یہ سورہ ’الر‘ ہے۔ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں، پھر خداے حکیم و خبیر کی طرف سے اُن کی تفصیل کی گئی ہے
یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
یعنی پہلے ایجاز، جامعیت اور اختصار کا طریقہ اختیار کیا گیا، پھر اُنھی گٹھے ہوئے، جامع اور مختصر گویا دریا بہ کوزہ جملوں کی تفصیل کر دی گئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس چیز کا حوالہ دینے سے مقصود اُس اہتمام خاص کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا ہے جو اُن کی تعلیم و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس کتاب میں ملحوظ رکھا ہے... آخر میں حکیم و خبیر کی صفات کا حوالہ ہے، اِس لیے کہ خداے حکیم ہی جان سکتا تھا کہ وہ حکمت کے خزانوں کوکس طرح مختصر لفظوں میں بند کرے اور پھر خداے خبیر ہی کی یہ شان تھی کہ وہ کھول کر دکھائے کہ ایک کوزے میں کتنے دریا اور کتنے سمندر بند ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۱۰۷)
ا ل ر۔ فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے۔
” کتاب “ کا ترجمہ یہاں انداز بیان کی مناسبت سے ” فرمان “ کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کتاب اور نوشتے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ حکم اور فرمان شاہی کے معنی میں بھی آتا ہے اور خود قرآن میں متعدد مواقع پر یہ لفظ اسی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔
یعنی اس فرمان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ پکی اور اٹل ہیں۔ خوب جچی ٹلی ہیں۔ نری لفاظی نہیں ہے خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں ہے۔ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو حقیقت سے کم یا زیادہ ہو۔ پھر یہ آیتیں مفصل بھی ہیں، ان میں ایک ایک بات کھول کھول کر واضح طریقے سے ارشاد ہوئی ہے۔ بیان الجھا ہوا، گنجلک اور مبہم نہیں ہے۔ ہر بات کو الگ الگ، صاف صاف سمجھا کر بتایا گیا ہے۔
الر، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے
یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔
پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔
یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔
کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ میں تمہارے لیے اس کی طرف سے ہوشیار کرنے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں
قرآن کا بنیادی پیغام: ’اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ ......... الایۃ‘۔ یہ اس کتاب کا بنیادی پیغام ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ یہی پیغام تمام دین و شریعت کی اصل ہے۔ اللہ کے رسول ہمیشہ اسی پیغام کے ساتھ بشیر و نذیر بن کر آئے۔ انھوں نے اس پیغام کے قبول کر لینے والوں کے فضل و رحمت کی بشارت دی اور جو لوگ اس سے اعراض کریں ان کو ایک ہولناک عذاب سے ڈرایا۔ چنانچہ انذار و بشارت کا یہی فریضہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا تھا۔
کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ میں اُس کی طرف سے تمھیں خبردار کرنے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں
یہ قرآن کا بنیادی پیغام ہے جو انبیا علیہم السلام کی دعوت میں ہر جگہ کم و بیش اِنھی الفاظ میں بیان ہوا ہے۔
کہ تم بندگی نہ کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔
n/a
یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت چاہو، پھر اس کی طرف رجوع کرو وہ تم کو ایک وقت معین تک اچھی طرح بہرہ مند کرے گا اور ہر مستحق فضل کو اپنے فضل سے نوازے گا۔ اور اگر تم منہ موڑو گے تو میں تم پر ایک ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں
بشارت: ’وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ‘ یہ بشارت کا پہلو مذکور ہوا ہے کہ اپنے رب سے مغفرت مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو تو اللہ تعالیٰ ایک مدت معینہ تک اس دنیا میں تم کو اپنی نعمتوں سے بہرہ مند کرے گا اور ہر مستحق فضل کو خاص اپنے فضل سے نوازے گا۔
انذار: ’وَاِنْ تَوَلَّوْا ..... الایۃ‘۔ یہ انذار کا پہلو بیان ہوا ہے کہ اگر اس دعوت سے منہ موڑو گے تو ایک ہولناک دن کے عذاب سے دوچار ہونے کے لیے تیار رہو۔ اس عذاب سے وہ عذاب مراد ہے جو رسول کی تکذیب کرنے والوں پر لازماً آتا ہے۔ رسول کے مان لینے والوں کو زندگی کی مہلت ملتی ہے اور کامیابی نصیب ہوتی ہے جو اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک لوگ صحیح راستہ پر استوار رہتے ہیں لیکن رسول کے مکذبین اتمام حجت کی مہلت گزر جانے پر کسی ہولناک عذاب کے ذریعے سے یک قلم ختم کر دیے جاتے ہیں۔
توبہ کے دو رکن: اس آیت سے توبہ کے متعلق بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کے دو اہم رکن ہیں۔ ایک استغفار دوسرا توبہ۔ استغفار تو یہ ہے کہ آدمی اپنے جرم کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور اس سے آئندہ باز رہنے کا عہد کرے اور توبہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کرے اور اس صحیح راہ کو اختیار کرے جس کی طرف اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اگر آدمی جرم سے باز نہ آئے اور صحیح روش اختیار نہ کرے تو زبان سے لاکھ توبہ توبہ کرے اس کی توبہ محض مذاق ہے۔
اور یہ کہ تم اپنے پروردگار سے معافی چاہو، پھر اُس کی طرف رجوع کرو، وہ تمھیں ایک متعین مدت تک اچھی طرح بہرہ مند کرے گا اور ہر اُس شخص کو جو اُس کے فضل کا مستحق ہے، اپنے فضل سے نوازے گا۔ لیکن اگر منہ پھیرو گے تو میں تمھارے اوپر ایک بڑے ہول ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
یہ اُس انذار و بشارت کی تفصیل کر دی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ بڑے ہول ناک دن کے عذاب سے مراد وہی عذاب ہے جو رسولوں کے منکرین پر اِسی دنیا میں آ جاتا ہے اور وہ یک قلم ختم کر دیے جاتے ہیں۔
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :3
یعنی دنیا میں تمہارے ٹھیرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت تک وہ تم کو بری طرح نہیں بلکہ اچھی طرح رکھے گا۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی۔ اس کی برکتوں سے سرفراز ہوگے۔ خوش حال و فارغ البال رہو گے۔ زندگی میں امن اور چین نصیب ہوگا۔ ذلت و خواری کے ساتھ نہیں بلکہ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے۔ یہی مضمون دوسرے موقع پر اس طرح ارشاد ہوا ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً (النحل۔ آیت ٩٧) ” جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے “۔ اس سے لوگوں کی اس غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جو شیطان نے ہر نادان دنیا پرست آدمی کو کان میں پھونک رکھی ہے کہ خدا ترسی اور راستبازی اور احساس ذمہ داری کا طریقہ اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت بنتی ہو تو بنتی ہو، مگر دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں فاقہ مستی و خستہ حالی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ اس راہ راست کو اختیار کرنے سے تمہاری صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی بنے گی۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں۔ جن کے اخلاق پاکیزہ ہوں، جن کے معاملات درست ہوں، جن پر ہر معاملہ میں بھروسہ کیا جاسکے، جن سے ہر شخص بھلائی کا متوقع ہو، جن سے کسی انسان کو یا کسی قوم کو شر کا اندیشہ نہ ہو۔
اس کے علاوہ ” مَتَاعٌ حَسَنٌ ” کے الفاظ میں ایک اور پہلو ہے جو نگاہ سے اوجھل نہ رہ جانا چاہیے۔ دنیا کا سامان زیست قرآن مجید کی رو سے دو قسم کا ہے۔ ایک وہ سروسامان ہے جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی و خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کردیتے ہیں۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ قرآن مجید اس کو ” مَتَاعٌ غُرُوْرٌ ” کے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔ دوسرا وہ سروسامان ہے جس سے انسان خوشحال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے، خدا کے دیے ہوئے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں خیر و صلاح کی ترقی اور شروفساد کے استیصال کے لیے زیادہ کارگر کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ قرآن کی زبان میں ” مَتَاعٌ حَسَنٌ ” ہے، یعنی ایسا اچھا سامان زندگی جو محض عیش دنیا ہی پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ نتیجہ میں عیش آخرت کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔
یعنی جو شخص اخلاق و اعمال میں جتنا بھی آگے بڑھے گا اللہ اس کو اتنا ہی بڑا درجہ عطا کرے گا۔ اللہ کے ہاں کسی کی خوبی پر پانی نہیں پھیرا جاتا۔ اس کے ہاں جس طرح برائی کی قدر نہیں ہے اسی طرح بھلائی کی ناقدری بھی نہیں ہے۔ اس کی سلطنت کا دستور یہ نہیں ہے کہ
اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں
طوق زریں ہمہ در گردن خرمی بینم !
وہاں تو جو شخص بھی اپنی سیرت و کردار سے اپنے آپ کو جس فضیلت کا مستحق ثابت کر دے گا وہ فضیلت اس کو ضرور دی جائے گی۔
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اس کی طرف متوجہ رہو، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا۔ اور اگر تم لوگ جھٹلاتے رہے تو مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
یہاں اس سامان دنیا کو جس کو قرآن نے عام طور پر ' متاع غرور ' دھوکے کا سامان کہا ہے، یہاں اسے ' متاع حسن ' قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کرلے گا، اس کے لئے یہ متاع غرور ہے، کیونکہ اس کے بعد اسے برے انجام سے دو چار ہونا ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس کے لئے یہ چند روزہ سامان زندگی متاع حسن ہے، کیونکہ اس نے اللہ کے احکام کے مطابق برتا ہے۔
بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔
اللہ ہی کی طرف تم سب کا پلٹنا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
’اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ ...... الایۃ‘۔ اوپر مکذبین رسول کے لیے جس عذاب کا ذکر ہے اس کا تعلق اس دنیا سے ہے۔ اب یہ آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے کہ اس کے بعد تمہاری واپسی خدا کی طرف ہونی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ’’وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ کے ابہام کے اندر جو تخویف ہے وہ کسی تصریح کے اندر نہیں سما سکتی۔
تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
اِس ابہام کے اندر جو تخویف ہے، وہ اگر غور کیجیے تو ہر صراحت سے بڑھ گئی ہے۔
تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
n/a
تم کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
ذرا دیکھو، یہ اپنے سینے موڑتے ہیں کہ اس سے چھپ جائیں۔ آگاہ ہو، یہ اس وقت بھی اس کی نظر میں ہوتے ہیں جب اپنے اوپر کپڑے لپیٹتے ہیں۔ وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ تو سینوں کے بھیدوں سے بھی اچھی طرح باخبر ہے
متکبرین کے تکبر کی تصویر: ’ثنی‘ کے معنی پھیرنے، موڑنے اور لپیٹنے کے ہیں۔ قاعدہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو غرور اور نفرت کے سبب سے سننا نہیں چاہتا تو مونڈھے جھٹک کر اور سینہ موڑ کر وہاں سے چل دیتا ہے۔ اسی حالت کو سورۂ حج آیت ۹ میں ’ثانی عطفہ‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور یہاں ’یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ‘ سے۔ اسی چیز کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ آدمی اپنی چادر سنبھالتا اور اپنے اوپر لپیٹتا اور چل دیتا ہے اس کو ’استغشائے ثیاب‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ مثلاً سورۂ نوح آیت ۷ میں ہے:
’وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَلَہُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا‘
(اور میں نے جب جب ان کو دعوت دی کہ تو ان کی مغفرت فرمائے انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنی چادریں لپیٹ لیں اور ضد کی اور نہایت گھمنڈ کیا)۔
اب اس آیت میں تصویر ہے اس رویے کی جو پیغمبر کے انذار کے جواب میں متکبرین قریش اختیار کرتے تھے کہ غرور سے سینہ موڑ کے وہاں سے چل دیتے اور اس طرح اپنے زعم میں گویا خدا اور اس کے انذار سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے۔ انسان کی حماقتوں میں سے ایک حماقت یہ بھی ہے کہ وہ ایک حقیقت کا مواجہہ کرنے سے گریز کرتا ہے اور سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب وہ حقیقت حقیقت نہیں رہی۔ حالانکہ کسی کے گریز کرنے سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ شترمرغ طوفان کا احساس کر کے اپنا سر ریت میں چھپا لیا کرتا ہے تو اس سے طوفان کا رخ تبدیل نہیں ہو جاتا۔ اسی طرح اگر خدا انذار فرما رہا ہے تو اس سے چھپنے کی یہ تدبیر بالکل ہی احمقانہ ہے کہ اس کو سننے سے گریز کیا جائے۔ آخر خدا سے آدمی کہاں چھپ سکتا ہے، وہ تو اس وقت بھی لوگوں کو دیکھتا ہے جب لوگ اپنے اوپر اپنی چادریں لپیٹتے ہیں۔ وہ تو ظاہر سے بھی واقف ہوتا ہے اور پوشیدہ سے بھی اور سینوں کے تمام اسرار سے بھی۔
اِنھیں دیکھتے ہو، یہ اپنے سینے موڑتے ہیں کہ خدا سے چھپ جائیں۔ خبردار، جب (اِسی مقصد سے) اپنے اوپر چادریں لپیٹتے ہیں، (یہ اُس وقت بھی اُس کی نظر میں ہوتے ہیں)۔ وہ جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہوتے ہیں
سینہ موڑنا اور چادر لپیٹ کر چل دینا، یہ دونوں تعبیریں اُن کے گریز و فرار کی تصویر کے لیے ہیں، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انذار سے بچنے کے لیے آپ کی بات کو نظر انداز کرتے اور جہاں آپ بیٹھے ہوتے، وہاں سے متکبرانہ نکل جانے کی کوشش کرتے تھے۔ فرمایا کہ اِنھیں دیکھو، یہ اُس سے چھپنا چاہتے ہیں جو اِن کے سینوں میں چھپے ہوئے بھیدوں سے بھی واقف ہے۔ اِس سے بڑھ کر حماقت کیا ہو سکتی ہے۔ جس میں یہ تمھارے انذار کے بعد مبتلا ہو گئے ہیں۔
دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔ خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی، وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔
مکے میں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا چرچا ہوا تو بہت سے لوگ وہاں ایسے تھے جو مخالفت میں تو کچھ بہت زیادہ سرگرم نہ تھے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے سخت بیزار تھے۔ ان لوگوں کا رویہ یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کتراتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بات کو سننے کے لیے تیار نہ تھے، کہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹھے دیکھتے تو الٹے پاؤں پھرجاتے، دور سے آپ کو آتے دیکھ لیتے تو رخ بدل دیتے یا کپڑے کی اوٹ میں منہ چھپا لیتے، تاکہ آمنا سامنا نہ ہوجائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں مخاطب کر کے کچھ اپنی باتیں نہ کہنے لگیں۔ اسی قسم کے لوگوں کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے کہ یہ لوگ حق کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور شطر مرغ کی طرح منہ چھپا کر سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقت ہی غائب ہوگئی جس سے انہوں نے منہ چھپایا ہے۔ حالانکہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اور وہ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ یہ بیوقوف اس سے بچنے کے لیے منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔
یاد رکھو وہ لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کئے دیتے ہیں تاکہ اپنی باتیں (اللہ) سے چھپا سکیں یاد رکھو کہ وہ لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں وہ اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ بالیقین وہ دلوں کے اندر کی باتیں جانتا ہے۔
اس کی شان نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے، اس لئے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بخاری (تفسیر سورت ہود) میں بیان کردہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غلبہ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور بیوی سے ہم بستری کے وقت برہنہ ہونا پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، اس لئے ایسے موقع پر وہ شرم گاہ کو چھپانے کے لئے اپنے سینوں کو دوہرا کرلیتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو کپڑوں میں ڈھانپ لیتے تھے، تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور اعلانیہ باتوں کو جانتا ہے۔ مطلب یہ کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو اور افراط بھی صحیح نہیں، اس لئے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر بھی وہ نہیں چھپ سکتے، تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ ؟
اور زمین کے ہر جان دار کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ اور وہ جانتا ہے اس کے مستقر اور مدفن کو۔ ہر چیز ایک واضح رجسٹر میں درج ہے
خدا کا علم ہر چیز کو محیط ہے: ’مُسْتَقَر‘ اور ’مَسْتَوْدَعَ‘ پر انعام آیت ۹۸ کے تحت بحث گزر چکی ہے۔ ’مُسْتَقَر‘ سے مراد وہ ٹھکانا ہے جہاں انسان زندگی کے دن گزارتا ہے اور ’مَسْتَوْدَعَ‘ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ مرنے کے بعد زمین کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اسی مضمون کی مزید وضاحت ہے جو اوپر والی آیت میں گزرا کہ خدا کا علم ہر چیزکا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کوئی اس سے بھاگ یا چھپ نہیں سکتا۔ فرمایا کہ وہ خدا ہی ہے جس کے ہاتھوں ہر جان دار کو روزی مل رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو ہر جان دار کو، وہ جہاں بھی ہو۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر یا سمندروں کی تہوں میں، گھنے جنگلوں میں یا آباد شہروں میں، اس کا مقدر رزق پہنچا رہا ہے کیا اس سے کوئی چیز مخفی ہو سکتی ہے؟ پھر اس میں خدا سے چھپنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے ایک مخفی ملامت بھی ہے کہ حیف ہے ان لوگوں پر جو اس کی بات سننے سے گریز کر رہے ہیں جس کے بخشے ہوئے رزق پر پل رہے ہیں۔ ’یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَمَسْتَوْدَعَھَا‘ وہ ہر ایک کے مستقر کو بھی جانتا ہے اور اس کے مدفن کو بھی جانتا ہے جہاں وہ مرنے کے بعد زمین کی امانت میں دیا جاتا ہے۔ مدفن کے لیے ’مَسْتَوْدَعَ‘ کا لفظ استعمال کرنے میں یہ بلیغ تذکیر ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب وہ مر گیا تو بس فنا ہو گیا۔ وہ فنا نہیں ہو جاتا بلکہ وہ زمین کی امانت میں دے دیا جاتا ہے اور ایک دن آئے گا جب زمین یہ امانت اپنے رب کے حوالے کرے گی۔ ’کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘ ہر چیز ایک واضح رجسٹر میں درج ہے، نہ کوئی چیز درج ہونے سے رہ گئی اور نہ کسی چیز کی تلاش کے لیے کوئی زحمت اٹھانی ہے۔
زمین پر چلنے والا کوئی جان دار نہیں ہے، جس کی روزی اللہ کے ذمے نہ ہو۔ وہ اُس کے ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور اُس جگہ کو بھی جہاں وہ (مرنے کے بعد زمین کے) سپرد کیا جائے گا۔ یہ سب ایک کھلی کتاب میں درج ہے
اِن آیتوں میں انذار کے جو تہ در تہ پہلو ہیں، اُنھیں کھول دیجیے تو جو مضمون سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ خدا سے کیا چھپانا چاہتے ہو؟ اُس کا علم تو ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جو ہر جان دار کو جہاں کہیں بھی وہ ہو، اُس کی روزی پہنچا سکتا ہے، اُس سے تمھاری کوئی چیز کس طرح مخفی ہو سکتی ہے؟ تم بھی اُسی کے رزق پر پلتے ، مگر اُس کی دعوت سے گریز کرتے ہو۔ یاد رکھو، خدا تمھارے ٹھکانوں سے بھی واقف ہے اور مرنے کے بعد جس زمین کے سپرد کیے جاؤ گے، اُسے بھی جانتا ہے۔ ایک دن آئے گا، جب زمین یہ امانت اپنے پروردگار کے حوالے کرے گی اور تم جواب دہی کے لیے پیش کر دیے جاؤ گے۔ اُس کے لیے ہر چیز ایک کھلی کتاب میں درج کر کے محفوظ کر لی گئی ہے۔
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔
یعنی جس خدا کے علم کا حال یہ ہے کہ ایک ایک چڑیا کا گھونسلہ اور ایک ایک کیڑے کا بِل اس کو معلوم ہے اور وہ اسی کی جگہ پر اس کو سامان زیست پہنچا رہا ہے، اور جس کو ہر آن اس کی خبر ہے کہ کونسا جاندار کہاں رہتا ہے اور کہاں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردیتا ہے، اس کے متعلق اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ اس طرح منہ چھپا چھپا کر یا کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر یا آنکھوں پر پردہ ڈال کر تم اس کی پکڑ سے بچ جاؤ گے تو سخت نادان ہو۔ داعی حق سے تم نے منہ چھپا بھی لیا تو آخر اس کا حاصل کیا ہے ؟ کیا خدا سے بھی تم چھپ گئے ؟ کیا خدا یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص تمہیں امر حق سے آگاہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور تم یہ کوشش کر رہے ہو کہ کسی طرح اس کی کوئی بات تمہارے کان میں نہ پڑنے پائے ؟
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔
یعنی وہ کفیل اور ذمے دار ہے۔ زمین پر چلنے والی ہر مخلوق، انسان ہو یا جن، چرند ہو یا پرند، چھوٹی ہو یا بڑی، بحری ہو یا بری۔ ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق وہ خوراک مہیا کرتا ہے۔
مستقر اور مستودع کی تعریف میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک منتہائے سیر (یعنی زمین میں چل پھر کر جہاں رک جائے) مستقر ہے اور جس کو ٹھکانا بنائے وہ مستودع ہے۔ بعض کے نزدیک رحم مادر مستقر اور باپ کی صلب مستودع ہے اور بعض کے نزدیک زندگی میں انسان یا حیوان جہاں رہائش پذیر ہو وہ اس کا مستقر ہے اور جہاں مرنے کے بعد دفن ہو وہ مستودع ہے تفسیر ابن کثیر امام شوکانی کہتے ہیں مستقر سے مراد رحم مادر اور مستودع سے وہ حصہ زمین ہے جس میں دفن ہو اور امام حاکم کی ایک روایت کی بنیاد پر اسی کو ترجیح دی ہے بہرحال جو بھی مطلب لیا جائے آیت کا مفہوم واضح ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کے مستقر ومستودع کا علم ہے اس لیے وہ ہر ایک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے اور ذمے دار ہے اور وہ اپنی ذمے داری پوری کرتا ہے۔
اور وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمہیں جانچے کہ کون اچھے عمل والا ہے اور اگر تم کہتے ہو کہ مرنے کے بعد تم لوگ اٹھائے جاؤ گے تو یہ کافر کہتے ہیں کہ یہ تو بس کھلا ہوا جادو ہے
جزا اور سزا کی دلیل: یہ اس جزا و سزا کا بیان ہے جس سے ان کو ڈرایا جاتا تھا لیکن وہ اس کو تسلیم کر کے اس کے لیے تیاری کرنے کی بجائے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ فرمایا کہ وہی خدا جس کے رزق پر سب پل رہے ہیں وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس سے پہلے اس کی حکومت پانی پر تھی۔ ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں کہ چھ دنوں سے یہ ہمارے دن مراد نہیں ہیں بلکہ خدائی دن مراد ہیں جن میں سے ہر دن ہمارے ہزاروں سال کے برابر ہوتا ہے۔ ہم ان کو ادوار سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا کا چھ ادوار میں درجہ بدرجہ ظہور میں آنا اور اپنے نقطۂ کمال کو پہنچنا اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کا ظہور کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس کے خالق نے ارادہ، اسکیم، ترتیب اور حکمت کے ساتھ اس کو وجود بخشا ہے۔ یہ ارادہ، اسکیم اور ترتیب و حکمت اس بات کی شہادت ہے کہ یہ کوئی بے غایت و بے مقصد کارخانہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم غایت ہے جس کا ظہور میں آنا لازمی ہے۔
’وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ‘۔ ’عرش‘ خدا کی حکومت کی تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کرۂ ارض کی خشکی نمودار ہونے سے پہلے پہلے یہ سارا کرہ مائی تھا اور اللہ کی حکومت اس پر تھی۔ پھر پانی سے خشکی نمودار ہوئی اور زندگی کی مختلف النوع انواع ظہور میں آئیں اور درجہ بدرجہ یہ پورا عالم ہستی آباد ہوا۔ یہی بات تورات میں بھی بیان ہوئی ہے اگرچہ اس کے مترجموں نے مطلب خبط کر دیا ہے۔ کتاب پیدائش کی پہلی ہی آیت میں یہ الفاظ ہیں:
’’اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔‘‘
’لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ‘۔ یعنی یہ سارا اہتمام و انتظام صاف اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ دنیا کوئی بازیچۂ اطفال یا کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا نہیں ہے کہ یوں ہی پیدا ہوئی، یوں ہی تمام ہوجائے۔ انسان جو اس میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے اور جس کے لیے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری چیزیں پیدا کی گئی ہیں کوئی شتر بے مہار نہیں چھوڑا گیا کہ کھائے پیے، عیش کرے اور ایک دن ختم ہو جائے۔ اگر ایسا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دنیا کے خالق نے ایک عبث کام کیا درآنحالیکہ اس دنیا کے ایک ایک ذرہ سے اس کی قدرت، حکمت اور رحمت کی ایسی شہادتیں مل رہی ہیں کہ ان کی موجودگی میں اس کی طرف کسی کار عبث کی نسبت بالکل خلاف عقل ہے۔ اگر اس کی طرف اس طرح کی کوئی نسبت خلاف عقل ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ انسان کو ارادے کی آزادی اور خیر و شر کا امتیاز دے کر یہ امتحان کر رہا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے خیر کی راہ اختیار کرتا ہے یا شر کی اور لازماً وہ اس کے لیے ایک دن اپنے رب کے آگے مسؤل اور جواب دہ ہو گا اور اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا بھگتے گا۔ یاد ہو گا، عالم کے چھ دن میں پیدا کیے جانے کا ذکر سورۂ یونس میں بھی ہوا ہے۔ یہاں اس پر ’لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘ کا اضافہ ہے جس سے وہ حقیقت واضح ہوتی ہے جو اس اہتمام سے اس عالم کے پیدا کیے جانے میں مضمر ہے۔
’وَلَءِنْ قُلْتَ اِنَّکُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ ....... الایۃ‘۔ یعنی یہ بات تو بالکل بدیہی اور نہایت واضح معلوم ہوتی ہے لیکن اگر یہی بات تم ان لوگوں کو سمجھاتے ہو کہ مرنے کے بعد تم حساب کتاب اور جزا و سزا کے لیے اٹھائے جاؤ گے تو یہ تمہاری تقریر کے زور اور تمہارے حسن بیان کو صداقت کی دل نشینی قرار دینے کے بجائے الفاظ و بیان کی جادوگری قرار دیتے ہیں تاکہ یہ اپنے عوام کو دھوکا دے سکیں کہ وہ قرآن اور پیغمبر کی باتوں سے متاثر نہ ہوں۔
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اور (تمھاری پیدایش سے پہلے) اُس کا عرش پانی پر تھا ..... اِس لیے (پیدا کیا ہے) کہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اب (اے پیغمبر)،اگر تم اِن سے کہتے ہو کہ (لوگو)، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے تو یہ منکرین فوراً بول اٹھیں گے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے
یہ اللہ کے ایام ہیں جن کے بارے میں قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ ہمارے حساب سے ہزار سال کے برابر بھی ہوتے ہیں اور پچاس ہزار سال کے برابر بھی۔ مدعا یہ ہے کہ دنیا کا ظہور کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کے ارادے سے، اُس کی اسکیم کے مطابق اور ایک ترتیب و حکمت کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔ چنانچہ یہ بے مقصد نہیں ہو سکتی، اِس کے پیچھے لازماً ایک غایت ہے جو جلد یا بدیر ظہور میں آ کر رہے گی۔
یعنی اِس سے پہلے یہ کرۂ ارض پانی ہی پانی تھا اور خدا کی حکومت بھی اِسی پانی پر قائم تھی۔ زمانۂ رسالت میں لوگ قرآن کے اِس بیان پر اظہار تعجب کر سکتے تھے، مگر دور حاضر کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ دنیا کے بارے میں یہی حقیقت ہے جو قرآن نے صدیوں پہلے بیان کر دی تھی۔
یہ اُس غایت کا بیان ہے جس کے لیے دنیا اہتمام کے ساتھ اور چھ دن میں پیدا کی گئی ہے جو ہمارے حساب سے ہزاروں لاکھوں سال کے برابر ہو سکتے ہیں۔ انسان کو ارادے کی آزادی اور خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت اِسی مقصد سے دی گئی ہے۔ اُس کا خالق دیکھ رہا ہے کہ وہ خیر کا راستہ اختیار کرتا ہے یا شر کا۔ اُسے بتا دیا گیا ہے کہ اپنے اِس انتخاب کے لیے وہ ایک دن جواب دہ ٹھیرایا جائے گا اور اِس کی جزا یا سزا پائے گا۔
یعنی زبان و بیان کی جادوگری ہے، اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اب اگر اے محمدؐ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو گری ہے۔
جملہ معترضہ ہے جو غالبًا لوگوں کے اس سوال کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان و زمین اگر پہلے نہ تھے اور بعد میں پیدا کیے گئے تو پہلے کیا تھا ؟ اس سوال کو یہاں نقل کیے بغیر اس کا جواب مختصر سے فقرے میں دے دیا گیا ہے کہ پہلے پانی تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس پانی سے مراد کیا ہے۔ یہی پانی جسے ہم اس نام سے جانتے ہیں ؟ یا یہ لفظ محض استعارے کے طور پر مادے کی اس مائع (Fluid) حالت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ صورت میں ڈھالے جانے سے پہلے تھی ؟ رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی۔
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اس لیے پیدا کیا کہ تم کو (یعنی انسان کو) پیدا کرنا مقصود تھا، اور تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم پر اخلاقی ذمہ داری کا بار ڈالا جائے، تم کو خلافت کے اختیارات سپرد کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ تم میں سے کون ان اختیارات کو اور اس اخلاقی ذمہ داری کے بوجھ کو کس طرح سنبھالتا ہے۔ اگر اس تخلیق کی تہہ میں یہ مقصد نہ ہوتا، اگر اختیارات کو تفویض کے باوجود کسی امتحان کا، کسی محاسبہ اور باز پرس کا اور کسی جزا و سزا کا کوئی سوال نہ ہوتا، اور اگر انسان کو اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونے کے باوجود یونہی بےنتیجہ مر کر مٹی ہوجانا ہی ہوتا، تو پھر یہ سارا کار تخلیق بالکل ایک مہمل کھیل تھا اور اس تمام ہنگامہ وجود کی کوئی حیثیت ایک فعل عبث کے سوا نہ تھی۔
یعنی ان لوگوں کی نادانی کا یہ حال ہے کہ کائنات کو ایک کھلنڈرے کا گھروندا اور اپنے آپ کو اس کے جی بہلانے کا کھلونا سمجھے بیٹھے ہیں اور اس احمقانہ تصور میں اتنے مگن ہیں کہ جب تم انہیں اس کارگاہ حیات کا سنجیدہ مقصد، اور خود ان کے وجود کی معقول غرض وغایت سمجھاتے ہو تو قہقہہ لگاتے ہیں اور تم پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ شخص تو جادو کی سی باتیں کرتا ہے۔
اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے۔
یہی بات صحیح احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ' اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل، مخلوقات کی تقدیر لکھی ' اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔ صحیح مسلم
یعنی یہ آسمان و زمین یوں ہی عبث اور بلا مقصد نہیں بنائے، بلکہ اس سے مقصود انسانوں (اور جنوں) کی آزمائش ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔
ملحوظہ : اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمایا کون زیادہ اچھے عمل کرتا ہے۔ اس لیے کہ اچھا عمل وہ ہوتا ہے جو صرف رضائے الہی کی خاطر ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی فوت ہوجائے گی تو وہ اچھا عمل نہیں رہے گا، پھر وہ چاہے کتنا بھی زیادہ ہو، اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
اور اگر ہم ان سے عذاب کو کچھ مدت کے لیے ٹالے دیتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ اس کو کیا چیز روکے ہوئے ہے! آگاہ کہ جس دن وہ ان پر آ دھمکے گا تو ان سے ٹالا نہ جا سکے گا اور جس چیز کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہ ان کو آ گھیرے گی
لفظ ’امۃ‘ کا مفہوم: ’وَلَءِنْ اَخَّرْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ اِآٰی اُمَّۃٍ ......الایہ‘ لفظ ’امت‘ یہاں ٹھیک اپنے لغوی مفہوم یعنی مدت کے معنی میں ہے جس طرح سورۂ یوسف میں ہے:
’وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْھُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ‘۔(۴۵)
(اور کہا اس نے جس نے ان دونوں میں سے رہائی پالی تھی اور ایک مدت کے بعد اس نے یاد کیا)۔
کفار کے استہزاء کا جواب: اوپر کی آیت میں ان کے اس مذاق کا ذکر ہے جو مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی خبر کا وہ اڑا رہے تھے۔ اس آیت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہی مذاق کی روش ان کی اس عذاب کے بارے میں بھی ہے جس سے اس دنیا میں ان کو لازماً دوچار ہونا ہے اگر انھوں نے رسول کی تکذیب کر دی۔ فرمایا کہ جس عذاب کی ان کو خبر دی جا رہی ہے اگر کچھ مدت کے لیے ہم اس کو ٹال رہے ہیں تو یہ ہماری عنایت ہے کہ ہم ان کو توبہ و اصلاح کی مہلت دے رہے ہیں لیکن یہ اپنی بدبختی سے اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک دھونس ہے اور پیغمبر کا مذاق اڑاتے ہیں کہ عذاب آنے والا ہے تو آ کیوں نہیں جاتا، کس چیز نے اس کو باندھ رکھا ہے۔ فرمایا کہ ان کی اس جسارت اور بدبختی پر افسوس ہے۔ جس دن وہ عذاب ظاہر ہو گا، کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ وہ اس کو ان سے ہٹا سکے، نہ یہ خود اس کے رخ کو موڑ سکیں گے اور نہ ان کے شرکاء اور شفعاء اس وقت ان کی کچھ مدد کر سکیں گے، وہ عذاب ان کو اپنے گرداب میں لے لے گا جس کو یہ دل لگی سمجھتے اور جس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
اور اگر کچھ مدت کے لیے ہم اِن سے عذاب کو ٹال دیں گے تو ضرور پوچھیں گے کہ اِسے کیا چیز روکے ہوئے ہے؟سنو، جس دن وہ اِن کے اوپر آ پڑے گا تو اِن سے پھیرا نہ جاسکے گا اور وہی چیز اِن کو آ گھیرے گی جس کا مذاق اڑا رہے ہیں
یعنی اُس عذاب کو جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں لازماً آتا ہے۔
اور اگر ہم ایک خاص مدت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اُسے روک رکھا ہے؟ سنو! جس روز اُس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔
n/a
اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چنی مدت تک کے لئے پیچھے ڈال دیں تو یہ ضرور پکار اٹھیں گے کہ عذاب کو کون سی چیز روکے ہوئے ہے، سنو ! جس دن وہ ان کے پاس آئے گا پھر ان سے ٹلنے والا نہیں پھر تو جس چیز کی ہنسی اڑا رہے تھے وہ انھیں گھیر لے گی
یہاں استعجال (جلد طلب کرنے) کو استہزا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ وہ استعجال، بطور اسہزا ہی ہوتا تھا بہرحال مقصود یہ سمجھانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تاخیر پر انسان کو غفلت نہیں کرنی چاہیے اس کی گرفت کسی بھی وقت ہو سکتی ہے
اور اگر ہم انسان کو کسی فضل سے نوازتے ہیں پھر اس سے اس کو محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس اور ناشکرا بن جاتا ہے
ایک خاص اسلوب کلام: ’وَلَءِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ ...... اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ‘۔ یہاں لفظ انسان اگرچہ عام ہے لیکن اس سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر سے آ رہا ہے۔ ضدی اور جھگڑالو مخاطب سے جب منہ پھیر لینا مقصود ہوتا ہے تو بسا اوقات یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اس کو خطاب کر کے یا اس کی طرف اشارہ کر کے بات کہنے کے بجائے ایک کلیہ کے اسلوب میں بات کہہ دی جاتی ہے جس سے اعراض کا مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے اور بات بھی ایک کلیہ کا جامہ اختیار کر لینے کی وجہ سے زیادہ مؤثر اور جان دار ہو جاتی ہے۔ یہی اسلوب تقریر یہاں اختیار کیا گیا ہے اور اس کی نہایت بلیغ مثالیں آگے آئیں گی۔ اس اسلوب کے فوائد پر ان شاء اللہ ہم کسی موزوں مقام پر بحث کریں گے۔
پیغمبرؐ کو صبر کی تلقین: مطلب یہ ہے کہ اس وقت اللہ نے ان کو جو اپنے رزق و فضل سے نواز رکھا ہے تو یہ اس کے شکر گزار ہونے کے بجائے بدمستی میں اس کی تذکیر و تنبیہ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کو عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو ڈرنے کے بجائے ڈھیٹ ہو کر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کی اس حالت پر صبر کرو اور ان کو نظر انداز کرو۔ عام طور پر لوگوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ جب اللہ ان کو اپنے فضل سے نوازتا ہے تو وہ اس کے شکرگزار ہونے کے بجائے اکڑتے اور دندناتے ہیں اور جب ذرا خدا کی گرفت میں آ جاتے ہیں تو فوراً دل شکستہ اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ آج ان کے طنطنہ اور غرہ کا یہ حال ہے کہ اپنے آگے کسی کو خاطر ہی میں نہیں لا رہے ہیں لیکن اس طنطنہ کی کوئی بنیاد نہیں ہے، قدرت ذرا سا جھنجھوڑ دے تو دیکھو کیسے بلبلا اٹھتے ہیں۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اُس کو اپنے کسی فضل سے نوازتے ہیں، پھر اُس سے اُسے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور نا شکری کرنے لگتا ہے
n/a
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔
n/a
اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی ناامید اور بڑا ناشکرا بن جاتا ہے
انسانوں میں عام طور پر جو مذموم صفات پائی جاتی ہیں اس میں اور اگلی آیت میں ان کا بیان ہے۔ ناامیدی کا تعلق مستقبل سے ہے اور ناشکری کا ماضی و حال سے۔
اور اگر کسی تکلیف کے بعد، جواس کو پہنچی اس کو نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے میری مصیبتیں دفع ہوئیں اور وہ اکڑنے والا اور شیخی بگھارنے والا بن جاتا ہے
ایک خاص اسلوب کلام: ’وَلَءِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ ...... اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ‘۔ یہاں لفظ انسان اگرچہ عام ہے لیکن اس سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر سے آ رہا ہے۔ ضدی اور جھگڑالو مخاطب سے جب منہ پھیر لینا مقصود ہوتا ہے تو بسا اوقات یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اس کو خطاب کر کے یا اس کی طرف اشارہ کر کے بات کہنے کے بجائے ایک کلیہ کے اسلوب میں بات کہہ دی جاتی ہے جس سے اعراض کا مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے اور بات بھی ایک کلیہ کا جامہ اختیار کر لینے کی وجہ سے زیادہ مؤثر اور جان دار ہو جاتی ہے۔ یہی اسلوب تقریر یہاں اختیار کیا گیا ہے اور اس کی نہایت بلیغ مثالیں آگے آئیں گی۔ اس اسلوب کے فوائد پر ان شاء اللہ ہم کسی موزوں مقام پر بحث کریں گے۔
پیغمبرؐ کو صبر کی تلقین: مطلب یہ ہے کہ اس وقت اللہ نے ان کو جو اپنے رزق و فضل سے نواز رکھا ہے تو یہ اس کے شکر گزار ہونے کے بجائے بدمستی میں اس کی تذکیر و تنبیہ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کو عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو ڈرنے کے بجائے ڈھیٹ ہو کر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کی اس حالت پر صبر کرو اور ان کو نظر انداز کرو۔ عام طور پر لوگوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ جب اللہ ان کو اپنے فضل سے نوازتا ہے تو وہ اس کے شکرگزار ہونے کے بجائے اکڑتے اور دندناتے ہیں اور جب ذرا خدا کی گرفت میں آ جاتے ہیں تو فوراً دل شکستہ اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ آج ان کے طنطنہ اور غرہ کا یہ حال ہے کہ اپنے آگے کسی کو خاطر ہی میں نہیں لا رہے ہیں لیکن اس طنطنہ کی کوئی بنیاد نہیں ہے، قدرت ذرا سا جھنجھوڑ دے تو دیکھو کیسے بلبلا اٹھتے ہیں۔
اور اگر کسی تکلیف کے بعد جو اُس کو پہنچی تھی، ہم اُسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری مصیبتیں مجھ سے دور ہوئیں۔ (پھر) وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے والا بن جاتا ہے
یہ بات اگرچہ لفظ ’انسان‘ کے ساتھ کہی گئی ہے، لیکن مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر سے آ رہا ہے۔ اُن سے منہ پھیر کر ایک کلیے کے انداز میں بتایا ہے کہ یہ معاملہ اِنھی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ انسان کی بدقسمتی ہے کہ عام طور پر وہ یہی کرتا ہے۔
اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔
یہ انسان کے چھچورے پن، سطح بینی، اور قلت تدبر کا حال ہے جس کا مشاہدہ ہر وقت زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور جس کو عام طور پر لوگ اپنے نفس کا حساب لے کر خود اپنے اندر بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ آج خوشحال اور زور آور ہیں تو اکڑ رہے ہیں اور فخر کر رہے ہیں۔ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں بھی آسکتی ہے۔ کل کسی مصیبت کے پھیر میں آگئے تو بلبلا اٹھے، حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے، اور بہت تلملائے تو خدا کو گالیاں دے کر اور اس کی خدائی پر طعن کر کے غم غلط کرنے لگے۔ پھر جب برا وقت گزر گیا اور بھلے دن آئے تو وہی اکڑ، وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہوگئیں۔
انسان کی اس ذلیل صفت کا یہاں کیا ذکر ہو رہا ہے ؟ اس کی غرض ایک نہایت لطیف انداز میں لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ آج اطمینان کے ماحول میں جب ہمارا پیغبر خبردار کرتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کرتے رہو گے تو تم پر عذاب آئے گا، اور تم اس کی یہ بات سن کر ایک زور کا ٹھٹھا مار تے ہو، اور کہتے ہو کہ ” دیوانے دیکھتا نہیں کہ ہم پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے، ہر طرف ہماری بڑائی کے پھریرے اڑ رہے ہیں، اس وقت تجھے دن دہاڑے یہ ڈراؤنا خواب کیسے نظر آگیا کہ کوئی عذاب ہم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے “ ، تو دراصل پیغمبر کی نصیحت کے جواب میں تمہارا یہ ٹھٹھا اسی ذلیل صفت کا ایک ذلیل تر مظاہرہ ہے۔ خدا تو تمہاری گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود محض اپنے رحم و کرم سے تمہاری سزا میں تاخیر کر رہا ہے تاکہ تم کسی طرح سنبھل جاؤ، مگر تم اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری خوش حالی کیسی پائیدار بنیادوں پر قائم ہے اور ہمارا یہ چمن کیسا سدا بہار ہے کہ اس پر خزاں آنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں۔
اور اگر ہم اسے کوئی مزہ چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں یقیناً وہ بڑا اترانے والا شیخی خور ہے
یعنی سمجھتا ہے کہ سختیوں کا دور گزر گیا، اب اسے کوئی تکلیف نہیں آئے گی۔ امۃ کے مختلف مفہوم : آیت نمبر ٨ میں امۃ کا لفظ آیا ہے۔ یہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ یہ ام سے مشتق ہے، جس کے معنی قصد کے ہیں۔ یہاں اس کے معنی اس وقت اور مدت کے ہیں جو نزول عذاب کے لیے مقصود ہے۔ (فتح القدیر) سورة یوسف کی آیت ٤٥ (واد کر بعد امۃ) میں یہی مفہوم ہے اس کے علاوہ جن معنوں میں اس کا استعمال ہوا ہے، ان میں ایک امام وپیشوا ہے۔ جیسے (ان ابراہیم کان امۃ) ملت اور دین ہے، جیسے انا وجدنا آباءنا علی امۃ) جماعت اور طائفہ ہے۔ جیسے (ولما ورد ماء امدین وجد علیہ امۃ من الناس) ومن قوم موسیٰ امۃ وغیرہا۔ وہ مخصوص گروہ یا قوم ہے جس کی طرف کوئی رسول مبعوث ہو۔ ولکل امۃ رسول اس کو امت دعوت بھی کہتے ہیں اور اسی طرح پیغمبر پر ایمان لانے والوں کو بھی امت یا امت اتباع یا امت اجابت کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر)
یعنی جو کچھ اس کے پاس ہے، اس پر اتراتا اور دوسروں پر فخر و غرور کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم ان صفات مذمومہ سے اہل ایمان اور صاحب اعمال صالحہ مستشنٰی ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے۔
امین احسن اصلاحی
یہ الٓرٰ ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی
آیات قرآن میں اجمال اور تفصیل: ’الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیَاتُہٗ .....الایۃ‘۔ ’الٓرٰ‘ اس سورہ کا قرآنی نام ہے۔ یہی نام پچھلی سورہ کا بھی ہے اور یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ عمود و مضمون کے اعتبار سے دونوں سورتیں باہم ملتی جلتی ہیں چنانچہ آگے آپ دیکھیں گے کہ ان دونوں میں فرق صرف اجمال و تفصیل کا ہے۔ پچھلی سورہ میں جو پہلو مجمل رہ گئے تھے وہ اس میں وضاحت سے سامنے آ گئے ہیں۔ یہ فرق یوں تو ہر پہلو میں نمایاں ہے لیکن خاص طور پر واقعات کے بیان میں یہ فرق بہت زیادہ نظر آئے گا۔ اجمال کے بعد تفصیل کا یہ طریقہ، جو قرآن نے اختیار کیا ہے، یہ صرف تنوع کی خاطر نہیں اختیار کیا ہے بلکہ تعلیم و تربیت اور تبلیغ و دعوت کے نقطۂ نظر سے یہی طریقہ مفید اور بابرکت ہے۔
’احکام‘ کا مفہوم: ’اِحکام‘ کے معنی کسی چیز کو اچھی طرح گانٹھنے اور مضبوط کرنے کے ہیں۔ کپڑا خوب ٹھونک کر گف بُنا جائے تو یہ لفظ اس کے لیے بھی آئے گا۔ قرآنی آیات کے لیے اس لفظ کے استعمال سے مقصود اس حقیقت کو ظاہر کرنا ہے کہ قرآن کی تعلیمات پہلے گٹھے ہوئے، مختصر اور جامع جملوں کی شکل میں نازل ہوئیں، پھر بالتدریج وہ واضح اور مفصل ہوتی گئیں۔ چنانچہ مکہ کے ابتدائی دور میں جو سورتیں نازل ہوئیں وہ اختصار، جامعیت اور اعجاز بیان کا کامل نمونہ ہیں۔ دین کی بنیادی باتیں مختصر گٹھے ہوئے جملوں میں دریا بکوزہ کی مثال ہیں۔ بعد میں آہستہ آہستہ ان پر تفصیل کا رنگ آیا یہاں تک کہ مدنی دور میں آ کر دین کی وہی بنیادی باتیں ایک جامع اور ہمہ گیر نظام زندگی کی شکل میں نمایاں ہو گئیں۔ اس چیز کا حوالہ دینے سے مقصود اس اہتمام خاص کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا ہے جو ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں ملحوظ رکھا ہے۔ یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ تورات کے معاملے میں ترتیب و تدریج اور احکام و تفصیل کا یہ اہتمام نہیں ہوا بلکہ اس کا بیشتر حصہ بیک دفعہ نازل ہو گیا۔ آخر میں ’حکیم و خبیر‘ کی صفات کا حوالہ ہے اس لیے کہ خدائے حکیم ہی جان سکتا تھا کہ وہ حکمت کے خزانوں کو کس طرح مختصر لفظوں میں بند کرے اور پھر خدائے خبیر ہی کی یہ شان تھی کہ وہ کھول کر دکھائے کہ ایک کوزے میں کتنے دریا اور کتنے سمندر بند ہیں۔