شکر کا سزاوار وہی اللہ ہے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اُسی کا ہے۔ اور آخرت میں بھی اُسی کی حمد ہو گی اور وہی حکیم و خبیر ہے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت کا بیان ہے جس سے سورہ کی ابتدا ہوئی ہے کہ وہی اللہ جو زمین و آسمان کی سب چیزوں کا خالق و مالک ہے، وہی اُن تمام مخلوقات کے شکر کا حقیقی سزاوار بھی ہے جو اُس کی پیدا کی ہوئی اِن سب چیزوں سے متمتع ہو رہی ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی مخلوقات کا یہی تعلق آخرت میں بھی آشکارا ہو گا۔ اِس فقرے سے جو حقائق معلوم ہوتے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ایک یہ کہ اِس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ربوبیت کا جو اہتمام فرمایا ہے، اُس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اُس کے بعد آخرت کا ظہور ہو۔ اگر آخرت نہ ہو تو یہ تمام ربوبیت بالکل بے معنی و بے غایت ہو کے رہ جاتی ہے۔ اِس نکتے کی وضاحت متعدد مقامات میں ہو چکی ہے، اِس وجہ سے یہاں اشارے پر اکتفا کیجیے۔
دوسری یہ کہ یہ اہل ایمان کے اِس ترانۂ حمد کی طرف اشارہ ہے جو آخرت میں تمام حقائق کے ظہور اور اللہ تعالیٰ کے جملہ وعدوں کے ایفا کے بعد اُن کی زبانوں سے بلند ہو گا۔ اِس کی طرف سورۂ یونس میں اشارہ ہے: ’وَاٰخِرُ دَعْوٰہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘* (اور اُن لوگوں کی آخری صدا یہ ہو گی کہ شکر کا حقیقی سزاوار اللہ، عالم کا خداوند ہے)۔
تیسری یہ کہ یہ شرکا و شفعاکی کلی نفی ہے کہ یہ تمام مزعومہ دیوی دیوتا جن کی شفاعت کی امید پر مشرکین نچنت بیٹھے ہیں، آخرت میں سب ہوا ہو جائیں گے۔ اِن میں سے کوئی کسی کے کام آنے والا نہیں بنے گا۔ اُس دن مشرکین اپنے معبودوں پر لعنت کریں گے اور معبود اپنے پجاریوں سے اعلان براء ت کریں گے۔ سب کی پیشی اللہ واحد کے حضور میں ہو گی، اُسی کا فیصلہ ناطق ہو گا اور سب پر یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ سزاوار حمد صرف اللہ رب العٰلمین ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۹۰)
یہ اوپر کے تمام دعاوی کی دلیل ہے کہ وہ حکیم ہے، اِس وجہ سے لازم ہے کہ ایک ایسا دن لائے جس میں اُس کے بے لاگ عدل کا ظہور ہو اور اُس کے شکر گزار بندے اپنی شکر گزاری کا صلہ پائیں ۔اور اِس کے ساتھ خبیر بھی ہے، لہٰذا کوئی بات اُس سے چھپی نہ رہے گی اور نہ وہ فیصلے کے لیے کسی دوسرے کے علم و خبر کا محتاج ہو گا۔ آگے اِسی محیط کل علم کی وضاحت ہے۔ یہ اور اِس سے پہلے کی تمام باتیں حصر کے اسلوب میں فرمائی ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ جب وہی خالق و مالک اور حکیم و خبیر ہے تو اُس کے سوا کوئی دوسرا اُس کی مخلوقات کے حمد و شکر کا سزاوار کس طرح ہو سکتا ہے؟
_____
* یونس۱۰: ۱۰۔
حمد اس خدا کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے ۔ وہ دانا اور باخبر ہے
حمد کا لفظ عربی زبان میں تعریف اور شکر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں دونوں معنی مراد ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا مالک ہے تو لامحالہ اس کائنات میں جمال و کمال اور حکمت و قدرت اور صناعی و کاری گری کی جو شان بھی نظر آتی ہے اس کی تعریف کا مستحق وہی ہے۔ اور اس کائنات میں رہنے والا جس چیز سے بھی کوئی فائدہ یا لطف و لذت حاصل کر رہا ہے اس پر خدا ہی کا شکر اسے ادا کرنا چاہئے۔ کوئی دوسرا جب ان اشیاء کی ملکیت میں شریک نہیں ہے تو اسے نہ حمد کا استحقاق پہنچتا ہے نہ شکر کا۔
یعنی اس طرح اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی کی بخشش ہیں اسی طرح آخرت میں بھی جو کچھ کسی کو ملے گا اسی کے خزانوں سے اور اسی کی عطا سے ملے گا، اس لیے وہاں بھی وہی تعریف کا مستحق بھی ہے اور شکر کا مستحق بھی۔
یعنی جس کے سارے کام کمال درجہ حکمت و دانائی پر مبنی ہیں، جو کچھ کرتا ہے بالکل ٹھیک کرتا ہے۔ اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پورا علم ہے کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، کیا اس کی ضروریات ہیں، کیا کچھ اس کی مصلحت کے لیے مناسب ہے، کیا اس نے اب تک کیا ہے اور آگے کیا اس سے صادر ہونے والا ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا سے بیخبر نہیں ہے بلکہ اسے ذرے ذرے کی حالت پوری طرح معلوم ہے۔
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمان اور زمین میں ہے آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے وہ (بڑی) حکمتوں والا اور پورا خبردار ہے
یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے اسی لیے آسمان و زمین کی ہر چیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمد و تعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔
یہ تعریف قیامت والے دن اہل ایمان کریں گے مثلا (الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) (الحمدللہ الذی ھدٰنا لھذا) (الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن) تاہم دنیا میں اللہ کی حمد و تعریف عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہوگی جس سے انھیں لذت وفرحت محسوس ہوا کرے گی۔
وہ جانتا ہے ہر اس چیز کو جو زمین کے اندر داخل ہوتی ہے اور جو اس سے برآمد ہوتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہی رحم فرمانے والا اور بخشنے والا ہے۔
خدا کی صفت ’خبیر‘ کی وضاحت: یہ اسی صفت ’خَبِیْرٌ‘ کی وضاحت ہے کہ اس کا علم اس کائنات کے ایک ایک ذرے اور ایک ایک حرکت و سکون کو محیط ہے۔ جو دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے وہ اس سے بھی باخبر ہوتا ہے اور جو پودا اس سے برآمد ہوتا ہے اس کو بھی وہ جانتا ہے۔ اسی طرح آسمان سے جو خیر و شر نازل ہوتا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہوتا ہے اور جو چیزیں اس میں صعود کرتی ہیں ان سے بھی وہ آگاہ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا علم تمام کلیات و جزئیات کو محیط ہے اور وہ ہر چیز کی نگرانی فرما رہا ہے۔ اس کی مملکت میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نہ تو اس کے دائرۂ علم سے باہر ہے اور نہ یہ ممکن ہے کہ اس کے کسی گوشے میں اس کے علم و اذن کے بغیر کوئی کسی قسم کی نقل و حرکت یا ددراندازی کر سکے۔ علم الٰہی کے اس احاطہ کی وضاحت اس مقصد سے کی گئی ہے کہ شرک کے عوامل میں سے ایک بہت بڑا عامل مشرکین کا یہ مغالطہ ہے کہ بھلا اتنی ناپیداکنار کائنات کے ہر کونے اور گوشے، ہر ایک کے قول و عمل اور ہر ایک کے دکھ اور درد سے خدا ہر لمحہ کس طرح واقف رہ سکتا ہے! اس وجہ سے اپنے تصور کے مطابق اس کائنات کے مختلف حصوں کو انھوں نے الگ الگ دیوتاؤں میں تقسیم کیا۔ اس کا تقرب حاصل کرنے اور اس کو اپنی ضروریات سے آگاہ کرنے کے لیے وسائل و وسائط ایجاد کیے۔ جنوں کو آسمان کی خبریں لانے والا مان کر ان کی پرستش کی، فرشتوں کو شفاعت کرنے والا سمجھ کر ان کو دیویوں کا درجہ دیا۔ اس آیت نے ان تمام توہمات پر ضرب لگائی کہ خدا کا علم ہر چیز کو محیط ہے اس وجہ سے کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں ہے۔ وہ اپنی پوری کائنات کے سارے نظام پر خود حاوی اور تنہا کافی ہے۔
مشرکین کے ایک مغالطہ کا ازالہ: ’وَہُوَ الرَّحِیْمُ الْغَفُوۡرُ‘ یعنی خدا کوئی ظالم اور غیر منصف بھی نہیں ہے کہ اس کو راضی کرنے یا اس کی آفتوں سے اپنے کو بچانے کے لیے کسی دوسرے کی سعی و سفارش کی ضرورت پیش آئے بلکہ وہ نہایت مہربان اور نہایت بخشنے والا ہے۔ اس کی رحمت کو متوجہ کرنے اور اس کی مغفرت حاصل کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ بندہ اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور توبہ و اصلاح کرے۔ یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ شرک کے عوامل میں سے ایک اہم عامل مشرکوں کا یہ مغالطہ بھی ہے کہ انھوں نے خدا کا تصور ایک نہایت ہولناک ہستی کی حیثیت سے کیا اور پھر اس کو راضی رکھنے کے لیے انھوں نے اپنے تصور کے مطابق وسائل و ذرائع ایجاد کیے۔ اس ٹکڑے نے اسی واہمہ پر ضرب لگائی ہے۔
جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے، وہ اُس کو جانتا ہے اور وہی غفور و رحیم ہے۔
اِس کی ایک مثال وہ دانہ ہے جو زمین میں ڈالا جاتا اور اُس سے لہلہاتے ہوئے پودے کی صورت میں برآمد ہو جاتا ہے۔
اِس کی نہایت واضح مثال لوگوں کے لیے خیر و شر کے فیصلے ہیں جو فرشتے لے کر آتے اور حاضری کے دن جن کے نفاذ کی تمام روداد اوپر لے جا کر خدا کے حضورمیں پیش کر دیتے ہیں۔
لہٰذا اُس کو ہرگز ضرورت نہیں ہے کہ اُس کے کوئی شرکا ہوں جو اِس عظیم کائنات کا نظم چلانے کے لیے اُس کی مدد کریں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... علم الٰہی کے اِس احاطے کی وضاحت اِس مقصد سے کی گئی ہے کہ شرک کے عوامل میں سے ایک بہت بڑا عامل مشرکین کا یہ مغالطہ ہے کہ بھلا اتنی ناپیداکنار کائنات کے ہر کونے اور گوشے، ہر ایک کے قول و عمل اور ہر ایک کے دکھ اور درد سے خدا ہر لمحہ کس طرح واقف رہ سکتا ہے! اِس وجہ سے اپنے تصور کے مطابق اِس کائنات کے مختلف حصوں کو اُنھوں نے الگ الگ دیوتاؤں میں تقسیم کیا۔ اُس کا تقرب حاصل کرنے اور اُس کو اپنی ضروریات سے آگاہ کرنے کے لیے وسائل و وسائط ایجاد کیے۔ جنوں کو آسمان کی خبریں لانے والا مان کر اُن کی پرستش کی، فرشتوں کو شفاعت کرنے والا سمجھ کر اُن کو دیویوں کا درجہ دیا۔ اِس آیت نے اِن تمام توہمات پر ضرب لگائی کہ خدا کا علم ہر چیز کو محیط ہے، اِس وجہ سے کوئی اُس کا شریک و سہیم نہیں ہے۔ وہ اپنی پوری کائنات کے سارے نظام پر خود حاوی اور تنہا کافی ہے۔‘‘(تدبر قرآن۶/ ۲۹۱)
لہٰذا کوئی غلطی اور کوتاہی ہو جائے تو اُس کے لیے بھی کسی دوسرے کی سعی و سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر گناہ گار کو براہ راست اُسی کے دروازے پر آنا چاہیے۔
جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے، ہر چیز کو وہ جانتا ہے، وہ رحیم اور غفور ہے۔
یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں اگر کوئی شخص یا گروہ اس کے خلاف بغاوت کرنے کے باوجود پکڑا نہیں جا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ دنیا اندھیر نگری اور اللہ تعالیٰ اس کا چوپٹ راجہ ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور درگزر سے کام لینا اس کی عادت ہے۔ عاصی اور خاطی کو قصور سرزد ہوتے ہی پکڑ لینا، اس کا رزق بند کردینا، اس کے جسم کو مفلوج کردینا اس کو آناً فاناً ہلاک کردینا، سب کچھ اس کے قبضے میں ہے، مگر وہ ایسا کرتا نہیں ہے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ قادر مطلق ہونے کے باوجود وہ نافرمان بندوں کو ڈھیل دیتا ہے، سنبھلنے کی مہلت عطا کرتا ہے، اور جب بھی وہ باز آجائیں، معاف کردیتا ہے۔
جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے جو آسمان سے اترے اور جو چڑھ کر اس میں جائے وہ سب سے باخبر ہے اور مہربان نہایت بخشش والا۔
مثلا بارش خزانہ اور دفینہ وغیرہ۔
بارش اولے گرج، بجلی اور برکات الٰہی وغیرہ، نیز فرشتوں اور آسمانی کتابوں کا نزول۔
یعنی فرشتے اور بندوں کے اعمال۔
اور جنھوں نے کفر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آنے کی۔ کہہ دو، ہاں میرے خداوند عالم الغیب کی قسم، وہ ضرور تم پر آ کے رہے گی! اس سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں ہے، نہ آسمانوں اور نہ زمین میں، اور نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز اور نہ بڑی۔ مگر وہ ایک واضح کتاب میں مرقوم ہے۔
قیامت خدا کی صفات کا لازمی تقاضا ہے: یعنی جب اللہ حکیم و خبیر ہے، اس کا علم ہر چیز کو احاطہ بھی کیے ہوئے ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ قیامت ضرور آئے لیکن جو ہٹ دھرم ہیں وہ اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور بڑے غرور کے ساتھ انکار کرتے ہیں کہ قیامت ہرگز نہیں آئے گی۔
’قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَأْتِیَنَّکُمْ‘ جس طنطنہ کے ساتھ منکرین کا انکار تھا اسی زور کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بقید قسم، جواب دلوایا کہ ان کو سنا دو کہ ہاں، میرے رب کی قسم! وہ تم پر ضرور آ کے رہے گی۔
’عٰلِمِ الْغَیْْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ الاٰیۃ‘۔ ’عالم الغیب‘ ’رَبِّیْ‘ سے بدل واقع ہے یعنی میرے اس رب کی قسم جو تمام غیب سے واقف ہے، جس سے آسمانوں اور زمین میں، ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ بلکہ ہر چیز ایک نہایت واضح رجسٹر میں درج ہے۔
اس آیت میں علم الٰہی کی وسعت کا بیان منکرین کی تہدید کے مقصد سے ہے کہ وہ چوکنے ہوں کہ اس ڈھٹائی سے وہ قیامت کا جو انکار کر رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ نہ صرف یہ کہ وہ آئے گی بلکہ ہر ایک کو اپنے ایک ایک قول و عمل کا، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، حساب بھی دینا ہے۔ ساتھ ہی اس میں ایک مغالطہ کا ازالہ بھی ہے وہ یہ کہ منکرین کے نزدیک قیامت کے استبعاد کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ اتنی وسیع دنیا میں ایک ایک شخص کے ہر قول و فعل کا علم کسے ہو سکتا ہے کہ وہ سب کا حساب کرنے بیٹھے گا! ان کے اس مغالطہ کو دور کرنے کے لیے یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے محیط کل علم کا حوالہ دیا جس طرح اوپر توحید کے سلسلہ میں دیا ہے۔
(تمھارے) منکرین کہتے ہیں کہ قیامت ہم پر نہیں آرہی۔ کہہ دو، کیوں نہیں، میرے اُس پروردگار کی قسم جو ہر غیب کا جاننے والا ہے، وہ تم پر ضرور آئے گی۔ اُس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے، نہ زمین میں، نہ ذرے سے چھوٹی نہ بڑی، بلکہ ایک کھلی کتاب میں لکھ دی گئی ہے۔
جس طنطنے کے ساتھ منکرین انکار کر رہے تھے، یہ اُسی زور کے ساتھ اُس کا جواب ہے۔
یہ اُن کے اِس مغالطے کو رفع کیا ہے کہ اتنی وسیع دنیا اور اتنے بے شمار انسانوں کے ہر قول و فعل کا حساب آخر کس طرح ممکن ہو گا؟
منکرین کہتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے ! کہو قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آ کر رہے گی ۔ اس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمان میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں۔ رائی سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے۔
یہ بات وہ طنز اور تمسخر کے طور پر چندرا چندرا کر کہتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ پیغمبر صاحب قیامت کے آنے کی خبر سنا رہے ہیں، مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ آتے آتے کہاں رہ گئی۔ ہم نے اتنا کچھ انہیں جھٹلایا، اتنی گستاخیاں کیں، ان کا مذاق تک اڑایا، مگر وہ قیامت ہے کہ کسی طرح نہیں آ چکتی۔
پروردگار کی قسم کھاتے ہوئے اس کے لیے ” عالم الغیب ” کی صفت استعمال کرنے سے خود بخود اس امر کی طرف اشارہ ہوگیا کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کا وقت خدائے عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، 187 ۔ طٰہٰ ، 15 ۔ لقمان 34 ۔ الاحزاب، 63 ۔ الملک، 25 ۔ 26 ۔ النازعات، 42 یا 44 ۔
یہ امکان آخرت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر 7 میں آ رہا ہے، منکرین آخرت جن وجوہ سے زندگی بعد موت کو بعید از عقل سمجھتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جب سارے انسان مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ان کا ذرہ ذرہ منتشر ہوجائے تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ یہ بیشمار اجزا پھر سے اکٹھے ہوں اور ان کو جوڑ کر ہم دوبارہ اپنے انہی اجسام کے ساتھ پیدا کردیے جائیں۔ اس شبہ کو یہ کہہ کر رفع کیا گیا ہے کہ ہر ذرہ جو کہیں گیا ہے، خدا کے دفتر میں اس کا اندراج موجود ہے اور خدا کو معلوم ہے کہ کیا چیز کہاں گئی ہے۔ جب وہ دوبارہ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا تو اسے ایک ایک انسان کے اجزائے جسم کو سمیٹ لانے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی۔
کفار کہتے ہیں ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ آپ کہہ دیجئے ! مجھے میرے رب کی قسم ! جو عالم الغیب ہے وہ یقیناً تم پر آئے گی اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہر چیز کھلی کتاب میں موجود ہے ۔
قسم بھی کھائی اور صیغہ بھی تاکید کا اور اس پر مزید لام تاکید یعنی قیامت کیوں نہیں آئے گی ؟ وہ تو بہر صورت یقینا آئے گی۔
یعنی جب آسمان و زمین کا کوئی ذرہ اس سے غائب اور پوشیدہ نہیں، تو پھر تمہارے اجزائے منتشرہ کو، جو مٹی میں مل گئے ہوں گے، جمع کر کے دوبارہ تمہیں زندہ کردینا کیوں ناممکن ہوگا
یعنی وہ لوح محفوظ میں موجود اور درج ہے۔
تاکہ وہ ان لوگوں کو صلہ دے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کیے۔ وہی لوگ ہیں جن کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے۔
قیامت کا آنا کیوں ضروری ہے: یہ قیامت کی ضرورت واضح فرمائی کہ اس کا آنا کیوں ضروری ہے۔ فرمایا کہ اس لیے ضروری ہے کہ وہ نہ آئے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ خدا کے نزدیک نیک و بد دونوں یکساں ہیں حالانکہ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے اس وجہ سے لازمی ہے کہ ایک ایسا دن آئے جس میں اللہ تعالیٰ ایمان و عمل صالح والوں کو ان کی نیکیوں کا صلہ اور جنھوں نے اللہ کی باتوں کو شکست دینے کی کوشش کی ان کو ان کی اس سعئ نامراد کی سزا دے۔
قیامت کا اصل مقصد اہل ایمان کو صلہ دینا ہے، کفار کو سزا دینا اس کے لوازم میں سے ہے: یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ قیامت کا اصل مقصد اہل ایمان کو صلہ دینا بتایا گیا ہے۔ اس لیے کہ اس کا اصل مقصود درحقیقت ہے ہی یہی۔ مجرمین کو سزا دینا اس کے مقاصد میں سے نہیں بلکہ اس کے لوازم و نتائج میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا رحمت کے لیے بنائی ہے اور اس رحمت ہی کے لیے اس نے آخرت کا دن بھی رکھا ہے لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ جو لوگ اپنے آپ کو اس رحمت کا سزاوار نہیں بنائیں گے وہ اس کی نقمت کے سزاوار ٹھہریں گے۔
اہل ایمان کے لیے دو چیزوں کا یہاں ذکر فرمایا ہے۔ ایک مغفرت، دوسری ’رزق کریم‘۔ ’مغفرت‘ سے مراد یہ ہے کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی بسر کرتے ہوئے ان سے جو کوتاہیاں اور غلطیاں صادر ہوئی ہوں گی اللہ تعالیٰ ان سے درگزر فرمائے گا۔ ’رزق کریم‘ ان تمام افضال و عنایات کی ایک جامع تعبیر ہے جن کے وہ جنت میں وارث ٹھہریں گے۔
اِس لیے کہ وہ اُن لوگوں کو صلہ دے جو ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں۔ وہی ہیں جن کے لیے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔
یعنی اگر کوئی گناہ یا غلطی ہوئی ہے تو اُس کی معافی اور خدا کے بے نہایت افضال و عنایات۔ ’رِزْقٌ کَرِیْمٌ‘ اِنھی افضال و عنایات کے لیے قرآن کی ایک جامع تعبیر ہے۔
اور یہ قیامت اس لئے گی کہ جزا دے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں۔ ان کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم۔
n/a
تاکہ وہ ایمان والوں اور نیکوں کاروں کو بھلا بدلہ عطا فرمائے یہی لوگ ہیں جن کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔
یہ وقوع قیامت کی علت ہے یعنی اس لیے برپا ہوگی اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ اس لیے دوبارہ زندہ فرمائے گا کہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا عطا فرمائے کیونکہ جزا کے لیے ہی اس نے یہ دن رکھا ہے اگر یہ یوم جزا نہ ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیک و بد دونوں یکساں ہیں اور یہ بات عدل وانصاف کے قطعا منافی اور بندوں بالخصوص نیکوں پر ظلم ہوگا ( وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ ) 41 ۔ فصلت :46)
اور جو ہماری آیات کو زک پہنچانے کی سعی میں سرگرم ہیں وہی ہیں جن کے لیے دردناک عذاب کا خاص حصہ ہو گا۔
کفر کے سرغنوں کا انجام: کفار کا ذکر یہاں ’اَلَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْ آیَاتِنَا مُعَاجِزِیْنَ‘ کی صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔ ’معاجزۃ‘ کے معنی ایک دوسرے کو شکست دینے کے قصد سے باہم مسابقت کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کی تگ و دو رات دن اللہ کی آیات اور اس کی باتوں کو شکست دینے کے لیے وقف رہی ہے ان کو اللہ تعالیٰ ’رجز الیم‘ کے عذاب میں سے حصہ دے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ کفر کے سرغنوں کی طرف ہے جن کے لیے عذاب بھی مخصوص ہوگا۔ اسی مخصوص عذاب کو ’عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِیْمٌ‘ سے تعبیر فرمایا۔ ’رجز‘ اس عذاب کو کہتے ہیں جو نہایت ہولناک ہو۔
اور جو ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں سرگرم ہیں، وہی ہیں جن کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے۔
اوپر امکان قیامت کا ذکر تھا۔ یہ اب اُس کی ضرورت بیان فرما دی ہے کہ اگر وہ نہ برپا ہو تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا کے نزدیک نیک و بد، دونوں یکساں ہے، دراں حالیکہ یہ بالکل خلاف عقل اور حق و انصاف سے بعید بات ہے۔
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے، ان کے لیے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے۔
اوپر آخرت کے امکان کی دلیل تھی، اور یہ اس کے وجوب کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا وقت ضرور آنا ہی چاہیے جب ظالموں کو ان کے ظلم کا اور صالحوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیا جائے۔ عقل یہ چاہتی ہے اور انصاف یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو نیکی کرے اسے انعام ملے اور جو بدی کرے وہ سزا پائے۔ اب اگر تم دیکھتے ہو کہ دنیا کی موجودگی میں نہ ہر بد کو اس کی بدی کا اور نہ ہر نیک کو اس کی نیکی کا پورا بدلہ ملتا ہے، بلکہ بسا اوقات بدی اور نیکی کے الٹے نتائج بھی نکل آتے ہیں، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ عقل اور انصاف کا یہ لازمی تقاضا کسی وقت ضرور پورا ہونا چاہیے۔ قیامت اور آخرت اسی وقت کا نام ہے۔ اس کا آنا نہیں بلکہ نہ آنا عقل کے خلاف اور انصاف سے بعید ہے۔
اس سلسلہ میں ایک اور نکتہ بھی اوپر کی آیات سے واضح ہوتا ہے۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کا نتیجہ مغفرت اور رزق کریم ہے۔ اور جو لوگ خدا کے دین کو نیچا دکھانے کے لیے معاندانہ جدوجہد کریں ان کے لیے بدترین قسم کا عذاب ہے۔ اس سے خود بخود یہ ظاہر ہوگیا کہ جو شخص سچے دل سے ایمان لائے گا اس کے عمل میں اگر کچھ خرابی بھی ہو تو وہ رزق کریم چاہے نہ پائے مگر مغفرت سے محروم نہ رہے گا اور جو شخص کافر تو ہو مگر دین حق کے مقابلے میں عناد و مخالفت کی روش بھی اختیار نہ کرے وہ عذاب سے تو نہ بچے گا مگر بد ترین عذاب اس کے لیے نہیں ہے۔
اور ہماری آیاتوں کو نیچا دکھانے کی جنہوں نے کوشش کی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے۔
یعنی ہماری ان آیتوں کے بطلان اور تکذیب کی جو ہم نے پیغمبروں پر نازل کیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم ان کی گرفت سے عاجز ہونگے، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد ہم مٹی میں مل جائیں گے تو ہم کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کسی کے سامنے اپنے کیے دھرے کی جواب دہی کریں گے ؟ ان کا یہ سمجھنا گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا مواخذہ کرنے پر قادر ہی نہیں ہوگا، اس لئے قیامت کا خوف ہمیں کیوں ہو ؟
اور جن کو علم عطا ہوا ہے وہ، اس چیز کو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے، سمجھتے ہیں کہ یہی حق ہے اور وہ خدائے عزیز و حمید کے راستہ کی طرف ر ہنمائی کرتی ہے۔
عاقلوں کی تائید آدمی کے اطمینان کے لیے بس ہے: یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جن کو علم حقیقی کی روشنی عطا ہوئی۔ عام اس سے کہ وہ ان اہل کتاب میں سے ہوں جنھوں نے اپنے نبیوں اور صحیفوں کے علم کو محفوظ رکھا یا ان سلیم الفطرت لوگوں میں سے ہوں جن کے قلوب ان کی سلامت روی کے باعث قرآن کی روشنی میں مستنیر ہوئے۔۱ فرمایا کہ یہ لوگ اس چیز کو بالکل حق سمجھتے ہیں جو تمہاری طرف اتاری گئی ہے۔ یعنی تم جس توحید کی دعوت دے رہے ہو اور جس قیامت سے لوگوں کو ڈرا رہے ہو، وہ اس کی تائید کر رہے ہیں کہ یہی حق ہے اور جو لوگ اپنے مزعومہ شرکاء و شفعاء کے بل پر بڑے طنطنہ کے ساتھ توحید اور قیامت کی تکذیب کر رہے ہیں وہ یکسر باطل پر ہیں۔ یہ بات یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے کہ اگر بے فکرے اور لاابالی لوگ تمہاری مخالفت کر رہے ہیں تو اس کی پروا نہ کرو، تمہارے اطمینان کے لیے یہ چیز بس کافی ہے کہ جن کے اندر علم و معرفت کی روشنی ہے وہ تمہارے موید ہیں۔ آدمی کو پروا عاقلوں کی ہونی چاہیے نہ کہ احمقوں اور لاخیروں کی۔
’وَیَہْدِیْ إِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ‘ یعنی یہ اہل علم اس حقیقت کو برملا تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کتاب لاریب خدائے عزیز و حمید کے راستہ کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ یعنی دوسروں نے جو دین گھڑ رکھے ہیں وہ تو تمام تر ضلالت اور ہلاکت کے کھڈ میں گرانے والے ہیں البتہ یہ کتاب خدا کی راہ دکھانے والی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں مذکور ہوئی ہیں، ایک ’عَزِیْز‘ دوسری ’حَمِیْد‘۔ ’عَزِیْز‘ سے اس کی عزت و قدرت کا اظہار ہو رہا ہے اور ’حَمِیْد‘ سے دنیا اور آخرت دونوں میں اسی کا سزاوار حمد ہونا۔ اور یہ دونوں صفتیں توحید اور قیامت کو مستلزم ہیں، جیسا کہ اوپر کے مباحث سے واضح ہو چکا ہے۔
قرآن کی اصطلاح میں حقیقی علم: اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ حقیقی علم، قرآن کی اصطلاح میں، صرف خدا کی معرفت اور آخرت کا علم ہے۔ اگر یہ علم کسی کے اندر نہ ہو تو دوسرے کتنے ہی علوم وہ پڑھ ڈالے اس کا یہ سارا علم اس کے لیے بار اور دوسروں کے لیے خطرہ ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے ’علماء‘ صرف انہی کو کہا ہے جن کو خدا اور آخرت کی معرفت حاصل ہو:
إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوۡرٌ (فاطر: ۲۸)
’’اللہ سے اس کے بندوں میں سے بس وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں اور بے شک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا، بخشنے والا ہے۔‘‘
_____
۱ اہل عرب میں جو لوگ حنیفیت کے پیرو تھے وہ بھی اسی زمرے میں شامل ہیں۔
اِس کے برخلاف جن کو علم عطا ہوا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ جو تمھارے پروردگار کے ہاں سے تمھاری طرف نازل کیا گیا ہے، وہی حق ہے اور وہ خداے عزیز و حمید کا راستہ دکھاتا ہے۔
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ احمقوں اور لاخیروں کی پروا نہ کرو۔ تمھارے اطمینان کے لیے یہی چیز کافی ہے کہ جن کے اندر علم و معرفت کی روشنی ہے، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا تمھاری قوم کے سلیم الفطرت لوگوں میں سے، وہ تمھاری تائید کر رہے ہیں۔ آیت میں ’عَزِیْز‘ اور ’حَمِیْد‘ کی صفات یہ بتانے کے لیے لائی گئی ہیں کہ توحید اور قیامت جن کا اثبات یہاں پیش نظر ہے، دونوں اِن صفات الٰہی کا بھی لازمی تقاضا ہیں۔ اِس سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حقیقی علم قرآن کی اصطلاح میں صرف خدا کی معرفت اور آخرت کا علم ہے۔
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے اور خدائے عزیز وحمید کا راستہ دکھاتا ہے
یعنی یہ معاندین تمہارے پیش کردہ حق کو باطل ثابت کرنے کے لیے خواہ کتنا ہی زور لگائیں، ان کی یہ تدبیریں کامیاب نہیں ہو سکتیں، کیونکہ ان باتوں سے وہ جہلا ہی کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ علم رکھنے والے لوگ ان کے فریب میں نہیں آتے۔
اور جنہیں علم ہے وہ دیکھ لیں گے کہ جو آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ (سراسر) حق ہے اور اللہ غالب خوبیوں والے کی راہ کی راہبری کرتا ہے۔
یہاں رؤیت سے مراد رؤیت قلبی یعنی علم یقینی ہے، محض رؤیت بصری (آنکھ کا دیکھنا) نہیں اہل علم سے مراد صحابہ کرام یا مومنین ہیں۔ یعنی اہل ایمان اس بات کو جانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ عطف ہے حق پر، یعنی وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس اللہ کا راستہ ہے جو کائنات میں سب پر غالب ہے اور اپنی مخلوق میں محمود (قابل تعریف) ہے اور وہ راستہ کیا ہے ؟ توحید کا راستہ جس کی طرف تمام انبیا علیھم السلام اپنی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے۔
اور جنھوں نے کفر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تم کو ایک ایسا آدمی دکھائیں جو تم کو یہ خبر دے رہا ہے کہ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو ازسرنو ایک نئی خلقت میں اٹھائے جاؤ گے!
کفار کا رویہ آنحضرت صلعم کی مخالفت میں: اہل ایمان کی روش کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اب یہ ان لوگوں کی روش بیان ہو رہی ہے جو علم کی روشنی سے محروم، کفر کے اندھیرے میں، بھٹک رہے ہیں۔ فرمایا کہ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تمہارا اور تمہاری دعوت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ لوگوں سے کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہیں ایک ایسا سرپھرا دکھائیں جو خدا کا رسول بن کر یہ منادی کرتا پھر رہا ہے کہ لوگ مر کر جب بالکل ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو وہ ازسرنو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے! ۔۔۔ گویا ان کے نزدیک یہ بات اس قابل بھی نہیں کہ اس کی تردید میں کوئی دلیل دی جائے۔
اُس کے منکرین، البتہ (تمھارا مذاق اڑاتے اور) کہتے ہیں کہ (لوگو)، کیا ہم تمھیں ایک ایسا آدمی بتائیں جو تمھیں خبر دیتا ہے کہ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو ازسرنو پیدا کیے جاؤ گے؟
n/a
منکرین لوگوں سے کہتے ہیں ” ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہوچکا ہوگا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کردیے جاؤ گے ؟
n/a
اور کافروں نے کہا (آؤ) ہم تمہیں ایک ایسا شخص بتلائیں جو تمہیں یہ خبر پہنچا رہا ہے کہ جب تم بالکل ہی ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو پھر سے ایک نئی پیدائش میں آؤ گے۔
یہ اہل ایمان کے مقابلے میں منکرین آخرت کا قول ہے جو آپس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔
اس سے مراد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو ان کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے تھے
یعنی عجیب و غریب خبر، ناقابل فہم خبر۔
یعنی مرنے کے بعد جب تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تمہارا ظاہری وجود ناپید ہوجائے گا تمہیں قبروں سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دوبارہ وہی شکل وصورت تمہیں عطاکردی جائے گی جس میں تم پہلے تھے یہ گفتگو انہوں نے آپس میں استہزا اور مذاق کے طور پر کی
کیا اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے یا اس کو کسی قسم کا جنون ہے! بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہی عذاب اور نہایت دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔
یہ ان کے اسی استہزاء کی مزید تفصیل اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا برمحل جواب ہے۔
’أَفْتَرٰی عَلَی اللَّہِ کَذِباً أَم بِہِ جِنَّۃٌ‘۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو یہ مانا جائے کہ اس نے یہ خدا پر جھوٹ باندھا ہے کہ خدا نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس کی طرف سے کہہ رہا ہے یا پھر یہ مانا جائے کہ یہ بھی جنون کی ایک قسم ہے جس میں یہ شخص مبتلا ہو گیا ہے! مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں بیک وقت اس شخص میں موجود ہیں۔ یہ مفتری بھی ہے اور مجنون بھی!
متمردین کے استہزاء کا باوقار جواب: ’بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ الاٰیۃ‘۔ ان متمردین کے اس استہزاء کا جواب قرآن نے فوراً دیا اور دیکھیے کتنا باوقار اور موثر جواب دیا ہے۔
فرمایا کہ ان لال بجھکڑوں نے تشخیص بہت غلط کی۔ خرابی نہ داعی میں ہے نہ دعوت میں بلکہ ساری خرابی خود ان لوگوں کے اندر ہے جو آخرت پر ایمان نہیں لا رہے ہیں۔ وہ عذاب اور نہایت دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ یعنی ایک گمراہی تو وہ ہوتی ہے جس سے پلٹ کر آنے اور اصلاح کا امکان باقی رہتا ہے، ہزار خرابی کے بعد سہی۔ لیکن جو آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوا اس کی بازگشت کا پھر کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔ اس کے لیے امید کے تمام دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے اس انجام کو مستقبل کے صیغہ سے بیان کرنے کے بجائے حال کے اسلوب میں بیان فرمایا اس لیے کہ ان کا یہ انجام ان کے رویہ کے اندر ہی مضمر ہے۔ گویا آج ہی وہ اپنی رعونت کے سبب سے اس سے دوچار ہیں۔
یہ خدا پر جھوٹ باندھ لایا ہے یا اِس کو کسی طرح کا جنون ہے؟ (ہرگز نہیں)، بلکہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے، وہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔
یعنی ایسی دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں کہ اب واپسی کا بھی امکان نہیں رہا۔ اِس لیے گویا آج ہی اُس عذاب میں جا پڑے ہیں جس سے قیامت میں دوچار ہونے والے ہیں۔ یہ قرآن نے اِن متمردین کے استہزا کا جواب دیا ہے اور استاذ امام کے الفاظ میں، دیکھیے کہ کتنا باوقاراور موثر جواب دیا ہے۔
نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے ہے یا اسے جنون لاحق ہے ” نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور و ہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں ۔
قریش کے سردار اس بات کو خوب جانتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا تسلیم کرنا عوام الناس کے لیے سخت مشکل ہے، کیونکہ ساری قوم آپ کو صادق القول جانتی تھی اور کبھی ساری عمر کسی نے آپ کی زبان سے کوئی جھوٹی بات نہ سنی تھی۔ اس لیے وہ لوگوں کے سامنے اپنا الزام اس شکل میں پیش کرتے تھے کہ یہ شخص جب زندگی بعد موت جیسی انہونی بات زبان سے نکالتا ہے تو لامحالہ اس کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو (معاذ اللہ) یہ شخص جان بوجھ کر ایک جھوٹی بات کہہ رہا ہے، یا پھر یہ مجنون ہے۔ لیکن یہ مجنون والی بات بھی اتنی ہی بےسرو پا تھی جتنی جھوٹ والی بات تھی۔ اس لیے کہ کوئی عقل کا اندھا ہی ایک کمال درجہ کے عاقل و فہیم آدمی کو مجنون مان سکتا تھا، ورنہ آنکھوں دیکھتے کوئی شخص جیتی مکھی کیسے نگل لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ بات کے جواب میں کسی استدلال کی ضرورت محسوس نہ فرمائی اور کلام صرف ان کے اس اچنبھے پر کیا جو موت کے امکان پر وہ ظاہر کرتے تھے۔
یہ ان کی بات کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نادانو، عقل تو تمہاری ماری گئی ہے کہ جو شخص حقیقت حال سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے اس کی بات نہیں مانتے اور سرپٹ اس راستے پر چلے جا رہے ہو جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے، مگر تمہاری حماقت کی طغیانی کا یہ عالم ہے کہ الٹا اس شخص کو مجنون کہتے ہو جو تمہیں بچانے کی فکر کر رہا ہے۔
(ہم نہیں کہہ سکتے) کہ خود اس نے (ہی) اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے یا اسے دیوانگی ہے (١) بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں
یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی و رسالت کا دعویٰ ، یہ اس کا اللہ پر افترا ہے۔ یا پھر اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کر رہا ہے جو غیر معقول ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ گمان کر رہے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کی بجائے اس کا انکار کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔
کیا انھوں نے اپنے آگے اور پیچھے آسمان و زمین پر نظر نہیں ڈالی! اگر ہم چاہیں تو ان کے سمیت زمین کو دھنسا دیں یا ان پر آسمان سے ٹکڑے گرا دیں! بے شک اس کے اندر ہر اس بندے کے لیے بہت بڑی نشانی ہے جو متوجہ ہونے والا ہو!
اس کائنات کی کسی چیز کی نفع رسانی بالاضطرار نہیں بلکہ خدا کے حکم سے ہے: اس مجموعۂ آیات کی پہلی آیت میں جو مضمون بیان ہوا ہے مجوعہ کے آخر میں اسی مضمون کا ایک نئے اسلوب سے اعادہ ہے۔ پہلی آیت میں فرمایا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب خدا ہی کا ہے اس وجہ سے دنیا میں بھی شکر کا حقیقی سزاوار وہی ہے اور آخرت میں بھی اسی کی حمد ہو گی۔ یہاں فرمایا کہ کیا ان مستکبرین نے اس حقیقت پر کبھی غور نہیں کیا کہ یہ آسمان جو ان کے سروں پر شامیانے کی طرح تنا ہوا ہے اور یہ زمین جو ان کے قدموں کے نیچے فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے اور جن کے فوائد و برکات سے یہ متمتع ہو رہے ہیں، یہ ان کے تھامے ہوئے نہیں تھمے ہیں بلکہ ان کو اللہ ہی نے تھام رکھا ہے؟ اگر اللہ نے ان کو نہ تھام رکھا ہوتا تو یہ دونوں ان کے لیے نعمتوں کے بجائے نقمتوں کا ذریعہ بن جاتے۔ فرمایا کہ ہم جب چاہیں ان کے سمیت زمین کو دھنسا دیں اور جب چاہیں اسی آسمان سے ابررحمت برسانے کے بجائے ان پر پتھر برسا دیں۔ اس کائنات کی کوئی چیز بھی انسان کو بالاضطرار نفع نہیں پہنچا رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے پہنچا رہی ہے اور کوئی چیز بھی براہ راست انسان کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ خدا کے حکم سے وہ اس کی نفع رسانی میں سرگرم ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے جو انسان پر واجب کرتی ہے کہ وہ کسی نعمت پر اترائے نہیں بلکہ اپنے اس رب کا شکرگزار رہے جس نے اس کو یہ نعمت بخشی ہے اور اس کو خدا کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کا ذریعہ بنانے کے بجائے اس کو اسی کی خوشنودی اور فرماں برداری میں استعمال کرے۔
یہی مضمون آگے والی سورہ ۔۔۔ سورۂ فاطر ۔۔۔ میں، جو اس کا مثنیٰ ہے، یوں ارشاد ہوا ہے:
إِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُوۡلَا وَلَئِنۡ زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّنۡ بَعْدِہِ إِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُورًا (فاطر: ۴۱)
’’بے شک اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ لڑھک نہ جائیں اور اگر وہ دونوں لڑھک جائیں تو کسی کی تاب نہیں کہ وہ خدا کے چھوڑ دینے کے بعد ان کو تھام سکے۔ بے شک وہ نہایت بردبار اور بخشنے والا ہے۔‘‘
’إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَۃً لِّکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ‘۔ یعنی آسمانوں اور زمین کے اس پہلو پر اگر غور کرتے تو اس کے اندر اس بات کی بہت بڑی دلیل موجود ہے جس کی قرآن ان کو دعوت دے رہا ہے لیکن اس دلیل تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر حقیقت کی طلب، عبرت پذیری کی صلاحیت اور متوجہ ہونے والا دل ہو۔ جن کے اندر یہ اوصاف نہ ہوں ان کے لیے کوئی نشانی بھی کارگر نہیں ہو سکتی۔
تو کیا اِنھوں نے اپنے آگے اور پیچھے جو آسمان اور زمین ہیں، اُن کی طرف نہیں دیکھا؟ اگر ہم چاہیں تو اِن کو اِسی زمین میں دھنسا دیں یا اِن پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر اُس بندے کے لیے اِس میں بہت بڑی نشانی ہے جو متوجہ ہونے والا ہو۔
یعنی خدا سے بے خوف نہ ہوں، یہی زمین و آسمان جن کے فوائد و برکات سے وہ صبح و شام متمتع ہو رہے ہیں، اُن کے لیے ہول ناک آفتوں کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ اُسی مضمون کا ایک نئے اسلوب میں اعادہ ہے جس سے سورہ کی ابتدا ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...پہلی آیت میں فرمایا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب خدا ہی کا ہے، اِس وجہ سے دنیا میں بھی شکر کا حقیقی سزاوار وہی ہے اور آخرت میں بھی اُسی کی حمد ہو گی۔ یہاں فرمایا کہ کیا اِن مستکبرین نے اِس حقیقت پر کبھی غور نہیں کیا کہ یہ آسمان جو اِن کے سروں پر شامیانے کی طرح تنا ہوا ہے اور یہ زمین جو اِن کے قدموں کے نیچے فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے اور جن کے فوائد و برکات سے یہ متمتع ہو رہے ہیں، یہ اِن کے تھامے ہوئے نہیں تھمے ہیں، بلکہ اِن کو اللہ ہی نے تھام رکھا ہے؟ اگر اللہ نے اِن کو نہ تھام رکھا ہوتا تو یہ دونوں اِن کے لیے نعمتوں کے بجاے نقمتوں کا ذریعہ بن جاتے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۹۵)
یعنی اپنے اندر حقیقت کی سچی طلب اور عبرت پذیری کی صلاحیت رکھتا ہو۔
کیا انہوں نے کبھی اس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے ؟ ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں، یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرا دیں ۔ درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو
یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے کے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہوجانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر زمین، ہوا اور پانی میں پراگندہ ہوچکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید از امکان تھا۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے۔ ان مختصر سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے۔
1 ۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل وتمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ چھوڑا جاسکتا ہے، سراسر ایک لغو بات ہے۔
2 ۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ قیامت کا آجانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہوجائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا پھر بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی۔
3 ۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اسکی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہوجائیں، رہتے تو اسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتے۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے۔ تمہارے جسم میں اب جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی، ہوا اور پانی میں سے نکال لایا گیا ہے۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہوجائے گی۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہوگی۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کرسکتا ہے۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمھیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے، یا اور کوئی ناگہانی آفت آجاتی ہے۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بےخوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے مقابلے میں یہ یاوَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو۔
یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصب نہ رکھتا ہو، جس میں کوئی ہٹ دھرمی اور ضد نہ پائی جاتی ہو، بلکہ جو اخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے طالب ہدایت ہو، وہ تو آسمان و زمین کے اس نظام کو دیکھ کر بڑے سبق لے سکتا ہے۔ لیکن جس کا دل خدا سے پھرا ہوا ہو وہ کائنات میں سب کچھ دیکھے گا مگر حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی اسے سجھائی نہ دے گی۔
کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو انھیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو (دل سے) متوجہ ہو۔
یعنی اس پر غور نہیں کرتے ؟ اللہ تعالیٰ ان کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ آخرت کا یہ انکار، آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ جو ذات آسمان جیسی چیز، جس کی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز، جس کا طول و عرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کرسکتا ہے، اس کے لئے اپنی ہی پیدا کردہ چیز کا دوبارہ پیدا کردینا اور اسے دوبارہ اسی حالت میں لے آنا، جس میں وہ پہلے تھی، کیوں کر ناممکن ہے۔
یعنی یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے ایک اللہ کے کمال قدرت کا بیان جو ابھی مذکور ہوا دوسری کفار کے لیے تنبیہ و تہدید کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تخلیق پر اس طرح قادر ہے کہ ان پر اور ان کے مابین ہر چیز پر اس کا تصرف اور غلبہ ہے وہ جب چاہے ان پر اپنا عذاب بھیج کر ان کو تباہ کرسکتا ہے زمین میں دھنسا کر بھی، جس طرح قارون کو دھنسایا یا آسمان کے ٹکڑے گرا کر جس طرح اصحاب الایکہ کو ہلاک کیا گیا۔
اور ہم نے داوٗد کو اپنے خاص فضل سے نوازا۔ اے پہاڑو، تم بھی اس کے ساتھ تسبیح میں شرکت کرو اور یہی حکم ہم نے پرندوں کو بھی دیا۔ اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کر دیا۔
حضرت داوٗدؑ اور حضرت سلیمانؑ پر اللہ تعالیٰ نے جو فضل خاص فرمایا اس کی تفصیل سورۂ انبیاء اور سورۂ نمل میں گزر چکی ہے۔ یہاں ہم اپنی بحث صرف ضروری حد تک محدود رکھیں گے۔
حضرت داوٗدؑ کا سوز و گداز: ’یٰجِبَالُ أَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْْرَ‘۔ یہ اشارہ ہے اس سوز و گداز کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے حضرت داوٗدؑ کو عطا فرمایا تھا کہ جب وہ پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر اپنے خاص لاہوتی لحن میں اپنے رب کی حمد کا ترانہ چھیڑتے اور اپنی منظوم مناجاتیں پڑھتے تو شجر و حجر اور چرند پرند سب جھوم اٹھتے اور ان کی ہم نوائی کرتے۔
پہاڑوں اور پرندوں کی طرف سے ہم نوائی: ’تَاْدِیْبٌ‘ کے اصل معنی ’ترجیع‘ کے ہیں یعنی کسی کے سر میں اپنا سر ملانا، اس کی آواز کو دہرانا، اس کی ہم آہنگی اور ہم نوائی کرنا۔ یوں تو اس کائنات کی ہر چیز خدا کی تسبیح کرتی ہے اور جب وہ تسبیح کرتی ہے تو لازماً تسبیح کرنے والوں کی ہم نوائی بھی کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت داوٗد کو خاص نوع کا دل گداختہ اور خاص قسم کا لحن عطا فرمایا تھا اسی طرح اپنے خاص حکم سے پہاڑوں اور پرندوں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ جس وقت حضرت داوٗد اپنے رب کی حمد و تسبیح کریں، وہ بھی ان کے ساتھ اس میں شریک ہوں۔ سورۂ انبیاء میں یہی مضمون یوں ادا ہوا ہے:
’وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ وَالطَّیْرَ‘ (۷۹)
(اور ہم نے داوٗد کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا اور پرندوں کو بھی)۔
بزم کے بعد ان کی رزم کا حال: ’وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ‘۔ ان کی بزم کا حال بیان کرنے کے بعد یہ ان کی رزم کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کر دیا۔ اس کی وضاحت سورۂ انبیاء میں ہو چکی ہے کہ انھوں نے لوہے کو پگھلانے اور اس سے نہایت باریک کڑیوں کی زرہیں بنانے کے فن کو اتنی ترقی دی کہ لوہے کی زرہیں ایسی ڈھیلی ڈھالی بننے لگیں کہ معلوم ہوتا کہ کسی کپڑے سے بنائی گئی ہیں جن کا پہننا نہایت آسان ہوتا اور حفاظت کے پہلو سے وہ لوہے کا کام دیتیں۔
(خدا کے بندو، یہی نشانیاں اُن سرگذشتوں میں بھی ہیں جو ہم تمھیں سنا رہے ہیں)۔ ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے خاص فضل عطا فرمایا تھا۔ (ہم نے حکم دیا تھا کہ)پہاڑو، تم بھی اُس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاؤ اور یہی حکم ہم نے پرندوں کو بھی دیا تھا۔ ہم نے لوہے کو اُس کے لیے نرم کر دیا تھا۔
داؤد علیہ السلام بیت اللحم کے رہنے والے قبیلۂ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ طالوت کی پہلی جنگ میں، جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۲) میں ہو چکا ہے، اُنھوں نے جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر دیا۔ یہ چیز کافی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن جاتے۔ چنانچہ یہی ہوا اور طالوت کی وفات کے بعد وہ پہلے حبرون میں یہودیہ کے فرماں روا بنائے گئے، پھر چند سال بعد بنی اسرائیل کے تمام قبائل نے مل کر اُن کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ یروشلم اُنھی کے زمانے میں فتح ہوا اور اُسے دولت اسرائیل کا پایۂ تخت بنایا گیا۔ اُن کی سلطنت کے حدود خلیج عقبہ سے دریاے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے جن پر وہ ۹۶۵ ق م تک حکومت کرتے رہے۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کی مزید عنایت یہ ہوئی کہ اُنھیں پیغمبر بنا دیا گیااور اُن پر زبور نازل ہوئی جو تورات کے بعد دوسری باقاعدہ کتاب ہے۔
یہ اُس سوز و گداز کی طرف اشارہ کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو عطا فرمایا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... یوں تو اِس کائنات کی ہر چیز خدا کی تسبیح کرتی ہے اور جب وہ تسبیح کرتی ہے تو لازماً تسبیح کرنے والوں کی ہم نوائی بھی کرتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت داؤد کو خاص نوع کا دل گداختہ اور خاص قسم کا لحن عطا فرمایا تھا، اُسی طرح اپنے خاص حکم سے پہاڑوں اور پرندوں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ جس وقت حضرت داؤد اپنے رب کی حمد و تسبیح کریں، وہ بھی اُن کے ساتھ اُس میں شریک ہوں۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۰۰)
یعنی اُس کو لوہا پگھلانے کا فن سکھا دیا تھا۔ آیت میں اِس کے لیے ’اَلَنَّا لَہٗ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ضمیر کا مرجع داؤد علیہ السلام ہیں۔ لیکن اِس سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اُسی طرح کی نسبت ہے، جس طرح ہم کہتے ہیں کہ تاج محل شاہ جہاں نے بنایا تھا۔
ہم نے داؤد کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا ۔ (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو (اور یہی حکم نے) پرندوں کو دیا ۔ ہم نے لوہے کو اس لیے نرم کردیا
اشارہ ہے ان بیشمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو نوازا تھا۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہو واہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قبائل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس عنایات پر مزید وہ فضل خداوندی ہے جو علم و حکمت، عدل و انصاف، اور خدا ترسی و بندگی حق کی صورت میں ان کو نصیب ہوا (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول۔ ص 595 تا 598)
یہ مضمون اس سے پہلے سورة انبیا آیت 79 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کرچکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 174 ۔ 175)
اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا (١) اے پہاڑو ! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم ہے) اور ہم نے اسی لئے لوہا نرم کردیا
یعنی نبوت کے ساتھ بادشاہت اور کئی امتیازی خوبیوں سے نوازا۔
ان میں سے ایک حسن صوت کی نعمت تھی، جب وہ اللہ کی تسبیح پڑھتے تو پتھر کے ٹھوس پہاڑ بھی تسبیح خوانی میں مصروف ہوجاتے، اڑتے پرندے ٹھہر جاتے اور زمزمہ خواں ہوجاتے، یعنی پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے کہا، چنانچہ یہ بھی داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ مصروف تسبیح ہوجاتے۔ والطیر کا عطف یا جبال کے محل پر ہے اس لیے کہ جبال تقدیرا منصوب ہے اصل عبارت اس طرح ہے نادینا الجبال والطیر (ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو پکارا) یا پھر اس کا عطف فضلا پر ہے اور معنی ہوں گے وسخرنا لہ الطیر (اور ہم نے پرندے ان کے تابع کردیئے (فتح القدیر)
یعنی لوہے کو آگ میں تپائے اور ہتھوڑی سے کوٹے بغیر، اسے موم، گوندھے ہوئے آٹے اور گیلی مٹی کی طرح جس طرح چاہتے موڑ لیتے، بٹ لیتے اور جو چاہے بنا لیتے۔
امین احسن اصلاحی
شکر کا حق دار وہ اللہ ہی ہے جس کا وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی حمد آخرت میں بھی ہو گی اور وہی حقیقی حکیم و خبیر ہے۔
اس سورہ کی بنیاد شکر اور اس کے مقتضیات پر ہے: اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ اس سورہ کی بنیاد شکر اور اس کے لوازم و مقتضیات پر ہے اور سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں یہ حقیقت بھی واضح ہو چکی ہے کہ شکر ہی پر توحید اور پھر پورے دین کی عمارت قائم ہے۔ منعم کے شکر کا واجب ہونا انسانی فطرت کی بدیہیات میں سے ہے۔ انسان پر جس کا بھی کوئی احسان ہوتا ہے وہ اس کا ممنون و شکر گزار ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنے محسن کا شکرگزار نہ ہو تو وہ لئیم و کمینہ ہے۔ اسی اصل پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آسمان و زمن کی تمام نعمتیں، جن سے انسان ہر لمحہ متمتع ہو رہا ہے اور جن کے اوپر ہی اس کے بقا کا انحصار ہے، کس کی پیدا کردہ اور کس کے قبضۂ قدرت میں ہیں؟ یہ سورج، یہ چاند، یہ ابر، یہ ہوا، یہ ستارے اور سیارے کس کے بنائے ہوئے ہیں؟ یہ زمین، یہ دریا، یہ پہاڑ، یہ چرند و پرند، یہ اشجار و انہار اور یہ سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان سوالوں کا صحیح جواب یہی ہے کہ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ، اسی کی مملوک اور اسی کے دست تصرف میں ہیں۔ پچھلی سورتوں میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ ان سوالوں کا یہی جواب قرآن کے کٹر سے کٹر مخالفین بھی دیتے تھے۔ اس آیت میں قرآن نے اسی بدیہی حقیقت کی یاددہانی کی ہے کہ وہی اللہ جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا خالق و مالک ہے وہی ان تمام مخلوقات کے شکر کا حقیقی سزاوار بھی ہے جو اللہ کی پیدا کی ہوئی ان چیزوں سے متمتع ہو رہی ہیں۔ اس شکر کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ سب اسی کی عبادت و اطاعت کریں اور اس عبادت و اطاعت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں اس لیے کہ کسی دوسرے کو ان چیزوں کے خلق یا ان کی تدبیر میں کوئی دخل نہیں ہے۔ دوسروں سے انسان کو کوئی فیض پہنچتا ہے تو محض ایک واسطہ و ذریعہ کی حیثیت سے پہنچتا ہے۔ اس وجہ سے اگر ان کا کوئی حق انسان پر قائم بھی ہوتا ہے تو وہ خدا کے حق کے تحت ہوتا ہے نہ کہ خدا کے حق سے بالاتر یا اس کے برابر۔
شکر کے لوازم کا ظہور آخرت میں: ’وَلَہُ الْحَمْدُ فِی الْآخِرَۃِ‘۔ اوپر کے ٹکڑے میں اللہ تعالیٰ کے اس حق کا ذکر تھا جو اس دنیا کی زندگی میں اس کے ہر بندے پر قائم ہوتا ہے۔ اب اس ٹکڑے میں اس کے اس حق کا ذکر ہے جو آخرت میں آشکارا ہو گا۔ فرمایا کہ اسی کی حمد آخرت میں بھی ہو گی۔ اس ٹکڑے سے کئی باتیں واضح ہوئیں۔
ایک یہ کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ربوبیت کا جو اہتمام فرمایا ہے اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کے بعد آخرت کا ظہور ہو۔ اگر آخرت نہ ہو تو یہ تمام ربوبیت بالکل بے معنی و بے غایت ہو کے رہ جاتی ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت متعدد مقامات میں ہو چکی ہے اس وجہ سے یہاں اشارے پر کفایت کیجیے۔
دوسری یہ کہ یہ اہل ایمان کے اس ترانۂ حمد کی طرف اشارہ ہے جو آخرت میں تمام حقائق کے ظہور اور اللہ تعالیٰ کے جملہ وعدوں کے ایفاء کے بعد ان کی زبانوں سے بلند ہو گا۔ اس کی طرف سورۂ یونس میں اشارہ ہے:
’وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّIہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘ (یونس: ۱۰)
(اور ان لوگوں کی آخری صدا یہ ہو گی کہ شکر کا حقیقی سزاوار اللہ، عالم کا خداوند، ہے)۔
تیسری یہ کہ یہ شرکاء و شفعاء کی کلی نفی ہے کہ یہ تمام مزعومہ دیوی دیوتا جن کی شفاعت کی امید پر مشرکین نچنت بیٹھے ہیں، آخرت میں سب ہوا ہو جائیں گے۔ ان میں سے کوئی کسی کے کام آنے والا نہیں بنے گا۔ اس دن مشرکین اپنے معبودوں پر لعنت کریں گے اور معبود اپنے پجاریوں سے اعلان براء ت کریں گے۔ سب کی پیشی اللہ واحد کے حضور میں ہو گی۔ اسی کا فیصلہ ناطق ہو گا اور سب پر یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ سزاوار حمد صرف اللہ رب العالمین ہے۔ اس حقیقت کی طرف سورۂ قصص میں یوں اشارہ فرمایا گیا ہے:
’لَہُ الْحَمْدُ فِیْ الْأُولَی وَالْآخِرَۃِ وَلَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ‘ (القصص: ۷۰)
(وہی حمد کا حق دار ہے دنیا میں اور اسی کی حمد ہو گی آخرت میں اور اسی کے اختیار میں تمام امور کا فیصلہ ہے اور اسی کے آگے تمہاری پیشی ہونی ہے)۔
مذکورہ بالا باتوں کی دلیل صفات الٰہی سے: ’وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ‘۔ یہ اوپر کے تمام دعاوی کی دلیل اللہ تعالیٰ کی صفات سے پیش کی گئی ہے کہ وہ حکیم و خبیر ہے اس وجہ سے لازم ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں اپنے شکرگزار بندوں کو ان کی شکرگزاری کا صلہ دے اور ناشکرے اپنی ناسپاسی کی سزا بھگتیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ دنیا ایک بازیچۂ اطفال بلکہ ایک نہایت ظالمانہ کھیل بن کے رہ جاتی ہے اور العیاذ باللہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس کا خالق حکیم نہیں بلکہ ایک کھلنڈرا ہے حالانکہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ یہ شہادت دے رہا ہے کہ اس کا خالق ایک حکیم ہے۔ اسی طرح اس کے حکیم ہونے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اس کے بے لاگ عدل کو کسی کی سفارش باطل نہ کر سکے اس لیے کہ اس صورت میں بھی اس کے حکیم ہونے کی نفی ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ خبیر بھی ہے اس لیے کہ جب اس نے ہر چیز پیدا کی ہے تو ضروری ہے کہ وہ اس کے ایک ایک ذرہ اور ایک ایک حرکت و سکون سے باخبر بھی ہو چنانچہ فرمایا ہے:
’اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ‘ (الملک: ۱۴)
(کیا وہ نہیں جانے گا جس نے سب کچھ بنایا ہے)
اس کے اس محیط کل علم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ کسی کے معاملے کا فیصلہ کرتے وقت نہ کسی دوسرے کے علم و خبر کا محتاج ہو اور نہ کوئی اس کو اپنی جھوٹی سفارش سے فریب دے سکے۔
یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ ان تمام باتوں کو حصر کے اسلوب میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جب حقیقی خالق و مالک اور حقیقی حکیم و خبیر وہی ہے تو اس کے سوا کوئی دوسرا حمد و شکر کا سزاوار کس طرح ہو سکتا ہے۔