الم

امین احسن اصلاحی

یہ الٓمّٓ ہے

الٓمّٓ: یہ ایک مستقل جملہ ہے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کے مطابق یہاں مبتدا محذوف ہے۔ اس کو ظاہر کر دیا جائے تو پوری بات یوں ہو گی۔ ھٰذہ الٓمّٓ، (یہ الف، لام، میم ہے) ہم نے ترجمہ میں اس حذف کو کھول دیا ہے۔

یہ اور اس طرح کے جتنے حروف بھی مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں چونکہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں اس وجہ سے ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں۔
یہ جس سورہ میں بھی آئے ہیں بالکل شروع میں اس طرح آئے ہیں جس طرح کتابوں، فصلوں اور ابواب کے شروع میں ان کے نام آیا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں۔ قرآن نے جگہ جگہ ذٰلک اور تِلۡکَ کے ذریعہ سے ان کی طرف اشارہ کر کے ان کے نام ہونے کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے۔ حدیثوں سے بھی ان کا نام ہی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
جو سورتیں ان ناموں سے موسوم ہیں اگرچہ ان میں سے سب اپنے انہی ناموں سے مشہور نہیں ہوئیں بلکہ بعض دوسرے ناموں سے مشہور ہوئیں، لیکن ان میں سے کچھ اپنے انہی ناموں سے مشہور بھی ہیں۔ مثلاً طٰہٰ، یٰس، ق اور ن وغیرہ۔
ان ناموں کے معانی کے بارے میں کوئی قطعی بات کہنا بڑا مشکل ہے اس وجہ سے ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن کا تو دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک بالکل واضح کتاب ہے، اس میں کوئی چیز بھی چیستاں یا معمے کی قسم کی نہیں ہے، پھر اس نے سورتوں کے نام ایسے کیوں رکھ دیے ہیں جن کے معنی کسی کو بھی نہیں معلوم؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ان حروف کا تعلق ہے، یہ اہل عرب کے لئے کوئی بیگانہ چیز نہیں تھے بلکہ وہ ان کے استعمال سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس واقفیت کے بعد قرآن کی سورتوں کا ان حروف سے موسوم ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے قرآن کے ایک واضح کتاب ہونے پر کوئی حرف آتا ہو۔ البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حروف سے نام بنا لینا عربوں کے مذاق کے مطابق تھا بھی یا نہیں تو اس چیز کے مذاق عرب کے مطابق ہونے کی سب سے بڑی شہادت تو یہی ہے کہ قرآن نے نام رکھنے کے اس طریقہ کو اختیار کیا۔ اگر نام رکھنے کا یہ طریقہ کوئی ایسا طریقہ ہوتا جس سے اہل عرب بالکل ہی نامانوس ہوتے تو وہ اس پر ضرور ناک بھوں چڑھاتے اور ان حروف کی آڑ لے کر کہتے کہ جس کتاب کی سورتوں کے نام تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتے اس کے ایک کتاب مبین ہونے کے دعوے کو کون تسلیم کر سکتا ہے۔
قرآن پر اہل عرب نے بہت سے اعتراضات کئے اور ان کے یہ سارے اعتراض قرآن نے نقل بھی کئے ہیں لیکن ان کے اس طرح کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ناموں میں ان کے لئے کوئی اجنبیت نہیں تھی۔
علاوہ بریں جن لوگوں کی نظر اہل عرب کی روایات اور ان کے لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ اہل عرب نہ صرف یہ کہ اس طرح کے ناموں سے نامانوس نہیں تھے بلکہ وہ خود اشخاص، چیزوں، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں حتیٰ کہ قصائد اور خطبات تک کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھتے تھے۔ یہ نام مفرد حروف پر بھی ہوتے تھے اور مرکب بھی ہوتے تھے۔ ان میں یہ اہتمام بھی ضروری نہیں تھا کہ اسم اور مسمٰی میں کوئی معنوی مناسبت پہلے سے موجود ہو بلکہ یہ نام ہی بتاتا تھا کہ یہ نام اس مسمٰی کے لئے وضع ہوا ہے۔
اور یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک شے کے متعلق یہ معلوم ہو گیا کہ یہ نام ہے تو پھر اس کے معنی کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ نام سے اصل مقصود مسمٰی کا اس نام کے ساتھ خاص ہوجانا ہے نہ کہ اس کے معنی۔ کم ازکم فہم قرآن کے نقطۂ نظر سے ان ناموں کے معانی کی تحقیق کی تو کوئی خاص اہمیت ہے نہیں۔ بس اتنی بات ہے کہ چونکہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے ہیں اس وجہ سے آدمی کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ضرور یہ کسی نہ کسی مناسبت کی بنا پر رکھے گئے ہوں گے۔ یہ خیال فطری طور پر طبیعت میں ایک جستجو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی جستجو کی بنا پر ہمارے بہت سے پچھلے علماء نے ان ناموں پر غور کیا اور ان کے معنی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ان کی جستجو سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا لیکن ہمارے نزدیک ان کا یہ کام بجائے خود غلط نہیں تھا اور اگر ہم بھی ان پر غور کریں گے تو ہمارا یہ کام بھی غلط نہیں ہو گا۔ اگر اس کوشش سے کوئِی حقیقت واضح ہوئی تو اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو گا اور اگر کوئی بات نہ مل سکی تو اس کو ہم اپنے علم کی کوتاہی اور قرآن کے اتھاہ ہونے پر محمول کریں گے۔ یہ رائے بہرحال نہیں قائم کریں گے کہ یہ نام ہی بے معنی ہیں۔
اپنے علم کی کمی اور قرآن کے اتھاہ ہونے کا یہ احساس بجائے خود ایک بہت بڑا علم ہے۔ اس احساس سے علم و معرفت کی بہت سی بند راہیں کھلتی ہیں۔ اگر قرآن کا پہلا ہی حرف اس عظیم انکشاف کے لئے کلید بن جائے تو یہ بھی قرآن کے بہت سے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہو گا۔ یہ اسی کتاب کا کمال ہے کہ اس کے جس حرف کا راز کسی پر نہ کھل سکا اس کی پیدا کردہ کاوش ہزاروں سربستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کے لئے دلیل راہ بنی۔
ان حروف پر ہمارے پچھلے علماء نے جو رائیں ظاہر کی ہیں ہمارے نزدیک وہ تو کسی مضبوط بنیاد پر مبنی نہیں ہیں اس وجہ سے ان کا ذکر کرنا کچھ مفید نہیں ہوگا۔ البتہ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمة اللہ علیہ کی رائے اجمالاً یہاں پیش کرتا ہوں۔ اس سے اصل مسئلہ اگرچہ حل نہیں ہوتا لیکن اس کے حل کے لئے ایک راہ کھلتی ضرور نظر آتی ہے۔ کیا عجب کہ مولانا رحمة اللہ علیہ نے جو سراغ دیا ہے دوسرے اس کی رہنمائی سے کچھ مفید نشانات راہ اور معلوم کر لیں اور اس طرح درجہ بدرجہ تحقیق کے قدم کچھ اور آگے بڑھ جائیں۔
جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لئے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ عرب قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذ امام رحمة اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرف صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرف معانی اور اشیاء پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیاء پر وہ دلیل ہوتے تھے عموماً ان ہی کی صورت و ہئیت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ مولانا کی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جو قدیم مصریوں نے اخذ کئے اور اپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم و اصلاح کر کے ان کو اس خط تمثالی کی شکل دی جس کے آثار اہرام مصر کے کتبات میں موجود ہیں۔
ان حروف کے معانی کا علم اب اگرچہ مٹ چکا ہے تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً “الف” کے متعلق معلوم ہے کہ وہ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سر کی صورت ہی پر لکھا جاتا ہے۔ “ب” کو عبرانی میں بَیت کہتے بھی ہیں اور اس کے معنی بھی “بیت” (گھر) کے ہیں۔ “ج” کا عبرانی تلفظ جمیل ہے جس کے معنی جمل (اونٹ) کے ہیں۔ “ط” سانپ کے معنی میں آتا تھا اور لکھا بھی کچھ سانپ ہی کی شکل پر جاتا تھا۔ “م” پانی کی لہر پر دلیل ہوتا ہے اور اس کی شکل بھی لہر سے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔
مولانا اپنے نظریہ کی تائید میں سورہ “ن” کو پیش کرتے ہیں۔ حرف “نون” اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جو سورہ اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر صاحب الحوت، مچھلی والے، کے نام سے آیا ہے۔ مولانا اس نام کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طور پر اس طرف جاتا ہے کہ اس سورہ کا نام “نون” (ن) اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت، حضرت یونس علیہ السلام، کا واقعہ بیان ہوا ہے جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ پھر کیا عجب ہے کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں وہ بھی اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بنا پر آئے ہوں۔
قران مجید کی بعض اور سورتوں کے ناموں سے بھی مولانا کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے مثلاً حرف “ط” کے معنی، جیسا کے میں نے اوپر بیان کیا ہے، سانپ کے تھے اور اس کے لکھنے کی ہئیت بھی سانپ کی ہئیت سے ملتی جلتی ہوتی تھی۔ اب قرآن میں سورہ طٰہٰ کو دیکھئے جو “ط” سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں ایک مختصر تمہید کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی لٹھیا کے سانپ بن جانے کا قصہ بیان ہوتا ہے۔ اسی طرح طسم، طس وغیرہ بھی “ط” سے شروع ہوتی ہیں اور ان میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لٹھیا کے سانپ کی شکل اختیار کر لینے کا معجزہ مذکور ہے۔
“الف” کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ گائے کے سر کی ہئیت پر لکھا بھی جاتا تھا اور گائے کے معنی بھی بتاتا تھا۔ اس کے دوسرے معنی اللہ واحد کے ہوتے تھے۔ اب قرآن مجید میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ سورہ بقرہ میں جس کا نام الف سے شروع ہوتا ہے، گائے کے ذبح کا قصہ بیان ہوا ہے۔ دوسری سورتیں جن کے نام الف سے شروع ہوئے ہیں توحید کے مضمون میں مشترک نظر آتی ہیں۔ یہ مضمون ان میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان ناموں کا یہ پہلو بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن سورتوں کے نام ملتے جلتے سے ہیں ان کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں بلکہ بعض سورتوں میں تو اسلوب بیان تک ملتا جلتا ہے۔
میں نے مولانا کا یہ نظریہ، جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، محض اس خیال سے پیش کیا ہے کہ اس سے حروف مقطعات پر غور کرنے کے لئے ایک علمی راہ کھلتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی حیثیت ابھی ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک تمام حروف کے معانی کی تحقیق ہو کر ہر پہلو سے ان ناموں اور ان سے موسوم سورتوں کی مناسبت واضح نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کر لینا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ محض علوم قرآن کے قدردانوں کے لئے ایک اشارہ ہے، جو لوگ مزید تحقیق و جستجو کی ہمت رکھتے ہیں وہ اس راہ میں قسمت آزمائی کریں۔ شاید اللہ تعالیٰ اس راہ سے یہ مشکل آسان کر دے۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’الٓمّٓ‘ ہے

یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ا۔ ل۔ م۔

n/a

جونا گڑھی

الم

 سُوْ رَ ۃُ لُقْمٰنَ ٣١ سورت مکی ہے اس میں (٣٤) آیات اور (٤) رکوع ہیں 

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ

امین احسن اصلاحی

یہ پُرحکمت کتاب کی آیات ہیں

اس کتاب سے فائدہ وہی اٹھائیں گے جن کی صلاحیتیں زندہ ہیں: ’تِلْکَ‘ کا اشارہ ’الّمّٓ‘ کی طرف ہے۔ اس سورہ کا قرآنی نام یہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سورہ ایک پُرحکمت کتاب کی آیات پر مشتمل ہے لیکن حکمت کے جواہر ریزوں کا قدردان ہر شخص نہیں ہوتا۔ ان کی قدر کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو ’محسن‘ ہوں گے۔ ’محسن‘ سے مراد وہ خوب کار لوگ ہیں جنھوں نے اپنے سوچنے سمجھنے کی قوتوں سے صحیح کام لیا، اپنی فطرت کی صلاحیتوں کو زندہ رکھا اور اپنی بصیرت کے حد تک جو قدم بھی اٹھایا صحیح سمت میں اٹھایا۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کے لیے یہ آیات ہدایت اور رحمت ہیں۔ وہ دنیا میں ان سے ہدایت حاصل کریں گے اور آخرت میں ان کے لیے یہ باعث فضل و رحمت ہوں گی۔ لفظ ’محسن‘ پر ہم پیچھے بھی اس کتاب میں بحث کر چکے ہیں اور آگے آیت ۲۲ میں بھی یہ آ رہا ہے۔ وہاں ان شاء اللہ اس کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔ اس تمہید ہی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو لوگ اس کتاب کی ناقدری کر رہے ہیں ان کی یہ ناقدری اس کتاب کے بے قیمت ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ ان ناقدروں کی فطرت کے مسخ ہونے کی دلیل ہے۔ اس وجہ سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان لوگوں کے رویے سے بددل نہیں ہونا چاہیے۔

جاوید احمد غامدی

یہ پر حکمت کتاب کی آیتیں ہیں

n/a

ابو الاعلی مودودی

یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں ،

یعنی ایسی کتاب کی آیات جو حکمت سے لبریز ہے، جس کی ہر بات حکیمانہ ہے۔

جونا گڑھی

یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔

 اس کے آغاز میں بھی یہ حروف مقطعات ہیں جن کے معنی و مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ تاہم بعض مفسرین نے اس کے دو فوائد بڑے اہم بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قرآن اسی قسم کے حروف مقطعات سے ترتیب و تالیف پایا ہے جس کی مثل تالیف پیش کرنے سے عرب عاجز آگئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اور جس پیغمبر پر نازل ہوا ہے وہ سچا رسول ہے جو شریعت وہ لے کر آیا ہے، انسان اس کا محتاج ہے اور اس کی اصلاح اور سعادت کی تکمیل اسی شریعت سے ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ مشرکین اپنے ساتھیوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے تھے مبادا وہ اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز ان حروف مقطعات سے فرمایا تاکہ وہ اس کے سننے پر مجبور ہوجائیں کیونکہ یہ انداز بیان نیا اور اچھوتا تھا (ایسر التفاسیر) واللہ اعلم۔ 

هُدًى وَرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ

امین احسن اصلاحی

ہدایت و رحمت بن کر نازل ہوئی ہیں خوب کاروں کے لیے

اس کتاب سے فائدہ وہی اٹھائیں گے جن کی صلاحیتیں زندہ ہیں: ’تِلْکَ‘ کا اشارہ ’الّمّٓ‘ کی طرف ہے۔ اس سورہ کا قرآنی نام یہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سورہ ایک پُرحکمت کتاب کی آیات پر مشتمل ہے لیکن حکمت کے جواہر ریزوں کا قدردان ہر شخص نہیں ہوتا۔ ان کی قدر کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو ’محسن‘ ہوں گے۔ ’محسن‘ سے مراد وہ خوب کار لوگ ہیں جنھوں نے اپنے سوچنے سمجھنے کی قوتوں سے صحیح کام لیا، اپنی فطرت کی صلاحیتوں کو زندہ رکھا اور اپنی بصیرت کے حد تک جو قدم بھی اٹھایا صحیح سمت میں اٹھایا۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کے لیے یہ آیات ہدایت اور رحمت ہیں۔ وہ دنیا میں ان سے ہدایت حاصل کریں گے اور آخرت میں ان کے لیے یہ باعث فضل و رحمت ہوں گی۔ لفظ ’محسن‘ پر ہم پیچھے بھی اس کتاب میں بحث کر چکے ہیں اور آگے آیت ۲۲ میں بھی یہ آ رہا ہے۔ وہاں ان شاء اللہ اس کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔ اس تمہید ہی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو لوگ اس کتاب کی ناقدری کر رہے ہیں ان کی یہ ناقدری اس کتاب کے بے قیمت ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ ان ناقدروں کی فطرت کے مسخ ہونے کی دلیل ہے۔ اس وجہ سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان لوگوں کے رویے سے بددل نہیں ہونا چاہیے۔

جاوید احمد غامدی

اُن کے لیے جو خوبی سے عمل کرنے والے ہیں ہدایت اور رحمت بن کر نازل ہوئی ہیں

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی طرف اشارہ ہے جنھوں نے اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کی ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے صحیح کام لیا، پوری بصیرت کے ساتھ حقائق کو تسلیم کیا اور اُن کے جو تقاضے بھی سامنے آئے، پورے اخلاص کے ساتھ اُن کے مطابق عمل کرنے لگے۔

یعنی دنیا میں ہدایت اور آخرت میں فضل و رحمت جو اِس ہدایت کو اختیار کرنے کا لازمی نتیجہ ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ہدایت اور رحمت نیکوکار لوگوں کے لیے ،

یعنی یہ آیات راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور خدا کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہیں، مگر اس رحمت اور ہدایت سے فائدہ اٹھانے والے صرف وہی لوگ ہیں جو حسن عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، جو نیک بننا چاہتے ہیں، جنہیں بھلائی کی جستجو ہے، جن کی صفت یہ ہے کہ برائیوں پر جب انہیں متنبہ کردیا جائے تو ان سے رک جاتے ہیں اور خیر کی راہیں جب ان کے سامنے کھول کر رکھ دی جائیں تو ان پر چلنے لگتے ہیں۔ رہے بدکار اور شرپسند لوگ تو وہ نہ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں گے نہ اس رحمت میں سے حصہ پائیں گے۔

جونا گڑھی

جو نیکوکاروں کے لئے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے۔

  محسنین محسن کی جمع ہے اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنے والا والدین کے ساتھ رشتے داروں کے ساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ، دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکوکار، تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ۔ قرآن ویسے تو سارے جہان کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اسطرح فرمایا۔ 

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

امین احسن اصلاحی

ان کے لیے جو نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں

’مُحْسِنِین‘ کی صفات: یہ ’مُحْسِنِین‘ کی صفات بیان ہوئی ہیں اور ان کے پردے میں وہ لوگ نگاہوں کے سامنے کر دیے گئے ہیں جو اس وقت اس لفظ کے صحیح مصداق تھے۔ فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھنے والے ہیں۔

’وَہُمْ بِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُوْنَ‘ میں ان اہل ایمان کی غایت درجہ تحسین ہے۔ یعنی درحقیقت یہی لوگ ہیں جو آخرت پر پکا یقین رکھنے والے ہیں۔ اسی یقین کا ثمرہ ہے کہ ان کو نماز اور زکوٰۃ کے اہتمام کی توفیق حاصل ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نماز اور زکوٰۃ سے غافل ہیں وہ درحقیقت آخرت کے یقین سے محروم ہیں اور اگر وہ اس کے مدعی ہیں تو وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

یہ جو نماز کا اہتمام کر رہے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہی ہیں جو آخرت پر سچا یقین رکھتے ہیں

اِس سے معلوم ہوا کہ آخرت پر سچا یقین ہو تو آدمی نماز اور زکوٰۃ سے غافل نہیں ہو سکتا اور اپنی اِس غفلت کے باوجود اگر وہ اِس کا مدعی ہے کہ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اپنے اِس دعوے میں بالکل جھوٹا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔

یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو ” نیکو کار ” کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ دراصل پہلے ” نیکو کار ” کا عام لفظ استعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ ان تمام برائیوں سے رکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے، اور ان سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے۔ پھر ان ” نیکو کار ” لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار ان ہی تین چیزوں پر ہے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاع دنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب ابھرتی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ابھرتا ہے، جس کی بدولت وہ اس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہوجاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کار گزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ ان تینوں خصوصیات کی وجہ یہ ” نیکوکار ” اس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اتفاقاً نیکی سرزد ہوجاتی ہے اور بدی بھی اسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات ان کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر و اخلاق پیدا کردیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو ان کے نظام فکر و اخلاق سے ابھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔

جونا گڑھی

جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر (کامل) یقین رکھتے ہیں ۔

  نماز زکوٰۃ اور آخرت پر یقین۔ یہ تینوں نہایت اہم ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا، ورنہ محسنین و متقین تمام فرائض و سنت رسول کے مطابق پابندی سے کرتے ہیں۔ 

أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

امین احسن اصلاحی

یہی اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہوں گے

فرمایا کہ یہی لوگ اس دنیا میں اپنے رب کی صراط مستقیم پر ہیں اور یہی لوگ آخرت میں فلاح پانے والے بنیں گے۔ باقی سارے لوگ گمراہی پر ہیں اور وہ آخرت میں جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔

جاوید احمد غامدی

یہی اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہوں گے

n/a

ابو الاعلی مودودی

یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔

جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اس وقت کفّار مکہ یہ سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے بھی تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ اس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ ” یہی فلاح پانے والے ہیں ” یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیال خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے انکار کیا ہے۔

یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دنیا کی حد تک اور وہ بھی صرف مادی خوشحالی کے معنی میں لے گا۔ فلاح کا قرآنی تصور معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیم القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھنا چاہیے : البقرہ، آیات ٢ تا ٥۔ آل عمران، آیات ١٠٢، ١٣٠، ٢٠٠۔ المائدہ، آیات ٣٥، ٩٠ الانعام، ٢١۔ الاعراف، آیات ٧، ٨، ١٥٧۔ التوبہ، ٨٨۔ یونس، ١٧۔ النحل، ١١٦۔ الحج، ٧٧۔ المومنون، ١۔ ١١٧۔ النور، ٥١۔ الروم، ٣٨۔

جونا گڑھی

یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔

 فلاح کے مفہوم کے لئے دیکھئے سورة بقرہ اور مومنون کا آغاز۔ 

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

امین احسن اصلاحی

اور لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو فضولیات کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے گمراہ کریں بغیر کسی علم کے۔ اور ان آیات کا مذاق اڑائیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے

’لَہْوَ الْحَدِیْثِ‘ کا مفہوم: ’اِشْتِرَاء‘ کے معنی، جیسا کہ اس کے محل میں ہم وضاحت کر چکے ہیں، ترجیح دینے کے بھی آتے ہیں۔ ’لَہْوَ الْحَدِیْثِ‘ اسی طرح کی ترکیب ہے جس طرح دوسرے مقام میں ’زخرف القول‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ یہاں یہ لفظ کتاب حکیم کی آیات کے مقابل میں استعمال ہوا ہے۔ اس وجہ سے اس سے مراد وہ گمراہ کن باتیں ہیں جو وقت کے مفسدین لوگوں کو آیات الٰہی سے برگشتہ کرنے کے لیے پھیلاتے تھے۔ قرآن لوگوں کو زندگی کے اصل حقائق کے سامنے کھڑا کرنا چاہتا تھا لیکن مخالفین کی کوشش یہ تھی کہ لوگ انہی مزخرفات میں پھنسے رہیں جن میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اسی صورت حال کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور اسلوب بیان اظہار تعجب کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک پرحکمت کتاب اتاری ہے لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان میں بہتیرے اس کے مقابل میں انہی فضول باتوں کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی خواہشوں اور بدعتوں کے لیے سند تصدیق فراہم کرتی ہیں۔

’لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُواً‘۔ ’عِلْمٌ‘ سے مراد دلیل و برہان ہے۔ آگے آیت ۳۰ میں بھی یہ لفظ آ رہا ہے۔ وہاں اس کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ مفسدین کی یہ تمام سعئ نامراد اس لیے ہے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکیں حالانکہ اللہ کی راہ چھوڑ کر جس راہ پر وہ چل رہے ہیں اور جس پر لوگوں کو بھی چلانا چاہتے ہیں اس کے حق میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جسارت کا یہ عالم ہے کہ اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے اور اپنی بے سروپا باتوں کی تائید میں آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں۔
’أُولٰئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ‘۔ اوپر اہل ایمان کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’وہی لوگ ہدایت پر ہیں اور وہی لوگ فلاح پانے والے بنیں گے‘۔ اس کے مقابل میں یہ ان لوگوں کا انجام بیان فرمایا جو قرآن کی آیات حکمت کے مقابل میں اپنی خرافات بدعت و ضلالت کو پھیلانے میں سرگرم تھے۔ فرمایا کہ ان کے لیے ایک نہایت سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔ ’ذلیل کرنے والا عذاب‘ اس وجہ سے ہو گا کہ حق کے مقابل میں اپنی بات کی پچ استکبار ہے اور استکبار کی سزا اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلت و رسوائی ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ عذاب اور عذاب میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یوں تو ہر عذاب عذاب ہے، اللہ تعالیٰ اس سے امان میں رکھے، لیکن سب سے زیادہ سخت وہ عذاب ہے جو رسوا کر دینے والا ہو۔

جاوید احمد غامدی

اِس کے برخلاف لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو فضولیات کے خریدار بنتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بغیر کسی علم کے گمراہ کریں اور اُس کی آیتوں کا مذاق اڑائیں۔ یہی ہیں کہ جن کے لیے ذلت کا عذاب ہے

اصل میں ’لَھْوَ الْحَدِیْثِ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اُسی طرح کی ترکیب ہے، جیسے دوسرے مقام میں ’زُخْرُفَ الْقَوْلِ‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ یہاں یہ لفظ کتاب حکیم کی آیتوں کے مقابل میں ہے، اِس وجہ سے اِس سے مراد وہ فضولیات و خرافات ہوں گی جو مفسدین لوگوں کو آیات الٰہی سے برگشتہ کرنے کے لیے پھیلاتے تھے۔

یعنی اُن کو ترجیح دیتے اور اُن کے طلب گار بنتے ہیں۔ لفظ ’اِشْتِرَاء‘جب معنوی چیزوں کے لیے استعمال کیا جائے تو اِسی مفہوم میں آتا ہے۔
یعنی بغیر کسی دلیل و برہان کے۔
آگے وضاحت فرما دی ہے کہ اِن کا اصلی جرم استکبار ہے اوراستکبار کے بارے میں قرآن اور دوسرے الہامی صحائف میں جگہ جگہ واضح کیا گیاہے کہ اُس کی سزا ذلت اور رسوائی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اسے راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے ۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔

یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔

اصل لفظ ہیں ” لَھُوَ الْحَدِیث ” یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لغت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بری اور فضول اور بےہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے، مثلاً گپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں، افسانے اور ناول، گانا بجانا، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔

لہو الحدیث ” خریدنے ” کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ وہ حدیث حق کو چھوڑ کر حدیث باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ موڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں۔ حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کفار مکہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے، ساحر ہے، شاعر ہے، مجنوں ہے۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں ؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے ناواقف ہیں ؟ کیا لوگوں کو جنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے ؟ ان الزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے۔ ٹھہرو، اس کا علاج میں کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفندیار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کردیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں (سیرۃ ابن ہشام، ج ١، ص ٣٢٠۔ ٣٢١) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مقاتِل سے نقل کی ہے۔ اور ابن عباس (رض) نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کردیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سنا تاکہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر) میں غرق کردینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔

لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھو واللہ الغناء، ” خدا کی قسم اس سے مراد گانا ہے “۔ (ابن جریر) ابن ابی شیبہ، حاکم بیہقی ) ۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، مجاہد، عِکرمہ، سعید بن جبیر، حسن بصری اور مَکُحول (رض) سے مروی ہیں۔ ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابو امامہ باہلی کی یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولا التجارۃ فیھن ولا اثمانھن ” مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ ان کی قیمت لینا حلال ہے۔ ” ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔ ” ان کی قیمت کھانا حرام ہے “۔ ایک اور روایت انہی ابو امامہ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لا یحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ” لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خریدو فروخت کرنا حلال نہیں ہے، اور ان کی قیمت حرام ہے۔ ” ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیثِ ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی ” احکام القرآن ” میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک کے حوالہ سے حضرت انس (رض) کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من جلس الیٰ قینۃ یسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روز اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ” ( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اس زمانے میں بجانے کی ” ثقافت ” تمام تر، بلکہ کلیۃً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ” آرٹسٹ ” نہ بنی تھیں۔ اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغنیات کی بیع و شرا کا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے ) ۔

” علم کے بغیر ” کا تعلق ” خریدتا ہے ” کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور ” بھٹکادے ” کے ساتھ بھی۔ اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے۔ ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیات الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کردینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انہیں حاصل کر رہا ہے۔ اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اٹھا ہے، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلق خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے۔

یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کر کے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اڑا دیا جائے۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے کے لیے کچھ اس طرح کا نقشۂ جنگ جمانا چاہتا ہے کہ ادھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کی آیات سنانے نکلیں، ادھر کہیں کسی خوش اندام و خوش گل مغنیہ کا مجرا ہو رہا ہو، کہیں کوئی چرب زبان قصہ گو ایران توران کی کہانیاں سنا رہا ہو، اور لوگ ان ثقافتی سرگرمیوں میں غرق ہو کر اس موڈ ہی میں نہ رہیں کہ خدا اور آخرت اور اخلاق کی باتیں انہیں سنائی جاسکیں۔

یہ سزا ان کے جرم کی مناسبت سے ہے۔ وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا۔

جونا گڑھی

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔

 اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لغوالحدیث سے مراد گانا بجانا، اس کا سازوسامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بےحیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔

 ان تمام چیزوں سے یقینا انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ 

 ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔ 

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

امین احسن اصلاحی

اور جب ان کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو اس طرح متکبرانہ اعراض کرتے ہیں گویا ان کو سنا ہی نہیں، گویا ان کے کانوں میں بہرا پن ہے تو ان کو ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو

استکبار کی سزا: یہ ان لوگوں کے اس استکبار کی تصویر ہے جس کے سبب سے یہ ذلت کے عذاب کے مستحق ہوں گے۔ فرمایا کہ ان کا حال یہ ہے کہ جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو یہ نہایت غرور کے ساتھ اس طرح پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں گویا انھوں نے ان کو سرے سے سنا ہی نہیں، گویا ان کے دونوں کان بہرے ہیں۔ یعنی یہ ہماری آیات کو یک قلم ناقابل التفات سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر ان کا پندار اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہماری باتیں ان کے لیے لائق توجہ ہی نہیں رہ گئی ہیں تو پھر ہماری طرف سے ان کو ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ مطلب یہ ہے کہ اگر معاملہ مجرد غفلت کا ہو تو اس کی اصلاح تذکیر و تنبیہ سے ہو سکتی ہے لیکن جب تذکیر و تنبیہ کے جواب میں رعونت و استکبار کا مظاہرہ ہونے لگے تو یہ مرض لاعلاج ہے۔ اس طرح کے لوگ دوزخ ہی کا ایندھن بننے والے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اِن میں سے کسی کو جب ہماری یہ آیتیں سنائی جاتی ہیں تو بڑے تکبرکے ساتھ اِس طرح منہ پھیر کر چل دیتا ہے، جیسے اُن کو سناہی نہیں، جیسے کانوں سے بہرا ہے۔ سو اِسے ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو

n/a

ابو الاعلی مودودی

اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے انہیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں۔ اچھا، مژدہ سنا دو اسے ایک درد ناک عذاب کا۔

n/a

جونا گڑھی

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔

  یہ اس شخص کا حال ہے جو مذکورہ لہو و لعب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے، وہ آیات قرآنیہ اور اللہ رسول کی باتیں سن کر بہرا بن جاتا ہے حالانکہ وہ بہرا نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں، کیونکہ اس کے سننے سے وہ ایذاء محسوس کرتا ہے۔ اس لیے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، وقرا کے معنی ہیں کانوں میں ایسا بوجھ جو اسے سننے سے محروم کردے۔ 

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ

امین احسن اصلاحی

البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے نعمت کے باغ ہوں گے

قرآن کا مذاق اڑانے والوں کو جواب: یہ ان کے مقابل میں ان لوگوں کا صلہ بیان ہوا ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لانے والے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے والے ہیں۔ فرمایا کہ ان کے لیے نعمت کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ’وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا‘ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا حتمی وعدہ ہے جو پورا ہو کے رہے گا۔ اس جملے میں تاکید در تاکید کا جو مضمون مضمر ہے اس کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے۔ اس تاکید کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ اوپر آیت ۶ میں ذکر ہو چکا ہے کہ مستکبرین اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے استہزا کا خاص ہدف وہ آیتیں تھیں جن میں اس دور کے بے بس اور غریب مسلمانوں کو ایک ابدی بادشاہی کی خوش خبری سنائی جاتی تھی۔ معاملے کا یہ پہلو مقتضی ہوا کہ یہ بات یہاں پورے زور اور تاکید سے کہی جائے کہ مذاق اڑانے والے اگر اس کا مذاق اڑاتے ہیں تو اڑائیں لیکن اہل ایمان اطمینان رکھیں کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا۔

وعدۂ قیامت کی قطعیت پر صفات الٰہی سے استدلال: ’وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘۔ یہ اسی وعدے کے حتمی ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات سے دلیل پیش کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر مستکبروں اور ظالموں کو سزا اور ایمان و عمل صالح والوں کو جزا نہ دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ نہ وہ عزیز ہے نہ حکیم ہے بلکہ العیاذ باللہ وہ ایک بالکل عاجز و بے بس ہستی ہے جس نے بالکل بے غایت و بے حکمت یہ دنیا بنا ڈالی۔ حالانکہ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ خدا نہ صرف عزیز و حکیم ہے بلکہ حقیقی عزیز و حکیم وہی ہے۔ اس طرز استدلال کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہو چکی ہے۔ یہاں اشارے پر اکتفا فرمائیے۔

جاوید احمد غامدی

البتہ جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے، اُن کے لیے نعمت کے باغ ہیں

n/a

ابو الاعلی مودودی

البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، ان کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں

یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لئے جنت کی نعمتیں ہیں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں۔ اگر پہلی بات فرمائی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز تو ضرور ہوں گے مگر وہ جنتیں ان کی اپنی نہ ہوں گی۔ اس کے بجائے جب یہ فرمایا گیا کہ ” ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں، ” تو اس سے خود بہ خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری پوری جنتیں ان کے حوالہ کردی جائیں گی اور وہ ان نعمتوں سے اس طرح مستفید ہوں گے جس طرح ایک مالک اپنی چیز سے مستفید ہوتا ہے، نہ کہ اس طرح جیسے کسی کو حقوق ملکیت دیے بغیر محض ایک چیز سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیا جائے۔

جونا گڑھی

بیشک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور کام بھی نیک کئے ان کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں۔

خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ اللَّـهِ حَقًّا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

امین احسن اصلاحی

جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا۔ اور وہ غالب و حکیم ہے

قرآن کا مذاق اڑانے والوں کو جواب: یہ ان کے مقابل میں ان لوگوں کا صلہ بیان ہوا ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لانے والے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے والے ہیں۔ فرمایا کہ ان کے لیے نعمت کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ’وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا‘ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا حتمی وعدہ ہے جو پورا ہو کے رہے گا۔ اس جملے میں تاکید در تاکید کا جو مضمون مضمر ہے اس کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے۔ اس تاکید کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ اوپر آیت ۶ میں ذکر ہو چکا ہے کہ مستکبرین اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے استہزا کا خاص ہدف وہ آیتیں تھیں جن میں اس دور کے بے بس اور غریب مسلمانوں کو ایک ابدی بادشاہی کی خوش خبری سنائی جاتی تھی۔ معاملے کا یہ پہلو مقتضی ہوا کہ یہ بات یہاں پورے زور اور تاکید سے کہی جائے کہ مذاق اڑانے والے اگر اس کا مذاق اڑاتے ہیں تو اڑائیں لیکن اہل ایمان اطمینان رکھیں کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا۔

وعدۂ قیامت کی قطعیت پر صفات الٰہی سے استدلال: ’وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘۔ یہ اسی وعدے کے حتمی ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات سے دلیل پیش کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر مستکبروں اور ظالموں کو سزا اور ایمان و عمل صالح والوں کو جزا نہ دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ نہ وہ عزیز ہے نہ حکیم ہے بلکہ العیاذ باللہ وہ ایک بالکل عاجز و بے بس ہستی ہے جس نے بالکل بے غایت و بے حکمت یہ دنیا بنا ڈالی۔ حالانکہ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ خدا نہ صرف عزیز و حکیم ہے بلکہ حقیقی عزیز و حکیم وہی ہے۔ اس طرز استدلال کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہو چکی ہے۔ یہاں اشارے پر اکتفا فرمائیے۔

جاوید احمد غامدی

جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے

اِس جملے میں تاکید درتاکید کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’... اِس تاکید کی ضرورت اِس وجہ سے تھی کہ اوپر آیت ۶ میں ذکر ہو چکا ہے کہ مستکبرین اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اُن کے استہزا کا خاص ہدف وہ آیتیں تھیں جن میں اُس دور کے بے بس اور غریب مسلمانوں کو ایک ابدی بادشاہی کی خوش خبری سنائی جاتی تھی۔ معاملے کا یہ پہلو مقتضی ہوا کہ یہ بات یہاں پورے زور اور تاکید سے کہی جائے کہ مذاق اڑانے والے اگر اِس کا مذاق اڑاتے ہیں تو اڑائیں، لیکن اہل ایمان اطمینان رکھیں کہ اللہ کا یہ وعدہ پورا ہو کے رہے گا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۲۳)

یعنی نہ ظالموں اور مستکبروں کے مقابلے میں کوئی بے بس ہستی ہے کہ عاجز ہو کر بیٹھا رہے اور نہ یہ دنیااُس نے کھیل تماشے کے طور پر بنائی ہے کہ اُسے کسی انجام حق تک پہنچائے بغیر ختم کر دے۔ وہ یہ لازماً کرے گا، اِس لیے کہ عزیز و حکیم ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے ۔

یعنی کوئی چیز اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی، اور وہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ٹھیک حکمت اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے ” یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے ” کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بیان کرنے کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو بالارادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہو سکتی ہو، اس لئے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے۔ نیز یہ کہ اللہ کی طرف سے اس انعام کا اعلان سراسر اس کی حکمت اور اس کے عدل پر مبنی ہے۔ اس کے ہاں کوئی غلط بخشی نہیں ہے کہ مستحق کو محروم رکھا جائے اور غیر مستحق کو نواز دیا جائے۔ ایمان و عمل صالح سے متصف لوگ فی الواقع اس انعام کے مستحق ہیں اور اللہ یہ انعام انہی کو عطا فرمائے گا۔

جونا گڑھی

جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا سچا وعدہ ہے، وہ بہت بڑی عزت و غلبہ والا اور کامل حکمت والا ہے۔

 یعنی یہ یقینا پورا ہوگا، اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وَاللّٰہُ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ۔ 

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ

امین احسن اصلاحی

اس نے بنایا آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظر آئیں اور زمین میں پہاڑ گاڑ دیے کہ وہ تمہارے سمیت لڑھک نہ جائے اور اس میں ہر قسم کے جان دار پھیلائے۔ اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا پس اس میں نوع بنوع فیض بخش چیزیں پیدا کیں

یہ اس کائنات کے ان دلائل و شواہد کی طرف توجہ دلائی ہے جن پر ایک نظر ڈال کر ایک متوسط درجہ کی عقل کا آدمی بھی، یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ اس کائنات کا خالق عزیز یعنی ہر چیز پر غالب و مقتدر بھی ہے اور اس کے ہر کام میں اس کی قدرت کے ساتھ اس کی بے پایاں حکمت بھی نمایاں ہے۔ فرمایا کہ یہ اسی کی قدرت و حکمت ہے کہ اس نے آسمانوں کی یہ عظیم چھت ایسے ستونوں کے بغیر ہی کھڑی کر دی جو تمہیں نظر آئیں اور ساتھ ہی زمین میں پہاڑ لنگر انداز کر دیے کہ یہ تمہارے ساتھ لڑھک نہ جائے۔ پھر اس چھت کے نیچے اور اس زمین کے اوپر بے شمار قسم کے جان دار پھیلا دیے اور ان کی پرورش کے لیے آسمان سے پانی برسایا اور اس پانی سے ہر قسم کی فیض بخش چیزیں اگائیں۔

’بِغَیْْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا‘ میں ’تَرَوْنَہَا‘ ’عَمَدٍ‘ کی صفت ہے۔ یعنی یہ عظیم چھت اس کے عظیم خالق نے کھڑی تو کی ہے ستونوں پر لیکن یہ اس کی قدرت، حکمت اور کاریگری کا اعجاز ہے کہ یہ ستون کسی کو نظر نہیں آتے۔ اس نے اس کائنات کے اجزائے مختلفہ کو جذب و کشش کے ایسے قوانین کے ساتھ باندھ رکھا ہے جو صرف اسی کو نظر آتے ہیں۔
’زَوْجٍ کَرِیْمٍ‘ میں لفظ ’کَرِیْم‘ کا صحیح لغوی مفہوم فیض بخش ہے۔ یہ خدا کی قدرت کے ساتھ ساتھ اس کی رحمت و ربوبیت کی طرف اشارہ ہے کہ اس نے یہ عظیم محل اور یہ قصر بے ستون تعمیر کر کے اس کے مکینوں کی پرورش کے لیے اپنی گوناگوں نعمتوں کے انبار بھی لگا دیے۔

جاوید احمد غامدی

اُس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بنا دیا ہے جو تمھیں نظر آئیں اور زمین میں پہاڑ جما دیے ہیں کہ وہ تمھیں لے کر جھک نہ پڑے اور اُس میں ہر طرح کے جان دار پھیلا دیے ہیں۔ (دیکھتے نہیں ہو کہ) ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اِسی زمین میں قسم قسم کی فیض بخش چیزیں پیدا کر دی ہیں

اصل الفاظ ہیں: ’اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ‘۔ اِن میں ’اَنْ‘ سے پہلے لام علت عربیت کے اسلوب پر مقدر ہے۔ یہ غالباً وہی چیز ہے جسے جدید سائنس میں ’isostasy‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن کے اِس بیان سے پہاڑوں کے بارے میں یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندروں کے نیچے کے کثیف مادے کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر ابھرے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو زمین اُسی طرح ہلتی رہتی، جس طرح اب زلزلہ آ جائے تو ہلتی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں ۔ اس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے ۔ اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں۔

اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدعا، یعنی تردید شرک اور دعوت توحید پر کلام شروع ہوتا ہے۔

اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ” تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔ ” دوسرا مطلب یہ کہ ” وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے “۔ ابن عباس (رض) اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے، اور بہت سے دوسرے مفسرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علوم طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام عالم افلاک میں یہ بےحد و حساب عظیم الشان تارے اور سیارے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں۔ صرف قانون جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جاسکے۔

تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ٢، صفحہ ٥٣٠، حاشیہ نمبر ١٢۔

جونا گڑھی

اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا ہے تم انھیں دیکھ رہے ہو اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ وہ تمہیں جنبش نہ دے سکے اور ہر طرح کے جاندار زمین میں پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیئے۔

 تَرَوْنَھَا، اگر عَمَد کی صفت ہو تو معنی ہونگے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔ 

 رواسی راسیۃ کی جمع ہے جس کے معنی ثابتۃ کے ہیں یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لیے آگے فرمایا ان تمید بکم یعنی کراھۃ ان تمید (تمیل) بکم او لئلا تمید یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لیے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لیے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔

یعنی انواع و اقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔ 

 زوج یہاں صنف کے معنی میں ہے یعنی ہر قسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ 

Page 1 of 4 pages  1 2 3 >  Last ›