترغیب بھی کہ اللہ نے تمہاری طرف اپنی یاددہانی (قرآن) بھی نازل کر دی اور اپنا رسول بھی بھیج دیا ہے۔ اب آگے کا کام تمہارا ہے کہ تاریکی سے روشنی کی طرف نکالنے کے لیے جو اہتمام اللہ نے فرمایا ہے اس کی قدر کرتے ہو یا ان قوموں کی تقلید کرتے ہو جن کا انجام نامرادی ہوا اور جن کے لیے اللہ نے ایک سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔
’فَاتَّقُوا اللَّہَ یَا أُولِی الْأَلْبَابِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘۔ یعنی جب قوموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اسی سنت کے مطابق ہوا جو مذکور ہوئی تو اے اہل عقل جو ایمان لائے ہو، دانش مندی کا راستہ یہی ہے کہ اپنے اللہ سے ڈرو۔ مطلب یہ ہے کہ تم نے ایمان کی راہ میں جو قدم بڑھایا ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہوئی کہ تم خواہشوں کے غلام نہیں بلکہ عقل سے کام لینے والے لوگ ہو کہ ایمان کی راہ اختیار کی تو اب تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے اللہ سے ڈرو اور اس کے حدود سے انحراف نہ اختیار کرو ورنہ تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو ان قوموں کا ہوا جنھوں نے اللہ کی بتائی ہوئی راہ سے انحراف کیا۔
عقل و ایمان لازم و ملزوم ہیں: ’یَا أُولِی الْأَلْبَابِ‘ کے بعد ’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘ سے یہ بات نکلتی ہے کہ عقل اور ایمان میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے۔ جو شخص عاقل ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایمان سے بہرہ ور ہو۔ اگر کوئی شخص ایمان سے بہرہ ور نہیں ہے تو خواہ وہ آسمان و زمین کا طول و عرض ناپنے میں کتنا ہی ماہر ہو لیکن اس کی عقل میں بہت بڑا فتور ہے۔
ہدایت کے لیے اہتمام: ’قَدْ أَنزَلَ اللہُ إِلَیْْکُمْ ذِکْرًا ۵ رَّسُوْلاً یَتْلُوْا عَلَیْْکُمْ آیَاتِ اللہِ مُبَیِّنَاتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوْرِ‘۔ یہ اس اہتمام کی طرف اشارہ ہے جو اللہ نے اپنی حجت تمام کر دینے کے لیے فرمایا ہے کہ تمہاری طرف اپنی یاددہانی بھی اس نے نازل کر دی ہے اور ایک رسول بھی بھیج دیا ہے جو ایمان و عمل صالح کی راہ اختیار کرنے والوں کو اللہ کی آیات سنا رہا ہے تاکہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی شاہراہ پر لائے۔ مطلب یہ ہے کہ اس اہتمام کے بعد بھی اگر تم نے روشنی پر تاریکی ہی کو ترجیح دی تو اس کی ذمہ داری تمہارے ہی اوپر ہو گی اور اس گمراہی کے لیے اپنے رب کے سامنے تم کوئی عذر نہ پیش کر سکو گے۔
رسول کی زندگی سراپا ذکر الٰہی ہوتی ہے: ’ذِکْراً ۵ رَّسُوْلاً‘ میں ’ذکر‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔ قرآن کو ’ذِکْرٰی‘ اور ’ذِی الذِّکْرِ‘ کے الفاظ سے بھی تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس تعبیر کے مضمرات کی طرف ہم اس کے محل میں اشارہ کر چکے ہیں۔ یہ انسانی فطرت کے تمام مضمرات کی یاددہانی کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خلق کی رہنمائی کے لیے جو ہدایات بھیجیں اور جن کو قومیں فراموش کرتی رہیں ان کی بھی یاددہانی کرتا ہے، رسولوں کی تکذیب کرنے والوں اور ان پر ایمان لانے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو معاملہ کیا اس کی بھی یاددہانی کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس جزا اور سزا کی یاددہانی کرتا ہے جس کا ایک معین دن اس زندگی کے بعد لازماً ظہور میں آنے والا ہے جو اس دنیا کی غایت و نہایت ہے۔
’رَسُوْلًا‘ یہاں ’ذِکْرًا‘ سے بدل ہے اور اس کا بدل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں میں روح اور قالب کا رشتہ ہے۔ چنانچہ قرآن کے لیے جس طرح لفظ ’ذکر‘ آیا ہے اسی طرح رسول کے لیے ’مُذَکِّرٌ‘ آیا ہے
’اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِرٌ‘ (الغاشیہ ۸۸: ۲۱)
(تم تو بس ایک مُذکّر ہو)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سراپا ان حقائق کی یاددہانی تھی جن کی یاددہانی کے لیے قرآن نازل ہوا۔ یعنی قرآن نے جو کچھ بتایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کچھ کر کے بھی دکھا دیا جس سے لوگوں پر اللہ کی حجت اس طرح پوری ہو گئی کہ اس میں کسی پہلو سے کوئی کسر باقی نہیں رہی۔
اللہ نے (آخرت میں) اُن کے لیے ایک سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اِس لیے اللہ سے ڈرو، عقل والو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ نے تمھاری طرف ایک یاددہانی نازل کر دی ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ عقل اور ایمان میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے۔ آدمی عاقل ہے تو لازماً ایمان لائے گا اور ایمان نہیں رکھتا تو اُس کی عقل میں ضرور کوئی فتور ہے اور وہ جذبات، خواہشات اور تعصبات سے مغلوب ہو چکی ہے۔
اللہ نے (آخرت میں) ان کے لیئے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ پس اللہ سے ڈرو اے صاحب عقل لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کردی ہے ،
n/a
ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، پس اللہ سے ڈرو اے عقل مند ایمان والو۔ یقیناً اللہ نے تمہاری طرف نصیحت اتار دی ہے۔
n/a
امین احسن اصلاحی
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے حساب سے طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور اللہ سے، جو تمہارا پروردگار ہے، ڈرتے رہو اور ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو۔ اور نہ وہ خود ہی نکلیں الّاآنکہ وہ کسی کھلی ہوئی بدکاری کی مرتکب ہوں۔ اور یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کریں گے تو انھوں نے اپنی ہی جان پر ظلم ڈھایا۔ تم نہیں جانتے شاید اللہ اس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کر دے۔
نبی صلعم سے خطاب کی اہمیت: تمہید میں ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب شخصاً نہیں بلکہ امت کے وکیل کی حیثیت سے ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کو خطاب کرنے کے بعد معاً ’طَلَّقْتُمْ‘ میں ضمیر خطاب جمع آ گئی ہے جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں جو احکام دیے جا رہے ہیں وہ ہیں تو تمام مسلمانوں کے لیے البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے یہ احکام دینے سے ان کی اہمیت، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، بہت بڑھ گئی ہے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ لوگوں کے اندر ان کی عظمت کا احساس پیدا ہو کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ان باتوں کی پابندی لازمی ہے تو دوسروں پر تو بدرجہا زیادہ ہو گی۔
طلاق کے باب میں حدودِ الٰہی کا احترام: جاہلیت میں طلاق کا عام طریقہ یہ رہا ہے کہ جس کو بھی بیوی پر کسی سبب سے غصہ آیا وہ نتائج و عواقب کا لحاظ کیے بغیر، ایک ہی سانس میں تین ہی نہیں بلکہ ہزاروں طلاقیں دے ڈالتا اور ساتھ ہی اس کو گھر سے باہر بھی نکال دیتا کہ جب طلاق دے چھوڑی تو اب اپنے گھر میں اس کی ایک وقت کی روٹی کا بھی خرچ کیوں برداشت کرے! اس طرح طلاق دینے میں عورت، مرد، بچوں بلکہ پورے کنبہ کے لیے یہاں تک کہ اس بچہ کے لیے بھی، جو عورت کے پیٹ میں بصورت حمل ہو سکتا ہے، جو مضرّتیں ہیں ان پر سورۂ بقرہ کی تفسیر میں بحث ہو چکی ہے۔ یہاں انہی مضرّتوں کو پیش نظر رکھ کر ہدایت فرمائی کہ غصہ اور نفرت کے جوش میں اللہ کے مقرر کیے ہوئے حدود و قیود کو نہ بھولو۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔
’اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ‘۔ فرمایا کہ جب کسی کو طلاق دینے کی نوبت آئے تو وہ عدت کے حساب سے طلاق دے اور اس عدت کا اہتمام سے شمار رکھے۔ اس کی وضاحت سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہے۔ وہاں فرمایا ہے: ’اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ‘ (البقرہ ۲: ۲۲۹) جس سے معلوم ہوا کہ یہ جائز نہیں ہے کہ ایک ہی سانس میں تین یا تین سے زیادہ طلاقیں دے کر بیوی کو جدا کر دے بلکہ دو مہینوں میں، دو طُہروں کے اندر، طلاق دے اور پھر تیسرے طُہر میں اگر چاہے تو مراجعت کر لے اگر اس کو حسن سلوک کے ساتھ، بیوی کی طرح رکھنا مقصود ہو، ورنہ دستور کے مطابق رخصت کر دے۔ اگر آخری فیصلہ قطع تعلق ہی کا ہے۔ اس عدت کا شمار میاں اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے۔ بیوی کے لیے اس وجہ سے ضروری ہے کہ ان تین مہینوں کے اندر، جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۲۸ میں بیان ہوا، وہ اس بات کی پابند ہے کہ کسی اور مرد کی زوجیت میں نہیں جا سکتی۔ میاں کے لیے اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس مدت کے اندر اس کو حق حاصل ہے کہ اگر وہ اس کو بیوی کی طرح رکھنا چاہے تو مراجعت کر لے۔ اس مدت کے گزر جانے کے بعد اس کا یہ حق ختم ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ اس دوران میں اگر معلوم ہوا کہ عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل تک ممتد ہوجائے گی اور اس دوران میں عورت کے نان نفقہ اور اس کی رہائش کی ساری ذمہ داری مرد پر ہو گی۔
’وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ‘۔ فرمایا کہ اللہ سے، جو تمہارا خداوند ہے، ڈرتے رہو۔ ’ڈرتے رہو‘ یعنی اس کے مقرر کیے ہوئے ان حدود کی پابندی، اس غصہ کے باوجود کرتے رہو جو تمہارے اندر بیوی کے خلاف پیدا ہو چکا ہے۔ اگر حدود توڑو گے تو یاد رکھو کہ اپنے اس خداوند کے حدود توڑو گے جس کی اطاعت تم پر واجب ہے اور جس کی پکڑ اور جس کے قہر و غضب سے تمہیں کوئی نہ بچا سکے گا۔
طلاق میں عدت کی پابندی کی بعض مصلحتیں: ’لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ م بُیُوْتِھِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ‘۔ اس عدت کے دوران نہ تو تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ انہی کے لیے جائز ہے کہ وہ وہاں سے اٹھ کھڑی ہوں بلکہ دونوں یکجا ایک ہی گھر میں رہیں تاکہ باہمی سازگاری اور اصلاح احوال کی کوئی گنجائش ہو تو یہ یکجائی اس میں مددگار ہو۔ اللہ تعالیٰ کو میاں بیوی کا رشتہ ٹوٹنا پسند نہیں ہے۔ طلاق ایک مجبوری کا علاج ہے۔ اللہ نے بندوں کی مجبوریوں کے تحت اس کو جائز تو رکھا ہے لیکن یہ ’اکرہ المباحات‘ یعنی جائز چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکروہ ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے بندوں کو اس سے بچانے ہی کے لیے طلاق پر عدت کی شرط عائد کی ہے اور یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ اس مدت میں میاں بیوی دونوں ایک ہی گھر میں رہیں تاکہ دونوں ٹھنڈے دل سے اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کر سکیں کہ آخری قدم اٹھانے سے پہلے سازگاری اور اصلاح احوال کا کوئی امکان ہے یا نہیں؟
زمانۂ عدت میں شوہر کا گھر بیوی کا بھی گھر ہے: ’لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ م بُیُوْتِھِنَّ‘ میں لفظ ’بُیُوْتِھِنَّ‘ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ مرد کو یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ گھر اسی کا ہے بلکہ یہ گھر جس طرح اس کا ہے اسی طرح زمانۂ عدت میں بیوی کا بھی ہے اس وجہ سے نہ تو مرد کے لیے جائز ہے کہ بیوی کو اس کے گھر سے نکالے اور نہ بیوی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ برہم ہو کر گھر سے چل کھڑی ہو۔ یہاں نکلنے سے مراد وہ نکلنا نہیں ہے جو معمولاً اپنی چھوٹی موٹی ضروریات کے لیے ہوا کرتا ہے بلکہ وہ نکلنا ہے جو کسی گھر کے خیرباد کہنے کے معنی میں ہوتا ہے۔
ایک مستثنیٰ صورت: ’اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ‘۔ یعنی اس سے صرف ایک شکل مستثنیٰ ہے وہ یہ کہ مرد نے عورت کو طلاق کسی ایسی حرکت کی بنا پر دی ہو جو ’فَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ‘ کے حکم میں داخل ہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ زنا یا اس کے لوازم و مقدمات ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ ان سے کم درجے کی برائی کے لیے اس لفظ کا استعمال معروف نہیں ہے۔ اگر مرد کی نگاہ عورت کی کسی ایسی حرکت پر پڑی ہے اور اس سے مشتعل ہو کر اس نے طلاق دی ہے تو پھر نہ مرد سے یہ مطالبہ کرنا جائز ہے کہ وہ ایسی عورت کو اپنے گھر میں ڈالے رکھے اور نہ اس سے اس فائدہ کے حاصل ہونے ہی کی توقع ہے جس کے لیے شریعت نے یہ یکجائی ضروری قرار دی ہے۔ کسی باحمیت مرد سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ اس کے دل کے اندر کسی ایسی عورت کے لیے کبھی گنجائش پیدا ہو سکے گی جس کی بے وفائی اس کے علم میں آ چکی ہو۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جن میاں بیوی کے درمیان لعان تک نوبت پہنچ جاتی ہے ان کے درمیان فقہاء جدائی کرا دینے ہی میں بہتری خیال کرتے ہیں اس لیے کہ جو مرد بقید قسم اپنی بیوی کو فاحشہ قرار دے چکا ہر چند اس کے الزام کا قانونی توڑ عورت کی جوابی قسم سے ہو جاتا ہو لیکن اس جوابی قسم سے مرد کے دل کو نہیں بدلا جا سکتا۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنی بیوی کو ایسی بنیاد پر طلاق دی ہے جو ’فاحشہ مبینہ‘ سے تعلق رکھنے والی ہے تو اس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ اس کا دل کبھی عورت سے صاف ہو سکے گا۔
حدود الٰہی کی خلاف ورزی کا ضرر خلاف ورزی کرنے والوں کو پہنچتا ہے: ’وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ‘۔ یہ تنبیہ اور نہایت اہم تنبیہ ہے۔ فرمایا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں ہیں تو جو ان کو لانگنے کی جسارت کرے گا وہ یاد رکھے کہ وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا بلکہ اپنی ہی جان پر ظلم ڈھائے گا۔ اللہ نے جو قیدیں اور پابندیاں بندوں پر عائد کی ہیں کسی اپنے نفع کے لیے نہیں عائد کی ہیں بلکہ بندوں ہی کی بہبود کے لیے عائد کی ہیں۔ جو لوگ ان کو توڑتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ ان کو توڑ کر اپنے ہی شخصی، نوعی، عائلی اور اجتماعی مصالح برباد کرتے ہیں۔
ایک عظیم حکمت: ’لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا‘۔ یہ اس مصلحت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو ’لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ م بُیُوْتِھِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ‘ کی ہدایت میں مضمر ہے۔ فرمایا کہ تم نہیں جانتے، شاید اللہ تعالیٰ اس طرح کوئی ایسی بات پیدا کر دے کہ میاں بیوی میں اختلاف کے بعد ملاپ کی صورت پیدا ہوجائے۔ یعنی اس یکجائی کے دوران میں میاں اور بیوی دونوں کے اندر اپنے رویہ کے جائزہ لینے کا احساس ابھرے اور ان کے پھٹے ہوئے دل ایک دوسرے سے ازسرنو جڑ جائیں اور ان کا اجڑتا گھر پھر آباد ہو جائے۔ اگر ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے۔ وہ دلوں کو جڑا ہوا اور گھروں کو آباد دیکھنا پسند کرتا ہے۔ یہ پسند نہیں کرتا کہ میاں بیوی میں ایسی ناچاقی پیدا ہو کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں اور صرف وہی جدا نہ ہوں بلکہ ان کے بچے ہوں تو وہ بھی اپنی ماں سے اور ماں بھی اپنے بچوں سے جدا ہو جائے۔