اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں کے لیے اعلان براء ت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔
اِس سورہ کی ابتدا میں ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ نہیں لکھی جاتی۔ اِس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ سورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین پر اُس عذاب کا اعلان کیا گیا ہے جو پیغمبروں کی تکذیب کے نتیجے میں اُن کے منکرین پر لازماً آتا ہے۔ خدا کی زمین پر یہ اُس کی آخری دینونت کی سرگذشت ہے جس میں مشرکین کے قتل عام اور اہل کتاب کو محکوم بنا لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ کی ابتدا جن الفاظ سے ہوئی ہے، اُن کے ساتھ کسی طرح موزوں نہیں تھا کہ خدا کی رحمت و شفقت کا حوالہ دیا جائے۔ یہ خدا کے جلال اور قہر و غضب کے ظہور کا موقع ہے، اِس لیے ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ سے ابتدا نہیں کی گئی۔
دنیا میں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع دیا گیا ہے، وہ کسی حق کی بنیاد پر نہیں ہے،بلکہ محض امتحان کے لیے ہے۔ پیغمبروں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہ امتحان پورا ہو جاتا ہے تو یہ ضرورت بھی اِس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے کہ اُنھیں باقی رکھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین اب اِسی مقام پر پہنچ چکے تھے۔ چنانچہ آگے جس قتل عام کا حکم دیا گیا ہے، وہ خدا کی اِس سنت کا ظہور ہے کہ رسولوں کے مخاطبین اُن کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اِسی دنیا میں عذاب سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اِس عذاب کا فیصلہ بھی خدا کرتا ہے اور جن پر یہ نازل کیا جاتا ہے، وہ بھی خدا کی طرف سے متعین کرکے بتا دیے جاتے ہیں۔ کوئی شخص ، یہاں تک کہ خدا کا پیغمبر بھی اپنی طرف سے اِس کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ سورۂ توبہ اِسی فیصلے کا اعلان ہے۔ تاہم اخلاقی لحاظ سے ضروری تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کے ساتھ تبلیغ و دعوت اور اتمام حجت کی مصلحت سے معاہدے کر رکھے ہیں ، کسی اقدام سے پہلے اُنھیں ختم کر دیا جائے۔ یہ اُنھی معاہدات سے براء ت کی گئی ہے۔ آیت میں لفظ ’بَرَآءَ ۃ‘ کے بعد ’اِلٰی‘ ہے۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ’ابلاغ‘ کا مفہوم بھی مضمر ہے ۔ یعنی اِس دست برداری کی اطلاع اُن تک پہنچا دی جائے۔
اعلان برات ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔
سورة التَّوْبَة
نام :
یہ سورة دو ناموں سے مشہور ہے۔ ایک التوبہ دوسرے البراءَۃ۔ توبہ اس لحاظ سے کہ اس میں ایک جگہ بعض اہل ایمان کے قصوروں کی معافی کا ذکر ہے۔ اور براءۃ اس لحاظ سے کہ اس کے آغاز میں مشرکین سے بریٔ الذمہ ہونے کا اعلان ہے۔
بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ :
اس سورة کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازی نے لکھی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی اس لیے صحابہ کرام نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے۔
زمانہ نزول اور اجزاءِ سوُرہ :
” یہ سورة تین تقریروں پر مشتمل ہے :
پہلی تقریر آغاز سورة سے پانچویں رکوع کے آخر تک چلتی ہے۔ اس کا زمانہ نزول ذی القعدہ سن ٩ ھجری یا اس کے لگ بھگ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سال حضرت ابوبکر (رض) کو امیر الحاج مقرر کر کے مکہ روانہ کرچکے تھے کہ یہ تقریر نازل ہوئی اور حضور نے فوراً سیدنا علی (رض) کو ان کے پیچھے بھیجا تاکہ حج کے موقع پر تمام عرب کے نمائندہ اجتماع میں اسے سنائیں اور اس کے مطابق جو طرز عمل تجویز کیا گیا تھا اس کا اعلان کردیں۔
دوسری تقریر رکوع ٦ کی ابتدا سے رکوع ٩ کے اختتام تک چلتی ہے اور یہ رجب ٩ ھجری یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ اس میں اہل ایمان کو جہاد پر اکسایا گیا ہے اور ان لوگوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جو نفاق یا ضعف ایمان یا سستی و کاہلی کی وجہ سے راہ خدا میں جان و مال کا زیاں برداشت کرنے سے جی چرا رہے تھے۔
تیسری تقریر رکوع ١٠ سے شروع ہو کر سورة کے ساتھ ختم ہوتی ہے اور یہ غزوہ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئی۔ اس میں متعدد ٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہی ایام میں مختلف مواقع پر اترے اور بعد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ الہٰی سے ان سب کو یکجا کر کے ایک سلسہ تقریر میں منسلک کردیا۔ مگر چونکہ وہ ایک ہی مضمون اور ایک ہی سلسلہ واقعات سے متعلق ہیں اس لیے ربط تقریر میں کہیں خلل نہیں پایا جاتا۔ اس میں منافقین کی حرکات پر تنبیہ، غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پر زجر و توبیخ، اور ان صادق الایمان لوگوں پر ملامت کے ساتھ معانی کا اعلان ہے جو اپنے ایمان میں سچے تو تھے مگر جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے سے باز رہے تھے۔
نزول ترتیب کے لحاظ سے پہلی تقریر سب سے آخر میں آنی چاہیے تھی، لیکن مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے وہی سب سے مقدم تھی، اس لیے مصحف کی ترتیب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پہلے رکھا اور بقیہ دونوں تقریروں کو مؤخر کردیا۔
تاریخی پس منظر :
زمانہ نزول کی تعیین کے بعد ہمیں اس سورة کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ جس سلسلہ واقعات سے اس کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتدا صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے۔ حدیبیہ تک چھ سال کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہوچکا تھا کہ عرب کے تقریبًا ایک تہائی حصہ میں اسلام ایک منظم سوسائٹی کا دین، ایک مکمل تہذیب و تمدّن، اور ایک کامل با اختیار ریاست بن گیا تھا۔ حدیبیہ کی صلح جب واقع ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہوگیا کہ اپنے اثرات نسبۃ زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں ہر چہار طرف پھیلا سکے۔ اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو بڑے راستے اختیار کیے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر منتہی ہوئے۔ ان میں سے ایک کا تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنت روم سے۔
عرب کی تسخیر :
عرب میں حدیبیہ کے بعد دعوت و تبلیغ اور استحکام قوت کی جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان کی بدولت دوسال کے اندر ہی اسلام کا دائرہ اثر اتنا پھیل گیا اور اس کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ پرانی جاہلیت اس کے مقابلہ میں بےبس ہو کر رہ گئی۔ آخر کار جب قریش کے زیادہ پر جوش عناصر نے بازی ہر تی دیکھی تو انہیں یاراے ضبط نہ رہا اور انہوں نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑ ڈالا۔ وہ اس بندش سے آزاد ہو کر اسلام سے ایک آخری فیصلہ کن مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس عہد شکنی کے بعد ان کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور اچانک مکہ پر حملہ کر کے رمضان سن ٨ ھجری میں اسے فتح کرلیا۔ اس کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت مذبوحی حُنَین کے میدان میں کہ جہاں ہوازن، ثقیف، نضر، جشم اور بعض دوسرے جاہلیت پرست قبائل نے اپنی ساری طاقت لا کر جھونک دی تاکہ اس اصلاحی انقلاب کو روکیں جو فتح مکہ کے بعد تکمیل کے مرحلے پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہوگیا کہ اسے اب دارالاسلام بن کر رہنا ہے۔ اس واقعہ پر پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایا کہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا اور نظام جاہلیت کے صرف چند پراگندہ عناصر ملک کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے۔ اس نتیجہ کے حد کمال تک پہنچنے میں ان واقعات سے اور زیادہ مدد ملی جو شمال میں سلطنت روم کی سرحد پر اسی زمانہ میں پیش آرہے تھے۔ وہاں جس جرأت کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٣٠ ہزار کا زبردست لشکر لے کر گئے اور رومیوں نے آپ کے مقابلہ پر آنے سے پہلو تہی کر کے جو کمزوری دکھائی اس نے تمام عرب پر آپ کی اور آپ کے دین کی دھاک بٹھا دی اور اس کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ تبوک سے واپس آتے ہی حضور کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد آنے شروع ہوگئے اور وہ اسلام و اطاعت کا اقرار کرنے لگے۔ چنانچہ اسی کیفیت کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ وَرَ اَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا۔ ” جب اللہ کی مدد آگئی، اور فتح نصیب ہوئی اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں “۔
غزوہ تبوک :
رومی سلطنت کے ساتھ کشمکش کی ابتدا فتح مکہ سے پہلے ہوچکی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو وفود عرب کے مختلف حصوں میں بھیجے تھے ان میں سے ایک شمال کی طرف سرحد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیر اثر تھے۔ ان لوگوں نے ذات الطَّلح (یا ذات اطلاح) کے مقام پر اس وفد کے ١٥ آدمیوں کو قتل کردیا اور صرف رئیس وفد کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے۔ اسی زمانہ میں حضور نے بصریٰ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا بیغام بھیجا تھا، مگر اس نے آپ کے ایلچی حارث بن عمیر کو قتل کردیا۔ یہ رئیس بھی عیسائی تھا اور براہ راست قیصر روم کے احکام کا تابع تھا۔ ان وجوہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمادی الاولیٰ سن ٨ ھجری میں تین ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحد شام کی طرف بھیجی تاکہ آئندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پر امن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بےزور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں۔ یہ فوج جب مَعَان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلہ پر آرہا ہے، خود قیصر روم حمص کے مقام پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے۔ لیکن ان خوفناک اطلاعات کے باوجود ٣ ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور مُؤتَہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جا ٹکرایا۔ اس تہوّر کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدین اسلام بالکل پس جاتے، لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور ٣٣ کے اس مقابلہ میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے۔ یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل کو، بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی، جو کسری کے زیر اثر تھے، اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔ بنی سُلَیم (جن کے سردار عباس بن مرداس سلمی تھے) اور اشجع اور غَطَفان اور ذبیان اور فزارَہ کے لوگ اسی زمانہ میں داخل اسلام ہوئے۔ اور اسی زمانہ میں سلطنت روم کی عربی فوجوں کا ایک کمانڈر فروہ بن عمرو الجذامی مسلمان ہوا جس نے اپنے ایمان کا ایسا زبردست ثبوت دیا کہ گرد و پیش کے سارے علاقے اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ قیصر کو جب فروہ کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو اس نے انہیں گرفتار کرا کے اپنے دربار میں بلوایا اور ان سے کہا کہ دو چیزوں میں سے ایک کو منتخب کرلو۔ یا ترک اسلام جس کا نتیجہ میں تم کو نہ صرف رہا کیا جائے گا بلکہ تمہیں اپنے عہدے پر بھی بحال کردیا جائے گا، یا اسلام جس کے نتیجہ میں تمہیں سزائے موت دی جائے گی۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے اسلام کو چن لیا اور راہ حق میں جان دے دی۔ یہی واقعات تھے جنہوں نے قیصر کو اس ” خطرے “ کی حقیقی اہمیت محسوس کرائی جو عرب سے اٹھ کر اس کی سلطنت کی طرف بڑھ رہا تھا۔
دوسرے ہی سال قیصر نے مسلمانوں کو غزوہ مُؤتہ کی سزا دینے کے لیے سرحد شام پر فوجی تیاریاں شروع کردیں اور اس کے ماتحت غسّائی اور دوسرے عرب سردار فوجیں اکٹھی کرنے لگے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بیخبر نہ تھے۔ آپ ہر وقت ہر اس چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی خبردار رہتے تھے جس کا اسلامی تحریک پر کچھ بھی موافق یا مخالف اثر پڑتا ہو۔ آپ نے ان تیاریوں کے معنی فورا سمجھ لیے اور بغیر کسی تامل کے قیصر کی عظیم الشان طاقت سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس موقع پر ذرہ برابر بھی کمزوری دکھائی جاتی تو سارا بنا بنایا کام بگڑ جاتا۔ ایک طرف عرب کی دم توڑتی ہوئی جاہلیت، جس پر حُنَین میں آخری ضرب لگائی جا چکی تھی، پھر جی اٹھتی۔ دوسری طرف مدینہ کے منافقین، جو ابوعامر راہب کے واسطے سے غسان کے عیسائی بادشاہ اور خود قیصر کے ساتھ اندرونی ساز باز رکھتے تھے، اور جنہوں نے اپنی ریشہ دوانیوں پر دین داری کا پردہ ڈالنے کے لیے مدینہ سے متصل ہی مسجد ضرار تعمیر کر رکھی تھی، بغل میں چھرا گھونپ دیتے۔ سامنے سے قیصر، جس کا دبدبہ ایرانیوں کو شکست دینے کے بعد تمام دور و نزدیک کے علاقوں پر چھا گیا تھا، حملہ آور ہوتا۔ اور ان تین زبردست خطروں کی متحدہ یورش میں اسلام کی جیتی ہوئی بازی یکایک مات کھا جاتی۔ اس لیے باوجود اس کے کہ ملک میں قحط سالی تھی، گرمی کا موسم پورے شباب پر تھا، فصلیں پکنے کے قریب تھیں، سواریوں اور سروسامان کا انتظام سخت مشکل تھا، سرمایہ کی بہت کمی تھی اور دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک کا مقابلہ در پیش تھا، خدا کے نبی نے یہ دیکھ کر کہ یہ دعوت حق کے لیے زندگی و موت کے فیصلہ کی گھڑی ہے، اسی حال میں تیاری جنگ کا اعلان عام کردیا۔ پہلے تمام غزوات میں تو حضور کا قاعدہ تھا کہ آخر وقت تک کسی کو نہ بتاتے تھے کہ کدھر جانا ہے اور کس سے مقابلہ دریپیش ہے، بلکہ مدینے سے نکلنے کے بعد بھی منزل مقصود کی طرف سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے پھیر کی راہ سے تشریف لے جاتے تھے۔ لیکن اس موقع پر آپ نے یہ پردہ بھی نہ رکھا اور صاف صاف بتا دیا کہ روم سے مقابلہ ہے اور شام کی طرف جانا ہے۔
اس موقع کی نزاکت کو عرب میں سب ہی محسوس کر رہے تھے۔ جاہلیت قدیمہ کے بچے کھچے عاشقوں کے لیے یہ ایک آخری شعاع امید تھی اور روم و اسلام کی اس ٹکر کے نتیجہ پر وہ بےچینی کے ساتھ نگاہیں لگائے ہوئے تھے۔ کیونکہ وہ خود بھی جانتے تھے کہ اس کے بعد پھر کہیں سے امید کی جھلک نہیں دکھائی دینی ہے۔ منافقین نے بھی اپنی آخری بازی اسی پر لگا دی تھی اور وہ اپنی مسجد ضرار بنا کر اس انتظار میں تھے کہ شام کی جنگ میں اسلام کی قسمت کا پانسہ پلٹے تو ادھر اندرون ملک میں وہ اپنے فتنہ کا علم بلند کریں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس مہم کو ناکام کرنے کے لیے تمام ممکن تدبیریں بھی استعمال کر ڈالیں۔ ادھر مومنین صادقین کو بھی پورا احساس تھا کہ جس تحریک کے لیے ٢٢ سال سے وہ سربکف رہے ہیں، اس وقت اس کی قسمت ترازو میں ہے، اس موقع پر جرأت دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ اس تحریک کے لیے ساری دنیا پر چھا جانے کا دروازہ کھل جائے، اور کمزوری دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ عرب میں بھی اس کی بساط الٹ جائے۔ چنانچہ اسی احساس کے ساتھ ان فدائیانِ حق نے انتہائی جوش و خروش سے جنگ کی تیاری کی۔ سروسامان کی فراہمی میں ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت عثمان (رض) اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف (رض) نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنی عمر بھر کی کمائی کا آدھا حصہ لا کر رکھ دیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اپنی ساری پونجی نذر کردی۔ غریب صحابیوں نے محنت مزدوری کر کر کے جو کچھ کمایا لا کر حاضر کردیا۔ عورتوں نے اپنے زیور اتار اتار کر دے دیے۔ سرفروش والنٹیروں کے لشکر کے لشکر ہر طرف سے امنڈ امنڈ کر آنے شروع ہوئے اور انہوں نے تقاضا کیا کہ اسلحہ اور سواریوں کا انتظام ہو تو ہماری جانیں قربان ہونے کو حاضر ہیں۔ جن کو سواریاں نہ مل سکیں وہ روتے تھے اور اپنے اخلاص کی بےتابیوں کا اظہار اس طرح کرتے تھے کہ رسول پاک کا دل بھر آتا تھا۔ یہ موقع عملًا ایمان اور نفاق کے امتیاز کی کسوٹی بن گیا تھا، حتیٰ کہ اس وقت پیچھے رہ جانے کے معنی یہ تھے کہ اسلام کے ساتھ آدمی کے تعلق کی صداقت ہی مشتبہ ہوجائے۔ چنانچہ تبوک کی طرف جاتے ہوئے دوران سفر میں جو جو شخص پیچھے رہ جاتا تھا صحابہ کرام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر دیتے تھے اور جواب میں حضور برجستہ فرماتے تھے کہ دعوہ فان یک فیہ خیر فسیلحقہ اللہ بکم وان یک غیر ذٰلک فقد اراحکم اللہ منہ۔ ” جانے دو، اگر اس میں کچھ بھلائی ہے تو اللہ اسے پھر تمہارے ساتھ لا ملائے گا اور اگر کچھ دوسری حالت ہے تو شکر کرو کہ اللہ نے اس کی جھوٹی رفاقت سے تمہیں خلاصی بخشی “۔
رجب سن ٩ ھجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٣٠ ہزار مجاہدین کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے جن میں دس ہزار سوار تھے۔ اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس پر گرمی کی شدت اور پانی کی قلت مستزاد۔ مگر جس عزم صادق کا ثبوت اس نازک موقع پر مسلمانوں نے دیا اس کا ثمرہ تبوک پہنچ کر انہیں نقد مل گیا۔ وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ قیصر اور اس کے تابعین نے مقابلہ پر آنے کے بجائے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا لی ہیں اور اب کوئی دشمن موجود نہیں ہے کہ اس سے جنگ کی جائے۔ سیرت نگار بالعموم اس واقعہ کو اس انداز سے لکھ جاتے ہیں کہ گویا وہ خبر ہی سرے سے غلط نکلی جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رومی افواج کے اجتماع کے متعلق ملی تھی۔ حالانکہ دراصل واقعہ یہ تھا کہ قیصر نے اجتماع افواج شروع کیا تھا، لیکن جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تیاریاں مکمل ہونے سے پہلے ہی مقابلہ پر پہنچ گئے تو اس نے سرحد سے فوجیں ہٹا لینے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا۔ غزوہ موتہ میں ٣ ہزار اور ایک لاکھ کے مقابلہ کی جو شان وہ دیکھ چکا تھا اس کے بعد اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں جہاں ٣٠ ہزار فوج آ رہی ہو وہاں وہ لاکھ دو لاکھ آدمی لے کر میدان میں آجاتا۔
قیصر کے یوں طرح دے جانے سے جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مرحلے پر کافی سمجھا اور بجائے اس کے تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے، آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی و حربی فوائد حاصل کرلیں۔ چنانچہ آپ نے تبوک میں ٢٠ دن ٹھیر کر ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دارالاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کے زیر اثر رہی تھیں، فوجی دباؤ سے سلطنت اسلامی کا باجگذار اور تابع امر بنالیا۔ اس سلسلہ میں دومَۃ الجَندَل کے عیسائی رئِس اُکَیدربن عبدالمالک کندی، ایلہ کے عیسائی رئیس یوحنّا بن رُؤبہ، اور اسی طرح مقنا، جَرباء اور اذرُح کے نصرانی رؤسا نے بھی جزیہ ادا کر کے مدینہ کی تابعیت قبول کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہ راست رومی سلطنت کی سرحد تک پہنچ گئے اور جن عرب قبائل کو قیاصرہ روم اب تک عرب کے خلاف استعمال کرتے رہے تھے، اب ان کا بیشتر حصہ رومیوں کے مقابلہ پر مسلمانوں کا معاون بن گیا۔ پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سلطنت روم کے ساتھ ایک طویل کشمکش میں الجھ جانے سے پہلے اسلام کو عرب پر اپنی گرفت مضبوط کرلینے کا پورا موقع مل گیا۔ تبوک کی اس فتح بلا جنگ نے عرب میں ان لوگوں کی کمر توڑ دی جو اب تک جاہلیت قدیمہ کے بحال ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے، خواہ وہ علانیہ مشرک ہوں یا اسلام کے پردہ میں منافق بنے ہوئے ہوں۔ اس آخری مایوسی نے ان میں سے اکثر و بیشتر کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہنے دیا کہ اسلام کے دامن میں پناہ لیں اور اگر خود نعمت ایمانی سے بہرہ ور نہ بھی ہوں تو کم از کم ان کی آئندہ نسلیں بالکل اسلام میں جذب ہوجائیں۔ اس کے بعد جو ایک برائے نام اقلیت شرک و جاہلیت میں ثابت قدم رہ گئی، وہ اتنی بےبس ہوگئی تھی کہ اس اصلاحی انقلاب کی تکمیل میں کچھ بھی مانع نہ ہو سکتی تھی جس کے لیے اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا تھا۔
مسائل و مباحث :
اس پس منظر کو نگاہ میں رکھنے کے بعد ہم بآسانی ان بڑے بڑے مسائل کا احصاء کرسکتے ہیں جو اس وقت درپیش تھے اور جن سے سورة توبہ میں تعرض کیا گیا ہے :
(١) اب چونکہ عرب کا نظم و نسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آگیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بےبس ہوچکی تھیں، اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آجانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دارالاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی، چنانچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی :
الف۔ عرب سے شرک کو قطعًا مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تاکہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہوجائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب بن سکے۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براءت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔
ب۔ کعبہ کا انتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں آجانے کے بعد یہ بالکل نامناسب تھا کہ جو گھر خالص خدا کی پرستش کے لیے وقف کیا گیا تھا اس میں بدستور شرک ہوتا رہے اور اس کی تولِیَت بھی مشرکین کے قبضہ میں رہے۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ کعبہ کی تولیت بھی اہل توحید کے قبضہ میں رہنی چاہیے اور بیت اللہ کے حدود میں شرک و جاہلیت کی تمام رسمیں بھی بزور بند کر دینی چاہییں، بلکہ اب مشرکین اس گھر کے قریب پھٹکنے بھی نہ پائیں تاکہ اس بنائے ابراہیمی کے آلودہ شرک ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
ج۔ عرب کی تمدنی زندگی میں رسوم جاہلیت کے جو آثار ابھی تک باقی تھے ان کا جدید اسلامی دور میں جاری رہنا کسی طرح درست نہ تھا اس لیے ان کے استیصال کی طرف توجہ دلائی گئی۔ نسی کا قاعدہ ان رسوم میں سب سے زیادہ بدنما تھا اس لیے اس پر براہ راست ضرب لگائی گئی اور اسی ضرب سے مسلمانوں کو بتا دیا گیا کہ بقیہ آثار جاہلیت کے ساتھ انہیں کیا کرنا چاہیے۔
(٢) عرب میں اسلام کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے تھا وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دین حق کا دائرہ اثر پھیلا جائے۔ اس معاملہ میں روم و ایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سد راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی و تمدّنی نظاموں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں ان کو خود مختارانہ فرماں روائی کو بزور شمشیر ختم کردو تاآنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہو کر رہنا قبول کرلیں۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائیٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلّط کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انہیں اختیار دیا جاسکتا ہے وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں۔
(٣) تیسرا اہم مسئلہ منافقین کا تھا جن کا ساتھ اب تک وقتی مصالح کے لحاظ سے چشم پوشی و درگذر کا معاملہ کیا جا رہا تھا۔ اب چونکہ بیرونی خطرات کا دباؤ کم ہوگیا تھا بلکہ گویا نہیں رہا تھا اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ کی جائے اور وہی سخت برتاؤ ان چھپے ہوئے منکرین حق کے ساتھ بھی ہو جو کھلے منکرین حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہی پالیسی تھی جس کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں سویلم کے گھر میں آگ لگوا دی جہاں منافقین کا ایک گروہ اس غرض سے جمع ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو شرکت جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرے، اور اسی پالیسی کے تحت تبوک سے واپس تشریف لاتے ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد ضرار کو ڈھانے اور جلا دینے کا حکم دے دیا۔
(٤) مومنین صادقین میں اب تک جو تھوڑا بہت ضعف عزم باقی تھا اس کا علاج بھی ضروری تھا، کیونکہ اسلام عالمگیر جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا اور اس مرحلہ میں، جبکہ اکیلے مسلم عرب کو پوری غیر مسلم دنیا سے ٹکرانا تھا، ضعف ایمان سے بڑھ کر کوئی اندرونی خطرہ اسلامی جماعت کے لیے نہ ہوسکتا تھا۔ اس لیے جن لوگوں نے تبوک کے موقع پر سستی اور کمزوری دکھائی تھی ان کو نہایت شدت کے ساتھ ملامت کی گئی، پیچھے رہ جانے والوں کے اس فعل کو کہ وہ بلاعذر معقول پیچھے رہ گئے بجائے خود ایک منافقانہ طرز عمل، اور ایمان میں ان کے ناراست ہونے کا ایک بین ثبوت قرار دیا گیا، اور آئندہ کے لیے پوری صفائی کے ساتھ یہ بات واضح کردی گئی کہ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور کفر و اسلام کی کشمکش ہی وہ اصلی کسوٹی ہے جس پر مومن کا دعوائے ایمان پرکھا جائے گا۔ جو اس آویزش میں اسلام کے لیے جان و مال اور وقت و محنت صرف کرنے سے جی چرائے گا اس کا ایمان معتبر ہی نہ گا اور اس پہلے کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری نہ ہو سکے گی۔
ان امور کر نظر میں رکھ کر سورة توبہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے تمام مضامین بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔
جیسا کہ ہم سورة کے دیباچہ میں بیان کرچکے ہیں، یہ خطبہ رکوع ٥ کے آخر تک سن ٩ ھجری میں اس وقت نازل ہوا تھا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر (رض) کو حج کے لیے روانہ کرچکے تھے۔ ان کے پیچھے جب یہ نازل ہوا تو صحابہ کرام نے حضور سے عرض کیا کہ اسے ابوبکر کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ حج میں اس کو سنا دیں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس اہم معاملہ کا اعلان میری طرف سے میرے ہی گھر کے کسی آدمی کو کرنا چاہیے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو اس خدمت پر مامور کیا، اور ساتھ ہی ہدایت فرمادی کہ حاجیوں کے مجمع عام میں اسے سنانے کے بعد حسب ذیل چار باتوں کا اعلان بھی کردیں : (١) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہوگا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ (٢) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ (٣) بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے۔ (٤) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا معاہدہ باقی ہے، یعنی جو نقض عہد کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں، ان کے ساتھ مدت معاہدہ تک وفا کی جائے گی۔
اس مقام پر یہ جان لینا ضروری بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج سن ٨ ھجری میں قدیم طریقے پر ہوا۔ پھر سن ٩ ھجری میں یہ دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر۔ اس کے بعد تیسرا حج سن ١٠ ھجری میں خالص اسلامی طریقہ پر ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے دو سال حج کے لیے تشریف نہ لے گئے۔ تیسرے سال جب بالکل شرک کا استیصال ہوگیا تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج ادا فرمایا۔
سورة انفال آیت ٥٨ میں گزر چکا ہے کہ جب تمہیں کسی قوم سے خیانت (نقض عہد اور غدّاری) کا اندیشہ ہو تو علی الاعلان ان کا معاہدہ اس کی طرف پھینک دو اور اسے خبردار کردو کہ اب ہمارا تم سے کوئی معاہدہ باقی نہیں ہے۔ اس اعلان کے بغیر کسی معاہد قوم کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردینا خود خیانت کا مرتکب ہونا ہے۔ اسی ضابطہ اخلاقی کے مطابق معاہدات کی منسوخی کا یہ اعلان عام ان تمام قبائل کے خلاف کیا گیا جو عہد و پیمان کے باوجود ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے، اور موقع پاتے ہی پاس عہد کو بالائے طاق رکھ کر دشمنی پر اتر آتے تھے۔ یہ کیفیت بنی کنانہ اور بنی ضمرہ اور شاید ایک آدھ اور قبیلہ کے سوا باقی تمام ان قبائل کی تھی جو اس وقت تک شرک پر قائم تھے۔
اس اعلان براءت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا عملًا خلاف قانون (Outlaw) ہوگیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم و فارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو، یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاجائیں تو یکایک نقض عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کردیں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے ان کی ساعت منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر الٹ دی اور اعلان براءت کر کے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اس نظم و ضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کرچکا تھا۔
اس عظیم الشان تدبیر کی پوری حکمت اسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جبکہ ہم اس فتنہ ارتداد کو نظر میں رکھیں جو اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر ملک کے مختلف گوشوں میں برپا ہوا اور جس نے اسلام کے نو تعمیر قصر کو یکلخت متزلزل کردیا۔ اگر کہیں سن ٩ ھجری کے اس اعلان براءت سے شرک کی منظم طاقت ختم نہ کردی گئی ہوتی اور پورے ملک پر اسلام کی قوت ضابطہ کا استیلاء پہلے ہی مکمل نہ ہوچکا ہوتا، تو ارتداد کی شکل میں جو فتنہ حضرت ابوبکر کی خلافت کے آغاز میں اٹھا تھا اس سے کم از کم دس گنی زیادہ طاقت کے ساتھ بغاوت اور خانہ جنگی کا فتنہ اٹھتا اور شاید تاریخ اسلام کی شکل اپنی موجودہ صورت سے بالکل ہی مختلف ہوتی۔
اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد پیمان کیا تھا۔
وجہ تسمیہ : اس کے مفسرین نے متعدد نام ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور دو ہیں۔ ایک توبہ اس لئے کہ اس میں بعض مومنین کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ دوسرا براءۃ اس میں مشرکوں سے برات کا اعلان عام ہے۔ یہ قرآن مجید کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم درج نہیں ہے۔ اس کی بھی متعدد وجوہات کتب تفسیر میں درج ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورة انفال اور سورة توبہ ان دونوں کے مضامین میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے یہ سورت گویا سورة انفال کا تتمہ یا بقیہ ہے۔ یہ سات بڑی سورتوں میں ساتویں بڑی سورت ہے جنہیں سبع طوال کہا جاتا ہے۔
١۔ ١ فتح مکہ کے بعد ٩ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکے میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اعلان کردیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح بخاری)
سو اب ملک میں چار ماہ چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کے قابو سے باہر نہیں جا سکتے اور اللہ کافروں کو رسوا کر کے رہے گا۔
براہ راست مشرکین سے خطاب: ’فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ الایۃ‘ اوپر والی آیت کا خطاب مسلمانوں سے تھا، اس آیت میں خطاب کا رخ براہ راست مشرکین کی طرف ہو گیا ہے۔ خطاب کی یہ تبدیلی اس دھمکی کی شدت اور اس کے فیصلہ کن ہونے کی دلیل ہے۔ مسلمانوں کو خطاب کر کے یوں نہیں فرمایا کہ دھمکی مشرکین کو سنا دو بلکہ جس طرح اعلان براء ت خود فرما دیا اسی طرح براہ راست مشرکین کو خطاب کر کے فرمایا کہ بس اب چار ماہ کی مہلت تمھیں اور حاصل ہے، اس کے بعد ان لوگوں کے معاہدات کی اللہ و رسول پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے جو اپنے معاہدوں کی خلاف ورزیاں کر چکے ہیں بلکہ ہر قدم پر ان کی دار و گیر شروع ہو جائے گی۔
معاہدات میں براء ت میں چار ماہ کی مہلت کی مصلحتیں: چار ماہ کی مہلت میں کئی مصلحتیں مدنظر ہو سکتی ہیں۔ یہ مصلحت بھی ہو سکتی ہے کہ معاہدے کے باوجود جو لوگ شرارتیں کر رہے تھے وہ اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہیں تو نظرثانی کر لیں، یہ مصلحت بھی ہو سکتی ہے کہ اس دوران میں مسلمان اپنے اس اہم اقدام سے پوری طرح یک سو، منظم اور تیار ہو جائیں۔ علاوہ ازیں آیت ۵ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آگے اشہر حرم آ رہے تھے جن کا احترام کسی جنگی اقدام سے مانع تھا۔
’وَّاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ‘ کی وضاحت انفال آیت ۵۹ کے تحت گزر چکی ہے۔
سو (اے مشرکین عرب)، اب ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ بھی کہ اللہ (اپنے پیغمبر کا) انکار کرنے والوں کو رسوا کر کے رہے گا۔
یہاں سے خطاب میں تبدیلی ہوئی ہے اور اُس کا رخ براہ راست مشرکین کی طرف ہو گیا ہے۔ یہ تبدیلی بتا رہی ہے کہ اِس دھمکی کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ یہ ایک فیصلہ کن دھمکی ہے جس کے نتائج اب پوری قطعیت کے ساتھ سامنے آنے والے ہیں۔
عذاب سے پہلے چار ماہ کی یہ مہلت کب دی گئی؟ اِس کی کوئی حتمی تاریخ تو متعین نہیں کی جا سکتی۔ تاہم آگے کی آیتوں سے اتنی بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اُس وقت دی گئی، جب قریش کی طرف سے معاہدۂ حدیبیہ کی کوئی خلاف ورزی ابھی نہیں ہوئی تھی۔
پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے۔
یہ اعلان ١٠ ذی الحجہ سن ٩ ھجری کو ہوا تھا۔ اس وقت ١٠ ربیع الثانی سن ١٠ ھجری تک چار مہینہ کی مہلت ان لوگوں کو دی گئی کہ اس دوران میں اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کرلیں۔ لڑنا ہو تو لڑائی کے لیے تیار ہوجائیں، ملک چھوڑنا ہو تو اپنی جائے پناہ تلاش کرلیں، اسلام قبول کرنا ہو تو سوچ سمجھ کر قبول کرلیں۔
پس (اے مشرکو ! ) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے ۔
یہ اعلان نجات ان مشرکین کے لئے تھا جن سے غیرموقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا چار مہینوں سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا۔ ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔ بصورت دیگر ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ، عرب سے نکل جائیں، اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی اختیار نہیں کریں گے تو حربی کافر شمار ہونگے، جن سے لڑنا مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا تاکہ جزیرہ عرب کفر و شرک کی تاریکیوں سے صاف ہوجائے۔
یعنی یہ مہلت اس لئے نہیں دی جا رہی ہے کہ فی الحال تمہارے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہے بلکہ اس سے مقصد صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی ہے تاکہ جو توبہ کر کے مسلمان ہونا چاہے، وہ مسلمان ہوجائے، ورنہ یاد رکھو کہ تمہاری بابت اللہ کی جو تقدیر و مشیت ہے، اسے ٹال نہیں سکتے اور اللہ کی طرف سے مسلط ذلت و رسوائی سے تم بچ نہیں سکتے۔
اور اللہ و رسول کی طرف سے بڑے حج کے دن لوگوں میں منادی کر دی جائے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہیں تو اگر تم توبہ کرو تو تمھارے حق میں بہتر ہے اور اگر روگردانی کرو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ سے بھاگ نہیں سکتے اور کافروں کو ایک دردناک عذاب کی خوش خبری پہنچا دو۔
حج کے موقع پر اعلان براء ت کی عام منادی: ’اَذَان‘ یہاں اپنے لغوی مفوہم یعنی اعلان و منادی کے معنی میں ہے۔ ہدایت ہوئی کہ حج اکبر کے دن یہ منادی کرا دی جائے کہ اللہ و رسولؐ اس قسم کے معاہدوں سے بری الذمہ ہیں، اب جو توبہ کر لے گا اس کی خیر ہے اور جو روگردانی کریں گے وہ اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے۔ حج کے موقع پر منادی کی ہدایت اس وجہ سے ہوئی کہ عرب میں حج ہی کا اجتماع ایک ایسا اجتماع ہوتا تھا جس میں ملک کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوتے جس کے سبب سے ہر وہ بات جو وہاں پھیل جائے پورے ملک میں پھیل جاتی تھی۔ خاص طور پر ۹ھ کے حج تک چونکہ صورت یہ تھی کہ مشرکین بھی حج کو جاتے تھے اس وجہ سے وہاں کا ہر اعلان سب کے کانوں تک پہنچ جاتا تھا، خواہ مسلمان ہوں یا کفار۔ اسی وجہ سے آیت میں لفظ بھی ’الی الناس‘ استعمال ہوا ہے جو عام ہے۔
حج اکبر سے کیا مراد ہے؟ ’حج اکبر‘ سے کیا مراد ہے اور یہ کس سن کے حج کی طرف اشارہ ہے؟ اس سوال کا جواب مفسرین نے یہ دیا ہے کہ اس سے مراد ۹ھ کا حج ہے جو حضرت ابوبکرؓ صدیق کی امارت میں ہوا۔ ہمارے نزدیک یہ بات ٹھیک ہے۔ اس لیے کہ یہی پہلا موقع ہے جب مسلمانوں کو باقاعدہ حج کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے انھیں دو تین مواقع جو ملے ان میں وہ صرف عمرہ کر سکے تھے۔ عمرہ کو حج اصغر (چھوٹا حج) بھی کہتے ہیں۔ اس نسبت سے پورے حج کے لیے ’حج اکبر‘ (بڑا حج) کا لفظ استعمال ہوا جس میں گویا مسلمانوں کو پہلے سے یہ بشارت بھی دے دی گئی کہ اب تک وہ صرف چھوٹے حج ہی کی سعادت حاصل کر سکے ہیں، آگے ان کو بڑے حج سے بھی سعادت اندوز ہونے کا موقع ملنے والا ہے۔
سورۂ توبہ کا نزول: یہیں سے عام طور پر لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اس سورہ کا نزول ۹ھ میں ہوا ہے لیکن اس نتیجہ کے قبول کرنے میں مجھے تردد ہے اس لیے کہ آگے جو آیات آ رہی ہیں ان سے، جیسا کہ آپ دیکھیں گے، صاف واضح ہے کہ کم از کم یہ اور آگے کی آیات معاہدہ حدیبیہ کے خاتمہ اور فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی ہیں لیکن اعلان براء ت کی منادئ عام چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ھ کے حج کے موقع پر ہی کرائی اس لیے بعض لوگوں کو یہ گمان گزرا کہ ان آیات کا نزول بھی اسی موقع پر ہوا۔ حالانکہ یہ ایک پیشگی ہدایت تھی اس بات کی کہ جب حج اکبر کی سعادت حاصل کرنے کا موقع آئے تو اس موقع پر اس فیصلہ کی منادئ عام بھی کرا دی جائے۔ اس سے ضمناً مسلمانوں کو، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، حج سے مشرف ہونے کی بشارت بھی حاصل ہو گئی۔
میرے لیے ان آیات کا زمانۂ نزول ٹھیک ٹھیک متعین کرنا مشکل ہے۔ اس لیے کہ عرب میں حجۃ الوداع سے پہلے تک دو جنتریاں رائج رہی ہیں، ایک سادہ قمری حساب پر مبنی تھی دوسری نسی کے اس قاعدے پر مبنی تھی جس کی طرف آگے اسی سورہ میں اشارہ آئے گا۔ اگر کوئی شخص اس فرق کو معلوم کر سکے جو نسی کے قاعدے نے اصل قمری مہینوں میں پیدا کر دیا تھا تو وہ ان چار مہینوں کو بھی معین کر سکے گا جو آیت نمبر ۲ میں مذکور ہیں اور ان محترم مہینوں کو بھی ٹھیک ٹھیک بتا سکے گا جن کا حوالہ آیت ۵ میں ہے۔ اس تحقیق میں اس مسلم حقیقت سے بڑی رہنمائی مل سکتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۰ھ میں جو حج کیا وہ قمری حساب سے بھی ٹھیک نویں ذی الحجۃ کو پڑا تھا اور نسی کے حساب سے بھی اس کی تاریخ یہی تھی، گویا دونوں جنتریوں کا قِران ہو گیا تھا۔ ’استدار الزمان کھیئتہ یوم خلق السموت والارض‘ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ میں حساب کتاب کے میدان کا مرد نہیں ہوں اس وجہ سے اس باب میں عزم و جزم سے کچھ کہنا میرے لیے مشکل ہے لیکن قرآن کے الفاظ اور اس کے نظم کی روشنی میں اس بات پر میں مطمئن ہوں کہ یہ آیات معاہدۂ حدیبیہ کے خاتمہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی ہیں۔ دلائل و قرائن کی تفصیل آئے گی۔
(پھر حج کا موقع آئے تو اِس سرزمین کے) سب لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑے حج کے دن اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان عام کر دیا جائے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمھارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ سے بھاگ نہیں سکتے۔ (اے پیغمبر)، اِن منکروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔
اِس سے مراد حج ہی ہے۔ اہل عرب عمرے کو حج اصغر اور اِس کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہتے تھے۔
مطلب یہ ہے کہ چارماہ کی جو مہلت اوپر دی گئی ہے، اُس کے گزر جانے کے بعد اُن لوگوں کی داروگیر شروع کر دی جائے جن تک اعلان براء ت کی اطلاع پہنچانا ممکن ہو۔ اِس کے بعد حج کے دن کا انتظار کیا جائے۔ اِس میں ملک کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوں گے جن کی وساطت سے یہ اطلاع سرزمین عرب کے باقی سب لوگوں تک بھی پہنچا دی جائے کہ اللہ و رسول نے مشرکین سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے۔ خدا کی طرف سے جو مہلت اُنھیں ملی ہوئی تھی، اُس کی مدت پوری ہو گئی ہے۔وہ اب عذاب کی زد میں ہیں۔ چنانچہ تمام معاہدات ختم کر دیے گئے ہیں اور آیندہ بھی اُن کے ساتھ کسی معاہدے کا امکان باقی نہیں رہا۔ اِس میں ضمناً یہ بشارت بھی ہے کہ عنقریب وہ موقع آنے والا ہے، جب مسلمان حج بھی کریں گے اور منکرین پر ایسا غلبہ بھی حاصل کر لیں گے کہ حج کے موقع پر اِس طرح کا اعلان کر سکیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ۹ ہجری میں اِس حج سے سعادت اندوز ہوئے۔ یہ حج سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سنائیں جس سے پورے عرب کے مشرکین تک اطلاع پہنچانے کا اہتمام کر دیا گیا۔*
_____
* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۲/ ۴۳۶۔
اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو
منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبیؐ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو۔
یعنی ١٠ ذی الحجہ جسے یوم النحر کہتے ہیں۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حجۃ الوداع میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے حاضرین سے پوچھا یہ کونسا دین ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یوم النحر ہے۔ فرمایا ھٰذا یوم الحج الاکبر۔” یہ حج اکبر کا دن ہے “۔ حج اکبر کا لفظ حج اصغر کے مقابلہ میں ہے۔ اہل عرب عمرے کو چھوٹا حج کہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں وہ حج جو ذوالحجہ کی مقررہ تاریخوں میں کیا جاتا ہے، وہ حج اکبر کہلاتا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے، اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد (١٠ ذوالحجہ) کا دن ہے، اسی دن منیٰ میں اعلان نجات منایا گیا ١٠ ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لئے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لئے عمرے سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے وہ حج اکبر ہے یہ بےاصل بات ہے۔
وہ مشرکین اس سے مستثنیٰ ہیں جن سے تم نے معاہدہ کیا اور انھوں نے اس میں نہ تم سے کوئی خیانت کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی سو ان کے معاہدے ان کی قراردادہ مدت تک پورے کرو، اللہ نقض عہد سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
اعلان براء ت سے مستثنیٰ مشرکین: یہ ان مشرکین کا بیان ہے جو مذکورہ اعلان سے مستثنیٰ تھے۔ یہ وہ قبائل ہیں جو اپنے عہد پر قائم رہے، نہ خود معاہدے کے خلاف کوئی چھوٹا یا بڑا اقدام کیا، نہ مسلمانوں کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی مدد کی۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مذکورہ بالا اعلان ناقضین عہد ہی سے متعلق تھا لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اس سے واضح ہوتی ہے کہ یہ معاہدے بھی صرف ان کی قرار دادہ مدت ہی تک باقی رکھنے کی اجازت ہوئی۔ مدت گزر جانے کے بعد یہ بھی کالعدم۔ آگے کے لیے ان سے کسی نئے معاہدے کی اجازت نہیں دی گئی۔ چنانچہ اس اعلان براء ت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے کسی گروہ سے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مشرکین سے جو معاہدے کیے گئے تھے وہ صرف دعوت و تبلیغ اور اتمام حجت کی مصلحت سے کیے گئے تھے۔ مقصود ان کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نباہ کرنا نہ تھا۔ یہ سنت الٰہی ہم ایک سے زیادہ مقامات میں واضح کر چکے ہیں کہ جس قوم کی طرف براہ راست رسول کی بعثت ہوتی ہے اگر وہ تبلیغ و دعوت اور اتمام حجت کے بعد بھی رسول کی تکذیب پر اڑی رہتی ہے تو وہ لازماً ختم کر دی جاتی ہے۔ خواہ اس کا خاتمہ خدا کے کسی براہ راست عذاب سے ہو یا اہل ایمان کی تلوارسے۔ مشرکین عرب کا معاملہ اسی نوعیت کا تھا۔ اب تبلیغ و دعوت اور اتمام حجت کا دور ان کے لیے ختم ہو رہا تھا اس وجہ سے اب ان کے کسی گروہ کے ساتھ کسی معاہدے کا سوال خارج از بحث تھا۔
’اجتماعی تقویٰ‘ کی وضاحت: ’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ‘ میں جس تقویٰ کا ذکر ہے، یہ انفرادی تقویٰ نہیں بلکہ اجتماعی و سیاسی تقویٰ ہے۔ اسلام جس طرح ہر شخص سے انفرادی تقویٰ کا مطالبہ بھی کرتا ہے اسی طرح مسلمانوں سے من حیث الجماعت اجتماعی اور سیاسی تقویٰ کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ یعنی مسلمان دوسری قوموں سے جو معاملات اور معاہدات کریں ان میں راست باز، صداقت شعار اور وفادار رہیں، کسی عہد اور قول و قرار کی کوئی ادنیٰ خلاف ورزی بھی نہ کریں۔ خدا ایسے ہی متقیوں کو دوست رکھتا ہے اور خدا جن کو دوست رکھتا ہے وہی دنیا اور آخرت میں برو مند اور فائز المرام ہوتے ہیں۔
وہ مشرکین، البتہ (اِس اعلان براء ت سے) مستثنیٰ ہیں جن سے تم نے معاہدہ کیا، پھر اُس کو پورا کرنے میں اُنھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ سو اُن کا معاہدہ اُن کی مدت تک پورا کرو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو (بد عہدی سے) بچنے والے ہوں۔
یہ اُن معاہدوں کا بیان ہے جو مذکورہ اعلان سے مستثنیٰ تھے۔ مدعا یہ ہے کہ غیر موقت معاہدے تو مہلت کی مدت گزر جانے کے فوراً بعد ختم ہو جائیں گے۔ اِسی طرح وہ معاہدے بھی ختم ہو جائیں گے جو اگرچہ موقت تھے، مگر فریق ثانی کی طرف سے اُن کی خلاف ورزی ہو چکی ہے۔ لیکن ایسے موقت معاہدے جن کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اُنھیں ختم نہیں کیا جائے گا، بلکہ قراردادہ مدت تک برقرار رکھا جائے گا۔ مدت گزر جانے کے بعد، البتہ وہ بھی کالعدم ہوں گے اور جن مشرکین سے کیے گئے تھے، اُن کی داروگیر بھی اُسی طرح شروع ہو جائے گی، جس طرح حکم دیا گیا ہے۔
بجز اُن مشرکین کے جن سے تم نے معاہد ے کیے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔
یعنی یہ بات تقویٰ کے خلاف ہوگی کہ جنھوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی ہے ان سے تم عہد شکنی کرو۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ صرف وہی لوگ ہیں جو ہر حال میں تقویٰ پر قائم رہیں۔
بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔
یہ مشرکین کی چوتھی قسم ہے ان سے جتنی مدت کا معاہدہ تھا، اس مدت تک انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، کیونکہ انہوں نے معاہدے کی پاسداری کی اور اس کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، اس لئے مسلمانوں کے لئے بھی اس کی پاسداری کو ضروری قرار دیا گیا۔
سو جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو، ان کو پکڑو، ان کو گھیرو، اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک لگاؤ۔ پس اگر یہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تب ان کی جان چھوڑو۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
’اشہر حرم‘ سے مراد: ’اَشْھُرُ حُرُم‘ سے مراد ذی قعدہ، ذی الحجۃ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں۔ ’اَشْھُرُ حُرُم‘ ان مہینوں کے لیے بطور اسم و علم استعمال ہوتا ہے۔ ان کے سوا کوئی اور مہینہ اس لفظ سے مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ مہینے زمانۂ جاہلیت بلکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے محترم چلے آ رہے تھے۔ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں کہ یہ حج و عمرہ کے مہینے بھی تھے اور اہل عرب کی بیشتر تجارتی کاروباری نقل و حرکت انہی مہینوں میں ہوتی تھی۔ ان میں لڑنا بھڑنا شرعاً ممنوع تھا اور اہل عرب اپنی جنگ جویانہ طبیعت کے باوجود ان کا احترام برابر ملحوظ رکھتے تھے۔ اوپر آیت ۲ میں جو چار ماہ کی مہلت مذکور ہوئی ہے ان میں تین مہینے حرمت والے تھے۔ تین مہینے اس وجہ سے کہ حرمت کے چاروں مہینے یک جا نہیں ہیں۔ تین ایک سلسلہ میں ہیں، رجب الگ ہے۔ اگرچہ نسی کے قاعدے کے تحت یہ اپنے اصل مقام سے ہٹے ہوئے تھے تاہم اگر ان تین حرمت والے مہینوں سے پہلے وقت کے مہینوں میں سے شوال کو ملا دیا جائے تو یہ چار مہینے بن جاتے ہیں۔ فرمایا کہ جب محترم مہینے گزر جائیں تو ان ناقض عہد مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ ’جہاں پاؤ‘ سے مراد، جیسا کہ سورۂ بقرہ کی تفسیر میں وضاحت گزر چکی ہے، یہ ہے کہ حدود حرم میں بھی ان سے جنگ و قتال مباح ہے۔
مشرکین عرب کی داروگیر: ’وَخُذُوْھُمْ وَاحْصُرُوْھُمْ وَاقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ‘ یعنی ان کے خلاف ہر قسم کی جنگی کارروائی کی جائے اور ہر پہلو سے ان کا ناطقہ بند کیا جائے۔ اس شدت کے ساتھ ان کی داروگیر کے اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نوعیت محض ایک دشمن کے خلاف اقدام کی نہیں تھی بلکہ یہ مشرکین عرب کے لیے اس سنت الٰہی کا ظہور تھا جو رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں کے لیے ہمیشہ ظاہر ہوئی ہے اور جس کی تفصیلات سورۂ اعراف میں بیان ہوئی ہیں۔
مشرکین عرب کے لیے دو راہیں: اسلام یا تلوار: ’فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ‘ مطلب یہ ہے کہ ان کی یہ داروگیر اس وقت تک بند نہ کی جائے جب تک یہ اپنے کفرو شرک سے تائب ہو کر نماز نہ قائم کریں اور زکوٰۃ نہ ادا کرنے لگ جائیں۔ نماز اور زکوٰۃ ایک جامع تعبیر ہے اسلام کے نظام عبادت و اطاعت میں داخل ہونے کی۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام کے بغیر نہ ان کے لیے ذمی یا معاہد بن کر اسلامی نظام میں باقی رہنے کی گنجائش رہی نہ لونڈی غلام بن کر۔ ان کے لیے صرف دو راہیں باقی ہیں۔ یا تو اسلام قبول کریں یا تلوار۔
مشرکین عرب کے ساتھ خاص معاملہ کی وجہ: مشرکین عرب کے ساتھ یہ خاص معاملہ کرنے کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول بھیجا، انہی کی زبان میں ان پر اپنی کتاب اتاری، اسی ملت کی ان کو دعوت دی گئی جس کے وہ مدعی تھے۔ رسول نے مسلسل ۲۳ سال تک ان کو جھنجھوڑا اور جگایا، ان کی ہر مجلس اور ہر بزم میں وہ پہنچا، ان کے ایک ایک دروازے پر اس نے دستک دی۔ ان کے ایک ایک شبہ اور ایک ایک اعتراض کا جواب دیا۔ ان کی تمام الزام تراشیوں، تہمتوں اور عداوتوں کا مقابلہ کیا۔ ان کے مطالبہ پر معجزے بھی دکھائے اور ان کی منتخب کی ہوئی کسوٹیوں پر بھی اپنے کو کھرا اور سچا ثابت کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کے اندر جو اچھے لوگ تھے وہ اس کے ساتھی بھی بن گئے تو اس سارے اہتمام کے بعد بھی جو لوگ قبول حق پر آمادہ نہیں ہوئے آخر وہ کس لیے باقی رکھے جاتے۔ رسول اتمام حجت کا کامل اور آخری ذریعہ ہوتا ہے، جو لوگ اس کے جگانے سے بھی نہیں جاگتے وہ مردہ ہیں اور مردوں کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ دفن کر دیے جائیں۔
(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
اِس سے وہ چار مہینے مراد نہیں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، بلکہ وہی مہینے مراد ہیں جنھیں اصطلاح میں اشہر حرم کہا جاتا ہے۔ یہ تعبیر اِن مہینوں کے لیے بطور اسم و علم استعمال ہوتی ہے، اِس لیے عربیت کی رو سے کوئی اور مہینے مراد نہیں لیے جا سکتے۔ حج اکبر کے موقع پر جس اعلان کے لیے کہا گیا ہے، اُس کے بعد ۲۰ دن ذوالحجہ اور ۳۰ محرم کے باقی ہوں گے۔ یہ اُنھی کے بارے میں فرمایا ہے کہ اِن دنوں میں چونکہ جنگ و جدال ممنوع ہے، اِس لیے یہ جب گزر جائیں تو اِس اعلان کے نتیجے میں جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہو، اُن کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے، اِس سے پہلے کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ ذوالحجہ اور محرم کے پچاس دنوں کے لیے یہ تعبیر بالکل اُسی طرح اختیار کی گئی ہے، جس طرح ہم اپنی زبان میں بعض اوقات نومبر یا دسمبر کے مہینے میں کہتے ہیں کہ یہ سال گزر جائے تو فلاں کام کیا جائے گا۔
یہ قتل عام کا حکم ہے جو مشرکین عرب کے لیے اُسی طرح کا عذاب تھا جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں اُن کے مخاطبین پر ہمیشہ نازل کیا جاتا رہا ہے۔
یعنی خدا کے اِس عذاب سے بچنے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ وہ کفر و شرک سے توبہ کرکے اسلام قبول کر لیں، اِس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے ایمان و اسلام کی شہادت کے طور پر وہ نماز کا اہتمام کریں اور ریاست کا نظم چلانے کے لیے اُس کے بیت المال کو زکوٰۃ ادا کریں۔ اِس کے بعد فرمایا ہے کہ ’فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ‘، یعنی اُن کی راہ چھوڑ دو۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست اور قانون کی سطح پر ایمان و اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اِس سے زائدکوئی مطالبہ کسی مسلمان سے نہیں کیا جا سکتا، اِس لیے کہ جب خدا نے اپنے پیغمبر کو خود اپنی حکومت میں اِس کی اجازت نہیں دی تو دوسروں کو کس طرح دی جا سکتی ہے۔
پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو۔ اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
یہاں حرام مہینوں سے اصطلاحی اشہُر حرُم مراد نہیں ہیں جو حج اور عمرے کے لیے حرام قرار دیے گئے ہیں۔ بلکہ اس جگہ وہ چار مہینے مراد ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ چونکہ اس مہلت کے زمانہ میں مسلمانوں کے لیے جائز نہ تھا کہ مشرکین پر حملہ آور ہوجاتے اس لیے انہیں حرام مہینے فرمایا گیا ہے۔
یعنی کفر و شرک سے محض توبہ کرلینے پر معاملہ ختم نہ ہوگا بلکہ انہیں عملًا نماز قائم کرنی اور زکوٰۃ دینی ہوگی۔ اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائے گا کہ انہوں نے کفر چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا ہے۔ اسی آیت سے حضرت ابوبکر (رض) نے فتنہ ارتداد کے زمانہ میں استدلال کیا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا ان میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم اسلام کے منکر نہیں ہیں، نماز بھی پڑھنے کے لیے تیار ہیں، مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ صحابہ کرام کو بالعموم یہ پریشانی لاحق تھی کہ آخر ایسے لوگوں کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جاسکتی ہے ؟ مگر حضرت ابوبکر (رض) نے اسی آیت کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ہمیں تو ان لوگوں کو چھوڑ دینے کا حکم صرف اس صورت میں دیا گیا تھا جبکہ یہ شرک سے توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، مگر جب یہ تین شرطوں میں سے ایک شرط اڑائے دیتے ہیں تو پھر انہیں ہم کیسے چھوڑ دیں۔
پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے ؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور اعلان نجات ٠ ١ ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں اَ شھَرُ حُرْم سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ ١٠ ذوالحجہ سے لے کر ١٠ ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں اشھر حرم اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی رو سے ان چار مہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور انکے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان برات کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم) ۔
٥۔ ٢ بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو اور بعض مفسرین نے کہا مسجد حرام کے پاس مت لڑو ! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔
یعنی انہیں قیدی بنا لویا قتل کر دو۔
یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہان جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔
یعنی کوئی کاروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوٰۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا : اور فرمایا واللہ لأقتلن من فرق بین الصلوٰ ۃ وال زکوٰۃ (متفق علیہ) اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کریں گے۔ " یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوٰۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔
اور اگر ان مشرکین میں سے کوئی تم سے امان کا طالب ہو تو اس کو امان دے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے، پھر اس کو اس کے امان کی جگہ پہنچا دو۔ یہ اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنھیں اللہ کی باتوں کا علم نہیں۔
اتمام حجت کی خاطر آخری رعایت: اوپر والی آیت میں مشرکین کی داروگیر کا جو حکم ہوا ہے، اتمام حجت کی خاطر یہ اس میں آخری رعایت ہے۔ فرمایا کہ اس داروگیر کے دوران میں اگر کوئی شخص امان کا طالب ہو تو اس کو امان دے دو۔ اور اس کو اللہ و رسول کی دعوت اور اس کا مقصد اچھی طرح سنا سمجھا کر اس کی امان کی جگہ پر پہنچا دو تاکہ وہ ٹھنڈے دل سے اپنے معاملہ پر غور کر کے فیصلہ کر سکے کہ وہ اسلام قبول کرتا ہے یا تلوار۔ یہ امان بخشی، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے، محض اتمام حجت کے نقطۂ نظر سے تھی۔ اس کے معنی یہ نہیں تھے کہ وہ اس داروگیر کے حکم سے امان پا گیا۔ اگر وہ ایمان نہ قبول کرے گا تو اس کے لیے وہی حکم باقی رہے گا جو اوپر بیان ہوا ہے اور جب وہ دوبارہ زد میں آئے گا تو نہ یہ امان اس کے لیے نافع ہو گی، نہ ازسرنو طلب امان کی اس کے لیے کوئی گنجائش ہی باقی رہے گی۔
’ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ‘ یہ اس رعایت کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ چونکہ یہ امی لوگ رہے ہیں۔ دین و شریعت سے بے خبر اور نبوت و رسالت سے نا آشنا، اس وجہ سے اس کا امکان ہے کہ اتنے طویل سلسلۂ تبلیغ و دعوت کے بعد بھی، کسی کے معاملہ میں اتمام حجت کے پہلو سے کوئی کسر رہ گئی ہو اور چونکہ اس داروگیر کا حکم، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اتمام حجت ہی کی بنیاد پر تھا اس وجہ سے ہدایت ہوئی کہ اگر کوئی شخص طالب رعایت ہو تو اس کو رعایت دے دی جائے۔ ہر چند اس میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کوئی شخص اس رعایت سے فائدہ اٹھا کر جاسوسی کرے یا دوبارہ حریف بن کر سامنے آئے۔
اور اگر (اِس داروگیر کے موقع پر) اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص تم سے امان چاہے (کہ وہ تمھاری دعوت سننا چاہتا ہے) تو اُس کو امان دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اُس کو اُس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (خدا کی باتوں کو) نہیں جانتے۔
یعنی دین و شریعت اور نبوت و رسالت سے زیادہ واقف نہیں ہیں، اِس وجہ سے رعایت کے مستحق ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ لمبے عرصے تک تبلیغ و دعوت کے بعد بھی اتمام حجت میں کوئی کسر رہ گئی ہو، لہٰذا اِن میں سے کوئی شخص اگر بات سننے اور سمجھنے کے لیے امان چاہتا ہو تو امان دے دو اور اللہ کا کلام اچھی طرح سنا اور سمجھا کر اُس کے مامن تک پہنچا دو تاکہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کرکے فیصلہ کر سکے کہ اُسے اسلام قبول کرنا ہے یا تلوار۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ اُس کے لیے بھی وہی حکم ہو گا جو اوپر بیان ہوا ہے۔
اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اُسے اس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔
یعنی دوران جنگ میں اگر کوئی دشمن تم سے درخواست کرے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اسے امان دے کر اپنے ہاں آ نے کا موقع دیں اور اسے سمجھائیں، پھر اگر وہ قبول نہ کرے تو اسے اپنی حفاظت میں اس کے ٹھکانے تک واپس پہنچا دیں۔ فقہ اسلامی میں ایسے شخص کو جو امان لے کر دارالاسلام میں آئے مُستامن کہا جاتا ہے۔
اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے یہ اس لئے کہ یہ لوگ بےعلم ہیں۔
اس آیت میں مذکورہ حربی کافروں کے بارے میں ایک رخصت دی گئی ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یعنی اسے اپنی حفظ وامان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کرسکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو، مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے مستقر تک بخیریت واپس نہیں پہنچ جاتا، اس کی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔
٦۔ ٢ یعنی پناہ کے طلبگاروں کو پناہ کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں، ممکن ہے اللہ اور رسول کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی حقانیت و صداقت کے وہ قائل ہوجائیں۔ اور اسلام قبول کر کے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے کافر امان طلب کر کے مدینہ آتے جاتے رہے تو انہیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔
مشرکین کے کسی عہد کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر کس طرح باقی رہ سکتی ہے؟ ۔۔۔ ہاں جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا ہے تو جب تک وہ قائم رہیں تم بھی ان کے لیے معاہدے پر قائم رہو، اللہ نقض عہد سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔۔۔ ۔
اعلان براء ت کے وجوہ: یہ اعلان براء ت کے وجوہ اور دلائل بیان ہو رہے ہیں۔ خطاب اگرچہ بظاہر عام ہے لیکن روئے سخن ان مسلمانوں کی طرف خاص طور سے ہے جو مشرکین کے اندر اپنے تعلقات اور عزیز داریوں کے باعث اس اعلان سے تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اس اعلان سے اتنی بات تو ہر شخص کے سامنے آ گئی کہ اب حدیبیہ کے اس معاہدے کے دن بھی قریب آ لگے ہیں جس نے مسلمانوں اور قریش کے درمیان ایک دوسرے سے ملنے جلنے کی راہ کھول دی تھی۔ جو لوگ ضعیف الایمان تھے قدرتی طور پر ان کا ایمان ایک سخت آزمائش میں پڑ گیا۔ قریش میں گھر گھر ان کی عزیز داریاں تھیں اور وہ توقع لیے بیٹھے تھے کہ ملنے جلنے کا یہ دروازہ کھلا رہے گا اور وہ کفر اور اسلام دونوں کے ساتھ نباہ کرتے رہیں گے۔ اس اعلان نے نہ صرف اس توقع کا ہمیشہ کے لیے یک قلم خاتمہ کر دیا بلکہ انھوں نے دیکھا کہ اب وہ وقت سر پر آ رہا ہے کہ انھیں اپنے ان تمام عزیزوں اور رشتہ داروں کے خلاف تلوار سونتنی پڑے گی۔ اس ذہن کے لوگوں کو سامنے رکھ کر فرمایا جا رہا ہے کہ بھلا ان مشرکین کے کسی عہد و پیمان کی کوئی ذمہ داری اللہ و رسول پر کیسے ہو سکتی ہے جن کا حال یہ ہے کہ اگر تم پر کہیں ان کا زور چل جائے تو نہ قرابت کا پاس کریں نہ کسی عہد کا۔ باتوں سے وہ تمہیں خوش کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے دل تمہارے اوپر غم و غصہ سے کھول رہے ہیں۔ ان کی اکثریت بدعہدوں پر مشتمل ہے۔
آیات ۷۔۸ کا دروبست: اس آیت کا درو بست ذرا قابل غور ہے اس کو سمجھ لیجیے۔ کلام کا آغاز تو فرمایا ’کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ‘ سے لیکن بات پوری کرنے سے پہلے ایک استثنا کا ذکر بطور جملۂ معترضہ کر دیا کہ ’اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ‘ پھر اس بات کو جو اس جملۂ معترضہ کے سبب سے ادھوری رہ گئی تھی ازسرنو لیا اور اس کو بعینہٖ اسی تمہید سے شروع کر کے اس کی تکمیل کی۔ فرمایا ’کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً‘۔ الایۃ
معاشرتی و سیاسی تعلقات کی بنیادیں: تعلقات کی بنیاد دو ہی چیزوں پر ہوتی ہے۔ معاشرتی تعلقات کی بنیاد رشتۂ رحم و قرابت کے پاس و لحاظ پر اور سیاسی روابط کی بنیاد باہمی معاہدات کی عائد کردہ ذمہ داریوں کے احترام پر۔ پہلی کو ’الّ‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو ان حقوق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک اصل و نسل، ایک جوہر و معدن سے ہونے یا قرابت اور پڑوس کی بنا پر ایک دوسرے پر آپ سے آپ قائم ہو جاتے ہیں۔ دوسری کو ’ذمّہ‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو ان ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کسی معاہدہ میں شریک ہونے والی پارٹیوں پر ازروئے معاہدہ عائد ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ اس اعلان براء ت سے تم میں سے کوئی اس تشویش میں مبتلا نہ ہو کہ اب ان لوگوں کے ساتھ تمام معاشرتی اور اجتماعی تعلقات ختم ہو رہے ہیں۔ یہ ختم ہو رہے ہیں تو اب ان کو ختم ہی ہونا تھا۔ تعلقات کبھی بھی یک طرفہ قائم نہیں رہتے۔ تم میں سے جو لوگ ان کے تعلقات کو عزیز رکھتے ہیں انھیں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ وہ اگر تم پر کبھی قابو پا جائیں گے تو نہ قرابت مندی کا لحاظ رکھیں گے نہ کسی معاہدے کا۔ ملاقاتوں میں یہ جو چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں وہ محض زبانی ہمدردی کی نمائش اور تمہیں بے وقوف بنانے کی ایک کوشش ہے ورنہ حقیقت میں ان کے دل ان کی زبان سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ان کے دلوں کے اندر تمہارے اور تمہارے دین کے خلاف عناد بھرا ہوا ہے۔
’فسق‘ کا مفہوم: ’وَاَکْثَرُھُمْ فٰسِقُوْنَ‘ یعنی جس طرح ان کی قرابت داری محض زبانی اور نمائشی ہے اسی طرح اپنے عہد و پیمان کے معاملے میں بھی یہ بالکل جھوٹے اور غدار ہیں۔ ان کی اکثریت عہد شکن ہے۔ ’فسق‘ کا لفظ یہاں غداری اور عہد شکنی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن میں اس لفظ کا استعمال اس معنی میں معروف ہے۔ جس طرح اوپر ’تقوٰی‘ کا لفظ پاس عد کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اسی طرح یہاں ’فسق‘ کا لفظ نقض عہد کے لیے استعمال ہوا ہے۔
معاہدۂ حدیبیہ کی طرف اشارہ: ’اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ‘ ہمارے نزدیک یہ اشارہ اس معاہدہ کی طرف ہے جو قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہوا تھا۔ اس رائے کے دلائل تو آگے واضح ہوں گے لیکن ایک قرینہ یہاں قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ اس کا تعارف ’اَلَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘ سے کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی معاہدے ہجرت کے بعد مشرکین کے ساتھ کیے ان میں سے اگر کوئی معاہدہ مسجد حرام کی نسبت کے ساتھ تعارف کا سزاوار ہو سکتا ہے تو وہ صرف حدیبیہ کا معاہدہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہی معاہدہ مسجد حرام کے قرب و جوار میں طے پایا تھا۔ اس نسبت کے اظہار سے ایک طرف تو معاہدے کا تعارف ہو گیا۔ دوسری طرف اس سے اس کی غیرمعمولی حرمت بھی واضح ہوئی کہ کوئی ایسا ویسا معاہدہ نہیں ہے بلکہ اس کی تکمیل جوار حرم میں ہوئی ہے جس سے زیادہ کوئی دوسری جگہ مقدس و محترم نہیں ہو سکتی۔ ہم کسی دوسرے مقام میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ اہل عرب بالعموم اپنے معاہدات اپنے معبدوں اور استھانوں کے سامنے کرتے تھے تاکہ فریقین کے اندر معاہدات کے احترام کا جذبہ پیدا ہو۔
معاہدۂ حدیبیہ کی پابندی کی ہدایت: فرمایا کہ ’فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ‘ یعنی جب تک قریش اس معاہدے پر قائم رہیں تم بھی اس پر قائم رہو۔ اگر وہ اس کو توڑ دیں تم بھی اس کو توڑ دو۔ کوئی معاہدہ یک طرفہ قائم نہیں رہتا۔ دونوں پارٹیاں مل کر اس کو قائم رکھتی ہیں۔ یہی تقاضائے عدل ہے اور اسلام اسی کا تمہیں حکم دیتا ہے۔ ’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے ہی عدل پسندوں کو دوست رکھتا ہے۔
معاہدات سے متعلق تین باتیں: اوپر کی آیات سے اس وقت تک کے ان تمام معاہدات کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کی مختلف پارٹیوں کے درمیان طے پائے تھے تین باتیں واضح ہوئیں:
۱۔ جن مشرکین نے اپنے معاہدات کی خلاف ورزیاں کی تھیں ان سے اعلان براء ت اور چار ماہ کی مہلت کے بعد ان سے جنگ۔
۲۔ جنھوں نے اپنے معاہدات پوری وفاداری سے نباہے تھے اور ان کے معاہدات موقّت تھے، اختتام مدت کے بعد یہ معاہدات بھی ختم۔
۳۔ معاہدۂ حدیبیہ کی خاص نوعیت: معاہدۂ حدیبیہ کو اس وقت تک قائم رکھنے کی ہدایت جب تک قریش اس کو قائم رکھیں۔ یہ یاد رہے کہ معاہدۂ حدیبیہ غیر موقت تھا اور ان آیات کے نزول کے وقت تک معلوم ہوتا ہے قریش لشتم پشتم اس کو نباہ رہے تھے اس وجہ سے قدرتی طور پر اس کے متعلق بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ چار ماہ کی مذکورہ مدت گزرنے کے بعد اس کا کیا انجام ہو گا؟ یہ اسی سوال کا جواب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی دوران میں قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بنی خزاعہ کے خلاف اپنے حلیف بنی بکر کی مدد کر کے اس معاہدہ کی بھی خلاف ورزی کی جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فوج کشی کی اور اس کو فتح کر لیا۔
اللہ اور اُس کے رسول کے ہاں اِن مشرکوں سے کوئی عہد کس طرح باقی رہ سکتا ہے؟ ہاں جن لوگوں سے تم نے مسجد حرام کے پاس (حدیبیہ میں) عہد کیا تھا، سو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں، تم بھی اُن کے ساتھ سیدھے رہو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو (بد عہدی سے) بچنے والے ہوں۔
یہاں سے روے سخن اُن لوگوں کی طرف ہو گیا ہے جو اِن مشرکوں کے لیے مزید مہلت کے خواہاں تھے۔ اُنھیں صاف نظر آ رہا تھا کہ اِس اعلان کے نتیجے میں اب اُنھیں اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں اور زمانۂ جاہلیت کے دوست احباب کے خلاف تلوار سونتنی پڑے گی۔ یہ لوگ چونکہ ضعیف الایمان تھے، اِس لیے قدرتی طور پر سخت آزمایش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ آگے جو کچھ فرمایا ہے، اِنھی کمزور مسلمانوں کی ذہنی کیفیت کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے۔
اصل الفاظ ہیں: ’الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘۔ زبان کے اسالیب سے واقف ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ الفاظ اگر کسی معاہدے کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں تو صرف معاہدۂ حدیبیہ ہی کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی معاہدے مشرکین کے ساتھ کیے، اُن میں سے کوئی بھی مسجد حرام کے ساتھ اِس طرح کی نسبت سے تعارف کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس نسبت کے اظہار سے ایک طرف تو معاہدے کا تعارف ہو گیا۔ دوسری طرف اِس سے اُس کی غیر معمولی حرمت بھی واضح ہوئی کہ کوئی ایسا ویسا معاہدہ نہیں ہے، بلکہ اِس کی تکمیل جوار حرم میں ہوئی ہے جس سے زیادہ کوئی دوسری جگہ مقدس و محترم نہیں ہو سکتی۔‘‘(تدبرقرآن ۳/ ۵۴۳)
یہ بات اگرچہ اوپر بیان ہو چکی ہے کہ ایسے موقت معاہدے جن کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، وہ باقی رہیں گے، لیکن معاہدۂ حدیبیہ کی اہمیت چونکہ غیر معمولی تھی اور یہ دس سال کے لیے کیا گیا تھا، اِس لیے سلسلۂ کلام کو روک کر متنبہ کر دیا ہے کہ یہ معاہدہ بھی اُس وقت تک باقی رہے گا، جب تک قریش اِس پر قائم رہتے ہیں۔
اصل میں لفظ ’تَقْوٰی‘ آیا ہے۔ اِس کے لغوی معنی بچنے کے ہیں۔ جس چیز سے بچنے کی طرف اشارہ مقصود ہے، وہ سیاق سے مفہوم ہو رہی ہے، اِس لیے لفظوں میں بیان نہیں ہوئی۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ لفظ اِس طریقے سے استعمال ہوا ہے۔ لفظ ’فِسْق‘ کے معاملے میں بھی آگے یہی اسلوب اختیار فرمایا ہے۔
اِن مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے؟ بجز اُن لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔
یعنی بنی کنانہ اور بنی خزاعہ اور بنی ضمرہ
مشرکوں کے لئے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے رہ سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد و پیمان مسجد حرام کے پاس کیا جب تک وہ لوگ تم سے معاہدہ نبھائیں تم بھی ان سے وفاداری کرو، اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے ۔
یہ استہفام نفی کے لئے ہے، یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ ہے، ان کے علاوہ اب کسی سے معاہدہ باقی نہیں رہا ہے۔
یعنی عہد کی پاسداری، اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ امر ہے۔ اس لئے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔
کس طرح باقی رہ سکتی ہے جب کہ حال یہ ہے کہ اگر وہ کہیں تمہیں دبا پائیں تو نہ تمہارے بارے میں کسی قرابت کا پاس کریں نہ عہد کا۔ وہ تمہیں باتوں سے مطمئن کرنا چاہتے ہیں، پر ان کے دل انکار کر رہے ہیں اور ان کی اکثریت بدعہد ہے۔
آیات ۷۔۸ کا دروبست: اس آیت کا درو بست ذرا قابل غور ہے اس کو سمجھ لیجیے۔ کلام کا آغاز تو فرمایا ’کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ‘ سے لیکن بات پوری کرنے سے پہلے ایک استثنا کا ذکر بطور جملۂ معترضہ کر دیا کہ ’اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ‘ پھر اس بات کو جو اس جملۂ معترضہ کے سبب سے ادھوری رہ گئی تھی ازسرنو لیا اور اس کو بعینہٖ اسی تمہید سے شروع کر کے اس کی تکمیل کی۔ فرمایا ’کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً‘۔ الایۃ
معاشرتی و سیاسی تعلقات کی بنیادیں: تعلقات کی بنیاد دو ہی چیزوں پر ہوتی ہے۔ معاشرتی تعلقات کی بنیاد رشتۂ رحم و قرابت کے پاس و لحاظ پر اور سیاسی روابط کی بنیاد باہمی معاہدات کی عائد کردہ ذمہ داریوں کے احترام پر۔ پہلی کو ’الّ‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو ان حقوق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک اصل و نسل، ایک جوہر و معدن سے ہونے یا قرابت اور پڑوس کی بنا پر ایک دوسرے پر آپ سے آپ قائم ہو جاتے ہیں۔ دوسری کو ’ذمّہ‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو ان ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کسی معاہدہ میں شریک ہونے والی پارٹیوں پر ازروئے معاہدہ عائد ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ اس اعلان براء ت سے تم میں سے کوئی اس تشویش میں مبتلا نہ ہو کہ اب ان لوگوں کے ساتھ تمام معاشرتی اور اجتماعی تعلقات ختم ہو رہے ہیں۔ یہ ختم ہو رہے ہیں تو اب ان کو ختم ہی ہونا تھا۔ تعلقات کبھی بھی یک طرفہ قائم نہیں رہتے۔ تم میں سے جو لوگ ان کے تعلقات کو عزیز رکھتے ہیں انھیں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ وہ اگر تم پر کبھی قابو پا جائیں گے تو نہ قرابت مندی کا لحاظ رکھیں گے نہ کسی معاہدے کا۔ ملاقاتوں میں یہ جو چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں وہ محض زبانی ہمدردی کی نمائش اور تمہیں بے وقوف بنانے کی ایک کوشش ہے ورنہ حقیقت میں ان کے دل ان کی زبان سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ان کے دلوں کے اندر تمہارے اور تمہارے دین کے خلاف عناد بھرا ہوا ہے۔
معاہدات سے متعلق تین باتیں: اوپر کی آیات سے اس وقت تک کے ان تمام معاہدات کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کی مختلف پارٹیوں کے درمیان طے پائے تھے تین باتیں واضح ہوئیں:
۱۔ جن مشرکین نے اپنے معاہدات کی خلاف ورزیاں کی تھیں ان سے اعلان براء ت اور چار ماہ کی مہلت کے بعد ان سے جنگ۔
۲۔ جنھوں نے اپنے معاہدات پوری وفاداری سے نباہے تھے اور ان کے معاہدات موقّت تھے، اختتام مدت کے بعد یہ معاہدات بھی ختم۔
۳۔ معاہدۂ حدیبیہ کی خاص نوعیت: معاہدۂ حدیبیہ کو اس وقت تک قائم رکھنے کی ہدایت جب تک قریش اس کو قائم رکھیں۔ یہ یاد رہے کہ معاہدۂ حدیبیہ غیر موقت تھا اور ان آیات کے نزول کے وقت تک معلوم ہوتا ہے قریش لشتم پشتم اس کو نباہ رہے تھے اس وجہ سے قدرتی طور پر اس کے متعلق بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ چار ماہ کی مذکورہ مدت گزرنے کے بعد اس کا کیا انجام ہو گا؟ یہ اسی سوال کا جواب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی دوران میں قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بنی خزاعہ کے خلاف اپنے حلیف بنی بکر کی مدد کر کے اس معاہدہ کی بھی خلاف ورزی کی جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فوج کشی کی اور اس کو فتح کر لیا۔
کس طرح باقی رہ سکتا ہے، جبکہ حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر کہیں غلبہ پا لیں تو نہ تمھارے بارے میں کسی قرابت کا لحاظ کریں، نہ کسی عہد کا؟ اپنے منہ کی باتوں سے وہ تمھیں راضی کرنا چاہتے ہیں، مگر اُن کے دل انکار کر رہے ہیں اور اُن میں سے اکثر بدعہد ہیں۔
اصل میں ’اِلًّا‘ اور ’ذِمَّۃً‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تعلقات کی بنیاد دو ہی چیزوں پر ہوتی ہے۔ معاشرتی تعلقات کی بنیاد رشتۂ رحم و قرابت کے پاس و لحاظ پر اور سیاسی روابط کی بنیاد باہمی معاہدات کی عائد کردہ ذمہ داریوں کے احترام پر۔ پہلی کو ’ال‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو اُن حقوق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک اصل و نسل، ایک جوہر و معدن سے ہونے یا قرابت اور پڑوس کی بنا پر ایک دوسرے پر آپ سے آپ قائم ہو جاتے ہیں۔ دوسری کو ’ذِمَّہ‘ سے تعبیر فرمایا ہے جو اُن ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کسی معاہدہ میں شریک ہونے والی پارٹیوں پر ازروے معاہدہ عائد ہوتی ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۵۴۲)
مگر اِن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اُن کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا۔ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔
یعنی بظاہر تو وہ صلح کی شرطیں طے کرتے ہیں مگر دل میں بدعہدی کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کا ثبوت تجربے سے اس طرح ملتا ہے کہ جب کبھی انہوں نے معاہدہ کیا توڑنے ہی کے لیے کیا۔
یعنی ایسے لوگ ہیں جنہیں نہ اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور نہ اخلاق کی پابندیوں کے توڑنے میں کوئی باک۔
ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہوجائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا اپنی زبانوں سے تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں اکثر فاسق ہیں۔
مشرکین کی زبانی باتوں کا کیا اعتبار، جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر تم پر غالب آجائیں تو کسی قرابت اور عہد کا پاس نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین کے نزدیک پہلا کیف مشرکین کے لئے ہے اور دوسرے سے یہودی مراد ہیں، کیونکہ ان کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کی آیتوں کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ اور یہ وطیرہ یہودیوں کا ہی رہا ہے۔
انھوں نے اللہ کی آیات کے عوض میں ایک نہایت حقیر قیمت اختیار کر لی ہے۔ اور اس طرح وہ اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں، بے شک بہت ہی برا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔
اعلان براء ت کے وجوہ کی مزید وضاحت: یہ اعلان براء ت کے وجود کی مزید وضاحت ہے کہ ان مشرکین کا معاملہ خالق اور خلق کسی کے ساتھ بھی درست نہیں۔ ان کے لیے اللہ کی ہدایت اتری تو انھوں نے اس کے مقابل میں اس دنیا کی متاع حقیر کو ترجیح دی، خود بھی اس سے منہ موڑا اور دوسروں کو بھی، جن پر ان کا بس چلا، اس سے روکا۔ خلق کے ساتھ ان کے معاملے کی نوعیت یہ ہے کہ کسی مسلمان کے معاملے میں ان کو نہ رِحم اور قرابت کا پاس ہے نہ عہد و ذمہ کا۔ ’وَاُولٰءِٓکَ ھُمُ الْمُعْتَدُوْنَ‘ یعنی حقوق تلف کرنے اور حدود توڑنے میں انہی نے سبقت کی ہے تو ایسے بدعہدوں اور ایسے ظالموں کے ساتھ اللہ و رسول کا کوئی عہد کیسے رہ سکتا ہے۔ اب ان کے لیے بس یہی راہ ہے کہ توبہ کریں ، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی بن جائیں گے ’وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ‘ میں فی الجملہ تنبیہ کا مضمون ہے مسلمانوں اور کفار دونوں کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ جاننا اور سمجھنا چاہیں ان کے لیے اس باب میں اللہ کے احکام کی پوری وضاحت کر دی گئی ہے۔ کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ اب اگر مسلمانوں میں سے کسی نے ان مشرکین کے ساتھ اس سے الگ ہو کر کوئی معاملہ کرنا چاہا تو اس کی ذمہ داری خود اسی پر ہے، اسی طرح مشرکین میں سے اگر کسی نے اس سے کچھ الگ امید باندھی تو اس کی ذمہ داری بھی خود اسی پر ہے۔
اللہ کی آیتوں کے عوض میں اُنھوں نے تھوڑی قیمت قبول کر لی، پھر اُس کی راہ سے رک گئے ہیں۔ یقیناً بہت برا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔
یعنی دنیا کی متاع حقیر کو ترجیح دی اور خدا کی آیتوں کو چھوڑ کر اُسے اختیار کر لیا۔ آیت میں اِسے ’اِشْتِرَآء‘ سے تعبیر کیا ہے۔ زمانۂ قدیم میں خرید و فروخت مبادلۂ اشیا کے طریقے پر ہوتی تھی۔ لفظ ’اِشْتِرَآء‘ میں یہ مفہوم اِسی سے پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کر لی پھر اللہ کے راستے میں سدراہ بن کر کھڑے ہو گئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔
یعنی ایک طرف اللہ کی آیات ان کو بھلائی اور راستی اور قانون حق کی پابندی کا بلاوا دے رہی ہے دوسری طرف دنیوی زندگی کے وہ چند روزہ فائدے تھے جو خواہش نفس کی بےلگام پیروی سے حاصل ہوتے تھے ان لوگوں نے ان دونوں چیزوں کا موازنہ کیا اور پھر پہلی کو چھوڑ کر دوسری چیز کو اپنے لئے چن لیا۔
یعنی ان ظالموں نے اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ ہدایت کے بجائے گمراہی کو خود اپنے لیے پسند کرلیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے کوشش یہ کی کہ دعوت حق کا کام کسی طرح چلنے نہ پائے، خیر وہ صلاح کی اس پکار کو کوئی سننے نہ پائے، بلکہ وہ منہ ہی بند کردیے جائیں جن سے یہ پکار بلند ہوتی ہے۔ جس صالح نظام زندگی کو اللہ تعالیٰ زمین میں قائم کرنا چاہتا تھا اس کے قیام کو روکنے میں انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور ان لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا جو اس نظام کو حق پا کر اس کے متبع بنے تھے۔
انہوں نے اللہ کی آیتوں کو بہت کم قیمت پر بیچ دیا اور اس کی راہ سے روکا بہت برا ہے جو یہ کر رہے ہیں۔
کسی صاحب ایمان کے معاملے میں نہ ان کو کسی قرابت کا پاس ہے اور نہ کسی عہد کا۔ اور یہی لوگ ہیں جو حدود کو توڑنے والے ہیں۔
اعلان براء ت کے وجوہ کی مزید وضاحت: یہ اعلان براء ت کے وجود کی مزید وضاحت ہے کہ ان مشرکین کا معاملہ خالق اور خلق کسی کے ساتھ بھی درست نہیں۔ ان کے لیے اللہ کی ہدایت اتری تو انھوں نے اس کے مقابل میں اس دنیا کی متاع حقیر کو ترجیح دی، خود بھی اس سے منہ موڑا اور دوسروں کو بھی، جن پر ان کا بس چلا، اس سے روکا۔ خلق کے ساتھ ان کے معاملے کی نوعیت یہ ہے کہ کسی مسلمان کے معاملے میں ان کو نہ رِحم اور قرابت کا پاس ہے نہ عہد و ذمہ کا۔ ’وَاُولٰءِٓکَ ھُمُ الْمُعْتَدُوْنَ‘ یعنی حقوق تلف کرنے اور حدود توڑنے میں انہی نے سبقت کی ہے تو ایسے بدعہدوں اور ایسے ظالموں کے ساتھ اللہ و رسول کا کوئی عہد کیسے رہ سکتا ہے۔ اب ان کے لیے بس یہی راہ ہے کہ توبہ کریں ، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی بن جائیں گے ’وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ‘ میں فی الجملہ تنبیہ کا مضمون ہے مسلمانوں اور کفار دونوں کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ جاننا اور سمجھنا چاہیں ان کے لیے اس باب میں اللہ کے احکام کی پوری وضاحت کر دی گئی ہے۔ کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ اب اگر مسلمانوں میں سے کسی نے ان مشرکین کے ساتھ اس سے الگ ہو کر کوئی معاملہ کرنا چاہا تو اس کی ذمہ داری خود اسی پر ہے، اسی طرح مشرکین میں سے اگر کسی نے اس سے کچھ الگ امید باندھی تو اس کی ذمہ داری بھی خود اسی پر ہے۔
کسی مسلمان کے معاملے میں نہ اُنھیں کسی قرابت کا لحاظ ہے، نہ عہد کا اور وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔
n/a
کسی مومن کے معاملہ میں نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادتی ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوئی ہے۔
n/a
یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہ داری کا یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے، یہ ہیں ہی حد سے گزرنے والے
بار بار وضاحت سے مقصود مشرکین اور یہود کی اسلام دشمنی اور ان کے سینوں میں مخفی عداوت کے جذبات کو بےنقاب کرنا ہے۔
امین احسن اصلاحی
ان مشرکین سے اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان براء ت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔
لفظ ’بَرَآءَ ۃٌ‘ کا مفہوم: ’بَرَآءَ ۃٌ مِنَ اللّٰہِ الایہ‘۔ ’بَرَآءَ ۃٌ‘ کے معنی کسی ذمہ داری سے دست بردار اور بری الذمہ ہونے کے ہیں۔ یہاں یہ ان معاہدات کی ذمہ داری سے دست کش ہونے کے معنی میں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد مشرکین عرب کے مختلف قبائل سے موقت اور غیر موقت نوعیت کے کر لیے تھے۔ ’مشرکین‘ سے یہاں بھی اور قرآن میں جہاں جہاں بھی یہ لفظ بشکل علم استعمال ہوا ہے مشرکین بنی اسمٰعیل یا بالفاظ دیگر مشرکین عرب مراد ہیں۔ ان کے معاہدات کی ذمہ داری سے اس اعلان براء ت کی وجہ آگے آیت ۳ سے واضح ہوتی ہے کہ بہت سے قبائل نے معاہدات کرنے کو تو کر لیے تھے لیکن ان کو وفاداری اور راست بازی کے ساتھ نباہ نہیں رہے تھے اس وجہ سے اس قسم کے معاہدوں کے کالعدم ہونے کا اعلان کر دیا گیا، صرف ان قبائل کے معاہدے باقی رکھے گئے جنھوں نے کوئی غداری یا عہد شکنی نہیں کی تھی اور وہ بھی صرف ان کی قرار دادہ مدت تک کے لیے۔ لفظ ’بَرَآءَ ۃٌ‘ کے بعد حرف ’الٰی‘ جو آیا ہے یہ دلیل ہے اس بات پر کہ یہاں ’ابلاغ‘ کا مفہوم بھی مضمر ہے۔ یعنی اس دست برداری کی اطلاع تمام ناقض عہد مشرکین کو پہنچا دی جائے چنانچہ بعد والی آیت میں اس کی تصریح بھی آ رہی ہے۔
ایک قابل توجہ نکتہ: یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ جہاں تک معاہدہ کرنے کا تعلق ہے اس کی ذمہ داری تو اللہ تعالیٰ نے، جیسا کہ ’عٰھَدْتُّمْ‘ کے لفظ سے واضح ہے تمام مسلمانوں پر ڈالی ہے اس لیے کہ پیغمبر کی اٹھائی ہوئی ذمہ داری تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے لیکن براء ت ذمہ کے معاملے میں مسلمانوں کی ذمہ داری معین نہیں فرمائی ہے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ اس سے اس اعلان کی شدت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ و رسول تو ان بودے معاہدوں سے بری ہوئے، اب اہل ایمان خود فیصلہ کریں کہ انھیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اللہ و رسول کا ساتھ دے کر اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہے یا عزیز داری، برادری اور خاندان و قبیلہ کی پاس داری میں نفاق کی روش اختیار کرنی ہے۔ بات کے اس انداز سے کہنے میں مصلحت یہ تھی کہ پس منظر میں، جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے، منافقین بھی تھے جو ابھی اپنے خاندانی و قبائلی بندھنوں سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے۔ ان لوگوں پر اس اسلوب سے یہ حقیقت واضح کر دی گئی کہ اللہ اور رسول کی طرف سے یہ فیصلہ قطعی ہے، اس میں کسی لچک کا امکان نہیں ہے، جس کو اس کا ساتھ دینا ہو، ساتھ دے ورنہ اپنی راہ اور اپنی منزل کا خود فیصلہ کرے۔