یہ سورہ ’کٓھٰیٰعٓصٓ‘ ہے۔
یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس طرح کے جو نام قرآن میں آئے ہیں، اُن کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔
ک، ہ، ی، ع، ص۔
n/a
کہیعص
یہ تیرے رب کے اس فضل کی یاددہانی ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کیا۔
حضرت زکریاؑ کا مرتبۂ خاص: ’ذکر‘ یہاں اسی مفہوم میں ہے جس مفہوم میں آگے حضرت مریمؑ سے لے کر حضرت ادریسؑ تک تمام انبیاء کا ذکر بصیغہ ’اذکر‘ ہوا ہے۔ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ہے کہ نادانوں نے تو یہ تمام سرگزشتیں فراموش کر دیں، یہ تمہیں سنائی جا رہی ہیں تاکہ تم بھی ان سے بہرہ مند ہو اور دوسروں کو بھی یاددہانی کرو کہ وہ بھی ان سے بہرہ مند ہوں۔ آیت میں ’عَبْدَہٗ‘ کا لفظ حضرت زکریا کے اختصاص پر دلیل ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ خود ’اپنا بندہ‘ کہہ کر یاد فرمائے اس کے لیے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے!
بولائے تو کہ گر بندۂ خویشم خوانی
زسر خواجگی کون و مکاں بر خیزم
یہ تیرے پروردگار کے (فضل و) رحمت کا ذکر ہے جو اُس نے اپنے بندے زکریا پر کیا تھا۔
لفظ ’ذِکْر‘ یہاں اُسی مفہوم میں ہے جس میں آگے ’اُذْکُرْ‘ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔
آیت میں لفظ ’عَبْد‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ حضرت زکریا کے اختصاص کو بیان کرتا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، جس کو اللہ تعالیٰ خود اپنا بندہ کہہ کر یاد فرمائے، اُس کے لیے اِس سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے۔ یہ زکریا کون تھے؟ ہم سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۳۷ کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں کہ یہ سیدنا ہارون علیہ السلام کے خاندان سے اور سیدہ مریم کے خالو تھے۔ بنی اسرائیل میں کہانت کا جو نظام قائم کیا گیا تھا، اُس کی رو سے لاوی بن یعقوب کا گھرانا مذہبی خدمات کے لیے خاص تھا۔ پھر بنی لاوی میں سے بھی مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلانے اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کی خدمت سیدنا ہارون کے خاندان کے سپرد تھی۔ دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جا سکتے تھے، بلکہ صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے۔ سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کی مدد کرتے تھے۔ زکریا بنی ہارون کے خاندان میں سے ابیاہ کے سربراہ تھے۔ چنانچہ اپنے خاندان کی طرف سے یہی معبد کی خدمت انجام دیتے تھے۔
ذکر ہے اُس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی تھی۔
تقابل کے لیئے سورة آل عمران رکوع 4 پیش نظر رہے جس میں یہ قصہ دوسرے الفاظ میں بیان ہوچکا ہے۔ تفہیم القران ج 1 ۔ ص 246 ۔ 250)
یہ حضرت زکریا جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے حضرت ہارون کے خاندان سے تھے۔ ان کی پوزیشن ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کے نظام کہانت (Priesthood) کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے فلسطین پر قابض ہونے کے بعد بنی اسرائیل نے ملک کا انتظام اس طرح کیا تھا کہ حضرت یعقوب کی اولاد کے 12 قبیلوں میں تو سارا ملک تقسیم کردیا گیا، اور تیرھواں قبیلہ (یعنی لاوی بن یعقوب کا گھرانا) مذہبی خدمات کے لیئے مخصوص رہا پھر بنی لاوی میں سے بھی اصل وہ خاندان جو، مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلا نے کی خدمت اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کا کام ‘’ کرتا تھا، حضرت ہارون کا خاندان تھا۔ باقی دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جاسکتے تھے بلکہ خداوند کے گھر کی خدمت کے وقت صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے، سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے، اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
بنی ہارون کے چوبیس خاندان تھے جو باری باری سے مقدس کی خدمت کے لیئے حاضر ہوتے۔ انہی خاندانوں میں سے ایک ابیاہ کا خاندان تھا جس کے سردار حضرت زکریا تھے۔ اپنے خاندان کی باری کے دنوں میں یہی مقدس میں جاتے اور بخور جلا نے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب توار یخ اول۔ باب 23، 24)
یہ ہے تیرے پروردگار کی اس مہربانی کا ذکر جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔
حضرت زکر یا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا (صحیح مسلم)
جب اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔
اولاد کے لیے حضرت زکریاؑ کی دعا اور انداز دعا: یہ حضرت زکریاؑ کی دعا ہے جو انھوں نے فرزند کی ولادت کے لیے کی ہے۔ یہ دعا انھوں نے ہیکل میں، جیسا کہ آگے اشارہ آ رہا ہے، غالباً بحالت اعتکاف کی ہے۔ فرمایا کہ اس نے چپکے چپکے اپنے رب کو پکارا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کا راز و نیاز کے انداز میں ہونا اس کے اولین آداب میں سے بھی ہے اور اس کی قبولیت کے لیے بہترین سفارش بھی۔ درحقیقت یہی دعائیں ہوتی ہیں جو ریا اور نمائش سے بھی پاک ہوتی ہیں اور انہی کے اندر بندہ اپنے دل کے اصلی راز بھی کھولتا ہے۔ اس وجہ سے دعا کے اس ادب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ صرف اجتماعی دعائیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔
جب اُس نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے پکارا۔
یعنی راز و نیاز کے انداز میں۔ یہ دعا کے آداب میں سے ہے، اِس لیے کہ اِسی میں بندہ اپنے پروردگار کے لیے خاص ہو کر اپنی درخواست اُس کے حضور پیش کرتا ہے۔
جبکہ اُس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔
n/a
جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی
خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع وانابت اور خشوع وخضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انھیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہوچکے ہیں۔
اس نے دعا کی اے میرے پروردگار! میرے اندر سے میری ہڈیاں کھوکھلی ہو چکی ہیں اورمیرا سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا اور اے میرے رب میں تجھے پکار کے کبھی محروم نہیں رہا۔
مؤثر تمہید: ’وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ‘ کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ میرا ظاہری جسم تو درکنار میرے تو اندر کی ہڈیاں تک کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ یہ حضرت زکریاؑ نے عرض مدعا سے پہلے اس کے لیے تمہید استوار کی ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ایسی مؤثر تمہید استوار کی ہے کہ اگر سوء ادب پر محمول نہ کیجیے تو عرض کروں کہ یہ خدا کی رحمت پر کمنڈ ڈال دینے والی تمہید ہے۔ حضرت زکریاؑ نے ایک تو اپنے ضعف و ناتوانی کو سفارش میں پیش کیا، دوسرے اپنے ساتھ زندگی بھر اپنے رب کے معاملے کو۔ فرماتے ہیں کہ اے رب میں کبھی تجھے پکار کے محروم نہیں رہا۔ غور کیجیے کہ جو سائل جس در سے کبھی محروم نہیں لوٹا ہے وہ اس پیری و ناتوانی میں، جب کہ اس کی ہڈیوں تک کی گود خشک ہو چکی ہے اس دروازے سے کس طرح محروم لوٹایا جائے گا۔
اُس نے عرض کیا: میرے پروردگار، میری ہڈیاں بوڑھی ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے اور اے پروردگار، تجھ سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں رہا۔
آگے کی آیتوں میں اشارہ ہے کہ اُنھوں نے یہ درخواست ہیکل میں غالباً اعتکاف کی حالت میں پیش کی ہے۔
اُس نے عرض کیا “اے پروردگار، میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے۔ اے پروردگار، میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔
n/a
کہ اے میرے پروردگار ! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کرکے محروم نہیں رہا
یعنی جس طرح لکڑی آگ سے بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے مراد ضعف وکبر (بڑھاپے) کا اظہار ہے۔
اور اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔
میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں کی طرف سے اندیشہ رکھتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو تُو اپنے پاس سے مجھے ایک وارث بخش۔
دینی وراثت کے حامل کے لیے دعا: ’مَوَالِی‘ سے مراد کسی شخص کے بنی اعمام، بھائی بند اور اس کے نسبتی اعزہ و اقرباء ہوتے ہیں۔ حضرت زکریاؑ کے اقرباء، معلوم ہوتا ہے کہ اچھے لوگ نہیں تھے، ان کی طرف سے اندیشہ تھا کہ یہ لوگ، ان کی وفات کے بعد، ان کی اور آل یعقوبؑ کی ان دینی روایات کو قائم نہ رکھ سکیں گے جو اس پاکیزہ خاندان کا اصل سرمایۂ امتیاز ہیں۔ انھیں فکر تھی کہ خاندان میں کوئی ایسا شخص اٹھے جو اس خاندان کے مشن کو زندہ رکھ سکے اور ان روایات کا حامل ہو جو آل یعقوب کا اصلی ورثہ ہیں۔ اگرچہ خود پیری و ناتوانی کے آخری مرحلہ میں داخل ہو چکے تھے اور بیوی بانجھ تھیں، جہاں تک ظاہری اسباب و حالات کا تعلق ہے اس آرزو کے بر آنے کی کوئی توقع نہیں تھی، لیکن وہ اس رمز سے آگاہ تھے کہ اسباب و ذرائع خدا کے ہاتھ میں ہیں، خدا اسباب و ذرائع کا غلام نہیں ہے۔ اس وجہ سے انھوں نے دعا فرمائی کہ اے رب اگرچہ اسباب ناپید ہیں لیکن تیرے اختیار میں سب کچھ ہے۔ تو خاص اپنے پاس سے مجھے ایک وارث عنایت فرما جو میری اور آل یعقوب کی دینی وراثت کو سنبھال سکے اور اے رب اسے پسندیدہ اخلاق بنائیے۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہو جو اب اس خاندان میں در آئی ہیں۔
مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں سے اندیشہ ہے اور میری بیوی بانجھ ہے۔ سو اپنے پاس سے تو مجھے ایک وارث عطا فرما دے۔
یعنی وہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے اچھے لوگ نہیں ہیں۔ چنانچہ اندیشہ ہے کہ میرے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد میری اور میرے خاندان کی اُن روایات کو قائم نہ رکھ سکیں گے جو ہمارا اصل سرمایۂ امتیاز ہیں۔
یہاں تک اُس درخواست کی تمہید ہے جو اُنھوں نے آگے پیش فرمائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...حضرت زکریا نے عرض مدعا سے پہلے اُس کے لیے تمہید استوار کی ہے اور اِس میں شبہ نہیں کہ ایسی مؤثر تمہید استوار کی ہے کہ اگر سوء ادب پر محمول نہ کیجیے تو عرض کروں کہ یہ خدا کی رحمت پر کمند ڈال دینے والی تمہید ہے۔ حضرت زکریا نے ایک تو اپنے ضعف و ناتوانی کو سفارش میں پیش کیا، دوسرے اپنے ساتھ زندگی بھر اپنے رب کے معاملے کو۔ فرماتے ہیں کہ اے رب، میں کبھی تجھے پکار کے محروم نہیں رہا۔ غور کیجیے کہ جو سائل جس در سے کبھی محروم نہیں لوٹا ہے، وہ اِس پیری و ناتوانی میں، جبکہ اُس کی ہڈیوں تک کی گود خشک ہو چکی ہے، اُس دروازے سے کس طرح محروم لوٹایا جائے گا۔‘‘(تدبرقرآن ۴/ ۶۳۵)
مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے، اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے۔
مطلب یہ ہے کہ ابیاہ کے خاندان میں میرے بعد کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو دینی اور اخلاقی حیثیت سے اس منصب کا اہل ہو جسے میں سنبھالے ہوئے ہوں۔ آگے جو نسل اٹھتی نظر آ رہی ہے اس کے لچھن بگڑے ہوئے ہیں۔
مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما۔
اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ وارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز و انحراف نہ اختیار کرلیں۔
' اپنے پاس سے ' کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہوچکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔
جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب کی روایات کا بھی۔ اور اے رب! اس کو پسندیدہ اخلاق بنائیو۔
دینی وراثت کے حامل کے لیے دعا: ’مَوَالِی‘ سے مراد کسی شخص کے بنی اعمام، بھائی بند اور اس کے نسبتی اعزہ و اقرباء ہوتے ہیں۔ حضرت زکریاؑ کے اقرباء، معلوم ہوتا ہے کہ اچھے لوگ نہیں تھے، ان کی طرف سے اندیشہ تھا کہ یہ لوگ، ان کی وفات کے بعد، ان کی اور آل یعقوبؑ کی ان دینی روایات کو قائم نہ رکھ سکیں گے جو اس پاکیزہ خاندان کا اصل سرمایۂ امتیاز ہیں۔ انھیں فکر تھی کہ خاندان میں کوئی ایسا شخص اٹھے جو اس خاندان کے مشن کو زندہ رکھ سکے اور ان روایات کا حامل ہو جو آل یعقوب کا اصلی ورثہ ہیں۔ اگرچہ خود پیری و ناتوانی کے آخری مرحلہ میں داخل ہو چکے تھے اور بیوی بانجھ تھیں، جہاں تک ظاہری اسباب و حالات کا تعلق ہے اس آرزو کے بر آنے کی کوئی توقع نہیں تھی، لیکن وہ اس رمز سے آگاہ تھے کہ اسباب و ذرائع خدا کے ہاتھ میں ہیں، خدا اسباب و ذرائع کا غلام نہیں ہے۔ اس وجہ سے انھوں نے دعا فرمائی کہ اے رب اگرچہ اسباب ناپید ہیں لیکن تیرے اختیار میں سب کچھ ہے۔ تو خاص اپنے پاس سے مجھے ایک وارث عنایت فرما جو میری اور آل یعقوب کی دینی وراثت کو سنبھال سکے اور اے رب اسے پسندیدہ اخلاق بنائیے۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہو جو اب اس خاندان میں در آئی ہیں۔
جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب کے خاندان کا بھی۔ اور میرے پروردگار، تو اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا۔
یعنی پسندیدہ اخلاق کا حامل اور اُن کمزوریوں سے پاک جو اِس وقت خاندان میں در آئی ہیں۔
جو میرا وارث بھی ہو اور آلِ یعقوب کی میراث بھی پائے، اور اے پروردگار، اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا۔”
یعنی مجھے صرف اپنی ذات ہی کا وارث مطلوب نہیں ہے بلکہ خانوادہ یعقوب کی بھلائیوں کا وارث مطلوب ہے۔
جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کا بھی جانشین اور میرے رب ! تو اسے مقبول بندہ بنالے۔
اے زکریا ہم تمہیں ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۔ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی نظیر نہیں بنایا۔
سچی دیا اور اس کی قبولیت: جب دعا صحیح وقت پر، صحیح مقصد کے لیے، سچے جذبے کے ساتھ اور صحیح الفاظ میں کی جائے تو اس میں اور اس کی قبولیت میں کوئی فاصلہ نہیں رہ جاتا۔ اس کے لیے اسباب کے تمام پردے اٹھا دیے جاتے ہیں۔ ہر طرف تاریکی اور مایوسی ہوتی ہے، اسباب و حالات بالکل نامساعد نظر آتے ہیں، کسی طرف سے بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی لیکن بندہ جب اس امید کے ساتھ اپنے آپ کو اپنے رب کے دروازے پر ڈال دیتا ہے کہ بہرحال میرے لیے یہی دروازہ ہے، میں نے جو کچھ پایا ہے یہیں سے پایا ہے اور جو کچھ پاؤں گا یہیں سے پاؤں گا تو بالآخر اس کے لیے خدا کی رحمت اس گوشہ سے نمودار ہوتی ہے جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا اور اس شان سے نمودار ہوتی ہے کہ اسباب و ظواہر کے غلام اس کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ حضرت زکریاؑ کی یہ دعا بھی ٹھیک مقصد کے لیے، ٹھیک وقت پر اور سچے جذبہ کے ساتھ تھی اس وجہ سے الفاظ زبان سے نکلے نہیں کہ اس کی قبولیت کی بشارت نازل ہو گئی۔ فرمایا کہ اے زکریا ہم تمہیں ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۔
’لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا‘ ’سمی‘ کے معنی نظیر و مثال کے ہیں۔ اس سورہ میں آگے آیت ۶۵ میں ہے ’ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا‘ کیا تم خدا کی کسی نظیر سے آشنا ہو۔ یہ حضرت زکریاؑ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہر چند تم بوڑھے ہو اور تمہاری بیوی بانجھ ہے، بوڑھے مرد اور بانجھ بیوی کے ہاں اولاد کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے لیکن ہماری مرضی یہی ہے کہ ہم تمہیں ایسی ہی بے نظیر اولاد دیں۔
(فرمایا): اے زکریا، ہم تمھیں ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۔ ہم نے اِس سے پہلے اُس کا کوئی نظیر نہیں بنایا ہے۔
حضرت زکریا نے بالکل صحیح وقت پر، صحیح مقصد کے لیے اور نہایت سچے جذبے کے ساتھ دعا کی تھی۔ چنانچہ زبان سے نکلی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرما لیا۔ بندے کی دعا اگراِس یقین کا بے تابانہ اظہار ہو کہ میرے لیے ایک ہی دروازہ ہے، اِس سے پہلے بھی یہیں سے پایا ہے اور اب بھی یہیں سے پاؤں گا تو اُس کے لیے خدا کی رحمت اُن گوشوں سے نمودار ہو جاتی ہے، جہاں سے اُس کو وہم و گمان بھی نہ ہو۔
یعنی اِس سے پہلے کوئی بچہ اِس طرح کے بوڑھے باپ اور بانجھ ماں کو نہیں دیا ہے، اِس لیے عام قانون سے ہٹ کر یہ ہر لحاظ سے بے نظیر فرزند ہے۔
(جواب دیا گیا) “اے زکریاؑ، ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰؑ ہو گا۔ ہم نے اِس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا۔”
لوقا کی انجیل میں الفاظ یہ ہیں : تیرے کنبے میں کسی کا یہ نام نہیں (61:1)
اے زکریا ! ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا ۔
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دعا قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرما دیا
اس نے کہا اے میرے خداوند! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا، میری بیوی تو بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کی بے بسی کو پہنچ چکا ہوں!
’عِتی‘ کے معنی ہیں کسی شے کا حد سے متجاوز ہو جانا، قابو اور اختیار سے باہر نکل جانا ’وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا‘ یعنی اب میں بڑھاپے کی اس حد کو پہنچ چکا ہوں کہ مجھے اپنے اعضا و جوارح اور اعصاب پر قابو نہیں رہ گیا ہے۔
سوال مزید اطمینان کے لیے: یہ حضرت زکریاؑ نے اس بشارت کے باب میں مزید اطمینان حاصل کرنے کے لیے اپنے اس تردد کا اظہار فرمایا جو ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے اس بشارت کے ظہور سے متعلق ان کو لاحق ہوا۔ فرمایا کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود اپنے بڑھاپے کی اس حد کو پہنچ چکا ہوں کہ مجھے اپنے اعصاب پر قابو نہیں رہ گیا ہے، ایسی حالت میں میرے ہاں اولاد کس طرح ہو گی۔
اُس نے عرض کیا: پروردگار، میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا، جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں۔
n/a
عرض کیا، “پروردگار، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں؟”
n/a
زکریا (علیہ السلام) کہنے لگے میرے رب ! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، جب کہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں ۔
عَاقِر اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِیًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے ؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یٰحیٰی (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)
فرمایا، ایسا ہی ہو گا تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے۔ میں نے اس سے پہلے تم کو پیدا کیا درآنحالیکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔
قرینہ دلیل ہے کہ یہ جواب ہاتف غیب کی زبان سے ہے۔ ’کَذٰلِکَ‘ کی خبر کا حذف زور اور تاکید پر دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے رب کا فیصلہ یہی ہے، بس یوں ہی ہو گا۔ جس خدا نے عدم محض سے انسان کو وجود بخشا اس کے لیے بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے اولاد پیدا کر دینا کیا مشکل ہے۔
فرمایا: ایسا ہی ہو گا۔ تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ یہ میرے لیے بہت آسان ہے۔ میں اِس سے پہلے تجھے پیدا کر چکا ہوں، جبکہ تم کچھ بھی نہیں تھے-
قرینہ دلیل ہے کہ یہ جواب ہاتف غیب کی زبان سے ہے۔ آیت میں ’کَذٰلِکَ‘ کی خبر محذوف ہے۔ یہ زور اور تاکید کے لیے حذف کر دی گئی ہے۔
جواب ملا “ایسا ہی ہو گا۔ تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے، آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔
n/a
ارشاد ہوا کہ وعدہ اسی طرح ہوچکا، تیرے رب نے فرما دیا کہ مجھ پر تو یہ بالکل آسان ہے اور تو خود جبکہ کچھ نہ تھا میں تجھے پیدا کرچکا ہوں
فرشتوں نے حضرت زکریا کا تعجب دور کرنے کے لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے بیٹا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے مطابق یقیناً تجھے بیٹا ملے گا، اور یہ اللہ کے لئے قطعاً مشکل کام نہیں ہے کیونکہ جب وہ تجھے نیست سے ہست کرسکتا ہے تو تجھے ظاہری اسباب سے ہٹ کر بیٹا بھی دے سکتا ہے۔
اس نے کہا، اے میرے خداوند! میرے لیے کوئی نشانی ٹھہرا دیجیے۔ فرمایا، تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین شب و روز لوگوں سے بات نہ کر سکو گے درآنحالیکہ تم بالکل تندرست ہو گے۔
اطمینان قلب کے لیے ایک اور درخواست: یہ حضرت زکریاؑ نے اپنے اطمینان قلب کے لیے ایک اور درخواست پیش کر دی۔ یہ بشارت ان کی دلی آرزو کا مظہر اور ان کے لیے بڑی اہمیت رکھنے والی تھی اس وجہ سے انھوں نے چاہا کہ ہر پہلو سے اس پر شرح صدر ہو جائے۔ حضرت زکریاؑ نے یہ بشارت ہاتف غیب سے سنی تھی اس وجہ سے انھیں یہ خیال ہو سکتا تھا کہ ممکن ہے یہ واہمہ کی خلاقی ہو اور اپنے ہی گنبد دل کی صدا اس شکل میں سنائی دی ہو۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ ان کو کوئی ایسی نشانی دکھا دی جائے جس سے انھیں اطمینان ہو جائے کہ یہ بشارت رب ہی کی طرف سے ملی ہے۔ اس میں نفس یا شیطان کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اس قسم کی درخواستیں بعض دوسرے انبیاؑء کی بھی قرآن میں مذکور ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام رویا اور ہاتف غیب کی باتیں قبول کرنے کے معاملے میں بڑی احتیاط برتتے تھے۔ اس سے خدانخواستہ ان کے ایمان کے بارے میں کوئی شبہ کرنے کی گنجائش نہیں نکلتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریاؑ کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور اس بشارت کے خدائی بشارت ہونے کی نشانی یہ مقرر فرما دی کہ تم تین شبانہ روز مسلسل تسبیح و تہلیل تو کر سکو گے لیکن کوئی اور لفظ زبان سے نہ نکال سکو گے۔ ظاہر ہے کہ ایک آدمی پر ایسی حالت کا طاری ہو جانا کہ وہ ذکر الٰہی تو کر سکے لیکن کوئی اور کلمہ زبان سے نہ نکال سکے، کوئی شیطانی حالت نہیں ہو سکتی، یہ ہو سکتی ہے تو رحمانی حالت ہی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ حالت حضرت زکریاؑ پر طاری ہو گئی، وہ محراب عبادت سے نکل کر لوگوں میں آئے تو وہ کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ صرف اشارے سے انھوں نے لوگوں کو تسبیح و تہلیل میں مشغول رہنے کی ہدایت کی۔
بعض لوگوں نے ’اَلَّا تُکَلِّمَ‘ کو خبر کے بجائے نہی کے معنی میں لیا ہے۔ آیت کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ حضرت زکریاؑ نے نشانی مانگی تو ان کو حکم ہوا کہ تین رات لگاتار تم کسی سے بات نہ کرو۔ جن حضرات نے آیت کا مطلب یہ لیا ہے انھوں نے نہ تو اس بات پر غور کرنے کی زحمت اٹھائی کہ حضرت زکریاؑ نے کس چیز کی نشانی مانگی تھی اور نہ اس مسئلہ پر غور فرمایا کہ حضرت زکریاؑ کو تین شبانہ روز خاموش رہنے کے حکم میں نشانی ہونے کا کیا پہلو نکلا!
’سَوِیّ‘ کا مفہوم: ’سَوِیّ‘ مرض اور عیب سے بری کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تم تین شبانہ روز کسی سے بات تو نہ کر سکو گے لیکن یہ حالت کسی مرض یا خرابی کا نتیجہ نہیں ہو گی بلکہ ہرگونہ صحت کے ساتھ محض اللہ کے حکم سے بطور ایک نشانی کے ہو گی جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کے ید بیضاء کی نشانی سے متعلق فرمایا ہے کہ ’تَخْرُجُ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ‘ اسی طرح یہاں لفظ ’سَوِیًّا‘ بطور ایک بدرقہ کے ہے۔ لگاتار یا مسلسل کے معنی میں اس کا استعمال معروف نہیں ہے۔ آگے اسی سورہ میں یہ لفظ آیت ۱۷ میں بھی آیا ہے وہاں یہ صریحاً بھلے چنگے، ہٹے کٹے، تندرست اور مستوی القامت کے معنی میں ہے۔
لیالی، شب و روز، دونوں پر حاوی ہے: ’لیالی‘ کا لفظ یہاں شب و روز دونوں پر حاوی ہے۔ سورۂ آل عمران میں یہی مضمون لفظ ’ایام‘ سے بیان ہوا ہے۔ ایام کا اطلاق بھی شب و روز دونوں پر ہوتا ہے۔ عربی میں یہ استعمالات معروف ہیں۔
زکریا نے کہا: میرے پروردگار، میرے لیے کوئی نشانی ٹھیرا دیجیے۔ فرمایا: تمھارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین شب و روز لوگوں سے بات نہیں کر سکو گے، جبکہ تم بالکل تندرست ہو گے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکریا کا گمان تو اگرچہ یہی تھا کہ یہ بشارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لیکن دل کے کسی گوشے میں یہ کھٹک ضرور تھی کہ ممکن ہے کہ یہ اپنے ہی گنبد دل کی صدا اور اپنی ہی آرزوؤں کے ہجوم میں شیطان کا کوئی القا ہو جسے وہ فرشتوں کا الہام سمجھ بیٹھے ہیں۔ چنانچہ یہ درخواست اُنھوں نے اپنے اطمینان کے لیے کی۔
یعنی یہ حالت کسی مرض یا خرابی کی وجہ سے نہیں ہو گی، بلکہ خدا کی ایک نشانی ہو گی کہ تم خدا کی تسبیح و تہلیل تو کرو گے، لیکن لوگوں سے کوئی بات نہیں کر سکو گے۔ سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۴۱ میں اِس کی تصریح ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... ظاہر ہے کہ ایک آدمی پر ایسی حالت کا طاری ہو جانا کہ وہ ذکر الٰہی تو کر سکے، لیکن کوئی اور کلمہ زبان سے نہ نکال سکے، کوئی شیطانی حالت نہیں ہو سکتی۔ یہ ہو سکتی ہے تو رحمانی حالت ہی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ حالت حضرت زکریا پر طاری ہو گئی۔ وہ محراب عبادت سے نکل کر لوگوں میں آئے تو وہ کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ صرف اشارے سے اُنھوں نے لوگوں کو تسبیح و تہلیل میں مشغول رہنے کی ہدایت کی۔‘‘(تدبرقرآن ۴/ ۶۳۸)
زکریاؑ نے کہا، “پروردگار، میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔” فرمایا “تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم
تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے۔”
n/a
کہنے لگے میرے پروردگار میرے لئے کوئی علامت مقرر فرما دے ارشاد ہوا کہ تیرے لئے علامت یہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کے تین راتوں تک کسی شخص سے بول نہ سکے گا۔
راتوں سے مراد، دن اور رات ہیں اور سَوِیاًّ کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھاک، تندرست، یعنی ایسی کوئی بیماری نہیں ہوگی جو تجھے بولنے سے روک دے۔ لیکن اس کے باوجود تیری زبان سے گفتگو نہ ہو سکے تو سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آگئے ہیں۔
امین احسن اصلاحی
کٓھٰیٰعٓصٓ۔
یہ حروف مقطعات میں سے ہے۔ ان حروف پر مفصل بحث سورۂ بقرہ کے شروع میں دیکھیے۔