یہ کتاب اللہ کی طرف سے اتاری گئی ہے، نہایت اہتمام کے ساتھ، جو زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور قرآن کے مکذبین کے لیے تہدید و وعید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس خدا نے یہ کتاب اتاری ہے، اُس کے ارادوں میں کوئی مزاحم نہیں ہو سکتا۔ وہ اگر لوگوں کو ڈھیل دے رہا ہے تو یہ اُس کی حکمت کا تقاضا ہے اور ڈھیل کے اِس عرصے میں اگر کچھ مزاحمتیں اِس کتاب کے منکرین کی طرف سے پیش آ رہی ہیں تو اُنھیں بھی اِسی حکمت پر محمول کرنا چاہیے۔ اِس لیے یہ منکرین بھی متنبہ ہوں اور آپ بھی مطمئن رہیے، اُس کا فیصلہ صادر ہو جائے گا تو کوئی اُسے ٹالنے والا نہیں ہو گا۔
اس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے ۔
یہ اس سورة کی مختصر تمہید ہے جس میں بس یہ بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام نہیں ہے، جیسا کہ منکرین کہتے ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے خود نازل فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر کر کے سامعین کو دو حقیقتوں پر متنبہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کلام کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں بلکہ اس کی اہمیت محسوس کریں۔ ایک یہ کہ جس خدا نے اسے نازل کیا ہے وہ عزیز ہے، یعنی ایسا زبردست ہے کہ اس کے ارادوں اور فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ اس کے مقابلہ میں ذرہ برابر بھی مزاحمت کرسکے۔ دوسرے یہ کہ وہ حکیم ہے، یعنی جو ہدایت وہ اس کتاب میں دے رہا ہے وہ سراسر دانائی پر مبنی ہے اور صرف ایک جاہل و نادان آدمی ہی اس سے منہ موڑ سکتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ نمبر 1 ۔ )
اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب با حکمت کی طرف سے ہے۔
n/a
بے شک ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے تو تم اللہ ہی کی بندگی کرو، اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ۔
’حَقٌّ‘ کے معنی یہاں قول فیصل کے اور ’دین‘ کے معنی اطاعت کے ہیں۔ ان الفاظ کے مختلف معانی کی وضاحت ان کے محل میں ہو چکی ہے۔
توحید اور شرک کے باب میں قول فیصل: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے۔ اللہ کی توحید کے بارے میں مبتدعین و مشرکین نے جو اختلافات پیدا کر دیے تھے اس کتاب نے ان کا فیصلہ کر دیا تو تم اللہ ہی کی بندگی ’اس کی خالص اطاعت کے ساتھ‘ کرو۔ اطاعت خالص کا سزاوار اللہ ہی ہے۔ وہی سب کا خالق اور پروردگار ہے تو وہی سب کی عبادت کا بھی حق دار ہے اور جو عبادت کا حق دار ہے وہی اطاعت کا بھی حق دار ہے۔ یہ بالکل بے تکی بات ہے کہ عبادت کا حق دار کوئی ہو، اطاعت کا حق دار کوئی اور بن جائے اور جس طرح عبادت کا خالص ہونا ضروری ہے، اسی طرح اطاعت بھی بے آمیز ہونی ضروری ہے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے خلاف جائز نہیں ہے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے یہ بات فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کے نازل ہو جانے کے بعد تمہاری راہ معین ہو گئی۔ تم اسی راہ پر چلو۔ اگر دوسرے تمہارا ساتھ دیتے ہیں تو فبہا، نہیں دیتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ تمہارے اوپر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
ہم نے، (اے پیغمبر)، اِس کتاب کو تمھاری طرف قول فیصل کے ساتھ اتارا ہے۔ سو اب اللہ ہی کی بندگی کرو، اپنی اطاعت کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔
یعنی شرک اور توحید کے باب میں جو اختلافات پیدا کر دیے گئے ہیں، اُن کے لیے قول فیصل کے ساتھ اتارا ہے۔
یعنی اِس طرح کہ پرستش بھی اُسی کی ہو اور کسی قید و شرط کے بغیر حکم بھی اُسی کا مانا جائے۔
یعنی ایسی بے آمیز اطاعت جس میں نفس اور غیر، دونوں کی طرف سے کسی شرکت کا شائبہ نہ ہو۔
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف برحق نازل کی ہے ، لہٰذا تم اللہ کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے ۔
یعنی اس میں جو کچھ ہے حق اور سچائی ہے، باطل کی کوئی آمیزش اس میں نہیں ہے۔
یہ ایک نہایت اہم آیت ہے جس میں دعوت اسلام کے اصل مقصود کو بیان کیا گیا ہے، اس لیے اس پر سے سرسری طور پر نہ گزر جانا چاہیے، بلکہ اس کے مفہوم و مدعا کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بنیادی نکات دو ہیں جنہیں سمجھے بغیر آیت کا مطلب نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایک یہ کہ مطالبہ اللہ کی عبادت کرنے کا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایسی عبادت کا مطالبہ ہے جو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے کی جائے۔
عبادت کا مادہ عبد ہے۔ اور یہ لفظ ” آزاد ” کے مقابلے میں ” غلام ” اور ” مملوک ” کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہوتا ہے۔ اسی معنی کے لحاظ سے ” عبادت ” میں دو مفہوم پیدا ہوئے ہیں۔ ایک پوجا اور پرستش، جیسا کہ عربی زبان کی مشہور و مستند لغت ” لسان العرب ” میں ہے، عَبَدَا للہ، تَألَّہ لَہٗ ۔ وَ التَّعَبُّدُ ، التَّنَسُّکُ ۔ دوسرے، عاجزانہ اطاعت اور برضا و رغبت فرمانبرداری، جیسا کہ لسان العرب میں ہے، العبادۃ، الطاعۃ۔ و معنی العبادۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع۔ وَکل من دان لملک فھر عابدٌ لَہٗ (وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ ) ۔ والعابد، الخاضع لربہ المستسلم المنقاد لامرہ۔ عبد الطاغوت، اطاعَہ یعنی الشیطان فیما سَوَّل لہ واغواہ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ ، ای نطیع الطاعۃ التی یخضع معھا۔ اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ ، اطیعوا ربَّکم۔ پس لغت کی ان مستند تشریحات کے مطابق مطالبہ صرف اللہ تعالیٰ کی پوجا اور پرستش ہی کا نہیں ہے بلکہ اس کے احکام کی بےچون و چرا اطاعت، اور اس کے قانون شرعی کی برضا و رغبت پیروی، اور اس کے امر و نہی کی دل و جان سے فرمانبرداری کا بھی ہے۔
دین کا لفظ عربی زبان میں متعدد مفہومات کا حامل ہے :
ایک مفہوم ہے غلبہ و اقتدار، مالکانہ اور حاکمانہ تصرُف، سیاست و فرمانروائی اور دوسروں پر فیصلہ نافذ کرنا۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے دان النَّاسَ ، ای قھرھم علی الطاعۃ۔ دِنْتُھم، ای قھرتُھم۔ دِنتُہ سُسْتُہ سملکتُہٗ ۔ وفی الحدیث الکَیِّس من دان نفسہٗ ، ای اذلَّھا و استعبدھا۔ الدَّیَّان، القاضی، الحَکَم، القھّار۔ ولا انت دیَانی، ای لست بقاھرلی فَتَسُوس امری۔ مَا کَانَ لِیَأخُذَ اَخَاہُ فِیْ دین الْمَلِکِ ، ای فی قضاء الملک۔
دوسرا مفہوم ہے اطاعت، فرمانبرداری اور غلامی۔ لسان العرب میں ہے الدین، الطاعۃ۔ دِنْتُہ و دِنْتُ لَہ ای اطعتُہٗ ۔ والدین للہ، انما ھو طاعتہ والتعبد لہٗ ۔ فی الحدیث اریدُ من قریشٍ کلمۃ تَدِین لھمْ بھَا العرب، ای تطیعھم و تخضع لھم۔ ثم دانت بعد الرباب، ای ذلّت لہ و اطاعَتْہُ ۔ یمرقون من الدین، ای انھم یخرجون من طاعۃ الامام المفترض الطاعۃ۔ المدین، العبد۔ فَلَوْلَا اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ ، ای غیر مملوکین۔
تیسرا مفہوم ہے وہ عادت اور طریقہ جس کی انسان پیروی کرے۔ لسان العرب میں ہے الدین، العادۃ و الشأن۔ یقال مازال ذٰلک دینی و دیدَنی، ای عادتی۔
ان تینوں مفہومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کے معنی اس آیت میں اس ” طرز عمل اور اس رویے کے ہیں جو کسی کی بالاتری تسلیم اور کسی کی اطاعت قبول کر کے انسان اختیار کرے۔ ” اور دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ” آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کا اتباع اور اسی کے احکام واوامر کی اطاعت کرے “۔
یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے
یعنی اس میں توحید و رسالت، معاد اور احکام و فرائض کا جو اثبات کیا گیا ہے، وہ سب حق ہے اور انہی کے ماننے اور اختیار کرنے میں انسان کی نجات ہے۔
دین کے معنی یہاں عبادت اور اطاعت کے ہیں اور اخلاص کا مطلب ہے صرف اللہ کی رضا کی نیت سے نیک عمل کرنا۔ آیت، نیت کے وجوب اور اس کے اخلاص پر دلیل ہے۔ حدیث میں بھی اخلاص نیت کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کردی گئی ہے کہ اِنَّمَا الاَعْمَال بالنِّیَّاتِ ' عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے ' یعنی جو عمل خیر اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے گا، (بشرطیکہ وہ سنت کے مطابق ہو) وہ مقبول اور جس عمل میں کسی اور جذبے کی آمیزش ہوگی، وہ نامقبول ہوگا۔
یاد رکھو کہ اطاعت خالص کا سزاوار اللہ ہی ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا سے قریب تر کر دیں، اللہ ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کو بامراد نہیں کرے گا جو جھوٹے اور ناشکرے ہیں
’وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا ........ الاٰیۃ‘۔ یعنی یہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنائے بیٹھے ہیں اور ان کے حق میں انھوں نے یہ فلسفہ ایجاد کیا ہے کہ ان کو وہ خدا سمجھ کر نہیں بلکہ خدا کے تقرب کا ذریعہ سمجھ کر پوج رہے ہیں، اگر اس کتاب کے فیصلہ کو وہ نہیں مان رہے ہیں تو اللہ ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا۔
’اِنَّ اللَّہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ‘۔ ’ہَدٰی یَھْدِیْ‘ کسی مقصد میں بامراد کرنے کے مفہوم کے لیے بھی قرآن میں جگہ جگہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے۔
قیامت کے دن ان لوگوں کا جو فیصلہ ہو گا اس کے متعلق یہ اصولی حقیقت واضح فرما دی کہ جو لوگ جھوٹے اور ناشکرے ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بامراد نہیں کرے گا۔ جھوٹے سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے خدا پر یہ جھوٹ باندھا کہ اس نے فلاں اور فلاں کو اپنا شریک بنایا ہے درآنحالیکہ خدا نے ان کے باب میں کوئی دلیل یا شہادت نہیں اتاری اور ناشکرے سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو نعمتیں تو سب خدا نے بخشیں لیکن انھوں نے گُن دوسروں کے گائے۔ یہ دونوں صفتیں مشرکین کی ہیں اور یہ دونوں بیک وقت ہر مشرک میں لازماً پائی جاتی ہیں۔ فرمایا کہ یہ لوگ اس گھمنڈ میں قرآن اور پیغمبرؐ کو جھٹلا رہے ہیں کہ قیامت ہوئی تو وہ اپنے معبودوں کی بدولت خدا کے مقرب بن جائیں گے حالانکہ ایسے جھوٹوں اور ناشکروں کی کوئی امید بھی خدا کے ہاں بر آنے والی نہیں ہے۔
سنو، خالص اطاعت اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ کے سوا جن لوگوں نے دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں، (اور اُس کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو اُن کی عبادت صرف اِس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ سے قریب تر کر دیں، اللہ یقیناًاُن کے درمیان اُس بات کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ بے شک، اللہ اُن لوگوں کو راہ یاب نہیں کرتا جو جھوٹے اور ناشکرے ہیں۔
دنیا بھر کے مشرکین اپنے شرک کے لیے بالعموم یہی استدلال کرتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ نہ دنیا میں ہدایت دیتا ہے اور نہ آخرت میں منزل مراد تک پہنچاتا ہے۔
یعنی اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں کہ اُس نے فلاں اور فلاں کو اپنا شریک بنایا ہے اور سب نعمتیں اُسی سے پاتے ہیں، لیکن دوسروں کی حمد و ثنا میں رطب اللسان رہتے ہیں۔
خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں اللہ یقینا ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو۔
یہ امر واقعہ اور ایک حقیقت ہے جسے اوپر کے مطالبے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کر کے اس کی بندگی تم کو کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بےآمیز اطاعت و بندگی اللہ کا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں، بندگی کا مستحق کوئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اس کی بھی پرستش اور اس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بےآمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے۔ اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے۔ اس آیت کی بہترین تشریح وہ حدیث ہے جو ابن مردُوْیہ نے یزید الرّقاشی سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لیے کہ ہمارا نام بلند ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں۔ اس نے پوچھا اگر اللہ کے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو ؟ آپ نے فرمایا ان اللہ تعالیٰ لا یقبل الّا من اخلص لہٗ ، اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لیے نہ ہو۔ ” اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔
کفار مکہ کہتے تھے، اور بالعموم دنیا بھر کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت ان کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی بارگاہ بہت اونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں۔ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتاؤں اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک چاند، سورج، مریخ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بیشمار اختلافات ہیں۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ فلاں فلاں اشخاص ہیں، لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بناؤ۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے جو محض وہم اور اندھی عقیدت اور اسلاف کی بےسوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ایک کاذب دوسرے کفار۔ کاذب ان کو اس لیے فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے جھوٹ موٹ یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے اور پھر یہی جھوٹ وہ دوسروں میں پھیلاتے ہیں۔ رہا کفار، تو اس کے دو معنی ہیں۔ ایک سخت منکر حق، یعنی توحید کی تعلیم سامنے آجانے کے بعد بھی یہ لوگ اس غلط عقیدے پر مصر ہیں۔ دوسرے، کافر نعمت، یعنی نعمتیں تو یہ لوگ اللہ سے پا رہے ہیں اور شکریے ان ہستیوں کے ادا کر رہے ہیں جن کے متعلق انہوں نے اپنی جگہ یہ فرض کرلیا ہے کہ یہ نعمتیں ان کی مداخلت کے سبب سے مل رہی ہیں۔
خبر دار ! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا سچا فیصلہ اللہ خود کرے گا جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں کو اللہ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا
یہ جھوٹ ہی ہے کہ ان معبودان باطلہ کے ذریعے سے ان کی رسائی اللہ تک ہوجائے گی یا یہ ان کی سفارش کریں گے اور اللہ کو چھوڑ کر بےاختیار لوگوں کو معبود سمجھنا بھی بہت بڑی ناشکری ہے ایسے جھوٹوں اور ناشکروں کو ہدایت کس طرح نصیب ہوسکتی ہے۔
اگر اللہ اولاد ہی بنانے کا ارادہ کرتا تو وہ چھانٹ لیتا ان چیزوں میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا۔ وہ پاک اور ارفع ہے۔ وہ اللہ واحد ہے، سب پر قابو رکھنے والا۔
مشرکین کے عقیدے پر تعریض: یہ مشرکین عرب کے عقیدے پر تعریض ہے کہ انھوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مان کر ان کو معبود بنا رکھا ہے اور ان کو خدا کے تقرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کم عقلوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ اگر خدا اپنے لیے اولاد ہی بنانے کا ارادہ کرتا تو وہ بیٹیاں کیوں بناتا، وہ اپنی مخلوقات میں سے جس بہتر سے بہتر چیز کو چاہتا اپنے لیے منتخب کرتا! ’سُبْحٰنَہٗ‘ وہ ایسی نسبتوں اور ایسی ضرورتوں سے ارفع، منزہ اور بالکل پاک ہے۔ اس کو کسی بیٹے یا بیٹی یا کسی شریک و مددگار کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بالکل یکہ و تنہا اور اپنی پوری کائنات کو اپنے قابو میں رکھنے والا ہے۔
(یہ احمق سوچتے نہیں کہ) اگر اللہ چاہتا کہ کسی کو اولاد بنائے تو اپنی مخلوقات میں سے جو چاہتا ، (اپنے لیے خود) منتخب کر لیتا۔ (مگر) وہ اِس سے پاک ہے۔ وہ اکیلا خدا ہے، سب پر قابو رکھنے والا۔
یعنی تمھارا انتظار نہ کرتا کہ تم اپنی طرف سے اُس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کرو، بلکہ خود فیصلہ کرتا اور اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے اعلان کر دیتا کہ فلاں اور فلاں کو اُس نے اپنا بیٹا یا بیٹی بنایا ہے۔
اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسکو چاہتا برگزیدہ کرلیتا ، پاک ہے وہ اس سے (کہ کوئی اس کا بیٹا ہو) ، وہ اللہ ہے اکیلا اور سب پر غالب ۔
یعنی اللہ کا بیٹا ہونا تو سرے سے ہی ناممکن ہے۔ ممکن اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی کو اللہ برگزیدہ کرلے۔ اور برگزیدہ بھی جس کو وہ کرے گا، لامحالہ وہ مخلوق ہی میں سے کوئی ہوگا، کیونکہ اللہ کے سوا دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ مخلوق خواہ کتنی ہی برگزیدہ ہوجائے، اولاد کی حیثیت اختیار نہیں کرسکتی، کیونکہ خالق اور مخلوق میں عظیم الشان جوہری فرق ہے، اور ولدیت لازماً والد اور اولاد میں جوہری اتحاد کی مقتضی ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ” اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو ایسا کرتا ” کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ نے ایسا کرنا کبھی نہیں چاہا۔ اس طرز بیان سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کسی کو بیٹا بنا لینا تو درکنار، اللہ نے تو ایسا کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا ہے۔
یہ دلائل ہیں جن سے عقیدہ ولدیت کی تردید کی گئی ہے۔
پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد کی ضرورت ناقص و کمزور کو ہوا کرتی ہے۔ جو شخص فانی ہوتا ہے وہی اس کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو تاکہ اس کی نسل اور نوع باقی رہے۔ اور کسی کو متبنّیٰ بھی وہی شخص بناتا ہے جو یا تو لا وارث ہونے کی وجہ سے کسی کو وارث بنانے کی حاجت محسوس کرتا ہے، یا محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر کسی کو بیٹا بنا لیتا ہے۔ یہ انسانی کمزوریاں اللہ کی طرف منسوب کرنا اور ان کی بنا پر مذہبی عقیدے بنا لینا جہالت اور کم نگاہی کے سوا اور کیا ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے وہ اکیلا اپنی ذات میں واحد ہے، کسی جنس کا فرد نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد لازماً ہم جنس ہوا کرتی ہے۔ نیز اولاد کا کوئی تصور ازدواج کے بغیر نہیں ہو سکتا، اور ازدواج بھی ہم جنس سے ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ شخص جاہل و نادان ہے جو اس یکتا و یگانہ ہستی کے لیے اولاد تجویز کرتا ہے۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ قہار ہے۔ یعنی دنیا میں جو چیز بھی ہے اس سے مغلوب اور اسکی قاہرانہ گرفت میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کائنات میں کوئی کسی درجے میں بھی اس سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا جس کی بنا پر اس کے متعلق یہ گمان کیا جاسکتا ہو کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی رشتہ ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اولاد ہی کا ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا۔ (لیکن) وہ تو پاک ہے، وہ وہی اللہ تعالیٰ ہے یگانہ اور قوت والا۔
یعنی پھر اس کی اولاد لڑکیاں ہی کیوں ہوتیں ؟ جس طرح مشرکین کا عقیدہ تھا۔ بلکہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو پسند کرتا، وہ اس کی اولاد ہوتی، نہ کہ وہ جن کو وہ باور کراتے ہیں، لیکن وہ تو اس نقص سے ہی پاک ہے۔ (ابن کثیر
اس نے آسمانوں اور زمین کو غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ رات کو دن پر ڈھانکتا ہے اور دن کو رات پر اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک وقت مقرر کی پابندی کے ساتھ گردش کر رہا ہے سن رکھو کہ غالب اور بخشنے والا وہی ہے
شرک و شفاعت کا عقیدہ اس دنیا کے بالحق ہونے کے منافی ہے: اس نے آسمان و زمین بے مقصد و غایت نہیں پیدا کیے ہیں کہ نیکی و بدی اور حق و باطل کا اس میں کوئی امتیاز ہی نہ ہو، جو چاہے، سفارشوں کے بل پر، اپنے لیے اونچے سے اونچے مرتبے خدا کے ہاں محفوظ کرا لے، خواہ اس کے اعمال و عقائد کچھ ہی ہوں۔ اگر ایسا ہو تو یہ دنیا ایک بالکل باطل کارخانہ بن جاتی ہے اور ایک حکیم و عادل خالق کی شان کے بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی باطل کام کرے۔
اللہ تعالیٰ اس دنیا سے بے تعلق نہیں ہے: ’یُکَوِّرُ الَّیْْلَ عَلَی النَّہَارِ ........ الاٰیۃ‘۔ یعنی کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ خدا دنیا کو پیدا کر کے کسی گوشے میں ایک تماشائی یا نرتکار بن کر بیٹھ رہا ہے بلکہ وہ برابر رات کو دن پر ڈھانکتا اور دن کو رات پر اُڑھاتا ہے۔ اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور یہ سب اپنے مقررہ نظام الاوقات کے مطابق گردش کر رہے ہیں۔ مجال نہیں ہے کہ ان کی پابندی اوقات میں منٹ اور سیکنڈ کا بھی فرق پیدا ہو جائے۔
’اَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ‘۔ یعنی کان کھول کر اچھی طرح سن لو کہ خدا عزیز بھی ہے اور غفار بھی۔ وہ ’عزیز‘ ہے اس وجہ سے کوئی اس کے اذن کے بغیر نہ اس کے ہاں رسائی حاصل کر سکتا نہ کسی کے لیے کوئی سفارش کر سکتا اور ’غفار‘ ہے اس وجہ سے وہ ان لوگوں کو خود بخشنے والا ہے جو اپنے لیے مغفرت کا حق پیدا کر لیں گے۔ ان کو کسی سفارشی کی سفارش کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔
زمین اور آسمانوں کو اُس نے مقصد سے پیدا کیا ہے۔ وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور سورج اور چاند کو اُسی نے مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک وقت مقرر کے لیے چلا جا رہا ہے۔ سنو، وہی زبردست ہے، بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ تمھارے مشرکانہ اوہام کے مطابق اپنے انجام کو پہنچیں اور اِس کے نتیجے میں حق و باطل میں سرے سے کوئی امتیاز ہی باقی نہ رہے۔
مطلب یہ ہے کہ اُس نے صرف بنایا ہی نہیں، اپنی مخلوقات کا نظم بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہے۔ کسی کا یارا نہیں ہے کہ اُس میں کسی نوعیت کی کوئی مداخلت کر سکے۔ چنانچہ سورج، چاند اور دوسرے سیاروں اور ستاروں کے لیے جو منزل مقرر کر دی گئی ہے، ہر ایک وقت مقرر کی پابندی کے ساتھ اُسی کے لیے چلاجا رہا ہے، کوئی اُسے اپنی راہ سے بے راہ نہیں کر سکتا۔
یعنی کوئی نہ اُس پر غلبہ پا کر اُس کے ارادوں میں مزاحم ہو سکتا ہے اور نہ اپنی طرف سے کسی کو بخشش کی امید دلا سکتا ہے۔ اُس کے بندے اگر مغفرت کا حق پیدا کر لیں تو وہ خود سب سے بڑھ کر بخشنے اور درگذر فرمانے والا ہے۔
اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے ۔ وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے۔ اسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے ۔
تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ 479 و 525 جلد سوم، ص 703 ۔
یعنی زبردست ایسا ہے کہ اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی طاقت اس کی مزاحمت نہیں کرسکتی۔ مگر یہ اس کا کرم ہے کہ تم یہ کچھ گستاخیاں کر رہے ہو اور اور پھر بھی وہ تم کو فوراً پکڑ نہیں لیتا بلکہ مہلت پر مہلت دیے جاتا ہے۔ اس مقام پر عقوبت میں تعجیل نہ کرنے اور مہلت دینے کو مغفرت (درگزر) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
نہایت اچھی تدبیر سے اس نے آسمان اور زمین کو بنایا وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے اور اس نے سورج چاند کو کام پر لگا رکھا ہے۔ ہر ایک مقررہ مدت تک چل رہا ہے یقین مانو کہ وہی زبردست اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔
n/a
اسی نے پیدا کیا تم کو ایک ہی جان سے، پھر پیدا کیا اسی کی جنس سے اس کا جوڑ اور تمہارے لیے (نر و مادہ) چوپایوں کی آٹھ قسمیں اتاریں۔ وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے، ایک خِلقت کے بعد دوسری خِلقت میں، تین تاریکیوں کے اندر۔ وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ اسی کی بادشاہی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو تم کہاں بھٹکا دیے جاتے ہو!
اللہ تعالیٰ ہی خالق و رازق ہے تو وہی رب بھی ہے: یہ اسی اوپر والی بات کی مزید وضاحت ہے کہ خدا ہی خالق ہے، اسی نے پرورش کا انتظام فرمایا ہے اور اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، تو اس کے سوا دوسرا کس حق کی بنا پر رب بن جائے گا! جو لوگ یہ تمام بدیہی حقائق تسلیم کرتے ہیں آخر ان کی عقل کہاں الٹ جاتی ہے کہ وہ دوسروں کو اس کی بادشاہی میں ساجھی بناتے ہیں!
’خَلَقَکُمۡ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا‘۔ یعنی خدا ہی نے تم سب کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا، پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا۔ تمام انسان ایک ہی آدم کی نسل سے ہیں اور سب کا خالق خدا ہی ہے، پھر خدا ہی ہے جس نے آدم کی جنس سے اس کے جوڑے ۔۔۔ عورت ۔۔۔ کو وجود بخشا کہ جب سب کا خالق اللہ ہی ہے اور اس حقیقت سے تمہیں بھی انکار نہیں ہے تو خدا کے سوا دوسرے معبودوں کے لیے کہاں گنجائش پیدا ہوئی!
’وَاَنزَلَ لَکُم مِّنْ الْأَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ‘۔ یعنی جس خدا نے تم کو پیدا کیا اسی نے تمہاری پرورش کا سامان بھی کیا۔ یہ نہیں ہے کہ تمہیں پیدا کر کے اس نے تمہاری پرورش کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دی ہو۔ یہ مختلف قسم کے چوپائے جن پر تمہاری معاش و معیشت کا انحصار ہے؛ خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں، کسی اور نے ان کو نہیں پیدا کیا ہے۔
یہاں چوپایوں کے لیے ’اَنزَلَ لَکُمْ‘ کے الفاظ اسی طرح استعمال ہوئے ہیں جس طرح ’اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن میں یہ اسلوب بیان اکثر چیزوں کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس سے مقصود لوگوں کو ہر چیز کے اصل منبع کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ہر چیز کا نازل کرنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اسی نے لوہا اتارا تو وہ زمین میں پیدا ہو گیا اور اُس سے انسان نے طرح طرح کے اسلحہ ایجاد کر لیے، اسی نے چوپائے اتارے تو وہ انسان کی معاش و معیشت کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے زمین میں پھیل گئے۔ یہی حقیقت بینی انسان کے اندر صحیح جذبۂ شکرگزاری پیدا کرتی ہے ورنہ انسان کی نظر ہر نعمت کے سبب قریب کے ساتھ اٹک کے رہ جاتی ہے اور وہ اپنے حقیقی پروردگار کو بھول جاتا ہے۔
’ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ‘۔ لفظ ’زوج‘ جوڑے کے لیے بھی آتا ہے اور جوڑے کے ایک فرد کے لیے بھی۔ یہاں یہ اسی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عرب میں پالتو چوپایوں میں سے چار معروف تھے۔ چھوٹے چوپایوں میں بھیڑ بکری، بڑے چوپایوں میں اونٹ اور گائے۔ لفظ انعام انہی کے لیے بولا جاتا ہے۔ ان کے نر و مادہ دونوں کو ملا کر گنیے تو یہ آٹھ بن جائیں گے۔ عرب میں معاش و معیشت کا انحصار زیادہ تر انہی پر تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کی یاددہانی کے لیے ان کا خاص طور پر حوالہ دیا۔ اس مضمون کی تفصیل مطلوب ہو تو انعام کی آیات ۱۴۳-۱۴۴ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
’یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ خَلْقاً مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ‘۔ خلق اور ربوبیت کی یاددہانی کے بعد یہ اپنی قدرت، کاریگری اور اپنے احاطۂ علم کی طرف توجہ دلائی کہ وہی خدا تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں، تین تین تاریکیوں کے اندر، تخلیق کے مختلف اطوار و مراحل سے گزارتا ہے۔ ان مختلف مراحل کی تفصیل سورۂ مومنون میں یوں فرمائی ہے:
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ (المومنون: ۱۴)
’’پھر ہم نطفہ کو خون کی پھٹکی کی شکل میں کر دیتے ہیں اور خون کی پھٹکی کو گوشت کا لوتھڑا بنا دیتے ہیں، پھر لوتھڑے میں ہڈیاں پیدا کر دیتے ہیں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔ پھر اس کو ایک نئی خلقت میں کر دیتے ہیں۔‘‘
’تین تاریکیوں‘ سے اشارہ مشیمہ، رِحم اور پیٹ کی تہ بہ تہ تاریکیاں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قدرت کا دست صناع اور موقلم یہ صناعی سورج یا بجلی کی روشنی میں نہیں کرتا بلکہ تین تین پردوں کے اندر کرتا ہے۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ اس کا علم ہر جلی و خفی کو محیط ہے۔
’ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ ....... الاٰیۃ‘۔ یعنی جس خدا کے تمہارے اوپر یہ یہ احسانات ہیں وہی تمہارا آقا اور مالک بھی ہے۔ ہر چیز اسی کی ملکیت اور تمام آسمان و زمین میں اسی کی بادشاہی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں، پھر تمہاری عقل کس طرح الٹ جاتی ہے کہ تم سیدھی راہ سے ہٹا کر ایک بالکل غلط سمت میں موڑ دیے جاتے ہو! ’تُصْرَفُوْنَ‘ مجہول کا صیغہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ان واضح حقائق فطرت کے بعد کسی غلط سمت میں بھٹکنے کی گنجائش تو نہیں تھی لیکن تم نے معلوم نہیں کس شیطان کے ہاتھ میں اپنی باگ پکڑا دی ہے جو تمہیں گمراہی کی وادیوں میں گردش کرا رہا ہے
اُسی نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر اُسی کی جنس سے اُس کا جوڑا بنایا اور تمھارے لیے چوپایوں کی آٹھ قسمیں اتاریں ، نر و مادہ ۔(اِس لیے کہ اُن سے اپنی معیشت کی ضرورتیں پوری کرو)۔ تمھاری ماؤں کے پیٹ میں وہ ایک کے بعد دوسری خلقت میں تمھیں تین اندھیروں کے اندر پیدا کرتا ہے۔ وہی اللہ تمھارا پروردگار ہے۔ اُسی کی بادشاہی ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ پھر کہاں بھٹکا دیے جاتے ہو!
اصل میں ’ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’زَوْج‘ کا لفظ جوڑے کے لیے بھی آتا ہے اور جوڑے کے ایک فرد کے لیے بھی۔ یہاں یہ اِسی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اِس سے بھیڑ، بکری، اونٹ اور گاے کے نرو مادہ مراد ہیں۔ عرب میں یہی چوپاے معروف تھے۔
آیت میں چوپایوں کے لیے ’اَنْزَلَ لَکُمْ‘ کے الفاظ بالکل اُسی طرح آئے ہیں، جس طرح لوہے کے لیے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ’وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ‘۔ اِس سے مقصود لوگوں کو ہر چیز کے منبع کی طرف توجہ دلانا ہے۔
یعنی نطفہ، علقہ وغیرہ جن کا ذکر دوسرے مقامات میں تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔
یہ پیٹ، رحم اور مشیمہ (وہ جھلی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے) کے تہ بر تہ اندھیروں کی طرف اشارہ ہے۔
اصل میں لفظ ’تُصْرَفُوْنَ‘ استعمال ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... ’تُصْرَفُوْنَ‘ مجہول کا صیغہ اِس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اِن واضح حقائق فطرت کے بعد کسی غلط سمت میں بھٹکنے کی گنجایش تو نہیں تھی، لیکن تم نے، معلوم نہیں، کس شیطان کے ہاتھ میں اپنی باگ پکڑا دی ہے جو تمھیں گمراہی کی وادیوں میں گردش کرا رہا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۶۶)
اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا ۔ اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے ۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے ۔ یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے ، بادشاہی اسی کی ہے ، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے ، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو ؟
یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے حضرت آدم سے انسانوں کو پیدا کردیا اور پھر ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا۔ بلکہ یہاں کلام میں ترتیب زمان کے بجائے ترتیب بیان ہے جس کی مثالیں ہر زبان میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں تم نے آج جو کچھ کیا وہ مجھے معلوم ہے، پھر جو کچھ تم کل کرچکے ہو اس سے بھی میں باخبر ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ کل کا واقعہ آج کے بعد ہوا ہے۔
مویشی سے مراد ہیں اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری۔ ان کے چار نر اور چار مادہ مل کر آٹھ نر و مادہ ہوتے ہیں۔
تین پردوں سے مراد ہے پیٹ، رحم اور مَشِیْمَہ (وہ جھلی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے ) ۔
یعنی مالک، حاکم اور پروردگار۔
یعنی تمام اختیارات کا مالک وہی ہے اور ساری کائنات میں اسی کا حکم چل رہا ہے۔
دوسرے الفاظ میں استدلال یہ ہے کہ جب وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی ساری بادشاہی ہے تو پھر لازماً تمہارا اِلٰہ (معبود) بھی وہی ہے۔ دوسرا کوئی اِلٰہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ نہ پروردگاری میں اس کا کوئی حصہ نہ بادشاہی میں اس کا کوئی دخل۔ آخر تمہاری عقل میں یہ بات کیسے سماتی ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا تو ہو اللہ۔ سورج اور چاند کو مسخر کرنے والا اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا بھی ہو اللہ۔ تمہارا اپنا اور تمام حیوانات کا خالق و رب بھی ہو اللہ۔ اور تمہارے معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔
یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ تم کدھر پھرے جا رہے ہو۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو۔ یعنی کوئی دوسرا ہے جو تم کو الٹی پٹی پڑھا رہا ہے اور تم اس کے بہکائے میں آ کر ایسی سیدھی سی عقل کی بات بھی نہیں سمجھ رہے ہو۔ دوسری بات جو اس انداز بیان سے خود مترشح ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ تم کا خطاب پھر انے والوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان کے اثر میں آ کر پھر رہے تھے۔ اس میں ایک لطیف مضمون ہے جو ذرا سے غور و فکر سے بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔ پھر انے والے اسی معاشرے میں سب کے سامنے موجود تھے اور ہر طرف اپنا کام علانیہ کر رہے تھے، اس لیے ان کا نام لینے کی حاجت نہ تھی۔ ان کو خطاب کرنا بھی بیکار تھا، کیونکہ وہ اپنی اغراض کے لیے لوگوں کو خدائے واحد کی بندگی سے پھیرنے اور دوسروں کی بندگی میں پھانسنے اور پھانسے رکھنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ سمجھانے سے سمجھنے والے نہ تھے، کیونکہ نہ سمجھنے ہی سے ان کا مفاد وابستہ تھا، اور سمجھنے کے بعد بھی وہ اپنے مفاد کو قربان کرنے کے لیے مشکل ہی سے تیار ہو سکتے تھے۔ البتہ رحم کے قابل ان عوام کی حالت تھی جو ان کے چکمے میں آ رہے تھے۔ ان کی کوئی غرض اس کاروبار سے وابستہ نہ تھی، اس لیے وہ سمجھانے سے سمجھ سکتے تھے۔ اور ذرا سی آنکھیں کھل جانے کے بعد وہ یہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ جو لوگ انہیں خدا کے آستانے سے ہٹا کر دوسرے آستانوں کا راستہ دکھاتے ہیں وہ اپنے اس کاروبار کا فائدہ کیا اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ کرنے والے چند آدمیوں سے رخ پھیر کر گمراہ ہونے والے عوام کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔
اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے تین تین اندھیروں میں، یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بہک رہے ہو۔
یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے، جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی تھی۔
یعنی حضرت حوا کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا فرمایا اور یہ بھی اس کا کمال قدرت ہے کیونکہ حضرت حوا کے علاوہ کسی بھی عورت کی تخلیق، کسی آدمی کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ یوں یہ تخلیق امر عادی کے خلاف اور اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔
یہ وہی چار قسم کے جانوروں کا بیان ہے بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے، جو نر اور مادہ مل کر آٹھ ہوجاتے ہیں جن کا ذکر سورة انعام میں گزر چکا ہے۔
یعنی رحم مادر میں مختلف اطوار گزارتا ہے، پہلے، نطفہ، پھر عَلَقَۃَ پھر مُضْغَۃَ پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ، جس کے اوپر گوشت کا لباس۔ ان کے تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کامل تیار ہوتا ہے۔
ایک ماں کے پیٹ کا اندھیرا اور دوسرا رحم مادر کا اندھیرا اور تیسرا اس جھلی یا پردہ جس کے اندر بچہ لپٹا ہوتا ہے۔
یا کیوں تم حق سے باطل کی طرف اور ہدایت سے گمراہی کی طرف پھر رہے ہو ؟
اگر تم ناشکری کرو گے تو خدا تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری کا رویہ پسند نہیں کرتا اور اگر تم اس کے شکرگزار رہو گے تو اس کو پسند کرے گا۔ اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ پھر تمہارے رب ہی کی طرف تمہاری واپسی ہے تو وہ تمہیں ان کاموں سے آگاہ کرے گا جو تم کرتے رہے ہو۔ وہ سینوں کے بھیدوں سے بھی باخبر ہے
اللہ تعالیٰ لوگوں کے کفر و ایمان سے بالکل بے نیاز ہے: لفظ ’کفر‘ یہاں ناشکری اور کفران نعمت کے مفہوم میں آیا ہے۔ اس کے مقابل میں ’اِنۡ تَشْکُرُوْا‘ ہے جس سے اس مفہوم کی وضاحت ہو رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے پیدا کرنے اور تمہاری پرورش میں تو خدا کے سوا کسی اور کو کوئی دخل ہے نہیں۔ اگر اس کے باوجود تم دوسروں کو خدا کا شریک بنا کر اس کی ناشکری کر رہے ہو تو یاد رکھو کہ تم خدا کا کچھ نہیں بگاڑ رہے ہو۔ خدا تمہارے کفر اور شکر دونوں سے بے نیاز ہے۔ وہ تمہارا محتاج نہیں ہے بلکہ تمہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم اس کے شکرگزار رہو گے تو وہ اس کو پسند فرمائے گا۔ دنیا میں بھی تمہاری نعمتوں میں برکت ہو گی اور آخرت میں بھی اس کا بھرپور صلہ پاؤ گے اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو کہ خدا اپنے بندوں کی طرف سے ناشکری کے رویہ کو پسند نہیں فرماتا تو لازماً اس کا نتیجہ بھی ان کے سامنے آئے گا۔
’وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی ............. الاٰیۃ‘۔ اور یہ حقیقت بھی یاد رکھو کہ خدا کے ہاں ہر نفس کی ذمہ داری خود اسی کے اوپر ہے۔ کوئی دوسرا اس کی طرف سے جواب دہی کرنے والا نہیں بنے گا۔ اگر تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ تمہارے یہ دیوی دیوتا تمہاری وکالت و شفاعت کر کے تم کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے تو یہ آرزوئے باطل پوری ہونے والی نہیں ہے۔ سب کی واپسی خدا ہی کی طرف ہونی ہے۔ کوئی اور مولیٰ و مرجع نہیں بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے سامنے اس کے اعمال کا پورا دفتر رکھ دے گا۔ وہ لوگوں کے دلوں کے بھیدوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔ نہ اس کو کسی کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہے اور نہ کوئی اس کے آگے یہ کہنے والا بنے گا کہ فلاں کے بارے میں اس کی معلومات میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو خدا کے علم میں نہیں ہیں۔
اگر تم ناشکری کرو گے تو (اللہ کا کچھ نہیں بگاڑو گے)، اِس لیے کہ اللہ تم سے بے نیاز ہے۔ ہاں، وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ اور اگر شکر گزار ہو گے تو اُس کو وہ تمھارے لیے پسند کرے گا۔ (یاد رکھو، قیامت کے دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمھاری واپسی تمھارے پروردگار ہی کی طرف ہو گی، تو جو کچھ تم کرتے رہے ہو، وہ تمھیں بتا دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تو دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔
یعنی اِس کے باوجود ناشکری کرو گے کہ خود بھی جانتے ہو کہ تمھاری پیدایش اور پرورش میں خدا کے سوا کسی اور کو کوئی دخل نہیں ہے۔
اور اِس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت ، دونوں میں اپنی نعمتوں اور برکتوں سے تمھیں نوازے گا۔
یعنی پروردگار ہی کی طرف ہو گی، تمھارے مزعومہ دیوی دیوتاؤں کی طرف نہیں ہو گی۔
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بےنیاز ہے ، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا ، اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے ۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا ۔ آخرکار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔
یعنی تمہارے کفر سے اس کی خدائی ذرا برابر بھی کمی نہیں آسکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے، اور نہ مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا عبادی لو ان اولکم و اٰخرکم و انسکم و جنکم کانوا علیٰ افجر قلب رجل منکم ما نقص من ملکی شیئاً ۔ اے میرے بندو، اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جن اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہوجاؤ تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔ ” (مسلم)
یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں، کیونکہ کفر خود انہی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا، مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا، چوروں اور ڈاکوؤں کا پایا جانا، قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظام قدرت میں ان برائیوں کے ظہور اور ان اشرار کے وجود کی گنجائش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی دیتا ہے اور اسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے موقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے ان کاموں کی گنجائش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میں کبھی کوئی برائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بر بنائے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعہ سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری، ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرما رہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو، ہم تمہیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو، کیونکہ یہ تمہارے ہی لیے نقصان دہ ہے، ہماری خدائی کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑتا۔
کفر کے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجائے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر در حقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے، اور ایمان فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص میں اللہ جلّ شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہوگا وہاں ایمان ضرور ہوگا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہوگا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے معنی نہیں ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لیے یا ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر کفر اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھا لیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔ لہٰذا جس پر بھی کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہوجائے اس کو چاہیے کہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کرلے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق نہ بنائے۔
اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو) کہ اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بےنیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرے گا۔ اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے۔ تمہیں وہ بتلا دے گا جو تم کرتے تھے۔ یقیناً وہ دلوں تک کی باتوں کا واقف ہے۔
اس کی تشریح کے لئے دیکھئے (وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ) 14 ۔ ابراہیم :8) کا حاشیہ۔
اور جب انسان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے، اس کی طرف متوجہ ہو کر، پھر جب وہ اپنی طرف سے اس کو فضل بخش دیتا ہے تو وہ اس چیز کو بھول جاتا ہے جس کے لیے پہلے پکارتا رہا تھا اور اللہ کے شریک ٹھہرانے لگتا ہے کہ اس کی راہ سے لوگوں کو گمراہ کرے۔ کہہ دو، اپنے کفر کے ساتھ کچھ دنوں بہرہ مند ہو لو، تم دوزخ والوں میں سے بننے والے ہو
انسان کی ناشکری پر تعجب اور افسوس: یہ انسان کی اس ناشکری کے رویہ پر تعجب اور افسوس کا اظہار ہے کہ اس کا عجیب حال ہے کہ جب اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تب تو وہ بڑے تضرع اور بڑی انابت کے ساتھ خدا سے فریاد کرتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت دور کر کے اس کو اپنے فضل سے بہرہ مند کر دیتا ہے تووہ اپنی مصیبت کو بھول جاتا ہے اور خدا کے بخشے ہوئے فضل کو دوسرے شریکوں کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے اور اس طرح خود بھی خدا کی راہ سے برگشتہ ہوتا ہے، دوسروں کو بھی اس سے برگشتہ کرتا ہے۔ یہاں چونکہ کفر کے سرغنوں کا رویہ زیربحث ہے اس وجہ سے فعل ’لِیُضِلَّ‘ متعدی استعمال فرمایا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس کے اندر گمراہ ہونے کا مفہوم خود شامل ہے۔
یہی مضمون آگے اسی سورہ میں اس طرح بیان ہوا ہے:
فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاہُ نِعْمَۃً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِیْتُہُ عَلَی عِلْمٍ (الزمر: ۴۹)
’’جب انسان کو کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تب تو وہ ہم کو پکارتا ہے پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت بخش دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو میرے علم و قابلیت کا ثمرہ ہے۔‘‘
انسان کی فطرت کے اندر ایک خدا کے سوا کسی اور الٰہ کا کوئی شعور نہیں ہے اس وجہ سے جب اس پر کسی حقیقی افتقار کی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ اسی کی طرف متوجہ ہوتا اور اس سے دعا و فریاد کرتا ہے لیکن جب اس کی مصیبت دور ہو جاتی ہے تو وہ مصیبت کو بھی بھول جاتا ہے اور خدا سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اور خدا کی بخشی ہوئی نعمت کو یا تو اپنے فرضی دیویوں دیوتاؤں سے منسوب کرتا ہے یا اپنی تدبیر اور اپنی قابلیت و ذہانت کا ثمرہ قرار دیتا ہے اور اس طرح خود شریک خدا بن جاتا ہے۔
’قُلْ تَمَتَّعْ بِکُفْرِکَ قَلِیْلاً إِنَّکَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ‘۔ اوپر کی بات اگرچہ عام صیغے سے فرمائی گئی ہے لیکن مقصود مخاطب گروہ کی حالت ہی پر توجہ دلانا تھا اس وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ہوئی کہ ان سے کہہ دو کہ اپنی اس ناشکری اور اپنے اس کفر کے باوجود اللہ کی نعمتوں سے کچھ دن بہرہ مند ہو لو، بالآخر تو تم جہنم کے ایندھن بننے والے ہی ہو، وہ ساری کسر پوری کر دے گی۔
انسان (کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ اُس) کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر اُس کو پکارتا ہے۔ پھر جب اُس کا پروردگار اپنی طرف سے اُس کو فضل عطا فرماتا ہے تو پہلے جس چیز کے لیے پکار رہا تھا،اُس کو بھول جاتا ہے اور اللہ کے شریک ٹھیرانے لگتا ہے کہ اُس کی راہ سے لوگوں کو گمراہ کرے۔ اِس سے کہو، (اے پیغمبر)کہ تھوڑے دن اپنے اِس کفر کے ساتھ بہرہ مند ہو لو، اِس میں شبہ نہیں کہ بالآخر تم دوزخ والوں میں ہو گے۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ یہاں قریش کے ائمۂ کفر کا معاملہ زیر بحث ہے جو خدا کی راہ سے خود بھی برگشتہ تھے اور دوسروں کو بھی اُس سے برگشتہ کرتے تھے۔
انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے ۔ پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا ۔ اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھیراتا ہے تاکہ اس کی راہ سے گمراہ کرے ۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے کہو کہ تھوڑے دن اپنے کفر سے لطف اٹھا لے، یقینا تو دوزخ میں جانے والا ہے۔
انسان سے مراد یہاں وہ کافر انسان ہے جس نے ناشکری کی روش اختیار کر رکھی ہو۔
یعنی اس وقت اسے وہ دوسرے معبود یاد نہیں آتے جنہیں وہ اپنے اچھے حال میں پکارا کرتا تھا، بلکہ ان سب سے مایوس ہو کر وہ صرف اللہ رب العالمین کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں دوسرے معبودوں کے بےاختیار ہونے کا احساس رکھتا ہے اور اس حقیقت کا شعور بھی اس کے ذہن میں کہیں نہ کہیں دبا چھپا موجود ہے کہ اصل اختیارات کا مالک اللہ ہی ہے۔
یعنی وہ برا وقت پھر اسے یاد نہیں رہتا جس میں وہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک سے دعائیں مانگ رہا تھا۔
یعنی پھر دوسروں کی بندگی کرنے لگتا ہے۔ انہی کی اطاعت کرتا ہے، انہی سے دعائیں مانگتا ہے، اور انہی کے آگے نذر و نیاز پیش کرنا شروع کردیتا ہے۔
یعنی خود گمراہ ہونے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو بھی یہ کہہ کہہ کر گمراہ کرتا ہے کہ جو آفت مجھ پر آئی تھی وہ فلان حضرت یا فلاں دیوی یا دیوتا کے صدقے میں ٹل گئی۔ اس سے دوسرے بہت سے لوگ بھی ان معبودان غیر اللہ کے معتقد بن جاتے ہیں اور ہر جاہل اپنے اسی طرح کے تجربات بیان کر کر کے عوام کی اس گمراہی کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
اور انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارتا ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ اس سے پہلے جو دعا کرتا تھا اسے (بالکل بھول جاتا ہے (١) اور اللہ تعالیٰ کے شریک مقرر کرنے لگتا ہے جس سے (اوروں کو بھی) اس کی راہ سے بہکائے، آپ کہہ دیجئے ! کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن اور اٹھالو، (آخر) تو دوزخیوں میں ہونے والا ہے۔
یا اس تکلیف کو بھول جاتا ہے جس کو دور کرنے کے لئے وہ دوسروں کو چھوڑ کر، اللہ سے دعا کرتا تھا یا اس رب کو بھول جاتا ہے، جسے وہ پکارتا تھا اور پھر شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کیا وہ جو عاجزانہ شب کے اوقات میں اپنے رب کے آگے سجود و قیام میں، آخرت سے اندیشہ ناک اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے (اور دوسرے جو ان صفات سے عاری ہیں یکساں ہو جائیں گے؟) پوچھو، کیا علم و بصیرت رکھنے والے اور وہ جو علم و بصیرت نہیں رکھتے دونوں برابر ہوں گے؟ یاددہانی تو اہل عقل ہی حاصل کرتے ہیں
عربیت کا ایک اسلوب: یہ وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہو چکی ہے کہ اس قسم کے سوالیہ جملوں میں کلام کا ایک جزو محذوف ہوتا ہے جو متکلم کے زور بیان سے واضح ہو جاتا ہے۔ آگے آیت ۲۲ میں بھی اس کی مثال آ رہی ہے۔ یہ اسلوب متکلم کی شدت یقین پر بھی دلیل ہوتا ہے اور اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اس سوال کے جواب میں مخاطب کے لیے کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ مزید برآں بات کا ایک حصہ بغیر اظہار کے ظاہر ہو جاتا ہے۔
اس استفہام کو کھولیے تو پوری بات یوں ہو گی کہ کیا جو شخص پوری نیاز مندی اور فروتنی کے ساتھ، شب کے اوقات میں، اپنے رب کے آگے کبھی سجدہ میں ہے کبھی قیام میں، وہ آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے اور وہ شخص جو اپنے غرور میں مست ہے، نہ اس کو آخرت کا کوئی اندیشہ ہے نہ خدا کی کسی رحمت کی کوئی پروا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں گے۔
شفاعت باطل کا عقیدہ حق و باطل دونوں کو یکساں کر دیتا ہے: اس سوال سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ یہ دونوں خدا کے نزدیک یکساں نہیں ہو سکتے اور یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ اس سے مخاطب کے لیے بھی انکار کی گنجائش نہیں تھی لیکن اس کے باوجود نادانوں نے شرک و شفاعت کا عقیدہ ایجاد کر کے دونوں کو بالکل یکساں کر دیا تھا۔ اس لیے کہ جب نجات کا انحصار ایمان و عمل کے بجائے دیویوں دیوتاؤں کی سفارش پر ہوا تو نہ خدا کے عدل کا کوئی اندیشہ باقی رہا نہ ایمان و عمل صالح کی کوئی ضرورت رہی۔
آیت کے اسلوب اور اس کے موقع و محل کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے اجزاء پر نگاہ ڈالیے۔
’قنوت‘ کا اصل مفہوم اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع، فروتنی اور نیاز مندی ہے۔ یہ ایک قلبی حالت ہے جس کا بہترین اظہار نماز بالخصوص شب کی نمازوں سے ہوتا ہے۔ ’اٰنَآءَ الَّیْْلِ‘ کی قید خاص طور پر اس وجہ سے لگائی ہے کہ شب کی نماز ریا کے شائبہ سے پاک ہوتی ہے اس وجہ سے جو لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں اللہ کے لیے ان کی نیاز مندی شبہ سے بالاتر ہے۔
’سَاجِدًا وَقَائِمًا‘ ان کی نماز کی تصویر ہے کہ کبھی سجدے میں پڑے ہوئے ہیں، کبھی حالت قیام میں ہیں۔ اس سے ان کی بے چینی کا اظہار ہو رہا ہے جب دوسرے اپنے نرم بستروں میں پڑے ہوئے غافل سو رہے ہوتے ہیں وہ اپنے رب کی رضا کی طلب میں سجود و قیام میں ہوتے ہیں۔
’یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہٖ‘۔ یہ ان کی نماز کے باطن کا بیان ہے کہ آخرت کے خوف اور اس کی رحمت کی امید نے ان کے اندر یہ بے قراری پیدا کی ہے کہ وہ اپنے بستروں سے الگ ہو کر کبھی سجدے میں ہیں کبھی قیام میں۔
خدا کے ساتھ بندے کے تعلق کے متوازن ہونے کی شرط: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ خدا کے ساتھ بندے کا تعلق متوازن اسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ خوف اور رجا دونوں کے بین بین رہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کا بھی زیادہ غلبہ ہو جائے تو توازن بگڑ جاتا ہے۔ اگر رجائیت غالب ہو جائے تو خدا کے عدل سے انسان بے پروا ہو جاتا ہے جس سے مرجیئت بلکہ اباحیت کے دروازے آدمی اپنے لیے کھول لیتا ہے۔ اگر خوف کا غلبہ ہو جائے تو اس سے اس کے اندر مایوسی اور قنوطیت راہ پاتی ہے اور یہ چیز بھی فتنے پیدا کرتی ہے۔ سابق ادیان کے پیروؤں میں اس عدم توازن سے جو خرابیاں پیدا ہوئیں ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔ قرآن نے اس کی طرف اشارات کیے ہیں اور ہم ان کی طرف توجہ دلاتے آ رہے ہیں۔
قرآن کے نزدیک حقیقی اہل علم: ’ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوۡنَ‘۔ اس سے اس محذوف پر روشنی پڑ رہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا۔ یعنی یہ کس طرح ممکن ہے کہ اہل علم اور غیر اہل علم دونوں اللہ کے نزدیک یکساں ہو جائیں؟ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ قرآن کے نزدیک اہل علم وہی ہیں جن کی تعریف ’أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْْلِ سَاجِداً وَقَاءِماً یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہٖ‘ کے الفاظ سے بیان ہوئی ہے۔ جن کے اندر یہ صفت موجود نہیں ہے۔ وہ قرآن کے نزدیک علم سے عاری ہیں اگرچہ وہ چاند اور مریخ تک سفر کر آئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی رہنمائی کے لیے اصلی علم یہ ہے کہ انسان کو یہ پتا ہو کہ یہ دنیا کہاں سے آئی ہے، کہاں منتہی ہو گی، اس کے خالق کی صفات کیا ہیں اور اس کے ساتھ انسان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اگر اس علم کی کلید اس کے ہاتھ آ گئی تو وہ اپنی زندگی کا مقصد و منتہا سمجھ جائے گا۔ اور اگر یہ علم حاصل نہ ہو سکا تو وہ اندھیرے میں ہے اگرچہ وہ آسمان و زمین کا طول و عرض ناپ ڈالے۔
’اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ‘۔ یعنی یہ حقائق ہیں تو بالکل واضح لیکن بات کو تسلیم کرنے کے لیے صرف اس کا واضح ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ مخاطب عقل والے ہوں اور ان حقائق کو سننے اور سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال بھی کریں۔ جن لوگوں کے اندر نہ علم ہے نہ عقل وہ لوگ واضح سے واضح بات سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اس میں ضمناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی بھی دے دی گئی کہ اگر یہ لوگ قرآن کی ان یاددہانیوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں تو اس میں قصور نہ تمہارا ہے نہ قرآن کا، بلکہ یہ لوگ خود ہی بالکل بلید اور کَودن ہیں۔
(لوگو)، کیا وہ جو رات کی گھڑیوں میں (اپنے پروردگار کے آگے) کبھی سجدے اور کبھی قیام میں عاجزی کرنے والے ہیں، آخرت سے اندیشہ ناک اور اپنے پروردگار کی رحمت کے امیدوار ہیں (اور جو اپنے شریکوں کے سہارے پر اُس کو بھلائے ہوئے ہیں، برابر ہو جائیں گے)؟اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ (اِن سب باتوں سے) یاددہانی تو عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں۔
یعنی اُس وقت، جب کوئی نہیں دیکھتا اور بندے کی عبادت ریا کے ہر شائبے سے پاک ہوتی ہے۔
یہ اُن کی نماز کے باطن کا بیان ہے جو نرم بستروں سے اٹھا کر اُنھیں خدا کے حضور میں کھڑا کر دیتا ہے۔
جملے کا یہ حصہ اصل میں محذوف ہے جو متکلم کے زور بیان سے واضح ہو رہا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ اسلوب متکلم کی شدت یقین پر بھی دلیل ہوتا ہے اور اِس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اِس سوال کے جواب میں مخاطب کے لیے کسی اختلاف کی گنجایش نہیں ہے۔ مزید برآں بات کا ایک حصہ بغیر اظہار کے ظاہرہوجاتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۵۷۰)
اِس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ قرآن کے نزدیک اہل علم وہی ہیں جن کے اوصاف اوپر بیان ہوئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...جن کے اندر یہ صفت موجود نہیں ہے، وہ قرآن کے نزدیک علم سے عاری ہیں، اگرچہ وہ چاند اور مریخ تک سفر کر آئیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی رہنمائی کے لیے اصلی علم یہ ہے کہ انسان کو یہ پتا ہو کہ یہ دنیا کہاں سے آئی ہے، کہاں منتہی ہو گی، اِس کے خالق کی صفات کیا ہیں اور اُس کے ساتھ انسان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اگر اِس علم کی کلید اُس کے ہاتھ آ گئی تو وہ اپنی زندگی کا مقصد و منتہا سمجھ جائے گا۔ اور اگر یہ علم حاصل نہ ہو سکا تو وہ اندھیرے میں ہے، اگرچہ وہ آسمان و زمین کا طول و عرض ناپ ڈالے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۷۲)
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ یہ نہیں مان رہے تو اِس میں آپ کا یا قرآن کا کوئی قصور نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ ہی علم و عقل سے عاری ہیں۔
(کیا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی) جو مطیع فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگاتا ہے ؟ ان سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں ؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔ ع
واضح رہے کہ یہاں مقابلہ دو قسم کے انسانوں کے درمیان کیا جا رہا ہے۔ ایک وہ جو کوئی سخت وقت آ پڑنے پر تو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عام حالات میں غیر اللہ کی بندگی کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور اس کی بندگی و پرستش کو اپنا مستقل طریقہ بنالیا ہے اور راتوں کی تنہائی میں ان کا عبادت کرنا ان کے مخلص ہونے کی دلیل ہے۔ ان میں سے پہلے گروہ والوں کو اللہ تعالیٰ بےعلم قرار دیتا ہے، خود انہوں نے بڑے بڑے کتب خانے ہی کیوں نہ چاٹ رکھے ہوں۔ اور دوسرے گروہ والوں کو وہ عالم قرار دیتا ہے، خواہ وہ بالکل ہی ان پڑھ کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اصل چیز حقیقت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے، اور اسی پر انسان کی فلاح کا انحصار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دونوں آخر یکساں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں یہ مل کر ایک طریقے پر چلیں، اور آخرت میں دونوں ایک ہی طرح کے انجام سے دو چار ہوں ؟
بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزراتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بےعلم کیا برابر ہیں ؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے)
اور یہ اہل ایمان ہی ہیں، نہ کہ کفار۔ گو وہ اپنے آپ کو صاحب دانش و بصیرت ہی سمجھتے ہوں۔ لیکن جب وہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کرکے غور و تدبر ہی نہیں کرتے اور عبرت و نصیحت ہی حاصل نہیں کرتے تو ایسے ہی ہے گویا وہ چوپایوں کی طرح عقل و دانش سے محروم ہیں۔
کہہ دو کہ اے میرے بندو، جو ایمان لائے ہو، تم اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ جو لوگ اس دنیا میں نیکی کریں گے ان کے لیے آخرت میں نیک صلہ ہے۔ اور اللہ کی زمین کشادہ ہے۔ جو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے، ان کو ان کا صلہ بے حساب پورا کیا جائے گا
مظلوم مسلمانوں کے لیے پیام تسلی: قریش کے رویہ سے مایوسی کے اظہار کے بعد یہ ان غریب مسلمانوں کو تسلی دی جو قریش کے ہاتھوں ستائے جا رہے تھے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی کہ میرے ان بندوں کو یہ بات پہنچا دو کہ تم اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ یعنی بے وقوف لوگوں نے تو شرک و شفاعت کی راہیں نکال کر خدا کے عدل اور اس کی جزاء و سزا کو بالکل بے معنی کر دیا ہے لیکن تم اپنے رب کے عدل سے برابر ڈرتے رہو۔ ان لوگوں کے لیے خدا کے ہاں اچھا صلہ ہے جو اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کی زندگی بسر کریں گے۔ رہے وہ لوگ جو جھوٹی شفاعتوں کے بل پر جنت الحمقاء میں زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنی اس حماقت کا انجام دیکھ لیں گے۔
’وَأَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ‘۔ یعنی اس راہ میں جو مصائب و شدائد تمہارے دشمنوں کی طرف سے پیش آ رہے ہیں یا آئندہ آئیں ان کو عزم و ہمت کے ساتھ برداشت کرو۔ اگر دیکھو کہ تمہارے وطن کی زمین تمہارے اوپر تنگ کر دی گئی ہے جب بھی بددل و مایوس نہ ہونا، خدا کی زمین بڑی وسیع ہے۔ اگر اس شہر میں تمہارے لیے اللہ کے دین پر قائم رہنا ناممکن بنا دیا گیا تو اللہ تمہاری رہنمائی کسی اور سرزمین کی طرف فرمائے گا جہاں تم بے خوف و خطر اپنے رب کی عبادت کر سکو گے۔
اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ سورہ کشمکش حق و باطل کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب مکہ کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ ہو رہی تھی اور مسلمان اپنے مستقبل کے مسئلہ پر سوچنے لگ گئے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اطمینان دلایا کہ اگر اس شہر کے باشندوں نے تمہیں نکالا تو اطمینان رکھو کہ کوئی اور سرزمین تمہارا خیر مقدم کرے گی۔ بعینہٖ یہی مضمون، اسی سیاق و سباق کے ساتھ، سورۂ عنکبوت میں بدیں الفاظ گزر چکا ہے:
یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَإِیَّایَ فَاعْبُدُوۡنِ (العنکبوت : ۵۶)
’’اے میرے بندو، جو ایمان لائے ہو، میری زمین بڑی کشادہ ہے تو میری ہی بندگی پر جمے رہو۔‘‘
’اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوۡنَ أَجْرَہُم بِغَیْْرِ حِسَابٍ‘۔ یعنی یہ راہ ہے تو بڑی سخت آزمائشوں کی لیکن اطمینان رکھو کہ میرے جو بندے ان آزمائشوں میں ثابت قدم رہیں گے ان کو اس کا صلہ بھی ان کی توقعات اور ان کے اندازوں اور قیاسوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ملے گا۔ آج وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
(اِنھیں اب اِن کے حال پر چھوڑو، اے پیغمبر، اور میرے بندوں سے) کہہ دو کہ میرے بندو جو ایمان لائے ہو، تم اپنے رب سے ڈرتے رہو (اور یاد رکھو کہ) جو لوگ اِس دنیا میں بھلائی اختیار کریں گے، اُن کے لیے (آخرت میں) بھلائی ہے۔ (تمھارے وطن کی زمین اگرتمھارے لیے تنگ کر دی گئی ہے تو مایوس نہ ہو)، خدا کی زمین وسیع ہے، (وہ اُس کی راہیں تمھارے لیے کھول دے گا اور اُس کے) جو (بندے اِن آزمایشوں میں) ثابت قدم رہیں گے، اُنھی کے لیے اُن کا صلہ بے حساب پورا کیا جائے گا۔
n/a
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہو اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرو ۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے ۔ اور خدا کی زمین وسیع ہے ، صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بےحساب دیا جائے گا ۔
یعنی صرف مان کر نہ رہ جاؤ بلکہ اس کے ساتھ تقویٰ بھی اختیار کرو جن چیزوں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان پر عمل کرو، جن سے روکا ہے ان سے بچو اور دنیا میں اللہ کے مواخذے سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔
دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی۔ ان کی دنیا بھی سدھرے گی اور آخرت بھی۔
یعنی اگر ایک شہر یا علاقہ یا ملک اللہ کی بندگی کرنے والوں کے لیے تنگ ہوگیا ہے تو دوسری جگہ چلے جاؤ جہاں یہ مشکلات نہ ہوں۔
یعنی ان لوگوں کو جو خدا پرستی اور نیکی کے راستے پر چلنے میں ہر طرح کے مصائب و شدائد برداشت کرلیں مگر راہ حق سے نہ ہٹیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دین و ایمان کی خاطر ہجرت کر کے جلا وطنی کی مصیبتیں برداشت کریں، اور وہ بھی جو ظلم کی سر زمین میں جم کر ہر آفت کا سامنا کرتے چلے جائیں۔
کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو ! اپنے رب سے ڈرتے رہو جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔
اس کی اطاعت کرکے، معاصی سے اجتناب کرکے اور عبادت و اطاعت کو اس کے لئے خالص کرکے۔
یہ تقویٰ کے فوائد ہیں۔ نیک بدلے سے مراد جنت اور اس کی ابدی نعمتیں ہیں۔ بعض اس کا مفہوم یہ کرتے ہیں، کہ جو نیکی کرتے ہیں ان کے لئے دنیا میں نیک بدلہ ہے ' یعنی اللہ انہیں دنیا میں صحت و عافیت، کامیابی اور غنیمت وغیرہ عطا فرماتا ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
امین احسن اصلاحی
یہ کتاب نہایت اہتمام سے خدائے عزیز و حکیم کی طرف سے اتاری گئی ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور منکرین کے لیے تہدید: لفظ ’تَنۡزِیْلُ‘ کی وضاحت اس کے محل میں ہم کر چکے ہیں کہ اس کے معنی صرف اتارنے کے نہیں بلکہ اہتمام کے ساتھ اتارنے کے ہیں۔ یہ تمہیدی آیت اپنے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی بھی رکھتی ہے اور قرآن کے مکذبین کے لیے تہدید و وعید بھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا پہلو یہ ہے کہ تم نے یہ کتاب نہ خود تصنیف کی ہے نہ خدا سے مانگ کے اپنے اوپر اتروائی ہے، بلکہ تمہارے رب نے خود تمہارے اوپر نہایت اہتمام کے ساتھ، درجہ بدرجہ اتاری ہے اور اتار رہا ہے، تو تم اطمینان رکھو کہ وہی اس کی صداقتیں ظاہر کرے گا اور وہی اس کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ جس خدا نے یہ کتاب اتاری ہے وہ کوئی بے بس ہستی نہیں بلکہ ’عَزِیْزٌ‘ یعنی غالب و مقتدر ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے، کوئی اس کے ارادے میں مزاحم نہیں ہو سکتا۔ لیکن ’عَزِیْزٌ‘ ہونے کے ساتھ وہ ’حکیم‘ بھی ہے۔ اس وجہ سے اگر اس راہ میں کچھ مزاحمتیں پیش آ رہی ہیں یا آئندہ آئیں تو ان کو خدا کی حکمت پر محمول کرو۔ کوئی بات خدا کے حکم کے بغیر نہیں ہوتی اور اس کا ہر کام حکمت و مصلحت پر مبنی ہوتا ہے۔
اس کے منکرین کے لیے تہدید کا پہلو یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ، نہایت اہتمام و تدریج کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کے لیے اتار رہا ہے۔ اس کا حق یہ ہے کہ لوگ اس نعمت کی قدر اور اس سے ہدایت و روشنی حاصل کریں۔ اگر انھوں نے اس کے برعکس اس کی تکذیب کی راہ اختیار کی تو یاد رکھیں کہ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں بلکہ خدائے عزیز و حکیم کا فرمان واجب الاذعان ہے۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ اگر اس کے باوجود وہ تکذیب کرنے والوں کو ڈھیل دے رہا ہے تو یہ محض اپنی حکمت کے تقاضے کے تحت دے رہا ہے۔