یہ سورۂ ’حٰمٓ‘ ہے۔
اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔ یہی نام اِس سے آگے تمام مکی سورتوں کا بھی ہے اور یہ اُن کے اسلوب، مضامین اور مزاج میں فی الجملہ اشتراک پر دلالت کرتا ہے۔
ح۔ م۔
n/a
حم
n/a
اس کتاب کی تنزیل خدائے عزیز و علیم کی طرف سے ہے
مخالفین پر امتنان اور ان کو تنبیہ: ’تَنزِیْلُ الْکِتَابِ ....... الاٰیۃ‘۔ یہ قرآن کے مخالفین پر امتنان بھی ہے اور ان کو تنبیہ بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نہایت اہتمام سے جو اتاری ہے تو اس لیے اتاری ہے کہ لوگ اس کی قدر کریں، اس سے ہدایت حاصل کریں اور اپنے رب کے اس اہتمام کے شکرگزار ہوں جو ان کی ہدایت کے لیے اس نے کیا ورنہ یاد رکھیں کہ جس نے یہ کتاب اتاری ہے وہ ’عزیز‘ بھی اور علیم بھی۔ ’عزیز‘ ہے اس وجہ سے وہ ہر چیز پر قدرت و اختیار رکھتا ہے۔ وہ مخالفت کرنے والوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں، ہر سزا دے سکتا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں بن سکتا۔ ’عزیز‘ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علیم بھی ہے اس وجہ سے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کتاب کی تنزیل سے جو کشمکش برپا ہوئی ہے وہ کس مرحلہ میں ہے، اس کے پیش کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے اور اس کی مخالفت کرنے میں جو لوگ پیش پیش ہیں ان کے ارادے کیا ہیں، وہ کہاں تک پہنچ چکے ہیں اور کب ان کا ہاتھ پکڑا جانا ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں ہے بلکہ خدائے عزیز و علیم کا اتارا ہوا صحیفۂ ہدایت ہے اس وجہ سے اس کی موافقت بھی بڑی اہمیت رکھنے والی بات ہے اور اس کی مخالفت کے نتائج بھی نہایت سنگین اور دور رس ہیں۔
اِس کتاب کی تنزیل اللہ کی طرف سے ہے، جو زبردست ہے، سب کچھ جاننے والا ہے۔
لفظ ’تَنْزِیْل‘ اہتمام پر دلالت کے لیے ہے اور اِس میں یہ اشارہ ہے کہ جس نے یہ اہتمام فرمایا ہے، لوگ اُس کے شکر گزار ہوں اور اُس نے جو کتاب نازل کی ہے، اُس کی قدر کریں اور اُس سے ہدایت حاصل کریں۔
یعنی اگر قدر کرنے اور ہدایت حاصل کرنے کے بجاے آمادۂ مخالفت ہوں گے تو وہ زبردست ہے اور مخالفت کرنے والوں کو دنیا اور آخرت، دونوں میں سزا دے سکتا ہے۔
چنانچہ یہ بھی جانتا ہے کہ اِس کتاب کی تنزیل سے جو کشمکش برپا ہوئی ہے، اُس میں کون کیا کر رہا ہے۔
اِس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے، سب کچھ جاننے والا ہے۔
n/a
اس کتاب کا نازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور دانا ہے
اس سورت کو سورة غافر اور سورة ، الطول بھی کہتے ہیں
تَنْزِیْل مُنَزَّل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں
جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ علیم ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔
جو گناہوں کو بخشنے والا، توبہ کو قبول کرنے والا، سخت پاداش اور بڑی قدرت والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے
’غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِیْ الطَّوْلِ ... الاٰیۃ‘۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مزید صفات بیان فرمائیں کہ وہ گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ کو قبول کرنے والا بھی ہے اور سخت پاداش والا اور بڑی قدرت والا بھی۔ ’طَوْل‘ کے معنی فضل، غنٰی، قدرت اور بخشش کے ہیں۔ یہاں تقابل کے اصول کو پیش نظر رکھ کر میں نے قدرت کے معنی کو ترجیح دی ہے۔
فیصلہ کن مرحلہ: مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں قسم کی صفات سے متصف اور دونوں طرح کے اختیارات کا مالک ہے تو اس کتاب کی تنزیل کے بعد ہر شخص کے لیے راہ کھلی ہوئی ہے کہ وہ یا تو اس کو قبول کر کے خدا کی رحمت و مغفرت کا امیدوار بن جائے یا اس کی مخالفت کر کے اس کے عذاب اور اس کی قدرت کی شان کے ظہور کا انتظار کرے۔
’لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ إِلَیْْہِ الْمَصِیْرُ‘۔ یعنی اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ خدا کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے تو وہ اپنی اس غلط فہمی کی اصلاح کر لے۔ خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے۔ قیامت کے دن سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے اور سب کے معاملات کا فیصلہ وہی فرمائے گا، نہ کسی اور کی طرف لوٹنا ہو گا نہ کوئی اور خدا کے اذن کے بغیر کسی کے لیے سفارش کر سکے گا۔
گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑی قدرت والا ہے۔ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، (بالآخر) اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔
یہ ترغیب کے لیے فرمایا ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں، وہ بھی اگر اپنی روش سے باز آ جائیں تو خدا کا دامن رحمت وسیع ہے، وہ اُس میں جگہ پا سکتے ہیں۔
اصل میں ’ذِی الطَّوْلِ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ ’طَوْل‘کا لفظ کئی معنی کے لیے آتا ہے۔ یہاں تقابل کے اصول کو پیش نظر رکھ کرقدرت کے معنی کو ترجیح دی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی صفات کا یہ پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے کہ وہ اگر توبہ کرنے والوں کی توبہ آگے بڑھ کر قبول کرتا ہے تو مخالفت کرنے والوں کے لیے اُس کے عذاب اور اُس کی قدرت کی شانیں بھی اِسی طرح ظاہر ہو جایا کرتی ہیں۔
یعنی اُس کے سوا نہ کوئی سہارا دے سکتا ہے اور نہ اُس سے بھاگ کر کہیں جانے کی کوئی جگہ ہے۔ بالآخر لوٹنا اُسی کی طرف ہو گا اور اُس کے اذن کے بغیر کوئی بھی کسی کے کام نہ آ سکے گا۔
سورہ کی یہ تمہید، اگر غور کیجیے تو مخاطبین کے لیے اظہار امتنان بھی ہے اور اُن کو تنبیہ بھی۔ اِس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا حوالہ اِن دونوں ہی پہلوؤں سے دیا گیا ہے۔
گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔
یہ تقریر کی تمہید ہے جس کے ذریعہ سے سامعین کو پہلے ہی خبردار کردیا گیا ہے کہ یہ کلام جو ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کسی معمولی ہستی کا کلام نہیں ہے، بلکہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ پھر پے در پے اللہ تعالیٰ کی چند صفات بیان کی گئی ہیں جو آگے کے مضمون سے گہری مناسبت رکھتی ہیں :
اول یہ کہ وہ ” زبردست ” ہے، یعنی سب پر غالب ہے۔ اس کا جو فیصلہ بھی کسی کے حق میں ہو، نافذ ہو کر رہتا ہے، کوئی اس سے لڑ کر جیت نہیں سکتا، نہ اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے فرمان سے منہ موڑ کر اگر کوئی شخص کامیابی کی توقع رکھتا ہو، اور اس کے رسول سے جھگڑا کر کے یہ امید رکھتا ہو کہ وہ اسے نیچا دکھا دے گا، تو یہ اس کی اپنی حماقت ہے۔ ایسی توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔
دوسری صفت یہ کہ وہ ” سب کچھ جاننے والا ” ہے۔ یعنی وہ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی بات نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کا براہ راست علم رکھتا ہے، اس لیے ماورائے حس و ادراک حقیقتوں کے متعلق جو معلومات وہ دے رہا ہے، صرف وہی صحیح ہو سکتی ہیں، اور ان کو نہ ماننے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خواہ مخواہ جہالت کی پیروی کرے۔ اسی طرح وہ جانتا ہے کہ انسان کی فلاح کس چیز میں ہے اور کون سے اصول و قوانین اور احکام اس کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی ہر تعلیم حکمت اور علم صحیح پر مبنی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی ہدایات کو قبول نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود اپنی تباہی کے راستے پر جانا چاہتا ہے۔ پھر انسانوں کی حرکات و سکنات میں سے کوئی چیز اس سے چھپی نہیں رہ سکتی، حتّیٰ کہ وہ ان نیتوں اور ارادوں تک کو جانتا ہے۔ جو انسانی افعال کے اصل محرک ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان کسی بہانے اس کی سزا سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔
تیسری صفت یہ کہ وہ ” گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے “۔ یہ امید اور ترغیب دلانے والی صفت ہے جو اس غرض سے بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں وہ مایوس نہ ہوں، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظر ثانی کریں کہ اگر اب بھی وہ اس روش سے باز آجائیں تو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتے ہیں۔ اس جگہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ گناہ معاف کرنا اور توبہ قبول کرنا لازماً ایک ہی چیز کے دو عنوان نہیں ہیں، بلکہ بسا اوقات توبہ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں گناہوں کی معافی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک شخص خطائیں بھی کرتا رہتا ہے اور نیکیاں بھی، اور اس کی نیکیاں اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، خواہ اسے ان خطاؤں پر توبہ و استغفار کرنے کا موقع نہ ملا ہو، بلکہ وہ انہیں بھول بھی چکا ہو۔ اسی طرح ایک شخص پر دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں اور مصیبتیں اور بیماریاں اور طرح طرح کی رنج و غم پہنچانے والی آفات آتی ہیں، وہ سب اس کی خطاؤں کا بدل بن جاتی ہیں۔ اسی بنا پر گناہوں کی معافی کا ذکر توبہ قبول کرنے سے الگ کیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ توبہ کے بغیر خطا بخشی کی یہ رعایت صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور اہل ایمان میں بھی صرف ان کے لیے جو سرکشی و بغاوت کے ہر جذبے سے خالی ہوں اور جن سے گناہوں کا صدور بشری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہو نہ کہ استکبار اور معصیت پر اصرار کی بنا پر۔
چوتھی صفت یہ کہ وہ ” سخت سزا دینے والا ” ہے۔ اس صفت کا ذکر کر کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ جتنا رحیم ہے، بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے اتنا ہی سخت ہے۔ جب کوئی شخص یا گروہ ان تمام حدوں سے گزر جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے درگزر اور اس کی خطا بخشی کا مستحق ہوسکتا ہے، تو پھر وہ اس کی سزا کا مستحق بنتا ہے، اور اس کی سزا ایسی ہولناک ہے کہ صرف ایک احمق انسان ہی اس کو قابل برداشت سمجھ سکتا ہے۔
پانچویں صفت یہ کہ وہ ” صاحب فضل ” ہے، یعنی کشادہ دست، غنی اور فیاض ہے۔ تمام مخلوقات پر اس کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی ہمہ گیر بارش ہر آن ہو رہی ہے۔ بندوں کو جو کچھ بھی مل رہا ہے اسی کے فضل و کرم سے مل رہا ہے۔
ان پانچ صفات کے بعد دو حقیقتیں واشگاف طریقہ سے بیان کردی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ معبود فی الحقیقت اس کے سوا کوئی نہیں ہے، خواہ لوگوں نے کتنے ہی دوسرے جھوٹے معبود بنا رکھے ہوں۔ دوسری یہ کہ جانا سب کو آخر کار اسی کی طرف ہے۔ کوئی دوسرا معبود لوگوں کے اعمال کا حساب لینے والا اور ان کی جزا و سزا کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر اگر کوئی دوسروں کو معبود بنائے گا تو اپنی اس حماقت کا خمیازہ خود بھگتے گا۔
گناہ کو بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا سخت عذاب والا، انعام وقدرت والا جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف واپس لو ٹنا ہے۔
گزشتہ گناہ معاف کرنے والا اور مستقبل میں ہونے والی کوتاہیوں پر توبہ قبول کرنے والا ہے یا اپنے دوستوں کے لئے غافر ہے اور کافر اور مشرک اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
ان کے لیے جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیں اور تمردو طغیان کا راستہ اختیار کریں یہ اللہ کے اس قول کی طرح ہی ہے (نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49ۙ وَاَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ 50) 15 ۔ الحجر :49) میرے بندوں کو بتلا دو کہ میں غفور و رحیم ہوں اور میرا عذاب بھی نہایت دردناک ہے قرآن کریم میں اکثر جگہ یہ دونوں وصف ساتھ ساتھ بیان کیے گئے ہیں تاکہ انسان خوف اور رجا کے درمیان رہے کیونکہ محض خوف ہی خوف انسان کو رحمت و مغفرت الہی سے مایوس کرسکتا ہے اور نری امید گناہوں پر دلیر کردیتی ہے۔
طول کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں یعنی وہی فراخی اور تونگری عطا کرنے والا ہے بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں انعام اور تفضل یعنی اپنے بندوں پر انعام اور فضل کرنے والا ہے۔
اللہ کی ان آیات میں وہی لوگ کج بحثیاں کر رہے ہیں جو جزا کے منکر ہیں۔ تو ملک میں ان کا دندنانا تمہیں کسی مغالطہ میں نہ ڈالے
’اٰیٰتِ اللّٰہِ‘ سے مراد اس کتاب کی آیات ہیں جس کی تنزیل کا ذکر اوپر آیت ۲ میں ہوا ہے۔ یہاں اس کو ’اٰیٰتِ اللّٰہِ‘ سے تعبیر کر کے اس کے دلیل و حجت ہونے کے پہلو کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
’اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘ سے یہاں وہ لوگ مراد ہیں جو اس عذاب کے منکر تھے جس سے قرآن آگاہ کر رہا تھا۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بات گزر چکی ہے کہ اللہ کے رسولوں نے جب اپنی قوموں کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تو انھوں نے اس کو بالکل جھوٹ جانا اور اپنی دنیوی کامیابیوں کو دلیل بنا کر رسول کے اس انذار کی تکذیب کی اور اس کا مذاق اڑایا۔
انذار کی تکذیب کرنے والوں کو تنبیہ: اس آیت میں اسی چیز کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطہ سے مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ آج قرآن کی مخالفت میں جو کج بحثیاں کر رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو اس کے انذار عذاب کے منکر ہیں۔ ان کے کبر پر یہ چیز بہت شاق گزر رہی ہے کہ انھوں نے اس کتاب اور اس کے لانے والے کا انکار کیا تو ان پر کوئی عذاب آ جائے گا۔ وہ یہ بات اپنی رعونت کے سبب سے ماننی نہیں چاہتے اور ظاہری حالات کے اعتبار سے وہ اپنے کو کامیاب و خوش حال دیکھ رہے ہیں اس وجہ سے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن ان کی موجودہ خوش حالی سے کسی کو مغالطہ نہ ہو۔ تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتنی ہی قوموں کو عین ان کے دور عروج و اقبال میں پکڑ لیا اور وہ اس کی پکڑ سے اپنے کو بچا نہ سکیں۔
’فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِی الْبِلَادِ‘ میں خطاب اگرچہ، ظاہر الفاظ کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن اس میں جو زجر و عتاب ہے اس کا رخ قریش کے منکرین کی طرف ہے جو اپنے اقتدار اور اپنی سیادت و امارت کے گھمنڈ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ ان پر کوئی عذاب آنے والا ہے۔ وہ قرآن کی بار بار کی تنبیہ پر حیران تھے کہ بھلا ان پر عذاب کیوں اور کدھر سے آئے گا!
’تَقَلُّبٌ‘ کے معنی چلت پھرت اور آزادانہ آمد و شد کے ہیں۔ موقع و محل سے اس کے اندر غرور و تکبر کا مفہوم بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ ترجمہ میں اس کا لحاظ رکھنے کی میں نے کوشش کی ہے۔
اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑے نکالتے ہیں جو (اُس کی پکڑ کے) منکر ہیں۔ سو اِس ملک میں اِن کی چلت پھرت تم کو کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔
اُسی کتاب کی آیتیں مراد ہیں جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن اِس میں عتاب کا رخ، اگر غور کیجیے تو قریش کے اُنھی مستکبرین کی طرف ہے جو اپنی سیادت و امارت کے غرور میں آپ کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے اور قرآن جب اُنھیں عذاب کی وعید سناتا تھا تو اُس کا مذاق اڑاتے تھے۔
اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگر صرف وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے۔ اِس کے بعد دنیا کے ملکوں میں اُن کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔
جھگڑا کرنے سے مراد ہے کج بحثیاں کرنا۔ میں میخ نکالنا۔ الٹے سیدھے اعتراضات جڑنا۔ سیاق وسباق سے الگ کر کے کوئی ایک لفظ یا فقرہ لے اڑانا اور اس سے طرح طرح کے نکتے پیدا کر کے شبہات و الزامات کی عمارتیں کھڑی کرنا۔ کلام کے اصل مدعا کو نظر انداز کر کے اس کو غلط معنی پہنانا تاکہ آدمی نہ خود بات کو سمجھے نہ دوسروں کو سمجھنے دے۔ یہ طرز اختلاف لازماً صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا اختلاف بد نیتی پر مبنی ہوتا ہے۔ نیک نیت مخالف اگر بحث کرتا بھی ہے تو تحقیق کی غرض سے کرتا ہے اور اصل مسائل زیر بحث پر گفتگو کر کے یہ اطمینان کرنا چاہتا ہے کہ ان مسائل میں اس کا اپنا نقطہ نظر درست ہے یا فریق مخالف کا۔ اس قسم کی بحث حق معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے۔ بخلاف اس کے بد نیت مخالف کا اصل مقصد سمجھنا اور سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ فریق ثانی کو زک دینا اور زچ کرنا چاہتا ہے اور بحث کے میدان میں اس لیے اترنا ہے کہ دوسرے کی بات کسی طرح چلنے نہیں دینی ہے۔ اسی وجہ سے وہ کبھی اصل مسائل کا سامنا نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اطراف ہی میں چھاپے مارتا رہتا ہے۔
” کفر ” کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک کفران نعمت۔ دوسرے انکار حق۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اس کے احسانات کو بھول گئے ہیں اور جنہیں یہ احساس نہیں رہا ہے کہ اسی کی نعمتیں ہیں جن کے بل پر وہ پل رہے ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یہ طرز عمل صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جنہوں نے حق سے منہ موڑ لیا ہے اور اسے نہ ماننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سیاق وسباق کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں کفر کرنے والے سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو۔ اس لیے کہ جو غیر مسلم اسلام کو سمجھنے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ بحث کرے اور تحقیق کی غرض سے وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرے جن کے سمجھنے میں اسے زحمت پیش آرہی ہو، اگرچہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تک اصطلاحاً ہوتا وہ بھی کافر ہی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر وہ بات راست نہیں آتی جس کی اس آیت میں مذمت کی گئی ہے۔
پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ فحوائے کلام سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اللہ عزّوجلّ کی آیات کے مقابلے میں جو لوگ جھگڑالو پن کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں، وہ سزا سے کبھی بچ نہیں سکتے۔ لامحالہ ایک نہ ایک روز ان کی شامت آنی ہے۔ اب اگر تم دیکھ رہے ہو کہ وہ لوگ یہ سب کچھ کر کے بھی خدا کی زمین میں اطمینان سے دندناتے پھر رہے ہیں، اور ان کے کاروبار خوب چمک رہے ہیں، اور ان کی حکومتیں بڑی شان سے چل رہی ہیں، اور وہ خوب داد عیش دے رہے ہیں، تو اس دھوکے میں نہ پڑجاؤ کہ وہ خدا کی پکڑ سے بچ نکلے ہیں، یا خدا کی آیات سے جنگ کوئی کھیل ہے جسے تفریح کے طور پر کھیلا جاسکتا ہے اور اس کا کوئی برا نتیجہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کو کبھی نہ دیکھنا پڑے گا۔ یہ تو دراصل ایک مہلت ہے جو خدا کی طرف سے ان کو مل رہی ہے۔ اس مہلت سے غلط فائدہ اٹھا کر جو لوگ جس قدر زیادہ شرارتیں کرتے ہیں ان کی کشتی اسی قدر زیادہ بھر کر ڈوبتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں پس ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے ۔
اس جھگڑے سے مراد ناجائز اور باطل جھگڑا ہے جس کا مقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید و تغلیظ ہے ورنہ جس جدال بحث ومناظرہ کا مقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو وہ مذموم نہیں نہایت محمود و مستحسن ہے بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے (لَتُبَيِّنُنَّهٗ للنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ ) 3 ۔ ال عمران :187) تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا اسے چھپانا نہیں بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل وبراہین کو چھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پر کائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے البقرہ
یعنی یہ کافر اور مشرک جو تجارت کرتے ہیں اس کے لئے مختلف شہروں میں آتے جاتے ہیں اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مؤاخذہ الٰہی میں آجائیں گے، یہ مہلت ضرور دیئے جا رہے ہیں لیکن انہیں چھوڑا نہیں جائے گا۔
ان سے پہلے نوح کی قوم نے تکذیب کی اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی اور ہر امت نے اپنے رسول پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا اور باطل کے ذریعہ سے کج بحثیاں کیں تاکہ اس سے حق کو پسپا کر دیں تو میں نے ان کو دھر لیا تو دیکھو میرا عذاب کیسا ہوا
مذکورہ وعدے پر تاریخ سے دلیل: یہ اوپر والی بات ’فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِی الْبِلَادِ‘ کی دلیل تاریخ سے پیش کی گئی ہے کہ ان سے (قریش سے) پہلے قوم نوح اور ان کے بعد آنے والی قوموں (اشارہ عاد و ثمود وغیرہ کی طرف ہے) نے بھی اسی طرح اپنے اپنے رسولوں کی تکذیب کی اور ہر قوم نے اپنے رسول کو پکڑ لینا چاہا اور اپنی کٹ حجتیوں سے اس کے حق کو پسپا کرنے کی کوشش کی لیکن قبل اس کے کہ وہ رسول پر ہاتھ ڈالیں اللہ نے انھی کو پکڑ لیا، پھر دیکھو کہ خدا نے ان کے عمل کی پاداش میں ان کو کیسا سخت پکڑا! اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ’شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘ جو بیان فرمائی ہے یہ اس کی شہادت پیش کی گئی ہے اور عذاب کے لیے لفظ ’عقاب‘ جو یہاں آیا ہے اس سے مقصود اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کے متمردین پر جو عذاب بھیجتا ہے وہ ان کے اعمال کا قدرتی ردعمل ہوتا ہے۔ وہ ہرگز ان کے اوپر کوئی ظلم نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ان کے انجام سے عبرت تو پکڑنی چاہیے لیکن وہ ہمدردی کے مستحق ہرگز نہیں ہوتے۔
قریش کو ایک بروقت تنبیہ: اس آیت سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ سورہ اس دور میں نازل ہوئی جب قریش کے لیڈر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہاتھ ڈالنے کے لیے مشورے کرنے لگے تھے۔ قرآن نے ان کو آگاہی دے دی کہ اگر وہ اس قسم کا کوئی اقدام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کے نتائج پر دور تک نگاہ ڈالیں! اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے لیے جو تسلی ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
اِن سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا اور اُن کے بعد کے گروہوں نے بھی۔ ہر گروہ نے اپنے رسول پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا اورباطل کے ہتھیاروں سے جھگڑے کہ اِس سے حق کو پسپا کر دیں تو میں نے اُن کو پکڑ لیا۔ پھر کیسی تھی میری سزا!
چنانچہ تمھارے یہ منکرین بھی اِس کی جسارت کریں گے تو اِسی طرح پکڑے جائیں گے۔
آیت میں اِس کے لیے لفظ ’عِقَابِ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ اِس طرح کے متمردین پر اللہ جو عذاب بھیجتا ہے، وہ درحقیقت اُن کے اعمال کا قدرتی ردعمل ہوتا ہے، اُس میں اُن پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی۔
اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم بھی جھٹلا چکی ہے، اور اُس کے بعد بہت سے دوسرے جتھوں نے بھی یہ کام کیا ہے۔ ہر قوم اپنے رسول پر جھپٹی تاکہ اُسے گرفتار کرے۔ اُن سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ مگر آخر کار میں نے ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔
n/a
قوم نوح نے اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ اور ہر امت نے اپنے رسول کو گرفتار کرلینے کا ارادہ کیا اور باطل کے ذریعے جھوٹے بحث مباحثے کئے تاکہ ان سے حق کو بگاڑ دیں پس میں نے انہیں پکڑ لیا، سو میری طرف سے کیسی سزا ہوئی ۔
تاکہ اسے قید یا قتل کردیں یا سزا دیں۔
یعنی اپنے رسولوں سے انہوں نے جھگڑا کیا، جس سے مقصود حق بات میں کیڑے نکالنا اور اسے کمزور کرنا تھا۔
چنانچہ میں نے ان حامیان باطل کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس تم دیکھ لو ان کے حق میں میرا عذاب کس طرح آیا اور کیسے انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا یا انہیں نشان عبرت بنا دیا۔
اور اسی طرح تیرے رب کی بات ان لوگوں پر پوری ہو چکی ہے جنھوں نے کفر کیا ہے۔ یہ لوگ دوزخ میں پڑنے والے ہیں
’کَلِمَۃُ رَبّ‘ سے وہی ’کلمۃ العذاب‘ مراد ہے جس کا ذکر سورۂ زمر کی آیت ۷۱ میں گزر چکا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ کلی فیصلہ جس سے اس نے ابلیس کے چیلنج کے جواب میں آگاہ فرما دیا تھا کہ جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر شیطان کی پیروی کریں گے، اللہ ان سب کو جہنم میں بھر دے گا۔ فرمایا کہ تیرے رب کا یہ فیصلہ جس طرح پچھلی قوموں پر صادق آیا اسی طرح ان کافروں (کفار قریش) پر بھی صادق آ چکا ہے اور یہ بھی انہی کی طرح جہنم میں پڑنے والے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنا فرض انجام دو۔ ان کے لیے جو انجام مقدر ہو چکا ہے یہ اس سے دوچار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب چونکہ جہنم کا دیباچہ ہے اس وجہ سے عذاب کو تعبیر جہنم سے کیا۔
تیرے پروردگار کی بات اِن منکروں پر بھی اِسی طرح پوری ہو چکی ہے کہ یہ دوزخ میں پڑنے والے ہیں۔
یعنی وہ بات جو روز ازل کہہ دی گئی تھی کہ جو لوگ اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر شیطان کی پیروی کریں گے، اللہ اُن سب کو جہنم میں بھر دے گا۔
اِسی طرح تیرے رب کا یہ فیصلہ بھی اُن سب لوگوں پر چسپاں ہو چکا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں۔
یعنی دنیا میں جو عذاب ان پر آیا وہ ان کی آخری سزا نہ تھی بلکہ اللہ نے یہ فیصلہ بھی ان کے حق میں کردیا ہے کہ ان کو واصل بجہنم ہونا ہے۔ ایک دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح پچھلی قوموں کی شامت آچکی ہے اسی طرح اب جو لوگ کفر کر رہے ہیں ان کے حق میں بھی اللہ کا یہ فیصلہ طے شدہ ہے کہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں۔
اور اسی طرح آپ کے رب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا کہ وہ دوزخی ہیں۔
مقصد اس سے اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں پر تیرے رب کا عذاب ثابت ہوا اور وہ تباہ کردی گئیں اگر یہ اہل مکہ بھی تیری تکذیب اور مخالفت سے باز نہ آئے اور جدل بالباطل کو ترک نہ کیا تو یہ بھی اسی طرح عذاب الہی کی گرفت میں آجائیں گے پھر کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔
جو عرش کو اٹھائے ہوئے اور جو اس کے ارد گرد ہیں وہ اپنے رب کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اس کی حمد کے ساتھ، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں جو ایمان لائے ہیں۔ اے ہمارے رب، تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے تو ان لوگوں کی مغفرت فرما جو توبہ کریں اور تیرے راستہ کی پیروی کریں اور ان کو عذاب جہنم سے بچا
فرشتوں کی حیثیت کی وضاحت: اب یہ فرمایا کہ اگر ان لوگوں کو فرشتوں کی سفارش اور ان کی مدد پر بھروسہ ہے اور ان کے بل پر یہ پیغمبر کے انذار کی تکذیب کر رہے ہیں تو ان کا حال یہ لوگ کان کھول کر سن لیں کہ عام فرشتے تو درکنار، خدا کے جو خاص مقرب فرشتے ہیں یعنی حاملین عرش اور ان کے زمرہ سے تعلق رکھنے والے، وہ بھی برابر خدا کی خشیت سے لرزاں و ترساں اور اس کی حمد و تسبیح میں سرگرم رہتے ہیں۔
’وَیُؤْمِنُونَ بِہٖ‘۔ وہ الوہیت کے کسی زعم میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ خدا کے بندوں کی طرح اس پر ایمان رکھنے والے ہیں۔
’وَیَسْتَغْفِرُوۡنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوۡا‘۔ اور ان لوگوں کے لیے جو خدا پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ برابر استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت دونوں کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ گویا یہی استغفار ان کی سفارش ہے اور یہ اہل ایمان کے لیے مخصوص ہے۔
فرشتوں کی اس خشیت اور اہل ایمان کے لیے ان کے استغفار کا ذکر سابق سورہ کی آخری آیت میں بھی گزر چکا ہے اور سورۂ شوریٰ میں بھی بدیں الفاظ آیا ہے:
تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِہِنَّ وَالْمَلَائِکَۃُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِی الْأَرْضِ (الشوریٰ: ۵)
’’اور خدا کی خشیت و جلال سے قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی اس کی حمد کے ساتھ، تسبیح اور زمین والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔‘‘
فرشتوں کی اس خشیت کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کی نسبت یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ خدا کے اتنے چہیتے اور اس پر اتنا زور و اثر رکھنے والے ہیں کہ اپنے پجاریوں پر وہ کسی حال میں بھی خدا کو ہاتھ ڈالنے نہیں دیں گے وہ اس حقیقت سے باخبر ہو جائیں کہ فرشتے اس قسم کے کسی زعم میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ وہ ہر وقت خدا کے آگے سرفگندہ اور اس کے قہر و غضب سے پناہ مانگتے رہنے والے ہیں۔
فرشتوں کی سفارش کی نوعیت: ’رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَۃً وَعِلْماً فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوا وَاتَّبَعُوۡا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ‘۔ یہ فرشتوں کے استغفار کی وضاحت ہے کہ وہ کوئی بات اپنے رب سے ناز و تدلل کے ساتھ نہیں کرتے بلکہ وہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے علم ہی کے حوالہ کرتے ہیں کہ تیری رحمت بھی ہر چیز پر حاوی ہے اور تیرا علم بھی ہر چیز کو محیط ہے اس وجہ سے تو ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو تیری رحمت اور علم کے تقاضوں کے مطابق ہو گا۔ اس عقیدے کے ساتھ وہ ان لوگوں کے لیے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں جو اپنی غلطیوں سے توبہ کر لیں اور ان کی اصلاح کر کے اللہ کے رستہ کے پیرو بن جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ فرشتے دعا اور سفارش تو برابر کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی دعا اور سفارش ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی جاہلیت کی بدعقیدگی و بدعملی سے توبہ کر کے اللہ کے رستہ کے پیرو بن جائیں نہ کہ ان لوگوں کے لیے جو اس کے رسول اور اس کے دین کے دشمن ہیں۔
(خدا کے فرشتوں کو اُس کے شریک ٹھیرا کر یہ اُن سے اپنے لیے سفارش کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اِنھیں بتاؤ کہ) عرش الٰہی کے حاملین اور جو اُس کے ارد گرد ہیں، وہ تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اُس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت کی دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب، تیری رحمت اور تیراعلم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اِس لیے جو توبہ کریں اور تیرے راستے کی پیروی کریں، تو اُن کی مغفرت فرما اور اُنھیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
یعنی اُسی طرح ایمان رکھتے ہیں، جس طرح خدا کے بندوں کو رکھنا چاہیے۔ وہ الوہیت کے کسی زعم میں مبتلا نہیں ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ فرشتے دعا اور سفارش تو یقیناً کرتے ہیں، لیکن اُنھی کے لیے کرتے ہیں جو ایمان کے ساتھ صحیح راستے پر گامزن ہوں۔ وہ خدا کے شریک ٹھیرانے والوں کی سفارش نہیں کرتے۔
عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: “اے ہمارے رب، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے اُن لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔
یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفار مکہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں، اور ان کے مقابلہ میں اپنی بےبسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو، تمہارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الہیٰ کے حامل فرشتے، اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمہارے حامی ہیں اور تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجائے عرش الٰہی کے حامل اور اس کے گردو پیش رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنہیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے، تمہارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا گیا کہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کردیا ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انہی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کرسکتے تھے، مگر انہوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں، کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انہیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سر اطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کرلیا تو اتنے بڑے اختلاف جنس اور بعد مقام کے باوجود ان کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔
یعنی اپنے بندوں کی کمزوریاں اور لغزشیں اور خطائیں تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، بیشک تو سب کچھ جانتا ہے مگر تیرے علم کی طرح تیرا دامن رحمت بھی تو وسیع ہے، اس لیے ان کی خطاؤں کو جاننے کے باوجود ان غریبوں کو بخش دے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بربنائے رحمت ان سب لوگوں کو بخش دے جن کو بربنائے علم تو جانتا ہے کہ انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہے فی الواقع تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے۔
معاف کرنا اور عذاب دوزخ سے بچا لینا اگرچہ صریحاً لازم و ملزوم ہیں اور ایک بات کا ذکر کردینے کے بعد دوسری بات کہنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ لیکن اس طرز بیان سے دراصل اہل ایمان کے ساتھ فرشتوں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ کسی معاملے میں جس شخص کے دل کو لگی ہوئی ہوتی ہے وہ جب حاکم سے گزارش کرنے کا موقع پا لیتا ہے تو پھر وہ الحاح کے ساتھ ایک ہی درخواست کو بار بار طرح طرح سے پیش کرتا ہے اور ایک بات بس ایک دفعہ عرض کر کے اسکی تسلی نہیں ہوتی۔
یعنی نافرمانی چھوڑ دی ہے، سرکشی سے باز آگئے ہیں اور فرمانبرداری اختیار کر کے زندگی کے اس راستے پر چلنے لگے ہیں جو تو نے خود بتایا ہے۔
عرش کے اٹھانے والے اور اس کے پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔
اس میں ملائکہ مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کی وضاحت ہے یہ گروہ ہے ان فرشتوں کا جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو عرش کے ارد گرد ہیں ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں یعنی نقائص سے اس کی تنزیہ کمالات اور خوبیوں کا اس کیلیے اثبات اور اس کے سامنے عجز وتذلل یعنی ایمان کا اظہار کرتے ہیں دوسرا کام ان کا یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کیلیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے چار ہیں مگر قیامت والے دن ان کی تعداد آٹھ ہوگی۔ ابن کثیر
اور اے ہمارے رب! ان کو ہمیشگی کے ان باغوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ اور ان کو بھی جو ان کے آباء اور ازواج و دّرّیات میں سے جنت کے لائق ٹھہریں۔ بے شک عزیز و حکیم تو ہی ہے
فرشتے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جنت توبہ اور اصلاح سے حاصل ہو گی: ’رَبَّنَا وَأَدْخِلْہُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِیْ وَعَدتَّہُم وَمَنۡ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘ یہ اسی استغفار کی مزید تفصیل ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے جنت کی دعا کرتے ہیں جو توبہ اور اصلاح کر کے اس کا حق پیدا کر لیتے ہیں اور جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ نیز وہ ان کے آباء، ازواج اور ذریات میں سے صرف ان لوگوں کے لیے دعا کرتے ہیں جو توبہ و اصلاح سے اس کے لیے استحقاق پیدا کر لیں۔ مطلب یہ ہے کہ فرشتے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ مجرد کسی کے طفیل اور کسی کے نسب و خاندان کی بنا پر کسی کو جنت حاصل ہونے والی نہیں ہے بلکہ جس کو بھی حاصل ہو گی اس کے استحقاق اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہو گی۔
’إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘۔ یہ بعینہٖ کلمۂ شفاعت سے جو مائدہ کی آیت ۱۲۰ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان سے نقل ہوا ہے۔ وہاں اس کی وضاحت ہو چکی ہے۔ یہ تفویض الی اللہ کا کلمہ ہے یعنی تو جو چاہے کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی تو حکیم بھی ہے اس وجہ سے وہی کرے گا جو عدل و حکمت پر مبنی ہو گا۔ فرشتوں کا یہی استغفار درحقیقت اہل زمین کے لیے سفارش ہے اور اس کی نوعیت یہی ہے جو قرآن نے بیان فرمائی ہے نہ کہ وہ جو جاہلوں نے سمجھی ہے۔
اے ہمارے رب، اور تو اُن کو ہمیشہ رہنے والے باغوں میں داخل کر، جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا تھا اور اُن کو بھی جو اُن کے باپ دادوں اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے صالح ہوں۔ بے شک ،تو ہی زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔
یہ تفویض الی اللہ کا کلمہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تو زبردست ہے، اِس لیے جو چاہے، کر سکتا ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ حکیم بھی ہے، چنانچہ وہی کرے گا جو عدل و حکمت کا تقاضا ہو گا۔
اے ہمارے رب، اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے، اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ پہنچا دے)۔ تو بلا شبہ قادر مطلق اور حکیم ہے۔
اس میں بھی وہی الحاح کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کی طرف اوپر حاشیہ نمبر 8 میں ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ معاف کرنا اور دوزخ سے بچا لینا آپ سے آپ جنت میں داخل کرنے کو مستلزم ہے، اور پھر جس جنت کا اللہ نے خود مومنین سے وعدہ کیا ہے، بظاہر اسی کے لیے مومنین کے حق میں دعا کرنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن اہل ایمان کے لیے فرشتوں کے دل میں جذبۂ خیر خواہی کا اتنا جوش ہے کہ وہ اپنی طرف سے ان کے حق میں کلمہ خیر کہتے ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سب مہربانیاں ان کے ساتھ کرنے والا ہے۔
یعنی ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان کے ماں باپ اور بیویوں اور اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دے۔ یہ وہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بھی ان نعمتوں کے سلسلے میں بیان فرمائی ہے جو جنت میں اہل ایمان کو دی جائیں گی۔ ملاحظہ ہو سورة رعد آیت 23 ۔ اور سورة طور آیت 21 ۔ سورة طور والی آیت میں یہ تصریح بھی ہے کہ اگر ایک شخص جنت میں بلند درجے کا مستحق ہو اور اس کے والدین اور بال بچے اس مرتبے کے مستحق نہ ہوں تو اس کو نیچے لا کر ان کے ساتھ ملانے کے بجائے اللہ تعالیٰ ان کو اٹھا کر اس کے درجے میں لے جائے گا۔
اے ہمارے رب ! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں یقیناً تو غالب و باحکمت ہے۔
یعنی ان سب کو جنت میں جمع فرما دے تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ٰ ہوں اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے۔ ' وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہی کی پیروی ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ کی۔ ملا دیا ہم نے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ہم نے ان کے عملوں میں سے کچھ کم نہیں کیا ' یعنی سب کو جنت میں اس طرح یکساں مرتبہ دے دیا کہ ادنیٰ کو بھی اعلٰی مقام عطا کردیا۔ یہ نہیں کیا کہ اعلٰی مقام میں کمی کر کے انہیں ادنیٰ مقام پر لے آئے، بلکہ اد نیٰ کو اٹھا کر اعلیٰ کردیا اور اس کے عمل کی کمی کو اپنے فضل و کرم سے پورا کردیا (الطور۔ ٢١)
اور ان کو برے نتائج اعمال سے بچا اور جن کو تو نے اس دن برے نتائج سے بچایا تو وہی ہیں جن پر تو نے رحم فرمایا۔ اور یہی درحقیقت بڑی کامیابی ہے
’وَقِہِمُ السَّیِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّیِّئَاتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہُ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘۔ لفظ ’سَیّاٰت‘ یہاں نتائج ’سیّاٰت‘ کے معنی میں ہے۔ عمل اور نتیجہ کے لزوم کو ظاہر کرنے کے لیے بعض اوقات فعل نتیجۂ فعل کے مفہوم میں بولتے ہیں یعنی فرشتے اہل ایمان کے لیے یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے رب، تو ان کو بدیوں کے نتائج سے محفوظ رکھ۔ یعنی ان کے گناہوں کو جھاڑ دے کہ وہ ان کے شر سے محفوظ رہیں۔
’وَمَنْ تَقِ السَّیِّئَاتِ ...... الاٰیۃ‘ فرشتوں کے اس فقرے سے روز حساب و کتاب کی ہولناکی کا اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کی نگاہوں میں اصلی خوش قسمت وہ ہے جس کو اللہ نے اس دن اس کے گناہوں کے نتائج سے محفوظ رکھا۔ ان کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی یہی ہے اور اصل خوش بخت وہی ہے جس نے یہ کامیابی حاصل کی۔
فرشتوں کے اس استغفار کے بیان سے مقصود، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، یہ واضح کرنا ہے کہ فرشتے اہل زمین کے لیے سفارش تو ہر وقت کر رہے ہیں لیکن ان کی سفارش کی نوعیت یہ ہے کہ جو بیان ہوئی ہے نہ کہ وہ جس کے بل پر لوگ آخرت سے نچنت بیٹھے ہیں اور جب ان کو اصل حقیقت کی یاددہانی کی جاتی ہے تو مناظرہ و مجادلہ کے لیے آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔
اور اُن کو، (اے پروردگار)، برے اعمال کے نتائج سے بچا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس دن جن کو تو نے برے اعمال کے نتائج سے بچالیا تو وہی ہیں جن پر تو نے رحم فرمایا۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
اصل الفاظ ہیں:’وَقِھِمُ السَّیِّاٰتِ‘۔ لفظ ’سَیِّاٰت‘ یہاں نتائج سیئات کے معنی میں ہے۔ یہ اُس قاعدے کے مطابق ہے کہ عمل اور نتیجہ عمل کے لزوم کو بیان کرنے کے لیے فعل نتیجۂ فعل کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔
اور بچا دے اُن کو برائیوں سے۔ جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے۔”
” سیّئات ” (برائیوں) کا لفظ تین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تینوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک، غلط عقائد اور بگڑے ہوئے اخلاق اور برے اعمال۔ دوسرے، گمراہی اور اعمال بد کا وبال۔ تیسرے آفات اور مصائب اور اذیتیں خواہ وہ اس دنیا کی ہوں، یا عالم برزخ کی، یا روز قیامت کی۔ فرشتوں کی دعا کا مقصود یہ ہے کہ ان کو ہر اس چیز سے بچا جو ان کے حق میں بری ہو۔
روز قیامت کی برائیوں سے مراد میدان حشر کا ہول، سائے اور ہر قسم کی آسائشوں سے محرومی، محاسبے کی سختی، تمام خلائق کے سامنے زندگی کے راز فاش ہونے کی رسوائی، اور دوسرے وہ تمام ذلتیں اور سختیاں ہیں جن سے وہاں مجرمین کو سابقہ پیش آنے والا ہے۔
انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ حق تو یہ ہے کہ اس دن تو نے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کردی اور بہت بڑی کامیابی ہے۔
سیأت سے مراد یہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاؤں سے یا برائیوں کی جزا سے بچانا۔
یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہوجانا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں ایک تو یہ کہ فرشتے ان کے لیے غائبانہ دعا کرتے ہیں جس کی حدیث میں بڑی فضلیت وارد ہے دوسری یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہوجائیں گے جعلنا اللہ من الذین یلحقھم اللہ بابائھم الصالحین۔
اور جنھوں نے کفر کیا ان کو منادی کی جائے گی کہ خدا کی بیزاری تم سے اس کی نسبت سے کہیں زیادہ رہی ہے جتنی تم کو اس وقت اپنے سے ہے جب کہ تم کو ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے
اصل صورت حال جس سے جھوٹی شفاعت پر تکیہ کرنے والوں کو سابقہ پیش آئے گا: یعنی یہ لوگ تو امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے سفارشی ان کو اللہ کے ہاں اونچے سے اونچے درجے دلوائیں گے لیکن وہاں ان کو منادی کے ذریعہ سے یہ آگاہی دی جائے گی کہ آج جتنا غم و غصہ تم کو اپنی بدبختی و محرومی اور اپنے لیڈروں کی کج اندیشی و ضلالت پر ہے اس سے زیادہ تمہارے حال پر غصہ و غضب خدا کو اس وقت تھا جب کہ تم کو رسول کے ذریعہ سے ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم نہایت رعونت کے ساتھ دعوت کو ٹھکراتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اب اپنی اس رعونت اور خدا کے اس غصہ و غضب کا انجام بھگتو اور اپنی بدبختی پر اپنے سر پیٹو۔ اب یہاں کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ یہ جو کچھ تمہارے سامنے آیا ہے اللہ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد آیا ہے اس وجہ سے تم اسی کے سزاوار ہو۔
’إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَی الْإِیْمَانِ‘ ظرف ہے ’لَمَقْتُ اللّٰہِ أَکْبَرُ‘ کا۔ ’ایمان‘ سے خاص طور پر توحید پر ایمان مراد ہے۔ اس لیے کہ خدا کے ہاں معتبر ایمان وہی ہے جو توحید کے ساتھ ہو۔ سورۂ زمر آیت ۴۵ میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ منکرین آخرت کو سب سے زیادہ چڑ توحید کی دعوت سے ہے۔ یہاں بھی آگے والی آیت میں وضاحت فرما دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ غصہ ان پر اس وجہ سے ہو گا کہ جب ان کو توحید کی دعوت دی جاتی تو اس سے بدکتے اور شرک کو بڑی خوش دلی سے قبول کرتے:
’ذٰلِکُم بِأَنَّہُ إِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِن یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا فَالْحُکْمُ لِلَّہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ‘ (۱۲)
(یہ سب تمہیں اس وجہ سے پیش آیا کہ جب اللہ واحد کی دعوت دی جاتی تو تم اس کا انکار کر دیتے اور جب اس کے شریک ٹھہرائے جاتے تو تم مانتے تو اب تو فیصلہ خدائے بلند و عظیم ہی کے اختیار میں ہے)۔
(یہ سفارش کی امید لگائے بیٹھے ہیں)؟ اِن منکروں کو تو وہاں منادی کی جائے گی کہ اِس وقت جتنی بے زاری تم کو اپنے آپ پر ہے، خدا کی بے زاری تم سے اُس وقت اِس سے کہیں زیادہ رہی ہے، جب تمھیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم (رعونت کے ساتھ) انکار کر دیتے تھے۔
n/a
جن لوگوں نے کفر کیا ہے، قیامت کے روز اُن کو پکار کر کہا جائے گا “آج تمہیں جتنا شدید غصہ اپنے اوپر آ رہا ہے، اللہ تم پر اُس سے زیادہ غضب ناک اُس وقت ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے۔”
یعنی کفار جب قیامت کے روز دیکھیں گے کہ انہوں نے دنیا میں شرک و دہریت، انکار آخرت اور رسولوں کی مخالفت پر اپنے پورے کارنامۂ حیات کی بنیاد رکھ کر کتنی بڑی حماقت کی ہے، اور اس حماقت کی بدولت اب وہ کس انجام بد سے دوچار ہوئے ہیں، تو وہ اپنی انگلیاں چبائیں گے اور جھنجھلا جھنجھلا کر اپنے آپ کو خود کو سنے لگیں گے۔ اس وقت فرشتے ان سے پکار کر کہیں گے کہ آج تو تمہیں اپنے اوپر بڑا غصہ آ رہا ہے، مگر کل جب تمہیں اس انجام سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور دوسرے نیک لوگ راہ راست کی طرف دعوت دیتے تھے اور تم ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کا غضب اس سے زیادہ تم پر بھڑکتا تھا۔
بیشک جنہوں نے کفر کیا انہیں آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونا اس سے بہت زیادہ ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے، جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر کفر کرنے لگتے تھے
مقت سخت ناراضی کو کہتے ہیں اہل کفر جو اپنے کو جہنم کی آگ میں جھلستے دیکھیں گے تو اپنے آپ پر سخت ناراض ہونگے، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ تم پر ناراض ہوتا تھا جتنا تم آج اپنے آپ پر ہو رہے ہو۔ یہ اللہ کی اس ناراضی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔
امین احسن اصلاحی
یہ حٰمٓ ہے
تمام حوامیم نام کی طرح مزاج میں بھی بالکل یکساں ہیں: ’حٰمٓ‘ اس سورہ کا قرآنی نام ہے۔ حروف مقطعات پر مفصل بحث سورۂ بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ بس اتنی بات یہاں یاد رکھیے کہ یہ سورہ اور اس کے بعد کی تمام مکی سورتیں، جو اس گروپ میں شامل ہیں، سب اسی نام سے موسوم بھی ہیں اور سب کا مزاج بھی بالکل یکساں ہے۔