وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ

امین احسن اصلاحی

شاہد ہیں جبل تین اور کوہ زیتون

’تین‘ سے مراد جبل تین ہے: ’و‘ یہاں قسم کے لیے ہے اور قسم سے متعلق ہم برابر وضاحت کرتے آ رہے ہیں کہ قرآن میں اشیاء اور مقامات کی جو قسمیں آئی ہیں وہ تمام تر اس دعوے پر دلیل کی حیثیت سے آئی ہیں جو قسم کے بعد مذکور ہوا ہے۔ یہاں ’تین‘ سے مشہور پھل انجیر مراد نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے مفسرین نے سمجھا ہے، بلکہ جبل تین ہے جو انجیر کی پیداوار کے لیے مشہور رہا ہے۔ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۂ تین میں اس کی جو تحقیق بیان فرمائی ہے اس کا کچھ ضروری حصہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں:

’’’تین‘ ایک خاص پہاڑ کا نام ہے۔ عربی میں انجیر کو تین کہتے ہیں۔ چونکہ یہاں انجیر کی پیداوار بکثرت تھی اس وجہ سے یہ تین ہی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اہل عرب اس نام سے اس کو جانتے تھے۔ نام رکھنے کا یہ طریقہ عربوں میں معروف رہا ہے۔ جس چیز کی پیداوار جہاں زیادہ ہوتی بسا اوقات اسی کے نام سے اس مقام کو موسوم کر دیتے۔ ’غضٰی‘، ’شجرۃ‘، ’نخلۃ‘ وغیرہ مقاموں کے نام اسی طرح پڑے۔.......
مشہور شاعر نابغہ ذبیانی نے اپنے شعروں میں ’تین‘ کا ذکر ایک مقام کی حیثیت سے کیا ہے:

صھب الظلال اتین التین عن عرض
یزجین غیما قلیلًا ماءہ شبما

’’اس میں اس نے ’تین‘ سے شمال کے ایک پہاڑ کو مراد لیا ہے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ یہ حلوان اور ہمدان کے درمیان ہے۔‘‘

آگے مولانا اس کے بارے میں بعض قیاسات کی تردید کرتے ہوئے اپنی قطعی رائے ان الفاظ میں ظاہر فرماتے ہیں:

’’اس سے معلوم ہوا کہ تین سے مراد یا تو کوہ جودی ہے یا اسی کے قریب کا کوئی دوسرا پہاڑ۔ تورات میں ہے کہ طوفان نوح کے بعد بنی آدم یہیں سے ادھر ادھر متفرق ہوئے اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کوہ جودی کے پاس پیش آیا۔‘‘

’زَیْتُوْن‘ سے مراد کوہ زیتون ہے: ’زَیْتُوْن‘ سے بھی زیتون کا درخت یا اس کا پھل مراد نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے مفسرین نے گمان کیا ہے۔ بلکہ جبل زیتون ہے جو حضرت مسیح کی دعوت اور عبادت کے مرکز کی حیثیت سے معروف ہے اور انجیل میں جس کا ذکر باربار آیا ہے۔
مولانا اس کے متعلق اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’ہمارے نزدیک یہ بھی مقام کا نام ہے۔ چونکہ زیتون کی پیداوار یہاں زیادہ تھی اس وجہ سے عربوں کے اس طریق تسمیہ کے مطابق، جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا، یہ زیتون کے نام سے موسوم ہو گیا۔ یہ یقیناً وہی پہاڑ ہے جس کا انجیل میں اکثر ذکر آتا ہے اور جس پر حضرت مسیح علیہ السلام عبادت اور دعا کے لیے جایا کرتے تھے۔ لوقا باب ۲۱: ۳۷ میں اس کا ذکر یوں آیا ہے:

’اور دن میں وہ ہیکل میں تعلیم دیتا تھا اور رات میں نکل جاتا تھا اور اس پہاڑ پر شب بسر کرتا تھا جس کا نام کوہ زیتون ہے۔‘

سلف کے اقوال سے بھی اس رائے کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت کعب سے روایت ہے کہ زیتون سے مراد بیت المقدس ہے اور قتادہ کہتے ہیں کہ زیتون وہ پہاڑ ہے جہاں بیت المقدس واقع ہے۔‘‘‘‘
جبل ’تین‘ کی شہادت جزا پر: سب سے پہلے جبل تین کی قسم کھائی گئی ہے اور دلائل کی روشنی میں اوپر وضاحت ہو چکی ہے کہ اس سے مراد کوہ جودی ہے۔ اس پہاڑ پر اللہ تعالیٰ کے قانون مکافات کے دو اہم واقعات پیش آئے ہیں اور ان کی تفصیل قدیم صحیفوں میں موجود ہے۔ ایک حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ اور دوسرا حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ ان میں سے پہلے واقعہ کا ذکر مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۂ تین میں یوں کیا ہے:

جبل تین کی شہادت جزا پر

’’تین وہ پہلا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیے جزا و سزا کا پہلا واقعہ پیش آیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آدم علیہ السلام نے خدا کا عہد بھلا دیا اور اپنے حاسد کے فریب میں آ کر ممنوعہ درخت کا پھل کھا بیٹھے تو ان کو اور ان کی بیوی کو جزا کے قانون سے دوچار ہونا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو سرفرازی بخشی تھی اس سے وہ محروم کر دیے گئے اور جنت کی خلعت ان سے چھین لی گئی ۔۔۔ ......اور یہ واقعہ ان کی پوری نسل کے لیے ایک یادگار واقعہ قرار پایا۔ چنانچہ قرآن میں متعدد جگہ اسی پہلو سے اس کو یاد دلایا گیا ہے، مثلاً فرمایا ہے:

’یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْھُمَا لِبَاسَھُمَا‘ (الاعراف ۷: ۲۷)
(اے آدم کے بیٹو! کہیں شیطان تم کو ورغلا نہ دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا چھوڑا، جنت کے خلعت سے محروم کر کے)۔‘‘

’’یہاں وہ بات بھی یاد رکھیے جو تورات میں مذکور ہے کہ حضرات آدم و حوا (علیہما السلام) نے جنت کی خلعت سے محروم ہونے کے بعد جس درخت کے پتوں سے اپنے تن ڈھانکے وہ انجیر کا درخت تھا۔‘‘
’’اس واقعہ کے بعد قرآن میں تصریح ہے کہ حضرات آدم و حوا (علیہما السلام) نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان پر ہدایت نازل کرنے اور اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کو اجر دینے کا وعدہ فرمایا۔ پہلے عہد کے بعد یہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا عہد تھا جو اس نے حضرت آدم سے کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جبل تین کا واقعہ اپنے اندر دو مختلف پہلو رکھتا ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے ایک طرف حضرت آدم سے ایک نعمت چھینی اور دوسری طرف ایک عظیم نعمت ان کو بخشی۔ چھینی اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کے عہد کو فراموش کر دیا تھا اور بخشی اس وجہ سے کہ غفلت کے بعد وہ متنبہ ہو گئے اور انھوں نے توبہ کی۔‘‘

جبل تین کے پاس جزا کا دوسرا واقعہ حضرت نوح علیہ السلام کے عہد میں پیش آیا اس کی تفصیل مولانا رحمۃ اللہ علیہ یوں پیش کرتے ہیں:

’’ان کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اسی پہاڑ کے پاس ظالموں کو تباہ کیا اور نیکو کاروں کو طوفان سے نجات دی اور برکت بخشی۔ قرآن مجید میں ہے:

وَقِیْلَ یٰٓاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ.(ہود ۱۱: ۴۴)
(اور حکم دیا گیا، اے زمین اپنا پانی جذب کر لے اور اے آسمان! تھم جا۔ پانی اتر گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹک گئی اور اعلان کر دیا گیا کہ ظالموں کے لیے ہلاکی ہو۔)

آگے حضرت نوح کی دعا کے بعد ان کو یہ ہدایت ہوئی:

قِیْلَ یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُھُمْ ثُمَّ یَمَسُّھُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(ہود ۱۱: ۴۸)
(کہا گیا، اے نوح، اترو، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اپنے اوپر اور ان قوموں پر جو تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے سوا اور قومیں بھی ہوں گی جن کو ہم کچھ دن بہرہ مند ہونے کا موقع دیں گے۔ پھر ان کو ہمارا دردناک عذاب پکڑے گا۔)

........اس سے معلوم ہوا کہ جبل تین اللہ تعالیٰ کے قانون مکافات کے ظہور کا ایک یادگار مقام ہے۔‘‘
کوہ زیتون پر جزا کا جو واقعہ پیش آیا ہے اس کی تفصیل مولانا یوں پیش کرتے ہیں:

کوہ زیتون کی شہادت جزا پر

’’اسی پہاڑ پر خدا نے اپنی شریعت یہود سے چھینی اور وہ سلسلۂ ابراہیمی کی دوسری شاخ کے حوالہ کر دی۔ یہ واقعہ حضرت مسیح کی زندگی کے آخری دور سے تعلق رکھتا ہے۔ انجیلوں میں اس کی جو تفصیلات موجود ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک روز آپ شب بھر جاگ کر اپنے رب سے دعا و مناجات کرتے رہے کہ ان کی قوم (یہود) کی کشتی غرق ہونے سے بچ جائے لیکن تقدیر کا فیصلہ اٹل تھا۔ بالآخر وہ قوم کے مستقبل سے مایوس ہو گئے۔ بالخصوص جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہود آپ کے قتل کے درپے ہیں تو اس بات سے آپ کو اور بھی غم ہوا کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ اگر یہود نے اس طرح کا کوئی اقدام کیا تو ان پر سنت الٰہی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جائے گی اور وہ اپنی امانت ان سے چھین کر دوسروں کے حوالے کر دے گا۔ متی باب ۲۱: ۴۲ میں ہے:
’یسوع نے ان سے کہا کہ تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے؟‘‘‘

یہ عبارت زبور ۱۱۸: ۲۲-۲۳ کی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس کا حوالہ دے کر اپنی طرف سے اس کی شرح یوں فرمائی:

’’اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، لیکن جس پر وہ گرے گا اس کو پیس ڈالے گا۔
یہود سے یہ آسمانی بادشاہت چھینے جانے کا واقعہ کوہ زیتون پر پیش آیا۔ انجیلوں میں اس ماجرے کی ساری تفصیلات موجود ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

تین اور زیتون (کے پہاڑ) گواہی دیتے ہیں

زیتون وہ پہاڑ ہے جہاں مسیح علیہ السلام کے دنیا سے اٹھائے جانے کے بعد اُن کے منکرین پر قیامت تک کے لیے عذاب کا فیصلہ سنایا گیا اور بنی اسرائیل میں سے اُن کے ماننے والوں کی ایک نئی امت نصاریٰ کی ابتدا ہوئی۔ پھر یہیں اعلان کیا گیا کہ مسیح علیہ السلام کے منکرین پر اُن کے ماننے والوں کو قیامت تک غلبہ حاصل رہے گا۔ تین اِسی پر واقع ایک گاؤں ہے۔ اِس کا ذکر انجیل میں Bethphage کے نام سے ہوا ہے۔ اِس میں phage وہی fig ہے جسے عربی زبان میں تین کہتے ہیں۔ لوقا ۱۹: ۲۹ میں ہے کہ سیدنا مسیح جب یروشلم آئے تو شہر میں داخل ہونے سے پہلے اِسی جگہ ٹھیرے۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔

اس کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے۔ حسن بصری، عکرمہ، عطاء بن ابی رباح، جابر بن زید، مجاہد اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ انجیر سے مراد یہی انجیر ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون بھی یہی زیتون ہے جس سے تیل نکالا جاتا ہے۔ ابن ابی حاتم اور حاکم نے ایک قول حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس کی تائید میں نقل کیا ہے۔ اور جن مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے انہوں نے انجیر اور زیتون کے خواص اور فوائد بیان کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی خوبیوں کی وجہ سے ان دونوں پھلوں کی قسم کھائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک عام عربی داں تین اور زیتون کے الفاظ سن کر وہی معنی لے گا جو عربی زبان میں معروف ہیں۔ لیکن دو وجوہ ایسے ہیں جو یہ معنی لینے میں مانع ہیں۔ ایک یہ کہ آگے طور سینا اور شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے اور دو پھلوں کے ساتھ دو مقامات کی قسم کھانے میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی۔ دوسرے ان چار چیزوں کی قسم کھا کر آگے جو مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اس پر طور سینا اور شہر مکہ تو دلالت کرتے ہیں، لیکن یہ دو پھل اس پر دلالت نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بھی کسی چیز کی قسم کھائی ہے، اس کی عظمت یا اس کے منافع کی بنا پر نہیں کھائی، بلکہ ہر قسم اس مضمون پر دلالت کرتی ہے جو قسم کھانے کے بعد بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے ان دونوں پھلوں کے خواص کو وجہ قسم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بعض دوسرے مفسرین نے تین اور زیتون سے مراد بعض مقامات لیے ہیں، کعب احبار، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ تین سے مراد دمشق اور زیتون سے مراد بیت المقدس۔ ابن عباس کا ایک قول ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے یہ نقل کیا ہے کہ تین سے مراد حضرت نوح کی وہ مسجد ہے جو انہوں نے جودی پہاڑ پر بنائی تھی۔ اور زیتون سے مراد بیت المقدس ہے۔ لیکن والتین و الزیتون کے الفاظ سن کر یہ معنی ایک عام عرب کے ذہن میں نہیں آسکتے تھے اور نہ یہ بات قرآن کے مخاطب اہل عرب میں معروف تھی کہ تین اور زیتون ان مقامات کے نام ہیں۔

البتہ یہ طریقہ اہل عرب میں رائج تھا کہ جو پھل کسی علاقے میں کثرت سے پیدا ہوتا ہو اس علاقے کو وہ بسا اوقات اس پھل کے نام سے موسوم کردیتے تھے۔ اس محاورے کے لحاظ سے تین زیتون کے الفاظ کا مطلب مناسبت تین و زیتون، یعنی ان پھلوں کی پیداوار کا علاقہ ہوسکتا ہے، اور وہ شام و فلسطین کا علاقہ ہے کیونکہ اس زمانے میں اہل عرب میں یہی علاقہ انجیر اور زیتون کی پیداوار کے مشہور تھا۔ ابن تیمیہ، ابن القیم، زمحشری اور آلوسی رحمہم اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ اور ابن جریر نے بھی اگرچہ پہلے قول کو ترجیح دی ہے، مگر اس کے ساتھ یہ بات تسلیم کی ہے کہ تین و زیتون سے مراد ان پھلوں کی پیداوار کا علاقہ بھی ہوسکتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے بھی اس تفسیر کو قابل لحاظ سمجھا ہے۔

جونا گڑھی

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔

n/a

وَطُورِ سِينِينَ

امین احسن اصلاحی

اور طور سینین

طور سینا: ان دونوں کا مقام ہونا تو بالکل واضح ہے لیکن طور سینین میں لفظ سینا، جو سینین ہو گیا ہے، اس کی تحقیق مولانا کے نزدیک یہ ہے:

’’قرآن میں ایک جگہ ’طُوْرِ سَیْنَآءَ‘ (المومنون ۲۳: ۲۰) بھی آیا ہے یعنی ایک جگہ یہ مؤنث کی صورت میں ہے اور دوسری جگہ جع سالم کی شکل میں۔ جیسے عربی میں ’جمعًا‘ اور ’اَجْمَعُوْنَ‘ مستعمل ہیں۔ تورات میں کہیں ’سینا‘ آیا ہے اور کہیں ’سینیم‘ اور معلوم ہے کہ عبرانی میں ’یم‘ جمع کی علامت ہے۔‘‘؂۱
طور سینین کی شہادت کی تفصیل کرتے ہوئے مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

طور سینین کی شہادت جزا پر

’’طور سینین کی شہادت جزا پر بالکل واضح ہے۔ یہی مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ایک مظلوم و مقہور قوم پر اپنی عنایت مبذول فرمائی اور اس کے صبر کے صلہ میں دشمنوں کے پنجہ سے اس کو نجات دے کر اس کا سر اونچا کیا اور پھر اس کو ایک ایسی شریعت عطا فرمائی جو منکروں اور دشمنوں کے لیے یکسر تازیانۂ عذاب تھی۔ یہ واقعہ مظلوموں پر لطف و نوازش اور ظالموں پر قہر و غضب کی نہایت واضح مثال ہے۔ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ اور قوم فرعون کے واقعات جہاں بیان ہوئے ہیں اس حقیقت کی طرف اشارات موجود ہیں۔ مثلاً:

وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَا کَانُوْا یَعْرِشُوْنَ.(الاعراف ۷: ۱۳۷)
‘‘اور تمہارے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل کے لیے پورا ہوا۔ بوجہ اس کے کہ انھوں نے صبر کیا، اور ہم نے تباہ کر ڈالیں وہ عمارتیں جو فرعون اور اس کی قوم بناتے رہے تھے اور وہ بیلیں بھی جو وہ ٹٹیوں پر چڑھاتے رہے تھے۔‘‘‘‘

مولانا نے یہ فصل وضاحت سے لکھی ہے لیکن یہ واقعات معلوم ہیں اس وجہ سے ہم نے صرف مختصر اقتباس پر کفایت کی ہے۔ جن کو تفصیل مطلوب ہو وہ اصل کتاب کی مراجعت کریں۔

_____
؂۱ ہم اس کتاب میں واضح کر چکے ہیں کہ عربی میں بعض مرتبہ کسی چیز کی جمع اس کی وسعت اطراف کو ظاہر کرنے کے لیے بھی آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے عبرانی میں بھی یہ قاعدہ موجود ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور طور سینین

لفظ ’سِیْنِیْنَ‘جمع سالم کی صورت میں ہے، جیسے عربی زبان میں ’اجمعون‘ مستعمل ہے۔ یہ جمع پہاڑ کی وسعت اطراف کو ظاہر کرتی ہے۔ عبرانی میں اِس کی علامت ’یم‘ ہے۔ چنانچہ تورات میں اِس کا نام کہیں ’سینا‘ اور کہیں ’سینیم‘ آیا ہے۔ بنی اسرائیل نے بحیثیت امت اپنی زندگی اِسی پہاڑ سے شروع کی۔ پھر اِسی پہاڑ سے خدا نے اپنی کتاب میں اعلان کیا کہ وہ حق پر قائم رہیں گے تو دنیا کی قوموں پر اُنھیں غلبہ حاصل ہو گا اور اُس سے انحراف کریں گے تو اُنھی کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کر دیے جائیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

اور طور سینا کی۔

n/a

جونا گڑھی

اور طور سینین کی

 یہ وہی کوہ طور ہے جہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوا تھا 

وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ

امین احسن اصلاحی

اور یہ پر امن سرزمین

بلد امین سے مکہ مراد ہے: ’بلد امین‘ سے ظاہر ہے کہ مکہ مراد ہے لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صاف الفاظ میں مکہ کیوں نہیں کہا، صفت کے ساتھ کیوں اس کا ذکر کیا۔ اس سوال کا جواب ہم آگے ان شاء اللہ جب مقسم علیہ سے ان قسموں کے تعلق کی وضاحت کریں گے، دیں گے۔بلد امین کی شہادت جزا پر

بلد امین سے مراد ظاہر ہے کہ مکہ ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے ایک مامون گھر بنایا ہے، چنانچہ فرمایا ہے:

’وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا‘ (آل عمران ۳: ۹۷)
(اور جو اس میں داخل ہوا وہ مامون ہوا)۔

جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی کافر قوم سے ہجرت کر کے اس علاقہ میں آئے ہیں یہ بالکل غیر آباد و غیر مامون تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے لیے رزق و امن کی دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی جس کی بدولت اس علاقہ میں رزق کی بھی فراوانی ہوئی اور یہ امن سے بھی معمور ہوا۔ اور یہ دونوں نعمتیں لوگوں کو حضرت ابراہیم کے بنائے ہوئے گھر کی برکت سے ملیں۔ چنانچہ فرمایا ہے:

’فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ ۵ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ‘(قریش ۱۰۶: ۳-۴)
(پس چاہیے کہ لوگ اس گھر کے خداوند کی بندگی کریں جس نے ان کو بھوک میں کھلایا اور خوف سے نچنت کیا)۔

حضرت ابراہیم پر یہ انعام ان کی ان جاں بازیوں اور قربانیوں کے صلے میں ہوا جو انھوں نے کلمۂ توحید کی سربلندی کی راہ میں پیش کیں۔ پھر جب انھوں نے اس سے بھی بڑے امتحان یعنی بیٹے کی قربانی کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کر لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بھی بڑے انعام یعنی قوموں کی امامت کے منصب سے نوازا۔ اس وقت حضرت ابراہیمؑ نے سوال کیا کہ کیا اس امامت کے انعام میں میری ذریت بھی شامل ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میرا یہ وعدہ ان لوگوں سے متعلق نہیں ہے جو شرک و کفر میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بن جائیں گے۔ یعنی تم کو جو کچھ ملا ہے وہ تو انعام ہے تمہاری جاں بازیوں اور وفاداریوں کا، اس وجہ سے تمہاری ذریت میں سے وہی اس انعام میں شریک ہوں گے جو تمہارے طریقہ کے پیرو ہوں گے۔ رہے وہ جو اس راہ سے منحرف ہو جائیں گے تو وہ اپنے اسی انجام سے دوچار ہوں گے جو اس طرح کے لوگوں کے لیے خدا کے قانون مکافات کی رو سے مقدر ہے۔ قرآن میں اس کا حوالہ یوں آیا ہے:

وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھِیۡمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ.(البقرہ ۲: ۱۲۴)
’’اور یاد کرو جب کہ ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں سے جانچا تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں تو فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں تو اس نے سوال کیا کہ کیا میری ذریت میں سے بھی؟ ارشاد ہوا کہ میرا یہ عہد ان لوگوں سے متعلق نہیں ہے جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔‘‘

اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ مقام نہ صرف اللہ تعالیٰ کے قانون مکافات کا ایک مظہر ہے بلکہ اسی سرزمین سے اللہ تعالیٰ نے اپنی اس سنت کی عام منادی کرائی ہے کہ کون لوگ اس کے فضل و انعام کے حق دار ہوں گے اور کون اس کے قہر و غضب کے سزاوار ٹھہریں گے۔
ناموں کی ترتیب سے متعلق ایک سوال کا جواب: ایک سوال ان ناموں کی ترتیب سے متعلق بھی ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ ان کی تقدیم و تاخیر میں کون سا اصول ملحوظ ہے۔ استاذ امام اس کا یہ جواب دیتے ہیں:

’’اس میں ترتیب جمع مثل بالمثل کی ملحوظ ہے۔ پہلے آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا اس لیے کہ تقدم زمانی کے لحاظ سے اسی کا ذکر ہونا تھا۔ پھر مسیح علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر ہوا اور یہ اس مماثلت کے سبب سے ہوا جو حضرت آدم اور حضرت مسیح کے درمیان ہے اور جس کا ذکر قرآن نے نہایت واضح الفاظ میں یوں فرمایا ہے:

’اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَاللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ‘ (آل عمران ۳: ۵۹)
(عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم کی ہے)‘‘‘‘

....................................................................................................

’’اس کے بعد ان دو مقاموں کا ذکر آتا ہے جن کا تعلق حضرت موسیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور ان دونوں رسولوں میں جو مماثلت ہے وہ بھی قرآن سے واضح ہے۔ چنانچہ قریش کو مخاطب کر کے فرمایا ہے:

اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا۵ شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا.(المزمل ۷۳: ۱۵)
’’ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا تم پر گواہ بنا کر جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا۔‘‘

’’تورات کی کتاب استثناء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بشارت وارد ہے اس میں بھی یہ مماثلت موجود ہے:
’اور میں ان کے لیے انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اس کو حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب انہی سے لوں گا۔‘‘‘

جاوید احمد غامدی

اور (تمھارا) یہ شہر امین بھی

’اَمِیْن‘ مامون کے معنی میں ہے، یعنی وہ شہر جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے طفیل مامون قرار دیا۔ سورۂ آل عمران (۳) آیت ۹۷ میں فرمایا ہے: ’وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا‘ (جو اِس میں داخل ہو جائے، وہ مامون ہے)۔ اِسے مکہ یا ام القریٰ مکہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو امامت کا منصب اِسی شہر میں عطا ہوا اور خدا کی زمین پر اُس کی عبادت کے اولین مرکز، بیت الحرام کی تولیت ہمیشہ کے لیے اُن کی ذریت کے سپرد کر دی گئی۔ پھر یہیں اعلان کیا گیا کہ امامت کا یہ وعدہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو اُن کی ذریت میں سے اپنی جانوں پر ظلم ڈھا نے والے ہوں گے۔

ابو الاعلی مودودی

اور اِس پرامن شہر (مکہ) کی۔

n/a

جونا گڑھی

اور اس امن والے شہر کی

 اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جس میں قتال کی اجازت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جو اس میں داخل ہوجائے، اسے بھی امن حاصل ہوتا ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دراصل تین مقامات کی قسم ہے جن میں سے ہر ایک جگہ میں جلیل القدر پیغمبر مبعوث ہوئے، انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں پر اس کی پیداوار ہوئی اور وہ ہے بیت المقدس، جہاں حضرت عیسیٰ پیغمبر بن کر آئے، سنین پر حضرت موسیٰ کو نبوت ملی، اور شہر مکہ میں سیدالرسل حضرت محمد کی بعثت ہوئی۔ 

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ

امین احسن اصلاحی

کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر بنایا

اصل دعویٰ جس کو ثابت کرنے کے لیے قسمیں کھائی گئی ہیں: یہ وہ اصل دعویٰ ہے جس کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ بالا قسمیں کھائی گئی ہیں۔ فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے لیکن ہماری سنت یہ ہے کہ جو لوگ اس انعام کی قدر کرتے اور ان کی فطرت کے اندر جو ہدایت ہم نے ودیعت کی ہے اس کو پروان چڑھاتے اور پھر نبیوں کی دعوت قبول کر کے ایمان و عمل صالح کی راہ اختیار کر لیتے ہیں ان کو تو ہم دائمی اجر سے نوازتے ہیں، لیکن جو لوگ اس کی قدر نہیں کرتے وہ ایمان اور عمل صالح کی راہ اختیار کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں، اور ان کو ہم اسی گڑھے میں پھینک دیتے ہیں جس سے بچانے ہی کے لیے ہم نے ان پر یہ انعام کیا تھا۔

’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘۔ ’تَقْوِیْمٌ‘ کا لغوی مفہوم تو کسی چیز کو سیدھا کرنا، مثلاً کہیں گے:

’قوّمت الرمح فاستقام‘ (میں نے نیزے کو سیدھا کیا تو وہ سیدھا ہوگیا) پھر اس مفہوم سے ترقی کر کے یہ لفظ کسی شے کو کسی خاص مقصد کے لیے موزوں اور مناسب بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ انسان کو اللہ نے نہایت اعلیٰ مقصد کے لیے بہترین صلاحیتوں سے آراستہ کیا ہے: انسان کے متعلق قرآن میں باربار یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ اس کو خدا نے عبث نہیں بلکہ ایک عظیم غایت (بِالْحَقِّ) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ غایت یہ ہے کہ اس دنیا کے دارالامتحان میں وہ شیطان اور اس کے ایجنٹوں کی باطل ترغیبات و ترہیبات سے بچتا ہوا زندگی کی اس صراط مستقیم پر گامزن رہے جو اس کے رب نے اس کے لیے کھولی ہے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ابدی بادشاہی بخشے گا اور اگر وہ شیطان کی ترغیب سے بہک کر یا اس کی ترہیب سے ڈر کر اس صراط مستقیم کو چھوڑ بیٹھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ہلاکت کی اسی وادی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دے گا جو وہ اپنے لیے پسند کرے گا۔ انسان کو اس غایت کے اعتبار سے، اللہ تعالیٰ نے نہایت بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اس کی ظاہری ساخت بھی گواہ ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور اس کی باطنی صلاحیتیں بھی اتنی اعلیٰ ہیں کہ اس زمین کی تمام مخلوقات میں سے صرف وہی ان کا اہل بن سکا ہے۔ پچھلی سورتوں میں، مختلف اسلوبوں سے، یہ بات بیان ہوئی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے خیر اور شر میں امتیاز بخشا ہے۔ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ بالطبع وہ خیر کو پسند کرنے والا اور شر کو ناپسند کرنے والا ہے۔ نیز یہ حقیقت بھی جگہ جگہ واضح کی گئی ہے کہ وہ ذی عقل اور ذی ارادہ ہستی ہے، دوسری مخلوقات کی طرح عقل اور ارادہ سے محروم نہیں ہے۔ یہ ساری باتیں شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے اس کو پیدا کیا ہے اس کے لیے تمام ضروری صلاحیتوں سے اس کو آراستہ بھی کیا ہے۔

جاوید احمد غامدی

کہ انسان کو ہم نے (اِن مقامات پر) پیدا کیا تو اُس وقت وہ بہترین ساخت پر تھا

n/a

ابو الاعلی مودودی

ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

یہ ہے وہ بات جس پر انجیر و زیتون کے علاقے یعنی شام و فلسطین اور کوہ طور اور مکہ کے پر امن شہر کی قسم کھائی گئی ہے۔ انسان کے بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وہ اعلی درجہ کا جسم عطا کیا گیا ہے جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ اور اسے فکر و فہم اور علم و عقل کی وہ بلند پایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں بخشی گئیں۔ پھر چونکہ نوع انسانی کے اس فضل و کمال کا سب سے زیادہ بلند نمونہ انبیاء علیہم السلام ہیں اور کسی مخلوق کے لیے اس سے اونچا کوئی مرتبہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ اسے منصب نبوت عطا کرنے کے لیے منتخب فرمائے۔ اس لیے انسان کے احسن تقویم پر ہونے کی شہادت میں ان مقامات کی قسم کھائی گئی ہے جو خدا کے پیغمبروں سے نسبت رکھتے ہیں۔ شام و فلسطین کا علاقہ وہ علاقہ ہے جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بکثرت انبیاء مبعوث ہوئے۔ کوہ طور وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کی گئی۔ رہا مکہ معظمہ تو اس کی بنا ہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے ہاتھوں پڑی، انہی کی بدولت وہ عرب کا مقدس ترین مرکزی شہر بنا، حضرت ابراہیم ہی نے یہ دعا مانگی تھی کہ ” رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا آمِنًا ” ” اے میرے رب اس کو ایک پر امن شہر بنا ” (البقرہ۔ 126) اور اسی دعا کی یہ برکت تھی کہ عرب میں ہر طرف پھیلی ہوئی بد امنی کے درمیان صرف یہی ایک شہر ڈھائی ہزار سال سے امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا پس کلام کا مقصود یہ ہے کہ ہم نے نوع انسانی کو ایسی بہترین ساخت پر بنایا کہ اس میں نبوت جیسے عظیم مرتبے کے حامل انسان پیدا ہوئے۔

جونا گڑھی

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا

 یہ جواب قسم ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو اس طرح پیدا کیا کہ اس کا منہ نیچے کو جھکا ہوا ہے صرف انسان کو دراز قد، سیدھا بنایا ہے جو اپنے ہاتھوں سے کھاتا پیتا ہے، پھر اس کے اعضا کو نہایت تناسب کے ساتھ بنایا، ان میں جانوروں کی طرح بےڈھنگا پن نہیں ہے۔ 

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ

امین احسن اصلاحی

پھر ہم نے اس کو ادنیٰ درجہ میں ڈال دیا جب کہ وہ خود گرنے والا بنا

وہ سنت جس کے تحت اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے: ’ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘۔ یہ اس سنت کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ فرمایا کہ انسان چونکہ ذی ارادہ ہستی ہے اس وجہ سے اس احسن تقویم کے شرف سے بہرہ یاب رہنا یا اس سے محروم ہو جانا اس کے اپنے رویہ پر منحصر ہے۔ اگر وہ اس کی قدر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مدارج بلند کرتا ہے اور اگر وہ اس کی قدر نہیں کرتا بلکہ نیچے ہی کی طرف جھکا رہتا ہے تو اس کو وہ نیچے ہی کی طرف لوٹا دیتا ہے اور بالآخر تمام سرفرازیوں سے محروم ہو کر، لڑکھڑاتا ہوا قعر جہنم میں گر پڑتا ہے۔

’اَسْفَلَ‘ میرے نزدیک ظرف اور ’سٰفِلِیْنَ‘ ’رَدَدْنٰہُ‘ کی ضمیر مفعول سے حال ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیچے کی طرف اس وجہ سے پھینکتا ہے کہ وہ نیچے کی طرف جانے ہی کی رغبت کرتا ہے، بلندیوں پر چڑھنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔
ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہو کہ ’سٰفِلِیْنَ‘ جمع ہے تو وہ ضمیر واحد سے کس طرح حال پر سکتا ہے؟ لیکن یہ شبہ صحیح نہیں ہے۔ ضمیر اگرچہ واحد ہے لیکن اس کا مرجع ’الْاِنْسَانَ‘ ہے جو معناً جمع ہے چنانچہ قرآن میں جگہ جگہ اس کے لیے ضمیریں واحد بھی آئی ہیں اور جمع بھی۔

جاوید احمد غامدی

پھر ہم نے اُسے پستی میں ڈال دیا، جبکہ وہ خود پستیوں میں گرنے والا ہوا۔

اوپر کی تفصیل سے واضح ہے کہ خدا کی جو دینونت پوری انسانیت کے لیے قیامت میں ظاہر ہو گی، ذریت ابراہیم کے لیے وہ اِسی دنیا میں ظاہر ہوئی۔ تین و زیتون، طور سینا اور شہر امین، تینوں اِسی دینونت کے مقامات ظہور ہیں۔ اِن پر جو واقعات پیش آئے، قرآن نے ترتیب صعودی کے ساتھ اُن کا ذکر کرکے اِس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ذریت ابراہیم کی ہر شاخ نے اپنی ابتدا کی تو اُس وقت وہ ٹھیک اُس ساخت پر تھے جس پر فاطر فطرت نے اُنھیں پیدا کیا ہے۔ وہ توحید پر قائم تھے، پورے یقین کے ساتھ آخرت کو مانتے تھے اور اُن کی اکثریت اخلاقی لحاظ سے حسن عمل کا بہترین نمونہ پیش کرتی تھی، لیکن جب اُنھوں نے انحراف اختیار کیا تو ہم نے اُنھیں اُس پستی میں ڈال دیا جس میں اب صدیوں سے اُنھیں گرا ہوا دیکھتے ہو۔ وہ ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا ہیں اور اُس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔

یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ آیت میں ’اَسْفَلَ سٰفِلِیْن‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن میں ’اَسْفَلَ‘ ظرف اور ’سٰفِلِیْنَ‘ ہمارے نزدیک ’رَدَدْنٰہُ‘ کی ضمیر مفعول سے حال واقع ہوا ہے۔ ضمیر کا مرجع ’الْاِنْسَان‘ ہے جو معناً جمع ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اِن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اُس وقت پستیوں میں ڈالا، جب اِنھوں نے خود پستیوں کو چاہا اور بلندیوں پر چڑھنے کا حوصلہ نہیں کیا۔

ابو الاعلی مودودی

پھر اُسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا۔

مفسرین نے بالعموم اس کے دو معنی بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے اسے ارذل العمر، یعنی بڑھاپے کی ایسی حالت کی طرف پھیر دیا جس میں وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل نہ رہا۔ دوسرے یہ کہ ہم نے اسے جہنم کے سب سے نیچے درجے کی طرف پھیر دیا۔ لیکن یہ دونوں معنی اس مقصود کلام کے لیے دلیل نہیں بن سکتے جسے ثابت کرنے کے لیے یہ سورة نازل ہوئی۔ سورة کا مقصود جزا و سزا کے برحق ہونے پر استدلال کرنا ہے۔ اس پر نہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں میں سے بعض لوگ بڑھاپے کی انتہائی کمزور حالت کو پہنچا دیے جاتے ہیں، اور نہ یہی بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔ پہلی بات اس لیے جزا و سزا کی دلیل نہیں بن سکتی کہ بڑھاپے کی حالت اچھے برے، دونوں قسم کے لوگوں پر طاری ہوتی ہے، اور کسی کا اس حالت کو پہنچنا کوئی سزا نہیں ہے جو اسے اس کے اعمال پر دی جاتی ہو۔ رہی دوسری بات تو وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ اسے ان لوگوں کے سامنے دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جاسکتا ہے۔ جنہیں آخرت ہی کی جزا و سزا کا قائل کرنے کے لیے یہ سارا استدلال کیا جا رہا ہے ؟ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کے بعد جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے۔ حرص، طمع، خود غرضی، شہوت پرستی، نشہ بازی، کمینہ پن، غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہوجاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف اسی ایک بات کو لے لیجیے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہوجاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات دیتی ہے۔ درندہ تو صرف اپنی غذا کے لیے کسی جانور کا شکار کرتا ہے۔ جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا۔ مگر یہ احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام لے کر توپ، بندوق، ٹینک، ہوائی جہاز، ایٹم بم، ھائیڈروجن بم اور دوسرے بیشمار ہتھیار ایجاد کرتا ہے تاکہ آن کی آن میں پوری پوری بستیوں کو تباہ کر کے رکھ دے۔ درندہ صرف زخمی یا ہلاک کرتا ہے۔ مگر انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے لیے ایسے ایسے درد ناک طریقے اختراع کرتا ہے جن کا تصور بھی کبھی کسی درندے کے دماغ میں نہیں آسکتا۔ پھر یہ اپنی دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے کمینہ پن کی اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے، ایک ایک عورت کو دس دس بیس بیس آدمی اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں، باپوں اور بھائیوں اور شوہروں کے سامنے ان کے گھر کی عورتوں کی عصمت لوٹتے ہیں، بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں۔ ماؤں کو اپنے بچوں کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں، انسانوں کو زندہ جلاتے اور زندہ دفن کرتے ہیں۔ دنیا میں وحشی سے وحشی جانوروں کی بھی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجہ میں بھی مقابلہ کرسکتی ہو۔ یہی حال دوسری بری صفات کا بھی ہے کہ ان میں سے جس کی طرف بھی انسان رخ کرتا ہے، اپنے آپ کو ارذل المخلوقات ثابت کردیتا ہے۔ حتی کہ مذہب، جو انسان کے لیے مقدس ترین شے ہے، اس کو بھی وہ اتنا گرا دیتا ہے کہ درختوں اور جانوروں اور پتھروں کو پوجتے پوجتے پستی کی انتہا کو پہنچ کر مرد و عورت کے اعضائے جنسی تک کو پوج ڈالتا ہے، اور دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے عبادت گاہوں میں دیو داسیاں رکھتا ہے جن سے زنا کا ارتکاب کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ جن ہستیوں کو وہ دیوتا اور معبود کا درجہ دیتا ہے ان کی طرف اس دیو مالا میں ایسے ایسے گندے قصے منسوب ہوتے ہیں جو ذلیل ترین انسان کے لیے بھی باعث شرم ہیں۔

جونا گڑھی

پھر اسے نیچوں سے نیچا کردیا۔

 یہ اشارہ ہے انسان کی ارذل العمر کی طرف جس میں جوانی اور قوت کے بعد بڑھاپا اور ضعف آجاتا ہے اور انسان کی عقل اور ذہن بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ بعض نے اس سے کردار کا وہ سفلہ پن لیا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان انتہائی پست اور سانپ بچھو سے بھی گیا گزرا ہوجاتا ہے بعض نے اس سے ذلت و رسوائی کا وہ عذاب مراد لیا ہے جو جہنم میں کافروں کے لیے ہے، گویا انسان اللہ اور رسول کی اطاعت سے انحراف کر کے اپنے احسن تقویم کے بلند رتبہ واعزاز سے گرا کر جہنم کے اسفل السافلین میں ڈال لیتا ہے۔ 

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ

امین احسن اصلاحی

بجز ان کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے۔ سو ان کے لیے ایک دائمی صلہ ہے

ان لوگوں کی صفت جو ہلاکت سے محفوظ رہتے ہیں: ’اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ‘۔ یہ ان لوگوں کی صفت بیان ہوئی ہے جن کو اللہ تعالیٰ اس ہلاکت سے محفوظ رکھتا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ ’احسن تقویم‘ پر پیدا کیے جانے کی قدر و قیمت سمجھتے اور ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے کی توفیق پاتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نیچے نہیں پھینکتا بلکہ ان کو عزت و رفعت بخشتا ہے اور وہ ایک ابدی زندگی میں ابدی انعام سے نوازے جاتے ہیں۔

’غَیْرُ مَمْنُوْنٍ‘ کی تحقیق اس کے محل میں ہو چکی ہے۔ اس کے معنی غیرمنقطع اور دائم کے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کی تاویل اس سے مختلف بھی کی ہے لیکن وہ عربیت کے خلاف ہے۔
اصل دعوے کو متعین کرنے کے بعد اب آئیے اس سوال پر غور کیجیے کہ مذکورہ بالا قَسمیں کس طرح اس دعوے پر دلیل ہیں جو یہاں پیش کیا گیا ہے۔

جاوید احمد غامدی

رہے وہ جو ایمان پر قائم رہے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے تو اُن کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا

آیت میں فعل ’اٰمَنُوْا‘ آیا ہے۔ یہ اپنے کامل معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ استثنا اِس لیے بیان فرمایا ہے کہ قومی حیثیت سے پستی میں گرانے اور عذاب میں مبتلا کیے جانے کے یہ معنی نہ سمجھ لیے جائیں کہ اُن میں سے جو لوگ انفرادی حیثیت سے ایمان پر قائم رہے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اُن کا اجر بھی ضائع ہو جائے گا۔ فرمایا کہ نہیں، وہ اپنے ایمان و عمل کا پورا اجر پائیں گے اور خدا کی ابدی بادشاہی میں داخل کیے جائیں گے۔ قوموں کا محشر یہ دنیا ہے، قیامت میں ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے جواب دہ ہو گا اور اُس کے نیک و بد کا فیصلہ بھی اِسی لحاظ سے کیا جائے گا۔ بلکہ قوم کی پستی کے زمانے میں جو لوگ بلندیوں پر چڑھنے کا حوصلہ کریں گے، وہ زیادہ اجر کے مستحق ہوں گے، اِس لیے کہ وہ اُس وقت جاگتے رہے، جب دوسرے سو رہے تھے اور اُس وقت زندہ رہے، جب شہر قبرستان بن چکے تھے۔

ابو الاعلی مودودی

سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔

جن مفسرین نے اسفل سافلین سے مراد بڑھاپے کی وہ حالت کی ہے جس میں انسان اپنے ہوش حواس کھو بیٹھتا ہے وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ” مگر جن لوگوں نے اپنی جوانی اور تندرستی کی حالت میں ایمان لا کر نیک اعمال کیے ہوں ان کے لیے بڑھاپے کی اس حالت میں بھی وہی نیکیاں لکھی جائیں گی اور انہی کے مطابق وہ اجر پائیں گے۔ ان کے اجر میں اس بات پر کوئی کمی نہ کی جائے گی کہ عمر کے اس دور میں ان سے وہ نیکیاں صادر نہیں ہوئیں “۔ اور جو مفسرین اسفل سافلین کی طرف پھیرے جانے کا مطلب جہنم کے ادنی ترین درجہ میں پھینک دیا جانا لیتے ہیں ان کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ” ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں، وہ اس درجہ کی طرف سے مناسبت نہیں رکھتے جو جزا و سزا کے برحق ہونے پر اس سورت میں کہا گیا ہے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسانی معاشرے میں یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ اخلاقی پستی میں جو گرنے والے لوگ گرتے گرتے سب نیچوں سے نیچ ہوجاتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ہر زمانے کا عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ خدا اور آخرت اور رسالت پر ایمان لائے اور جنہوں نے اپنی زندگی عمل صالح کے سانچے میں ڈھال لی وہ اس پستی میں گرنے سے بچ گئے اور اسی احسن تقویم پر قائم رہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا تھا، اس لیے وہ اجر غیر ممنون کے مستحق ہیں، یعنی ایسے اجر کے جو نہ ان کے استحقاق سے کم دیا جائے گا، اور نہ اس کا سلسلہ کبھی منقطع ہوگا۔

جونا گڑھی

لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر) نیک عمل کئے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔

n/a

فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ

امین احسن اصلاحی

تو اب کیا ہے جس سے تم جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو!

’فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ‘ اس آیت کی تاویل مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یوں فرمائی ہے:

’’اس آیت کی تاویل میں دو قول ہیں:
’فَمَا یُکَذِّبُکَ‘ الآیۃ کی تاویل:
ایک یہ کہ پس اے انسان!ان واضح شہادتوں کے بعد کیا چیز ہے جو جزا کے بارے میں تیری تکذیب کرتی ہے۔ یہ تاویل مجاہد نے اختیار کی ہے جب ان سے کہا گیا کہ اس میں تو مخاطب آنحضرت ہیں تو انھوں نے فرمایا: معاذ اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، اس میں مخاطب انسان ہے۔ زمخشری نے یہی تاویل اختیار کی ہے لیکن وہ ’یُکَذِّبُ‘ میں ’تکذیب‘ کے معنی ’حمل علی التکذیب‘ یعنی تکذیب پر ابھارنے کے لیے لیتے ہیں۔ اگر یہ معنی ثابت ہو جائیں تو یہ تاویل نہایت واضح ہے لیکن اس کی تائید میں انھوں نے کوئی دلیل نہیں دی ہے۔‘‘
’دوسری تاویل یہ ہے کہ پس اے پیغمبر! اس کے بعد کیا چیز ہے جو جزا کے بارے میں تمہاری تکذیب کرتی ہے! فراء نے یہی تاویل اختیار کی ہے۔ اس پہلو سے تو یہ تاویل صحیح ہے کہ اس میں الفاظ کے مشہور معنی سے کوئی انحراف نہیں ہے لیکن سیاق کلام اور موقع استفہام کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو یہ تاویل صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ اول تو دو دو استفہاموں کے ساتھ آنحضرت صلعم کو یہاں مخاطب کرنے کا کوئی پہلو سمجھ میں نہیں آتا، دوسرے ’فَمَا یُکَذِّبُ‘ کا زور اور لفظ ’بَعْدُ‘ کی تاکید تو یہ تاویل لینے کی صورت میں بالکل ہی مخفی رہ جاتی ہے۔ سیاق اور حسن نظم سے اقرب تاویل وہی معلوم ہوتی ہے جو مجاہد نے اختیار کی ہے۔ اس میں لفظ اپنے اصل مفہوم پر باقی بھی رہتا ہے اور اس کے ان دونوں معنوں کے لحاظ سے جو اوپر بیان ہوئے یہاں دو تاویلیں نہایت محکم اور خوبصورت بن جاتی ہیں۔‘‘
’’ایک یہ کہ اے انسان! ان شہادتوں کے بعد اب کون سی شہادت اور دلیل ہے جو وقوع جزا کے بارے میں تیرے عقیدے کی تکذیب کرتی ہے۔ اس صورت میں مخاطب انسان ہو گا اور جو لوگ جزا پر یقین رکھنے والے ہیں ان کو اس کلام سے تقویت اور تائید حاصل ہو گی اور جو لوگ جزا کے بارے میں مذبذب ہوں گے ان کو اس پر غور کرنے کی تحریک ہوگی۔‘‘
’’پھر لفظ ’ما‘ کے حسن استعمال پر غور کیجیے۔ اس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ انسان نے انکار کی راہ ہمیشہ تقلید اور ضد کی بنا پر اختیار کی ہے۔ اس راہ میں دلائل نے کبھی اس کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ دلائل اور شہادتوں کی اس پوری کائنات میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو جزا کے انکار کے حق میں ہو۔ اس وجہ سے انسانوں کو مخاطب کر کے یہ دعوت دی کہ وہ تقلید سے ہٹ کر دلائل پر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا یہاں کوئی ایک چیز بھی ایسی ہے جو جزا کے عقیدے کو غلط ثابت کر رہی ہو۔‘‘
’’دوسری تاویل یہ کہ واقعات اور دلائل کی ان شہادتوں کے بعد آخر وہ اوہام اور آرزوئیں کیا ہیں جو جزا کے بارے میں انسان کو فریب میں مبتلا کر رہی ہیں۔‘‘
’’اس صورت میں روئے سخن منکرین کی طرف ہو گا۔ قرآن میں اس قسم کے خطاب کی نظیریں موجود ہیں، مثلاً:

یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ.(الانفطار ۸۲: ۶)
اے انسان! تجھے تیرے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔‘‘

ان دونوں استفہاموں کا مدعا: ان دونوں استفہاموں کا مدعا مولاناؒ یوں واضح فرماتے ہیں:

’’ اب دونوں استفہاموں کے مدعا پر غور کیجیے:
پہلے اسفہام کا مدعا دونوں تاویلوں کی صورت میں یہ ہو گا کہ مجازات کے اس قدر دلائل سامنے آ جانے کے بعد انسان کو چاہیے کہ اس کا اقرار کرے اور ان شبہات سے اپنے کو بچائے جو لوگوں کی طرف سے یا خود اس کے اپنے نفس کی طرف سے اس کے دل میں پیدا ہوں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

(اے پیغمبر)، اِس کے بعد کیا چیز ہے جو روز جزا کے بارے میں تمھیں جھٹلاتی ہے؟

یہ استفہام انکار کے لیے ہے اور روے سخن اُنھی منکرین قیامت کی طرف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انذار کو جھٹلا رہے تھے ۔ فرمایا ہے کہ علم و عقل کے ہاتھ میں فیصلہ ہو تو ذریت ابراہیم کے لیے خدائی دینونت کے اِس ظہور کو دیکھنے کے بعد کوئی چیز بھی قیامت کے بارے میں تمھارے انذار کو نہیں جھٹلا سکتی۔اثبات قیامت کے لیے یہ ایک حتمی حجت ہے۔ اِس کے بعد صرف ضد، ہٹ دھرمی اور اندھی تقلید ہی لوگوں کو جھٹلانے پر آمادہ کر سکتی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پس (اے نبیؐ) اس کے بعد کون جزا و سزا کے معاملہ میں تم کو جھٹلا سکتا ہے؟

دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” پس (اے انسان) اس کے بعد کیا چیز تجھے جزا و سزا کو جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے “۔ دونوں صورتوں میں مدعا ایک ہی رہتا ہے۔ یعنی جب یہ بات علانیہ انسانی معاشرے میں نظر آتی ہے بہترین ساخت پر پیدا کی ہوئی نوع انسانی میں سے ایک گروہ اخلاقی پستی میں گرتے گرتے سب نیچوں سے نیچ ہوجاتا ہے، اور دوسرا گروہ ایمان و عمل صالح اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچا رہتا ہے اور اسی حالت پر قائم رہتا ہے جو بہترین ساخت پر انسان کے پیدا کیے جانے سے مطلوب تھی، تو اس کے بعد جزا و سزا کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے ؟ کیا عقل یہ کہتی ہے کہ دونوں قسم کے انسانوں کا انجام یکساں ہو ؟ کیا انصاف یہی چاہتا ہے کہ نہ اسفل السافلین میں گرنے والوں کو کوئی سزا دی جائے اور نہ اس سے بچ کر پاکیزہ زندگی اختیار کرنے والوں کو کوئی جزا ؟ یہی بات دوسرے مقامات پر قرآن میں اس طرح فرمائی گئی ہے کہ ” أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ” ” کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کردیں۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے، تم کیسے حکم لگاتے ہو ؟ ” (القلم 35 ۔ 36) ۔ ” أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ” ” کیا برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح کردیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ؟ دونوں کی زندگی اور موت یکساں ہو ؟ بہت برے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں “۔ (الجاثیہ۔ 21) ۔

جونا گڑھی

پس تجھے اب روز جزا کے جھٹلانے پر کون سی چیز آمادہ کرتی ہے

 یہ انسان سے خطاب ہے کہ اللہ نے تجھے بہترین صورت میں پیدا کیا اور وہ تجھے اور اس کے برعکس ذلت میں گرانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اس کے بعد بھی تو قیامت اور جزا کا انکار کرتا ہے۔ 

أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ

امین احسن اصلاحی

کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں

اس آیت کی تاویل مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یوں فرمائی ہے:

’’دوسرے استفہام ’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ‘ کا مقصد یہ ہے کہ لوگ مجازات کا اقرار کریں اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ گویا پوری بات یوں فرمائی کہ کیا اللہ تعالیٰ تمام حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے؟ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ انسانوں کو یونہی چھوڑ دے گا، ان کے اچھوں اور بروں میں کوئی امتیاز نہ کرے گا۔

’اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ‘ (القلم ۶۸: ۳۵-۳۶)
(کیا ہم فرماں برداروں کو نافرمانوں کی طرح کر دیں گے، تمہیں کیا ہو گیا ہے! تم کیسے فیصلے کرتے ہو!!)‘‘

یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اس سورہ میں انسان کے ’احسن تقویم‘ پر پیدا کیے جانے کا جو ذکر ہے اس کا خاص پہلو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو خیر و شر میں امتیاز بخشا ہے اور اس کے اندر عدل سے محبت اور ظلم سے کراہت ودیعت فرمائی ہے۔ اس چیز کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ کے اندر، جو انسان کا خالق ہے، عدل اور خیر سے یہ محبت اور ظلم و شر سے کراہت بدرجۂ کمال موجود ہے۔ پھر یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ اس کی یہ صفت اس پر واجب کرتی ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں تمام خلق کا انصاف کرے۔ جنھوں نے نیکی کمائی ہو ان کو اچھا صلہ دے اور جنھوں نے بدی کمائی ہو ان کو ان کی بدی کے مطابق سزا دے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ ’اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ‘ نہیں ہے حالانکہ وہ بالبداہت ’اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ‘ ہے۔ اس کی اس صفت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اِن سے پوچھو)، کیا اللہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا نہیں ہے؟

یہ استفہام اقرار کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ یقیناً سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، اُس کی اِس صفت سے کوئی عاقل انکار نہیں کر سکتا، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ قیامت برپا نہ کرے اور اِس طرح مجرموں اور نیکوکاروں کو اُن کے انجام کے لحاظ سے برابر کر دے؟

ابو الاعلی مودودی

کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟

یعنی جب دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکموں سے بھی تم یہ چاہتے ہو اور یہی توقع رکھتے ہو کہ وہ انصاف کریں، مجرموں کو سزا دیں اور اچھے کام کرنے والوں کو صلہ و انعام دیں، تو خدا کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ کیا وہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اگر تم اس کو سب سے بڑا حاکم مانتے ہو تو کیا اس کے بارے میں تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ کوئی انصاف نہ کرے گا ؟ کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ برے اور بھلے کو ایک جیسا کر دے گا ؟ کیا اس کی دنیا میں بد ترین افعال کرنے والے اور بہترین کام کرنے والے، دونوں مر کر خاک ہوجائیں گے، اور کسی کو نہ بد اعمالیوں کی سزا ملے گی نہ حسن عمل کی جزا ؟

امام احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن المنذر، بیہقی، حاکم اور ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سورة ” وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ” پڑھے اور ” أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ” پر پہنچے تو کہے ” بَلٰی وَ اَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاھِدِیْنَ ” (ہاں، اور میں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں) ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور جب یہ آت پڑھتے تو فرماتے ” سُبْحٰنَکَ فَبَلیٰ “۔

جونا گڑھی

کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں کا حاکم نہیں ہے۔

 جو کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس کے عدل ہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ قیامت برپا کرے اور ان کی داد رسی کرے جن پر دنیا میں ظلم ہوا۔