یہ سورۂ ’الٓرٰ‘ ہے۔ یہ کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، اِس لیے کہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آؤ،اُن کے پروردگار کے اذن سے، اُس خدا کے راستے کی طرف جو زبردست ہے، اپنی ذات میں آپ محمود ہے
اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
اصل میں ’ظُلُمٰت‘ اور ’نُوْر‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’نُوْر‘ واحد اور ’ظُلُمٰت‘ جمع ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ گمراہی ہزارراستوں سے آتی ہے، مگر ہدایت کا راستہ ایک ہی ہے جسے قرآن صراط مستقیم سے تعبیر کرتا ہے۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ ہدایت کی توفیق خدا کے اذن سے ملتی ہے اور یہ اذن اُنھی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے آپ کو اِس کا اہل ثابت کر دیتے ہیں۔
چنانچہ وہی سزاوار ہے کہ اُس سے ڈرا جائے اور وہی حق دار ہے کہ اُس کی حمد کی جائے اور اُس سے امیدیں باندھی جائیں۔
ا۔ ل۔ ر۔ اے محمدؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔
یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطان راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا ہی نور علم سے منور ہو۔ بخلاف اس کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا، چاہے وہ ایک ان پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو۔
پھر یہ جو فرمایا کہ تم ان کو اپنے رب کے اذن یا اس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ، تو اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی، مبلغ، خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، راہ راست پیش کردینے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔ کسی کو اس راستہ پر لے آنا اس کے بس میں نہیں ہے۔ اس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اس کے اذن پر ہے۔ اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے، ورنہ پیغمبر جیسا کام مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا۔ رہی اللہ کی توفیق، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی توفیق اسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے پاک ہو، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ ہو، کھلی آنکھوں سے دیکھے، کھلے کانوں سے سنے، صاف دماغ سے سوچے، اور معقول بات کو بےلاگ طریقہ سے مانے۔
حمید کا لفظ اگرچہ محمود ہی کا ہم معنی ہے، مگر دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے۔ محمود کسی شخص کو اسی وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو۔ مگر حمید آپ سے حمد کا مستحق ہے، خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے۔ اس لفظ کا پورا مفہوم ستودہ صفات، سزاوار حمد اور مستحق تعریف جیسے الفاظ سے ادا نہیں ہوسکتا، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اپنی ذات میں آپ محمود کیا ہے۔
یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ان کے پروردگار کے حکم سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔
جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا ' (هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 57 ۔ الحدید :9) سورة الحدید۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے ' (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2 ۔ البقرۃ :257) ۔ اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔
یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کرلیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کرلے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کرسکے۔
اس اللہ کے راستہ کی طرف جو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا مالک ہے اور کافروں کے لیے ایک عذاب شدید کی تباہی ہے
دنیوی مفادات ہدایت کے لیے حجاب: یعنی اس خدا کے راستہ کی طرف جو تنہا آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ آج اپنے مزعومہ شریکوں کے اعتماد پر اس صحیفہ ہدایت کا انکار کر رہے ہیں وہ اپنے لیے ایک عذاب شدید کی تباہی کو دعوت دے رہے ہیں۔
وہی اللہ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اُسی کا ہے۔ (سو) اُن کے لیے جو (اِس کتاب کے) منکر ہیں، ایک عذاب شدید کی تباہی ہے۔
n/a
اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے۔ اور سخت تباہ کن سزا ہے قبول حق سے انکار کرنے والوں کے لیے۔
n/a
اس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی خرابی ہے۔
ان کے لیے جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں ہیں
’الَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ‘ یہ ان کے اصل سبب انکار سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ باتیں تو وہ جو چاہیں بنا لیں لیکن اصل چیز جو ان کے اور اس صحیفۂ ہدایت کے درمیان حجاب بنی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ آخرت کی خاطر اپنے دنیوی مفادات قربان کرنے کو تیار نہیں ہیں، ’وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ چنانچہ وہ خود بھی اللہ کی راہ سے روگردان ہیں اور دوسروں کو بھی، جہاں تک ان کا زور چلتا ہے، اس سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا‘ یعنی خدائے عزیز و حمید کی طرف لے جانے والی سیدھی راہ کو کج کر کے اپنے مزعومہ معبودوں کی طرف موڑ رہے ہیں اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خدا تک اگر پہنچا جا سکتا ہے تو انہی پرپیچ پگ ڈنڈیوں سے ہو کر پہنچا جا سکتا ہے۔ ’اُولٰٓءِکَ فِیْ ضَلٰلٍم بَعِیْدٍ‘ یعنی اپنی ان حرکتوں کے سبب سے وہ اصل شاہراہ سے بھٹک کر بہت دور نکل گئے ہیں۔
(اُن کے لیے) جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور خدا کے راستے سے روکتے ہیں اور اُس میں ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں ہیں
یعنی اُس کو خدا کے بجاے اپنے ٹھیراے ہوئے معبودوں کی طرف موڑ دینا چاہتے ہیں۔
جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق) ٹیٹرھا ہو جائے۔ یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔
یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے، آخرت کی پروا نہیں ہے۔ جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان، کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ، بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کرسکتے۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کرلیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کرچکے ہیں کہ جہاں جہاں اس کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرائے گا وہاں اسے قربان کرتے چلے جائیں گے۔
یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہو کر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین ان کی مرضی کا تابع ہو کر رہے۔ ان کے ہر خیال، ہر نظریے اور ہر وہم و گمان کو اپنے عقائد میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظام فکر میں نہ رہنے دے جو ان کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو۔ ان کی ہر رسم، ہر عادت، اور ہر خصلت کو سند جواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا ان سے مطالبہ نہ کرے جو انہیں پسند نہ ہو۔ وہ ان کا ہاتھ بندھا غلام ہو کہ جدھر جدھر یہ اپنے شیطان نفس کے اتباع میں مڑیں ادھر وہ بھی جائے، اور کہیں نہ تو وہ انہیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انہیں اپنے راستہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرے۔ وہ اللہ کی بات صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں جبکہ وہ اس طرح کا دین ان کے لیے بھیجے۔
جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں ۔
اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے میں میکھ نکالتے اور انھیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔
٣۔ ٢ اس لئے کہ ان میں مزکورہ متعدد خرابیاں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔
اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان پر اچھی طرح واضح کر دے۔ پس اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ عزیز و حکیم ہے
ہدایت و ضلالت کے باب میں سنت الٰہی: یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کا اظہار فرمایا ہے جو اس صحیفۂ ہدایت کو عربی میں اور رسولؐ کو خود ان کی قوم کے اندر سے مبعوث فرما کر اس نے ان کے اوپر کیا ہے اور مقصود اس سے ان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ انھیں اللہ کی اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے کہ اس نے انہی کے اندر سے ایک فرد کے ذریعہ سے انہی کی زبان میں اپنا صحیفہ اتارا تاکہ وہ اللہ کی ہدایت کو لوگوں پر اچھی طرح واضح کر دے۔ ’فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘۔ یہ ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت واضح فرما دی ہے کہ وہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ تمہارا کام اللہ کی باتوں کو اچھی طرح واضح کر دینا ہے وہ تم نے کر دیا ہے اور کر رہے ہو، رہا لوگوں کا ایمان لانا یا نہ لانا تو یہ خدا کی مشیت پر منحصر ہے اور خدا عزیز و حکیم ہے۔ یعنی اس کی ہر مشیت اس کی حکمت کے ساتھ ہے۔ جو لوگ اس کی حکمت کے تحت ہدایت پانے کے مستحق ٹھہریں گے وہ ہدایت پائیں گے اور جو لوگ اس کے مستحق نہیں ٹھہریں گے وہ اس سے محروم رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے اندر جو صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں اگر ایک شخص ان سے فائدہ اٹھاتا ہے تو وہ مزید توفیق کا سزاوار قرار پاتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کی قدر نہیں کرتا تو مزید پانا تو الگ رہا جو اس کو دی گئی ہوتی ہیں وہ بھی اس سے سلب ہو جاتی ہیں۔ اس سنت الٰہی کی وضاحت ہم ایک سے زیادہ مقامات میں کر چکے ہیں۔
(اِن کے لیے یہ کتاب اِن کی زبان میں اتاری گئی ہے) اور (ہمارا طریقہ یہی ہے کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اُس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے، اِس لیے کہ وہ اُنھیں اچھی طرح کھول کر سمجھا دے۔ پھر اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے
یعنی اپنے اِس قانون کے مطابق کہ جو ہدایت کے مستحق ہیں، اُنھیں ہدایت دی جائے اور جو گمراہی چاہتے ہیں، اُنھیں اُسی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، وہ بالا دست اور حکیم ہے۔
اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی جس قوم میں بھیجا ہے اس پر اسی قوم کی زبان میں اپنا کلام نازل کیا تاکہ وہ قوم اسے اچھی طرح سمجھے، اور اسے یہ عذر پیش کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ آپ کی بھیجی ہوئی تعلیم تو ہماری سمجھ ہی میں نہ آتی تھی پھر ہم اس پر ایمان کیسے لاتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض معجزہ دکھانے کی خاطر کبھی یہ نہیں کیا کہ رسول تو بھیجے عرب میں اور وہ کلام سنائے چینی یا جاپانی زبان میں۔ اس طرح کے کرشمے دکھانے اور لوگوں کی عجائب پسندی کو آسودہ کرنے کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تعلیم و تلقین اور تفہیم و تبیین کی اہمیت زیادہ رہی ہے جس کے لیے ضروری تھا کہ ایک قوم کو اسی زبان میں پیغام پہنچایا جائے جسے وہ سمجھتی ہو۔
یعنی باوجود اس کے کہ پیغمبر ساری تبلیغ و تلقین اسی زبان میں کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے، پھر بھی سب کو ہدایت نصیب نہیں ہوجاتی۔ کیونکہ کسی کلام کے محض عام فہم ہونے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ سب سننے والے اسے مان جائیں۔ ہدایت اور ضلالت کا سر رشتہ بہرحال اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جسے چاہتا ہے اپنے اس کلام کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے اسی کلام کو الٹی گمراہی کا سبب بنا دیتا ہے۔
یعنی لوگوں کا بطور خود ہدایت پالینا یا بھٹک جانا تو اس بنا پر ممکن نہیں ہے کہ وہ کاملا خود مختار نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی بالادستی سے مغلوب ہیں۔ لیکن اللہ اپنی اس بالادستی کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا کہ یونہی بغیر کسی معقول وجہ کے جسے چاہے ہدایت بخش دے اور جسے چاہے خواہ مخواہ بھٹکا دے۔ وہ بالادست ہونے کے ساتھ حکیم و دانا بھی ہے۔ اس کے ہاں سے جس کو ہدایت ملتی ہے معقول وجوہ سے ملتی ہے۔ اور جس کو راہ راست سے محروم کر کے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے وہ خود اپنی ضلالت پسندی کی وجہ سے اس سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔
ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے اب اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے راہ دکھا دے، وہ غلبہ اور حکمت والا ہے ۔
پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔
لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالو اور ان کو خدا کے یادگار ایام یاد دلاؤ، بے شک ان کے اندر ثابت قدم رہنے والوں اور شکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں
’بِاٰیٰتِنَا‘ یعنی عصا اور ید بیضا وغیرہ کی نشانیوں کے ساتھ جن کا دوسرے مختلف مقامات میں نہایت تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔
’اَیّٰمِ اللّٰہِ‘ سے مراد: ’وَذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ‘ ’ایام‘ کا لفظ جب اس طرح آتا ہے جس طرح یہاں آیا ہے تو اس سے خاص بڑے بڑے اہم تاریخی اور یادگار دن مراد ہوتے ہیں۔ مثلاً ایام العرب، کہیں تو اس سے عرب کی جنگیں مراد ہوں گی۔ اسی طرح ’اَیّٰمِ اللّٰہِ‘ سے مراد یادگار تاریخی دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں پر عذاب نازل فرمائے اور اپنے باایمان بندوں کو ان کے ظلم و ستم سے نجات بخشی۔
’اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ‘ یعنی موسیٰ ؑ کی اس سرگزشت میں ثابت قدم رہنے والوں اور شکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جب دعوت حق بلند کی تو ان کو اور ان کی قوم کو فرعون کے ہاتھوں بڑے بڑے مظالم سہنے پڑے لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کو غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو نجات بخشی۔ مطلب یہ ہے کہ اسی طرح مسلمانوں کے سامنے بھی اس وقت آزمائش کا مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ سے اگر وہ ثابت قدمی سے گزر گئے تو کامیابی ان کے قدم چومے گی اور وہ اپنے رب کے افضال و عنایات پر شکرگزار ہوں گے۔
ہم نے (اِسی طرح) موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاؤ اور اُنھیں خدا کے (اُن) دنوں کی یاد دلاؤ (جن میں اُس کی دینونت کا ظہور ہوا ہے)۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس میں ہر اُس شخص کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو (خدا کی آزمایشوں میں) صبر اور (اُس کے افضال و عنایات پر) شکر کرنے والا ہو
یہ اُن نشانیوں کا ذکر ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر اتمام حجت کے لیے دی گئی تھیں، جیسے عصا اور یدبیضا وغیرہ۔
یعنی جزا و سزا کے فیصلے ہوئے ہیں اور خدا نے رسولوں کے منکرین پر اِسی دنیا میں اپنا عذاب نازل کر دیا ہے، جیسے قوم نوح، قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ۔ قرآن میں یہ تعبیر اِنھی ایام کے لیے اختیار کی گئی ہے۔
یہی دو صفات ہیں جو آدمی کے اندر موجود ہوں تو وہ آیات الٰہی کی طرف متوجہ ہوتا اور اُن سے عبرت حاصل کرتا ہے۔
ہم اِس سے پہلے موسیٰؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخ الٰہی کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر۔ اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔
” ایّام “ کا لفظ عربی زبان میں اصطلاحا یادگار تاریخی واقعات کے لیے بولا جاتا ہے۔” ایام اللہ “ سے مراد تاریخ انسانی کے وہ اہم ابواب ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کی قوموں اور بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کے اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا دی ہے۔
یعنی ان تاریخی واقعات میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے ایک آدمی توحید خداوندی کے برحق ہونے کا ثبوت بھی پا سکتا ہے اور اس حقیقت کی بھی بیشمار شہادتیں فراہم کرسکتا ہے کہ مکافات کا قانون ایک عالمگیر قانون ہے، اور وہ سراسر حق اور باطل کے علمی و اخلاقی امتیاز پر قائم ہے، اور اسکے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک دوسرا عالم، یعنی عالم آخرت ناگزیر ہے۔ نیز ان واقعات میں وہ نشانیاں بھی موجود ہیں جن سے ایک آدمی باطل عقائد و نظریات پر زندگی کی عمارت اٹھانے کے برے نتائج معلوم کرسکتا ہے اور ان سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔
یعنی یہ نشانیاں تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانا صرف انہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کی آزمائشوں سے صبر اور پامردی کے ساتھ گزرنے والے، اور اللہ کی نعمتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر کے ان کا صحیح شکریہ ادا کرنے والے ہوں۔ چھچھورے اور کم ظرف اور احسان ناشناس لوگ اگر ان نشانیوں کا ادراک کر بھی لیں تو ان کی یہ اخلاقی کمزوریاں انہیں اس ادراک سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتیں۔
(یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انھیں اللہ کے احسانات یاد دلا بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر شکر کرنے والے کے لئے ۔
یعنی جس طرح اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انھیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔
اَ یَّام اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔
صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے ' (صحیح مسلم)
اور یاد کرو جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اپنے اوپر اللہ کے اس فضل کو یاد رکھو کہ اس نے تمہیں آل فرعون کے پنجہ سے نجات دی جو تمہیں نہایت برے عذاب چکھاتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور بے شک اس میں تمہارے رب کی جانب سے بہت بڑی آزمائش تھی
’اٰلِ‘ سے مراد: ’اٰلِ فِرْعَوْنَ‘ ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں کہ لفظ ’اٰلِ‘ سے مراد اتباع اور پیرو بھی ہوتے ہیں۔
اتباع اور پیرو: یہ حضرت موسیٰ ؑ کی اس تقریر کا حوالہ ہے جو انھوں نے اپنی قوم کے سامنے اس وقت فرمائی ہے جب ان کو اور ان کی قوم کو فرعونیوں کے چنگل سے نجات مل چکی ہے۔ اس تقریر سے حضرت موسیٰ ؑ کا مقصود اپنی قوم کو یہ یاد دلانا تھا کہ یہ بہت بڑی آزمائش تھی جس سے خدا نے محض اپنے فضل سے تمہیں نجات بخشی ہے تو اس فضل کو یاد رکھنا، خدا کے برابر شکرگزار رہنا، اس کو بھول کر پھر کہیں انہی سرمستیوں میں نہ کھو جانا جس کی سزا تمہیں فرعونیوں کے عذاب کی شکل میں ملی۔ حضرت موسیٰ کی اس تقریر کی یاددہانی وقت کے بنی اسرائیل کو اس لیے کرائی گئی ہے کہ وہ متنبہ ہوں کہ وہ حضرت موسیٰ ؑ کی اس تلقین کو فراموش کر کے پھر شیطان کے راستہ پر چل پڑے ہیں اور اسلام کی مخالفت کر کے ازسرنو اپنی شامت کو دعوت دینا چاہتے ہیں۔
یاد کرو، جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اپنے اوپر اللہ کی اُس نعمت کو یاد رکھو، جب اُس نے تمھیں فرعون کے لوگوں سے چھڑایا جو تمھیں نہایت برے عذاب دیتے تھے، وہ تمھارے بیٹوں کو ذبح کر دیتے تھے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے۔ تمھارے پروردگار کی طرف سے اِس میں (تمھارے لیے) بڑی عنایت تھی
یعنی اِس مصیبت سے چھڑانے میں۔
یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا “اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ اس نے تم کو فرعون والوں سے چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔
n/a
جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی
یعنی جس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اسی طرح اس سے نجات اللہ کا بہت بڑا احسان تھا، اسی لئے بعض مترجمین نے بَلَاَء کا ترجمہ آزمائش اور بعض نے احسان کیا ہے۔
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکرگزار رہے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہو گا
وقت کے بنی اسرائیل کو یاددہانی: ’تَاَذَّنَ‘ کے معنی باخبر اور آگاہ کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ موسیٰ ؑ نے تو وہ بات کہی تھی جو اوپر گزری اور ساتھ ہی تمہارے رب نے بھی تمہیں آگاہ کر دیا تھا کہ اگر تم میرے احکام و ارشادات کی پیروی کر کے میرے شکر گزار رہے تو میں تمہاری تعداد اور اپنے افضال و عنایات میں برابر اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری اور نافرمانی کی راہ پر چل پڑے تو یاد رکھو کہ میرا عذاب بھی بڑا ہی سخت ہو گا ۔۔۔ یہ بات بھی وقت کے بنی اسرائیل کو یاددہانی کے لیے یہاں لائی گئی ہے اور ’رَبُّکُمْ‘ کے خطاب سے واضح ہے کہ یہ ان کو براہ راست مخاطب کر کے فرمائی گئی ہے۔
اور یاد کرو، جب تمھارے پروردگار نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میری سزا بھی بڑی سخت ہے
اِس وقت چونکہ یہود بھی درپردہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے لیے سرگرم ہو چکے تھے، اِس لیے یہ بات اللہ تعالیٰ نے اُنھیں براہ راست خطاب کر کے کہہ دی ہے۔
اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔”
یعنی اگر ہماری نعمتوں کا حق پہچان کر ان کا صحیح استعمال کرو گے، اور ہمارے احکام کے مقابلہ میں سرکشی و استکبار نہ برتو گے، اور ہمارا احسان مان کر ہمارے مطیع فرمان بنے رہو گے۔
اس مضمون کی تقریر بائیبل کی کتاب استثناء میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ اس تقریر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی وفات سے چند روز پہلے بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے سارے اہم واقعات یاد دلاتے ہیں۔ پھر توراۃ کے ان تمام احکام کو دہراتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو بھیجے تھے۔ پھر ایک طویل خطبہ دیتے ہیں جس میں بتاتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو کیسے کیسے انعامات سے نوازے جائیں گے اور اگر نافرمانی کی روش اختیار کی تو اس کی کیسی سخت سزا دی جائے گی۔ یہ خطبہ کتاب استثناء کے ابواب نمبر ٤ – ٦ – ٨ – ١٠ – ١١ اور ٢٨ تا ٣٠ میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے بعض بعض مقامات کمال درجہ مؤثر و عبرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر اس کے چند فقرے ہم یہاں نقل کرتے ہیں جن سے پورے خطبے کا اندازہ ہوسکتا ہے :
” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا کے ساتھ محبت رکھ۔ اور یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔ اور تو ان کی اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اٹھتے ان کا ذکر کرنا “۔ ( باب ٦۔ آیات ٤ – ٧)
” پس اے اسرائیل ! خداوند تیرا خدا تجھ سے اس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کا خوف مانے اور اس کی سب راہوں پر چلے اور اس سے محبت رکھے اور اپنے سارے دل اور ساری جان سے خداوند اپنے خدا کی بندگی کرے اور خداوند کے جو احکام اور آئین میں تجھ کو آج بتاتا ہوں ان پر عمل کرے تاکہ تیری خیر ہو۔ دیکھ آسمان اور زمین اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب خداوند تیرے خدا ہی کا ہے “۔ (باب ١٠۔ آیات ١٢ – ١٤) ۔
” اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر اس کے ان سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھے دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہوگا اور کھیت میں مبارک۔۔ خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں تیرے روبرو شکست دلائے گا۔۔ خداوند تیرے انبار خانوں میں اور سب کاموں میں جن میں تو ہاتھ ڈالے برکت کا حکم دے گا۔۔ تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا ور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے ڈر جائیں گی۔ تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا پر خود قرض نہیں لے گا اور خداوند تجھ کو دم نہیں بلکہ سر ٹھیرائے گا اور تو پشت نہیں بلکہ سرفراز ہی رہے گا “۔ (باب ٢٨۔ آیات ١ – ١٣) ۔
” لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ شہر میں بھی لعنتی ہوگا اور کھیت میں بھی لعنتی۔۔ خداوند ان سب کاموں میں جن کو تو ہاتھ لگائے لعنت اور پھٹکار اور اضطراب کو تجھ پر نازل کرے گا۔۔۔۔۔ وبا تجھ سے لپٹی رہے گی۔۔ آسمان جو تیرے سر پر ہے پیتل کا اور زمین جو تیرے نیچے ہے لوہے کی ہوجائے گی۔۔ خداوند تجھ کو تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا۔ تو ان کے مقابلہ کے لیے تو ایک ہی راستہ سے جائے گا مگر ان کے سامنے سات سات راستوں سے بھاگے گا۔۔ عورت سے منگنی تو تو کرے گا لیکن دوسرا اس سے مباشرت کرے گا۔ تو گھر بنائے گا لیکن اس میں بسنے نہ پائے گا۔ تو تاکستان لگائے گا پر اس کا پھل نہ کھا سکے گا۔ تیرا بیل تیری آنکھوں کے سامنے ذبح کیا جائے گا۔۔ بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے ان دشمنوں کی خدمت کرے گا جن کو خداوند تیرے برخلاف بھیجے گا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جواز رکھے گا جب تک وہ تیرا ناس نہ کر دے۔۔ خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کر دے گا “۔ (باب ٢٨۔ آیات ١٥ – ٦٤)
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے
اس نے تمہیں اپنے وعدے سے تمہیں آگاہ اور خبردار کردیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ قسم کے معنی میں ہو یعنی جب تمہارے رب نے اپنی عزت و جلال اور کبریائی کی قسم کھا کر کہا (ابن کثیر)
نعمت پر شکر کرنے پر مذید انعامات سے نوازوں گا،
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفران نعمت (ناشکری) اللہ کو ناپسند ہے، جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے، اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی (صحیح مسلم)
اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم اور وہ سارے لوگ جو روئے زمین پر ہیں ناشکری کرو گے تو خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے اور وہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے
شکرگزاروں پر عنایات میں اضافہ: یعنی ساتھ ہی موسیٰ ؑ نے یہ تنبیہ بھی کر دی تھی کہ خدا کی شکرگزاری کا یہ مطالبہ اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ اس کا محتاج ہے یا اس سے اس کی شان اور عظمت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز اور ہر حال میں ستودہ صفات ہے۔ یہ شکرگزاری خود بندوں ہی کے لیے موجب خیر و برکت ہے اس لیے کہ اس سے، جیسا کہ اوپر والی آیت میں مذکور ہے، اللہ تعالیٰ بندوں پر اپنی نعمتوں اور برکتوں میں اضافہ فرماتا ہے۔
موسیٰ نے کہا کہ اگر تم ناشکری کرو اور زمین کے سارے لوگ بھی (اِسی طرح) نا شکرے ہو جائیں (تو خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے)، اِس لیے کہ اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے
یہ غالباً اُسی تقریر کا خلاصہ ہے جو بائیبل کی کتاب استثنامیں بڑے شرح و بسط کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ تقریر اپنی وفات سے کچھ پہلے صحراے سینا میں بنی اسرائیل کے سامنے فرمائی تھی۔ اِسے کتاب استثنا کے ابواب ۴، ۶ ،۸ ،۱۰ ،۱۱ اور ۲۸ تا ۳۰ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اور موسیٰؑ نے کہا کہ “اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔”
اس جگہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے معاملہ کی طرف یہ مختصر اشارہ کرنے سے مقصود اہل مکہ کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے اور جواب میں وہ قوم نمک حرامی اور سرکشی دکھاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو وہ عبرتناک انجام دیکھنا پڑتا ہے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل دیکھ رہے ہیں۔ اب کیا تم بھی خدا کی نعمت اور اس کے احسان کا جواب کفران نعمت سے دے کر یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو ؟ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جس نعمت کی قدر کرنے کا یہاں قریش سے مطالبہ فرما رہا ہے وہ خصوصیت کے ساتھ اس کی یہ نعمت ہے کہ اس نے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے درمیان پیدا کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سے ان کے پاس وہ عظیم الشان تعلیم بھیجی جس کے متعلق حضور بار بار قریش سے فرمایا کرتے تھے کہ کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بھا العجم۔ میری ایک بات لو، عرب اور عجم سب تمہارے تابع ہوجائیں گے۔
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے ؟ وہ تو بےنیاز ہے سارا جہان ناشکرگزار ہوجائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یا عبادی ! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل واحد منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی ! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل واحد منکم ما نقصٓ ذلک فی ملکی شیئا یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صٓعید واحد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ مانقصٓ ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقض المخیط اذا ادخل فی البحر۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پر ہزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے ' فَسُبْحَانَہُ وَ تَعَالَی الْغَنِیُّ الْحمِیْدُ '۔
کیا تمہیں ان لوگوں کا حال نہیں پہنچا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، قوم نوح، عاد اور ثمود کا حال اور ان کا جو ان کے بعد ہوئے ہیں۔ خدا کے سوا جن کو کوئی نہیں جانتا۔ ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو انھوں نے ان کے منہ پر اپنے ہاتھ رکھ دیے اور بولے کہ جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دے رہے ہو ہم اس کے باب میں سخت الجھن میں ڈال دینے والے شک میں ہیں۔
قوم نوح اور عاد کے بعد کی بعض قوموں کا حوالہ: ’وَالَّذِیْنَ مِنْ م بَعْدِھِمْ لَا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا اللّٰہُ‘۔ یہ حوالہ ہے ان قوموں کا جو قوم نوح اور عاد اور ثمود کے بعد آئیں اور ان کے اندر اللہ نے اپنے رسول بھی بھیجے لیکن قرآن نے ان کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تاریخوں میں بھی ان کا کوئی قابل اعتماد تذکرہ موجود نہیں ہے۔ صحیح علم ان کا صرف اللہ ہی کو ہے۔ دوسرے مقام میں یہی بات یوں ارشاد ہوئی ہے:
’وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ‘۔(۷۸ المومن)
(اور ہم نے تم سے پہلے بھی رسول بھیجے، ان میں سے کچھ کی سرگزشتیں ہم نے تم کو سنا دیں اور ان میں سے کچھ کی نہیں سنائیں)۔
رسولوں کے منہ بند کرنے کی کوشش: ’فَرَدُّوْٓا اَیْدِیَھُمْ فِیْٓ اَفْوَاھِھِمْ‘ یعنی انھوں نے اپنے رسولوں کے منہ بند کر دینے کی کوشش کی۔ جب کوئی شخص کسی شخص کو بات کرنے سے، غصہ اور نفرت کے ساتھ، روکنا چاہتا ہے تو اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے کہ زبان بند کرو، مزید ایک حرف بھی زبان سے نہ نکالو۔ ’فَرَدُّوْٓا‘ یہاں ’جَعَلُوْا‘ کے معنی میں ہے اور اس معنی میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
’اِنَّا کَفَرْنَا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ وَاِنَّا لَفِیْ شَکٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَآ اِلَیْہِ مُرِیْبٍ‘۔ یعنی جس پیغام انذار کے ساتھ تم خدا کی طرف سے بھیجے جانے کے مدعی ہو ہمیں اس سے صاف انکار ہے۔ نہ ہم تمہیں خدا کا رسول مانتے ہیں اور نہ تمہاری یہ دھمکی ماننے کے لیے تیار ہیں کہ اگر ہم نے تمہاری بات نہ مانی تو ہم تباہ کر دیے جائیں گے۔ ’وَاِنَّا لَفِیْ شَکٍّ الایۃ‘ اور یہ توحید اور قیامت پر ایمان لانے کی جو دعوت تم ہمیں دے رہے ہو تو اس باب میں بھی ہم سخت شک میں ہیں۔
تمھیں اُن لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں؟ قوم نوح، عاد و ثمود اور جو اُن کے بعد ہوئے ہیں، جنھیں خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اُن کے رسول اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو اُنھوں نے اپنے ہاتھ اُن کے منہ میں دے دیے (کہ خاموش ہو جاؤ) اور کہہ دیا کہ جو تمھیں دے کر بھیجا گیا ہے، ہم اُس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی طرف تم ہم کو بلا رہے ہو، اُس کے بارے میں ہم ایسے شک میں پڑ گئے ہیں جو سخت الجھن میں ڈال دینے والا ہے
اصل الفاظ ہیں: ’فَرَدُّوْٓا اَیْدِیَھُمْ فِیْٓ اَفْوَاھِھِمْ‘۔ جب کوئی شخص غصے اور نفرت سے کسی کو بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے کہ زبان بند کرو، اِس کے بعد ایک حرف بھی زبان سے نہ نکالو۔ یہ اِسی صورت حال کی تعبیر ہے۔ لفظ ’رَدُّوْا‘ یہاں ’جعلوا‘ کے معنی میں ہے اور یہ لفظ اِس معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
کیا تمہیں اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ قوم نوحؑ، عاد، ثمود اور اُن کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ اُن کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اور کھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو اُنہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے اور کہا کہ “جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اُس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔”
ان الفاظ کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف پیش آیا ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف معنی بیان کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کا قریب ترین مفہوم وہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہم اردو میں کہتے ہیں کانوں پر ہاتھ رکھے، یا دانتوں میں انگلی دبائی۔ اس لیے کہ بعد کا فقرہ صاف طور پر انکار اور اچنبھے، دونوں مضامین پر مشتمل ہے اور کچھ اس میں غصے کا انداز بھی ہے۔
” یعنی ایسا شک جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہوگیا ہے۔ یہ دعوت حق کا خاصہ ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کھلبلی ضرور مچ جاتی ہے اور انکار و مخالفت کرنے والے بھی اطمینان کے ساتھ نہ اس کا انکار کرسکتے ہیں نہ اس کی مخالفت۔ وہ چاہے کتنی ہی شدت کے ساتھ اسے رد کریں اور کتنا ہی زور اس کی مخالفت میں لگائیں، دعوت کی سچائی، اس کی معقول دلیلیں، اس کی کھر کھری اور بےلاگ باتیں، اس کی دل موہ لینے والی زبان، اس کے داعی کی بےداغ سیرت، اس پر ایمان لانے والوں کی زندگیوں کا صریح انقلاب، اور اپنے صدق مقال کے عین مطابق ان کے پاکیزہ اعمال، یہ ساری چیزیں مل جل کر کٹے سے کٹے مخالف کے دل میں بھی ایک اضطراب پیدا کردیتی ہیں۔ داعیان حق کو بےچین کرنے والا خود بھی چین سے محروم ہوجاتا ہے۔
کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں ؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد وثمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، ان کے پاس ان کے رسول معجزے لائے، لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے۔
مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں مثلاً انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے من ہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، ٢۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو، ٣۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ ٤۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو،۔ ٥۔ بطور غیظ وغضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے عضوا علیکم الانامل من الغیظ۔ ال عمران۔ وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔
مریب یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔
ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں آسمانوں اور زمین کے وجود میں لانے والے اللہ کے بارے میں شک ہے؟ وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے گناہوں کو بخشے اور تمہیں ایک وقت معین تک مہلت دے۔ وہ بولے کہ تم تو ہمارے ہی جیسے آدمی ہو۔ تم چاہتے ہو کہ ہم کو ان چیزوں کی عبادت سے روک دو جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے تو ہمارے پاس کوئی کھلا ہوا معجزہ لاؤ
اُن کے رسولوں نے کہا: کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا وجود میں لانے والا ہے؟ وہ تمھیں بلا رہا ہے کہ تمھارے گناہوں میں سے معاف فرمائے (جو اِس سے پہلے تم سے ہوئے ہیں) اور تم کو ایک مقرر مدت تک مہلت دے۔اُنھوں نے جواب دیا: تم ہماری طرح کے ایک آدمی ہی ہو۔ تم چاہتے ہو کہ ہمیں اُن چیزوں کی بندگی سے روک دو جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں۔ (یہی بات ہے) تو ہمارے سامنے کوئی کھلا ہوا معجزہ لاؤ
اُن کے رسولوں نے کہا “کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدت مقرر تک مہلت دے۔” اُنہوں نے جواب دیا “تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں۔ تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ اچھا تو لاؤ کوئی صریح سند۔”
رسولوں نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہر زمانے کے مشرکین خدا کی ہستی کو مانتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق وہی ہے۔ اسی بنیاد پر رسولوں نے فرمایا کہ آخر تمہیں شک کس چیز پر ہے ؟ ہم جس چیز کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہیں وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ اللہ فاطر السمٰوات والارض تمہاری بندگی کا حقیقی مستحق ہے۔ پھر کیا اللہ کے بارے میں تم کو شک ہے ؟
مدت مقرر سے مراد افراد کی موت کا وقت بھی ہوسکتا ہے اور قیامت بھی۔ جہاں تک قوموں کا تعلق ہے ان کے اٹھنے اور گرنے کے لیے اللہ کے ہاں مدت کا تعین ان کے اوصاف کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کرلے تو اس کی مہلت عمل گھٹا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کردیا جاتا ہے۔ اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے برے اوصاف کو اچھے اوصاف سے بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے، حتی کہ وہ قیامت تک بھی دراز ہو سکتی ہے۔ اسی مضمون کی طرف سورة رعد کی آیت نمبر ١١ اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہ بدل دے۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ تم ہر حیثیت سے بالکل ہم جیسے انسان ہی نظر آتے ہو۔ کھاتے ہو، پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، بھوک، پیاس، بیماری، دکھ، سردی، گرمی، ہر چیز کے احساس میں اور ہر بشری کمزوری میں ہمارے مشابہ ہو۔ تمہارے اندر کوئی غیر معمولی پن ہمی نظر نہیں آتا جس کی بنا پر ہم یہ مان لیں کہ تم کوئی پہنچے ہوئے لوگ ہو اور خدا تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور فرشتے تمہارے پاس آتے ہیں۔
یعنی کوئی ایسی سند جسے ہم آنکھوں سے دیکھیں اور ہاتھوں سے چھوئیں اور جس سے ہم کو یقین آجائے کہ واقعی خدا نے تم کو بھیجا ہے اور یہ پیغام جو تم لائے ہو خدا ہی کا پیغام ہے۔
ان کے رسولوں نے انھیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ کرتے رہے ہیں اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو۔
یعنی تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایمان و توحید کی دعوت بھی صرف اس لئے دے رہا ہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کر دے۔ اس کے باوجود تم اس خالق ارض و سماء کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی دعوت سے تمہیں انکار ہے ؟
یہ وہی اشکال ہے جو کافروں کو پیش آتا رہا کہ انسان ہو کر کس طرح کوئی وحی الٰہی اور نبوت و رسالت کا مستحق ہوسکتا ہے ؟
یہ دوسری رکاوٹ ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت کس طرح چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے ہیں ؟ جب کہ تمہارا مقصد ہمیں ان کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت پر لگانا ہے۔
دلائل و معجزات تو ہر نبی کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے مراد ایسی دلیل یا معجزہ ہے جس سے دیکھنے کے وہ آرزومند ہوتے تھے جیسے مشرکین مکہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف قسم کے معجزات طلب کئے تھے، جس کا تذکرہ بنی اسرائیل میں آئے گا۔
امین احسن اصلاحی
یہ الٓرٰ ہے۔ یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اس لیے اتاری ہے کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ۔ ان کے رب کے اذن سے۔ خدائے عزیز و حمید کے راستہ کی طرف
’الٓرٰ‘۔ حرف مقطعات پر جامع بحث سورۂ بقرہ کے شروع میں ملاحظہ فرمائیے۔
’کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ‘۔
’ظلمٰت‘ اور ’نور‘ سے مراد: ’ظُلُمٰت‘ سے مراد عقائد و اعمال کی تاریکیاں اور ’نُوْر‘ سے مراد ایمان و عمل صالح کی روشنی ہے۔ گمراہی کے ہزاروں راستے ہیں لیکن ہدایت کی راہ ایک ہی ہے اس وجہ سے ظلمات جمع ہے اور نور واحد۔
ہدایت خدا کی توفیق بخشی پر منحصر ہے: ’بِاِذْنِ رَبِّھِمْ‘ یعنی یہ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کی طرف آنا جن کو بھی میسر ہو گا خدا کی توفیق بخشی ہی سے میسر ہو گا۔ وہی اپنی سنت کے مطابق جن کو ہدایت کا اہل پائے گا ان کو ہدایت بخشے گا اور جن کو اس کا اہل نہیں پائے گا ان کو ان کی گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دے گا۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی ذمہ داری اس معاملے میں صرف تبلیغ و دعوت کی ہے۔ لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لا کھڑے کرنا اس کی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔
’عَزِیْز‘ اور ’حَمِیْد‘ کا مفہوم: ’اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ‘ یہ ’نور‘ کی وضاحت فرما دی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ راستہ ہے جو خدائے عزیز و حمید کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ’عَزِیْز‘ یعنی سب پر غالب و مقتدر، اس وجہ سے وہی سزاوار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ ’حَمِیْد‘ یعنی تمام جود و کرم کا منبع، اس وجہ سے وہی حق دار ہے کہ اس کی حمد کی جائے اور اس سے امیدیں باندھی جائیں۔