یہ سورۂ ’حٰمٓ‘ ہے
اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔
ح م۔
n/a
ح م
n/a
قرآن خدائے رحمان و رحیم کی تنزیل ہے
’تَنزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘ میں بھی مبتداء میرے نزدیک حذف ہے یعنی یہ قرآن خدائے رحمان و رحیم کی تنزیل ہے۔ پچھلی سورہ ۔۔۔ سورۂ مومن ۔۔۔ میں یہی بات یوں فرمائی گئی ہے: ’تَنزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘۔ بعد والی آیت میں اس اجمال کی وضاحت بھی ہو گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ’کِتَابٌ فُصِّلَتْ آیَاتُہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً ........ الآیۃ‘۔
لفظ ’تَنزِیْلٌ‘ پر اس کے محل میں ہم گفتگو کر چکے ہیں کہ یہ لفظ اہتمام، تدریج اور تفخیم شان پر دلیل ہوتا ہے۔ یعنی یہ خدائے رحمان و رحیم کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری ہوئی کتاب ہے۔ اس کے اتارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو اہتمام فرمایا اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت ان کے محل میں ہو چکی ہے۔
رحمت کی جگہ عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کو ملامت: اسمائے حسنیٰ میں سے یہاں رحمان و رحیم کا حوالہ ہے جس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ خدائے رحمان کی صفت رحمت ہی ہے جو بندوں کے لیے قرآن کو اس اہتمام کے ساتھ اتارنے کا باعث ہوئی ہے۔ اس حقیقت کی طرف سورۂ رحمان میں بھی اشارہ ہے:
’ الرَّحْمَنُ ۵ عَلَّمَ الْقُرْآنَ‘ (الرحمن: ۱-۲)
(خدائے رحمان ہے جس نے قرآن کی تعلیم دی)۔
ان اسماء کے حوالہ سے مقصود یہاں ان لوگوں کی تکذیب کی شناعت ظاہر کرنا بھی ہے جو قرآن جیسی عظیم رحمت کی ناقدری اور اس پر ایمان لانے کے بجائے اس عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے جس سے قرآن ان کو آگاہ کر رہا تھا۔ گویا ان کو بتایا جا رہا ہے کہ خدائے رحمان و رحیم نے تو ان کے لیے ایک عظیم برکت و رحمت نازل فرمائی لیکن وہ اپنی شامت کے باعث رحمت کی جگہ نقمت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آگے کی آیات سے بالتدریج یہ مضمون واضح ہوتا جائے گا۔
یہ خداے رحمٰن و رحیم کی تنزیل ہے۔
اصل الفاظ ہیں: ’تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘۔ اِن میں مبتدا ہمارے نزدیک محذوف ہے۔ لفظ ’تَنْزِیْل‘ کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ اہتمام، تدریج اور تفخیم شان پر دلیل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی اِسی رعایت سے استعمال کیا گیا ہے، یعنی یہ خداے رحمٰن و رحیم کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری ہوئی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے رحمٰن و رحیم کی صفات کا حوالہ تکذیب کی شناعت کو ظاہر کرتا ہے کہ اُس نے تو اِن لوگوں پر ایک عظیم رحمت و برکت نازل فرمائی، لیکن اِن پر افسوس، یہ اُس کے بجاے عذاب اور نقمت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آگے اِسی کی تفصیل ہے۔
یہ خدائے رحمان و رحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے۔
n/a
اتاری ہوئی ہے بڑے مہربان بہت رحم والے کی طرف سے۔
n/a
یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتوں کی تفصیل عربی قرآن کی صورت میں ان لوگوں کے لیے کی گئی ہے جو جاننا چاہیں
اہل عرب پر قرآن کا خاص حق: یہ خبر کے بعد دوسری خبر اور اللہ تعالیٰ کی اس رحمت و عنایت کی تفصیل ہے جو قرآن کی صورت میں خاص طور پر اس نے اہل عرب پر فرمائی کہ اس کو عربی زبان میں اتارا تاکہ ان کو اس کلام کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ اعتراض اٹھاتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کی وضاحت ان کے لیے خود ان کی زبان میں کیوں نہیں فرمائی؟ چنانچہ آگے اسی سورہ میں اسی بات کی وضاحت یوں فرمائی گئی ہے:
وَلَوْ جَعَلْنَاہُ قُرْآناً أَعْجَمِیّاً لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آیَاتُہُ أَأَعْجَمِیٌّ وَعَرَبِیٌّ(فصّلت: ۴۴)
’’اور اگر ہم اس کو عجمی قرآن کی صورت میں اتارتے تو یہ لوگ اعتراض اٹھاتے کہ اس کی آیتیں ہمارے لیے اچھی طرح کھولی کیوں نہ گئیں؟ کلام عجمی اور مخاطب عربی!‘‘
’لِّقَوْمٍ یَعْلَمُوۡنَ‘ میں فعل ہمارے نزدیک ارادۂ فعل کے مفہوم میں ہے۔ یعنی ہم نے یہ سارا اہتمام ان لوگوں کے لیے کیا جو جاننے اور سمجھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو جاننے کی خواہش ہی سے محروم ہیں ان کے لیے سارے جتن بے کار ہیں۔ اس اسلوب بیان میں عربوں کے لیے ایک تحریص و ترغیب بھی ہے کہ انھیں جاننے اور سمجھنے کا حریص ہونا چاہیے اس لیے کہ وہ امّی رہے ہیں اور اب پہلی بار اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کی تعلیم کے لیے ان کی زبان میں اپنی کتاب اتاری ہے۔
یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتوں کی تفصیل کی گئی ہے۔ عربی قرآن کی صورت میں، اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں۔
آیت میں فعل ہمارے نزدیک ارادۂ فعل کے مفہوم میں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس اسلوب بیان میں عربوں کے لیے ایک تحریص و ترغیب بھی ہے کہ اُنھیں جاننے اور سمجھنے کا حریص ہونا چاہیے،اِس لیے کہ وہ امی رہے ہیں اور اب پہلی بار اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُن کی تعلیم کے لیے اُن کی زبان میں اپنی کتاب اتاری ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۷۸)
ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں، عربی زبان کا قرآن، اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔
n/a
ایسی کتاب جس کی آیتوں کی واضح تفصیل کی گئی ہے (اس حال میں کہ) قرآن عربی زبان میں ہے اس قوم کے لئے جو جانتی ہے
یعنی کیا حلال ہے اور کیا حرام ؟ یا طاعت کیا ہیں اور معاصی کیا ؟ یا ثواب والے کام کون سے ہیں اور عقاب والے کون سے ؟
یہ حال ہے۔ یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کے معانی مفصل اور واضح ہیں۔
یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کے معانی و مفا ہیم اور اس کے اسرار و اسلوب کو جانتی ہے۔
خوشخبری دینے والی اور آگاہ کر دینے والی۔ پس ان کی اکثریت نے اس سے اعراض کیا اور وہ اس کو نہیں سن رہے ہیں
قرآن کے ردّ و قبول دونوں کے دوررس اثرات: ’بَشِیْراً وَنَذِیْراً‘۔ یہ قرآن کی دوسری صفت بیان ہوئی ہے کہ یہ بشیر و نذیر بن کر نازل ہوا ہے۔ جو لوگ اس کو قبول کریں گے ان کے لیے یہ دنیا اور آخرت دونوں میں فوز و فلاح کی بشارت ہے اور جو تکذیب کریں گے ان کے لیے یہ عذاب الٰہی کا پیش خیمہ ہے۔ یعنی کوئی اس کو سہل چیز نہ سمجھے۔ اب یہ سب سے بڑی رحمت بھی ہے اور سب سے بڑی نقمت بھی اس وجہ سے جو لوگ اس کی مخالفت کے درپے ہیں وہ اس مخالفت کے انجام کو دور تک سوچ لیں۔
قرآن محض وعظ نہیں بلکہ خدائی انذار ہے: ’فَأَعْرَضَ أَکْثَرُہُمْ فَہُمْ لَا یَسْمَعُوۡنَ‘۔ یعنی اکثر لوگوں نے اس کی اس اہمیت کو ملحوظ نہیں رکھا بلکہ انھوں نے اس کو ایک معمولی چیز سمجھ کر اس سے اعراض اختیار کر رکھا ہے اور اس کو سننے سمجھنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ انھیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ یہ محض کسی واعظ کا وعظ نہیں ہے بلکہ یہ خدائی انذار ہے اور یہ جن باتوں سے آگاہ کر رہا ہے ان میں سے ہر بات لازماً سامنے آ کے رہے گی۔
بشارت دینے والی اور خبردار کرنے والی۔ (اِن پر افسوس)، اِن کی اکثریت نے مگر اِس سے منہ موڑ لیا ہے، لہٰذا سن کر نہیں دے رہے ہیں۔
n/a
بشارت دینے والا اور ڈرا دینے والا۔ مگر اِن لوگوں میں سے اکثر نے اس سے رو گردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے۔
یہ اس سورة کی مختصر تمہید ہے۔ آگے کی تقریر پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس تمہید میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں وہ بعد کے مضمون سے کیا مناسبت رکھتی ہیں۔
پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کلام خدا کی طرف سے نازل ہو رہا ہے۔ یعنی تم جب تک چاہو یہ رٹ لگاتے رہو کہ اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تصنیف کر رہے ہیں، لیکن واقعہ یہی ہے کہ اس کلام کا نزول خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ مزید براں یہ ارشاد فرما کر مخاطبین کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اگر اس کلام کو سن کر چیں بجبیں ہوتے ہو تو تمہارا یہ غصہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف نہیں بلکہ خدا کے خلاف ہے، اگر اسے رد کرتے ہو تو ایک انسان کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات رد کرتے ہو، اور اگر اس سے بےرخی برتتے ہو تو ایک انسان سے نہیں بلکہ خدا سے منہ موڑتے ہو۔
دوسری بات یہ ارشاد ہوئی ہے کہ اس کا نازل کرنے والا وہ خدا ہے جو اپنی مخلوق پر بےانتہا مہربان (رحمان اور رحیم) ہے۔ نازل کرنے والے خدا کی دوسری صفات کے بجائے صفت رحمت کا ذکر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس نے اپنی رحیمی کے اقتضا سے یہ کلام نازل کیا ہے۔ اس سے مخاطبین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کلام سے اگر کوئی بےرخی برتتا ہے، یا اسے رد کرتا ہے، یا اس پر چین بجبیں ہوتا ہے تو در حقیقت اپنے آپ سے دشمنی کرتا ہے۔ یہ تو ایک نعمت عظمٰی ہے جو خدا نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر انسانوں کی رہنمائی اور فلاح و سعادت کے لیے نازل کی ہے۔ خدا اگر انسانوں سے بےرخی برتتا تو انہیں اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا اور کچھ پروا نہ کرتا کہ یہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں۔ لیکن یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ پیدا کرنے اور روزی دینے کے ساتھ ان کی زندگی سنورنے کے لیے علم کی روشنی دکھانا بھی وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی بنا پر یہ کلام اپنے ایک بندے پر نازل کر رہا ہے۔ اب اس شخص سے بڑھ کر ناشکرا اور آپ اپنا دشمن کون ہوگا جو اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا اس سے لڑنے کے لیے دوڑے۔
تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ اس کتاب کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ اس میں کوئی بات گنجلک اور پیچیدہ نہیں ہے کہ کوئی شخص اس بنا پر اسے قبول کرنے سے معذوری ظاہر کر دے کہ اس کی سمجھ میں اس کتاب کے مضامین آتے نہیں ہیں۔ اس میں تو صاف صاف بتایا گیا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، صحیح عقائد کون سے ہیں اور غلط عقائد کون سے، اچھے اخلاق کیا ہیں اور برے اخلاق کیا، نیکی کیا ہے اور بدی کیا، کس طریقے کی پیروی میں انسان کی بھلائی ہے اور کس طریقے کو اختیار کرنے میں اس کا اپنا خسارہ ہے۔ ایسی صاف اور کھلی ہوئی ہدایت کو اگر کوئی شخص رد کرتا ہے یا اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ کوئی معذرت پیش نہیں کرسکتا۔ اس کے اس رویے کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ خود بر سر غلط رہنا چاہتا ہے۔
چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ عربی زبان کا قرآن ہے۔ مطلب یہ ہے اگر یہ قرآن کسی غیر زبان میں آتا تو اہل عرب یہ عذر پیش کرسکتے تھے کہ ہم اس زبان ہی سے نابلد ہیں جس میں خدا نے اپنی کتاب بھیجی ہے۔ لیکن یہ تو ان کی اپنی زبان ہے۔ اسے نہ سمجھ سکنے کا بہانا نہیں بنا سکتے۔ (اس مقام پر آیت 44 بھی پیش نظر رہے جس میں یہی مضمون ایک دوسرے طریقے سے بیان ہوا ہے۔ اور یہ شبہ کہ پھر غیر اہل عرب کے لیے تو قرآن کی دعوت کو قبول نہ کرنے کے لیے ایک معقول عذر موجود ہے، اس سے پہلے ہم رفع کرچکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص 383، 384 ۔ رسائل و مسائل، حصہ اول، ص 19 تا 23)
پانچویں بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو علم رکھتے ہیں۔ یعنی اس سے فائدہ صرف دانا لوگ ہی اٹھا سکتے ہیں۔ نادان لوگوں لئے یہ اسی طرح بےفائدہ ہے جس طرح ایک قیمتی ہیرا اس شخص کے لئے بےفائدہ ہے جو ہیرے اور پتھر کا فرق نہ جانتا ہو۔
چھٹی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ یہ کتاب بشارت دینے والی اور ڈرانے والی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ محض ایک تخیل، ایک فلسفہ، اور ایک نمونہ انشاء پیش کرتی ہو جسے ماننے یا نہ ماننے کا کچھ حاصل نہ ہو۔ بلکہ یہ ہانکے پکارے تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اسے ماننے کے نتائج نہایت شاندار اور نہ ماننے کے نتائج انتہائی ہولناک ہیں۔ ایسی کتاب کو صرف ایک بیوقوف ہی سرسری طور پر نظر انداز کرسکتا ہے۔
خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا ہے پھر بھی ان کی اکثریت نے منہ پھیرلیا اور وہ سنتے ہی نہیں ۔
ایمان اور اعمال صالح کے حاملین کو کامیابی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور مشرکین و مکذبین کو عذاب نار سے ڈرانے والا۔ ٤۔ ٢ یعنی غور و فکر اور تدبر و تعقل کی نیت سے نہیں سنتے کہ جس سے انہیں فائدہ ہو۔ اسی لئے ان کی اکثریت ہدایت سے محروم ہے۔
اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل ان باتوں سے اوٹ میں ہیں جن کی تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اور ہمارے کان اس چیز سے بہرے ہیں جو تم ہمیں سنا رہے ہو اور ہمارے اور تمہارے درمیان ایک حجاب حائل ہے تو جو کچھ تمہیں کرنا ہے وہ کر گزرو، ہم بھی جو کچھ کرنے والے ہیں کر کے رہیں گے
یہ اس اعراض اور نہ سننے کی تفصیل ہے کہ وہ بڑی رعونت و تمکنت کے ساتھ کہتے ہیں کہ جن چیزوں کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو ان کو قبول کرنے کے لیے ہمارے دل بالکل بند ہیں یعنی جس توحید اور آخرت کی تم دعوت لے کر اٹھے ہو یہ دعوت کسی طرح ہمارے دل پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو یہود کی زبانی: ’قَالُوْا قُلُوبُنَا غُلْفٌ‘ کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ لفظ ’اَکِنَّۃٌ‘ پر اس کے محل میں گفتگو ہو چکی ہے۔
’وَفِیْ آذَانِنَا وَقْرٌ‘ کے بعد ’من استماع القراٰن‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ حذف ہیں۔ ’مِّمَّا تَدْعُوۡنَا إِلَیْْہِ‘ کا تقابل اس حذف کی طرف اشارہ کر رہا ہے؛ ترجمہ میں ہم نے اس کو کھول دیا ہے۔ یعنی یہ قرآن جو تم ہم کو سنا رہے ہو اس کے سننے کے لیے ہمارے کان بہرے ہیں۔
’وَمِنْ بَیْْنِنَا وَبَیْْنِکَ حِجَابٌ‘۔ یعنی ہمارے اور تمہارے درمیان عقائد و نظریات اور مسلک و مذہب کے اختلاف کی ایک ایسی دیوار حائل ہو گئی ہے کہ اب ہمارے مل سکنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
مخالفین قرآن کا آخری مطالبہ: ’فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُوۡنَ‘۔ یعنی جب ہمارے درمیان ایسی دیوار حائل ہو چکی ہے کہ اب ہم ایک دوسرے سے کبھی مل ہی نہیں سکتے تو اب جو کچھ تم کر سکتے ہو وہ کر گزرو اور ہم بھی جو کچھ کرنے والے ہیں وہ اب بلا پس و پیش کر کے رہیں گے۔ اگرچہ الفاظ سے ظاہر نہیں ہے لیکن اوپر ’بشیر و نذیر‘ کے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں ان کو سامنے رکھ کے غور کیجیے تو ’فَاعْمَلْ‘ کے اندر ان کی طرف سے عذاب کا مطالبہ مضمر ہے۔ یعنی تم اپنے قرآن میں جس عذاب کی روز دھمکی سنا رہے ہو اب ہمارے اس فیصلہ کن اعلان کے بعد اس کو لاؤ اگر اپنے دعوے میں سچے ہو ورنہ ہم تو بہرحال جو کچھ کرنے والے ہیں کر کے رہیں گے۔
اور (بڑی رعونت کے ساتھ) کہتے ہیں کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو، ہمارے دل اُس سے پردوں میں ہیں اور جو کچھ ہمیں سنا رہے ہو، ہمارے کان اُس سے بہرے ہیں اور ہمارے اور تمھارے درمیان ایک حجاب حائل ہے۔ سو جو کچھ تمھیں کرنا ہے، کر گزرو، ہم بھی، جو کچھ کرنا ہے، کر کے رہیں گے۔
یہ الفاظ اصل میں محذوف ہیں۔ ’مِمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ‘ کا تقابل اِس حذف کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
اوپر ’بَشَیْرًا وَّنَذِیْرًا‘ کے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں، اُن کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو گویا مدعا یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ کہنا تھا، کہہ دیا ہے۔ اب وہ عذاب وغیرہ لے آؤ، جس کی دھمکی روز ہمیں سناتے ہو۔
کہتے ہیں “جس چیز کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں، ہمارے کان بہرے ہو گئے ہیں، اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہو گیا ہے۔ تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جائیں گے۔”
یعنی اس کے لیے ہمارے دلوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ کھلا ہوا نہیں ہے۔
یعنی اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔ اس نے ہمیں اور تمہیں ایک دوسرے سے کاٹ دیا ہے۔ یہ ایک ایسی رکاوٹ بن گئی ہے جو ہم کو اور تم کو جمع نہیں ہونے دیتی۔
اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ہم کو تم سے کوئی سروکار نہیں۔ دوسرے یہ کہ تم اپنی دعوت سے باز نہیں آتے تو اپنا کام کیے جاؤ، ہم بھی تمہاری مخالفت سے باز نہ آئیں گے اور جو کچھ تمہیں نیچا دکھانے کے لیے ہم سے ہو سکے گا کریں گے۔
اور انہوں نے کہا کہ تو جس کی طرف ہمیں بلا رہا ہے ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے اور ہم میں اور تجھ میں ایک حجاب ہے، اچھا تو اب اپنا کام کئے جا ہم بھی یقیناً کام کرنے والے ہیں
اکنہ کنان کی جمع ہے۔ پردہ۔ یعنی ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں کہ ہم تیری توحید و ایمان کی دعوت کو سمجھ سکیں۔
وَقْر کے اصل معنی بوجھ کے ہیں، یہاں مراد بہرا پن ہے، جو حق کے سننے میں مانع تھا۔
یعنی ہمارے اور تیرے درمیان ایسا پردہ حائل ہے کہ تو جو کہتا ہے، وہ سن نہیں سکتے اور جو کرتا ہے، اسے دیکھ نہیں سکتے، اس لئے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے اور ہم تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیں، تو ہمارے دین پر عمل نہیں کرتا، ہم تیرے دین پر عمل نہیں کرسکتے۔
ان سے کہہ دو، میں تو تمہارے ہی مانند ایک بشر ہوں۔ میرے پاس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے تو اسی کی طرف یکسو ہو کر اپنا رخ کرو اور اس سے مغفرت مانگو اور ان مشرکوں کے لیے تباہی ہے
آنحضرتؐ کی طرف سے مطالبہ کا جواب: لفظ ’فَاعْمَلْ‘ کے اندر جو مطالبہ مضمر ہے اور جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ آنحضرت صلعم سے جواب دلوایا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میں تو تمہارے ہی طرح ایک بشر ہوں۔ میں خدا نہیں ہوں کہ تمہارے مطالبے پر عذاب لا دوں یا جو چاہوں کر دوں۔ اس قسم کا کوئی اختیار مجھے حاصل نہیں ہے البتہ یہ وحی مجھ پر آئی ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے، کوئی اور اس کا شریک و سہیم نہیں ہے تو بالکل یکسو ہو کر اسی کی طرف توجہ کرو اور اب تک جس شرک میں آلودہ رہے ہو اس کی معافی مانگو اور اپنے رب حقیقی کی طرف رجوع کرو۔ اور ساتھ ہی یہ بھی سن لو کہ ان مشرکوں کے لیے ہلاکی و بربادی ہے جو اللہ کی راہ میں انفاق تو کرتے نہیں، بس اپنے مزعومہ سفارشیوں کے بل پر نچنت بیٹھے ہیں۔ فرمایا کہ آخرت کے اصلی منکر یہی ہیں۔
اِن سے کہہ دو، (مجھے کیا کرنا ہے، میں خدا نہیں ہوں کہ تم پر عذاب نازل کر دوں)۔ میں بھی اُسی طرح ایک انسان ہی ہوں، جیسے تم ہو۔ مجھے وحی کے ذریعے سے بتایا جاتا ہے کہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ سو اپنا رخ سیدھے اُسی کی طرف کیے رہو اور اُس سے مغفرت چاہو۔ اور (کہہ دو کہ) اِن مشرکوں کے لیے تباہی ہے۔
n/a
اے نبیؐ، اِن سے کہو، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو۔ تباہی ہے اُن مشرکوں کے لیے۔
یعنی میرے بس میں یہ نہیں ہے کہ تمہارے دلوں پر چڑھے ہوئے غلاف اتار دوں، تمہارے بہرے کان کھول دوں، اور اس حجاب کو پھاڑ دوں جو تم نے خود ہی میرے اور اپنے درمیان ڈال لیا ہے۔ میں تو ایک انسان ہوں۔ اسی کو سمجھا سکتا ہوں جو ملنے کے لیے تیار ہو۔
یعنی تم چاہے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو اور اپنے کان بہرے کرلو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمہارے بہت سے خدا نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا ہے جس کے تم بندے ہو۔ اور یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے جو میں نے اپنے غور و فکر سے بنایا ہو، جس کے صحیح اور غلط ہونے کا یکساں احتمال ہو، بلکہ یہ حقیقت مجھ پر وحی کے ذریعہ سے منکشف کی گئی ہے جس میں غلطی کے احتمال کا شائبہ تک نہیں ہے۔
یعنی کسی اور کو خدا نہ بناؤ، کسی اور کی بندگی و پرستش نہ کرو، کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکارو، کسی اور کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم نہ کرو، کسی اور کے رسم و رواج اور قانون و ضابطہ کو شریعت واجب الاطاعت نہ مانو۔
معافی اس بےوفائی کی جو اب تک تم اپنے خدا سے کرتے رہے، اس شرک اور کفر اور نافرمانی کی جس کا ارتکاب تم سے اب تک ہوتا رہا، اور ان گناہوں کی جو خدا فراموشی کے باعث تم سے سرزد ہوئے۔
آپ کہہ دیجئے ! کہ میں تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے سو تم اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو، اور ان مشرکوں کے لئے (بڑی ہی) خرابی ہے۔
یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے بجز وحی الہی کے پھر یہ بعد وحجاب کیوں ؟ علاوہ ازیں میں جو دعوت توحید پیش کر رہا ہوں وہ بھی ایسے نہیں کہ عقل وفہم میں نہ آسکے پھر اس سے اعراض کیوں ؟
جو انفاق نہیں کرتے اور آخرت کے تو اصلی منکر وہی ہیں
لفظ زکوٰۃ انفاق کے عام مفہوم میں: ’لَا یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ‘ میں ’زکوٰۃ‘ سے مراد ’انفاق فی سبیل اللہ‘ ہے۔ اس مفہوم کے لیے یہ لفظ اسلام کے مکی دور میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ مدنی دور میں آ کر اس کی ایک باضابطہ شکل معین ہو گئی اور پھر اس کا اطلاق اسی پر ہونے لگا۔ یہاں یہ لفظ اپنے عام مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور اس مفہوم میں اس زمانے میں معروف تھا۔
اس جواب کا مدعا یہ ہے کہ قرآن جس عذاب کی دھمکی سنا رہا ہے اس کو لانا تو میرا کام نہیں ہے بلکہ اللہ ہی کا کام ہے البتہ یہ انذار کان کھول کر سن لو کہ جو مشرکین ایمان و عمل صالح کے بجائے اپنے شرکاء و شفعاء پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں ان کی ہلاکی ہے!!
شرک و شفاعت کے ساتھ آخرت کو ماننا اس کے انکار کے حکم میں داخل ہے: ’وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ‘۔ اس جملہ میں مبتداء کے اعادہ سے حصر کا مضمون پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ یہ لوگ آخرت کے منکر ہیں بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہو گا کہ آخرت کے منکر یہی ہیں، اس حصر کا فائدہ یہ ہوا کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ جب یہ آخرت کو مانتے ہیں، اگرچہ شرک و شفاعت کے تصور کے ساتھ سہی، تو کسی نہ کسی درجے میں ان کے اس ماننے کا بھی اعتبار ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ ہرگز نہیں، جن لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کے شفعاء و شرکاء ان کو بہرحال بخشوا ہی لیں گے خواہ ان کے اعمال کچھ ہی ہوں وہ آخرت کے ماننے والے نہیں بلکہ اس کے اصلی منکر و مکذب وہی ہیں۔ اس زور و تاکید کے ساتھ اس بات کے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے خدا کے اس عدل اور اس حکمت ہی کی نفی کر دی جس پر آخرت کی بنیاد ہے۔ دوسرے اگر منکر ہیں تو محض استبعاد و شک میں مبتلا ہیں لیکن انھوں نے تو قیامت کا سارا فلسفہ ہی ہدم کر دیا۔ آگے آپ دیکھیں گے کہ قرآن نے شرک کو بھی صاف صاف کفر سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ شرک درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تمام بنیادی صفات کی نفی کر دیتا ہے جن کی نفی کے بعد خدا کو ماننا اور نہ ماننا دونوں بالکل یکساں ہو کر رہ جاتا ہے۔
جو زکوٰۃ (کی صورت میں لوگوں کا جو حق اُن پر عائد ہے، اُسے) ادا نہیں کرتے اور یہی آخرت کے منکر ہیں۔
اِس لیے کہ اگر مانتے بھی ہیں تو اِس عقیدے کے ساتھ کہ یہ کچھ بھی کرتے رہیں، اِن کے شرکا و شفعا اِن کو بہرحال بخشوا لیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس زور و تاکید کے ساتھ اِس بات کے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اِنھوں نے خدا کے اُس عدل اور اُس حکمت ہی کی نفی کر دی جس پر آخرت کی بنیاد ہے۔ دوسرے اگر منکر ہیں تو محض استبعاد یا شک میں مبتلا ہیں، لیکن اِنھوں نے تو قیامت کا سارا فلسفہ ہی ہدم کر دیا۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۸۰)
جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں۔
یہاں زکوٰۃ کے معنی میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن عباس اور ان کے جلیل القدر شاگرد عکرمہ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس مقام پر زکوٰۃ سے مراد وہ پاکیزگی نفس ہے جو توحید کے عقیدے اور اللہ کی اطاعت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ تباہی ہے ان مشرکین کے لیے جو پاکیزگی اختیار نہیں کرتے۔ دوسرا گروہ جس میں قتادہ، سُدی، حسن بصری، ضحاک، مُقاتل اور ابن السائب جیسے مفسرین شامل ہیں، اس لفظ کو یہاں بھی زکوٰۃ مال ہی کے معنی میں لیتا ہے۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو شرک کر کے خدا کا اور زکوٰۃ نہ دے کر بندوں کا حق مارتے ہیں۔
جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے بھی منکر ہی رہتے ہیں۔
یہ سورت مکی ہے۔ زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی اس لئے اس سے مراد یا تو صدقات ہیں جس کا حکم مسلمانوں کو مکے میں ہی دیا جاتا رہا، جس طرح پہلے صبح وشام کی نماز تھا، پھر ہجرت سے ڈیڑھ سال قبل لیلۃ الاِسراء کو پانچ فرض نمازوں کا حکم ہوا۔ یا پھر زکوٰۃ سے مراد کلمہ شہادت ہے، جس سے نفس انسانی شرک کی آلودگیوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر)
البتہ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل بھی کیے ان کے لیے دائمی صلہ ہے
توحید خالص پر قائم رہنے والوں کے لیے بشارت: یہ اس انذار کے مقابل میں بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں غیر منقطع اجر صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان اور عمل صالح کی روش اختیار کریں گے یعنی بلا شائبہ شرک توحید پر ایمان لائیں گے اور خدا کی بندگی اور اطاعت کے جو حقوق ان پر عائد ہوتے ہیں ان کو پورے اخلاص اور کامل استقامت کے ساتھ ادا کریں گے۔
’غَیْْرُ مَمْنُوۡنٍ‘ کی تاویل بعض لوگوں نے اس سے مختلف بھی کی ہے لیکن قرآن کے نظائر سے تائید اسی تاویل کی ہوتی ہے جو ہم نے اختیار کی ہے۔ قرآن میں بعض جگہ یہی مضمون ’عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ‘ کے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے معنی ایسی بخشش کے ہیں جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو۔
(اِن میں سے)، البتہ جو ایمان لے آئے ہیں اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے، یقیناً ایسا صلہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔
n/a
رہے وہ لوگ جنہوں نے مان لیا اور نیک اعمال کیے، اُن کے لیے یقیناً ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔
اصل میں : اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے دو معنی اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسا اجر ہوگا جس میں کبھی کمی نہ آئے گی۔ دوسرے یہ کہ وہ اجر احسان جتا جتا کر نہیں دیا جائے گا جیسے کسی بخیل کا عطیہ ہوتا ہے کہ اگر وہ جی کڑا کر کے کسی کو کچھ دیتا بھی ہے تو بار بار اس کو جتاتا ہے۔
بیشک جو لوگ ایمان لائیں اور بھلے کام کریں ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
اجر غیر ممنون کا وہی مطلب ہے جو عطاء غیر مجذوذ ہود کا ہے یعنی نہ ختم ہونے والا اجر۔
ان سے پوچھو، کیا تم لوگ اس ہستی کا انکار کر رہے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور اس کے شریک ٹھہراتے ہو، وہی تو تمام عالم کا خداوند ہے
نظام کائنات میں توحید کے شواہد: اب یہ آسمان و زمین کے نظام کے اندر خالق کی قدرت، حکمت، ربوبیت اور اس کی توحید کے جو آثار نمایاں ہیں ان کی طرف توجہ دلائی ہے اور آگے آیت ۱۲ میں اس بحث کا خلاصہ یہ نکالا ہے کہ ’ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘۔ یعنی جو شخص اس کائنات کے ان پہلوؤں پر غور کرے گا وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ یہ نہ تو ایک حادثہ کے طور پر آپ سے آپ وجود میں آ گئی ہے، نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا ہے اور نہ یہ مختلف دیویوں دیوتاؤں کی بازی گاہ یا رزم گاہ ہے بلکہ یہ خدائے عزیز و علیم کی منصوبہ بندی اور اس کے علم و حکمت سے وجود میں آئی ہے۔ یہ مضمون چار آیتوں میں پھیلا ہوا ہے اس وجہ سے قارئین کی سہولت کے لیے ہم پہلے آیتوں پر الگ الگ بحث کریں گے پھر آخر میں خلاصۂ بحث پیش کر کے اس پر جو شبہات وارد ہوتے ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس سلسلہ کی پہلی آیت کو لیجیے جو اوپر نقل ہوئی ہے۔ فرمایا کہ کیا تم لوگ اس ذات کا انکار کر رہے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا اور اس کے شریک ٹھہراتے ہو، عالم کا خداوند تو وہی ہے!
خدا کو ماننا صرف وہ معتبر ہے جو اس کی تمام صفات کے اقرار کے ساتھ ہو: یہاں پہلی قابل توجہ بات یہ ہے کہ خطاب اگرچہ مشرکین قریش سے ہے جو خدا کے منکر نہیں بلکہ اس کے شریک ٹھہرانے والے تھے لیکن قرآن نے ان کے اس شرک کو کفر (اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کو ماننا معتبر صرف وہ ہے جو اس کی تمام صفات اور ان کے تمام حقوق و مقتضیات کے ساتھ ہو۔ اگر کوئی شخص خدا کو مانے لیکن اس طرح مانے کہ اس سے خدا کی کل یا بعض صفات کی نفی ہو رہی ہو تو یہ ماننا دین میں معتبر نہیں ہے بلکہ یہ درحقیقت کفر ہی ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے شرک کو جگہ جگہ کفر سے تعبیر اور مشرکین کو صریح الفاظ میں ’یَاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ‘ سے خطاب فرمایا ہے۔ اوپر ہم نے مشرکین کے منکر قیامت ہونے کی جو توجیہ کی ہے اس کو بھی پیش نظر رکھیے۔ یہ دونوں باتیں درحقیقت ایک ہی اصول پر مبنی ہیں۔
خدائی ایام ہمارے دنوں سے مختلف ہیں: ’فِیْ یَوْمَیْنِ‘ میں دو دنوں سے مراد یہ ہمارے دن نہیں ہیں بلکہ، جیسا کہ اس کے محل میں ہم وضاحت کر چکے ہیں، اس سے خدائی دن مراد ہیں جو ہمارے شمار سے ہزار سال بلکہ بعض صورتوں میں پچاس ہزار سال کے برابر بھی ہو سکتے ہیں اس وجہ سے ان کو ادوار کے مفہوم میں لینا چاہیے۔
آسمانوں اور زمین کی خلقت کی تفصیل: قرآن کے دوسرے مقامات میں آسمان و زمین اور ان کے متعلقات کی خلقت چھ دنوں میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں اس مجموعی تعداد کی تفصیل بیان ہو رہی ہے کہ کس چیز کی خلقت پر کتنے دن صرف ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا۔ اس کے اس کام میں کوئی اس کا ساجھی اور شریک و مدد گار نہیں ہوا لیکن تم اس کے شریک ٹھہراتے ہو! حالانکہ جو اس کا خالق ہے وہی اس زمین اور تمام عالم کا خداوند بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہی خداوند ہے بھی اور اسی کو ہونا چاہیے بھی اس لیے کہ وہی خالق ہے لیکن تمہاری خرد باختگی کا یہ حال ہے کہ تم نے عقل و فطرت کے بالکل خلاف اور بالکل بے دلیل اس کے شریک اور مدمقابل بنا رکھے ہیں! یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مشرکین عرب آسمان و زمین بلکہ تمام چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے لیکن اس کے باوجود اس کے شریک بھی ٹھہراتے تھے یہاں ان کے اسی مسلمہ پر دلیل قائم فرمائی ہے اور انداز ملامت کا ہے۔
اِن سے پوچھو، کیا تم اُس ہستی کا انکار کر رہے ہو جس نے دو دنوں میں زمین بنائی اور اُس کے شریک ٹھیراتے ہو؟یہ ہے جہانوں کا پروردگار۔
قرآن نے یہاں شرک کو خدا کے انکار سے تعبیر فرمایا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... خدا کو ماننا معتبر صرف وہ ہے جو اُس کی تمام صفات اور اُن کے تمام حقوق و مقتضیات کے ساتھ ہو۔ اگر کوئی شخص خدا کو مانے، لیکن اِس طرح مانے کہ اُس سے خدا کی کل یا بعض صفات کی نفی ہو رہی ہو تو یہ ماننا دین میں معتبر نہیں ہے، بلکہ یہ درحقیقت کفر ہی ہے۔ اِسی وجہ سے قرآن نے شرک کو جگہ جگہ کفر سے تعبیر اور مشرکین کو صریح الفاظ میں ’یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ‘ سے خطاب فرمایا ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۷/ ۸۱)
اِن سے خدائی دن مراد ہیں جن کے بارے میں تصریح ہے کہ بعض صورتوں میں ہمارے شمار سے پچاس ہزار سال کے برابر بھی ہو تے ہیں۔ قرآن کے دوسرے مقامات میں بیان کیا گیا ہے کہ زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا گیا۔ یہاں اُن کی تفصیل کی جا رہی ہے کہ کس چیز کی خلقت میں کتنے دن صرف ہوئے۔
اے نبیؐ! اِن سے کہو، کیا تم اُس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اُس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے۔
n/a
آپ کہہ دیجئے ! کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردی سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے فرمایا زمین کو دو دن میں بنایا اس سے مراد ہیں یوم الاحد اتوار اور یوم الاثنین سورة نازعات میں کہا گیا ہے والارض بعد ذلک دحہا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے اور دحی جو اصل میں دحو ہے بچھانا یا پھیلانا اور چیز زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا اور دحو کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ (اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا) 79 ۔ النازعات :31) اس میں پہاڑ ٹیلے اور جمادات رکھے گئے یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دو دنوں میں کیا گیا یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورة حم) السجدۃ
اور اس نے اس زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں برکتیں رکھیں اور اس میں اس کے غذائی ذخیرے ودیعت کیے سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔ یہ سب ملا کر چار دنوں میں
زمین اور اس کے بعض آثار: یہ زمین کی برکات کی تفصیل بیان ہو رہی ہے کہ اللہ ہی نے اس کے اندر پہاڑ گاڑے۔ ان پہاڑوں کے گاڑنے کی ایک حکمت دوسرے مقام میں بیان فرمائی ہے کہ یہ زمین کے توازن کو قائم رکھے ہوئے ہیں ورنہ اندیشہ ہے کہ یہ تمام مخلوقات سمیت کسی طرف کو لڑھک جائے۔ ’مِنْ فَوْقِھَا‘ کے الفاظ سے مقصود ان کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ نشانیاں کچھ ڈھکی چھپی نہیں ہیں بلکہ یہ زمین کے اوپر ہی موجود ہیں جن کو ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ سورۂ غاشیہ میں بھی پہاڑوں کی طرف اسی پہلو سے توجہ دلائی گئی ہے:
’اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ‘ (الغاشیہ: ۱۷-۲۰)
(کیا وہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح ان کی خلقت ہوئی ہے اور آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح اس کو بلند کیا گیا ہے اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح وہ گاڑے گئے ہیں اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح وہ مسطح کی گئی ہے!!)
’وَبٰرَکَ فِیْھَا وَقَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا‘۔ یعنی اس میں برکتیں رکھیں اور اس میں تمام قسم کے غذائی ذخیرے ودیعت کیے۔
زمین اور اس کی برکات: اسی برکت کا کرشمہ ہے کہ یہ ہر قسم کی نباتات اگاتی ہے جن کے پھل اور پھول انسان اور دوسری مخلوقات کے کام آتے ہیں، یہ اسی کا فیض ہے کہ ایک دانہ انسان بوتا ہے اور زمین سینکڑوں دانوں کی شکل میں اس کا حاصل اس کو واپس کرتی ہے۔ ایک گٹھلی یا ایک قلم آدمی زمین میں لگاتا ہے اور ایک مدت دراز تک اس کا پھل وہ اور اس کے اخلاف کھاتے ہیں۔ علاوہ بریں یہ اسی برکت کا ثمرہ ہے کہ انسان اپنی سائنس کے ذریعہ سے اس کے جتنے پرت الٹتا جاتا ہے اتنے ہی اس کے اندر سے خزانے پر خزانے نکلتے آ رہے ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ انسان کی سائنس تھک جائے گی لیکن زمین کے خزانے کم ہونے والے نہیں ہیں۔
’وَقَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کی آغوش میں جتنی مخلوقات ڈالی ہیں یا ڈالے گا اسی حساب سے اس کے اندر غذائی ذخائر بھی مقدر کر دیے ہیں۔ یہ ذخائر قیامت تک انسان کی سعی و تدبیر سے برآمد ہوتے رہیں گے۔ ہر مخلوق جو اس زمین پر پیدا ہو گی اس کے حصے کا رزق اللہ تعالیٰ نے زمین کو تحویل میں دے رکھا ہے اور اس کے برآمد کرنے کی تدبیر بھی انسان کو الہام کر رکھی ہے۔
ایام کی مجموعی تعداد جو آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں لگے: ’فِیْٓ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ‘۔ یہ سارے کام چار دنوں میں انجام پائے۔ یعنی زمین کی خلقت کے دن اور اس کے اندر پہاڑ گاڑنے اور تقدیر اقوات کے دن سب ملا کر چار دن ہوئے۔ مذکورہ کاموں میں جتنے دن صرف ہوئے۔ یہ آخر میں ان سب کو جمع کر دیا ہے۔
اللہ نے ہر قسم کی مخلوقات کے لیے ان کے جبلی تقاضوں کے مطابق غذا فراہم کی ہے: ’سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیْنَ‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی قسم کی مخلوقات پیدا کی ہیں اور ان کے بقا کے لیے جس قسم کی غذا کی احتیاج ان کے اندر رکھی ہے، ان سب کی جبلی احتیاج کے اعتبار سے یہ غذائی ذخیرے ودیعت فرمائے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ کچھ مخلوقات تو وجود میں آ گئی ہوں لیکن ان کی پرورش کے لیے جس غذا کی ضرورت ہے وہ وجود میں نہ آئی ہو۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر، زمین کی تہوں میں، سمندروں کی تاریکیوں میں، جہاں کہیں بھی کوئی چھوٹی یا بڑی مخلوق موجود ہے اس کے گرد و پیش میں اس کا طبعی رزق موجود ہے۔ ایک بکری گھاس کھا کر زندہ رہتی ہے اس کے لیے اللہ نے گھاس پیدا کی ہے۔ ایک شیر گوشت سے زندہ رہتا ہے اس کو اللہ نے شکار کے اسلحہ بھی دیے ہیں اور شکار کے لیے جانور بھی پیدا کیے ہیں۔ اور یہ بات بھی صاف نظر آتی ہے کہ کسی کو بھی اپنی مایحتاج سے زبردستی مناسبت نہیں پیدا کرنی پڑی ہے بلکہ جس کو جو کچھ بھی ملا ہے اس کے جبلی تقاضوں کے مطابق ملا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ یہ اللہ ہی کی شان ہو سکتی ہے کہ وہ اتنی بے شمار قسم کی مخلوقات پیدا کرے اور پھر ہر جنس و نوع کے جبلی تقاضوں کے مطابق ان کے لیے غذا فراہم کرے۔ خدا کے سوا اور کون ہے جو اس پر قادر ہو سکے؟
لفظ ’سوال‘ ایک خاص مفہوم میں: لفظ ’سوال‘ یہاں اسی معنی میں ہے جس معنی میں سورۂ ابراہیم کی آیت ۳۷ میں ہے:
’وَاٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ‘
(اور تم کو ان سب میں سے دیا جن کے تم محتاج ہوئے)
یعنی تمہارے اندر اس نے جن چیزوں کی احتیاج رکھی وہ چیزیں بھی مہیا فرمائیں۔
اشتراکیت پسندوں کا ایک بے بنیاد استدلال: زیر بحث ٹکڑے سے اشتراکی حضرات نے غذائی مساوات کا ثبوت فراہم کرنے کی جو کوشش کی ہے اس کی تردید کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے آیت کی صحیح تاویل واضح کر دی اور یہی ہماری ذمہ داری ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح بات سمجھنے اور اس کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کر دینا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔
اور اُس نے زمین کے اندر اُس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اور اُس میں برکتیں رکھ دیں اور سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں، اُس کی غذائیں اُس میں ودیعت کر دیں۔ یہ سب ملا کر چار دنوں میں۔
یعنی ایسے نمایاں کہ ہر شخص اُن کو دیکھ سکتا ہے۔ دوسری جگہ مزید وضاحت ہے کہ یہ زمین کے توازن کو قائم رکھے ہوئے ہیں، ورنہ اندیشہ ہے کہ اپنی تمام مخلوقات کو لے کر یہ کسی طرف لڑھک جائے۔
زمین میں انسان کی پرورش کا جو اہتمام ہے، یہ اُس کی نہایت جامع تعبیر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’ اِسی برکت کا کرشمہ ہے کہ یہ ہر قسم کی نباتات اگاتی ہے جن کے پھل اور پھول انسان اور دوسری مخلوقات کے کام آتے ہیں۔ یہ اِسی کا فیض ہے کہ ایک دانہ انسان بوتا ہے اور زمین سینکڑوں دانوں کی شکل میں اُس کا حاصل اُس کو واپس کرتی ہے۔ ایک گٹھلی یا ایک قلم آدمی زمین میں لگاتا ہے اور ایک مدت دراز تک اُس کا پھل وہ اور اُس کے اخلاف کھاتے ہیں۔ علاوہ بریں یہ اِسی برکت کا ثمرہ ہے کہ انسان اپنی سائنس کے ذریعے سے اِس کے جتنے پرت الٹتا چلاجاتا ہے، اتنے ہی اِس کے اندر سے خزانے پر خزانے نکلتے آرہے ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ انسان کی سائنس تھک جائے گی، لیکن زمین کے خزانے کم ہونے والے نہیں ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۸۲)
غذاکے یہی ذخائر ہیں جو انسان کی سعی و تدبیر سے برآمد ہوئے ہیں اور قیامت تک برآمد ہوتے رہیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی قسم کی مخلوقات پیدا کی ہیں اور اُن کے بقا کے لیے جس قسم کی غذا کی احتیاج اُن کے اندر رکھی ہے، اُن سب کی جبلی احتیاج کے اعتبار سے یہ غذائی ذخیرے ودیعت فرمائے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ کچھ مخلوقات تو وجود میں آ گئی ہوں، لیکن اُن کی پرورش کے لیے جس غذا کی ضرورت ہے، وہ وجود میں نہ آئی ہو۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر، زمین کی تہوں میں، سمندروں کی تاریکیوں میں، جہاں کہیں بھی کوئی چھوٹی یا بڑی مخلوق موجود ہے، اُس کے گرد و پیش میں اُس کا طبعی رزق موجود ہے۔ ایک بکری گھاس کھا کر زندہ رہتی ہے، اُس کے لیے اللہ نے گھاس پیدا کی ہے۔ ایک شیر گوشت سے زندہ رہتا ہے، اس کو اللہ نے شکار کے اسلحہ بھی دیے ہیں اور شکار کے لیے جانور بھی پیدا کیے ہیں۔ اور یہ بات بھی صاف نظر آتی ہے کہ کسی کو بھی اپنی مایحتاج سے زبردستی مناسبت نہیں پیدا کرنی پڑی ہے، بلکہ جس کو جو کچھ بھی ملا ہے، اُس کے جبلی تقاضوں کے مطابق ملا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۸۳)
یعنی دو دن زمین کی خلقت کے اور دو دن اِن سب کاموں کے جن کا ذکر ہوا ہے۔ یہ آخر میں سب کو جمع کرکے فرمایا ہے: ’فِیْٓ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ‘۔ آیت میں ’سُؤَال‘ کا لفظ اُسی معنی میں ہے، جس میں یہ سورۂ ابراہیم (۱۴) کی آیت ۳۴ میں استعمال ہوا ہے: ’وَ اٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوْہُ‘۔
اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا۔ یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔
زمین کی برکتوں سے مراد وہ بےحد و حساب سر و سامان ہے جو کروڑہا کروڑ سال سے مسلسل اس کے پیٹ سے نکلتا چلا آ رہا ہے اور خورد بینی کیڑوں سے لے کر انسان کے بلند ترین تمدن تک کی روز افزوں ضروریات پوری کیے چلا جا رہا ہے۔ ان برکتوں میں سب سے بڑی برکتیں ہوا اور پانی ہیں جن کی بدولت ہی زمین پر نباتی، حیوانی اور پھر انسانی زندگی ممکن ہوئی۔
اصل الفاظ ہیں : قَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآءً للسَّآئِلِیْنَ ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں :
بعض مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ” زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے ٹھیک حساب سے رکھ دیے پورے چار دنوں میں “۔ یعنی کم یا زیادہ نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں۔
ابن عباس، قَتَادہ اور سُدّی اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ” زمین میں اس کے ارزاق چار دنوں میں رکھ دیے۔ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا “۔ یعنی جو کوئی یہ پوچھے کہ یہ کام کتنے دنوں میں ہوا، اس کا مکمل جواب یہ ہے کہ چار دنوں میں ہوگیا۔
ابن زید اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ” زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے چار دنوں کے اندر رکھ دیے ٹھیک اندازے سے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق “۔
جہاں تک قواعد زبان کا تعلق ہے، آیت کے الفاظ میں یہ تینوں معنی لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلے دو معنوں میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیا اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کام ایک گھنٹہ کم چار دن یا ایک گھنٹہ زیادہ چار دن میں نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال ربوبیت اور کمال حکمت کے بیان میں کون سی کسر رہ جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس تصریح کی حاجت ہو ؟ اسی طرح یہ تفسیر بھی بڑی کمزور تفسیر ہے کہ ” پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا “۔ آیت سے پہلے اور بعد کے مضمون میں کسی جگہ بھی کوئی قرینہ یہ نہیں بتاتا کہ اس وقت کسی سائل نے یہ دریافت کیا تھا کہ یہ سارے کام کتنے دنوں میں ہوئے، اور یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔ انہی وجوہ سے ہم نے ترجمے میں تیسرے معنی کو اختیار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ زمین میں ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک جس جس قسم کی جتنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا تھا، ہر ایک کی مانگ اور حاجت کے ٹھیک مطابق غذا کا پورا سامان حساب لگا کر اس نے زمین کے اندر رکھ دیا۔ نباتات کی بیشمار اقسام خشکی اور تری میں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی غذائی ضروریات دوسری اقسام سے مختلف ہیں۔ جاندار مخلوقات کی بیشمار انواع ہوا اور خشکی اور تری میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اور ہر نوع ایک الگ قسم کی غذا مانگتی ہے۔ پھر ان سب سے جدا، ایک اور مخلوق انسان ہے جس کو محض جسم کی پرورش ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے بھی طرح طرح کی خوراکیں درکار ہیں۔ اللہ کے سوا کون جان سکتا تھا کہ اس کرہ خاکی پر زندگی کا آغاز ہونے سے لے کر اس کے اختتام تک کس کس قسم کی مخلوقات کے کتنے افراد کہاں کہاں اور کب کب وجود میں آئیں گے اور ان کو پالنے کے لیے کیسی اور کتنی غذا درکار ہوگی۔ اپنی تخلیقی اسکیم میں جس طرح اس نے غذا طلب کرنے والی ان مخلوقات کو پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اسی طرح اس نے ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا بھی مکمل انتظام کردیا۔
موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے مارکسی تصور اشتراکیت کا اسلامی ایڈیشن ” قرآنی نظام ربوبیت ” کے نام سے نکالا ہے وہ سواءً للسّائِلین کا ترجمہ ” سب مانگنے والوں کے لیے برابر ” کرتے ہیں، اور اس پر استدلال کی عمارت یوں اٹھاتے ہیں کہ اللہ نے زمین میں سب لوگوں کے لیے برابر خوراک رکھی ہے، لہٰذا آیت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ریاست کا ایک ایسا نظام درکار ہے جو سب کو غذا کا مساوی راشن دے، کیونکہ انفرادی ملکیت کے نظام میں وہ مساوات قائم نہیں ہو سکتی جس کا یہ ” قرآنی قانون ” تقاضا کر رہا ہے۔ لیکن یہ حضرات قرآن سے اپنے نظریات کی خدمت لینے کے جوش میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائلین، جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف اقسام کی وہ سب مخلوقات ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا واقعی ان سب کے درمیان، یا ایک ایک قسم کی مخلوقات کے تمام افراد کے درمیان خدا نے سامان پرورش میں مساوات رکھی ہے ؟ کیا فطرت کے اس پورے نظام میں کہیں آپ کو غذا کے مساوی راشن کی تقسیم کا انتظام نظر آتا ہے ؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا میں، جہاں انسانی ریاست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ریاست براہ راست تقسیم رزق کا انتظام کر رہی ہے، اللہ میاں خود اپنے اس ” قرآنی قانون ” کی خلاف ورزی ........... بلکہ معاذ اللہ، بےانصافی...... فرما رہے ہیں ! پھر وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ ” سائلین ” میں وہ حیوانات بھی شامل ہیں جنہیں انسان پالتا ہے، اور جن کی خوراک کا انتظام انسان ہی کے ذمہ ہے۔ مثلاً بھیڑ، بکری، گائے، بھینس، گھوڑے، گدھے، خچر، اور اونٹ وغیرہ۔ اگر قرآنی قانون یہی ہے کہ سب سائلین کو برابر خوراک دی جائے، اور اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے نظام ربوبیت چلانے والی ایک ریاست مطلوب ہے، تو کیا وہ ریاست انسان اور ان حیوانات کے درمیان معاشی مساوات قائم کرے گی ؟
اس مقام کی تفسیر میں مفسرین کو بالعموم یہ زحمت پیش آئی ہے کہ اگر زمین کی تخلیق کے دو دن، اور اس میں پہاڑ جمانے اور برکتیں رکھنے اور سامان خوراک پیدا کرنے کے چار دن تسلیم کیے جائیں، تو آگے آسمانوں کی پیدائش دو دنوں میں ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے مزید دو دن ملا کر آٹھ دن بن جاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق جملہ چھ دنوں میں ہوئی ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص 36 ۔ 261 ۔ 324 ۔ جلد دوم ص 460) ۔ اسی بنا پر قریب قریب تمام مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ چار دن زمین کی تخلیق کے دو دن سمیت ہیں، یعنی دو دن تخلیق زمین کے اور دو دن زمین کے اندر ان باقی چیزوں کی پیدائش کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس طرح جملہ چار دنوں میں زمین اپنے سرو سامان سمیت مکمل ہوگئی۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے، اور در حقیقت وہ زحمت بھی محض خیالی زحمت ہے جس سے بچنے کے لیے اس تاویل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ زمین کی تخلیق کے دو دن دراصل ان دو دنوں سے الگ نہیں ہیں جن میں بحیثیت مجموعی پوری کائنات بنی ہے۔ آگے کی آیات پر غور کیجیے۔ ان میں زمین اور آسمان دونوں کی تخلیق کا یکجا ذکر کیا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے۔ ان سات آسمانوں سے پوری کائنات مراد ہے جس کا ایک جز ہماری یہ زمین بھی ہے۔ پھر جب کائنات کے دوسرے بیشمار تاروں اور سیاروں کی طرح یہ زمین بھی ان دو دنوں کے اندر مجرد ایک کرے کی شکل اختیار کرچکی تو اللہ تعالیٰ نے اسکو ذی حیات مخلوقات کے لیے تیار کرنا شروع کیا اور چار دنوں کے اندر اس میں وہ سب کچھ سرو سامان پیدا کردیا جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے تاروں اور سیاروں میں ان چار دنوں کے اندر کیا کچھ ترقیاتی کام کیے گئے، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے، کیونکہ نزول قرآن کے دور کا انسان تو در کنار، اس زمانے کا آدمی بھی ان معلومات کو ہضم کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔
اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کردی (صرف) چار دن میں ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر ۔
یعنی پہاڑوں کو زمین میں سے ہی پیدا کر کے ان کو اس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔
یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اور دیگر اسی قسم کی اشیاء کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے
اقوات، قوت غذا، خوراک کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوارک اس میں مقدر کردی ہے یا بندوبست کردیا ہے اور رب کی اس تقدیر یا بندوبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی کوئی قلم اسے رقم نہیں کرسکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسے گن نہیں سکتا بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہو سکتیں تاکہ ہر علاقے کی یہ مخصوص پیداوار ان ان علاقوں کی تجارت و معیشت کی بنیادیں بن جائیں چنانچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اور بالکل حقیقت ہے۔
یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اور وحی کے دو دن سارے دن ملا کر یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔
سوآء کا مطلب ہے۔ ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ یہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لئے۔
امین احسن اصلاحی
یہ حٰمٓ ہے
’حٰمٓ‘ اس سورہ کا قرآن نام ہے۔ پچھلی سورہ میں ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ جو سورتیں اس نام سے موسوم ہیں ان سب میں مضامین مشترک سے ہیں۔ تالیف کلام اگرچہ یوں بھی ہو سکتی ہے کہ اس کو مبتدا مان کر بعد کے جملہ کو اس کی خبر قرار دیجیے لیکن ہمارے نزدیک یہ مستقل جملہ ہے اور مبتدا اس میں محذوف ہے۔ ترجمہ میں ہم نے اس کو کھول دیا ہے۔