جب زمین ہلا دی جائے گی، جس طرح اُسے ہلانا ہے
اصل الفاظ ہیں: ’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا‘۔ یعنی زمین جیسے کرۂ عظیم کے ساتھ تمھارے تصورات سے مافوق یہ حادثہ جس طرح پیش آنا چاہیے، اُسی طرح پیش آئے گا۔ آیت میں یہ مضمون فعل ’زِلْزَال‘ کے محض مفعول مطلق کے طور پر آنے سے نہیں، بلکہ زمین کی طرف اُس کے مضاف ہونے سے پیدا ہوا ہے۔
جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی۔
اصل الفاظ ہیں زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۔ زلزلہ کے معنی پے در پے زور زور سے حرکت کرنے کے ہیں۔ پس زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو جھٹکے پر جھٹکے دے کر شدت کے ساتھ ہلا ڈالا جائے گا۔ اور چونکہ زمین کو ہلانے کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ زمین کا کوئی مقام یا کوئی حصہ یا علاقہ نہیں بلکہ پوری کی پوری زمین ہلا ماری جائے گی۔ پھر اس زلزلے کی مزید شدت کو ظاہر کرنے کے لیے زِلْزَالَهَا کا اس پر اضافہ کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں ” اس کا ہلایا جانا ” اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایسا ہلایا جائے گا جیسا اس جیسے عظیم کرے کو ہلانے کا حق ہے، یا جو اس کے ہلائے جانے کی انتہائی ممکن شدت ہوسکتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس زلزلے سے مراد وہ پہلا زلزلہ لیا ہے جس سے قیامت کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوگا یعنی جب ساری مخلوق ہلاک ہوجائے گا اور دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ لیکن مفسرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جس سے قیامت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا، یعنی جب تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ زندہ ہو کر اٹھیں گے۔ یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے کیونکہ بعد کا سارا مضمون اسی پر دلالت کرتا ہے۔
جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی
اس کا مطلب ہے سخت بھو نچال سے ساری زمین لرز اٹھے گی اور ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی، یہ اس وقت ہوگا جب پہلا نفخہ پھونکا جائے گا۔
اور زمین اپنا بوجھ باہر نکال پھینکے گی
’اثقال‘ سے مراد: ’ثِقْلٌ‘ کے معنی بار اور بوجھ کے ہیں۔ اس کا اول مصداق تو مردے ہیں جو زمین میں دفن ہیں اور قیامت کے دن زمین ان کو نکال باہر کرے گی لیکن لفظ عام ہے اس وجہ سے اس سے وہ خزانے اور دفینے بھی مراد ہو سکتے ہیں اور ان جرائم کی یادگاریں بھی جن کا مجرموں نے ارتکاب کیا اور زمیں میں ان کو چھپایا۔ سورۂ انشقاق کی آیت
’وَاَلْقَتْ مَا فِیْھَا وَتَخَلَّتْ‘ (الانشقاق ۸۴: ۴)
(جو کچھ اس کے اندر ہو گا وہ اس کو ڈال کر فارغ ہو جائے گی)
میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے اور آگے سورۂ عادیات کی آیت
’اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ‘ (العادیات ۱۰۰: ۹)
(اور جب کہ قبریں اگلوائی جائیں گی)
کے تحت بعض اشارات ان شاء اللہ مزید آئیں گے۔
اور زمین اپنے سب بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی
مطلب یہ ہے کہ اپنی قبروں کے مردے، اپنے خزینے اور دفینے اورمجرموں کے جرائم کی یادگاریں، سب اپنے اندر سے نکال کر باہر ڈال دے گی۔
اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی۔
یہ وہی مضمون ہے جو سورة انشقاق آیت 4 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وَاَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ ” اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی ” اس کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مرے ہوئے انسان زمین کے اندر جہاں جس شکل اور جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے ان سب کو وہ نکال کر باہر ڈال دے گی، اور بعد کا فقرہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس وقت ان کے جسم کے تمام بکھرے ہوئے اجزاء جمع ہو کر از سر نو اسی شکل و صورت میں زندہ ہوجائیں گے جس میں وہ پہلی زندگی کی حالت میں تھے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو وہ یہ کیسے کہیں گے کہ زمین کو یہ کیا ہورہا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ صرف مرے ہوئے انسانوں ہی کو وہ باہر نکال پھینکنے پر اکتفا نہ کرے گی، بلکہ ان کو پہلی زندگی کے افعال و اقوال اور حرکات و سکنات کی شہادتوں کا جو انبار اس کی تہوں میں دبا پڑا ہے اس سب کو بھی وہ نکال کر باہر ڈال دے گی۔ اس پر بعد کا یہ فقرہ دلالت کرتا ہے کہ زمین اپنے اوپر گزرے حالات بیان کرے گی۔ تیسرا مطلب بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ سونا، چاندی، جواہر اور ہر قسم کی دولت جو زمین کے پیٹ میں ہے اس کے بھی ڈھیر کے ڈھیر وہ باہر نکال کر رکھ دے گی اور انسان دیکھے گا کہ یہی ہیں وہ چیزیں جن پر وہ دنیا میں مرا جاتا تھا، جن کی خاطر اس نے قتل کیے، حق داروں کے حقوق مارے، چوریاں کیں، ڈاکے دالے، خشکی اور تری میں قزاقیاں کیں، جنگ کے معرکے برپا کیے اور پوری قوموں کو تباہ کر ڈالا۔ آج وہ سب کچھ سامنے موجود ہے اور اس کے کسی کام کا نہیں ہے بلکہ الٹا اس کے لیے عذاب کا سامان بنا ہوا ہے۔
اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی
یعنی زمین میں جتنے انسان دفن ہیں، وہ زمین کا بوجھ ہیں، جنہیں زمین قیامت والے دن باہر نکال پھینکے گی اور اللہ کے حکم سے سب زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ یہ دوسرے نفخے میں ہوگا، اسی طرح زمین کے خزانے بھی باہر نکل آئیں گے۔
اور انسان پکار اٹھے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے
انسان کی بدحواسی کی تصویر: اس ہولناک صورت حال کا انسان پر جو اثر پڑے گا یہ اس کی تعبیر ہے کہ وہ بدحواس ہو کر پکار اٹھے گا کہ ارے، یہ اسے کیا ہو گیا ہے کہ یہ کسی طرح ٹکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اور اپنے اندر کی ہر چیز باہر نکالے دے رہی ہے! اسی طرح کی گھبراہٹ مجرموں پر اس وقت بھی طاری ہو گی جب ان کے اعمال کا رجسٹر کھلے گا۔ اس وقت بھی وہ کہیں گے:
’مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا‘ (الکہف ۱۸: ۱۹)
(عجیب ہے یہ کتاب! کوئی چھوٹا یا بڑا عمل ایسا نہیں ہے جو اس کی گرفت سے باہر رہ گیا ہو!)
اور انسان کہے گا: اِس کو کیا ہوا؟
n/a
اور انسان کہے گا کہ یہ اِس کو کیا ہو رہا ہے۔
انسان سے مراد ہر انسان بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ زندہ ہو کر ہوش میں آتے ہی پہلا تاثر ہر شخص پر یہی ہوگا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے، بعد میں اس پر یہ بات کھلے گی کہ یہ روز محشر ہے۔ اور انسان سے مراد آخرت کا منکر انسان بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ جس چیز کو وہ غیر ممکن سمجھتا تھا وہ اس کے سامنے برپا ہورہی ہوگی اور وہ اس پر حیران و پریشان ہوگا۔ رہے اہل ایمان تو ان پر یہ حیرانی و پریشانی طاری نہ ہوگی، اس لیے کہ سب کچھ ان کے عقیدہ و یقین کے مطابق ہورہا ہوگا۔ ایک حد تک اس دوسرے معنی کی تائید سورة یسین کی آیت 52 کرتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ اس وقت منکرین آخرت کہیں گے کہ مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ” کس نے ہمارے خواب گاہ سے ہمیں اٹھا دیا “؟ اور جواب ملے گا ۆھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ۔ ” یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا اور خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں نے سچ کہا تھا “۔ یہ آیت اس معاملہ میں صریح نہیں ہے کہ کافروں کو یہ جواب اہل ایمان ہی دیں گے، کیونکہ آیت میں اس کی تصریح نہیں ہے، لیکن اس امر کا احتمال ضرور ہے کہ اہل ایمان کی طرف سے ان کو یہ جواب ملے گا۔
انسان کہنے لگے گا اسے کیا ہوگیا ہے۔
یعنی دہشت زدہ ہو کر کہے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے یہ کیوں اس طرح ہل رہی ہے اور اپنے خزانے اگل رہی ہے۔
اس دن وہ اپنی داستان کہہ سنائے گی
زمین ہر ایک کا ریکارڈ سنا دے گی: یعنی اس دن زمین وہ تمام نیکیاں اور بدیاں جو اس کی پشت پر کی گئی ہیں خدا کے حکم سے سنا ڈالے گی۔ قرآن کے دوسرے مقامات میں یہ تصریح ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ مجرموں کے اعضاء کو ناطق بنا دے گا اور وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے یہاں تک کہ ان کی کھالیں (بدن کے رونگٹے) بھی ان کے خلاف شہادت دیں گے۔ سورۂ حٰم السجدہ میں فرمایا ہے:
وَقَالُوْا لِجُلُوْدِھِمْ لِمَ شَھِدْتُّمْ عَلَیْنَا قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ.(حٰم السجدہ ۴۱: ۲۱)
’’اور مجرمین اپنی کھالوں سے پوچھیں گے کہ آخر تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ وہ جواب دیں گی کہ جس خدا نے آج ہر چیز کو گویا کر دیا ہے اس نے ہمیں بھی گویا کر دیا۔‘‘
اس دنیا میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اسی زمین کے اوپر یا نیچے کرتا ہے اس وجہ سے یہ انسان کے اعمال و اقوال کی سب سے بڑی گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جس طرح انسان کے اعضاء و جوارح اور اس کے بدن کے روئیں روئیں کو اس کے خلاف گواہی دینے اور اس کی زندگی کا ریکارڈ سنانے کے لیے گویا کر دے گا اسی طرح زمین کو بھی ناطق بنا دے گا کہ وہ ہر ایک کا ریکارڈ سنا دے۔
اُس دن (تیرے پروردگار کے ایما سے)۔ وہ اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی
یعنی انسان کے اعضا و جوارح کی طرح زمین بھی اُس روز گویا ہو گی اور اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’اِس دنیا میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، اِسی زمین کے اوپر یا نیچے کرتا ہے۔ اِس وجہ سے یہ انسان کے اعمال و اقوال کی سب سے بڑی گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جس طرح انسان کے اعضا و جوارح اور اُس کے بدن کے روئیں روئیں کو اُس کے خلاف گواہی دینے اور اُس کی زندگی کا ریکارڈ سنانے کے لیے گویا کر دے گا، اِسی طرح زمین کو بھی ناطق بنا دے گا کہ وہ ہر ایک کا ریکارڈ سنا دے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۹۳)
اُس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی۔
حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھ کر پوچھا ” جانتے ہو اس کے وہ حالات کیا ہیں “؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ” وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہر بندے اور بندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہوگا۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی ” (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن جریر، عبد بن حمید، ابن المنذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب) حضرت ربیعہ الخرشی کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ” ذرا زمین سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ تمہاری جڑ بنیاد ہے اور اس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے خواہ اچھا ہو یا برا “۔ (معجم الطبرانی) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” قیامت کے روز زمین ہر اس عمل کو لے آئے گی جو اس کی پیٹھ پر کیا گیا ہو ” پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائیں (ابن مردویہ، بیہقی) حضرت علی کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ بیت المال کا سب روپیہ اہل حقوق میں تقسیم کر کے اسے خالی کردیتے تو اس میں دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر فرماتے ” تجھے گواہی دینی ہوگی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق ہی کے ساتھ خالی کردیا “۔
زمین کے متعلق یہ بات کہ وہ قیامت کے روز اپنے اوپر گزرے ہوئے سب حالات اور واقعات بیان کرے گی، قدیم زمانے کے آدمی کے لیے تو بڑی حیران کن ہوگی کہ آخر زمین کیسے بولنے لگے گی، لیکن آج علوم طبیعی کے اکتشافات اور سینما، لاؤڈاسپیکر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیپ ریکارڈ، الیکڑانکس وغیرہ ایجادات کے اس دور میں یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ زمین اپنے حالات کیسے بیان کرے گی۔ انسان اپنی زبان سے جو کچھ بولتا ہے اس کے نقوش ہوا میں، ریڈیائی لہروں میں، گھروں کی دیواروں اور ان کے فرش اور چھت کے ذرے ذرے میں، اور اگر کسی سڑک یا میدان یا کھیت میں آدمی نے باتکی ہو تو ان سب کے ذرات میں ثبت ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس وقت چاہے ان ساری آوازوں کو ٹھیک اسی طرح ان چیزوں سے دہروا سکتا ہے جس طرح کبھی وہ انسان کے منہ سے نکلی تھیں۔ انسان اپنے کانوں سے اس وقت سن لے گا کہ یہ اس کی اپنی ہی آوازیں ہیں، اور اس کے سب جاننے والے پہچان لیں گے کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں وہ اسی شخص کی آواز اور اسی کا لہجہ ہے۔ پھر انسان نے زمین پر جہاں جس حالت میں بھی کوئی کام کیا ہے اس کی ایک ایک حرکت کا عکس اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں پر پڑا ہے اور اس کی تصویر ان پر نقش ہوچکی ہے۔ بالکل گھپ اندھیرے میں بھی اس نے کوئی فعل کیا ہو تو خدا کی خدائی میں ایسی شعاعیں موجود ہیں جن کے لیے اندھیرا اور اجالا کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ ہر حالت میں اس کی تصویر لے سکتی ہیں، یہ ساری تصویریں قیامت کے روز ایک متحرک فلم کی طرح انسان کے سامنے آجائیں گی اور یہ دکھا دیں گی کہ وہ زندگی بھر کس وقت، کہاں کہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کو براہ راست خود جانتا ہے، مگر آخرت میں جب وہ عدالت قائم کرے گا تو جس کو بھی سزا دے گا، انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے دے گا۔ اس کی عدالت میں ہر مجرم انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا جائے گا اس کو ایسی مکمل شہادتوں سے ثابت کردیا جائے گا کہ اس کے مجرم ہونے میں کسی کلام کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ سب سے پہلے تو وہ نامہ اعمال ہے جس میں ہر وقت اس کے ساتھ لگے ہو ٤ ے کراما کاتبین اس کے ایک ایک قول اور فعل کا ریکارڈ درج کر رہے ہیں (قٓ۔ آیات 17 ۔ 18 ۔ الانفطار آیات 1 تا 12) یہ نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا کارنامہ حیات، اپنا حساب لینے کے لیے تو خود کافی ہے (بنی اسرائیل 14) انسان اسے پڑھ کر حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں ٹھیک ٹھیک درج نہ ہو (الکہف 49) اس کے بعد انسان کا اپنا جسم ہے جس سے اس نے دنیا میں کام لیا ہے۔ اللہ کی عدالت میں اس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اس سے وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے، اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے کیا کیا کام اس نے لیے ( النور 24) اس کی آنکھیں شہادت دیں گے، اس کے کان شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کچھ سنا۔ اس کے جسم کی پوری کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی۔ وہ حیران ہو کر اپنے اعضا سے کہے گا کہ تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو ؟ اس کے اعضا جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہر چیز بول رہی ہے اسی کے حکم سے ہم بھیبول رہے ہیں ( حم السجدہ 20 تا 24) اس پر مزید وہ شہادتیں ہیں جو زمین اور اس کے پورے ماحول سے پیش کی جائیں گی جن میں آدمی اپنی آوازیں خود اپنے کانوں سے اور اپنی حرکات کی ہوبہو تصویریں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ انسان کے دل میں جو خیالات، ارادے اور مقاصد چھپے ہوئے تھے، اور جن نیتوں کے ساتھ اس نے سارے اعمال کیے تھے وہ بھی نکال کر سامنے رکھ دیے جائیں گے، جیسا کہ آگے سورة عادیات میں آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے قطعی اور صریح اور ناقابل انکار ثبوت سامنے آجانے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اس کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کا موقع باقی نہ رہے گا (المرسلات، آیات 35 ۔ 36)
اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کر دے گی
حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی اور صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو کہ اس کی خبریں کیا ہیں صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس کی خبریں یہ ہیں کہ جس بندے یا بندی نے زمین کی پشت پر جو کچھ کیا ہوگا، اس کی گواہی دے گی۔ کہے گی فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں عمل، فلاں فلاں دن میں کیا تھا۔
تیرے خداوند کے ایما سے
یہ اللہ کے حکم سے ہو گا: ’بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا‘۔ لفظ ’وحی‘ یہاں ایماء اور اشارہ کے مفہوم میں ہے۔ اس معنی میں یہ قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زمین ایسا اس وجہ سے کرے گی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو اس کے لیے ایماء ہو گا۔ سورۂ حٰم السجدہ کی مذکورہ بالا آیت ’قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ‘ میں جو بات فرمائی گئی ہے وہی بات یہ ذرا مختلف اسلوب میں یہاں ارشاد ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہو گا خدا کے حکم سے ہو گا اور ہر چیز خدا کے حکم کی تعمیل پر مجبور ہو گی۔ چنانچہ سورۂ انشقاق میں زمین ہی سے متعلق ارشاد ہے کہ
’وَاَذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْ‘ (الانشقاق ۸۴: ۵)
(اور وہ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کے لیے یہی زیبا ہے)۔
(اُس دن) تیرے پروردگار کے ایما سے۔ (وہ اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی)
اصل میں لفظ ’وَحْی‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ایما اور اشارہ کے مفہوم میں ہے۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات میں بھی یہ اِس معنی میں آیا ہے۔
کیونکہ تیرے رب نے اُسے (ایساکرنے کا) حکم دیا ہوگا۔
n/a
اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا۔
یعنی زمین کو یہ قوت گویائی اللہ تعالیٰ عطا کرے گا اس لیے اس میں تعجب بات نہیں۔ ، جس طرح انسانی اعضا میں اللہ تعالیٰ یہ قوت پیدا فرمادے گا، زمین کو بھی اللہ تعالیٰ متکلم بنا دے گا اور وہ اللہ کے حکم سے بولے گی۔
اس دن لوگ الگ الگ نکلیں گے کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں
اس دن ہر شخص کو اپنی جواب دہی خود کرنی ہو گی: ’اَشْتَاتٌ‘ کے معنی متفرق، اکیلے اکیلے، تنہا تنہا کے ہیں۔ یعنی اس دن لوگ قبروں سے اس طرح نکلیں گے کہ کسی کے ساتھ نہ اس کے اہل خاندان ہوں گے، نہ اعزہ و اقرباء، نہ اس کا جتھا ہو گا، نہ خدم و حشم، نہ املاک و جائداد، نہ اعوان و انصار اور نہ مزعومہ شرکاء و شفعاء بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اپنے رب کے حضور تنہا حاضر ہو گا۔ یہ مضمون قرآن کے دوسرے مقامات میں نہایت وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ مثلاً سورۂ مریم میں فرمایا ہے:
’وَکُلُّھُمْ اٰتِیۡہِ یٰوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا‘ (مریم ۱۹: ۹۵)
(اور ان میں سے ہر ایک اپنے رب کے سامنے حاضر ہو گا تنہا)۔
سورۂ انعام میں فرمایا ہے:
’وَلَقَدْ جِئۡتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ‘ (الانعام ۶: ۹۴)
(اور تم آئے ہمارے پاس تنہا تنہا جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا)۔
’لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ‘۔ یہ اس حاضری کی غایت بیان ہوئی ہے کہ یہ اس لیے ہو گی کہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیے جائیں کہ دنیا کی زندگی میں انھوں نے کیا کارگزاری انجام دی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس دکھا دینے سے مقصود اس کا نتیجہ یعنی اس کا مزہ چکھو، یعنی فعل نتیجۂ فعل کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
اُس دن لوگ الگ الگ نکلیں گے، اِس لیے کہ اُن کے اعمال اُنھیں دکھائے جائیں
یعنی اکیلے اور تنہا نکلیں گے۔ کسی کے ساتھ کوئی نہ ہو گا، نہ اُس کے اعزہ و اقربا، نہ ساتھی، نہ احباب ،نہ خدم و حشم، نہ مال و منال اور نہ اعوان و انصار۔
اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھائے جائیں۔
اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر ایک اکیلا اپنی انفرادی حیثیت میں ہوگا، خاندان، جتھے، پارٹیاں، قومیں سب بکھر جائیں گی۔ یہ بات قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی فرمائی گئی ہے۔ مثلا سورة انعام میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس روز لوگوں سے فرمائے گا کہ ” لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا ” (آیت 94) اور سورة مریم میں فرمایا یہ ” اکیلا ہمارے پاس آئے گا ” (آیت 80) اور یہ کہ ” ان میں سے ہر ایک قیامت کے روز اللہ کے حضور اکیلا حاضر ہوگا ” (آیت 95) دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو ہزار ہا برس کے دوران میں جگہ جگہ مرے تھے، زمین کے گوشے گوشے سے گروہ در گروہ چلے آرہے ہوں گے، جیسا کہ سورة نباء میں فرمایا گیا ” جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج آجاؤ گے ” ( آیت 18) اس کے علاوہ جو مطلب مختلف مفسرین نے بیان کیے ہیں ان کی گنجائش لفظ اشتاتا میں نہیں ہے، اس لیے ہمارے نزدیک وہ اس لفظ کے معنوی حدود سے باہر ہیں، اگرچہ بجائے خود صحیح ہیں اور قرآن و حدیث کے بیان کردہ احوال قیامت سے مطابقت رکھتے ہیں۔
اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں، یعنی ہر ایک کو بتایا جائے کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے۔ اگرچہ یہ دوسرے معنی بھی لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ کے لیے جاسکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے لِّيُرَوْا جَزٓاءَ اَعْمَالَهُمْ (تاکہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے) نہیں فرمایا ہے بلکہ لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ (تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں) فرمایا ہے۔ اس لیے پہلے معنی ہی قابل ترجیح ہیں، خصوصا جبکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ کافر و مومن، صالح و فاسق، تابع فرمان اور نافرمان، سب کو ان کے نامہ اعمال ضرور دیے جائیں گے ( مثال کے طور پر ملاحظۃ ہو الحاقہ آیات 19 و 25، اور الانشقاق، آیات 7 و 10) ظاہر ہے کہ کسی کو اس کے اعمال دکھانے، اور اس کارنامہ اعمال اس کے حوالہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ علاوہ بریں زمین جب اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات پیش کرے گی تو حق و باطل کی وہ کشمکش جو ابتدا سے برپا ہے اور قیامت تک برپا رہے گی، اس کا پورا نقشہ بھی سب کے سامنے آجائے گا، اور اس میں سب ہی دیکھ لیں گے کہ حق کے لیے کام کرنے والوں نے کیا کچھ کیا، اور باطل کی حمایت کرنے والوں نے ان کے مقابلہ میں کیا کیا حرکتیں کیں۔ بعید نہیں کہ ہدایت کی طرف بلانے والوں اور ضلالت پھیلانے والوں کی ساری تقریریں اور گفتگوئیں لوگ اپنے کانوں سے سن لیں۔ دونوں طرف کی تحریروں اور لٹریچر کا پورا ریکارڈ جوں کا توں سب کے سامنے لاکر رکھ دیا جائے۔ حق پرستوں باطل پرستوں کے ظلم، اور دونوں گروہوں کے درمیان برپا ہونے والے معرکوں کے سارے مناظر میدان حشر کے حاضرین اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں
یصدر، یرجع (لوٹیں گے) یہ ورود کی ضد ہے یعنی قبروں سے نکل کر موقف حساب کی طرف، یا حساب کے بعد جنت اور دوزخ کی طرف لوٹیں گے۔ اشتاتا، متفرق، یعنی ٹولیاں ٹولیاں، بعض بےخوف ہوں گے، بعض خوف زدہ، بعض کے رنگ سفید ہوں گے جیسے جنتیوں کے ہوں گے اور بعض کے رنگ سیاہ، جو ان کے جہنمی ہونے کی علامت ہوگی۔ بیض کا رخ دائیں جانب ہوگا تو بعض کا بائیں جانب۔ یا یہ مختلف گروہ ادیان ومذاہب اور اعمال و افعال کی بنیاد پر ہوں گے۔
یعنی زمین اپنی خبریں اس لئے بیان کرے گی تاکہ انسانوں کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔
پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ بھی اس کو دیکھے گا
یہ اس اجمال کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ جس نے ذرہ کے برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ بھی اس کے سامنے آئے گی اور جس نے ذرہ کے برابر برائی کی ہو گی وہ بھی اس کے سامنے آئے گی۔
یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ ہر مومن و کافر کی ہر چھوٹی بڑی نیکی یا بدی اس کے سامنے آئے گی تو ضرور لیکن اس قاعدے کے مطابق آئے گی جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے دوسرے مقامات میں بیان فرمایا ہے یعنی ایک مومن یہ دیکھے گا کہ اس سے نیکیوں کے ساتھ فلاں فلاں غلطیاں بھی صادر ہوئی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی فلاں فلاں نیکیوں کو ان کا کفارہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح ایک کافر یہ دیکھے گا کہ اس نے بدیوں کے ساتھ کچھ نیک کام بھی کیے ہیں لیکن اس کے وہ نیک کام اس کے فلاں برے اعمال و عقائد کے سبب سے حبط ہو گئے، اس وجہ سے وہ ان کے صلہ سے محروم رہا۔
اس قاعدہ پر پرکھے جانے کے بعد نجات پانے والوں اور ہلاک ہونے والوں کے لیے جو ضابطہ مقرر ہوا ہے وہ سورۂ قارعہ میں یوں بیان ہوا ہے:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ.(القارعہ ۱۰۱: ۶-۹)
’’پس جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ تو دل پسند عیش میں ہو گا اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو اس کا ٹھکانا دوزخ کا کھڈ ہو گا۔‘‘
پھر جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہے، وہ بھی اُسے دیکھ لے گا
n/a
پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
n/a
پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
پس وہ اس سے خوش ہوگا۔
اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھے گا
یہ اس اجمال کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ جس نے ذرہ کے برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ بھی اس کے سامنے آئے گی اور جس نے ذرہ کے برابر برائی کی ہو گی وہ بھی اس کے سامنے آئے گی۔
یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ ہر مومن و کافر کی ہر چھوٹی بڑی نیکی یا بدی اس کے سامنے آئے گی تو ضرور لیکن اس قاعدے کے مطابق آئے گی جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے دوسرے مقامات میں بیان فرمایا ہے یعنی ایک مومن یہ دیکھے گا کہ اس سے نیکیوں کے ساتھ فلاں فلاں غلطیاں بھی صادر ہوئی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی فلاں فلاں نیکیوں کو ان کا کفارہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح ایک کافر یہ دیکھے گا کہ اس نے بدیوں کے ساتھ کچھ نیک کام بھی کیے ہیں لیکن اس کے وہ نیک کام اس کے فلاں برے اعمال و عقائد کے سبب سے حبط ہو گئے، اس وجہ سے وہ ان کے صلہ سے محروم رہا۔
اس قاعدہ پر پرکھے جانے کے بعد نجات پانے والوں اور ہلاک ہونے والوں کے لیے جو ضابطہ مقرر ہوا ہے وہ سورۂ قارعہ میں یوں بیان ہوا ہے:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ.(القارعہ ۱۰۱: ۶-۹)
’’پس جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ تو دل پسند عیش میں ہو گا اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو اس کا ٹھکانا دوزخ کا کھڈ ہو گا۔‘‘
اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے، وہ بھی اُسے دیکھ لے گا
یعنی ہر ایک کا نامۂ اعمال پوری جزئیات کے ساتھ اُس کے سامنے آجائے گا۔ پھر جیسا کہ دوسرے مقامات میں تصریح ہے، جس کے پلڑے بھاری ہوں گے، اُسے جنت کے اور جس کے ہلکے ہوں گے، اُسے دوزخ کے حوالے کر دیا جائے گا۔
اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
اس ارشاد کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کہ آدمی کی کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہیں ہوگی جو اس کے نامہ اعمال میں درج ہونے سے رہ گئی ہو، اسے وہ بہرحال دیکھ لے گا۔ لیکن اگر دیکھنے سے مراد اس کی جزا و سزا دیکھنا لیا جائے تو اس کا یہ مطلب لینا بالکل غلط ہے کہ آخرت میں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی جزا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بدی کی سزا ہر شخص کو دی جائے گی، اور کوئی شخص بھی وہاں اپنی کسی نیکی کی جزا اور کسی بدی کی سزا پانے سے نہ بچے گا۔ کیونکہ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک ایک برے عمل کی سزا اور ایک ایک اچھے عمل کی جزا الگ الگ دی جائے گی۔ دوسرے اسکے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا صالح مومن بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے قصور کی سزا پانے سے نہ بچے گا اور کوئی بدترین کافر و ظالم اور بدکار انسان بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے اچھے فعل کا اجر پائے بغیر نہ رہے گا۔ یہ دونوں معنی قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلاف ہیں، اور عقل بھی اسے نہیں مانتی کہ یہ تقاضائے انصاف ہے۔ عقل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیسے سمجھ میں آنے کے قابل ہے کہ آپ کا کوئی خادم نہایت وفادار اور خدمت گزار ہو، لیکن آپ اس کے کسی چھوٹے سے قصور کو بھی معاف نہ کریں، اور اس کی ایک ایک خدمت کا اجر و انعام دینے کے ساتھ اس کے ایک ایک قصور کو گن گن کر ہر ایک کی سزا بھی اسے دے ڈالیں۔ اسی طرح یہ بھی عقلا ناقابل فہم ہے کہ آپ کا پروردہ کوئی شخص جس پر آپ کے بیشمار احسانات ہوں، وہ آپ سے غداری اور بےوفائی کرے اور آپ کے احسانات کا جواب ہمیشہ نمک حرامی ہی سے دیتا رہے، مگر آپ اس کے مجموعی رویے کو نظر انداز کر کے اس کی ایک ایک غداری کی الگ سزا اور اس کی ایک ایک خدمت کی، خواہ وہ کسی وقت پانی لاکر دے دینے یا پنکھا جھل دینے ہی کی خدمت ہو، الگ جزا دیں۔ اب رہے قرآن و حدیث تو وہ وضاحت کے ساتھ مومن، منافق، کافر، مومن صالح، مومن خطاکار، مومن ظالم و فاسق، محض کافر، اور کافر مفسد و ظالم وغیرہ مختلف قسم کے لوگوں کی جزا و سزا کا ایک مفصل قانون بیان کرتے ہیں اور یہ جزا و سزا دنیا سے آخرت تک انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔
اس سلسلے میں قرآن مجید اصولی طور پر چند باتیں بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے :
اول یہ کہ کافر و مشرک اور منافق کے اعمال (یعنی وہ اعمال جن کو نیکی سمجھا جاتا ہے) ضائع کردیے گئے، آخرت میں وہ ان کا کوئی اجر نہیں پاسکیں گے، ان کا اگر کوئی اجر ہے بھی تو وہ دنیا ہی میں ان کو مل جائے گا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف 147 ۔ التوبہ 17 ۔ 67 تا 69 ۔ ہود 15 ۔ 16 ۔ ابراہیم 18 ۔ الکہف 104 ۔ 105 ۔ النور 39 ۔ الفرقان 23 ۔ الاحزاب 19 ۔ الزمر 65 ۔ الاحقاف 20 ۔
دوم یہ کہ بدی کی سزا اتنی ہی دی جائے گی جتنی بدی ہے، مگر نیکیوں کی جزا اصل فعل سے زیادہ دی جائے گی، بلکہ کہیں تصریح ہے کہ ہر نیکی کا اجر اس سے 10 گنا ہے، اور کہیں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ جتنا چاہے نیکی کا اجر بڑھا کر دے۔ ملاحظہ ہو البقرہ 261 ۔ الانعام 160 ۔ یونس 26 ۔ 27 ۔ النور 38 ۔ القصص 84 ۔ سباء 37 ۔ المومن 40 ۔
سوم یہ کہ مومن اگر بڑے گناہوں سے پرہیز کریں گے تو ان کے چھوٹے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ النساء 31 ۔ الشوری 37 ۔ النجم 32 ۔
چہارم یہ کہ مومن صالح سے ہلکا حساب لیا جائے گا، اس کی برائیوں سے درگزر کیا جائے گا اور اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے اس کو اجر دیا جائے گا۔ العنکبوت 7 ۔ الزمر 35 ۔ الاحقاف 16 ۔ الانشقاق 8 ۔
احادیث بھی اس معاملہ کو بالکل صاف کردیتی ہیں۔ اس سے پہلے ہم سورة انشقاق کی تفسیر میں وہ احادیث نقل کرچکے ہیں جو قیامت کے روز ہلکے حساب اور سخت حساب فہمی کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمائی ہیں (تفہیم القرآن، جلد ششم، الانشقاق، حاشیہ 6) حضرت انس کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ اتنے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ ” یا رسول اللہ کیا میں اس ذرہ برابر برائی کا نتیجہ دیکھوں گا جو مجھ سے سرزد ہوئی “؟ حضور نے فرمایا ” اے ابوبکر دنیا میں جو معاملہ بھی تمہیں ایسا پیش آتا ہے جو تمہیں ناگوار ہو وہ ان ذرہ برابر برائیوں کا بدلہ ہے جو تم سے صادر ہوں، اور جو ذرہ برابر نیکیاں بھی تمہاری ہیں انہیں اللہ آخرت میں تمہارے لیے محفوظ رکھ رہا ہے ” (ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی فی الاوسط، بیہقی فی الشعب، ابن المنذر، حاکم، ابن مردویہ، عبد بن حمید) حضرت ابو ایوب انصاری سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ ” تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا اس کی جزا آخرت میں ہے اور جو کسی قسم کی برائی کرے گا وہ اسی دنیا میں اس کی سزا مصائب اور امراض کی شکل میں بھگت لے گا ” (ابن مردویہ) قتادہ نے حضرت انس کے حوالہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ مومن پر ظلم نہیں کرتا، دنیا میں اس کی نیکیوں کے بدلے وہ رزق دیتا ہے اور آخرت میں ان کی جزا دے گا۔ رہا کافر، تو دنیا میں اس کی بھلائیوں کا بدلہ چکا دیا جاتا ہے، پھر جب قیامت ہوگی تو اس کے حساب میں کوئی نیکی نہ ہوگی ” ( ابن جریر) مسروق حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ عبداللہ بن جدعان جاہلیت کے زمانہ میں صلح رحمی کرتا تھا، مسکین کو کھانا کھلاتا تھا، مہمان نواز تھا، اسیروں کو رہائی دلواتا تھا۔ کیا آخرت میں یہ اس کے لیے نافع ہوگا ؟ حضور نے فرمایا نہیں، اس نے مرتے وقت تک کبھی یہ نہیں کہا کہ رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین ” میرے پروردگار، روز جزا میں میری خطا معاف کیجیو “۔ (ابن جریر) اسی کے جوابات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض اور لوگوں کے بارے میں بھی دیے ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں نیک کام کرتے تھے، مگر مرے کفر و شرک ہی کی حالت میں تھے۔ لیکن حضور کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کی نیکی اسے جہنم کے عذاب سے تو نہیں بچا سکتی، البتہ جہنم میں اس کو وہ سخت سزا نہ دی جائے گی جو ظالم اور فاسق اور بدکار کافروں کو دی جائے گی۔ مثلا حدیث میں آیا ہے کہ حاتم طائی کی سخاوت کی وجہ سے اس کو ہلکا عذاب دیا جائے گا (روح المعانی)
تاہم یہ آیت انسان کو ایک بہت اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اپنا ایک وزق اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے، اور یہی حال بدی کا بھی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے، یونہی نظر انداز کردینے والی چیز نہیں ہے۔ اس لیے کسی چھوٹی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے، کیونکہا یسی بہت سی نیکیاں مل کر اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک بہت بڑی نیکی قرار پاسکتی ہیں، اور کسی چھوٹی سے چھوٹی بدی کا ارتکاب بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے بہت سے چھوٹے گناہ مل کر گناہوں کا ایک انبار بن سکتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو متعدد احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عدی بن حاتم سے یہ روایت منقول ہے کہ حضور نے فرمایا ” دوزخ کی آگ سے بچو خواہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا دینے یا ایک اچھی بات کہنے ہی کے ذریعہ سے ہو “۔ انہی حضرت عدی سے صحیح روایت میں حضور کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ ” کسی نیک کام کو بھی حقیر نہ سمجھو خواہ وہ کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں ایک ڈول ڈال دینا ہو، یا یہی نیکی ہو کہ تم اپنے کسی بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملو “۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے عورتوں کو خطاب کر کے فرمایا ” اے مسلمان عورتو، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہاں کوئی چیز بھیجنے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو “۔ مسند احمد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور فرمایا کرتے تھے ” اے عائشہ ان گناہوں سے بچی رہنا جن کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اللہ کے ہاں ان کی پرستش بھی ہونی ہے “۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا ” خبردار، چھوٹے گناہوں سے بچ کر رہنا، کیونکہ وہ سب آدمی پر جمع ہوجائیں گے یہاں تک کہ اسے ہلاک کردیں گے “۔ (گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء حاشیہ 53 ۔ جلد پنجم، النجم حاشیہ 32)
اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
وہ اس پر سخت پشیمان اور مضطرب ہوگا۔ ذرۃ بعض کے نزدیک چیونٹی سے بھی چھوٹی چیز ہے۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں، انسان زمین پر ہاتھ مارتا ہے، اس سے اس کے ہاتھ پر جو مٹی لگ جاتی ہے وہ ذرہ ہے۔ بعض کے نزدیک سوراخ سے آنے والی سورج کی شعاعوں میں گردوغبار کے جو ذرات سے نظر آتے ہیں، وہ ذرہ ہے۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے معنی کو اولیٰ کہا ہے۔ امام مقاتل کہتے ہیں کہ یہ سورت ان دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے ایک شخص، ساءل کو تھوڑا سا صدقہ دینے میں تامل کرتا اور دوسراشخص چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہ کرتا تھا۔ (فتح القدیر)
امین احسن اصلاحی
جب کہ زمین ہلا دی جائے گی جس طرح اس کو ہلانا ہے
جب اس طرح ’اِذَا‘ سے کسی چیز کا بیان ہوتا ہے تو مقصود اس کی یاددہانی ہوتی ہے یعنی اس وقت کو یاد رکھو، اس دن سے ہوشیار رہو، جب کہ ایسا ایسا ہو گا۔ آپ چاہیں تو اس مخفی مضمون کو ترجمے میں ظاہر بھی کر سکتے ہیں۔
زبان کا ایک نکتہ: ’زِلْزَال‘ آیا تو ہے فعل ’زُلْزِلَتِ‘ کی تاکید کے لیے، جس طرح مفعول آیا کرتا ہے، لیکن یہاں زمین کی طرف اس کی اضافت سے مضمون میں ایک خاص اضافہ ہو گیا ہے جس کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ورنہ آیت کا صحیح زور سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس خاص اسلوب کو سامنے رکھ کر اس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ جب کہ زمین ہلا دی جائے گی اس طرح جس طرح زمین کو ہلانے کا حق ہے یا جس طرح اس کا ہلایا جانا مقدر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس ہلائے جانے کا صحیح تصور آج ممکن نہیں ہے، پورے کرۂ ارض کا جھنجھوڑا جانا اور اس طرح جھنجھوڑا جانا جس طرح خدا نے مقدر فرمایا ہے تصور سے ایک مافوق حادثہ ہے لیکن یہ پیش آنے والا ہے اس وجہ سے اس کو یاد رکھو، اس سے غافل رہ کر زندگی نہ گزارو۔