ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ

امین احسن اصلاحی

یہ سورۂ قٓ ہے۔ قسم ہے باعظمت قرآن کی

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’ق‘ ہے۔ قرآن مجید (آپ ہی اپنی) گواہی ہے

ابو الاعلی مودودی

ق، قسم ہے قرآن مجید کی۔

” مجید ” کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک، بلند مرتبہ، با عظمت، بزرگ اور صاحب عزت و شرف۔ دوسرے، کریم، کثیر العطاء، بہت نفع پہنچانے والا۔ قرآن کے لیے یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال فرمایا گیا ہے۔ قرآن اس لحاظ سے عظیم ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے مقابلے میں نہیں لائی جاسکتی۔ اپنی زبان اور ادب کے لحاظ سے بھی وہ معجزہ ہے اور اپنی تعلیم اور حکمت کے لحاظ سے بھی معجزہ۔ جس وقت وہ نازل ہوا تھا اس وقت بھی انسان اس کے مانند کلام بنا کر لانے سے عاجز تھے اور آج بھی عاجز ہیں۔ اس کی کوئی بات کبھی کسی زمانے میں غلط ثابت نہیں کی جاسکی ہے نہ کی جاسکتی۔ باطل نہ سامنے سے اس کا مقابلہ کرسکتا ہے نہ پیچھے سے حملہ آور ہو کر اسے شکست دے سکتا ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ کریم ہے کہ انسان جس قدر زیادہ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرے اسی قدر زیادہ وہ اس کو رہنمائی دیتا ہے اور اتنی زیادہ اس کی پیروی کرے اتنی ہی زیادہ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے فوائد و منافع کی کوئی حد نہیں ہے جہاں جا کر انسان اس سے بےنیاز ہوسکتا ہو، یا جہاں پہنچ کر اس کی نفع بخشی ختم ہوجاتی ہو۔

جونا گڑھی

ق ! بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے

بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ

امین احسن اصلاحی

بلکہ ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی کے اندر سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ تو ایک نہایت عجیب بات ہے

جاوید احمد غامدی

(اِن کے جھٹلانے کی وجہ وہ نہیں ہے جو یہ ظاہر کر رہے ہیں)، بلکہ اِنھیں تعجب اِس بات پر ہوا ہے کہ (روز قیامت کے لیے) ایک خبردار کرنے والا خود اِنھی کے اندر سے اِن کے پاس آ گیا ہے۔ چنانچہ اِن منکروں نے کہا ہے کہ یہ عجیب بات ہے

ابو الاعلی مودودی

بلکہ اِن لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود اِنہی میں سے اِن کے پاس آگیا۔ پھر منکرین کہنے لگے “یہ تو عجیب بات ہے۔

یہ فقرہ بلاغت کا بہترین نمونہ ہے جس میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ قرآن کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اسے بیان نہیں کیا گیا۔ اس کا ذکر کرنے کے بجائے بیچ میں ایک لطیف خلا چھوڑ کر آگے کی بات ” بلکہ ” سے شروع کردی گئی ہے۔ آدمی ذرا غور کرے اور اس پس منظر کو بھی نگاہ میں رکھے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ قسم اور بلکہ کے درمیان جو خلا چھوڑ دیا گیا ہے اس کا مضمون کیا ہے۔ اس میں دراصل قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ” اہل مکہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو ماننے سے کسی معقول بنیاد پر انکار نہیں کیا ہے، بلکہ اس سراسر غیر معقول بنیاد پر کیا ہے کہ ان کی اپنی جنس کے ایک بشر، اور ان کی اپنی ہی قوم کے ایک فرد کا خدا اپنے بندوں کی بھلائی اور برائی سے بےپروا ہو کر انہیں خبردار کرنے کا کوئی انتظام نہ کرتا، یا انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے کسی غیر انسان کو بھیجتا، یا عربوں کو خبردار کرنے کے لیے کسی چینی کو بھیج دیتا۔ اس لیے انکار کی یہ بنیاد تو قطعی نامعقول ہے اور ایک صاحب عقل سلیم یقیناً یہ ماننے پر مجبور ہے کہ خدا کی طرف سے بندوں کو خبردار کرنے کا انتظام ضرور ہونا چاہیے اور اسی شکل میں ہونا چاہیے یہ خبردار کرنے والا خود انہی لوگوں میں سے کوئی شخص ہو جن کے درمیان وہ بھیجا گیا ہو “۔ اب رہ جاتا ہے یہ سوال کہ آیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی وہ شخص ہیں جنہیں خدا نے اس کام کے لیے بھیجا ہے، تو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی اور شہادت کی حاجت نہیں، یہ عظیم و کریم قرآن، جسے وہ پیش کر رہے ہیں، اس بات کا ثبوت دینے کے لیے بالکل کافی ہے۔

اس تشریح سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں قرآن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور ان کی رسالت پر کفار کا تعجب بےجا ہے۔ اور قرآن کے ” مجید ” ہونے کو اس دعوے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے۔

جونا گڑھی

بلکہ انہیں تعجب معلوم ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے

أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ

امین احسن اصلاحی

کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے! یہ لوٹایا جانا تو بہت بعید ہے

جاوید احمد غامدی

کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے)؟ یہ واپسی تو بڑی بعید ہے

ابو الاعلی مودودی

کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے)؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے۔”

یہ ان لوگوں کا دوسرے تعجب تھا۔ پہلا اور اصل تعجب زندگی بعد موت پر نہ تھا بلکہ اس پر تھا کہ انہی کی جنس اور قسم کے ایک فرد نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں خدا کی طرف سے تمہیں خبردار کرنے کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد مزید تعجب انہیں اس پر ہوا کہ وہ شخص انہیں جس چیز پر خبردار کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ تمام انسان مرنے کے بعد از سرنو زندہ کیے جائیں گے، اور ان سب کو اکٹھا کر کے اللہ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا، اور وہاں ان کے اعمال کا محاسبہ کرنے کے بعد جزا اور سزا دی جائے گی۔

جونا گڑھی

کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے۔ پھر یہ واپسی دور (از عقل) ہے

 حالانکہ عقلی طور پر اس میں بھی کوئی استحالہ نہیں ہے۔ آگے اس کی کچھ وضاحت ہے 

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ

امین احسن اصلاحی

ہم نے جان رکھا ہے جو کچھ زمین ان کے اندر سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس ایک محفوظ رکھنے والی کتاب بھی ہے

جاوید احمد غامدی

(ہمارے علم کو بھی یہ اپنے لحاظ سے دیکھتے ہیں، دراں حالیکہ) اِن کے اندر سے زمین جو کچھ کھاتی ہے، وہ سب ہم نے جان رکھا ہے اور ہمارے پاس وہ کتاب بھی ہے جو ہر چیز کو محفوظ رکھتی ہے

ابو الاعلی مودودی

زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے۔

یعنی یہ بات اگر ان لوگوں کی عقل میں نہیں سماتی تو یہ ان کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ اللہ کا علم اور اس کی قدرت بھی تنگ ہوجائے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک مرنے والے بیشمار انسانوں کے جسم کے اجزاء جو زمین میں بکھر چکے ہیں اور آئندہ بکھرتے چلے جائیں گے، ان کو جمع کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ہر جز جس شکل میں جہاں بھی ہے، اللہ تعالیٰ براہ راست اس کو جانتا ہے، اور مزید براں اس کا پورا ریکارڈ اللہ کے دفتر میں محفوظ کیا جا رہا ہے جس سے کوئی ایک ذرہ بھی چھٹا ہوا نہیں ہے۔ جس وقت اللہ کا حکم ہوگا اسی وقت آناً فاناً اس کے فرشتے اس ریکارڈ سے رجوع کر کے ایک ایک ذرے کو نکال لائیں گے اور تمام انسانوں کے وہ جسم پھر بنا دیں گے جن میں رہ کر انہوں نے دنیا کی زندگی میں کام کیا تھا۔

یہ آیت بھی من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی نہ صرف یہ کہ ویسی ہی جسمانی زندگی ہوگی جیسی اس دنیا میں ہے، بلکہ جسم بھی ہر شخص کا وہی ہوگا جو اس دنیا میں تھا اگر یہ حقیقت یہ نہ ہوتی تو کفار کی بات کے جواب میں یہ کہنا بالکل بےمعنی تھا کہ زمین تمہارے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم ہے۔ اور ذرے ذرے کا ریکارڈ موجود ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، تفسیر سورة حٰم السجدہ، حاشیہ 25) ۔

جونا گڑھی

زمین جو کچھ ان میں سے گھٹاتی ہے وہ ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس سب یاد رکھنے والی کتاب ہے ۔

 یعنی زمین انسان کے گوشت، ہڈی اور بال وغیرہ بوسیدہ کر کے کھا جاتی ہے یعنی اسے ریزہ ریزہ کردیتی ہے وہ نہ صرف ہمارے علم میں ہے بلکہ لوح محفوظ میں بھی درج ہے اس لئے ان تمام اجزا کو جمع کر کے انہیں دوبارہ زندہ کردینا ہمارے لئے قطعًا مشکل امر نہیں ہے۔ 

بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ

امین احسن اصلاحی

بلکہ انھوں نے حق کو جھٹلایا ہے جب کہ وہ ان کے پاس آ چکا ہے۔ پس وہ ایک صریح تضاد فکر میں مبتلا ہیں

جاوید احمد غامدی

(نہیں، وہ بات نہیں جو یہ کہہ رہے ہیں)، بلکہ اِنھوں نے حق کو جھٹلایا ہے، جبکہ وہ اِن کے پاس آ گیا ہے۔ اِس لیے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں

ابو الاعلی مودودی

بلکہ اِن لوگوں نے تو جس وقت حق اِن کے پاس آیا اُسی وقت اُسے صاف جھٹلا دیا۔ اِسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس مختصر سے فقرے میں بھی ایک بہت بڑا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے صرف تعجب کرنے اور بعید از عقل ٹھہرانے پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ جس وقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دعوت حق پیش کی اسی وقت بلا تامل اسے قطعی جھوٹ قرار دے دیا۔ اس کا نتیجہ لازماً یہ ہونا تھا اور یہی ہوا کہ انہیں اس دعوت اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے معاملہ میں کسی ایک موقف پر قرار نہیں ہے۔ کبھی اس کو شاعر کہتے ہیں تو کبھی کاہن اور کبھی مجنون۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ کسی نے اس پر جادو کردیا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے خود یہ چیز بنا لایا ہے، اور کبھی یہ الزام تراشتے ہیں کہ اس کے پس پشت کچھ دوسرے لوگ ہیں جو یہ کلام گھڑ گھڑ کر اسے دیتے ہیں۔ یہ متضاد باتیں خود ظاہر کرتی ہیں کہ یہ لوگ اپنے موقف میں بالکل الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس الجھن میں یہ ہرگز نہ پڑتے اگر جلد بازی کر کے نبی کو پہلے ہی قدم پر جھٹلا نہ دیتے اور بلا فکر و تامل ایک پیشگی فیصلہ صادر کردینے سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے کہ یہ دعوت کون پیش کر رہا ہے، کیا بات کہہ رہا ہے اور اس کے لیے دلیل کیا دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص ان کے لیے اجنبی نہ تھا۔ کہیں سے اچانک ان کے درمیان نہ آکھڑا ہوا تھا۔ ان کی اپنی ہی قوم کا فرد تھا۔ ان کا اپنا دیکھا بھالا آدمی تھا۔ یہ اس کی سیرت و کردار اور اس کی قابلیت سے ناواقف نہ تھے۔ ایسے آدمی کی طرف سے جب ایک بات پیش کی گئی تھی تو چاہے اسے فوراً قبول نہ کرلیا جاتا، مگر وہ اس کی مستحق بھی تو نہ تھی کہ سنتے ہی اسے رد کردیا جاتا۔ پھر وہ بات بےدلیل بھی نہ تھی۔ وہ اس کے لیے دلائل پیش کر رہا تھا۔ چاہیے تھا کہ اس کے دلائل کھلے کانوں سے سنے جاتے اور تعصب کے بغیر ان کو جانچ کر دیکھا جاتا کہ وہ کہاں گم معقول ہیں۔ لیکن یہ روش اختیار کرنے کے بجائے جب ان لوگوں نے ضد میں آ کر ابتدا ہی میں اسے جھٹلا دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک حقیقت تک پہنچنے کا دروازہ تو انہوں نے اپنے لیے خود بند کرلیا اور ہر طرف بھٹکتے پھرنے کے بہت سے راستے کھول لیے۔ اب یہ اپنی ابتدائی غلطی کو نباہنے کے لیے دس متضاد باتیں تو بنا سکتے ہیں مگر اس ایک بات کو سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ نبی سچا بھی ہوسکتا ہے اور اس کی پیش کردہ بات حقیقت بھی ہو سکتی ہے۔

جونا گڑھی

بلکہ انہوں نے سچی بات کو جھوٹ کہا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچ چکی پس وہ الجھاؤ میں پڑگئے ہیں ۔

 یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہوگیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑگئے ہیں، کبھی اسے جادوگر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی غیب کی خبریں بتانے والا۔ 

أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ

امین احسن اصلاحی

کیا انھوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا، کس طرح ہم نے اس کو بنایا اور اس کو سنوارا اور کہیں اس میں کوئی رخنہ نہیں

جاوید احمد غامدی

(یہ نہیں مانتے) توکیا اِنھوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا؟ ہم نے کس طرح اُس کو بنایا اور اُس کو سنوارا ہے اور اُس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے

ابو الاعلی مودودی

اچھا، تو کیا اِنہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔

اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار مکہ کے موقف کی نامعقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک، یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں آگئے ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں، اس لیے ان کے دعوائے نبوت پر تمہارا تعجب بےجا ہے۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ جس زمانے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا رہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوئے تھے، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے۔

یہاں آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے۔ جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بےحد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہوجاتی ہے، لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو ناپیدا کنار ہے، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں (Galaxy) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم 3 ارب دوسرے تارے (ثوابت) موجود ہیں، اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہا ہے۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے۔ اس عظیم کار گاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق، جس کا نام انسان ہے، اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا، تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہوجائے گی !

یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع 3 ج 295 (Source3c, 285) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ 4 ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہونگی۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے دراصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشان دہی بھی نہیں کرسکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور کہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہوجانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کرسکوں گا۔

یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے چار ارب سال نوری (Light Years) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا، اور یہاں انسان کے بنائے ہوئے آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے، ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کار فرما ہیں، اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کر رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور نہ ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جو انسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کر کے بنائے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق ومالک اور حاکم و مدبر ہے۔

جونا گڑھی

کیا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر نہیں دیکھا ؟ کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے اور زینت دی ہے اس میں کوئی شگاف نہیں۔

 یعنی بغیر ستون کے، جن کا اسے کوئی سہارا ہو۔ 

 یعنی ستاروں سے مزین کیا۔ 

 اسی طرح کوئی فرق وتفاوت بھی نہیں ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ۭ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ ۝ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيْرٌ ۝) 67 ۔ الملک :4-3) 

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ

امین احسن اصلاحی

اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی خوش منظر چیزیں اُگائیں

جاوید احمد غامدی

اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اُس میں پہاڑ جمائے اور ہر قسم کی خوش منظر چیزیں اُس میں اگا دیں

ابو الاعلی مودودی

اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اگا دیں۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، النحل، حواشی 12 ۔ 13 ۔ 14 ۔ جلد سوم، النمل، حواشی 73 ۔ 74 ۔ جلد چہارم، الزخرف، حاشیہ 7 ۔

جونا گڑھی

اور زمین کو ہم نے بچھا دیا ہے اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں اگا دیں ہیں

 اور بعض نے زوج کے معنی جوڑا کیا ہے یعنی ہر قسم کی نباتات اور اشیا کو جوڑا جوڑا (نر مادہ) بنایا ہے بھیج کے معنی خوش منظر شاداب اور حسین 

تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ

امین احسن اصلاحی

ہر متوجہ ہونے والے بندے کی بصیرت اور یاددہانی کے لیے

جاوید احمد غامدی

ہر اُس بندے کی بصیرت اور یاددہانی کے لیے جو توجہ کرنے والا ہو

ابو الاعلی مودودی

یہ ساری چیزیں آنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اُس بندے کے لیے جو (حق کی طرف) رجوع کرنے والا ہو۔

n/a

جونا گڑھی

تاکہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو۔

 یعنی آسمان و زمین کی تخلیق اور دیگر اشیا کا مشاہدہ اور ان کی معرفت ہر اس شخص کے لئے بصیرت و دانائی اور عبرت و نصیحت کا باعث ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ 

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ

امین احسن اصلاحی

اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا جس سے ہم نے باغ بھی اگائے اور کاٹی جانے والی فصلیں بھی

جاوید احمد غامدی

اور آسمان سے ہم نے برکتوں والا پانی برسایا، پھر اُس سے باغ اور فصلیں اگائیں جو کاٹ لی جاتی ہیں

ابو الاعلی مودودی

اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا، پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے۔

n/a

جونا گڑھی

اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کئے۔

 کٹنے والے غلے سے مراد وہ کھیتیاں مراد ہیں جن سے گندم مکڑی جوار باجرہ دالیں اور چاول وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کا ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔ 

وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ

امین احسن اصلاحی

اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت بھی جن میں تہ بہ تہ خوشے لگتے ہیں

جاوید احمد غامدی

اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت اگا دیے جن میں تہ بر تہ خوشے لگتے ہیں

ابو الاعلی مودودی

اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بر تہ لگتے ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

اور کھجوروں کے بلند وبالا درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں۔

 باسقات کے معنی طوالاً شاھقات، بلند وبالا طلع کھجور کا وہ گدرا گدرا پھل، جو پہلے پہل نکلتا ہے۔ نضید کے معنی تہ بہ تہ۔ باغات میں کھجور کا پھل بھی آجاتا ہے۔ لیکن اسے الگ سے بطور خاص ذکر کیا، جس سے کھجور کی وہ اہمیت واضح ہے جو اسے عرب میں حاصل ہے۔ 

Page 1 of 5 pages  1 2 3 >  Last ›