الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

امین احسن اصلاحی

شکر کا سزاوار حقیقی اللہ ہے۔ آسمانوں اور زمین کا خالق، فرشتوں کو دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے پیغام رساں بنانے والا۔ وہ خلق میں جو چاہے اضافہ کر دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

دین کی بنیاد توحید ہے اور توحید کی حقیقت اللہ ہی کی شکرگزاری ہے: یاد ہو گا، پچھلی سورہ کا آغاز بھی ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ ہی سے ہوا ہے۔ اس سے دونوں سورتوں کے مزاج کی مناسبت واضح ہوتی ہے۔ دین کی بنیاد توحید پر ہے اور توحید کی حقیقت اللہ ہی کی شکرگزاری ہے اس لیے کہ آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا اللہ ہی ہے اور بندوں کو جو ظاہری و باطنی نعمتیں بھی حاصل ہوئی ہیں سب اللہ ہی کا عطیہ ہیں۔

فرشتوں کی حیثیت قاصدوں کی ہے نہ کہ مقصود کی: ’جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُوْلِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‘۔ ’جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ‘ بدل ہے ’فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ‘ سے۔ یہ عام کے بعد خاص کا ذکر اس کی اہمیت کے پہلو سے فرمایا کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اسی نے فرشتوں کو بھی پیغام رسانی کے مقصد سے وجود بخشا ہے۔ فرشتوں کے خاص طور پر ذکر کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کی میتھالوجی (MYTHOLOGY) میں سب سے زیادہ اہمیت فرشتوں ہی کو حاصل تھی۔ وہ ان کو خدا کی چہیتی بیٹیوں کا درجہ دیتے اور اسی حیثیت سے ان کی عبادت کرتے تھے۔ ان کا تصور یہ تھا کہ اگر یہ خوش رہیں تو ان کے واسطے سے سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ اس عقیدے نے ان کے ہاں خدا کے وجود کو بالکل معطل کر دیا تھا۔ و ہ خدا کو رسمی طور پر مانتے تو تھے لیکن ان کی تمام شکرگزاری اور عبادت کے مرکز ان کے وہ اصنام ہی تھے جو انھوں نے اپنے زعم کے مطابق فرشتوں کے نام پر بنا رکھے تھے۔ یہاں ان کے اسی زعم باطل کی تردید کے لیے ارشاد ہوا کہ شکر کا سزاوار اللہ ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ اسی نے فرشتوں کو بھی پیغام بری کی ڈیوٹی پر مقرر فرمایا ہے۔ یعنی یہ فرشتے نہ آسمان و زمین کی تخلیق میں کسی نوع سے شریک ہیں اور نہ الوہیت میں ان کا کوئی حصہ ہے بلکہ یہ صرف خدا کے پیغام رساں ہیں جن کے ذریعے سے خدا اپنے رسولوں کو اپنے احکام سے آگاہ کرتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ان قاصدوں کو مقصود کا اور نامہ بروں کو محبوب کا درجہ دے کر انہی کی پرستش شروع کر رکھی ہے انھوں نے نہ خدا کی قدر پہچانی، نہ ان قاصدوں کی اور نہ اپنی ہی۔
فرشتوں کے درمیان فرق مراتب: ’اُوْلِیْٓ اَجْنِحَۃٍ‘ صفت ہے ’رُسُلًا‘ کی۔ ’اَجْنِحَۃ‘ جمع ہے ’جَنَاح‘ کی۔ ’جَنَاح‘ آدمیوں کے بازوؤں کے لیے بھی آتا ہے اور پرندوں کے پروں کے لیے بھی جن سے وہ اڑتے ہیں۔ یہاں یہ لفظ فرشتوں کے لیے استعمال ہوا ہے اس وجہ سے اس کی نوعیت متشابہات کی ہے یعنی ان کی اصل حقیقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ مقصود اس سے یہاں ہم کو صرف اس حقیقت کا علم دینا ہے کہ سب فرشتے ایک ہی درجے کے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی مصلحتوں کے تحت مختلف درجے کی قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ کسی کی قوت پرواز کم ہے کسی کی زیادہ۔ کچھ دو پروں کی قوت سے اڑتے ہیں، کچھ تین کی، کچھ چار کی۔
یہ پر فرشتوں کے ہیں اس وجہ سے ان کی قوت پرواز کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور یہ چار تک کا ذکر بھی تحدید کے مفہوم میں نہیں ہے۔ مقصود یہاں صرف ان کے مراتب و منازل کے تفاوت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ اس وجہ سے اگر اللہ تعالیٰ کے پاس ایسے فرشتے بھی ہوں جن کی قوت پرواز اس سے زیادہ ہو تو اس آیت سے اس کی نفی نہیں ہوتی۔ چنانچہ بعض حدیثوں میں حضرت جبریلؑ کے پروں کی تعداد اس سے زیادہ مذکور ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوت پرواز اور رسائی تمام فرشتوں سے زیادہ ہے۔ مقصود یہاں صرف یہ واضح کرنا ہے کہ جن نادانوں نے فرشتوں کو الوہیت کے زمرے میں داخل کر رکھا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بلند کا پتہ نہیں ہے۔ خدائی میں شریک ہونا تو درکنار اس کے قاصد اور سفیر ہونے میں بھی ان سب کا درجہ و مرتبہ ایک نہیں ہے بلکہ کسی کی رسائی کسی منزل تک ہے اور کسی کی پہنچ کسی مقام تک۔ اسی حقیقت کا اعتراف سورۂ صافات میں حضرت جبریل امینؑ کی زبان سے یوں منقول ہے:

وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ وَاِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ. (۱۶۴-۱۶۶)
’’اور ہم میں سے ہر ایک کے لیے بس ایک معین مقام ہے اور ہم ہر وقت صف بستہ رہنے والے ہیں اور ہم ہر وقت تسبیح کرتے رہنے والے ہیں۔‘‘

صفات اور صلاحیتوں میں کمی بیشی کرنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے: ’یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ جن صلاحیتوں اور قوتوں کی مخلوق چاہے پیدا کر سکتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس نے فرشتوں کو اگر اپنی پیغام بری کے لیے پیدا کیا تو یہ بھی اس کی قدرت و حکمت کا کرشمہ ہے۔ اگر ان کے درجات میں تفاوت رکھا تو یہ بھی اسی کی قدرت کی ایک شان ہے کہ اگر وہ خلق یا اس کی صلاحیتوں میں کوئی مزید اضافہ کرنا چاہے تو اس پر بھی وہ قادر ہے۔ صفات اور صلاحیتوں میں کمی بیشی کرنا اللہ کے اختیار میں ہے۔ اگر کسی کی صفات اور قوتوں میں اس نے افزونی عطا فرمائی ہے تو اس کے بھی معین حدود ہیں۔ اس کی بنا پر نہ کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ خدا کی خدائی میں شریک ہونے کا مدعی بن جائے نہ یہ جائز ہے کہ دوسرے اس کو خدائی میں شریک بنا دیں۔

جاوید احمد غامدی

شکر اللہ ہی کے لیے ہے، زمین اور آسمانوں کا خالق، فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا، جن کے دو دو ، تین تین، چار چار پر ہیں۔ وہ خلق میں جو چاہے، اضافہ کر دیتا ہے۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے

یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس خدا نے زمین و آسمان بنائے ہیں، فرشتوں کو بھی اُسی نے وجود بخشا ہے اور اِس کا مقصد اپنی مخلوقات تک پیغام رسانی ہے۔ لہٰذا زمین و آسمان اور اُن کے درمیان کی سب مخلوقات کی طرح وہ بھی خدا کی ایک مخلوق ہیں۔ وہ اِن کے بنانے میں شریک کس طرح ہو سکتے ہیں؟ اور اُن کا الوہیت میں کوئی حصہ کس طرح مانا جا سکتا ہے؟ جو لوگ اُن کو یہ حیثیت دے رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اُنھوں نے نہ خدا کی قدر پہچانی ہے، نہ اِن پیغام بروں کی اور نہ اپنی ہی۔

یعنی اپنی قوت پرواز کے لحاظ سے متفاوت ہیں، کچھ دو پروں کی قوت سے اڑتے ہیں، کچھ چار پروں کی اور کچھ اِس سے بھی زیادہ۔ یہ فرق خود بتا رہا ہے کہ اُنھیں کسی بنانے والے نے بنایا اور اُن کے مراتب و منازل متعین کیے ہیں، وہ آپ سے آپ نہیں بن گئے ہیں کہ سب اپنا مرتبہ یکساں بنا لیتے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... مقصود یہاں صرف یہ واضح کرناہے کہ جن نادانوں نے فرشتوں کو الوہیت کے زمرے میں داخل کر رکھا ہے، اُن کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بلند کا پتا نہیں ہے۔ خدائی میں شریک ہونا تو درکنار، اُس کے قاصد اور سفیر ہونے میں بھی اُن سب کا درجہ و مرتبہ ایک نہیں ہے، بلکہ کسی کی رسائی کسی منزل تک ہے اور کسی کی پہنچ کسی مقام تک۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۵۴)

یعنی جن صلاحیتوں کی مخلوق چاہے، پیدا کر سکتا ہے۔ چنانچہ وہ فرشتوں سے بھی زیادہ قوت و صلاحیت کی کوئی مخلوق اگر پیدا کر دے تو یہ اُس کی قدرت و حکمت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہو گا۔ اِس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہوں گے اور نہیں ہو سکتے کہ اُس کی خدائی میں وہ کسی نوعیت سے شریک ہو گئی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے۔ (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں، ان کی حیثیت اللہ وحدہ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اسی طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اڑے پھرتے ہیں۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں۔

ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جاسکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت یعنی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعت رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے۔

ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے (بخاری۔ مسلم۔ ترمذی) ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے، ان کے چھ سو بازو تھے افق پر چھائے ہوئے تھے، (ترمذی) ۔

جونا گڑھی

اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو (ابتداء) آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔

  فَاطِر،ُ کے معنی ہیں، پہلے پہل ایجاد کرنے والا، یہ اشارہ ہے اللہ کی قدرت کی طرف کہ اس نے آسمان و زمین پہلے پہل بغیر نمونے کے بنائے، تو اس کے لئے دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا کون سا مشکل ہے ؟۔

 مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ انبیاء کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں کسی کے دو کسی کے تین کسی کے چار پر ہیں جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔ 

 یعنی بعض فرشتوں کے اس سے بھی زیادہ پر ہیں، جیسے حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرائیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے (صحیح بخاری 

مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

امین احسن اصلاحی

اللہ لوگوں کے لیے جس رحمت کا فتح باب کرے تو اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو روک لے تو اس کے بعد کوئی اس کو کھولنے والا نہیں اور وہی حقیقی عزیز و حکیم ہے

اس بات کی دلیل کہ کیوں اللہ ہی سزاوار شکر ہے: یہ دلیل بیان ہوئی ہے اس بات کی کہ کیوں خدا ہی شکر کا سزاوار ہے۔ فرمایا کہ اللہ تمہارے لیے جس فضل و رحمت کا بھی دروازہ کھولنا چاہے وہ اس کو کھول سکتا ہے، کوئی اس کے فضل و رحمت کو روک نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر وہ کسی رحمت سے محروم کرنا چاہے تو کسی کی طاقت نہیں کہ وہ تمہیں اس سے بہرہ مند کر سکے۔ یہی مضمون سورۂ زمر میں یوں بیان ہوا ہے:

قُلْ أَفَرَأَیْْتُم مَّا تَدْعُوۡنَ مِن دُوۡنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کَاشِفَاتُ ضُرِّہِ أَوْ أَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ہَلْ ہُنَّ مُمْسِکَاتُ رَحْمَتِہٖ (الزمر: ۳۸)
’’اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو کبھی تم نے ان پر غور کیا ہے۔ اگر اللہ مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو کیا وہ اس کے دفع کرنے والے بن سکتے ہیں! یا اللہ مجھے کسی رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں!‘‘

مقصد یہ ہے کہ جب اصل حقیقت یہ ہے تو فرشتوں اور جنوں کو تم نافع و ضار سمجھ کر ان کی عبادت جو کرتے ہو یہ محض تمہاری حماقت ہے۔ نفع و ضرر تمام تر خدا ہی کے اختیار میں ہے اس وجہ سے شکر اور عبادت کا حق دار تنہا وہی ہے۔
آیت میں ایک ہی چیز (رحمت) کے لیے ضمیر پہلے مؤنث آئی، پھر اسی کے لیے مذکر آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک جگہ لفظ کا لحاظ ہے دوسری جگہ مفہوم کا۔ اس کی متعدد نظیریں اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہیں۔
’مِنْ بَعْدِہٖ‘ یعنی ’مِنْ بَعْدِ اِمْسَاکِہٖ‘۔ آگے اسی سورہ میں فرمایا ہے:

’وَلَئِنْ زَالَتَآ إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِہٖ‘ (۴۱)
(اگر وہ دونوں (آسمان و زمین) اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو خدا کے بعد کوئی ان کو تھامنے والا نہیں بن سکتا)۔

’وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘۔ یعنی اصل غالب و مقتدر وہی ہے وہ کھولتا اور وہی روکتا ہے اور یہ کھولنا اور باندھنا تمام تر اس کی حکمت کے تقاضوں کے تحت ہوتا ہے اس لیے کہ وہ حکیم بھی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اللہ جو رحمت بھی لوگوں کے لیے کھول دے تو اُسے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اور جس کو روک لے تو اُس کے روک لینے کے بعد اُسے پھر کوئی کھولنے والا نہیں ہے اور وہی عزیز و حکیم ہے

آیت میں ایک ہی چیز کے لیے ضمیر ایک جگہ مونث اور دوسری جگہ مذکر آئی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایک جگہ لفظ کا لحاظ کیا گیا ہے اور دوسری جگہ مفہوم کا۔ اِس کی متعدد نظیریں قرآن میں موجود ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں۔ وہ زبردست اور حکیم ہے۔

اس کا مقصود بھی مشرکین کی اس غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے کوئی انہیں روزگار دلانے والا اور کوئی ان کو اولاد عطا فرمانے والا اور کوئی ان کے بیماروں کو تندرستی بخشنے والا ہے۔ شرک کے یہ تمام تصورات بالکل بےبنیاد ہیں اور خالص حقیقت صرف یہ ہے کہ جس قسم کی رحمت بھی بندوں کو پہنچتی ہے محض اللہ عز وجل کے فضل سے پہنچتی ہے۔ کوئی دوسرا نہ اس کے عطا کرنے پر قادر ہے اور نہ روک دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید اور احادیث میں بکثرت مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان در در کی بھیک مانگنے اور ہر آستانے پر ہاتھ پھیلانے سے بچے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں ہے۔

زبردست ہے، یعنی سب پر غالب اور کامل اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے۔ جو فیصلہ بھی وہ کرتا ہے سراسر حکمت کی بنا پر کرتا ہے۔ کسی کو دیتا ہے تو اس لیے دیتا ہے کہ حکمت اسی کی مقتضی ہے۔ اور کسی کو نہیں دیتا تو اس لیے نہیں دیتا کہ اسے دینا حکمت کے خلاف ہے۔

جونا گڑھی

اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کردے تو اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے۔

 ان ہی نعمتوں میں سے ارسال رسل اور انزال کتب بھی ہے۔ یعنی ہر چیز کا دینے والا بھی ہے، اور واپس لینے والا یا روک لینے والا بھی وہی ہے۔ اس کے علاوہ نہ کوئی معطی ہے اور نہ مانع وقابض۔ 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّـهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

امین احسن اصلاحی

اے لوگو! تمہارے اوپر اللہ کا جو انعام ہے اس کا دھیان کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق بہم پہنچاتا ہو! اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو

اتمام حجت کے لیے ایک سوال: اوپر کی آیات میں جو مضمون اصولی طور پر بیان ہوا ہے اسی مضمون کو اتمام حجت کے انداز میں، لوگوں کو مخاطب کر کے، فرمایا کہ لوگو، اللہ کی جو نعمتیں تم کو حاصل ہیں ان میں سے ایک ایک کا دھیان کرو اور ان پر غور کرو۔ لفظ ’نعمت‘ یہاں جنس نعمت کے مفہوم میں ہے۔ غور کرنے کے لیے ان کے سامنے مسئلہ کو سوال کی صورت میں رکھا کہ یہ آسمان و زمین میں سے جو تمہیں روزی مل رہی ہے، آسمان سے پانی برستا اور زمین سے تمہاری معاش و معیشت کی گوناگوں چیزیں پیدا ہوتی ہیں، کیا تم کہہ سکتے ہو کہ خدا کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں یہ چیزیں بخشتا ہے۔

سوال کا جواب: ’لَا اِلٰہَ إِلَّا ہُوَ‘۔ ان کی طرف سے کسی جواب کا انتظار کیے بغیر خود اس کا جواب دیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ خود جواب دینے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سوال کا صحیح جواب اس کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا، دوسری یہ کہ مشرکین عرب، جو یہاں مخاطب ہیں، اس سوال کا یہی جواب، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے، دیتے بھی تھے۔ فرمایا کہ جب اصل حقیقت یہ ہے اور تم کو بھی اس سے انکار نہیں ہے تو پھر کہاں تمہاری عقل الٹ گئی ہے کہ دوسری چیزوں کو تم معبود بنائے بیٹھے ہو!

جاوید احمد غامدی

(اِس لیے) لوگو، اللہ کے جو احسانات تمھارے اوپر ہیں، اُن کا دھیان کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمھیں زمین و آسمان سے روزی دیتا ہے؟ (نہیں)، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ پھر کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو

یعنی جب وہی خالق و رازق ہے تو اُس کے سوا معبود کوئی اور کیوں ہونے لگا؟ ہرگز نہیں، وہی معبود حقیقی ہے ۔ پیچھے جو سوال کیا ہے، اُس کے جواب کا انتظار کیے بغیر یہ بات اِس لیے فرما دی ہے کہ مخاطب مشرکین ہیں اور اُنھیں اِس بات سے انکار نہیں تھا کہ زمین و آسمان کو بنانے والا اللہ ہے اور وہی روزی رساں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو ؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو ؟

یعنی احسان فراموش نہ بنو۔ نمک حرامی نہ اختیار کرو۔ اس حقیقت کو نہ بھول جاؤ کہ تمہیں جو کچھ بھی حاصل ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ فقرہ اس بات پر متنبہ کر رہا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے سوا کسی کی بندگی و پرستش کرتا ہے، یا کسی نعمت کو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کی عطا بخشش سمجھتا ہے، یا کسی نعمت کے ملنے پر اللہ کے سوا کسی اور کا شکر بجا لاتا ہے، یا کوئی نعمت مانگنے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور سے دعا کرتا ہے، وہ بہت بڑا احسان فراموش ہے۔

پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے کلام کا موقع و محل خود بھر رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ نقشہ چشم تصور کے سامنے لایئے کہ تقریر مشرکین کے سامنے ہو رہی ہے۔ مقرر حاضرین سے پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور جو زمین و آسمان سے تمہاری رزق رسانی کا سامان کر رہا ہو ؟ یہ سوال اٹھا کر مقرر چند لمحے جواب کا انتظار کرتا ہے۔ مگر دیکھتا ہے کہ سارا مجمع خاموش ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق و رازق ہے۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حاضرین کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ خالق و رازق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ تب مقرر کہتا ہے کہ معبود بھی پھر اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق و رازق تو ہو صرف اللہ، مگر معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔

جونا گڑھی

لوگو ! تم پر جو انعام اللہ نے کئے ہیں انہیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے ؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے جاتے ہو

 یعنی اس بیان اور وضاحت کے بعد بھی تم غیر اللہ کی عبات کرتے ہو ؟۔ مطلب ہے کہ تمہارے اندر توحید اور آخرت کا انکار کہاں سے آگیا، جب کہ تم مانتے ہو کہ تمہارا خالق اور رازق اللہ ہے (فتح القدیر) 

وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

امین احسن اصلاحی

​اور اگر یہ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو کچھ غم نہ کرو، تم سے پہلے بھی کتنے رسولوں کی تکذیب کی گئی ہے اور اللہ ہی کے سامنے سارے امور پیش کیے جائیں گے

آنحضرت صلعم کو تسلی: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر ایسے سرپھرے لوگ تمہاری تکذیب کر رہے ہیں تو یہ کوئی تعجب یا غم کی بات نہیں ہے، تم سے پہلے جو رسول آئے اس طرح کے لوگوں نے ان کی بھی تکذیب کی۔ مطلب یہ ہے کہ اس میں تمہاری کسی تقصیر کو دخل نہیں ہے بلکہ تمام تر دخل اس میں ان مکذبین کی مخصوص ذہنیت کو ہے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ یہ اپنی پیش رو قوموں کی روش پر چل رہے ہیں تو اس روش کا جو انجام ان کے سامنے آیا وہی ان کے سامنے بھی آئے گا۔

’وَإِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الأمُوْرُ‘۔ سارے امور خدا کی طرف لوٹتے ہیں اور اسی کی طرف لوٹیں گے۔ یعنی خدا اس معاملہ میں غیر جانبدار یا غیر متعلق نہیں ہے بلکہ ہر چیز اس کے سامنے آ رہی ہے اور آئے گی اور آخری فیصلہ اسی کا ہو گا تو اسی کے بھروسہ پر اپنے کام میں لگے رہو اور ان کے معاملے کو اللہ پر چھوڑو۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو مولیٰ و مرجع بنائے بیٹھے ہیں ایک دن اپنی اس طمع خام کا انجام خود دیکھ لیں گے۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کے باوجود، اے پیغمبر)، اگر یہ تمھیں جھٹلاتے ہیں (تو کچھ غم نہ کرو)، اِس لیے کہ تم سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کو (اِسی طرح) جھٹلا دیا گیا تھا۔ (خدااِنھیں دیکھ رہا ہے) اور یہ سارے معاملات بالآخر خدا ہی کے سامنے پیش کیے جائیں گے

n/a

ابو الاعلی مودودی

اب اگر (اے نبی) یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں (تو یہ کوئی نئی بات نہیں) ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، اور سارے معاملات آخرکار اللہ ہی کی طرف رجوع ہونے والے ہیں۔

یعنی تمہاری اس بات کو نہیں مانتے کہ اللہ کے سوا عبادت کا مستحق کوئی نہیں ہے، اور تم پر یہ الزام رکھتے ہیں کہ تم نبوت کا ایک جھوٹا دعویٰ لے کر کھڑے ہوگئے ہو۔

یعنی فیصلہ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ جسے وہ جھوٹا کہہ دیں وہ حقیقت میں جھوٹا ہوجائے فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ آخر کار بتا دے گا کہ جھوٹا کون تھا اور جو حقیقت میں جھوٹے ہیں انہیں ان کا انجام بھی دکھا دے گا۔

جونا گڑھی

اور اگر یہ آپ کو جھٹلائیں تو آپ سے پہلے کے تمام رسول بھی جھٹلائے جا چکے ہیں۔ تمام کام اللہ ہی طرف لوٹائے جائیں گے ۔

 اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا کر کہاں جائیں گے ؟ بالآخر تمام معاملات کا فیصلہ تو ہمیں نے کرنا ہے، اس لئے اگر یہ باز نہ آئے، تو ان کو بھی ہلاک کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں۔ 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ

امین احسن اصلاحی

اے لوگو! اللہ کا وعدہ شدنی ہے تو تم کو یہ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ اللہ کے باب میں تم کو فریب کار شیطان فریب میں رکھے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے بعد مخالفین کو دھمکی دی کہ تم کو پچھلی قوموں کے انجام سے جو ڈرایا جا رہا ہے اس کو ہوائی بات نہ سمجھو۔ اللہ کی یہ وعید شدنی ہے۔ اس وقت تمہیں دنیا کی زندگی کی جو رفاہیت حاصل ہے وہ تمہیں دھوکے میں نہ رکھے۔ تم اپنی موجودہ رفاہیت کو اپنے رویہ کی صحت کی دلیل گمان کرتے ہو اور پیغمبرؐ کی وعید کا مذاق اڑاتے ہو کہ بھلا تم پر عذاب کیوں اور کدھر سے آ جائے گا لیکن جب اللہ کے وعدے کے ظہور کا وقت آئے گا تو تم دیکھ لو گے کہ جس چیز سے تمہیں ڈرایا جا رہا تھا وہ بالکل تمہارے سامنے ہی موجود تھی۔

سب سے بڑے فتنہ سے آگاہی: ’وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ‘ ’غرور‘ کے معنی فریب کار کے ہیں اور یہاں اس سے مراد شیطان ہے اس لیے کہ سب سے بڑا فریب کار شیطان ہی ہے۔ فرمایا کہ خدا کے باب میں فریب کار شیطان تمہیں دھوکے میں نہ رکھے۔ خدا رحیم و کریم بھی ہے اور بڑا ہی منتقم و قہار بھی۔ تمہارے تمام طغیان و فساد کے باوجود اس نے تمہیں جو ڈھیل دے رکھی ہے تو اس سے اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم اس کی گرفت سے باہر ہو یا تمہارے مزعومہ شرکاء نے تم کو بچا رکھا ہے یا وہ تم کو اس کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ اللہ کا نہ کوئی شریک ہے نہ کوئی اس کی پکڑ سے بچانے والا بن سکتا۔ شیطان نے تم کو اس فریب نفس میں اس لیے مبتلا کیا ہے کہ اس طرح وہ تم کو سیدھے جہنم میں لے جا اتارے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ خدا کی صفات کے باب میں گمراہی دراصل تمام گمراہیوں کی جڑ ہے اس وجہ سے شیطان یہیں سے انسان پر گھات لگاتا ہے۔ اسی خطرے سے آیت ’وَمَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ‘ (الانفطار: ۶) میں آگاہ فرمایا گیا ہے۔

جاوید احمد غامدی

لوگو، اللہ کا وعدہ شدنی ہے۔ سو دنیا کی زندگی تمھیں ہرگز کسی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز اللہ کے بارے میں تمھیں کبھی دھوکا دینے پائے

یعنی شیطان۔ آگے اِس کی وضاحت ہو گئی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

لوگو، اللہ کا وعدہ یقینا برحق ہے، لہذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے۔

وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے جس کی طرف اوپر کے اس فقرے میں اشارہ کیا گیا تھا کہ تمام معاملات آخر کار اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔

یعنی اس دھوکے میں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے، اس کے بعد کوئی آخرت نہیں ہے جس میں اعمال کا حساب ہونے والا ہو۔ یا اس دھوکے میں کہ اگر کوئی آخرت ہے بھی تو جو اس دنیا میں مزے کر رہا ہے وہ وہاں بھی مزے کرے گا۔

” بڑے دھوکے باز ” سے مراد یہاں شیطان ہے، جیسا کہ آگے کا فقرہ بتا رہا ہے۔ اور ” اللہ کے بارے میں ” دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو تو یہ باور کرائے کہ خدا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو اس غلط فہمی میں ڈالے کہ خدا ایک دفعہ دنیا کو حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے، اب اسے اپنی بنائی ہوئی اس کائنات سے عملاً کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ چکر دے کہ خدا کائنات کا انتظام تو بیشک کر رہا ہے، مگر اس نے انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کوئی ذمہ نہیں لیا ہے، اس لیے یہ وحی و رسالت محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلائے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے، تم خواہ کتنے ہی گناہ کرو، وہ بخش دے گا، اور اس کے کچھ پیارے ایسے ہیں کہ ان کا دامن تھام لو تو بیڑا پار ہے۔

جونا گڑھی

لوگو ! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تمہیں زندگانی دنیا دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز شیطان غفلت میں ڈالے۔

 کہ قیامت برپا ہوگی اور نیک و بد کو ان کے عملوں کی جزا و سزا دی جائے گی۔ 

 یعنی آخرت کی ان نعمتوں سے غافل نہ کردے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اور رسولوں کے پیروکاروں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔ پس اس دنیا کی عارضی لذتوں میں کھو کر آخرت کی دائمی راحتوں کو نظر انداز نہ کرو 

إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ

امین احسن اصلاحی

بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم اس کو دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنی پارٹی کو صرف جہنم کا ایندھن بنانے کے لیے بلاتا ہے

یعنی شیطان تمہارا دشمن اور کھلا ہوا دشمن ہے تو اپنے دشمن کو دشمن ہی سمجھو اور اس کی چالوں سے بچ کے رہو۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ وہ تو تمہارا دشمن ہے لیکن تم نے اس کو اپنا مرشد سمجھ کر اپنی باگ اس کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے! اگر اپنی باگ اس کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے تو اس کا انجام سن لو کہ اس کی تمام سرگرمیوں کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اس کی پارٹی میں شامل ہو جائیں وہ ان سب کو جہنم کے گھاٹ پر لے جا اتارے۔

جاوید احمد غامدی

حقیقت یہ ہے کہ شیطان تمھارا دشمن ہے، اِس لیے تم بھی اُسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ اپنے گروہ کو اِسی لیے (اپنی طرف) بلاتا ہے کہ وہ دوزخ والوں میں سے ہو جائیں

n/a

ابو الاعلی مودودی

درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیروؤں کو اپنی راہ پر بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہوجائیں۔

n/a

جونا گڑھی

جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہوجائیں۔

 یعنی اس سے سخت عداوت رکھو، اس کے فریب اور ہتھکنڈوں سے بچو، جس طرح دشمن کے بچاؤ کے لئے انسان کرتا ہے۔ 

الَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ

امین احسن اصلاحی

جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے

وعدۂ شدنی کی وضاحت: یہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدۂ شدنی کی وضاحت ہے جس کا ذکر اوپر آیت ۵ میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے باب میں کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ دنیا نیکی اور بدی، خیر اور شر میں کسی امتیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے گی۔ جنھوں نے یہ گمان کر رکھا ہے ان کو شیطان نے خدا کی صفات کے باب میں سخت دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ ایک ایسا دن لازماً آنے والا ہے جس دن وہ لوگ عذاب شدید سے دوچار ہوں گے جنھوں نے کفر کیا ہو گا اور جن لوگوں نے ایمان و عمل صالح کی زندگی گزاری ہو گی وہ مغفرت اور اجر عظیم کے حق دار ٹھہریں گے۔

جاوید احمد غامدی

(اِس لیے متنبہ ہو جاؤ)، جنھوں نے کفر کیا ہے، اُن کے لیے وہاں سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

جو لوگ کفر کریں گے ان کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کردیں گے۔

یعنی اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور جو نیک عمل انہوں نے کیے ہوں گے ان کا محض برابر سرابر ہی اجر دے کر ہی نہ رہ جائے گا بلکہ انہیں بڑا اجر عطا فرمائے گا۔

جونا گڑھی

جو لوگ کافر ہوئے ان کے لئے سخت سزا ہے اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے بخشش ہے اور (بہت) بڑا اجر ۔

 یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے دیگر مقامات کی طرح ایمان کے ساتھ، عمل صالح بیان کر کے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے تاکہ اہل ایمان عمل صالح سے کسی وقت بھی غفلت نہ برتیں، کہ مغفرت اور اجر کبیر کا وعدہ اس ایمان پر ہی ہے جس کے ساتھ عمل صالح ہوگا۔ 

أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّـهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

امین احسن اصلاحی

کیا وہ جس کی نگاہوں میں اس کا برا عمل کھبا دیا گیا ہے، پس وہ اس کو اچھا خیال کرنے لگا ہے (ایمان لانے والا بن سکتا ہے!) پس اللہ ہی جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تو ان کے غم میں تم اپنے کو ہلکان نہ کرو، اللہ باخبر ہے ان کاموں سے جو وہ کر رہے ہیں

جو لوگ خدا کے قانون کی زد میں آ چکے وہ ایمان نہیں لائیں گے: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں تو اس میں تمہاری کسی تقصیر کو دخل نہیں ہے بلکہ یہ قانون الٰہی کی زد میں آئے ہوئے لوگ ہیں تو ان کے غم میں اپنے کو ہلکان نہ کرو۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے تو جب وہ باخبر ہے تو ان کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔

’أَفَمَنْ زُیِّنَ لَہُ سُوءُ عَمَلِہِ فَرَآہُ حَسَنًا‘ کے بعد جواب بربنائے قرینہ محذوف ہے۔ اگر اس حذف کو کھول دیجیے تو پوری بات یوں ہو گی۔ کیا وہ جس کی نگاہوں میں اس کی بدعملی کھبا دی گئی ہے اور وہ اپنی بدی کو نیکی سمجھنے لگا ہے، تم اس کو ہدایت دینے والے بن سکتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا ہدایت پانا سنت الٰہی کے خلاف ہے تو ایسے لوگوں کی فکر میں اپنے کو گھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔ سورۂ زمر کی آیت ۱۹ میں یہی بات یوں ارشاد ہوئی ہے:

أَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْْہِ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ أَفَأَنتَ تُنقِذُ مَنۡ فِیْ النَّارِ
’’کیا وہ جس پر عذاب کی بات پوری ہو چکی ہے! کیا تم اس کو بچانے والے بن سکو گے جو دوزخ میں پڑ چکا۔‘‘

اس ٹکڑے سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ کسی برائی کے ارتکاب کی ایک حالت تو وہ ہے کہ آدمی اس کا ارتکاب کرتا ہے لیکن اس کے اندر اس کے برائی ہونے کا احساس زندہ رہتا ہے، دوسری حالت یہ ہے کہ اس کی برائی اس کی نگاہوں میں اس طرح کھبا دی جاتی ہے کہ وہ اسی کو ہنر، اسی کو فیشن، اسی کو ترقی کا زینہ اور اسی کو تہذیب و تعلیم کا مقتضیٰ سمجھنے لگتا ہے۔ پہلی حالت میں یہ توقع رہتی ہے کہ اس کو اگر تذکیر و تنبیہ کی جائے تو وہ سنبھل جائے گا لیکن دوسری حالت دل کے مسخ اور عقل کے ماؤف ہو جانے کی علامت ہے جس کو قرآن نے ’ختم قلوب‘ یا ’رین‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ جو اس بیماری میں مبتلا ہوا، وہ خدا کے قانون کی زد میں آ چکا، اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
’فَإِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَشَآءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَشَآءُ‘۔ یہ اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے اور جس کی وضاحت ہم جگہ جگہ کرتے آ ر ہے ہیں۔ آگے اسی سورہ میں اس کی مزید وضاحت آ رہی ہے۔
’فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْْہِمْ حَسَرٰتٍ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ‘۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے غم میں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے خود عقلی و روحانی خود کشی کی ہے، اگر یہ ایمان نہیں لا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری دعوت میں کوئی کسر ہے بلکہ ان کے دلوں پر مہر ہو چکی ہے تو ان کا غم کھانے کے بجائے ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کرو۔ وہ ان کی ساری کارستانیاں دیکھ رہا ہے، ان کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کے یہ سزاوار ہوں گے۔
’حَسَرٰتٍ‘ حال بھی ہو سکتا ہے اور مفعول لہٗ بھی۔ جس طرح ’یٰحَسْرَۃَ عَلَی الْعِبَادِ‘ میں ہے۔ اس کا جمع کی صورت میں آنا فرط غم کے اظہار کے لیے ہے۔

جاوید احمد غامدی

(یہ نہیں مان رہے تو اِس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے، اے پیغمبر)۔ پھر کیا وہ جس کی نگاہوں میں اُس کا برا عمل خوش نما بنا دیا گیا اور وہ اُسی کو اچھا سمجھنے لگا ہے، (اُسے تم ہدایت دے سکتے ہو)؟اِس لیے کہ اللہ ہی (اپنے قانون کے مطابق) جسے چاہتا ہے، گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ سو اِن پر افسوس کر کر کے تم اپنے کو ہلکان نہ کرو،اِس لیے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اُس سے خوب واقف ہے

مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کے لوگوں کا ہدایت پانا سنت الٰہی کے خلاف ہے۔ اللہ کسی ایسے شخص کو کبھی ہدایت نہیں دیتا جو ہر ناخوب کو خوب بنا کر دیکھنے کو اپنا ہنر بنا لے اور خیر و شر کے اُن بنیادی تصورات ہی سے بے گانہ ہو جائے جو خدا نے انسان کی فطرت میں ودیعت فرمائے ہیں۔

اہل نحو مصدر کے صلے کو اُس پر متقدم نہیں مانتے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں ’عَلَیْہِمْ‘ کو ’حَسَرٰت‘ سے متعلق مانا اور فرمایا ہے کہ اِس کا جمع کی صورت میں آنا فرط غم کے اظہار کے لیے ہے۔ آیت کے مدعا پر تدبر کیا جائے تو اُن کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے بھی ترجمہ اُسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

(بھلا کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا) جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنادیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔ پس (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ گھلے۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

اوپر کے دو پیرا گراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے۔ اب اس پیرا گراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔

یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے۔ ایسا شخص سمجھانے سے بھی درست ہوسکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں۔ ذہن نہیں بگڑا۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے، جو صلاح وتقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کردیتا ہے۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کرلیے ہوں۔

پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ ” اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے ” صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کردیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کرلو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو۔

اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے۔ یہ لوگ درحقیقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مدمقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑچکی ہے اور ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے۔

دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا تو وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود دراصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے۔

اس فقرے میں آپ سے آپ یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا۔

جونا گڑھی

کیا پس وہ شخص جس کے لئے اس کے برے اعمال مزین کردیئے گئے پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے (کیا وہ ہدایت یافتہ شخص جیسا ہے) ، (یقین مانو) کہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے۔ پس آپ ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالیں جو کچھ کر رہے ہیں اس سے یقیناً اللہ تعالیٰ بخوبی واقف ہے۔

 جس طرح کفار و بدکار ہیں، وہ کفر و شرک فسق اور بدکاری کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ اچھا کر رہے ہیں۔ پس ایسا شخص، جس کو اللہ نے گمراہ کردیا ہو، اس کے بچاؤ کے لئے آپ کے پاس کوئی حیلہ ہے ؟ یا یہ اس شخص کے برابر ہے جسے اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے ؟ جواب نفی میں ہی ہے، نہیں یقینا نہیں۔ 

 اللہ تعالیٰ اپنے عدل کی رو سے اپنی سنت کے مطابق اس کو گمراہ کرتا ہے جو مسلسل اپنے کرتوتوں سے اپنے کو اس کا مستحق ٹھہرا چکتا ہے اور ہدایت اپنے فضل وکرم سے اسے دیتا ہے جو اس کا طالب ہوتا ہے۔

 کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت پر اور علم تام پر مبنی ہے اس لیے کسی کی گمراہی پر اتنا افسوس نہ کریں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں۔

 یعنی اس سے کوئی قول یا فعل مخفی نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ان کے ساتھ معاملہ علیم وخبیر اور ایک حکیم کی طرح ہے عام بادشاہوں کی طرح کا نہیں ہے جو اپنے اختیارات کا الل ٹپ استعمال کرتے ہیں، کبھی سلام کرنے سے بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور کبھی دشنام پر ہی خلعتوں سے نواز دیتے ہیں۔ 

وَاللَّـهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ

امین احسن اصلاحی

اور اللہ ہی ہے جو بھیجتا ہے ہواؤں کو پس وہ ابھارتی ہیں بادلوں کو پھر ہم ان کو ہانکتے ہیں کسی خشک زمین کی طرف پس ہم اس سے اس زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد ازسرنو زندگی بخش دیتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کا ازسرنو زندہ ہو کر اٹھنا ہے

یہ دنیا اپنے وجود میں ایک تعلیم گاہ ہے: اوپر آیت ۵ میں جس وعدۂ شدنی کی یاددہانی فرمائی ہے کائنات کے مشاہدات سے یہ اس کی دلیل پیش کی ہے کہ اس کو مستبعد نہ سمجھو۔ مرنے کے بعد لوگوں کو قبروں سے اٹھا کھڑا کرنا اللہ کے لیے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ تم اس دنیا میں برابر دیکھتے ہو کہ زمین بالکل خشک پڑی ہوتی ہے، اس میں سبزہ اور روئیدگی کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہوتا کہ اللہ کسی طرف سے ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ وہ تمھارے دیکھتے دیکھتے بادلوں کو ابھارتی اور جمع کرتی ہیں۔ پھر ہم ان کو اس مردہ زمین کی طرف ہانک کے لے جاتے اور اس کو سیراب کر دیتے ہیں جس سے اس کے ہرگوشے میں ازسرنو زندگی نمودار ہو جاتی ہے۔ فرمایا کہ ’کَذٰلِکَ النُّشُوْرُ‘ اسی طرح قیامت کے دن لوگوں کا ازسرنو جی کر اٹھنا ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ مرنے اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کا مشاہدہ تو تم کو اس دنیا میں اللہ برابر کرا رہا ہے تو تم قیامت کو ناممکن کیوں خیال کیے بیٹھے ہو! ۔۔۔ یہ حقیقت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم واضح کرتے آ رہے ہیں کہ یہ دنیا اپنے وجود میں ان تمام حقائق کی تعلیم کے لیے ایک بہترین تعلیم گاہ ہے جن کی قرآن تعلیم دے رہا ہے۔ اگر انسان عقل و بصیرت سے کام لے تو قرآن کے ہر دعوے کی دلیل اس کو اپنے دہنے بائیں سے مل سکتی ہے۔

عربیت کا ایک اسلوب: اس آیت میں اسلوب کلام بھی قابل توجہ ہے۔ پہلے ماضی کا صیغہ ’اَرْسَلَ‘ استعمال ہوا ہے۔ پھر مضارع ’تُثِیْرُ‘ آ گیا۔ اس کے بعد ’سُقْنَا‘ اور ’اَحْیَیْنَا‘ متکلم کے صیغے آ گئے۔ اسلوب کا یہ تنوع اپنے اندر گوناگوں خوبیاں رکھتا ہے جن کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ ماضی تو صرف بیان واقعہ کے لیے آتا ہے۔ مضارع میں تصویر حال کا پہلو بھی ہوتا ہے اور متکلم کا صیغہ التفات و عنایات خاص پر دلیل ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

(لوگو)، اللہ ہی ہے جس نے ہواؤں کو بھیجا، پھر وہ بادلوں کو ابھارتی ہیں، پھر ہم نے اُنھیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیا، پھر اُن کے پانی سے اُسی زمین کو ، اِس کے بعد کہ وہ مری پڑی تھی، زندہ کر دیا۔ لوگوں کا ازسرنو زندہ ہو کر اٹھنا بھی اِسی طرح ہو گا

اوپر جس وعدۂ شدنی کا ذکر ہے، یہ اُس کی دلیل بیان فرمائی ہے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو اسلوب کلام بھی قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...پہلے ماضی کا صیغہ ’اَرْسَلَ‘ استعمال ہوا ہے۔ پھر مضارع ’تُثِیْرُ‘ آ گیا۔ اِس کے بعد ’سُقْنَا‘ اور ’اَحْیَیْنَا‘ متکلم کے صیغے آ گئے۔ اسلوب کا یہ تنوع اپنے اندر گوناگوں خوبیاں رکھتاہے جن کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ ماضی تو صرف بیان واقعہ کے لیے آتا ہے، مضارع میں تصویر حال کا پہلو بھی ہوتا ہے اور متکلم کا صیغہ التفات و عنایات خاص پر دلیل ہوتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۶/ ۳۶۳)

ابو الاعلی مودودی

وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر ہم اسے ایک اجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور ایسی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی۔ مرے ہوئے انسانوں کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔

یعنی یہ نادان لوگ آخرت کو بعید از امکان سمجھتے ہیں اور اسی لیے اپنی جگہ اس خیال میں مگن ہیں کہ دنیا میں یہ خواہ کچھ کرتے رہیں بہرحال وہ وقت کبھی آنا نہیں ہے جب انہیں جواب دہی کے لیے خدا کے حضور حاضر ہونا پڑے گا۔ لیکن یہ محض ایک خیال خام ہے جس میں یہ مبتلا ہیں۔ قیامت کے روز تمام اگلے پچھلے مرے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر بالکل اسی طرح یکایک جی اٹھیں گے جس طرح ایک بارش ہوتے ہی سونی پڑی ہوئی زمین یکایک لہلہا اٹھتی ہے اور مدتوں کی مری ہوئی جڑیں سرسبز و شاداب ہو کر زمین کی تہوں میں سے سر نکالنا شروع کردیتی ہیں۔

جونا گڑھی

اور اللہ ہی ہوائیں چلاتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ہم بادلوں کو خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں اور اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتے ہیں۔ اس طرح دوبارہ جی اٹھنا (بھی) ہے۔

 یعنی جس طرح بادلوں سے بارش برسا کر خشک زمین کو ہم شاداب کردیتے ہیں اسی طریقے سے قیامت والے دن تمام مردہ انسانوں کو بھی ہم زندہ کردیں گے، حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا سارا جسم بوسیدہ ہوجاتا ہے صرف ریڑھ کی ہڈی کا ایک چھوٹا سا حصہ محفوظ رہتا ہے اسی سے اس کی دوبارہ تخلیق وترکیب ہوگی۔ 

مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَـٰئِكَ هُوَ يَبُورُ

امین احسن اصلاحی

جو عزت کا طالب ہو تو یاد رکھے کہ عزت تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے۔ اس کی طرف صعود کرتا ہے پاکیزہ کلمہ اور عمل صالح اس کلمہ کو سہارا دیتا ہے۔ اور جو لوگ بری چالیں چل رہے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کی چال نابود ہو کے رہے گی

خدا کے تقرب کا واحد ذریعہ ایمان اور عمل صالح ہے: مطلب یہ ہے کہ قیامت تو بہرحال شدنی ہے اور ہر ایک کو اللہ کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ رہا یہ سوال کہ خدا کے ہاں کن کو عزت و سرخروئی حاصل ہو گی اور کن کو ذلت و نامرادی سے دوچار ہونا پڑے گا تو جن کو اس سوال کا صحیح جواب مطلوب ہے وہ یاد رکھیں کہ عزت تمام تر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اس وجہ سے جس کو بھی یہ حاصل ہو گی اسی کے تعلق اور اسی کی عزت بخشی سے حاصل ہو گی۔

’اِلَیْْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ‘ یہ اس عزت کے حاصل کرنے کا طریقہ ارشاد ہوا کہ بندوں کی طرف سے اللہ کی طرف صعود کرنے والی چیز ’کلمۂ طیّب‘ یعنی کلمۂ ایمان ہے۔ اس کے سوا دوسری کوئی چیز نہیں جو خدا سے توسل اور قربت کا ذریعہ بن سکے۔ اس کلمۂ ایمان کو جو چیز سہارا دیتی اور رفعت بخشتی ہے وہ عمل صالح ہے۔ عمل صالح کے بغیر کلمۂ ایمان مرجھا کے رہ جاتا ہے۔ گویا کلمۂ ایمان کی مثال انگور کی بیل کی ہوئی جو ہے تو بجائے خود نہایت ثمربار لیکن اس کی شادابی و ثمر باری کا تمام تر انحصار اس امر پر ہے کہ اس کو کوئی سہارا ملے جس پر وہ چڑھے، پھیلے اور پھولے پھلے۔ یہ سہارا اس کو عمل صالح سے حاصل ہوتا ہے۔ عمل صالح ہی اس کو پروان چڑھاتا اور مثمر و بارآور بناتا ہے۔ ورنہ جس طرح انگور کی بیل سہارے کے بغیر سکڑ کے رہ جاتی ہے اسی طرح ایمان بھی عمل صالح کے بدون مرجھا کے رہ جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس نے ’اَلْکَلِمُ الطَّیِّبُ‘ سے کلمۂ ایمان ہی مراد لیا ہے اور یہاں اس کے پہلو بہ پہلو عمل صالح کا ذکر خود اس بات کی شہادت ہے کہ اس سے کلمۂ ایمان ہی مراد ہے۔ لفظ ’طَیّب‘ اس کلمہ کی زرخیزی و ثمر باری کی طرف اشارہ کر رہا ہے اس لیے کہ فلسفۂ دین کے نقطۂ نظر سے یہی کلمہ تمام علم و حکمت کی جڑ ہے۔ جس نے اس کو پا لیا اس نے تمام علم و حکمت کے خزانے کی کلید پالی اور یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ ایمان اور عمل صالح دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح ایمان کے بغیر عمل کی کوئی بنیاد نہیں اسی طرح عمل کے بغیر ایمان ایک بے جان شے ہے۔ اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے سورۂ ابراہیم کی آیات ۲۴-۲۶ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں ایک نظر اس پر ڈال لیجیے۔
یہ بات یہاں مشرکین پر یہ حقیقت واضح کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے کہ تم اپنے معبود ملائکہ کو خدا کے ہاں عزت و سرفرازی کا واسطہ سمجھے بیٹھے ہو حالانکہ عزت صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا واحد ذریعہ وہ ایمان ہے جس کے ساتھ عمل صالح کی تائید موجود ہو۔ قرآن میں مشرکین کی نسبت یہ بات جگہ جگہ نقل ہوئی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو خدا کے ہاں عزت و سرخروئی کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ مثلاً

مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی (الزمر: ۳)
’’ہم ان کو صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہم کو خدا سے قریب تر کر دیں۔‘‘

دوسری جگہ ہے:

وَاتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ آلِہَۃً لِّیَکُوۡنُوۡا لَہُمْ عِزًّا (مریم: ۸۱)
’’اور انھوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے عزت کا ذریعہ بن سکیں۔‘‘

ان کے اسی واہمہ پر یہاں ضرب لگائی ہے کہ اس جنت الحمقاء سے نکلو اور خدا کے ہاں عزت کے طالب ہو تو اس کے لیے ایمان و عمل صالح کی راہ اختیار کرو۔
’وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوۡنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ‘۔ یعنی جو لوگ اس حقیقت کا مواجہہ کرنے کے بجائے اپنے پندار کے تحفظ اور اللہ کے دین اور اس کے رسول کو زک پہنچانے کے لیے طرح طرح کی بری چالیں چل رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس طرح ان کو عزت نہیں حاصل ہو گی بلکہ وہ اپنے لیے ایک سخت عذاب کا سامان کر رہے ہیں۔
اس ٹکڑے میں ’سَیِّاٰتٍ‘ کا نصب کچھ بیگانہ سا محسوس ہوتا ہے اس لیے کہ فعل ’مکر‘ اس طرح متعدی نہیں ہوتا۔ صاحب کشاف نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ ’سَیِّاٰتٍ‘ یہاں مصدر کی صفت ہے۔ یعنی ’یمکرون المکرات السیاٰت‘۔ یہ توجیہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ آگے آیت ۴۳ میں اس کی نظیر موجود ہے۔
’وَمَکْرُ أُولٰئِکَ ہُوَ یَبُوْرُ‘ یعنی جو لوگ اس فریب نفس میں خود مبتلا اور دوسروں کو بھی مبتلا رکھنے کے لیے رات دن جوڑ توڑ میں سرگرم ہیں وہ یاد رکھیں کہ ایک دن ان کی یہ ساری سازشیں اور سرگرمیاں نابود ہو جائیں گی۔ یہاں مبتدا کے اعادے سے کلام میں یہ زور پیدا ہو گیا ہے کہ ان لوگوں کی ان ساری سازشوں سے کسی دوسرے کا کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ تباہی ان کی سازشوں ہی پر آئے گی اور وہ انہی کی خرابی کا باعث ہوں گی۔ آگے اس مضمون کو کھول دیا ہے۔ فرمایا ہے:

’وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّءُ إِلَّا بِأَہْلِہٖ‘
(اور بُری چالیں انہی کو تباہ کرتی ہیں جو بری چالیں چلتے ہیں)

اس لیے کہ حق ایک متاع مشترک اور سب کی فلاح کا ذریعہ ہے۔ اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو خود اپنی ہی آنکھیں پھوڑتا اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

جو (وہاں) عزت چاہتا ہے، (وہ اللہ سے چاہے)، اِس لیے کہ عزت تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے۔ اُس کی جناب میں پاکیزہ کلام پہنچتا ہے اور اچھا عمل اُسے اوپر اٹھاتا ہے۔ اور جو لوگ بری تدبیریں کر رہے ہیں، اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اُن کی سب تدبیریں بالآخر غارت ہو کر رہیں گی

یہ اِس لیے فرمایا کہ مشرکین اپنے معبودوں کو خدا کے حضور عزت و سرخ روئی کے حصول کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔

اِس سے کلمۂ ایمان مراد ہے۔ آگے اچھے عمل کے ذکر سے اِس کو واضح کر دیا ہے۔ آیت میں جس طرح ’عَمَل‘ کے ساتھ ’صَالِح‘ کا لفظ ہے، اُسی طرح ’کَلِم‘ کے ساتھ ’طَیِّب‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اُس کی زرخیزی اور ثمر باری کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ استاذامام لکھتے ہیں:

’’... اِس لیے کہ فلسفۂ دین کے نقطۂ نظر سے یہی کلمہ تمام علم و حکمت کی جڑ ہے۔ جس نے اِس کو پالیا،اُس نے تمام علم و حکمت کے خزانے کی کلید پالی اور یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ ایمان اور عمل صالح، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح ایمان کے بغیر عمل کی کوئی بنیاد نہیں، اُسی طرح عمل کے بغیر ایمان ایک بے جان شے ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۳۶۳)

اُنھوں نے لکھا ہے:

’’... گویا کلمۂ ایمان کی مثال انگور کی بیل کی ہوئی جو ہے تو بجاے خود نہایت ثمربار، لیکن اُس کی شادابی و ثمر باری کا تمام تر انحصار اِس امر پر ہے کہ اُس کو کوئی سہارا ملے جس پر وہ چڑھے، پھیلے اور پھولے پھلے۔ یہ سہارا اُس کو عمل صالح سے حاصل ہوتا ہے۔ عمل صالح ہی اُس کو پروان چڑھاتا اور مثمر و بارآور بناتا ہے۔ ورنہ جس طرح انگور کی بیل سہارے کے بغیر سکڑ کے رہ جاتی ہے، اُسی طرح ایمان بھی عمل صالح کے بدون مرجھا کے رہ جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۳۶۳)

اصل میں ’یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِن میں ’السَّیِّاٰت‘ مصدر کی صفت ہے، یعنی ’یَمْکُرُوْنَ الْمَکْرَاتِ السَّیِّئَاتِ‘۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ فعل ’یَمْکُرُوْنَ‘ متعدی نہیں ہے کہ ’السَّیِّاٰت‘ کو اِس کا مفعول قرار دیا جا سکے۔

ابو الاعلی مودودی

جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے۔ اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔

یہ بات ملحوظ رہے کہ قریش کے سردار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں جو کچھ بھی کر رہے تھے اپنی عزت اور اپنے وقار کی خاطر کر رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات چل گئی تو ہماری بڑائی ختم ہوجائے گی، ہمارا اثر و رسوخ مٹ جائے گا اور ہماری جو عزت سارے عرب میں بنی ہوئی ہے وہ خاک میں مل جائے گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے کفر و بغاوت کر کے جو عزت تم نے بنا رکھی ہے، یہ تو ایک جھوٹی عزت ہے جس کے لیے خاک ہی میں ملنا مقدر ہے حقیقی عزت اور پائدار عزت جو دنیا سے لے کر عقبیٰ تک کبھی ذلت آشنا نہیں ہو سکتی، صرف خدا کی بندگی میں ہی میسر آسکتی ہے۔ اس کے ہوجاؤ گے تو وہ تمہیں مل جائے گی۔ اور اس سے منہ موڑو گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہو گے۔

یہ ہے عزت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے جو سچا ہو، پاکیزہ ہو، حقیقت پر مبنی ہو، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اور ایک صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے خلاف ہو وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ محض زبان کے پھاگ اڑانے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہوتا ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہوسکتا جب تک اس کی پشت پر عقیدہ صالحہ نہ ہو۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہوسکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہ لا شریک کو معبود مانتا ہوں، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کردیتا ہے۔ ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہوسکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے۔

یعنی باطل اور خبیث کلمے لے کر اٹھتے ہیں، ان کو چالاکیوں سے، فریب کاریوں سے اور نظر فریب استدلالوں سے فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں کلمہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بری سے بری تدبیر استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

جونا گڑھی

جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لئے سخت تر عذاب ہے اور ان کا یہ مکر برباد ہوجائے گا

  یعنی جو چاہتا ہے کہ اسے دنیا اور آخرت میں عزت ملے، تو وہ اللہ کی اطاعت کرے اس سے اسے یہ مقصود حاصل ہوجائے گا اس لیے کہ دنیا وآخرت کا مالک اللہ ہی ہے ساری عزتیں اسی کے پاس ہیں وہ جس کو عزت دے، وہی عزیز ہوگا جس کو وہ ذلیل کردے، اسے دنیا کی کوئی طاقت عزت نہیں دے سکتی۔

 اَ لْکَلِمُ ، کَلِمَہ،ُ ایک جمع ہے، ستھرے کلمات سے مراد اللہ کی تسبیح وتحمید، تلاوت ہے، چڑھتے ہیں کا مطلب، قبول کرنا ہے۔ یا فرشتوں کا انہیں لے کر آسمانوں پر چڑھنا تاکہ اللہ انہیں جزا دے۔ 

 خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں کفر و شرک کا ارتکاب بھی مکر ہے اس طرح اللہ کے راستے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے نبی کے خلاف قتل وغیرہ کی جو سازشیں کفار مکہ کرتے تھے وہ بھی مکر ہے، ریاکاری بھی مکر ہے۔

یعنی ان کا مکر بھی برباد ہوگا اور اس کا وبال انہی پر پڑے گا جو اس کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے فرمایا (وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ ) 35 ۔ فاطر :43) 

Page 1 of 5 pages  1 2 3 >  Last ›