قریش مانوس کیے گئے۔
یہ نہیں بتایا کہ کس چیز سے مانوس کیے گئے، اِس کی وضاحت اگلے جملے میں کی ہے جس میں لفظ ’اٖلٰفِھِمْ‘ پہلے ’اِیْلٰفْ‘سے بدل واقع ہوا ہے۔ یہ اسلوب کلام قرآن مجید میں بعض دوسرے مقامات میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس کا پہلا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ مخاطب بات کو سننے کے لیے بیدار ہو جاتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اِس کی نوعیت اجمال کے بعد گویا تفصیل کی ہوتی ہے، اِس وجہ سے بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۵۷۲)
چونکہ قریش مانوس ہوئے۔
اصل الفاظ ہیں لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ ۔ ایلاف الف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے، مانوس ہونے، پھٹنے کے بعد مل جانے، اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں۔ اردو زبان میں الفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔ ایلاف سے پہلے جو لام آیا ہے اس کے متعلق عربی زبان کے بعض ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطابق تعجب کے معنی میں ہے۔ مثلا عرب کہتے ہیں کہ لزید و ما صنعنا بہ، یعنی ذرا اس زید کو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ پس لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ کا مطلب یہ ہے کہ قریش کا رویہ بڑا ہی قابل تعجب ہے کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعد جمع ہوئے اور ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوگئے جو ان کی خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور وہ اللہ ہی کی بندگی سے روگردانی کر رہے ہیں۔ یہ رائے اخفش، کسارئی، اور فراء کی ہے، اور اس رائے کو ابن جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب جب اس لام کے کسی بات کا ذکر کرتے ہیں تو وہی بات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھتی جاتی ہے کہ اس کے ہوتے جو شخص کوئی رویہ اختیار کر رہا ہے وہ قابل تعجب ہے۔ بخلاف اس کے خلیل بن احمد، سیبویہ اور زمخشری کہتے ہیں کہ یہ لام تعلیل ہے اور اس کا تعلق آگے کے فقرے فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ سے ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں تو قریش پر اللہ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں، لیکن اگر کسی اور نعمت کی بنا پر نہیں تو اسی ایک نعمت کی بنا پر وہ اللہ کی بندگی کریں کہ اس کے فضل سے وہ ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوئے، کیونکہ یہ بجائے خود ان پر اس کا بہت بڑا احسان ہے۔
قریش کے مانوس کرنے کے لئے
n/a
اس وابستگی کے سبب سے جو سردی اور گرمی کے سفر کے ساتھ ان کو ہے۔
اجمال کے بعد تفصیل: یہ سابق ’اِیْلَاف‘ سے بدل ہے۔ پہلے بات مجمل طور پر کہہ کر ناتمام چھوڑ دی ہے تاکہ سننے والوں میں سوال پیدا ہو جائے کہ قریش کی کون سی وابستگی، کس پہلو سے زیربحث ہے؟ یہ اسلوب کلام قرآن میں بعض دوسرے مقامات میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ مخاطب بات کو سننے کے لیے بیدار ہو جاتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی نوعیت اجمال کے بعد گویا تفصیل کی ہوتی ہے اس وجہ سے بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے۔
قریش کے تجارتی سفروں کی نوعیت: فرمایا کہ یہاں خاص طور پر قریش کی جس وابستگی کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے وہ ان کی وہ وابستگی ہے جو ان کو اپنے گرمی و سردی کے دونوں تجارتی سفروں کے ساتھ ہے۔ یہ واضح رہے کہ سردیوں میں قریش کے تجارتی قافلے یمن کا سفر کرتے اور گرمیوں میں شام و فلسطین کا۔ ان تجارتی قافلوں کے ساتھ پوری قوم کا مال اور سرمایہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں بہت سے تاجر ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے اور ان کے واسطہ سے وہ لوگ بھی اس نفع بخش تجارت میں حصہ دار بن جاتے جو خود یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ یہی سفر درحقیقت اہل مکہ کی تمام دولت و ثروت کا ذریعہ تھے۔ اس طرح ان کی تمام قابل فروخت اشیاء دوسری منڈیوں میں پہنچتیں اور دوسرے بازاروں کی ضروری اشیاء ان کے صارفین کو حاصل ہوتیں۔ یہ تجارتی گزرگاہیں قریش کے لیے رگ جان کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اگرچہ یہ بین الاقوامی گزرگاہیں تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صحیح معنوں میں محفوظ صرف قریش کے لیے تھیں، دوسروں کو ان میں وہ تحفظ نہیں حاصل تھا جو قریش کو حاصل تھا۔ دوسروں کے قافلے ان میں علانیہ لٹ جاتے، ان کو قدم قدم پر راہ میں واقع قبیلوں سے اجازت حاصل کرنی پڑتی اور اس کے لیے بھاری بھاری معاوضے ادا کرنے پڑتے، لیکن قریش کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ وہ اپنے تمام سامان تجارت کے ساتھ بے خطر گزرتے اور کسی کا ان سے تعرض کرنا تو درکنار، راہ کے قبائل اپنے اپنے حدود میں ان کے لیے بدرقہ فراہم کرتے کہ یہ لوگ بیت اللہ کے خادم، اس کے متولی اور حاجیوں کی خدمت کرنے والے ہیں۔ اسی نسبت کو قرآن نے یہاں یاد دلایا ہے کہ اپنی دنیوی کامیابیوں کے نشہ میں اس گھر کے رب کو نہ بھولو، تمہاری دنیوی کامیابیاں بھی اسی گھر کے طفیل سے ہیں اور اسی وقت تک تم ان کے حق دار ہو جب تک تم اس گھر کے وفادار ہو۔
بیت اللہ کے ساتھ قریش کے تعلق کی تاریخ: قریش کے متعلق یہ بات یاد رکھیے کہ بیت اللہ کے ساتھ ان کے تعلق کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ باہر سے کوئی قبیلہ آیا ہو، وہ مکہ میں بسا ہو اور پھر اس گھر کا متولی بن بیٹھا ہو بلکہ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس گھر کو تعمیر کیا اسی وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی ذریت کو اس گھر کے پاس بسایا تاکہ یہ اس مشن کو پورا کریں جو اس گھر کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی وقت ان کے لیے امن اور رزق کی دعا کی جس کی برکات کا ذکر سابق سورہ میں بھی ہوا اور اس سورہ میں بھی آ رہا ہے۔ گویا قریش کو ان کی تاریخ یاد دلائی جا رہی ہے کہ اس گھر کے ساتھ ان کا تعلق اتفاقی نہیں بلکہ ایک خاص مشن اور مقصد پر مبنی اور شرائط کے ساتھ مشروط ہے جس کو وفاداری کے ساتھ نباہنے ہی میں ان کی دنیا اور آخرت کی فلاح ہے۔ اگر وہ اس کو بھول بیٹھے تو سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔ سورۂ ابراہیم میں اس حقیقت کی یاددہانی یوں فرمائی گئی ہے:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ۵ رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ.(ابراہیم ۱۴: ۳۵-۳۷)
’’اور یاد کرو جب کہ ابراہیم نے دعا کی: اے میرے رب! اس سرزمین کو امن کی سرزمین بنا اور مجھ کو اور میرے بیٹوں کو اس بات سے محفوظ رکھ کہ ہم بتوں کو پوجیں؛ اے میرے رب! ان بتوں نے لوگوں میں سے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر رکھا ہے۔ پس جو میری پیروی کریں وہ تو مجھ سے ہیں اور جو میری نافرمانی کریں تو تو غفور رّحیم ہے۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی ذریت میں سے کچھ کو ایک بن کھیتی کی وادی میں، تیرے محترم گھر کے پاس، بسایا ہے تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں تو تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر اور ان کو پھلوں کی روزی دے تاکہ وہ تیرے شکرگزار رہیں۔‘‘
ان آیات سے واضح ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی ذریت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کے جوار میں جو بسایا تو ان مقاصد کی تکمیل کے لیے بسایا جو اس گھر کی تعمیر سے مدنظر تھے۔ اسی مقصد کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے امن و رزق اور مرجعیت خلق کی دعا فرمائی جو قبول ہوئی اور ہر دور میں ان کو یہ نعمتیں حاصل رہیں۔ اسی چیز کی یہاں قریش کو یاددہانی فرمائی ہے کہ اس گھر کے ساتھ اپنے اس تعلق کو نہ بھولو، آج بھی تمہیں جو مرجعیت خلق حاصل ہے اور جس سے اپنے تجارتی سفروں میں فائدہ اٹھا رہے ہو اسی گھر کی برکت سے ہے۔ یہ انتہائی ناسپاسی ہو گی کہ اس کے تعلق سے تمہیں جو دنیوی فوائد حاصل ہیں ان سے تو بہرہ مند رہو اور اس کے جو حقوق و فرائض تم پر عائد ہوتے ہیں ان کو یکسر فراموش کر دو۔ یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا۔ اس کے مقصد تعمیر میں یہ بات شامل ہے کہ بتوں کی پرستش کی لعنت سے خلق کو بچایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی وجہ سے اس کو الگ تھلگ ایک وادی غیر ذی زرع میں بنایا لیکن تم نے اس کے کونے کونے میں بتوں کو لا بسایا یہاں تک کہ اب خدا تو اس گھر میں بالکل اجنبی ہو کے رہ گیا ہے البتہ اصنام کی خدائی اس کے ہر گوشہ پر قائم ہے۔
وہ سردی اور گرمی کے سفروں سے مانوس کیے گئے۔
اِس سے مراد وہ تجارتی سفر ہیں جو قریش کی رفاہیت اور خوش حالی کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔ گرمی کے زمانے میں یہ سفر شام و فلسطین کی طرف ہوتے تھے، اِس لیے کہ وہ ٹھنڈے علاقے ہیں اور سردی کے زمانے میں جنوبی عرب کی طرف ہوتے تھے، اِس لیے کہ وہ گرم علاقے ہیں۔ اہل مکہ کی تمام دولت و ثروت اِنھی سفروں کی مرہون منت تھی۔ تہذیب و ثقافت اور دانش و بینش میں جو برتری اُنھیں عرب کے دوسرے قبائل پر حاصل تھی، اُس میں بھی اِن سفروں کا بڑا دخل تھا۔ لیکن یہ سفر اُس زمانے میں آسان نہیں تھے۔ اِن میں قافلے علانیہ لٹ جاتے، راستے کے قبائل اپنے علاقوں سے اجازت کے بغیر گزرنے نہیں دیتے تھے اور اجازت کے لیے بھاری بھاری معاوضے طلب کرتے تھے۔ مگر قریش کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ تمام قبائل بیت اللہ کے متولی اور خدام ہونے کی حیثیت سے اُن کا احترام کرتے تھے۔ اپنے تمام سامان تجارت کے ساتھ وہ اُن کے علاقوں سے بغیر کسی خوف و خطر کے گزرتے اور کسی کا اُن سے تعرض کرنا تو درکنار، بارہا ایسا ہوتا کہ یہ قبائل اُنھیں بدرقہ فراہم کر دیتے تھے۔ قرآن نے اِن آیتوں میں خدا کی یہی عنایت اُنھیں یاد دلائی ہے کہ لوگوں میں جو مرجعیت تمھیں حاصل ہے اور جس سے اپنے اِن سفروں میں فائدے اٹھا رہے ہو، وہ اِسی گھر کی بدولت ہے جو پوری دنیا میں توحید کے مرکز کی حیثیت سے بنایا گیا تھا اور تمھارے کرتوتوں کے نتیجے میں اِسی توحید کے لیے اجنبی ہو کر رہ گیا ہے۔
(یعنی) جاڑے اور گرمی کے سفروں سے مانوس۔
گرمی اور جاڑے کے سفروں سے مرادیہ ہے کہ گرمی کے زمانے میں قریش کے تجارتی سفر شام و فلسطین کی طرف ہوتے تھے، کیونکہ وہ ٹھنڈے علاقے ہیں، اور جاڑے کے زمانے میں وہ جنوب عرب کی طرف ہوتے تھے، کیونکہ وہ گرم علاقے ہیں۔
یعنی انہیں سردی اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے لئے۔
ایلاف کے معنی ہیں مانوس اور عادی بنانا، یعنی اس کام سے کلفت اور نفرت کا دور ہوجانا قریش کا گزران کا ذریعہ تجارت تھی، سال میں دو مرتبہ ان کا تجارتی قافلہ باہر جاتا اور وہاں سے اشیاء تجارت لاتا، سردیوں میں یمن، جو گرم علاقہ تھا اور گرمیوں میں شام کی طرف جو ٹھنڈا تھا خانہ کعبہ کے خدمت گزار ہونے کی وجہ سے اہل عرب انکی عزت کرتے تھے۔ اسلیے یہ قافلے بلا روک ٹوک سفر کرتے، اللہ تعالیٰ اس سورت میں قریش کو بتلا رہا ہے کہ تم جو گرمی، سردی میں دو سفر کرتے ہو تو ہمارے اس احسان کی وجہ سے کہ ہم نے تمہیں مکے میں امن عطا کیا ہے اور اہل عرب میں معزز بنایا ہوا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو تمہارا سفر ممکن نہ ہوتا۔ اور اصحاب الفیل کو بھی ہم نے اسی لیے تباہ کیا ہے کہ تمہاری عزت بھی برقرار رہے اور تمہارے سفروں کا سلسلہ بھی، جس کے تم خوگر ہو، قائم رہے، اگر ابرہہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوجاتا تو تمہاری عزت و سیادت بھی ختم ہوجاتی اور سلسلہ سفر بھی منقطع ہوجاتا۔ اس لیے تمہیں چاہیے کہ صرف اسی بیت اللہ کے رب کی عبادت کرو۔
پس چاہیے کہ وہ اس گھر کے خداوند کی عبادت کریں۔
نعمتوں کا حق: اب یہ حق بیان فرمایا ہے اس رزق اور امن کا جو اس گھر سے وابستگی کی بدولت ان کو حاصل ہوا۔ فرمایا کہ جب ان کو رزق اور امن دونوں اسی گھر کے خداوند نے بخشے تو اس کا حق یہ ہے کہ وہ اس گھر کے خداوند ہی کی بندگی کریں۔ یہ امر واضح رہے کہ شرک کی تمام آلودگیوں کے باوجود قریش اس گھر کے خداوند سے ناآشنا نہیں ہوئے تھے۔ اپنے بتوں میں سے کسی کو بھی وہ اس گھر کا خداوند نہیں سمجھتے تھے۔ عبدالمطلب نے جو دعا ابرہہ کے حملہ کے موقع پر، جبل حرا پر کی اور جو سابق سورہ کی تفسیر میں مذکور ہوئی ہے، اس کو پڑھیے۔ اس میں اس گھر کی حفاظت کے لیے جو استغاثہ انھوں نے کیا ہے وہ تمام تر اس گھر کے خداوند ہی سے کیا ہے۔ اس میں کوئی ادنیٰ اشارہ بھی بتوں میں سے کسی کی طرف نہیں ہے۔ ان بتوں کی حیثیت ان کے نزدیک، جیسا کہ ہم جگہ جگہ اشارہ کرتے آ رہے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں تھی کہ ان کو وہ خدا کے تقرب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اپنا خالق و مالک اور بیت اللہ کا رب وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ ان کے اس عقیدے میں کوئی فرق کبھی نہیں آیا۔
سو (اور کچھ نہیں تو تنہا) اِسی کے باعث اُنھیں چاہیے کہ اِس گھر کے مالک کی عبادت کریں۔
اِس جملے کی صحیح تالیف وہی ہے جسے زمخشری نے ’اِمَّا لَا فَلْیَعْبُدُوْہُ لِإِیْلاَفِھِمْ‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ترجمے میں اِسی کی رعایت ملحوظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قریش کسی اور چیز کا خیال نہیں کر رہے تو کم سے کم اُس عزت و وقار اور اِس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے دنیوی مفادات ہی کو دیکھیں جو اُنھیں حاصل ہیں۔ اِن میں سے کوئی چیز بھی اصلاً اُن کی ذہانت و فطانت، علم و قابلیت اور تدبیر و تدبر کی بنا پر حاصل نہیں ہوئی۔ یہ سب اُس گھر کی برکت سے ہے جس کے حقوق و فرائض اُنھوں نے یکسر فراموش کر رکھے ہیں۔ یہ تمام خداؤں سے اظہار براء ت اور ایک خدا کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ اِس سے ایک مشن وابستہ تھا جس کی دعوت اقصاے عالم تک پہنچانا مقصود تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اِسی بنا پر اِس کے خدام کے لیے رزق وامن کی دعا کی تھی اور کچھ نہیں تو وہ اِنھی چیزوں کا لحاظ کریں۔
یعنی شرک کی ہر غلاظت سے پاک کرکے تنہا اُس کی عبادت کریں۔ خدا کا پیغمبر اُنھیں اِس عبادت کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی دعوت نہیں ہے۔ وہ اِس سے پوری طرح واقف ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے یہ گھر اِسی مقصد سے بنا کر اُن کے اجداد کو اِس کا متولی اور خادم مقرر کیا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ امر واضح رہے کہ شرک کی تمام آلودگیوں کے باوجود قریش اِس گھر کے خداوند سے ناآشنا نہیں ہوئے تھے۔ اپنے بتوں میں سے کسی کو بھی وہ اِس گھر کا خداوند نہیں سمجھتے تھے۔ عبدالمطلب نے جو دعا ابرہہ کے حملے کے موقعے پر جبل حرا پر کی ...اُس کو پڑھیے۔ اُس میں اِس گھر کی حفاظت کے لیے جو استغاثہ اُنھوں نے کیا ہے، وہ تمام تر اِس گھر کے خداوند ہی سے کیا ہے۔ اُس میں کوئی ادنیٰ اشارہ بھی بتوں میں سے کسی کی طرف نہیں ہے۔* اِن بتوں کی حیثیت اُن کے نزدیک ...اِس سے زیادہ کچھ نہیں تھی کہ اِن کو وہ خدا کے تقرب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اپنا خالق و مالک اور بیت اللہ کا رب وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ اُن کے اِس عقیدے میں کوئی فرق کبھی نہیں آیا۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۵۷۵)
_____
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۱/ ۱۶۹۔
لہٰذا اُن کو چاہیے کہ اِس گھر کے رب کی عبادت کریں۔
اس گھر سے مراد خانہ کعبہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کو یہ نعمت اسی گھر کی بدولت حاصل ہوئی ہے، اور وہ خود مانتے ہیں کہ وہ 360 بت اس کے رب نہیں ہیں جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں، بلکہ صرف اللہ ہی اس کا رب ہے۔ اسی نے ان کو اصحاب فیل کے حملے سے بچایا۔ اسی سے انہوں نے ابرھہ کی فوج کے مقابلے میں مدد کی دعا کی تھی۔ اس کے گھر کی پناہ میں آنے سے پہلے جب وہ عرب میں منتشر تھے تو ان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ عرب کے عام قبائل کی طرح وہ بھی ایک نسل کے بکھرے ہوئے گروہ تھے۔ مگر جب وہ مکہ میں اس گھر کے گرد جمع ہوئے اور اس کی خدمت انجام دینے لگے تو سارے عرب میں محترم ہوگئے۔ اور ہر طرف ان کے تجارتی قافلے بےخوف و خطر آنے جانے لگے۔ پس انہیں جو کچھ بھی نصیب ہوا ہے اس گھر کے رب کی بدولت نصیب ہوا ہے، اس لیے اسی کی ان کو عبادت کرنی چاہیے۔
پس انہیں چاہیے کہ اسی گھر کے رب کی عبادت کرتے رہیں۔
n/a
جس نے انھیں قحط کے سبب سے کھلایا اور خوف کے سبب سے امن بخشا۔
’جوع‘ اور ’خوف‘ کا خاص مفہوم: ’الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ۵ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ‘۔ اس ٹکڑے میں ’مِنْ‘ میرے نزدیک سببیلہ ہے اور ’جوع‘ اور ’خوف‘ کے الفاظ خاص مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ ’جوع‘ سے مراد کسی علاقہ کی وہ خاص حالت ہے جو غذائی اشیاء و اجناس کی قلت یا نایابی سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح ’خوف‘ سے کسی علاقہ کی وہ حالت مراد ہے جو امن و امان کے فقدان اور جان و مال کے عدم تحفظ سے رونما ہوتی ہے۔ یہ دونوں لفظ قرآن مجید میں اس خاص مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ.(البقرہ ۲: ۱۵۵)
’’اور ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف، بھوک اور مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔‘‘
یہ علاقہ، جس میں حرم واقع ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آمد اور بیت اللہ کی تعمیر سے پہلے امن سے بھی، جیسا کہ تفصیل گزری، محروم تھا اور غذائی وسائل سے بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نعمتوں سے اس علاقہ کو بیت اللہ کی برکت سے بہرہ ور کیا۔ قرآن میں اس کا ذکر جگہ جگہ قریش پر احسان کے طور پر ہوا ہے، مثلاً فرمایا ہے:
اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰیٓ اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ.(القصص ۲۸: ۵۷)
’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لیے تو ایک مامون حرم برپا نہیں کیا جس کی طرف ہر قسم کی پیداواریں کھنچی چلی آ رہی ہیں۔‘‘
سورۂ عنکبوت میں فرمایا ہے:
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ.(العنکبوت ۲۹: ۶۷)
’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لیے تو ایک مامون حرم بنایا اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان کے ارد گرد سے اچک لیے جاتے ہیں۔‘‘
یہی بات جامع الفاظ میں اس سورہ میں فرمائی ہے کہ وہ اس گھر کے خداوند کی عبادت کریں جس نے غذائی اجناس کی نایابی کے سبب سے ان کے لیے غذائی ضروریات کا سامان کیا اور جان و مال کے عدم تحفظ کے سبب سے ان کے لیے امن و امان فراہم کیا ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں ان کو اس سرزمین میں حاصل ہیں تو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہی سے حاصل ہیں۔ ان کے سبب سے استکبار میں مبتلا ہونے کے بجائے ان پر اپنے رب کا شکر واجب ہے اور شکر کا تقاضا رب کی بندگی اور اطاعت ہے نہ کہ نافرمانی و سرکشی۔
جس نے (اِن بنجر پہاڑوں کی) بھوک میں اُنھیں کھلایا اور (اِن کے) خوف میں اُنھیں امن عطا فرمایا۔
اصل میں ’مِنْ جُوْعٍ‘ اور ’مِنْ خَوْفٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’مِنْ‘ بیان سبب کے لیے ہے۔
جس نے اُنہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔
یہ اشارہ ہے اس طرف کہ مکے میں آنے سے پہلے جب قریش عرب میں منتشر تھے تو بھوکوں مر رہے تھے۔ یہاں آنے کے بعد ان کے لیے رزق کے دروازے کھلتے چلے گئے اور ان کے حق میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ دعا حرف بحرف پوری ہوئی کہ اے پروردگار، میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک بےآب وگیاہ وادی میں لا بسایا ہے تاکہ یہ نماز قائم کریں، پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے (ابراہیم۔ آیت 37)
یعنی جس خوف سے عرب کی سرزمین میں کوئی محفوظ نہیں ہے اس سے یہ محفوظ ہیں، عرب کا حال اس دور میں یہ تھا کہ پورے ملک میں کوئی بستی ایسی نہ تھی جس کے لوگ راتوں کو چین سے سو سکتے ہوں، کیونکہ ہر وقت ان کو یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم کب کوئی غارت گر گروہ اچانک اس پر چھاپا مار دے۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اپنے قبیلے کے حدود سے باہر قدم رکھنے کی ہمت کرسکے، کیونکہ اکا دکا آدمی کا زندہ بچ کر واپس آجانا، یا گرفتار ہو کر غلام بن جانے سے محفوظ رہنا گویا امر محال تھا۔ کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کرسکے، کیونکہ راستے میں جگہ جگہ اس پر ڈاکہ پڑنے کا خطرہ تھا، اور راستے بھر کے بااثر قبائلی سرداروں کو رشوتیں دے کر تجارتی قافلے بخیریت گزر سکتے تھے۔ لیکن قریش مکہ میں بالکل محفوظ تھے، انہیں کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہ تھا۔ ان کے چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے قافلے ملک کے ہر حصے میں آتے جاتے تھے، کوئی یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ قافلہ حرم کے خادموں کا ہے، انہیں چھیڑنے کی جرات نہ کرسکتا تھا۔ حد یہ ہے کہ اکیلا قریشی بھی اگر کہیں سے گزر رہا ہو اور کوئی اس سے تعرض کرے تو صرف لفظ ” حرمی ” یا انا من حرم اللہ کہہ دینا کافی ہوجاتا تھا، یہ سنتے ہی اٹھے ہوئے ہاتھ رک جاتے تھے۔
جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور ڈر (اور خوف) میں امن وامان دیا ۔
مذکورہ تجارت اور سفر کے ذریعے سے۔
عرب میں قتل و غارت گری عام تھی لیکن قریش مکہ کو حرم مکہ کی وجہ سے جو احترام حاصل تھا، اس کی وجہ سے وہ خوف و خطرے سے محفوظ تھے۔
امین احسن اصلاحی
بوجہ اس وابستگی کے جو قریش کو ہے۔
ایلاف کا مفہوم: ’الف المکانَ واٰلفہ ایلافا‘ کے معنی ہوں گے ’تعودہ واستانس بہ‘ وہ اس جگہ کا عادی اور اس سے مانوس ہے۔
’اٰلفتہ مکان کذا ایلافا‘ کے معنی ہوں گے ’جعلتہ یا لفہ‘ میں نے اس جگہ سے اس کو مانوس کر لیا۔
’الفہ موالفۃ والافا‘ کے معنی ہیں ’اٰنَسَہ دعا شرہ‘ وہ اس سے مانوس ہوا، اس کے ساتھ رہا سہا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’ایلاف‘ ہو یا ’اِلاف‘ دونوں ہی صورتوں میں معنی کے لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہو گا۔ اس کا اصلی مفہوم اُنس، تعلق اور وابستگی ہے۔ اگرچہ ’لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ‘ کے مجمل الفاظ سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ قریش کی کس چیز کے ساتھ وابستگی زیربحث ہے لیکن آگے ’رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ‘ اور ’فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ‘ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں ان مفادات کے ساتھ ان کی وابستگی زیربحث ہے جو انھیں بیت اللہ کے تعلق اور اس کی خدمت و تولیت کی بدولت حاصل ہوئے۔
گویا اس سورہ میں قریش کو یہ یاددہانی کی جا رہی ہے کہ انھیں مکہ میں یا پورے ملک عرب میں جو عظمت و وقار اور اس کے نتیجہ میں جو غیرمعمولی دنیوی مفادات حاصل ہیں ان میں اصلی دخل ان کی ذہانت و قابلیت اور ان کے حسن تدبیر و تدبر کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس گھر کے ساتھ تعلق و وابستگی کو ہے۔ اس وجہ سے ان پر واجب ہے کہ وہ اس گھر اور اس کے مالک کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت کو ہمیشہ یاد رکھیں، اپنی دنیوی کامیابیوں کے نشہ میں ان حقوق و فرائض کو نہ بھول بیٹھیں جو اس گھر اور اس کے خداوند سے متعلق ان پر عائد ہوتے ہیں۔