یہ سورۂ ’حٰمٓ‘ ہے۔
پہلی سورتوں کی طرح اِس سورہ کا نام بھی ’حٰمٓ‘ ہے۔ یہ اشتراک مطالب پر دلیل ہے اور اِسے قرآن کا ہر طالب علم تمام حوامیم میں بالکل نمایاں دیکھ سکتا ہے۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔
ح۔ م۔
n/a
حم
n/a
شاہد ہے یہ واضح کتاب
قرآن اپنے ہر دعوے پر خود حجت ہے: یہ قرآن کی قسم کھائی ہے اور اس کی صفت یہاں ’مُبِیْنٌ‘ وارد ہوئی ہے جس کے معنی ہیں واضح کر دینے والی کتاب، یعنی اپنے ہر دعوے پر یہ خود حجت ہے، کسی خارجی دلیل کی محتاج نہیں ہے۔ جو لوگ اس کی تکذیب کے لیے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں وہ آفتاب پر خاک ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ خود اپنی ہی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
آفتاب آمد دلیل آفتاب: یہاں مقسم علیہ محذوف ہے۔ جہاں قرینہ بالکل واضح اور قسم خود مقسم علیہ کو واضح کر رہی ہو، وہاں مقسم علیہ کو حذف کر دیتے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ سورۂ قۤ میں بھی اس کی نہایت واضح مثال موجود ہے۔ یہاں لفظ ’مُبِیْنٌ‘ نے خود مقسم علیہ کی طرف اشارہ کر دیا ہے اس وجہ سے اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ گویا آفتاب آمد دلیل آفتاب۔
یہ واضح کتاب (آپ ہی اپنی) گواہی ہے۔
اصل میں ’وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْن‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’وَ‘ قسم کے لیے ہے۔ اِس قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے اور لفظ ’مُبِیْن‘ اِس کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، گویا آفتاب آمد دلیل آفتاب۔
قسم ہے اِس واضح کتاب کی۔
n/a
قسم ہے اس واضح کتاب کی۔
n/a
ہم نے اس کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے تا کہ تم سمجھو
قرآن کے ’مبین‘ ہونے کا ایک خاص پہلو: یہ قرآن کے ’مُبِیْنٌ‘ ہونے کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ہم نے اس کو عربی قرآن کی صورت میں اتارا ہے تاکہ تم سمجھو۔ یہ مضمون اس گروپ کی پچھلی سورتوں میں بھی مختلف اسلوبوں سے گزر چکا ہے اور ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ قرآن کا عربی میں اتارا جانا اہل عرب پر ایک عظیم احسان بھی تھا اور ایک فیصلہ کن اتمام حجت بھی۔ احسان کا پہلو تو بالکل واضح ہے کہ خدا نے اپنی آخری اور کامل ہدایت ان کی زبان میں اتاری کہ وہ بلاواسطۂ غیر اس سے کسب فیض کر سکیں، دوسروں کی تعلیم و تبلیغ کا انھیں رہین احسان نہ ہونا پڑے بلکہ دوسرے ان کے ممنون احسان بنیں۔ اتمام حجت کا پہلو یہ ہے کہ اللہ نے ان کی اپنی زبان میں اپنی ہدایت نازل کر کے ان کا ہر عذر ختم کر دیا ہے۔ اب وہ عند اللہ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ مخاطب عربی اور کلام عجمی!
ہم نے اِس کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے، اِس لیے کہ تم سمجھو۔
یہ امتنان و احسان بھی ہے اور اتمام حجت بھی۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ وہ یہ عذر پیش نہیں کر سکتے تھے کہ مخاطب عربی اور کلام عجمی!
کہ ہم نے اِسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اِسے سمجھو۔
قرآن مجید کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف ” ہم ” ہیں نہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اور قسم کھانے کے لیے قرآن کی جس صفت کا انتخاب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ” کتاب مبین ” ہے۔ اس صفت کے ساتھ قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر خود قرآن کی قسم کھانا آپ سے آپ یہ معنی دے رہا ہے کہ لوگو، یہ کھلی کتاب تمہارے سامنے موجود ہے، اسے آنکھیں کھول کر دیکھو، اس کے صاف صاف غیر مبہم مضامین، اس کی زبان، اس کا ادب، اس کی حق و باطل کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دینے والی تعلیم، یہ ساری چیزیں اس حقیقت کی صریح شہادت دے رہی ہیں کہ اس کا مصنف خداوند عالم کے سوا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا۔
پھر یہ جو فرمایا کہ ” ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اسے سمجھو، ” اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے، بلکہ تمہاری اپنی زبان میں ہے، اس لیے اسے جانچنے پرکھنے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے میں تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی۔ یہ کسی عجمی زبان میں ہوتا تو تم یہ عذر کرسکتے تھے کہ ہم اس کے کلام الٰہی ہونے یا نہ ہونے کی جانچ کیسے کریں جبکہ ہماری سمجھ ہی میں یہ نہیں آ رہا ہے۔ لیکن اس عربی قرآن کے متعلق تم یہ عذر کیسے کرسکتے ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ تمہارے لیے واضح ہے۔ اس کی ہر عبارت اپنی زبان اور اپنے مضمون، دونوں کے لحاظ سے تم پر روشن ہے۔ خود دیکھ لو کہ کیا یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یا کسی دوسرے عرب کا کلام ہوسکتا ہے۔ دوسرا مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان ہم نے عربی اس لیے رکھی ہے کہ ہم عرب قوم کو مخاطب کر رہے ہیں اور وہ عربی زبان کے قرآن ہی کو سمجھ سکتی ہے۔ عربی میں قرآن نازل کرنے کی اس صریح وجہ کو نظر انداز کر کے جو شخص صرف اس بنا پر اسے کلام الٰہی کے بجائے کلام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرار دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مادری زبان بھی عربی ہے تو وہ بڑی زیادتی کرتا ہے۔ (اس دوسرے مطلب کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورة حٰم السجدہ، آیت 44 مع حاشیہ نمبر 54 ملاحظہ فرمائیں)
ہم نے اسکو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو
جو دنیا کی فصیح ترین زبان ہے، دوسرے، اس کے اولین مخاطب بھی عرب تھے، انہی کی زبان میں قرآن اتارا تاکہ وہ سمجھنا چاہیں تو آسانی سے سمجھ سکیں۔
اور بے شک یہ اصل کتاب میں ہمارے پاس ہے نہایت بلند اور پرحکمت
قرآن کی عالی نسبی: اس قرآن کی عظمت واضح فرمائی کہ یہ کوئی ہنسی مسخری کی چیز نہیں ہے بلکہ نہایت ہی عالی نسبی اور عالی مقام چیز ہے۔ اس کی عالی نسبی کی وضاحت یوں فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو ’اُمُّ الْکِتَابِ‘ یعنی لوح محفوظ ہے یہ اس میں ہے اور اسی میں سے یہ تمہاری ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی اس کو جنات کا القاء، کاہنوں کی کہانت، شاعروں کی شاعری اور خطیبوں کی لفاظی گمان کر کے، اس کا مذاق اڑانے کی کوشش نہ کرے بلکہ یہ روشنی اس منبع نور سے نازل ہوئی ہے جس کے نور ہی سے آسمان و زمین میں روشنی ہے اور جو تمام علم کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ بدقسمت ہوں گے وہ لوگ جو اس کی قدر نہ پہچانیں!
قرآن کی عالی مقامی: اس کی عالی مقامی کا اظہار یوں فرمایا کہ ’لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ‘ یہ قرآن بجائے خود نہایت برتر اور پر حکمت ہے۔ یاد ہو گا، پچھلی سورہ میں بعینہٖ یہی صفت آیت میں ۵۱ میں اللہ تعالیٰ کے لیے آئی ہے اور وحی و قرآن کے بیان ہی کے سلسلہ میں آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر کلام متکلم کی صفات و خصوصیات کا آئینہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ’عَلِیٌّ‘ و ’حَکِیْمٌ‘ ہے اس وجہ سے اس کا کلام بھی ’عَلِیٌّ‘ و ’حَکِیْمٌ‘ ہے۔ اس سے یہ اشارہ نکلا کہ جن کے اندر جوہر شناسی کی صلاحیت ہو گی وہ اس کلام کی قدر کریں گے، رہے بلید و بدذوق لوگ تو نہ وہ اس کے اہل ہیں نہ وہ اس کی قدر کریں گے۔
اس کی عالی مقامی کے ذکر سے مخالفین کو اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ آسمانوں اور زمیں کے خالق کا اتارا ہوا کلام ہے، کسی سائل کی درخواست نہیں ہے۔ اگر تم نے اس کی قدر نہ کی تو تم اپنے ہی کو محروم کرو گے، خدا یا اس کے کلام کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ ان کی عظمت اور برتری اپنی ذاتی ہے جو دوسروں کے رد و قبول سے بالکل بے نیاز ہے۔
اور بے شک یہ اصل کتاب میں ہمارے پاس ہے، نہایت بلند اور حکمت سے لبریز۔
یعنی لوح محفوظ میں، جو تمام علم کا سرچشمہ ہے، لہٰذا کوئی شخص اِسے شیاطین کا القا اور کاہنوں کی کہانت یا محض شاعری اور خطابت گمان کرکے اِس کا مذاق اڑانے کی کوشش نہ کرے۔
اِس لیے کہ جس کا یہ کلام ہے ، وہ بھی نہایت بلند مقام اور سراسر حکمت ہے اور ہر کلام اپنے متکلم ہی کی صفات کا آئینہ ہوتا ہے۔ چنانچہ پچھلی سورہ میں بعینہٖ یہی الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی آئے ہیں۔
اور در حقیقت یہ ام الکتاب میں ثبت ہے، ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب۔
” امّ الکتاب ” سے مراد ہے ” اصل الکتاب ” یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں۔ اسی کو سورة واقعہ میں : کِتَابٌ مَّکْنُوْنٌ (پوشیدہ اور محفوظ کتاب) کہا گیا ہے، اور سورة بروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے۔ قرآن کے متعلق یہ فرما کر کہ یہ ” امّ الکتاب ” میں ہے ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں میں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں، مگر ان سب میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے، حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے، خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے، اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گئے ہیں اور فی الجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے، اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں۔ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرب کے بجائے کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی، عبارتیں کچھ اور ہوتیں، زبان بھی دوسری ہوتی، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی، اور وہ یہی قرآن ہوتا (اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورة شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے : وَ اِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ............ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِنَّہ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ (192 ۔ 196) ۔ ” یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے ............. صاف صاف عربی زبان میں، اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ ” (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشعراء، حواشی ١١٩۔ ١٢١)
اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی۔ یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے۔ اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اسکی اپنی بد قسمتی ہے۔ کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے۔ کسی کی ناقدری سے یہ بےقدر نہیں ہو سکتی، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی۔ یہ تو بجائے خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بےنظیر تعلیم، اس کی معجزانہ بلاغت، اس کی بےعیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے۔ یہ کسی کے گرائے کیسے گر جائے گی۔ آگے چل کر آیت 44 میں قریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح ناقدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہوگی۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ 39)
یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے۔
اس میں قرآن کریم کی اس عظمت اور شرف کا بیان ہے جو ملاء اعلٰی میں اسے حاصل ہے تاکہ اہل زمین بھی اس کے شرف و عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو قرار واقعی اہمیت دیں اور اس سے ہدایت کا وہ مقصد حاصل کریں جس کے لئے اسے دنیا میں اتارا گیا ہے اُمْ الْکِتَابِ سے مراد لوح محفوظ ہے۔
کیا ہم تمہاری تذکیر سے اس لیے صرف نظر کر لیں کہ تم حدود سے تجاوز کر جانے والے لوگ ہو!
تمہاری ناقدری کے باوجود تم پر اتمام حجت ضروری ہے: یعنی ہر چند تم ہو تو ناشکرے اور ناقدرے کہ اس کلام بلند و برتر کی توہین و تکذیب کر رہے ہو اور شرک و کفر میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر جو ظلم تم نے ڈھائے ہیں ان کی اصلاح پر تمہاری طبیعتیں آمادہ نہیں ہو رہی ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دیا جاتا یا اب چھوڑ دیا جائے، تمہاری بیماریوں اور ان کے مہلک نتائج سے تم کو اچھی طررح آگاہ نہ کیا جائے۔ تمہاری یہ حالت اغماض کے بجائے اس بات کی مقتضی ہے کہ تمہارا علاج کیا جائے چنانچہ اللہ نے تمہاری تعلیم و تذکیر کے لیے اپنی کتاب اتاری۔ تم اس کی قدر کرو یا نہ کرو، لیکن یہ تذکیر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تم پر اللہ کی حجت تمام نہ ہو جائے تاکہ جس کو زندگی کی راہ اختیار کرنی ہو وہ پوری بصیرت کے ساتھ زندگی کی راہ اختیار کر لے اور جس کو ہلاکت کی راہ پر جانا ہو وہ اتمام حجت کے بعد اس راہ پر جائے۔ تمہاری یہ تذکیر و تنبیہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سنت کے مطابق ہو رہی ہے۔ تم کتنی ہی نفرت و رعونت کے ساتھ اس کو ٹھکراؤ لیکن اب یہ اپنے آخری نتائج تک پہنچ کے رہے گی۔
’صَفْحًا‘ میرے نزدیک مفعول ’لہٗ‘ کے مفہوم میں ہے اور اس کے معنی چشم پوشی کے ہیں۔ ’ضرب عنہ الشئ‘ کے معنی ہوں گے، ’اس سے اس چیز کو ہٹا دیا۔‘ ’اَنْ کُنتُمْ قَوْماً مُّسْرِفِیْنَ‘ ان کی اصل بیماری کا بیان ہے اور ’مسرفین‘ یہاں ’اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ‘ کے مفہوم میں ہے یعنی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے، اور اپنی جانوں پر سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جب تم کفر و شرک کی آلودگیوں میں لتھڑے ہوئے ہو تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنا جام شفا ہٹائے رکھتا۔ دوا کے اصل مستحق تو مریض ہی ہوتے ہیں، خواہ وہ اس کی قدر کریں یا نہ کریں۔ اگر اس کی قدر کرو گے تو اپنا بھلا کرو گے، اگر نہ کرو گے تو اپنی ہی موت کو دعوت دو گے۔
پھر کیا تمھاری تذکیر سے ہم صرف اِس لیے صرف نظر کر لیں کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو؟ (ہرگز نہیں، ہم اپنی حجت پوری کریں گے)۔
آیت میں ’صَفْحًا‘ ہمارے نزدیک مفعول لہٗ کے مفہوم میں ہے اور اِس کے معنی چشم پوشی کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب خدا نے تمھارے اندر اپنی دینونت کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اِس باب میں خدا کی سنت اب پوری ہوکے رہے گی۔ اِسے محض اِس بنا پر ادھورا نہیں چھوڑ دیا جائے گا کہ تم لوگ سرکشی کر رہے ہو۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ وہ جب کسی قوم کے بارے میں یہ فیصلہ کرلیتاہے تو اُس کو لازماً اُس کے انجام تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔
اب کیا ہم تم سے بیزار ہو کر یہ درس نصیحت تمہارے ہاں بھیجنا چھوڑ دیں صرف اِس لیے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو؟
اس ایک فقرے میں وہ پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان نبوت کے وقت سے لے کر ان آیات کے نزول تک پچھلے چند برس میں ہو گزری تھی۔ یہ فقرہ ہمارے سامنے یہ تصویر کھینچتا ہے کہ ایک قوم صدیوں سے سخت جہالت، پستی اور بدحالی میں مبتلا ہے۔ یکایک اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے۔ وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے کے لیے خود اپنا کلام نازل کرتا ہے، تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو، جاہلانہ اوہام کے چکر سے نکلے اور حقیقت سے آگاہ ہو کر زندگی کا صحیح راستہ اختیار کرلے۔ مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائلی سردار اس رہنما کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں، ان کی عداوت اور شرارت بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اسے قتل کردینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس حالت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تمہاری اس نالائقی کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ؟ اس درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں ؟ اور تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوئے ہو ؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے ؟ تم نے کچھ سوچا بھی کہ خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامنے آجانے کے بعد باطل پر اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔ ؟
کیا ہم اس نصیحت کو تم سے اس بنا پر ہٹا لیں کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔
اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں مثلاً ١۔ تم چونکہ گناہوں میں بہت بڑھ چکے ہو اور ان پر مصر ہو، اس لئے کہ یہ گمان کرتے ہو کہ ہم وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیں گے ؟ ٢۔ یا تمہارے کفر اور اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگزر کرلیں گے ٣۔ یا تمہیں ہلاک کردیں گے اور کسی چیز کا تمہیں حکم دیں نہ منع کریں، ٤۔ چونکہ تم قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہو۔
اور ہم نے اگلوں میں کتنے ہی نبی بھیجے
مذکورہ بات کی تائید ماضی کی تاریخ سے: یہ اوپر کی بات کی تائید ماضی کی تاریخ سے پیش کی گئی ہے اور خطاب بغرض تسلی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ فرمایا کہ جو سلوک آج تمہارے مخالفین تمہارے ستھ کر رہے ہیں یہی سلوک اس سے پہلے دوسرے نبیوں کے ساتھ ان کی قومیں کر چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بھی کتنے رسول اسی مقصد تذکیر و اصلاح کے لیے بھیجے لیکن ہر قوم نے اپنے رسول کا مذاق اڑایا اور اس کی نصیحتوں کی تحقیر کی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کر دیا اور وہ قومیں کچھ کمزور نہ تھیں بلکہ وہ اپنی قوت و شوکت میں ان سے (قریش سے) کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں لیکن اللہ کے عذاب نے ان کی کمر توڑ کے رکھ دی۔
ہم نے اگلوں میں بھی کتنے ہی نبی بھیجے۔
n/a
پہلے گزری ہوئی قوموں میں بھی بارہا ہم نے نبی بھیجے ہیں۔
n/a
اور ہم نے اگلے لوگوں میں بھی کتنے ہی نبی بھیجے۔
n/a
اور جو نبی بھی ان کے پاس آتا تو وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے
مذکورہ بات کی تائید ماضی کی تاریخ سے: یہ اوپر کی بات کی تائید ماضی کی تاریخ سے پیش کی گئی ہے اور خطاب بغرض تسلی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ فرمایا کہ جو سلوک آج تمہارے مخالفین تمہارے ستھ کر رہے ہیں یہی سلوک اس سے پہلے دوسرے نبیوں کے ساتھ ان کی قومیں کر چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بھی کتنے رسول اسی مقصد تذکیر و اصلاح کے لیے بھیجے لیکن ہر قوم نے اپنے رسول کا مذاق اڑایا اور اس کی نصیحتوں کی تحقیر کی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کر دیا اور وہ قومیں کچھ کمزور نہ تھیں بلکہ وہ اپنی قوت و شوکت میں ان سے (قریش سے) کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں لیکن اللہ کے عذاب نے ان کی کمر توڑ کے رکھ دی۔
تاہم جو نبی بھی اُن کے پاس آتا، وہ اُس کا مذاق ہی اڑاتے تھے۔
n/a
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی اُن کے ہاں آیا ہو اور انہوں نے اُس کا مذاق نہ اڑایا ہو۔
یعنی یہ بیہودگی اگر نبی اور کتاب کے بھیجنے میں مانع ہوتی تو کسی قوم میں بھی کوئی نبی نہ آتا، نہ کوئی کتاب بھیجی جاتی۔
جو نبی ان کے پاس آیا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔
n/a
تو ہم نے ان سے زیادہ زور آوروں کو ہلاک کر چھوڑا اور اگلوں کی مثالیں گزر چکی ہیں
مذکورہ بات کی تائید ماضی کی تاریخ سے: یہ اوپر کی بات کی تائید ماضی کی تاریخ سے پیش کی گئی ہے اور خطاب بغرض تسلی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ فرمایا کہ جو سلوک آج تمہارے مخالفین تمہارے ستھ کر رہے ہیں یہی سلوک اس سے پہلے دوسرے نبیوں کے ساتھ ان کی قومیں کر چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بھی کتنے رسول اسی مقصد تذکیر و اصلاح کے لیے بھیجے لیکن ہر قوم نے اپنے رسول کا مذاق اڑایا اور اس کی نصیحتوں کی تحقیر کی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کر دیا اور وہ قومیں کچھ کمزور نہ تھیں بلکہ وہ اپنی قوت و شوکت میں ان سے (قریش سے) کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں لیکن اللہ کے عذاب نے ان کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ ’وَمَضٰی مَثَلُ الْأَوَّلِیْنَ‘ اور تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ یہ اشارہ عاد و ثمود اور ان قوموں کی طرف ہے جن کی تباہی کی تفصیلات پچھلی سورتوں میں بھی بیان ہو چکی ہیں اور آگے کی سورتوں میں بھی آ رہی ہیں۔
پھر ہم نے اُن کو کہ (تمھارے) اِن (منکروں) سے کہیں زیادہ زور والے تھے، ہلاک کر ڈالا اور اگلوں کی مثالیں گزر چکی ہیں۔
یہ اشارہ عاد و ثمود اور اُن قوموں کی طرف ہے جن پر عذاب کی تفصیلات پیچھے جگہ جگہ بیان ہوچکی ہیں۔
پھر جو لوگ اِن سے بدرجہا زیادہ طاقتور تھے اُنہیں ہم نے ہلاک کر دیا، پچھلی قوموں کی مثالیں گزر چکی ہیں۔
یعنی خاص لوگوں کی بیہودگی کا نتیجہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ پوری نوع انسانی کو نبوت اور کتاب کی رہنمائی سے محروم کردیا جاتا، بلکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جو لوگ باطل پرستی کے نشے اور اپنی قوت کے گھمنڈ میں بد مست ہو کر انبیاء کا مذاق اڑانے سے باز نہ آئے انہیں آخر کار تباہ کردیا گیا۔ پھر جب اللہ کا قہر ٹوٹ پڑا تو جس قوت کے بل پر یہ قریش کے چھوٹے چھوٹے سردار اکڑ رہے ہیں اس سے ہزاروں گنی زیادہ طاقت رکھنے والے بھی مچھر اور پسو کی طرح مسل کر رکھ دیئے گئے۔
پس ہم نے ان سے زیادہ زورآوروں کو تباہ کر ڈالا اور اگلوں کی مثال گزر چکی ہے۔
یعنی اہل مکہ سے زیادہ زور آور تھے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (ۭكَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَاَشَدَّ قُوَّةً ) 40 ۔ غافر :82) ' وہ ان سے تعداد اور قوت میں کہیں زیادہ تھے۔
اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ لازماً یہی جواب دیں گے کہ ان کو خدائے عزیز و علیم نے پیدا کیا ہے
مشرکین کے تضاد فکر کی وضاحت: یہ قریش کے کفر و شرک اور ان کی اس ضد و مکابرت کی تفصیل بیان ہو رہی ہے جس کا ذکر اوپر آیت ۵ میں ’اَنْ کُنتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ‘ کے الفاظ سے گزر چکا ہے۔ یہ بیان آگے دور تک جائے گا۔ فرمایا کہ یہ یوں تو اپنے دین شرک کی حمایت میں تم سے لڑنے کے لیے آستینیں چڑھائے ہوئے ہیں لیکن یہ ایک شدید قسم کے تضاد فکر میں مبتلا ہیں جس کی طرف ان کا جوش مخالفت ان کو متوجہ ہونے نہیں دے رہا ہے۔ اگر تم ان سے سوال کرو کہ آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے تو اس کا جواب لازماً وہ یہی دیں گے کہ ان کا خالق خدائے عزیز و علیم ہے لیکن دوسری طرف ان کی سفاہت کا یہ عالم ہے کہ
’وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْئً ا‘
(اور انھوں نے اللہ کے بندوں میں سے اس کے شریک اور کفو و ہمسر بنا رکھے ہیں)۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مشرکین عرب جیسا کہ پچھلی سورتوں میں تفصیل گزر چکی ہے، آسمان و زمین اور دوسری تمام مخلوقات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے لیکن دوسری طرف وہ یہ بھی مانتے تھے کہ ملائکہ خدا کی بیٹیاں ہیں جو اس کی چہیتی اور اس کی ذات و صفات میں شریک ہیں اس وجہ سے ان کی عبادت خدا کے تقرب کا ذریعہ اور مال و اولاد کی فراوانی کا وسیلہ ہے۔
اور اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو لازماً یہی جواب دیں گے کہ اِن کو خداے عزیز و علیم نے پیدا کیا ہے۔
n/a
اگر تم اِن لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ انہیں اُسی زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔
n/a
اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا (اللہ) ہی نے پیدا کیا ہے۔
n/a
جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے رکھے کہ تم راہ پاؤ
چار آیتیں بطور تضمین: یہ آیت اور بعد کی تین آیات مشرکین کے جواب کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تضمین اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہیں کہ جو شخص اس کائنات کی خلقت پر تدبر کی نگاہ ڈالے گا وہ اس میں خالق کی قدرت، ربوبیت اور حکمت کے ایسے آثار پائے گا کہ لازماً وہ اس کی توحید کا بھی اقرار کرے گا اور ایک روز جزا و سزا کا بھی۔ مقصد اس تفصیل سے یہ دکھانا ہے کہ مشرکین کا یہ اعتراف کہ آسمان و زمین کا خالق خدائے عزیز و علیم ہی ہے، اگر اپنی صحیح سمت میں آگے بڑھے تو اس کے تضمنات یہ بھی ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ لیکن مشرکین پہلا قدم صحیح اٹھا کر پھر غلط سمت میں مڑ جا تے ہیں جس سے وہ اپنے مانے ہوئے عقیدہ کو باطل اور پائی ہوئی راہ کو گم کر دیتے ہیں۔
خدا کے خالق ہونے کے تضمنات: فرمایا کہ وہی خدائے عزیز و علیم جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے (اور جس کا خالق ہونا تم کو بھی تسلیم ہے) اسی نے تمہاری بودوباش کے لیے اس زمین کو گہوارہ بنایا۔ اس گہوارہ بنانے کی مزید وضاحت قرآن کے دوسرے مقامات میں اس طرح فرمائی ہے کہ اس نے اپنی عظیم قدرت و حکمت سے اس میں پہاڑ گاڑ دیے ہیں کہ وہ تمہارے سمیت کسی طرف کو لڑھک نہ پڑے۔ پھر اس میں تمہارے لیے راستے رکھے ہیں یعنی زمین کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے پہاڑ گاڑے تو اس طرح نہیں کہ وہ ہر طرف سے تمہاری راہ روک کر کھڑے ہو جائیں بلکہ خشکی اور تری دونوں کے اندر ان پہاڑوں کے درمیان سے تمہارے لیے راستے بھی رکھے ہیں کہ تمہارے قافلے اور تمہارے جہازات ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کر سکیں۔
ایک معنی خیز ٹکڑا: ’لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ‘ کا ٹکڑا یہاں نہایت معنی خیز اور بلیغ ہے۔ ایک مطلب تو اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں پہاڑوں کی فلک بوس دیواروں کے درمیان تمہارے لیے جو راستے رکھے ہیں وہ اس لیے رکھے ہیں کہ تم ان ناقابل عبور دیواروں کے اندر محبوس و محصور ہو کے نہ رہ جاؤ بلکہ ان سے باہر نکلنے کے لیے بھی راہیں کھلی رہیں۔ دوسرا نہایت لطیف اشارہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ تم اپنے رب کی قدرت، حکمت، ربوبیت اور اپنے حال پر اس کی ان بے پایاں عنایات پر غور کرو اور اس نتیجہ تک پہنچو کہ جس پروردگار نے تمہارے لیے یہ کچھ اہتمام فرمایا ہے وہی تمہاری شکرگزاری اور عبادت و اطاعت کا اصل سزاوار ہے اور اگر تم نے اس کے اس حق کو نہ پہچانا تو ایک دن لازماً ایسا آئے گا جس میں تم کو اس ناسپاسی کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔
(وہی) جس نے زمین کو تمھارے لیے گہوارہ بنایا اور اُس میں تمھارے لیے راستے نکالے کہ تم راہ پاؤ۔
یہاں سے آگے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تضمین ہے، یہ مشرکین کے جواب کا حصہ نہیں ہے اور اِس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہو، اُس کے تضمنات یہ بھی ہیں، اگر تم غور کرو۔
یہی راستے ہیں جن کی وجہ سے انسان فلک بوس پہاڑوں کے اندر محبوس اور لق و دق صحراؤں میں بے منزل کا مسافر ہو کر نہیں رہ گیا ہے۔
یعنی راستہ معلوم کرو اور جہاں پہنچنا چاہتے ہو، پہنچ جاؤ۔ نیز خدا کی اِن بے پایاں عنایتوں پر غور کرو اور وہ راستہ بھی پا لو جس کی دعوت یہ قرآن تمھیں دے رہا ہے۔
وہی نا جس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہاری خاطر راستے بنا دیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو۔
دوسرے مقامات پر تو زمین کو فرش سے تعبیر کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے لیے گہوارے کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔ یعنی جس طرح ایک بچہ اپنے پنگھوڑے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے، ایسے آرام کی جگہ تمہارے لیے اس عظیم الشان کرے کو بنا دیا جو فضا میں معلق ہے۔ جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور پر گھوم رہا ہے۔ جو 66600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے۔ جسکے پیٹ میں وہ آگ بھری ہے کہ پتھروں کو پگھلا دیتی ہے اور آتش فشانوں کی شکل میں لاوا اگل کر کبھی کبھی تمہیں بھی اپنی شان دکھا دیتی ہے۔ مگر اس کے باوجود تمہارے خالق نے اسے اتنا پر سکون بنا دیا ہے کہ تم آرام سے اس پر سوتے ہو اور تمہیں ذرا جھٹکا تک نہیں لگتا۔ تم اس پر رہتے ہو اور تمہیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ کرہ معلق ہے اور تم اس پر سر کے بل لٹکے ہوئے ہو۔ تم اطمینان سے اس پر چلتے پھرتے ہو اور تمہیں یہ خیال تک نہیں آ تاکہ تم بندوق کی گولی سے بھی زیادہ تیز رفتار گاڑی پر سوار ہو، حالانکہ اس کی ایک معمولی سی جھر جھری کبھی زلزلے کی شکل میں آ کر تمہیں خبر دے دیتی ہے کہ یہ کس بلا کا خوفناک دیو ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حواشی ٧٤۔ ٧٥)
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :8
پہاڑوں کے بیچ بیچ میں درے، اور پھر کوہستانی اور میدانی علاقوں میں دریا وہ قدرتی راستے ہیں جو اللہ نے زمین کی پشت پر بنا دیے ہیں۔ انسان ان ہی کی مدد سے کرہ زمین پر پھیلا ہے۔ اگر پہاڑی سلسلوں کو کسی شگاف کے بغیر بالکل ٹھوس دیوار کی شکل میں کھڑا کردیا جاتا اور زمین میں کہیں دریا، ندیاں، نالے نہ ہوتے تو آدمی جہاں پیدا ہوا تھا اسی علاقے میں مقید ہو کر رہ جاتا۔ پھر اللہ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ تمام روئے زمین کو یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا، بلکہ اس میں قسم قسم کے ایسے امتیازی نشانات (Land marks) قائم کردیے جن کی مدد سے انسان مختلف علاقوں کو پہچانتا ہے اور ایک علاقے اور دوسرے علاقے کا فرق محسوس کرتا ہے۔ یہ دوسرا اہم ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان کے لیے زمین میں نقل و حرکت آسان ہوئی۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اس وقت معلوم ہوتی ہے جب اسے کسی لق و دق صحرا میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے، جہاں سینکڑوں میل تک زمین ہر قسم کے امتیازی نشانات سے خالی ہوتی ہے اور آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے اور آگے کدھر جائے۔
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :9
یہ فقرہ بیک وقت دو معنی دے رہا ہے۔ ایک معنی یہ کہ تم ان قدرتی راستوں اور ان نشانات راہ کی مدد سے اپنا راستہ معلوم کرسکو اور اس جگہ تک پہنچ سکو جہاں جانا چاہتے ہو۔ دوسرے معنی یہ کہ اللہ جل شانہ کی اس کاری گری کو دیکھ کر تم ہدایت حاصل کرسکو، حقیقت نفس الامری کو پاسکو، اور یہ سمجھ سکو کہ زمین میں یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہوگیا ہے، نہ بہت سے خداؤں نے مل کر یہ تدبیر کی ہے بلکہ ایک رب حکیم ہے جس نے اپنی مخلوق کی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر پہاڑوں اور میدانوں میں یہ راستے بنائے ہیں اور زمین کے ایک ایک خطے کو بیشمار طریقوں سے ایک الگ شکل دی ہے جس کی بدولت انسان ہر خطے کو دوسرے سے ممیز کرسکتا ہے۔
وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش (بچھونا) بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے کردیئے تاکہ تم راہ پا لیا کرو ۔
ایسا بچھونا، جس میں ثبات وقرار ہے، تم اس پر چلتے ہو، کھڑے ہوتے اور سوتے ہو اور جہاں چاہتے ہو، پھرتے ہو اس نے اس کو پہاڑوں کے ذریعے سے جما دیا تاکہ اس میں حرکت و جنبش نہ ہو۔
یعنی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لئے راستے بنا دیئے تاکہ کاروباری، تجارتی اور دیگر مقاصد کے لئے تم آجا سکو۔
امین احسن اصلاحی
یہ حٰمۤ ہے۔
پہلی سورتوں کی طرح اس کا قرآنی نام بھی ’حٰمۤ‘ ہی ہے۔ سورتوں کے ناموں کا اشتراک، ہم اشارہ کر چکے ہیں، ان کے مطالب کے اشتراک پر دلیل ہے۔ چنانچہ تمام ’حَوَامِیْم‘ جو آپ پڑھتے آ رہے ہیں، ایک ہی قدر مشترک کی حامل ہیں۔ اختلاف اگر ہے تو اسلوب بیان، نہج استدلال اور اجمال و تفصیل کا ہے۔