ہم نے نوح کو اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ اپنی قوم کو خبردار کرو، اِس سے پہلے کہ ایک دردناک عذاب اُن پر آ جائے۔
یعنی عذاب سے پہلے اتمام حجت کے لیے اُسی طرح رسول بنا کر بھیجا،جس طرح اب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بھیجا ہے۔ یہ اُس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت اللہ کے رسول مختلف قوموں کی طرف بھیجے جاتے رہے ہیں۔
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ) کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے۔
یعنی ان کو اس بات سے آگاہ کر دے کہ جن گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں میں وہ مبتلا ہیں وہ ان کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں گی اگر وہ ان سے باز نہ آئے، اور ان کو بتا دے کہ اس عذاب سے بچنے کے لیے انہیں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا کہ اپنی قوم کو خبردار کرو، قبل اس کے کہ ان پر کوئی دردناک عذاب آکھڑا ہو۔
حضرت نوح (علیہ السلام) جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں، صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث شفاعت میں ہے کہ یہ پہلے رسول ہیں، نیز کہا جاتا ہے کہ انہی کی قوم سے شرک کا آغاز ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔
قیامت کے دن عذاب یا دنیا میں عذاب آنے سے قبل، جیسے اس قوم پر طوفان آیا۔
اس نے پکارا کہ اے میری قوم کے لوگو! میں تمہارے لیے ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔
حضرت نوح علیہ السلام کا انذار: ’نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ‘ کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے۔۱ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی قوم کو آگاہ کیا کہ جس طرح ایک نذیر عریاں اپنی قوم کو حملہ آور دشمن سے آگاہ کرتا ہے اسی طرح میں تمہارے لیے ایک نذیر مبین ہوں اور اللہ نے مجھے تمہاری طرف اس لیے بھیجا ہے کہ میں تمہیں اس عذاب سے ہوشیار کر دوں جو تمہارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔
_____
۱ ملاحظہ ہو تدبر قرآن، جلد سوم، صفحہ ۳۸۶؛ تدبر قرآن جلد چہارم، صفحہ ۴۰۴۔
اُس نے کہا: میری قوم کے لوگو، میں تمھارے لیے ایک صاف صاف خبردار کر دینے والا ہوں۔
n/a
اس نے کہا “اے میری قوم کے لوگو، میں تمہارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں۔
n/a
(نوح (علیہ السلام) نے) کہا اے میری قوم ! میں تمہیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
اللہ کے عذاب سے اگر تم ایمان نہ لائے اسی لیے عذاب سے نجات کا نسخہ تمہیں بتلانے آیا ہوں جو آگے بیان ہو رہا ہے۔
کہ اللہ کی بندگی کرو، اس کے حدود کی پابندی کرو اور میری بات مانو۔
یہ اس انذار کی تفصیل ہے کہ اللہ کی بندگی کرو، اس کے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی سے بچو اور میری اطاعت کرو۔
’اَنِ اعْبُدُوا اللَّہَ‘۔ یعنی اپنے خود تراشیدہ معبودوں کی (جن کی تفصیل اسی سورہ میں آگے آ رہی ہے) پوجا چھوڑو اور اپنے رب حقیقی، اللہ واحد کی بندگی کرو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
’وَاتَّقُوْہُ‘۔ یعنی اللہ نے جو حدود و قیود تمہاری زندگی کی رہنمائی کے لیے مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کرو کہ اس کے غضب سے محفوظ رہو۔ ’تقویٰ‘ کا اصل مفہوم، جیسا کہ ہم اس کتاب میں جگہ جگہ واضح کر چکے ہیں، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے، زندگی کے ہر شعبہ میں، اپنی شریعت کے ذریعہ سے جو حدود قائم فرما دیے ہیں، بندہ ان کا پورا احترام کرے اور ان کی خلاف ورزی سے برابر ڈرتا رہے۔ جو لوگ ان حدود کی خلاف ورزی میں بے باک ہو جاتے ہیں بالآخر وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی زد میں آ جاتے ہیں۔
’وَاَطِیْعُوۡنِ‘۔ یعنی اپنے مفسد لیڈروں کی اطاعت چھوڑ کر میری اطاعت کرو۔
آگے اسی سورہ میں ان مفسد لیڈروں کا ذکر آ رہا ہے۔ حضرت نوحؑ نے قوم کو یہ آگاہی بھی دی کہ تمہارے لیڈر تمہیں خدا کے عذاب کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اگر اس عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو ان کی پیروی چھوڑو اور میں جس راہ کی دعوت دے رہا ہوں اس کو اختیار کرو۔
حضرت نوحؑ کی دعوت کے تین ارکان: حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کے تین بنیادی ارکان اس آیت میں بیان ہوئے ہیں: توحید، شریعت الٰہی کی پابندی اور رسول کی اطاعت ۔۔۔ انہی تین ارکان پر تمام رسولوں کی دعوت مبنی رہی ہے۔ انہی کے استحکام پر دین کے استحکام کا انحصار ہے۔ جب تک کوئی قوم ان پر استوار رہتی ہے اس کے قدم جادۂ مستقیم پر استوار رہتے ہیں۔ جہاں اس سے قدم ہٹے اس کی راہ کج ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اصل راہ سے اتنی دور ہو جاتی ہے کہ اس کے لیے بازگشت کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ پھر وہ بہتر سے بہتر ناصحوں کی نصیحت بھی ٹھکرا دیتی ہے اور بالآخر خدا کے عذاب کی گرفت میں آ جاتی ہے۔
(میں تمھیں دعوت دیتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اُس کے حدود کے پابند رہو اور میری بات مانو۔
اصل میں لفظ ’تَقْوٰی‘ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں اِس کے معنی زندگی کے تمام معاملات میں حدودالٰہی کی پابندی کرنے کے ہیں۔
(تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
یہ تین باتیں تھیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی رسالت کا آغاز کرتے ہوئے اپنی قوم کے سامنے پیش کیں۔ ایک، اللہ کی بندگی۔ دوسرے، تقوی۔ تیسرے، رسول کی اطاعت۔ اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ دوسروں کی بندگی و عبادت چھوڑ کر اور صرف اللہ ہی کو اپنا معبود تسلیم کر کے اسی کی پرستش کرو اور اسی کے احکام بجا لاؤ۔ تقوی کا مطلب یہ تھا کہ ان کاموں سے پرہیز کرو جو اللہ کی ناراضی اور اس کے غضب کے موجب ہیں، اور اپنی زندگی میں وہ روش اختیار کرو جو خدا ترس لوگوں کو اختیار کرنی چاہیے۔ رہی تیسری بات کہ ” میری اطاعت کرو “، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ان احکام کی اطاعت کرو جو اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے میں تمہیں دیتا ہوں۔
کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔
اور شرک چھوڑ دو، صرف اسی کی عبادت کرو۔
اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرو، جن سے تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا سکتے ہو،
یعنی میں تمہیں جن باتوں کا حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اس لئے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول اور اس کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔
اللہ تمہارے (پچھلے گناہ) معاف کر دے گا اور تم کو مہلت دے گا ایک معین مدت تک۔ بے شک اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت جب آ جائے گی تو وہ ٹالے نہیں ٹلے گی۔ کاش کہ تم اس کو سمجھتے!
زبان کی ایک بحث: یعنی اگر تم نے میری یہ تینوں باتیں مان لیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے ان جرائم کو معاف کر دے گا جن کے سبب سے تم مستحق عذاب قرار پائے ہو اور ایک معین مدت تک کے لیے تم کو اس دنیا میں کھانے بلسنے کی مہلت مل جائے گی۔
’یَغْفِرْ لَکُمْ مِّنْ ذُنُوبِکُمْ‘ میں حرف ’مِنْ‘ کو بعض لوگوں نے زائد قرار دیا ہے اور بعض لوگوں نے اس کو ’عَنْ‘ کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ دونوں رائیں عربیت کے خلاف ہیں۔ قرآن میں کوئی حرف بھی زائد نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی حرف بظاہر زائد نظر آتا ہے تو وہ بھی زبان کے معروف ضابطہ کے تحت کسی خلا کو بھرنے کے لیے آیا ہے۔ اس طرح کے حروف مخصوص ہیں۔ ہر حرف کو بغیر کسی سند کے زائد نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ’مِنْ‘ کے زائد آنے کی کوئی مثال قرآن یا مستند کلام میں موجود نہیں ہے۔
اسی طرح اس کو ’عَنْ‘ کے معنی میں لینا بھی ایک بالکل بے سند بات ہے۔ اول تو اس کے ’عَنْ‘ کے معنی میں آنے کی کوئی قابل اعتماد مثال موجود نہیں ہے اور ہو بھی تو ’غفر‘ کا صلہ ’عَنْ‘ کے ساتھ نہیں آتا۔ آپ دعا میں کہتے ہیں: ’رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا‘ یوں نہیں کہتے کہ ’اِغْفِرْلَنَا عَنْ ذُنُوْبِنَا‘۔ اگر یوں کہیں گے تو اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ تاویل کرنی پڑے گی کہ یہاں ’غفر‘ لفظ ’صفح‘ یا اس کے ہم معنی کسی ایسے لفظ پر متضمن ہے جس کا صلہ ’عَنْ‘ کے ساتھ آتا ہے۔ اس کے بغیر ’غفر‘ کے ساتھ ’عَنْ‘ کا استعمال عربیت کے خلاف ہو گا۔
میرے نزدیک یہاں ’مِنْ‘ اپنے معروف معنی یعنی تبعیض ہی کے لیے آیا ہے۔ پوری بات گویا یوں ہے کہ
’یَغْفِرْلَکُمْ مَّا تَقَدَّمَ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ‘
(اگر تم میری باتیں مان لو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے وہ سارے گناہ معاف فرما دے گا جو اب تک تم سے صادر ہوئے ہیں)۔
یہاں وضاحت قرینہ کی بنا پر ’مَا تَقَدَّمَ‘ کے الفاظ حذف ہو گئے ہیں اس لیے کہ یہ بات معلوم بھی ہے اور عقلاً معقول بھی کہ کفر کے بعد ایمان کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے وہ گناہ، معاف ہو جاتے ہیں جو جاہلیت کی زندگی میں اس سے صادر ہوئے ہوتے ہیں۔ رہے وہ گناہ جن کا ارتکاب آدمی ایمان کی زندگی اختیار کرنے کے بعد کرتا ہے تو ان کے معاف ہونے کے لیے ایک مخصوص ضابطہ ہے جو آیت ’إِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِن قَرِیْبٍ فَأُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّہُ عَلَیْْہِمْ وَکَانَ اللّہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا‘ (النساء ۴: ۱۷) میں بیان ہوا ہے اور جس کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے۔ اس آیت میں حرف ’مِنْ‘ اسی حقیقت کے اظہار کے لیے آیا ہے کہ اگر تم اس دعوت کو قبول کر کے ایمان میں داخل ہو جاؤ گے تو دور جاہلیت کے تمہارے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ اگر یہ ’مِنْ‘ یہاں نہ ہوتا تو آیت کے یہ معنی بھی نکل سکتے تھے کہ تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ درآنحالیکہ یہ بات صحیح نہیں ہے اس لیے کہ کفر کے بعد ایمان صرف پچھلے گناہوں ہی کا ہادم بنتا ہے، آگے کے گناہوں کا ہادم نہیں بنتا۔
اس دنیا کی ہر فرصت فانی ہے: ’وَیُؤَخِّرْکُمْ إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی‘۔ یعنی میری یہ تینوں باتیں مان لو گے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب کو، جس سے میں ڈرا رہا ہوں، ٹال دے گا اور تمہیں اس دنیا میں جینے اور کھانے بلسنے کی ایک معین مدت تک مہلت دے دے گا۔
’معین مدت‘ کی قید اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ اس دنیا میں کوئی مہلت بھی غیر محدود نہیں ہے۔ یہ دنیا اور اس کی ہر چیز وقتی اور فانی ہے۔ آدمی ایمان و عمل صالح کی زندگی گزارے جب بھی اس کو یہاں غیر محدود زندگی نہیں مل جاتی بلکہ لازماً وہ ایک دن اپنی جان جان آفریں کے حوالہ کرتا ہے۔ البتہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے کسی عذاب سے نہیں ہلاک ہوتا بلکہ وہ اپنی مہلت حیات سے بہرہ مند ہونے کی فرصت پاتا ہے۔ اسی طرح کوئی قوم اگر ایمان، تقویٰ اور اطاعت رسول کی زندگی اختیار کرتی ہے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اسی وقت تک بہرہ مند رکھتا ہے جب تک وہ ایمان و تقویٰ پر استوار رہتی ہے۔ جوں ہی وہ اس سے منحرف ہوتی ہے اس پر زوال کے آثار طاری ہونے شروع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ جب اس کا اخلاقی زوال اس نقطہ پر پہنچ جاتا ہے جو آخری ہے تو اس کی ’اجل مسمّی‘ پوری ہو جاتی ہے اور قومی حیثیت سے اس کا وجود صفحۂ ارض سے مٹ جاتا ہے۔ یہی حال اس مجموعی دنیا کا بھی ہے۔ اس کی مدت بھی معین و مقرر ہے۔ ایک دن آئے گا جب اس دارالامتحان کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ایک نیا عالم نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ ظہور میں آئے گا جس کو دار آخرت کہتے ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام نے یہاں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس دنیا کی ہر فرصت بہرحال محدود اور فانی ہے۔ نیک اور بد دونوں ہی اس کو ہمیشہ مستحضر رکھیں۔ جو اس کو مستحضر رکھیں گے وہی اس زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ جو اس کو بھول جائیں گے ان کے لیے یہ دنیا سرتاسر وبال اور خسران ہے۔
’لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘۔ اس زندگی کی فوز و فلاح کا اصل راز اسی نکتہ کے اندر مضمر ہے لیکن اس کو سمجھنے والے بہت تھوڑے ہیں اس وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اس تمنا کا اظہار فرمایا کہ کاش! تم لوگ اس کو جانتے اور سمجھتے!
اس آیت میں جو سنت الٰہی بیان ہوئی ہے اس کا حوالہ سورۂ نحل آیت ۶۱ میں بھی گزر چکا ہے۔ تفصیل مطلوب ہو تو ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔
(اِس کے نتیجے میں) اللہ تمھارے (وہ) گناہ معاف فرمائے گا (جو اِس سے پہلے تم سے ہوئے ہیں)، اور تمھیں ایک مقرر وقت تک مہلت دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا۔ اے کاش، تم (اِس کو) سمجھتے۔
اصل میں ’مِنْ ذُنُوْبِکُمْ‘ ہے۔ اِس سے پہلے ’مَا تَقَدَّمَ‘ کے الفاظ وضاحت قرینہ کی بنا پر حذف ہو گئے ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اُنھیں کھول دیا ہے۔
یعنی اُس وقت تک مہلت دے گا جوافراد اور قوموں کی موت و حیات کے لیے اُس نے مقرر کر رکھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’’معین مدت‘کی قید اِس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ اِس دنیا میں کوئی مہلت بھی غیر محدود نہیں ہے۔ یہ دنیا اور اِس کی ہر چیز وقتی اور فانی ہے۔ آدمی ایمان و عمل صالح کی زندگی گزارے، جب بھی اُس کو یہاں غیر محدود زندگی نہیں مل جاتی، بلکہ لازماً وہ ایک دن اپنی جان جان آفرین کے حوالے کرتا ہے۔البتہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے کسی عذاب سے نہیں ہلاک ہوتا، بلکہ وہ اپنی مہلت حیات سے بہرہ مند ہونے کی فرصت پاتا ہے۔ اِسی طرح کوئی قوم اگر ایمان، تقویٰ اور اطاعت رسول کی زندگی اختیار کرتی ہے تو اُس کو بھی اللہ تعالیٰ اُسی وقت تک بہرہ مند رکھتا ہے، جب تک وہ ایمان و تقویٰ پر استوار رہتی ہے۔ جوں ہی وہ اِس سے منحرف ہوتی ہے، اُس پر زوال کے آثار طاری ہونے شروع ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُس کا اخلاقی زوال اُس نقطہ پر پہنچ جاتا ہے جو آخری ہے تو اُس کی ’اَجَلٌ مُّسَمًّی‘ پوری ہو جاتی ہے اور قومی حیثیت سے اُس کا وجود صفحۂ ارض سے مٹ جاتا ہے۔ یہی حال اِس مجموعی دنیا کا بھی ہے۔ اِس کی مدت بھی معین و مقرر ہے۔ ایک دن آئے گا، جب اِس دارالامتحان کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ایک نیا عالم نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ ظہور میں آئے گا، جس کو دار آخرت کہتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۵۹۳)
اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا۔ کاش تمہیں اِس کا علم ہو۔”
اصل الفاظ یغفر لکم من ذنوبک۔ اس فقرے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تمہارے گناہوں میں سے بعض کو معاف کر دے گا، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان تین باتوں کو قبول کرلو جو تمہار سامنے پیش کی جا رہی ہیں تو اب تک جو گناہ تم کرچکے ہو ان سب سے وہ درگزر فرمائے گا۔ یہاں من تبعیض کے لیے نہیں بلکہ عن کے معنی میں ہے۔
یعنی اگر تم نے یہ تین باتیں مان لیں تو تمہیں دنیا میں اس وقت تک جینے کی مہلت دے دی جائے گی جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری طبعی موت کے لیے مقرر کیا ہے۔
اس دوسرے وقت سے مراد وہ وقت ہے جو اللہ نے کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے مقرر کردیا ہو۔ اس کے متعلق متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بات بصراحت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی قوم کے حق میں نزول عذاب کا فیصلہ صادر ہوجاتا ہے اس کے بعد وہ ایمان بھی لے آئے تو اسے معاف نہیں کیا جاتا۔
یعنی اگر تمہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ میرے ذریعہ سے اللہ کا پیغام پہنچ جانے کے بعد اب جو وقت گزر رہا ہے۔ یہ دراصل ایک مہلت ہے جو تمہیں ایمان لانے کے لیے دی جا رہی ہے، اور اس مہلت کی مدت ختم ہوجانے کے بعد پھر خدا کے عذاب سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے، تو تم ایمان لانے میں جلدی کرو گے اور نزول عذاب کا وقت آنے تک اس کو ٹالتے نہ چلے جاؤ گے۔
تو وہ خود تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایک وقت مقرہ تک چھوڑ دے گا یقیناً اللہ کا وعدہ جب آجاتا ہے تو مؤخر نہیں ہوتا کاش تمہیں سمجھ ہوتی۔
اس کے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ ایمان لانے کی صورت میں تمہاری موت کی جو مدت مقرر ہے اس کو مؤخر کرکے تمہیں مذید مہلت عمر عطا فرمائے گا اور وہ عذاب تم سے دور کردے گا جو عدم ایمان کی صورت میں تمہارے لیے مقدر تھا۔ بلکہ لامحالہ واقع ہو کر رہنا ہے اسی لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ ایمان واطاعت کا راستہ فورا اپنا لو تاخیر خطرہ ہے کہ وعدہ عذاب الہی کی لپیٹ میں نہ آجاؤ۔
نوح نے اپنے رب سے دعا کی، اے میرے رب! میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا۔
حضرت نوحؑ کی دعوت کا دوسرا مرحلہ: یہاں سے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کے دوسرے مرحلہ کا بیان آ رہا ہے جب آپ نے اپنے رب سے استغاثہ کیا ہے کہ ان کی شب و روز کی ساری تگ و دو جو دعوت کی راہ میں انھوں نے کی وہ قوم پر بالکل بے اثر رہی۔ یہ امر واضح رہے کہ جتنی طویل مدت تک حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی ہے اس کی کوئی مثال معلوم نہیں ہے۔ قرآن میں تصریح ہے کہ
’فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَۃٍ إِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا‘ (العنکبوت ۲۹: ۱۴)
(پس وہ اپنی قوم کے اندر پچاس سال کم ایک ہزار سال رہا)۔
’دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْْلاً وَنَہَارًا‘ کے الفاظ میں بھی ظاہر ہے کہ کسی مبالغے کا شائبہ نہیں ہو سکتا۔ رسول چونکہ اپنی قوم کے لیے عدالت بن کر آتا ہے، اس کی تصدیق یا تکذیب ہی پر اس کی قوم کی زندگی یا موت کا انحصار ہوتا ہے اس وجہ سے یوں تو ہر رسول نے دعوت کی راہ میں اپنے رات دن ایک کر دیے ہیں اور اپنی طاقت کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دیا ہے لیکن حضرت نوح علیہ السلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ نے جتنی طویل مدت تک اپنی قوم کو جھنجھوڑا اور جگایا، اس کی کوئی مثال، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا جو حاصل رہا وہ خود آپؑ ہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ
’فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَاءِیْ إِلَّا فِرَاراً‘
(جتنا ہی زیادہ میں نے ان کو پکارا وہ اتنا ہی زیادہ مجھ سے بھاگے)۔
یہ گریز و فرار ظاہر ہے کہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت میں کوئی بات عقل و فطرت کے خلاف تھی یا ان کی قوم کے لوگوں کو ان کے خلوص اور ان کی راست بازی میں کوئی شبہ تھا۔ ان کی دعوت کی معقولیت بھی ہر شخص پر واضح تھی اور ان کی صداقت کا بھی ہر شخص اپنے دل میں معترف تھا لیکن ان کی دعوت چونکہ نفس کی خواہشوں کے خلاف تھی اور اس کے قبول کرنے سے قوم کے لیڈروں کے استکبار پر چوٹ پڑتی تھی اس وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام نے جتنا ہی ان کا تعاقب کیا اتنا ہی وہ بھاگے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ حضرت نوحؑ کی باتوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور اپنی زندگی کو بدلنا ان کے لیے ناممکن ہے تو سلامتی گریز و فرار ہی میں ہے تاکہ اپنے مجرم ضمیر کو احساس جرم کی اذیت سے بچا سکیں۔ اگرچہ یہ تدبیر ایک اوچھی تدبیر ہے لیکن حقیقت سے فرار اختیار کرنے والوں کے پاس اس کے سوا کوئی دوسری تدبیر اور کیا ہو سکتی ہے۔
(وہ یہی دعوت دیتا رہا، مگر وہ لوگ نہیں مانے۔ یہاں تک کہ) اُس نے کہا: میرے مالک، میں نے اپنی اِس قوم کو شب و روز پکارا۔
n/a
اُس نے عرض کیا “اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا۔
بیچ میں ایک طویل زمانے کی تاریخ چھوڑ کر اب حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ عرضداشت نقل کی جا رہی ہے جو انہوں نے اپنی رسالت کے آخری دور میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی۔
(نوح (علیہ السلام) نے) کہا اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری طرف بلایا ہے ۔
یعنی تیرے حکم کی تعمیل میں، بغیر کسی کوتاہی کے رات دن میں نے تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچایا ہے۔
لیکن میری پکار نے ان کے گریز ہی میں اضافہ کیا۔
رسول چونکہ اپنی قوم کے لیے عدالت بن کر آتا ہے، اس کی تصدیق یا تکذیب ہی پر اس کی قوم کی زندگی یا موت کا انحصار ہوتا ہے اس وجہ سے یوں تو ہر رسول نے دعوت کی راہ میں اپنے رات دن ایک کر دیے ہیں اور اپنی طاقت کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دیا ہے لیکن حضرت نوح علیہ السلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ نے جتنی طویل مدت تک اپنی قوم کو جھنجھوڑا اور جگایا، اس کی کوئی مثال، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا جو حاصل رہا وہ خود آپؑ ہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ
’فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَاءِیْ إِلَّا فِرَاراً‘
(جتنا ہی زیادہ میں نے ان کو پکارا وہ اتنا ہی زیادہ مجھ سے بھاگے)۔
یہ گریز و فرار ظاہر ہے کہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت میں کوئی بات عقل و فطرت کے خلاف تھی یا ان کی قوم کے لوگوں کو ان کے خلوص اور ان کی راست بازی میں کوئی شبہ تھا۔ ان کی دعوت کی معقولیت بھی ہر شخص پر واضح تھی اور ان کی صداقت کا بھی ہر شخص اپنے دل میں معترف تھا لیکن ان کی دعوت چونکہ نفس کی خواہشوں کے خلاف تھی اور اس کے قبول کرنے سے قوم کے لیڈروں کے استکبار پر چوٹ پڑتی تھی اس وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام نے جتنا ہی ان کا تعاقب کیا اتنا ہی وہ بھاگے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ حضرت نوحؑ کی باتوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور اپنی زندگی کو بدلنا ان کے لیے ناممکن ہے تو سلامتی گریز و فرار ہی میں ہے تاکہ اپنے مجرم ضمیر کو احساس جرم کی اذیت سے بچا سکیں۔ اگرچہ یہ تدبیر ایک اوچھی تدبیر ہے لیکن حقیقت سے فرار اختیار کرنے والوں کے پاس اس کے سوا کوئی دوسری تدبیر اور کیا ہو سکتی ہے۔
لیکن میری پکار سے یہ اور زیادہ بھاگتے ہی رہے۔
یہ دعوت کی راہ میں کم و بیش نو ساڑھے نوسو سال کی جدوجہد کے بعد اُس مرحلے کا بیان ہے، جب سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے استغاثہ کیا کہ اُن کی یہ جدوجہد بالکل بے اثر رہی ہے۔
مگر میری پکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔
یعنی جتنا جتنا میں ان کو پکارتا گیا اتنے ہی زیادہ دور بھاگتے چلے گئے۔
مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور زیادہ بھاگنے لگے ۔
یعنی میری پکار سے یہ ایمان سے اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ جب کوئی قوم گمراہی کے آخری کنارے پر پہنچ جائے تو پھر اس کا یہی حال ہوتا ہے، اسے جتنا اللہ کی طرف بلاؤ، وہ اتنا ہی دور بھاگتی ہے۔
اور میں نے جب جب ان کو توبہ کی دعوت دی کہ تو ان کو بخشے تو انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں، اپنی چادریں اپنے اوپر لپیٹ لیں، اپنی ضد پر اڑ گئے اور نہایت گھمنڈ کا اظہار کیا۔
دعوت سے قوم کے فرار کی تصویر: یہ قوم کے گریز و استکبار کی تصویر ہے اور پیش نظر قوم کے مستکبرین ہیں۔ فرمایا کہ میں نے جب جب ان کو پکارا کہ وہ توبہ و استغفار کریں تاکہ تو ان کی مغفرت فرمائے تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں، اپنے اوپر اپنی چادریں لپیٹ لیں، اپنی بات پر اڑ گئے اور نہایت گھمنڈ کا اظہار کیا۔
’دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ‘ میں کلام کا کچھ حصہ بتقاضائے بلاغت حذف ہے۔ اس کو کھول دیجیے تو پوری بات یوں ہو گی کہ جب جب میں نے لوگوں کو توبہ و استغفار کی دعوت دی تاکہ وہ استغفار کر کے تیری مغفرت کے مستحق بنیں تو انھوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیں۔ لیکن یہ بات یوں کہنے کے بجائے حضرت نوح علیہ السلام نے فعل کی جگہ ثمرۂ فعل کو رکھ دیا ہے تاکہ قوم کی بدبختی و محرومی پوری طرح واضح ہو جائے کہ میں نے تو ان کو تیری رحمت و مغفرت کا حق دار بنانے کے لیے بلایا لیکن یہ ایسے شامت کے مارے نکلے کہ انھوں نے میری بات سننی ہی گوارا نہ کی۔
’وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ‘۔ یہ لیڈروں کے غرور و استکبار کی تصویر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جوں ہی انھوں نے میری بات سنی نہایت بیزاری کے ساتھ اپنے اوپر اپنی چادر لپیٹی اور وہاں سے چل دیے۔
’وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا‘۔ ’اَصَرُّوْا‘ کے بعد بھی مصدر محذوف ہے۔ یعنی ’اَصَرُّوْا اِصْرَارًا‘ چونکہ ’اِسْتَکْبَرُوْا‘ کے بعد مصدر کی وضاحت ہو گئی ہے اس وجہ سے ایک جگہ اس کو حذف کر دیا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ میری دعوت استغفار قبول کرنے کے بجائے اپنے شرک و عصیان ہی پر جم گئے۔ اس کی وضاحت آیت ۲۲ میں آ رہی ہے۔
استکبار کا مفہوم: ’اِسْتِکْبَارٌ‘ کا مفہوم جانتے بوجھتے حق کی مخالفت اور اس کے مقابل میں سرکشی ہے۔ حق چھوٹا ہو یا بڑا خدا کو محبوب و مطلوب ہے اس وجہ سے بندے کا فرض یہی ہے کہ اس کے آگے سر جھکا دے اگرچہ یہ نفس پر کتنا ہی شاق کیوں نہ گزرے۔ اگر کوئی شخص حق کے مقابل میں اکڑ دکھائے تو وہ سنت ابلیس کا پیرو ہے اور وہ اسی کا ساتھی بنے گا۔
یہ استکبار کا ذکر ان کی ان حرکتوں کی اصل علت کی حیثیت سے ہوا جو اس سے پہلے مذکور ہوئی ہیں۔ یعنی کانوں میں انگلیاں دے لینا، اپنے اوپر اپنی چادریں لپیٹ لینا اور اپنے شرک پر اڑ جانا اس وجہ سے ہوا کہ ان کے اندر سخت استکبار تھا جس کا انھوں نے مظاہرہ کیا۔
میں نے جب بھی اِنھیں بلایا، اِس لیے کہ (اِن کے پلٹنے پر) تو اِنھیں معاف فرمائے تو اِنھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں اور اپنی چادریں لپیٹ لیں اور اپنی ضد پر اَڑ گئے اور بڑا غرور دکھایا۔
یہ الفاظ اصل میں بہ تقاضاے بلاغت حذف ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...حضرت نوح علیہ السلام نے فعل کی جگہ ثمرۂ فعل کو رکھ دیا ہے تاکہ قوم کی بدبختی و محرومی پوری طرح واضح ہو جائے کہ میں نے تو اِن کو تیری رحمت و مغفرت کا حق داربنانے کے لیے بلایا، لیکن یہ ایسے شامت کے مارے نکلے کہ اِنھوں نے میری بات سننی ہی گوارا نہ کی۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۵۹۵)
یہ لیڈروں کے غرور و تکبر کی تصویر ہے کہ اُنھوں نے جوں ہی یہ بات سنی، نہایت بے زاری کے ساتھ اپنی چادر لپیٹی اور چل دیے۔
اصل میں ’اَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا‘ کے جو الفاظ اِس مفہوم کے لیے آئے ہیں، اُن میں ’اَصَرُّوْا‘ درحقیقت ’اَصَرُّوْا اِصْرَارًا‘ ہے۔ ’اِسْتَکْبَرُوا‘ کے بعد چونکہ مصدر کی وضاحت ہو گئی ہے، اِس لیے یہاں اِسے حذف کر دیا ہے۔
اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تو اُنہیں معاف کر دے، انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔
اس میں خود بخود یہ مضمون شامل ہے کہ وہ نافرمانی کی روش چھوڑ کر معافی کے طلب گار ہوں، کیونکہ اسی صورت میں ان کو اللہ تعالیٰ سے معافی مل سکتی تھی۔
منہ ڈھانکنے کی غرض یا تو یہ تھی کہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بات سننا تو درکنار، آپ کی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتے تھے، یا پھر یہ حرکت وہ اس لیے کرتے تھے کہ آپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے منہ چھپا کر نکل جائیں اور اس کی نوبت ہی نہ آنے دیں کہ آپ انہیں پہچان کر ان سے بات کرنے لگیں۔ یہ ٹھیک وہی طرز عمل تھا جو کفار مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کر رہے تھے۔ سورة ہود آیت 5 میں ان کے اس رویے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے۔ ” دیکھو یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ رسول سے چھپ جائیں۔ خبردار جب یہ اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانکتے ہیں تو اللہ ان کے کھلے کو بھی جانتا ہے اور چھپے کو بھی، وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں سے بھی واقف ہے “۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ہود، حواشی 5 ۔ 6) ۔
تکبر سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے حق کے آگے سر جھکا دینے اور خدا کے رسول کی نصیحت قبول کرلینے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات سمجھا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بھلا آدمی کسی بگڑے ہوئے شخص کو نصیحت کرے اور وہ جواب میں سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہو اور پاؤں پٹختا ہوا نکل جائے تو یہ تکبر کے ساتھ کلام نصیحت کو رد کرنا ہوگا۔
میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لئے بلایا انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور پھر بڑا تکبر کیا،
یعنی ایمان اور اطاعت کی طرف، جو سبب مغفرت ہے۔
تاکہ میری آواز سن سکیں۔ تاکہ میرا چہرہ نہ دیکھ سکیں یا اپنے سروں پر کپڑے ڈال دیے تاکہ میرا کلام نہ سن سکیں
یعنی کفر پر مصر رہے، اس سے باز نہ آئے اور توبہ نہیں کی۔
قبول حق اور امتثال امر سے انہوں نے سخت تکبر کیا۔
پھر میں نے ان کو ڈنکے کی چوٹ پکارا۔
دعوت کا تیسرا مرحلہ: یہ نہایت بلیغ الفاظ میں حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی دعوت کے تیسرے مرحلہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں اور اپنے اوپر اپنی چادریں بھی لپیٹ لی ہیں تو میں نے بھی اپنی دعوت کے لب و لہجہ کو تیز سے تیز تر اور بلند سے بلند تر کر دیا۔ ع
حدی را تیز ترمی خواں چو محمل را گراں بینی!
حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کا طریق دعوت یہی رہا ہے کہ ان کی قوم کی بیزاری دعوت سے جتنی ہی بڑھتی گئی ہے اتنا ہی ان کا جوش دعوت مضاعف، ان کا لب و لہجہ بلند، جھنجھوڑنے والا اور پرجوش ہوتا گیا ہے۔ حق اور اہل حق کی فطرت یہی ہے۔ مزاحمت کی شدت حق کی سطوت کو نمایاں کرتی اور اہل حق کے ولولہ کو دبانے کے بجائے ابھارتی ہے۔ ع
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
پھر میں نے اِن کو کھلم کھلا دعوت دی۔
انذار کے بعد یہ مرحلۂ انذارعام کا بیان ہے۔
پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔
n/a
پھر میں نے انہیں با آواز بلند بلایا۔
n/a
پھر میں نے ان کو کھلم کھلا بھی سمجھایا اور چپکے چپکے بھی۔
’ثُمَّ إِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَہُمْ وَأَسْرَرْتُ لَہُمْ إِسْرَارًا‘۔ یعنی جہاں ڈنکے کی چوٹ بات کہنے کی ضرورت ہوئی وہاں میں نے بے دریغ ڈنکے کی چوٹ اپنی بات سنائی تاکہ بہروں تک بھی میری آواز پہنچ جائے اور جہاں دیکھا کہ ان کے اندر گھس کر کچھ سنانے سمجھانے کا موقع ہے تو میں نے یہ طریقہ بھی آزمایا تاکہ جن میں زندگی کی کچھ رمق باقی ہے وہ چاہیں تو فیصلہ کی گھڑی آنے سے پہلے پہلے اپنے انجام کی فکر کر لیں۔ غرض میں نے نرم و گرم اور پوشیدہ و علانیہ ہر پہلو سے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے تاکہ فرض بلاغ میں کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔
’اَعْلَنْتُ لَہُمْ‘ کے بعد بھی میرے نزدیک مصدر محذوف ہے جس طرح اوپر ’اَصَرُّوْا‘ کے بعد محذوف ہے۔
پھر ہانکے پکارے بلایا اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔
اصل الفاظ ہیں: ’ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ‘ ۔اِن کے بعد بھی مصدر اُسی طرح محذوف ہے، جس طرح اوپر ’اَصَرُّوْا‘ کے بعد محذوف ہے۔
پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔
n/a
بیشک میں نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور چپکے چپکے بھی ۔
یعنی مختلف انداز اور طریقوں سے انہیں دعوت دی۔ بعض کہتے ہیں، کہ اجتماعات اور مجلسوں میں بھی انہیں دعوت دی اور گھروں میں فرساً فرداً بھی تیرا پیغام پہنچایا۔
میں نے کہا، اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
دعوت میں دل سوزی: یہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اس دعوت کی وضاحت فرمائی ہے جو نہایت دل سوزی اور محبت سے انھوں نے اپنی قوم کو دی۔ فرمایا کہ میں نے ان کو سمجھایا کہ لوگو، اپنے رب سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگو۔ ہر چند تمہارے گناہ بہت ہیں لیکن اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ وہ بڑا ہی مغفرت فرمانے والا ہے۔
’اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا‘ میں یہ مضمون بھی مضمر ہے کہ اس کی مغفرت حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف تمہارا رجوع ہی کافی ہے، تمہارے مزعومہ دیویوں دیوتاؤں کی سفارش کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بڑا ہی غفار ہے۔ صدق دل سے مغفرت مانگنے والوں کو کسی سفارش کے بغیر وہ خود ہی اپنے دامن رحمت میں چھپا لیتا ہے۔
خدا سے بڑا کوئی غفار نہیں کہ اس کی سفارش چاہی جائے: یہ امر یہاں واضح رہے کہ ہر دور کے مشرکین اس غلط فہمی میں بھی مبتلا رہے ہیں کہ خدا کی سرکار چونکہ بہت بلند ہے اس وجہ سے جب تک کچھ سفارشی نہ ہوں ہر شخص کے لیے اس سے اپنی التجا و درخواست منظور کرانا ممکن نہیں ہے۔
’مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَا إِلَی اللہِ زُلْفٰی‘ (الزمر ۳۹: ۳)
(ہم تو ان معبودوں کو صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا سے قریب تر کر دیں)
ان کے اسی خیال کی ترجمانی ہے۔ قرآن نے ان کے اس وہم کی مختلف پہلوؤں سے تردید کی ہے۔ یہاں ’اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا‘ میں بھی اس کی تردید ہے کہ جب وہ خود ہی سب سے بڑا مغفرت فرمانے والا ہے تو اس سے بڑا غفار کون ہے جس کو اس کے پاس کوئی سفارشی بنا کر لے جائے گا۔
اِس طرح کہ میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگ لو۔ بے شک، وہ بڑا معاف کر دینے والا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اُس کی مغفرت حاصل کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم صدق دل سے اُس کی طرف رجوع کرو۔ اُس سے بڑا کوئی معاف کرنے والا نہیں ہے کہ جس کی سفارش لے کر اُس کے حضور میں جانے کی ضرورت ہو۔
میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔
n/a
اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ (اور معافی مانگو) وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہے
یعنی ایمان اور اطاعت کا راستہ اپنالو، اور اپنے رب سے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگ لو۔
وہ توبہ کرنے والوں کے لئے بڑا رحیم و غفار ہے۔
امین احسن اصلاحی
ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ اپنی قوم کو، قبل اس کے کہ اس پر ایک دردناک عذاب آ جائے، ہوشیار کر دو۔
قوموں کے معاملہ میں سنت الٰہی: یہ اس سنت الٰہی کا بیان ہے جس کی وضاحت قرآن مجید میں جگہ جگہ ہوئی ہے کہ جب کسی قوم کا اخلاقی فساد اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کن عذاب کی مستحق ہو گئی ہے تو عذاب بھیجنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر اپنا ایک رسول بھیج کر اس پر اپنی حجت تمام کر دی ہے تاکہ کسی کے پاس گمراہی میں پڑے رہنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ اسی سنت کے مطابق اس نے قوم نوح پر عذاب بھیجنے سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اچھی طرح آگاہ کر دیں کہ اللہ کا عذاب آیا ہی چاہتا ہے۔ اس سے نجات مطلوب ہے تو لوگ اپنی گمراہی کی روش چھوڑ کر اس طریقہ کی پیروی کریں جس کی وہ دعوت دے رہے ہیں ورنہ یاد رکھیں کہ اللہ کے قہر سے کسی کے لیے بھی کوئی راہ فرار نہیں ہے۔