جن لوگوں نے انکار کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، اُن کے اعمال اللہ نے رایگاں کر دیے ہیں۔
سورۂ احقاف (۴۶) منکرین حق کے لیے جس تہدید و وعید پر ختم ہوئی ہے، یہ سورہ بغیر کسی تمہید کے اُسی مضمون سے شروع ہو گئی ہے۔ اعمال کے رایگاں کرنے کا جو ذکر یہاں ہوا ہے، اُس سے مراد اُن کی کوششوں کا رایگاں کرنا ہے جو وہ لوگوں کو خدا کے راستے سے روکنے کے لیے کر رہے تھے۔ یہ مستقبل کی بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی قطعیت کو ظاہر کرنے کے لیے ماضی کے صیغے میں بیان کی گئی ہے۔
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا۔
یعنی اس تعلیم و ہدایت کو ماننے سے انکار کردیا جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش فرما رہے تھے۔
اصل میں ” صَدُّوْا عَنْ سَبِیل اللہِ ” کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ صَدّ عربی زبان میں لازم اور متعدی، دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خود اللہ کے راستے پر آنے سے باز رہے، اور یہ بھی کہ انہوں نے دوسروں کو اس راہ پر آنے سے روکا۔
دوسروں کو خدا کی راہ سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی زبردستی کسی کو ایمان لانے سے روک دے۔ دوسری صورت یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور دوسروں کے لیے ایسے خوفناک حالات میں ایمان لانا مشکل ہوجائے۔ تیسری صورت یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے دین اور اہل دین کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ایسے وسوسے دلوں میں ڈالے جس سے لوگ اس دین سے بدگمان ہوجائیں۔ اس کے علاوہ ہر کافر اس معنی میں خدا کی راہ سے روکنے والا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کفر کے طریقے پر پرورش کرتا ہے اور پھر اس کی آئندہ نسل کے لیے دین آبائی کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہر کافر معاشرہ خدا کے راستے میں ایک سنگ گراں ہے، کیونکہ وہ اپنی تعلیم و تربیت سے، اپنے اجتماعی نظام اور رسم و رواج سے، اور اپنے تعصبات سے دین حق کے پھیلنے میں شدید رکاوٹیں ڈالتا ہے۔
اصل الفاظ ہیں ” اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ “۔ ان کے اعمال کو بھٹکا دیا۔ گمراہ کردیا۔ ضائع کردیا۔ یہ الفاظ بڑے وسیع مفہوم کے حامل ہیں۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ توفیق سلب کرلی کہ ان کی کوششیں اور محنتیں صحیح راستے میں صرف ہوں۔ اب وہ جو کچھ بھی کریں گے غلط مقاصد کے لیے غلط طریقوں ہی سے کریں گے، اور ان کی تمام سعی و جہد ہدایت کے بجائے ضلالت ہی کی راہ میں صرف ہوگی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کام اپنے نزدیک وہ خیر کے کام سمجھ کر کرتے رہے ہیں، مثلا خانۂ کعبہ کی نگہبانی، حاجیوں کی خدمت، مہمانوں کی ضیافت، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، اور ایسے ہی دوسرے کام جنہیں عرب میں مذہبی خدمات اور مکارم اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ضائع کردیا۔ ان کا کوئی اجر و ثواب ان کو نہ ملے گا، کیونکہ جب وہ اللہ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کا طریقہ اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پر آنے سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتا۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ راہ حق کو روکنے اور اپنے کافرانہ مذہب کو عرب میں زندہ رکھنے کے لیے جو کوششیں وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں کر رہے ہیں، اللہ نے ان کو رائیگاں کردیا۔ ان کی ساری تدبیریں اب محض ایک تیر بےہدف ہیں۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے مقصد کو ہرگز نہ پہنچ سکیں گے۔
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اللہ نے ان کے اعمال برباد کردیئے۔
بعض نے اس سے مراد کفار قریش اور بعض نے اہل کتاب لئے ہیں۔ لیکن یہ عام ہے ان کے ساتھ سارے ہی کفار اس میں داخل ہیں۔
اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو سازشیں کیں اللہ نے انہیں ناکام بنا دیا اور انہی پر ان کو الٹ دیا دوسرا مطلب ہے کہ ان میں جو بعض مکارم اخلاق پائے جاتے تھے مثلا صلہ رحمی قیدیوں کو آزاد کرنا مہمان نوازی وغیرہ یا خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت ان کا کوئی صلہ انہیں آخرت میں نہیں ملے گا۔ کیونکہ ایمان کے بغیر اعمال پر اجر وثواب مرتب نہیں ہوگا۔
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے اور ایمان لائے اس چیز پر جو محمد پر نازل کی گئی۔ اور وہی حق ہے ان کے رب کی جانب سے۔ اللہ نے ان سے ان کی برائیاں دور کر دیں اور ان کا حال سنوار دیا
اہل ایمان کے لیے بشارت: اوپر کی آیت میں کفار کے لیے جس درجے کی تہدید و وعید ہے اس آیت میں، اسی اسلوب بیان میں، اہل ایمان کے لیے، دنیا اور آخرت دونوں میں، فیروز مندی کی بشارت ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح بھی کیے، ان کے گناہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیے اور ان کے تمام احوال بالکل درست کر دیے۔
جس طرح کفار کے لیے تہدید قطعیت کے اظہار کے لیے ماضی کے اسلوب میں بیان ہوئی ہے اسی طرح اہل ایمان کے لیے بشارت بھی ماضی کے اسلوب میں بیان ہوئی ہے۔
دین حق وہی ہے جو رسول اللہ صلعم پر نازل ہوا: اس آیت میں ’وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَہُوَ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمْ‘ کے الفاظ خاص طور پر نگاہ میں رکھنے کے ہیں۔ صرف یہ نہیں فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیے ان کے ساتھ اللہ کا یہ معاملہ ہو گا بلکہ اس کے ساتھ یہ تصریح بھی ہے کہ اس چیز پر ایمان لائے جو محمدؐ پر اتاری گئی ہے، پھر مزید تصریح یہ ہے کہ ’اب خدا کی طرف سے حق یہی ہے‘ اس تصریح کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ اس دور میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی پیدا ہو گیا تھا جو کفر اور اسلام دونوں کے درمیان سمجھوتے کی باتیں کرنے لگا تھا۔ اس کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ مسلمانوں کا اپنی انفرادیت پر اصرار ٹھیک نہیں ہے بلکہ کچھ گنجائش دوسروں کے لیے بھی تسلیم کرنی چاہیے۔ اہل کتاب کے اندر بھی ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو کہتا تھا کہ مومن تو ہم بھی ہیں، اس سے کیا فرق پیدا ہوا کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے۔ اس قسم کے باطل رجحانات کی بیخ کنی قرآن نے پچھلی سورتوں میں بھی کی ہے۔ یہاں بھی مذکورہ بالا تصریح نے اسی رجحان پر ضرب لگائی ہے کہ اب ایمان و ہدایت کا واحد راستہ وہی ہے جس کی دعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں، اس سے ہٹ کر کوئی راہ نہیں ہے۔
’وَأَصْلَحَ بَالَہُمْ‘ لفظ ’بال‘ ایک جامع لفظ ہے۔ یہ ظاہر و باطن دونوں قسم کے احوال پر حاوی ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر و باطن اور دنیا و آخرت دونوں کے تمام احوال درست کر دے گا۔
اور جو ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے اور اُس چیز کو مان لیا جو محمد پر نازل کی گئی ہے ۔۔۔اور اُن کے پروردگار کی طرف سے وہی حق ہے ۔۔۔ اُن کی برائیاں اللہ نے اُن سے دور کر دیں اور اُن کا حال درست کر دیا ہے۔
یعنی اُن لوگوں کے پروپیگنڈے سے متاثرنہیں ہوئے جو کفر و اسلام میں سمجھوتے کی باتیں کر رہے تھے کہ کچھ گنجایش اُن کے لیے بھی تسلیم کر لی جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کے لیے اصرار نہ کیا جائے۔ اِس طرح کے لوگوں کا معاملہ پچھلی سورتوں میں بھی زیر بحث آچکا ہے۔ آگے قرآن ہی کے حق ہونے کی تصریح بھی اِسی لیے کی گئی ہے۔
یہ ایک جامع تعبیر ہے اور ظاہر و باطن، دونوں قسم کے احوال کا احاطہ کرتی ہے۔
اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اُس چیز کو مان لیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے۔ اور ہے وہ سراسر حق اُن کے رب کی طرف سے۔ اللہ نے ان کی برائیاں اُن سے دور کر دیں اور ان کا حال درست کر دیا۔
اگرچہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہنے کے بعد اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّ لَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کہنے کی حاجت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایمان لانے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی تعلیمات پر ایمان لانا آپ سے آپ شامل ہے، لیکن اس کا الگ ذکر خاص طور پر یہ جتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہوجانے کے بعد کسی شخص کا خدا اور آخرت اور پچھلے رسولوں اور پچھلی کتابوں کا ماننا بھی اس وقت تک نافع نہیں ہے جب تک کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ مان لے۔ یہ تصریح اس لیے ضروری تھی ہجرت کے بعد اب مدینہ طیبہ میں ان لوگوں سے بھی سابقہ در پیش تھا جو ایمان کے دوسرے تمام لوازم کو تو مانتے تھے مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے۔
اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جاہلیت کے زمانے میں جو گناہ ان سے سرزد ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے وہ سب ان کے حساب سے ساقط کردیے۔ اب ان گناہوں پر کوئی باز پرس ان سے نہ ہوگی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ عقائد اور خیالات اور اخلاق اور اعمال کی جن خرابیوں میں وہ مبتلا تھے، اللہ تعالیٰ نے وہ ان سے دور کردیں۔ ان کے ذہن بدل گیے۔ ان کے عقائد اور خیالات بدل گیے۔ ان کی عادتیں اور خصلتیں بدل گئیں۔ ان کی سیرتیں اور ان کے کردار بدل گئے۔ اب ان کے اندر جاہلیت کی جگہ ایمان ہے اور بد کرداریوں کی جگہ عمل صالح۔
اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ پچھلی حالت کو بدل کر آئندہ کے لیے اللہ نے ان کو صحیح راستے پر ڈال دیا اور ان کی زندگیاں سنوار دیں۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ جس کمزوری و بےبسی اور مظلومی کی حالت میں وہ اب تک مبتلا تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے نکال دیا ہے۔ اب اس نے ایسے حالات ان کے لیے پیدا کردیے ہیں جن میں وہ ظلم سہنے کے بجائے ظالموں کا مقابلہ کریں گے، محکوم ہو کر رہنے کے بجائے اپنی زندگی کا نظام خود آزادی کے ساتھ چلائیں گے، اور مغلوب ہونے کے بجائے غالب ہو کر رہیں گے۔
اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس پر بھی ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری گئی ہے اور دراصل ان کے رب کی طرف سے سچا (دین) بھی وہی ہے، اللہ نے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کے حال کی اصلاح کردی۔
ایمان میں اگرچہ وحی محمدی یعنی قرآن پاک پر ایمان لانا بھی شامل ہے لیکن اس کی اہمیت اور شرف کو مزید واضح اور نمایاں کرنے کے لئے اس کا علیحدہ ذکر فرمایا۔
یعنی ایمان لانے سے قبل کی غلطیاں اور کو تاہیاں معاف فرما دیں جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی فرمان ہے کہ اسلام ماقبل کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر الالبانی)
٢۔ ٣ بالھم کے معنی امرھم شانھم حالھم یہ سب متقارب المعنی ہیں مطلب ہے کہ انہیں معاصی سے بچا کر رشد و خیر کی راہ پر لگا دیا ایک مومن کے لیے اصلاح حال کی یہی سب سے بہتر صورت ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ مال و دولت کے ذریعے سے ان کی حالت درست کردی کیونکہ ہر مومن کو مال ملتا بھی نہیں علاوہ ازیں محض دنیاوی مال اصلاح احوال کا یقینی ذریعہ بھی نہیں بلکہ اس سے فساد احوال کا زیادہ امکان ہے اسی لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کثرت مال کو پسند نہیں فرمایا۔
یہ اس وجہ سے ہوا کہ جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے باطل کی پیروی کی اور جو لوگ ایمان لائے انھوں نے اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے حق کی پیروی کی۔ اس طرح اللہ لوگوں کے لیے ان کی مثالیں بیان کر رہا ہے
قوت صرف حق کے اندر ہے: یہ وجہ بتائی ہے اس بات کی کہ کیوں کفار کی تمام مساعی رائگاں ہوں گی اور کیوں اہل ایمان اپنی کوششوں میں سرخ رو اور فائز المرام ہوں گے۔ فرمایا کہ ایسا اس وجہ سے ہو گا کہ کفار نے شیطان کے سکھائے ہوئے باطل کی پیروی کی ہے اور اہل ایمان نے اس حق کی پیروی کی ہے جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے۔ باطل کے لیے ان کی عقل اور اس کی فطرت کے اندر کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کی مثال خود رَو جھاڑی کی ہے جو کسان کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر اس کی زمین میں اگ پڑتی ہے۔ اگر وہ اکھاڑی نہ جائے تو زمین میں جڑ پکڑ لیتی ہے اور اگر اکھاڑ دی جائے تو وہ بالکل بے ثبات ہوتی ہے۔ چنانچہ اب جب کہ اہل حق اس باطل سے نبرد آزمائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو اس کا مٹ جانا یقینی ہے:
’جَآءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا‘ (بنی اسرائیل: ۸۱)
(حق آ گیا اور باطل نابود ہوا، بے شک باطل نابود ہی ہونے والی چیز ہے)۔
اس کے برعکس اہل ایمان نے اس حق کی پیروی کی ہے جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے۔ حق کی فطرت میں ثبات و استحکام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق حق ہے اور اس نے یہ دنیا ’بِالْحَق‘ پیدا کی ہے۔ اس کا اصلی مزاج باطل کی پرورش نہیں بلکہ حق کی پرورش ہے۔ اب جب کہ حق آ گیا ہے تو اس باطل کو لازماً ٹھکرا دے گی جو اکاس بیل کی طرح اس پر مسلط ہو گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصلی زور و قوت اسباب و وسائل کے اندر نہیں بلکہ حق کے اندر ہے۔ اگر کشمکش باطل اور باطل کے درمیان ہی برپا ہو تب تو فیصلہ کی میزان اسباب و وسائل کے ہاتھ ہی میں ہوتی ہے لیکن کشمکش اگر حق اور باطل کے درمیان ہو تو اصلی فیصلہ کن اہمیت حق کو حاصل ہو گی، اسباب و وسائل کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی۔
’کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَہُمْ‘۔ مومنین اور کفار کا یہ انجام جو بیان ہوا ہے اس کی نوعیت چونکہ اس مرحلہ میں ابھی ایک پیشین گوئی ہی کی تھی، اس نے واقعہ کی شکل نہیں اختیار کی تھی، اس وجہ سے اس کو مثال بیان کرنے سے تعبیر فرمایا۔ ’لِلنَّاسِ‘ سے مراد یہی اہل ایمان اور کفار ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کے انجام کی یہ تمثیل بیان فرما دی ہے اور اس کی حقیقت عنقریب سب کے سامنے آ کے رہے گی۔
یہ اِس لیے کہ انکار کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان والوں نے اُس حق کی پیروی کی ہے جو اُن کے پروردگار کی طرف سے آیا ہے۔ اِس طرح اللہ اُن کی مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے۔
یہ اِس لیے فرمایا کہ پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد حق و باطل میں وہ فیصلہ لازماً ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
یعنی تمثیل کے پیرایے میں وہ حقائق سمجھاتا ہے جو عنقریب سب کے سامنے آ جائیں گے۔
یہ اس لیے کہ کفر کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اُس حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے۔ اِس طرح اللہ لوگوں کو اُن کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتائے دیتا ہے۔
اصل الفاظ ہیں ” کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہ للنَّاسِ اَمْثَالَھُمْ “۔ اس فقرے کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ ” اس طرح اللہ لوگوں کے لیے ان کی مثالیں دیتا ہے “۔ لیکن اس لفظی ترجمہ سے اصل مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح فریقین کو ان کی پوزیشن ٹھیک ٹھیک بتائے دیتا ہے۔ ایک فریق باطل کی پیروی پر مصر ہے اس لیے اللہ نے اس کی ساری سعی و عمل کو لا حاصل کردیا ہے۔ اور دوسرے فریق نے حق کی پیروی اختیار کی ہے اس لیے اللہ نے اس کو برائیوں سے پاک کر کے اس کے حالات درست کردیے ہیں۔
یہ اس لئے کہ کافروں نے باطل کی پیروی کی اور مومنوں نے اس دین حق کی اتباع کی جو ان کے اللہ کی طرف ہے، اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے احوال اسی طرح بتاتا ہے ۔
ذلک یہ مبتدا ہے یا خبر ہے مبتدا محذوف کی ای الامر ذلک یہ اشارہ ہے ان وعیدوں کی طرف جو کافروں اور مومنوں کے لیے بیان ہوئے۔
تاکہ لوگ اس انجام سے بچیں جو کافروں کا مقدر ہے اور وہ راہ حق اپنائیں جس پر چل کر ایمان والے فلاح ابدی سے ہمکنار ہونگے۔
پس جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے تو ان کی گردنیں اڑاؤ یہاں تک کہ جب ان کو اچھی طرح چُور کر دو تو ان کو مضبوط باندھ لو پھر یا تو احسان کر کے چھوڑنا ہے یا فدیہ لے کر یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ یہ کام ہے تمہارے کرنے کا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا لیکن اس نے تم کو یہ حکم اس لیے دیا کہ ایک کو دوسرے سے آزمائے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے اللہ ان کے اعمال ہرگز رائگاں نہیں کرے گا
کفار کے اندر ریڑھ کی ہڈی نہیں ہے: یہ مسلمانوں کو ابھارا ہے کہ کفار حق کے سہارے سے محروم ہیں اس وجہ سے ان کے اندر ریڑھ کی ہڈی گویا نہیں ہے تو جب جنگ میں ان سے مقابلہ ہو تو بے دریغ ان کی گردنیں مارو، اللہ نے ان کو تمہارے لیے شکار اور تمہاری تلواروں کے لیے ایک لقمۂ تر بنا دیا ہے۔ یہی بات سورۂ انفال میں یوں فرمائی گئی ہے:
’فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ‘ (الانفال: ۱۲)
(پس ان کی گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور اور جوڑ جوڑ پر مارو)۔
’حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ‘۔ ’اِثْخَان‘ کے معنی ہیں اچھی طرح خون ریزی کرنا اور ’وثاق‘ بندھن کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب اچھی طرح خون ریزی کر کے ان کے کس بل نکال چکو تو جو بچ رہیں ان کو اچھی طرح بندھنوں میں باندھ لو۔ یہ تمہارے سامنے چُوں نہیں کر سکیں گے۔
’فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا‘۔ یعنی اس کے بعد اگر یہ تمہارے ہاتھ سے چھوٹیں تو صرف دو ہی شکلوں سے چھوٹیں۔ یا تو تمہارے احسان کا قلادہ اپنی گردن میں لے کر یا فدیہ دے کر۔ اور تمہارا یہی معاملہ اس وقت تک ان کے ساتھ رہے جب تک ان کے اندر جنگ کا حوصلہ بالکل سرد نہ پڑ جائے اور یہ تمہارے آگے ڈگ نہ ڈال دیں۔ دوسرے مقام میں یہی بات یوں فرمائی گئی:
’وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ‘ (الانفال: ۳۹)
(اور ان سے جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ اس سرزمین سے فتنہ کا خاتمہ ہو جائے اور دین سارے کا سارا اللہ کا ہو جائے)۔
بنی اسمٰعیل کے معاملے کی خاص نوعیت: یہ امر واضح رہے کہ جہاں تک مشرکین عرب یا بالفاظ دیگر مشرکین بنی اسماعیل کا تعلق ہے ان پر اللہ تعالیٰ نے انہی کے اندر سے ایک رسول بھیج کر ان پر حجت تمام کر دی اس وجہ سے دوسرے غیرمسلموں کی طرح ان کے لیے یہ رعایت نہیں تھی کہ وہ اسلامی حکومت کے اندر ذمی یا معاہد بن کر رہ سکیں یا ان کو غلام بنایا جا سکے۔ ان کے لیے صرف دو ہی راستے تھے یا اسلام قبول کریں یا تلوار۔ اس کے وجوہ کی تفصیل سورۂ براء ت کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ کسی مسلمان قیدی کے فدیہ میں یا نقد و جنس کی شکل میں فدیہ لے کر یا احساناً ان کے کسی قیدی کو چھوڑا بھی جا سکتا تھا اور اگر ان میں سے کوئی اپنے رویہ پر غور کرنے کے لیے امان کا طالب ہو تو اس کو امان بھی دی جا سکتی تھی لیکن بحیثیت جماعت ان کے ساتھ جنگ کی حالت اس وقت تک باقی رہنی تھی جب تک سرزمین حرم کفر و شرک کے ہر شائبہ سے پاک نہ ہو جائے۔ اس مسئلہ میں فقہاء کے اندر جو اختلافات ہیں وہ بڑی الجھن میں ڈالنے والے ہیں۔ اس کی وضاحت سورۂ براء ت کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ یہاں معاملہ زیربحث مشرکین بنی اسماعیل کا ہے، دوسرے غیرمسلموں کے مسئلہ پر یہاں بحث نہیں ہوئی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ جو یہ فرماتے ہیں کہ مشرکین کے قیدیوں کے باب میں احسان اور فدیہ کی اجازت منسوخ ہو گئی، وہ صرف قتل کیے جا سکتے ہیں یا غلام بنائے جا سکتے ہیں، تو اس کا اتنا حصہ صحیح ہے کہ مشرکین عرب کے ساتھ یہ رعایت موقّت تھی جو بالآخر فتح مکہ کے بعد ختم ہو گئی لیکن ان کا یہ فرمانا کہ وہ غلام بنائے جا سکتے ہیں، ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔ مشرکین عرب نہ غلام بنائے جا سکتے تھے نہ ذِمّی نہ معاہد۔
امام شافعیؒ کے نزدیک امام کو اختیار ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو پیش نظر رکھ کر، اس قسم کے قیدیوں کے ساتھ چار باتوں میں سے جو بات بھی مناسب خیال کرے، کر سکتا ہے۔ چاہے قتل کرا دے، چاہے غلام بنا لے، چاہے فدیہ لے کر چھوڑ دے، چاہے احساناً چھوڑ دے۔ ہمارے نزدیک امام شافعیؒ کی یہ رائے عام غیرمسلم قیدیوں کے حد تک تو صحیح ہے لیکن مشرکین عرب کے باب میں یہ کلیہ صحیح نہیں ہے۔ وہ ذمی یا غلام نہیں بنائے جا سکتے تھے۔ یہاں اس مسئلہ کی تفصیلات میں جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل کے طالب ہماری کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ میں باب ’اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق‘ کا مطالعہ کریں۔
’ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَاْ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ‘۔ ’ذٰلِکَ‘ ایک جملہ کا قائم مقام ہے۔ اس کی ایک سے زیادہ مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ یہ کام ہے جو تمہارے کرنے کا ہے۔ یا یہ کام ہے جس کے لیے کمرہمت باندھو یا یہ کام ہے جس کے لیے تمہیں ہدایت کی جاتی ہے۔ اس قسم کے اجمال کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر تفصیل بھی سما جاتی ہے اور جملہ کے اندر زور بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
جہاد کی مصلحت: ’وَلَوْ یَشَآءُ اللّٰہُ ....... الاٰیۃ‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ان سے جنگ کا حکم دے رہا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ ان سے نمٹنے کے لیے تمہارا یا کسی کا محتاج ہے۔ وہ چاہتا تو خود ہی کوئی ارضی یا سماوی آفت بھیج کر ان کو ٹھکانے لگا دیتا۔ ان سے پہلے کتنی ہی قومیں گزر چکی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے چشم زدن میں اپنے کسی عذاب سے تباہ کر دیا۔ اسی طرح اللہ ان کو بھی تباہ کر دیتا لیکن اس نے تمہیں ان سے جنگ کا حکم اس لیے دیا کہ اس طرح تمہارا اور ان کا دونوں کا امتحان ہو۔ وہ اپنے باطل کی حمایت کے لیے جو جوش و جذبہ رکھتے ہیں وہ بھی سامنے آ جائے اور تم اپنے حق کے لیے جو جذبہ و فدویت و وفاداری رکھتے ہو وہ بھی بالکل ظاہر ہو جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہو جائے کہ تمہارے اندر کتنے ہیں جو راست باز و وفاشعار ہیں اور کتنے ہیں جو محض منافقانہ اپنے مفادات کے لیے تمہاری صفوں میں آ گھسے ہیں۔
ایک سنت الٰہی: یہاں اس سنت الٰہی پر بھی نگاہ رہے کہ رسولوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یوں رہا ہے کہ اگر رسول پر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہوئی ہے تو رسول اور اس کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم ہوا ہے اور اس کے تمام مکذبین کو اللہ نے کسی ارضی یا سماوی عذاب سے تباہ کر دیا ہے اور اگر رسول کے ساتھیوں کی تعداد بھی معتدبہ ہوئی ہے تو ان کو جہاد کا حکم ہوا ہے اور ان کے ہاتھوں اللہ نے ان کے دشمنوں سے انتقام لیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔ آپ سے پہلے بھی نبیوں اور رسولوں کو جہاد کرنا پڑا ہے۔ فرعون کے مقابل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی مدد اللہ تعالیٰ نے سمندر کے طوفان سے کی۔ پھر دریا پار کرنے کے بعد ان کو متعدد چھوٹی بڑی جنگیں خود لڑنی پڑیں جن میں بنی اسرائیل کا اچھی طرح امتحان ہو گیا۔ وہ بیشتر امتحانوں میں ناکام رہے جس کی ان کو سزا بھگتنی پڑی۔
منافقین کے ایک گمان کی تردید: ’وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُمْ‘۔ فرمایا کہ اس جہاد میں جو لوگ شہید ہوں گے وہ اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی رائگاں نہیں کرے گا بلکہ اس قربانی کا بھرپور صلہ ان کو دے گا۔ ’فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُمْ‘ کے الفاظ ان منافقین کے خیال کو سامنے رکھ کر ارشاد ہوئے ہیں جن کا ذکر تفصیل سے آگے آ رہا ہے۔ یہ لوگ چونکہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے تھے اس وجہ سے ہر وہ قربانی ان کے نزدیک خسارہ کے حکم میں تھی جس کا نفع ان کو نقد نقد حاصل نہ ہو جائے۔ یہ الفاظ انہی کے خیال پر ضرب لگانے کے لیے ارشاد ہوئے ہیں۔ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے باب میں یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ ان کو مردہ نہ خیال کرو، وہ زندہ ہیں، وہ بھی اسی قسم کے لوگوں کی تردید میں ہے۔
’وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا‘ میں مستقبل کی جگہ ماضی کا صیغہ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ یہ بشارت ان لوگوں پر بھی حاوی ہو جائے جو راہ حق میں اس سے پہلے قتل ہوئے۔
سو، (ایمان والو)، جب اِن منکروں سے تمھارے مقابلے کی نوبت آئے تو بے دریغ گردنیں مارنی ہیں، یہاں تک کہ جب تم اِن کو اچھی طرح کچل دو، تب قیدی بنا کرمضبوط باندھو۔پھر جب باندھ لو تو اُس کے بعد احسان کرکے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر۔ (اِن کے ساتھ تمھارا یہی معاملہ رہنا چاہیے)،یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ یہ کام ہے جو تمھارے کرنے کا ہے۔اگر اللہ چاہتا تو اِن سے خود ہی انتقام لے لیتا، لیکن اُس نے تم کو حکم دیا، اِس لیے کہ تم میں سے ایک کو دوسرے سے آزمائے۔ (اِس کے نتیجے میں) جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے، اُن کے اعمال اللہ ہرگز رایگاں نہیں ہونے دے گا۔
یعنی جنگ کی نوبت آجائے تو کرنے کا ایک ہی کام ہے اور وہ بغیر کسی تامل کے، بے دریغ اِن کی گردنیں مارنا ہے۔ اِس کا حق ادا ہونا چاہیے۔ تمھارا پروردگار یہی چاہتا ہے کہ مقابلے پر آئیں تو زیادہ سے زیادہ تہ تیغ کیے جائیں۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ اِن لوگوں پر خدا کے رسول نے اتمام حجت کیا تھا اور اُس کی تکذیب پر اصرار کے باعث اب یہ اُس سزا کے مستحق ہو چکے تھے جو رسولوں کے مکذبین کو لازماً دی جاتی ہے۔ قرآن نے جگہ جگہ وضاحت کی ہے کہ یہ خدا کی غیرمتبدل سنت ہے جو تمام رسولوں کے معاملے میں اِسی طرح جاری رہی ہے۔
اُس زمانے میں قیدی من جملہ غنائم تھے۔ اُنھیں پکڑنے کے لیے اہل عرب کی فطری رغبت کے پیش نظر تاکید فرمائی ہے کہ یہ کام اُس وقت ہونا چاہیے، جب پیغمبر کے اِن مکذبین کو بالکل کچل دیا جائے۔ اِس سے پہلے کسی شخص کو قیدی بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
یہاں ’فَإِذَا شَدَدْتُمُ الْوَثَاقَ‘ یا اِس کا ہم معنی فقرہ اصل میں محذوف ہے جس پر ’فَشُدُّوا الْوَثَاقَ‘ کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں۔
یہ اِس لیے فرمایا کہ ’ضَرْبَ الرِّقَابِ‘ میں جو ترغیب و تحریض ہے، اُس کی بنا پر لوگ قیدیوں کو قتل بھی کر سکتے تھے، لہٰذا برسرموقع ہدایت فرما دی کہ اِس کے بعد دو ہی صورتیں ہیں: فدیہ لے کر چھوڑ نا یااحسان کرکے۔ مطلب یہ ہے کہ قیدی بنانے کا اقدام اُس وقت ہونا چاہیے، جب تہ تیغ کرنے کا حق ادا ہو چکا ہو، لیکن بنا لو گے تو قتل نہیں کر سکتے اور نہ غلام بنا سکتے ہو۔ اُس کے بعد قانون یہ ہے کہ فدیہ لے کر رہا کیا جائے گا یا بلا معاوضہ احسان کے طور پر چھوڑ دیا جائے گا۔
یہ حکم اگرچہ مشرکین عرب کے حوالے سے بیان ہوا ہے، لیکن ہر لحاظ سے عام ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ قیدی بنا لینے کے بعد جب رسول کے منکرین سے احسان یا فدیے کے سوا کوئی معاملہ نہیں کیا جا سکتا تو دوسروں سے بدرجۂ اولیٰ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ قرآن کا یہی حکم ہے جس نے قیدیوں کو غلام بنانے کا رواج ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور اِس طرح غلامی کی جڑ کاٹ دی۔اِس کے بعد صرف وہی مستثنیات باقی رہ گئے جو علم و عقل کے مسلمات کی رو سے ہر قانون، ہر قاعدے اور ہر حکم میں اُس کی ابتدا ہی سے مضمر ہوتے ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر، سنگین جرائم کے کسی مرتکب کے ساتھ اُس کے جرائم کی بنا پر اِس سے ہٹ کر کوئی معاملہ کیا جائے۔ اِس سے، ظاہرہے کہ قیدیوں کے بارے میں اِس عام قانون پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اصل میں حرف ’ذٰلِکَ‘ہے۔ یہ ایک جملے کا قائم مقام ہے۔ اِس طرح کا اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب کلام میں خاص زور پیدا کرنا مقصود ہو۔
یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ قوم نوح، عاد و ثمود اور اِس طرح کی دوسری قوموں کی طرح قریش کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی عذاب کے ذریعے سے سزا کیوں نہیں دی ۔ سورۂ آل عمران (۳) میں اِس کی تفصیل ہے۔ رسولوں کے مکذبین کے معاملے میں اللہ تعالیٰ یہ طریقہ اُس وقت اختیار کرتے ہیں، جب رسول کے ساتھی معتد بہ تعداد میں ہوں اور اُنھیں کوئی ایسا دارالہجرت بھی میسر آ جائے، جہاں وہ اپنی حکومت قائم کرکے خدا کے حکم پر جہاد کر سکیں۔
جنگ سے پہلے یہ ماضی کا صیغہ اِس لیے استعمال فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت اُن لوگوں کو بھی شامل ہو جائے جو اِس سے پہلے بعض سریوّں میں قتل ہو چکے تھے۔
پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔ یہ ہے تمہارے کرنے کا کام۔ اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اُس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
اس آیت کے الفاظ سے بھی، اور جس سیاق وسباق میں یہ آئی ہے اس سے بھی یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ لڑائی کا حکم آجانے کے بعد اور لڑائی شروع ہونے سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ ” جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو ” کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ابھی مڈبھیڑ ہوئی نہیں ہے اور اس کے ہونے سے پہلے یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب وہ ہو تو کیا کرنا چاہیے۔
آگے آیت 20 کے الفاظ اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ یہ سورة اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب سورة حج کی آیت 39 اور سورة بقرہ کی آیت 190 میں لڑائی کا حکم آ چکا تھا اور اس پر خوف کے مارے مدینے کے منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کا حال یہ ہو رہا تھا کہ جیسے ان پر موت چھا گئی ہو۔
اس کے علاوہ سورة انفال کی آیات 67 ۔ 69 بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ آیت جنگ بدر سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔ وہاں ارشاد ہوا ہے :
” کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے کیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے “۔
اس عبارت اور خصوصا اس کے خط کشیدہ فقروں پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس موقع پر عتاب جس بات پر ہوا تھا وہ یہ تھی کہ جنگ بدر میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل دینے سے پہلے مسلمان دشمن کے آدمیوں کو قید کرنے میں لگ گئے تھے، حالانکہ جنگ سے پہلے جو ہدایت سورة محمد میں ان کو دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ ” جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو “۔ تاہم، چونکہ سورة محمد میں مسلمانوں کو قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت فی الجملہ دی جاچکی تھی اس لیے جنگ بدر کے قیدیوں سے جو مال لیا گیا اسے اللہ نے حلال قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے لینے پر سزا نہ دی۔ ” اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا ” کے الفاظ میں اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس واقعہ سے پہلے فدیہ لینے کی اجازت کا فرمان قرآن میں آچکا تھا، اور ظاہر ہے کہ قرآن کے اندر سورة محمد کی اس آیت کے سوا کوئی دوسری آیت ایسی نہیں ہے جس میں یہ فرمان پایا جاتا ہو۔ اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ آیت سورة انفال کی مذکورہ بالا آیت سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم تفسیر سورة انفال، حاشیہ 49) ۔
یہ قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس میں قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سے جو احکام نکلتے ہیں، اور اس کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے جس طرح عمل کیا ہے، اور فقہاء کرام نے اس آیت اور سنت سے جو استنباطات کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :
1) ۔ جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے، یہاں تک کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ختم ہوجائے۔ اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہیے۔ قیدی پکڑنے کی طرف توجہ اس وقت کرنی چاہیے جب دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کردیا جائے اور میدان جنگ میں اس کے کچھ آدمی باقی رہ جائیں۔ اہل عرب کو یہ ہدایت آغاز ہی میں اس لیے دے دی گئی کہ وہ کہیں فدیہ حاصل کرنے، یا غلام فراہم کرنے کے لالچ میں پڑ کر جنگ کے اصل ہدف مقصود کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔
2) ۔ جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے، خواہ ان پر احسان کرو، یا ان سے فدیہ کا معاملہ کرلو۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حسن بصری، عطاء اور حماد بن ابی سلیمان رحمہم اللہ، قانون کے اسی عموم کو لیتے ہیں، اور یہ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کو قتل لڑائی کی حالت میں کیا جاسکتا ہے۔ جب لڑائی ختم ہوگئی اور قیدی ہمارے قبضے میں آگیا تو اسے قتل کرنا درست نہیں ہے۔ ابن جریر اور ابوبکر جصاص رحمہما اللہ کی روایت ہے کہ حجاج بن یوسف نے جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے حوالہ کیا اور حکم دیا کہ اسے قتل کردیں۔ انہوں نے انکار کردیا اور یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ ہمیں قید کی حالت میں کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ نے السیر الکبیر میں بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ عبداللہ بن عامر نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو ایک جنگی قیدی کے قتل کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اسی بنا پر اس حکم کی تعمیل سے انکار کردیا تھا۔
3) ۔ مگر چونکہ اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا منشاء یہ سمجھا اور اسی پر عمل بھی فرمایا کہ اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت کا فرمانروا کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ یہ عام قاعدہ نہیں ہے بلکہ قاعدہ عام میں ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر میں 70 قیدیوں میں سے صرف عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو قتل کیا۔ جنگ احد کے قیدیوں میں سے صرف ابو عذہ شاعر کو قتل فرمایا۔ بنی قریظہ نے چونکہ اپنے آپ کو حضرت سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے پر حوالے کیا تھا، اور ان کے اپنے تسلیم کردہ حکم کا فیصلہ یہ تھا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، اس لیے آپ نے ان کو قتل کرا دیا۔ جنگ خیبر میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے صرف کنانہ ابن ابی الحقیق قتل کیا گیا کیونکہ اس نے بد عہدی کی تھی۔ فتح مکہ کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام اہل مکہ میں سے صرف چند خاص اشخاص کے متعلق حکم دیا کہ ان میں سے جو بھی پکڑا جائے وہ قتل کردیا جائے۔ ان مستثنیات کے سوا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عام طریقہ اسیران جنگ کو قتل کرنے کا کبھی نہیں رہا۔ اور یہی عمل خلفائے راشدین کا بھی تھا۔ ان کے زمانے میں بھی قتل اسیران جنگ کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں اور ہر مثال میں قتل کسی خاص وجہ سے کیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بھی اپنے پورے زمانہ خلافت میں صرف ایک جنگی قیدی کو قتل کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ اسی بنا پر جمہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی حکومت اگر ضرورت سمجھے تو اسیر کو قتل کرسکتی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے۔ ہر فوجی اس کا مجاز نہیں ہے کہ جس قیدی کو چاہے قتل کر دے۔ البتہ اگر قیدی کے فرار ہونے کا یا اس سے کسی خطرناک شرارت کا اندیشہ ہوجائے تو جس شخص کو بھی اس صورت حال سے سابقہ پیش آئے وہ اسے قتل کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں فقہائے اسلام نے تین تصریحات اور بھی کی ہیں۔ ایک یہ کہ اگر قیدی اسلام قبول کرلے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ قیدی صرف اسی وقت تک قتل کیا جاسکتا ہے جب تک وہ حکومت کی تحویل میں ہو۔ تقسیم یا بیع کے ذریعہ سے اگر وہ کسی شخص کی ملک میں جا چکا ہو تو پھر اسے قتل نہیں کیا جاسکتا۔ تیسرے یہ کہ قیدی کو قتل کرنا ہو تو بس سیدھی طرح قتل کردیا جائے، عذاب دے دے کر نہ مارا جائے۔
4) ۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں عام حکم جو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یا ان پر احسان کرو، یا فدیے کا معاملہ کرلو۔
احسان میں چار چیزیں شامل ہیں : ایک یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کردیا جائے۔ تیسرے یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے۔ چوتھے یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کردیا جائے۔
فدیے کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑا جائے۔ دوسرے یہ کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت لینے کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کے قبضے میں ہوں، ان کا تبادلہ کرلیا جائے۔
ان سب مختلف صورتوں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے مختلف اوقات میں حسب موقع عمل فرمایا ہے۔ خدا کی شریعت نے اسلامی حکومت کا کسی ایک ہی شکل کا پابند نہیں کردیا ہے۔ حکومت جس وقت جس طریقے کو مناسب ترین پائے اس پر عمل کرسکتی ہے۔
5) ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ ایک جنگی قیدی جب ایک حکومت کی قید میں رہے، اس کی غذا اور لباس، اور اگر وہ بیمار یا زخمی ہو تو اس کا علاج حکومت کے ذمہ ہے۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے، یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت بھی کی گئی ہے اور عملا بھی اسی کی نظیریں سنت میں ملتی ہیں۔ جنگ بدر کے قیدیوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ہدایت فرمائی کہ استوصوا بالاسارٰی خیراً ، ” ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا “۔ ان میں سے ایک قیدی، ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جن انصاریوں کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ صبح شام مجھ کو روٹی کھلاتے تھے اور خود صرف کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔ ایک اور قیدی سہیل بن عمرو کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا کہ یہ بڑا آتش بیان مقرر ہے، آپ کے خلاف تقریریں کرتا رہا ہے، اس کے دانت تڑوا دیجیے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ” اگر میں اس کے دانت تڑواؤں تو اللہ میرے دانت توڑ دے گا اگرچہ میں نبی ہوں ” (سیرت بن ہشام ) ۔ یمامہ کے سردار ثامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو جب تک وہ قید میں رہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے عمدہ کھانا اور دودھ ان کے لیے مہیا کیا جاتا رہا (ابن ہشام) ۔ یہی طرز عمل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے دور میں بھی رہا۔ جنگی قیدیوں سے برے سلوک کی کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی۔
6) ۔ قیدیوں کے معاملے میں یہ شکل اسلام نے سرے سے اپنے ہاں رکھی ہی نہیں ہے کہ ان کو ہمیشہ قید رکھا جائے اور حکومت ان سے جبری محنت لیتی رہے۔ اگر ان کے ساتھ یا ان کی قوم کے ساتھ تبادلہ اسیران جنگ یا فدیے کا کوئی معاملہ طے نہ ہو سکے تو ان کے معاملے میں احسان کا طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں بھی اس طریقے پر عمل کیا گیا ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے عہد میں بھی یہ جاری رہا ہے، اور فقہائے اسلام بالاتفاق اس جواز کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جو شخص قید میں آنے سے پہلے اسلام قبول کرچکا ہو اور پھر کسی طرح گرفتار ہوجائے وہ تو آزاد کردیا جائے گا، مگر جو شخص قید ہونے کے بعد اسلام قبول کرے، یا کسی شخص کی ملکیت میں دے دیے جانے کے بعد مسلمان ہو تو یہ اسلام اس کے لیے آزادی کا سبب نہیں بن سکتا۔ مسند احمد، مسلم اور ترمذی میں حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ بنی عقیل کا ایک شخص گرفتار ہو کر آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ : ” لو قلتھا وانت تملک امرک افلحت کل الفلاح۔ ” ” اگر یہ بات تو نے اس وقت کہی ہوتے جب تو آزاد تھا تو یقینا فلاح پا جاتا۔ ” یہی بت حضرت عمر (رض) نے فرمائی ہے کہ ” اذا اسلم الاسیر فی ایدی المسلمین فقش امن من القتل وھو رقیق “۔ ” جب قیدی مسلمانوں کے قبضے میں آنے کے بعد مسلمان ہو تو وہ قتل سے تو محفوظ ہوجائے گا مگر غلام رہے گا۔ ” اسی بنا پر فقہائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ قید ہونے کے بعد مسلمان ہونے والا غلامی سے نہیں بچ سکتا (السیر الکبیر، امام محمد) ۔ اور یہ بات سراسر معقول بھی ہے۔ اگر ہمارا قانون یہ ہوتا کہ جو شخص بھی گرفتار ہونے کے بعد اسلام قبول کرلے گا وہ آزاد کردیا جائے گا تو آخر وہ کونسا نادان قیدی ہوتا جو کلمہ پڑھ کر رہائی نہ حاصل کرلیتا۔
7) ۔ قیدیوں کے ساتھ احسان کی تیسری صورت اسلام میں یہ رکھی گئی ہے کہ جزیہ لگا کر ان کو دار الاسلام کی ذمی رعایا بنا لیا جائے اور وہ اسلامی مملکت میں اسی طرح آزاد ہو کر رہیں جس طرح مسلمان رہتے ہیں۔ امام محمد السیر الکبیر میں لکھتے ہیں کہ ” ہر وہ شخص جس کو غلام بنانا جائز ہے اس پر جزیہ لگا کر اسے ذمی بنا لینا بھی جائز ہے۔ ” اور ایک دوسرے جگہ فرماتے ہیں ” مسلمانوں کے فرمانروا کو یہ حق ہے کہ ان پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر خراج لگا کر انہیں اصلا آزاد قرار دے دے “۔ اس طریقے پر بالعموم ان حالات میں عمل کیا گیا ہے جبکہ قید ہونے والے لوگ جس علاقے کے باشندے ہوں وہ مفتوح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہوچکا ہو۔ مثال کے طو پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل خیبر کے معاملہ میں یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا، اور پھر حضرت عمر (رض) نے سواد عراق اور دوسرے علاقوں کی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی پیروی کی۔ ابو عبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ عراق کی فتح کے بعد اس علاقے کے سر کردہ لوگوں کا ایک وفد حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ ” اے امیر المومنین، پہلے اہل ایران ہم پر مسلط تھے۔ انہیں نے ہم کو بہت ستایا، بڑا برا برتاؤ ہمارے ساتھ کیا اور طرح طرح کی زیادتیاں ہم پر کرتے رہے۔ پھر جب خدا نے آپ لوگوں کو بھیجا تو ہم آپ کی آمد سے بڑے خوش ہوئے اور آپ کے مقابلے میں نہ کوئی مدافعت ہم نے کی نہ جنگ میں کوئی حصہ لیا۔ اب ہم نے سنا ہے کہ آپ ہمیں غلام بنا لینا چاہتے ہیں۔ ” حضرت عمر (رض) نے جواب دیا ” تم کو اختیار ہے کہ مسلمان ہوجاؤ، یا جزیہ قبول کر کے آزاد رہو “۔ ان لوگوں نے جزیہ قبول کرلیا اور وہ آزاد چھوڑ دیے گئے۔ ایک اور جگہ اسی کتاب میں ابو عبید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسی اشعری (رض) کو لکھا کہ ” جنگ میں جو لوگ پکڑے گئے ہیں ان میں سے ہر کاشتکار اور کسان کو چھوڑ دو “۔
8) ۔ احسان کی چوتھی صورت یہ ہے کہ قیدی کو بلا کسی فدیے اور معاوضے کے یونہی رہا کردیا جائے۔ یہ ایک خاص رعایت ہے جو اسلامی حکومت صرف اسی حالت میں کرسکتی ہے جبکہ کسی خاص قیدی کے حالات اس کے متقاضی ہوں، یا توقع ہو کہ یہ رعایت اس قیدی کو ہمیشہ کے لیے ممنون احسان کر دے گی اور وہ دشمن سے دوست یا کافر مومن بن جائے گا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ دشمن قوم کے اسی شخص کو اس لیے چھوڑ دینا کہ وہ پھر ہم سے لڑنے آجائے کسی طرح بھی تقاضائے مصلحت نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے فقہائے اسلام نے بالعموم اس کی مخالفت کی ہے اور اس کے جواز کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ ” اگر امام مسلمین قیدیوں کو، یا ان میں سے بعض کو بطور احسان چھوڑ دینے میں مصلحت پائے تو ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں ہے “۔ (السیر الکبیر) ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں اس کی بہت سی نظیریں ملتی ہیں اور قریب قریب سب میں مصلحت کا پہلو نمایاں ہے۔
جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” لوکان المطعم بن عدیٍّ حیًّا ثم کلّمنی فی ھٰؤلاء النتنیٰ لنزکتھم لہ (بخاری، ابوداؤد، مسند احمد) ۔ ” اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ مجھ سے ان گھناؤنے لوگوں کے بارے میں بات کرتا تو میں اس کی خاطر انہیں یونہی چھوڑ دیتا “۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لیے فرمائی تھی کہ آپ جب طائف سے مکہ معظمہ واپس ہوئے تھے اس وقت مطعم ہی نے آپ کو اپنی پناہ میں لیا تھا اور اس کے لڑکے ہتھیار باندھ کر اپنی حفاظت میں آپ کو حرم میں لے گئے تھے۔ اس لیے آپ اس کے احسان کا بدلہ اس طرح اتارنا چاہتے تھے۔
بخاری، مسلم، اور مسند احمد کی روایت ہے کہ یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثال جب گرفتار ہو کر آئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا ” ثمامہ، تمہارا کیا خیال ہے ” ؟ انہوں نے کہا ” اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون کچھ قیمت رکھتا ہے، اگر مجھ پر احسان کریں گے تو ایسے شخص پر کریں گے جو احسان ماننے والا ہے، اور اگر آپ مال لینا چاہتے ہیں تو مانگیے، آپ کو دیا جائے گا “۔ تین دن تک آپ ان سے یہی بات پوچھتے رہے اور وہ یہی جواب دیتے رہے۔ آخر کو آپ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ رہائی پاتے ہی وہ قریب کے ایک نخلستان میں گئے، نہا دھو کر واپس آئے، کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور عرض کیا کہ ” آج سے پہلے کوئی شخص میرے لیے آپ سے اور کوئی دین آپ کے دین سے بڑھ کر مبغوض نہ تھا، مگر اب کوئی شخص اور کوئی دین مجھے آپ سے اور آپ کے دین سے بڑھ کر محبوب نہیں ہے “۔ پھر وہ عمرہ کے لیے مکے گئے اور وہاں قریش کے لوگوں کو نوٹس دے دیا کہ آج کے بعد کوئی غلہ تمہیں یمامہ سے نہ پہنچے گا جب تک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت نہ دیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا اور مکہ والوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے التجا کرنی پڑی کہ یمامہ سے ہمارے غلہ کی رسد بند نہ کرائیں۔
بنی قریظہ کے قیدیوں میں سے آپ نے زبیر بن باطا اور عمرو بن سعد (یا ابن سعدی) کی جان بخشی کی۔ زبیر کو اس لیے چھوڑا کہ اس نے جاہلیت کے زمانے میں جنگ بعاث کے موقع پر حضرت ثابت بن قیس انصاری (رض) کو پناہ دی تھی، اس لیے آپ نے اس کو حضرت ثابت کے حوالہ کردیا تاکہ ان کے احسان کا بدلہ ادا کردیں۔ اور عمر بن سعد کو اس لیے چھوڑا کہ جب بنی قریظہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بد عہدی کر رہے تھے اس وقت یہی شخص اپنے قبیلے کو غداری سے منع کر رہا تھا (کتاب الاموال لابی عبید) ۔
غزوہ بنی المصطلق کے بعد جب اس قبیلے کے قیدی لائے گئے اور لوگوں میں تقسیم کردیے گئے، اس وقت حضرت جویریہ (رض) جس شخص کے حصے میں آئی تھیں اس کو ان کا معاوضہ ادا کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں رہا کرایا اور پھر ان سے خود نکاح کرلیا۔ اس پر تمام مسلمانوں نے یہ کہہ کر اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کردیا کہ یہ ” اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار ہوچکے ہیں “۔ اس طرح سو 100 خاندانوں کے آدمی رہا ہوگئے (مسند احمد۔ طبقات ابن سعد۔ سیرت ابن ہشام) ۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے 80 آدمی تنعیم کی طرف سے آئے اور فجر کی نماز کے قریب انہوں نے آپ کے کیمپ پر اچانک شبخون مارنے کا ارادہ کیا۔ مگر وہ سب کے سب پکڑ لیے گئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو چھوڑ دیا تاکہ اس نازک موقع پر یہ معاملہ لڑائی کا موجب نہ بن جائے (مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی، مسند احمد) ۔
فتح مکہ کے موقع پر آپ نے چند آدمیوں کو مستثنیٰ کر کے تمام اہل مکہ کو بطور احسان معاف کردیا، اور جنہیں مستثنی کیا تھا ان میں سے بھی تین چار کے سوا کوئی قتل نہ کیا گیا۔ سارا عرب اس بات کو جانتا تھا کہ اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کیے تھے۔ اس کے مقابلہ میں فتح پا کر جس عالی حوصلگی کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں معاف فرمایا اس سے اہل عرب کو یہ اطمینان حاصل ہوگیا کہ ان کا سابقہ کسی جبار سے نہیں بلکہ ایک نہایت رحیم و شفیق اور فیاض رہنما سے ہے۔ اسی بنا پر فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب کو مسخر ہونے میں دو سال سے زیادہ دیر نہ لگی۔
جنگ حنین کے بعد جب قبیلہ ہوازن کا وفد اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے حاضر ہوا تو سارے قیدی تقسیم کیے جا چکے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا یہ لوگ تائب ہو کر آئے ہیں اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیے جائیں۔ تم میں سے جو کوئی بخوشی اپنے حصے میں آئے ہوئے قیدی کو بلا معاوضہ چھوڑنا چاہے وہ اس طرح چھوڑ دے، اور جو معاوضہ لینا چاہے اس کو ہم بیت المال میں آنے والی پہلی آمدنی سے معاوضہ دے دیں گے۔ چنانچہ چھ ہزار قیدی رہا کردیے گئے اور جن لوگوں نے معاوضہ لینا چاہا انہیں حکومت کی طرف سے معاوضہ دے دیا گیا، (بخاری، ابوداؤد، مسند احمد، طبقات ابن سعد) ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تقسیم ہو چکنے کے بعد حکومت قیدیوں کو خود رہا کردینے کی مجاز نہیں رہتی، بلکہ یہ کام ان لوگوں کی رضا مندی سے، یا ان کو معاوضہ دے کر کیا جاسکتا ہے جن کی ملکیت میں قیدی دیے جا چکے ہوں۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے دور میں بھی بطور احسان قیدیوں کو رہا کرنے کی نظیریں مسلسل ملتی ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اشعث بن قیس کندی کو رہا کیا، اور حضرت عمر (رض) نے ہرمُزان کو اور مناذر اور میسان کے قیدیوں کو آزادی عطاء کی (کتاب الاموال لابی عبید) ۔
9) ۔ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کی مثال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں صرف جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے جب کہ فی قیدی ایک ہزار سے چار ہزار تک کی رقمیں لے کر ان کو رہا کیا گیا (طبقات ابن سعد۔ کتاب الاموال) ۔ صحابہ کرام کے دور میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور فقہائے اسلام نے بالعموم اس کو ناپسند کیا ہے، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم روپیہ لے کر دشمن کے ایک آدمی کو چھوڑ دیں تاکہ وہ پھر ہمارے خلاف تلوار اٹھائے۔ لیکن چونکہ قرآن میں فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اس پر عمل بھی کیا ہے، اس لیے ایسا کرنا مطلقا ممنوع نہیں ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ السیر الکبیر میں کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی ضرورت پیش آئے تو وہ مالی معاوضہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔
10) ۔ کوئی خدمت لے کر چھوڑنے کی مثال بھی جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے۔ قریش کے قیدیوں میں سے جو لوگ مالی فدیہ دینے کے قابل نہ تھے، ان کی رہائی کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرط عائد کردی کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکنا پڑھنا سکھا دیں۔ (مسند احمد، طبقات ابن سعد، کتاب الاموال) ۔
11) ۔ قیدیوں کے تبادلے کی متعدد مثالیں ہم کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو ایک مہم پر بھیجا اور اس میں چند قیدی گرفتار ہوئے۔ ان میں ایک نہایت خوبصورت عورت بھی تھی جو حضرت سلمہ بن اکوع کے حصے میں آئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باصرار اس کو حضرت سلمہ سے مانگ لیا اور پھر اسے مکہ بھیج کر اس کے بدلے کئی مسلمان قیدیوں کو رہا کرایا (مسلم۔ ابوداؤد۔ طحاوی۔ کتاب الاموال لابی عبید۔ طبقات ابن سعد) ۔ حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ ثقیف نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کو قید کرلیا۔ اس سے کچھ مدت بعد ثقیف کے حلیف قبیلے، بنی عقیل کا ایک آدمی مسلمانوں کے پاس گرفتار ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو طائف بھیج کر اس کے بدلے ان دونوں مسلمانوں کر رہا کرا لیا۔ (مسلم، ترمذی، مسند احمد ) ۔ فقہاء میں سے امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد تبادلہ اسیران کو جائز رکھتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ایک قول یہ ہے کہ تبادلہ نہیں کرنا چاہیے، مگر دوسرا قول ان کا بھی یہی ہے کہ تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جو قیدی مسلمان ہوجائے اسے تبادلہ میں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں ایک ایسا وسیع ضابطہ بنایا ہے جس کے اندر ہر زمانے اور ہر طرح کے حالات میں اس مسئلے سے عہدہ برآں ہونے کی گنجائش ہے۔ جو لوگ قرآن مجید کی اس آیت کا بس یہ مختصر سا مطلب لے لیتے ہیں کہ جنگ میں قید ہونے والوں کو ” یا تو بطور احسان چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کردیا جائے “، وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ جنگی قیدیوں کا معاملہ کتنے مختلف پہلو رکھتا ہے، اور مختلف زمانوں میں وہ کتنے مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور آیندہ کرسکتا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کو اگر محض باطل پرستوں کی سرکوبی ہی کرنی ہوتی تو وہ اس کام کے لیے تمہارا محتاج نہ تھا۔ یہ کام تو اس کا یک زلزلہ یا ایک طوفان چشم زدن میں کرسکتا تھا۔ مگر اس کے پیش نظر تو یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو حق پرست ہوں وہ باطل پرستوں سے ٹکرائیں اور ان کے مقابلہ میں مجاہدہ کریں، تاکہ جس کے اندر جو کچھ اوصاف ہیں وہ اس امتحان سے نکھر کر پوری طرح نمایاں ہوجائیں اور ہر ایک اپنے کردار کے لحاظ سے جس مقام اور مرتبے کا مستحق ہو وہ اس کو دیا جائے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں کسی کے مارے جانے کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آدمی اپنی جان سے گیا اور اس کی ذات کی حد تک اس کا کیا کرایا سب ملیامیٹ ہوگیا۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ شہداء کی قربانیاں خود ان کے لیے نہیں بلکہ صرف انہی لوگوں کے لیے نافع ہیں جو ان کے بعد اس دنیا میں زندہ رہیں اور ان کی قربانیوں سے یہاں متمتع ہوں، تو وہ غلط سمجھتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود شہید ہونے والوں کے لیے یہ زیاں کا نہیں بلکہ نفع کا سودا ہے۔
تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو۔ اور جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو (پھر اختیار ہے) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے لے لے، جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
جب دونوں فریقوں کا ذکر کردیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے قتل کرنے کے بجائے گردنیں مارنے کا حکم دیا کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔ (فتح القدیر)
یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے جو آدمی قابو میں آجائیں انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔
من کا مطلب ہے بغیر فدیہ لیے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب کچھ معاوضہ لے کر چھوڑنا ہے قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کرلی جائے۔
یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہوجائے یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کر کے ہتھیار رکھ دے یا تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے بعض کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کے کوئی صورت باقی نہیں ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے قیدیوں میں سے جس کو یا سب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔ (فتح القدیر)
یا تم اسی طرح کرو افعلوا ذلک یا ذلک حکم الکفار۔
مطلب کافروں کو ہلاک کر کے یا انہیں عذاب میں مبتلا کر کے۔ یعنی تمہیں ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔
وہ ان کی رہنمائی منزل مقصود کی طرف کرے گا اور ان کا حال سنوار دے گا۔
اوپر والی آیت میں جو بات ’فَلَنْ یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ‘ کے منفی اسلوب میں فرمائی گئی ہے وہی بات یہ مثبت اسلوب میں ارشاد ہوئی تاکہ بات پوری طرح واضح اور موکد ہو جائے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کو راہ یاب کرے گا اور ان کے جملہ حالات سنوار دے گا۔ ہدایت یاب کرنے سے مقصود یہاں منزل مقصود کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی آخری منزل ۔۔۔ جنت ۔۔۔ سے ان کو ہم کنار کرے گا۔ لفظ ’ہدایت‘ قرآن میں جگہ جگہ اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے بھی گزر چکی ہیں، آگے بھی آئیں گی۔ ’یُصْلِحُ بَالَہُمْ‘ کے اجمال کے اندر وہ ساری تفصیل مضمر ہے جو اہل جنت کی سرفرازی و فیروز مندی سے متعلق قرآن میں مذکور ہوئی ہے بلکہ اس اجمال کے اندر ایک نہایت لطیف اشارہ ان فیروز مندیوں کی طرف بھی ہے جن کا ذکر ’فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُم مِّن قُرَّۃِ أَعْیُنٍ‘ (السجدہ: ۱۷) کے الفاظ سے ہوا ہے۔
(چنانچہ) عنقریب وہ اُن کو (اُن کی منزل مقصود کا) راستہ دکھائے گا، اُن کا حال درست کرے گا۔
یعنی بغیر کسی رکاوٹ کے سیدھا جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔
اِس اجمال کے اندر وہ ساری تفصیل مضمر ہے جو اہل جنت کی سرفرازی اور فیروزمندی سے متعلق قرآن میں مذکور ہوئی ہے۔
وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا، ان کا حال درست کر دے گا۔
n/a
انہیں راہ دکھائے گا اور ان کے حالات کی اصلاح کر دے گا
یعنی انہیں ایسے کاموں کی توفیق دے گا جن سے ان کے لئے جنت کا راستہ آسان ہوجائے گا۔
اور ان کو جنت میں داخل کرے گا، جس کی ان کو شناخت کرا دی ہے
جنت کا وعدہ کوئی مبہم وعدہ نہیں ہے: ’وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ‘ یہ اسی ہدایت کی تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ اس جنت کے باب میں فرمایا کہ ’عَرَّفَہَا لَہُمْ‘ اللہ نے اچھی طرح اس کی شناخت کرا دی ہے۔ اس تصریح کی ضرورت اس وجہ سے ہوئی کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ جنت کا یہ وعدہ ایک مجمل و مبہم وعدہ ہے، کچھ نہیں معلوم کہ اس اسم کا مسمیٰ کیا ہے! اگر کوئی معاہدہ مبہم ہو، اس کی تفصیلات واضح نہ ہوں تو کمزور فریق برابر اندیشہ میں رہتا ہے کہ معلوم نہیں وقت پر اس کی تفسیر و تاویل سامنے آئے۔ جنت کے وعدے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس قسم کے اندیشوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ کیا ہے کہ اس کی ساری تفصیلات سے ان کو قرآن میں آگاہ کر دیا ہے اور جو باتیں تعبیر و بیان کی گرفت میں نہیں آ سکتی ہیں ان کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے تاکہ بندوں کو پورا اطمینان رہے کہ جس چیز کے عوض میں انھوں نے اپنی جانیں اپنے رب کے حوالہ کی ہیں وہ کوئی مبہم شے نہیں ہے بلکہ اس کی ساری تفصیلات طے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان میں سے ہر بات کے پورا کرنے کا ذمہ لیا ہے بلکہ ان پر مزید اضافوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ جنت کی یہ تعریف یوں تو پورے قرآن ہی میں بیان ہوئی ہے لیکن خاص طور پر اس سورہ میں بھی اس کی تفصیل مذکور ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو آیت ۱۵۔ یہ امر واضح رہے کہ ’عَرَّفَہَا لَہُمْ‘ کے الفاظ یہاں ’جنت‘ کی صفت کے طور پر نہیں آئے ہیں۔ ایسا ہوتا تو لفظ ’جنت‘ کو نکرہ آنا تھا بلکہ ان کی حیثیت مستتقل جملہ کی ہے اور اس کے مستقل جملہ ہونے ہی سے وہ مفہوم پیدا ہوتا ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا۔
اور اُن کو جنت میں داخل کر دے گا۔ اُس کی پہچان اُس نے اُنھیں کرا دی ہے۔
یہ کس لیے فرمایا ہے؟ استاذامام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’... اِس تصریح کی ضرورت اِس وجہ سے ہوئی کہ کوئی اِس غلط فہمی میں نہ رہے کہ جنت کا یہ وعدہ ایک مجمل و مبہم وعدہ ہے، کچھ نہیں معلوم کہ اِس اسم کا مسمیٰ کیا ہے! اگر کوئی معاہدہ مبہم ہو، اُس کی تفصیلات واضح نہ ہوں تو کمزور فریق برابر اندیشے میں رہتا ہے کہ معلوم نہیں، وقت پر اِس کی کیا تفسیر و تاویل سامنے آئے۔ جنت کے وعدے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اِس قسم کے اندیشوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ کیا ہے کہ اُس کی ساری تفصیلات سے اُن کو قرآن میں آگاہ کر دیا ہے اور جو باتیں تعبیر و بیان کی گرفت میں نہیں آ سکتی ہیں، اُن کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے تاکہ بندوں کو پورا اطمینان رہے کہ جس چیز کے عوض میں اُنھوں نے اپنی جانیں اپنے رب کے حوالے کی ہیں، وہ کوئی مبہم شے نہیں ہے، بلکہ اُس کی ساری تفصیلات طے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اُن میں سے ہر بات کے پورا کرنے کا ذمہ لیا ہے ،بلکہ اُن پر مزید اضافوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ ‘‘ (تدبرقرآن ۷/ ۴۰۰)
اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے۔
یہ ہے وہ نفع جو راہ خدا میں جان دینے والوں کو حاصل ہوگا۔ اس کے تین مراتب بیان فرمائے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ ان کی رہنمائی فرمائے گا۔ دوسرے یہ کہ ان کا حال درست کر دے گا۔ تیسرے یہ کہ ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ پہلے ہی ان کو واقف کرا چکا ہے۔ رہنمائی کرنے سے مراد ظاہر ہے کہ اس مقام پر جنت کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ حالت درست کرنے سے مراد یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کو خلعتوں سے آراستہ کر کے وہاں لے جائے گا اور ہر اس آلائش کو دور کر دے گا جو دنیا کی زندگی میں ان کو لگ گئی تھی۔ اور تیسرے مرتبے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پہلے ہی ان کو قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے بتایا جا چکا ہے کہ وہ جنت کیسی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھی ہے۔ اس جنت میں جب وہ پہنچیں گے تو بالکل اپنی جانی پہچانی چیز میں داخل ہوں گے اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ جس چیز کے دینے کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہی ان کو دی گئی ہے، اس میں یک سرمو فرق نہیں ہے۔
اور انہیں اس جنت میں لے جائے گا جس سے انہیں شناسا کردیا ہے
یعنی جسے وہ بغیر راہنمائی کے پہچان لیں گے اور جب وہ جنت میں داخل ہونگے تو از خود ہی اپنے اپنے گھروں میں جا داخل ہونگے۔ اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک جنتی کو اپنے جنت والے گھر کے راستوں کا اس سے زیادہ علم ہوگا جتنا دنیا میں اسے اپنے گھر کا تھا (صحیح بخاری)
اے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم اچھی طرح جمائے گا۔
نصرت الٰہی کا ظہور کب ہوتا ہے: یہ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہے کہ تمہارے کرنے کا کام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے دین کی نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔ اگر تم عزم و حوصلہ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تو آگے کا کام تمہارا رب سنبھال لے گا۔ وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے قدم اس طرح جمائے گا کہ کوئی ان کو اکھاڑ نہ سکے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی راہ میں پہلا قدم وہ اٹھائیں۔ اگر انھوں نے یہ قدم اٹھادیا تو اس کے بعد اس کی شانیں ظاہر ہوں گی۔ ان لوگوں کے لیے اس کی مدد نہیں نازل ہوتی جو گھروں میں بیٹھے بیٹھے اس کا انتظار کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے نازل ہوتی ہے جو اپنے آپ کو میدان میں ڈال دیتے ہیں پھر اس کی نصرت کا انتظار کرتے ہیں۔
ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور (اِن دشمنوں کے مقابلے میں) تمھارے پاؤں جما دے گا۔
یعنی اُس کے دین کی مدد کرو گے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔
اللہ کی مدد کرنے کا ایک سیدھا سادھا مفہوم تو یہ ہے کہ اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کیا جائے۔ لیکن اس کا ایک غامض مفہوم بھی ہے جس کی ہم اس سے پہلے تشریح کرچکے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، تفسیر آل عمران، حاشیہ 50) ۔
اے ایمان والو ! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
اللہ کی مدد کرنے سے مطلب اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ ودعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح وغلبہ عطا کرتا ہے جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرون اولی کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا تھا انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے نہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ولینصرن اللہ من ینصرہ۔ الحج۔ اللہ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے۔
یہ لڑائی کے وقت تثبیت اقدام یہ عبارت ہے مواطن حرب میں نصرو معونت سے بعض کہتے ہیں اسلام یا پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا۔
رہے وہ جنھوں نے کفر کیا تو ان کے لیے ہلاکی ہے اور اللہ نے ان کے اعمال رائگاں کر دیے
’وَالَّذِیْنَ کَفَرُوۡا فَتَعْسًا لَّہُمْ‘۔ یہ کفار کا حشر بتایا کہ ان کے لیے خدا کی پھٹکار ہے اور ان کے تمام اعمال برباد و رائگاں ہو کر رہیں گے۔ ان کو جو مہلت ملی وہ محض امتحان اور اتمام حجت کے لیے ملی۔ اب اگر تم ان سے نمٹنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو گے تو دیکھو گے کہ ان کی ساری کوششیں نابود ہو جائیں گی۔ ’تَعْسًا لَّہُمْ‘ لعنت اور پھٹکار کا جملہ ہے اور اس کا استعمال اسی طرح معروف ہے۔
رہے وہ جنھوں نے انکار کا فیصلہ کر لیا ہے تو اُن کے لیے ہلاکی ہے اور اُن کے اعمال اللہ نے رایگاں کر دیے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’فَتَعْسًا لَّھُمْ‘۔ یہ لعنت اور پھٹکار کا جملہ ہے اور اِسی طرح استعمال ہوتا ہے۔
رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے، تو اُن کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے۔
اصل الفاظ ہیں فَتَعْساً لَّھُمْ ۔ تعس ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرنے کو کہتے ہیں۔
اور جو لوگ کافر ہوئے ان پر ہلاکت ہو اللہ ان کے اعمال غارت کر دے گا۔
n/a
یہ اس سبب سے کہ انھوں نے اس چیز کو برا جانا جو اللہ نے اتاری پس اللہ نے ان کے اعمال ڈھا دیے
کفار کی نامرادی کا سبب: ’ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ کَرِہُوۡا مَا أَنزَلَ اللَّہُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَہُمْ‘۔ یہ سبب بتایا ہے اس بات کا کہ کیوں یہ اس قدر بودے، بے ثبات اور خدا کی لعنت کے مستحق بن گئے ہیں؟ فرمایا کہ یہ اس وجہ سے ہوا کہ انھوں نے اس چیز سے نفرت کی جو ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اتاری اور اپنی بدعتوں اور ضلالتوں کے ساتھ چمٹے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے وہ اعمال بھی خدا نے رائگاں کر دیے جو انھوں نے دین کے کام سمجھ کر کیے۔ یہ ان کاموں کی طرف اشارہ ہے جو تھے تو نیکی کے لیکن ان کے شرک کے سبب سے وہ بالکل لاحاصل ہو کے رہ گئے۔ اس طرح کے کاموں میں سے بعض کا قرآن نے سورۂ براء ت میں حوالہ بھی دیا ہے۔ مثلاً حرم کا اہتمام و انتظام اور حجاج کی خدمت۔ مشرکین کو اپنی ان خدمات پر بڑا ناز تھا۔ لیکن یہ تمام دین داریاں خدا کی میزان میں بالکل بے وزن ثابت ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول صرف وہی اعمال ہوتے ہیں جو اس کے شرائط پر انجام دیے جائیں وہ کسی کی نیکی کا محتاج نہیں ہے کہ جس طرح بھی کوئی نیک عمل کر دیا جائے وہ ممنون ہو کر اس کو قبول کر لے۔
یہ اِس لیے کہ اُنھوں نے اُس چیز کو برا جانا جو اللہ نے اتاری ہے تو اللہ نے اُن کے (اچھے) اعمال (بھی) اکارت کر دیے۔
یعنی وہ اعمال جو بظاہر نیکی کے تھے، وہ بھی اکارت کر دیے، جیسے حرم کے انتظام و اہتمام اور حجاج کی خدمت وغیرہ ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف وہی اعمال مقبول ہوتے ہیں جو اُس کے بیان کردہ شرائط کے مطابق انجام دیے جائیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں، وہ کسی کی نیکی کا محتاج نہیں ہے کہ جس طرح بھی کوئی نیک عمل کر دیا جائے، وہ ممنون ہو کر اُس کو قبول کر لے۔
کیونکہ انہوں نے اُس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا اللہ نے اُن کے اعمال ضائع کر دیے۔
یعنی انہوں نے اپنی پرانی جاہلیت کے اوہام و تخیلات اور رسم و رواج اور اخلاقی بگاڑ کو ترجیح دی اور اس تعلیم کو پسند نہ کیا جو اللہ نے ان کو سیدھا راستہ بتانے کے لیے نازل کی تھی۔
یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوئے پس اللہ تعالیٰ نے (بھی) ان کے اعمال ضائع کردیئے۔
یعنی قرآن اور ایمان کو انہوں نے ناپسند کیا۔
اعمال سے مراد وہ اعمال ہیں جو صورۃ اعمال خیر ہیں لیکن عدم ایمان کی وجہ سے اللہ کے ہاں ان پر اجر وثواب نہیں ملے گا۔
کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ کیا انجام ہو چکا ہے ان لوگوں کا جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ نے ان کو پامال کر چھوڑا اور ان کافروں کے سامنے بھی انہی کی مثالیں آنی ہیں
کفار قریش کی بے بصیرتی: یہ ان مشرکین کی کورچشمی اور بے بصیرتی پر اظہار افسوس ہے کہ کیا یہ لوگ اپنے ملک میں اس مقصد سے چلے پھرے نہیں کہ ان قوموں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں، اللہ نے ان کو بالکل پامال کر دیا! آیت کے اسلوب سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ لوگ چلے پھرے تو ہیں، اپنے تجارتی سفروں پر برابر نکلتے رہے ہیں لیکن ان بستیوں پر کبھی عبرت کی نگاہ انھوں نے نہیں ڈالی جو کسی زمانے میں عظیم قوموں کا مسکن تھیں لیکن اب وہ ویرانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ اشارہ ان قوموں کی طرف ہے جن کی سرگزشتیں پچھلی سورتوں میں سنائی جا چکی ہیں۔
’وَلِلْکَافِرِیْنَ أَمْثَالُہَا‘۔ فرمایا کہ کافروں کے لیے تو انہی کی مثالیں ہیں یعنی جب وہ اپنے کفر اور اپنی تکذیب کے نتیجہ میں اس انجام کو پہنچیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ (قریش) انہی کی روش اختیار کر کے اس سے کسی مختلف انجام سے دوچار ہوں۔ اللہ کا قانون سب کے لیے ایک ہی ہے ۔۔۔ اوپر آیت ۳ ’کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَہُمْ‘ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
پھر کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ( کبھی آنکھ اٹھا کر ) دیکھتے کہ اُن لوگوں کا انجام کیا ہوا جو اِن سے پہلے گزرے ہیں؟ اللہ نے اُن کو اُن کی ہر چیز کے ساتھ تہس نہس کر دیا۔ اِن منکروں کے سامنے اب اِنھی کی مثالیں آنی ہیں۔
یعنی اِن کو بھی اُسی طرح کے نتائج بھگتنا ہیں جو اِن قوموں نے اپنی سرکشی کی پاداش میں بھگتے ہیں۔
کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہ تھے کہ اُن لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ اللہ نے اُن کا سب کچھ اُن پر الٹ دیا، اور ایسے نتائج اِن کافروں کے لیے مقدر ہیں۔
اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جس تباہی سے وہ کافر دوچار ہوئے ویسی ہی تباہی اب ان کافروں کے لیے مقدر ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو نہیں مان رہے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی تباہی صرف دنیا کے عذاب پر ختم نہیں ہوگئی ہے بلکہ یہی تباہی ان کے لیے آخرت میں بھی مقدر ہے۔
کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر اس کا معائنہ نہیں کیا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیا نتیجہ ہوا ؟ اللہ نے انہیں ہلاک کردیا اور کافروں کے لئے اس طرح کی سزائیں ہیں
جن کے بہت سے آثار ان کے علاقوں میں موجود ہیں نزول قرآن کے وقت بعض تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات اور آثار موجود تھے اس لیے انہیں چل پھر کر ان کے عبرت ناک انجام دیکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی کہ شاید ان کو دیکھ کر ہی یہ ایمان لے آئیں۔
یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم کفر سے باز نہ آئے تو تمہارے لئے بھی ایسی ہی سزا ہو سکتی ہے ؟ اور گزشتہ کافر قوموں کی ہلاکت کی طرح، تمہیں بھی ہلاکت سے دو چار کیا جاسکتا ہے۔
امین احسن اصلاحی
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ سے روکا، اللہ نے ان کے تمام اعمال رائگاں کر دیے
کفار قریش کو وعید: سورۂ احقاف کفار کے لیے جس تہدید و وعید پر ختم ہوئی ہے اسی مضمون سے یہ سورہ بلا کسی تمہید کے، اس طرح شروع ہو گئی ہے گویا اسی تہدید و وعید کا یہ عملی ظہور ہے۔ فرمایا کہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ سے لوگوں کو روکا اللہ نے ان کی تمام کوششیں رائگاں کر دیں۔ یہ اشارہ ظاہر ہے کہ مشرکین مکہ کی طرف ہے۔ اس کی تفصیل سورۂ فتح کی آیت ۲۵ کے تحت آئے گی۔ ’اعمال‘ سے مراد ان کی وہ سرگرمیاں ہیں جو انھوں نے اللہ کے بندوں کو ایمان اور عمل صالح کی راہ سے روکنے کے لیے صرف کیں۔ لفظ ’اضلال‘ یہاں اسی مفہوم میں ہے جس مفہوم میں سورۂ فیل میں لفظ ’تضلیل‘ استعمال ہوا ہے۔ وہاں فرمایا ہے:
’أَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ‘ (الفیل: ۲)
(کیا ان کی ساری چال اللہ نے نابود نہ کر دی؟)
یہ مضمون اسی سورہ کی آیات ۴، ۳۲ اور ۳۳ میں بھی آئے گا۔
یہاں یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ یہ وعید اگرچہ ہے تو مستقبل سے متعلق اس لیے کہ اس سورہ کے نزول کے وقت قریش ابھی مکہ پر مسلط تھے لیکن اس کا بیان ماضی کے صیغہ سے ہوا ہے اس کی وجہ وہی ہے جس کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کرتے آ رہے ہیں کہ جو بات اللہ تعالیٰ کے ہاں قطعی طور پر طے ہو گئی اور جس کا ظہور لازمی ہے وہ گویا واقع ہو چکی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو کوئی بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ اس قطعیت کو ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اس کی وعیدیں قرآن میں ماضی کے صیغوں سے بھی بیان ہوئی ہیں۔ یہ اسلوب ہر زبان میں معروف ہے اور اس کے فوائد بالکل واضح ہیں۔