ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ

امین احسن اصلاحی

یہ سورۂ صٓ ہے۔ قسم ہے یاددہانی سے معمور قرآن کی (کہ اس کی ہر بات حق ہے)

’صٓ‘ حروف مقطعات میں سے ہے۔ یہ اس سورہ کا قرآنی نام ہے۔ ان حُرف پر جامع بحث بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ بعض لوگوں نے اس کے معنی متعین کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ محض تکلف ہے۔

قرآن کے ’ذکر‘ سے موسوم ہونے کے بعض پہلو: ’وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْرِ‘۔ جس طرح قرآن کی قسم سورۂ یٰسٓ میں ’حکیم‘ کی صفت کے ساتھ وارد ہوئی ہے اسی طرح یہاں ’ذِی الذِّکْرِ‘ کی صفت کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ ’ذکر‘ کا اصل مفہوم یاددہانی کرنا ہے۔ قرآن سرتاسر یاددہانی ہے۔ اس وجہ سے اس کا نام بھی جگہ جگہ ’ذکر‘ آیا ہے۔ آگے آیت ۸ میں اس کا یہی نام آیا ہے۔ اس کے اس نام اور اس صفت سے موسوم و موصوف ہونے کے کئی پہلو ہیں:
۔۔۔ یہ ان تمام حقائق کی یاددہانی کرتا ہے جو انسان کی فطرت کے اندر ودیعت ہیں لیکن انسان ان کو بھولا ہوا ہے۔
۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے خلق کے لیے جو ہدایت نازل فرمائی اور جس کو لوگ بھلا بیٹھے تھے، یہ اس کی بھی یاددہانی کرتا ہے۔
۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نقمت کے ظہور کے جو بڑے بڑے واقعات اس دنیا میں پیش آئے، اس کے اندر ان کی بھی یاددہانی ہے۔
۔۔۔ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کو جس انجام سے دوچار ہونا پڑا، یہ ان سے بھی باخبر کرتا ہے۔
۔۔۔ اس دنیا کی زندگی کے بعد جس مرحلۂ حساب و کتاب اور جزاء و سزا سے لوگوں کو سابقہ پیش آنا ہے، یہ اس کو بھی یاد دلاتا ہے۔
یہ سارے پہلو اس کی صفت ’ذِی الذِّکْرِ‘ کے اندر موجود ہیں۔ آگے اسی سورہ کی آیات ۸-۱۷، ۴۶-۴۹ اور ۸۶ کے تحت ان کی وضاحت آ رہی ہے۔
مُقسَم علیہ قسم کے اندر مضمر ہے: اس قَسم کا مُقسَم علیہ یہاں الفاظ میں مذکور نہیں ہے بلکہ وہ قسم کے اندر ہی مضمر ہے۔ یہ طریقہ ان مواقع میں اختیار کیا جاتا ہے جہاں قسم کی نوعیت ایسی ہو کہ مُقسَم علیہ ذکر کے بغیر اس سے واضح ہو رہا ہو۔ یہاں یہی صورت ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن جن یاددہانیوں سے مملو ہے وہ اس بات پر شاہد ہیں کہ آج قریش کو جن باتوں کی تذکیر کی جا رہی ہے وہ بالکل ناقابل انکار ہیں۔ اگر وہ ان کو نہیں مان رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قرآن کے اندر کسی ریب و شک کی گنجائش ہے بلکہ اس کا سبب محض ان کی انانیت اور مخاصمت ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’صٓ‘ ہے۔ قرآن گواہی دیتا ہے ، سراسر یاددہانی (کہ اِن کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے)۔

اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔

قرآن فی الواقع سر تا سر یاددہانی ہے۔ یہ انسان کو وہ حقائق یاد دلاتا ہے جو اُس کی فطرت میں ودیعت ہیں اور جن کا علم وہ اپنے ساتھ لے کر دنیا میں آیا ہے؛ اُن حقائق پر متنبہ کرتا ہے جن کی منادی انبیا علیہم السلام کرتے رہے ہیں اور انسان اُنھیں بھلا بیٹھتا ہے؛ دنیا میں خدا کی دینونت کے ظہور کے واقعات یاددلاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اُس روز حساب کی یاددہانی کرتا ہے جس سے مرنے کے بعد سابقہ پیش آنے والا ہے۔
قرآن کی گواہی یہاں قسم کے اسلوب میں پیش کی گئی ہے ۔ چنانچہ یہ مقسم علیہ ہے جو الفاظ میں مذکور نہیں ہے، اِس لیے کہ ذکر کے بغیر ہی واضح ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ص، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی۔

اگرچہ تمام حروف مقطعات کی طرح ص کے مفہوم کا تعین بھی مشکل ہے، لیکن ابن عباس اور ضحاک کا یہ قول بھی کچھ دل کو لگتا ہے کہ اس سے مراد ہے صادقٌ فی قولِہٖ ، یا صَدَق محمد یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صادق ہیں، جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ صاد کے حروف کو ہم اردو میں بھی اسی سے ملتے جلتے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں میں اس پر صادر کرتا ہوں، یعنی اس کی تصدیق کرتا ہوں، یا اسے صحیح قرار دیتا ہوں۔

اصل الفاظ ہیں ذی الذکر۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک ذی شرف، یعنی قرآن بزرگ۔ دوسرے ذی التذکیر، یعنی نصیحت سے لبریز قرآن، یا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والا اور غفلت سے چونکانے والا قرآن۔

جونا گڑھی

ص ! اس نصیحت والے قرآن کی قسم

 جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں، جن سے تمہاری دنیا سنور جائے اور آخرت بھی بعض نے ذی الذکر کا ترجمہ شان اور مرتبت والا، کیے ہیں، امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ اس لئے کہ قرآن عظمت شان کا حامل بھی ہے اور اہل ایمان وتقویٰ کے لئے نصیحت اور درس عبرت بھی، اس قسم کا جواب محذوف ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساحر، شاعر یا جھوٹے ہیں، بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں جن پر یہ ذی شان قرآن نازل ہوا۔ 

بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ

امین احسن اصلاحی

بلکہ جن لوگوں نے اس کا انکار کیا وہی گھمنڈ اور مخاصمت میں مبتلا ہیں

قرآن کی مخالفت کی اصل علت: ’اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘ سے مراد یہاں خاص طور پر قریش ہیں۔ فرمایا کہ ان کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قرآن کی تذکیر میں کوئی کسر ہے بلکہ یہ گھمنڈ اور مخاصمت میں مبتلا ہیں۔ ان کے اس گھمنڈ اور ضد کی وضاحت آگے کی آیات میں آ رہی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ خرابی قرآن میں نہیں بلکہ خود ان لوگوں کے اپنے اندر ہے۔ قرآن ہر پہلو سے نہایت مدلل، دلنشیں اور مؤثر یاددہانی کر رہا ہے لیکن جن لوگوں نے انانیت اور مخالفت کی روش اختیار کر رکھی ہو ان پر اس کی تذکیر کیا کارگر ہو سکتی ہے!

جاوید احمد غامدی

بلکہ یہ منکرین سخت تکبر اور ضدم ضدا میں مبتلا ہیں۔ (اِن کا خیال ہے کہ اِن کے لیے عذاب کہاں)!

یعنی قریش مکہ جو سورہ کے مخاطبین ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے، سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں۔

اگر ص کی وہ تاویل قبول کی جائے جو ابن عباس اور ضحاک نے بیان کی ہے تو اس جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ ” قسم ہے اس قرآن بزرگ، یا اس نصیحت سے لبریز قرآن کی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچی بات پیش کر رہے ہیں، مگر جو لوگ انکار پر جمے ہوئے ہیں وہ دراصل ضد اور تکبر میں مبتلا ہیں۔ ” اور اگر ص کو ان حروف مقطعات میں سے سمجھا جائے جن کا مفہوم متعین نہیں کیا جاسکتا، تو پھر قسم کا جواب محذوف ہے جس پر ” بلکہ ” اور اس کے بعد کا فقرہ خود روشنی ڈالتا ہے۔ یعنی پوری عبارت پھر یوں ہوگی کہ ” ان منکرین کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جو دین ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی خلل ہے۔ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے اظہار حق میں کوئی کوتاہی کی ہے، بلکہ اس کی وجہ صرف ان کی جھوٹی شیخی، ان کی جاہلانہ نحوست اور ان کی ہٹ دھرمی ہے، اور اس پر یہ نصیحت بھرا قرآن شاہد ہے جسے دیکھ کر ہر غیر متعصب آدمی تسلیم کرے گا کہ اس میں فہمائش کا حق پوری طرح ادا کردیا گیا ہے “

جونا گڑھی

بلکہ کفار غرور و مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں۔

 یعنی یہ قرآن تو یقینا شک سے پاک اور ان کے لئے نصیحت ہے جو اس سے عبرت حاصل کریں البتہ ان کافروں کو اس سے فائدہ اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے ان کے دماغوں میں استکبار اور غرور ہے اور دلوں میں مخالفت وعناد۔ عزت کے معنی ہوتے ہیں۔ حق کے مقابلے میں اکڑنا۔ 

كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ

امین احسن اصلاحی

ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں تو انھوں نے اس وقت ہائے پکار کی جب کوئی مفر باقی نہیں رہا

ماضی کی قوموں کی طرف ایک اشارہ: یعنی ان کی انانیت پر یہ بات بہت شاق گزر رہی ہے کہ انھیں ڈرایا جا رہا ہے کہ اگر وہ قرآن کی تکذیب پر اڑے رہے تو خدا کے عذاب کی زد میں آ جائیں گے۔ حالانکہ تاریخ کی کتنی مثالیں ان کو سنائی جا چکی ہیں کہ جن قوموں نے ان کی طرح ضد کی ہم نے ان کو تباہ کر دیا۔ جب وہ خدا کی پکڑ میں آ گئیں تو انھوں نے بہت ہائے پکار اور توبہ و ایمان کی منادی کی۔ لیکن اس وقت ان کے لیے کوئی مفر باقی نہیں رہا تھا اس لیے کہ ظہور عذاب کے بعد توبہ اور ایمان کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

’لَاتَ‘ اصل میں ’لَا‘ ہے البتہ اس کے ساتھ ’ت‘ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح کا اضافہ ’ثم‘ اور ’ربّ‘ کے ساتھ بھی ہو جاتا ہے۔ البتہ اس صورت میں یہ وقت کی نفی کے لیے خاص ہو جاتا ہے جس طرح یہاں ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِن سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں تو اُنھوں نے ہاے پکار کی (کہ اپنے آپ کو بچا لیں)، مگر وہ بچنے کا وقت نہیں تھا۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اِن سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور جب اُن کی شامت آئی ہے) تو وہ چیخ اٹھے ہیں، مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا۔

n/a

جونا گڑھی

ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباہ کر ڈالا انہوں نے ہرچند چیخ پکار کی لیکن وہ وقت چھٹکارے کا نہ تھا۔

 جو ان سے زیادہ مضبوط اور قوت والے تھے لیکن کفر و جھٹلانے کی وجہ سے برے انجام سے دوچار ہوئے۔ 

وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ

امین احسن اصلاحی

ان لوگوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آگاہ کرنے والا آیا۔ اور کافروں نے کہا یہ تو ساحر اور جھوٹا ہے

مکذبین کا غرور: یعنی ان کو اس بات پر تعجب ہوا کہ انہی کے اندر کا ایک شخص ان کے لیے خدا کا منذر بن کر آیا۔ خدا کو کوئی منذر ہی بھیجنا ہوتا تو کسی مافوق بشر ہستی کو منذر بناتا، انہی جیسے ایک انسان کو منذر بنانے کے کیا معنی! اور اگر انسان ہی کو منذر بنانا تھا تو آخر خدا کی نظر ایک غریب آدمی پر کیوں پڑی، مکہ اور طائف کے سرداروں میں سے کسی کو اس مقصد کے لیے اس نے کیوں نہیں انتخاب کیا؟ گویا پیغمبر کی بشریت بھی ان کے لیے وجہ انکار بنی اور ان کی غربت و ناداری بھی۔ اس آیت میں پہلی وجہ انکار کی طرف اشارہ ہے، آگے آیت ۸ میں دوسری وجہ انکار کا ذکر آ رہا ہے اور یہ دونوں ہی باتیں غرور اور گھمنڈ میں داخل ہیں جس کا ذکر اوپر لفظ ’عزت‘ سے ہوا ہے۔

قرآن سے عوام کو برگشتہ کرنے کے لیے قریش کے لیڈروں کا ایک اشغلا: ’وَقَالَ الْکَافِرُوۡنَ ہٰذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ‘۔ یعنی اپنے اس عُجب و استکبار کی بنا پر ان کافروں نے ہمارے پیغمبر کو ’ساحر‘ اور ’کذاب‘ قرار دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر اور قرآن کو سحر کہنے کی وجہ اس کے محل میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ قریش کے لیے قرآن کی معجزانہ فصاحت و بلاغت سے تو انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن وہ اپنے عوام پر یہ اثر نہیں پڑنے دینا چاہتے تھے کہ وہ اس فصاحت و بلاغت سے مسحور ہو کر اس کو کلام الٰہی مان لیں۔ اس چیز سے لوگوں کو بچانے کے لیے وہ قرآن کو سحر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہتے اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ اس شخص کے کلام میں جو تاثیر و تسخیر ہے وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس پر آسمان سے وحی آتی ہے بلکہ یہ کلام کا جادوگر ہے اس وجہ سے اس کی باتیں دلوں پر اثر کرتی ہیں۔ قرآن کو شعرا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کہنے کی وجہ بھی یہی تھی۔
’کَذَّابٌ‘ کے معنی ہیں جھوٹا، لپاٹیا اور لاف زن۔ یہ لفظ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت کی تردید کے جوش میں کہتے۔ یعنی ہے تو یہ شخص کلام کا جادوگر لیکن عوام پر اپنی دھونس جمانے کے لیے دعویٰ یہ کرتا ہے کہ وہ جو کچھ لوگوں کو سنا رہا ہے وہ خدا کی طرف سے اس پر وحی ہوتا ہے اور وہ خدا کا منذر ہو کر آیا ہے۔ چونکہ ان کو اصل چڑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت ہی سے تھی اس وجہ سے اس کی تردید میں وہ نہایت سخت تھے جس کا اظہار اس لفظ سے بھی ہو رہا ہے۔
اس آیت کا اسلوب بیان شاہد ہے کہ اس میں ان محروم القسمت لوگوں کے حال پر اظہار حسرت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تو ان کی تنبیہ و تذکیر کے لیے ان کے اندر ایک منذر بھیجا، ان کے لیے ایک یاددہانی کرنے والی کتاب نازل فرمائی لیکن وہ غرور کے سبب سے اس بات پر تعجب کر رہے ہیں کہ انہی جیسا ایک بشر ان کے پاس انذار کے لیے آئے۔ اس رعونت میں ان کافروں نے اللہ کے رسول کو ساحر اور کذاب بنا ڈالا۔

جاوید احمد غامدی

اِنھیں تعجب ہے کہ اِن کے پاس ایک خبردار کرنے والا اِنھی میں سے آ گیا ہے اور اِن منکروں نے (اِسی بنا پر) کہہ دیا کہ یہ ساحر ہے، سخت جھوٹا ہے۔

یعنی اِنھی جیسا ایک انسان ہے اور اِنھیں خدا کی طرف سے خبردار کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اِس کے لیے تو خدا اگر بھیجتا تو کسی مافوق بشر ہستی کو بھیجتا۔ ہمارے جیسا ایک انسان اِس کام کے لیے کس طرح بھیجا جا سکتا ہے؟

یعنی ہرگز کوئی پیغمبر نہیں ہے، بلکہ کلام کا جادوگر ہے اور اپنی جادوبیانی سے لوگوں کو مسحور کردیتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اِن لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود اِنہی میں سے آگیا۔ منکرین کہنے لگے کہ “یہ ساحرہے، سخت جھوٹا ہے۔

یعنی یہ ایسے احمق لوگ ہیں کہ جب ایک دیکھا بھالا آدمی خود ان کی اپنی جنس، اپنی قوم اور اپنی ہی برادری میں سے ان کو خبردار کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی۔ حالانکہ عجیب بات اگر ہوتی تو یہ ہوتی کہ انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے آسمان سے کوئی اور مخلوق بھیج دی جاتی، یا ان کے درمیان یکایک ایک اجنبی آدمی کہیں باہر سے آکھڑا ہوتا اور نبوت کرنا شروع کردیتا۔ اس صورت میں تو بلاشبہ یہ لوگ بجا طور پر یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ عجیب حرکت ہمارے ساتھ کی گئی ہے، بھلا جو انسان ہی نہیں ہے وہ ہمارے حالات اور جذبات اور ضروریات کو کیا جانے گا کہ ہماری رہنمائی کرسکے، یا جو اجنبی آدمی اچانک ہمارے درمیان آگیا ہے اس کی صداقت کو آخر ہم کیسے جانچیں اور کیسے معلوم کریں کہ یہ بھروسے کے قابل آدمی ہے یا نہیں، اس کی سیرت و کردار کو ہم نے کب دیکھا ہے کہ اس کی بات کا اعتبار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں۔

جونا گڑھی

اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آگیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے۔

 یعنی انہی کی طرح کا ایک انسان رسول کس طرح بن گیا۔ 

أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ

امین احسن اصلاحی

کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک کر دیا! یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہوئی!

قریش کا زہریلا پروپیگنڈا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت کے ساتھ دوسری چیز جس سے قریش کے لیڈروں کو سب سے زیادہ چڑ تھی وہ آپ کی دعوت توحید تھی۔ اس کی آڑ لے کر وہ اپنے عوام کو آپ کے خلاف خوب بھڑکاتے۔ چونکہ قبیلہ قبیلہ کے بت جدا جدا تھے اور قبیلہ اپنے بت کے ساتھ اندھی بہری عقیدت رکھتا تھا اس وجہ سے وہ قبائل کی عصبیت بھڑکانے کے لیے یہ زہریلا پروپیگنڈا کرتے کہ اس شخص نے تمام معبودوں کو ختم کر کے ایک معبود بنا ڈالا، اس سے زیادہ عجیب بات اور کیا ہو سکتی ہے! اس فقرے کے اندر غور کیجیے تو دو زہر چھپے ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس شخص نے اس معبود کے سوا، جس کو یہ خود معبود مانتا ہے۔ دوسرے تمام معبودوں کی خدائی ختم کر دی۔ دوسرا یہ کہ اس نے ایسی حرکت کی ہے جو ایک نہایت انوکھی حرکت ہے جس کی کوئی مثال ہم اپنے آباء و اجداد کی تاریخ میں نہیں پاتے۔ لفظ ’عُجَابٌ‘ کے اندر ’عجیب‘ کے مقابل میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہ پروپیگنڈا پوری قوم عرب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مشتعل کر دینے کے لیے کافی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے اپنے پیغمبرؐ کو محفوظ رکھا۔

جاوید احمد غامدی

کیا اِس نے اتنے خداؤں کو ایک خدا بنا دیا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔

یہ بات وہ آپ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لیے کہتے تھے کہ دیکھو یہ شخص اُن ہستیوں کی الوہیت کا انکار کر رہا ہے جن سے تم عقیدت رکھتے اور اُنھیں اپنا معبود سمجھتے ہو۔

ابو الاعلی مودودی

کیا اِس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔”

n/a

جونا گڑھی

کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کردیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے

 یعنی ایک ہی اللہ ساری کائنات کا نظام چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی طرح عبادت اور نذر و نیاز کا مستحق بھی صرف وہی ایک ہے ؟ یہ ان کے لئے تعجب انگیز بات تھی۔ 

وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ

امین احسن اصلاحی

ان کے لیڈر اٹھے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ بے شک یہ کام کرنے کا ہے

لیڈروں کے طرز عمل کی تصویر: یہ تصویر ہے اس رویے کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لیے قریش کے لیڈر اختیار کرتے۔ اگر وہ کبھی دیکھتے کہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے متاثر ہو رہے ہیں تو یہ وہاں سے چل کھڑے ہوتے اور دوسروں کو بھی اکساتے کہ یہاں سے چلو، اس شخص کی باتیں نہ سنو بلکہ اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو۔

’اِنَّ ہٰذَا لَشَیْْءٌ یُرَادُ‘۔ یعنی کرنے کا اصلی کام یہ ہے۔ یہ شخص جو وعظ تمھیں سنا رہا ہے یہ تمہارے دین آبائی سے تم کو پھیرنے کی کوشش ہے۔ اس کے برعکس کرنے کا کام، جو ہم میں سے ہر شخص کا مطلوب ہونا چاہیے یہ ہے کہ ہم اس کی تمام کوششوں کے علی الرغم اپنے معبودوں کی عبادت پر آخر دم تک جمے رہیں۔

جاوید احمد غامدی

ہم نے یہ بات اِس آخری ملت میں تو کبھی سنی نہیں۔ کچھ نہیں، یہ (اِس کی) گھڑی ہوئی ہے۔

یعنی اِس کی تمام کوششوں کے علی الرغم اپنے معبودوں پر جمے رہنا ہی مطلوب ہے۔ یہ اُس رویے کی تصویر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لیے قریش کے لیڈر بالعموم اختیار کرتے تھے۔ چنانچہ اگر کبھی دیکھتے کہ لوگ آپ سے متاثر ہو رہے ہیں تو اِسی طرح کی کوئی بات کہہ کر مجلس سے اٹھ کھڑے ہوتے۔

ابو الاعلی مودودی

اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ “چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر۔ یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے۔

اشارہ ہے ان سرداروں کی طرف جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سن کر ابو طالب کی مجلس سے اٹھ گئے تھے۔

یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ کہنا کہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے قائل ہوجاؤ تو عرب و عجم سب تمہارے تابع فرمان ہوجائیں گے۔

ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے، دراصل یہ دعوت اس غرض سے دی جا رہی ہے کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع فرمان ہوجائیں اور یہ ہم پر اپنا حکم چلائیں۔

جونا گڑھی

ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے

  یعنی اپنے دین پر جمے رہو اور بتوں کی پوجا کرتے رہو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر کان مت دھرو !

عنی یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے چھڑا کر دراصل اپنے پیچھے لگانا اور اپنی قیادت منوانا چاہتا ہے۔ 

مَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ

امین احسن اصلاحی

ہم نے یہ بات اس دور آخر میں تو سنی نہیں! یہ محض ایک من گھڑت بات ہے

عرب کی تاریخ سے متعلق قرآن اور قریش کے نقطۂ نظر کا اختلاف: یہ قریش کی طرف سے اس تاریخ کی تردید ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملت عرب کی بیان فرماتے۔ آپ نے حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بعد کے انبیاء کی تاریخ سے یہ واضح فرما دیا تھا کہ ان تمام انبیاء نے توحید خالص کی تعلیم دی، خاص کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم و دعوت اور حضرت اسماعیلؑ اور بیت اللہ کی جو تاریخ قرآن میں نہایت وضاحت سے بیان ہوئی ہے اس کا مقصد عربوں پر اسی حقیقت کو واضح کرنا تھا کہ ان کی ملت کی اصل تاریخ حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ سے شروع ہوتی ہے اور ان بزرگ نبیوں نے اپنی اولاد کو اس سرزمین میں اسلام کی خدمت اور توحید خالص کی دعوت کے لیے بسایا تھا اور اسی مقصد کے لیے اس گھر کی تعمیر فرمائی تھی جس کے آج قریش متولی بنے ہوئے ہیں۔ اور جس کے کونے کونے میں انھوں نے بتوں کو لا بسایا ہے۔ یہ تاریخ قریش کے تمام مزعومات پر ایک ضرب کاری تھی لیکن یہ اس قدر واضح اور دل نشین تھی کہ اس کے خلاف کہنے کے لیے ان کے پاس کوئی ایسی بات نہیں تھی جو لوگوں کو اپیل کر سکے لیکن وہ اپنے گھمنڈ اور اپنی مکابرت کے سبب سے اس کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے اس وجہ سے کہتے کہ یہ توحید کی بات ہم نے اپنی ملت کے دور آخر میں تو سنی نہیں اس وجہ سے یہ ساری داستان جو توحید کے حق میں ہم کو سنائی جا رہی ہے بالکل من گھڑت ہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر ملت عرب کی تاریخ یہ ہوتی جو قرآن میں بیان کی جا رہی ہے اور جس کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس تحدی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں تو آخر اس کی کچھ صدائے بازگشت اس ملت کے دور آخر میں بھی تو ہونی چاہیے تھی! لیکن ہم نے اپنے آبا و اجداد سے تو اس طرح کی کوئی بات نہیں سنی۔ ہم نے یہی دین ان سے پایا، اسی پر چل رہے ہیں اور اسی پر چلتے رہیں گے۔

بعض لوگوں نے ’ملت آخرہ‘ سے ملت عیسوی کو مراد لیا ہے لیکن اس کا کوئی قرینہ یہاں نہیں ہے۔ ملت عیسوی کا حوالہ تو اس شکل میں ان کے لیے معتبر و مؤثر ہوتا جب وہ اور ان کے عوام اس کے معتقد ہوتے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی دعوت ملت عیسوی کی بنیاد پر دی ہوتی۔

جاوید احمد غامدی

ہم نے یہ بات اِس آخری ملت میں تو کبھی سنی نہیں۔ کچھ نہیں، یہ (اِس کی) گھڑی ہوئی ہے۔

یعنی یہ بات کہ خدا ایک ہی ہے اور جسے یہ شخص ہمارے بزرگوں ۔۔۔ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام ۔۔۔ کی طرف منسوب کرکے کہہ رہا ہے، ہم نے یہ اپنے قریب کے لوگوں میں تو کبھی نہیں سنی۔ اُنھوں نے یہ بات اگر فی الواقع کہی ہوتی تو اِس کی کچھ بازگشت اِس دور آخر کے لوگوں میں بھی باقی ہونی چاہیے تھی۔ یہ ، اگر غور کیجیے تو وہی استدلال ہے جو ہر زمانے کے لوگ اِسی طرح پیش کرتے رہے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات۔

یعنی قریب کے زمانے میں ہمارے اپنے بزرگ بھی گزرے ہیں، عیسائی اور یہودی بھی ہمارے ملک اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں، اور مجوسیوں سے ایران و عراق اور مشرقی عرب بھرا پڑا ہے۔ کسی نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا کہ انسان بس ایک اللہ رب العالمین کو مانے اور دوسرے کسی کو نہ مانے۔ آخر ایک اکیلے خدا پر کون اکتفا کرتا ہے۔ اللہ کے پیاروں کو تو سب ہی مان رہے ہیں۔ ان کے آستانوں پر جا کر ماتھے رگڑ رہے ہیں۔ نذریں دے رہے ہیں۔ دعائیں مانگ رہے ہیں۔ کہیں سے اولاد ملتی ہے۔ کہیں سے رزق ملتا ہے۔ کسی آستانے پر جو مراد مانگو بر آتی ہے۔ ان کے تصرفات کو ایک دنیا مان رہی ہے اور ان سے فیض پانے والے بتا رہے ہیں کہ ان درباروں سے لوگوں کی کس کس طرح مشکل کشائی و حاجت روائی ہوتی ہے۔ اب اس شخص سے ہم یہ نرالی بات سن رہے ہیں، جو کبھی کسی سے نہ سنی تھی، کہ ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصہ نہیں اور پوری کی پوری خدائی بس ایک اکیلے اللہ ہی کی ہے۔

جونا گڑھی

ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے

پچھلے دین سے مراد تو ان کا دین قریش ہے، یا پھر دین نصاریٰ یعنی یہ جس توحید کی دعوت دے رہا ہے، اس کی بابت تو ہم نے کسی بھی دین میں نہیں سنا۔ 

 یعنی یہ توحید صرف اس کی اپنی من گھڑت ہے، ورنہ عیسائیت میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو الوہیت میں شریک تسلیم کیا گیا ہے۔ 

أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ

امین احسن اصلاحی

کیا ہمارے اندر سے اسی شخص پر یہ یاددہانی نازل کی گئی! بلکہ یہ لوگ میری یاددہانی کے باب میں مبتلائے شک ہیں۔ بلکہ اب تک انھوں نے میرے عذاب کا مزا نہیں چکھا

قریش کے پندار سیادت پر ضرب: یعنی وہ اپنی ریاست و امارت کے غرور میں کہتے ہیں کہ اگر خدا کو کوئی کتاب کسی بشر پر اتارنی ہوتی تو کیا اس کے لیے ہمارے اندر سے اس کو یہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ملے! اللہ تعالیٰ اگر یہ کام کرنا چاہتا تو اس کے لیے وہ مکہ یا طائف کے رئیسوں میں سے کسی کا انتخاب کرتا نہ کہ ان کے جیسے ایک مفلس و نادار آدمی کا۔ اس نے تمام سرفرازیاں تو ہم کو بخشیں تو اس عزت کے لیے وہ ان کا انتخاب کیوں کرتا؟ یہ ان کے اس پندار کا بیان ہے جس کا ذکر آیت ۲ میں ’فِیْ عِزَّۃٍ‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ ان کے اس پندار پر ضرب لگانے کے لیے فرمایا کہ ’بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنۡ ذِکْرِیْ بَلْ لَمَّا یَذُوۡقُوۡا عَذَابِ‘ کہ ان کی یہ تمام مشیخت مآبیاں اس وجہ سے ہیں کہ ان کو اس قرآن کے ذریعے جس عذاب کی یاددہانی کی جا رہی ہے اس کی طرف سے ابھی وہ شک میں ہیں، یہ اس کو محض ہوائی بات سمجھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ ان کے سامنے آیا نہیں اور یہ لوگ مجرد باتوں سے قائل ہونے والے اسامی نہیں ہیں بلکہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھ کر ماننے والے لوگ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ابھی تو ان کو دلیلوں سے سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اگر یہ دلیلوں سے نہ سمجھے تو بالآخر عذاب کا تازیانہ بھی ان کے لیے نمودار ہو جائے گا۔

جاوید احمد غامدی

کیا یہ یاددہانی ہم میں سے اِسی پر نازل کی گئی ہے؟ (نہیں، اے پیغمبر، اِن کی یہ باتیں کچھ نہیں)، بلکہ یہ میری یاددہانی کی طرف سے شک میں ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اِنھوں نے اب تک میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا ہے۔

یہ بات وہ اپنی ریاست و امارت کے غرور میں کہتے تھے کہ ہمارے بڑے بڑے سرداروں کو چھوڑ کر کیا یہی رہ گئے تھے کہ اِس منصب کے لیے منتخب کیے گئے ہیں؟ یہ اُسی پندار کا اظہار ہے جس کا ذکر سورہ کی ابتدا میں ’فِیْ عِزَّۃٍ‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ یہ تمام ضد اور غرور اور ہیکڑی صرف اِس لیے ہے کہ ابھی اِنھیں یقین نہیں ہوا کہ جس عذاب سے اِنھیں خبردار کیا جا رہا ہے، وہ فی الواقع آنے والا ہے۔ بلکہ اِس لیے بھی کہ اِنھیں مجرد استدلال سے کسی بات کا قائل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جب تک آنکھوں سے نہ دیکھ لیں، اُس وقت تک کسی چیز کو ماننے والے نہیں ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا؟” اصل بات یہ ہے کہ یہ میرے “ذکر”پر شک کر رہے ہیں، اور یہ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزا چکھا نہیں ہے۔

با الفاظ دیگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ دراصل تمہیں نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ مجھے جھٹلا رہے ہیں۔ تمہاری صداقت پر تو پہلے کبھی انہوں نے شک نہیں کیا تھا۔ آج یہ شک جو کیا جا رہا ہے یہ دراصل میرے ” ذکر ” کی وجہ سے ہے۔ میں نے ان کو نصیحت کرنے کی خدمت جب تمہارے سپرد کی تو یہ اسی شخص کی صداقت میں شک کرنے لگے جس کی راستبازی کی پہلے قسمیں کھایا کرتے تھے۔ یہی مضمون سورة انعام آیت 33 میں بھی گزر چکا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص 534) ۔

جونا گڑھی

کیا ہم سب میں سے اسی پر کلام الٰہی کیا گیا ہے ؟ دراصل یہ لوگ میری وحی کی طرف سے شک میں ہیں بلکہ (صحیح یہ ہے کہ) انہوں نے اب تک میرا عذاب چکھا ہی نہیں۔

 یعنی مکے میں بڑے بڑے چودھری اور رئیس ہیں، اگر اللہ کسی کو نبی بنانا ہی چاہتا تو ان میں سے کسی کو بناتا۔ ان سب کو چھوڑ کر وحی رسالت کے لئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب بھی عجیب ہے ؟ یہ گویا انہوں نے اللہ کے انتخاب میں کیڑے نکالے۔ سچ ہے خوئے بد را بہانہ بسیار۔ دوسرے مقام پر بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مثلاً سورة زخرف۔ ٣١، ٣٢۔

 یعنی ان کا انکار اس لئے نہیں ہے کہ انہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا علم نہیں ہے یا آپ کی سلامت عقل سے انہیں انکار ہے بلکہ یہ اس وحی کے بارے میں ہی شک میں مبتلا ہیں جو آپ پر نازل ہوئی، جس میں سب سے نمایا توحید کی دعوت ہے۔ 

أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ

امین احسن اصلاحی

کیا تیرے رب عزیز و وہاب کے فضل کے خزانے انہی کی تحویل میں ہیں

رعونت کا جواب: یہ ان کی اس رعونت کا جواب ہے جس کی طرف اوپر والی آیت میں اشارہ ہے کہ یہ اپنے سوا خدا کے کسی فضل و رحمت کا حق دار کسی کو نہیں سمجھتے، گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام خزانوں کی کنجیاں انہی کو پکڑا دی ہیں کہ یہ جس کو چاہیں محروم رکھیں۔ چنانچہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی ہے کہ ان کے دائرہ سے باہر اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت و رسالت اور قرآن و کتاب کا حامل کس طرح بنا سکتا ہے! انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ’عزیز‘ اور ’وہاب‘ یعنی اپنے تمام خزانوں کا بلاشرکت غیرے مالک و مصرف اور بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ وہ اپنے ان بندوں کو بھی بڑی فیاضی سے بخشتا ہے جو ان کی نظروں میں اگرچہ کسی چیز کے اہل نہیں ہیں لیکن خدا کی نظروں میں ان کا بڑا مرتبہ ہے چنانچہ اس نے اگر ان کو اس زمین کے کچھ خزف ریزے دیے ہیں جن پر یہ اترا رہے ہیں تو اس نے جس کو چاہا ہے نبوت و رسالت اور علم و حکمت کی بادشاہی بخش دی ہے جس سے بڑے منصب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سورۂ طور میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے:

’اَمْ عِنۡدَہُمْ خَزَائِنُ رَبِّکَ أَمْ ہُمُ الْمُصَیْْطِرُوۡنَ‘ (۳۷)
(کیا تیرے رب کے خزانے اس کے پاس ہیں یا یہ داروغے مقرر کر دیے گئے ہیں!)۔

جاوید احمد غامدی

(اپنے سوا یہ کسی کو ہماری عنایتوں کا حق دار نہیں سمجھتے)۔ کیا تیرے پروردگار، عزیز و وہاب کی رحمت کے خزانے اِنھی کی تحویل میں ہیں؟

یعنی وہ پروردگار جو اپنے تمام خزانوں کا تنہا مالک ہے، اُن میں جس طرح چاہے، تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور نہایت فیاض بھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...وہ اپنے اُن بندوں کو بھی بڑی فیاضی سے بخشتا ہے جو اِن کی نظروں میں اگرچہ کسی چیز کے اہل نہیں ہیں، لیکن خدا کی نظروں میں اُن کا بڑا مرتبہ ہے۔ چنانچہ اُس نے اگر اِن کو اِس زمین کے کچھ خزف ریزے دیے ہیں جن پر یہ اترا رہے ہیں تو اُس نے جس کو چاہا ہے، نبوت و رسالت اور علم و حکمت کی بادشاہی بخش دی ہے جس سے بڑے منصب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۱۵)

ابو الاعلی مودودی

کیا تیرے داتا اور غالب پروردگار کی رحمت کے خزانے اِن کے قبضے میں ہیں؟

n/a

جونا گڑھی

یا کیا ان کے پاس تیرے زبردست فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں

 کہ جس کو چاہیں دیں اور جس چاہیں نہ دیں، انہی خزانوں میں نبوت بھی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، بلکہ رب کے خزانوں کا مالک وہی وہاب ہے جو بہت دینے والا ہے، تو پھر انہیں نبوت محمدی سے انکار کیوں ہے ؟ جسے اس نوازنے والے رب نے اپنی رحمت خاص سے نوازا ہے۔ 

أَمْ لَهُم مُّلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ

امین احسن اصلاحی

کیا آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کی بادشاہی انہی کے اختیار میں ہے! اگر ایسا ہے تو وہ آسمانوں کے اندر چڑھ جائیں

یہ اسی اوپر والی بات کی مزید تفصیل ہے۔ یعنی اگر ان کا زعم یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ان کے ہاتھ میں ہے تو آسمانوں پر چڑھ جائیں اور اس رحمت کو روک دیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نازل فرما رہا ہے۔

’اسباب‘ سے مراد ’اسباب السمٰوٰت‘ ہے۔ یہ لفظ کسی چیز کے اطراف اور متعلقات کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ اس کی تحقیق اس کے محل میں گزر چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

یا زمین اور آسمانوں اور اُن کے درمیان کی سب چیزوں کی بادشاہی اِنھی کے اختیار میں ہے؟(یہی بات ہے) تو آسمانوں میں چڑھ جائیں (اور اُس کی رحمت کو روک دیں)۔

اصل الفاظ ہیں: ’فَلْیَرْتَقُوْا فِی الْاَسْبَابِ‘۔ اِن میں ’اَسْبَاب‘ سے مراد ’اَسْبَابُ السَّمٰوٰتِ‘ ہے اور یہاں یہ لفظ اطراف و متعلقات کے معنی میں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

کیا یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں؟ اچھا تو یہ عالم اسباب کی بلندیوں پر چڑھ کر دیکھیں!

یہ کفار کے اس قول کا جواب ہے کہ ” کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کردیا گیا۔ ” اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ نبی ہم کس کو بنائیں اور کسے نہ بنائیں، اس کا فیصلہ کرنا ہمارا اپنا کام ہے۔ یہ لوگ آخر کب سے اس فیصلے کے مختار ہوگئے۔ اگر یہ اس کے مختار بننا چاہتے ہیں تو کائنات کی فرمانروائی کے منصب پر قبضہ کرنے کے لیے عرش پر پہنچنے کی کوشش کریں تاکہ جسے یہ اپنی رحمت کا مستحق سمجھیں اس پر وہ نازل نہ ہو۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، کیونکہ کفار قریش بار بار کہتے تھے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے نبی بن گئے، کیا خدا کو قریش کے بڑے بڑے سرداروں میں سے کوئی اس کام کے لیے نہ ملا تھا (ملاحظہ ہو سورة بنی اسرائیل، آیت 100 ۔ الزخرف، آیات 31 ۔ 32)

جونا گڑھی

یا کیا آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کی بادشاہت ان ہی کی ہے، تو پھر رسیاں تان کر چڑھ جائیں

 یعنی آسمان پر چڑھ کر اس وحی کا سلسلہ منقطع کردیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتی ہے۔ 

Page 1 of 9 pages  1 2 3 >  Last ›